ہفتہ، 30 دسمبر، 2017

لہو ٹپکاتے حروف/بادوک بچ گئی؟



ایران میں 25-اکتوبر 2014 کو پھانسی چڑھنے والی چھبیس سالہ خاتون، ریحانے جباری، کی ڈائری سے ایک اقتباس-

پولیس ہیڈ کوارٹر میں تین جسیم مرد ایک چھوٹے سے کمرے میں میرے منتظر تھے۔ اندر داخل ہوتے ہی انہوں نے مجھے فرش پر بیٹھنے کو کہا اور مجھے ایک کرسی کے ساتھ ہتھکڑیوں سے باندھ دیا۔ باری باری وہ مجھ پہ چلاتے رے۔

تم سمجھتی ہو کہ تم بہت چالاک ہو؟ یہاں تو تم سے بڑوں بڑوں کی چیں بول گئی۔ تم کیڑی مکوڑی کیا چیز ہو؟ سارے سوالوں کا اونچی آواز میں جواب دو۔
مجھے اپنی پشت پر جلد سوجتی اور پھٹتی محسوس ہو رہی تھی۔ مجھے شدید جلن محسوس ہو رہی تھی اور میری چیخوں سے میرے اپنے کان دکھنے لگے۔ مجھے چابک کی لش سنائی ہی نہیں دے رہی تھی۔ میں نہیں جانتی کہ وہ مجھے کس چیز سے زدوکوب کر رہے تھے، چابک سے یاکسی رسی سے یا لکڑی کے ایک ٹکڑے کے ساتھ ۔ ۔ مجھے کبھی پتہ نہیں چلا کہ وہ تینوں راکشس مجھے کس شے سے جلا رہے تھے۔ مجھے صرف اپنی چیخیں سنائی دے رہی تھیں اور کچھ نہیں۔ اونچی کرسی سے بندھی میری کلائیاں درد اور جلن سے سُن ہو چکی تھیں۔
اس سال موسم سرما سرد تھا ۔ جیل میں ہیٹنگ کے نطام کے خراب ہونے کی وجہ سے ہمارے وارڈ میں ہر طرف دانت بجنے اور کھانسی چھینکوں کی آوازیں آتی تھیں۔ مجھے ۲۰۰۷ کی قیدِ تنہائی یاد آتی ہے کہ جب قیدِ تنہائی کے دوران میری تفتیش ہو رہی تھی۔ زخموں سے چور اور بے چینی اور خوف سے کانپتے بدن کے ساتھ۔ میری عمر تب انیس برس کی تھی۔
پوچھ گچھ کرنے والے اکثر دو آدمی ہوتے تھے جن کا نام مجھے کبھی پتہ نہیں چلا۔
وہ مجھے [میرا اقرارنامہ] بول کر لکھاتے تھے اور میں لکھتی تھی۔ ایک بار وہ مجھے کہیں تفتیش کے لئے لے گئے جہاں میں نےاپنی کلائیوں سے بندھی چھت سے لٹکی ہوئی ایک 14 یا 15 سال کی عمر کی لڑکی کو دیکھا۔ لڑکی کا رنگ پیلا تھا، بری طرح سبکیاں لیتے ہوئےاس کے ہونٹ پھٹے ہوئے تھے۔
[ایک اور کمرے میں،] پرسندہ مرے سامنے بیٹھ کر بولا کہ آج یا کل وہ میری چھوٹی بہن کو بھی لے آئیں گے۔ انہیں اسکا نام بھی معلوم تھا: بادوک۔ اس نے کہا کہ "اب اس کی باری ہے۔ وہ تو دبلی پتلی دھان پان سی ہے۔ کیا خیال ہے وہ اس لڑکی کی طرح لٹکی ہوئی کتنی دیر کاٹے گی؟
وہ تفصیل سے مجھے بتانے لگا کہ وہ میری بہن سے کیا سلوک، کیسے کرے گا۔ میں نے رونا شروع کر دیا اور منتیں کرنے لگی کہ وہ میری بہن کو معاف کر دے۔ اس نے کہا کہ وہ مجبور ہے یہ اس کے بس میں نہیں ہے۔ میں نے اسے پوچھا کہ میں اپنی بہن کو تکلیف سے بچانے کے لئے کیا کر سکتی تھی ۔ اس نے کہا کہ:
"یہ بہت آسان ہے ۔ بس اعتراف لکھ کر دے دو کہ تم نے چھری دو دن پہلے خاص طور پر اس قتل کیلئے خریدی تھی۔"۔ ...
