ہفتہ، 31 اگست، 2013

پروپیگنڈہ



ایک معمولی سچی خبر اگر ڈھنگ کے ساتھ پیش کی جائے 

تو وہ کئی من گھڑت خوبصورت خبروں سے زیادہ موثر ہے

............................................................................

انقلابی نظریات کے مکمل فروغ اور اشاعت کا بندوبست کیا جائے۔ پروپیگنڈہ کوششیں سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت سر انجام دی جائیں اور دو الگ الگ عملہ مقرر کیا جائے۔ ایک پوری قوم اور عوام کے لئے اور دوسرا صرف گوریلا سپاہیوں کے لئے۔ اس شعبے کے سربراہ کا فرض ہے کہ وہ دونوں حصوں میں مضبوط ربط اور تعلق قائم رکھے۔ ملکی اور قومی سطح پر یہ پروپیگنڈہ مجلوں، اخباروں، ریڈیو ، کسانوں اور مزدوروں، دشمن کے سپاہیوں کے لئے تیار کردہ کتابچوں وغیرہ کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ گوریلا حقائق وغیرہ کے متعلق بحث مباحثہ کیا جائے۔ اپنے نصب العین اور مقاصد کی تشریح کریں ،ملنے والی امداد کا ذکر کریں ،سبوتاژ کی کارروائیوں کی خبریں سنائیں، دشمن کے جرائم اور ان مجرموں کا تفصیل سے ذکر کریں۔
گوریلا علاقے میں بہترین پروپیگنڈہ کیا جا سکتا ہے۔ ریڈیو اور تحریری اطلاعات کے ساتھ ساتھ ہوائی حملوں سے تحفظ اور دشمن کی چالوں کے متعلق زبانی ہدایات دیتے رہیں۔ غیر ملکی خبررساں اداروں کو جو خبریں مہیا کی جائیں ،ان میں صرف جنگ کے متعلق اطلاعات فراہم کی گئی ہوں۔
ریڈیو پرچار کا بہترین ذریعہ ہے،جس کے ذریعے پورے ملک میں اپیلیں نشر کی جا سکتی ہیں۔ حالات اور واقعات کے متعلق وضاحتیں کی جا سکتی ہیں،سیاسی تعلیم دی جا سکتی ہے اور اس طرح آبادی پر گہرا اثر ڈالا جا سکتا ہے۔
اس کے متعلق ہمیشہ سچ بولیں اور یاد رکھیں کہ ایک معمولی سچی خبر اگر ڈھنگ کے ساتھ پیش کی جائے تو وہ کئی من گھڑت خوبصورت خبروں سے زیادہ موثر ہے۔ تمام تر جھڑپوں کی زیادہ تر خبریں ، دشمن کے ظلم و ستم کے حقائق ، گوریلا اصولوں اور گوریلا طرز کی جنگ سے متعلق ہدایات اور گوریلا رہنماؤں کی تقاریر نشر کریں۔
(ڈاکٹر چی گویرا)

