منگل، 15 دسمبر، 2015

مسلح انقلابی جنگ



مصنف کا تعارف

نکروما (1909 تا 1972)

نکروما براعظم افریقہ کے جانے مانے انقلابی لیڈر رہے ہیں۔ وہ گھانا کے پہلے صدر تھے۔ ان کا جنم 21 ستمبر 1909 میں ہوا۔ 1925ء میں اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ گئے اور وہاں ایک یونیورسٹی میں تعلیم کی بعد لیکچرار ہوئے۔

1949ء میں وہ واپس گھانا آئے۔ گھانا اس وقت برطانیہ کی نو آبادی تھا۔ نکروما نے کنویشن پیپلس پارٹی بنائی۔ (C.P.P) کے پلیٹ فارم سے انہوں نے گھانا کی آزادی کی تحریک چلائی اور 1952ء میں گھانا کے پہلے وزیراعظم بنے۔
1960ء میں جب گھانا ایک مکمل آزاد ریپبلک ہوا تو ان کو تاحیات صدر بنایا گیا۔ 1966ء کو سامراج نے فوج کے ذریعے ان کا تختہ الٹا دیا۔ یہ جلاوطن ہوگئے اور 1972ء میں رومانیا میں فوت ہوئے۔

مصنف کا نوٹ:

یہ کتاب کان کئری Conakry میں، میں نے لکھی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے گوریلا جنگ کی ہینڈ بک کے لئے نوٹس لئے تھے۔ وہ جب میں 21 فروری 1966ء کو ھنوئی کی طرف آیا تو وہ گھانا میں ہی رہ گئے۔ وہ تمام مواد اور اسکرپٹ فوج او ر پولیس اور غداروں کی طرف سے سامراج اور اس کی جاسوسی تنظیموں کے حوالے کیا گیا۔
یہ ہینڈ بک ایک طرح سے بالکل نئے جذبات دلاتا ہے۔ میں اْمید کرتا ہوں کہ یہ کتاب افریقی انقلاب، گوریلا جنگ اور آل افریقن یونین گورنمنٹ کے مقاصد حاصل کرنے میں مفید ثابت ہوگی۔ امریکہ میں کالوں کی طاقتور تحریک اور کئربین ساؤتھ امریکا میں افریقی عوام کی جدوجہد، افریقی، سیاسی، فوجی، انقلابی سرگرمی کی ڈیمانڈ کرتی ہے۔ ہماری فتح تمام انقلابی اور غلامی میں جکڑے ہوئے استحصال شدہ عوام، جو سرمائیدارانہ سامراج اور جدید کالونی ازم کے رد عمل میں آنے والے انقلاب کو للکار رہے ہیں، انہی کی فتح ہوگی۔
کانکئری گینا
20 جولائی 1968ء 

ضوابط اور اصول:

1. اپنے تمام حصو ں میں احکام کو مانو۔
2. لوگوں سے سوئی اور دھاگا بھی نہ لو۔
3. قبضے میں آنے والی تمام اشیاء قیادت کی حوالے کریں۔
4. بات چیت کا انداز شائستہ ہونا چاہئے۔
5. جو چیز خرید کرنی ہو اس کی مناسب قیمت ادا کریں۔
6. جو چیز ادھار لی ہو وہ واپس کرو۔
7. جس چیز کو آپ نے نقصان پہنچایا ہو اس کا معاوضہ ادا کرو۔
8. لوگوں پر گندگی نہ پھینکو یا کسی کے لئے قسم نہ اْٹھاؤ۔
9. فصل کو نقصان نہ پہنچاؤ۔
10. عورتوں کے ساتھ آوارگی مت کرو۔
11. قیدیوں سے بدسلوکی نہ کرو۔
12. اپنے کان اور آنکھیں کھلی رکھو۔
13. اپنے اندر چھپے ہوئے دشمن کو پہچانو۔
14. بچوں کی رہبری اور خیال رکھو۔
15. عوام کے خادم بنو۔

دشمن کو پہچانو
ابتدائیہ:

مسلح انقلابی جنگ کی نئی لہر نے براعظم افریقہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس لئے یہ لازمی ہے کہ ہم یہ جانیں کہ، "آخر ہم لڑ کیوں رہے ہیں، اور کس لئے لڑ رہے ہیں؟" اس لئے سامراج اور جدید نو آبادیاتی نظام کو الگ الگ حصوں میں بانٹ کر دیکھنا چاہیے تاکہ ہم اسے اچھی طرح سے جانچ پرکھ سکیں اور عالمی لیول پر اْن کی حکمت عملی جان سکیں۔ اسی کتاب میں میں نے سامراج اور جدید نو آبادیاتی نظام کی ماہیت اور ساخت دکھانے کی ساتھ ساتھ آزادی کے حصول اور افریقہ میں ہماری سیاسی حکمت عملی اور ہم آہنگی کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

نکروما
...................................
باب اول
دنیا کے لئے سامراج کی حکمت عملی
دشمن کو پہچانو:

بہت سے عوامل، حادثات اور حالات باہر سے افریقہ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لئے ہماری آزادی کی لڑائی کا رُخ صحیح ہونا لازمی ہے۔ سب سے پہلے تو ہم دشمن کو پہچانیں، اور پھر ہونے والے حادثات و واقعات کو اچھی طرح سمجھیں۔ لیکن اس سے بھی پہلے اہم ہے سامراج، جو ہمارے لوگوں کو استحصال کی چکی میں پیس رہا ہوتا ہے۔

