اتوار، 14 اکتوبر، 2018

تین سوال ـ تحریر : لیو ٹالسٹائی



تین سوال
تحریر: لیو ٹالسٹائی : روس


ایک بادشاہ کو ایک بار یہ خیال ذہن میں درآیا کہ اگر اسے اپنے تین سوالوں کے جواب معلوم ہو جائیں تو وہ کسی معاملے میں مات نہیں کھا سکتا. اس کے تین سوال یہ تھے۔

ہر کام کے کرنے کا صحیح وقت کون سا ہے؟ 
میرے لیے سب سے اہم لوگ کون ہیں اور کون میری توجہ کا سب سے زیادہ حقدار ہے؟
سب سے ضروری چیز کیا ہے کرنے کو؟

بادشاہ نے یہ اعلانِ عام کروا دیا کہ جو بھی ان سوالوں کے اطمینان بخش جواب دے پایا اسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔

صاحبِ علم بادشاہ کے پاس جوق در جوق آنے لگے مگر کوئی بھی بادشاہ کو مطمئن نہ کر سکا۔

پہلے سوال کا جواب کچھ لوگوں کے پاس یہ تھا کسی بھی کام کو صحیح وقت پر کرنے کے لیے بادشاہ کو اپنے دنوں، مہینوں اور سالوں کو ترتیب دینا چاہیں اور اس پر سختی سے عمل کرنا چاہئے اور یہی طریقہ ہے ہر کام کو ٹھیک وقت پر کرنے کا۔
کچھ لوگوں کا دعویٰ یہ تھا کہ انسان کے لیے کسی بھی کام کے صحیح وقت کا تعین ناممکن امر ہے. بادشاہ کو ایک مشورہ یہ بھی دیا گیا کہ وہ زود رس لوگوں کی ایک جماعت ترتیب دے اور ان کے مشورے پر عمل پیرا ہو۔
ایک گروہ کا موقف یہ بھی تھا کہ کچھ معاملات عجلت میں طے کرنے کے ہوتے ہیں اور ایسی صورت حال میں کسی سے مشورے کا وقت نہیں ہوتا، اس لیے بادشاہ کو فوری طور پر ایک نجومی کی خدمات حاصل کرنی چاہیے جو قبل از وقت چیزوں کی پیشگوئی کر سکے۔

اسی طرح دوسرے سوال کے بھی کئی جواب سامنے آئے. کچھ کے خیال میں انتظامیہ سب سے اہم ہے بادشاہ کے لیے. کچھ کے خیال میں مبلغ و معلم جبکہ کچھ کا اندازہ یہ تھا کہ جنگجو سپاہی سب سے زیادہ اہم ہیں۔

بادشاہ کا آخری سوال: "کرنے کو سب سے ضروری کیا چیز ہے؟ "کچھ کا جواب تھا کہ سائنسی ترقی جبکہ کچھ کی ترجیح عبادت تھی. بادشاہ نے کسی بھی جواب سے اتفاق نہیں کیا۔
بادشاہ نے یہ فیصلہ کیاکہ وہ ان جوابات کی تلاش میں درویش کے پاس جائے گا جو اپنی فہم و فراست کے لیے مشہور تھا. درویش کا بسیرا جنگل میں تھا اور اس کی گفتگو کا دائرہ سادہ لوح لوگوں تک محدود تھا. بادشاہ نے عام لوگوں جیسا حلیہ بنایا اور اپنے محافظوں کو ایک مخصوص مقام پر چھوڑ کر اکیلا درویش کے ٹھکانے کی طرف روانہ ہو گیا۔ 

بادشاہ نے دور سے دیکھا تو درویش اپنے باغ کی مٹی نرم کر رہا تھا. بادشاہ جب پہنچا تو درویش خوشدلی سے اس سے ملا اور دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گیا. وہ کمزور اور ضعیف تھا. جب وہ اپنا بیلچہ زمین پر مارتا تو تھوڑی مٹی اکھڑتی اور وہ زور سے ہانپنے لگتا۔ 
بادشاہ نے درویش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ سے اپنے تین سوالوں کے جواب معلوم کرنے آیا ہوں. بادشاہ نے اپنے تینوں سوال درویش کے سامنے دہرائے. درویش نے بغور سننے کے بعد کوئی جواب نہ دیا اور دوبارہ مٹی نرم کرنے میں لگ گیا. بادشاہ نے درویش سے بیلچہ لیتے ہوئے کہا کہ لائیں۔۔۔ میں آپ کی مدد کر دیتا ہوں آپ خود کو نڈھال کر رہے ہیں. دو کیاریاں تیار کرنے کے بعد بادشاہ نے کام سے ہاتھ کھینچتے ہوئے اپنے سوالات دہرائے. درویش زمین سے اٹھتے ہوئے کہا کہ اب تم آرام کرو میں باقی کام کر لیتا ہوں۔ 
بادشاہ نے بیلچہ نہیں دیا اور بدستور کام میں لگا رہا. ایک گھنٹہ گزرا اور پھر ایک اور. سورج درختوں کے پیچھے ڈوبنے لگا. بادشاہ نے بیلچہ زمین پر رکھتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کے پاس میرے سوالوں کے جوابات نہیں ہیں تو میں لوٹ جاتا ہوں. 
"وہ دیکھو کوئی ہماری طرف بھاگتا ہوا آرہا ہے۔"درویش نے کہا. "آو دیکھتے ہیں کون ہے۔" 

بادشاہ نے مڑ کر دیکھا تو ایک باریش آدمی جنگل سے بھاگتا ہوا آ رہا تھا اور دونوں ہاتھوں سے پیٹ پکڑا ہوا تھا. اس کی انگلیاں خون سے لتھڑی ہوئیں تھیں. قریب پہنچتے ہی وہ بےہوش ہو کر گر گیا. وہ بالکل ساکت تھا اور کراہنے کی مدہم سی آواز آ رہی تھی۔ 
بادشاہ اور درویش نے آگے بڑھ کر دیکھا تو اس کے پیٹ پر ایک گہرا زخم تھا. بادشاہ نے اس زخم کو ممکنہ حد تک صاف کر کے مرہم پٹی کردی. جب خون بہنا بند ہوا تو باریش آدمی نے ہوش میں آتے ہی پانی مانگا. بادشاہ اس کے پینے کے لیے تازہ پانی لے آیا۔ 
اس وقت تک سورج ڈوب گیا تھا اور فضا خوشگوار ہو گئی تھی. بادشاہ نے درویش کی مدد سے اس انجان شخص کو جھونپڑی میں بستر پر لٹا دیا اور اس نے اپنی آنکھیں موند لیں۔
 
بادشاہ کام سے اتنا تھکا ہوا تھا کہ لیٹتے ہی سو گیا. وہ گرمیوں کی مختصر رات میں پرسکون سو رہا تھا. جب وہ بیدار ہوا تو وہ زخمی آدمی اپنی روشن آنکھوں سے بادشاہ کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا اور بادشاہ کو بیدار دیکھ کر فوراً اپنی نحیف آواز میں معافی طلب کرنے لگا۔
بادشاہ نے کہا کہ ہم دونوں تو بالکل اجنبی ہیں اور کس وجہ سے تم معافی مانگ رہے ہو مجھ سے۔ 

تم مجھے نہیں جانتے مگر میں تمھیں جانتا ہوں. میں تمھارا دشمن ہوں اور یہاں میں اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لینے آیا تھا. میں جانتا تھا کہ تم یہاں اکیلے ہوگے اور میں واپسی پر تمھیں قتل کردوں گا. جب پورا دن گزرنے پر بھی تم واپس نہیں آئے تو میں تمھیں تلاش کرتے ہوئے تمھارے محافظوں کے نرغے میں پھنس گیا اور انہوں نے مجھے در کر حملہ کردیا اور میں زخمی حالت میں وہاں سے بھاگ نکلا. اگر مجھے بروقت طبی امداد نہ ملتی تو میں مرجاتا. میں نے تمھارے قتل کا منصوبہ بنایا اور تم نے میری زندگی بچائی. جب تک زندہ رہوں گا تمھارا شکر گزار اور خدمت گزار رہوں گا. مجھے معاف کر دو۔ 

بادشاہ نے نہ صرف اسے معاف کر دیا بلکہ اس کی ضبط کی ہوئی جائیداد بھی واپس کر دی اور اپنے شاہی معالج کو اس کے علاج کی ذمہ داری سونپ دی۔ 

بادشاہ درویش کو دیکھنے باہر نکلا تو درویش اکڑوں بیٹھا کیاریوں میں بیج بو رہا تھا، بادشاہ نے آخری بار اپنے سوال دہرائے. درویش نے بیٹھے بیٹھے جواب دیا کہ تمھیں تمہارے جوابات مل چکے ہیں. بادشاہ نے حیرت سے استفسار کیا کہ کیسے!
درویش نے کہا کہ کیا تم نے میری کمزوری پر رحم کھاتے ہوئے میرے لیے کیاریاں نہیں کھودیں بجائے اس کے تم واپس جا کر قتل ہو جاتے. اور تم یہاں رکنے پر پچھتا رہے ہو؟ اس لیے تمھارے لیے سب سے اہم وقت وہ تھا جب تم کیاریاں کھود رہے تھے اور سب سے اہم کام اس وقت اس زخمی آدمی کی دیکھ بھال تھی ورنہ وہ تم سے صلح کیے بغیر مر جاتا. اس لئے سب سے اہم آدمی وہی تھا تمھارے لیے اور تم نے جو اس کے لیے کیا وہ سب سے اہم کام تھا۔ 

یاد رکھو، سب سے اہم وقت لمحہِ موجود ہے. یہ اس لیے اہم ہے کہ اس لمحے میں زمانہ اپنا مالک خود ہوتا ہے. سب سے اہم آدمی وہی ہے جو اس لمحہِ موجودہ میں آپ کے ساتھ موجود ہے اور سب سے اہم کام اس کے ساتھ بھلائی ہے جو انسان کو دنیا میں بھیجنے کا واحد مقصد ہے.

1 تبصرہ: