منگل، 31 جولائی، 2018

آئن اسٹائن کا نظریہ اضافیت کیا ہے اور اس کی تصدیق کیسے ہوئی؟




آئن اسٹائن کا نظریہ اضافیت کیا ہے اور اس کی تصدیق کیسے ہوئی؟

صادقہ خان
سائنس میں کوئی بھی قانون یا نظریہ حرف آخر نہیں ہوتا، جوں جوں تحقیق آگے بڑھتی ہے ان سے متعلق مزید اہم نکات سامنے آتے رہتے ہیں اور بعض اوقات نئی تحقیق پرانے نظریے کو مکمل طور پر رد بھی کر دیتی ہے، مگر آئن اسٹائن کی تحقیقات کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ایک صدی گزر جانے کے باوجود بھی بنیادی نظریہ اضافیت اور کشش ثقل سے متعلق ان کے پیش کیے گئے قوانین کی جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ بڑے پیمانے پر تصدیق ہو رہی ہےاور زمین سے ہزاروں نوری سالوں کے فاصلے پر واقع ستاروں پر بھی یہ قوانین اتنے ہی درست ثابت ہوئے ہیں جتنے زمین کی گریوی ٹیشنل فیلڈ میں مصدقہ تھے۔


سائنس میں معمولی دلچسپی رکھنے والا شخص بھی گلیلیو گلیلی کے پیسا ٹاور والے تجربے سے ضرور واقف ہوگا، اگرچہ اس تجربے کی صداقت کے حوالے سے متضاد بیانات سامنے آتے رہے ہیں مگر اس کے بارے میں خودگلیلیو کے اپنے شاگرد ونکازو ویویانی نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے جو 1717 میں شائع ہوئی۔


ویویانی کے مطابق گلیلیو نے 2 مختلف اجسام والے کرے پیسا ٹاور سے ایک ہی بلندی سے پھینک کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی تھی کہ آیا ان کے نیچے گرنے کے دورانیے پر ان اجسام کا ماس اثر انداز ہوتا ہے یا نہیں ؟ بار بار کے تجربات کے بعد گلیلیو اس نتیجے پر پہنچے کے ہلکے اور بھاری تمام اجسام کے زمین کی طرف گرنے کے دورانیے اور رفتار میں فرق نہیں ہوتا اور تمام اجسام ایک ہی تناسب سے گرتے ہیں۔


گلیلیو کے تجربے کے کئی صدیوں بعد آئن اسٹائن نے اپنے بنیادی نظریہ اضافیت میں اس تصور کو دوبارہ پیش کیا کہ گرتے ہوئے اجسام ایک ہی تناسب سے زمین کی طرف آتے ہیں اور ان کی حرکت پر ان کا ماس اثر انداز نہیں ہوتا، اسی تھیوری کو خلاباز ڈیوڈ اسکاٹ نے اپولو 15 مشن کے دوران آزماتے ہوئے چاند کی سطح پر ایک ہتھوڑے اور پرندے کے پر کے گرنے کے تناسب کو نوٹ کیا جو ایک ہی تھا۔


واضح ر ہے کہ چاند کی سطح پر کشش ثقل زمین سے 1،6 فیصد کم ہے۔


بیسویں صدی کے آخر میں ہبل ٹیلی اسکوپ خلاء میں بھیجے جانے کے بعد سائنسدانوں کی نئی کائناتوں کی تلاش میں تیزی آگئی اور اسی باعث انہیں موقع ملاکے وہ آئن اسٹائن کے بنیادی نظریہ اضافیت اور دیگر قوانین کو زمین سے ہزاروں نوری سالوں کے فاصلے پر واقع ستاروں کے جھرمٹوں، بلیک ہولز اور کہکشاؤں پر لاگو کرکے دیکھیں کہ آیا یہ قوانین زمین سے کئی گنا بڑے اور زیادہ ماس والے اجسام پر صحیح ثابت ہوتے ہیں یا نہیں ۔

آئن اسٹائن کو ہر دور کا ذہین ترین انسان اس لیے ہی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بنیادی نظریہ اضا فیت، کشش ثقل سے متعلق اور جو دیگر قوانین 20 ویں صدی کے اوائل میں محض اپنی فہم و فراست کے بل بوتے پر پیش کیے تھے آج ان کی جدید ٹیکنالوجی سے تصدیق ہو رہی ہے۔

آئن اسٹائن کی کشش ثقل سے متعلق قانون کی تصدیق کے لییے سائنسدان ایک عرصے سے ایک نیچرل لیبارٹری (قدرتی تجربہ گاہ) کی تلاش میں تھے، 2011 میں گرین بینک ٹیلی اسکوپ کے ذریعے نیشنل سائنس فاؤنڈیشن سے منسلک چند سائنسدانوں نے 3 ستاروں مشتمل ایک سسٹم دریافت کیا جسےایس آر  کا نام دیا گیا، یہ ستاروں کا سسٹم زمین سے 4 ہزار 200 نوری سالوں کے فاصلے پر وا قع ہے اور ان 3 ستاروں میں سے ایک نیوٹران اسٹار ہے۔

نیوٹران ستارے بے انتہا ٹھوس فلکیاتی اجسام کے ہوتے ہیں جن کی کشش ثقل اور کثافت کافی زیادہ لیکن رداس اور سائز کم ہوتا ہے اور یہ زیادہ تر نیوٹرانوں پر مشتمل ہوتے ہیں، اس نیوٹران ستارے کے مدار کا دورانیہ ایک اعشاریہ چھ دن ہے، اس کے ساتھ 2 وائٹ ڈوارف ستاروں کی جوڑی تھی، یہ ایسے ستارے ہیں جو ہمارے سورج کی طرح اندرونی طور پر بہت متحرک ہوتے ہیں اور نیوکلیائی انشقاق ( فژن ری ایکشن ) کے ذریعے ان میں ہائیڈروجن ایٹم آپس میں مدغم ہوکر ہیلیم کا بڑا ایٹم بناتے رہتے ہیں، ان وائٹ ڈوارف ستاروں میں سے ایک کا گردشی دورانیہ 327 دن ہے۔
نیچر سائنس جنرل میں شائع ہونے والے مقالے کے مصنفین کے مطابق 3 ستاروں کا یہ نظام کچھ اس قسم کا تھا کہ یہ ہمیں آئن اسٹائن کے کشش ثقل سے متعلق قانون کو پرکھنے کے لیے ایک قدرتی لیبارٹری محسوس ہوا، کیوں کہ اس جیسا کوئی اور سسٹم اب تک ماہرین فلکیات کی نظر میں نہیں آ سکا۔

سائنسدان اس سسٹم کا کئی سالوں تک مشاہدہ کرتے رہے جس سے معلوم ہوا کہ نیوٹران ستارہ دراصل 'پلسار' تھا، جن کی کشش ثقل بہت زیادہ ہوتی ہے اور ان سے مسلسل ریڈیائی موجیں /لہریں خارج ہوتی رہتی ہیں۔
یہ ستارے کچھ اس طرح سے گردش میں رہتے ہیں کہ ان کی گردش کا دورانیہ نوٹ کرتے ہوئے زمین پر موجود انتہائی حساس ایٹمی گھڑیاں بھی غلط ثابت ہوجاتی ہیں۔

اس نیوٹران ستارے سے آنے والے ریڈیائی پلسز یا سنگل کو انتہائی حساس گرین بینک دور بین نے ڈیٹیکٹ کیا تھا، ماہرین کے مطابق اس ستارے سے ایک سیکنڈ میں 366 بار سگنل کا اخراج ہو رہا تھا اور انہوں نے کئی برس تک اس کے ایک ایک سگنل کو چیک کیا۔

حاصل ہونے والے اعداد و شمار اس قدر جامع تھے کہ ماہرین اس نیوٹران ستارے کے بارے میں بلکل درست بتا سکتے تھے کہ اس وقت وہ کس مقام پر ہوگا اور آئندہ کب، کس مقام کی طرف رخ کرے گا، اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ نیوٹران ستارے اور اس کے ہمسایہ ڈوارف ستاروں کو اگر پرکھا جائے تو غلطی کے امکانات بہت کم تھے۔

ماہرین کا خیال تھا کہ چوں کہ نیوٹران ستارے اور اس کے ساتھ اندرونی وائٹ ڈوارف ستارے کے ماسز میں بہت زیادہ فرق تھا اور اندرونی ڈوارف کی گریوی ٹیشنل انرجی کم تھی اس لیے ان دونوں کو باہر کی جانب والے ( بیرونی ) ڈوارف ستارے کی جانب جھکنا چاہیے لیکن ان کے جھکاؤ کی حالت ایک جیسی نہیں ہونی چاہیے تھی اور دونوں کے ماس میں فرق کے باعث ان کے گردشی اثر میں واضح فرق ہونا چاہیے تھا کیوں کہ آئن اسٹائن کے کشش ثقل سے متعلق اصول کے متبادل قوانین بھی یہی پیش گوئی کرتے ہیں، مگر سالہا سال تک ان تینوں ستاروں کا مکمل جائزہ لینے کے باوجود سائنسدانوں کو ان کے جھکاؤ اور گردشی اثر میں کوئی واضح فرق محسوس نہیں ہوا، جو آئن اسٹائن کے بنیادی نظریۂ اضافیت کی خلاء میں بڑے اسکیل پر براہ راست تصدیق تھی کہ تمام اجسام چاہے وہ جسامت میں کتنے ہی بڑے اور بھاری ہوں اور زمین کی کشش ثقل کی مناسبت سے کتنے ہی زیادہ طاقتور ثقلی میدان میں گھرے ہوئے ہوں،ان کے آزادانہ گرنے کا تناسب ایک ہی ہوتا ہے۔



اگر کسی بہت ہی زیادہ کشش ثقل والے ماحول میں اجسام کے گرنے کے جھکاؤ میں کوئی فرق نوٹ بھی کیا جائے تو وہ ایک ملین کا محض ایک تہائی حصہ ہوگا۔


اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ کشش ثقل سے متعلق آئن اسٹائن کا 'اسٹرانگ ایکیو ویلنس ' یا اجسام کے گردشی اثر میں یکسانیت والا اصول فلکیاتی اجسام کے لیے بھی درست ہے، یہ اس امر کی جانب ایک اشارہ بھی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کائنات کی مزید سرحدوں کو پار کر کے سائنسدانوں کو نہ صرف آئن اسٹائن کے دیگر قوانین بلکہ فزکس کے اور بہت سے قوانین کو بڑے پیمانے پر پرکھنے کے لیے مزید قدرتی تجربہ گاہ مل سکتی ہیں۔

پیر، 30 جولائی، 2018

Education Under Military Siege in Balochistan - Sammu Noor



Education Under Military Siege in Balochistan

Sammu Noor : University of Turbat
The Balochistan Post
For last seven decades, Balochistan is under the Pakistani occupation. Pakistani colonial policies not only have affected the Baloch culture, tradition and identity but also its education. Under these colonial policies, 
the Baloch nation has been kept at a distance from education.

The government statistics about the education in Balochistan claim the percentage of literacy at 43 percent which, in fact, does not depict the ground reality, and this figure contrasts to the facts, which is far worse than the given data. On other hand, the report of Pakistan Education Statistic 2015-16 launched by the National Education Management Information System (NEMIS) states that 70 percent children in Balochistan are out of school. Just imagine it, this is just the government statistics.

The nature of colonial states146 policies are always anti-education where they do not let their colonies to access right to education, and we see the same policy executed by Pakistan, which keeps the Baloch nation at distance to education. Because Pakistan knows that education leads towards awareness about Baloch rights and national issues.

To keep Baloch at a distance to education, the state uses multi-layer tactics in order to close the door to education for Baloch nation.
The United Nations Educational, Scientific and Cultural Organization (UNESCO) defines literacy as the 147ability to identify, understand, interpret, create, communicate and compute, using printed and written materials associated with varying contexts148.
In the perspective of Balochistan as the part of Pakistani federation, firstly, if we analyze the literacy rate of Balochistan based on the above mentioned definition of UNESCO, then according to the ground realities, we find it 15 to 20 percent hardly. On the other hand, the Pakistani survey reveals that Balochistan has the literacy rate of 43 percent which interestingly includes ones who can write only; which is not compatible to the UNESCO146s definition of literacy.

Balochistan is richer than the other provinces in terms of natural resources and geography. Therefore, the income per individual and literacy rate should be comparatively higher than provinces, but unfortunately it146s not so. Balochistan has the lowest literacy rate.
Secondly, if we analyse the condition of Balochistan as an occupied territory in terms of education only, then the occupier state becomes responsible for the basic rights of the occupied country in accordance with international law, among which education is one of basic and most essential rights of human being.
If Balochistan would not be even enriched with natural resources, but it naturally becomes the responsibility of a state to facilitate its every citizen with the basic rights of life, because every individual pays tax to the state from their personal income and state is receiving it using different means of income tax payment from people.

In the above mentioned both cases, the people of Balochistan are deprived of their basic rights. On the other hand, Balochistan plays a vital role for boosting the economy of Pakistan, but Balochistan itself is deprived of everything.

According the Joint Survey Conducted by United Nation Children Emergency Fund (UNICEF) and Global Partnership for Education (GPE) in Balochistan, 25 percent of the government schools are without buildings, 64 percent are without potable water and 90 percent of schools has no proper sanitation system.
According to a survey of Balochistan government, Balochistan has collectively 11,000 educational institutions, among them six are universities.

According to UNESECO, Balochistan have 11,079 primary schools and 913 higher secondary schools. UNESCO report reveals that five hundred schools have no science rooms and majority of schools are lack of laboratories, and 80 percent schools lack basic facilities such as potable water, boundaries, drainage and electricity.

It is not a rocket science to understand the impossibility of how one teacher can teach six different classes just in a single room? Two thousand schools are without classrooms, it means that students are studying in the open sky, and 1.7 million children are out of school, while 80% of the students are not even able to reach matriculation stages. In addition three thousand ghost schools and five thousand ghost teachers are getting expenditure from Balochistan budget.

University of Balochistan is the oldest university of Balochistan. As compared to other provinces, Balochistan has less educational institutions and these few buildings and administrations of the educational institutions are also under the control of forces. The presence of forces in institutions has developed a sense of fear among the students and an unfriendly environment for study.

Recently many notifications of threat alerts were issued by the government which points out that educational institutions are the most vulnerable of such threats, but these are just tactics for creating an atmosphere of fear and to justify the presence of forces in educational institutions. In Balochistan, the real threats to peace are the Pakistani security forces themselves.

In University of Balochistan (UOB), programs were conducted last year in the honour of Nasir Khan Janjua, the then commandant of frontier crops, but the fact is, under his command thousands of Baloch youth were either abducted or martyred. Even to date, in university colony, the guest house of university146s vice chancellor is used as FC headquarters, and the Sport Complex of UOB has been handed over to Chiltan Rifles Wing of FC.

Auditorium of university is established for students, but students are strictly prohibited to enter it, and surrounding areas are captured by FC in university where they have secret detention centre used for violence and torture of students. All students, teachers and residents of university colony are witness of these facts but they are silent for the sake of their lives.

Power is used in Balochistan to suppress the voice of peaceful politics. Every student has the fear of being abducted in university. In the name of security, thousands of cameras are installed in university premises, and in spite of it, hostels are frequently searched and students are harassed by the forces.
This is not only story of Balochistan University; every educational institution in Balochistan depicts the same state of affairs. The building and administration of Balochistan University of Management and Technology Chiltan Campus has been occupied by the frontier crops, and operations in nearby areas are controlled by FC-64-Wing under the military camps present inside the premises of university.

Same situation exists in Sardar Bahadur khan Women University (SBKWU), the only university for women. A bus of SBKWU carrying students was targeted on June 15, 2013 by the Islamic extremists. The forces used the attack to justify their presence in the women university, and after the attack, the university was converted into a military camp where students are humiliated on daily basis by the security forces.

According to Education Department of Balochistan government, there are 97 degree colleges in Balochistan. The intermediate and degree colleges of Mashkay, Nall, Awaran, Lehri and Turbat are occupied by the forces. The only inter-college of Mashkay, a tehseel of Awaran district, has been occupied by the state forces since October 2013, and the hostel of Degree College Panjgur was converted into a FC camp by the forces.
During raid on hostel of Atta Shad Degree College Turbat, forces abducted Rasool Jan along with other students and detained the books of history, philosophy and politics, and after that, in front of the media, forces claimed to capture a huge amount of pro-independence literature. Even though, those books are available in markets of Lahore and Karachi. Other all abductees were set free, but the mutilated body of Rasool Jan was found on April 13. After the raid, forces shut down the hostel of Atta Shad Degree College which affected the education of thousands of students.

Bolan Medical College (BMC) is the only medical college in Balochistan, and it has a large number of security presence. The security forces have captured the sports complex of the hostel and indoor games complex. Students of BMC are much concerned about the presence of forces in institution, because educational institutions are not venues for the forces to stay, and their presence only disturbs the educational environment of BMC.

For giving justification for the presence of forces in institutions, state can go to any level. School and colleges are attacked through Islamic extremists so that forces get solid reasons for the occupation of the institutions. Currently, all educational institutions including universities and colleges are dealt directly or indirectly by the forces.

Fate of the Baloch is in the hand of Pakistani rulers, and it146s up to them where they take it. History is witness that Pakistani rulers have always wanted to deprive Baloch politically, socially and economically. If Baloch don146t get the ownership of its land, fate of people will remain same or might be worst.

منگل، 17 جولائی، 2018

افغانستان میں امن کا چکرویو اور بلوچ تحریک کا امتحان



افغانستان میں امن کا چکرویو اور بلوچ تحریک کا امتحان

تحریر : سلام صابر 
اگر افغانستان میں بدامنی اور انتشاری ماحول سے صرف پاکستان کے مفادات وابستہ ہوتے تو شاید بہت پہلے ہی وہاں پہ جاری طویل جنگ اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہوتا ، لیکن چونکہ اس پورے خطے میں بالادستی کو قائم و دائم رکھنے کیلئے افغانستان ایک مرکزی کیمپ کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے وہاں پہ امریکہ کی موجودگی صرف ایران نہیں بلکہ روس اور چین کے لئے بھی بے چینی کا سبب بنا ہوا ہے ۔


طالبان کے متفقہ اور غیر متنازعہ امیر ملا عمر کی وفات کے بعد اسلامی امارات کی مرکزیت میں پڑنے والی دراڑ اور پھر طالبان کے اندر کی قبائلی تقسیم اور بالادستی کی کوشش بھی افغانستان کی جنگ میں اضافے کا ایک اہم سبب بنا ہوا ہے ۔


اس بات میں اب شاہد کوئی دورائے نہیں کہ افغان طالبان کا پاکستان کے اوپر سے اعتماد دن بدن کمزور ہوتا جارہا ہے ، اول طالبان کے مرکزی رہنما مولانا عبیداللہ کی گرفتاری اور دوران قید موت ، پھر امیر المومنین مولانا منصور کی بلوچستان میں ڈرون حملے میں شہادت ، اور پھرمولانا عبدالصمد ثانی کی پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں گرفتاری ، ایسے واقعات ہیں کہ ان کی وجہ سے طالبان کی جنگی تحریک کو شدید جھٹکے لگے اور بالخصوص مالی امور کے انچارچ مولانا عبدالصمد ثانی کی گرفتاری نے طالبان کی اماراتی سرگرمیوں کو کافی حد تک متاثر کردیا ۔


ان ہی واقعات کے بعد طالبان کی قیادت خاموشی سے اور انتہائی تیزی سے پاکستان کی حصار سے نکل کر ایران میں اپنے مراکز کو مضبوط کرنے میں سرگرم ہوئیں ۔
اور حالیہ عرصے میں کوئٹہ شوریٰ کے نام سے مشہور طالبان قیادت کی نصف تعداد یا تو افغانستان میں اپنے زیر قبضہ علاقوں میں منتقل ہوئیں یا پھر ایران ۔




ایران جو کہ مذہبی اور قومی حوالے سے طالبان کے بنیادی نظریات سے متصادم ملک ہے لیکن مولانا اختر منصور جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ طالبان کی بیرون ملک سفارت کاری اور دوراندیشی کے سبب اس نے اپنے ہمسایے ایران سے تعلقات کو بہتر بنا دیا اور ساتھ ہی ایران سمیت روس اور چین کو بھی یہ باور کرایا کہ افغانستان سے باہر افغان طالبان کے کوئی عزائم اور مقاصد نہیں ، اور اسی بنیادی پالیسی کے سبب افغان طالبان نے تحریک طالبان پاکستان، اسیٹ ترکمانستان موومنٹ اور جند اللہ سے اپنے تعلقات منقطع کردیئے ۔


افغانستان میں طالبان کا گھیرا تنگ کرنے کیلئے امریکہ نے نئی افغان پالیسی کا اعلان کیا جس کے بعد 11مئی کو انڈونیشیا کے شہر بوگور میں افغانستان ، پاکستان اور انڈونیشیا کے علماء کرام کا اجلاس ہوا ، جب اس اجلاس کے انعقاد کا اعلان ہوا تو طالبان میں سراسمیگی پھیلی کہ کئی ایسا نہ ہو کہ ان کے خلاف کوئی فتوی جاری ہو ، کیونکہ فتوے کے جاری ہونے کے بعد طالبان کی جنگ کا بنیاد ہی کمزور پڑجائے گا لیکن جب اس اجلاس کا اعلامیہ جاری ہوا تو اس میں نہ افغان جنگ( جہاد) کے خلاف کوئی فتوی دیا گیا اور نہ ہی امریکہ کی افغان سرزمین پہ ہونے والی جارحیت کو جائز سمجھا گیا ،، البتہ اجلاس کے اعلامیہ میں فریقین کو شہری نقصانات کی روک تھام اور تنازع کے پرامن حل کی کوشش کی سفارش کی کی گئی ۔
طالبان پہ مزید دباؤ بڑھانے کیلئے گذشتہ عید پرافغان صدراشرف غنی نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا جس کے بعد طالبان نے چند ایک بنیادی مجبوریوں کے سبب پانچ کے بجائے تین روزہ جنگ بندی کا بھی اعلان کیا ، اور بقول پاکستان میں افغان سفیر کے جنگ بندی میں پاکستان کا بنیادی اور اہم کردار رہا ، اب اس بات میں کتنی صداقت ہے ، اس کا اندازہ اس صرف بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سفیر کے بیان پر طالبان نے مکمل خاموشی اختیار کی ، نا تردید کی نا تائید ۔

جنگ بندی سے مخصوص مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے کے بعد افغانستان کے حوالے سے سعودی عرب کے شہر جدہ اور مکہ مکرمہ میں علما ء کرام کے نام سے دو روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا لیکن اس کانفرنس میں بھی سوائے چند ایک سرکاری مولویوں کے کسی قابل ذکر اور جید عالم دین نے شرکت نہیں کی ۔


ان تما م سرگرمیوں سے مطلوبہ نتائج نہ ملنے کے بعد ہی امریکی صدر نے اپنے افغان پالیسی کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا ، کیونکہ جن مقاصد اور نتائج کی توقع کی گئی تھی وہ حاصل نہ ہوسکے اور امریکہ کے نئے افغان پالیسی میں ناکامی میں ایران نے بنیادی کردار ادا کیا ، کیونکہ ایران اب کھل کر طالبان کی عسکری اور مالی امداد کررہا ہے اور ایران کے شرائط بھی ایسے نہیں کہ وہ طالبان کو منظور نہ ہوں ، اول امریکہ کیلئے بے چینی کی ماحول پیدا کرنا جبکہ دوسرا داعش کا راستہ روکنا ، یہ دو ایسے شرائط ہیں جن پہ طالبان خود ہی گذشتہ کئی عرصے سے عمل کررہے ہیں اور یہ قوی امکان ہے کہ آنے والی دنوں میں افغانستان میں جنگ کی شدت میں مزید اضافہ ہو ، اور اس اضافے کی بنیادی وجہ ایرانی مداخلت ہوگا ۔


اب اگر امریکہ ایران کی توسیع پسندانہ عزائم کو لگام ڈالنے میں کامیاب بھی ہوگا تب بھی اس کے منفی نتائج افغانستان پر پڑیں گے ، کیونکہ اس وقت پاکستان کے بجائے افغانستان کے تاجروں نے ایران پر توجہ موکوز کی ہے ،اور انڈیا بھی ایران ہی کے راستے افغانستان میں اپنی تجارتی سرگرمیوں میں اضافے کا خواہاں ہیں ، لیکن معاشی پابندیوں اور انڈیا کی جانب سے تیل کی خریدداری بند ہونے کے بعد ایران نے واضح طور پر اعلان کیا کہ اگر بھارت ایران سے تیل کی درآمد میں تخفیف کرتا ہے تو اسے حاصل خصوصی مراعات ختم کردیئے جائیں گے ۔


افغانستان میں سرگرم دیدہ اور نادیدہ قوتین عرصہ دراز سے اس کوشش میں لگے ہوئیں ہیں وہ کسی بھی طرح سے اس جنگ کو آس پاس پھیلا دیں ، اول وزیرستان اور دیگر شمالی علاقے اس کی لپیٹ میں آئیں اور اب بلوچستان میدان کار زار بن جائے گا ۔


اب بنیادی سوال یہاں سے یہ اٹھتا ہے اس جنگ کو کیا بلوچستان میں داخل ہونے سے روکا نہیں جاسکتا تھا ؟ 


تو ہماری محدود خیال کے مطابق اگر آزادی پسند لیڈر شپ انفرادیت کی حصارسے نکل کر قومی مفادات کو اولیت دیتے تو لازمی طور پربلوچستان میں ہونے والی مذہب کے نام پر جاری کشت و خون کو آسانی سے روک سکتے تھے ۔


قطع نظر اس بات کے کہ دعوؤں کی حد تک ہم یہ ببانگ دہل کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ بیرون ملک سفارتی کاری کیوجہ سے بلوچ قومی مسئلہ اجاگر ہوا ہے ، لیکن برسرزمین اس سفارتی کامیابیوں کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں ، اگر سفارتی میدان میں ایک فیصد ہماری آزادی پسند نااہل لیڈر شپ توجہ دیتا تو، نہ تو کوئٹہ میں ہمارے وکلاء بے دردی سے مارے جاتے ، نہ شاہ نورانی میں بے گناہ قتل ہوتے ۔

اب کوئی یہ لازمی طور پر سوچتا ہے کہ آزادی پسند کیسے بلوچستان میں جاری مذہب کے نام پر جاری حالیہ تشدد کو روک سکتے تھے ، تو اس کا آسان سا جواب یہی ہے کہ دنیا جہاں میں کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر معاملات طے پاتے ہیں ۔


اس کے علاوہ اس امر پہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت کی نصف درجن سے زائد افغانستان کے دوروں کے بعد خو د افغانستان کیلئے ’’بے ضرر‘‘ ملا فضل اللہ کی ڈرون میں مارا جانا اتنا آسان اور چھوٹا خفیہ معاہدہ نہیں ہے ۔


اگر ملا فضل اللہ کے حوالے سے افغان اور پاکستان میں افغان طالبان ہی زیر بحث رہے ہیں تو افغان طالبان نے متبادل راستہ تلاش کرلیا ہے، لیکن اگر اس دوران بلوچ کا نام پاکستان و افغانستان کے مذاکراتی میز میں پڑی فائل میں ہوگا تو بلوچ کے پاس متبادل راستہ کون سا ہے ؟
جولائی 16 بروز سموار 2018 

منگل، 3 جولائی، 2018

جدلیات کے تین اصول ـ عمران شاہد بھنڈر



اگر چہ یونانی فلسفی تشکیل و ارتقا کے ان سائنسی اصولوں کو دریافت نہ کرسکے جو فطرت، سماج اور انسانی ذہن میں یکساں کارفرما ہوتے ہیں، تاہم اس کے باوجود جدلیات کابانی ہیراکلیٹس کائنات میں جاری حرکت وتبدیلی جب کہ تضاد کو ان کی علت (Cause) کے طور پرتسلیم کرتے ہوئے جدلیاتی سائنس کی بنیاد رکھ چکا تھا۔ جدید سائنس اس اصول کی تصدیق کرتی ہے کہ ارتقا کے تصورکی بنیاد میں حرکت و تبدیلی کا ازلی و ابدی قانون پیوست ہے۔ حرکت و تبدیلی کے متضاد عمل کو ایک آفاقی اصول کے طور پر تسلیم کرنے کا مطلب جدلیات کے احاطے میں داخل ہونا ہے، لیکن جدلیات محض متضاد، حرکت اور تبدیلی پر ہی نہیں ٹھہرتی، بلکہ سماج کی تشکیل و ارتقا کے ان باطنی قوانین کو بھی دریافت کرتی ہے، جو سماج کی خود رو تشکیل کا ذریعہ ہیں۔ ان کی تفہیم کے بعد سماجی حرکت کو متعین کرنے والی کسی خارجی علت (Cause) کی ضرورت نہیں رہتی۔

جدلیاتی سائنس کو تاریخ میں پہلی بار ایک جامع فلسفیانہ نظام کی شکل میں جرمن فلسفی جارج ہیگل نے پیش کیا۔ ہیگل ایک خیال پرست فلسفی تھا،تاہم اس نے جدلیات کے اہم ترین اصول دریافت کیے۔ یہی تین اصول بعد ازاں مارکسی مفکر فریڈرک اینگلز نے مستعار لیے اور انھیں مادی جدلیات کی تشکیل و توضیح کے لیے استعمال کیا۔  میں جب جنگ عظیم جاری تھی تو ولاد میرلینن،ہیگل کی منطق کی سائنس کے مطالعے میں مصروف تھا، تاکہ وہ سماج میں متضاد قوتوں میں مضمرلازمیت کا ادراک کرسکے کہ جو تبدیلی کی حرکت کو متعین کرتی ہیں۔لینن کا ہیگل کی جدلیات کی قرأت نے لینن کی جدوجہد کو درست خطوط میں استوار کرنے میں رہنمائی کی، جس کا نتیجہ 1917 کے روسی انقلاب کی شکل میں سامنے آیا۔ لینن کی منطق کی سائنس کو اس کی فلسفیانہ بیاض (والیم 38)کہا جاتا ہے، جس میں ہیگلیائی جدلیات کے تینوں اصولوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔ جدلیات کا پہلا اصولمقدار کی معیار میں تبدیلیہے۔ فطرت ہو یا انسانی سماج، ان میں تبدیلی کا عمل ہمہ وقت جاری رہتا ہے، مگر یہ تبدیلی محض ایک شکل سے کسی دوسری شکل ہی میں تبدیلی نہیں ہوتی، بلکہ اس تبدیلی میں سماج کی تشکیل و ارتقا کا پہلو غالب ہوتا ہے۔ سماج اور فطرت میں تبدیلی کا عمل تو ہمہ وقت جاری رہتا ہے، مگر جدلیات مقدار کی معیار میں تبدیلی کی وضاحت کرتی ہے۔

اگر مثال کے طور پرسرمایہ داری نظام پر غور کریں تو اس کے آغاز سے اب تک اس کی ہیئت میں بہت زیادہ تبدیلی واقع ہوچکی ہے۔پیداواری طریقۂ کار میں تبدیلی کے علاوہ بنیاد (Base) یعنی معیشت اور بالائی ساخت (Superstructure) یعنی آئیڈیالوجی، مذہبی عقائد، ثقافتی اشکال اور سیاسی طریقۂ کار وغیرہ کے رشتوں کی نوعیت تبدیل ہوچکی ہے، مگر ابھی تک جو شے مستقل ہے اور جس کی وجہ سے موجودہ نظام کو سرمایہ داری نظام کہا جاتا ہے، وہ ہے اس نظام میں نجی ملکیت کا قائم رہنا۔ لہذا ہم سرمایہ داری نظام میں مقداری تبدیلیوں کا تو ذکرکرسکتے ہیں مگر اس معیاری تبدیلی کا واقع ہونا ابھی باقی ہے کہ جس سے سرمایہ داری نظام کے ان ملکیتی رشتوں کا انہدام ہو، جن پر یہ تمام تبدیلیوں کے باوجود قائم رہتا ہے ، تاکہ ایک مختلف نظام وجود میں آسکے۔ مختلف نظام کی تشکیل و ارتقا محض چند افراد کی باطنی خواہش کے تحت ممکن نہیں ہوتی، یہ سماج میں موجود متضاد قوتوں کی جدلیاتی پیکار کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس کا تعلق سماجی سطح پر طبقات کے درمیان تضادات کی گہرائی،ان کی نوعیت اور درست سمت میں برپا ہونے والی طبقاتی جدوجہد کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔
جدلیات کا دوسرا اصول نفی کی نفی ہے۔ نفی (Negation) صرف ایک منطقی مقولہ (Logical Category) ہی نہیں جو خیال پرست فلسفی کی ذہنی اختراع تھا۔ یہ سماجی تشکیل و ارتقا کی لازمی شرط ہے۔ کارل مارکس کے الفاظ میں سماجی وجود کی موجود اشکال کی نفی کے بغیرکسی بھی قسم کا ارتقا ممکن نہیں ہے ۔نفیکی حقیقی قوت کو 1789 کے فرانسیسی انقلاب کی صورت میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے، جس میں جدلیات کے دونوں اصول کارفرما نظر آتے ہیں یعنی جاگیرداری نظام کے تشکیل کردہ رشتوں کی نفی ہوئی، ان میں معیاری تبدیلی واقع ہوئی، گزشتہ پیداواری رشتوں کا انہدام عمل میں آیا اور ایک نئے نظام کی بنیاد رکھی گئی۔ ان معنوں میں جدلیاتی نفی تشکیل وارتقا کے عمل کے دوران میں نئے اور پرانے نظام میں نہ صرف ربط بلکہ تسلسل کو بھی قائم رکھتی ہے۔جدلیاتی نفی کوئی ایسی حتمی علیحدگی یا فتق(Rupture) کو بروئے کار نہیں لاتی کہ جس کا پرانے نظام سے تعلق اور تسلسل ہی منقطع ہوجاتا ہے۔ مابعد جدید مفکروں نے حتمی علیحدگی کا تصور پیش کیا تھا کہ جس کے تحت نئی وجود میں آنے والی شے گزشتہ کے ساتھ ربط کا مکمل انکار کرتی ہے۔ژاک دریدا نے مابعد جدیدیت پرہیگل کی پیروی میں تنقید کی اور حتمی علیحدگی کے تصور کو غلط گردانا۔ ہیگل نے اس کے لیے رد و نمو(Sublate) کی اصطلاح استعمال کی ہے کہ جس کے تحت پرانی ساختوں میں مضمر تمام قدامت پسندانہ رجحانات کو مسترد کردیے جاتے ہیں، جب کہ ترقی پسندانہ عوامل کو محفوظ کرلیا جاتا ہے، تاکہ ارتقا کا سفر جاری و ساری رہے۔ سرمایہ داری نظام اور اس کا دفاع کرنے والے بورژوا فلسفوں میں نفی کے تصور میں محض مقداری تبدیلیوں کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے، مگر معیاری نفی کا انکار کردیا جاتا ہے۔ سرمایہ داری نظام کو ایک حتمی نظام تسلیم کرنے کا مطلب جدلیات کے سائنسی اصولوں یعنی نفی کی نفی اور مقدار کی معیار میں تبدیلی سے انحراف کرنا ہے مگر تاریخ جدلیات کے اصولوں کا انکار نہیں ان کا اثبات کرتی ہے۔

جدلیات کا تیسرا مگر اہم ترین اصول تخالفین کی وحدت اور جدوجہد ہے۔ فطرت ہو یا سماجی تشکیل کا کوئی عمل ، وہ سماج میں متحرک قوتوں کے مابین 146تضاد145 کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔بورژوا فلسفوں کی خامی یہ ہے کہ وہ تضاد کو معروض (Object) کے اندر نہیں بلکہ خارج میں اس کے تخالف کے طور پر تلاش کرتے ہیں۔ اس فلسفے کا بنیادی نقص یہ ہے کہ یہ حرکت اور تبدیلی کے لیے ایک خارجی علت (Cause)کا جواز تلاش کرتے ہوئے پُراسراریت کے لیے راستہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔ آئزک نیوٹن نے کائنات میں جاری حرکت کے لیے ایک خارجی ہاتھ ضروری گردانا، مگر ہیگل نے نیوٹن کے سائنسی نتائج کو مسترد کردیا۔ جدلیات وضاحت کرتی ہے کہ حرکت یا تبدیلی، تضاد کے بغیر ممکن نہیں ہے اور تضاد معروض سے باہر نہیں بلکہ اس کے اندر ہی موجود ہوتا ہے۔ کوئی بھی معروض دیگر معروضات سے عدم ارتباط کے نتیجے میں تشکیل و ارتقا کے عمل سے نہیں گزر سکتا، مگر یہ تمام معروضات ایک دوسرے میں نفوذ کیے ہوئے ہوتے ہیں۔جہاں ہر معروض کا ظاہر اس کا اثبات کراتا ہے تو وہاں اسی معروض کے جوہر تک پہنچنے کا عمل اس کی نفی کے پہلو کو سامنے لاتا ہے۔ مثال کے طور پر یوں کہ سرمایہ داری طریقۂ پیداوار میں دو متضاد طبقات کے وجود کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے،مگر یہ دونوں طبقات ایک ہی پیداواری طریقۂ کار میں موجود ہوتے ہیں۔

دونوں میں سے کسی ایک کا انہدام ہو تو دوسرا بھی اپنی شناخت برقرار نہیں رکھ سکتا۔ دونوں ہی ایک دوسرے میں سرایت کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ایک وہ جو ذرایع پیداوار کا مالک ہے اور دوسرا وہ جو اپنی محنت کی اجرت وصول کرتا ہے۔ یہی بنیادی تضاد سرمایہ داری نظام کی شناخت کو برقرار رکھتا ہے ۔ان طبقات کے درمیان جدوجہد سماجی ارتقا کا باعث بنتی ہے۔ لینن کے الفاظ میں ترقی تخالفین کی جدوجہد کا نام ہے۔ سرمایہ دار اور محنت کش ایک دوسرے کا متضاد ہیں، مگر تخالفین کی وحدت کے جدلیاتی اصول کی تفہیم اس بظاہر تضاد کو دیکھ کر نہیں ہوتی۔ ہم یہ کہہ چکے ہیں کہ ہر معروض کے اندر ہی اس کی نفی کا تصور موجود ہوتا ہے، یعنی جب محنت کش طبقات اس جدوجہد میں فتح سے ہمکنار ہوتے ہیں تو سرمایہ داری نظام میں ایک معیاری جست لگتی ہے۔ محنت کشوں کی فتح سے نہ صرف مقتدر طبقات کی نفی ہوتی ہے بلکہ محنت کشوں کے اپنے اس وجود کی بھی نفی ہوتی ہے، جو فتح یعنی معیاری جست سے قبل موجود تھا۔ جدلیات یہ بتاتی ہے کہ تخالفین کی جدوجہد میں صرف ایک وجود (Being) کی نفی نہیں ہوتی، بلکہ اس وجود کے دونوں پہلوؤں یعنی اثبات اور نفی کی بھی نفی ہوتی ہے۔ نفی کا ہر عمل ایک متعین (Determinate) عمل ہوتا ہے، اور معروض چونکہ اثبات اور نفی کی وحدت ہوتا ہے، اس لیے ہر نفی اس وحدت کی نفی ہوتی ہے۔ پرولتاریہ انقلابی تبدیلی کے بعد پرولتاریہ نہیں رہتا، کیونکہ ملکیتی رشتوں کا انہدام اسے ایک مختلف شناخت دیتا ہے۔

مابعد الطبیعاتی فلسفے کے برعکس جدلیات میں تفکر کا عمل تضادات کے بغیر طے نہیں ہوتا۔جدلیات میں تضادات کی نوعیت کی تفہیم سماجی عمل کی درست تحقیق کے لیے لازمی ہے، ورنہ ہم ہر وقت دانشوروں کی پیشین گوئیاں پڑھتے رہتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سماجی و سیاسی عمل کا رخ موڑ سکتے ہیں، مگر حقیقت میں اس قسم کے تبصرے سماج میں مضمر حقیقی قوانین سے متصادم ہوتے ہیں۔ جس سماج میں جتنے غیر تربیت یافتہ دانشور ہوتے ہیں، ان کی آرا سماجی عمل کی تفہیم کوگنجلک بنانے کے سوا اورکوئی کردار ادا نہیں کرتیں۔
بشکریہ ایکسپریس 10 فروری 2014