اس لئے وہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ ہمیں سامراج کو واضح کرنے کے لئے حکمت عملی بنانی پڑیگی۔ پیداواری ذرائع کا استحصال دشمن کے ہاتھوں ہمارا استحصال ہے۔ سامراج ہمارے پیداواری ذرائع پہ قابض ہوتا ہے۔ قومی آزادی کی تحریک کو ختم کرنے کے لئے وہ کون سے ذرائع استعمال کرتا ہے یہ بھی دیکھنا پڑیگا۔

ایک مرتبہ بھی اگر ہم دشمن کی حکمت عملی کی کچھ حصوں کو اچھی طرح سمجھ گئے تو پھر ہم اس پوزیشن میں ہونگے کہ اپنی اصل اور حقیقی حالات کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے مقاصد کے لیئے جدوجہد کرسکیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا مندرجہ ذیل گروہوں میں بٹ گئی (علاوہ روس اور چین کے)۔
1. سرمائیدار ریاستیں جن میں سامراج اپنی مکمل لوازمات کے ساتھ تھا۔
2. سامراجی جدید نو آبادیاں بنے ہوئے ممالک، جو سامراج کو اقتصادی امداد فراہم کر رہے تھے۔ (جنوبی افریقہ کے بہت سے ممالک انہیں حالات میں سے گذرے ہیں، جن کا سامراج معاشی استحصال کرتا تھا۔ جیسے اسپین اور پورچوگال، جو اب بھی جدید نو آبادیاں ہیں۔)
دوسری عالمی جنگ کی بعد شدید معاشی، معاشرتی، اور سیاسی دباء ان دونوں خطوں میں پیدا ہوئے۔
(الف) سرمائیدار: سامراج کی ریاستوں کے اندر مزدور تنظیمیں مضبوط اور تجربہ کار ہونے لگی اور وہ سرمائیدارانہ معاشیات میں جو پیداوار ہونے لگی اس کے لئے دعویٰ کرنے لگی۔ ان حالات کو زیادہ دنوں تک ٹالا نہیں جا سکتا تھا۔ دونوں عالمی لڑائیوں نے یورپ کی اقتصادی حالات کو موت کے کنارے لا کھڑا کیا تھا۔ اسی لئے یہ لازمی تھا کہ مزدوروں کے کچھ مطالبات منظور کئے جائیں۔
(ب) جب سرمائیدارانہ استحصالی نظام اپنے اندرونی تضادات کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ رہا تھا تو عین اسی وقت سامراجی غلام ملکوں میں آزادی کی تحریکیں مضبوط اور منظم ہورہی تھیں۔ اس لئے غلام ملکوں کے عوام کی مانگوں کو زیادہ دنوں تک سائیڈ میں نہ رکھا جا سکتا تھا۔ قومی آزادی کی تحریکیں عوامی تحریکیں بن گئیں تھیں۔جیسا کہ:
Reassemble M.A. Democratic African (R.D.A(
Party Democratic Guinee (P.D.G)
جس نے گھانا میں کام کیا۔ اس کے علاوہ دوسرے ملکوں میں جن میں، ویتنام، کینیا، الجیریا، میں لوگوں نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیئے خون اور آگ کے ذریعے سیدھی جنگ لڑی۔ ان خطوں میں میٹروپولیٹن ریاستوں کے اندر لڑائی ایک ہی دشمن کے خلاف تھی۔
مزدور تحریک اور آزادی کی تحریک سے بچنے کے لیئے سامراج چھوٹے، چھوٹے ریفارم کرتا ہے یا رعایات دیتا ہے۔ جو سامراجی نظام کو بچا سکیں۔ اندرونی توڑ پھوڑ اور مظاہرے مزدور تحریک کی طرف سے دباء بڑھانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اس سے بچنے اور سرمائیدارانہ نظام کی بقا کے لئے سرمائیدارانہ حکومتیں مزدور طبقے کو کچھ رعایات اور سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ جیسا کہ سوشل سیکیورٹی، مزدوروں کی بہتر اجرت، معیاری حالت کے اندر کام کرنے کے مواقع، ہنرمند تربیت حاصل کرنے کی سہولیات اور دوسرے ایسے لوازمات شامل ہیں۔ یہ اقدامات
بنیادی طور پر تضاد کو کچھ وقت کے لیئے تو کم کردیتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف استحصال کو یقینی بنادیتے ہیں۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سرمائیدارانہ معاشرہ، ہر کسی کو اچھی زندگی اور فلاحی مملکت بنا دیتا ہے۔ یقیناوہ ایسا جھوٹا پروپیگنڈہ کرکے کچھ وقت کے لئے کمیونزم سے اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔
ان کے سامنے مسئلہ صرف یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت وہ تمام فوائد جو ایک اقلیت کو حاصل ہوتے ہیں وہ برقرار رہیں اور ریاست کے لئے سرمایہ آرام سے لوٹا جائے، اسی مسئلے کے حل کے لئے سرمائیدار، نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی اصلاحات لاتے ہیں تاکہ ریاست کی بہتری کی لیئے جتنا سرمایہ ضروری ہے وہ حاصل کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں جدید سرمائیدارانہ نو آبادیاتی ممالک کا مادی اور روحانی استحصال کرنے سے پہلے وہ اوپر دیئے گئے اصولوں پر عمل کرتے ہیں۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں