جمعہ، 16 اگست، 2013

تنقید اور خود تنقید ...................... تحریر۔۔خاکی جویو

کوئی بھی قومی اور انقلابی پارٹی تنقید سے نہیں گھبراتی۔ہم انقلابی ہیں اس لیے صداقت اور سچائی ہمارے ساتھ ہے اور تاریخی قوتیں یعنی عوام ہمارے ساتھ ہیں ۔انقلابی ذ ہنی طور پر مضبوط اور سخت جان ہوتے ہیں ۔انہیں یقین ہوتا ہے کہ اس کے ساتھی جدوجہد کی تمام تر ذمہ داریاں ہمت اور بہادری کے ساتھ نبھانے والے اور دکھ اور تکلیف کو خوشی سے جھیلنے والے ہیں ۔وہ ناکامیوں اور شکستوں کے عادی ہیں اور اس پر اپنا دل ہار نہیں بیٹھتے ۔انقلابی نہ تو تنقید سے گھبراتے ہیں اور نہ ہی مشوروں کو نظرانداز کرتے ہیں ۔’’جو شخص ہزاروں مصیبتوں سے نہیں گھبراتا ،وہ بادشاہ کو گھوڑے سے اتار سکتا ہے‘‘یہی وہ جذبہ ہے جو انقلابی جدوجہد کو ترقی عطا کرتا ہے ۔ انقلابی پارٹی تنقید اورخود تنقید کے سائنسی ہتھیار سے لیس ہوتا ہے،اسے استعمال کرکے وہ خراب اعمال سے نجات حاصل کرتا اور اچھے اعمال کو اپناتا ہے ۔دیانتدارانہ تنقید ایک ایسا عمل ہے،جو انقلابی پارٹی کو دوسری پارٹیوں سے بلند اور ممتاز بناتا ہے ۔اس لیے ہمیں سب سے پہلے اپنے خیالات اور اعمال کو پاک صاف اور مثبت بنانا چاہیے۔اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہمارے اندر ہی گندگی کے ڈھیر لگ جائیں گے ،اس لیے ہمیں اپنے دل کا چہرہ پابندی کے ساتھ دھونا چاہیے ،اگر نہیں دھوئیں گے تو ہمارا انقلابی چہرہ میل کچیل سے بھر جائے گا اور اس میں بدبو اور کراہت پیدا ہوجائے گی ۔ پارٹی اور کارکنوں کے کام کاج میں بھی یہ گندگی اور کچرا جمع ہو سکتا ہے ،جس کی صفائی ازحد ضروری ہے ۔ ’’بہتا پانی بدبودار نہیں ہوتا ‘‘کے مصداق مسلسل عمل کے میدان میں متحرک رہنے والی پارٹی کے اندر انتشار اور مایوسی کے جراثیم جنم نہیں لیتے اور وہ بدبو دار جوہڑ کی شکل اختیار نہیں کرتی ۔
اپنے کام/ عمل کو مسلسل جانچتے رہنا ،جمہوری عمل کو بڑھاتے رہنا ،تنقید سے نہ گھبرانا ،جو خود سیکھا ہو اسے دوسروں کو سکھانا ،قول وفعل میں تضاد سے بچنا ،بولنے والے کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے اس کی باتیں توجہ کے ساتھ سننا ،اگر اچھی باتیں ہوں تو ان پر عمل کرنا اور اگر ان میں غلطیاں ہوں تو ان کی تصحیح کرنا ؛یہ ایک طاقتور انقلابی سائنسی طریقہ ہے ،جس کی بدولت کارکنوں کے اذہان اور پارٹی کے جسم کو ہر طرح کی گندگی ،کچرے اور جراثیم سے پاک ،صاف اور محفوظ رکھا جاسکتا ہے ۔ پارٹی کے اندر ہمیشہ مختلف خیالات کے بیچ مقابلہ رہتا ہے۔جن سے پارٹی اور سماج،قدیم اور جدید ضروریات کے تضادات کی ترجمانی ہوتی ہے ۔اگر پارٹی کے اندر یہ تحرک اور اس کے حل کے لیے مختلف خیالات کے مابین تضاد نہ ہو تو پارٹی کی زندگی جامد ہوجائے گی،یہی وجہ ہے کہ حقیقی انقلابی لوگ سرگرم نظریاتی تحرک کے حامی ہوتے ہیں۔یہ طریقہ انقلابی پارٹی اور جدوجہد میں اتحاد کو مضبوط اور پختہ کرنے کا جدلیاتی طریقہ ہے ۔ہر انقلابی کارکن اور رہنما کو یہ طریقہ اختیار کرنا اور استعمال میں لانا چاہیے لیکن قواعد وضوابط سے بالاتر (unfettered)آزادی جدوجہد کو نقصان پہنچاتی اور غیر اصولی رجحان کے فروغ کا سبب بنتی ہے جس کی وجہ سے پارٹی کے اندر زوال پذیری اور سطحیت پر مبنی رجحانات جنم لیتے ہیں اور کارکن مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ پارٹی کے اندر من پسندی (موضوعیت پسندی )اور گروہ پسندی کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے دو باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے :
اول: آئندہ غلطیوں سے بچنے کے لیے گذشتہ غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے ۔
دوم: مریض کو بچانے کے لیے بیماری کا علاج جڑ سے کیجیے،بلا جھجھک گذشتہ غلطیوں کو عیاں کیا جائے۔ ماضی میں ہونے والی غلطیوں کا سائنسی طریقے پر تجزیہ کیجیے اور ان پر تنقید کیجیے تاکہ آئندہ بہتر لاحہ عمل اختیار کرتے ہوئے عمل کیا جاسکے ۔ مزید غلطیوں سے بچنے کے لیے گذشتہ غلطیوں سے سبق حاصل کرنا ،غلطیوں کو عیاں کرنا اور ان پر تنقید کا مقصد معالج کی طرح مریض کی زندگی بچانے کی طرح ہونا چاہیے ۔ جو شخص یا کارکن غلطیوں کو چھپاتا نہیں اور علاج ہونے تک غلطیوں پر ڈٹ نہیں جاتا بلکہ خلوص اور دیانتداری سے علاج اور اصلاح کا خواہشمند ہے ۔اس کے ایسے عمل کو خوش آمدیدکہنا چاہیے ،تاکہ وہ ایک مثالی انقلابی بن سکے ۔اگر ہم ایسے شخص کی غلطیوں پر برہم ہو کر آپے سے باہر نکل کر اس چڑھ دوڑیں گے تو اس کی اصلاح ہرگز نہ ہو سکے گی۔کسی بھی کارکن کی نظریاتی اور سیاسی بیماری کے علاج میں ہمیں جلد باز نہیں ہونا چاہیے لیکن اسے بچانے کے لیے علاج کا صحیح اورمؤثر رویہ اختیار کرنا چاہیے۔پارٹی کے اندر تنقید کے بارے میں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ کچھ کارکن تنقید کرتے وقت اہم اور بڑے مسائل کو چھوڑ کر فضول غیر اہم اور سطحی باتوں پر بحث اور تنقید کرتے ہیں۔جبکہ تنقید کا اصل مقصد سیاسی اور تنظیمی غلطیوں کی چھان بین اور نشاندہی ہے۔ اگر کسی بھی تنقیدکا مقصد بجائے سیاسی اور تنظیمی غلطیوں کے محض ذاتی مسائل ہو تو ایسی تنقید کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، کیونکہ اس طرح متعلقہ کارکن متذبذب ہوجاتاہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور اگر ایک بار ایسی سطحی تنقید کاسلسلہ شروع ہو گیا تو اس بات کا خطرہ موجود رہتاہے کہ پارٹی کے اندر فضول ،غیر اہم اور سطحی امور پر ہی توجہ دی جائے گی ۔نتیجتاً ہر کارکن بزدل بن جائے گا اور حد سے زیادہ محتاط رہے گا اور پارٹی حقیقی سیاسی اور انقلابی فرض کی ادائیگی سے قاصر ہوجائے گی۔ پارٹی کے اندر تنقید میں موضوعیت پسندی یا من پسندی اور سطحی تنقید سے باز رہنا چاہیے ۔ہر بیان اور تنقید حقیقت پر مبنی ہوناچاہیے ۔ تنقید میں سیاسی پہلو پر زیادہ زور دینا چاہیے کیونکہ یہ پارٹی کے اندر سیاسی تنظیم کاری کو مضبوط بناتی ہے ۔اس کی قبولیت اور تخلیقی صلاحیت کو دوچند کرتی ہے ۔تنقید کو کبھی بھی ذاتی حملے میں تبدیل نہ کیا جائے،اس طرح نہ صرف یہ کہ افراد کو بلکہ پارٹی اور اسکی تنظیم کاری کو بھی نقصان پہنچتا ہے ۔تنقید کا ایسا طریقہ پیٹی بورجوا انفرادیت پسندی کااظہار ہے ۔جبکہ تنقید برائے اصلاح کا طریقہ ،پارٹی ممبران کو تنقید کے اصل مقصد سے متعارف کراتا ہے اور سماجی تضادات میں کامیابی کے حصول کے لیے پارٹی کی تخلیقی صلاحیت کو اجاگر کرتا ہے ۔
