بدھ، 30 نومبر، 2016

افغان طالبان کی آپسی اختلاف



افغان طالبان کو نقد رقوم کی شدیدقلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ ان کی مالی مدد کرنے والوں نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے ہیں۔ کئی طالبان لیڈروں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ایک ایسی تحریک کی مالی مدد کرنے میں ہچکچا رہے ہیں جن کا نشانہ غیر ملکی فورسز کی بجائے عام شہری بن رہے ہیں۔گارڈین میں شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ میں طالبان دورکے ایک اہم سفارت کار مولانا رحیم اللہ کاکازادہ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ پچھلےسال میدان جنگ میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود طالبان کے لیے سرمائے کے حصول میں مشکلا ت بڑھ رہی ہیں۔انہوں نے اخبار کو اپنے انٹرویو میں بتایا کہ اب لوگوں میں ہماری جنگ غیر مقبول ہوتی جا رہی ہے کیونکہ عام شہریوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے ہماری شہرت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔نقد عطیات دینے والے یہ نہیں چاہتے کہ ان کی رقم بچوں کو مارنے پر خرچ ہو۔طالبان کو طویل عرصے سے افغانستان اور خلیجی علاقوں کے کاروباری اور مال دار افراد سمیت خطے میں اپنے حامیوں سے عطیات ملتے رہے ہیں۔لیکن اب ان کے پاس سرمائے کی اتنی کمی ہوچکی ہے کہ ان کے شدید زخمی جنگجوؤں کا پاکستان کے پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج نہیں ہو پا رہا۔کیونکہ وہ اپنے بل چکانے کے قابل نہیں رہے۔کاکازادہ نے اخبار کو بتایا کہ 2014 میں افغانستان سے زیادہ تر غیرملکی فوجیوں کی واپسی اور طالبان دھڑوں میں خونی جھڑپوں سے ان کی طاقت میں کمی آئی ہے۔اگرچہ کاکازادہ طالبان کی پندرہ سالہ جدوجہد کا حصہ نہیں رہے لیکن اخبار کا کہنا ہے کہ وہ متحرک طالبان لیڈروں کے بہت قریب ہیں۔طالبان کے ایک سینیئر لیڈر نے گارڈین کو بتایا کہ عطیات میں شدید کمی پچھلے سال جولائی میں یہ خبریں منظر عام پر آنے کے بعد ہوئی کہ طالبان کے سربراہ ملا عمر کا انتقال دو سال پہلے ہوگیا تھا۔ان کے بعد طالبان کی قیادت سنبھالنے والے ملا اختر منصور کی امریکی ڈروں حملے میں ہلاکت کے بعد تحریک لیے فنڈز اکھٹے کرنا مزید دشوار ہوگیا کیونکہ ملا منصور کے کئی کاروباری افراد سے براہ راست تعلقات تھے اور وہ انہیں عطیات دیتے تھے۔طالبان کی آمدنی کا ایک اور بڑا ذریعہ ملک کے جنوب میں اپنے کنڑول کے علاقوں پر ٹیکس، خاص طور پر پوست اور افیون کی آمدنی پر ٹیکس تھا۔ لیکن اندرونی رسہ کشی سے اس آمدنی کو بھی نقصان پہنچا ہے۔باہمی اختلافات کی وجہ سے ہلمند میں طالبان کمانڈر ملا منصور کی کوئٹہ شوری کو جو رقوم بھیجتے تھے ، وہ انہوں نے ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کو دینے سے انکار کر دیا۔طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ ہلمند کے فوجی کونسل کے کمانڈر ملا ابراہیم صدر نے اخوند زادہ سے کہا ہے وہ پاکستان سے ہلمند منتقل ہوجائیں۔اخوندزادہ کے حوالے سے اخبار نے لکھا ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ سینیئر راہنماؤں میں اس بارے میں اتفاق پایا جاتا ہے کہ انہیں افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہیئں۔ البتہ میدان جنگ میں لڑنے والے کئی جنگجو اس سے اتفاق نہیں کرتے۔طالبان کا کہنا ہے کہ قندوز جیسی کامیابیاں ان کی مدد نہیں کرسکتیں۔کیونکہ اس شہر پر صرف ایک ہفتے کے قبضے کے لیے انہیں ایک سال تک تیاری کرنی پڑی تھی جب کہ افغانستان کے 34 صوبے ہیں اور وہ ان پر قبضے کے 34 سال تک انتظار نہیں کرسکتے۔اس لیے ہمیں بات چیت کا ہی راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے اثر سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عزت و احترام حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ یہ تاثر نہ لیں کہ وہ کسی اور کے مفاد کے لیے مجبوراً مذاکرات پر آمادہ ہوئے ہیں۔پاکستان کے ساتھ طالبان کی برہمی کا اظہار پچھلے مہینے قطر میں طالبان کے دفتر کے سربراہ سید محمد طیب آغا کی جانب سے ملا اخوندزادہ کے نام خط کے انکشاف سے ہوتا ہے۔ خط میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ لڑائیوں میں نمایاں کمی کریں او ر پاکستان کی خفیہ ایجنسی سے اپنے رابطے ختم کریں اور انہیں پاکستان کی اپنی پناہ گاہیں چھوڑ دینی چاہیئں۔ریڈیو فری یورپ کے مطابق خط میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں رہ کر آپ کس طرح افغان عوام کی توقعات پوری کر سکتے ہیں۔تاہم ملا اخوندزادہ اس سے اتفاق نہیں کرتے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم پاکستان چھوڑ دیں تو ایک ہفتہ بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔

منگل، 29 نومبر، 2016

آئن اسٹائن کا نظریہ غلط ثابت ہونے کے قریب



جب البرٹ آئن اسٹائن نے اپنا مشہور زمانہ نظریہ اضافیت (Theory of relativity) پیش کیا تھا تو اس کی بنیاد اس چیز پر تھی کہ روشنی کی رفتار یکساں رہتی ہے، مگر اب محققین نے اشارہ دیا ہے کہ جدید طبعیات یا فزکس کی بنیاد بننے والا یہ تصور اتنا بھی ٹھیک نہیں جتنا عظیم سائنسدان سمجھتے تھے۔ اب سائنسدان نیا تجربہ کرنے والے ہیں جس میں آئن اسٹائن کے اس خیال کو جانچا جائے گا کہ روشنی کی رفتار یکساں رہتی ہے یا نہیں۔امپیریئل کالج لندن کے پروفیسر جوآﺅ اور کینیڈا کے پیری میٹر انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر نیایش افسوردی نے 1990 کی دہائی میں یہ خیال پیش کیا تھا کہ بگ بینگ کے وقت روشی کی رفتار اب کے مقابلے میں زیادہ تیز تھی۔اب اس خیال پر تجربات کیے جارہے ہیں اور اگر یہ درست ثابت ہوگیا تو گزشتہ 100 برس کے دوران بننے والی فزکس کی بنیاد کو ہلا کر رکھ دے گا۔آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت میں کہا گیا تھا کہ روشنی ایک ہی رفتار میں ہر جگہ سفر کرتی ہے اور اسی خیال کو کائنات کی عمر جاننے کے لیے استعمال کیا جارہا تھا۔مگر اس نئے خیال میں کہا جارہا ہے کہ اگر روشنی ایک ہی رفتار سے سفر کرتی تو بگ بینگ کے بعد اس کے لیے اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ اس حد تک پھیل سکتی، جسے سائنسدانوں نے ہورائزن پرابلم قرار دیا ہے۔اسے حل کرنے کے لیے محققین نے کہا کہ روشنی کی رفتار ابتدائی عہد میں آج کے مقابلے میں زیادہ تیز تھی۔اب یہ دونوں سائنسدان اس خیال کو ثابت کرنے کے لیے تجربہ کررہے ہیں، ان کے بقول 'یہ خیال 90 کی دہائی میں پیش کیا گیا تھا اور اب اتنا سنجیدہ ہوچکا ہے کہ اس کی آزمائش کی جاسکے'۔ان کا کہنا تھا 'اگر مستقبل قریب میں یہ خیال درست ثابت ہوسکا تو آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کو بہتر بنایا جاسکے گا'۔
اگر ان کا تجربہ کامیاب ہوجاتا ہے تو بھی اسے درست ثابت کرنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔
اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل فزیکل ریویو ڈی میں شائع ہوئے

پیر، 28 نومبر، 2016

بلوچ انقلابی جدوجہد



تحریر : کوہ زاد بلوچ
بلوچ قومی تحریک آزادی اپنے تعریف آپ ہے اپنے ظاہری مقصد محرکات اور پرتشدد عمل کے جواز و وضاحت کے ساتھ اس میں کوئی شک و دو رائے نہیں کہ یہ قومی آزادی کی تحریک ہے ۔
دراصل انقلاب کے لفظی معنی تبدیلی کے ہیں انقلاب ایک جبری و قطعی تبدیلی ہوتا ہے جسکو تاریخی واقعات کا نتیجہ بھی کہا جاتا ہے جہاں ہم بات روس، کیوبا،ایران یا چائنا کی کرتے ہیں تو انکے مقابلے ہمارے ہاں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بلوچ قومی جدوجہد آزادی نا تو حکمران طبقے میں تبدیلی کی جدوجہد ہے اور ناہی آئینی تبدیلی کی جدوجہد ناہی حکومتی یا نظام حکمرانی میں تبدیلی کی جدوجہد اور نا ہی طبقاتی ۔
لیکن اگر ہم غور کریں تو ان سب میں بنیادی "عمل پذیری" تبدیلی یعنی انقلاب ہی ہے 
جہاں تک بات لفظ انقلاب کی بےجا یا برجا استعمال کی ہے تو اسکو سمجھنے کےلئے ہمیں کتابی اور علمی محفلوں سے نکل کر برائے راست بلوچ معاشرے سے رجوع کرنا ہوگا وہ بھی ایک محقق کی حیثیت سے دنیا کو ہمیں کیا صورت دیکھنا ہے خارجی حالات سے مطابقت کےلئے ہمارے پاس کیا ہے اس سے قطع نظرکیونکہ خارجی تبدیلی کے اثرات کے ساتھ ہمیں حقیقی داخلی تبدیلی پر نظر ڈالنا ہوگا بلوچ سماج میں قبائلی و سیاسی نظام کا تجزیہ ہمارے پاس کیا ہے ہمارےقبائلی نظام کے افکار و اعتقادات کو لیکر قومی تشکیل کےلئےاور سیاسی نظام میں پارلیمانی طرزسیاست کے مطالبات سے قومی آزادی کی عملی جدوجہد میں تبدیلی کے اصل محرکات کیا ہیں 
کیا ہم خارجی انقلابات بادشاہت اور فوجی آمریت کے خلاف جدوجہد سے سامنے آنے والے جمہوری نظام ون مین ون ووٹ کے اثرات سے باہرہیں؟؟؟؟؟؟
اسی طرح خارجی مداخلت و قبضہ گریت کے خلاف ہونے والے منظم جدوجہد کے اثرات و ثمرات سے محفوظ ہیں؟؟؟
یہ بات تو طے ہے کہ عوامی شرکت کے بغیر کوئی بھی جدوجہد کسی بھی صورت کامیاب نہیں ہوتی اس بنیادی نقطے کو سامنے رکھکر ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچ سماج میں پنجابی قبضہ گریت کے علاوہ لنگڑا لولہ قبائلی نظام رائج ہے پارلیمانی طرزسیاست کا دارومدار بھی مکمل قبائلی نظام پر منحصر رہا ہے نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی قیادت اور نظریات کتنے متضاد صورت میں سامنے آتے رہے اینٹی سردار ہونے کے باوجود پارٹی میں سرداروں کا جمگھٹا یہ سب ہمارے قبائلی نظام کو سمجھنے کے لئے شاہد کافی ہوں ایسی صورت حال میں ہمارے اس حالیہ جدوجہد کے بانی سنگت حیربیار مری نے جس تبدیلی کی بنیاد رکھی کیا وہ ایک انقلابی تبدیلی کا آغاز شمار نہیں ہوگا ؟؟؟؟ کہ اس نے جدوجہد کو منظم کرنے کے لئے طاقتور سرداروں اور قبائلی و روایتی سیاسی اثر رسوخ رکھنے والے شخصیات کی بجائے عام بلوچوں کو ترجیح دی قبائلت کی بنیاد سے ہٹ کر فکری حوالے سے جنگ کو منظم کرنے کی کوشش کی جو بلوچ سماج و سیاست میں بذات خود ایک انقلابی تبدیلی کی حثیت رکھتی ہے قبائلی نظام کی بقاء اور قومی تشکیل کی ابتداء ہی سرداروں اور وڈیروں پر حملوں کی وجہ بنے اور پنجابی قبضہ گیر کی قبائلی نظام کی پشت پناہی اور سرداروں کو تحفظ فراہم کرنا بطور ثبوت کافی ہے بلوچ سماج میں ایک تبدیلی کے لئے۔۔۔۔۔
فرض کریں ہم ناکام ہوتے ہیں آزادی پسند ایک قومی قوت کے تشکیل میں مکمل ناکام ہوتے ہیں اور پاکستان بھی نہیں رہتا تو کیا دنیا بلوچوں کے قبائلی اتحادیہ کو ترجیح نہیں دے گا افغانستان طرز حکومت انکی مجبوری نہیں ہوگی؟؟؟
پھر ایران و پنجابی کے پراکسی کشمکش میں کون کہاں ہوگا۔
ہاں اگر ایسا کوئی تجزیہ ہے کہ خارجی تبدیلی کے اثرات سے ہمارا داخلی جدوجہد میل نہیں کھاتا فکری حوالے سے ایک صبر آزما جدوجہد کے ذریعے قومی تشکیل کے مراحل طے نہیں ہوسکتے ہمیں جلدازجلد قبائلی اور روایتی سیاسی شخصیات و قوتوں کو انکے حثیت کے تسلیم کے ساتھ لیکر چلنا ہے تو الگ بات ہے لیکن اسکی وضاحت ہم کیسے کریں گے ۔
آج تک کے تجربات میں یہ میرا اپنا تجزیہ ہے کہ ہم قومی جدوجہد آزادی میں اپنے دشمن اور مخالفین کے خلاف بہت زیادہ اثررسوخ پیدا کرچکے ہیں اپنے لوگوں کے افکار و اعتقادات پر بہت زیادہ اثر انداز ہوئے ہیں اور ان میں تبدیلی کا باعث بنے ہیں جسکی وجہ سے اس جنگ نے وسعت اور شدت اختیار کی اور دشمن کی طرف سے جبر و تشدد میں اضافہ ہوا 
بلوچ عورتوں کی شمولیت اور عملی جدوجہد بھی تبدیلی کے لئے ایک ثبوت ہے ہم ان سب کو کس نظر سے دیکھتے ہیں میرے خیال سے یہ اہم نقطہ ہے ۔

اتوار، 27 نومبر، 2016

کاسترو و ڈاکٹر چی کے اختلاف ، بلوچ جہد کے تناظر میں



تحریر : مہر گہوش
کاسترو ہمیشہ کہتا تھا کہ ڈاکٹر چی گویرا مجھے برداشت نہیں کرتا، وہ شوق لیڈری میں مبتلا ہے ،میرے سامنے رکاوٹ ہے ، مجھے ہمیشہ نیچے گرانیکی کوشش کرتاہے، حالانکہ لیڈری میرا حق ہے اور ڈاکٹرچی کہتا کہ کاسترو کو یہ حق حاصل نہیں میرا علاقہ ،میرے دوستوں اورمیرا نیٹ ورک میں مداخلت کرے یہ میرا علاقہ ،میرے دوست اورمیری مڈی اور کسی کا نہیں وہ جانے ان کا کام جانے۔کاسترو کبھی کبھار یہ بھی کہتا تھا، نہیں جی ڈاکٹر تو بڑا انا پرست اور ضدی انسان ہے وہ سمجھتا ہے بس میں ہی سب کچھ ہوں،باقی تو کچھ نہیں لیکن ڈاکٹر کہتا تھا جی نہیں کاسترو نے توکیا کیا ہے میں نے تو فلاں فلاں کارنامہ سرانجام دیا ہے پھر کاسترو سینہ تان کر غرور اور گمھنڈ میں یہ کہتا ،جی میں تو سینئر اور تجربہ کار ہوں،ڈاکٹر چی تو جونیئر ہے ،اس کی کیا حیثیت ،اس کو تو میں نے یہ مقام اور عزت بخشی ،ورنہ وہ کچھ نہیں تھا،اور پھر ڈاکٹرچی سطحی محدود سوچ کے مالک انسان دوبارہ یہی رونا روتا کہ میں اتنا کررہا ہوں ،اپنی پوری زندگی دی، گھر بار بچوں اور نوکری سب کچھ چھوڑ کر اتنی قربانی کے باوجود میرا تحریک میں کوئی حصہ اور مقام ظاہر نہیں،کاسترو کہتا تھا نہیں جی ڈاکٹر چی تو اچھا انسان ہے لیکن کچھ لوگ اسے غلط گاہیڈ کررہے ہیں،چی کہتا نہیں نہیں کاسترو اپنے دوستوں کو اچھے طریقے سے توجہ دے رہا ہے اور میرے دوستوں کو نظر انداز کررہاہے وہ پسند وناپسند کرنے والے شخص ہے،درمیان میں راؤل کاسترو بھی اپنی سوچ لیکر کہتا تھا نہیں جی حقیقت تو یہ چی اور کاسترو دونوں کی آجکل پوزیشن بہت کمزور ہیں، ان کے غلط پالیسیوں کی وجہ سے عوام اور دوستوں میں ان کا گراف مکمل گرچکا ہے وہ بالکل ختم ہیں سارے عوام کا رجحان میری طرف ہے، لوگ مجھ سے متاثر ہیں،کبھی کبھار راؤل کاسترو بھی دوستوں سے یہ کہتا تھا کہ چی اور کاسترو کو صرف اور صرف فوٹو سیشن کا شوق ہے ان کو تو کیوبن قوم اور کیوبا سے کوئی تعلق نہیں ہے،ڈاکٹر چی کہتا نہیں جی اور کچھ نہیں بس راؤل کاسترو کو حسد اور جھلس ہوتا ہے وہ بد نیت اور نالائق انسان خود کچھ نہیں کرسکتا بس تنقید برائے تنقید کرتا ہے مجھے کبھی کبھار ایسا لگتا ہے اس کا تعلق سی آئی اے سے نہ ہو،کاسترو کہتا تھا وہ فلاں چھڑپ میں اگر میں ہوتا شاہد دوست شہید نہیں ہوتے ، دشمن بھی طاقتور اور چالاک ہے، لیکن ہماری کمزوری بھی، یعنی چی کی کمزوریاں بھی تھے،چی کہتا نہیں جی کاسترو ویسے خوشامدپسند انسان ہے وہ ہر وقت بس اپنے بارے میں تعریفی کلمات سننے کیلئے بے تاب ہے اور کاموں پر بالکل توجہ اور دلچسپی نہیں لیتا۔راؤل کہتا چی تو ہمیشہ دوستوں کے درمیان غلط فہمی پیدا کرتا ہے اور منفی پروپیگنڈہ کرتا ہے،لابنگ کرتا ہے،اور مخلص بھی نہیں ہے کاز کے ساتھ یہ ضرور آگے جاکر دشمن سے مذاکرات کریگا۔اور چی گویرا کہتا کہ کاسترو جنگ تو کیوبا اور کیوبن قوم کا لڑتا ہے لیکن وہ ہمیشہ سیاسی اختلاف اور سیاسی رائے کو اپنی ذات کے خلاف سازش اور جنگ سمجھ کر اپنی ذات کیلئے لڑتا ہے ، اور جلد جذباتی ہوکر ناراض ہوتا ہے، اور جو بھی فیصلہ اور رائے اس کی مزاج و طبیعت کے برعکس ہو وہ غیر اانقلابی اصولوں کے زمرے میں آتا ہے ، راؤل کہتا تھا ، نہیں جو شخص تحریک کیلئے کچھ نہ کرئے ، بے عمل ہو ، قوم و تحریک سے کوئی سروکار بھی نہ ہو ، وہ بس کاسترو و ڈاکٹر چی کو اپنی تعریفی کلمات سے خوش کرئے وہ سب سے اچھا اور عقل مند تصور ہوگا 

اگر اس طرح کا رویہ اور سوچ موجود ہوتا تو آج کیوبا آزاد کیوبا نہیں بلکہ مقبوضہ بلوچستان کی طرح مقبوضہ کیوبا ہوتا۔ 

