بدھ، 24 مئی، 2017

زمان (ٹائم) کیا ہے؟



جب ’’زمان‘‘ کی بات آتی ہے تو سینٹ آگسٹین کا ذکر کیے بغیر رہا نہیں جاتا۔انہوں نے کہا تھا

‘‘What then time is? If no one asks me249 I know249 if I wish to explain it to him who asks249 I know not’’
ترجمہ:۔’’پھر وقت کیا ہے؟ اگر کوئی مجھ سے نہ پوچھے تو مجھے پتہ ہے کہ وقت کیا ہے۔ اور اگر کسی کے پوچھنے پر مجھے سمجھانا پڑجائے تو میں نہیں جانتا، کہ یہ کیا ہے‘‘
آئیے وقت کی بات کو نہایت سادہ سطح سے چھیڑتے ہیں۔ہم سب گھڑیوں سے واقف ہیں۔ آج تو ہم اہل زمین ایک مشترکہ گھڑی کو معیار مان کر وقت کا حساب کتاب رکھتے ہیں لیکن ابھی ڈیڑھ صدی پہلے تک ہر ملک کا اپنا الگ ٹائم ہوا کرتا تھا۔ شروع شروع میں جب ٹرین ایجاد ہوئی تو بڑے حادثات ہوئے اور بڑے مسائل پیدا ہوگئے۔ مثال کے طور پرپیرس سے لندن جانے والی ٹرین پیرس کے وقت کو معیار مان کر چلتی لیکن لندن کے وقت کو معیار مان کر رُکتی۔پیرس اور لندن کے اوقات کے درمیان کو ئی باہمی سمجھوتا نہ ہونے کی وجہ سے حادثات پیش آتے اور مسافروں کو بے پناہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔پیرس اورلندن فقط مثال کے طور پر لیے گئے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ دور دراز ممالک کے درمیان ٹرین کا سفر شروع ہوا تو اہلِ زمین کا مشترکہ ’’ٹائم‘‘ نہ ہونے کی وجہ سے ایک ایسا مسئلہ سامنے آیا جسے حل کرنا وقت کے سائنسدانوں کی ذمہ داری بن گئی۔یوں ایک ’’معیاری وقت‘‘(Standard Time) ایجاد کیاگیا جو سورج کی ایک مکمل گردش سے پیدا ہونے والے دن کو پینڈولم کے برابر وقفوں کے درمیان تقسیم کرکے ایک سائنٹفک معیار پرمرتب کیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ’’وقت‘‘ کو زیادہ سے زیادہ معیاری بنانے کے لیے باریک سے باریک وقفوں کی تقسیم ہوتی رہی اور آج سیزیم کے ایٹم کے ارتعاش کو باریک سے باریک وقفہ زمان شمار کیا جاتاہے۔ یہ دنیا کی پہلی درست ترین گھڑی ہے۔سیزیم ایٹامک کلاک ایک سیکنڈ کا نوارب انیس کروڑ چھبیس لاکھ اکتیس ہزار سات سو سترواں (9292631770th)حصہ بتاتا ہے۔وقت کے اتنے مختصر وقفے میں کیا کچھ ممکن ہے۔ شاید ہم انسانوں کے لیے یہ بہت چھوٹاہے لیکن اگر ہم ایک الیکٹران ہوں تو یہ ہمیں ایک بہت بڑا وقفہ محسوس ہوگا۔
وقت کے بارے میں عموماً کہا جاتاہے کہ ’’وقت گزررہاہے‘‘۔آئن سٹائن کی فزکس کے اعتبار سے یہ درست خبر نہیں ہے۔ وقت نہیں گزرتا، بلکہ اشیا ء وقت میں سے گزرتی ہیں۔چونکہ اشیا ء وقت میں سے گزرتی ہیں چنانچہ یہ بھی ممکن ہے کہ اشیا ء آگے کی طرف جانے کی بجائے پیچھے کی طرف سفر کریں۔کیا ہم ماضی میں بھی سفر کرسکتے ہیں؟کوئی آبجیکٹ وقت میں صرف مستقبل کی طرف ہی ہمہ وقت گامزن نہیں ہوتا بلکہ ٹھیک اُسی رفتار سے وہ ماضی میں بھی سفر کررہا ہوتاہے۔ وقت میں آبجیکٹس کا سفر سمجھنے کے لیے ہمیں اپنے منطقی فہم کو قدرے ترقی دینا ہوگی۔ یہ ہمارے سا منے میز پر رکھی ہوئی کتاب بظاہر ساکت ہے۔ لیکن یہ وقت میں سے گزر رہی ہے، ماضی اور مستقبل دونوں میں سے۔ ہاں یہاں پہلے ایک اور بات سمجھ لی جائے تو مزید آسانی ہوجائے گی۔
ایک ہوتاہے آبجیکٹس(اشیا ء) پر سے وقت کا گزرنا
ایک ہوتاہے آبجیکٹس (اشیا ء)کا وقت میں سے گزرنا
یہ دونوں الگ الگ اور مختلف باتیں ہیں۔ پہلا خیال کہ وقت اشیا ء پر سے گزر کرتاہے کلاسیکی ٹائم تھیوری ہے۔ دوسرا خیال کہ اشیا ء وقت میں سے گزرتی ہیں ماڈرن تھیوری ہے۔ پہلی تھیوری کے مطابق اشیا ء مکانِ مطلق میں معلق ہیں اور وقت ان پر سے ایسے گزرتاہے جیسے ندی کی تہہ میں پڑے کسی پتھر پر سے ندی کا پانی گزرتا ہے۔ یعنی وقت ایک دریا یا ندی کی طرح سے بہتا ہے۔لیکن آئن سٹائن کے نظریہ وقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ وقت میں سے اشیا ء گزر کرتی ہیں۔ جیسے کسی راہداری میں سے کسی راہی کا گزرنا۔ وقت کی ایک ٹائم لائن، ایک راہداری ہے۔ آئن سٹائن کے بعد کی فزکس کو دیکھا جائے تو ٹائم لائنز کی کوئی انتہا ء نہیں۔ ہر ٹائم لائن شروع سے آخر تک ماضی اور مستقبل کے درمیان بچھی ہوئی سڑک کی طرح سے ہے۔ کوئی آبجیکٹ وقت میں صرف مستقبل کی طرف ہی ہمہ وقت گامزن نہیں ہوتا بلکہ ٹھیک اُسی رفتار سے اور اسی لمحے میں وہ ماضی میں بھی سفر کررہا ہوتاہے۔ میز پر رکھی کتاب، جو ہرلمحہ، ہرسیکنڈ کے ساتھ مستقبل میں داخل ہورہی ہے، یہ ہر لمحہ اور ہرسیکنڈ کے ساتھ ماضی میں بھی اسی رفتار کے ساتھ داخل ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے سامنے موجود ہر آبجیکٹ لمحہ ء موجود یعنی پریزینٹ میں محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ لمحہ ء موجود یا پریزنٹ وہ مقام ہے جو ماضی اور مستقبل کے عین درمیان واقع ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ کوئی حرکت کرتی ہوئی چیز ہمیں محض اس وقت دکھائی دیتی ہے جب وہ ہمارے نکتہ نگاہ سے سپیس میں حرکت کرتی ہے۔کھلی آنکھوں سے ہم حرکت کا صرف ایک حصہ دیکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ کوئی بھی آبجیکٹ دو طرح کی حرکت کرتاہے۔ ایک یہ کہ وہ ٹائم میں سے گزرتا ہے اور دوسری یہ کہ وہ سپیس میں سفر کرتاہے۔ کسی آبجیکٹ کے، ٹائم میں سے گزرنے کی حرکت کو حواسِ خمسہ سے محسوس نہیں کیا جاسکتا جبکہ اُس کے سپیس میں حرکت کرنے کو ننگی آنکھ سے دیکھا جاسکتاہے۔کیونکہ ہم سب زمین پر رہتے ہیں اور یہ گویا ایک بس(Bus) ہے جس میں ہم سب سوار ہیں۔ یعنی جب ایک ہی بس میں سب لوگ بیٹھے ہوں تو ہماری رفتار ایک دوسرے کے لیے زیرو ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم زمین پر ایک دوسرے کے لیے ٹائم کی رفتار نہیں دیکھ پاتے۔جب بس میں کوئی شخص اُٹھ کھڑا ہوا اور اُس میں چلنے لگے تو سب مسافر اس کی حرکت دیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح ہم زمین پر حرکت کرتی چیزوں کی سپیس میں حرکت تو دیکھ سکتے ہیں لیکن ٹائم میں حرکت کے اعتبار سے ہم سب ایک بس میں سوار ہیں۔
دراصل رفتار کسی آبجیکٹ کی لازمی صفت ہے۔دنیا کا کوئی آبجیکٹ ایسا نہیں جوحرکت نہ کررہاہو۔چونکہ عام اشیاء کی رفتاریں ایک دوسرے کے لیے اضافی ہیں اور یہ صرف روشنی ہے جو ہرطرح کے آبجیکٹس سے ایک مستقل رفتار کے ساتھ سفرکرتی ہے۔چنانچہ فرض کیا جاتاہے کہ ہر شئے روشنی کی رفتار سے وقت میں سفر کررہی ہے۔ایسی اشیاء بھی جو ہمیں اپنے آس پاس رُکی ہوئی محسوس ہوتی ہیں روشنی کی رفتار سے سفر کررہی ہیں۔ یہ بات عجیب سی لگتی ہے لیکن چونکہ اشیاء کی رفتاریں ناظر مقرر کرتاہے اس لیے ہم ایسا فرض کرتے ہیں جس سے ریاضی کی مساواتوں میں مسائل پیدا نہیں ہوتے۔
مثلاً آپ کے سامنے میز پر جو اشیا ء پڑی ہیں۔ یہ آپ کے نکتہ نگاہ سے سپیس میں رُکی ہوئی ہیں۔ اب چونکہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ہرشئے روشنی کی رفتار پر ہے تو پھر ایسی اشیاء جو ہمارے نکتہ نگاہ سے رُکی ہوئی ہیں اُن کی روشنی کی رفتار کہاں گئی؟ دراصل وہ اشیاء وقت میں روشنی کی رفتار سے محوِ سفر ہیں۔ چنانچہ جب کوئی آبجیکٹ سپیس میں حرکت کرتاہوا دکھائی دے تو اس کا مطلب ہے کہ اب وہ وقت میں روشنی کی رفتار سے کچھ کم رفتار میں حرکت کررہا ہیکیونکہ اُس نے اپنی رفتار کا کچھ حصہ سپیس میں صرف کردیاہے۔اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک ایسی کار فرض کریں جو ’’صرف سپیس میں، یعنی ایکس ایکسز پر‘‘ روشنی کی رفتار یعنی تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ سے حرکت کررہی ہے۔ایسی کار کے لیے ٹائم بالکل بھی نہ گزرے گا۔ ٹائم کے گراف پر وہ زیرو ہوگی۔ (نیچے تصویر ملاحظہ کریں)
ایک رکی ہوئی کار جوہمارے نکتہ نگاہ سے بالکل بھی حرکت نہیں کررہی وہ اپنی پوری رفتار ٹائم کے گراف پر خرچ کردیتی ہے۔اور اپنی رفتار کا ذرا سا حصہ بھی سپیس میں صرف نہیں کرتی۔چنانچہ سپیس کے خط پر اُس کی حرکت زیرو جبکہ ٹائم کے خط پر روشنی کی پوری رفتار کے ساتھ جاری رہتی ہے۔جیسا کہ اِس تصویر میں دکھایا گیاہے۔
لیکن اگر وہی آبجیکٹ کھلی آنکھوں سے حرکت کرتاہوا دکھائی دینے لگے تو اس کا مطلب ہے کہ اب وہ ٹائم کے ساتھ ساتھ سپیس کے خط پر بھی متحرک ہوگیا۔اور سپس ٹائم کے گراف پر درمیان میں کہیں نظر آتاہے۔ یوں وہ اپنی لازمی رفتار یعنی روشنی کی رفتار کا کچھ حصہ سپیس کے ساتھ شیئر کرنے لگتاہے۔ اور وقت میں اس کے گزرنے کا عمل اُسی تناسب سے سست پڑجاتاہے۔اِس تصویر میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اب روشنی کی رفتار سے چلنے والی کار نہ ہی سپیس میں اور نہ ہی ٹائم میں زیادہ آگے تک جاسکی ہے بلکہ،چونکہ اُس نے اپنی رفتار دونوں، یعنی ٹائم اور سپیس میں برابر شیئر کردی اس لیے دونوں میں،گراف پر اس کی حرکت پچھلی دو تصویروں کی نسبت کم ہے۔ یعنی گراف پر پچھلی تصویروں میں یہ کار سات آٹھ نقاط آگے تک گئی ہے لیکن اِس تصویر میں فقط نقطہ چار اور پانچ تک گئی ہے۔
لہذا کار کی فطری رفتار یعنی روشنی کی رفتار اب ٹائم کے خط پر پہلے سے قدرے کم صرف ہورہی ہے نہ کہ پہلے کی طرح پوری کی پوری کیونکہ اس میں سے کچھ رفتار اب سپیس کے خط پر استعمال ہورہی ہے۔اگر کوئی آبجیکٹ کھلی آنکھ کو بہت زیادہ تیزی سے حرکت کرتاہوا دکھائی دے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ سپیس کے خط پر اپنی فطری رفتار کا قدرے زیادہ حصہ خرچ کررہا ہے۔ اگر کوئی آبجیکٹ سپیس کے خط پر اپنی فطری رفتار یعنی روشنی کی تمام تر رفتار خرچ کردے تو اس کا مطلب ہوگا کہ اب وہ ٹائم کے خط پر زیرو رفتار کے ساتھ حرکت کررہا ہے۔ یعنی اُس نے اپنی تمام تر فطری رفتار سپیس میں استعمال کردی ہے اور ٹائم میں اب اس کی رفتار باقی نہیں رہی۔یعنی اس کا وقت رک گیا ہے۔یہ سب ہم نے اِن تین تصویروں میں دیکھا۔
اس پورے خیال میں سب سے اہم فطری رفتار ہے۔ کائنات کا ہر آبجیکٹ رفتار کا حامل ہے۔ کوئی آبجیکٹ روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار کا حامل نہیں ہوسکتا۔یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے۔ جب یہ کہا جاتاہے کہ ہر رُکا ہوا آبجیکٹ دراصل روشنی کی رفتار سے وقت میں سفر کررہا ہے تو بعض لوگوں کا خیال اُس اصول کی طرف چلا جاتاہے کہ روشنی کی رفتار سے کائنات میں کوئی شئے سفر نہیں کرسکتی اور یہ کہ روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کے لیے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کا آسان طریقہ یہی ہے کہ ہم جان لیں کہ ہماری اشیا ء کو صرف ’’خلا یعنی سپیس میں‘‘روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کے لیے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، وقت میں سفر کرنے کے لیے نہیں۔وقت میں تو بوسیدہ عمارتیں بھی سفر کررہی ہوتی ہیں جو کہ بظاہر رکی ہوئی ہیں۔اور فزکس کے ماہرین اپنی ریاضی درست کرنے
کے لیے فرض کرتے ہیں کہ ہررکی ہوئی شئے وقت میں روشنی کی رفتار سے محوِ سفر ہے۔
ایک سوال کہ ہم کسی رکے ہوئے آبجیکٹ کو جب روشنی کی رفتار سے حرکت کرتاہوا نہیں دیکھ سکتے تو یہ دعویٰ کہ ہر رکا ہوا آبجیکٹ روشنی کی رفتار پر ہے کیا معنی رکھتاہے؟ اس کے معانی یہ ہیں کہ وہ آبجیکٹ صرف وقت (ٹائم) میں روشنی کی رفتار سے سفر کررہا ہے۔ اگر ہم یوں ذہن بنا لیں کہ یہ رفتار آبجیکٹس کی فطری رفتار ہے جو اشیا ء کے اندر ہوتی ہے، اور یہ کہ اس رفتار کے بغیر دنیا میں کوئی آبجیکٹ نہیں ہوسکتا۔اور یہ کہ یہ محض فرض کی گئی ہے، کیونکہ فی الحقیقت تو ایسے آبجیکٹ کا وجود نہیں ہوسکتا جو عین روشنی کی رفتار پر چل رہا ہو۔ دراصل ہر آبجیکٹ دوسرے آبجیکٹس کے حوالے سے دیکھا جائے تو اُن کی آپس کی، ریلیٹو موشن کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے۔ تمام کے تمام آبجیکٹس حرکت کررہے ہیں تو کوئی کم اور کوئی زیادہ رفتار پر ہوسکتاہے۔ فطری رفتار محض فرض کی گئی رفتار ہے۔
خیر! تو ہم جان چکے کہ جب کوئی آبجیکٹ سپیس میں حرکت کرتاہوا دکھائی دیتاہے تو وہ اپنی فطری رفتا ر جو کہ روشنی کی رفتار ہے، کا کچھ حصہ سپیس میں شیئر کردیتاہے اور اس وجہ سے ٹائم میں اس کا شیئر پہلے سے کم ہوجاتاہے۔ یعنی وہ وقت میں سے کم گزرتا ہے۔ بالفاظِ دگر حرکت کرتے ہوئے اجسام کا وقت رکے ہوئے اجسام کی نسبت آہستہ گزرتاہے۔اور یوں حرکت کرنے سے اشیا ء کی عمر میں برکت پیدا ہوجاتی ہے۔ یعنی راز کی بات یہی فلسفیانہ نکتہ ہے کہ ’’روشنی کی رفتار اشیا ء کی صفت ہے جوان میں لازمی موجودہوتی ہے‘‘۔ جب کوئی شئے سپیس میں تیز ہوجاتی ہے تو اس کا وقت گزرنے کی رفتار آہستہ ہوجاتی ہے۔ فزکس کی زبان میں اِسے ٹائم ڈائیلیشن کہتے ہیں۔
ٹائم ڈائیلیشن سپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی کے تین بڑے مظاہر میں سے ایک ہے،
۱۔ ٹائم ڈائیلیشن (وقت کی لچک)
۲۔ لینتھ کنٹریکشن (فاصلوں کا سُکڑنا)
۳۔ ماس انکریمنٹ (ماس کا بڑھ جانا)
لینتھ کٹریکشن اور ماس اِنکریمنٹ یعنی فاصلوں کا سکڑنا یا مقدارِ مادہ کا بڑھ جانااس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے۔ ہم فی الحال صرف ’’آئن سٹائن کے ٹائم‘‘ کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ٹائم ڈائیلیشن آئن سٹائن کے تصورِ زماں کا خاصہ ہے۔ٹائم ڈائیلیشن اس وقت ہوتا ہے جب کوئی آبجیکٹ سپیس میں روشنی کی رفتار کے قریب ترین رفتار سے سفر کرتاہے۔تب اُس آبجیکٹ کا وقت آہستہ گزرتاہے اور زمین پر موجود اشیا ء کا وقت جلدی سے گزررہا ہوتاہے۔مثلاً،
فرض کریں ایک باپ ہے جس کی عمر بائیس سال ہے اور ایک بیٹاہے جس کی عمر ایک سال ہے۔ اب اگر باپ کو ہم خلا کے سفر پر روانہ کردیں یا زمین پر ہی کسی طرح اس کی حرکت کی رفتار بڑھادینے کا بندوبست کرلیں اور وہ روشنی کی رفتارکے قریب قریب سفر کرے۔ تو ایک سال بعد جب وہ واپس آئے گا تو اس کی عمر بائیس سال سے تیئس سال ہوچکی ہوگی جبکہ اس کے بیٹے کی عمر ہوسکتاہے اسّی سال ہوچکی ہو۔اس طرح گویا آئن سٹائن کے تصورِ زماں نے کئی بڑے بڑے استخراجی نتائج پر گہری چوٹ کی۔ باپ ہمیشہ عمر میں بیٹے سے بڑا ہوتاہے، یہ ایک استخراج تھا۔ استخراج کے بارے میں خیال کیا جاتاہے کہ یہ کبھی غلط نہیں ہوسکتالیکن آئن سٹائن کے تصورِ زماں نے اِس سمیت بے شمار دیگر
استخراجی نتائج (ڈیڈکٹو کانکلیوژنز) کو اضافیت کی شمشیر سے شہید کردیا۔
زیادہ رفتار پر واقعی ٹائم ڈائلیشن وقوع پذیر ہوتاہے، اس حقیقت کو متعدد تجربوں سے ثابت کیا جاچکاہے۔جن میں خلائی شٹل میں جانے والے خلابازوں کی عُمروں سے لے کر ہیڈران کولائیڈرز میں مادے کے چھوٹے ذرّات کی رفتاروں اور ٹائم تک کے بے شمار تجربات ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ فی الواقعہ اُونچے درجے کی رفتاروں پر وقت آہستہ گزرنے لگتاہے۔ایک خاص تجربہ جو اِسی مظہر کو دیکھنے کے لیے پرفارم کیا گیا وہ کچھ اس طرح تھا کہ ایک تیز رفتار جیٹ طیّارے نے کرہِ زمین کے گرد برق رفتاری سے چکر کاٹا۔ اس طیارے میں بھی ایک سیزیم کلاک نصب تھی اور ایک سیزیم کلاک زمین پر بھی نصب تھی۔ جب طیارہ چکر لگا کر لوٹا تو دونوں گھڑیوں میں فرق تھا۔ طیّارے کے کلاک نے آہستہ رفتار کے ساتھ ٹِک ٹِک کی تھی یعنی طیارے میں موجود پائلٹ کا وقت اہلِ زمین کی نسبت کم گزرا تھا۔
یہ مضمون آئن سٹائن کے تصورِ زماں کے صرف ایک پہلو کو محیط ہے۔ گریوٹی اور ٹائم کا کیا تعلق ہے؟ سپیس ٹائم آپس میں بُنے کیسے جاتے ہیں یا 
آئن سٹائن کے زمانے میں ناظر کا کیا کردار ہے؟ اس پر گفتگو ہم اِسی عنوان، ’’آئن سٹائن کا تصورِ زماں‘‘ کے تحت، اگلے مضمون میں کرینگے۔



اتوار، 7 مئی، 2017

چہرہ شناسی



انسان کو سمجھنا اگر آسان ہوتا تو زندگی بھی آسان ہو جاتی۔ زندگی کی تمام تر پیچیدگیاں انسان کی فطرت کے تضادکا نتیجہ ہیں۔ قدیم فلسفی کہتے ہیں کہ فطرت میں جو بھنور پایا جاتا ہے۔ وہی بھنور انسان کے مزاج میں موجود ہے۔ فطرت کی متحرک قوت دائرے کے روپ میں موجود رہتی ہے۔ پانی، بادل، طوفان یا بارش اس قوت کا اظہار ہیں۔ دو یا اس سے زیادہ توانائی کے دھارے آپس میں ملتے ہیں تو وہ بھنور یا دائرے کی صورت اختیارکر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے انسان اندر کے بھنور یا ابہام سے لڑتا چلا آیا ہے۔ جس کی وجہ سے کئی دقیق فلسفوں اور نفسیاتی تشریحات نے سوچ کے نئے زاویے متعارف کرائے۔ ماہرین نفسیات مزاج اور شخصیت کا جائزہ Endocrine Glands کے توسط سے جامع انداز سے کرنے لگے۔ قدیم یونانی ماہرین نفسیات نے شخصیت کو چار اقسام میں بیان کیا ہے۔

Phlegmatic بلغمی: پرسکون اور اعتدال پسند یہ افراد تضاد سے عاری ہوتے ہیں۔ وقت اور حالات کے ساتھ چلنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ Sanguine صفراوی: جذباتی طور پر متحرک، پرتجسس یہ لوگ زندہ دل ہوتے ہیں۔ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل یہ افراد پرجوش لب و لہجہ رکھتے ہیں۔ Choleric دموی:یہ لوگ خواب دیکھتے ہیں۔ اور یہ خواب انھیں کامیابی کی بلندیوں پر لے جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں قائدانہ صلاحیت پائی جاتی ہے۔ یہ مقصد کا تعین کر کے راستہ بناتے ہیں۔
Melancholic سوداوی: یہ خاموش اور تنہائی پسند لوگ ہیں جو کاملیت پسند کہلاتے ہیں۔ تخلیقی سوچ، گہرائی، منطق اور تجزیے کی صلاحیت، انھیں فنون لطیفہ کی طرف لے جاتی ہے۔ نقاد اور فلسفی بنتے ہیں۔ ان لوگوں کی بیماریاں بھی مزاج کے زیر اثر ہوتی ہیں۔
لیکن بات فقط مزاج اور شخصیت تک محدود نہیں رہی۔ ماہرین نفسیات، فلسفی اور اہل نظر مستقل انسان کو پرکھنے کی کھوج میں رہے۔ ارسطو نے چہرے کے نقوش کے ذریعے انسان کو سمجھنے کی کوشش کی اور انسان کے ظاہری روپ کے ذریعے اس کے اندر کا راز جاننے کے عمل میں مصروف رہے۔ شخصیت کو پرکھنے کی جستجو میں چہرے کا رنگ، بال، آواز، چال اور حرکات و سکنات آ جاتے ہیں۔ چہرے کے خدوخال کے وسیلے، انسان کی پرکھ کو قیافہ شناسی کا نام دیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آنکھیں، ناک، کان، پیشانی اور ہونٹ وغیرہ انسان کی فطرت کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں۔
چینی قیافہ شناسی کا طریقہ بہت دلچسپ ہے۔ (فلیک سولوبی میں ہاتھوں اور پیروں کے پریشر پوائنٹس کے وسیلے علاج کیا جاتا ہے۔ یہ مختلف پوائنٹس انسانی اعضا سے جڑے ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح سے چہرہ شناسی کے چینی طریقے میں، چہرے کے چارٹ کے ذریعے آپ دل، گردوں، جگر و آنتوں کا حال جان سکتے ہیں۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ آنکھیں جگر کا آئینہ ہیں۔ آنکھوں کے رنگ جگر کی بیماری کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ناک، دل سے منسلک ہے۔ سرخ ناک اور لکیریں دل کی بیماری کو ظاہر کرتی ہیں۔ پھیپھڑے گالوں کی ساخت سے تعلق رکھتے ہیں۔ گالوں کے گڑھے خوبصورتی کے علاوہ تنفس کی بیماری کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں جرائم پیشہ لوگوں کو زیر کرنے کے لیے چہرہ شناسی کا علم کارآمد ثابت ہوا۔ مڈل ایجز میں علم نجوم اور چہرہ شناسی کے ذریعے انسانی فطرت کو سمجھا جاتا تھا۔ عرب مصنف الرازی نے بھی چہرہ شناسی کے فن میں کئی دریافتیں کیں۔ بیسویں صدی میں یہ علم عروج پر پہنچا اور ذہن و کردار کو پرکھنے کا پیمانہ قرار پایا۔ طب، آیورویدک اور ٹریڈیشنل چائیز میڈیسن میں مرض کی تشخیص کے لیے قیافہ شناسی سے مدد لی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ Iridology میں آنکھوں کے ذریعے مختلف امراض کی تشخیص کر کے انھیں متعلقہ شعبوں میں مزید علاج کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ صحیح مرض کی تشخیص کے لیے مریض پر متعدد تجربے کیے جاتے ہیں۔ اس کوشش میں مرض انتہا تک پہنچ جاتا ہے۔
چہرے کی ساخت شخصیت کو پرکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ گول چہرے کے حامل افراد حساس، جذباتی، خیال رکھنے والے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ رشتے نبھانے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔
لمبا چہرہ، حقیقت پسندی، محنت اور منطق کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ انا پرست ہوتے ہیں۔ رشتے نبھانے میں مسائل پیدا کرتے ہیں۔ تکونی چہرہ تخلیقی صلاحیت اور غصے کو ظاہر کرتا ہے۔ مستطیل چہرے ذہین، تجزیہ نگار، فیصلہ کن ذہن کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ لوگ غصیلے ہوتے ہیں اور غلبہ قائم رکھتے ہیں۔ ناک چہرے کا اہم حصہ ہے۔ ناک کی بناوٹ دولت، رویہ و جذباتی زندگی کو ظاہر کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح کان کی ساخت سے شخصیت کا اتار چڑھاؤ پرکھا جا سکتا ہے۔ لمبے کان مادیت پرستی اور مغرور ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
چھوٹے کان فطرت میں احترام، توازن اور محبت کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ چوڑا ماتھا ادراک، سوجھ بوجھ اور تصوراتی قوت کا مظہر کہلاتا ہے۔ ماتھے کی لکیریں گہری سوچ اور تحقیقی صلاحیتوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ اسی طرح ہونٹ، بھنوؤں کی ساخت اور چہرے کے تل وغیرہ بھی اس ضمن میں شخصیت کے اسرار سے پردہ اٹھاتے نظر آتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ انسان نے ہمیشہ اپنے اندر کے راز اور اصلیت کو دوسروں سے چھپانے کی کوشش کی ہے۔ جھوٹ پر سچائی کا نقاب اوڑھ کر وہ ہمیشہ فائدہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔ جھوٹ، بناوٹ اور دکھاوا دنیاوی کامیابی کی علامت بن چکے ہیں۔ دغابازی، مکاری اور فریب وہ منفی رویے ہیں، جن کے ذریعے انسان دوسروں کا استحصال کرتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کا بہتر معیار، جھوٹ و فریب کے ستون پر کھڑا کرتا ہے۔ کیونکہ سیدھا، سچا و شفاف راستہ دنیاوی رنگینیوں و آسائشوں سے مبرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان متضاد راستے کی بھول بھلیوں کا انتخاب کر کے دنیاوی فائدے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن چہرہ شناسی کا فن سمجھنے
والے، نقاب در نقاب چھپے ہوئے کاغذی پھول سے چہروں کی اصلیت ڈھونڈ نکالتے ہیں۔
تحریر : شبنم گل

ہفتہ، 6 مئی، 2017

تحریر کی آزادی کی مختصر تاریخ


یہ غلامی ہے اگر کسی کو اپنے خیالات پیش کرنے کا موقعہ نہ دیا جائے۔ (یوری پیڈس، د فونیشین ومن) انسانی زندگی کی تاریخ، انسانی ذہن کی ساخت اوراذہان کے ارتقا پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے مطابق انسان کا سب سے بڑا وصف زبان کے استعمال کی صلاحیت ہے۔ زبان کی تشکیل تاریخ کے کس مرحلے میں ہوئی اس کا تشفی بخش جواب موجود نہیں ہے البتہ سائنس دانوں کے مطابق ۹ سے ۱۰ ملین برس قبل انسان خیالات کی ترسیل یا اظہار کے قابل ہو گیا تھا۔ پہلی تحریر ی زبان تین ہزار تا چار ہزار سال قبل مسیح وجود میں آئی جس کی نشانیاں مصر اور عراق میں دریافت ہوئی ہیں۔ یہ علامتی اظہاریہ نشانات تھے جن کے مدد سے خیال کو مرتسم کیا جاتا تھا۔

یہ بات بھی محض اتفاق نہیں ہے کہ تحریری زبانوں کی تاسیس کو انسانی تہذیب کی ابتدا سے منسوب کیا جا تاہے۔ زبان دراصل انسانی تہذیب و ثقافت کی ترسیل اور ترویج کا ایک اہم وسیلہ ہے۔ غالباً اسی لیے ساری سیاست زبان کے اردگرد گھومتی نظر آتی ہے۔ ہر تہذیب اپنے افکار، ثقافتی برتری اور نظریات کے فروغ کے لیے علاقائی اور مقامی بولیوں اور زبانوں پر فوقیت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اردو کا دامن بھی اب اس داغ سے پاک رہا۔اردو میں یہ رجحان گذشتہ چند دہائیوں سے دکھائی دے رہا ہے۔ اردو بطورِ زبان اپنی بقا اور ترویج کے لیے مذہب اور ایک مخصوص ثقافت کو کیموفلاج کے طور پر استعمال کرنے پر مجبور کی گئی ہے یا ہو رہی ہے۔ لیکن چونکہ اردو کی ادبی اور ثقافتی روایت کی اساس،مذہبی ہم آہنگی، رواداری اور آزاد خیالی پر مبنی ہے اس لیے اردو کے ادبا و شعرا نے اس رجحان کی تائید نہیں کی۔ وہ اردو کو ایک مخصوص مذہب کے ہتھیار کے طور پر استعمال کئے جانے کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔

زبان کو تحریر ی صورت عطا کرنے کے پس پردہ انسان کا مقصد اپنے خیالات کا مبسوط اظہار اور مکمل ترسیل تھی اور اسی کے ساتھ خیالات کو کنٹرول کرنے کی خواہش نے بھی جنم لیا۔ عظیم یونانی شاعر ہومر Homer (۷ یا ۸ صدی قبل مسیح) نے اظہارِ خیال کی آزادی کی وکالت، جبکہ صولن Solon (۶۳۰ تا ۵۶۰ قبل مسیح) جو اتھینز Athens کا پہلا عظیم قانوں داں تھا اس نے’زندہ اور مرے ہوئے خداؤں‘ کی برائی پر پابندی کی حمایت کی تھی۔ آگے چل کر ساری دنیا کو اس بات کا گواہ بننا تھا کہ ایتھینز کی اسمبلی نے عظیم فلسفی سقراط کو زہر کا پیلا نوش کرنے کا حکم صادر کیا۔ سقراط پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ اس نے غیر منظور شدہ خداؤں پر تقریر کی تھی اورنوجوانوں کے اخلاق کو کرپٹ کررہا ہے۔

سقراط پر الزام تھا کہ وہ نوجوانوں کو اس بات پر بھی اکسا رہا ہے کہ وہ اقتدار کی کارگزاری پر سوالات اٹھائیں۔ (سقراط نے تحریر اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے جان قربان کردی، اور اس کی یہ قربانی رائیگاں بھی نہیں گئی۔ سقراط کی موت مغرب کی ادبی اور فلسفیانہ تاریخ میں اظہارِ رائے کی آزادی کے ڈسکورس کو اساس فراہم کرتی ہے۔)

سترہویں اور اٹھارہوں صدی تک مطلق العنان بادشاہوں نے کسی نہ کسی طرح سینسر شپ جاری رکھی۔ عام لوگوں کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ وہ مروجہ افکار اور اقتدار کی سفاکی کے خلاف اپنے خیالات کا برملا اظہار کریں۔ خیالات کو کنٹرول کرنے اور سینسر شپ کا سبب صرف یہ تھا کہ اقتدار یہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی پالیسی اورفیصلوں پر سوالات اٹھائے جائیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست کہ پندرہویں صدی کی چوتھی دہائی میں جب جوہانس گوٹنبرگ Johannes Gutenberg نے پرنٹنگ پریس کو متعارف کیا اور زیادہ تعداد میں کتابوں کی اشاعت ممکن ہوئی تب اقتدار کو یہ فکرلاحق ہوگئی تھی کہ وہ تحریر کی آزادی یا اظہار رائے کی آزادی کو کس طرح کنٹرول کرے۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ چرچ (جو مذہبی اقتدار کی علامت ہے) سینسر شپ کے سب سے بڑے وکیل کے طور پر سامنے آیا۔ ۱۵۵۹ میں کیتھولک چرچ نے ایک طویل فہرست ایسی کتابوں کی شائع کی جن کو بدعت یا مذہب مخالف کہہ کر ممنوعہ قرار دیا گیا۔ اس فہرست میں نیکولس کوپرنیکس Nicolus Copernicus کی کتا ب On the Revolutions of the Celestial Spheres (1543) بھی شامل ہے جس میں کوپرنیکس نے کائنات کا heliocentric model پیش کیا ہے جو چرچ کے تصور کائنات اور کائنات میں زمین کی مرکزی حیثیت کو رد کرتا ہے۔ دوسری طرف عظیم سائنسداں Galileo Galilee  کو چرچ نے عمر قید کی سزا سنائی کیونکہ اس نے کوپر نیکس کی تھیوری theories of planetary motion around the sunکو قبول کرتے ہوئے اس کا دفاع کیا تھا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ چرچ نے اپنی اجاراداری قائم کرنے کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ کوپرنیکس، پوپ کے پیروں پر سر جھکائے اور اپنے نظریات کو باطل قرار دے۔ ۸ جنوری ۱۶۴۲ء میں ۷۷ سال کی عمر میں گیلیو کا انتقال ہوا۔

تسکانی Tuscany) (کے ڈیوک Duke، نواب فر نانڈو دوم نے اس کے جسدِ خاکی کو اپنے خاندانی قبرستان میں دفنانا چاہا لیکن پوپ آربن ہشتم Urban VIII اور اس کے رشتے دار کارڈینل فرانسیسکوباربرنی Cardinal Francisco Bernini نے اس کی مخالفت کی۔ ان کا اصرار تھا کہ کیتھولک چرچ گیلیو کی مذمت کر چکا ہے۔ چرچ بطور مذہبی اسٹیبلشمنٹ جس طرح مغرب میں تحریر کی آزادی کے خلاف سرگرم تھا اب ایسا لگتا ہے برصغیر امیں بہت سارے چھوٹے بڑے خود ساختہ دارلعلوم العملیات چرچ میں بدل گئے ہیں۔ گیلیو کا چرچ کے اقتدار کے خلاف سائنسی افکار کی حمایت میں ثابت قدم کھڑا رہنا مغربی علمی مباحث اور تحریر کی آزادی کو متاثر کرنے والا دوسرا بڑا واقعہ تھا۔

انگلینڈ میں Elizabeth I نے“Master of the Revels, کو فرمان جاری کیا تھا کہ شیکسپیئر کے ڈرامے Richard II کو سینسر کیا جائے۔ اسی دوران برطانیہ میں کورٹ آف اسٹار چیمبرز سیاسی مخالفین کو خاموش کرنے اور اشاعتی اداروں کے لائسنس کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اقتدار اور اظہارِ رائے کی یہ سرد جنگ جاری تھی کہ عظیم شاعر جان ملٹن نے اظہار رائے کی حمایت میں ایک مضمون ۲۳ نومبر ۱۶۴۴ء کو Areopagitica (1644) کے عنوان سے لکھا۔ جان ملٹن کا یہ بیان سلگتی آ گ کی طرح پھیل گیا کہ:

“truth is most likely to emerge in a free and open encounter.”

آزادنہ ماحول میں سچ کے اظہار کے امکانات نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔

اس مضمون کو دنیا کی تاریخ میں تحریر کی آزادی کی حمایت میں ایک بے حد متاثر کن اور فلسفیانہ دفاع قرار دیا جاتا ہے۔ ملٹن لائسینس آرڈر ۱۶۴۳ Licensing Order of 1643 کے سخت مخالفین میں سے تھا جس کی رو سے ادیبوں پر یہ لازم تھا کہ وہ اپنی کتابوں کی اشاعت سے قبل حکومت سے متن کومنظور کروالیں۔ برطانیہ میں لائسنس ایکٹ کو 1688 کے انقلاب جسے (Glorious Revolution)کہا جاتا ہے کے بعد ردکیا گیا۔ اس انقلاب کے بعد Mary II اور William III کو اقتدار ملا تھا اوران کے اقتدارمیں آنے کے ساتھ یہ شرط بھی عائد تھی کہ وہ Bill of Rights. کو منظور کر لیں۔ ان کوششوں کے باوجود مطلق العنان بادشاہوں نے کسی طرح سینسر شپ کو قائم رکھنے کی کوشش کی البتہ تحریر کی آزادی کے لیے جاری کاوشوں سے اسی دوران آزاد میڈیا کی روایت کی ابتدا بھی ہوئی۔ ملٹن کا مضمون Areopagitica, لندن، امریکہ اور برٹش راج میں تحریر کی آزادی کے لیے ایک کارگر ہتھیار بن گیا۔ ۱۷۶۶ میں سوئیڈن نے سب سے پہلے سینسر شپ کو کالعدم قرار دیا۔

ڈنمارک اور ناروے نے ۱۷۷۰ میں اس کی حمایت کرتے ہوئے اپنے یہاں بھی اس کا اطلاق کیا۔ امریکہ کے انقلاب کے بعد ۱۷۹۱ میں کانگریس نے دستور کی پہلی ترمیم کی منظوری دی جس نے اظہارِ رائے کی آزادی کا خیر مقدم کیا۔ والٹیر (1694 150 1778) فرانسیسی ادیب، تاریخ داں اور فلسفی چرچ کے اقتدار کی مخالفت اور تحریر وتقریر کی آزادی کی ایک توانا آواز کے طور دنیا میں مشہور ہے۔ والٹیرنے اپنے عہد کے غیر جمہوری آئین کا مقابلہ کیا اور مختلف آزادیوں کی حمایت میں قریباً بیس ہزار خطوط اور دو ہزار کتابیں مع پمفلٹ تحریر کیے ہیں۔

انیسویں صدی کے اختتام تک تحریر کی آزادی پر بحث جاری تھی لیکن کوئی حتمی رائے قائم نہیں ہوئی تھی۔ اسی دوران یورپ اور روس میں دوبارہ مطلق العنان اور کیمونسٹ حکومتوں کا قیام ہوا جس نے میڈیا کو مکمل طور پر اپنے کنڑول میں لے لیا۔ کمیونسٹ حکومتوں نے میڈیا، خیالات اور ضمیرِانسان کو ریاست کے تصور کی تبلیغ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی۔ Vladimir Lenin  کا یہ جملہ سبھی کو یاد ہوگا کہ“A lie told often enough becomes the truth.”۔ اسٹالین نے Glavlit کی بنیاد رکھی جس کے تحت ریاست نے ایک انتظامی کمیٹی تشکیل دی جس کا مقصد سینسرشپ کواستعمال کرنا اور اقتدار کے مفاد سے ٹکرانے والے افکار کو کنٹرول کرنا تھا۔

اسی اثنا اسٹالین نے Writers Union (1932) کی بنیاد رکھی جو واحد قانونی یونین ادیبوں کی قرار دی گئی۔جن ادبا،فنکاروں اور صحافیوں نے اس پابندی کی مخالفت کی ان کو جیل کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور کئی ایک کو قتل بھی کیا گیا۔ جرمنی میں اقتدار میں آنے کی بعد ہٹلر نے Joseph Goebbels (18971501945) کو شعبۂ تبلیغ کا سربراہ مقرر کیا جس نے میڈیا میں یہودیوں کے خلاف جذبات مشتعل کئے۔ گویبل نے بڑے پیمانے پر کتابوں کو جلانے کی مہم میں بھی حصہ لیا تھا۔ اس واقعے کے بعد جرمن شاعر Heinrich Heine (1797-1856) کا یہ جملہ
Where they burn books, at the end they also burn people.”

دوبارہ جرمن معاشرے میں ڈسکورس کا حصہ بنا جو اس نے اپنی کتاب Almansoor: A Tragedy (1823) میں تحریر کیا تھا۔ آج ہم اس بیان کی بازگشت پاکستان اور چند دیگر ریاستوں میں دیکھ رہے ہیں جہاں عرب بادشاہت قائم ہے۔جہاں ان بادشاہوں کو مذہبی سربراہوں کی صورت مذہب کی پشت پناہی حاصل ہے جس طرح کسی زمانے میں مغرب میں مطالق العنان بادشاہت کو چرچ کی حمایت حاصل تھی۔
بیسویں صدی میں تحریر کی آزادی اور اقتدار کے مظالم کے خلاف جن لوگوں نے بلند حوصلے سے کام لیا ان میں کیوبا کے ادیب Reinaldo Arenas (19431509) چیک ادیب Vaclav Havel (1936)150، روسی ادیب Alexander Solzhenitsyn (1918150) اور دیگر ادیبوں کے نام تاریخ میں درج ہیں۔اقوام متحدہ کی تشکیل کے بعد اظہارِ رائے کی آزادی کے لیے Universal Declaration of Human Rights (1948) کا اجرا ہوا جس کے آرٹیکل ۱۹ نے اظہارِ رائے کی آزادی کو بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا۔ آرٹیکل ۱۹ میں یہ بات کہی گئی کہ

“Everyone has the right to freedom of opinion and expression; this right includes freedom to hold opinions without interference and to seek, receive and impart information and ideas through any media and regardless of frontiers.”

لیکن روسی حکمرانوں کی دخل اندازی سے آرٹیکل ۱۹ کو یا یوں کہہ لیجئے تحریر کی آزادی کو پبلک آرڈر سے مربوط کرنے کی کوشش ہوئی۔اسی پس منظر میں“The New International Information Order”کو دیکھا جا سکتا ہے جس کو یو این، یونیسکو، سویت یونین اور کئی ترقی پذیر ممالک نے پیش کیا جس کی رو سے میڈیا کی آزادی کو ان ممالک کی غیر صحت مند کوریج سے روکنا مقصود تھا۔ لیکن مذکورہ آرڈر اس لیے پاس نہیں ہوا کہ بیشتر مغربی ممالک نے اقوام متحدہ کو خیر باد کہنے کی دھمکی دے دی۔ حالانکہ ۱۹۸۰ کے آس پاس سوویت یونین منتشر ہوگیا لیکن اس کے باوجود اقوام متحدہ آج بھی کسی ایسے نظام کی تشکیل کرنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوا ہے جس میں اظہار رائے کی آزادی کو حتمی شکل دی گئی ہو۔

دوسری طرف ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کی آویزش اور مغرب کی دنیا کے کمزور ممالک پرغیر قانونی اور غیر انسانی یلغار نے اس بحث کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔ ہماری دنیا میں آج بھی تقریباً ۶۳ ممالک ایسے ہیں جہاں ڈکٹیٹر شپ، بادشاہت یا کمزور جمہوریتیں قائم ہیں اور ان ممالک کے افراد اظہارِ خیال کی آزادی سے محروم ہیں۔ دوسری طرف intellectual propertyکو تباہ کرنے کی کوشش ہو رہی  ہے جس کی مثال سربین فوجیوں کے ہاتھوں بوسینا کی لائبریری کی تباہ کاری ہے یہی کام روسی فوجیوں نے چیچنیا میں کیا تھا۔اس مذموم حرکت کا مقصد اجتماعی یادداشتوں کو مٹانا ہوتا ہے۔ یہ جرم ہندستان میں انگریزوں نے مسلمانوں کی تحریر کردہ کتابوں کے ساتھ بھی کیا ہے۔

عہد حاضر میں عریانیت، نفرت انگیز تقاریر، سیاسی مخالفت جیسے موضوعات زیر بحث ہیں اور اس پر مکالمہ جاری ہے کہ ان کی کتنی آزادی ممکن ہے اور اس آزادی کا ناجائز استعمال کرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی کیا صورت ہو سکتی ہے۔ ان باتوں پر مکالمہ لازمی ہے لیکن آج تحریر کی آزادی یا اظہار رائے کی آزادی کو خطرہ ان قوتوں اور ممالک سے ہے جو اظہارِ رائے کو دبانے کے لیے قوت کا سہارا لیتے ہیں اور خیال کی مخالفت کے لئے قانون کے بجائے تشدد پر یقین رکھتے ہیں۔ اظہارِ رائے کی آزادی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ ہم دیگرافراد کے مذہبی عقائد کو باطل قرار دیں اور ان کا مذاق اڑائیں۔

ایسی حرکت کا نتیجہ عوام کو مشتعل کرتا ہے اور پبلک آرڈر کو متاثر کر سکتا ہے۔ تحریر کی آزادی حقائق کو پیش کرنے اور اقتدار کی غیر سفاکانہ کارروائیوں کو طشت از بام کرنے سے عبارت ہے۔ کچھ لوگوں نے اپنے مفادات کے لئے اس کا استعمال دیگر مذاہب کے اکابرین اور مقدس ہستیوں کو نشانہ بنا کر کیا ہے جس کی مذمت ضروری ہے۔ (مسلمانوں کے ایک گروہ کے مطابق سلمان رشدی نے اپنے ایک ناول میں ان کی مقدس ہستیوں کی بے حرمتی کی ہے وہیں کچھ ہندؤں کے مطابق ذاکر نائیک نے ہندو دیوی دیوتاؤں کو باطل قرار دے کران کی دل آزاری کی ہے۔ ہندو معتقدین نے درست راستہ اپنایا اور ذاکر نائیک کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ چنانچہ ان دنوں ذاکر نائیک کہیں نظر نہیں آتے جبکہ مسلم لیڈران نے رشیدی کی مذکورہ حرکت کو بھی ووٹ بینک میں بدل دیا ہے۔ سلمان رشدی کے خلاف کورٹ سے رجوع کرنے کے بجائے مسلمانوں کو غیر ضروری طور پر احتجاج پر اکسایا جاتا ہے۔

انگریزی کے مشہور ناول نگار جارج آرویل نے اپنے مضمون liberty میں لکھا ہے کہ’اگر آزادی کے کوئی معنی ہیں تو وہ ان باتوں کو کہنے کا حق ہے جسے لو گ سننا نہیں چاہتے۔‘ جہاں تک گزشتہ سو برسوں کی ہماری ادبی تاریخ کا تعلق ہے، آزادی سے پہلے انگریز حکومت تحریر کی آزادی کو کنٹرول کرنے میں مستعد تھی۔اٹھارہ سو ستاون کی پہلی جنگ آزادی کے بعد اس میں شدت پیدا ہوگئی تھی۔ دوسری طرف سرسید کے اصلاحی نظریات اور اقبال کے خدا سے دوٹوک بات کرنے کے انداز سے کچھ مولوی یا مولوی ٹائپ لوگوں نے ان پر ’کافر‘ ہونے کا فتوی لگایا تھا۔ یگانہ چنگیزی کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے آج کے عہد میں مذہبی شدت پسندی بھی کہا جاسکتا ہے۔ برٹش راج میں پریم چند کے افسانوی مجموعے ’سوزِ وطن‘ کی کاپیاں ضبط کی گئی تھیں۔ ’انگارے‘کی اشاعت پر طوفان کھڑا ہوا تھا۔ دوسری طرف عصمت چغتائی کی کہانی ’لحاف‘ اور سعاد ت حسن منٹو کے متعدد افسانوں پر مقدمات چلے۔

کچھ اور واقعات بھی ہو سکتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان مقدمات کا تعلق عموماً فحاشی کے الزام سے رہا ہے یہ مفکرانہ خیالات اور اقتدار کی سفاکی کو expose کرنے کے سبب ہونے والے بھیانک حکومتی اقدام سے عبارت نہیں ہیں۔ ادب میں فحاشی کا موضوع بہت subjective نوعیت کا حامل ہے۔ ایک بات کسی کے لیے فحش، کسی کے لیے آرٹ ہوسکتی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے ایم ایف حسین کی مصوری پر لگائے جانے والے فحاشی کے الزامات پر اپنے تاریخی فیصلے کی ابتدا عظیم مصور پابلو پکاسو کے اس جملے سے کی ہے:

“Art is never chaste. It ought to be forbidden to ignorant innocents, never allowed into contact with those not sufficiently prepared. Yes, art is dangerous. Where it is chaste, it is not art.”

(’’آرٹ کبھی پاکیزہ شئے نہیں ہوتی۔ اس لیے لازم ہے کہ معصوم جاہلوں پر یہ ممنوع ہو۔آرٹ کے قریب ان لوگوں کا جانے نہ دیا جائے جو اس کے لے پوری طرح تیار نہ ہوں۔ ہاں، آرٹ خطرناک ہے، اور جہاں آرٹ پاکیزہ ہو، وہاں وہ آرٹ نہیں۔‘‘) اردو میں تحریر کی آزادی کے دفاع میں منٹو کے مضامین اور منٹو کی تحریروں کے دفاع میں لکھے گئے مضامین بہت اہم ہیں جن میں ہاجرہ مسرور،ممتاز شریں،محمد حسن عسکری اور دیگر ادیبوں کے مضامین شامل ہیں۔ اردو میں اس موضوع پر جو اہم مضامین لکھے گئے ہیں، جتنے ادیبوں، شاعروں پر فحاشی کے الزامات لگے ہیں اور جن بد نصیبوں پر مقدمات ہوئے ہیں ان کی تفصیل پر ایک جامع کتاب ’روشنی کم، تپش زیادہ‘ کے عنوان سے سنیئرپاکستانی صحافی اور کراچی پریس کلب کے سابق صدر علی اقبال نے ۲۰۱۱ میں مرتب کی ہے۔

اردو میں فحاشی کی بحث کی اٹھان بیسویں صدی کی چوتھی دہائی سے عام طور پر نظر آتی ہے ورنہ اس سے قبل اردو کی ادبی تاریخ میں طلسم ہوش ربا کا ایک بہشتی دفتر ہے جو بیان کی بے شمار حدوں سے تجاوز کرتاہے۔ اور خیال کی آزادی کے ساتھ ساتھ انسانی تصور کی رفعت کو محفوظ کرتا ہے۔ اردو کی ادبی تاریخ کے سب سے متاثر کن نقادوں میں محمد حسن عسکری کا شمار ہوتا ہے اور ان کا یہ بیان فحاشی کی بحث میں تاریخی حیثیت کا حامل ہے کہ ’’سفید رومال سے چہرہ صاف کر کے کہا جاتا ہے کہ جنس کے ذکر میں لذت کا اظہار نہ ہوناچاہئے اور نہ تر غیب کا عنصر۔ مگر مجھے اس سے اختلاف ہے کیونکہ حقائق کو بھی اس سے اختلاف ہے۔ آخر لذت سے اتنی گھبراہٹ کیوں؟ جب ہم کسی پیٹر کو،کسی کردارکے چہرے کو، اس کے کپڑوں کو، کسی سیاسی جلسے کو، مزے لے لے کر بیان کر سکتے ہیں اور تنقید اسے ایک اچھی صفت سمجھ سکتی ہے تو پھر عورت کے جسم کو یا کسی جنسی فعل کو لذت کے ساتھ بیان کرنے میں کیا بنیادی نقص ہے۔

دراصل اس اعتراض کی بنیاد وہ روایتی احساس ہے جو جسم کے بعض حصوں اور بعض جسمانی افعال سے جھجکتا ہے اور انھیں فی نفسہ گندہ اور پلید سمجھتا ہے۔ اور ان کے وجود کو، ابدی لعنت کا داغ۔‘‘(ادب و فن میں فحش کا مسئلہ) محمد حسن عسکری کا مذکورہ مضمون فحاشیت کی بحث کو آرٹ اور صنمیات کے پس منظر میں انسانی افکار سے مربوط کرتا ہے۔ اس ر شتے کو سمجھنے میں مد د گار ہے۔

ادب کے طلبہ اور ادیبوں کو اس مضمون کی روشنی میںآرٹ، جنس اور انسانی افکار کی تاریخی حقیقت کو آگے بڑھا نا چاہئے کیونکہ یہاں چند برسوں سے اردو معاشرے میں تحریر کی آزادی کو کنٹرول کرنے کا رجحان سامنے آرہا ہے۔ جس کی ایک تازہ مثال سلام بن رزاق کے افسانے ’زندگی بھی افسانہ ہے‘ پر ریاست مہاراشٹر کے شہر سولاپور میں ہونے والا احتجاج نما احتجاج اور سلام بن رزاق کو نامعلوم مقامات سے معلوم اور نا معلوم افراد کے کئے گئے فون کولز ہیں۔ ساجد رشید کے سیاسی خیالات سے اختلاف کرنے والے لوگوں نے ان پر جان لیوا حملہ کروایا تھا۔ شمس الرحمن فاروقی کے ناول پر اعتراض کرتے ہوئے اسلم غازی نے خدائی فوج دار بنتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی کو جنت سے محروم ہونے کی بشارت دینے کی کوشش کی تھی۔

مشرف عالم ذوقی کے ادبی و سیاسی موضوعات پر لکھے گئے مضامین کو جواز بنا کر ہنگامہ بپا کیا گیا تھا۔ منٹو صدی کے موقع پر کچھ لوگ سوشیل میڈیا میں منٹو اورعصمت چغتائی کے متعلق نا زیبا الفا ظ استعمال کر رہے ہیں۔ میرے پہلے ناول نخلستان کی تلاش‘ پر جاری فحاشی کا مقدمہ بالآخر دس برسوں بعد ختم ہو گیا ہے۔ دوسری طرف میرے دوسرے ناول ’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘ پر ایک اردو افسانہ نگار نے پہلے تومجھے خط لکھ کر ناول اور بیانیہ کی تعریف کی پھر چندمہنیوں بعد ا سی ناول کی زیروکس کاپیاں بنوا کر کچھ نیم سیاسی لوگوں میں تقسیم کیں۔ ان کویہ کہہ کر ورغلانا چاہا کہ ثقافتی اور لسانی سیاست پر میں نے جن باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے اس کو جواز بنا کر مجھ پر مقدمہ کیا جائے۔

میرا جی چاہتا تھا کہ میں ان سے کہہ دوں کہ اب مجھے کورٹ میں حاضری لگانے کی عادت ہے لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ کیوں کہ میں جانتا ہوں وہ صاحب بھی اتنے ضدی ہیں کہ پھر خود کو مجھ پر مقدمہ کرنے سے نہیں روک پائیں گے۔ان کے بارے میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ اگر ایک بار کچھ ٹھان لیتے ہیں (تو پھر کچھ دیر یا دنوں کے لیے) وہ اپنی بھی نہیں سنتے۔ یہاں نیشنل کونسل فار پروموشن آف اردو کے صدر بنتے ہی ارتضی کریم نے تحریر کی آزادی پر قابل مذمت حملہ کیا تھا لیکن بھارت کے اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں کے ادیبوں کے ملک گیر احتجاج نے بی جے پی حکومت کو مجبور لیا کہ وہ کریم کا غیر جمہوری فرمان واپس لے۔

مذکورہ واقعات کے باوجود اردو معاشرہ خوش نصیب ہے کہ حکومت، اقتدار اور اسٹیبلشمنٹ اردو افکار کو کنٹرول نہیں کر رہا ہے لیکن بہت ممکن ہے آنے والی دو تین دہائیوں میں یہ سلسلہ شروع ہوجائے۔ بیشتر اردو اخبارات یوں بھی سسٹم کے ایجنٹ ہیں لیکن اردو کے کالم نگار اور ادیب جو کسی حد تک آزاد ہیں اگر حکومتی پا لیسی پر تنقید کریں گے اورا گر ان کی آواز موثرہوگی تو بہت ممکن ہے ان کو بھی اورن دھتی رائے اور بنائیک سین کی طرح بہت سارے سرکاری سوالوں اوار صعبتوں سے گذرنا پڑے گا۔