اگر انقلابی کارکنوں میں کچھ کمزوریاں اور کوتاہیاں ہیں تو ان پر تنقید (برائے اصلاح )سے گھبرانا نہیں چاہیے۔انقلابی کارکن اپنے عوام کے دوست اور ہمدرد ہوتے ہیں،اس لیے ہر ایک شخص کو چاہے وہ کوئی بھی ہو ، یہ اجازت ہونی چاہیے کہ وہ ہمیں ہماری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے آگاہ کرے ۔اگروہ سچ کہہ رہا ہے تو ہمیں اپنی اصلاح کرنی چاہیے اور اگر اسکی تجویز سے پارٹی یا عوام کو فائدہ پہنچ رہا ہے تو اس پر عمل کرنا چاہیے ۔ انقلابی کارکنان اپنے عمل کو عوامی مفادات سے جوڑتے ہیں اور اپنے مقصد کے حق پر ہونے پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے ۔ وہ کبھی بھی ایسے خیال ، نظریے یا طریقے سے منہ نہیں موڑتے جو عوامی مفادات کے حق میں ہو اور نہ ہی ایسی سیاسی دھینگا مشتی کی اجازت دیتے ہیں ، جو انقلابی پارٹی ، قیادت ، کارکنان اور جدوجہد کو داغدار کرتی ہو ، وہ ایسے کوڑا کرکٹ اور گندگی کے جمع ہونے کو رد کردیتے ہیں ، جو ایک تندرست جسم کو کمزور اور اپاہج کرتا ہے ۔بے شمار انقلابی شہداء اپنی قیمتی جانیں تو قربان کردیتے ہیں لیکن وہ عوامی مفادات سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوتے ۔ جن کی قربانیوں کو یاد کرکے ہم زندہ کارکنان افسردہ اور رنجیدہ ہوجاتے ہیں۔ کوئی بھی ایسا ذاتی مفاد نہیں ہوتا ، جسے قربان نہ کرتے ہوں ، کوئی بھی ایسی غلطی نہیں ہوتی جسے انقلابی کارکن عوامی مفادات کے حق میں چھوڑ نہ دیتے ہوں۔ انقلابی کارکنوں کو کسی بھی کامیابی پر فخر اور تکبر پر مبنی رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے ۔ اس کے برعکس انہیں اپنی خوش فہمیوں کو دور کرنا چاہیے اور اپنی کمزوریوں ، کوتاہیوں اور خامیوں پر مسلسل تنقید کرتے رہنا چاہیے تا وقتیکہ ان کی اصلاح نہ ہوجائے ۔ جس طرح ہم روزانہ کچرا اور گندگی صاف کرتے ہیں اور صفائی ستھرائی کے لئے اپنا چہرا دھوتے ہیں ، اسی طرح تنقید اور خود تنقید پارٹی ، کارکنوں اور جدوجہد کی کمزوریاں اور غلطیاں دھوکر اسے صاف کردیتی ہیں ۔ تنقید بر وقت ہونی چاہیے ۔ نقصان یا واقعہ ہوجانے کے بعد تنقید کرنے کا رجحان غلط ہے اگر اس کا مقصد حصول سبق نہیں! غلطیوں اور ناکامیوں سے سبق حاصل کرنے کے بعد محتاط رہنا چاہیے اور امور کو احسن طور پر انجام دینا چاہیے ۔ کسی بھی پارٹی اور شخص کا غلطیوں سے یکسر مبرا ہونا امر محال ہے لیکن پھر بھی ہمیں غلطیوں سے حتی لامکان بچنا چاہیے ۔ایک بار اگر غلطی ہوجائے تو جلد از جلد نہ صرف یہ کہ اسکی اصلاح کرنی چاہئے بلکہ اس کا ازالہ بھی کرنا چاہیے۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں