منگل، 30 اکتوبر، 2018

کیا سعودی عرب امریکہ کی مجبوری بن چکا ہے؟



کیا سعودی عرب امریکہ کی مجبوری بن چکا ہے؟

سعودی ولی عہد کا گھناؤنا چہرہ 
خاشقجی قتل اور ترکی و سعودی کا بلی چوہے کا کھیل 

جوناتھن مارکس 

تجزیہ نگار ، دفاعی و سفارتی امور
سعودی صحافی جمالی خاشقجی کے قتل نے صرف سلطنتِ سعودی عربیہ اور ترکی کے تعلقات کو پیچیدہ نہیں کیا۔ یہ قتل سعودی عرب کے سیاسی اور تجارتی مغربی اتحادی ممالک کے لیے بھی ایک درد سر بن گیا ہے۔ اس نے جواں سال سعودی ولی عہد کا اصل چہرہ بھی بے نقاب کر دیا جو آنے والی کئی دہائیوں تک مشرق وسطیٰ کے اس اہم ترین ملک کی قیادت کرنے کے خواہشمند ہیں۔

امریکہ میں یہ صورت حال انہتائی گھمبیر ہے۔ جہاں ٹرمپ انتظامیہ کی دلی خواہش اس امید سے بندھی ہے کہ بہت جلد یہ معاملہ ماضی کا حصہ بن جائے گا وہیں کیپٹل ہل پر بہت سی اہم سیاسی شخصیات کی طرف سے یہ زور دیا جا رہا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کا از سر نو جائزہ لیا جانا چاہیے۔ سعودی امور کے ماہرین اور بہت سے تھنک ٹینک بھی اس خیال کے حامی ہیں۔

خاشقجی کے قتل کے محرکات اور ان کی لاش کو کیسے ٹھکانے لگایا گیا، ان تمام تفصیلات کا سامنے آنا باقی ہے لیکن اس بنیادی سوال کا جواب کہ اصل میں کس نے ان کے قتل کا حکم صادر کیا شاید کبھی نہ مل سکے۔

تمام شواہد اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ یہ حکم سعودی حکومت کی اعلیٰ ترین سطح یعنی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی طرف سے جاری کیا گیا تھا۔

سلطنت کے تمام امور محمد بن سلمان کے ہاتھ میں ہیں۔ خاشقجی کے قتل کے الزام میں گرفتار کیے جانے والے تمام افراد محمد بن سلمان کے ماتحت کام کرتے تھے اور سعودی عرب کے امور کے تمام ماہرین کا متفقہ خیال یہ ہے کہ سعودی عرب میں اگر اس کا حکم اعلیٰ ترین سطح سے جاری نہ کیا گیا ہو تو اس طرح کی واردات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

بہت کچھ اس بات سے مشروط ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کے براہ راست اس قتل میں ملوث ہونے کے کتنے شواہد موجود ہیں۔

ترکی کے پاس اس بارے میں کیا شواہد ہیں؟

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان سعودی ولی عہد سے بلی چوہے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ وہ جتنا کچھ عام کر چکے ہیں اس سے زیادہ جانتے ہیں۔ لیکن وہ کتنا کچھ جانتے ہیں اس بارے میں یقینی طور نہیں کہا جا سکتا۔

وہ اس قضیے کو طول دیے جا رہے ہیں اور بظاہر تمام قانونی راستے اختیار کر رہے ہیں لیکن دراصل وہ اس ڈرامے کا سسپینس اور محمد بن سلمان سے توجہ ہٹنے نہیں دے رہے۔

ترکی اور سعودی عرب دونوں مشرق وسطیٰ کے اہم ملک ہیں، دونوں فرقے کے لحاظ سے سنی ہیں اور دونوں مشرق وسطیٰ کے وسیع تر معمالات میں سرکردہ کردار ادا کرنے کے خواہش مند ہیں۔
مسابقت کی صورت حال کی وجہ سے ان دونوں ملکوں کے مفادات کا یکجا ہونا ممکن نہیں ہے اور اردوغان محمد بن سلمان کے لیے زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اردوغان کے لیے اس طرح سے اپنی داخلی سیاسی حمایت میں بہتری آ سکتی ہے جبکہ بیرونی طور پر واشنگٹن سے معاملات بہتر کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

چالاکی سے دباؤ بڑھانے اور درست وقت پر اس دباؤ کو ہٹا لینے سے ہو سکتا ہے ترکی کو اپنی ڈولتی ہوئی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے سعودی عرب کی طرف سے سرمایہ کاری اور مالی مدد ملے۔

امریکہ کی کیا مشکل ہے؟

لیکن امریکہ کی مشکل کچھ دوسری نوعیت کی ہے اور اسے اپنی اقدار اور اپنے مفادات میں توازن برقرار رکھنا ہے۔ واشگٹن کے لیے یہ معاملہ صرف اربوں ڈالر مالیت کے اسلحے کی فروخت کا نہیں ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کے پورے ڈھانچے کا یہ صرف ایک حصہ ہے جس کی بیناد مشرق وسطیٰ کی دفاعی اہمیت اور خطے میں استحکام برقرار رکھنے پر مشترکہ یقین اور اتفاق پر قائم ہے۔

اس رشتے میں تیل ایک اہم عنصر رہا ہے۔ اب جب کہ امریکہ کا تیل پر انحصار بہت کم ہو گیا ہے تو سعودی عرب کے تیل فراہم کرنے والے ملک کی حیثیت سے، اس کا استحکام دفاعی اور سٹریٹجک اہمیت اختیار کر گیا ہے۔

سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں بڑے اتار چڑھاؤ اور مشکلات آئی ہیں جن میں قدامت پسندانہ اور بنیاد پرستانہ اسلامی عقائد کی سعودی عرب کی طرف سے دنیا بھر میں تشہیر اور ترویج بھی شامل ہیں۔

محمد بن سلمان کے اقدامات اور ٹرمپ کی مشکلات

امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کے اتاور چڑھاؤ کے درمیان ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب کے مالک اور مختار کی صورت میں سامنے آئے جو کہ ایک لحاظ سے امریکہ کے لیے خوش کن تھا۔ سعودی عرب میں اصلاحات کرنے کے عزم نے ان کے منصوبے کے کئی منفی پہلوؤں کو چھپائے رکھا۔

لیکن یہ زیادہ دیر نہیں چل سکا۔ وہ قطر کو تنہا کرنے، لبنان کے وزیر اعظم کو یرغمال بنائے رکھنے، انسانی حقوق کے معاملے میں خام خواہ کینیڈا سے الجھ جانے اور سب سے زیادہ سنگین اقدام یمن پر فوج کشی کرنے کے ذمہ دار ہیں۔

یمن پر فوج کشی کی وجہ سے لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اس پورے ملک کو قحط کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔ واشنگٹن کے نقطہ نگاہ سے محمد بن سلمان کے اقدامات استحکام کے بجائے خطے کو بحران کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ کے لیے مشکلات اس وجہ سے بھی زیادہ سنگین ہو گئی ہیں کیونکہ اُس نے تمام انڈے محمد بن سلمان کی ٹوکری ہی میں رکھ دیے تھے۔ یہ خطے میں اپنے تین انتہائی اہم اہداف کے حصول کے لیے محمد بن سلمان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اول یہ کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کی مدد پر انحصار کر رہی ہے۔ دوئم یہ کہ مسئلہ فلسطین کے ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کے مطابق حل کے لیے بھی ٹرمپ انتظامیہ کو سعودی عرب کی حمایت درکار ہے اور سوئم یہ کہ ایران کو تنہا کرنے کے لیے بھی سعودی عرب امریکہ کے لیے انتہائی اہم ہے۔

ان تمام عوامل کی وجہ سے ٹرمپ انتظامیہ کی شدید خواہش یہ ہے کہ خاشقجی کے قتل کے معاملے سے جلد از جلد توجہ ہٹ جائے۔ اور ٹرمپ کی صدارت کے دوران سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات پر نظر ثانی نہیں کی جائے۔ لیکن اس کو اب بہت دیر تک التوا میں نہیں ڈالا جاسکتا۔

ظاہر ہے کہ اس بارے میں ٹرمپ اور کانگرس کے موقف میں اختلاف ہو گا۔ کیا سعودی عرب کوئی ایسا طریقہ اختیار کر سکتا ہے جس سے سعودی شہزادے کو کچھ روکا جا سکے۔ گزشتہ ہفتے سعودی عرب میں ہونے والی کانفرنس کی چکا چوند میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ ولی عہد محمد بن سلمان کو داخلی سطح پر کوئی مشکل درپیش ہو۔

روس کی طرف سے زور دیا جا رہا ہے کہ خاشقجی کے قتل کے بارے میں سعودی موقف کو تسلیم کر لیا جائے جس سے واضح طور پر اشارہ ملتا ہے کہ روس اپنی جگہ بنانے کی کوشش میں ہے۔ شاید وہ مستقبل میں اسلحے کے معاہدے حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتا ہو۔ ظاہر ہے صدر پوتن خطے میں اپنے ملک کے مفادات کے تحفظ کی کوشش میں ہیں۔

مغرب کے لیے اسلحے کے سودے دو دھاری تلوار کی طرح ہیں۔ اسلحے کے سودوں کی طویل المدتی معطلی مغرب کے لیے مہنگا سودا ثابت ہو گا لیکن سعودی عرب کے لیے بھی فوری طور پر امریکہ کی جگہ چین اور روس سے حاصل کردہ اسلحہ استعمال کرنا شروع کر دینا ممکن نہیں ہے۔

مغرب میں تیارہ کردہ ساز و سامان، اسلحہ اور بارود اور اس کے تربیتی ماہرین اور دفاعی مشیر ہی یمن پر سعودی فضائیہ کے ہوائی حملوں کو یقینی بنائے ہوئے ہیں۔

سعودی عرب پر دباؤ ڈالنے کے لیے مغرب کے پاس بہت سے طریقے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایسا کرنے کے لیے تیار ہے اور اس میں ٹرمپ انتظامیہ کوئی قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے راضی ہے۔

اس سلسلے میں امریکہ کے قریبی اتحادی بھی اختلاف کا شکار ہیں۔ جرمن چانسلر اینگلا مرکل سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت پر پابندی عائد کرنے والی واحد سربراہ ہیں۔ ان کے اس فیصلے پر فرانس کے صدر امینول میخوان نے کہا تھا کہ یہ محظ نعرے بازی ہے۔

جب تک امریکہ کے مغربی اتحاد میں کوئی اتفاق نہیں ہوتا اس وقت تک سعودی عرب سے رشتوں کا از سر نو جائزہ نہیں لیا جا سکتا اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک وائٹ ہاؤس میں کوئی سیاسی تبدیلی نہیں ہو جاتی۔

پیر، 29 اکتوبر، 2018

جنرل اچکزئی کا قتل اور اس کے اثرات - تحریر: سلام صابر



جنرل اچکزئی کا قتل اور اس کے اثرات


تحریر: سلام صابر 


جنرل رازق اچکزئی کے قتل کے وقتی مضمرات کا معلوم نہیں لیکن آنے والے وقتوں میں افغانستان کے جنوب غرب کے علاقوں کا امن ممکنہ طور پر مزید تہہ و بالا ہوگا، جس طرح اورزگان کے مطیع اللہ خان ایک مشکوک حملے میں جب کابل میں مارا گیا تب سے لیکر آج تک اورزگان کے شہریوں کو امن کی رات نصیب نہ ہوئی۔


روس کے انخلاء کے بعد جب افغان قبائلی و نسلی جنگجو مجاہدین و دیگر ناموں سے ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہوئے تو پورے افغانستان کو جہنم بنا کے رکھ دیا گیا، اور اسی درمیان میں کندھار سے طالبان کا ظہور ہوا، گوکہ طالبان کے نیم اقتدار سے لیکر اختتام تک انھیں مختلف علاقوں میں مختلف قبائلی و نسلی گروپوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا تھا۔


امریکہ کے افغانستان پر قبضے کے بعد کے چند سالوں یا اس سے قبل کے نزدیکی عشروں میں افغانستان کو ایک ملک یا مستحکم ریاست کے بجائے خانہ بدوشوں کا ٹھکانہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کیونکہ وطن دوستی کی نعمت سے محروم افغانستان کی اکثریتی قیادت کسی نہ کسی طرح کسی قوت کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے تھے۔


قبضہ گیر قوتوں کا ازل سے ایک ہی وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے زیر قبضہ علاقوں میں سیاسی و سماجی شعور کو پروان چڑھنے میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، اور امریکہ نے افغانستان میں بھی یہی کیا۔ مادی ترقی پر زیادہ توجہ دی گئی لیکن تعلیمی اداروں اور تعلیمی نظام کی بہتری کیلئے جو اقدامات اٹھانے کی ضرورت تھیں وہ نہ ہوسکے ۔


معیاری تعلیمی اداروں کی فقدان اور تعلیمی نظام کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر طالبان شدت پسند نوجوان نسل میں اپنی تبلیغ کو آسانی کے ساتھ پھیلا رہے ہیں، کیونکہ روزگار کے مواقع نہ ہونے کے سبب لازماً لوگ افغانستان میں جنگ جیسے منافع بخش عمل کو ترجیح دیں گے۔




اب آتے ہیں حاجی رازق کے قتل کے حوالے سے چند اہم باتوں پر غور کرتے ہیں۔ گورنر کندھار کا خالہ زاد گلبدین دو ہفتے قبل گورنر کے سیکیورٹی میں شامل ہوتا ہے، اور جس دن انتخابات کے حوالے سے نیٹو کے ساتھ مشترکہ اجلاس ہوتا ہے، اسی دن تمام اہلکاروں سے اسلحہ واپس لیا جاتا ہے۔ اجلاس ختم ہونے کے بعد نیٹو کمان ہیلی پیڈ کی طرف روانہ ہوتے ہیں اور صوبائی قیادت اسے رخصت کرنے کیلئے بھی اسی طرف جا رہے ہوتے ہیں کہ اچانک فائرنگ شروع ہوجاتا ہے۔ فائرنگ سے گورنر زخمی، اور جنرل اچکزئی و مومن حسن خیل اور حاجی سیلم جان مارے جاتے ہیں۔ کچھ دیر بعد طالبان ترجمان قاری یوسف ٹویئٹر پر اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے کہ ابو دجانہ ( گلبدین) ہمارا کارکن تھا، جس نے گورنر ہاوس میں فائرنگ کرکے معروف جنرل کو قتل کردیا۔


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی گلبدین ( ابودجانہ ) نے فائرنگ کرکے حاجی رازق سمیت دیگر کو قتل کیا تو میڈیکل رپورٹ کے مطابق جنرل اچکزئی کے جسم میں اے کے فورٹی سیون  کے گولیاں نہیں تھیں، اور اطلاعات کے مطابق گورنر کے اسکواڈ میں تمام سپاہیوں کے پاس اے کے فورٹی سیوں گن تھے۔ اور دوسرا سوال کہ اس طرح کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں سیکیورٹی کے پیش نظر سپاہیوں سے تمام اسلحہ جمع کیا گیا، تو گلبدین نے کیسے اور کس چیز سے فائرنگ کی؟


خود جنرل رازق کا اپنے قتل کی سازش کی پیشن گوئی


تین مئی دو ہزار پندرہ کو کندھار میں عبداللہ عبداللہ و دیگر اعلیٰ حکام کی موجودگی میں ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے جنرل اچکزئی نے کہا تھا کہ ان کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ خود ان کی اپنی مرکزی سرکار میں شامل چند لوگ طالبان کے ساتھ مل کر عطا نور، ظاہر قدیر سمیت مجھے قتل کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ حاجی رازق نے 2015 میں اپنے تقریر میں طالبان کے رہنما زاکر قیوم کا نام لیتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھ مل کر افغانستان امن کونسل کے ممبر ہمارے سروں کا سودا کررہے ہیں۔


زاکر قیوم جس پر خود طالبان نے جنوبی صوبے ہلمند کے ضلع موسیٰ قلعہ میں زمین کے تنازعے پر قبائلی جنگ کو ہوا دینے کا الزام لگا کر کوئٹہ میں اس کے گھر پر افغان طالبان نے دو مرتبہ چھاپہ مارکر اسے گرفتار کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے، اور آخر اپنی صفائی دے کر معافی مانگنے کے بعد آجکل گوشہ نشین ہوچکے ہیں ۔


کیا واقعی طالبان نے جنرل رازق کو قتل کیا؟

ملا عمر کی وفات کے بعد طالبان کی مرکزی قیادت کافی حد تک پشتونوں کے اسحاق زئی قبیلے کے ہاتھ میں چلا گیا ہے، اور اسحاق زئی قبیلے کا شمار افغانستان کے انتہائی ناخواندہ قبائل میں سے ایک میں ہوتا ہے، اور بعض علاقوں میں بالخصوص جنوبی افغانستان میں ان پر الزام ہے کہ وہ اپنا قبائلی بدلہ لینے کیلئے اسلامی امارات و جہاد کا سہارا لیتے ہیں۔



اس کے علاوہ آجکل طالبان بے ساختگی کا بھی شکار ہوچکے ہیں اوراکثر لوگ انھیں ایک بہتر اسلامی نظام حکومت کی خاطر جد وجہد کرنے والوں سے زیادہ ایک  سیکیورٹی کمپنی ہی سمجھتے ہیں، جو مخصوص بیرونی مفادات کی تکمیل کی خاطر اندھا دھند طریقے سے کام کررہے ہیں۔


اس کے علاوہ ایک قدرے مختلف نقطے کی جانب بھی توجہ دینا ہوگا کہ اگر کندھار گورنر ہاؤس میں ہونے والے فائرنگ کی منصوبہ بندی طالبان نے کی تھی، تو جنرل رازق کے قتل سے چار گھنٹے قبل پاکستان آرمی کے زیر اہتمام سوشل میڈیا کے ویب سائٹ فیس بک کے صفحے میں کندھار میں ایک اعلیٰ شخص کی قتل کی جانب اشارہ کیا گیا (گوکہ صفحے میں بی ایل اے کمانڈر لکھا گیا تھا)


ڈیونڈلائن اور جنرل اچکزئی

پاکستان اور افغانستان کے درمیان دیگر چھوٹے بڑے تنازعات کے علاوہ ڈیونڈ لائن کا تنازعہ قدرے بڑا تنازعہ ہے، پاکستان نے طالبان کے وقت اس متنازعہ سرحد کو مستقل سرحد تسلیم کروانے کے کافی دباؤ ڈالا لیکن ملاعمر نے صاف انداز میں کہا کہ وہ اپنی ماں ( افغانستان) کا سودا نہیں کرسکتا۔



لیکن حالیہ عرصے میں جب پاکستان نے اس متنازعہ لائن پر خار دار تار لگانے کا کام شروع کیا، تو افغان حکومت کی جانب سے کوئی خاص مذمت و مزاحمت دیکھنے میں نہیں آیا، لیکن جب کندھار صوبے سے منسلک سرحد پر پاکستان نے باڑ لگانے کا کام شروع کیا تو جنرل اچکزئی نے باقاعدہ طور پر کام کو بند کرنے کیلئے فورسز کو روانہ کیا۔




گوکہ کندھار میں موجود آرمی کور کمانڈر کو کابل سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا کہ وہ کسی بھی صورت جنرل رازق کی مدد نہ کرے۔ متنازعہ سرحد پر کام کے حوالے سے جب گورنر ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں نیٹو کمانڈر نے بات کرنے کی کوشش کی تو جنرل اچکزئی نے موقف اختیار کیا کہ یہ ہمارا اندرونی مسئلہ ہے اور اسی پہ اطلاع کے مطابق کچھ تلخ کلامی بھی ہوا تھا۔


مرکزی حکومت کے ساتھ اختلافات کے علاوہ حال ہی میں رازق اچکزئی کے اپنے سب سے بڑے حمایتی حامد کرزئی سے بھی تعلقات کچھ کچھ کشیدہ تھے۔


حامد کرزئی سے کشیدہ تعلقات کی بنیادی وجہ افغانستان اور امریکہ کے درمیان ہونے والا معاہدہ ہے، جس پر بطور صدر کرزئی نے دستخط کرنے سے انکار کیا تھا اور اشرف غنی نے صدر منتخب ہونے کے بعد معاہدے پر پہلی ہی فرصت میں دستخط کرلیا تھا۔ حال ہی میں جب طالبان کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا تو بعض حلقوں کی جانب سے معاہدے پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا گیا۔


دیگر کے ساتھ ساتھ جنرل اچکزئی نے حامد کرزئی کے موقف کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ان کیلئے سب سے زیادہ اہمیت اپنا رکھتا ہے نہ کہ کوئی شخص۔


جنرل اچکزئی کے قتل کے اثرات 

طالبان کی جائے پیدائش میں امن و امان کی صورتحال افغانستان کے دیگر جنوبی صوبوں کی نسبت قدرے بہتر رہا ہے، بقول ایک سرکردہ طالبان رہنما کے ہمارا سب سے بڑا افرادی قوت کندھار میں تھا اور سب سے زیادہ جانی نقصان بھی کندھار میں رازق اچکزئی کی فورسز سے مقابلہ کرتے ہوئے اٹھایا۔



گوکہ جنرل اچکزئی پر انسانی حقوق کی پامالیوں کا الزام بھی لگا لیکن ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ کسی خالی ہاتھ انسان کو کبھی بھی نشانہ بنانے کا حکم نہیں دیا، لیکن جو شدت پسند فورسز پر حملہ کرتے ہیں تو ان کا مقابلہ کرتے ہوئے لازماً جانی نقصان ہوتا ہے۔


جنرل اچکزئی کے قتل سے قبل اس کے دست راست کماندان جانان کو ایک مقناطیسی حملے میں نشانہ بنایا گیا، اور بعض حلقوں کی جانب سے اس تشویش کا اظہار بھی کیا گیا کہ دشمن جنرل اچکزئی کے قریب تک پہنچ چکا ہے۔


قطع نظر اس بات کہ ایک درجن سے زائد حملوں میں محفوظ رہنے کے بعد بالآخر مارا تو گیا لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ کندھار کا امن بھی آنے والے دنوں میں داؤ پر لگ جائے گا۔


اس کے علاوہ کندھار جنوبی پشتون صوبوں کا تجارتی مرکز بھی ہے اور بہت سارے افغان تاجر جو پہلے کراچی، کوئٹہ اور دیگر ممالک میں کاروبار کرتے تھے، انہوں نے اپنا کاروبار کندھار منتقل کردیا، اور حالیہ عرصے میں کندھار شہر میں بڑی تعداد میں بڑے بڑے مارکیٹوں کی تعمیراور سڑکوں پر کار گاڑیوں کا مسلسل اضافہ وہاں تجارتی سرگرمیوں کی نشانی ہے، لیکن مستقبل قریب میں اگر امن امان کی صورتحال ناگفتہ بہ ہوئی تو لازماً تجارتی سرگرمیوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہونگے۔


اور جب امن و امان کی صورت حال خراب ہوگا تو لازماً اس کے اثرات صرف کندھار تک محدود نہیں ہونگے، بلکہ کوئٹہ، پشاور و کراچی میں اس کے اثرات خطرناک حدتک پڑیں گے۔

جمعہ، 19 اکتوبر، 2018

جمال خاشقجی کا قتل - سعودی عرب پر کیا اثر پڑے گا ؟



جمال خاشقجی کا قتل - سعودی عرب پر کیا اثر پڑے گا ؟
تحریر  - ڈاکٹر آصف شاہد
سعودی عرب کے شاہ سلمان نے 2015ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد بنیادی تبدیلیاں شروع کیں۔ ناتجربہ کار اور لاڈلے شہزادے کی نائب ولی عہد اور بطور وزیرِ دفاع تقرری بھی ان میں سے ایک اہم تبدیلی تھی۔ نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے شاہی دربار کا کنٹرول کچھ ایسے ہاتھ میں لیا کہ جون 2017ء تک کے مختصر عرصے میں ولی عہدی کے ساتھ اقتصادی کونسل کے سربراہ اور ریاست کے کرتا دھرتا بن بیٹھے۔

شاہ سلمان اپنے لاڈلے کو ذمہ داریاں دے کر یوں بے فکر ہوئے کہ ان کی اقتدار سے بے دخلی تک کی افواہیں عام ہونے لگیں۔ یہاں تک کہا گیا کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنی والدہ کو بھی شاہ سلمان تک رسائی سے روک دیا ہے۔ شاہ سلمان نے دورہ امریکا کے دوران صدر اوباما کو بتایا کہ ان کی اہلیہ بیمار ہیں اور نیویارک کے ہسپتال میں داخل ہیں، بعد میں علم ہوا کہ وہ کسی اسپتال میں داخل ہیں نہ امریکا پہنچیں۔

بلاروک ٹوک طاقت و اختیار کے نشے میں محمد بن سلمان نے پہلے یمن پر جنگ مسلط کی، 2017ء میں قطر کا مقاطعہ کیا، ایران کے ساتھ پراکسی وار کو بڑھاوا دیتے ہوئے شام میں باغیوں کی مدد کی، لبنان کے وزیرِاعظم کو ریاض طلب کرکے جبری استعفیٰ لیا، کینیڈا کے ساتھ سفارتی جنگ مول لی۔ اندرونی طور پر طاقتور شہزادوں اور تجارتی شخصیات کو کرپشن کے خلاف مہم کے نام پر گرفتار کرکے بیعت لی اور سرمایہ بھی چھین لیا۔

تمام ایڈونچرز میں شہزادہ محمد بن سلمان کو کسی بھی طرف سے بڑی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ کرپشن کے خلاف مہم کو کسی حد تک باقی دنیا کے سیاست دانوں نے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا اور اس کی تعریف بھی کی گئی۔ لیکن ہر معاملے کو طاقت سے حل کرنے کے عادی شہزادے نے شاہی خاندان اور خصوصاً اپنی پالیسیوں کے ناقد صحافی جمال خاشقجی سے نمٹنے میں بنیادی غلطی کی اور یہ سمجھ لیا کہ اس بار بھی کوئی نوٹس نہیں کرے گا۔ جمال خاشقجی سعودی شاہی خاندان کے کئی رازوں کے امین تھے لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کی پالیسیوں کے ناقد اور اپنے پرانے محسنوں کے حامی بھی تھے۔

جمال خاشقجی ایامِ جوانی میں اسامہ بن لادن کے دوست تھے۔ صحافتی کیریئر کی اٹھان میں سابق سعودی انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل کے ممنون تھے۔ سعودی انٹیلی جنس کی مدد سے سی آئی اے سے اجازت لی اور افغانستان میں رپورٹنگ کرتے رہے۔ اسامہ بن لادن اور جمال خاشقجی اخوان المسلمین کے رکن تھے، اگرچہ 1990ء میں جمال کے خیالات تبدیل ہوئے اور وہ عرب دنیا میں جمہوریت اور آزادئ اظہار رائے کے حامی بن گئے۔

انیس سو پچانوے میں سوڈان میں اسامہ بن لادن کا انٹرویو کیا تو ان کے خیالات سے کھل کر اختلاف کیا۔ اسامہ نے اس ملاقات میں دعوٰی کیا کہ ان کی تحریک امریکا کو عرب دنیا سے نکال باہر کرے گی۔ جمال خاشقجی نے اسامہ بن لادن پر زور دیا کہ وہ دہشتگردی اور تشدد سے بریت کا اظہار کریں۔ جمال نے اسامہ بن لادن سے کہا کہ ان کا یہ بیان اعلانِ جنگ کے مترادف ہے اور اس اعلان سے امریکیوں کو ان کا پیچھا کرنے کا جواز مل جائے گا۔ اسامہ بن لادن نے جمال کے اصرار کے باوجود آن ریکارڈ ایسا کوئی بھی بیان دینے سے انکار کیا۔ بعد میں جمال افغان خانہ جنگی سے شدید مایوس ہوئے اور افغان جنگ کو تباہی قرار دیتے رہے۔


جمال خاشقجی، شاہ سلمان اور ان کے خاندان کے ناقد تب سے تھے جب افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد جاری تھا اور سعودی عرب بھرپور مالی مدد کر رہا تھا۔ نیویارک یونیورسٹی کے سینٹر آف انٹرنیشنل کوآپریشن کے سینئر فیلو اور افغان امور کے ماہر بارنیٹ روبن کا کہنا ہے کہ 1989ء میں جدہ میں جمال خاشقجی سے پہلی ملاقات ہوئی۔ خاشقجی نے افغانستان کے تجربات شیئر کیے۔ اُس موقعے پر بھی جمال خاشقجی نے شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز (موجودہ بادشاہ) جو اُس وقت ریاض کے گورنر تھے، پر تنقید کی کہ کس طرح وہ ایک خاص مذہبی طبقے کے مجاہدین کی مالی مدد کرکے جہاد کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

جمال خاشقجی، شاہ سلمان اور ان کے خاندان کے ناقد تب سے تھے جب افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد جاری تھا
سعودی شاہی خاندان میں جمال خاشقجی کے سرپرست شاہ فیصل کے 2 بیٹے ترکی الفیصل اور سعود الفیصل تھے۔ ترکی الفیصل سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ رہے جبکہ سعود الفیصل طویل عرصہ وزیرِ خارجہ رہے۔ دونوں بھائی سعودی شاہی خاندان کا ترقی پسند چہرہ سمجھے جاتے ہیں۔ جمال خاشقجی فیصل فیملی کے اخبار الوطن کے ایڈیٹر بھی بنے لیکن 2 ماہ بھی نہ چل پائے کیونکہ انہوں نے سعودی مذہبی قیادت پر تنقید شروع کر رکھی تھی۔ فیصل فیملی نے انہیں اخبار کی ادارت سے برطرف تو کیا لیکن ساتھ نہیں چھوڑا۔ ترکی الفیصل اس وقت لندن میں سفیر تھے، انہوں نے جمال خاشقجی کو لندن سفارتخانے میں ملازمت کی پیشکش کی۔ یہ ملازمت جمال خاشقجی کو سعودی عرب سے نکالنے کا ایک بہانہ تھا کیونکہ جمال خاشقجی کی زندگی کو ان کے خیالات کی وجہ سے خطرہ تھا۔ ترکی الفیصل لندن سے واشنگٹن سفیر بن کرگئے تو جمال کو ساتھ لے گئے۔

ترکی الفیصل واشنگٹن میں سفیر بنے تو ان سے پہلے بندر بن سلطان سفیر تھے۔ بندر بن سلطان کے سابق صدر بش کے ساتھ کافی قریبی تعلقات تھے۔ بندر بن سلطان نئے سفیر سے چھپ کر وائٹ ہاؤس میں صدر بش کو ملتے رہے جس پر دونوں شہزادوں میں کشیدگی شروع ہوئی۔ جمال خاشقجی کی ہمدردی اور وفاداری ترکی الفیصل کے ساتھ تھی۔ 2 شہزادوں میں لڑائی جمال خاشقجی کے لیے بطور ترجمان سعودی سفارتخانہ ایک بڑا امتحان بنی رہی۔

دو ہزار سات  میں ترکی الفیصل کو سفارت سے ہٹا دیا گیا۔ جمال خاشقجی ایک بار پھر سعودی عرب واپس آئے اور دوبارہ سے الوطن کے ایڈیٹر بن گئے۔ اس بار ان کی ملازمت 2010ء تک چلی اور ایک بار پھر انتہا پسند پالیسیوں پر تنقید کی پاداش میں برطرف ہوگئے۔ اس بار جمال کو ترقی پسند شہزادے ولید بن طلال نے سہارا دیا۔ ولید بن طلال نے قطر کے الجزیرہ کے مقابلے میں العرب کے نام سے ٹی وی چینل کا منصوبہ شروع کیا۔ 4 سال کی پلاننگ اور تیاری کے بعد العرب ٹی وی 2015ء میں آن ایئر ہوا۔ نشریات کے پہلے ہی دن العرب ٹی وی نے بحرین کے معروف شیعہ عالم کا انٹرویو نشر کیا جنہوں نے بحرین کی بادشاہت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور بحرین کی حکومت نے پہلے ہی دن اس ٹی وی چینل کی نشریات بند کردیں۔

جمال خاشقجی ایک بار پھر بیروزگار تھے۔ اس بار انہوں نے لندن کے عرب اخبار الحیات میں کالم لکھنا شروع کیا لیکن جنوری 2015ء ایک بار پھر ان کے لیے بُری خبر لایا۔ شاہ سلمان نے تخت سنبھال لیا اور محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد نامزد کیا۔ محمد بن سلمان نے آتے ہی شاہی دربار پر کنٹرول مضبوط بنانا شروع کیا اور اختلافِ رائے کو دبانے کا عمل بھی تیز ہوا۔

جون 2017ء میں محمد بن سلمان نے ولی عہد محمد بن نائف کو جبری برطرف کروا کر ولی عہد کا منصب سنبھالا اور نومبر 2017ء میں شہزادوں سمیت 200 اہم شخصیات کو ہوٹل رٹز کارلٹن بلا کر گرفتار کرلیا۔ جمال خاشقجی ان اقدامات کے بعد زیادہ محتاط ہوئے اور امریکا منتقل ہوگئے۔ ستمبر 2017ء میں واشنگٹن پوسٹ نے جمال کو گلوبل آن لائن ایڈیشن کے لیے مستقل کالم نگار کی ملازمت دی اور پہلے ہی کالم میں جمال خاشقجی نے اپنا سارا غصہ نکال دیا۔

جمال خاشقجی کی سعودی سفارتخانے سے گمشدگی کی خبروں کے بعد نوبل انعام یافتہ توكل كرمان‬ احتجاج کر رہی ہیں
فیصل فیملی اور ولید بن طلال کے ساتھ تعلق، وفاداری اور جمال کی آزاد سوچ شاہی خاندان کے لیے قابلِ برداشت نہ تھی۔ جمال خاشقجی ترکی میں اپنی منگیتر کے ساتھ شادی کرکے مستقل رہائش کا ارادہ رکھتے تھے اور شادی کی رجسٹریشن کے لیے انہیں سعودی سفارتخانے سے کچھ کاغذات درکار تھے۔ امریکی انٹیلی جنس نے ایک فون کال ٹریس کی جس میں سعودی حکام جمال خاشقجی کو حیلے بہانے سے وطن واپس لانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

جمال خاشقجی کو دوستوں نے سمجھایا کہ سعودی قونصل خانے نہ جائیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ قونصل خانے کے اہلکار ان جیسے عام سعودی ہیں ان سے کیا ڈرنا۔ یہی اعتماد جمال کا خون کرگیا۔ ترک میڈیا نے جمال خاشقجی کے قتل کی پوری پلاننگ، قاتل اسکواڈ کی تصویریں، آمد و رفت کا سارا انتظام اور قونصل خانے کے اندر جمال خاشقجی کے ساتھ ہونے والا سلوک شواہد کے ساتھ بیان کردیا۔

ترک زمین پر جمال خاشقجی کے قتل نے صدر طیب اردوان کو پرانے بدلے چکانے کا موقع دیا۔ صدر اردوان نے اس قتل پر خود کچھ کہنے کے بجائے میڈیا سے کام لیا۔ سعودی قاتل اسکواڈ کی تصویریں، پاسپورٹ، امیگریشن سے لے کر ہوٹل چیک ان تک، قاتل اسکواڈ کے ارکان کی شناخت اور دیگر ثبوت صدر اردوان کے قریبی تصور کیے جانے والے میڈیا ہاؤسز کو دیے گئے۔ سعودی انٹیلی جنس اور فوجی اہلکاروں کے ساتھ فرانزک چیف کی مبینہ قاتل اسکواڈ میں شمولیت نے جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی ریاست کے ملوث ہونے کے شبہات کو تقویت دی۔


صدر اردوان شام میں کرد باغیوں کو ملنے والی سعودی مدد پر ناراض ہیں۔ قطر کے مقاطعہ پر بھی اردوان اور سعودی عرب آمنے سامنے تھے۔ ایران اور شام کے معاملات پر بھی دونوں میں اختلاف ہے لیکن ترکی سعودی عرب کو اس حد تک ناراض نہیں کرنا چاہتا کہ قطع تعلق ہوجائے۔

ترکی سفارتی محاذ آرائی کا منجھا ہوا کھلاڑی ہے جو حالات کو مرضی کے مطابق بگاڑتا اور سدھارتا ہے۔ اب بھی ترکی نے جمال خاشقجی کے معاملے پر بیک وقت امریکا اور سعودی عرب کے ساتھ ڈیل کی کوشش کی ہے۔ جمال خاشقجی اپنی زندگی میں حکمرانوں کی کشمکش میں پس رہے تھے اور مرنے کے بعد بھی 3 حکومتوں میں وجہ نزاع ہیں۔

جمال خاشقجی کے قتل کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان کے مستقبل پر بھی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں
جمال خاشقجی کے قتل کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان کے مستقبل پر بھی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے بہت محنت سے خود کو اصلاح پسند کے طور پر متعارف کرایا۔ صدر ٹرمپ کے داماد اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے وائٹ ہاؤس کے مشیر جارڈ کشنر کے ساتھ دوستی کی پینگیں اس قدر بڑھائیں کہ دونوں آخری ملاقات میں ساری رات اکٹھے رہے۔ صبح 4 بجے تک مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے اپنے خیالات اور منصوبوں پر بات کرتے رہے اور جارڈ کشنر شہزادہ محمد بن سلمان سے اس قدر مانوس ہوئے کہ کلاسیفائیڈ معلومات بھی دے ڈالیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان نے قریبی رفقاء کو بتایا کہ جارڈ کشنر نے انہیں شاہ سلمان اور خود ان کے باغیوں کے نام بھی بتا دیے جو امریکی انٹیلی جنس رپورٹوں میں سامنے آئے تھے۔

امریکا اور یورپ شہزادہ محمد بن سلمان کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ برطانیہ اور دیگر یورپی ملکوں کا ردِعمل سخت ہے۔ امریکی صدر بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔ ان حالات میں اندرونِ ملک بھی محمد بن سلمان مشکلات میں گِھر سکتے ہیں۔

سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر بروس ریڈل جمال خاشقجی کے قتل سے پہلے ہی ایک کالم میں انکشاف کرچکے ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان کی جان کو خطرہ ہے اور وہ اپنی راتیں اب سمندر میں اپنی لگژری کشتی پر گزارتے ہیں جو ایک فٹ بال کے میدان سے بڑی ہے۔ بروس ریڈل کے مطابق اگر شاہ سلمان اچانک دنیا سے چلے جاتے ہیں تو شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے تخت پر پہنچنا مشکل ہوگا اور شاہی خاندان کے اندر خون خرابے کا خدشہ ہے۔

بروس ریڈل کے یہ خدشات بے بنیاد نہیں کیونکہ اس سے پہلے بھی شاہی خاندان کے افراد عہدوں اور وسائل پر دست بگریباں رہے ہیں۔ کئی شہزادے بغاوت کرکے ملک سے فرار ہوئے لیکن پُراسرار حالات میں واپس وطن لاکر غائب کردیے گئے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے پیشرو ولی عہد محمد بن نائف کو جس طرح ہٹایا اور کہا گیا کہ محمد بن نائف نشے کی لت میں مبتلا تھے، انہی حالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

محمد بن نائف بھی ہٹائے جانے سے پہلے بحیثیت وزیرِ داخلہ زیادہ تر وسائل شاہی خاندان کی جاسوسی پر خرچ کر رہے تھے لیکن محمد بن سلمان کے عزائم بھانپنے میں ناکام رہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان سابق بادشاہ عبداللہ کے بیٹوں بشمول شہزادہ متعب کو عتاب کا نشانہ بنا چکے ہیں، جنہیں تشدد اور پھر تاوان ادائیگی کے بعد رہا کیا گیا۔ شاہ فیصل کے بیٹے بھی کرپشن مہم میں نشانہ بنے اب تک صرف بندر بن سلطان ان کے عتاب سے بچے ہوئے ہیں اگرچہ امریکا اور برطانیہ سے اسلحہ خریداری میں بڑے پیمانے پر کک بیکس کا الزام عرصے سے ان کا پیچھا کر رہا ہے۔

امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات کی
شہزادہ محمد بن سلمان 33 رکنی بیعت کونسل کو بھی غیر اہم اور غیر فعال بنا کر ولی عہد بنے لیکن ان کی بادشاہت کو جواز بیعت کونسل ہی بخش سکتی ہے جس کے تمام ارکان شاہی خاندان سے ہیں۔ شاہ عبدالعزیز کے دور سے بنائی گئی بیعت کونسل کا بادشاہ پر اتفاق ضروری ہے۔ کرپشن مہم میں پکڑے گئے 3 شہزادے بیعت کونسل کے بھی رکن تھے جنہوں نے شہزادہ محمد بن سلمان کی بیعت سے انکار کیا تھا۔

شہزادہ محمد بن سلمان کو گزشتہ دنوں اپنے چند بیانات اور فیصلوں پر والد شاہ سلمان کی طرف سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت ماننے کے بارے میں شہزادہ محمد بن سلمان کے بیان نے شاہ سلمان کو چپ توڑنے پر مجبور کیا۔ محمد بن سلمان سعودی آرامکو کے 5 فیصد شیئرز مارکیٹ کرنا چاہتے ہیں۔ شیئرز نیویارک یا لندن مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کیے جانے کی کئی ڈیڈ لائنز گزر چکی ہیں اور اب یہ خبریں سامنے آئی ہیں کہ شاہ سلمان نے آرامکو کے شیئرز بیچنے کا فیصلہ منسوخ کردیا ہے۔

شہزادہ محمد بن سلمان اور جارڈ کشنر مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے جو منصوبہ بنا رہے ہیں وہ شاہ سلمان کو کسی صورت قبول نہیں۔ سعودی معیشت کا تیل پر انحصار ختم کرنے کے منصوبے میں آرامکو کے حصص کی فروخت بھی شامل ہے اور شہزادہ محمد بن سلمان اس حوالے سے بہت جذباتی ہیں لیکن شاہ سلمان کو یہ بھی قبول نہیں۔ شاہ سلمان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہ سلمان اس حوالے سے بہت حساس ہیں کہ تاریخ انہیں کن لفظوں میں یاد کرے گی۔ وہ بادشاہ جس نے آرامکو بیچ دی؟ وہ بادشاہ جس نے فلسطین کا سودا کرلیا؟ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔

موجودہ حالات میں شہزادہ محمد بن سلمان جنہوں نے فیصلہ سازی کو چند وفاداروں کے حلقے تک محدود کرلیا ہے اور مشاورت کو ناپسند کرتے ہیں جبکہ راتوں کو وزیروں کو اپنی لگژری کشتی پر بلا کر احکامات صادر کرتے ہیں، اب بھلا ایسی صورتحال میں وہ اندرونی اور بیرونی بحرانوں سے کیسے نکل پائیں گے؟

بہرحال یہ فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن جمال خاشقجی کی موت نے جس قدر نقصان محمد بن سلمان کو پہنچایا ہے اس کا اندازہ انہیں خود بھی ہوگیا ہوگا۔

شاہ سلمان سے اختلافات اور بیعت کونسل کو غیر فعال کرنا شہزادہ محمد بن سلمان کی مشکلات کو بڑھا سکتا ہے۔ سعودی عرب کا سیاسی استحکام اسی بیعت کونسل سے جڑا ہوا ہے۔ بیعت کونسل کا کمزور ہونا اور تخت کے لیے خونریزی شاہی خاندان سے زیادہ سعودی ریاست کے لیے خطرہ بنے گی۔ امریکا اور دوسری بڑی طاقتیں بھی اس سَرپھرے نوجوان شہزادے کو بادشاہ بنتا نہیں دیکھنا چاہیں گی۔

امریکا کی حکمران جماعت کے بااثر سینیٹر لنزے گراہم فوکس نیوز کے ایک پروگرام میں یہ اظہار کرچکے ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان ورلڈ لیڈر بننے کے قابل نہیں، انہیں جانا ہوگا۔ لنزے گراہم نے کہا کہ امریکا سعودی عرب کے ساتھ کم از کم اس وقت تک تجارتی روابط نہیں رکھے گا جب تک محمد بن سلمان امورِ سلطنت چلارہے ہیں۔

محمد بن سلمان نے اپنی قابلیت کے اظہار کے لیے وژن 2030ء کا اعلان کیا تھا لیکن جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ان کی سرمایہ کاری کانفرنس ناکامی سے دوچار ہوگئی ہے۔ امریکا اور یورپ کے بڑے سرمایہ کاروں اور بینکوں کے سربراہوں نے اس کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا ہے۔ سعودی تخت کے لیے خونریزی کی پیشگوئی نامناسب ہوگی لیکن بیعت کونسل ابھی سے محمد بن سلمان کی قابلیت پر شک کررہی ہے۔ بیعت کونسل کے ایک رکن نے ایک کالم نگار ڈیوڈ ایڈلمین کو بتایا کہ شہزادہ محمد بن سلمان ابھی بادشاہت کے لیے خود کو اہل ثابت نہیں کرسکے ہیں۔

اتوار، 14 اکتوبر، 2018

تین سوال ـ تحریر : لیو ٹالسٹائی



تین سوال
تحریر: لیو ٹالسٹائی : روس


ایک بادشاہ کو ایک بار یہ خیال ذہن میں درآیا کہ اگر اسے اپنے تین سوالوں کے جواب معلوم ہو جائیں تو وہ کسی معاملے میں مات نہیں کھا سکتا. اس کے تین سوال یہ تھے۔

ہر کام کے کرنے کا صحیح وقت کون سا ہے؟ 
میرے لیے سب سے اہم لوگ کون ہیں اور کون میری توجہ کا سب سے زیادہ حقدار ہے؟
سب سے ضروری چیز کیا ہے کرنے کو؟

بادشاہ نے یہ اعلانِ عام کروا دیا کہ جو بھی ان سوالوں کے اطمینان بخش جواب دے پایا اسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔

صاحبِ علم بادشاہ کے پاس جوق در جوق آنے لگے مگر کوئی بھی بادشاہ کو مطمئن نہ کر سکا۔

پہلے سوال کا جواب کچھ لوگوں کے پاس یہ تھا کسی بھی کام کو صحیح وقت پر کرنے کے لیے بادشاہ کو اپنے دنوں، مہینوں اور سالوں کو ترتیب دینا چاہیں اور اس پر سختی سے عمل کرنا چاہئے اور یہی طریقہ ہے ہر کام کو ٹھیک وقت پر کرنے کا۔
کچھ لوگوں کا دعویٰ یہ تھا کہ انسان کے لیے کسی بھی کام کے صحیح وقت کا تعین ناممکن امر ہے. بادشاہ کو ایک مشورہ یہ بھی دیا گیا کہ وہ زود رس لوگوں کی ایک جماعت ترتیب دے اور ان کے مشورے پر عمل پیرا ہو۔
ایک گروہ کا موقف یہ بھی تھا کہ کچھ معاملات عجلت میں طے کرنے کے ہوتے ہیں اور ایسی صورت حال میں کسی سے مشورے کا وقت نہیں ہوتا، اس لیے بادشاہ کو فوری طور پر ایک نجومی کی خدمات حاصل کرنی چاہیے جو قبل از وقت چیزوں کی پیشگوئی کر سکے۔

اسی طرح دوسرے سوال کے بھی کئی جواب سامنے آئے. کچھ کے خیال میں انتظامیہ سب سے اہم ہے بادشاہ کے لیے. کچھ کے خیال میں مبلغ و معلم جبکہ کچھ کا اندازہ یہ تھا کہ جنگجو سپاہی سب سے زیادہ اہم ہیں۔

بادشاہ کا آخری سوال: "کرنے کو سب سے ضروری کیا چیز ہے؟ "کچھ کا جواب تھا کہ سائنسی ترقی جبکہ کچھ کی ترجیح عبادت تھی. بادشاہ نے کسی بھی جواب سے اتفاق نہیں کیا۔
بادشاہ نے یہ فیصلہ کیاکہ وہ ان جوابات کی تلاش میں درویش کے پاس جائے گا جو اپنی فہم و فراست کے لیے مشہور تھا. درویش کا بسیرا جنگل میں تھا اور اس کی گفتگو کا دائرہ سادہ لوح لوگوں تک محدود تھا. بادشاہ نے عام لوگوں جیسا حلیہ بنایا اور اپنے محافظوں کو ایک مخصوص مقام پر چھوڑ کر اکیلا درویش کے ٹھکانے کی طرف روانہ ہو گیا۔ 

بادشاہ نے دور سے دیکھا تو درویش اپنے باغ کی مٹی نرم کر رہا تھا. بادشاہ جب پہنچا تو درویش خوشدلی سے اس سے ملا اور دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گیا. وہ کمزور اور ضعیف تھا. جب وہ اپنا بیلچہ زمین پر مارتا تو تھوڑی مٹی اکھڑتی اور وہ زور سے ہانپنے لگتا۔ 
بادشاہ نے درویش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ سے اپنے تین سوالوں کے جواب معلوم کرنے آیا ہوں. بادشاہ نے اپنے تینوں سوال درویش کے سامنے دہرائے. درویش نے بغور سننے کے بعد کوئی جواب نہ دیا اور دوبارہ مٹی نرم کرنے میں لگ گیا. بادشاہ نے درویش سے بیلچہ لیتے ہوئے کہا کہ لائیں۔۔۔ میں آپ کی مدد کر دیتا ہوں آپ خود کو نڈھال کر رہے ہیں. دو کیاریاں تیار کرنے کے بعد بادشاہ نے کام سے ہاتھ کھینچتے ہوئے اپنے سوالات دہرائے. درویش زمین سے اٹھتے ہوئے کہا کہ اب تم آرام کرو میں باقی کام کر لیتا ہوں۔ 
بادشاہ نے بیلچہ نہیں دیا اور بدستور کام میں لگا رہا. ایک گھنٹہ گزرا اور پھر ایک اور. سورج درختوں کے پیچھے ڈوبنے لگا. بادشاہ نے بیلچہ زمین پر رکھتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کے پاس میرے سوالوں کے جوابات نہیں ہیں تو میں لوٹ جاتا ہوں. 
"وہ دیکھو کوئی ہماری طرف بھاگتا ہوا آرہا ہے۔"درویش نے کہا. "آو دیکھتے ہیں کون ہے۔" 

بادشاہ نے مڑ کر دیکھا تو ایک باریش آدمی جنگل سے بھاگتا ہوا آ رہا تھا اور دونوں ہاتھوں سے پیٹ پکڑا ہوا تھا. اس کی انگلیاں خون سے لتھڑی ہوئیں تھیں. قریب پہنچتے ہی وہ بےہوش ہو کر گر گیا. وہ بالکل ساکت تھا اور کراہنے کی مدہم سی آواز آ رہی تھی۔ 
بادشاہ اور درویش نے آگے بڑھ کر دیکھا تو اس کے پیٹ پر ایک گہرا زخم تھا. بادشاہ نے اس زخم کو ممکنہ حد تک صاف کر کے مرہم پٹی کردی. جب خون بہنا بند ہوا تو باریش آدمی نے ہوش میں آتے ہی پانی مانگا. بادشاہ اس کے پینے کے لیے تازہ پانی لے آیا۔ 
اس وقت تک سورج ڈوب گیا تھا اور فضا خوشگوار ہو گئی تھی. بادشاہ نے درویش کی مدد سے اس انجان شخص کو جھونپڑی میں بستر پر لٹا دیا اور اس نے اپنی آنکھیں موند لیں۔
 
بادشاہ کام سے اتنا تھکا ہوا تھا کہ لیٹتے ہی سو گیا. وہ گرمیوں کی مختصر رات میں پرسکون سو رہا تھا. جب وہ بیدار ہوا تو وہ زخمی آدمی اپنی روشن آنکھوں سے بادشاہ کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا اور بادشاہ کو بیدار دیکھ کر فوراً اپنی نحیف آواز میں معافی طلب کرنے لگا۔
بادشاہ نے کہا کہ ہم دونوں تو بالکل اجنبی ہیں اور کس وجہ سے تم معافی مانگ رہے ہو مجھ سے۔ 

تم مجھے نہیں جانتے مگر میں تمھیں جانتا ہوں. میں تمھارا دشمن ہوں اور یہاں میں اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لینے آیا تھا. میں جانتا تھا کہ تم یہاں اکیلے ہوگے اور میں واپسی پر تمھیں قتل کردوں گا. جب پورا دن گزرنے پر بھی تم واپس نہیں آئے تو میں تمھیں تلاش کرتے ہوئے تمھارے محافظوں کے نرغے میں پھنس گیا اور انہوں نے مجھے در کر حملہ کردیا اور میں زخمی حالت میں وہاں سے بھاگ نکلا. اگر مجھے بروقت طبی امداد نہ ملتی تو میں مرجاتا. میں نے تمھارے قتل کا منصوبہ بنایا اور تم نے میری زندگی بچائی. جب تک زندہ رہوں گا تمھارا شکر گزار اور خدمت گزار رہوں گا. مجھے معاف کر دو۔ 

بادشاہ نے نہ صرف اسے معاف کر دیا بلکہ اس کی ضبط کی ہوئی جائیداد بھی واپس کر دی اور اپنے شاہی معالج کو اس کے علاج کی ذمہ داری سونپ دی۔ 

بادشاہ درویش کو دیکھنے باہر نکلا تو درویش اکڑوں بیٹھا کیاریوں میں بیج بو رہا تھا، بادشاہ نے آخری بار اپنے سوال دہرائے. درویش نے بیٹھے بیٹھے جواب دیا کہ تمھیں تمہارے جوابات مل چکے ہیں. بادشاہ نے حیرت سے استفسار کیا کہ کیسے!
درویش نے کہا کہ کیا تم نے میری کمزوری پر رحم کھاتے ہوئے میرے لیے کیاریاں نہیں کھودیں بجائے اس کے تم واپس جا کر قتل ہو جاتے. اور تم یہاں رکنے پر پچھتا رہے ہو؟ اس لیے تمھارے لیے سب سے اہم وقت وہ تھا جب تم کیاریاں کھود رہے تھے اور سب سے اہم کام اس وقت اس زخمی آدمی کی دیکھ بھال تھی ورنہ وہ تم سے صلح کیے بغیر مر جاتا. اس لئے سب سے اہم آدمی وہی تھا تمھارے لیے اور تم نے جو اس کے لیے کیا وہ سب سے اہم کام تھا۔ 

یاد رکھو، سب سے اہم وقت لمحہِ موجود ہے. یہ اس لیے اہم ہے کہ اس لمحے میں زمانہ اپنا مالک خود ہوتا ہے. سب سے اہم آدمی وہی ہے جو اس لمحہِ موجودہ میں آپ کے ساتھ موجود ہے اور سب سے اہم کام اس کے ساتھ بھلائی ہے جو انسان کو دنیا میں بھیجنے کا واحد مقصد ہے.

بلوچ سرزمین سیاسی و تذویراتی کشمکش اور سونامیوں کی زد میں



بین الاقوامی کھیل ! چین ، امریکہ ،پاکستان 

بلوچ سرزمین سیاسی و تذویراتی کشمکش اور سونامیوں کی زد میں 

بلوچ دانشور انور ساجدی کا تجزیہ : افکار پریشان ، انتظار کا انتظار 
طویل عرصے کے بعد بلکہ وزرات اعلیٰ سے سبکدوشی کے بعد ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کوئٹہ کے دفتر میں آئے ، ڈاکٹر صاحب وزارت اعلیٰ چھن جانے اور حالیہ الیکشن میں جبری شکست کے بعد ان صدمات سے نکل آئے ، لیکن ان کی جماعت بدستور صدمات سے دوچار ہے، ان کی آمد کا مقصد میرے ایک حالیہ کالم پر اعتراض اٹھانا تھا جس میں لکھا گیا تھا کہ ڈاکٹر مالک کے دور میں وفاقی حکومت نے ڈام کی زمینیں متحدہ عرب امارات کو دینے کا فیصلہ کیا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب یہ سمجھے کہ کالم میں یہ لکھا ہے کہ یہ زمینیں ڈاکٹر مالک نے دی تھیں ، تحریر میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے ، صرف یہ ذکر ہے کہ یہ ان کے دور کا واقعہ ہے جبکہ ڈاکٹر مالک کی حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ، ڈاکٹر صاحب نے اگرچہ اظہار نہیں کیا لیکن وہ بلوچستان کی انتہائی پیچیدہ پر اسرار اور محر العقول صورتحال سے پریشان اور مایوس تھے ۔

میں کافی عرصہ سے ان سے سیاسی موضوعات پر گفتگو سے گریز کرتا ہوں ، ان سے تین نسلوں کا تعلق ذاتی اور خاندانی نوعیت کا ہے لیکن وہ ڈھائی سالہ دور حکومت میں بعض اہم معاملات کے عینی شاہد ہیں ، ریکوڈک ہو کہ گوادر کی زمینوں کا لوٹ سیل سب تفصیلات ان کے سامنے گزری ہیں ، ڈاکٹر صاحب نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے گوادر کی ہزاروں ایکٹر اراضی کی سفارشی الاٹمنٹ منسوخ کرکے انہیں بچایا ، ریکوڈک کے بارے میں انہوں نے جو کہا وہ میں نے صحیح طریقے سے سنا نہیں ، انہوں نے اس بارے میں جو کچھ کیا اچھا کیا ہوگا لیکن سونے کی یہ کان وہ واحد وسیلہ ہے جسے بیچنے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ اس کے بغیر ریاست فوری طور پر معاشی دیوالیہ پن سے نہیں نکل سکتی ، ریکوڈک بیچنے اور قرضوں کے حصول کے سواء اور کوئی راستہ نہیں سعودی عرب کے مسئلہ پر چین نے اچھی خاصی گوشمالی کردی ، غیر ملکی ابلاغ نے خبر دی ہے کہ چین نے پاکستان کے اس عذر کو مسترد کردیا ہے کہ مالی زبوں حالی کی وجہ سے پاکستان 8.1بلین ڈالر کا ریلوے ٹریک نہیں بچھا سکتا ، لیکن چین کا اصرار ہے کہ یہ کام ہر قیمت پر کرنا ہوگا ۔

ایک غیر ملکی اطلاع کے مطابق بھاشا ڈیم کی تعمیر کی پیشکش پر چین نے یہ شرط پیش کی ہے کہ اگر مکمل ملکیت دی جائے تو وہ ڈیم تعمیر کردے گا  اس کا کیا مطلب ہے ؟

اگر چین ایک ایک چیز کی ملکیت طلب کرنے لگے تو پھر بچے گا کیا ، چند روز قبل چین کے سفیر نے کوئٹہ میں ایک تقریب کا انعقاد کیا جس میں تقریب کے اختتام تک مہمانوں کو کھڑا رکھا گیا ، اس سے 1757ء کی جنگ پلاسی کے بعد کلکتہ میں ہونے والی ایک تقریب کی یاد تازہ ہوگئی ، جب لارڈ کلائیوکے حکم پر راتوں رات بنگالی معتبرین کی ایک فہرست بنائی گئی ، یہ برصغیر میں انگریزوں کی بنائی گئی پہلی مصنوعی اور جعلی اشرافیہ تھی جب تقریب کا آغاز ہوا تو لارڈ صاحب کرسی پر براجمان تھے جبکہ تمام جعلی معتبرین کھڑے تھے کیونکہ انہیں بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی ، 1857کی عذر کے بعد جب پورے ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا تو کمپنی بہادر کی جگہ انگریزی سلطنت خود آگئی اور اس نے وائسرے کا تقرر کیا ، وائسرے نے ہر پروٹوکول اور ترتیب بدل دیا ، اس نے سالانہ دربار کا سلسلہ شروع کردیا ، جس میں والیان ریاست بڑے سرداروں اور فیوڈل لارڈز کو مدعو کیا جاتا تھا ، اس دربار میں بھی جعلی اشرافیہ کو بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی ، بعض لوگ تو پہلے اس شک کا اظہار کررہے ہیں کہ چین مشرق کا استعمار بن چکا ہے ، اور وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا روپ اختیار کررہا ہے یہ بات غلط ہے چین کسی کمپنی کے زریعے نہیں بلکہ براہ راست معاملات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرئے گا ، ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے سفیر کو اعلانیہ یا غیر اعلانیہ وائسرئے کا درجہ دیدے اگر چہ چین اور پاکستان ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں لیکن سی پیک سے پہلے وہ ایک دوسرے کو اتنی گہرائی سے نہیں جانتے تھے ، بھٹو نے چواین لائی سے دوستی کرکے ایک غلط نعرہ بنایا تھا کہ چین اور پاکستان کی دوستی ہمالیہ سے بلند سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے ۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب چین کی معیشت پاکستان سے کمزور تھی اور امریکہ نے چین کی جگہ فارموسا یعنی موجودہ تائیوان کو چین کا نام دے کراقوام متحدہ کا رکن بنوایا تھا ، سرمایہ دار دنیا نے چین کا مکمل بائیکاٹ کررکھا تھا ، بھٹو نے ایوب خان کو قائل کیا کہ چین کا ہاتھ پکڑا جائے ، آئندہ دہائیوں میں یہ پاکستان کیلئے ایک سودمند فیصلہ ہوگا ، واقعی ویسا ہی ہوا ،لیکن اب حالات بدل چکے ہیں ، چین کاغذپر دنیا کا نمبر دو لیکن عملاََ نمبر ایک معاشی طاقت ہے ، ساری دنیا چین کے سامنے بازیچہ اطفال ہے ، اس کا سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر امریکہ ہے ،لیکن وہ خسارے میں ہے ، چین کے زرمبادلہ کے ذخائر اتنے زیادہ زیادہ ہیں کہ اسے سمجھ میں آرہا کہ کہاں خرچ کرئے ، اور کس طرح کرئے ، بیلٹ اینڈ روڈ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ، ایشیاء اور افریقہ سے لیکر برازیل تک بے شمار ممالک میں یہ منصوبہ زیر تعمیر ہے ، پانچ براعظموں پر چین کا تجارتی غلبہ ہے وہ اپنے سرمایہ کو مسلسل توسیع دے رہا ہے ، اپنے انفراسٹرکچر کو تیزی کے ساتھ امریکہ کے برابرلارہا ہے، سینکڑوں ڈیم تعمیر کرچکا ہے ، اس کے شہر نیو یارک اور لاس اینجلس سے بڑھ کر ہیں ، سرمایہ کی زیادتی کی وجہ سے وہ اپنے پہاڑوں اور صحرا کا لینڈ اسکیپ تبدیل کررہا ہے ، سطح مرتفع تبت کا کایا پلٹ رہا ہے ، ہمالیہ کا پانی ہزار میل ٹنل ( سرنگ) کھود کر لے جارہا ہے ، مصنوعی جھیلیں بنارہا ہے ، خشک پہاڑوں پر ایک کھرب درخت لگا چکا ہے ، وہ سینکڑوں میل تک پھولوں کی کاشت کرکے اپنی سرزمین کو یورپ کا مدمقابل کھڑا کررہا ہے ،لیکن اس کی صرف ایک ہی مجبوری ہے صرف ایک ہی وہ یہ کہ بحر ہند تک پہنچنے کیلئے چین کو 12ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے ، لیکن ایک روڈ کے زریعے یہ فاصلہ سنگیاگ سے گوادر تک صرف دو ہزار میل ہے ، سنگیانگ کا علاقہ نہ صرف چین کا سب سے پسماندہ ترین علاقہ ہے بلکہ یہ کافی عرصہ شورش کا شکار ہے ، یہاں آزادی کی تحریک ایسٹ ترکمنستان موومنٹ چل رہی ہے، چین نے تحریک کا زور کم کرنے کیلئے صوبائی دارالحکومت تاریخی شہر کاشغر سے منتقل کرکے آرمچی بنایا ، جہاں ایغوروں کا داخلہ ممنوع ہے اس نے وسیع پیمانے پر مساجد اور پیش اماموں کے خلاف کارروائی کی ہے ، اور تازہ ترین خبر کے مطابق دس لاکھ مسلمانوں کو قلی کیمپوں میں بند کردیا ہے ، تمام بچوں کو والدین سے جدا کرکے انہیں مختلف علاقوں میں بھیج دیا ہے جہاں ان کے چینی نام رکھ کر انہیں پیدائشی مذہب سے بیگانہ کیا جارہا ہے ۔

 چین بیلٹ اور روڈ کے زریعے سنگیانگ کی پیداوار کو گوادر کے زریعے مارکیٹ کرنا چاہتا ہے ، لیکن چین کو ایک مختلف پاکستان سے پہلی بار واسطہ پڑا ہے ، نواز شریف نے سی پیک کے زریعے سر جھکا کر چین کی معاندانہ شرائط تسلیم کرلیں اور سی پیک کو صرف پنجاپ تک محدود کردیا ، لیکن پنجاب کی یہ ترقی پوری ریاسست کے گلے میں پڑ گئی ، سی پیک کی تمام رقم امداد نہیں قرض ہے اور یہ قرض بھاری سود پر لیا گیا ہے ، سود کی ادائیگی اس وقت واجب الادا ہے ، امریکہ آئی ایم ایف سے کہہ رہا ہے کہ وہ شرط عائد کرئے کہ نئے قرضے کو چین کے سود کی ادائیگی پر خرچ نہیں کیا جائیگا ، عجیب بات ہے کہ چین بحر ہند تک پہنچنا بھی چاہتا ہے اور وہ بھی اپنی شرائط پر، وہ گوادر میں اپنا سیکیورٹی زون بھی قائم کرنا چاہتا ہے اور اپنا آبی مستقر بھی بنانا چاہتا ہے اس کے باوجود پاکستان سے کوئی نرمی نہیں برت رہا ، حالانکہ چین کو ساؤتھ چائنا سی کے مسئلہ پر امریکہ کی سخت مزاحمت کا سامنا ء ، دونوں ممالک دنیا کے اس طویل ترین سمندری پٹی پر ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں ، بظاہر چین جیسا سود خود ملک اس پوزیشن میں نہیں کہ جنگ کرئے ، لیکن اسے جنگی صورتحال کا سامنا ہے ، امریکہ جاپان اور ساؤتھ کوریا سے مسلسل تاوان جنگ وصول کررہا ہے ، وہ ویت نام ، فلپائن کمبوڈیا اور ملائیشیا ء کو بھی تھڑی لگا رہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ مہاتیر محمد نے بیلٹ اور روڈ کا منصوبہ ترک کردیا ہے ، امریکہ پاکستان سے بھی یہی توقع رکھتا ہے ، لیکن پاکستان کا مسئلہ انڈیا ہے ، اور امریکہ پاکستان کا ہاتھ جھٹک کر انڈیا کا اسٹرٹیجک شراکت دار بن چکا ہے ، چار و ناچار پاکستان چین کا ہاتھ پکڑنے پر مجبور ہے ۔



ایک بہت بڑا بین الاقوامی کھیل کھیلا جارہا ہے ، جو ہم جیسے لوگوں کی سمجھ سے بالا تر ہے ، لیکن ایک بات سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہے کہ بلوچ سرزمین اور ساحل بہت بڑی سیاسی و تذویراتی کشمکش اور سونامیوں کی زد میں ہے ، زیرو پوائنٹ سے لیکر جیونی سے زر ادور مغربی بلوچستان کی سرحد پر آپ کھلی آنکھ سے دیکھیں تو گوادر سب ڈویژن میں ایک انچ زمین مقامی لوگوں کیلئے بچی نہیں ہے ، یہی حال اورماڑہ اور لسبیلہ کی ساحلی پٹی کا ہے ۔ 



اگر معجزوں کا دور ہوتا تو کوئی معجزہ ہی بچا سکتا تھا لیکن یہ معجزوں کا نہیں حقائق اور حقیقت پسندی کا دور ہے ، ساری آوازین معدوم

ہوگئی ہیں ، لارڈ کلائیو کی جعلی اشرافیہ دست بستہ عریضہ گزار کھڑی ہے ، بعض دفعہ بہت تنہائی محوس ہوتی ہے ، تاریک راہوں پر کامل اکیلا پن لیکن ہار نہیں ماننی ، بے شک خطرہ ڈھائی ہزار سالہ دور میں سب سے بڑا ہے ، لیکن ریت میں سر دھنسنے سے بچنا ہے ، کوئی تائید غیبی اور کوئی تائید ایزدی وارد ہوسکتی ، ایک طویل انتظار مقدر ہے ، اسی انتظار کا انتظار ہے۔ 
بشکریہ انتخاب ؛ تصویر ٹی بی پی 

پیر، 8 اکتوبر، 2018

گوریلہ جنگ اور بلوچستان کے زمینی حقائق - تحریر : یاسین عزیز



 گوریلہ جنگ  اور بلوچستان کے زمینی حقائق
تحریر  : یاسین عزیز
یہ وہ جنگی طریقہ کار ہے جو نسبتاً طاقت اور وسائل کے حوالے سے کمزور فریق اپنے طاقت وار دشمن کے خلاف استعمال میں لاتا ہے ہمارے ہاں زبان عام میں گوریلا جنگ کو چھاپہ مار جنگ کہتے ہیں اور اس جنگی طریقہ کار پر کار بند رہنے والوں کو چھاپہ مار یا گوریلا بھی کہتے ہیں ۔

گوریلا اصل میں ہسپانوی زبان کا لفظ ہے جسکے معنی چھوٹی جھڑپ یا مختصر جنگ کے ہے گوریلہ جنگ کی ایک طویل تاریخ ہے گوریلہ جنگ ہسپانوی اور فرانسیوں کے مابین 1814 میں اپنے پیدائش سے لیکر آج تک اپنے بلوغت کے سفر طے کرتا آرہا ہے گوریلہ جنگ نے جہاں دنیا کو بہت بڑے بڑے نام دئیے ہیں جن میں چی گویرا کاسترو ماؤزے تنگ عمر مختیار پربھکرن ،ماجو مدادر، کانو سینیال وغیرہ وہاں ایسے شخصیات نے گوریلہ جنگ کے بلوغت میں بھی اہم کردار ادا کیے ہیں یہ ایک جنگی طریقہ کار کاتسلسل ضرورہے مگر مکمل جنگ نہیں بولیویا میں سی آئی اے اور امریکی فوج نے اسی طریقہ کار کو اپنا کرڈاکٹرچی گویرا کی گرفتاری میں کامیابی حاصل کی امریکی فوج نے بھی چھوٹے چھوٹے گوریلہ دستے تشکیل دیکر ڈاکٹر چی گویرا کے خلاف جنگ شروع کی گوریلہ جنگ مختلف مقامات و حالات اور مختلف اوقات میں من و عن یکساں نہیں رہا ہے اسکی نوعیت حالت اور اسکے مقاصد ہمیشہ مختلف رہے ہیں ۔

بالکل اسی طرح بلوچوں میں بھی گوریلہ جنگ کی اپنی ایک الگ تاریخ ہے بالاچ گور گیج کے حوالے سے ایک تاریخ موجود ہے جسکا نام روایتی قصہ کہانیوں میں تیمور نامی فاتح کے خلاف جنگ میں بھی لیا جاتا ہے انگریزی سامراج کے خلاف گوریلہ جنگ میں طوطا شیرانی علیان لوہارانی اور خدائیداد بجارانی اور نورا مینگل جیسے شخصیات نے ایک تاریخ رقم کی ہے اور پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف آغا عبدالکریم بابونوروز بابو شیرو مری سمیت انگنت نام سامنے آتے ہیں ۔

کہتے ہیں کہ تاریخ ایک زنجیر کے مانند ہوتی ہے جسکی بہت سے کڑیاں ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں یہ سلسلہ ایک تسلسل کے ساتھ بلوچوں میں آج بھی جاری و ساری ہے کم جنگی وسائل میں طاقت وار دشمن کے خلاف چھپ کر وار کرنا چھوٹی چھوٹی لڑائیاں لڑنا ایک طویل اور صبر آزما عمل ہے اسمیں کامیابی اور ناکامی کے امکانات کو سمجھنا کافی مشکل و پیچیدہ ہوتا ہے اور اس صورت میں تو اور بھی زیادہ جب آپ ایک واحد قوم ہوکر نہیں لڑ رہے ہوتےہوں ۔

بلوچی ڈھانچہ آج بھی ساراوان جھالاون لسبیلہ خاران مکران ڈیرہ جات قلات سے قومی تشکیل کے ارتقائی مراحل سے گذر رہا ہے ہمارا موجودہ ہر لیڈر اسی تاریخی تسلسل کی دین ہے نواب خیربخش مری سردار عطا اللہ مینگل غوث بخش بزنجو یوسف عزیز مگسی کے خیالات سوچ سیاسی ضرور تھے لیکن انکے پیچھے ایک سیاسی مضبوط پلیٹ فارم نہیں تھاانکے پیچھے قبائل تھے قومی تشکیل میں ہمارے ان شخصیات کا کردار کس قدر انقلابی رہا یا ارتقاء کے رحم و کرم پر منحصر رہا یہ ایک الگ بحث ہے جو تحقیق طلب ہے۔

 بلوچستان میں نیپ بھی اسی قبائلی اتحادیہ کی مرہوںن منت رہا دنیا میں بات جہاں سیاسی پارٹی یاسیاسی تنظیم کی کیجاتی ہے تو ایک منظم سیاسی پارٹی یا تنظیم سیاسی مراحل طے کرکے ایک مقام پر مزاحمتی مسلح طریقہ کار اپنانے کا فیصلہ کرتی ہے مسلح جدوجہد بہت ہی اہم ہتھیار کے طور پر استعمال میں لایا جاتا ہے حالات ضروریات اور جدوجہد کے سیاسی تسلسل کو لیکر جو مثالیں آج تک سامنے آئے ہیں اُن میں بھی سیاسی اور مسلح جدوجہد دونوں کے رہنمائی کےلئے ایک ہی ادارہ ہواکرتاہے جو سیاسی رہنماء ادارہ کہلاتاہے ایک دو مثالیں مزاحمتی مسلح تنظیموں سے سیاسی ونگز تشکیل دینے کےسامنے آچکے ہیں جن میں قابل ذکر آئی آر اے ہے مگر وہاں بھی رہنماء ادارہ ایک ہی رہا ہے۔
 
بیان کردہ تمام صورت حال میں جو سب سے اہم نقطہ ہے وہ زمینی حقائق اور اپنے عوام کی حالت اور اپنے حقیقتوں سے مطابقت ہے
ویتنام کیوبا اور دیگر اقوام کے طرف سے لڑی جانے والے کامیاب گوریلہ جنگوں سے اگر بلوچ جنگ کا موازانہ کرنا شروع کیا جائے تو یہ ایک غیرمناسب عمل ہوگا دیکھا جائے توہمارے جدوجہد کے تاریخی تسلسل میں مضبوط منظم سیاسی پارٹی کا وجود موجود نہیں ہم قومی تشکیل کے حوالے سے کسی بھی طرح کے انقلابی مراحلے سے نہیں گذرے ہیں ہمارا تکیہ ہمارے قبائلی قوت پر رہا ہے ہمارے یہاں قبائل کے مزاج کے مطابق مزاحمتی مسلح طریقہ کار کو بروئے کارلایا گیا ہے ہم نے دشمن کے خلاف مزاحمتی گوریلہ جنگ ضرور کی ہے لیکن اپنے جنگ کو اُسکے مقصد کے حوالے سے منظم کرنے کی کوششوں سے قاصر رہے ہیں ۔

بقول صورت خان مری ہم نے حقیقی سیاسی نوعیت کے ضرورت سے پہلو بچایا ہے کیوں ؟ اس کیوں کا جواب تلاش کرنا آسان نہیں لیکن اس حقیقت کو ناسمجھنا یانظرانداز کرنا بھی بہت بڑی ناانصافی ہوگی کہ ہم میں سے ہر جہدکار اس وقت کسی نہ کسی قبیلے سے تعلق رکھتا ہے ہمارے رشتے اور روزمرہ زندگی کے مفادات اور ہمارے قومی جدوجہد کے ضروریات ہمہ وقت تبدیلی کے تقاضے کرتے ہیں تبدیلی از خود انقلاب سے تعلق رکھتا ہے سوچ میں تبدیلی کی ابتداء سے عمل کا آغاز ہوتا ہے لیکن پختگی کے مراحلے کتنے پیچیدہ اور صبر آزماء ہوتے ہیں وہ آج ترقی یافتہ اقوام کی تاریخ کو دیکھ کر سمجھا جاسکتا ہے ان اقوام کو قومیتیں بننے میں کتنا عرصہ لگا اور وہ کن کن مراحل سے گذرے یہ ہمارے لئے سمجھنا بہت ضروری ہے ۔

کہتے ہیں کہ فطری قوانین کا مجموعہ ایک ہی ہے جو انسانی سماج کے ارتقاء پر ہر جگہ ایک ہی طرح سے لاگو ہوتا ہے اگر فرق ہوتا ہے تو زمان و مکان کا مثلاً بلوچستان اور امریکہ میں ایک ہی وقت میں پیدا ہونے والے بچے ایک ہی وقت میں بلوغت کے دہلیز میں پہنچتے ہیں لیکن وہ اپنے اپنے ماحول طرززندگی آب و ہوا خوراک آسائش و مشکلات کا عکاس ہوتے ہیں ہم کہاں کھڑے ہیں مجموعی حوالے سے ہمارا شعور کس سطح پہ ہے ہمیں درپیش آس پاس کےحالات کس نوعیت کے ہیں ہمارے لوگوں کی حالت کیا ہے ہمارے سماج میں وہ جو تبدیل ہوسکتے ہیں یا ہورہے ہیں اور وہ جو فی الوقت تبدیل نہیں ہوسکتے لیکن وہ ہمارے آزادی کے خلاف نہیں اُن دونوں کےلئے الگ الگ قوانین کے ساتھ ہم کیسے ایک ساتھ چل سکتے ہیں ہم قومی آزادی کےلئے سرگرم عمل ہیں ہمارے آزادی کے حق کو تسلیم کرنے والا کوئی بھی ہو وہ ہمارا دوست ہے اور ہمارے آزادی کے خلاف ہونے والےبلوچ بھی ہمارے دشمن ہیں اور جو بلوچ ہمارے دشمن کے رضا کارانہ خدمتگار ہیں وہ بھی ہمارے دشمن ہیں اس حد تک کی سمجھ بوجھ کےبعد ہی ہم کیوبا ایسٹ تیمور ماؤزے تنگ وغیرہ کی سطح تک پہنچنے کےلئے عملی طور پرمزید سخت انقلابی جدوجہد کرنے کی ضرورت ہوگی ہم نے جب جدوجہد شروع کی تو ہم دنیا کے ان عظیم ہستیوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے ہم اپنے بارے میں بھی بہت کچھ نہیں جانتے اور سمجھتے تھے آج بھی سوال یہی ہے کہ ہم کتنا جانتےہیں ؟

توموازنہ کرنے کی میزان کے ساتھ مراحل کی پہچان ضروری ہے ہمارا سفر جاری و ساری ہے ہم مختلف مراحل سے اگر مثالی کامیابیوں کے ساتھ نہیں گذرے ہیں تو ہم رُکے بھی نہیں ہیں ہم پیچھے بھی نہیں ہٹے ہمیں اپنے تغیرات پر نظر رکھنا چاہئیے اور اپنے ہی تغیرات کے ممکنات و امکانات کو سمجھ کر کر کام کرنا چاہئیے ہمارامسلح جدوجہد نہ ہی واقعاتی سوچ سے شروع ہوا ہےاور نہ ہی صد فیصد اصولوں سے نکلا ہے قابضین کے خلاف اپنے آزادی کیلئے مزاحمتی عمل کا تسلسل ہے جو آج ایک حوصلہ افزاء اور ناقابل شکست صورت حال اختیار کر چکا ہے اسکو قومی حوالے سے منظم کرنے کی حقیقی کوششوں کی ضرورت ہے۔
 
ہم اپنے دستیاب وسائل و طاقت کو کس طرح سے ایک قومی قوت کے طور پر بروےکار لا سکتے ہیں یہ آج کا بنیادی سوال ہے۔

اتوار، 7 اکتوبر، 2018

ڈپریشن کی پہچان



ڈپریشن کی پہچان 
تحریر : محمد اقبال
ہم اداس ہوتے ہیں، شکست خوردہ محسوس کرتے ہیں، مختلف امور میں دلچسپی لینا چھوڑ دیتے ہیں اور روزمرہ سرگرمیوں سے لطف اندوز نہیں ہوتے۔ لیکن عموماً یہ عارضی ہوتا ہے۔ اگر یہ علامات زیادہ عرصہ جاری رہیں تو ہو سکتا ہے کہ (شدید) ڈپریشن ہو۔

ڈپریشن ایک ذہنی بیماری ہے جو مریض کو درد و کرب میں مبتلا کرتی ہے۔ اس سے مریض کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی زندگی گویا جہنم بن گئی ہے۔ وہ زندگی کے حسن اور رنگینیوں سے لطف اندوز نہیں ہو پاتا۔

 عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ دنیا کی سب سے عام بیماری ہے اور لوگوں کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

ادارے کے اندازے کے مطابق دنیا میں 35 کروڑ افراد اس کا شکار ہیں۔ اس بیماری کے پیدا ہونے کی دو وجوہات ہیں جو ایک دوسرے سے منسلک بھی ہو سکتی ہیں۔ ایک ماحول اور دوسرا جسم یا دماغ میں کیمیائی تبدیلیاں۔ اس بیماری کا علاج تھراپی سے بھی ہوتا ہے اور ادویات سے بھی۔ ان دونوں طریقوں کو اکٹھا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مرض کا شکار فرد سست رہتا ہے۔ وہ کام نہیں کرنا چاہتا ہے۔ وہ بہانے بازی کرتا ہے۔ دراصل اس سے ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس میں کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ مریض چاہتے ہوئے بھی کام میں دلچسپی نہیں لے پاتا۔ اس لئے اسے دوش دینا اور اس پر تلخ و ہتک آمیز فقرے کسنا زیادتی ہے،گھر کا کوئی فرد جو چند ہفتے یا چند ماہ قبل ٹھیک طرح سے ہر کام انجام دے رہا تھا، کام کرنے سے انکار کرنے لگے تو اسے ڈانٹنے اور کوسنے کی ضرورت نہیں۔ اس کی بجائے ہمدردی اور پیار سے اس کی بات اور فریاد سننی چاہی، اسے توجہ دینی چاہیے۔ اگر اس کی یہ کیفیت قدرے طویل ہو تو اسے کسی ماہر معالج کے پاس لے کر جانا چاہیے۔ کچھ لوگ ایسے مریضوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے خیالات کو قابو میں رکھیں، اس طرح وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔ لیکن شدید ڈپریشن کی صورت میں اکثر یہ ممکن نہیں ہوتا۔ جس طرح بخار کو محض سوچ سے ٹھیک نہیں کیا جا سکتا اسی طرح شدید ذہنی امراض کو مرضی سے ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔

ڈپریشن میں بہت سے خیالات کو انسان اپنے ذہن سے نہیں نکال پاتا۔ اسے بہتری اور بحالی کے لیے دوسروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا دل مضطرب ہوتا ہے۔ اس کے خیالات میں تسلسل باقی نہیں رہتا اورکیفیت میں تبدیلیاں بھی آتی رہتی ہیں۔ رشتہ داروں، عزیز و اقارب کو سمجھ لینا چاہئے کہ اسے مدد اور سہارے کے علاوہ معالج کے مشورہ اور ادویات کی ضرورت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈپریشن کے لئے دوائیاں استعمال کرنے کے بعد مریض ان کا عادی ہو جاتا ہے۔ ایسا ہو بھی سکتا ہے لیکن اچھے ماہر اول تو ایسی ادویات سے پرہیز کرتے ہیں دوم علاج اس انداز سے کرتے ہیں کہ مریض ادویات کا عادی نہ ہو۔ نیز صرف ادویات کی نہیں بالکل بیرونی ماحول کو بدلنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کام خاندان کے افراد، دوست اور اردگرد کے دوسرے افراد کر سکتے ہیں۔ بعض اوقات مریض کی حالت اتنی خراب ہو جاتی ہے کہ ادویات کے استعمال کے سوا چارہ نہیں رہتا۔

اِن دوائیوں کے استعمال سے دماغ میں کیمیائی عمل شروع ہونے سے مریض کی زندگی میں خوشی واپس لوٹنے لگتی ہے اور وہ پھر سے روزمرہ کے کاموں میں دلچسپی لینے لگتا ہے۔ اس بیماری میں موروثی، نفسیاتی، ذہنی، سماجی اور تمدنی عوامل شامل ہیں۔ مریض کے نزدیکی رشتہ داروں کو چاہئے کہ نفسیاتی صلاحیتوں کو بڑھاوا دینے میں اس کی ہر ممکن مدد کریں تاکہ وہ حالات کا مقابلہ کر سکے۔

ہفتہ، 6 اکتوبر، 2018

جھوٹ پکڑنے والا ٹیسٹ کتنا مستند ہے ؟ تحریر :گیرتھ ایونز



جھوٹ پکڑنے والا ٹیسٹ کتنا مستند ہے ؟
تحریر  :گیرتھ ایونز
_______________
امریکہ کی کیپیٹل ہل کی عمارت کے ایک کمرے میں سینیٹرز ایف بی آئی کی رپورٹ پڑھ رہے ہیں جو کہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے سپریم کورٹ کے جج کے لیے نامزد بریٹ کیونو کی مبینہ جنسی ہراس کے حوالے سے ہے۔

اس رپورٹ کے مواد کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا اور تنقید کی جا رہی ہے کہ اس تفتیش کا دائرہ کار وسیع کیا جائے۔
ان تحقیقات کے دوران بریٹ پر زور دیا جاتا رہا ہے کہ وہ پولی گراف ٹیسٹ یعنی جھوٹ پکڑنے کے امتحان سے گزریں۔ جنسی ہراس کا الزام لگانے والی خواتین میں سے ایک کرسٹین بلیسی فورڈ نے پولی گراف دیا اور سرخرو ہوئیں۔
لیکن پولی گراف ٹیسٹ کتنے صحیح ہوتے ہیں اور یہ ٹیسٹ کیسے کیے جاتے ہیں؟

پولی گراف ٹیسٹ کیا ہے؟

مختصراََ پولی گراف ٹیسٹ کسی سوال کے جواب میں مختلف جسمانی حرکات کو ریکارڈ کرتا ہے جن کو بعد میں تجزیے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں کہ آیا کوئی سچ بول رہے تھا یا جھوٹ۔
پولی گراف ٹیسٹ میں عمومی طور پر بلڈ پریشر، سانس لینے میں تبدیلی یا ہتھیلیوں پر پسینے کو ریکارڈ کرتا ہے۔

ڈاکٹر سوفی کا کہنا ہے انسانوں میں یہ تو ہوتا نہیں کہ کوئی جھوٹ بولے تو پینوکیو کی طرح اس کا ناک لمبا ہوتا جائے۔ لیکن جھوٹ بولنے سے ذہنی دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔۔۔ جھوٹ پکڑنے کی تکنیک سے انسانی نفسیاتی اور برتاؤ میں تبدیلیوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔
تو اس کا مطلب یہ ہوا پولی گراف ٹیسٹ فریب یا جھوٹ کو براہ راست نہیں پکڑتا بلکہ وہ اشارے ریکارڈ کرتا ہے جو اس طرف نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے۔
ٹیسٹ سے لی گئی معلومات کو پھر اس شخص کے حوالے سے حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ ٹیسٹ کیسے کیے جاتے ہیں؟

پولی گراف ٹیسٹ دنیا بھر میں استعمال کیے جاتے ہیں لیکن اس کی ٹیکنالوجی اور عمل کم و بیش ایک جیسا ہی ہے۔

پروفیسر ڈون گربن کا کہنا ہے اس ٹیسٹ سے قبل ایک انٹرویو میں کیا جاتا ہے جو تقریباً ایک گھنٹے کا ہوتا ہے۔ اس انٹرویو میں جس کا ٹیسٹ کیا جانا ہوتا ہے اس کی توجہ ان سوالات پر مرکوز کرائی جاتی ہے جو اس سے پوچھنے جانے ہوتے ہیں۔

اس کے بعد ایک پریکٹس ٹیسٹ کیا جاتا ہے جس میں سیدھے سوال کیے جاتے ہیں۔ اس ٹیسٹ کا مقصد اس شخص کو ذہنی سکون دینا ہوتا ہو تاکہ وہ سمجھ سکے کہ یہ ٹیسٹ کیسے کیا جائے گا۔
تمام سوالات پر اتفاق کیا جاتا ہے اور پولی گراف ٹیسٹ کے سامان کو نصب کیا جاتا ہے۔

پروفیسر گربن کا کہنا ہے ٹیسٹ میں کوئی حیران کن سوال نہیں پوچھا کیونکہ ایسا سوال ہی کسی بھی شخص کا بلڈ پریشر وغیرہ تبدیل کر سکتا ہے۔ جو سوال پوچھے ہوتے ہیں وہ اس شخص کو معلوم ہوتے ہیں۔

مشین کا سازوسامان لگایا جاتا ہے جیسے بلڈ پریشر معلوم کرنے کا آلہ، انگلیوں یا ہتھیلیوں پر الیکٹروڈز لگائے جاتے ہیں اور سینے اور پیٹ پر دو ٹیوبز لگائی جاتی ہیں۔

پروفیسر گربن کہتے ہیں کبھی انگلی پر آلہ لگایا جاتا ہے تاکہ خون کے بہاؤ کو معلوم کیا جا سکے اور کبھی کبھار کرسی پر حرکت کی نشاندہی کرنے والا آلہ لگایا جاتا ہے تاکہ اگر آپ کوئی جواب دیتے ہوئے معمولی سی بھی حرکت کرتے ہیں تو وہ معلوم ہو سکے۔

ان کا مزید کہنا ہے یہ آلات شاید 10 سے 15 منٹ تک لگائے جائیں لیکن آپ کمرے میں کم از کم دو گھنٹے تک رہتے ہیں۔

ٹیسٹ کے دوران اس شخص سے سوالات پوچھے جاتے ہیں اور پھر اہم سوالات کے وقت اس شخص کے بلڈ پریشر دیگر چیزوں کا موازنہ کرتے ہیں۔ ٹیسٹ کا اختتام ٹیسٹ کے بعد ایک اور انٹرویو سے کیا جاتا ہے جس میں وہ شخص ٹیسٹ کے دوران اپنے ردعمل کی وضاحت پیش کر سکتا ہے۔

کیا آپ دھوکہ دے سکتے ہیں؟

ماہرین کے مطابق، جی ہاں۔
پروفیسر گربن کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ پولی گراف ٹیسٹ کو ہرا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے آپ کو ٹریننگ حاصل کرنا پڑے گی۔
آپ کو ایسی ویب سائٹس ملیں گی جو آپ کو بتائیں گی کہ یہ کیسے کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ آپ جا کر پولی گراف ٹیسٹ دیں گے اور اسے ہرا دیں گے تو ایسا نہیں ہونے والا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے آرام سے بیٹھ کر ماہر ممتحن کے ساتھ مسلسل پریکٹس کی ضرورت ہے۔

لیکن جن کے پاس قابل سوال کرنے والا نہیں، ان کے لیے کون سا طریقۂ کار ہوگا؟ پروفیسر گربن کا کہنا ہے کہ آپ کو جوتے میں کیل رکھنا پڑ سکتا ہے، جس سے مثال کے طور پر اعضا میں کوئی سرگرمی یا حرکت پیدا ہو کیونکہ آپ کو سیدھا بیٹھنا ہوتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسی بہت سی ادویات ہیں جو لوگ استعمال کرتے ہیں لیکن وہ کارگر ثابت نہیں ہوتیں۔تاہم انھوں نے خبردار کیا کہ زیادہ تر ممتحن اس ٹیسٹ سے بچنے کی کسی بھی کوشش کو پکڑ لیتے ہیں۔

تو کیا یہ کام کرتا ہے؟

پولی گراف ٹیسٹ پر اس کے سنہ 1921 میں ایجاد ہوتے ہی سوالات اٹھنے لگے تھے اور اس کے نتایج کی صداقت پر اب بھی بحث ہوتی ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا بنیادی خیال ہی غلط ہے۔

پروفیسر ایلڈرٹ وریج کا جو اس موضوع پر کھل کے لکھ چکے ہیں کہنا ہے کہ 146یہ فریب کا اندازہ لگاتا ہی نہیں جو اس کا بنیادی مسئلہ ہے۔ خیال یہ ہے کہ یہ ٹیسٹ اہم سوالات کے جوابات کے دوران جھوٹ بولنے والوں میں بےچینی کو دکھاتا ہے، جبکہ سچ بولنے والوں میں نہیں۔
لیکن اس کے جواب میں کوئی ٹھوس منطق نہیں ہے۔

ڈاکٹر وین ڈر زی کہتی ہیں کہ جھوٹ پکڑنے والا ٹیسٹ چونکہ کافی پریشان کن تجربہ ہے، تو اکثر معصوم لوگ بھی مجرم دکھائی دیتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ جن لوگوں کے پولی گراف کے ذریعے ٹیسٹ ہوتے ہیں وہ کافی دباؤ محسوس کرتے ہیں۔ لہٰذا جہاں پولی گراف جھوٹ کی شناخت کرنے میں بہت اچھا ہے وہیں سچ کی شناخت کرنے میں یہ اتنا ہی اچھا نہیں۔

تاہم پروفیسر گربن کا کہنا ہے کہ بہت سی ایسی مختلف وجوہات ہیں کہ کیوں یہ ٹیسٹ غلط ہو سکتا ہے۔ ان وجوہات میں وہ سوالات شامل ہیں جنھیں انتہائی برے طریقے سے تشکیل دیا گیا ہے اور انٹرویو کرنے والے نتائج کو غلط طریقے سے دیکھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر ممتحن تربیت یافتہ ہو، اگر ٹیسٹ صحیح طریقے سے کیا گیا ہو، اور اگر مناسب کولٹی کنٹرول ہو، تو یہ ٹیسٹ کے 80 سے 90 فیصد کے درمیان صحیح ہو سکتا ہے۔

تاہم ان کے مطابق متاثرین کا انٹرویو کرنے سے الگ مسائل سامنے آتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ متاثرین کا ٹیسٹ بالکل ہی الگ چیز ہے کیونکہ جو کچھ ان سے پوچھا جاتا ہے، آپ ویسے ہی بےچینی کی امید کر سکتے ہیں۔ اس مطلب ہے کہ متاثرہ فرد، خاص طور وہ جو صدمے سے گزرا ہو، ہو سکتا ہے جھوٹ بولتا دکھائی دے کیونکہ اس میں کافی حد تک جذبات شامل ہوں گے۔