پیر، 19 اگست، 2013

حِبّا



I have to tell the world that, if they do 
Not defend us. Then we have to defend
ourselves, with the only Thing is that,Our Bodies.

 "HIBBA"

تین سطروں پر مشتمل یہ وہ تاریخی الفاظ ہیں جو ایک اٹھائیس (28) سالہ فلسطینی خاتون( جوپانچ بچوں کی ماں تھی )نے اپنی موت سے محض چندگھڑیاں قبل اپنی ویڈیوریکارڈنگ کے دوران اداکئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اسرائیل کے تاریخی شہرعفولا (Afula) کے مشہور شاپنگ سنٹر عماکم شاپنگ مال کے قریب خود دھماکہ خیز مواد سے اُڑا دیا ۔ اس خودکُش دھماکے میں پانچ اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے جبکہ اَسّی کے قریب ذخمی ہوئے دوسرے دن یہ خبر پوری دنیا کے اخباروں کی زینت بنی اور پھر دنیا یروشلم سے جکارتہ ، بالی سے بغداد اور لندن سے میڈرڈ ، کابل سے کراچی میں خودکش بم دھماکے دیکھ رہی ہے ۔
اگرانسان کی سیاسی ، سماجی ، مذہبی ، معاشی اور عسکری تاریخ پر ایک نظرڈالیں تو انسان نے ہمیشہ سے اپنے قومی وعظیم مقاصد کے حصول کے لیے یاعالیشان اور جاندار اصولوں کی بقاء کے لئے اپنی جان ومال کی لازوال اور بے مثال قربانیاں دی ہیں ، دنیا کی ہر قوم ہر علاقے میں آپ کو سینکڑوں ایسے ہیروزملیں گے ۔ جنہوں نے اپنی مٹی ، اپنے وطن اپنے اصول ، اپنے خیال و فکر کے دفاع کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ انتہائی دیدہ دلیری ، بہادری اور بے خوفی کی حالت میں پیش کیے ۔ آج ان کوایک تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ تاریخ کا ایک حقیقی اورتاریک پہلو یہ بھی ہے کہ جب بھی کوئی فاتح قوم یا فوج مفتوح فوج کے علاقہ یا قلعہ میں داخل ہوا کرتی تھیں تو شکست خوردہ فوج کی عورتیں اجتماعی طورپر خودکشی کرلیتی تھیں کیونکہ ان کے ہاں یہ عنصر موجود رہتاتھا کہ فاتح فوج محض ان کواپنی جنسی ہو س کے استعمال کے بعد ذلیل
وخوارکرکے چھوڑ دیں گے یا وہ خودہی رسواہوکر موت کے منہ میں چلی جائیں گی ۔
ایساہی ایک واقعہ 1837ء میں اس وقت پیش آیا جب بیلجئیم اپنی آزادی کی جنگ لڑرہاتھا۔ 35سالہ جین وین (Jan van)نے اپنی جنگی کشتی میں پڑے بارود کو خود ہی آگ لگادی جس سے دشمن کو زبردست تباہی سے دوچار ہونا پڑا۔
جین وین 31جنوری 1802ء کو ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم میں پیدا ہوئے ۔ سرکاری تاریخ کے مطابق وہ یتیم تھے ۔ 1823ء میں وہ رائل نیدر لینڈ نیوی (Royal Nedarland Navy)میں بحیثیت لیفٹننٹ بھرتی ہوئے ۔ بعد میں وہ گن بوٹ کے کمانڈ ر مقررہوئے ۔ 1837ء میں وہ بیلجئیم فوج کے گھیرے میں آگئے ان کے لئے سوائے گرفتاری کے اور کوئی محفوظ راستہ نہیں تھا، جین نے اپنے ساتھیوں کو اعتماد میں لیے بغیر بوٹ (کشتی ) میں پڑے بارود کو آگ لگادی ۔
کشتی ایک انتہائی زوردار دھماکہ کے ساتھ پھٹ گئی جس میں جین اپنے 20ساتھیوں سمت مارے گئے ۔ لیکن اس دھماکے سے دشمن کے بوٹ کو بھی زبردست نقصان ہوا ، جین کو اپنے ملک میں ایک قومی ہیرو کی حیثیتحاصل ہے ۔
کسی بھی مقصد یا مفادکے حصول یا تکمیل کے لئے اپنی جان کو اس غر ض سے قربان کردینا کہ سامنے والے کو بھی موت آئے یہ منظر جدیدتاریخ میں 1881ء میں رقم کیا گیا۔
جنگی حکمت عملی کے تحت دشمن کو زیادہ سے زیادہ سے نقصان دینے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کا ایک نہایت خوفناک منظر دنیا نے اس وقت دیکھا جب دوسری جنگ عظیم میں جاپانی فضائی فوج کے پائلٹوں نے بارود سے بھرے اپنے جنگی جہاز امریکی بحری جنگی جہازو ں پردے مارے ، وطن کی خاطرایسا سرفروشی کا منظر دنیا نے پہلے کھبی نہیں دیکھا تھا۔ لیفٹننٹ فیوساٹا(Left-Fusata) جاپانی ائیر فورس کے پہلے افسر تھے جنہوں نے7دسمبر 1941ء کو پرل ہاربر پر حملہ کے دوران اپناجنگی جہاز ہاربر کے اوپر
گرادیا۔ کامیکازی جاپانی زبان کا لفظ ہے ۔ کامی کے معنی پاک روح یادیوتا جبکہ کازی کے مطلب ہے ہوا ۔ اسکے اصطلاحی معنی ہیں ’’ رومانی ہوا‘‘ یہ جاپان کی ائیر فورس کا ایک اسپیشل یونٹ تھا جس کی تعلیم وتربیت انتہائی غیر معمولی طریقے سے کی گئی تھی یہ اپنی تاریخ کا ایک ذہن ، ہوشیار ، وفادار اور جانبداریونٹ تھا۔ اگرچہ جرمنی کی شکست ہٹلر کی موت اور نازی فوج کے خروج سے دوسری جنگ عظیم اپنی منطقی انجام پہنچی لیکن امریکہ اور جاپان دونوں ایک دوسرے کے نقصان کے خلاف متضاد دعوے کرنے لگے ۔ لیکن ورلڈ واربک 2(World war Book2, 2006) کے مصنف وِ ل موٹ (Will Mot)نے لکھاکہ 17اکتوبر 1944ء کو میکازی نے جوامریکی بحری جہازوں پر حملے کیے انہوں نے امریکی فوج کے حواس باختہ کر دیئے ۔ وِل موٹ کے مطابق 70امریکی بیڑے سمندر غرق ہوئے۔ جبکہ 109بحری ، بیڑوں کو غیر معمولی نقصان ہوا، اس خودکش حملہ میں 2,525کامیکازی ہوابازوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر 4900کے قریب امریکی میرین کے سپاہی موت کے کردیئے ۔
وِل موٹ کاکہنا ہے کہ یہ کسی بھی جنگ میں سب سے بڑی خودکش مہم تھی ۔ آج بھی امریکہ پرل ہاربر کے مقتولین کا دن بڑے ادب واحترام سے قومی سطح پر مناتا ہے ۔
**********

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں