جمعرات، 26 اپریل، 2018

عورت کے سماجی حقوق - شاہ محمدمری



عورت کے سماجی حقوق 
یوسف عزیز مگسی کی نظر میں
 ڈاکٹر شاہ محمد مری 

بلوچوں میں بے شمار مدبر پیدا ہوئے ہیں۔ بہت روشن فکر، دوراندیش اور وژنری راہنما۔ اِن سب کا سرخیل یوسف عزیز مگسی تھا۔اُسے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ بلوچستان کے اندر موجود آدھی آبادی کو انسانوں والے حقوق حاصل نہیں ہیں اور یہ 50فیصد آبادی اپاہج وناکارہ رکھی گئی ہے ۔وہ حیران تھا کہ ایک ایسی سرزمین کی ترقی کیسے ممکن ہو گی جہاں آبادی کا اتنا بڑا حصہ بے کارو بے فائدہ پڑا ہواہو۔
اُس نے دیکھا کہ بلوچ وبلوچستانی خاتون نہ صرف یہ نا کارہ کردی گئی ہے بلکہ اُس کو تو فیوڈل اور نیم فیوڈل نظام میں انسانوں میں ہی شمار نہیں کیا جاتا۔ وہ طبقاتی نظام اورپدرسری، ڈبل ظلم کی شکار ہے ۔ اُس کے حال سے تو اُس کا ماضی اچھا تھا جہاں ایک ابتدائی اور فرسودہ سا کمیونزم رائج تھا۔ مادرسری کے اُس نظام میں عورت کام کرتی تھی ۔ سماج اُسے عزت دیتا تھا۔ وہ انسانوں میں شمار تھی ۔ فیصلوں اجتماعوں اورجنگوں میں حصہ لیتی تھی، بطور سپاہی بھی اور بطور کمانڈر بھی ۔ وہ جنگیں رکوا دیتی تھی ۔خوراک و آمدن کی تقسیم کار تھی ۔ بلوچی کلاسیکی شاعری بھری پڑی ہے 
ایسے تذکروں سے ۔

بلوچی شاعری سے پتہ چلتا ہے کہ رسم سیاہ کاری(کاروکاری) کا بلوچ قبائل میں کوئی رواج نہ تھا لیکن جیسے ہی بلوچ قبائل جاگیرداری نظام کے زیر اثر آئے تو عورت ،جائیداد کی طرح مرد کی ملکیت قرار پائی۔ معمولی شک پہ، یا اُس سے چھٹکاراپانے کے لیے یا اُس کی جائیداد ہتھیانے کے لیے ،اُس پر سیاہ کاری کا الزام لگا یاجاتارہا۔
ماضی قریب میں درجنوں عورتیں اس ظلم کی بھینٹ چڑھ گئیں بلکہ بلوچی دستور کے تحت اس ظلم سے بچنے کے لیے جب انہوں نے سرداروں کے ہاں پناہ لی تو ان خواتین کو بلوچی دستور کے خلاف سرداروں نے بیچ ڈالا۔
عورتوں کے حقوق کے بارے میں یوسف عزیز مگسی کی بے چینی اولین بار ہمیں بلوچ کانفرنس جیکب آبادمیں نظر آتی ہے ۔ یہ چار روزہ کانفرنس دسمبر1932کو منعقد ہوئی تھی۔ بلوچ تاریخ کی اس اولین آل انڈیا سطح کی بلوچ کانفرنس میں عورتوں کی شرکت کی حوصلہ افزائی سے متعلق مندرجہ ذیل ٹکڑا پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

چنانچہ ورکنگ کمیٹی نے اپنی محترم ہمشیر گانِ وطن کی درخواست کا خیر مقدم کرتے ہوئے نہایت خوشی سے اُن کی استدعا کو منظور کرلیا۔اورمستورات کے لیے باقاعدہ پردہ کا انتظام کیا جائے اور بغیر فیس داخلہ کے شامل کیا جاوے ۔ ہم اپنی محترم خواتین کی خدمت میں التجا کرتے ہیں کہ وہ اپنی بہنوں کو جو عموماً تعلیم سے بے بہرہ اور مردوں سے کئی گنا زیادہ جہالت میں ہیں، بیدار کریں اور اپنی جیکب آباد کی بہنوں کی تقلید کرتے ہوئے کانفرنس میں شمولیت فرماویں۔ اور دیگر بہنوں کوبھی اغراض و مقاصد سے واقف کرتے ہوئے مستقبل کے روشن پہلو سے آگاہ کریں۔

جنرل سیکریٹری آل انڈیا بلوچ کانفرنس جیکب آباد ،سندھ۔
صرف بلوچ نہیں بلکہ اس پورے خطے کے لوگوں کے لیے آل انڈیا بلوچ کانفرنس ایک نعمت تھی ۔ یہ ہمارے قومی افتخارات میں شاید سب سے بڑا افتخار ہے۔ یہ ایک مہذب وشائستہ انسانی تحریک کا آغاز تھی ۔ اس میں وقتی معاملات کے ساتھ ساتھ عالمگیر ابدی سچائیوں کو ہمارے لیے جمع کردیا گیا تھا ۔مثلاً یہ ہمیشہ سے ایک اہم سوال رہا ہے کہ بلوچ قومی عوامی تحریک میں عورت کا سٹیٹس کیا ہو؟ ۔
ہماری پوری نسل اس بحث میں کھپتی رہی۔ تقریباًایک صدی گزر گئی یہ بحثیں کرتے کرتے۔ کاش ہماری قوم کو1932کی بلوچ کانفرنس کی روداد پہلے مل جاتی تو اس پوری بحث میں جانے کی ضرورت نہ پڑتی ۔ ہمارے باصلاحیت اکابرین اُس زمانے میں ہمارے لیے ہمیشہ کے لیے یہ معاملہ طے کرگئے تھے۔

البلوچ کےدسمبر 1932کے شمارے میں ایک خاتون کی طرف سے دوسری خواتین کے لیے یہ اپیل شائع ہوئی ہے : میری محترم ہمشیرو ۔ آپ آل انڈیا بلوچ کانفرنس جیکب آباد کے انعقاد کی نسبت مختلف اخبارات میں اعلانات ملاحظہ فرما چکی ہو۔ اس وقت جبکہ ہم اس اصول تعاون کو جس پر کاربند رہنے کے لیے ہمارے پاک مذہب کے بانی بابرکت قبلہ دوجہاں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ، چھوڑ چکی ہیں ۔ اور تغافل میں رہ کر دائرہ تہذیب نسواں سے گر کر تنزل میں پڑ گئی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی ہمسایہ قوموں کی ترقی پر غور کریں اور اپنی بہبودی کی جدوجہد کرتے ہوئے دائرہ تہذیب میں رہ کر اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیویں۔ اس وقت جبکہ دنیا سے تاریکی کا پردہ اٹھ چکا ہے اور ہر جاروشنی کا علم ہے ۔ اور تمام قومیں اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے میدانِ ترقی میں نہایت سرعت سے گامزن ہیں۔ ہمارے محترم برادران زعمائے بلوچستان نے اپنی قوم کا درد محسوس کرتے ہوئے مردہ قوم کی فلاح وبہبودی اور راہِ مستقیم سوچنے کے لیے آل انڈیا بلوچ کانفرنس کا اعلان فرمایا ہے۔ اور ہماری استدعا پر محترم ہمشیرگانِ وطن کو بھی مدعو کیا ہے اور بغیر فیس داخلہ کے شمولیت منظور فرمائی ہے ۔ نیز پردہ کا خاطر خواہ انتظام کیا ہے ۔ ان کی اس فراخدلی کے لیے ہم ممنون ہیں۔ اس لیے میں اپنی ہمشیرگانِ وطن مسلم وغیر مسلم کو اپنی ان پستیوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اپیل کرتی ہوں کہ خدارا بیدار ہوجاؤ اور وقت کی قدر کرو۔ اس موقع کو غنیمت جان کر آل انڈیا بلوچ کانفرنس میں شمولیت فرما کر اپنی پستیوں کا علاج سوچ نکالو اور ہمسایہ قوم کی خواتین کی طرح اپنے بھائیوں کے دوش بہ دوش ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کرو۔

مسز غلام حیدر مغل ، جیکب آباد

27دسمبر کو یہ کانفرنس منعقد ہوئی ۔ ہمیں اس میں کی جانے والی تقریریں تو نہ مل سکیں مگر اس میں منظور کردہ قرار دادیں ملیں۔
قرار دادیں کسی بھی جلسے اجلاس ، سمینار وغیرہ کا نچوڑ ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ سے لے کر کسی مقامی اجلاس تک یہی روایت ہے کہ قرار دادوں کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ۔ چنانچہ خوش قسمتی ہے کہ ہماری قوم قرار دادوں جیسی بڑی دولت کی مالک ہے ۔ وہ بھی کسی عام اجلاس کی نہیں بلکہ 146146آل انڈیا بلوچ کانفرنس 145145 کی قراردادوں کی۔ مجھے یقین ہے کہ بلوچ کے قومی اعزازات میں 1932کی آل انڈیا کانفرنس کی قرار دادیں مہر گڑھ ، پرنسیس آف ہوپ، عظیم الشان بلوچ ساحل ، معدنی دولت اور آزادی کی جنگوں جتنی اہم ہیں۔اس چار روزہ کانفرنس کے اختتام پر جو 28قرار دادیں منظور ہوئی تھیں وہ سب کے سب مرد وزن دونوں کے لیے تھیں۔ البتہ اُن میں سے چھ تو الگ اور مخصوص طور پر عورتوں کے بارے میں تھیں ۔ ملا حظہ ہوں:

1۔یہ کانفرنس سیاہ کاری کے اس رواج کو بنظرِ نفرت دیکھتی ہے جس کے ذریعہ سے سیہ کار آدمی اور قاتل سے ان کی لڑکی یا بہن جبراً نکاح میں لی جاتی ہے۔لہذا یہ کانفرنس گورنمنٹ بلوچستان اور ریاستی کانفیڈریشن آف بلوچستان سے انسانیت کے مقدس نام پر اپیل کرتی ہے کہ آئندہ کسی معصوم لڑکی کو کسی فاحش آدمی کے جرائم کا شکارنہ بنایا جائے۔
2۔ یہ کانفرنس گورنمنٹ سے استدعا کرتی ہے کہ وہ بلوچستان میں قحبہ خانہ (چکلہ) کو جو شرعاً اور اخلاقاً ایک سنگین اور مجرمانہ رواج ہے ، بند کیا جائے ۔
3۔یہ کانفرنس رسمِ لب اور ولور کو نہایت ہی نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اپنے بلوچ، افغان و بروہی وغیرہ اقوام بلوچستان سے امید کرتی ہے کہ اس حقیرو ذلیل رسم کو جتنی جلد ہوسکے منسوخ کردیں اور گورنمنٹ سے امید رکھتی ہے کہ وہ اس مذموم رسم کی انسداد کی تدابیر جلد از جلد عمل میں لائے گی۔
4۔ یہ کانفرنس گورنمنٹ برٹش بلوچستان اور ریاستی کنفیڈریشن آف بلوچستان سے التجا کرتی ہے کہ وہ مہر بانی کرکے تعلیمِ نسواں کو اپنے اپنے علاقوں میں ترقی دیں اور ساتھ ہی قوم سے درخواست کرتی ہے کہ وہ اس طرف خاص توجہ مبذول فرمائے۔
5۔ یہ کانفرنس حکومت ہائے بلوچستان سے استدعا کرتی ہے کہ وہ عورتوں اور بیواؤں کو بطورِ ورثہ اشیائے خانگی کی طرح ایک شخص کی موت کے بعد اُس کے وارثوں کے حوالے کیے جانے کو قانوناً ممنوع قرار دے اور عورتوں کے حقوق زنا شوئی ، وراثت اور ترکہ بروئے شرعِ انور قائم کیے جائیں۔
6۔یہ کانفرنس ریاستہائے بلوچستان ، سندھ اور پنجاب سے درخواست کرتی ہے کہ بلوچوں کی اِس مذموم مراسم کو بند کرا دے جس کی رو سے لڑکیوں کی نسبت اُن کی پیدائش سے قبل قرار پائی ہے ۔

ٹھنڈے دل سے ذرا دوبارہ اِن قرار دادوں کو دیکھیے۔ اور پھر آپ بلوچوں کے آج کے کسی جلسے سمینار وغیرہ کی قرار دادیں بھی دیکھیے ۔ آپ حیران ہوں گے وہ لوگ ہم سے زیادہ روشن فکر اور جرات مند تھے ۔انہیں معروض کا کوئی بہانہ درپیش نہ تھا۔ وہ اپنے قومی فریضے کی ادائیگی میں کسی طرح کا پس وپیش نہیں کرتے تھے ۔

1932کانفرنس کے بعد بھی یوسف عزیز مگسی اور اُس کے ساتھی اپنے شعور کوارتقا دلاتے رہے ۔ یہ لوگ حتمی طور پر عورتوں کے انسانی جمہوری حقوق کے داعی تھے ۔ لندن سے اوائل 1935میںیوسف عزیز مگسی نے اپنے دوست اور سیاسی رفیق محمد امین کھوسہ کو ایک خط میں یوں لکھا:
۔۔۔تمہاری بربادی کا باعث انگریز نہیں بلکہ تمہارے دراز ریش مذہب فروش باشندے ہیں۔ کم بختوں نے مذہب جیسی بلند تخلیق کو دنیا کا بدترین کھلونا بنا کر انسانی آبادی کے ایک عظیم حصے کو برباد کرڈالا۔ خدا اُن سے سمجھے۔۔۔
حیران ہوتا ہوں جب بڑے بڑے دماغوں کو ان امتیازوں( یعنی مرد وزن کے درمیان )کا اسیر دیکھتا ہوں۔۔۔
مگر امین ۔ یورپ کے متعلق آپ کے علمائے دین کی تمام رائیں غلط ،بخدا کہ غلط۔ یورپ بہت آزاد ہے ۔ آپ سے بازار میں ریسٹورینٹوں میں ،پارٹیوں میں آزادانہ عورتیں ملیں گی، باتیں کریں گی، کھیلیں گی، سنائیں گی اور رشتہ دار کوئی بھی دخل نہیں دیں گے۔ مگر اخلاقی لحاظ سے وہ برائی جو آگے درازریش حضرات اُس سے منسوب کرتے ہیں، ایک فیصد ی پائی جائے گی۔ یہاں کی عورت اپنی عصمت کی حفاظت آپ کے رسم ورواج کے مطابق پردہ اور تلوار بندوق کے ڈر کے ذریعہ نہیں کرتی ۔ اُن کا معیار کچھ اور ہے ۔ کاش کہ اس خط میں تفصیلات لکھ سکتا۔یہاں کی کنواری عورتیں اور وہ عورتیں جو شادی شدہ ہیں، عصمت کے معاملہ میں انتہائی بلند معیار پر ہیں۔

یوسف عزیز مگسی اس تقابلی جائزہ کے بعد یہ مطالبہ کرتا نظر آتا ہے کہ عورتوں کو وہ تمام حقوق عطا کیے جائیں جو اُن کو بطورِ انسان ملنے چاہییں۔
 باقی رہا آپ کی ہندوستانی معاشرت کے مطابق وہ طبقہ جو ساز وسرود کے ساتھ اعلانیہ بازاروں میں عصمت فروشی کرتا ہے ، یہاں وہ ہے مگر مختلف رنگ میں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اُس رنگ میں جس سے دوسروں کو برائی کی ترغیب نہ مل سکے ۔ مگر بہت کم ، بہت کم ۔

 آپ حیران ہوں گے ، جب ایک کنواری یورپین لڑکی ایک دو بجے تک گھر سے باہر آپ کے ساتھ کسی پارک میں تنہا بیٹھی ہوئی ہے اور مختلف موضوعات پر بحث ہورہی ہے۔۔ ۔ ممکن ہے شعر و شاعری یا محبت وغیرہ پر ہی بحث ہو، ممکن ہے وہ آپ کے ساتھ اقرارِ محبت بھی کرے ۔ مگر کیا مجال ہے کہ ایسی رومانٹک فضا میں، یورپ کی زندہ کن فضامیں ، تنہائی ، نیم شب کا وقت، ایسے وقت میں بھی اس کا خیال ایک لمحے کے لیے بھی عصمت فروشی کی طرف منتقل ہو۔ اگر بیوقوفی سے آپ کا خیال اس طرف منتقل ہو جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ نے اپنا وقار، اپنی اخلاقی حالت کو اس کی نظروں میں مجروح کردیا ۔ یہ ہے یہاں کی اخلاقی حالت ۔ آپ کے مولویوں کی بنائی ہوئی عورت پردے میں رہے گی ، مرد کی شکل نہ دیکھ کر محض نظر کی جبریت پر عامل ہوگی، وہ مذہبی ، دیندار، نمازن کہلائے گی، مگر معاف فرمائیے گا کہ پچاس فیصدی ، جب ورثا کی غیر حاضری میںآ نکھ کا کوئی اشارہ ملے گا ، تو ہمہ تن خون ہو کربہہ جائے گی:
نکو رو تابِ مستوری ندارد
چودر بندی سراز روزن برآرد
 یہ ہے نتیجہ پابندیوں کا۔ جذبات و خیالات ، جو رسم و رواج کی پابندی سے راہ نہیں پاتے ، وہ عورت کو باغی ، عیاشی کی طرف منتقل کر دیتے ہیں۔ وہ Day Dreamingمیں اوقات بسر کرتی ہے اور یہ دماغی عیاشی اس کے کیر کٹر کو بہت نازک او رناپائیدار بنا دیتی ہے ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ذرا سے اشارے کی، یا ذارا سی ترغیب کی دیر ہوتی ہے اور ورثا کی غیر حاضری کا موقع بس پھر آپ جانتے ہیں۔

یہاں کی عورتیں ہر قسم کی آزادی سے بہرہ ور ہیں۔ مردوں سے کھیلتی ہیں، ننگی ٹانگیں رکھتے ہوئے بازار میں پھرتی ہیں ، دریاؤں میں تیرتی ہیں ، جس چیز کو اچھا سمجھتی ہیں ، انہیں خوف نہیں ہوتا کہ والدین مزاحم ہوں گے ، آزادانہ تعارف پیدا کر کے سیر کرتی ہیں۔ اس کی وجہ سے انہیں دماغی عیاشی کی اُس بد ترین شکل سے واسطہ نہیں پڑتا جیسا آپ کے علاقے میں، سمجھتی ہیں۔ عصمت کو صرف اُس کے لیے سمجھتی ہیں جوکہ ان کی زندگی کارفیق ہو، وہ بھی باقاعدہ نکاح کے بعد، پہلے نہیں۔ شاذ ونادر۔۔۔ ہاں! میں نے شاذ ونادرکہا اس لیے کہ محض نا تجربہ کار، مردوں کے وعدہِ شادی میں آکر عصمت پہلے ضائع کرتی ہیں ، مگر یہ معاملہ بہت کم ہے اور کم ہو رہا ہے ۔(1) ۔
یہ محض زور بیاں ، خالی خولی تقریریں نہ تھیں بلکہ اپنے نظریات پہ مصمم و مستحکم یوسف عزیز مگسی نے توحتی کہ اپنے وصیت نامے میں لکھا:

میری تمام جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کا نصف حصہ مساوی طریق پر میرے بھائی والدہ، بیوی ،اور منے سیف اللہ پر تقسیم ہونا چاہیے (2)۔ مجھے اُس کے استعمال کردہ لفظ مساوی  پر زور دینا ہے۔۔۔اور مجھے یوسف عزیز مگسی کے 1935میں انتقال کے بعد سے آج تک اُن لوگوں کی لسٹ مرتب کرنی ہے جنہوں نے ایسی وصیت کی ہو۔ بھلا وہ کتنی طویل لسٹ ہوگی؟۔

حوالہ جات
۔1۔یوسف عزیز مگسی کے خطوط ۔ازیوسف عزیز مگسی چیئر 2017۔صفحہ 115تا118
۔2۔ یوسف عزیز مگسی کے خطوط ۔۔ صفحہ59

جمعرات، 19 اپریل، 2018

فلسفہ ِ جمالیات اور آرٹسٹ


فلسفہ ِ جمالیات اور آرٹسٹ  
تحریر  : ارشد نذیر

قدیم یونان میں ایک لفظ  ایستھا نومیا جو انگریزی میںایستھیٹکس ہو گیا  جس کا مطلب کسی چیز کو اپنےحواس کے ذریعے محسوس کرنا ہے بولا جاتا تھا۔ اردو ادب میں اسے ذوقِ جمال یا جمالیاتی ذوق سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

انسان کو خوبصورتی ، بد صورتی ، اچھائی اور برائی ہر دور میں متاثر کرتی رہی ہے۔ ہر دور میں انسان خوشی، غم، دکھ ، درد، رنج ، تکلیف جیسے جذبات سے متاثر ہوتا رہا ہے ۔ اُس کا موضوع انفرادی محسوسات بھی رہا ہے اور اجتماعی بھی۔ تاریخ کے ابتدائی ادوار میں انسان اجتماعی زندگی گزارتا تھا۔ لہٰذا اس کے ان محسوسات کا محور و مرکز اجتماعیت ہی تھا۔وہ اپنے ان جذبوں کا اظہار پینٹنگ، سنگ تراشی، مجسمہ سازی ، موسیقی ، شاعری اور رقص وغیرہ میں کرتا رہا ہے۔

ایک تخلیق کار کا ایسے جذبوں کا بیان کردہ کسی بھی شکل میں اظہار ہی دراصل ایستھیٹکس یا جمالیاتی ذوق کہلاتا ہے۔ آرٹسٹ کا یہ جمالیاتی ذوق کس طرح تربیت پاتا ہے اور وہ اپنے آرٹ میں کس چیز کا اظہار کرتا ہے۔ آرٹسٹ اور سماج کا آپس میں کیا رشتہ ہوتا ہے ۔ ایک آرٹسٹ اپنا شہ پارہ تخلیق کرنے کے لئے خام مواد کہاں سے حاصل کرتا ہے ۔ آرٹسٹ کا جمالیاتی ذوق عوامی سطح سے کس طرح بلند ہوتا ہے ۔ ان تمام سوالوں کے جواب خود آرٹسٹ اور فلسفی اپنے اپنے طور پر تلاش کرتے رہے ہیں۔

قرونِ وسطیٰ میں جمالیاتی ذوق کا منظم اندازمیں مطالعہ نہیں گیا لیکن حسن و جمال ، بد صورتی اور قبح، اچھائی اور برائی جیسے موضوعات اس دور کے فلسفیوں کے بھی زیرِ بحث رہے۔ تاہم اٹھارویں صدی کے جرمن فلسفیوں نے جمالیاتی فلسفے پر باقاعدہ اور منظم انداز میں کام کیا ۔

افلاطون اور ارسطو جیسے قرونِ وسطیٰ کے فلسفیوں نے اس بارے میں جو نظریات پیش کئے اُس سے آنے والے مفکرین کے نظریات کی راہ ہموار کی۔ ان مفکرین نے تناسب، روشنی اور علامات جیسے عنوانات پر کام کیا۔ وہ روشنی کی ماہیت اور اس کے اثرات کے بارے میں بہت متجسس رہے۔ اسی طرح رنگ بھی اُن کی کشش کا باعث بنے رہے۔

علامات کے بارے میں ان کا نظریہ تھا کہ خالق یعنی خدا کی پہچان ہی مخلوق کے ذریعے ہوئی ہے ۔ اس لئے علامتی تخلیق بھی معنی کا اظہار کا ذرئع ہو سکتی ہے۔ کوئی علامتی شہ پارہ بھی اپنی تفہیم پیدا کر سکتا ہے اور با لخصوص ان پڑھ افراد کے لئے۔ جہاں تک کسی چیز کے اندر  تناسب  کا پائے جانے کا تصور ہے ۔ یہ خوبصورتی کا ایک لازمی عنصر ہے۔ تناسب چرچ وغیرہ کی تعمیرات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ خیالات ان کے جمالیاتی ذوق کی تسکین کا باعث بنتے رہے ہیں۔

سینٹ آگسٹائن، سیوڈو ڈاؤنیسیس اور سینٹ تھامس اکیوینس ایسے فلسفی تھے جو افلاطونی اور نیو افلاطونی نظریات کے پرچارک تھے۔ افلاطون نے فارم  یعنی صورت یا شکل کے تصور کو اجاگر کیا تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ خوبصورتی کی ایک کامل شکل و صورت ہوتی ہے جس میں ہر عضو ایک خوبصورتی کے ساتھ شامل ہوتا ہے۔ یہی شکل و صورت کامل خوبصورتی کہلاتی ہے اور یہی خوبصورتی خدائی ذہین کا تصور گردانی جاتی ہے۔ یہ کائنات اسی خدائی تصور کا عکس گردانی جاتی ہے ۔

اس خیال کے مطابق تمام خوبصورت چیزیں تجریدی کائنات میں نہیں بلکہ خدا ئی خوبصورتی میں شامل ہوتی ہیں۔ افلاطون کا یہ نظریہ بھی اہمیت کا حامل ہے کہ چونکہ خوبصورتی دراصل خالق یعنی خدا کی خوبصورتی ہی کا عکس ہے اس لئے آرٹسٹ جب کسی خوبصورت شکل یا تصور کی نقالی کرتا ہے ، تو وہ دانشمندانہ نقالی تو ہو سکتی ہے ، تاہم حقیقت سے دوہرے طور پر دور ہوتی ہے۔

شاعری اور ڈرامے کے حوالے سے اُس کا خیال تھا کہ اس میں اگر بدکار انسان کو آخر میں خوش نصیب اور کامیاب دیکھا جائے ، تو اس سے نوجوانوں پر بڑے برے اثرات مرتب ہونگے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ شاعری اور ڈرامے کے بدکار کرداروں کو آخر میں ضرور سزا ملنی چاہئے۔ اس کے برعکس تھامس ارسطو کے خیالات سے متاثر تھا اور وہ اسے کی جمالیاتی نظریات پر یقین رکھتا تھا۔

ارسطو کا یہ نظریہ تھا کہ آرٹ صرف نقالی نہیں ہے بلکہ یہ فطرت کو مثالی بناتاہے اور آرٹ ہی اس میں موجود نقائص کو ختم کرتا ہے اور پھر اشیاء کو کاملیت اور تکمیل عطا کرتا ہے ۔ جب وہ اس طرح کا کوئی تصور قائم کر لیتا ہے ، وہ اپنی ہی اسی نقالی سے مسرت حاصل کرتا ہے جس انسان کا خاصاہے۔ فطرت ماسٹر آرٹسٹ ہے جس نے ہر چیز کو متوسط خوبصورتی کی حالت میں تخلیق کیا ہے ۔ اس طرح اُس کا کہنا ہے کہ ایک بیرونی صورت یا شکل میں حقیقی خیال یا تصور ہی کا سموناآرٹ ہے ۔ اس کا کہنا تھا کہ خوبصورت ہی مناسب ہوتا ہے۔ وہ ایک آرٹسٹ کو ایک مسافر آرٹسٹ گردانتا ہے اور فطرت کو ماسٹر آرٹسٹ کے طور پر دیکھتا ہے۔

فلسفیوں کے ہاں یہ نظریات بھی گردش کرتے رہے کہ محض تعقلیت خوبصورتی کو بیان کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ، تاہم خوبصورتی میں ایسے عناصر موجود ہیں جن کی عقلی تشریح یا توضیح ممکن ہے۔ مثلاً ترتیب، ربط اور تناسب ایسے عناصر ہیں جو خوبصورتی کے بنیادی خصائص کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ ان کا مشاہدہ عقلِ محض نہیں کر سکتی بلکہ اس کو سمجھنے کے لئے وجدان کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ انسانی جذبات اور احساسات ہی ان کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ بس انسان کا جمالیاتی تجربہ خوشی، غصہ، رنج، غم اور دکھ جیسی کیفیات کا مرکب ہوتا ہے ۔

اٹھارویں صدی میں ایستھیٹکس یا جمالیاتی حس پر باقاعدہ اور منظم طور پر کا م کیا گیا اور اسے فلسفہ ہی کی ایک شاخ تصور کیا جانے لگا۔اس برانچ کے تحت آرٹ اوراس کے تجربات کا مطالعہ کیا جانے لگا ۔ یہ فلسفہ اٹھارویں صدیں کے یورپ میں ابھرا اور پھر اس نے انگلستان میں ترقی پاتے ہوئے شاعری، مجسمہ سازی ، موسیقی اور رقص جیسی اصناف پر اپنے اثرات مرتب کرنا شروع کر دیئے۔ اسی صدی میں پہلی دفعہ ہی ان تمام فنون کو آرٹ کے تحت یکجا کر دیا گیا۔لہذا شاعری، مجسمہ سازی ، موسیقی اور رقص کو آرٹ ہی کی مختلف شکلیں تصور کیا جانے لگا۔

ایمینوئل کانٹ ہی پہلا فلسفی تھا جس نے جمالیات کو فلسفہ کا باقاعدہ موضوع بنایا اور اس پر منظم انداز سے بحث کی۔کانٹ کا خیال تھا کہ خوبصورتی چیز کے افعال سے آزاد ایک خاصیت کا نام ہے ۔ مثلاً جب ہم یہ کہتے ہیں کہ گھوڑا خوبصورت جانور ہے ، تو اُس وقت اس بات کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں رہ جاتی آیاکہ یہ دوڑ میں جیتتا بھی ہے یا نہیں۔

اُس کایہ بھی خیال تھا کہ علم کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے حصول کے لئے صرف بیرونی ذرائع ہوتے ہیں بلکہ ہماری فطری تشکیلات بھی علم کی تخلیق میں کارآمد ہوتے ہیں۔ اس سے قرونِ وسطیٰ میں پائے جانے والے اس نظرئیے کہ خیال صرف وجدان کی پیداوار ہے میں ایک تبدیلی رونما ہو گئی۔
جمالیاتی ذوق پر فیصلہ صادر کرنے کے لئے کانٹ نے آٹھ خصوصیات بیان کی ہیں۔ اس فیصلہ میں خوشی اور کرب کی کیفیات ہونی چاہیں۔ ایک فن پارہ کیونکہ پیچیدہ بھی ہوتا ہے اور اس پر فیصلہ صادر کرنے کے لئے وقت درکار ہوتا ہے ۔ پہلی مرتبہ ذوق کا تصور وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔ کوئی فن پارہ اپنے قاری یا سامع کو ایک جامد تصور سے آزاد کر کے نئے تصورات قائم کرنے کی آزادی فراہم کرتا ہے ۔ اس کے اندر ذاتی دلچسپیوں سے ماورا ایک کیفیت بھی ہوتی ہے ۔ پھر وہ جمالیات کا تصور : جمالیاتی چیز اور جمالیاتی محاکمہ، جمالیاتی رویہ اور جمالیاتی تجربہ جیسے تصورات بھی پیش کرتا ہے۔
پھر جدید دور میں علمِ نفسیات اور علمِ بشریات نے خاصی ترقی کی جس کے اثرات جمالیات اور جمالیاتی ذوق پر بھی مرتب ہوئے۔ یہاں سے انسان سے متعلق تمام فلسفوں کو ایک جست لگائی ۔ اب انسانی افعال ، اُس کی ترقی و ارتقاء اور اُس کے محسوسات کا جائزہ انسان کی اپنی نشوونما اور پرورش میں لیا جانے لگا۔ آفاقی اور ماورائی قوتوں کو انسانی زندگی سے تقریباً بے دخل کر دیا گیا۔

فرائڈ اور اُس کے شاگرد یونگ جیسے نفسیات دانوں نے انسان کے تمام جذبوں کو اس کے فطری اور جبلی جنسی محرکات کی پیداوار قرار دیا اور اپنے سائنسی تجربات سے اس حقیقت کو کافی حد تک ثابت کر دیا۔ اسی طرح علمِ بشریات میں اس بات پر تحقیق شروع ہو گئی کہ تاریخ اپنی ترقی اور ارتقاء کے سفر میں کچھ قوانین کی پیروی کرتی ہے۔

اس زمانے میں ہمیں مارکس اور اینگلز جسے فلسفی بھی ملتے ہیں جنہوں نے سماج کی ترقی اور ارتقا ء کا جدلیاتی انداز سے جائزہ لیا۔ مارکس اور اینگلز کے سماج کے مطالعے کی اس جدلیاتی سائنس نے آرٹ ، خوبصورتی اور جمالیات جیسے فلسفوں کو بھی متاثر کیا۔ مارکس اور اینگلز کا یہ ماننا ہے کہ معاشی اور سماجی حالات اور بالخصوص طبقاتی تعلقات جو انہیں معاشی اور سماجی حالات کے تحت جنم لیتے ہیں انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کرتے ہیں۔ ان حالات کے اثرات مذہب، قانون اور ثقافتی ڈھانچوں سب پر مرتب ہوتے ہیں۔

ان حالات میں ایک آرٹسٹ کا کام ان حالات کی صرف تصویر کشی کرنا نہیں ہے بلکہ ان کو بہتر بنانے میں اپنا حصہ ڈالنا ہے ۔ جدید صنعتی سماج میں انسان کی حیثیت پر بات کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ سرمایہ دارانہ سماج میں جدید صنعتی پیداوار میں محنت کش کی زندگی کا کنٹرول اُس کے اپنے ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور وہ ایک مشینی پرزہ بن کر رہ جاتا ہے جس میں اس کے انسانی جذبات و احساسات کچل کر رہ جاتے ہیں۔

محنت کش سے جب اس طرح کام لیا جاتا ہے ، تو کچھ عرصے کے بعد وہ اس سارے نظام میں ایک مشینی پرزے کی طرح ردِعمل کرنا شروع کر دیتا ہے اور اپنے انسانی جذبات کے حوالے سے سماج سے کٹ کر رہ جاتا ہے ۔ جس کو وہ فلسفہِ بیگانگی کہتا ہے۔ اس نظام میں نامیاتی خرابی ہے جو کہ منافع اور شرحِ منافع کی ہوس کی صورت میں سامنے آتی ہے ۔ اس نامیاتی خرابی کی موجودگی میں انسان کی عظمت و وقار کی بحالی ایک ڈھکوسلا ہے ۔ انسان کو حقیقی آزادی حاصل ہو ہی نہیں سکتی جب تک اس نظام کو سوشلزم سے نہیں بدل دیا جاتا۔

اس کے بعد ما بعد از جدیدیت کا دور شروع ہوتا ہے جس میں ناقدین نے آرٹ کے تصورات پرنئے سرے سے اعتراضات اٹھانا شروع کر دیئے اور یہ کہا جانے لگا کہ آرٹ جیسی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے اگر کوئی چیز وجود رکھتی ہے تو وہ صرف اور صرف آرٹسٹ ہوتا ہے ۔ آرٹ کے مورخین بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ آرٹ جیسی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے اگر کسی چیز کا وجود ہے تو وہ صرف آرٹسٹ ہے۔ ما بعد از جدیدیت والوں نے یہ سوالات اٹھانا شروع کر دیئے کہ آیا آرٹ کو جامعات میں پڑھایا بھی جانا چاہئے یا نہیں۔

پھر کیا ہمارے پاس کوئی ایسا معیار اور پیمانہ ہے ، جس کی بنیاد پر ہم تمام تاریخی ادوار ، ان کی ثقافتوں اور تہذیبوں میں پیدا ہونے والے آرٹ پر محاکمہ کر سکیں؟ یہی وجہ ہے کہ وہ آرٹ کی جامعات میں تعلیم کے تصور کے خلاف ہیں۔ اس پر ان کے اپنے استدلال موجود ہیں۔ اُن کا پہلا استدلال یہ ہے کہ آرٹ کی بہت ساری اقسام ہیں جو ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ ان کی تفہیم کے لئے کوئی ایک تھیوری یا نظریہ کافی نہیں ہے۔

جمالیات  ، جمالیاتی ذوق اور آرٹ کا تاریخی جائزہ لینے کے بعداس کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔
آرٹسٹ کسی انسان یا سماج کے لطیف جذبوں اور اُس کی جذباتی اور ہیجانی کیفیات کا اظہار اپنے فن میں کرتا ہے ۔ فن اپنے اظہار کے ذرائع خود تخلیق کرتا ہے ۔ اظہار کا ذرئع خواہ کچھ ہی ہو لیکن اس میں ہمیشہ دوبنیادی چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔ اول یہ کہ آرٹ یا تخلیق کو مکالماتی یعنی کمیونیکیٹو ہونا ہوتا ہے۔ دوئم یہ کہ آرٹ اپنے اظہار کی کوئی سی شکل کیوں نہ اختیار کر لے ، وہ اپنا مواد ماضی سے حاصل کرے یا اپنے سماج سے یا پھر کوئی تصوراتی دنیا تخلیق کر ڈالے، لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ اُس میں اپنے سماج کے معیارات پر عدم اعتماد اور عدم اطمنان کا اظہار کر رہا ہوتا ہے ۔ وہ اپنے سماج کے خوبصورتی ، بد صورتی ، اچھائی اور برائی کے معیارات کو چیلنج کر رہا ہوتا ہے۔ اُس کی یہی بے چینی اور بے قراری اُسے ایک بڑا تخلیق کار بنا دیتی ہے۔

ہاں! البتہ آرٹسٹ سماج کے اجتماعی شعور اور لاشعور میں موجود سکون و اطمینان اور بے چینی و بے قراری کا ادراک عام آدمی کی نسبت زیادہ رکھتا ہے ۔ وہ سماج کے ثقاقتی عناصر کے قبیح اور حسین پہلوؤں سے بہت اچھی طرح واقف ہوتا ہے ۔ وہ اپنے جمالیاتی ذوق کی آبیاری کے لئے عام انسان سے قدرے زیادہ متجسس اور متحیر رہتا ہے ۔ اُس کا مطالعہ اور مشاہدہ سماج کی بے چینیوں کے درجہ حرارت کو محسوس کرنے والا تھرما میٹر ہوتا ہے۔ اس طرح ایک عام انسان ہونے کے باوجود بھی وہ پورے سماج کے اجتماعی شعور کا نمائندہ ہوتا ہے۔ سماج میں اس کا کردار انفرادی بھی ہوتا ہے اور بطور آرٹسٹ بھی۔ اُس کی تخلیق یا فن پارہ اس کے اجتماعی شعور کا اظہار ہوتا ہے۔ لہٰذا آرٹسٹ اور اس کی تخلیق دو مختلف چیزیں ہوتی ہیں جن کا تجزیہ مختلف انداز سے کیا جانا چاہئے ۔

جہاں تک ما بعد از جدیدیت کے اس استدلال کا تعلق ہے کہ آرٹ جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی صرف آرٹسٹ ہی کا وجود ہوتا ہے ، تو اس سلسلے میں یہ استدلال پیش کیا جا سکتا ہے کہ آرٹ بہرحال آرٹسٹ سے علیحدہ اپنا وجود رکھتا ہے۔ آرٹسٹ اپنی تمام تر مسرتوں اور خوشیوں ، رنج و آلام کے ساتھ فنا ہو جاتا ہے ۔ اُس کے فنا ہونے پر اُس کے تمام تر محسوسات اور جذبات بھی بے وقعت ہو کے رہ جاتے ہیں۔ پھر وہ کون سی چیز ہے جو اُس کی موت کے بعد بھی زندہ رہتی ہے ۔

بلاشبہ یہ اُس کا فن ہوتا ہے جو موت کے بعد بھی زندہ رہتا ہے ۔ اگر اس میں آفاقی سچائیاں ، جن پر ہم ذیل میں مفصل گفتگو کریں گے ، موجود ہوں تو وہ ایک آرٹسٹ کو بھی امر کر جاتی ہیں۔ اب ہم آرٹ کی تعلیم کے امکانات پر بات کر لیتے ہیں ۔اس حد تک یہ با ت درست ہے کہ حقیقی آرٹ سماج کے لئے ، سماج کے ذریعے اور سماج کے اندر تخلیق ہوتا ہے ایک مصنوعی ماحول میں آرٹ سے متعلق پڑھایا تو جا سکتا ہے لیکن آرٹ تخلیق نہیں کرا یاجا سکتا۔

یہی وجہ ہے کہ ہم جامعات میں آرٹ سے متعلق پڑھ اور سیکھ سکتے ہیں لیکن آرٹ تخلیق نہیں کر سکتے کیونکہ جامعات میں کسی شہ پارے اور اس کے خالق اور سماج کے درمیان جذباتی وابستگیوں جیسے جذبات کو محسوس کرایا جاسکتا ہے اور نہ اُن کے حسن و قبح کے معیارات کو سمجھا جا سکتا ہے۔
تاہم جدید علوم کی ترقی اور ارتقا ء کے بعد اس استدلال کے برعکس بھی استدلال اُٹھایا جا سکتا ہے۔ علمِ بشریات اور علمِ نفسیات کی ترقی کے بعد آج ہمارے حسن ، بد صورتی ، اچھائی اور برائی ، روحانی اور ماورائی قوتوں سے متعلق تصورات میں خاصی تبدیلی آئی ہے۔ اب ہم نے خوشی، غمی ، رنج، دکھ ، درد، اذیت اور تکالیف جیسے جذبات کے بارے میں ماضی سے کہیں مختلف مگر منطقی انداز میں ردِعمل شروع کر دیا ہے۔

ذہنی امراض جو کبھی ماورائی بد روحوں کی کار ستانیاں سمجھی جاتی تھیں ، آج ہمارے احاطہِ علم میں ہیں۔ توہم پرستی کو بھی شدید ضرب لگی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان نے اجتماعی طور پر سیکھا ہے ، علم کی افضلیت کو دل سے مانا ہے ۔ اس پر عمل کیا ہے ۔ اسی وجہ سے یہ تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ انسان اور سماجوں کا یہ سفر ایک تاریخی ورثہ ہے ۔ وہ اس کو پڑھ بھی سکتا ہے اور اس سے کچھ نہ کچھ سیکھ بھی سکتا ہے۔ وہ ماضی کے انسان اور اس کے آرٹسٹ کے فن پارے کے بارے میں ادراک کر سکتا ہے۔ آج کا قاری ماضی کے آرٹسٹ کی بے چینی اور بے قراری کا کسی حد تک اندازہ لگا سکتا ہے۔

لہٰذا اس تناظر میں وہ آرٹ ، اس کی آفاقیت، اُس کی زمان و مکاں سے آزاد معروضی حیثیت کے بارے میں جو سیکھتا ہے اور پھر اُسے اپنے تخلیقی کام میں منتقل کرنے کی کوشش کرتا ہے ، تو یہ نقالی بھی تخلیق ہی کے زمرے میں آئے گی کیونکہ اس تمام تر مطالعہ میں اُسے آرٹ اور آرٹسٹ کے درمیان معروضی تعلق قائم کرنے کی تربیت حاصل ہوتی ہے ۔ اگرچہ یہ بھی ایک قسم کی نقالی ہے ، تو اس قسم کی نقالی سے فطری سائنسز بھی مبرا نہیں ہیں۔ جامعات میں پڑھایا گیا یہ آرٹ ممکن بھی ہے اور اس سے آرٹسٹ پیدا بھی ہو سکتے ہیں۔

اب ہم آرٹ پر محاکمہ کرنے والے پیمانے یا معیار کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ یہ کہا جانا کہ تاریخ کے تمام ادوار ، نسلوں اور قوموں کی تہذیب و ثقافت کی جانچ کے لئے کوئی معیار اور پیمانہ نہیں ہے اس لئے آرٹ کے بارے میں فیصلہ ہی صادر نہیں کیا جاسکتا ۔ اِس کا کوئی معیار اور پیمانہ مقرر ہی نہیں کیا جاسکتا ۔

اسی طرح یہ کہنا کہ کیونکہ آرٹ مختلف علاقوں اور قوموں میں مختلف انداز اور مختلف شکلوں میں جنم لیتا رہا ہے ، لہٰذا اس کے لئے کوئی تھیوری یا نظریہ ہو نا چاہئے ، جس کے معیار اور پیمانے پر دنیا میں پیدا ہونے والے تمام آرٹ کو بلاامتیاز ماپا جا سکے اور اُس پر فیصلہ صادر کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں یہ عرض ہے کہ چند ایک آفاقی سچیائیاں ہیں جن کو بلا امتیاز رنگ و نسل ، جنسی امتیاز، قوم، زبان ، ثقافت اور تہذیب کے امتیازات سے بالا ہو کر تسلیم کیا جاتا ہے ۔ یہ سچائیاں پوری دنیا میں یکساں طور پر تسلیم بھی کی جاتی ہیں۔

زندگی کا حق، انسان کی شخصی ، شہری اور سیاسی آزادیوں کا حق ، آزادیِ اظہار کا حق، یہ ایسے حقوق ہیں جن کو انسان ، نسلوں اور قوموں کے لئے آفاقی سچائیں تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اگر انسان کو حقیقی معنوں میں یہ آزادیاں نصیب ہو جائیں ، تو اُس کے ذوقِ جمال کی بھی تسکین ہو گی اور اُس کے اندر کا آرٹسٹ خوشی، مسرت ، لذت ، کیف و سرور کے بے پناہ نئے طریقے تراش لائے گا اور اُس کے لئے حسن و قبح کے معنی بھی بدل جائیں گے ۔

اگر کوئی آرٹسٹ معروضیت کے ساتھ اِن مقاصد کے حصول کا خواں ہے اور اُس کی تخلیق خواہ وہ کسی بھی میڈیم میں کیوں نہ ہو، انہی مقاصد کی طرف رواں دواں ہے ، تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اُس کی تخلیق آقاقی معیارات پر پوری اتر رہی ہے۔ نظری طور پر یہ بات بالکل درست ہے کہ اِن آزادیوں کو تمام مہذب ممالک بلاتفریق تسلیم بھی کرتے ہیں ۔ نظریاتی طور پر یہ بات بھی درست ہے کہ یہ انسان کی فطری آزادیاں ہیں اور انہیں بغیر کہے اور مانگے حاصل ہونا چاہئے تھا۔ پھر آخر یہ انسان کو کیوں حاصل نہیں ہیں، یا یہ کس طرح ، کب اور کیوں اُس سے چھین لی گئیں۔

یہ تمام سوالات محض ادبی نہیں ہیں ، یہ سب سوالات اپنی نوع میں سیاسی ہیں اور ان کے چھن جانے ، واپس نہ دیئے جانے اور آج تک ان کی بازیابی کے لئے جاری کشمکش سب سیاسی عمل ہے ۔ اس سیاست کے پیچھے طاقت ور ممالک جنہیں سامراج کہا جاتا ہے، بھی ہیں اورطاقتور طبقے بھی۔ ریاست اور ریاستی مشنری بشمول عدلیہ بھی ان حقوق کے غصب کئے جانے میں برابر کے حصہ دار ہیں۔

جدید دور میں آزاد منڈی کی معیشت میں تو ریاستوں سے بھی زیادہ طاقتور کارپوریٹ کلچر اور کارٹلز نے جنم لیا ہے جن کی منافع خوری کی حرص اور ہوس نے استحصال کی نئی شکلیں اختیار کی ہیں۔ اس طرح پوری دنیا کا سماج استحصالی اور استحصال زدہ طبقوں میں بٹ کر رہ گیا ہے۔ ایک طرف اشرافیہ کا ایک فیصد طبقہ ہے ، دوسری طرف پورا سماج ہے ۔ اس استحصالی طبقے نے انسان اور سماجوں میں محرومی ، غربت ، جہالت، بے بسی اور گمراہی کو جنم دیا ہے ۔

استحصالی طبقہ منافع خوری کی اس ہوس میں سماج کو قومی ، نسلی ، گروہی، مذہبی اور ثقافتی بنیادوں پر تقسیم کرتا ہے ، اُن کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے خواب دکھاتا ہے ، اور اس آڑ میں اپنے منافع خوری کے مفادات حاصل کرتا ہے ۔ یہی استحصالی سرمایہ داری نظام جدید سائنسی ایجادات کی راہ میں رکاوٹ ڈالے کھڑا ہے۔ یہ نظام سائنسی ترقی کو بلاامتیاز سب انسانوں ، قوموں اور نسلوں تک نہیں پہنچنے دے رہا۔

بلکہ اس کے برعکس آج اسلحے کا کاروبار عروج پر ہے۔ اس سیاسی عمل نے بڑے پُرفریب اور مکارانہ طریقے سے انسان سے اس کی عظمت و وقار کو چھین لیاہے۔ کوئی بھی حقیقی آرٹسٹ سماج میں اپنے حسن و قبح کے ذوق اور خوشی اور غم کے جذبات کے اس طرح چِھن جانے کے عمل سے غافل رہ سکتا ہے اور نہ ہی اس پر ردِعمل کئے بغیر رہ سکتا ہے۔ یہ صورتحال ہر حساس ذہن پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج کوئی بھی آرٹسٹ دنیا میں ہونے والے اس ظلم و بربریت سے لاتعلق رہ کر محض جام و سبو، گل و بلبل اور مناظر کی خوبصورتیوں سے دل نہیں بہلا سکتا۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے ، تو یہ حقیقت سے فرار تو ہو سکتا ہے ، لیکن یہ حقیقت نگاری ہے اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی آفاقی ہوتی ہے۔ اس طرح کی جمالیات ذوق وقتی اور لمحاتی ہو سکتا ہے ۔ اور ایسے فن پارے کی کوئی دیر پا تاثیر نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں اس طرح کے جمالیاتی ماحول کے اثرات بھوکے پیٹ اور بھرے ہوئے پیٹ کے شخص پر بیک وقت مختلف ہوتے ہیں۔
جہاں تک آرٹ میں جمالیاتی اظہار کا تعلق ہے ، توآرٹ ماضی میں بھی انسانی جذبات و احساسات اور تہذیب و تمدن کا اظہار کرتا رہا ہے اور مستقبل میں بھی یہ ہر خطہ ، ملک اور چھوٹے بڑے علاقے میں جنم لیتا رہے گا۔ آرٹ اور جمالیات لازم و ملزوم ہیں۔ آرٹ کسی انسان اور سماج کی شعوری اور لا شعوری جذباتی کیفیات کا اظہار رہا ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی رہے گا۔

آرٹ ماضی میں اپنے اظہار کے ذرائع تخلیق کرتا رہا ہے ۔ جدید علوم آرٹ کے ذرائع کو تیز ی سے بتدیل کر رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں کوئی گلوبل کلچر تخلیق پا جائے جس کی اپنی کوئی زبان ہو، اور اُس کے اظہار کے ذرائع بھی مکمل طور پر جدید دور کی الیکٹرانکس ڈیوائیسز پر مبنی ہوں ۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے ، تو پھر بھی جب تک اس کرہِ ارض سے دکھ ، درد ، تکالیف کے پیدا ہونے کی وجو ہات ختم نہیں ہوتیں، اُس وقت تک آرٹ کا منبع و مرکز انسان اور سماجوں کے جذبات ہی رہیں گے۔

خوشی اور مسرت کے جذبات اپنی شکلیں بدل سکتے ہیں لیکن محسوسات وقت اور زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتے ہیں۔ قدیم دور میں بھی خوشی اور مسرت کے محسوسات ویسے ہی تھے جیسے یہ آج ہیں۔ دورِ حاضر میں بھی یہ ویسے ہی ہیں اور مستقبل میں بھی ویسے ہی رہیں گے۔ اگر گزشتہ صدیوں کے انسانی علم کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ انسانی علم نے شہری ثقافت کو بالخصوص اور دیہی ثقافت کو بالعموم کافی حد تک متاثر کیا ہے ۔ اس کے اثرات تمام قوموں، قبیلوں، نسلوں، اور گروہوں پر پڑے ہیں۔

لیکن علم و آگہی جو انسان کا مشترکہ ورثہ ہے کو تمام سماجوں میں یکساں اور بلا تفریق نہیں پھیلایا گیا۔ مختلف سماجوں اور ثقافتوں میں غیر مساوی اور ناہموار ترقی بھی انسان کی خوشیوں اور مسرتوں کی قاتل رہی ہے ۔ لیکن ان کے ماحول اور وسائل پر ہاتھ صاف کرنے اور انہیں پسماندہ رکھنے میں اس استحصالی نظام کا ہاتھ ہے ۔ کیا اسی صورتحال میں جمالیاتی ذوق اور جمالیات کو جِلا حاصل ہو سکتی ہے؟

ایسی صورتحال میں علم کو پھیلنے سے روکا جاتا ہے ۔ طرح طرح کی غلط فہمیوں اور سازشوں کو جنم دیا جاتا ہے ۔ سچ اور جھوٹ کو خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تعلیم اور تعلم ایک بے ہودہ سیاست کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ پھر علم کو برائے ترقیِ انسانیت استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ اسے سرمایہ کار کی لونڈی بنا دیا جاتا ہے ۔ جہان گزشتہ چار صدیوں میں سماج میں فلسفیانہ ، سائنسی اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے آرٹسٹ کو متاثر کیا ہے ۔ اُس نے انسان کے ذوقِ جمالیات کی آبیاری بھی کی ہے ۔ اُس نئی فکر اور سوچوں کے دریچے کھولے ہیں ، تاریخ گواہ ہے کہ انسان ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہا ہے

لیکن موجودہ حالات اور ماحول کا جائزہ لینے کے بعد آج ہمارے آرٹسٹ کے سامنے یہ سوال ہے کہ آیا وہ سماج کو کوئی نئی سوچ دے رہا ہے یا نہیں آیا وہ جمالیات کے اس تاریخی سفر میں ایک جست لگانے کی پوزیشن میں ہے یا نہیں۔ جمالیات اور جمالیاتی فلسفے کو ایک نئی جست دینے کے لئے ہمارے آج کے آرٹسٹ کو موجودہ نظام میں انسانی عظمت و وقار کے حقیقی معنوں میں تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کا جواب آج کے ہر آرٹسٹ کو تلاش کرنا ہوگا۔

پیر، 9 اپریل، 2018

خدا حافظ واجہ !!!



خدا حافظ واجہ۔۔ 
انور ساجدی 


میرا بے رحم قلم زندگی کے کسی بھی مرحلے میں "گلو گیر "نہیں ہوا ،ہر بڑے واقعہ کو ہر سانحہ کو ہر شہادت کو اس نے پوری قوت کے ساتھ رقم کیا لیکن آج پہلا موقع ہے کہ یہ ڈگمگا رہا ہے عقل حیران ہے دل پریشان ہے اس لئے الفاظ اور قلم ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں ۔
اس سانحہ کو اس عظیم شہادت کو رقم کرنے کے لئے 
الفاظ نہیں ہیں اگر چہ یہ شہادتوں کے نہ رکنے والے
سلسلہ کا تسلسل ہے لیکن میرا دل کہہ رہا ہے کہ شہادتیں 
کچھ الگ سی ہیں ان کی شان کچھ جدا ہے اور یہ تاریخ 
میں کچھ الگ انداز سے رقم کرنے کی متقاضی ہیں۔
رندوں کی سر زمین مند جس نے ایسا بیٹا جنا کہ وہ اس پر صدیوں تک نازاں رہے گا ،حقیقت یہ ہے کہ چند سال قبل جب واجہ غلام محمد ہم سے بحث کرتا تھا ناراضگی کا اظہار کرتا تھا تو ہمیں یقین نہیں آتا تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اس پر عمل کر کے دکھائے گا اور جو اس کا عزم ہے وہ کر گزرے گا ،گذشتہ سال وہ مخصوص بلوچی"دزمال"(جو ایک ریشمی کپڑاہے اور جسے مغربی بلوچستان (ایرانی بلوچستان ) میں پہنے کا زیادہ رواج ہے ) پین کر تو میں نے اس کی وجہ پوچھی واجہ نے کہا کہ یہ کفن ہے اور اس میں خونی رنگ ہے وہ 3اپریل کو اسی کفن کے ساتھ اٹھائے گئے اور اسی کفن میں شہادت کے عظیم رتبہ پر فائز ہو گئے اس کی مغفرت کی دعا اس لئے ٹھیک نہیں کہ شہید کی مغفرت پہلے سے ہو چکی ہوتی ہے ۔
واجہ غلام محمد نے مکران کے خطے مین وطن دوستی جد و جہد اور تحریک کو ایک نیا اسلوب دیا وہ گذشتہ پانچ سالون میں کئی بار جیل گیا بار بار تشدد اور اذیتیں برداشت کیں لیکن ان کے لبوں پر کوئی شکوہ نہیں تھا اسے معلوم تھا کہ جس راستہ کا انتخاب اس نے کیا ہے اس میں یہ سب کچھ تو ہو گا ۔خوشی کا مقام ہے کہ اس نے اپنا سر بلند رکھا جو کت تو گیا لیکن جھکا نہیں ،دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس شان کا مظاہرہ کرتے ہیں غلام محمد نے ایک بہت کھٹن مگر شاندار سنت قائم کی ہے جس پر عمل کرنا ہر کسی کا کام نہیں ۔
نواب شہباز اکبر نے جو روایت قائم کی غلامحمد نے نہ صرف اس کا تسلسل برقرار رکھا بلکہ اسے ایک نئی جہت عطاء کی،نواب نے ساحل و وسائل کا نعرہ لگا کر تراتانی کے پہاڑوں کو گلنار کر دیا لیکن غلام محمد کا سرخ لال خون بحرہ بلوچ کے پانیوں میں مل گیا جب تک یہ پانی ہیں جب تک بحرہ بلوچ سوکھ کر خشک نہیں ہو جاتا یہ لال خون اس کہ سطح پر تیرتا رہے گا ،اس شہادت کی گواہی دیتا رہے گا ،اتنا بہتر گواہی شاہد ہی کسی لیڈر کی قربانی کا ہو ،واجہ کے ساتھ لالہ منیر نے جس ثابت قدمی جوانمردی اور بہادری کے ساتھ دیا اس کے لئے "یار غار "کا لقب درست 
ہوگا،لالہ منیر پنجگور کا "عظیم سپوت"جس نے رخشان ڈیلٹا کو درخشندہ بنا کر اپنا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر کر دیا معلوم نہیں کہ منیر سے پہلے اس علاقہ کے کتنے لوگوں نے اپنی دھرتی پر خون نچھاور کیا لیکن یہ بات طے ہے کہ لالہ جیسی قربانی ایسی شہادت ایسی شان شائد کسی نے دکھائی ہو پنجگور کی خوبصورت وادیاں عظیم دریائے رخشان اس کے نخلستان اس کے مچھکدے اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لالہ منیر کے نام سے منسوب رہیں گے انہون نے دھرتی اور "بلوچیت"کا حق ادا کر دیا ۔
شیر محمد بلوچ تو تھا ہی شیر اس نے کئی سال 
قبل پہلے نواب اکبر خان کی جماعت میں شامل 
ہو کر اپنا راستہ جدا کرلیا شیر جان نے باقی 
سارے ساتھیوں سے زیادہ جیل کاٹی لیکن
اسے راستے سے نہ ہٹا سکے۔
شیر جان نے اپنے نام کی لاج رکھ لی اس نے ٹیپو سلطان کا یہ مقولہ سچ ثابت کر دکھایا کہ 
شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر
کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔
آج تاریخ میں دکن کے غدار میر قاسم کو بہت بُرا سمجھا جاتا ہے اس کی وطن فروچی پر سارا ہندوستان لعنت بھجتا ہے لیکن ٹیپو کو اس کی قربانی کو اس کی شجاعت کو تاریخ کھبی فرا موش نہیں نہیں کر سکتی۔
میں بہت بوجھل دل کے ساتھ تینوں شہداء کو خدا حافظ کہتا ہون لیکن تینوں شہداء ہمیشہ زندہ اور تابندہ رہیں گے، ان کی قربانی روشنی کی ماندآنے والوں کی رہنمائی کرے گی۔ نواب اکبر خان ،خالد ،میر بالاچ اور اس کے بعد ان تین شہادتوں اور بے شمار شہادتوں کے بعد کہنے اور سننے کے لئے کیا رہ گیا ہے ۔انہوں نے اپنی قوم کو ایک بہت بڑی آزمائش اور مشکل میں ڈال دیا ہے ان کے راستے پر چلنا جو سوئے دار کی طرف جاتا ہے ایک کھٹن کام ہے ان کی قربانی سے منہ موڑنا بے وفائی ہے یہ ایک مشکل صورتحال ہے ممکن ہے کہ وقت ان شہادتوں زخم مند مل کر دے یا یہ شہادتیں طوفان اور سونامی کی شکل اختیار کر لیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن جو لوگ تحریک کی قیادت کر رہے ہیں ان کے لئے غور و فکر کا مقام ہے کہ وہ کس طرح ایک بہتر اور کار گر حکمت عملی اپنا کر چلیں قومی تحریک میں شہادتیں اور قربانیاں کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی یہ دھرتی پر احسان ہے ان کا مسئلہ تو جاری رہے گالیکن اس کا نتیجہ کیا نکلے گا اتنی بھاری قیمت کے بدلے میں کیا کچھ ملے گا کیا سودے باقی گنجائش ہے ، مفاہمت مصالحت درمیانی راستہ وغیرہ کی اصطلا میں استعمال ہویے رہیں گی، غلام محمد بلوچ ،شیر محمد بلوچ اور لالہ منیر کو جن لوگون نے اُٹھایا اور قتل کیا وہ کون تھے ....؟
اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے اگرچہ ان کی نشامدہی مشکل ہے لیکن اس پر سوچا جانا چاہئے۔
.................................
بشکریہ روزنامہ انتخاب کوئٹہ