بدھ، 28 اگست، 2013

یوسف عزیز مگسی کا انقلابی ورثہ


ڈاکٹر عنایت اللہ بلوچبیسویں صدی مشرق کی اقوام کی قومی بیداری، آزادی کی تحریکات اورمزاحمت سے بھر پورصدی ہے۔ اس سلسلہ میں بلوچستان کی سامراج دشمن تحریک آزادی جنوب مغربی ایشیا میں اہم اور ممتاز نظر آتی ہے۔ یہ بلوچ عوام کی تحریک نہ صرف سامراج دشمن تھی بلکہ ترقی پسند اور انسانی حقوق کی علمبر دار تھی۔ اس جدید تحریک کی بنیاد اور قیادت کا سہرا میر محمد یوسف علی خان عزیزؔ کے سر ہے۔ قبل اس کے کہ ہم یوسف عزیزؔ کا تعارف کرائیں یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم یوسف عزیزؔ کے وطن بلوچستان کا اوائل بیسویں صدی میں سیاسی جغرافیہ مختصراََ بیان کر دیں تاکہ ان کی سیاست اور ان کے نظریات کو سمجھنے میں مدد ملے۔جغرافیائی طور پر بلوچستان جنوب مغربی ایشیاء یعنی مشرق وسطیٰ کا حصہ ہے اس کی ثقافت و تمدن پر وسطی اور جنوبی ایشیاء کے اثرات بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس علاقہ میں بولی جانے والی بڑی زبانوں کا تعلق ایرانی زبانوں کے خاندان سے ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں برطانوی سامراج کا اس علاقہ میں عمل دخل شروع ہوا بلوچ عوام کی مسلح جدوجہد آزادی کودبانے میں ناکامی کے بعد برطانوی حکومت نے سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے ذریعہ اس خطہ کو انتظامی وحدت سے محروم کرنے کا فیصلہ کیا جس میں انہیں خاطر خواہ کامیابی ہوئی یوں سر زمین بلوچستان کو متعدد سیاسی آئینی حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ کچھ حصے ایرانی و افغانی شاہوں کو دیئے گئے تاکہ ان کی وفاداریوں کو تاج برطانیہ کے ساتھ پختہ کیا جاسکے۔ مشرقی بلوچستان کو مزید حصوں میں تقسیم کیا گیا تاکہ بلوچ اتحاد اور ان کی سیاسی مزاحمت کو کچلا جاسکے۔ مختصراََ مشرقی حصہ کو مندرمیں بانٹا گیا۔
۱۔ ریاست قلات:
درحقیقت یہی مرکزی بلوچستان ہے جہاں دارلسلطنت قلات (بلوچی)تھا۔ اس ریاست میں آئینی طور مندرجہ ذیل علاقہ جات تھے۔ قلات ،خاران، مکران،نوشکی، چاغی، مری،بگٹی وکھیتران قبائلی علاقہ جات، نیابت کوئٹہ و بولان اور کوہ سیلمان میں واقع بلوچ قبائلی علاقے اس ریاست کا حکمران خان قلات ہوا کرتا تھا۔
۲۔ برطانوی بلوچستان:
یہ چمن، ژوب، لورالائی ، دُکی اور دیگر پشتون قبائل علاقوں پر مشتمل تھا۔ یہ اضلاع برطانیہ نے معاہدہ گنڈمک کے تحت افغان حکمرانوں سے حاصل کیے اور یوں یہ اضلاع برطانوی ہند کا آئینی حصہ بن گئے(یاد رہے کہ ریاست قلات آئینی طور پر برطانوی ہند کا حصہ نہ تھی اوائل بیسویں صدی میں اصطلاح’’بلوچستان‘‘ کا اطلاق صرف برطانوی ہند کے صوبہ ’’برطانوی بلوچستان‘‘ پر ہوتا تھا۔ اس برطانوی بلوچستان میں متعدد بلوچ علاقوں کو ریاست قلات سے معاہدات کے تحت اجارہ پر حاصل کرکے برطانوی بلوچستان کی انتظامیہ کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔ ان علاقوں میں بلوچ قبائل علاقہ جات ، کوئٹہ، نوشکی،چاغی، بولان اور نصیر آباد کے علاقے شمار ہوتے تھے مگر آئینی طو ر یہ قلات کا حصہ شمار ہوتے تھے۔ یوں برطانوی سیاسی و انتطامی اصطلاح میں’’بلوچستان‘‘ سے صرف برطانوی بلوچستان مراد لیا جاتا تھا۔ جغرافیائی و معاشی و اقتصادی طور پر یہ دونوں خطے آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ اس لئے یہاں دخل سے قبل آئین قلات کے تحت یہاں کا آئینی و سیاسی ڈھانچہ وفاق اور کانفیڈریسی کے اصولوں پر قائم تھا۔ یہاں کی اکثر آبادی قبائل ڈھانچہ پر استوار تھی۔ تبیلہ یا تمن(ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ۱۰ ہزار کے ہیں یعنی۱۰ پر مشتمل افراد کا قبیلہ لیکن یہ اصطلاح بعد میں۱۰ ہزار سے زائد یا کم قبیلہ پر بھی استعمال ہوتی رہی ہے) اور ان کا راہنما(سردار یا تمندار) قومی اور ملکی امور میں اہم کردار ادا کرتا تھا۔
سردار کا انتخاب قبائل کے جرگہ یا مجلس میں کیا جاتا تھا لیکن برطانوی عمل دخل میں سردار کا عہدہ موروثی بنا دیا گیا اور وفادار سرداروں کو زمینیں عطا کرکے برطانوی عمل وخل میں سردار کو عہدہ موروثی بنا دیا گیا اور وفادار سرداروں کا جاگیریں عطا کرکے برطانوی عہد کے جاگیرداروں کے برابر مرتبہ دیا گیا۔ یوں بلوچ قوم کے صدیوں کی جمہوری اقدار پر چھاپہ مارا گیا۔ جس کے باعث بلوچ تمنات و قبائل نے برطانوی استعماراور سرداریت کے خلاف مسلح جدوجہد کی روایت قائم کی جس کا مقصود آزادی اور جمہوری انسانی حقوق کا تحفظ تھا۔ آزادی کی مسلح جدوجہد کو استعمار نے سازشوں، اسلحہ کی برتری، قبائلی تضادات اور معاشی پسماندگی کی بنا پر ناکام بنا دیا تھا(جنگ عظیم اوّل میں اکثر و بیشتر قبائل نے خلافت عثمانیہ کی حمایت اور اپنی مکمل آزادی کے حصول کے لئے مسلح جہاد میں شرکت کی تھی لیکن یہ جدوجہد بھی معاشی، سیاسی و دفاعی عوامل کے سازگار نہ ہونے کی وجہ سے نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی تھی۔ اس جدوجہد میں لاکھوں بلوچ شہید ہوئے یا قید کی سختیوں سے گزرے۔ ہزاروں افراد نے سویت یونین، عرب خلیج کے علاقوں، برطانوی ہند اور مشرقی افریقا کی طرف ہجرت کی تھی جس کا بلوچستان کی سیاسی و معاشی زندگی پر منفی اثر پڑا۔
ان حالات میں بلوچستان کے چند نوجوانوں نے ایک خفیہ تنظیم کا آغاز ۱۹۲۰ء میں کیا تھا۔ یہ تنظیم۱۹۲۹ء میں ایک سیاسی جماعت کی شکل میں ’’انجمن اتحاد بلوچ و بلوچستان‘‘ کے نام پر ابھری جس کی قیادت کے لئے میر محمد یوسف علی خان عزیز مگسی کا انتخاب عمل میں آیا۔ میریوسف علی خان عزیزؔ مگسی کی قیادت کا دور مئی ۱۹۳۵ ء تک محیط ہے جب وہ زلزلہ میں۳۰/۳۱ مئی کی شب شہادت سے ہمکنار ہو کر کوئٹہ میں دفن ہوئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔
یوسف عزیزؔ کی شہادت نے بلوچستان اور عالم اسلام کو ایک ایسے فرزند سے محروم کر دیا جو مفکر بھی تھا اور مردمیدان(مجاہد)بھی۔ آج بھی اہل بلوچستان ان کی وفات پر نوحہ خواں ہیں۔ ان کے بے لوث خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے کردار و افکار پر عمل پیرا ہوں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہم مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات ڈھونڈیں:
۱۔ محمد یوسف علی خان عزیزؔ کون تھے؟
۲۔ ان کے عملی زندگی کیسی تھی؟
۳۔ان کے افکار و نظریات کیا تھے؟
میر محمد یوسف علی خان بمقام جھل مگسی جنوری۱۹۰۸ء میں مگسی قبیلہ کے سردار و تمندار نواب قیصر خان کے ہاں متولد ہوئے(مگسی تُمن لدشار بلوچ قبیلہ کی شاخ ہے) محمد یوسف علی خان کی والدہ زہری قبیلہ کے سردار رسول بخش زرکزئی کی دختر نیک اختر تھیں۔زہری قبیلہ نے جنگ عظیم اوّل میں دیگر بلوچ قبائل کی طرح خلافت عثمانیہ کی حمایت میں مسلح جدوجہد میں حصہ لیا۔(سچ تو یہ ہے کہ بلوچ قبائل کی مسلح جدوجہد نے برطانوی ہند کی افواج کو عراق میں فوجی کاروائیوں کو غیر مؤثر بنا دیا تھا جس کا عثمانی افواج نے خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانیہ کے ہزاروں مسلح سپاہیوں مع برطانوی جنرل کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا تھا) جھالاوان کے ان مجاہدین کی نواب قیصر خان مگسی نے خفیہ مدد کی تھی۔
جنگ عظیم اوّل کے خاتمہ کے بعد برطانوی انتظامیہ نے اس جرم کی پاداش میں نواب قیصر خان مگسی کوبمعہ اہل خاندان برطانوی ہند کے شہر ملتان میں نظر بند کر دیا تھا۔ یوسف علی خان کی اوّلین علمی تربیت جھل مگسی میں پرائیوٹ طور پر کی گئی تھی۔ عربی و فارسی کے اساتذہ نے نہ صرف زبان و ادب بلکہ مسلم تاریخ وتمدن سے بھی ان کو آگاہی بخشی۔ انہی اساتذہ سے انہوں نے قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ قیام ملتان میں نوابزادہ محمد یوسف علی خان نے برطانوی ہند کی اور سیاسی فضا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانوی سامراج اور اس کی حکمت عملی کا مطالعہ کیا تھا نیزآپ نے برطانوی ہند کی تحریکات عدم تعاون، خلافت تحریک کے محرکات کے ساتھ ساتھ، مولانا ابوالکلام آزادو غیرہ کے افکار کا گہرامطالعہ کیا تھا جس کے اثرات نوجوان عزیز مگسیؔ کی تحرویروں اور تعلیمات میں عیاں ہیں۔
خلافت عثمانیہ کی تباہی و بربادی اور مسلح جہاد کی عارضی ناکامیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاست قلات اور اس سے منسلک علاقوں میں برطانوی استعمار نے ظلم و جبر کو تیز تر کر دیا تھا تاکہ یہاں آزادی کے تصور کا گزر بھی نہ ہونے پائے۔ اسی جبر و بربریت کے خلاف نوجوان مجاہد میر محمد یوسف علی خان نے آواز اٹھائی اور اس کا آغاز ایک اخباری مضمون بعنوان’’فریاد بلوچستان‘‘ میں کیا۔ یہ مضمون لاہور کے اخبار ’’مساوات‘‘ میں۱۹۲۹ء میں شائع ہوا تھا۔ یوسف عزیزؔ نے لکھا تھا:’’آج ساری دنیا شاہراہ ترقی پر گامزن ہے مگر بلوچ ایسے سوئے ہوئے ہیں کہ جاگناناممکن معلوم ہوتا ہے۔ بلوچوں سے ہماری مخلصانہ درخواست ہے کہ خدا کے لئے ساری دنیا کو ہنسنے کو موقع نہ دیجیے۔ یہی وقت ہے اگر اسلاف کو خون آپ میں اب تک موجزن ہے تو اٹھیے جس طرح آپ کے اسلاف اٹھا کرتے تھے۔ سیاسی غلامی کی زنجیروں کو ایک نعرہ حریت لگا کر توڑ ڈالیے اور قوموں کے لئے مشعل راہ بن جائیے۔ باہمی حسد ورقابت اور ان لغویات کی بیخ کئی کیجیئے اور صرف آتش رقابت سے اپنے سینوں کو مشتعل کیجئے کہ جنگ آزادی میں تم سے زیادہ کوئی بہادر نہ نکلے اور تم سے پہلے کوئی جام شہادت نوش نہ کرے۔ خدا کے لئے بزدلانہ اور رجعت پسندانہ ذہنیت کو مٹائیے اور دیکھے تاریخ کیا کہتی ہے۔ مادروطن کی قربانیوں سے سبق حاصل کیجئے۔‘‘
میر یوسف علی کے اس آتش بیان و انقلابی پیام نے جہاں بلوچوں میں ایک نئی روح پھونکی وہاں استعمار اور اس کے گماشتوں کو خوف اور انتقام و جبر کی طرف مائل کر دیا تھا۔ برطانوی ایجنٹ برائے گورنر جنرل و ریز یڈنٹ (AGG & Resident)نے وزیراعظم قلات(سرشمس شاہ جن کا تعلق گجرات (پنجاب) سے تھا) کو اسی نئی انقلابی صورت حال کو بروقت کچلنے کا حکم دیا۔ یوں استعمار نواز قبائلی سرداروں کی ملی بھگت سے نوابزادہ محمد یوسف علی خان پر’’تخریب کاری‘‘اور بغاوت پھیلانے کے جرم میں مقدمہ چلایا گیا۔ اس مضمون کو پڑھنا اور بلوچستان میں تقسیم کرنا خلاف قانون قرار پایا۔ نوابزادہ مگسی کو ایک سال کی قید اور دس ہزار نو سو روپے جرمانہ کی سزا دی گئی۔قارئین کے لئے یہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ سرداری و سرکاری جرگہ نے اپنے فیصلہ میں لکھا تھا کہ یوسف علی خان نے غلط، خلل انداز اور فتنہ انگیز نظریات پھیلائے ہیں اور ان جرائم کی تمام تر ذمہ داری اس کے جدید نظریات اور تعلیمات پر عائد ہوتی ہے۔ بہر حال یوسف علی نے اس سزا کا کچھ حصہ جیل اور کچھ حصہ نظر بندی کی صورت میں بمقام گٹ زہری اپنے ماموں سردار میر رسول بخش زرکزئی(زہری) کی نگرانی میں گزارا۔
اس مختصرسے مضمون پر اتنی بھاری ظالمانہ سزا سے ان مشکلات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ جو بلوچ قومی تحریک کے اولین راہنما کو درپیش تھے۔ انہی ایام میں زیر زمین سامراج دشمن تحریک’’ینگ بلوچ پارٹی‘‘ کے راہنما میر عبدالعزیز کردنے آپ سے جیل میں رابطہ قائم کیا اور گزارش کی کہ آپ بلوچ قومی تحریک کی قیادت کریں اور اس کی راہِ عمل متعین کریں جس پر بلوچ قومی تحریک عمل پیرا ہوا۔ آپ نے آزادی کے ان متوالوں کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے ایک متحدہ تنظیم اور ایک نصب العین پر یکجا ہونے کی ضرورت پر زور دیا اور یوں بلوچستان کی تاریخ اوّلین سیاسی جماعت’’انجمن اتحاد بلوچ و بلوچستان ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ آپ کو صدر منتخب کیا گیا۔
آپ بلوچی ، اردو اور فارسی میں شاعری کیا کرتے تھے۔ انقلابی شاعروں کی مانند آپ نے شاعری کو اپنے استعمار دشمن نظریات، آزادی وطن، سماجی ومعاشی انصاف، نمائندہ حکومت اور اسلام کے نظریہ عدل کے پرچار کا ذریعہ بنایا تھا۔ اتحاد پارٹی کے جنرل سیکریٹری میرعبدالعزیز کرد اور نائب صدر نوابزادہ عبدالرحمن خان بگٹی منتخب ہوئے۔ نوابزادہ بگٹی، یوسف عزیز کے قومی و اسلامی نظریات سے بے حد متاثر تھے جس کی پاداش میں ان کو اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ کے عہدہ سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ ان کے والد نواب محراب خان بگٹی نے ان کو اپنی جانشینی سے معزول کر دیا ۔ انقلابی نظریات کی بدولت ان کو بمقام رانچی(انڈیا) اور جیکب آباد میں قیدو نظربند کیا گیا۔ ان کی بجائے ان کے چھوٹے بھائی نواب محمد اکبر خان کو بگٹی قبیلہ کا سردار مقرر کیا گیا تھا۔ اتحاد پارٹی نے اپنے اولین جلسہ بمقام کوئٹہ۱۹۳۱ء میں مندرجہ ذیل لائحہ عمل کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔
۱۔ سرداری نظام کا خاتمہ
۲۔ بلوچستان کے مختلف حصوں کا اتحاد اور آئینی و جمہوری نظام کا اجراء
۳۔ بلوچستان میں تعلیم کا پھیلاؤ
۴۔ جمہوری و آئینی ذرائع کے حصول میں ناکامی کی صورت میں مسلح جدوجہد کی تیاری
۵۔ غیر استحصالی نظریات پر مبنی اسلامی معاشرہ کا قیام
ان مقاصد کے حصول کے لئے یوسف عزیز مگسی اور ان کے ساتھیوں نے برطانوی بلوچستان میں محدود قانونی رعایتوں اور ریاست قلات کے قدیم دستور میں دی گئی آئینی رعایتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بلوچوں میں سیاسی بیداری پیدا کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ آپ کی قیادت میں اتحاد پارٹی نے جیکب آباد(اصل نام خان گڑھ) میں اور حیدر آباد (سندھ) میں۱۹۳۲ء اور ۱۹۳۳ء میں’’بلوچ و بلوچستان کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا تھا۔ ان کانفرسوں میں بلوچستان اور ریاست قلات سے مختلف قومیتوں اور برطانوی ہند کے صوبہ جات(سندھ۔پنجاب وسرحد) کے بلوچ نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ ان اجلاسوں میں مندرجہ ذیل قرار داد منظور کی گئیں:
۱۔ بلوچستان کے متعدد حصوں کا اتحاد اور مکمل سیاسی آزادی کا مطالبہ
۲۔ سرداریت کا خاتمہ
۳۔ عورتوں کو اسلامی طریقہ سے میراث میں حصہ
۴۔ ڈیرہ جات و جیکب آباد کی بلوچستان میں شمولیت
۵۔ برطانوی بلوچستان کو صوبائی درجہ اور اصلاحات دیے جانے کا مطالبہ
۶۔ بلوچستان میں مفت تعلیم کا اجراء۔نئے سکولوں او ر کالج کے قیام کا مطالعہ
۷۔ ذرائع آمدورفت کی ترقی
۸۔ چھوٹی صنعتوں کا قیام
۹۔ قبائلی رسومات مثلا ولوّر اور لب پرپابندی اور کالا کالی کا خاتمہ
اس آخری مطالبہ سے مقصود عورتوں کے وقار کی بحالی اور ان کو اسلامی قوانین کے تحت حقوق و برابری دلانا مقصود تھا۔
ان قرار دادوں نے بلوچ شرکاء کانفرنس کو دو حصوں میں بانٹ دیا تھا یوں دو واضع گروہ یا مکاتیب فکر سامنے آئے۔ایک گروہ جو بلوچ سرداروں اور جاگیرداروں پر مشتمل تھا مذکورہ بالا قرار دادوں کو حکومت وقت سے محاذ آرائی سمجھتا تھا۔ اس لئے برطانوی استعمار اور اس کی انتظامیہ سے ٹکراؤ کی بجائے وفاداری اور مراعات میں یقین رکھتا تھا۔ دوسرا گروہ جو جدید نظریات کے زیر اثر تھا وہ سامراج اور سامراج دوست عناصر سے مراعات (بھیک) مانگنے کی بجائے حقوق کی بازیابی کا مطالبہ کرتا تھا۔ اس دوسرے گروہ کی قیادت یوسف عزیز مگسی اور ان کے ساتھی کر رہے تھے۔ ان کو خفیہ طور پر میر احمد یار خان(بعدازاں خانِ قلات) کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔
مکمل آزادی کے حصول کی خاطر یوسف عزیز کی قیادت میں پارٹی نے سرداریت کے خلاف عملاََ جدوجہد کا فیصلہ کیا۔ انہی کے ایما پر رئیسانی ، رند، بگٹی قبائل میں سرداریت کے خلاف پر امن تحریکوں اور ہجرت کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس محاذ کو مزید طاقتور بنانے کے لئے نوابزادہ یوسف عزیز مگسی نے محمد اقبال، مولانا ابوالکلام آزاد اور ظفر علی خان ایڈیٹر، زمیندار، لاہور سے ملاقاتیں کیں اور ان کی امداد کے طالب ہوئے تھے ۔ آپ نے برطانوی ہند کی تنظیم’’آل انڈیا مسلم کانفرنس‘‘ انجمن حمایت اسلام لاہور ، جامعہ ،دہلی سے بھی فکری رابطے استوار کیے۔ نیز آپ نے بلوچستان کے قومی پریس کی ابتدااپنے مالی وسائل سے کی۔ متعدد نوجوان(جو مدارس میں استاد ومعلم رہے تھے)نے اخبارات، البلوچ، بلوچستان اور بلوچستان جدید، الخیف وغیرہ کی ادارت سنبھال کر علمی و فکری جدوجہدکی بنیادیں رکھیں۔ یہ اخبارات یکے بعد دیگرے ضبط ہوتے رہے اور اس کے عملہ کو خوف و ہراس، مالی پریشانیوں اور سزا و عقوبت سے بھی گزرنا پڑا لیکن یوسف عزیز اور ان کے رفقاء سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔ یوسف عزیز نے متعدد نوجوانوں کو اپنے مکاتیب کے ذریعہ اس علمی، فکری اور عملی جدوجہد میں شرکت کی دعوت دی۔ برطانوی ہند کے اخبارات میں مضامین کا ایک سلسلہ بھی جاری رکھا ان کے مکاتیب اور مضامین میں اسلامی نظام عدل، عورتوں کے حقوق اور اشتراکیت وغیرہ جیسے موضوعات ہوتے تھے۔
ان اخبارات کا داخلہ بلوچستان میں اکثر و بیشتر ممنوع ہی رہا کرتا تھا۔ ان کے پڑھنے والوں کو محکمہ خفیہ اداروں کے اہلکار خوف و مصائب کا نشانہ بناتے اور نوبت جیلوں تک بھی جا پہنچتی۔ درحقیقت اس صورت حال کا اندازہ برطانوی ہند کے سیاسی کارکن نہیں کر سکتے تھے جہاں آئینی اصلاحات کے نتیجہ میں لولی و لنگڑی جمہوریت کی طرف پیش رفت جاری رہتی تھی قارئین کے لئے یہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ بلوچ کانفرنس(۱۹۳۲ء) منعقدہ جیکب آباد کے لئے نواب محراب خان تمندار بگٹی قبیلہ نے گرانقدر چندہ یوسف عزیز کو دیا تھا لیکن جب بگٹی قبیلہ کے ایک وفد نے نواب کے مظالم کے خلاف یوسف عزیز کو اپنی فریاد پہنچائی تو یوسف عزیز نے سردارانہ تعلقات کی پرواہ کیے بغیر مظلوم بگٹی قبائلیوں کی عملی حمایت کا اعلان کیا اور نواب محراب خان بگٹی کو ان کا عطا کردہ عطیہ بھی واپس کر دیا اور کہا کہ نواب بگٹی کی طرف سے یہ چندہ درحقیقت رشوت ہے تاکہ میں اور میری تنظیم مظلوم بگٹیوں کی مدد نہ کر پائیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یوسف عزیزؔ نے بلوچ قوم کی حقوق کے تحفظ و بازیابی کے لئے اپنے طبقہ(سردارو سردارخیل) سے عملاََ علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ آپ کی قیادت میں اتحا د پارٹی نے سرداروں اور سرداریت کے خلاف عملاََ جدوجہدکیا۔ یوسف عزیز کے مجاہدانہ کارناموں نے اہل بلوچستان کو یہ پیغام دیا تھا کہ جو سردارقومی مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دے سکتے وہ عوام کے ہرگز دوست نہیں اس لئے وہ ا س قابل نہیں کہ وہ ان کے(بلوچ قوم کے) قائد و رہنما بنیں۔
یوسف عزیز جہاں جدید اسلامی تعلیمات کے حامی اور بلوچستان کی آزادی کے دلدادہ تھے وہاں وہ اس امر سے بھی واقف تھے کہ غیر طبقاتی نظریات پر مبنی اسلامی ڈھانچہ تعلیم اور سیاسی تنظیم سرداریت کے خاتمے کے بغیر ناممکن ہے۔ وہ ریاستی بلوچستان میں سرداروں کے اختیارات کم کرنے اورجمہوری قدروں کے فروغ کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ جب میراحمد یارخان،خان قلات بنے تو وہ چاہتے تھے کہ ریاست میں تعلیمی و سماجی اصلاحات کی جائیں۔ خان قلات، سید جمال الدین افغانی کے افکار سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ ان کی بیگم کا تعلق افغانی کے خاندان ہی سے تھا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے سرداروں کو اپنے دارالحکومت قلات مدعو کیا اور میر محمد یوسف عزیزؔ کو بھی بحیثیت تمندار مگسی قبیلہ کے بلایا گیا۔ میر یوسف عزیز کے بقول جب وہ پاییہ تخت قلات پہنچے تو انہوں نے ریاستی بلوچستان میں جمہوریت ، تعلیم، آئین سازی وغیرہ کے قیام کا مطالبہ کیا۔ اس پر خان قلات میر احمد یار خان نے آپ سے کہا کہ وہ اپنے مطالبات کو ایک قرارداد کی صورت میں سرداری کونسل میں پیش کریں۔ یوسف عزیز نے محمد امین کھوسہ کو ایک خط میں بتاتے ہیں کہ :
’’چنانچہ بندہ نے دس پندرہ منٹ کی تقریر کے اندر اپنی تحریک کو پیش کیا۔ ختم کرتے ہی زرکزئی سردار (میر رسول بخش، جو کہ آپ کے سگے ماموں بھی تھے) اور وڈیرہ بنگلزئی(سردار نور محمد) نے بغیر کسی دلیل و حجت کے جاہلانہ طریقہ پر مخالفت کی اور پھر لہڑی سردار(نواب بہرام خان) نے تو سرے سے اسٹیٹ کونسل کی ہی مخالفت کی۔ مگر بنگلزئی سردار کی مخالفت بالکل جاہلانہ اور زور دار طریق پر تھی۔۔۔۔۔مجلس کا رنگ دیکھ کر نواب رئیسانی اور سردار شہوانی نے بھی میرا ساتھ چھوڑ دیا۔‘‘
یوسف عزیز اپنے خط میں آگے چل کر اپنے دوست محمد امین خان کھوسہ بلوچ (جیکب آباد) کو لکھتے ہیں:’’ تاہم شکر ہے کہ میں اپنے ضمیر، اپنی قوم اور غرباء کی ترجمانی کے فرض سے غافل نہیں ہوا اور وقت آئے گا کہ آپ اور آپ کی نسلیں پشیمان ہوں گی۔‘‘
ان حالات میں یوسف عزیز دل برداشتہ ہونے کی بجائے ایک مجاہدانہ عزم کے ساتھ ان نامساعد حالات کا مقابلہ کرنے کا عزم جری کرتے نظر آتے ہیں اور سرداریت کے خلاف ایک لا متناہی جنگ لڑنے کا مصمم ارادہ کرتے ہیں اور اپنے عزیز دوست میر محمد امین کھوسہ(جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالب علم تھے) کو لکھتے ہیں کہ ان کی آئندہ حکمت عملی سرداری نظام اور سرداروں کے خلاف ہوگی۔ وہ میر احمد یار خان (حکمران قلات)کی سرداریت کے خلاف آئینی اصلاحات کا ساتھ دیں گے اپنے طویل خط کے آخر میں وہ بلوچ و بلوچستان کے باشعورطبقہ کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ:
’’ اب سرداروں کو کچلنا چاہیے ان کے سُدھر نے کی امید فضول ہے۔‘‘
اب تقریباََ ایک صدی گزرجانے کے بعد بلوچستان کی سیاست یہ بتاتی ہے کہ جو لوگ سرداروں سے سماجی و تعلیمی اصلاحات اور فکر کی امید رکھتے ہیں وہ یا تو تاریخِ بلوچستان سے نابلد ہیں یا خوش فہمیوں کا شکار چلے آرہے ہیں۔ اس گزشتہ صدی نے سردار ان بلوچستان کو اقتدار کی سربلندیوں پر دیکھا ہے لیکن ان کی قوم دشمنی بلوچ قوم پر عیاں ہے۔ میر محمد یوسف عزیز کا مذکورہ پیغام آج بھی نوجوانوں کے لئے دعوتِ عمل ہے۔ اس خط میں ایک عظیم علمی سماجی، معاشی اور سیاسی انقلاب کے لئے سرداریت کو کچلنا لازمی ہوگا۔ان کوشکست فاش دینے کا ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ تعلیمی اور معاشی اصلاحات کا بھرپور نفاذ ہے۔ یوسف عزیز کے انقلابی نظریات:
بلوچستان میں مروجہ سیاسی و معاشی ڈھانچہ برطانوی استعمار اور ان کے نمائندگان (سررابرٹ سنڈیمن۔ جنرل جان جیکب سر مرویدر وغیرہ) کا مرہون منت ہے۔ یہ نظام عرف عام میں سنڈیمن سسٹم یا سرداری و تمنداری نظام یا سرداریت کے نام سے موسوم چلا آرہاہے۔ استعماری دور میں بلوچستان کے روایتی و آئینی ڈھانچہ(وفاقیت و نیم وفاقیت پرمبنی) کو معطل کرکے نیم قبائلی و نیم جاگیر داری نظام کا اجراء کیا گیا جس کا مرکزی کردار سردار یا تمنداررہا ہے۔ اس نئے نظام میں حکومت قلات اور بلوچ عوام کے اختیارات اور حقوق غصب کرنا تھا نیز بلوچ وبلوچستان کو قبائل اکائیوں میں تقسیم کرکے ان کو غلامی کی نئی بیڑیوں میں جکڑ دینا مقصود تھا تاکہ بلوچ قوم میں آزادی اور مساوات کی امنگوں کا خاتمہ اور اتحاد پارہ پارہ کر دینا تھا۔ سنڈیمن نظام نے سرداروں پر یہ ذمہ داری بھی عائد کی تھی کہ وہ جدید نظریات(اسلام کے معاشی اور جمہوری نظریات وغیرہ) کو بلوچستان میں داخل نہ ہونے دیں۔ یہی وجہ تھی کہ جدید نظریات اسلامی اقدار کی سرداروں نے بھرپور مخالفت کی تھی۔
یوسف عزیز مگسی نے جب سیاسی شعور پایا تو بلوچستان و بلوچ قبائل کا سیاسی و معاشی ڈھانچہ جس کی بنیادیں حکمران بلوچستان پر نصیر خان نوری (۱۷۹۴وفات) نے استوارکی تھیں سرداروں اور استعمار کی ملی بھگت سے تباہ کردیا تھا۔ یوسف عزیز سامراجیت اور سرداریت کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ سماجی و معاشی انقلاب کے بغیر سیاسی آزادی بے معنی ہو کررہ جائے گی اس لئے انہوں نے اسلام کی معاشی مساوات اور استعمار دشمنی کا نعرہ بلندکیا۔ان کی نظریں دیکھ رہی تھیں کہ وطن کی سیاسی آزادی کا تمام تر فائدہ قبائلی سرداروں، جاگیرداروں اور نئی ابھرتی ہوئی پیٹی بورژواژی کو پہنچے گا اور بلوچستان کے کچلے ہوئے طبقات(ماہی گیر، کسان، خانہ بدوش اور قبائل وغیرہ بلوچستان کے اقتدار اعلیٰ کے اصل مالک ہیں) سے محروم کر دیے جائیں گے۔ اس لئے یوسف عزیز نے اسلامی اشتراکیت کو بلوچستان میں انقلاب کی اساس و منزل قرار دیا تھا۔یقینایوسف کا نظریہ، اسلام کے اشتراکی اصولوں پر مبنی تھا۔ یوسف عزیز قرآنی تعلیمات اور محبت رسولؐ میں سرشار تھے۔ وہ الہندکی بورژوا قوم پرستی، ذات پات کا نظام اور مذہبی فرقہ واریت سے ازحد متنفرتھے۔
کانگریس کی جمہوری تحریک کو ہندوستان کے بالائی طبقات کے لئے سودمند دیکھتے تھے۔ آپ نے بلوچ قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
’’ ہمیں اصلاحات، کونسل، گورنری صوبہ کیا فائدہ دیں گے۔ علاوہ اس کے کہ غیر ملکی سرمایہ داروں کی جگہ ملکی سرمایہ دارہوں گے۔ ۹۰ فیصد بلوچستان کی غریب آبادی کے لئے سوراج(آزادی) تب ہوگا جب وہ لوٹ سے بچیں گے۔‘‘
اپنی وفات سے چند ماہ قبل اپنے ایک دوست (جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم پار ہے تھے) محمد امین کھوسہ کو لکھا تھا کہ اشتراکیت ہی کچلے ہوئے طبقات کے مسائل کاحل ہے۔ وہ اشتراکیت کے جدید مفکرین کارل مارکس اور لینن کے افکار کی تعریف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ امین کھوسہ کولکھتے ہیں:
’’پیارے وطن کے نوجوان بھائی۔ اللہ آپ کو جلدی(تعلیم سے) فارغ کر کے اچھے کام (یعنی قومی تحریک) میں مصروف کرے۔ میں اپ کو ذیل کا ایک مشورہ ضرور غرض کروں گا۔ اگر آپ نے مانا تو میں بہت مشکور ہوں گا۔ کارل مارکس کی تصنیفThe Capitalاور ’’دنیا کے دس ہلاکت آفرین دن‘‘جو انگریزی میں ہے اور ایک سیاح کے قلم کی لکھی ہوئی ہے۔ ان کو ضرور دیکھیں۔ اگرچہ مجھے احساس ہے کہ آپ میں فطر تا بغیر کسی تقلید کے ایک مادہ اشتراکیت ہے اور غریبوں ، کسانوں، مزدوروں کے لئے لڑنے والا دل بھی۔‘‘
آپ کی ایک فارسی نظم’’ آہ افغان سرداران بنام سرکارِ برطانیہ‘‘ ہے۔ اس نظم میں سرداران بلوچستان، برطانوی ایجنٹ ٹو گورنر جنرل(A.G.G)اور ریزیڈنٹ برائے بلوچستان کیڑ کے حضور فریاد رساں ہیں اور یوسف عزیز مگسی پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ شخص(یوسف مگسی ) آقاوغلام کی تمیز روا نہیں رکھتابلکہ آقا و بندہ کے درمیان مساوات کا حامی ہے۔ ایسا شخص جو کہ ہمارے حقوق(سرداریت) کا جانی دشمن ہے وہ یقیناًبرطانیہ کا بھی دوست نہیں۔ ہم برطانوی سرکار کے دست و بازو ہیں اس لئے ہمارا وقار اور سرکار انگلیسہ کی شان و شوکت لازم و ملزم ہیں ۔آپ سب کے منصف ہیں اور انصاف کا تقاضایہ ہے کہ آپ یوسف سے سرداری کا منصب چھین لیں اور اس کی خوفناک جماعت (انجمن اتحاد بلوچ و بلوچستان) کو منتشر کر دیں۔ وہ اس ملک میں اصول اشتراکیت کا نقیب ہے۔ اس نے اپنے طبقہ سے ناطہ توڑ کرکے مفلوک الحال بلوچ عوام سے ناطہ قائم کر لیا ہے۔ یہ فریاد ان الفاظ پر ختم ہوتی ہے۔
’’یہ انہی کا مقلد ہے۔ اس کے نظریات کی نشر و اشاعت بلوچ نوجوانوں میں کرتا ہے اگر یہ شخص(یوسف عزیز) آزاد چھوڑ دیا گیا تو نہ صرف یہ اور اس کا گروہ ہمارے اقتدار(سرداری نظام)کا خاتمہ کردے گا بلکہ اس کا گروہ (انجمن اتحاد.....) برطانوی اقتدار کا بھی خاتمہ کر دے گا۔‘‘
کسانوں اور مزدوروں کے لئے یوسف عزیز نے احباب کو متوجہ کیا اور اپنے ایک دوست کو ’’بلوچستان مزدور پارٹی‘‘ کے قیام کی تجویز دی۔حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اقبال کی طرح کارل مارکس اور لینن کے اقتصادی و سیاسی انقلاب سے متاثر تھا(یادرہے کہ حضرت عمرؓ تک ارضیات اُمہ کی ملکیت کی پیداوارہے جس کی ابتداء اموی جاگیردارانہ خلافت سے شروع ہوئی تھی جس نے اسلام کے نظام عدل کو مختلف تا ویلات کی مدد سے ذبح کر دیا تھا) اقبال کی طرح مگسی اسلام کے عادلانہ معاشی و سماجی انصاف کی تلاش میں نظر آتاہے۔ اس موضوع پر مگسی نے اپنے دوست و احباب کو خطوط لکھے اور اپنے نقطہ نظر کی ترویج کے لئے مضامین بھی لکھے جن کواس مختصر مضمون میں پیش کرناازحد مشکل کام ہے۔
اس مضمون کے آخر میں حقوق نسواں کے حوالہ سے یوسف مگسی کے نظریات کو جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ یوسف عزیز اس بات سے کما حقہ واقف تھے کہ عورت کے حقوق تسلیم کیے بغیر بلوچستان میں سماجی و معاشی انقلاب برپا نہیں کیا جاسکتا۔ یاد رہے کہ بلوچ خاتون بہت ہی بے کس اور مجبور خاتون ہے وہ نیم جاگیرداری اور نیم قبائلی نظام کے ظلم کا شکار چلی آرہی ہے۔ ا س مظلوم عورت کو جو حقوق اسلام اور قدیم بلوچی دستور نے عطا کیے تھے وہ عرصہ دو صدی سے رواج کے نام پر چھین لیے گئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تاریخ بلوچستان میں احترام نسواں کا یہ عالم رہا ہے کہ اگر کوئی مظلوم یا مسافر ایک عورت سے پناہ مانگ لیتا تھا تو وہ تمام قبیلہ یا قوم کی سماجی ذمہ داری میں آجاتا تھا ۔ اسی طرح خانہ جنگیوں میں اگر عورت گزارش لے کر اپنے دشمن قبیلہ کے پاس جاتی تو اس کو بلوچی آئین کے تحت رد کرنا نا ممکن تھا۔ قدیم بلوچی شاعری سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچ خواتین نے اہم فیصلوں کے لئے ’’ بلوچ مجلس یا جرگہ‘‘ میں مردوں کے برابر اپنی آراء کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح میدان جنگ میں بلوچ خواتین قائد بھی نظر آتی ہیں۔ مثلاََ بلوچی شاعری سے پتہ چلتا ہے کہ رسم کالاکالی(کاراکاری) کا بلوچ قبائل میں کوئی رواج نہ تھا لیکن جیسے ہی بلوچ قبائل جاگیر داری نظام کے زیر اثر آئے تو عورت، مرد کی ملکیت قرار پائی۔ معمولی شک یا اس سے چھٹکارا پانے کے لئے یا اس کی جائیداد ہتھیانے کے لئے اس پر سیاہ کاری کا الزام لگا کر نجات پائی جانے لگی۔
ماضی قریب میں درجنوں عورتیں اس ظلم کی بھینٹ چڑھ گئیں بلکہ بلوچی دستور کے تحت اس ظلم سے بچنے کے لئے جب انہوں نے سرداروں کے ہاں پناہ لی تو ان خواتین کو بلوچی دستور کے خلاف سرداروں نے بیچ ڈالا۔ اس طرح کے واقعات سن کر یوسف عزیز سرداریت و ملائیت کے خلاف سراپااحتجاج بن گئے۔ وہ ملائیت، قبائلیت اور ظالمانہ رسم رواج کے مخالف اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حقوق نسواں کے داعی تھے۔ لندن سے اوائل ۱۹۳۵ء میں اپنے ذاتی دوست اور سیاسی رفیق محمد امین کھوسہ کو لکھتے ہیں:
’’........تمھاری بربادی کا باعث انگریز نہیں بلکہ تمہارے دراز ری مذہب فروش باشندے ہیں۔ کم بختوں نے مذہب جیسی بلند تخلیق کو دنیا کا بدترین کھلونا بنا کر انسانی آبادی کے ایک عظیم حصے کو برباد کر ڈالا۔ خدا ان سے سمجھے۔ حیران ہوتا ہوں جب بڑے بڑے دماغوں کو ان امتیازوں یعنی مردوزن کے درمیان کا اسیر دیکھتا ہوں.......مگر امین۔ یورپ کے متعلق آپ کے علمایان دین کی تمام رائیں غلط بخدا کہ غلط۔ یورپ بہت آزاد ہے ۔ آپ سے بازار میں رسٹورینٹوں میں پارٹیوں میں آزادانہ عورتیں ملیں گی ، باتیں کریں گی، کھیلیں گی، منائیں گی اور رشتہ دارکوئی بھی دخل نہیں دیں گے مگر اخلاقی لحاظ سے وہ برائی جو آپ کے دراز ریش حضرات اس سے منسوب کرتے ہیں ۔ ایک فیصدی پائی جائے گی۔ یہاں کی عورت اپنی عصمت کی حفاظت آپ کے رسم و رواج کے مطابق پردہ اور تلوار و بندوق کے ڈر کے ذریعہ نہیں کرتی۔ ان کا معیار کچھ اور ہے۔ کاش کہ اس خط میں تفصیلات لکھ سکتا۔ یہاں کی کنواری عورتیں جو شادی شدہ ہیں۔ عصمت کے معاملہ میں انتہائی بلند معیار پر ہیں۔‘‘
یوسف عزیز مگسی اس تقابلی جائزہ کے بعد یہ مطالبہ کرتا نظر آتا ہے کہ عورتوں کو وہ تمام حقوق عطا کیے جائیں جو ان کو اسلام نے عطا کیے ہیں۔ یوسف عزیز براہِ راست قرآن مجید اور سنت رسول کریم کی طرف رجوع کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ محض تقلید پر تکیہ گوارانہ کرتے تھے بلکہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں بلوچ و بلوچستان کے مسائل کا حل ڈھونڈھتے ہیں۔ اپنے ایک اور رفیق میر تاج محمد ڈومبکی کولکھتے ہیں:
’’ خدائے قدوس کے نزدیک انفرادی زندگی کی صلاحیت جماعتی منفعت کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ قرآن کریم میں جہاں کہیں ہمیں طریق استدعا بتایاگیا ہے وہ جماعت کی طرف سے ہے۔ سورۃ فاتحہ کو ہی دیکھے.....اھد نا الصراط المستقیم نہیں۔ انعمت علیھم غیرالمغضوب علیھم یہ سب جمع کے صیغہ جات ہیں۔‘‘
ایک دوسرے خط مورخہ ۲۱ مئی ۱۹۳۲ء میں ان مقاصد کے حصول کے لئے عملی اقدامات کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے:
’’قریبی عرصہ سے میرا ارادہ ہے۔ سندھ، بالخصوص جیکب آباد( جو مرکز ہے بلوچوں کا ) آنے اور بلوچ بھائیوں کی امداد سے فی الحال ایک انجمن’’حزب اللہ ‘‘ یعنی خدائی فوج کی بنیاد ڈالنے کا۔ جس کے اغراض ومقاصد واضح ہیں یعنی دین الٰہی و قیام بردین الٰہی کی تبلیغ۔‘‘
ان خطوط سے واضع ہوتا ہے کہ وہ بلوچ عوام اور بلوچستان میں ایک اسلامی انقلاب کی تیاروں میں کوشاں تھے۔اپنے ایک مضمون میں انہی مقاصد کے حصول کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:’’مقام حمد وثنا اور موقع فخر و مباہات ہے کہ بلوچ بھی جاگے۔ نہ صرف بستروں پر اللہ تعالیٰ کا نام جپنے کے لئے بلکہ میدان عمل میں آئے ہیں اور ایک ایسے عزم کا مل اور یقین واثق کے ساتھ آئے ہیں جس کا اعتراف خود قوائے باطلہ کو بھی ہے اگر چہ ان کا اعتراف و اظہار دبی زبان سے کیا جارہاہے۔ نیشنلزم بلکہ اس سے بھی اعلیٰ وارفع تخیل یعنی اسلام ازم جس کی وسعت میں قومی، وطنی، لسانی معتقدات سے سب خائف و پریشان ہو کررہ جاتے ہیں جس کا معیار انسانیت کامل کا حصول اور نوع انسان کی نجات ہیں۔ اتحاد ویگا نگت کی روح پھیلاتا ہے، دلوں سے محوشدہ یاد کو پھر دہرانے کے لئے ایک جماعت حق کا پیشوا ہونا اور اپنے ہم مذہب اور ہم وطن رہنمایاں قوم کی مخالفت اور حکومت کی شکوک افزا روش کے باوجود شراب عشق سے مست موافع و مہالک سے بے نیاز اپنے مسلک پر ثابت اور صراط مستقیم پر چلا جانا اگر کوئی دلفریب حقیقت رکھتا ہے تو مستقبل کے لئے پر امید ہوں کہ انشا اللہ یہ سہرا بلوچوں کے سر ہوگا۔‘‘
لیکن فرنگی سامراج آپ کے ارادوں و عزائم سے خوف زدہ تھا۔ ۱۹۳۴ء میں آپ کے رفقاء کر لئے گئے۔ اے ۔جی۔ جی بلوچستان اور برطانوی نژاد وزیراعظم نے مجبور کیا کہ آپ بلوچستان چھوڑ کر لندن روانہ ہو جائیں۔ یہ حکم جبری تھا۔ اسی دوران برطانوی انتظامیہ نے مگسی مرحوم کی مالی امدادسے چلنے والے متعدد اخبارات’البلوچ‘، کراچی۔ ’’بلوچستان جدید‘‘ ،کراچی کو یکے بعد دیگرے ضبط کر لیا تاکہ انجمن اتحاد اور یوسف عزیز کے افکار و عمل کا پرچارروکا جاسکے۔آپ کے اشارہ پر آپ کے اخبار نویس ساتھی محمد حسین عنقا نے تیسرا اخبار’’ینگ بلوچستان‘‘ کراچی سے جاری کیا۔ اس نئے اخبار کے شمارۂ اوّل کے لئے یوسف عزیز نے لندن سے دس صفحات پر مشتمل ایک یادگار مضمون ارسا ل کیا:
’’جلے جلوس، جماعت بندی، اخبار نویسی یہ سب جمہوریت کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ فرنگی استبداد کا یہ حال ہے کہ ہمارے رفقا کوقیدو بند میں ڈال دیا گیا ہے اور ہمارے ہمدردوں کو بے روزگار کیا گیا ہے دربارسبی سے خطاب کیا جاتا ہے۔ کہ چند شورش پسند اٹھے ہیں جو بلوچستان کی پر امن فضا کو مکدراور اس کے سکون کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں۔ آؤ مل کران کا استقبال کریں۔‘‘
یوسف عزیز نے ان دھمکیوں اور غیر انسانی پالیسیوں پر برطانوی استعمار کو ان لفظوں میں للکارا:
’’ایسی آمریت کے دورمیں اس کے سوا اور کوئی چارہ کا ر باقی نہیں رہتا کہ آزاد بلوچستان کا جھنڈا بلوچستان کے سرحدی علاقہ گرم سیل میں گاڑ کر اپنی پرانی تاریخی بلوچ روایات کے تحت بلوچی لشکر لے کر فرنگی استعمار پرہلہ بول دیا جائے۔‘‘
اس پیغام نے بلوچستان کی سیاست میں ہیجانی صورت پیدا کردی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان افکار اور اعمال میں سید جمال الدین افغانی سے بھرپور یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ان کے افکار پر علامہ محمد اقبال کے اثرات بھی نمایاں ہیں۔ ان کے متعدد خطوط میں علامہ اقبال کے اشعار ملتے ہیں مثلاََ ایک خط کے آخر میں یہ اشعار درج ہیں ’’ لوکار میڈ:
تیر و سنان خنجر و شمشیرم ارزوست
با من بیا کہ مسلک شبرم ارزوست
(اقبال)
بلوچ و شجاعت، بلوچوم ارزوست
خیزد! باز نعرۂ اسلام آرزو است
(عزیز)
ایک دوسرے خط کے شروع میں یہ شعر ہے:
خردی نہ ہم جس کو اپنے لہو سے
مسلمان کو ہے ننگ وہ پادشاہی
اپنے مقصد کی ترویج کے لئے انہوں نے جھل مگسی قصبہ میں ’’جامعہ عزیزیہ‘‘ کے نام سے ہائی اسکول بھی قائم کیا تھا۔ جہاں پر طلباء کو مفت تعلیم ، لباس اور خوارک مہیا کی جاتی تھی۔ انہوں نے دیگردیہاتوں میں پرائمری سکول قائم کیے۔ ان کا ارادہ تھا کہ لندن میں بلوچ طلباء کے لئے ایک ہاسٹل قائم کیا جائے جس کے اخراجات انہوں نے خود براداشت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔’’جامعہ یوسفیہ‘‘ کے کورسز کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ انجمن حمایت اسلام، لاہور اور جامعہ ملیہ، دہلی کے نصاب سے بہت متاثر تھے نیز جامعہ عزیز یہ جھل میں بلوچستان کے جغرافیہ ، تاریخ و ثقافت کے مضامین کو بھی شامل نصاب کیا ہوا تھا۔
یوسف عزیز نے تعلیم کے علاوہ سماجی برائیاں(شراب اور بھنگ)پر پابندی عائد کی تھی۔ ان کو اپنے مقاصد میں از حدکامیابیاں ہوئیں۔ بلوچ اور اہل بلوچستان ان سے والہانہ پیا رکرتے تھے۔ جلا وطنی سے واپسی کے بعد ان کا ارادہ تھا کہ وہ متعدد محاذوں پر جدوجہدکریں گے جن میں آئینی و تعلیمی اصلاحات، سردای نظام کا خاتمہ، اسلامی تعلیمات کی ترویج۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے وہ سوویت یونین کی مدد سے آزادی کی مسلح جدوجہد کا ارادہ بھی رکھتے تھے لیکن بلوچ اور بلوچستان کی یہ انتہائی بد قسمتی تھی کہ یوسف عزیز کوئٹہ میں ۳۰/۳۱مئی۱۹۳۵ء کی درمیانی رات میں زلزلہ میں شہید ہوگئے یوں بلوچ اور اہل بلوچستان ایک عظیم دانشور، قائد، ساتھی اورعظیم راہنما سے محروم ہوگئے۔
یوسف عزیز مگسی کی وفات کا نوحہ ہر طبقۂ فکر نے کیا ہے۔ اس مضمون کے آخر میں میر گل خان مرحوم(بلوچی زبان کے شاعر، ادیب، مورخ اور سابق وزیر تعلیم بلوچستان) کا غیرمطبوعہ خط(مورخہ۳۱اگست۱۹۳۵ء) کا وہ حصہ پیش کرتا ہوں جو انہوں نے نوابزادہ میر شہباز خان نوشیروانی(نواب خاران کے چھوٹے بھائی اور بلوچ قومی تحریک کے سرگرم رکن) کو محمد یوسف عزیز کی زلزلہ میں شہادت پر لکھا تھا:
’’وہ کون سا دل ہے جس میں نوجوان یوسف کی ناگہانی موت کا سن کر رنج والم کے بادل نہ امنڈ آئے ہوں۔ وہ کو ن سی آنکھ ہے۔ جو بلوچستان کے اس مایہ ناز فرزند کی یا دمیں خون کے آنسو نہیں بہاتا ہو۔ یوسف ! ہم گم کردہ راہ بلوچوں کے لئے خضر کی طرح نمودار ہوا اور بھولے بھٹکے بلوچوں کو راستے پر لگا کر یکایک غائب ہوگیا۔ یوسف کو خداوندنے مسیحا ء بلوچ بناکر بھیجا جو مردہ بلوچوں میں حیات جاوید پھونک کر خود آسمان کی جانب پرواز کر گیا۔‘‘
1. Inayatullah BALOCH. The problem of " Greater Balochistan". A study of Baloch Nationalism (Published under the auspices of South Asia Institute, University of Heidelberg, Germany), 1987.
2. Inayatullah Baloch. Resistence and Libration in Balochi Poetry, in: South Asia Digest of Regional Writing, vol. II (1985)
۳۔ میر گل خان نصیر ، تاریخ بلوچستان۔ جلددوم۔ کوئٹہ۱۹۵۶ء۔
۴۔ سوانح حیات میر عبدالعزیز خان کرد، بلوچی دنیا، ملتان ، جون و جولائی۱۹۶۸ء۔
۵۔ مکاتیب و مضامین از محمد یوسف علی خان عزیز مگسی، الحنیف، جیکب آباد(سالنامہ۱۹۳۸+۱۹۳۷ء)
۶۔ نوکین دور(بلوچی) ، کوئٹہ،۲۱۔اکتوبر۱۹۶۶ء۔
۷۔ ہفتہ وار، بلوچستان جدید، کراچی، ۲۴۔ مئی ۱۹۳۴ء۔
۸۔ زمیندار، لاہور۷۔ستمبر۱۹۳۲ء۔
۹۔ میراحمد یار خان، بلوچ(خانِ قلات) مختصر تاریخ قوم بلوچ و خواتین بلوچ، کراچی۹۷۲۔
۱۰۔ ماہنامہ بلوچی دنیا،ملتان،مئی۱۹۷۱ء ، جولائی۱۹۷۳ء۔
۱۱۔ غیر مطبوعہ خط از میر گل خان نصیر بنام نوابزادہ میر شہباز خان بلوچ نوشیرانی(فاران) مورخہ۳۔ اگست۱۹۳۵ء۔

منگل، 27 اگست، 2013

تعلیم یافتہ کسے کہتے ہیں


سوال یہ ہے کہ کسی شخص کو تعلیم یافتہ کب کہا جاسکتاہے ؟ اس سوال کا جواب سقراط(470-399قبل ازمسیح )نے یوں دیا تھا۔
’’ ہم ایسے شخص کو تعلیم کہیں گے جوروزانہ رونما ہونے والے واقعات و حالات سے اچھے طریقے سے نبردآزماہوسکے ‘‘
’’ہم ایسے شخص کو تعلیم یافتہ کہیں گے جوصورتحال کا درست اندازہ لگاسکتاہو‘ درست فیصلہ کرسکتاہواور درست طرز عمل اپنا سکتاہو‘‘
’’ ہم ایسے شخص کو تعلیم یافتہ کہیں گے جودوسرے لوگوں کے ساتھ باوقار اندازمیں برتاؤ کرسکتاہو‘ جوناخوش گوار اور جارحانہ باتوں کو برداشت کرسکتاہو اور اپنے رفیقوں کے لئے ممکنہ حدتک منطفی طرز عمل اپنا سکتاہو‘‘
’’ ہم ایسے شخص کو تعلیم یافتہ کہیں گے جوخوشی منائے تو حدِ اعتدال سے باہر نہ نکلے ‘‘
’’ ہم ایسے شخص کو تعلیم یافتہ کہیں گے جو مشکل حالات کا سامنا دلیری سے کرتاہو‘‘
’’ ہم ایسے شخص کو تعلیم یافتہ کہیں گے جوکامیاب ہونے کے باوجود مغرور نہ ہو اور اپنے قدم زمیں پر ہی رکھتا ہو‘‘
جوشخص مذکورہ بالا ایک نہیں تمام اوصاف کے حامل ہوں گے ، انہیں تعلیم یافتہ کہا جائے گا۔
اسکا خلاصہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ شخص وہ ہوتاہے جو ہر طرح کے حالات کا سامنا دانش مندی اور جرأت کے ساتھ کرتا ہے ۔ جوشخص دانش کو حماقت پر ، خیر کو شر پر ترجیح دیتاہو،اس نے کسی تعلیمی ادارے سے ڈگری حاصل کی ہو یا نہیں ، وہ تعلیم یافتہ ہے !!

اتوار، 25 اگست، 2013

انگلینڈ کا بورژ وا انقلاب



(1628.1658)

انگلینڈ کے انقلاب سے متعلق تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ آج بورژ واطبقے یا بورژ واژی مورخ سولہویں صدی کا انگلینڈ اس انقلاب کو انقلاب ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اس حقیقت کا اصل سبب تاریخی طور پر بورژ وازی کا بدلا ہوا سماجی اور سیاسی کردار میں پوشیدہ ہے کیونکہ ماضی میں پیداواری قوتوں کے ارتقا کی علمبرداری آج اسے شمشان گھاٹ اور تاریخی موت کی طرف لے جائے گی۔ اس لئے یہ بورژ واطبقے کے مفاد میں ہے کہ وہ نہ صرف اپنے تاریخی کردار اور سماجی ارتقاء کی علمبرداری سے ہاتھ اٹھا لے بلکہ تاریخی حقائق اور قانون کو توڑ مروڑ کر پیش کرے جیسا کہ وہ انگلینڈ اور فرنچ انقلاب سمیت دنیا کے ہر انقلاب کو سمجھانے کے دوران کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں انگلینڈ کا سولہویں صدی کا انقلاب یا تو ایک حادثہ تھا یا بادشاہ چارلسlاور ایک جاگیردار الیور کرام ویل کا ذاتی جھگڑا۔۔۔اگر کوئی تیسرا پہلو ممکن ہے تو وہ ہے اس سارے تاریخی دور کو ایک مذہبی تضاد کے ذریعے سمجھانے کی کوشش۔یعنی کہ سماجی ارتقا کے قوانین ،تاریخی رجحانات کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے اور وہ اس میں کتنے حق بجانب ہیں ۔اس کا اندازہ آپ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد باآسانی لگا سکیں گے۔اس عہد کا انگلینڈ ایک زرعی ملک تھا جس کی زیادہ تر آبادی دیہات میں رہائش پذیر تھی لیکن اس کے باوجود شہری آبادی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ 1500ء سے 1650ء کے درمیان انگلینڈ کی آبادی دگنی ہو چکی تھی اور ہر بارہواں آدمی شہر میں رہتا تھا۔ سارے وسطی عہد میں یا بظاہر رکے ہوئے جاگیرداری سماج کے اندر آنے والی چھوٹی چھوٹی مقداری تبدیلیاں اپنا معیاری اظہار کرنے کے اہل ہو گئی تھیں اور تاریخی طور پر پیدا ہونے والا ایک نیا طبقہ،اپنا فیصلہ کن معاشی اور سماجی کردار ادا کرنے کے لئے ہاتھ پیر مار رہا تھا اور وہ تھا نیا ابھرنے والا بورژوازی!۔
فرانس کے ساتھ سو سالہ جنگ اور اسے اپنے صوبے کی حیثیت میں زیر کرنے کی ناکام کوشش کے بعد انگلینڈ ایک بڑے عرصے تک اپنے آپ میں محدود رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب وہ مزید منظم انداز میں بیرونی دنیا پر اثر انداز ہونے کا اہل بن گیا۔1492ء میں کرسٹوفر کو لمبس نے امریکہ کو دریافت کر لیا اور انگریز تاجر بھی اسی راستے کو لے کر انڈیا اور روس تک چلا گیا ۔دیگر ممالک کی مارکیٹ کے بننے اور وہاں ۔۔۔(Wool)کی ضرورت نے از خود انگلینڈ کے اندر محنت کی تقسیم کو نئے انداز سے منظم کیا ۔جنوبی انگلینڈ میں بالخصوص اجناس کی پیداوار کا عمل تیز ہوا۔۔۔ جنس کے بدلے جنس کی بجائے 16ویں صدی سے ہی انگلینڈ میں پیسے کا استعمال شروع ہوا۔ اسپین اور امریکی کانوں سے چاندی کے نکلنے اور پھر اس کی یورپ کی طرف منتقلی خود یورپ میں پیداواری تعلقات پر اثر انداز ہونے لگی۔ 1510ء سے لے کر 1580ء کے عرصے میں ٹیکسٹائل کی صنعت میں150فیصد اضافہ ہوا ۔1610ء میں انتہائی زیادہ مقدار میں کوئلہ کی دریافت کے باعث لوہا،شیشہ،صابن اور جہاز رانی کی صنعت پر بھی خاص بھاری اثرات پڑے ۔زمینوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور ہارنیوں کی اچھی خاصی تعداد روڈوں پر آگئی۔ ریاست کی طرف سے مراعات یافتہ طبقے کے کچھ افراد کی تجارت پر اجارہ داری کے نتیجے میں اشیاء مہنگی ہوئیں جس کا نتیجہ ملک میں انتشار میں اضافے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
بادشاہی آمریت کے زیر اثر سماج ابھی اپنے جو ہر خواہ ادارتی ڈھانچے میں جاگیردارانہ تھا جس کے نظریا تی چھپر کے طور پر اس عہد کا چرچ ریاست کا مضبوط ترین ادارہ تھا ۔چرچ پورے ملک میں جس فکر کی تبلیغ کر رہا تھا۔ وہ کسی بھی صورت میں آزاد سوچ اور آزاد تجارت کے حق میں نہ تھی حتیٰ کہ1945-47ء کے عرصے میں دو سو عورتوں کو ڈائن ظاہر کر کے مار دیا گیا۔ چرچ کا ادارہ ایک ایسی پولیس فورس کا کام بھی کر رہا تھا‘ جس کے ذمے سماج کا نظم و ضبط بحال رکھنے کی ذمہ ادری بھی تھی۔ ملک کا آئینی ڈھانچہ کچھ اس طرح تھا کہ بادشاہ اپنے منسٹر مقرر کرتا تھا جو پالیسیاں مرتب کرتے تھے ۔پالیسیوں کے اطلاق اس کے لئے لازمی مطلوبہ رقم کے باعث بادشاہ کو پارلیمنٹ کے دوہاؤسز سے رابطے میں آنا پڑتا تھا۔ ہاؤس آف لارڈز جس کی نمائندگی مختلف ریاستوں کے نواب اور پادری کرتے تھے اور ہاؤس آف کامنز جہاں چھوٹے زمیندار اور شہری آبادی کے نمائندے موجود رہتے تھے ،کے زیر اثر جاگیردار سماج سرمایہ دارانہ ارتقا کے لئے لازمی سرمایہ صرف مرچنٹ (تاجر)طبقہ ہی دے رہا تھا اور جو اپنے اور اپنے سرمائے کے تحفظ کے لئے اپنا سیاسی اظہار بلدیاتی نظام سے لے کر ہاؤس آف کامنز میں بھی کرنے لگا تھا۔ اس قسم کی تمام تبدیلیاں انگلینڈ کے نوابوں(Lords) پروہت(Bishops) اور جاگیرداروں (بادشاہ سمیت)کے خلاف تھیں جس کا لازمی نتیجہ بادشاہ اور پارلیمنٹ کے مابین بڑھتے ہوئے اختلافات تھے جس کے بارے میں آگے مزید وضاحت کے ساتھ لکھا جائے گا۔
آبادی اور شہروں کے بڑھتے غذائی ضرورتوں میں اضافے اور کانوں کی تلاش جیسے محرکات نے زمین کی اہمیت کو دو چند کر دیا تھا ۔شہری مرچنٹ طبقہ زمین کی خرید و فروخت میں اپنا سرمایہ لگانے لگا تھا۔ ایک مورخ کے بقول یہ دور انگلینڈ میں زمین کی بھوک کا دور تھا۔ نتیجتاً صدیوں سے دیہات کے منجمد سماج میں پرانے پیداواری تعلقات تبدیل ہو رہے تھے۔ دوسرے لفظوں میں زرعی سرمایہ دار(Capitalist Farmer)اور کھیت مزدور(Wage Labourer)پیدا ہو رہے تھے ،جن کے سیاسی مفادات شہری بورژوا کے ساتھ جڑے ہوئے تھے ۔چرچ اور بڑے جاگیردار(بادشاہ سمیت)اب تک اچھی خاصی زمین کے مالک تھے لیکن اسے نئے طریقے سے استعمال کرنے کے حق میں نہ تھے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے اپنے سیاسی اور سماجی ڈھانچے میں تبدیلی کا خوف تھا ‘نتیجتاً وہ روز بروز معاشی طور پر کمزور ہو رہے تھے اور اپنے جملہ سیاسی اتحادیوں سمیت مزید رجعتی بنتے جا رہے تھے۔
بحران سے انقلاب تک:سماجی بحران جیمسlکے آخری عہد1601ء سے بڑھ کر اس کے بیٹے بادشاہ چارلسlکی حکومت کے ابتدائی ایام میں ہی خطرناک صورت اختیار کر چکا تھا۔
درحقیقت 1590ء تک بورژ وازی اور بادشاہی آمریت(Monarchy)کے مفادات ،نوابوں کی باہمی لڑائیاں(War of Forces)اسپین اور چرچ کے خلاف ایک ہی تھیں ۔خود اس بورژ وازی کے جو چرچ کے زیر اثر زیادہ ملکیت پر سیخ پا تھا، ریاست نے چرچ کے خلاف استعمال کیا۔ اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے خاتمے کے بعد بورژوازی کو اپنے ارتقا کی راہ میں بادشاہی آمریت ایک رکاوٹ محسو س ہونے لگی اور خود بادشاہت نے بھی بورژوازی کی بڑھتی ہوئی دولت اور طاقت سے ڈر کر چرچ اور بڑے جاگیرداروں سے مصلحت کر لی ۔سماجی میں بدلتے ہوئے حالات کے تحت سیاسی طاقتوں کی از سر نو صف بندیاں ہو رہی تھیں۔ حکومت آزاد تجارت میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے کچھ لوگوں کی اجارہ داری کو قائم رکھنے کی کوشش کرتی رہی تاکہ مختلف اجناس کی تجارت پر اثر انداز ہوا جاسکے اور سماج کو پرانے انداز میں چلایا جا سکے۔ یہی بنیادی تضاد تھا جس نے سماج میں مذہبی رنگ اختیار کر لیا۔ تخت اور چرچ کے مفادات میں جوں ،جوں مماثلت بڑھتی گئی ،ویسے ہی کیتھولزم پر سماج کے مختلف حصوں سے ہونے والی تنقید میں بھی شدت آتی چلی گئی ۔گو کہ یہ تنقید خود ایک اور مذہبی فکر کے تحت تھی یعنی پروٹیسٹنٹزم کے تحت ،لیکن یہ بورژوازی اور پروٹیسٹٹزم کا خوف ہی تھا جس نے چارلس lکے باپ، جس میںlکو اسپین کی طرف جھکنے پر مجبور کیا ،نتیجے کے طور پر پوری براعظم میں اسپین کی طاقت اور اثر میں اضافہ ہوا اور ڈچ بووژوازی بھی آگے نکل آیا۔ یہاں تک کہ جرمنی کی مارکیٹ سے انگریزی کپڑا خارج ہو گیا۔
جس میںlکی کمزور پالیسی کے باعث انگلینڈ میں1621ء میں کپڑے کی صنعت میں سخت بحران آیا 1625ء میں باپ کی جگہ چارلسlبادشاہ بنا ،جس نے پروٹیسٹنٹ مخالف فرانس کے بادشاہ کی بیٹی سے شادی کی اور اپنے ملک میں چرچ اور کیتھو لزم کو مزید مضبوط کیا کیونکہ اس کے باپ کے بقول اگر پادری نہ رہا تو بادشاہ بھی نہیں رہے گا۔(No bushop-No king)
چارلسlکو بھی معاشی طور پر کمزور حکومت اور پارلیمنٹ کے ساتھ جھگڑے ورثے میں ملے ۔چارلس نے زبردستی امراء سے قرض لیا اور جس نے نہیں دیا، اسے گرفتار کر لیا گیا۔ بڑوں سے ورثے میں ملنے والا کورٹس کا ایک ایسا جال بھی تھا جس کے ذریعے مخالفین کو سزائیں دی جاتی تھیں۔1628ء میں حقوق کی ایک نئی پٹیشن پارلیمنٹ میں داخل کی گئی ،جس میں پارلیمنٹ کی مرضی کے بغیر تھوپے گئے محصول اور گرفتاریوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ مارچ1629ء میں پارلیمنٹ پر فوج نے چڑھائی کر کے اسے ختم کر دیا۔ گیارہ برسوں تک بادشاہی آمریت چرچ اور جاگیردار شاہی کے گٹھ جوڑ سے حکومت چلائی۔1637ء میں اسکاٹ لینڈ میں ایک سخت مذہبی کتاب کی تعلیم کو لازمی قرار دے دیا گیا جس کے نتیجے میں اسکاٹ لینڈ میں امراء اور وکلاء سمیت سماج کے مختلف طبقات /گروہوں نے مل کر انگلینڈ کے خلاف فوج تشکیل دی اور بغاوت کا اعلان کر دیا۔ اسکاٹ لینڈ معاشی طور پرا نگلینڈ سے بہت پیچھے تھا لیکن سیاسی نقطہ نگاہ سے بہت آگے تھا اور وہاں قوم پرستی کا اثر بہت زیادہ تھا۔ اسکاٹ لینڈ کی فوج کے محلے کے وقت تباہ حال بادشاہ گیارہ برسوں کے بعد پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کیا تاکہ معاشی مدد حاصل کر سکے کیونکہ بادشاہ کے پاس اپنی فوج کو تنخواہ دینے جتنے پیسے بھی نہ تھے ۔معاشی اور اخلاقی مدد کے بدلے میں پارلیمنٹ نے بادشاہ سے درج ذیل اصلاحات طلب کیں؛
*تحفظات کا خاتمہ
*نئے تھوپے گئے محصولات کا خاتمہ
*غیر عبادت گزاروں کی سزا کا خاتمہ
*اسپیشل کورٹس کا خاتمہ
*پارلیمنٹ کی مرضی کے بغیر اسے توڑنے کے عمل کا خاتمہ
*ہاؤس آف لارڈز سے پادریوں کا انخلاء
*اسکاٹس سے صلح جو ایک کالونی (Calvinist)تھے (پروٹیسٹ فرقے کی ایک شاخ)
بادشاہ نے عارضی طور پر کچھ مطالبات تو تسلیم کر لئے لیکن ہمیشہ کے لئے انہیں ماننے کا مطلب صدیوں سے قائم بادشاہ کے حق سے ہاتھ اٹھ لینا تھا جبکہ یورپ میں دیگر مقامات پر اسی بادشاہ کے ہم عصر مزید مضبوط ہو رہے تھے۔ 1614ء میں آئرلینڈ میں سیاسی بحران عروج پر تھا اور پارلیمنٹ اس پہلی کالونی کو اپنے ہاتھوں سے گنوانے کے لئے تیار نہ تھی لیکن انہیں بادشاہی فوج پر اعتبار نہ تھا ،اس لئے فوج کا انتظام پارلیمنٹ کے ہاتھوں میں دینے کی بات ہو رہی تھی۔
جنوری1642ء میں بادشاہ نے اپنی قوت کو طاقتور سمجھے ہوئے 400فوجیوں سمیت پارلیمنٹ پر چڑھائی کر دی جس کے کچھ نمائندوں نے بھاگ کر لندن شہر میں پناہ لے لی جہاں کے تاجر طبقے کی اکثریت نے انہیں خوش آمدید کہا۔ بادشاہ اپنی فوج کو لے کر لندن شہر پر حملہ آور ہوا لیکن وہاں عوام کے بڑے احتجاجوں کے سامنے ہونے پر اسے اپنی شاہی فوج کو از سر نو منظم کرنا پڑا جسے کیولیئرز(Cavaliars)کہا جاتا ہے ۔ان حالات میں پارلیمنٹ اور تاجر طبقے کے لئے بھی ضروری ہو گیا کہ وہ اپنے اور اپنے سرمائے کے دفاع کے لئے کچھ نئی فوج تشکیل دیں ۔یوں حالات خانہ جنگی کی طرف بڑھنے لگے۔
یہ انگلینڈ کا وہ دور تھا جب جاگیردار اشرافیہ اور چرچ کے علاوہ سماج کے تمام طبقات اور معاشی گروہ تخت کے خلاف ہو گئی تھیں ۔پارلیمنٹ اس صورت حال کو ایک طرف بادشاہی آمریت کے خلاف اپنی سیاسی طاقت کے اظہار کے حوار پر استعمال بھی کر رہی تھی لیکن دوسری طرف وہ ایک طبقے(بورژوازی)کے عوام کی اس انقلابی کیفیت سے خوفزدہ بھی تھے کیونکہ ضابطے سے نکلے ہوئے حالات اس طبقے کے لئے بھی نقصاندہ تھے۔ یہی سبب تھا کہ پارلیمنٹ کچھ سیاسی مراعات (جو اس کی طبقاتی بقا کے لئے لازمی تھیں)کے عوض جلد از جلد اس بحران کا خاتمہ بھی چاہتی تھی۔ اس نسل میں پارلیمنٹ شاہی مذہب کے خلاف ایک اور مذہبی تعلیمات کی تبلیغ بھی کر رہی تھی، تاکہ عوام کے انقلابی مزاج کو ضابطے میں رکھا جاسکے۔ اس تعمیراتی ڈھانچے کی سیاسی قوت کو پریس بائٹرئینس(Presbyterians)کہا جاتا تھا۔
پہلی خانہ جنگی: 1642ء میں خانہ جنگی شروع ہوئی اور پارلیمانی فوج اسکاٹ فوج کے ساتھ آمنے سامنے ہوئی اور انہیں لندن شہر سے50میل کے فاصلے پر روک دیا اور انہیں شہر کے اندر پہنچنے نہیں دیا ۔یوں1645ء تک مختلف مقامات پر یہ فوجیں آپس میں ٹکرائیں ۔اس خانہ جنگی کے خطرناک معاشی اثرات دونوں طرف پڑے۔ یہاں تک کہ پارلیمنٹ اپنی فوج کو تنخواہیں بھی نہیں دے پار ہی تھی اور اس کا بھی امکان موجود تھا کہ کہیں اسکاٹ فوج الگ سے بادشاہت سے صلح نہ کر لے۔ ان باتوں نے پہلے سے کمزور پارلیمنٹ کی فوج کے نظم و ضبط کو مزید خراب کیا۔
پارلیمانی فوج کے ایک جتھے(Ironside) کا رہنما اولبور کرام ویل(Oliver Cromwell)ظاہر ہوا جو خود پارلیمنٹ کا ممبر تھا اور پہلے سے ہی اپنی سیاسی اہلیت کے باعث مشہور تھا ۔اولیور کرام ویل نے منتشر اور غیر منظم پارلیمنٹ کی فوج کو از سر نو ترتیب دیا اور 1645ء میں ایک نئے ماڈل آرمی( New model army)کی بنیاد رکھی ۔اس نے جانا کہ بادشاہت کو شکست، اپنی صفوں کو مضبوط کئے اور عوام کے انقلابی رجحان کو خوش آمدید کئے بغیر نہیں دی جا سکتی۔ اس لئے اس نے فوج میں بھرتی کی نئی بنیاد یں طے کیں۔ فوج میں مختلف سیاسی معاملات پر بحث مباحثے کے ماحول کو مضبوط کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ؛’’ میرا سپاہی جانتا ہے کہ وہ کیوں لڑ رہا ہے اور اس ’سبب‘سے وہ محبت بھی کرتا ہے۔‘‘کرام ویل کو نچلے اور متوسط طبقے کی خاصی مدد حاصل تھی اور ان طبقات کا نوجوان از خود ’’نیو ماڈل آرمی‘‘کا حصہ بننے کے لئے تیار تھا۔
کرام ویل کو اس انقلابی حکمت عملی کا ایک بڑا صلہ جون1645ء میں ہی ملا ،جب نیو ماڈل آرمی نے شاہی فوج کو شکست دے کر شاہی علاقہ آکسفورڈ کو اپنے زیر قبضہ کر لیا۔ بادشاہ چارلس نے بھاگ کراسکاٹ فوج سے جا کر ہاتھ ملا لیا، جس نے کچھ پیسوں کے عوض بادشاہ کو پارلیمنٹ کے ہاتھوں پیچ دیا۔ یوں بادشاہی آمریت کا خاتمہ ہوا۔ یہ لڑائی خانہ جنگی کے دور کی سب سے زیادہ فیصلہ کن لڑائی تھی جس نے نیو ماڈل آرمی کے اندر عسکری اور سیاسی حوالے سے بہت زیادہ خود اعتمادی پیدا کی۔
نیو ماڈل آرمی کی فتح سے خوش اور خوفزدہ پارلیمنٹ نے اپنے اجلاس میں آرمی کے بے ہتھیار کر کے پارلیمنٹ کے براہ راست اختیار تحت لانے اور اسے زبردستی آئرلینڈ میں نظم و ضبط بحال کرنے کے لئے بھجوانے پر زور دیا۔ آرمی جسے اب تک تنخواہیں بھی نہیں ملی تھیں ،اس نے پارلیمنٹ کے ایسے کسی بھی قسم کے جبری فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا اور اپنی تنخواہوں و نچلے متوسط طبقے کے مفادات کی حامل اصلاحات کا مطالبہ کیا جس کا پارلیمنٹ پہلے وعدہ کر چکی تھی۔ آرمی نے اپنی صفوں سے لائق افراد کا چناؤ کر کے ایک ایسا جتھا ترتیب دیا جس نے پارلیمنٹ اور عوامی حلقوں میں آرمی کے موقف اور مقصد کو (اہم)رکھا۔ انہیں ایجی ٹیٹرز(Agitators)کہا جاتا تھا۔ ان میں چھوٹے آبادکاروں کے لئے آزاد تجارتی سہولیات چرچ کو ملنے والے مختلف ٹیکسوں کا خاتمہ اور قانون میں اصلاحات وغیرہ شامل ہوتے تھے ۔فوج کے ترقی پسند کردار کے پیچھے ایک بڑا کردار لندن شہر کے ایک بڑے سیاسی گروہ کا بھی تھا جنہیں لیولرز(Levellers)کہا جاتا تھا ۔یہ گروپ شہری مرچنٹ (تاجر)طبقہ چند دانشوروں وکلاء اور چھوٹے آبادگاروں پر مشتمل ہوتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ گروپ انگلینڈ کے انقلاب میں پیٹی بورژوا رجحانات کا اظہار تھا اور اس کا سیاسی اثر نیو ماڈل آرمی کے اندر اس قدر بڑھ گیا کہ اس کی رہنمائی رچرڈ اورٹن ،جان ولڈمین اور جان للبرن جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں تھی ۔اکتوبر1647ء میں کرامویل اور دیگر آرمی افسران کو ان فوجی افسروں کے ساتھ بیٹھ کر بحث کرنا پڑی جو لیولرز کی سیاسی فکر سے متاثر تھے۔
دوسری طرف پارلیمنٹ پر پسبائیٹرنس(Presbyternes)نیو ماڈل آرمی کے بڑھتے ہوئے ترقی پسند کردار سے خائف اور خوفزدہ بھی تھے۔ انہیں ایک ایسی عسکری طاقت کی کمی محسوس ہو رہی تھی جو ان کے زیر اختیار ہو ۔سابق حکمران طبقے کا تضاد اب ایک نئے انقلاب کو جنم دے رہا تھا۔ نتیجتاً پارلیمنٹ نے گرفتار بادشاہ سے بات چیت کرنا چاہی تاکہ بادشاہ کو چند ضروری اصلاحات کے بعد قبول کر کے شاہی فوج کو اپنے طبقاتی مفاد میں استعمال کیا جا سکے۔
پارلیمنٹ میں کرام ویل اور ان کے کچھ ساتھی(Independences)کمزور ہو رہے تھے اور نتیجے میں انہوں نے نیو ماڈل آرمی کے اندر ایک آرمی کونسل تشکیل دی جو آرمی افسران پر مشتمل تھی اور اس کونسل کے ذریعے کرام ویل نے بادشاہ سے بات چیت
کرنا چاہی کیونکہ وہ خود کو خانہ جنگی کی فاتح قوت تصور کر رہے تھے نہ کہ پارلیمنٹ کو ۔کرام ویل نے بادشاہ سے بات چیت کے دوران اس امید کے ساتھ انتہائی سخت شرائط رکھیں کہ بادشاہ کے پاس (انہیں)مان لینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں اور بادشاہ کے لئے ان شرائط کو مان لینا اپنے سیاسی اور سماجی کردار سے مکمل طور پر دستبردار ہونے کے برابر تھا ۔بادشاہ نے شرائط ماننے سے انکار کر دیا اور نومبر1647ء میں قید سے فرار ہوگیا۔
دوسری خانہ جنگی:بادشاہ سے مذاکرات کو اپنی بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے کرام ویل مزید سخت موقف کے ساتھ سامنے آیا اور اپنے نیو ماڈل آرمی کے ذریعے پارلیمنٹ پر دباؤ بڑھا کر بادشاہ سے ایک نئی جنگ کے حق میں زبردستی ووٹ لئے آرمی نے لندن شہر کو اپنی تحویل میں لیا ۔بادشاہ کو گرفتار کیا گیا اور اسے عوام دشمن قرار دے کر سب کے سامنے وائیٹ ہال کے پاس قتل کر دیا گیا۔ اس واقعہ سے متعلق کرس ہیومن اپنی کتابPeoples World History میں لکھتا ہے؛
’’جنوری1649ء میں جلاد کی کلہاڑی نے اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ کا سرقلم کر دیا۔ اس واقعہ نے پورے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا۔ پورے براعظم کے کیتھولک،لیوتھرین اور کیلونسٹ حکمرانوں کے انگریز حکومت کے ساتھ سفارتی ناطے تھے ۔یہ واقعہ اسی اصول کا انحراف تھا جس پر وہ سب کاربند تھے(دوسرے لفظوں میں)ایک اتفاقی جنم کے نتیجے میں اقلیت کے اکثریت پر راج کے حق کا خاتمہ تھا۔‘‘
نومبر1647ء میں لیولرز کی فوج میں بغاوت اور فوج کا انتظام سنبھالنے کی کوشش ناکام ہوئی۔ آرمی کونسل میں اور فوج میں جمہوریت کا خاتمہ ہوا اور کرام ویل نے فوج کو از سر نو منظم کیا۔ بادشاہی آمریت کا خاتمہ کیا گیا ۔ہاؤس آف لارڈز کو بھی توڑا گیا ۔مئی1649ء میں ای پبلک کا اعلان ہوا۔ پارلیمنٹ پر قبضے پر اور بادشاہت کے خاتمے کے بعد بورژوازی اور کرام ویل کی نیو ماڈل آرمی کی اتنی بڑی طاقت کا کوئی مقصد نہ رہا تھا ۔فوج کے اندر بغاوت کرنے والے لیولرز کو گرفتار اور دیگر رہنماؤں کو اب قتل کر دیا گیا اور ان کے اثرات کو فوج سے ختم کر دیا گیا۔ بورژوازی نے اس قسم کے اقدامات کے باعث کرام ویل کی آمریت کو قبول کر لیا۔ لیولرز کے مطالبات اور اس کی تحریک ،پیٹی بورژوا فطرت کی حامل تھی۔ ایک ایسا طبقہ جو ابھی تاریخ میں تشکیلی مراحل میں تھا ۔یہی سبب تھا کہ اس کے سیاسی کردار کو آج بھی بہ نسبت ختم کرنا آسان تھا لیکن اس طبقے کی لڑائی رائیگاں نہ گئی۔ انگلینڈ کے انقلاب کے حصول میں اس طبقے کا بھی بنیادی کردار تھا۔ نیو ماڈل آرمی سے ایجی ٹیٹرز کو بھی نکال دیا گیا اور آرمی کو آئرلینڈ بھیج دیا گیا۔ فوج کو آئرلینڈ بھجوانے پر کرسٹوفر ہال اپنے مضمون English Revolationمیں لکھتا ہے؛’’آئرلینڈ کی فتح اس کی زمین اور مزدوروں پر قبضہ انگریز سامراج کی پہلی بڑی کامیابی اور انگریز جمہوریت کی پہلی بڑی ناکامی تھا۔‘‘
کرام ویل کو ملکی آئین میں ’’محافظ‘‘ کا لقب دیا گیا اور اس نے اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر انگلینڈ پر تقریباً ایک دہائی تک حکومت کی ۔’کرام ویل محافظ ہے یا آمر؟‘یہ سوال آج بھی انگریز تاریخ دانوں کے لئے اہم ہے لیکن ہم دونوں کرداروں کے محرکات اور حاصلات پر بات کر رہے ہیں۔ فوج میں تب بھی جمہوری قدریں زندہ تھیں اور وہ مزید ترقی پسند تبدیلیاں چاہتے تھے لیکن پھر ایک اور سماجی انتشار کی صورت میں نہیں!۔
کرام ویل کے دور حکومت کے بڑے کام بیرونی مارکیٹ پر ڈچ اجارہ داری کا خاتمہ، فرانس کے ساتھ مل کر اسپین کو شکست دے کر جمائیکا کا علاقہ حاصل کرنا، نیوی کو مضبوط کر نا ،قلعوں کا خاتمہ ،شاہی فوج کا خاتمہ، ریاستوں کی از سر نو تشکیل اور چرچ و تخت کی جاگیروں کا نیلام وغیرہ شامل تھے۔ کرام ویل نے لانگ پارلیمنٹ کو زبردستی 1653ء میں ختم کیا اور آہستہ آہستہ اپنی عوامی حمایت کھوتا رہا۔ 1957ء میں کرام ویل نے دوسری پارلیمنٹ کے سامنے ہتھیار ڈال دے اور نئے پارلیمانی آئین کو قبو ل کیا۔ نئے آئین کے مطابق فوج پارلیمانی ضابطوں کے زیر اثر آگئی۔
1658ء میں کرام ویل کے فوت ہونے کے بعد1660ء میں پارلیمنٹ نے فوج کے اندر انتشار اور عوامی انقلابی مزاج سے بچتے ہوئے بادشاہ کے بیٹے چارلسllکو بلوا کر تخت پر بٹھایا اور یوں انقلاب کا اختتام ہوا ۔یہ اختتام ان تمام انقلابی رجحانات اور حاصلات کا نہ تھا جو اس انقلابی عمل کا حصہ تھے ۔تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا ہے مگر اسی انداز اور کیفیت میں نہیں۔
بادشاہ واپس تو آیا لیکن اسے کوئی قابل ذکر اختیار حاصل نہ تھا ۔بادشاہ کے ساتھ ملائیت بھی آئی ‘لیکن چرچ کا سابقہ عروج پھر ہاتھ نہ آیا۔ چرچ کی ریاست کی فکری محافظ والی حیثیت ، سول سروس اور دیگر ادارے اب چرچ کے آفاقی کام کاج کو سماجی انداز میں ادا کرنے لگے۔
کرسٹوفر لکھتا ہے؛’’چرچ اور بادشاہت اب الگ الگ باتیں تھیں ۔پادری چارلسlکے قابل بھروسہ افراد تھے اور اب چارلسllکی فرمانبرداری سے انکار کرنے والا پہلا شخص پادری تھا۔‘‘
بادشاہ اب پارلیمنٹ کا ایک تنخواہ دار افسر تھا۔ انگلینڈ کے انقلاب کی حاصلات صرف بادشاہ اور چرچ کے بدلے ہوئے کردار تک محدود نہ تھیں۔نئے پیداواری تعلقات کے لئے ماحول کو ساز گار کیا گیا۔ گلڈسسٹم اب تکنیکی ایجادوں اور ارتقا کے لئے رکاوٹ نہ تھا ۔تجارت پر اجارہ داری ختم ہوئی۔خود برصغیر پر قابض تاجر تنظیم، ایسٹ انڈیا کمپنی کو معاشی بحران سے نکالنے والا شخص کرام ویل تھا اور اب یہ کمپنی جوائنٹ اسٹاک ہولڈر بن چکی تھی۔سائنسی علوم کی ترقی ہوئی جس کا علمی ادبی مرکز آکسفورڈ تھا ۔بعد ازاں1688ء کے بعد بینک آف انگلینڈ کی بنیاد پڑی۔
یہ انقلاب اور انگلینڈ کی فکری آزادی لازماً فرانس کے انقلاب(1789ء)پر بھی اثر انداز ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ سترہویں صدی کے اس انقلاب کے بغیر انگلینڈ کا اٹھارویں صدی کا زرعی اور صنعتی انقلاب ممکن ہی نہ تھا۔
اسی انقلاب کے بعد ہی ایک نئے سماجی معاشی دور کا آغاز ہوا جسے ہم سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کا نام دیتے ہیں اور سیاسی طور پر ایک ایسے طبقے نے جنم لیا جسے آگے چل کر یورپ میں جاگیرداری کی باقیات کو ختم کرنا تھا۔
امدادی کتب اور مضامین:

1.A people history of world (Chris herman)
2.English revolution (Christofar hill)
3.IIIulstrated english (G.M.Treverlyan)
Social history

جمعرات، 22 اگست، 2013

نکسلائیٹ موومنٹ؛ ایک جائزہ




(انقلاب‘ وہ خوبروحسینہ عالم ہے جس کے درشن کیلئے انقلابیوں کی ہر نسل ہمیشہ تاب رہی ہے۔ تاریخ عالم گواہ 

ہے کہ دنیا میں جتنی نسلیں انقلاب کی آرزو اور جدوجہد میں شہید ہوئی ہیں اور کسی مقصد کیلئے نہیں ہوئیں‘بالخصوص جبر ‘ استحصال اور گھٹن زدہ معاشروں میں پروان چڑھنے والی نسل اس کیلئے کچھ زیادہ ہی بے تاب ہوتی ہے حتیٰ کہ اس کے لئے وہ اپنی جوانی اور جوان آنکھوں کے خواب تک لٹادیتی ہے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاشقند میں بیسویں صدی کی دوسری دہائی کے خاتمے کے وقت ایم این ر ائے نے چند دیگر دوستوں سمیت انڈیا سے بہت دور بیٹھ کر برطانوی سامراج کو نظر میں رکھتے ہوئے نئے سوویت انقلاب کی تبدیل شدہ دنیا کے زور پر کمیونسٹ پارٹی (1920ء) کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو پائے ‘لیکن اس کے بہت بعد برسوں اور کئی دہائیوں سے بھی زیادہ وقت چاہئے تھا یہ سوال تجرباتی بنیادوں پر طے کرنے کے لئے جو سوال نظریاتی حکمت عملی کے تحت ایم این رائے نے اس وقت رکھا تھا کہ؛ ’’ اس وقت سامراج مخالف حالات پک کر پختہ ہوچکے ہیں اس لئے برطانوی حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب رائج کیا جائے۔‘‘ جس کے رد عمل میں انہیں کامریڈ لینن اور کامینف واسٹالن کی طرف سے ایک ہی جواب ملا کہ پسماندہ ممالک میں جہاں فطری ترقی نوآبادیاتی نظام کے تحت رک گئی ہے جہاں فیوڈل ‘ بورژوا اور سامراج ایک ہوچکے ہیں وہاں مسلسل انقلاب کا تقاضا ہے کہ بورژوا انقلاب کو آگے بڑھایا جائے جو بعدازاں سوشلسٹ انقلاب کی راہیں ہموار کرے گا ،بنیادی سوال یہ تھا کہ سامراج اور اس کے فیوڈل اتحادی کو دھکا دے کر نیشنل بورژوا کو آگے لایاجائے۔
ایم این رائے کی کمیونسٹ پارٹی ‘ غدر پارٹی اور برلن کمیٹی کے ترقی پسند ساتھیوں کی خواہش کے باوجود اس وقت تک انڈیا میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد نہیں پڑسکی تھی‘ الٹا 1921ء سے 1926ء تک پشاور اور کانپور سازش کیس مفت میں بائیں بازو کے حلقوں کے گلے پڑگئے۔
لیکن بھگت سنگھ کے میرٹھ سازش سے لے کر (Adventurism) کی بنیادیں جس کی جڑیں 60ء اور 70ء کی دہائی تک جاتی ہیں بائیں بازو کا Adventurism خواہ چے گویرا کی زیر نگرانی بولویا میں سرانجام دیا گیا ہویا نکسلائیٹ تحریک کے روپ میں انڈیا میں ہو دونوں صورتوں میں اس میں رومانوی اور جذباتی پہلو حاوی ہوتا ہے اور اس کا زوال وقت کا Fall of Legendہوجاتا ہے۔ وہ عظیم سورما اور ہیرو اس لئے ہوجاتے ہیں کہ ان کے مقاصد اور آدرش اعلیٰ اور عظیم ہوتے ہیں گو کہ حکمت عملی کے لحاظ سے اور وقت کے فریم ورک میں انہیں ’’Premature‘‘ ٹرمنالاجی کی مہروں تلے دفن کردیاجاتا ہے۔
نکسلائیٹ یا نکسل باڑی تحریک بھی ہزاروں سوالات تضادات حکمت عملیوں کے خوابوں خیالوں میں گم شدہ تقسیم درتقسیم کا شکار ہونے والی اس رومانوی مزاحمتی تحریک کا نام ہے جس کے سائے کا حاصل ’’ کچھ بھی نہیں‘‘ ہے۔ دھڑے بندی اس قدر وسیع ہوتی گئی اور حکمت عملیوں کی روز بروز نئی روش اور اس کے صحیح ہونے کی نامختتم بحث‘ نتیجتاًClass enemy کو ڈھونڈتے ہوئے ان کی بندوقوں کا رخ اپنی کلاس کی قیادت کرنے والی پارٹی کے کیڈر کی طرف ہونے لگا۔
ریاست ‘ اس کی پولیس اسٹیٹ ‘ اس کی ایجنسیاں فیوڈل اور ان کے چھاڑتے‘ مفت خور چھاڑتے اور مخفی کتوں کی دموں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا جو نکسلائیٹ نوجوانوں کا صرف موت کیلئے پیچھا کرتا رہا‘ پولیس نوجوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنانے کے بعد جان بوجھ کر ان کا چہرہ مسخ کرکے انہیں کی نعش رشتے داروں کو دکھاتی تھی‘ یہ نعش پولیس نے کبھی انقلابیوں کے رشتے داروں کے حوالے نہیں کیں۔ کیونکہ وہ ریاست کے خاتمے کے باغی تھے۔
اس ایڈونچر کا آغاز 25 مئی 1967ء میں مغربی بنگال کے ضلع دار جیلنگ کے نکسل باڑی کے علاقے میں اس وقت ہوا جب مظلوم کسانوں نے جابروڈیروں کے خلاف پرتشدد مزاحمت کا آغاز ’’زمین ،جو تنے والے کی ‘‘ کے نعرے سے کیا ۔ان کسانوں کی رہنمائی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ(M) CPI سے وابستہ انہی انقلابیوں نے کی جو گوریلا جنگ سے لے کر پرتشدد حکمت عملیوں کو اولیت دیتے تھے۔ دوڈھائی ماہ کے اندر جب نکسل باڑی تحریک اپنا دائرہ تیزی سے پھیلانے لگی تو پارٹی کے اندر ایک بحران پید ا ہوگیا، جہاں سے تقسیم در تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا ۔
اصل میں انقلابی نوجوانوں نے پارٹی سے ’’ نکسلائیٹ ‘‘ کیلئے حکمت عملی طے کرنے کو کہا ۔ ان نوجوانوں نے اپنا موقف کچھ یوں رکھا کہ؛ ’’ انڈیا سیاسی طور پر آزاد ملک نہیں ہے، یہ نیم جاگیرداری اور نیم نوآبادیاتی ملک ہے جس پر اصل حکومت سامراج‘ کمپواڈور بیوروکریٹ ‘سرمایہ داروں ‘ وڈیروں اور جاگیرداروں کی ہے اس لئے انڈیا میں انقلاب کا مرحلہ جاگیرداریت ‘ سامراجیت اور کمپراڈور سرمایہ داریت کے خلاف آزادیNational Libration کی جنگ ہے ‘اس آزادی کیلئے حکمت عملی یہ ہے کہ عوامی جنگ (Peoples War) کسانوں کی مسلح جدوجہد سے شروع کی جائے گی جو ہمیں چھٹکارے کی طرف لے جائے گی‘ اسی طرح بیک وقت انہوں نے سوشلسٹ روس کو امپریلسٹ روس اور ترمیم پسند روس کے خطابات سے نواز کر امریکہ سے نسبت دی۔
ان کا اس بات پر مکمل یقین تھا کہ ماؤسٹ حکمت عملی ہی موجودہ پارٹی لائن ہونی چاہئے۔ انہوں نے پارلیمانی جمہوری سیاست میں شرکت کو ترمیم پسندی سے تشبیہ دے کر رد کردیا اور CPI(M) کو یہ حکمت عملی اپنانے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔یوں انہوں نے ماؤسٹ لائن اختیار کرتے ہوئے اس بات پر زوردیا کہ دیہات میں کسانوں کے اندر کام کریں گے انہیں نہ صرف سیاسی طور پر بیدار کیا جائے گا بلکہ انہیں مسلح بھی کیا جائے گا جو اپنے کلاس دشمن کا خاتمہ کریں گے ۔یوں یہ تحریک دیہات سے شہر کی طرف منتقل ہوگی۔ انہوں نے CPI(M) کو کمپراڈور بورژوا ‘ فیوڈل اور سامراجیت کا بلاواسطہ حمایتی سمجھتے ہوئے ان پر مارکسزم اور لینن ازم سے غداری کرتے ہوئے ’’ ترمیم پسندی ‘‘ کی راہ اختیار کرنے کے الزامات عائد کئے۔
گو کہ آگے چل کر جب ان کی جنگ مسلح جدوجہد Coas اور Confusion کا شکار ہوئی اور بیشتر حلقوں کی رائے اور حکمت عملی اس حکمت عملی سے بالکل مختلف ہوگئی جہاں سے انہوں نے علیحدگی کے پرچم تھام کر نئی لڑائی کا آغاز کیا۔
سی پی آئی (ایم) کے اس باغی دھڑے نے اپنے سارے ملک یعنی تامل ناڈو ‘ کیرالا‘ اتر پردیش‘ کرناٹکا‘ اڑیسا اور مغربی بنگال سے ہم خیال افراد کو جمع کرکے پارٹی کے اندر ہی اسی1967 ء کے برس میں ہی آل انڈیا کو آرڈینیشن کمیٹی آف ریولیشنریز تشکیل دی ۔1968ء میں اس کمیٹی کا نام آل انڈیا کو آرڈینیشن کمیٹی آف کمیونسٹ ایولیشنریز رکھا گیا ۔(AICCCR) جس کے کنوینر کا مریڈ سشیل رائے چوہدری بنے جبکہ بیک وقت ’’ کامریڈ آست سین‘‘ دھڑے نے خود کو الگ رکھ کر ‘ بعدازاں آگے چل کر ماؤسٹ کمیونسٹ سینٹر (M.CC) نامی دھڑے کی بنیاد رکھی جبکہ آندھرا کے ’’ ٹی ‘ ناگی‘ ریڈی‘‘ کے دھڑے کو بنیادی اختلافات کے باعث خارج کردیا گیا۔
1969ء میں اس کمیٹی کا نام مکمل طور پر تبدیل کرتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسٹ‘ لیننسٹ یعنی سی پی آئی ( ایم ایل ) رکھا گیا۔ کامریڈ چارومزمدار(Charu Mazumdar) کو سیکرٹری منتخب کیا گیا ۔جلد ہی بی بی چکرا بھارتی گروپ الگ ہوگیا جس نے آگے چل کر ’’ لبریشن فرنٹ ‘‘ کے نام سے اپنی شناخت قائم رکھی۔ جبکہ ’’ مونی گوہا‘‘ اور کونیکال نارائن کے دھڑے نے اپنی الگ الگ شناخت کو قائم رکھا۔
1970ء میں سی پی ایم ( ایم ایل ) نے پہلی سالانہ کانگریس کے بعد ستیانارائن دھڑے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے 1971ء میں سی پی آئی ( ایم ایل ) کی سینٹرل کمیٹی بنائی ۔چارومز مدار جنہیں ’’ چارئیت ‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا تھا ،ان سے آشم چیٹر جی اور سنتوش رانا نے بھی علیحدگی اختیار کرلی۔
یہ تقسیم درتقسیم ‘ حکمت عملیوں اور نظریاتی بنیادوں پر دودہائیوں تک جاری رہنے بکھرنے بننے گہر نے اور دوبارہ بننے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
اب آتے ہیں اس طرف کہ ان کا طریقہ کار کیا تھا؟
اصل میں چارومز مدار جو اس ساری تحریک کی بنیاد اور نیوکلس تھے‘ جنہوں نے 1967ء میں ہی اپنی حکمت عملی کا انتخاب کرتے ہوئے ‘ ’’نکسل باڑی کرشک سنگرام شایک سمیتی‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے ‘ نئے مسلح دھڑے بنا کر شمالی بنگال‘ بہار ‘ اتر پردیش آندھرا پردیش کے مختلف دور دراز‘ دیہات کے علاقوں میں گوریلا زون تشکیل دیئے جہاں وہ پسماندہ مظلوم طبقے ‘ کسان‘ دلتوں( اچھوتوں ) میں کام کررہے تھے‘ وہ اس طبقے کو آرگنائیز کرنا چاہ رہے تھے‘ وہ ان کی سماجی اور سیاسی جنگ کے اوزار بن گئے۔ ذات پات اور صدیوں کی غلامانہ سوچ رکھنے والے مظلوم طبقے کے سیکڑوں قسموں کے مسائل کا سامنا کرنے لگے۔ جہالت ‘ بیماریاں اور اچانک پھوٹ پڑنے والی وبائیں ان کے طریقہ کار کے کینوس کو مزید وسیع کررہی تھیں اور پھر جب گوریلوں نے کسانوں کو مسلح کرکے اپنے طبقاتی دشمن ’’ وڈیرے‘‘ کو ڈھونڈ کر مارنے کی مہم کا آغاز ملک کے مختلف کونوں سے شروع کیا تو سامراج اور اس کے پٹھو انڈین حکمرانوں کی گویا آنکھیں ہی پھٹ کر رہ گئیں۔ نکسلائیٹ دھڑوں کو محسوس ہوا کہ ان کا طبقاتی دشمن تو اس وقت صرف فیوڈل ہے لیکن اس کے اتحادی لاتعداد ہیں۔ فوج ‘پولیس‘ بیوروکریسی‘ حکومت ‘ عدلیہ ‘ انتظامیہ یہ سب تو اسی فیوڈل کلاس کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ایک دم اس وقت کی کانگریس حکومت نے پولیس مشینری کا استعمال کرتے ہوئے اسٹیٹ ٹیررازم کا آغاز کیا۔ یہ ایک ایسا آغاز تھا جسے آج بھی نکسلائیٹ کے تمام دھڑے کانگریس کا نیم فاشسٹ روپ کہتے ہیں ۔بات صرف پولیس تک محدود نہیں تھی‘ فیوڈل‘ اس کے پالتو چھاڑتے ‘ مخبر‘ ایجنٹ سبھی میدان میں تھے۔
نکسلائیٹ کے تمام دھڑے بھی ایک دوسرے پر شک کرنے لگے تھے ۔ہر دھڑا صحیح نکسلائیٹ اور اصل سی پی آئی ( ایم ایل ) ہونے کا دعویٰ کررہا تھا۔ سی پی آئی ( ایم ) اور سی پی ایل ( ایم ایل ) کے پرتشدد جھگڑے کا آغاز بھی ہوچکا تھا جس میں سی پی آئی ایم ایل پر سی پی آئی ( ایم ) کے کیڈر کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کرنے کے الزام بھی لگ رہے تھے‘ اس لئے اس لڑائی نے دنگل کا روپ اختیار کرلیا تھا۔
بیشتر دھڑوں کا دشمن کو انفرادی طور پر ڈھونڈ کر مارنے کے طریقہ کار پر اختلاف تھا تو کسی کو ان دھڑوں پر اعتراض تھا جنہوں نے 1971ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کی حمایت کی تھی۔ طبقاتی جنگ کے مسلح دھڑے کو اب ریاستی مشینری یعنی مکمل اختیار رکھنے والی پولیس کے ساتھ مقابلوں کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ ہر دوسرے دن پولیس کے ہاتھوں کامریڈوں کی مسخ کی گئی لاشوں کا ملنا معمول کی بات بن چکی تھی۔ صرف 1971ء میں بنگلہ دیش کی جنگ کا بہانہ بنا کر کانگریس نے اپنے ملک کے شمالی بنگال کی تحریک کو کچلنے کیلئے فوج کشی کا آغاز کیا جس میں پچاس ہزار سے زائد لوگوں کو انڈیا کی مختلف جیلوں میں ڈالا گیا اور کئی گوریلوں نے زون کا بوریا بستر گول کروادیا ۔ نتیجتاً سیکڑوں کامریڈ فوجی قتل عام کا شکار ہوئے۔
جولائی 1972ء میں پولیس نے مسلسل 12 دن کے تشدد کے بعد کامریڈ چارومزمدار کوقتل کردیا۔جہاں سے پھر اس کی پارٹی کی نئی تقسیم کاآغازہوا۔مرکزی نقطے کے خاتمے سے گویا تمام گوریلے دھڑے پارٹی نیٹ ورک ڈسپلن سے آزاد ہوگئے۔مغربی بنگال کے کھوکان مزمدار گروپ،جمہوری کثر کا ’’سراف‘‘ڈھرہ ،پنجاب ،کیرالا ،تامل ناڈو کے دھڑے سب اب آزاد ہوکر کام کررہے تھے۔
چارئیت قیادت بنیادی طورپر دودھڑوں میں تقسیم ہوئی ۔ایک مکھرجی اوردوسرا شرما۔ مکھرجی دھڑا پھرمزید دودھڑوں یعنیpro linbioاورAnti linbioدھڑوں میں تقسیم ہوا۔اینٹی لنبیاؤ دھڑا سی پی آئی (ایم ایل)کاپروچارئیت دھڑا تھا۔جو آگے چل کر ونود مشرا کی قیادت میں اپنے پیروں پرکھڑا ہوگیا۔چارئیت کاایک اوردھڑا کنود پالیہ سیشار امیا کے قیادت میں پیپلزوار گروپ کے نام سے سامنے آیا۔سینٹرل ری آرگنائزنگ کمیٹی کے نام سے ایک اوردھڑا بھی سامنے آیا۔اسی طرح وہ دھڑے جو سی پی آئی (ایم ایل)سے شروع سے ہی الگ تھے ،وہ بھی تقسیم درتقسیم کاشکار ہوئے۔
سی پی آئی (ایم ایل)کے اہم پرچار ومزمدار گروپ اور چارومزمدار مخالف گروپ کچھ اس طرح تھے۔
چارئیت حامی گروپ :
1۔سی پی آئی ایم،ایل ونود مشراگروپ‘2۔سی پی آئی ایم ایل پیپلزوار گروپ‘3۔سی پی آئی ایم ایل،سی آرسی گروپ‘4۔سی پی آئی ایم ایل،سیکنڈ سینٹرل کمیٹی گروپ۔
چارئیت مخالف گروپ دھڑے:
1۔سی پی آئی ۔ایل ایم،ایس این سنگھ گروپ‘2۔سی پی آئی ۔ایل ایم ،پالاری گروپ‘3۔سی پی آئی ،ایل ایم ،سی او سی گروپ‘4۔او سی سی ،کانوسیال گروپ‘5۔یوسی سی آر آئی(ایم ،ایل)ناگی ریدی گروپ‘6۔ماؤسٹ کمیونسٹ سینٹر(MCC)‘7۔لبریشن فرنٹ‘8۔سی پی آئی ،ایم ایل ،سینٹرل ٹیم۔
ان دونوں گروپوں میں بار بار متحد ہونے اور پھر الگ ہونے کاسلسلہ بھی جاری رہا ہے۔اصل میں وقت کے ساتھ ساتھ سوال صرف یہ نہیں رہا تھا کہ کون سادھڑا چاروئیت (چار ومذمدار)کی حکمت عملی پر ہے اورکون نہیں؟۔۔۔اورمتحدہونے کے لئے یہی ایک سوال نہیں تھاکہ آئیں چاروئیت کی حکمت عملی اختیارکریں بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ متحدہونا ممکن ہی نہیں تھا۔جب تمام چاروئیت مخالف دھڑے الزام ہی یہ لگائیں کہ مزمدار ساری نکسلائیٹ تحریک کوتباہی کی طرف لے گئے ہیں۔ماؤزے تنگ کی حکمت عملی اختیار کرنے والوں کوبھی اب سوالوں کے ڈھیر لے کرچلنا پڑرہا تھا چائینیز کمیونسٹ پارٹی کارویہ خود سوال بن چکا تھا۔چائنہ سے امپورٹ شدہ Three world theoryخود تضادات کاشکار ہوچکی تھی۔اس کے علاوہ پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے اورنہ لینے پر بھی اختلافات پیدا ہوچکے تھے ۔انفرادی فرد کا خاتمہ ،مسلح جدوجہد کے طریقہ کار پراختلافات الگ سے تھے۔عوام میں بیداری پیداکرنے اورانہیں آرگنائزکرنے پربھی اختلافات تھے۔اس لئے ساتھ مل کر چلنے کی امید کم ہی تھی۔
جہاں تک سی پی آئی (ایم)کاتعلق ہے توانہوں نے شروع سے ہی ان نوجوانوں کوتنبیہ کی تھی کہ یہ مہم ایک ایڈونچر سے مختلف نہیں اور انہیں بار بارکہتے رہے کہ وہ تاریخی طورپر ان چیزوں کوسمجھنے سے قاصر ہیں اوران (نکسلائیٹ)کایہ خیال کہ روس ترمیم پسند اورامپریلسٹ بن چکا ہے۔اور’روس سوشلسٹ کیمپ کاخاتمہ بھی لازماً ہوناچاہئے‘بالکل غلط تھا۔یہ کہاں لے جائے گا‘یہ مکمل بے مقصدیت کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں۔
جیساکہ نکسلائیٹ کامرکز ماؤ تھا‘وہ بین الالقوامی اور مقامی حالات کوماؤ کی آئیڈیالوجی کے تحت followکررہے تھے۔اس لئے ہردھڑا دوسرے دھڑے پر ماؤ سے غداری یاماؤسٹ ترمیم پسند وغیرہ کے الزامات بھی لگاتا رہا۔لیکن اس وقت نکسلائیٹ نے defensiveپوزیشن اختیار کرلی جب کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ نے چار کی ٹول کوٹوکا،جس نے سوشلسٹ کاز کو نقصان پہنچایا تھا اوران کا(کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ )یہ تجزیہ کہ ماؤ کی قیادت میں بھی بعض غلط خیال پروان چڑھے تھے،نکسلائیٹ کے لئے بڑا دھماکہ ثابت ہوئے۔نتیجتاً چاروئیت گروپوں میں سے ونودمشرا گروپ نے حکمت عملی تبدیل کرنے کی بات کی لیکن باقی تمام دھڑوں نے اسی انقلابی راہ پر چلنے کے دعویٰ کو قائم رکھا۔ نہ صرف اتنا بلکہ چاروئیت گروپ کے وہ دھڑے جوماؤ کوگائیڈ لائن کے طورپر لے کر چل رہے تھے۔اب وہی گروپ چائنہ پر بھی ترمیم پسندسامراجی روپ کے الزامات لگانے لگے۔بالخصوص پرولن بیاؤ دھڑے جوچائنہ پرسوشلسٹ امپریلسٹ ہونے کے الزامات لگارہے تھے۔
لیکن اس سے قبل جوچیز زیادہ بحث اورتضاد کے زیراثر رہی وہ تھی ماؤ کے نام پر پروموٹ ہونے والی Three world theoryجس کے مطابق دنیا کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ۔پہلے اسٹیج پر دوسپر پاور ممالک،بغیراس فرق کے کہ ایک سامراج ہے اوردوسرا سوشلسٹ ۔دوسری دنیا جس میں سامراج ممالک آتے ہیں اورتیسری دنیا جس میں تمام پسماندہ اورترقی پذیر ممالک شامل ہیں۔
کمیونسٹ پارٹی نے اس تھیوری کو1947ء میں ہی یہ کہہ کررد کردیا تھا کہ یہ تھیوری مارکس ازم اورلینن ازم کے غداری کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں ۔کیونکہ دنیا کے طبقاتی فرق کے علاوہ اس قسم کی تشریح طبقاتی سوال کی ہی نفی ہے،جس پرسارا مارکس ازم کھڑا ہوا ہے۔کہاجاتا ہے کہ نکسلائیٹ نے خود کو جسٹیفائے کرنے کے لئے حالات کوموقع پرستی کے روپ میں اپنے حق میں استعمال کرنے کے لئے تھیوری کابہت استعمال کیا ۔کیونکہ اس تھیوری سے امریکہ اورروس دونوں ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے اور دونوں میں کوئی فرق نہیں سمجھاجارہا تھا۔اس لئے امریکہ کی طرف نرم اورComromisingرویہ رکھنابھی ان دھڑوں کے لئے معمول بن گیا۔مثال کے طور پرستیانارائن دھڑے پریہ الزام لگایا گیا کہ وہ پُروامریکن انڈیا کے اقتداری طبقے کے ساتھ اتحاد کی تھیوریز پیش کررہے ہیں یاپھر امریکی چھتری تلے بننے والی تنظیم ’آسیان ‘جس میں سامراجی دم چھلے فلپائن ،انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ملائیشیاء سنگاپور وغیرہ شامل تھے‘کونکسلائیٹ دھڑے نہایت پرامید نظروں سے دیکھتے تھے۔وہ انہیں تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کابہترین اتحادی سمجھتے ہوئے،ماؤ کی تھری ورلڈ تھیوری سے جوڑ کر ’’سوشلسٹ امپریلسٹ روس‘‘کی قبضہ گیریت کی جارحیت کوروکنے کے لئے ایک فرنٹ تصور کرتے تھے۔کیونکہ وہ امریکہ کی افریقن ممالک میں قبضہ گیریت اورروس کی ایشیا میں قبضہ گیریت ،دونوں کوایک ہی سامراجی روپ تصور کرتے تھے۔جیساکہ روس ،انڈیا سے جغرافیائی طورپر زیادہ قریب ہے‘اس لئے انہیں امریکہ کی نسبت روس سے زیادہ خطرات کی بوآتی تھی۔
نکسلائیٹ کے کچھ دھڑے جیسے کہ سی آر سی (وینو گروپ)یاسراف گروپ ماؤ کی تھری ورلڈ تھیوری پرسخت تنقید کرکے اسے رد کرتے تھے۔ان کا کہنا تھاکہ یہ تھیوری ماؤ کے نام پرامپورٹ کی گئی ہے۔جبکہ ماؤ دنیا کو محض خارجہ پالیسی کے حوالے سے حکمت عملی کے تحت اس طرح دیکھ رہے تھے۔جبکہ ماؤز نے کبھی کبھی اسے تھیوری بناکر پیش ہی نہیں کیاتھا۔لیکن بہت سے دھڑے یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھے کیونکہ یہ مان لینے سے ان کے برسوں کے کئے ہوئے کام پرایک دم لکیرپھر جاتی تھی۔موصوفین نہ کسی کام کے رہتے تھے نہ کاج کے۔اس لئے ردکرنا تو ایک طرف،قابل استہزا غلطیاں آنے والی وقت میں بھی ہوتی رہیں۔مثال کے طورپر 1980ء کی دہائی میں ایس این سنگھ اورپائیلا ریڈی اتحاد سوویت مخالف فرنٹ کی بنیاد پر ٹوٹا۔ایک نے کہا کہ کانگریس حکومت(اِندرا فاشزم)کامقابلہ کرنے کے لئے پروامریکی اتحاد کے ساتھ اتحاد کیاجائے جبکہ دوسرا دھڑا اس بات کوماننے سے ہی انکار کررہاتھا۔
80ء کی دہائی میں ملک میں ایمرجنسی کے خاتمے کے بعد تمام دھڑوں نے خود کو Re-assesکرنے کی کوشش کی ،سب نے اپناSelf critical Analysisکیا اوراپنے اپنے پیپر شائع کئے۔جواکثر ایک دوسرے کوکمتر دکھانے اورخود کوجسٹیفائے کرنے پر محلول تھے۔سب انڈیا کے بنیادی سیاسی تضاد کو اپنی اپنی تھیوریز کا رنگ دے رہے تھے ۔ایک نے کہا کہ انڈیا آزادنہیں ہوابلکہ سامراج کی نیم کالونی ہے۔دوسروں نے کہا کہ آزاد ملک ہے لیکن امریکہ روس دونوں کی نئی کالونی ہے۔ایک نے کہا کہ ملک کا دشمن سامراج پٹھو،بورژوا اورفیوڈل ہے۔دوسروں نے کہا کہ عوام کے دشمن نیشنل بورژوا نہیں بلکہ کمپراڈور بورژوا اورفیوڈل ہیں۔سب ماؤ کو فالو کررہے تھے ،بعدمیں اسے ردکرنے لگے ۔یہ ایک چیزوں کوطے نہ کرنے اورالجھانے والا مرحلہ تھاجو مزید الجھتا چلاگیا۔
شروع میں سب مسلح جدوجہد کی حمایت کررہے تھے اورAnihilation Theoryکی سپورٹ کرتے رہے‘ بعدمیں بیشتر اس تھیوری سے دستبردار ہوکر Mass Movementکاساتھ دینے لگے،گوکہ کسی بھی دھڑے نے مسلح جدوجہد کے طریقہ کار سے مکمل انکار ہرگزنہیں کیاتھا۔
شروع میں پارلیمان الیکشن میں حصہ لینا ،بالکل ہی حرام تھا۔بعدمیں کئی دھڑے اس موقف سے دستبردار ہوگئے۔کچھ دھڑے عوامی حمایتی یونٹ نہ جوڑ پانے کے باعث یاعوام کواپنا نہ کرپانے کے احساس کوختم کرنے کے لئے سول لبرٹی اورکلچر کے نام پر لوگوں کو جمع کرنے لگے اوراس سلسلے میں وہ بی جے پی اورآر ایس ایس والوں کے ساتھ مل کر بھی کام کرنے کوتیارتھے۔کیونکہ بی جے پی اور آر ایس ایس جیسے حلقے درحقیقت روس مخالف فرنٹ تھے۔
نکسلائیٹ کاایک المیاتی پہلو قومی سوال پر بھی تھا۔جیسے کہ انہوں نے انڈیا کونیم نوآبادیاتی اورنیم جاگیرداری ریاست بیان کیا اس لئے انہوں نے ملک کی تمام اقوام کے لئے Right of self determenationکی بات کی۔یہاں تک توبات قابل قبول تھی لیکن اس بنیادپر وہ ان تمام علیحدگی پسند پارٹیوں اورتحریکوں کی بھی آنکھیں بند کرکے حمایت کرنے لگے جو امریکی سامراج کی سپورٹ سے ورکنگ کلاس کولڑانے اوراکیلا کرنے کے لئے چل رہی تھیں‘ جیسے کہ پنجاب ،آسام ،جھار کھنڈ (پاکستان کی بنگلہ دیش تحریک)وغیرہ کی علیحدگی پسند تحریکوں کی حمایت کی گئی ۔
کئی نکسلائیٹ دھڑوں میں اس لئے بھی انتشار پھیلاکہ وہ پارٹی کے لئے پارٹی کے ہی سماجی کاموں جیسے کہ سکول کھولنے ،صحت وغیرہ کی سہولیات دینے کے نام پر مغرب اورمغرب کے دلال اداروں اورسرمایہ داروں سے چندہ لے رہے تھے۔یعنی امریکی اورمغربی سامراج کے لئے سیڑھی کے طورپر کام کیا۔
اس ساری ڈیڑھ دو،دہائیوں کے دوران چلنے والی نکسلائیٹ تحریک کی شاید ہی اتنی حاصلات ہوں،جتنی ان کی غلطیاں اور پچھتاوے ہیں۔کسی بھی تنظیم اور آدرش کااس سے زیادہ اورکیا المیہ ہوسکتا ہے جب اس قدر لہو اورقوت گنوانے کے بعد انہیں پتہ چلے کہ وہ سوار ہی غلط ٹرین میں ہوئے تھے۔
ان کے تمام کردار گویا کسی Pessimistناول نگار کے کردار تھے۔جواپنی زندگیاں ویران اوربرباد کربیٹھے اورمنزل پرکبھی نہ پہنچ سکے۔Left SecterianismاورPetty bouheoise Frustration کے الزامات لینے والے نکسلائیٹ درحقیقت دنیا میں کوئی پہلاایڈونچرز نہ تھے اورنہ ہی خوامخواہ Logicallyبات بنتی ہے کہ یہ عمل Premature(قبل از وقت)تھا ۔اصل میں بات چیزوں اورحالات کوصحیح اندازمیں سمجھنے ،Understandکرنے کی ہے۔جب آپ بورژوازی جمہوریت انقلاب کی طرف Smothlyجارہے ہوں تویہ بہتر ہے کہ Capitalsimکواس کے فطری دشمنFeudalismسے جان چھڑانے دیں۔ہمارا کام یہ ہے کہ فیوڈل ازم کے منہدم ادارے کوCapitalismکے ابھرتے ہوئے ادارے کی مدد سے گرائیں۔مارکسی ،لیننی نقطہ نظر سے صحیح ہے لیکن ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ آپ فیوڈل ازم کا خاتمہ کرکے براہ راست سوشلزم بھی لاسکتے ہیں ۔لیکن اس کے لئے لازمی بات یہ ہے کہ آپ کاعوامی طبقاتی بیداری کے ساتھ مضبوط ومنظم نیٹ ورک ہو۔
اپنی نظریاتی قوت،عوامی بیداری کی صورتحال اوردشمن کی طاقت کااندازہ اہم ہے ۔آپ جب فیوڈل ازم کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں تواس وقت بورژوا اورسامراجی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ انہیں یہ پتہ ہوتا ہے کہ یہ عمل کس طرف لے جائے گا۔اس لئے سامراج بورژوا طبقہ ،اس کی ریاستی مشینری ایک دم تحرک میں آجاتے ہیں۔تواس صورت میں دشمن ایک نہایت بلکہ دس گناہ بڑھ جاتے ہیں‘ نتیجتاً انقلابی Defensiveہوجاتے ہیں اورانقلاب دشمن Offensiveہوجاتے ہیں۔مارکس پیرس کمیون کے بعدیہ کہنے پرمجبور ہوئے تھے کہ یاتوآپ اتنی طاقت میں ہوں کہ پہلا حملہ ہی آپ کاہوورنہ ایسا انقلاب لانے کی ضروریات ہی نہیں جس میں آپ ایک دم دفاعی پوزیشن میں آجائیں اور دشمن اپنے ساتھی اورطاقت حاصل کرلے۔لینن نے انقلاب کے بعد کسانوں کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے یہ بات واضح کی تھی کہ کسان اس وقت تک آپ کے ساتھ نہیں ہوگا جب تک اُسے یہ یقین نہ ہوجائے کہ بورژوافیوڈل کو کچلاجاسکتا ہے اوردوسری طرف کسانوں کو اپنے کام کے نعم البدل کے طورپر روزگار کے حصول کے مواقع میسر ہوں‘یعنی صنعتی نیٹ ورک موجود ہو۔

منگل، 20 اگست، 2013

دیوار


جین پال سارتر 
آخرکار انہوں نے ہمیں ایک بڑے کمرے میں دھکیل دیا ۔ کمرے کے وسط میں ایک میز کے پیچھے چار آدمی سر جھکائے کاغذات کی جانچ پڑتال میں مصروف تھے ۔ کمرے کے کونے میں بہت سے گرفتار شدگان سر جھکا ئے کھڑے تھے ۔ پہلی قطار میں دو بھورے بالوں والے غیر ملکی قیدی تھے ۔ ان کی شکلوں میں خاصی مما ثلت تھی۔ غالباً دونوں فرانسیسی تھے ۔ چھوٹی عمر والا غیر ملکی ‘خوف دور کرنے کے لیے بار بار اپنی پتلون کھینچ کر اوپر کررہا تھا ۔
 کا روائی مکمل ہو نے میں تقریباً تین گھنٹے صرف ہو ئے ۔ تھکن کے باعث میرا بدن نڈھال اور دماغ سوچنے سے عاری ہوچکا تھا۔ چوبیس گھنٹے تک سردی کی شدت سے کانپنے کے بعد اب اس کمرے کی حرارت مجھے بہت خوشگوار محسوس ہو رہی تھی ۔
 سپاہی ایک ایک کر کے قیدیوں کوسامنے لے جا رہے تھے ‘ جہاں ان سے کم و بیش یکساں باتیں پوچھی جا رہی تھیں ۔
’’پورا نام کیا ہے؟‘‘
’’کہاں کہاں گئے اور کیا کر تے رہے؟‘‘
عام طور پر یہی دو سوال کئے جا تے ۔ کبھی کبھی ان سوالات سے تجاوز کیا جا تا ۔
’’اسلحے کی تباہی میں تم بھی شریک تھے؟‘‘
’’نو تاریخ کی صبح تم کہاں تھے؟‘‘
 وہ جواب سننے میں زیادہ دل چسپی نہیں لیتے تھے ۔سوال کرنے کے بعد وہ سامنے کھڑے قیدی کو غور سے دیکھتے اور پھر سر جھکا کر کا غذوں پر کچھ لکھنے میں مصروف ہو جا تے ۔
 ’’تم انٹرنیشنل بریگیڈ کے لیے کام کر تے رہے ہو؟‘‘انہوں نے ٹام سے پو چھا‘اور جواب سنے بغیر لکھنے میں مصروف ہو گئے ۔
 جون سے انہوں نے صرف اس کے نام کی تصدیق چاہی اور پھر دیر تک کا غذوں پر کچھ تحریر کر نے رہے ۔
 ’’میرا بھا ئی ان کے لیے کام کر تارہا ۔ میں نے کچھ نہیں کیا میرا کسی جماعت سے تعلق نہیں ۔ مجھے سیا ست سے کو ئی دلچسپی نہیں‘‘۔ جون بولتا رہا مگر انہوں نے کو ئی جواب نہیں دیا۔
 ’’میں بتا رہا ہوں ......میں نے کچھ نہیں کیا۔دوسروں کے اعمال کا میں ذمہ دار نہیں ہوں ‘‘۔جون کے ہونٹ کپکپارہے تھے ۔ایک گارڈ اسے کھنچتا ہوا لے گیا۔اس کے بعد میری باری تھی۔
’’تمہارا نام پابلو ہے؟‘‘
’’ہاں‘‘میں نے جواب دیا۔
’’ریمون کہاں ہے؟‘‘
’’ مجھے نہیں معلوم‘‘
’’چھ سے انیس تک تم نے اسے اپنے گھر میں چھپا ئے رکھا‘‘۔
’’آپ کو غلط اطلاع ملی ہے‘‘
وہ سر جھکا ئے قلم چلانے لگا اور ایک گارڈ مجھے دھکیلنے لگا۔
بڑے کمرے میں ٹام اور جون دوگارڈ ز کے درمیان میرا انتظار کر رہے تھے۔
’’یہ ابتدائی کاروائی تھی یا مقدمہ ختم ہو گیا؟؟‘‘ ٹام نے گارڈز سے پو چھا ۔
’’یہ مقدمہ تھا ‘‘۔ ایک گارڈ نے جواب دیا۔
’’تو اب .....اب کیا ہو گا؟‘‘
 ’’تمہاری کوٹھڑی میں بے پنا ہ ٹھنڈ تھی ۔ ہم نے سا ری رات کانپتے ہو ئے گزاری صبح کے وقت بھی درجہ حرارت میں کو ئی خاص فرق نہیں پڑا۔ جون خاموش بیٹھا رہا۔ کم سنی اور نا تجربہ کا ری کے باعث وہ خوف سے گنگ ہو گیا تھا ۔ البتہ ٹام اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہا تھا ۔
 کوٹھڑی میں ایک بینچ اور چار کمبل پڑے تھے ۔ عدالت سے آکر ہم الگ الگ کمبلوں پر بیٹھ گئے تھے ۔
’’غالباً ہم ٹھکا نے لگ گئے ‘‘۔ ٹام نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا ۔
 ’’مجھے بھی یہی لگتا ہے ‘‘ میں نے جواب دیا۔’’مگر چھوٹا بلا وجہ ڈر رہا ہے ۔ اسے وہ کچھ نہیں کہیں گے‘‘۔
 ’’ کسے ؟ جون کو؟ ہاں ‘ یہ جو زے کا چھوٹا بھا ئی ہے ۔ جوزے نے ان کے خلاف جان کی با زی لگا دی ہے‘‘
میں نے جون کی سمت دیکھا ۔ وہ بدستور سکتے کی عالم دیوار پر نظریں گاڑے بیٹھا تھا۔
 کو ٹھڑ ی کے جن سوراخوں سے صبح کی روشنی اندر آئی‘اچانک انہی سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے داخل ہو کر ہلچل مچا دی ۔ جون سردی سے کانپنے لگا۔
’’خدا کی پناہ !‘‘ وہ دانت کچکچا کر بولا ۔’’میں تو سزا پا نے سے پہلے سردی سے اکڑ کر مرجاؤں گا‘‘۔
 ٹام نے خود کو گرم کے لیے ورزش شروع کر دی ۔ ٹام مضبوط جسم کا مالک تھا مگر عمر ڈھلنے کے ساتھ اس کے بدن پر موٹا پے کے آثار ظاہر ہوچکے تھے ۔اسے ورزش کرتے دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ کل کسی وقت اس کے فربہ وجود میں گولیاں اور سنگینیں یوں اتریں گی جیسے مکھن کی ٹکیہ میں چھری اُترتی ہے ۔
 شدید سردی کے باعث مجھے کبھی کبھی یوں محسوس ہو تا تھا جیسے میرے با زو میرے وجود سے الگ ہو گئے ہوں ۔ ایسے لمحوں میں مجھے اپنا جیکٹ یاد آتا ۔ جو انہوں نے مجھ سے چھین لیا تھا ۔ انہوں نے ہما رے سارے کپڑے اتروا کر سپا ہیوں کو پہنا دیے تھے،اور ہمیں اس سوتی پا جا مے کر تے میں ملبوس کردیا تھا ۔جو ہسپتال کے مریضوں کا گرمیوں کا لباس ہو تا ہے ۔
تھوڑی دیر ورزش کے بعد ‘ٹام سانس درست کر نے کے لیے بیٹھ گیا ۔
’’کچھ گرمی آئی؟‘‘ میں نے پو چھا ۔
’’ نہیں ‘‘اس نے برا منہ بنا کر کہا ‘‘۔ مگر سانس پھول گیا ‘‘۔
آٹھ بجے کے قریب ایک فوجی افسر تین سپاہیوں کے ساتھ ہماری کوٹھڑی میں آیا ۔
’’ان تین کے نام کیا ہیں ؟‘‘ افسر نے ہمارے گارڈسے سوال کیا ۔
’’ٹام،جون اور پابلو ‘‘گارڈ نے جواب دیا ۔
افسر نے عینک درست کی ‘اور ہا تھوں میں تا می فہرست کو غور سے دیکھا ۔
 ’’ٹام.........ٹام .......یہ ہے ۔ ٹام‘ تمہیں موت کی سزا دی گئی ہے ۔کل صبح تمہیں گو لی مار دی جا ئے گی ‘‘۔
یہ کہہ کر وہ پھر فہرست پر جھک گیا ۔
 ’’اور ........تم دونوں کو بھی ۔ جون اور پا بلو۔ سزائے موت‘‘ اس نے فہرست پر انگلی پھیرتے ہو ئے کہا۔
’’ یہ نا ممکن ہے ‘‘ جون چیخ پڑا ۔
’’تمہارا پو را نام کیا ہے ؟‘
’’جون مِربل‘‘۔
’’یہ ........یہا ں تمہارا نام ہے ‘‘۔ افسر نے اطمینان سے تصدیق کی ۔
’’...........اور تمہیں موت کی سزا دی گئی ہے ‘‘
’’ لیکن میں نے کچھ نہیں کیا ‘‘۔ جون کی آواز میں وحشت تھی ۔
 افسر نے لا پروائی سے کندھے اچکا ئے اور ہم دونوں کی جانب رُخ کر کے بولا ۔’’ کچھ دیر میں تم لوگوں کے پا س ایک ڈاکٹر آئے گا، اسے رات بھر تمہارے پاس رہنے کی اجازات ہے ‘‘۔
یہ کہہ کر افسر فوجی انداز میں ایڑھوں پر گھوم کے چلا گیا ،
’’میں نے کیا کہا تھا ‘‘۔ ٹام فوراًبولا۔ ’’ہم ٹھکانے لگ گئے ہیں ‘‘۔
’’ہاں ‘‘ میں نے کہا۔ مگر چھوٹے کے سا تھ زیادتی ہو ئی ہے ‘‘۔
 میں نے یہ بات کہہ تو دی تھی مگر حقیقت یہ تھی کہ مجھے چھوٹے پر غصہ آرہا تھا۔ اس کا چہرہ خوف کی زیادتی سے ٹیڑھا ہو گیا تھا ،اور نقوش عجیب انداز میں مسخ ہو گئے تھے ۔ اس کی یہ حالت مجھے بے چین کر رہی تھی ۔جس کے باعث مجھے اس پر غصہ آنے لگاتھا ۔تین دن پہلے تک یہ محض ایک بچہ تھا لیکن اب وہ کسی دوسرے سیارے کی بوڑھی مخلوق لگ رہا تھا ۔ مجھے یقین تھا کہ اب اگر رہا ئی مل بھی گئی تو وہ دوبارہ کبھی بچہ نہیں لگے گا ،ممکن ہے وہ ہمدردی کا مستحق ہو لیکن مجھے ہمدردی جتاتے ہو ئے متلا ہٹ ہو تی ہے ،سزا سننے کے بعد وہ خاموشی سے زرد ہو تا جا رہا تھا۔ اس کے ہو نٹ نیلے پڑ گئے تھے ۔ ٹام نے رحم کے جذبے سے مغلوب ہو کر اسے بازو سے پکڑ کر کھڑا کرنا چا ہا مگر اس نے خود کو نہایت شدت سے کو نے میں سمیٹ کیا اور چہرہ بگاڑ کر ٹام کو گھورا۔
’’اسے چھوڑ دو ٹام ‘‘۔ میں نے آ ہستگی سے کہا ۔’’ یہ دھاڑیں مارنے والا ہے‘‘۔
 ٹام چاہتا تھا کہ چھوٹے کو تسلی دے ‘اس سے ہمدردی کر ے ، وہ چاہتا تھا کہ اس عمل میں مصروف رہنے کے باعث ضرور اس کا دل بھی بہلا رہے گا ، اور اپنے بارے میں سوچنے سے بچے گا ۔ مجھے ٹام کی حرکت بری لگ رہی تھی ۔ میں نے بھی پہلے کبھی موت کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔
 پہلے کبھی موت واضح طور پر میرے سامنے آئی ہی نہیں تھی ،مگر اب جبکہ موت سامنے تھی ۔ میں اس کے بارے میں سوچنا چاہتا تھا ، میں اپنے جسم میں داخل ہو تی گولیوں کے بارے میں سوچنا چاہتا تھا، مرنے سے پہلے چیخ مارنے کی فرصت ملتی ہو گی یا نہیں ؟ تمام گولیاں جس پار کر تی ہو ئی دوسری سمت نکل جا تی ہیں یا........؟ مجھے جلدی نہیں تھی ان باتوں پر غور کر نے کے لیے میرے پاس تمام رات پڑی تھی ۔
 کچھ دیر بعد ٹام بھی خاموش ہو گیا ۔ میں نے کنکھیوں سے اُسے دیکھا ، وہ پیلا پڑرہا تھا، میں نے سر اُٹھا یا اور چھت کے سوراخ سے ایک ایک ستارہ چمکتے دیکھا ،سرد اور شفاف رات کی ابتدا ء ہو چکی تھی ۔
دروازہ کھلا اور دو گارڈذداخل ہو ئے ان کے ساتھ بھورے بالوں والا ایک وردی پوش شخص تھا ۔
 ’’میں ڈاکٹر ہوں ‘‘ اس نے خوش دلی سے کہا ۔’’جہاں تک ممکن ہوا‘میں اس دردناک صورت حال میں آپ کی مدد کروں گا‘‘۔
’’تم کیا کرو گے ؟‘‘ میں نے اکتا ہٹ سے پوچھا۔
 ’’ جو تم کہو گے ۔ تمہاری زندگی کے آخری چند گھنٹے خوش گوار بنانے کے لیے میں کچھ بھی کر نے کو تیا ر ہوں ‘‘ ۔ ڈاکٹر کے لہجے میں ہمدردی تھی ۔
’’تم ہمارے ہی پا س کیوں آئے ؟اور بہت سے ہیں قید خانہ بھرا ہوا ہے ‘‘۔
 ’’مجھے یہاں بھیجا گیا میں یہاں آگیا ‘‘۔ اس کی آواز دھند لا گئی ، پھر وہ فوراٍسنبھل گیا ،’’تم سگریٹ پیتے ہو؟ میرے پاس سگریٹ ہیں سگار بھی ہیں‘‘۔
 ’’نہیں ۔شکر یہ‘‘ میں نے سگریٹ لینے سے انکار کردیا اور اس کی آنکھوں میں جھانکا ۔اس نے مضطرب ہو کر پہلو بدلا ۔
 میں چند لمحوں تک اسے دیکھتا رہا ارو پھر یکایک اس کی موجودگی سے لا تعلق ہو گیا ۔دونوں گارڈز فرش پر بچھے ایک کمبل پر بیٹھ گئے ۔ طویل القامت گارڈ جس کا نام پیڈور تھا اپنی انگلیاں چٹختا رہا تھا جب کہ دوسرا گارڈ نیند کے غلبے جسے نجات حاصل ؛ کر نے کے لیے بار بار اپنا سر جھٹک رہا تھا ۔
 میں نے پشت سیدھی کی اور اپنے دونوں سا تھیوں پر نظر دوڑائی، ٹام اپنا سر گھٹنوں پر رکھے بیٹھا تھا ۔ جون قا بل رحم حا لت میں تھا اس کا منہ کھلا ہو ا تھا اورنتھے پھول رہے تھے ۔
 ڈاکٹر نے جون کی کلائی تھام کر اس کی نبض کی رفتار معلوم کر نی چا ہی۔ جون نے خاموشی سے اپنا با زو ڈاکٹر کی جا نب بڑھا دیا اور بد ستور کھلے منہ کے ساتھ نتھنے پھلا تا رہا ۔
معلوم نہیں کیوں میں ڈاکٹر کی اس حرکت پر جھنجلا گیا ۔‘‘ کتے کا بچہ ‘‘ میں نے خود کو بڑبڑاتے سنا ۔
’’ میرے پاس آیا تو حرامی کا جبڑا توڑ دوں گا ‘‘
 وہ میرے پاس تو نہیں آیا۔ مگر چھوٹے سے فارغ ہو کر بہت دیر تک مجھے دیکھتا رہا۔ میں حیران ہوا کہ وہ مجھے اتنے غور سے کیوں دیکھ رہا ہے ۔
’’بہت ٹھنڈ پڑ رہی ہے ، کیا خیال ہے ؟ اس نے عجیب انداز میں مجھ سے پوچھا۔
’’مجھے تو محسوس نہیں ہو رہی‘‘۔ میں نے جواب دیا۔ لیکن وہ حسب سابق مجھے غور سے دیکھتا رہا ۔
اچانک مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہوا ۔ میں نے اپنے ہا تھوں سے اپنے چہرے کو چھو کر دیکھا۔
 میرا چہرہ پسینے سے تر تھا ۔ یہ عجیب انکشاف تھا ۔اس قدر سر دی میں میرا بدن پسینے میں نہا یا ہوا تھا ۔ میرے سرکے بال گیلے ہو کر اکڑ گئے تھے۔ کپڑے جسم سے چپک گئے تھے ۔ میں تقریباً ایک گھنٹے سے پسینہ پسینہ ہو رہا تھا ۔لیکن اپنی اس حالت سے بے خبر تھا ۔ ڈاکٹر نے میرے چہرے سے پسینے کے قطرے ٹپکتے دیکھے تھے ۔اور سمجھ گیا تا کہ میں خوف کی شدت سے پگھل رہا ہوں ۔ وہ خاموشی سے میری اس حالت کا تجزیہ کر رہا تھا ۔میرا جی چاہا کہ ڈاکٹر کا چہرہ نوچ لوں ۔ میں اس ارادے سے کھڑا ہوا ،مگر اچانک مجھے میرا غصہ بے جا معلوم ہوا ،اور میں نے خود کو لا تعلقی کی کیفیت طاری ہو تے محسوس کیا ۔ میں نے کندھے اچکائے اور بینچ پر بیٹھ گیا ۔
 بینچ پر بیٹھ کر میں اپنے جسم کا پسینہ پونچھنے لگا ۔ جلد ہی میرا رومال لبریز ہو گیا ،مگر میرے بدن سے پسینہ بد ستور نمودار ہو تا رہا ۔ کچھ دیر بعد میں نے پسینہ خشک کر نے کی کوشش ترک کر دی اور خود سے ا یڑی سے چھوٹی تک بیگھتے محسوس کرنے لگا ۔
’’تم ڈاکٹر ہو ۔ ؟ یک لخت جون نے سوال کیا ۔
’’ہاں ‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا ۔
’’بہت دیر تک تکلیف ہو تی ہے ۔ ؟
’’ کب ؟ اوہ۔ اس وقت ۔ نہیں‘‘ ڈاکٹر نے ہمدردی سے کہا ۔
’’ سب کچھ جلدی ہو جا تا ہے ‘‘ ۔
’’لیکن میں ........کچھ لو گوں نے بتا یا کہ ۔۔۔۔کبھی کبھی دوسری مرتبہ بھی فا ئر کرنا پڑتا ہے ‘‘۔
 ’’ کبھی کبھی ‘ ہا ں پہلی مرتبہ چلا ئی جا نے والی گولیاں اہم اعضاء کو چھوئے بغیر پار ہو جا تی ہیں ۔ اس صورت میں ۔کبھی کبھی ۔ ہاں ‘‘
’’تو پھر وہ اپنی بندوقوں میں دوبارہ گولیاں بھرتے ہوں گے ؟‘‘
’’ ہا ں ‘‘
 ’’ مگراس وقت لگتا ہے ‘‘ چھوٹے کی آواز میں لرزش تھی ۔ چھوٹا جسمانی اذیت کے خیال سے خوف زدہ تھا یہ اس کی عمر کا تقاضا تھا ۔ مجھے ایسی کو ئی تشویش نہیں تھی ۔ پسینہ آنے کی کو ئی اور بھی وجہ ہو سکتی ہے ۔
 میں نے ٹام کی جا نب نظریں دوڑاہیں اور یہ کچھ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ بھی پسینے میں بھیگا ہوا ہے ۔ اس منظر سے بچنے کے لیے میں سر اُٹھا یا تو چھت کے سوراخ سے آسمان نظر آیا ۔کہکشاں اسی ترتیب کے سا تھ موجود تھی ۔ لیکن آج ستا رئے مختلف دکھا ئی دیتے تھے۔ صبح کے وقت آسمان کا گہرا نیلا رنگ دیکھ کر مجھے بحرِاوقیاس کے روشن اور خوبصورت سا حلوں کا خیال آتا تھا ۔ دوپہر کے وقت مجھے دور افتادہ جزیرے کا وہ چھوٹا سا مہ خانہ یاد آتا جہاں منہ کا ذائقہ درست رکھنے کے لیے شراب کے سا تھ زیتون کا اچار پیش کیا جا تا تھا شام کے وقت جب سا ئے دراز ہو تے تو میں کھیل کے اس میدان کے با رے میں سوچتا جس کے نصف حصے میں چھا ؤں پھیل جا تی تھی ۔ اور نصف حصہ روشن رہتا تھا ۔، اور جب مجھے خیا ل آتا کہ زمین بھی یوں ہی آدھی روشن اور آدھی تا ریکی میں ڈوبی آسمان کی وسعت میں گھوم رہی ہے تو میرے سینے میں درد کی ایک لہر اٹھتی تھی ۔ مگر اس کوٹھڑی سے آسمان دیکھنے پر مجھے ما ضی کی کو ئی چیز یا د نہیں آئی تھی ۔ میں نے آسمان سے نظریں ہٹا کر ایک گہرا سانس لیا ۔اور ٹام کے پاس آکر بیٹھ گیا ۔ دیر تک خا موشی طاری رہی۔
 بلآخر ٹام نے بو لنا شروع کیا ۔ خیالات کی یلغار سے بچنے کے لیے وہ گفتگو کر نے پر مجبور ہو گیا تھا ۔ وہ میری جا نب دیکھے بغیر دھیمی آواز میں بول رہا تھا ۔ میرا رنگ زرد ہو گیا تھا اور میں پسینے میں نہا یا ہو اتھا ۔ ٹام کا بھی یہی حال تھا ۔ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے آئینہ بن گئے تھے یہ ہی وجہ تھی کہ وہ میری طرف دیکھے بغیر با تیں کر رہا تھا ۔ البتہ کبھی کبھی وہ ڈاکٹر کے چہرے پر نظریں گا ڑ دیتا تھا۔
وہ جا نتا تھا کہ اس وقت کوٹھٹری میں فقط ڈاکٹر ایک زندہ شخص ہے ۔
’’تمہاری سمجھ میں آرہا ہے ؟ میں تو کچھ نہیں سمجھ رہا ‘‘ٹام نے طویل گفتگو کے اختتام پر کہا ۔
’’کیا سمجھنا چا ہ رہے ہو ‘‘
’’ ہما رے سا تھ کچھ ہو نے وا لا ہے جومیری سمجھ میں نہیں آرہا‘‘۔
’’فکر مت کرو ‘ سب سمجھ میں آجا ئے گا ‘‘ میں نے کہا ۔
 اچانک مجھے ٹام کے پاس سے عجیب سی مہک آتی محسوس ہو ئی ۔ عام حالات میں میری ناک اتنی حساس نہیں تھی ۔ میں نے نتنھے پھلا کر حقیقت معلوم کرنا چا ہی۔
 ’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا ‘‘۔ ٹام مسلسل بول رہا تھا ‘‘۔ میں بزدل نہیں ہوں لیکن کچھ تو پتہ چلے ۔ دیکھو میں جانتا ہوں وہ ہمیں احاطے میں لے جا ئیں گے ..........ٹھیک ہے ؟؟ تمہارا کیا خیال ہے کتنے لوگ ہوں گے؟‘‘
’’کیا؟ ہاں ‘لوگ !! معلوم نہیں پانچ ۔۔۔یا آٹھ۔ اس سے زیا دہ تو نہیں ہوں گے۔‘‘
 ’’چلو ٹھیک ہے ۔فرض کیا کہ وہ آٹھ ہوں گے۔ کو ئی چیخ کر انہیں نشانہ باندھنے کا حکم دے گا ۔ ٹھیک ہے ۔ فوراً مجھ پر آٹھ بندوقیں تن جا ئیں گی۔میں دیوار کے دوسرے طرف نکل جا نے کی کو شش کروں گا ۔ پو ری قوت لگا دوں گا ، لیکن دیوار ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے گی ۔ جیسے ڈراؤ نے خوابوں ہو تا ہے..........میں جا نتا ہوں تمہارے سا تھ کیا ہو گا ۔ مگر سمجھ میں نہیں آرہا ‘‘۔
’’مت سوچو‘‘۔ میں نے کہا سب جا نتے ہیں ۔ کسی کی سمجھ میں نہیںآتا ‘‘۔
 ’’بہت تکلیف ہو تی ہوگی۔ سنا ہے چہرہ بگاڑنے کے لیے خاص طور پر آنکھوں اور منہ کا نشان لیتے ہیں ۔ کتے‘‘ ٹام کے لیے لہجے میں تلخی آگئی تھی ۔’’ مجھے تو ابھی سے اپنے بدن میں سوراخ ہو تے دکھا ئی دے رہے ہیں ...........ایک گھنٹہ ہو گیاچہرے اور گر دن میں درد ہو رہا ہے ۔ اصل میں تو یہ درد کل محسوس ہو گا ۔اور اس کے بعد کیا ہو گا ؟
 میں جا نتا تھا کہ وہ کیا کہنا چا ہ رہا ہے ۔ مگر میرے انجان بنے رہنا بہتر تھا ۔ جہاں تک درد کا تعلق تھا میں خوداپنے بدن میں سوراخ ہو تے محسوس کر رہا تھا۔اس لحاظ سے میں بھی اس جیسا تھا ۔
 ٹام دوبارہ بولنا شروع ہو گیا ۔ اس کی آنکھیں بد ستور ڈاکٹر پرگڑی تھی۔ جبکہ ڈاکٹر ہر چیز سے لا تعلق تھا ۔ میں ڈاکٹر کے آنے کا مقصدجانتا تھا۔ وہ ہما ری با تیں سننے نہیں آیا تھا ۔ وہ ہما رے جسموں کی نگہداشت پر مامور تھا ۔ ہما رے جسم جو زندگی میں ہی مر رہے تھے ۔
 ’’بالکل جس طرح بھیانک خوابوں میں ہو تا ہے ‘‘۔ ٹام بولے چلے جا رہا تھا ۔’’ ٹھوس چیزیں ہا تھ سے نکل جا تی ہیں ۔دھوئیں کی طرح ۔ یا جیسے ہوا یا با دل یا کو ئی بھی چیز۔ کچھ بھی تو سمجھ میں نہیں آتا ۔
 گولیاں سوراخ اور درد۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ مگر کہیں کوئی گڑ بڑ ضرور ہے۔ میں خود اپنی لاش دیکھنے لگتا ہوں۔ عام بات نہیں ہے۔ خود اپنی لاش، اپنی آنکھوں سے۔ اپنی لاش کون دیکھنا چاہتا ہے؟ میں کچھ نہیں دیکھنا چاہتا۔ آنکھیں بند کرلوں؟ میں تو کچھ سننا بھی نہیں چاہتا۔ دنیا دوسروں کے قائم رہے، مجھے کیا ہے۔ میں نے دوراتیں جاگ کر گزاری ہیں۔ حد ہوتی ہے آدمی بکھر جاتا ہے۔ پابلویقین کرو۔ میں کسی چیز کا انتظار کررہا ہوں، مگر یہ وہ چیز نہیں ہے۔
’’وہ چیز تو ہمیں پیچھے سے پکڑلے گی۔ بے خبری میں۔۔۔۔
’’بکواس بند کرو۔ میں نے چیخ کر کہا ۔’’ پادری کو بلاؤں؟ وہی تمہاری سنے گا‘‘۔
 مجھے ٹام کبھی بھی اچھا نہیں لگا تھا۔ اب اگر ہمیں ساتھ مرنا پڑرہا تھاتو اس کا یہ مطلب ہز گز نہیں تھا کہ میں اسے پسند کرنے لگوں۔ اس وقت ریمون میرے ساتھ ہوتا تو صورتِ حال مختلف ہوتی۔ ریمون میرا دوست تھا۔ ٹام اور جون کے درمیان میں خود کو تنہا محسوس کررہا تھا۔
 ٹام اب بھی بڑ بڑا رہا تھا۔ میں اس کا مسئلہ سمجھ رہا تھا۔ وہ سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے مسلسل بول رہا تھا۔ اس طرح مرنا غیر فطری تھا۔ اور غیر فطری موت کے اس قدر نزدیک پہنچ کر مجھے ہر چیز غیر فطری لگ رہی تھی۔ بجھے ہوئے کوئلوں کا ڈھیر، بینج، ڈاکٹر کا چہرہ۔ سب کچھ غیر فطری تھا۔ ٹام کے اور میرے احساسات ایک جیسے تھے مگر میں اس کی طرح کا رویہ نہیں اپنانا چاہتا تھا۔ اس کے باوجود میں جانتا تھا کہ ہم تمام رات ایک طرح کی باتیں سوچتے رہیں گے۔ ہمارے دھیان میں ایک جیسی چیزیں آئیں گی۔ ہم دونوں زرد پڑتے رہیں گے۔ لرزیں گے اور پسینے نہا جائیں گے میں نے کنکھیوں سے ٹام کی جانب دیکھا۔ اس کے چہرے پر موت کا سایہ تھا۔ میری انا کو دھچکا لگا۔ ہم چوبیس گھنٹے سے ساتھ تھے۔ میں نے اس سے باتیں کی تھیں، اس کی گفتگو سنی تھی اور مجھے یقین ہوگیا تھا کہ ہم میں کوئی چیز مشترک نہیں ہے اس کے باوجود اب ہم جڑواں بھائیوں کی طرح ایک جیسے نظر آرہے تھے۔ اس لئے کہ ہمیں ساتھ مرنا تھا۔
ٹام نے میری جانب دیکھے بغیر میرا ہاتھ تھام لیا۔
’’پابلو۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہم مرتے ہیں تو ختم ہو جاتے ہیں۔ بالکل ختم۔ ہمیشہ کے لئے‘‘
میں نے کوئی جواب دئیے بغیر اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔
’’نیچے دیکھو۔ غلیظ آدمی‘‘
ٹام گیلے فرش پر بیٹھا تھا۔ اس کی پتلون سے قطرے ٹپک رہے تھے۔
’’کیا! یہ کیا ہے؟؟ ‘‘ اس نے اپنے نیچے دیکھ کر خوف اور حیرت سے کہا۔
’’ تم اپنی پتلون گیلی کررہے ہو‘‘ میں نے اسے بتایا۔
’’ناممکن ہے‘‘۔ وہ غرایا۔‘‘ یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔میں تو کچھ بھی محسوس نہیں کررہا‘‘
 میں نے ڈاکٹر پر نظر ڈالی۔ وہ لاتعلقی سے گیلے فرش کو دیکھ رہا تھا۔ ’’ اس کی گرفت کمزور ہوگئی ہے‘‘۔
چند لمحوں بعد ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ رائے دی۔
’’میں نہیں جانتا یہ کیا ہے‘‘۔ ٹام نے سختی سے کہا۔ میں خوفزدہ نہیں ہوں۔ خدا کی قسم خوفزدہ نہیں ہوں‘‘
ڈاکٹر کوئی جواب دیے بغیر سرجھکا کر اپنی نوٹ بک میں تحریر کرنے لگا۔
 میں اور ٹام ڈاکٹر کو دیکھ رہے تھے۔ جون بھی ڈاکٹر دیکھ رہا تھا۔ ہم تینوں کی نظریں ڈاکٹر پر گڑی تھیں، کیونکہ ڈاکٹر زندہ تھا۔ فقط وہ زندہ آدمیوں کی طرح مصروف تھا۔ اس کا تجسس زندگی کی نشانی تھا۔ ڈاکٹر کو سردی لگ رہی تھی۔ اس کا بدن زندہ آدمیوں کی طرح موسم سے متاثر ہورہا تھا۔ جبکہ ہمیں اپنے جسموں کو محسوس کرنے کے لئے خود کو چھونا پڑرہا تھا۔ وقفے وقفے سے مجھے یہ خیال بھی آرہا تھا کہ شاید اب میں بھی گیلے فرش پر بیٹھا ہوں مگر شرم ساری سے بچنے کے لئے میں نیچے نہیں دیکھ رہا تھا۔ ایسی صورت حال میں ہم سوائے ڈاکٹر کو دیکھنے کے اور کیا کر سکتے تھے۔ ڈاکٹر اپنی ٹانگوں پر مضبوطی سے کھڑا تھا۔ اسے اپنے جسمانی اعمال پر کنٹرول تھا۔ وہ سوچ سکتا تھا کہ کل شام اور پرسوں صبح کو اس کی مصروفیات کیا ہوں گی۔ ڈاکٹر زندہ تھا اور ہم تین سائے اسے دیکھ رہے تھے اس کے جسم سے حرارت اور خون چوس کر دوبارہ زندہ ہونا چاہتے تھے۔ اچانک میں بلند آواز سے ہنسنے لگا۔ میرے قہقہے نے ایک گارڈ کو چوکنا کردیا۔ دوسرا بدستور کھلی آنکھوں کے ساتھ سویا رہا۔ سوئے گارڈ کی آنکھوں کا سفید حصہ نظر آرہا تھا اور منہ سے رال ٹپک رہی تھی۔
 میں بیک وقت تھکن اور اضطراب کا شکار تھا۔ میں سوچنا نہیں چاہتا تھا کہ صبح کیا ہوگا۔ موت کے خیال سے بچنے کے لئے میں بار بار سر جھٹک رہا تھا۔ لیکن جوں ہی میری توجہ کسی اور چیز پر مرکوز ہوتی، مجھے بندوق کی نالیاں دکھائی دیتیں جو دھیرے دھیرے میرے چہرے کی سمت اٹھنے لگتیں۔ متعدد مرتبہ گولیاں میرے وجود کو چیرتی چلی گئیں۔ ایک بار تو مجھے بالکل یوں لگا جیسے میں واقعی ٹکڑے ہوگیا ہوں۔ میں اونگھ گیا تھا۔ وہ مجھے دیوار کی سمت کھینچ رہے تھے۔ میں پوری قوت سے مزاحمت کررہا تھا۔ نڈھال ہونے پر میں ان سے رحم کی بھیک مانگنے لگا۔ مگر ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ گولیوں سے چھلنی ہوتے ہی میں نے چیخ مار کر آنکھیں کھول دیں۔ حواس بحال ہوتے ہی میں نے کنکھیوں سے ڈاکٹر کو دیکھا مجھے ڈرتھا کہ شاید ڈاکٹر نے مجھے چیختے ہوئے سن لیا ہے۔ مگر ڈاکٹر ایک کونے میں بیٹھا لاتعلقی سے اپنی مونچھوں کو بل دے رہا تھا۔ اس نے کچھ نہیں سنا تھا۔ میں پچھلے اڑتالیس گھنٹے سے جاگ رہا تھا۔ اور اب میری آنکھوں میں سوئیاں چبھ رہی تھیں۔ اگر میں چاہتا تو اس لمحے گہری نیند سوسکتا تھا مگر میں اپنی زندگی کے آخری چند گھنٹے سو کر نہیں گزارنا چاہتا تھا۔ صبح کی پہلی کرن کے ساتھ وہ مجھے لینے آئیں گے۔ اور میں عنودگی کے عالم میں سرجھکائے ان کے ساتھ چل دوں گا۔ شاید میں ان سے یہ پوچھ سکوں کہ مجھے جانوروں کی طرح کیوں ہلاک کیا جارہا ہے۔ میں مرنے سے پہلے سونا نہیں چاہتا تھا۔ میں سوچنا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے نیند کے دوران ڈراؤ نے خوابوں کا بھی اندیشہ تھا۔ میں نے اٹھ کر ٹہلنا شروع کردیا۔ موت کے خیال سے بچنے کے لئے میں ماضی کے خوش گوار لمحے دھیان میں لایا۔ کتنے دل کش چہرے تھے۔ کیسی دلچسپ باتیں تھیں۔ چھٹیاں، تہوار اور میلے اور جھولے، چھوٹے ماموں اور ریمون۔ شاید ریمون کچھ کہنا چاہ رہا تھا۔ وہ کیسا عجیب دن تھا۔ جب میں نے احتجاجی جلوس میں شرکت کی تھی۔ اور غرناطہ کی وہ رات جو میں نے ایک بینچ پر جاگ کر گزاری تھی۔ اس کے باوجود صبح کے وقت میں اسے مسکرا کر ملا تھا۔ چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور آزادی کی زندگی اور خوبصورت عورتیں۔ میں نے دیوانہ واران کا پیچھا کیا تھا۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ میں اسپین کو آزاد کرانا چاہتا تھا۔ میں آزادی کی تحریک کے لئے اپنی جان پر کھیل گیا تھا۔ نعرے لگا تارہا تھا تقریریں کرتا تھا۔۔۔۔۔اور اس دوران موت کا کبھی خیال ہی نہیں آیا تھا۔
 اب جبکہ زندگی ختم ہورہی تھی ان ساری چیزوں کا کیا مطلب تھا؟ مجھے یہ سوچ کر حیرت ہوئی کہ میں لڑکیوں کی صحبت میں اس قدر خوش تھا۔ اگر مجھے معلوم ہو جاتا کہ میں اس طرح مروں گا۔ تو میں تمام زندگی اپنے بستر سے اٹھنے کی زحمت بھی نہ کرتا۔ میری پوری زندگی میری آنکھوں کے سامنے آگئی۔ اب سب کچھ اختتام کو پہنچ گیا تھا۔ مجھے کسی بات کا زیادہ دکھ بھی نہیں تھا۔ ممکن ہے عام حالات میں مجھے کچھ چیزیں چھوڑنے کا افسوس ہوتا۔ اپنے پسندیدہ کھانوں کا ذائقہ یاد آتا۔ یا میں اس پرسکون جھیل کے تصورات سے افسردہ ہوتا جہاں میں گرمیوں کی دوپہر میں تیرا کرتا تھا۔ لیکن موت نے تمام چیزوں کی دلکشی چھین لی تھی۔
 ’’دوستو!‘‘ اچانک ڈاکٹر نے ہمیں مخاطب کیا۔ اگر تم چاہو تو میں تمہارا آخری پیغام تمہارے پیاروں تک پہنچادوں گا‘‘۔
’’میرا کوئی نہیں ہے۔‘‘ ٹام ناگواری سے بولا۔
میں خاموش رہا۔
ٹام میری خاموشی پر حیران ہوا۔
’’ کانشہ! تم ’’کانشہ‘‘ کے نام کوئی پیغام نہیں بھجواؤں گے؟‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا۔
’’نہیں‘‘۔ میں نے تلخ لہجے میں جواب دیا۔
 آج میرے لئے کانشہ کی اہمیت مختلف تھی۔ کل تک میں اس سے پانچ منٹ بات کرنے کے لئے اپنا ایک بازو کٹوانے پر رضامند ہو جاتا۔ اسی لئے میں نے کل ٹام سے کانشہ کا ذکر کردیا تھا۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ اب کانشہ میرے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ بات کرنا تو درکناراب میں کانشہ کو دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ جب سے میرا بدن پیلا پڑا تھا، اور میں پسینے میں نہا گیا تھا، مجھے اپنے بدن سے کراہت آنے لگی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مجھے کانشہ کے بدن کی یاد سے بھی متلاہٹ ہونے لگی تھی۔ میں جانتا تھا کہ جب اسے میری موت کی طلاع ملے گی تو وہ روئے گی زندگی میں اس کی دلچسپی ختم ہو جائینگے۔ کئی دنوں تک وہ اپنے کمرے سے نہیں نکلے گی۔ مگر بہرحال وہ زندہ رہے گی۔ جبکہ میں مررہا تھا۔ مجھے اس کی خوبصورت آنکھیں یاد آئیں۔ جب وہ میری طرف پیار سے دیکھتی تھی تویوں لگتا تھا جیسے کوئی نہایت لطیف چیز اس کے وجود سے نکل کر مجھ میں داخل ہورہی ہے۔ لیکن اب صورتِ حال بدل چکی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ اگر اس لمحے وہ مجھے دیکھے گی تو مجھ پر اس کی نظروں کا قطعی کوئی اثر نہیں ہوگا۔۔۔ اس مرحلے پر میں تنہا تھا۔
ٹام بھی تنہا تھا۔ گو اس کی تنہائی کا انداز مختلف تھا۔
 اس وقت وہ بینچ کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اچانک اس نے بازو بڑھا کر لکڑی کو چھوا۔ اور پھر فوراً ہاتھ کھینچ لیا۔ اس کے چہرے پر خوف کا ایسا تاثر بھرا جیسے اس نے نادانستگی میں کوئی چیز توڑ دی ہو۔ وہ دوبارہ کانپنے لگا مجھے ٹام کی حالت پر حیرت نہیں ہوئی۔ مجھے خود یہ احساس ہورہا تھا کہ چیزیں مضحکہ خیز انداز میں تبدیل ہورہی ہیں۔ دیواروں کا رنگ بھی پیلا پڑرہا تھا۔ بینچ کی لکڑی، لالٹین یا کوئلوں کی راکھ پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہو جاتاتھا کہ ہم مرنے والے ہیں تمام چیزیں ایک فاصلے پر کھڑی سرجوڑے سرگوشیاں کررہی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے بسترِ مرگ پر پڑے مریض کے تیمادار کمرے کے ایک کونے میں دائرہ وار کھڑے دبے لہجے میں اس کی موت کے بارے میں گفتگو کررہے ہوں۔
 میں اس حالت کو پہنچ چکا تھا کہ اب اگر بتایا جاتا کہ مجھے آزاد کردیا گیا ہے تو میں اپنی جگہ منجمد ہو جاتا۔ ایک مرتبہ اپنے فانی ہونے کا احساس ہو جائے۔ تو موت میں چند گھنٹے یا چند برسوں کی تاخیر ایک ہی بات لگتی ہے۔ ایک لحاظ سے میں بالکل مطمئن ہوچکا تھا۔ اب کسی چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ لیکن خوفناک بات یہ تھی کہ میرا بدن میری مرضی کے بغیر کانپ رہا تھا اور میرے کپڑے پیسنے میں یوں تربتر تھے جیسے میرا وجود اندر ہی اندر پگھل کر ختم ہو جائے گا۔ میں نے خود کو چھوا، ہاتھ سے محسوس کیایوں جیسے میں کسی اور بدن کا ہاتھ لگا رہا ہوں۔ یہ میرا جسم تھا اس میں ایک دل زور زور سے دھڑک رہا تھا کچھ چیزیں جسم سے باہر آرہی تھیں کچھ اپنی جگہ ٹھیری ہوئی تھیں۔ پورا وجود ایک انجانے بھاری پن میں تبدیل ہوچکا تھا۔ ساتھ چمٹ جانے والا مکر وہ جاندار۔ یک لخت مجھے محسوس ہوا جیسے میں کسی کیڑے کے اندر قید ہوں۔
’’ساڑھے تین بج گئے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔
 ہم چونک گئے ہم بھول گئے تھے کہ وقت گزرہا ہے رات ایک سیاہ عفریت کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ شام کب اختتام کو پہنچی؟ رات کب شروع ہوئی؟ جون ہاتھ ہلا ہلا کر چیخنے لگا۔۔۔۔ میں مرنا نہیں چاہتا۔۔۔ میں کیوں مروں؟ میں نہیں مروں گا۔
 اس نے اپنے بازوہوا میں بلند کئے اور کوٹھڑی میں ادھر ادھر بھاگنے لگا پھر وہ سسکیاں لیتا ہوا ایک کونے میں ڈھیر ہوگیا۔ ہر چند کہ جون پاگلوں کی طرح شورمچار رہا تھا لیکن حقیقت میں وہ مجھ سے اور ٹام سے زیادہ اچھی حالت میں تھا۔
 وہ اس بیمار آدمی کی طرح تھا جو بیماری کا مقابلہ اپنے بلند ہوتے درجہ حرارت سے کرتا ہے لیکن جب مریض کی حرارت بھی اس کا ساتھ چھوڑ رہی ہو تو یہ زیادہ خطرناک علامت ہوتی ہے میں اور ٹام ٹھنڈے پڑرہے تھے۔
 جون رور ہاتھا اسے خود پر رحم آرہا تھا۔ یہ بے بسی کے انتہا تھی ایک لمحے کے لئے میرا جی چاہا کہ میں بھی اپنی حالت پر دھاڑیں مار مار کر روؤں۔ مگر اس کے برعکس میں نے چھوٹے کو غور سے دیکھا اور محسوس کیا کہ میں غیر انسانی طور پر لاتعلق ہوچکا ہوں۔
’’میں باوقار انداز میں مروں گا‘‘ میں نے خود کو کہتے سنا۔
 صبح کے آثار دیکھنے کے لئے ٹام چھت کے سوراخ کے نیچے جا کھڑا ہوا جب سے ہمیں ڈاکٹر نے وقت بتایا تھا ہم اپنی زندگی کو قطرہ قطرہ ختم ہوتے دیکھ رہے تھے۔
’’ سن رہے ہو؟‘‘ ٹام کی وحشت زدہ آواز آئی۔
’’ہاں‘‘
 ’’ابھی رات باقی ہے لیکن انہوں نے احاطے میں چلنا شروع کردیا ہے معلوم نہیں کم بختوں کا کیا ادارہ ہے بہرحال اندھیرے میں تو گولی نہیں ماریں گے‘‘
 ’’روشنی ہونے میں بھی زیادہ دیر نہیں ہے‘‘ میں نے آنکھیں چھپکاتے ہوئے کہا۔ مجھے آسمان پر اندھیرے کی گہرائی کم ہوتی محسوس ہوئی تھی۔
کچھ دیر میں ماحول کا رنگ بدلنے لگا۔ دور کہیں گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیں۔
ٹام نے ڈاکٹر سے سگریٹ طلب کی۔
 ’’یہ سب کیا ہے؟‘‘ اس نے سگریٹ سلگاکر کہا ۔ وہ مزید کچھ کہنا چاہتا تھا مگر دروازے کی آہٹ سن کر خاموش ہوگیا۔دروازہ کھلا اور ایک افسر چار سپاہیوں کے ساتھ اندر داخل ہوا۔
’’ٹام؟ افسر نے پوچھا
ٹام خاموش رہا۔ مگر گارڈ نے اس کی سمت اشارہ کردیا۔
’’جون؟‘‘
’’وہ۔۔۔۔۔وہ جو فرش پر بیٹھا ہے‘‘۔ گارڈ بولا
’’اٹھو‘‘۔ افسر نے جون سے کہا۔
 جون نے خود کومزید سمیٹ لیا۔ سپاہیوں نے اس کی بغلوں میں باز وڈالے، اور گھسیٹ کر کھڑا کردیا، لیکن جوں ہی سپاہی ہٹے، جون پھر ڈھیر ہوگیا۔ سپاہیوں نے افسر کی جانب دیکھا۔
 ’’اسے اٹھا کر لے جانا پڑے گا‘‘ افسر نے کہا‘ اور پھر ٹام کی سمت گھومتے ہوئے بولا۔ ’’چلو تم میرے ساتھ چلو‘‘۔
 ٹام دوسپاہیوں کے درمیان افسر کے ساتھ روزانہ ہوگیا۔ بقیہ دوسپاہیوں نے چھوٹے کو اٹھالیا۔ وہ بے ہوش نہیں تھا۔ اس کی آنکھیں پوری کھلی ہوئی تھیں۔ اور رخساروں پر آنسوؤں کی لکیریں بن رہی تھیں۔ میں کھڑا ہو اتوافسر نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا۔
’’تمہارا نام پابلو ہے‘‘؟
’’ہاں‘‘
’’ تم یہیں رکو تمہیں بعد میں لے جائیں گے‘‘
 ڈاکٹر اور دوگارڈ بھی ان کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ اب میں بالکل تنہا تھا مجھے وقفے وقفے سے گولیاں چلنے کی آوازیں آرہی تھیں، ہر آواز پر میں کانپ اٹھتا۔ میرا جی چاہا کہ میں اپنے بال کھینچوں اور زور زور سے چیخوں لیکن میں نے اپنے ہاتھ جیبوں میں ڈال لیے اور ہونٹوں کو سختی سے دبالیا۔ میں باوقار انداز میں مرنا چاہتا تھا۔
 ایک گھنٹے میں وہ مجھے ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گئے۔ کمرہ سگریٹ کے ھوئیں سے بھرا ہوا تھا اور اس قدر گرم تھا کہ سانس لینے میں دشواری ہورہی تھی۔ یہاں دو افسر اپنے گھٹنوں پر کاغذات پھیلائے بیٹھے تھے۔
’’تمہارا نام پابلو ہے؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’ریمون کہاں ہے؟‘‘
 کچھ دیر بعد وہ مجھے دوبارہ افسروں کے سامنے پیش کرنے کے لئے چل پڑے۔ راہداری سے گزرتے ہوئے اچانک ہمارے قدموں تلے سے ایک چوہا نکل کر دوسری طرف بھاگا۔ مجھے یہ منظر بہت دلچسپ لگا۔
 ’’چوہا! تم نے دیکھا؟ چوہا تھا‘‘۔ میں نے ایک سپاہی سے کہا۔ سپاہی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی ۔ جہاں تک میرا تعلق تھا۔ مجھے ہنسی آرہی تھی۔ لیکن مجھے ڈرتھا کہ ایک مرتبہ میں ہنس پڑا تو ہنستا چلا جاؤں گا۔ رُک نہیں سکوں گا۔ ہنسی سے بچنے کے لئے میں نے بڑی مونچھوں والے سپاہی کو غور سے دیکھا اور کہا۔
’’احمق تمہیں اپنی مونچھیں کاٹ دینی چاہئیں‘‘
اس نے نیم دلی سے مجھے لات مارنے کی کوشش کی، مگر کچھ بولنے سے گریز کیا۔
’’تم نے اچھی طرح سوچ لیا؟‘‘ دوبارہ سامنا ہونے پر موٹے افسر نے مجھ سے پوچھا۔
 میں نے افسروں کو غور سے دیکھا۔ وہ ایسے کیڑے لگ رہے تھے۔ جو صرف مخصوص موسموں میں دکھائے دیتے ہیں۔
 ’’ میں جانتا ہوں ریمون کہا ہے؟ میں نے روانی سے کہا۔ وہ مرکزی قبرستان میں چھپا ہوا ہے۔ کسی دھنسی ہوئی قبر کے اندر یا گورکن کی چار دیواری میں‘‘۔
 بس میرا جی چاہا تھا کہ ان سے مذاق کروں۔ وہ میرے ہاتھوں بے وقوف بنیں اچھل اچھل کر پیٹیاں کسیں۔ ٹوپی سیدھی کریں۔ اور بے معنی احکامات جاری کریں۔
اور وہ واقعی اُچھل پڑے تھے۔
’’خوب ! ٹھیک ہے! اچھا پندرہ آدمی تیاکرو۔ فوراً
 اور تم موٹے افسر نے روانگی سے قبل مجھے مخاطب کیا۔۔۔۔ اگر تم نے سچ بولا ہے تو تمہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ ورنہ تم پچھتاؤ گے۔
 وہ شور مچاتے رخصت ہوگئے۔ اور میں اطمینان سے چھت کی طرف دیکھنے لگا۔ میں نے تصور کیا کہ اس لمحے وہ قبر کے پتھر الٹ رہے ہوں گے۔ گورکن کی چار دیواری میں کودر ہے ہوں گے۔ اپنی ناکامی پر برے برے منہ بناتے، قبرستان کی جھاڑیوں میں اُچھلتے کو دتے وردی پوش۔ میں بڑی مشکل سے ہنسی ضبط کررہا تھا۔
 تقریباً ایک گھنٹے بعد موٹا افسر اکیلا واپس آیا۔ اس نے میرے چہرے پر نظریں گاڑدیں میں اپنی سزا سننے کے لئے پہلے سے تیار تھا۔
 ’’اسے بیرونی احاطے میں لے جاؤ۔ فوجی کاروائی ختم ہونے کے بعد، اس کا فیصلہ شہری انتظامیہ کرے گی‘‘
مجھے یوں لگا جیسے میں نے غلط سنا ہو۔
’’ تو۔۔ تو مجھے گولی نہیں ماری جائے گی۔‘‘ میں نے پوچھا
’’نہیں‘‘
’’لیکن۔۔۔۔کیوں؟‘‘
 اس نے لاعلمی کے اظہار کے لئے کندھے اچکائے اور خاموش ہوگیا۔ سپاہی مجھے باہر کی جانب گھیسٹنے لگا۔ بیرونی احاطے میں سیکڑوں کی تعداد میں بچے عورتیں اور بوڑھے قیدی جمع تھے۔ قیدیوں کے درمیان چلتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ میں آہستہ آہستہ پاگل ہورہا ہوں۔ دوپہر کے وقت ہمیں کھانا دیا گیا۔ کھانے کے دوران مجھے ہوش نہیں تھا کہ میں کہا ہوں۔
 شام کے وقت چند نئے قیدی احاطے میں دھکیلے گئے میں نے اپنے محلے کے دکاندار پہچان لیا اس کا نام گارشیا تھا۔
’’ تم زندہ ہو؟‘‘ اس نے مجھے دیکھتے ہی حیرت سے پوچھا۔
’’مجھے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ پھر انہوں نے مجھے یہاں بھیج دیا۔ معلوم نہیں کیوں‘‘۔
’’ مجھے دو بجے گرفتار کیا گیا۔ گارشیانے بتایا۔
’’کیوں تمہارا تو سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا‘‘
’’ جو بھی ان کی طرح نہیں سوچتا، وہ اسے گرفتار کررہے ہیں۔
 چند لمحوں کی خاموشی کے بعد گارشیاد بے لہجے میں بولا۔ ’’ وہ ریمون کی تلاش میں کامیاب ہوگئے‘‘مجھ پر لرزہ طاری ہوگیا۔
’’کب؟‘‘
 ’’آج صبح۔ ریمون نے عجیب احمقانہ حرکت کی۔ وہ چچا کے لڑکے سے کسی بات پر خفا ہو کر گھر سے نکل گیا۔ اسے کئی لوگ پناہ دینے کو تیار تھے مگر وہ کہنے لگا کہ پابلوں ہوتا تو میں اس کے گھر رہتا۔ وہ میرا دوست تھا مگر جب وہی گرفتار ہوگیا تو اس میں دوسروں کا احسان کیوں لوں۔ میں قبرستان میں چھپ جاؤں گا۔
’’قبرستان میں؟‘‘
 ’’ہاں بس ریمون سے یہی غلطی ہوئی۔ صبح وہ ہاں آگئے۔ یہ ہونا ہی تھا ظالموں نے اسے دیکھتے ہی گولیوں سے اڑادیا۔‘‘
’’قبرستان میں؟‘‘
’’ہاں‘‘
 ہر چیز دائرہ دار گھومنے لگی۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں زمین پر بیٹھا تھا۔ اچانک میں اتنی زور سے ہنسا کہ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