ہفتہ، 22 جولائی، 2017

کردار، حیثیت و فرائض:تحریر :اسلم بلوچ


 
تقابلی مطالعے و تجزیے کا مثبت اور حقیقی پہلو دوسروں کے تجربات اور کارکردگی کو اپنے اندر جانچنا ہوتا ہے تاکہ انکے کامیابیوں سے استفادہ اور ناکامیوں سے سبق حاصل کیا جائے، ایسے تجزیوں سے خامیوں،کمزوریوں،خرابیوں کی نشاندہی کرکے ان سے کیسے نمٹا جائے یہ دیکھنا ہوتا ہے، ایسا ہرگز نہیں ہوتا کہ ایسے تجزیاتی مواد کو کسی کے بھی نفی کیلئے تراش خراش کر جواز بنایاجاتا ہو، پوری دنیا میں علم سیاسیات اس بنیادی نقطے کے گرد گھومتا ہے کہ طاقت کو کیسے حاصل کیا جائے اسکو کیسے برقرار رکھا جائے اور کیسے استعمال کیا جائے، آج بنیادی سوال جس کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے کیسے طاقت حاصل کی یا کررہے ہیں پچھلے تمام عرصے میں ہم نے اسکو کیسے استعمال کی یا کررہے ہیں اور کیا ہم حاصل کی گئی یا رہی سہی طاقت کو برقرار رکھ رہے ہیں یا رکھ سکتے ہیں؟؟؟؟؟
ان سوالات کو سمجھنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہماری طاقت ہے کیا؟؟سماج انسانی تعلقات انکی نوعیت و ضرورتوں کا نام ہے ،یہ انسانی آبادی کا مجموعہ ہوتا ضرور ہے لیکن یہ مشترکہ مقصد کیلئے وجود میں آتا ہے سماج کو بے آہنگم و بے ربط اور متضاد رویوں و اقدار و روایات و رسم و رواج کا نام ہرگز نہیں دیا جاسکتا اور سیاست سماج میں رہنے والوں کو منظم رکھنے کا علم ہے یہ دونوں ایک ہی مقصد کی تکمیل کرتے ہیں جو انسانوں کی بہتر زندگی کیلئے ہوتی ہے ،کیونکہ سماجی مفکرین سماج میں بسنے والوں کے تعلق کو پیچیدہ رشتوں سے تعبیر کرتے ہیں میکیور(Maciver) کے مطابق سماج بدلتے پیچیدہ رشتوں کا ایک جال ہے جو عادات اور طریقہ کار وباہمی مدد کا ایک نظام رکھتا ہے صرف اور صرف مقصد کی ہم آہنگی ہی سماج کا امتیازی وصف ہے ورنہ سماج علیحدہ ذہن ،فکر و نظریات رکھنے والے افراد کا مجموعہ ہے لاسکی کے الفاظ میں سماج کوئی سادہ تنظیم نہیں یہ انسانوں کا ایک پیچیدہ مرکب ہے اور یہ انسانوں کے متضاد فطرت کی نمائندگی کرتا ہے دستیاب تاریخ میں انسانوں میں مشترکہ مقصد سے ہم آہنگی ہی سیاست اور ریاست کی بنیاد بنتی آرہی ہے تو بلوچ سماج اور سیاست میں بھی مشترکہ مقصد(قومی آزادی کا حصول) ہی ہم آہنگی اورطاقت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اگر بلوچ مزاحمتی تاریخ پر نظر دوڑائیں توماضی کے مقابلے حالیہ لہر مشترکہ مقصد(قومی آزادی) کی بلوچ سماج میں ضرورت و مقبولیت کا اندازہ لگانامشکل نہیں ہوگا، کیونکہ مشترکہ مقصد کیلئے بلوچ سماج سے طاقت کا حصول توقعات سے زیادہ رہا ہے اور ہر طرح کے مشکل حالات میں بھی جاری و ساری ہے ،لیکن جب دوسرے نمبر پر بات اسکو منظم رکھنے اور صحیح استعمال کرنے کی آتی ہے تو بات سیاست اور اسکے معیار پر رکتی ہے وہ اس لئے کہ منظم رکھنے کا ذمہ سیاست کے سر ہوتا ہے تو یہاں بنیادی سوال جو سر اٹھاتا ہے کہ کیا پچھلے تمام عرصے میں حاصل ہونے والی طاقت بی ایل اے، بی ایل ایف، بی آر اے،ایل بی، سیاسی پارٹیاں بی ایس او و دیگر انجمنیں و افراد یا علاقائی شخصیات کو ہماری سیاست منظم رکھنے اور بہتر طور کام میں لانے میں کامیاب ہوچکی ہے؟؟؟
شاہد کہنے لکھنے سے زیادہ موجودہ صورتحال ہی سمجھنے کے لئے کافی ہے۔
کیا ہمیں کچھ سمجھ آرہا ہے یا ہم سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں؟؟؟
کیا ہم صحیح طور پراپنی جدوجہد کا تاریخی جائزہ لیتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں ،وہ تلخ تجربات کو پوری طرح ٹٹول چکے ہیں جو ہمارے طاقت کو منظم کرنے میں ہمیشہ رکاوٹ بنتے آرہے ہیں، مثلا ماضی کے ناکامیوں کو اگر چند افراد کے سر ڈال کرایسے سوچ کے تحت ایک ذہنی کیفیت کی پرورش کی جائے کہ ماضی کے جہدکار سب بیکار و فضول تھے توایسی ذہنی کیفیت کی بنیاد ہی نفی کے قانون پر استوار ہوگا۔ 
بات سیدھی طرح سے یہ ہے کہ ہم کچھ بنیادی عوامل کو بھول کر جست لگانے کی چکر میں ایسے الجھ چکے ہیں کہ اب ہمارے پاس الزام تراشیوں اور زبانی کلامی تعریفات کے علاوہ کچھ رہا نہیں ،کسی کو نفی کرکے اپنے وجود کا احساس دلانا ہماری مجبوری بنتی جارہی ہے، یہ سب کچھ دن رات ہوتاآرہا ہے ،ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم سب مل بیٹھ کر باہمی احترام کے ساتھ صحیح خطوط پر اپنے کام اور تحریک کو استوار کرتے مگر بدقسمتی ان حالات میں بھی ہم اپنے حقیقی جمع پونجی کے نفی میں لگے ہیں، دیکھنا ہے کہ ہمارے عملی جدوجہد سے کیا قومی تحریک کی ضروریات پوری ہورہے ہیں اورہم تحریک کی حقیقی شکل کے تشکیلی مراحل کو آگے بڑھاتے ہوئے اسکو اقوام عالم میں ایک قومی تحریک کے طور پر متعارف کرانے میں کامیاب ہورہے ہیں ،کیونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور دنیا میں جاری جنگوں نے انسانی مسائل کو عالمی مسائل بنادیا ہے ایسے حالات میں دیکھنے والوں کو ہمارا تحریک مسائل و پیچیدگیوں کا ڈھیر تو نظر نہیں آرہا ہے؟؟
تسلسل سے گر دش کرتے کچھ سوالات اور مخصوص غیر متوقع رویوں نے مجھے کتابیں ٹٹولنے پر مجبور کردیا جس کے تحت اس تحریر سے جوڑنا پڑا اگر ہمارے دانشور اور سیاسی سنگت اس بحث میں مزید دوستوں کی رہنمائی کریں تو یہ وقت و حالات کے تحت ایک موثر عمل ہوگا کیونکہ پچھلے کچھ عرصے سے جن سوالات اور عمل کو میرا ذہن قبول نہیں کرپارہا ہے ،میں انکے پیچھے کے سوچ کو سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں، اختلاف،تنقید،تقابلی جائزے،شکوک و شکایت کا تعلق ہوتا ہی عمل سے ہے اور یہ سب کچھ تعمیری عمل کا حصہ کہلاتے ہیں تصورات، نظریے،خیالات اور ان پر تنقیدی بحث مباحثے بھی علمی جانداری کی طرف اشارہ کرتے ہیں، لیکن انکے مثبت اور منفی پہلو کا تعلق انکے پیچھے کے مقاصد سے جوڑا ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں ا یسے تمام عمل میں زور نفی کے قانون پر رہتا ہے ،عمل میں حد بندی کرداروں میں درجہ بندی اور اختیارات کی نشاندہی و تقسیم کی وضاحت مسائل کی نشاندہی ان کی نوعیت کو سمجھنے اور انکے حل سے زیادہ شکوک شہبات کا اظہار لازمی سمجھا جاتا ہے آخر کیوں؟؟؟
کمزوری،خامی، خرابیوں کی نوعیت سے زیادہ واقعات جواز بنائے جاتے ہیں اور انکے بنیاد پر تحریک کے بہت سے کرداروں پر ناروا طریقے سے ایسے سوالات اٹھائے جاتے ہیں جن میں انکے کردار کومشکوک بناکر انکی حیثیت کی مکمل نفی کی کوشش کی جاتی ہے 
اگر دیکھا جائے توہر کردار کے ساتھ ایک حیثیت ضرور ہوتی ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ کردار اور حیثیت لازم و ملزم ہوتے ہیں دراصل حیثیت وہ سماجی پوزیشن ہے جسکا دارومدار مکمل کردار پر ہوتا ہے اور جب کردار کسی حیثیت (پوزیشن) کاحامل ہوجاتا ہے تو معاشرہ، سماج میں اعتبار کے حوالے سے اس سے ویسے ہی توقعات وابستہ کئے جاتے ہیں ۔ 
اسی طرح جب کوئی شخص اپنی حیثیت سے وابسطہ تمام ذمہ داریوں کو سمجھ کر فرائض کی انجام دہی سے جوڑ جاتا ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنا کردار(رول) ادا کررہا ہے حیثیت اور کردار کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا ہے ان میں صرف علمی تعریف کے حوالے سے فرق پایا جاتا ہے۔
وہ چاہئے کسی سماجی تنظیم میں ہو یا سیاسی و عسکری یا کسی تحریک میں یا مختلف مخصوص حالات میں ویسے تو حیثیت کے دو واضح نوعیت سامنے آتے ہیں مگر اسکے بہت سے اشکال انہی دو کے گرد گھومتی ہیں۔
علمی تعریف کے حوالے سے ایک کو انتسابی یعنی وراثتی حیثیت کہتے ہیں جو وراثت میں ملتی ہے، 
دوئم اکتسابی یعنی محنت، صلاحیت،مقابلے و کوششوں کے بل بوتے پرحاصل کی جانے والی حیثیت ہوتی ہے، غرض ہر حیثیت کے ساتھ لازمی طور پر ذمہ داریاں اور فرائض ہی وابستہ ہوتے ہیں، یہ فرائض اور ذمہ داریوں سے خالی کوئی مراعاتی عنایت نہیں ہوتا جسکو حاصل کرنے یا عنایت کرنے کا طریقہ کار ذاتی تعلقات و خواہشات یا مفادات پر یا پھر بعض، حسد، خوف جیسے منفی سوچ پر مبنی ہو، کسی بھی مثالی نظام،انقلابی تحریک، سیاسی تنظیم یا پارٹی میں بہترین صلاحیتیں زیادہ محنت اورخلوص کے بل بوتے پر جب ہرمتعلقہ حیثیت کو اپنے کردار(رول)کا صحیح اندازہ یا علم ہوجاتا ہے تب ہی تمام توجہ ذمہ داریوں اور فرائض پر مرکوز ہوجاتے ہیں۔بصورت دیگر کسی بھی تحریک، تنظیم،پارٹی یا نظام سے وابسطہ افراد میں اس وقت تک ہم آہنگی اور یکسوئی پیدا ہونا مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے جب تک وہ اپنے اپنے حیثیت کے مطابق اپنے کردار پر توجہ مرکوز نہیں کرتے۔
انتسابی یعنی وراثتی حیثیت میں بادشاہت میں جیسے، بادشاہ کے مرنے پر شہزادہ بادشاہ بنتاہے ولی عہد کو طرز حکمرانی کی تربیت دیکر مسند پر بیٹھایا جاتا ہے ہمارے ہاں قبائلی نظام میں سردار کا بیٹا سردار یا کسی سیاستدان کا بیٹا سیاست دان بنتا ہے یہ حیثیت موروثی ہونے کی وجہ سے پیدائشی نوعیت کی ہوتی ہے اسمیں ذاتی صلاحیتوں کا عمل دخل اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک اس حیثیت کے مطابق کردار(رول)ادا نہیں کیا جاتا۔یعنی پیدائشی حیثیت جو بنے بنائے وراثت میں ملتی ہے تو اس حیثیت کی اہلیت کو ثابت کرنے کیلئے اسکے مطابق توقعات پر پورا اُتر نہیں جاتا، یہاں اوپر سے نیچے اور اس سے اوپر کی حیثیت کو ثابت کرنا ہوتا ہے اور اسکی بنیاد کردار پر منحصر ہوتا ہے جتنا بڑا حیثیت ہوگا اتنا ہی زیادہ ذمہ داری اور فرائض کو نبھانے کا تقاضا کرئیگا، ہمارے ہاں اسکی مثال سنگت حیربیارمری،براہمدغ بگٹی،جاوید مینگل،زامران مری ہیں 
اور اکتسابی حیثیت جو کہ صلاحیت، محنت، ذہنیت اور خلوص اور مقابلے کی بنیاد پر بنتی ہے وہ صفر سے شروع ہوتا ہے وہ نیچے سے اوپر کا سفر طے کرتا ہے اسکو کسی ستون(پلر) کا سہارا نہیں ہوتا ہمارے ہاں اگر دیکھا جائے تو چیرمین غلام محمد ،میر عبدالنبی بنگلزئی، استاد واحد قمبر، ڈاکٹر اللہ نذر، کامریڈ بشیرزیب، گلزار امام ماسڑ سیلم وغیرہ اس حیثیت کے مثال ہیں کسی بھی تنظیم یا پارٹی سے تعلق و عہدے یا تنظیمی حیثیت سے قطع نظر بلوچ سماج میں ان حضرات کا اکتسابی حیثیت انکے کردار سے متعلق ہے لہذا ان حضرات پر توقعات اور انکی ذمہ داریاں اور فرائض بھی اسی نسبت سے ہونگے۔کیونکہ ہم قومی جدوجہد کے دعویدار ہیں تو قومی نظریہ کے حوالے سے ہم میں یہ دونوں حیثیتں بشمول علاقائی، علمی و ادبی حیثیتوں کے موجودگی قابل تسلیم و قابل قدر ہیں بشرطیکہ کہ وہ قومی مفادات و قومی نظریے کے مطابق ہوں۔
کسی بھی تحریک میں ہم افراد کے کردارکا سرسری جائزہ لیں تو اس تحریک سے وابسطہ تنظیمیں یا پارٹیاں بالکل ایسے ہوتے ہیں جیسے تدریسی ادارے یعنی سکول کے بچوں کی طرح اگر وہ افراد کو منظم اور نظم و ضبط میں رکھنا چاہتے ہیں تو انکے پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرکے بروئے کار لانا بھی انکا فرض بنتا ہے کیونکہ تمام انسان ذہانت، ایمانداری، طاقت، محنت کے حوالے سے برابر نہیں ہوتے کچھ زیادہ محنتی ذہن اور باصلاحیت ہوتے ہیں اور کچھ کم کچھ جسمانی اور ذہنی مضبوط ہوتے ہیں اور کچھ اتنے مضبوط نہیں ہوتے وہ ماحول اور حالات جہاں سے تحریک کو بہتر افرادی قوت میسر ہو پارٹیوں اور تنظیموں کے ذمہ آتی ہے۔
ہمارے ہاں ہو کیا رہا ہے شعوری یا لاشعوری طور پر کچھ بے بنیاد اور گمراہ کن خیالات کی تشہیر دبے دبے الفاظ میں یا غیر ذمہ دارانہ انداز میں کروائے جارہے ہیں کہ لیڈر ایک ہوتا ہے باقی سب پیروکار ہوتے ہیں اس حقیقت سے قطع نظر کہ تحریکیں ایسے لاتعداد کیڈر و لیڈر جنم دیتے ہیں جو تحریک سے وابسطہ ہزاروں افراد کی قیادت کرکے انکو منظم رکھتے ہیں اور انہی میں سے وہ تحریک کے لیڈرکی شکل میں سامنے آتا ہے جو اسی حلقے میں سب سے زیادہ قابل احترام و قابل اعتبار ہوتا ہے مگرہمارے ہاں کسی بھی سیاسی یا عسکری حیثیت کے نفی کیلئے نئے اصطلاح سیلفی سرمچاری یا شوق لیڈری متعارف کرائے جارہے ہیں اس حقیقت سے قطع نظر کہ جو تحریک قیادت پیدا نہ کرسکے وہ تحریک ہی نہیں کہلاتا اور کبھی کبھی سماجی مسائل،روایات،انقلاب، جدوجہد آزادی اور قومی سیاست اور قومی ریاست کو پولیٹیکل سائنس کے کسی ایک باب(چیپٹر) سے مو ازنہ کرکے گراونڈ پر جاری ایک پوری عمل کی نفی کی جاتی ہے۔لیکن بلوچ سماج،بلوچی روایات، جدوجہدکے تاریخی تسلسل موجود وقت و حالات کے تحت درپیش حقیقی مسائل کا سیاسیات میں حل اور انکے طویل سفر کا نہ تو کوئی ذکر پایا جاتا ہے اور نہ ہی بنیادی تجزیہ، زور ایک ہی بات پر رہتاہے جس میں چند واقعات کو بنیاد بناکر چند کرداروں کو تسلیم کرتے ہوئے انکے حیثیت کی نفی یاانکو مشکوک بنانے کی کوشش کی جاتی ہے یہ سیدھی طرح سے تحریک سے وابسطہ پارٹیوں اور تنظیموں کی اس پیداواری صلاحیت اور پیداوار پر 
ضرب لگانے کی کوشش کی جارہی ہوتی ہے جو تحریک کو قیادت فراہم کرسکتی ہے یا کررہی ہے کبھی ڈسپلن تو کبھی اصول پرستی کے نام پرتو کبھی جنگی حالات میں پیش آنے والے چھوٹے چھوٹے واقعات کو جواز بناکر ایک مرحلہ وار عملی پیداواری سلسلے کی نفی کی جارہی ہے اسکے پیچھے کے مقاصد کو سمجھنا اسلئے بھی ضروری ہوجاتا ہے کیونکہ ڈھونڈنے پر تاریخی حوالے سے یہ عمل ہمیں دنیا کے کسی بھی تحریک میں نظر نہیں آتا تو یہ بلوچ قومی تحریک کیلئے کیوں اور کیسے ضروری ہوچکا اس کیلئے آج تک کوئی دلیل، وضاحت،حوالہ و ثبوت بھی سامنے نہیں لایا گیا ہے۔ویسے پوری دنیا میں مفکرین میں ابھی تک یہ بات زیر بحث ہے کہ سیاست فن ہے یا سائنس یا دونوں کا مجموعہ۔
میٹلینڈ(MaitLand) نے کہا تھا کہ جب میں امتحانی سوالات کے ایک اچھے مجموعے کو دیکھتا ہوں جن پر علم سیاسیات(پولیٹیکل سائنس)کی سرخی لگی ہوتو مجھے سوالات پر نہیں بلکہ اس عنوان(ٹائیٹل)پر افسوس ہوتا ہے۔
فرانسیسی سیاسی مفکر جین بودن(Jean Bodin)1596 میں پہلی بار اس علم کو علم سیاسیات کہا تھا دراصل علم سیاسیات پولیٹیکل سائنس مجموعی طور پر ریاست و حکومت سے انسانی تعلق کا مطالعہ ہے ۔
فرانسیسی اسکالر پال جانیٹ(Paul Janet)کے الفاظ میں علم سیاسیات سماجی علوم کا وہ حصہ ہے جو مملکت کی ابتداء اور حکومت کے اصولوں سے بحث کرتی ہے۔
سوئیز اسکالر بلونشکلی(Bluntschli) کے الفاظ میں سیاست علم سے زیادہ ایک فن ہے جسکا تعلق عملی معاملات یا مملکت کی رہنمائی ہے جبکہ علم سیاسیات کا تعلق مملکت کی بنیادوں اسکی لازمی نوعیت اسکی شکلوں یا مظاہر اور تبدیلیوں و ارتقاء سے ہے 
گارنر(Garner)کے مطابق علم سیاسیات مملکت سے شروع ہوتا ہے اور مملکت پر ختم ہوتا ہے۔
یہاں ان مفکرین کے حوالے سے اس بات کی نشاندہی مقصود ہے کہ ہمارا درد سر موجودہ حالات میں طرز حکمرانی کا درس نہیں میرے نزدیک سب سے اہمیت کا حامل فرانسیسی اسکالر پال جانیٹ کے الفاظ ہیں جس میں وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کہ علم سیاسیات(پولیٹیکل سائنس)سماجی علوم کا وہ حصہ ہے جو مملکت کی ابتداء اور حکومت کے اصولوں سے بحث کرتی ہے تو میرابنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہم مملکت کے تشکیل اور حکومت سازی کے مراحلے سے گذر رہے ہیں؟؟؟؟؟
اس وقت بلوچ قوم جو ایک وسیع و عریض جغرافیہ پر پھیلا ہوا ہے اور ایران و پاکستان کے مقبوضہ کہلاتے ہوئے مختلف قبائلی و علاقائی رشتوں اور سیاسی اور مذہبی نظریات و عقائد کے بنیاد پر تقسیم ہیں ان کے بیچ آزادوطن کو لیکر حب الوطنی اور مشترکہ مفادات معاشی، اخلاقی روایات رسم و رواج زبان کی بنیاد پر ہم آہنگی پیدا کرکے متحدہ قومی قوت کی تشکیل اور اسکے بنیاد پر قومی آزادی کے حصول کو ممکن بناکر آخری مرحلے میں قومی ریاست یا قومی اقتدار اعلی کی تشکیل تک پہنچنا ہے کہتے ہیں کہ سماجی نظم و ضبط سماجی مسائل کا حل سماجی قوانین سے ہی علم سیاسیات کو خام مواد اور رہنمائی حاصل ہوتا ہے، لہذا سماجیات کے بنیادی و ابتدائی اصولوں کو نہ جاننے والوں کو نظریہ مملکت پڑھانا ایسا ہی ہے جیسے نیوٹن کے قوانین حرکت کو نہ جاننے والوں کو فلکیات یا حرکیات پڑھانا قوانین ہمیشہ سماجی ضرورتوں کے تحت بنائے جاتے ہیں، نقالی نہیں ہوتے چاہے جتنے بھی مثالی ہوں بلوچ سماج سے رجوع اور جوڑت کے سواء کوئی چارہ نہیں اس حقیقت کا اسوقت تک بہتر مظہر بلوچ جہدکار ہیں جو دشمن سے برسرپیکا ہونے کے ساتھ ہی ساتھ سماجی مسائل سے نمٹنے کے عمل سے بھی دوچار ہیں ہاں روایات و رسم و رواج میں تبدیلی کا عمل رائے عامہ کے بغیر نقصاندہ ہوتا ہے اسکو سمجھنے کی اہلیت شاہد سب میں نہ ہو مگر اکثریت اس حقیقت کو مان کر چل رہے ہیں اور یہ حقیقت بھی قابل تسلیم ہے کہ انہی جہدکاروں کی شعوری اور فکری کاوشیں ہی فرسودہ روایات اور غیرمنصفانہ رسم و رواج میں شعوری حوالے سے تبدیلی کا باعث بنیں گے۔ 
میرے خیال سے اگر ساتھی اس مقام اور حالات کے نوعیت کے مطابق نظم و ضبط(ڈسپلن)کوسمجھنے کے لئے بھی علمی خزانوں کو ٹٹولیں تو بہتر ہوگا۔
حقیقتاََ کوئی بھی تنظیم اور پارٹی بغیر نظم و ضبط کے بغیرقائم نہیں رہ سکتا، اس میں کوئی دورائے نہیں کہ نظم و ضبط ہی ایک تنظیم کی جان ہوتی ہے یا یوں کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مقصد، پالیسی، نظم و ضبط اور افراد کے کردار کا مجموعہ تنظیم کہلاتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ نظم و ضبط ہوتا کیا ہے یا اسکی حقیقت اور ضروریات کی وضاحت کیسے کی جائے۔ 
دراصل تمام ضابطے، اصول، نظم تنظیم سے منسلک افراد کے خارجی افعال کو آپس میں مربوط کرتے ہوئے تنظیم سے منسلک افراد کے درمیان اور تنظیم اور تنظیمی مقاصد کے بیچ اختیارات فرائض اور حقوق کا تعین کرتے ہیں اس عمل کے مکمل ہونے کے و نظم و ضبط(ڈسپلن) کہتے ہیں ایک طرح سے یہ سیاسی اقتدار کو بنیادی ابتدائی شکل فراہم کرتے ہیں نظم و ضبط کو ابتدائی قانون قرار دینا غلط نہیں ہوگا .جو طاقت و مقاصد کے حصول کے ساتھ مستقبل میں قومی اقتدار اعلیٰ یا قومی ریاست کے وسیع قانون کی شکل اختیار کرسکتا ہے یا یوں کہیں کہ کرلیتا ہے۔
سماجی زندگی میں قبائلی اور خاندانی تنظیم روایات کے بنیاد پر لوگوں کو منظم رکھتا ہے لیکن ذرا وسیع پیمانے پر اگر سیاسی تنظیم کے تناظر میں اسکا جائزہ لیا جائے تواصول، نظم و ضبط ،تنظیمی مقاصد، تنظیمی پالیسیوں اور تنظیم سے تعلق رکھنے والے افراد کے فرائض،اختیارات،حقوق کے ساتھ ہی ساتھ انکے سماجی تعلقات میں توازن کا نام ہیں۔
یہ انہی تعلقات میں توازن رکھنے کے لئے بنائے گئے ہیں اور بنائے جاتے ہیں ہمارے ہاں شاہد انکو جرائم اور قانونی پابندیوں کے تناظر میں دیکھا یا لیاجاتا ہے۔ نظم و ضبط کی ضرورت و حقیقی تعریف کی وضاحت و تشریح اسلئے بھی ان حالات میں ضروری ہوچکا ہے کیونکہ نظم و ضبط کے نام پر بہت سے غلط فہمیاں پیدا ہوچکے ہیں یا پھرکی جارہی ہیں اور بہت سے غیر مناسب غیر موزوں پابندیوں کو بھی جواز فراہم کیا جارہا ہے لوگوں کو منظم رکھنے والی ٹیم یا گروہ کا اس بات سے باخبر ہونا ضروری ہے کہ عوامی حمایت و محنت کے حصول اور اسکو بروئے کا ر لانے کا انکے پاس متفقہ فارمولا کیا ہے؟؟؟
ایسا ہو نہیں سکتا کہ ایک ہی طرح کے عمل پر آپ دو طرح کے الگ الگ اصول لاگو کریں اور شک یا سوال کا حق بھی ڈسپلن کے نام پرجرم قرار دیں آپ کے پاس متفقہ طور پر ذمہ داریاں اختیارات تقسیم کرنے کا فارمولا بھی نہ ہو اور آپ اختیارات کے تقسیم و سلب کرنے میں بھی بااختیار ہوں ثبوت،وجہ،جواز،شک کا فائدہ کچھ بھی پیش کرنے سے قاصر یابری الذمہ بھی ہوں جب اتنے تضادات کے ساتھ آپ لوگوں کا بھروسہ و اعتماد حاصل کرنا چائیں گے تو آپ کیلئے بہت مشکل ہوگا۔
جہاں تک بات قانون، اصول اور نظم و ضبط کو یکجا کرکے دیکھنے کا ہے تو ان تمام کا مقصد انسانی تعلقات میں توازن قائم کرنے سے ہے جسکی بنیاد عدل و انصاف پر قائم ہوتی ہے فطری قوانین کے بعد اخلاقی قوانین ہی بہتر و اعلیٰ کہلائے جاتے ہیں، کیونکہ اخلاق کا تعلق خارجی نہیں داخلی طور ضمیر سے ہوتا ہے اور اس کا انحصار مکمل رائے عامہ پر ہوتا ہے کسی کمزور پر ظلم دھوکہ دہی، چوری، قتل، جھوٹ، کسی کی حق تلفی سازش وغیرہ کسی بھی سماج میں ناپسندیدہ عمل جانے جاتے ہیں،اسی مناسبت سے اگر دیکھا جائے تو بعد کے جتنے بھی قوانین آتے ہیں انکا اخلاقیات سے گہرا تعلق ہے کسی بھی قانون کو جہاں بھی لاگو کیا جاتا ہے اسکو وہاں کی اکثریت کی اخلاقی حمایت حاصل ہو تب وہ آسانی سے نافذ اور قابل عمل ہوسکتا ہے اور اسکے کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اسلئے تمام انسانی تعلقات میں سب سے اہم اور لازمی بات اخلاقی برتری شمار کی جاتی ہے جو تعلقات کو بہت ہی مضبوط اور دیرپاء بناتی ہے لیکن بدقسمتی سے کسی بھی قسم کے تعلقات کسی بھی وجہ سے اپنے اخلاقی برتری کے جواز کو کھو دیتے ہیں تو پھروہاں ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے ان تعلقات کو قائم رکھنے کے لئے وقت و حالات اور تعلقات کی نوعیت کے مطابق متفقہ اصولوں اور قانون کا سہارا جس میں نظم و ضبط کو قائم رکھا جاسکے۔ورنہ انسانی تعلقات میں اگر خاندان کاسربراہ قبائلی نظام میں قبائل کے بیچ کوئی طاقتوار قبیلہ یا ایک قبیلے کا سردار روایات کے خلاف من مانی کریں یا کسی پارٹی یا تنظیم کا سربراہ سیاسی تعلقات میں کسی بھی وجہ سے من مانی شروع کردیں تو اسکے نتائج سیدھی طرح سے بے چینی، بداعتمادی اور بغاوت کا سبب بن جاتے ہیں۔
تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر مسئلے کو سمجھنے کے لئے اسکے وجوہات و اسباب کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے اور اسکے بعد اسکے حل کیلئے کوششیں کئے جاتے ہیں اگر کسی بھی نوعیت کے مسئلے سے جوڑے کسی بھی کردار کی نفی کی جائے تو مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ ایک اور مسئلہ سر اٹھائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ تحریر :: 21 جولائی 2017

پیر، 17 جولائی، 2017

پاوندہ تہذیب کا ارتقاء اور ادب قدیم اشتمالیت اور کوچی زندگی میں مماثلت


پائند خان خروٹی
دنیا کے مختلف علاقوں میں خانہ بدوشی کی روایت اب بھی موجود ہے اور دنیا کے مختلف حصوں میں کوچ کرنے والے خانہ بدوشوں نے قدیم اشتمالی معاشرے کی اقدار اور رویوں کو آج بھی برقرار رکھا ہوا ہے۔ خانہ بدوش جس کو پشتوزبان میں کوچی یا پاوندہ بھی کہا جاتا ہے کی معاشرتی زندگی اور قدیم اشتمالی سماج میں خوشگوار مماثلت حیرت انگیز بھی ہے لیکن ایک نئے ترقی یافتہ اشتمالی معاشرے کی جانب سفر کرنے میں اعتماد اور حوصلہ بخشنے کا باعث بھی ۔ خانہ بدوشی کی زندگی کا بغور جائزہ لیا جائے تو دنیا کے مختلف حصوں میں ان کی اشکال میں فرق ہو سکتا ہے لیکن مجموعی حالت کے اعتبار سے کوچی لوگ آج بھی ابتدائی انسانی زندگی کی اقدار، رسم و رواج اور روایات کے پاسدار نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر ایشیائی ممالک میں خانہ بدوشو ں کی اجتماعی زندگی آج بھی برابری ، اخوت ، بے غرضی اور مہر و محبت میں پیوست ہے ۔ اس کا ذکر پشتو اولسی فوالکلور کی مقبول ترین صنف ’’ٹپے‘‘ میں کچھ یوں ہے کہ دنیا کی زیب و زینت انسانوں سے وابستہ ہے اور انسانوں کے بغیر دنیا بیابان کے مترادف ہے۔ انسانی تاریخ میں قدیم اشتمالی معاشرہ کی نشاندہی کرنے والا سب سے پہلا معتبر نام کارل مارکس کا ہے جنہوں نے انسانی تاریخ کے مختلف ارتقائی مراحل کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ انسان پیدائشی طور پر خودغرض، لالچی اور ایک دوسرے کا دشمن نہیں ہے بلکہ تاریخ کے ابتدائی ادوار میں بے غرضی ،مساوات ، بھائی چارہ اور یکجہتی پر مشتمل ایک اشتمالی معاشرے میں رہتا رہا ہے۔ بعدازاں کارل مارکس کے قریبی ساتھی اور مبارز فریڈرک اینگلزنے لیوس ہنری مارگن کے حوالے سے مارکس کے اس نقطے کو وضاحت کے ساتھ مدلل اندا زمیں آگے بڑھایا۔’’انہوں نے تجزیہ کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ سماج اور سماجی اداروں کی ترقی سب سے زیادہ جس چیز پرمنحصر ہے وہ مادی پیدوار کاطریقہ ہے‘‘۔(1) قدیم اشتمالی سماج سے آگے بڑھ کر انسان نے مختلف پیداواری طریقوں کو اختیار کرتے ہوئے مختلف قسم کی معاشروں کو اختیار کیا۔ تاہم طویل عرصے کے اس سفر کے باوجود پرانے اشتمالی معاشرے کے اثرات اب بھی انسانی آبادی کے مختلف حصوں میں نظر آتے ہیں۔ 
دنیا پہ خلقو شائستہ دہ ۔ چی خلق نہ وی کنڈوالے شکاری کورونہ 
پشتو خلقی فوالکلور کے ایک اور صنف ’’غاڑہ‘‘میں کوئی عورت جو اپنے محبوب کی مجبوری اور مشکل کے وقت اس کی ضرورت کے مطابق نقد رقم فراہم کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی لیکن اپنے خلوص اور سچائی کا بھرپور مظاہرہ اپنے ذاتی استعمال کے کنگن دے کر کرتی ہے۔
وس مونشتہ دپیسو ۔ پہ گران کنگڑ ژدم دلاسو 


خانہ بدوش آج بھی سادگی اور اعتماد کا وہ معیار رکھتے ہیں جو سرمائے کی بنیاد پر ترقی کرتے معاشرے میں معدوم ہوتا جارہا ہے۔ایک محبوبہ ایک ٹپے میں اپنی سچائی کا اظہار یو ں کررہی ہے جس کا ترجمہ ہے میرے محبوب نے سفر پر جانے سے پہلے مجھے اللہ کی حفاظت میں دیا ہے۔میں اس وقت اللہ کی پناہ میں ہوں میرے چہرے کی طرف اٹھنے والی ہر نگاہِ بد رکھنے والا شخص کافر ہوجاتاہے ۔
مخ تہ می مہ گورہ کافر شوے۔ زہ مسافر جانان پہ خدائے سپارلے یمہ
مختلف مذاہب میں بھی مال مویشی اور اس سے وابستہ سرگرمیوں کو نہ صرف پسندیدہ قرار دیا گیا ہے بلکہ خود انبیاء کرام حتیٰ کہ آخری نبی ؐ تک مال مویشی پالنے سے وابستگی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے خانہ بدوشوں نے اسی طریقہ زندگی و تجارت کو برقرار رکھا ہے ۔ خانہ بدوشوں نے اپنی گزر اوقات کیلئے جن ذرائع کو اختیار کیا ہے وہ آج کے جدید دور میں بھی انسانیت کیلئے منافع بخش ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں مال مویشیوں کی افزائش اور پرورش ، تازہ دودھ ، گوشت اور متعلقہ مصنوعات (اون، مکھن، پنیر، خشک دودھ، پوشاک اور چمڑے کا سامان وغیرہنہ صرف وابستہ افراد کیلئے روزگار کا ذریعہ ہے بلکہ کئی ممالک کیلئے زر مبادلہ کے حصول کا وسیلہ بھی ہے۔ خاص کر پاکستان جیسے زرعی ممالک میں مالداری ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ بلوچستان میں مال مویشی پالنے کااہم پہلو یہ ہے کہ اس سے نسبتاً پسماندہ اور دیہی علاقوں میں پشتون بلوچ معاشی طورپر ناآسودہ خواتین کی بڑی تعداد وابستہ ہے جو اس کی آمدنی سے عام طور پر اپنی گھریلو ضروریات اور بچوں کی تعلیم ونشو ونما کے اخراجات پورا کرتی ہیں ۔
فریڈرک اینگلز کے خیال میں انسانی تاریخ میں گلہ بانی کاآغاز دریائے آمو کے قریب سے ہوا ہے ۔ آریائی اقوام نے پہلی بار جانور کو پالتو بنایا اورگھریلو ضروریات کے لئے استعمال کیا۔ گوشت اور دودھ کے عام استعمال کی وجہ سے ہی آر یا ئی ا قوام کے افراددیگر اقوام کے مقابلے میں جسمانی طو رپر مضبوط تھے اور انہوں نے سماجی ترقی کی۔ انسانی تہذیب کے ابتدائی آثار متعلقہ خطہ میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔اینگلز کے تحقیق کے مطابق اس زمانے میں کرنسی کی عدم موجودگی کے بارے باعث اشیاء کے تبادلے کے ساتھ ساتھ خرید وفروخت کیلئے جانور کو معیار تصور کیاجاتا تھا ۔ ایک پشتو روایت کے مطابق جانور کو پشتو زبان میں پسہ کہاجا تا ہے اور پیسے کالفظ اسی سے نکالا ہے ۔آر یائی تہذیب کے اثرات کوچی خاندانوں میں کے رسم ورواج ،تقریبات اور تہواروں میں آج بھی نمایاں نظر آتے ہیں جن میں سواس تیکا نشان ، دلہن کو سندور لگانا ، بالوں کامانگ نکالنا اور آگ کااحترام کرنا وغیرہ شامل ہیں ۔
پشتون خانہ بدوش دنیا کے دیگر خانہ بدوشوں کے مقابلے میں اس اعتبار سے ممتاز اور منفرد حیثیت کے حامل ہے کہ وہ اپنی خانہ بدوشی کی زندگی میں تجارتی سرگرمیوں میں شامل ہوتے ہیں۔ماضی میں وسط ایشیاء کے ممالک سے ہندوستان تک سفر کرنے والے خانہ بدوش وسط ایشیاء اور افغانستان سے خشک میوہ جات ،تیار قالین،اون ،رخت،سیاہ زیرہ،ریشم اور جڑی بوٹیاں ہندوستان لے جاتے تھے اور وہاں سے مصالحہ جات ،گڑ،چینی،الائچی اور سپاری وغیرہ لے آتے تھے۔ ان میں سے بعض خاندان پیمنٹ کے کاروبار کرتے تھے اور ان کے مرد حضرات پنجاب میں محنت مزدوری کے لئے بھی جاتے تھے ۔ تیسری اینگلو افغان جنگ(1919) کے بعد ان کے دریائے سندھ عبور کرنے پر پابندی لگ گئی اس طرح پشتون خانہ بدوش موسم گرما میں کابل پغمان ، غزنی جبکہ موسم سرما میں پشاور ،سوات،ڈیرہ اسماعیل خان، کاکڑ خراسان ، لورالائی اور سبی تک محدود ہوگئے۔تقسیم ہند کے بعد ان کی آمدورفت اور نقل و حمل مزید محدود ہوئی جبکہ ایوبی دور فروری 1962ء میں پاک افغان سرحد کو مستحکم کرنے کے نتیجے میں وہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان تقسیم ہو کر رہ گئے۔
یہاں اس دلچسپ تاریخی واقعے کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ ’’پہلی اینگلو افغان جنگ (1839) کے بعد انگریزوں نے پشتون خانہ بدوش قبائل میں سے چھ ہزار افراد کو ان کے اونٹوں کے ہمراہ سونے کے ذخائر ،معدنیات ،ٹیلی فون اور ریلوے کے شعبے میں کام کے غرض سے اپنے ہمراہ لے گئے۔مذکورہ چھ ہزار افراد کو واپس آنے کی اجازت نہ ملی اور ہمیشہ کیلئے وہیں کے ہو گئے‘‘۔(2)واضح رہے کہ اس دو رمیں اونٹ کو ریگستانی جہاز کی حیثیت سے خاص اہمیت حاصل تھی یعنی چھ ہزار افراد کو اونٹوں کے ساتھ لے جانے کا مطلب یہ ہوا چھ ہزار افراد بمعہ اس وقت کے جہاز(اونٹمقامی خانہ بدوشوں کو افرادی قوت اور مالی اعتبار سے نا قابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔
خانہ بدوش خاندانوں کی زندگی ہماری معمول کی معاشرتی زندگی سے مختلف ڈھانچہ رکھتی ہے ۔ خاندانی رشتوں کی بات ہو یاگھر سے باہر محنت ومشقت کا معاملہ ہو صنفی امتیاز کاسلسلہ آج بھی ان کے ہاں موجود نہیں۔ روایتی برقعے کی پابندیوں سے آزاد لیکن فطری شرم وحیا او رعزت وقار ان کی آنکھوں اور رویوں میں شہری خواتین سے زیادہ موجود ہیں ۔ ان میں تمام افراد مرد و زن ضروریات زندگی پورا کرنے کیلئے مل جل کر محنت کرتے ہیں اور ضرورت کے مطابق تقسیم کرتے ہیں ۔ تیار خوروں کی طرح دوسروں کی خیرات ،زکوٰۃ ، عطیات اور بیرونی امداد پرانحصار کرنے کی بجائے مکمل طورپر وہ اپنی محنت وہمت پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ زیارکش طبقہ کی محنت کی بنیاد پر قائم معاشرتی ڈھانچے میں منطقی طورپر اونچ نیچ اور طبقات سے پاک جمہوریت میں کسی قسم کے استحصال کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ خود انحصاری کی معیشت نے انہیں بیکاری ، بیگاری اور تیار خوری کے تصور سے نجات دے رکھی ہے ۔ خو د کفالت حاصل کرنے کیلئے نت نئے طریقے اختیار کرنے والے جدید دنیا کو خانہ بدوشوں کی اپنی ہمت و محنت سے حاصل کردہ خود کفالت سے سیکھنے کے بے شمار مواقع موجود ہیں ۔
فطرت کے ہم رکاب زندگی گزارنے کے باعث خانہ بدوش پیداواری ذرائع تبدیل ہونے کے ساتھ پیدا ہونے والی منافقت ، مکاری ، جسم فروشی اور دوغلا پن سے آج بھی آزاد ہے اور فطرت کے مختلف مظاہر کی نغمگی اور مو سیقیت سے براہ راست لطف اندوز ہوتے ہیں اور انہیں اپنے اندر جذب کرکے خوبصورت ٹنگ ٹکور سے دنیا کو مستفید کرتے ہیں ۔ ایک چرواء شپونکےجب قدرتی چراہ گاہوں میں بھیڑ بکریاں چراتے ہوئے دنیا کاپہلا موسیقی آلہ بانسری/شپیلی کی دلکش آواز سے پوری فضا کو نغمہ زن کردیتا ہے تو سننے والے پر خوشی ومسرت کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔ ایک روایت کے مطابق موسیقی کے اس نرالہ انداز سے متاثر ہوکر سانپ بھی جھوم اٹھتے ہیں ۔ فطرت کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنے کی وجہ سے وہ نام نہاد ترقی سے پیدا ہونے والی علتوں موٹا پا، بلڈ پریشر ، ٹینشن اور ڈپریشن سے نابلد ہوتے ہیں ۔ ان کی زندگی میں موجود اطمینان وسکون دیدنی ہوتا ہے ۔ کوچی خاندانوں کے افراد آج بھی بد ہضمی اور بے خوابی وغیرہ جیسی بیماریوں سے آزاد جسمانی قوت اور حسن کانمونہ ہے ۔ ان کے مردوزن کو آج بھی مصنوعی بناؤ سنگھار، زیورات ، کاسمیٹک اور پلاسٹک سرجری کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
کوچیانی ادب اور اس کی مختلف اصناف ٹپے ، کہاوتیں ، اتن نارے ، پہیلیاں ، لطیفے ، فالونہ ، غاڑی اور اولسی نکلونہ(داستانوغیرہ کی تخلیقات کااصل جوہر عوام الناس کی ا جتماعی تخلیقی صلاحیت ہے ۔ اس طرح کوچی اد ب اجتماعی دانش کانمائندہ ہے اور ان میں سے ہر شخص خود کو بجا طو رپر اس خلقی ادب کاخالق محسوس کرتا ہے اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خانہ بدوشوں کی ملکیت کاتصور آج بھی اجتماعی ہے انفرادی نہیں ۔ گویا کوچیوں کے سفید اجسام کینسرزدہ ا ستحصالی نظام یعنی جاگیر داری اور سرمایہ داری کے سیاہ داغ لگنے سے محفوظ رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ کوچی نہ صرف جدید عالمی قصابوں اور قصاب خانوں کے ظلم و استحصال سے ناواقف ہیں بلکہ منبرپر بیٹھ کر حسین دنیا کو عارضی اور فانی قرار دینے والوں کے کئی منزلہ شاندار بنگلوں اور عیش وعشرت کی زندگی سے بھی ناآشنا ہیں ۔
جدید دنیا سے الگ تھلگ رہنے والے کوچی کو خاندانوں میں اپنے بچوں کے نام رکھتے ہوئے بھی وسیع النظری اور فراغ دلی کامظاہرہ کیاجاتا ہے ۔ وہ مخصوص حکمرانوں ، مذاہب اورمعاشی غنڈوں سے متاثر ہوکر اپنے بچوں کے نام نہیں رکھتے بلکہ فطری مناظر ، دیگر جانداروں ، خوبصورت پرندوں ، پہاڑوں ، آبشاروں ، دریاؤں اور دیگر قدرتی مناظر کے حوالے سے اپنے نام رکھتے ہیں ۔ مثلاً سورگل(پھول کا نام بریشنا(آسمانی بجلی، زرکہچکور،پلوشہ(کرن،تاترہ(پہاڑ کانام )،وژمہ(باد نسیم)،چنار(درخت کانام )،پاغوندہ(پودا کے نام)،آباسین (دریا کانام)، پامیر (پہاڑ کانام)، باز(پرندے کانام)، میوندعلاقے کانام)،پغمانعلاقے کانام)وغیرہ
کوچیانی (خانہ بدوش ادب وثقافت اشتراک واجتماعیت کی بہترین مثال ہے ۔ ا ن کے ادبی ذخائر(پانگےکسی خاص شخص سے متعلق نہیں اور نہ ہی کسی خاص شخص کی ذاتی ملکیت ہوتی ہے ۔ کوچیانی ادب کے ہیرو بھی انفرادیت کی بنیاد کی بجائے اجتماعی اوصاف کی بنیاد پر تراشے جاتے ہیں ۔ اس لئے ان کے گھریلو معاملات سے متعلق فیصلے اور جرگوں میں شرکت عمر اوروراثت کی بجائے عقل، اہلیت ، ننگ اور غیرت کے معیار پر ہوتا ہے ۔
معاشی اور معاشرتی ترقی کے سفر میں ہم نے علم ودانش کی دنیا میں بھی اجتماعیت کو ترک کرکے انفرادی ملکیت اور اس کے احساس کوفروغ دیا جس کے نتیجے میں ہمار اادب اور فن کچھ دربار اوربادار کے حدود میں مقید ہوگیا ۔ اس کے مقابلے میں کوچیانی ادب آج بھی ان حدوداور پابندیوں سے آزاد ، عوام کی اجتماعی دکھ اور سکھ کابھرپور ترجمان ہے ۔ آج کے معاشرے میں سرمایہ بٹورنے ، سستی شہرت ، شارٹ کٹ اور مختلف لالچ کے تحت علمی وادبی سر گرمیاں عام ہیں ۔ ہمارے اکثر شعراء وادیب سیلف پروجیکشن او رذاتی مفاد کے حصول کیلئے تخلیقی سرگرمیوں سے زیادہ شاہ اور شاہ پرستوں یعنی خواص کے ساتھ ربط وتعلق بنانے پر توجہ دیتے ہیں جن کی وجہ سے ادیب وشاعر معاشرے کے کسی حصے میں بھی آئیڈیل کے طور پر قبول نہیں کئے جاتے حتیٰ کہ ان کے اپنے بچے بھی انہیں ہیرو تسلیم کرنے کوتیار نہیں ہیں ۔ اس کے مقابلے میں کوچیانی ادب اپنے اجتماعیت اور سب کو ساتھ لیکر چلنے کی روش کے باعث آفاقیت اور اعلیٰ اقدار کامظہر ہے اور تمام دنیا کیلئے بیک وقت کشش اور دلچسپی کاحامل ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خلقی یا اولسی فوالکلور کو عالمی ادب کا سنہرا بچپن قرار دیا جاتا ہے ۔ 
عالمی میڈیا اور جرنلزم آج بھی مختلف زبانوں میں اپنے اسٹاف کی بھرتی کے بعد اسے درست اور خالص زبان سے شعور وآگاہی حاصل کرنے کیلئے خانہ بدوشوں کے پاس بھیجتے ہیں تاکہ وہ اپنی زبا ن کی اور یجنلیٹی سے آشنا ہوسکیں اور ان الفاظ سے بھی آگاہ ہوں جنہیں عام طو رپر شہروں میں متروک کردیاگیا ہے جو خانہ بدوشوں کے پاس اپنی اصل حالت میں موجود ہے ۔ واضح رہے کہ پشتون خانہ بدوشوں کی قدیم ٹیکنالوجی طرز علاج ، خوراک ، پوشاک ، کشیدہ کاری ، کھیل، مختلف مواقعوں پر اجتماعی تقریبات ، موسیقی اور دیگر مظاہر کامکمل ریکارڈ خان خادم کو چی کی شاہکار پشتو تحقیقی کتاب ’’کوچیانی پانگہ‘‘ میں موجود ہے ۔
’’پشتون خانہ بدوش قبائل دیگر لوگوں کی طرح پیروں اور ملاؤں کا احترام کرتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ان کے عمل و کردار سے واقف نہیں وہ ان کو جاننے اور پہچاننے کے باوجود ان کے آباؤ اجداد کے احترام او رعزت کے حوالے سے خود ان کے قول و فعل میں تضاد بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں ‘‘۔ (3)ان زیار کش خانہ بدوشوں میں یہ پشتوٹپہ مشہور ہے کہ فقیر یا ملنگ ہمارے لئے دعا کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے اپنی حالت بہتر بنانے کی دعا کیوں نہیں مانگتے او ر خود گھر گھر خیرات مانگنے پر کیوں مجبور ہے؟
تاریخی طو رپر خانہ بدوشوں کااہم مرکز صدیوں سے سبی ہے جہاں مال مویشی ، خشک میوہ جات ، ریشم ، سپاری اور رخت یعنی کپڑے کے کاروبار کامرکز رہا ہے۔ تاہم مالداری سے متعلق ماہرین کاخیال ہے کہ ضلع موسیٰ خیل ، ژوب اور بارکھان مالداری اور خانہ بدوشوں کی سرگرمیوں کیلئے وسیع امکانات رکھتا ہے اور اگر ان علاقوں کومنصوبہ بندی کے ساتھ ترقی دی جائے تو یہ پورے عرب جزائربشمول پاکستان کے گوشت ،اون، چمڑے اور دودھ وغیرہ کی ضروریات پوری کرسکتا ہے ۔ہر سال حج کی سعادت حاصل کرنے والے لاکھوں حجاج کرام کو قربانی کیلئے جانوروں کی فراہمی بھی یہیں سے میسر ہو سکتی ہے۔
فلکیات اور موسم کی پیشگوئی کے حوالے سے کوچی افراد غیر معمولی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ وہ سردی ، گرمی اور بارش وغیرہ کے حوالے سے اتنی درستگی کے ساتھ پیشگوئی کرتے ہیں کہ دور جدید کے پڑھے لکھے افراد خاص طورپر ماہرین موسمیات اور متعلقہ شعبہ کے پروفیسر حضرات بھی حیران رہ جاتے ہیں۔ کوچی حضرات گھڑی اور کیلینڈر کے بغیر اوقات اور فطری مظاہر کی بنیاد پرفاصلے (سفرکاتعین کرتے ہیں ، وہ گزرے ہوئے قافلے یاکاررواں کا جانوروں کی تھکاوٹ، پاؤں کے نشانات ، میڑہبیناڑی(پچیکی نمی سے وقت کا اندازہ لگاتے ہیں اور موسمی ضروریات کے مطابق ہجرت کرتے ہیں جو حیران کن حد تک درست ہوتا ہے ۔ گویا مادی ضرورت اور موسمی ہجرت ان کو مسلسل سفر و حرکت پر مجبور کرتے ہیں۔رات کے دوران گھپ اندھیرے میں کوچی اپنے ساتھیوں کو اپنی بات سے آگاہ کر نے کیلئے مخصوص آواز نکالتے ہیں جس کامطلب وہ آپس میں اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں ۔
معاشرے بے زبان لوگوں کی موثر آواز بننے کیلئے ضروری ہے کہ تاریخ کے اس اہم حصے کو نظر انداز کرنے کی بجائے چلتی پھرتی تاریخ کوجدید زندگی کی سہولتوں سے آراستہ کرکے محفوظ بنایاجائے ۔ شاید افغانستان دنیا میں واحد ملک ہے جس کی پارلیمنٹ میں دس لاکھ موجودکوچیوں کا ایک خصوصی نمائندہ ہوتا ہے ۔ لہذاان لوگوں کو ڈیری پروڈکٹس ، دودھ ، گوشت ، چمڑے ، اون اور دیگر مصنوعات کی تجارت کے حوالے سے جدید سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ وہ اپنا معیار زندگی بلند کرکے معاشرے کی تعمیر وترقی میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر بھرپور کردار ادا کریں ۔
حوالہ جات۔1۔فریڈرک اینگلس،خاندان، ذاتی ملکیت اورریاست کاآغاز ، مارگن کی تحقیقات کی ضمن میں ص نمبر7، ماسکو،سوویت یونین۔
۔2۔ عدنان علیزئی ،تحقیقی مقالہ،پشتون خانہ بدوش قبائل کاجنوبی آسٹریلیا کی ترقی میں کردار2013ء 
۔3۔ خان خادم ، کوچیانی پانگہ، دکوچیانوژوند ،ژواک اوکڑنی2000۔ ص نمبر4،ناشر دانش خپرندو یہ ٹولنہ قصہ خوانی بازار پشارو۔
کتابیات۔1۔نویں غلام حیدر علی ، شمالی پاکستان ، تاریخ وثقافت ،2015 فکشن ہاؤس لاہور۔
۔2۔سحر گل کتوزئی، پشتو ادب پوھنہ ،خیبر پبلشر پشاور2009 ء