پیر، 21 نومبر، 2016

قلات کے بی بی آسمہ کی کہانی



تحریر: حبیب احمد بلوچ

قلات کے نواحی علاقے مورگن گاؤں میں ایک 16 سال کی لڑکی آسمہ رہتی تھی، آسمہ باقی گاؤں کی لڑکیوں سے کچھ مختلف تھی وہ اپنے ہم عمر لڑکیوں سے کافی تیز اور چالاک تھی۔ تعلیم سے لیکر زندگی کے ہر شعبے میں آسمہ سب سے آگے رہتی تھی، آسمہ کے والد کھیتی باڑی کرکے گھر چلاتا تھا، آسمہ ایک ایسی گاؤں سے تعلق رکھتی تھی جہاں پہ عورت ذات کو جنسی خواہشات پورا کرنے کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اس معاشرے میں عورت کی مثال پنجرے میں بند پرندوں کی مانند تھا جہاں پہ عورت سماج کے اقداروں میں قید تھے۔آسمہ اپنی باپ کی اکلوتی اولاد تھی، وہ اپنی ماں اور باپ علی احمد کے ساتھ ایک بوسیدہ گھروندے میں خوشی کی زندگی گزارتے تھے، آسمہ اپنی گاؤں کی باقی لڑکیوں میں سب سے زیادہ لکھی پڑھی تھی، گاؤں میں ایک ہی اسکول تھی جہاں پہ بچے اور بچیوں کو ایک ساتھ تدریس دی جاتی تھی،اس پورے اسکول کو ایک ماسڑ جی سنبھالتے ۔ گاؤں کے اکثر لڑکیاں کلاس سوئم پہنچتے ہی اپنے تعلیم کا اختتام کر لیتے تھے مگر علم حاصل کرنے کی جنون نے آسمہ کو پانچویں کلاس تک پہنچا ہی دیا۔اسمہ جب جماعت پانچویں کلاس میں پہنچ گئی تو وہ اپنے کلاس میں اکیلی لڑکی رہ گئی تھی مگر آسمہ کی حوصلہ و ہمت اتنی بلند تھی کہ وہ اکیلے ہی پوری کلاس کا مقابلہ کرتی تھی۔ کلاس میں ماسڑ جی کا سہارا دھیان اس دس سالہ آسمہ پے ہوتی تھی، ماسڑ جی کی شفقت دن بہ دن بڑھتی گئی مگر کسی کو پتہ نہیں تھا کہ ماسڑ جی ایک استاد ہونے کے ساتھ ساتھ کسی درندے سے کم بھی نہ تھا۔ ایک دن اسکول کی چھٹی ہونے پر باقی سب بچے اور بچیاں چلے گئے مگر ماسڑ جی نے کسی بہانے سے آسمہ کو چھٹی کرنے سے روک دیا۔ساری اسکول کی چاردیواری میں سناٹا چھایا ہوا تھا ماسڑ جی آگے بڑھتے ہوئے آسمہ کی ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے ، دیکھو آسمہ کسی کو مت بتانا کہ ۔۔۔۔ ماسڑ جی کے ارادے سمجھ کر جب آسمہ کو پتہ چل گیا کہ اسکی عزت تار تار ہونی والی ہے تو اپنی عزت بچاتے ہوئے بھاگ نکلا ، گھر پہنچتے ہی اس واقعہ کا ذکر اپنی ماں کے ساتھ کیا، ماں خون میں اُتر آتے ہوئے آسمہ سے کہا ، میں نے تمہیں کتنی بار اسکول جانے سے منع کیا تھا مگر تم باز نہ آئے ۔۔۔۔ دیکھ لیا آج خدا نے تمہیں بچالیا ۔۔۔۔ یا ا للہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تو نے میری بیٹی کی عزت بچائی۔۔۔ خیر ماں کی مامتا نے چشم تر ہوکر اپنی لخت ء جگر کو سینے سے لگا کر دلاسہ اور حوصلہ دی تھوڑی دیر کے لیے تو آسمہ بھول گئی کہ اُس کی عزت اور آبرو کے ساتھ کیا ہونے والا تھا۔ ماسڑ جی کی اس حرکت کو دیکھ کر اب اُسی روز سے آسمہ کو تعلیم اور اسکول سے نفرت ہونے لگی۔آسمہ کی کچھ ایسی عادتیں جو اِن کے رشتہ داروں کو گوارا نہیں ہوتے تھے جس میں آسمہ کی بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ اپنے والد کے کام کاج میں ہاتھ بٹھانا، جہاں کہی عورت ذات پہ تشدد یا انصافی ہوا کرتی تھی وہی پے آسمہ اپنی سہلی رابعہ کے ساتھ فوراً پہنچ جاتی اور عورتوں کو اس کرب سے نکالنے کی جدوجہد کرتی ، گاؤں میں کچھ لوگوں کے لیے آسمہ کسی فرشتے سے کم نہیں تھی مگر چند کے لیے آسمہ بے غیرت، بد تمیز اور بے حیاء لڑکی تھی۔ آسمہ اکثر اپنی ماں سے پوچھتی تھی ۔۔۔۔ ماں کیا سارے مرد ایک جیسے ہوتے ہیں ۔۔۔۔ کیا ہم مردوں کے خواہشات پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے دیکھ بال کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں ۔۔۔ ماں ہماری زندگی مردوں جیسے کیوں نہیں ہیں؟ ماں تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد مسکراتے ہوئے کہتی۔۔۔ آسمہ بیٹی ایسی باتیں مت کیا کر نہیں تو یہ مرد تمہاری بہت پٹھائی کرینگے۔آسمہ کی عمر ابھی 16 سال ہی نہیں ہوئی تھی کہ گاؤں کے اقداروں نے آسمہ کو شادی کی بندن میں جوڑنے کا فیصلہ سنا دیا جو کہ اسکی مرضی کی برعکس تھی۔ لاکھ منع کرنے کے باوجود بالاآخر آسمہ کی والد علی احمد اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی کے لیے رضامند ہوئے۔ آسمہ کی رشتہ اُس کی دگنی عمر (28) سال کے مرد سے طے پایا۔ آسمہ چشمِ تر ہو کر اپنی ماں سے بار بار کہتی تھی۔۔ ماں مجھے شادی نہیں کرنی۔۔۔میں آپ کو چھوڑ کر کہی نہیں جاؤنگی ۔۔۔۔ میں ابھی بہت چھوٹی ہوں۔۔۔ مجھے آپ لوگوں کے ساتھ رہنا ہے۔۔۔ اور یوں روتے ہوئے آسمہ کے دن گزر جاتے۔بالآخر شادی کی تیاریاں مکمل ہوکر آسمہ کی رخصتی دھوم دھام سے ہوئی۔ آسمہ کو کبھی علم ہی نہیں تھی کہ اسکی ایک نئی زندگی شروع ہونے سے پہلے ہی اختتام پزیر ہونے والی ہے۔ آسمہ اپنی عروسی لباس پہنے ہوئے اپنے کمرے میں چار پائی پے حواس باختہ بیٹھی ہوئی تھی کہ اچانک دروازے سے اسکی شوہر کمرے میں داخل ہوا۔ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد آسمہ کی شوہر کڑک آواز میں بولنے لگا۔ آسمہ! تمہاری مرضی کی مالک اب میں ہوں ۔۔ میں جو چاہوں گا تمہیں وہی کرنی پڑیگی وگرنہ تم ذلیل و خوار ہوجاؤگی۔۔۔ ابھی تک باتیں ختم ہی نہیں ہوئے تھے کہ ہوس کے پوجاری شوہر بے اپنی بڑھاس نکلانے کے لیے آسمہ کو جنگلی جانوروں کی طرح نوچنے لگی۔ آسمہ روتی اور چیختی رہی مگر اُس کے درندے شوہر بے آسمہ کی کرب باری آواز محسوس ہی نہیں کی اور آسمہ کو جانوروں سے بدتر درندگی کے ساتھ نوشتی رہی یہاں تک کہ طلوع آفتاب کا وقت ہونے لگا۔ بالاآخر آسمہ اس ظلمت سے تنگ آکر اپنے شوہر کو پیچھے دھکیل کر کمرے کے ایک کونے میں بیٹھ کر روتی رہی۔ آسمہ کو کیا پتہ تھی کہ یہ گستاخی اِس کی آنے والی زندگی اجیرن بنا دے گی۔ابھی تک آسمہ کے آنسو خشک ہی نہیں ہوئے تھے کہ اچانک کمرے کے باہر شور کی آواز سنائی دینے لگی دروازے سے اچانک آسمہ کی ساس کمرے میں داخل ہو کر آسمہ کی ہاتھ پکڑ کر اسے باہر گھسیٹا، گھر میں جمع کچھ لوگ آسمہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے،،، کس کے ساتھ تم نے اپنا مُنہ کالا کیا ہے۔۔۔۔۔ تم ایک بے غیرت اور بد چلن لڑکی نکلی۔۔۔۔ اور پھر آسمہ پہ تہمت لگانے کا سلسلہ جاری رہا۔ پریشانی کی عالم میں آسمہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا مہاجرہ چل رہا ہے اچانک پیچھے کھڑے آسمہ کی شوہر نے چلایا۔۔ آسمہ کی ورجنیٹی نہیں تھی یہ ہمیں بدنام کریگی۔۔۔۔۔۔ بندوق لے آؤ ایسی بے غیرت لڑکی کی کوئی جگہ نہیں اس دنیا میں۔۔۔۔۔۔
اب آسمہ کو کیا پتہ تھی کہ بھاری وزن اٹھانے یا کھیل کود سے اسکی ورجینیٹی پے سوال اٹھیگی۔آسمہ تو اپنی عزت نفس بچانے کے لیے اپنی تعلیم کی قربانی تک دی۔ آسمہ قسم کھاتی رہی کہ اس بے کبھی کسی کے ساتھ غلط فعل نہیں کی ہے مگر ہمیشہ کی طرح عورت ذات پہ یقین کون رکھتا۔
آسمہ کو گھسیٹتی ہوئی اسکی والد علی احمد کے حوالے کر کے کہنے لگے۔۔۔ ایسی بے غیرت لڑکی واجب القتل ہے۔۔۔۔۔ یہ سب سن کر آسمہ کی والد نے آسمہ کی ہاتھ پکڑ کر اسے نوشہ خانہ میں بند کر کے کہنے لگا۔۔ آخر تم نے ایسا کیوں کیا؟۔۔۔۔۔ کیا ہماری محبت میں کوئی کمی تھی۔۔۔۔۔۔
آسمہ لاکھ قسمیں کھاتی رہی لاکھ روتی اور چیختی رہی مگر جب بات غیرت کی آجاتی ہے تب عورت کی کوئی نہیں سنتی۔ آسمہ کی ورجینٹی کی بات گاؤں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ابھی ایک دن ہی نہیں گزرا تھا کہ گاؤں کے معتبرین علی احمد کے گھر کے سامنے علی احمد کے غیرت کو للکار رہے تھے علی احمد کی آسمہ سے بے پناہ محبت کی وجہ سے ان باتوں کو رد کرتا رہا۔اِدھر آسمہ بھوک کے مارے اپنے خدا سے مخاطب ہو کر بار بار یہی کہہ رہی تھی کہ ' خدایا تو نے مجھے لڑکی پیدا کی مگر زلالت کی زندگی کیوں دی۔۔۔ میری زندگی تو آپ سے چھپی نہیں تھی پھر آپ ان کو سمجھاتے کیوں نہیں۔۔۔۔۔۔۔ اُدھر باہر لوگ علی احمد کے گھر کے سامنے علی احمد کو بار بار کہہ رہے تھے کہ۔۔۔تم جیسا بڑا بے غیرت انسان نہیں جو اتنا کچھ ہونے کے باوجود ایک بے غیرت لڑکی کو اپنے گھر میں رکھ کر پورے گاؤں کی بد نامی کر رہے ہو۔۔۔۔۔ یہ لوگ چُھپ نہیں ہوئے تھے کہ کچھ مذہب کے دعویدار اُٹھ کھڑے ہوگئے اور زور سے کہنے لگے۔۔۔۔۔ تم ایک بے غیرت، بے دین اور شیطان لڑکی کو اپنے گھر میں رکھ کر نہ صرف اپنے اوپر خدا کا عذاب مسلط کر رہے ہو بلکہ پورے گاؤں کو خدا کا عذاب لپیٹ میں لے گا اپنی بد چلن لڑکی کی سرغناش کر دو نہیں تو ہم سب مارے جاءئیں گے۔۔۔علی احمد بالاآخر لوگوں کی باتوں سے تنگ آکر اپنی بیٹی آسمہ کے ہاتھ پکڑ کر اسے باہر لے آیا۔ علی احمد من ہی من میں سوچ رہا تھا کہ اگر وہ اپنی بیٹی کی قتل نہ کرے تو سماج کے اقدار اور لوگوں کے باتیں اسے روز مرنے پر مجبور کریگی۔ 
علی احمد نے گلاس میں پانی اُٹھا کر آسمہ کی طرف۔۔ لو بیٹی پانی پیو، کل سے تم نے نہ کچھ کھایا ہے اور نہ کچھ پیا ہے۔۔۔۔۔ آسمہ نے ابھی تک پانی ختم ہی نہیں کی تھی کہ اسکے والد علی احمد نے نہ چاہتے ہوئے اپنی لخت ء جگر آسمہ کی گلہ دبا کر اسے قتل کر دیا۔ ادھر آسمہ کی سانس رکھ گئی تو دوسری جانب علی احمد بے قابو ہو کر چلانے لگا۔۔ مجھ جیسا بڑا بے غیرت انسان نہیں جس نے اپنی ہی ہاتھوں سے اپنی بیٹی کی جان لی۔۔۔۔۔۔۔.مگر گاؤں والوں کے نزدیک علی احمد ایک غیرت مند ثابت ہوا جس نے غیرت کے نام پر اپنی بیٹی کی جان لے لی۔کچھ دن ہی نہیں گزرے تھے کہ یہ معاملہ پولیس تک جا پہنچی اور علی احمد گرفتار ہوگئے سزا کاٹنے کے لیے علی احمد کو مچھ جیل بھیج دیا گیا۔ آج بھی علی احمد کے کانوں میں آسمہ کی آہ سنائی دیتی ہے اور آسکی ماں اپنے پروردگار سے آسمہ کے سوالوں کے جوابات کے لیے منتظر رہتی ہے۔ غیرت کے نام پر آسمہ نے اپنی جان کی قربانی دے دی۔ اور شاید مستقبل میں ایسے ہزاروں آسمہ کی جان چلی جائے صرف غیرت کے نام پر۔۔۔۔۔۔