تو میں نے بالآخر لکھ کر دے دیا کہ میں نے چھری خود پہلے سے خریدی تھی، کاغذ پر دستخط کئے اور ایک اطمینان کی سانس لی 
''کہ ''بادوک بچ گئی تھی

دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی کوششوں کے باوجود قتل کے الزام میں تقریباً 7 سال سے قید ریحانہ جباری کو 25 اکتوبر کو پھانسی دے دی گئی۔
ریحانہ نے پھانسی سے پہلے اپنی ماں کو ایک خط لکھ کر اپنی موت کے بعد اپنے اعضاء کو عطیہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والا یہ خط اپریل میں ہی موصول ہوگیا تھا، لیکن ایران میں امن کے حامی کارکنوں نے اس کو ریحانہ کو پھانسی دیے جانے کے ایک دن بعد عام کیا۔
ریحانی کی والدہ نے جج کے سامنے اپنی بیٹی ریحانہ کی جگہ خود کو پھانسی دیے جانے کی التجاء کی تھی۔
واضح رہے کہ 2007ء میں ریحانہ نے سابق اینٹیلی جنس اہلکار مرتضیٰ عبدل علی سربندی کو چھری کے وار سے قتل کر دیا تھا۔ 
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ایک مبصر کا کہنا تھا کہ ریحانہ نے مرتضٰی کا قتل اپنے دفاع میں کیا تھا کیونکہ سربندی نے ریحانہ کا ریپ کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ پندرہ دسمبر 2008ء کو ریحانہ جباری اپنے خلاف مقدمے کی پہلی سماعت کے دوران اپنا دفاع کیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا تھا کہ ریحانہ پر اس قتل کا مقدمہ 2009ء میں نہایت ناقص طریقے سے چلایا گیا تھا۔ ایرانی اداکاروں اور دیگر نامور شخصیات نے ریحانہ کو سنائی جانے والی پھانسی کی سزا پر سخت احتجاج کرتے ہوئے اس سزا کو روکنے کی اپیل کی تھی اور اُن کی اپیل کی باز گشت مغربی دنیا میں بھی سنائی دے رہی تھی۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی رپورٹ کے مطابق ریحانہ کی والدہ کو جمعہ کو ایک گھنٹے کے لیے اپنی بیٹی سے ملنے کی اجازت دی گئی تھی۔ 
ایرانی قانون کے مطابق کسی بھی شخص کو سزائے موت دینے سے پہلے اُس کے کسی قریبی رشتہ دار سے ملنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ایران میں امن کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا تھا کہ ریحانہ کی والدہ کو بتایا گیا تھا کہ ریحانہ کو پھانسی دیے جانے کے کچھ گھنٹوں پہلے انہیں اس بارے میں بتا دیا جائے گا۔ عدالت کے حکم کے مطابق، 2007 ءمیں ریحانہ نے مرتضیٰ پر جس چاقو سے وار کیا تھا، وہ دو دن پہلے ہی خریدا گیا تھا۔ ایرانی وزیر انصاف مصطفٰی محمدی نے بتایا تھا کہ اس معاملے کا خوشگوار اختتام ہو سکتا تھا لیکن مرتضٰی کے اہلخانہ نے ریحانہ کی جان بچانے کے لیے قصاص کی رقم لینے کی تجویز کو مسترد کردیا تھا۔ برطانوی وزارت خارجہ نے بھی ریحانہ جباری کی پھانسی کو ناپسندیدہ فعل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح دنیا کے ساتھ ایران کے تعلقات کو بحال کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اگرچہ ایرانی حکام یہ وضاحت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ چونکہ مقتول کے ورثاء اسلامی قوانین کے تحت قاتل لڑکی کو معاف کرنے یا قصاص لینے پر راضی نہیں ہوئے تھے، چنانچہ حکومت اور عدالتیں مجبور تھیں۔ لیکن وہ اس سوال کا جواب دینے میں ناکام رہے کہ ریحانہ پر جنسی حملہ کرنے کے الزام کی تحقیقات کیوں نہیں کی گئیں۔ اس حقیقت کی چھان بین کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی کہ ریحانہ کن حالات میں مرتضیٰ عبدالعلی کے فلیٹ تک لائی گئی اور وہاں تیسرا شخص کون تھا۔ مقدمے کے دوران استغاثہ سارا زور اس بات پر دیتا رہا کہ ریحانہ نے دو روز قبل چاقو خریدا تھا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ قتل کا ارادہ رکھتی تھیں۔

ریحانہ کی والدہ صالحہ۔

ریحانہ نے اپنی والدہ کے نام اپنے آخری خط میں لکھا تھا:
میری عزیز ماں،
مجھے آج پتہ چلا کہ مجھے قصاص (ایرانی نظام میں سزا کا قانون) کا سامنا کرنا پڑے گا، مجھے یہ جان کر بہت دکھ ہو رہا ہے کہ آخر آپ اپنے دل کو یہ یقین کیوں نہیں دلا رہی ہیں کہ میں اب اپنی زندگی کے آخری مقام تک پہنچ چکی ہوں۔
آپ کو پتہ ہے کہ آپ کی اداسی مجھے کس قدر پریشان کرتی ہے؟ آپ مجھے اپنے اور پاپا کے ہاتھوں کو چومنے کا موقع کیوں نہیں دیتی ہیں۔
ماں، اس دنیا نے مجھے 19 سال جینے کا موقع دیا تھا۔ اس منحوس رات کو میرا قتل ہو جانا چاہیے تھا۔ میری لاش کو شہر کے کسی کونے میں پھینک دیا گیا ہوتا اور پھر پولیس آپ کو میری لاش کو پہچاننے کے لیے بلواتی اور آپ کو پتہ چلتا کہ قتل سے پہلے میرا ریپ بھی ہوا تھا۔
میرا قاتل کبھی بھی گرفت میں نہیں آتا، کیونکہ آپ پاس اس کی طرح نہ ہی دولت ہے، نہ ہی طاقت۔
اس کے بعد آپ کچھ سال اسی عذاب اور پریشانی میں گزار تیں اور پھر اسی عذاب میں آپ بھی انتقال کرجاتیں۔
لیکن، کسی لعنت کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔ میری لاش تب پھینکی نہیں گئی۔ لیکن، یہاں جیل کی قبر میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔
اسے ہی میری قسمت سمجھیے اور اس کا الزام کسی کے سر نہ ڈالیے۔ آپ بہت اچھی طرح جانتی ہیں کہ موت زندگی کا خاتمہ نہیں ہوتی۔
آپ نے ہی تو کہا تھا کہ انسان کو مرتے دم تک اپنے اقدار کی حفاظت کرنی چاہیے۔
ماں، جب مجھے ایک قاتل کے طور پر عدالت میں پیش کیا گیا، تب بھی میں نے ایک آنسو نہیں بہایا۔ میں نے اپنی زندگی کی بھیک نہیں مانگی۔ میں چلّانا چاہتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا کیونکہ مجھے قانون پر پورا بھروسہ تھا۔
ماں، آپ جانتی ہیں کہ میں نے کبھی ایک مچھر بھی نہیں مارا۔ میں كاكروچ کو مارنے کی بجائے اس کو مونچھ سے پکڑ کر اسے گھر سے باہر پھینک آیا کرتی تھی، لیکن اب مجھے ایک ارادے کے تحت قتل کرنے کا مجرم بتایا جا رہا ہے۔
وہ لوگ کتنے پُر امید ہیں جنہوں نے ججوں سے انصاف کی امید کی تھی۔ 
آپ جو سن رہی ہیں، مہربانی کرکے اس پر مت روئیے۔
میں اپنی موت سے پہلے آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ ماں، میں مٹی کے اندر سڑنا نہیں چاہتی۔ میں اپنی آنکھوں اور جوان دل کو مٹی میں بدلنا نہیں چاہتی، اس لیے استدعا کرتی ہوں کہ پھانسی کے بعد جلد سے جلد میرا دل، میرے گردے، میری آنکھیں، ہڈیاں اور وہ سب کچھ جس کا ٹرانسپلاٹ ہو سکتا ہے، اسے میرے جسم سے نکال لیا جائے اور انہیں ضرورت مند شخص کو عطیے کے طور پر دے دیا جائے۔ میں نہیں چاہتی کہ جسے میرے اعضاء دیے جائیں اسے میرا نام بتایا جائے۔

بدھ، 20 دسمبر، 2017

اگر سعودی عرب و ایران میں جنگ ہوئی تو کیا ہوگا ؟



منگل کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پر ایک میزائل داغا گیا۔ اس میزائل کے نشانے پر سعودی عرب کا وہ شاہی محل تھا جہاں بجٹ پیش کرنے والے تھے۔ میزائل اپنے نشانے تک پہنچتا اس سے پہلے ہی اسے فضا میں نشانہ بنا کر تباہ کر دیا ہے۔
یہ میزائل ہمسایہ ملک یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے داغا گیا تھا لیکن سعودی عرب کو یقین ہے کہ اس کا ریموٹ کنٹرول یمن سے دور ایران کے دارالحکومت تہران میں تھا۔ ایران متعدد دہائیوں سے سعودی عرب کا سب سے بڑا دشمن ہے۔
سعودی عرب سمیت دنیا کے کئی ممالک کا خیال ہے کہ یمن کے شیعہ حوثی باغیوں کی پشت پر ایران کا ہاتھ ہے۔ ریاض پر داغا گیا یہ میزائل سعودی عرب اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی کی سب سے تازہ مثال ہے۔ اس سال یہ تیسرا موقع تھا جب حوثی باغیوں نے سعودی عرب پر میزائل داغا ہو۔
سیاسی اور علاقائی طاقتیں
ان دنوں حالات کچھ یوں ہیں کہ جیسے سعودی عرب اور ایران کے درمیان جنگ ہونے والی ہو۔ لیکن اگر سعودی عرب اور ایران کے درمیان جنگ ہوئی تو کیا ہوگا؟ بی بی سی کی ریڈیو سیریز دا انکوائری میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے۔
سعودی عرب اور ایران خطے کی دو بڑی سیاسی طاقتیں ہیں۔ دونوں تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک ہیں۔ اگر دونوں کے درمیان جنگ ہوئی تو اس کا اثر پوری دنیا پر پڑے گا۔ برطانیہ کے مائیکل نائٹ عرب معاملوں کے ماہر اور مشیر ہیں۔
نائٹ بتاتے ہیں کہ ایران تاریخی طور پر کافی اثر و رسوخ والا ملک رہا ہے۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے پچھلی ایک صدی میں تیل کی وجہ سے کافی ترقی کی ہے۔ اس وجہ سے ایران کا اثر ان علاقوں پر کم ہوتا گیا ہے۔
مخالفین پر اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش
مائیکل نائٹ کہتے ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کی ایک بڑی وجہ مذہب بھی ہے۔ سعودی عرب ایک سنی ملک ہے اور ایران شیعہ۔ دونوں ہی ممالک اپنے مذہبی ساتھیوں کی دوسرے ممالک میں بھی حمایت کرتے رہے ہیں۔ یہ بھی سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ ہے۔
گذشتہ چند برسوں سے ایران، سعودی عرب پر بھاری پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ کئی عرب ممالک پر اس کا اثر و رسوخ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایران نے عراق میں اپنا اثر بڑھا لیا ہے۔ شام اور لبنان میں بھی اس کے پیادے طاقتور ہیں۔ یمن میں وہ حوثی باغیوں کو ہتھیار اور تربیت فراہم کر کے سعودی عرب کی ناک میں دم کیے ہوئے ہے۔
مائیکل نائٹ کا کہنا ہے کہ اس میں ایرانی فوج کا انقلابی دستہ یعنی ریوولیوشنری گارڈز کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ نائٹ کے مطابق ریوولیوشنری گارڈز ایران کے پاس سب سے طاقتور ہتھیار کی طرح ہیں۔ ان کا خوف عرب ممالک پر طاری ہے۔ یہ بے حد پیشہ آور دستہ ہے جس نے کئی محاذوں پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔
شیعہ، سنی اور ریوولیوشنری گارڈز
عرب ممالک میں شیعہ افراد ریوولیوشنری گارڈز کو اپنی فوج مانتے ہیں۔
مائیکل نائٹ کے مطابق بھلے سعودی عرب اور ایران کے درمیان باضابطہ جنگ نا چھڑی ہو لیکن دونوں ہی ممالک کئی محاذوں پر لڑ رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہے یمن، جہاں سعودی عرب کی رہنمائی میں کئی ممالک کی فوجیں حوثی باغیوں سے جنگ لڑ رہی ہیں۔ دوسری جانب حوثیوں کو ایران کی سرپرستی حاصل ہے۔ سعودی عرب یمن پر لگاتار فضائی حملے کر رہا ہے حالانکہ وہ فیصلہ کن جیت حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سعودی عرب کی نظر میں اس کی جیت کی راہ میں ایران سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
یمن کے علاوہ شام میں بھی سعودی عرب اور ایران مختلف گروہوں کے ساتھ ہیں۔ ایران صدر بشار الاسد کے ساتھ ہے جبکہ سعودی عرب اسد کے خلاف لڑ رہے باغیوں کا ساتھ دے رہا ہے۔
سرد جنگ کے حالات
لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ ایک طاقتور گروہ ہے۔ سعودی عرب بھی وہاں کے سنیوں کا ساتھ دیتا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیاں عراق میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا مقابلہ بھی جاری ہے۔ عراق کی حکومت کی دولت اسلامیہ پر فتح میں ریوولیوشنری گارڈز کا بڑا ہاتھ سمجھا جاتا ہے۔
اسی طرح ایک چھوٹے سے ملک بحرین میں بھی سعودی عرب اور ایران آمنے سامنے ہیں۔ بحرین میں شیعہ آبادی زیادہ ہے۔ مگر یہاں کا حکمراں خاندان سنی ہے جس کو سعودی عرب کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ وہیں ایران بحرین میں حکومت مخالف شیعہ گوریلہ تنظیموں کے ساتھ ہے۔
مائیکل نائٹ کہتے ہیں کہ ابھی سعودی عرب اور ایران کے درمیان کئی ممالک میں سرد جنگ جیسے حالات ہیں۔ لیکن یہ حالات کبھی بھی اصل جنگ کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔
اینتھونی کوڈسمن امریکہ اور نیٹو کے عرب معاملوں کے مشیر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنگ ایک چھوٹی سی چنگاری کے طور پر شروع ہو سکتی ہے اور جو آگے چل کر بڑی آگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ اینتھونی کا خیال ہے کہ وہ جنگ لمبے عرصے تک چل سکتی ہے۔
سعودی عرب کے پاس ایف 15،160ایف 16اور بلیک ٹورنیڈو ہیں
حالانکہ اینتھونی کو لگتا ہے کہ زمینی محاذ پر دونوں ملکوں کی فوجیں شاید ہی آمنے سامنے آئیں لیکن فضائی جنگ خوفناک ہو سکتی ہے۔ اینتھونی کے مطابق فضائی طاقت میں سعودی عرب فی الحال ایران پر بھاری دکھائی دے رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایران کے پاس ستر اور اسی کی دہائی کے جنگجو طیارے ہیں۔ ایران نے ان کو بڑی اچھی طرح رکھا ہے۔ ایران نے کچھ جنگجو طیارے اسی کی دہائی میں روس سے بھی خریدے تھے۔ یہی طیارے ایران کی فضائی طاقت کی بڑی وجہ ہیں۔
سعودی عرب کی فضائیہ کے پاس امریکی جنگجو طیارے ایف 15، ایف 16 اور بلیک ٹورنیڈو ہیں۔ یعنی فضائی محاذ پر سعودی عرب زیادہ طاقتور دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ ایران کے پاس سعودی عرب سے زیادہ بہتر میزائل اور ڈرون ہیں۔ یہ سعودی عرب کے اہم شہری ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
بڑی معاشی تباہی
اینتھونی کہتے ہیں کہ جنگ شروع ہوئی تو ایران، سعودی عرب کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دے گا۔ ایران کے میزائل سعودی عرب کے پانی صاف کرنے کے پلانٹ اور بجلی گھروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اس سے سعودی عرب بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب کے شہروں میں بجلی اور پانی کی سپلائی ٹھپ ہو جائے گی۔
اس کے بدلے میں سعودی عرب اپنے جنگجو طیاروں سے ایران میں بجلی سپلائی کرنے والے ٹھکانوں اور پانی صاف کرنے والے پلانٹوں پر حملہ کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب ایران کے تیل کے ٹھکانوں اور ریفائنریز پر حملے کر سکتا ہے۔
اینتھونی کا خیال ہے کہ ایران اور سعودی عرب کی جنگ بڑی معاشی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ وہ اس کا موازنہ شترنج کی بساط سے کرتے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ اقوام متحدہ، مصر، اومان، اردن، امریکہ، برطانیہ اور فرانس کھڑے ہیں۔ دوسری جانب ایران کے خیمے میں شام، روس اور عراق جیسے ممالک ہیں۔
جنگ ہوئی تو تیل کی سپلائی ٹھپ
اینتھونی کا خیال ہے کہ جنگ کی صورت میں اسرائیل بھی ایران کے خلاف اتحاد میں شامل ہو سکتا ہے۔ صاف ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنگ کی صورت میں امریکہ اور روس جیسے ممالک کا کردار زیادہ بڑا ہو گا۔ امریکہ اس وقت سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے۔
میری کولنز امریکہ کی جان ہوپکنز یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے کئی برس تک امریکی وزارت دفاع کے ساتھ کام کیا ہے۔
میری کا خیال ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنگ میں امریکہ یقینی طور پر دخل دے گا۔ دنیا کے تیل کے کاروبار کا ایک بڑا حصہ خلیج فارس میں آبنائے ہرمز سے ہوکر گزرتا ہے۔ اگر جنگ ہوئی تو تیل کی سپلائی رک جائے گی۔ اس کا اثر پوری دنیا پر پڑے گا۔
امریکہ کی شمولیت
امریکہ بالکل نہیں چاہے گا کہ دنیا کی تیل کی سپلائی پر اثر پڑے۔ اس لیے ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنگ کی صورت میں امریکہ کا شامل ہونا طے ہے۔
میری کولنز کا خیال ہے کہ ایران آبنائے ہرمز میں بارودی سرنگ بچھا سکتا ہے۔ اس سے اس علاقے سے گزرنے والے بحری طیاروں کے تباہ ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ ایسی تباہی کو روکنے کے لیے امریکہ جنگ چھڑنے کے ایک گھنٹے کے اندر جنگ میں شامل ہو جائے گا۔
کولنز کہتی ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں امریکہ کے 35 ہزار سے زیادہ فوجی تعینات ہیں۔ امریکی فضائی فوج کے ایف 22 جیسے جدید ترین جنگجو طیارے بھی یہاں تعینات ہیں۔ ایک بیڑا ہمیشہ خلیج فارس میں موجود رہتا ہے۔
ایک ہی دن میں تباہی
کولنز کے مطابق ایران اور سعودی عرب کی جنگ شروع ہونے کی صورت میں امریکی فوجیں فوراً متحرک ہو جائیں گی۔ اور یہ ایران کی بحری فوج کو برباد کر سکتی ہیں۔ وہ نوے کی دہائی کی ایک مثال دیتی ہیں۔ تب امریکہ کا ایک بحری جہاز بارودی سرنگ کی وجہ سے تباہ ہو گیا تھا۔
اس کے جواب میں امریکہ نے ایک ہی دن میں ایران کی بحری طاقت کو بڑا نقضان پہنچایا تھا۔ امریکی دخل کی وجہ سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنگ کچھ دنوں میں ہی ختم ہو جائے گی۔ لیکن کیا جنگ کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان جھگڑا ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکے گا؟ خطے میں امن بحال ہو سکے گا؟
ایرانی نژاد علی وائز امریکہ میں رہتے ہیں۔ وہ انٹرنیٹ کرائسس گروپ کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس تنظیم کا کام جنگ کو روکنا ہے۔ علی وائز کا بچپن اسی کی دہائی میں ہونے والی ایران - عراق جنگ کے دوران ایران میں گزرا تھا۔
زخم دہائیوں تک محسوس کیے جایئں گے
امریکہ کے حملے سے ایران کی فوجیں تو تباہ ہو جایئں گی مگر ایران سعودی عرب کے سنی ساتھی ممالک کی مخالفت کرنے والوں کا پہلے سے بھی زیادہ ساتھ دے گا۔ جیسے کہ عراق میں شیعہ اور سنی مسلح گروہوں کے درمیان جھگڑے بڑھ جائیں گے۔ لبنان میں حزب اللہ اور سعودی حمایت یافتہ گروہوں کے درمیان تصادم بڑھ جائے گا۔
یہ ہی حالات شام اور اردن میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ علی وائز بتاتے ہیں کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان نا تو تجارتی رشتہ ہے نا ہی سماجی اور تہذیبی تعلق۔ ایسے میں جنگ کے زخم آنے والی کئی دہائیوں تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ کل ملا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان جنگ ہوئی تو یہ فضائی جنگ ہوگی۔
دونوں ممالک کے درمیان بحری ٹکراؤ بھی ہوگا۔ امریکہ، سعودی عرب کی طرف سے دخل اندازی کر کے ایران کو کچھ ہی دنوں میں ہرا دے گا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایران سعودی عرب کے لیے چھوٹی چھوٹی جنگوں کے کئی محاذ کھول دے گا۔ جنگ کے زخم بھریں گے نہیں۔ بلکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا اثر دیگر ممالک برداشت کرتے رہیں گے۔ اس جنگ سے پوری دنیا متاثر ہوگی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اگر سعودی عرب و ایران میں جنگ ہوئی تو کیا ہوگا 
 رپورٹ و تجزیہ : روتھ ایلگزینڈر۔۔ بی بی سی

اتوار، 10 دسمبر، 2017

بلوچستان کا عظیم یادگار '' کولپور'' ـــ شعیب امان سمالانی



یوں تو بلوچستان پہاڑوں پر بسا ہے اور پہاڑوں کی سرزمین ہے لیکن کولپور بازار کا حسن کچھ الگ ہے جو پہاڑ پر بسا بازار ہے ۔کولپور ایک گزرگاہ
 بھی ہے لیکن غیروں کیلئے اپنے تو اس کی پہاڑی سے یوں منسلک ہیں جیسا کہ یہ بھی اس پہاڑ کا حصہ ہوں ۔ مختصر لیکن بل کھاتا راستہ اور پہاڑ ی پر قائم قدیم بازاراور اس کے قدیم مکین  قدیم مندر جو پہاڑی پر قائم ہے ۔کولپوردو انتہاءکے مذاہب کے پیروکاروں کا قدیم بسیرا ۔بالکل مذہبی ایلمی کی بہترین مثال۔ برف پڑتی ہے یہاں۔سردیوں میں قلعہ بند اور گرمیوں میں بلوچستان کے بہار کا دروازہ ۔ایک مشہور ریلوے اسٹیشن ۔جہاں سے ریل کلمہ پڑھ کر ول ولے بولان میں اترنے لگتی ہے۔ ریلوے اسٹیشن کے سامنے کا پہاڑ نسبتا اونچا پہاڑ ہے اور ریلوے اسٹیشن کی خوبصورتی اپنی جگہ اسٹیشن کے پاس مغرب میں ایک خوبصورت ٹنل ۔ٹنل سے مغرب کی جانب نکلتے ہی دشت کے میدان اور کوئٹہ سے آتے ہوئے ٹنل سے پاس ہوکرکولپور کی وادی اورپھر اونچے پہاڑوں کا طویل سلسلہ ۔ یہ بولان کا نقطہ آغاز ہے اور یہ سرکاری حدبندی نہیں بلکہ یہ ہمارے آباﺅ اجداد کی حدبندی ہے جس نے جابجا پہاڑوں کو حدمقررکیا ۔پہاڑوں کو دیوتا مانا ان کے خوبصورت نام رکھے۔خود کولپور اور دزان سے بھی پرے شوگ نامی پہاڑ سراٹھائے چاروں طرف نظریں جمائے ہوئے ہے ۔کیسا نیلا پہاڑ ہے ۔اپریل تک اس کے سرے پر برف جمی رہتی ہے ۔عین سر پرسفید دستار کی مانند ۔
جب اوشوکوہ ہمالیہ کی بات کرتا ہے اور اس کے مراقبے سے لبریز ہونے کی بات کرتا ہے تو وہ اس وقت دل کو چھولیتے ہیں ۔بولان کے شوگ پر سبزہ نہیں نہ اس پر کسی بزرگ کا مزار ہے نہ کوئی یادگارنہ چڑھنے کیلئے یاتروں کا رش لیکن کاش اس کی چوٹی سرکرکے اپنے تاثرات بیان کرنے والا کوئی ہو ۔شوگ سے بولان کی ندیاں اور ان میں بہتے چشمے  طویل اور خشک پہاڑی سلسلے اور ان میں جگہ جگہ جنگل ضرور نظرآئیں گے ۔
کولپور کے مغر ب میں شیر چائی مٹی سے زرخیز دشت گندان(گنڈین) جلب گندان جنوب میں تاریخی علاقہ مرو جس کا ذکر تاریخ کے ان قدیم آبادیوں میں آتا ہے جن کا دمب ابھی بھی مرو میں موجود ہے ۔
کولپور کی چڑھائی اور اس چڑھائی میں آباد قدیم بازار اور اس کے نیچے آبادی پھر آبادی کے سامنے ریلوے اسٹیشن اور ریلوے کے کوارٹرز اور ریلوے اسٹیشن کے سامنے اونچا پہاڑ جو صبح نور کی کرنیں کولپور پر تادیر تک بکھیرنے نہیں دیتا ۔تب کولپور کی آبادی سردیوں کی صبح شدید سردی کے نرغے میں ہوتی ہے جبکہ گرمیوں میں اس کےخوشگوار میٹھے گہرے سائے سے لطف اندوز ہوتی ہے ۔ بازار ہندو کا ہے خریدار مسلمان ہیں کھاتہ دار ی چلتی ہے۔یہ بلوچستان کا بہت بڑا حسن ہے ۔بلوچستان کا حسن باقی ہے کہ کولپور میں ہندو باقی ہیں ۔ہندو میرے دادا کی تعزیت پر آئے تھے ۔ہندﺅں سے مرک وزند کی سیال سیال گری قائم ہے ۔
کولپور بازار میں دکانیں کیسے بنائی گئی ہیں یہ بھی ایک شاہکار ہے ۔اس بازار کو اپنی مدد آپ کے تحت بل کھاتے پہاڑی راستے پر کیسے مزین کیاگیا ہے یہ ایک آرٹ ہے ایک تہذیب کی ۔دکانیں پکی اورکچی ہیں لیکن اس قدر مضبوط کہ اب تک قائم ہیں ۔بڑی سائز کی دکانیں بنائی گئی ہیں ۔ بعض دکانوں میںپہاڑ کے چھوٹے ٹیلے بھی اندر ہیں۔ بازار کے درمیان سے ایک راستہ نیچے آبادی کے لئے نکلتا ہے اور آبادی کی طرف کی دکانیں دومنزلہ ہیں ۔ بازار سے نیچے اترکردکانوں کو دیکھاجائے کس مہارت سے جوڑی گئی ہیں اور دومنزلہ بنائی گئی ہیں۔ پھر مندر کے لئے سیڑھیاں بازار کے درمیان سے اوپر کوجاتی ہیں ۔کولپور کا گوبندام سمادھا آشرم مندر اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ اس کا سالانہ میلہ لگتا ہے ،کولپور اپنے ہند سندھ سے آئے نسل درنسل یاتریوں کی آمد پر اور نازاں نظرآتا ہے ۔رنگ برنگے لوگ آتے ہیں ۔کولپور کو کوئی اس میلے کے دن آکر دیکھ لے کولپوربلوچستان اورہند سندھ کا حسین امتزاج لگے گا145اور دیکھنے والے کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ضرور بکھرے گی اور یہ یاتری کولپور سے باسن دیر (کوہ باش )تک موج میلے کرتے نظرآتے ہیں ۔باسن دیر کے میٹھے پانی پر بھی یہ بجھن گاتے ہیں ۔عجب سر بکھر جاتا ہے ۔بولان ان سروں سے ناآشنا نہیں ۔ بولان کی فضاﺅں میں ان سروں کی صدیوں سے گونج ہے ۔
بولان سے آنے والا تھکاماندہ شوہان اپنے بزگل (ریوڑ ) کو کولپور کے بائی پاس سے بھیج کر خود راشن لینے کولپور ضرور آتا ہے ۔یہاں چینکی ہوٹل پر چائے ضرور پیتا ہے ۔سیٹھ سے گڑ اوردیگر اشیاءخوردنوش ضرور لیتا ہے کہ اسے چلتن کے پار تک کیلئے راشن چاہئے ۔یہ شوہان کولپور کھنڈ سے پار ہوکر دشت کے میدانوں میں پھر سے اپنے سنگتوں سے جاملتا ہے ۔
کولپور بازار کی 1906کی ایک تصویر ہے ۔بازار میں اونٹ ہی اونٹ نظرآتے ہیں یعنی اس وقت سٹرک اس قدر استعمال نہیں ہوتی تھی ۔اونٹ یونہی باندھےہوئے ہوتے تھے ۔لوگ راشن خرید کر ان اونٹوں پرلادتے تھے پھرانہیں دشت جلب گندان گنڈین مرو اسپلنجی اور مشرق کی جانب محمد گزئی اور دزان تک جانا ہوتا تھا ۔کیا دور رہاہوگا ۔ کولپور کے اس وقت کے مکین کس شان سے چلتے ہونگے ۔بازار میں چائے پیتے ہونگے ،حال احوال کے دور پر دور چلتے ہونگے ۔کتنی سادگیاں ہونگی ،لوگ نوکریوں کے اشتہارات کی بجائے تیزبارش سے بھیگ کر اچھی فصل کی امید پر خوش ہوتے ہونگے اور پھر سے چائے کا دور چلتا ہوگا ۔ بلاسود وام وامداری (قرض قرضداری ) چلتی ہو گی ۔
کولپور میں ڈاکخانہ بھی بہت پرانا ہے اس کی عمارت شاہد وہاں موجودتمام عمارتوں سے بلند ہے ۔اس کی نئی عمارت باز ار سے مشرق کی جانب کچھ فاصلے پر سڑک کے بالکل پاس کھڑی ہے ۔یہ ڈاکخانہ بھی عمر میں بہت بڑا ہے اور کولپور کی تاریخ کا شاہد ہے اور یہ وہ مرکز رہا ہے جہاں چاروں طرف سے بند اس چھوٹے سے شہر اور اس کے لوگوں کیلئے امیدوں کا مرکز رہا ہے ۔چھٹیاں بانٹھی جاتی رہی ہیں یہاں سے۔ بلکہ ڈاک بابو خود ہی چھٹی پڑھ کر سنایاکرتا رہا ہے ۔لیویز تھانے کیلئے احکامات ہوں یا ریلوے ملازمین کیلئے کوئی سندیسہ یہ ڈاکخانہ ہمیشہ فعال رہا ہے ۔بعد کے وقتوں میں ریلوے اسٹیشن اور اس کے ملازمین کی اچھی خاصی تعداد اور پھر لیویز اہلکاروں کی موجودگی کی وجہ سے علاقے میں تنخواہ دار بھی موجود تھے اور اب بھی ہےں ۔سکول بھی پرانا ہے جو اب ہائی سکول ہے گرلز سکول بھی موجود ہے ۔
کولپور بولان کاتاریخی اور پرانا حصہ ہے ،یہاں کے مکینوں نے انگریز کو کولپور کا پہاڑ ہندوستانی محنت کشوں سے کٹواتے دیکھا جنہوں نے 1893میں اسے کاٹ کر ٹنل بنایا ۔پھر یہاں ریلوے اسٹیشن بنایا ۔اب تو ریلوے اور اس کی سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان انگریز کا خوبصورت طرز تعمیر بولان کی خوبصورتی کا حصہ بن چکا ہے ۔ کولپور اسٹیشن نے کولپور کی آبادی اور اس کے بازار کو وسعت دی اور یہاں کا بازار مزید بارونق بن گیا۔اور جب اس کے بازار سے ٹریفک کا گزر شروع ہوا تو اس کے کھنڈ پر گواڑخ کے گلدستے ہاتھ میں سجائے بہار کی آمد کا اذان دینے والے کھڑے نظرآنے لگے اور یہ کولپور کی خوبصورتی کا ایک اور جواز بن گیااب بہار کی آمد پر یہاں دشت کے گواڑخ گلدستے کی صورت میں ملتے ہیںاور قلعہ بند سردی میں نوجوان گرم انڈے بیچتے نظرآتے ہیں یہ اب روایت بن چکی ہے ۔ یہی کھنڈ کولپور کی آبادی اور اس کی قبرستان کو تقسیم کئے ہوئے ہے ۔
آج جب کولپور سے گزرتا ہوں تو پتہ نہیں کیوں نئی بائی پاس سڑک سے جانے کو دل نہیں کرتابس یونہی کولپور کی بال کھاتی سڑک اور ا س میں کچھ کھلی اور کچھ بند دکانوں سے گزرتے ہوئے آگے جاکر ایک نظرنیچے آبادی پر ڈالنے کو دل چاہتا ہے ۔یہ ہماری تہذیب کی ایک کہانی لئے ہوئے ہے ۔پہلے لگا کہ بائی پاس بن گیا تو کولپوربازار کے رونق کا کیا ہوگا ؟لیکن اب شکر بجالانے کا مقام ہے کہ اگر بائی پاس سڑک نہ بنتی تو کسی دن بڑے بڑے کنٹینروں کوراستہ دینے کیلئے تہذیب کے اس انمٹ گوشے پر بلڈوزر چل جانے تھے جیسے کہ مہر گڑھ پر چل گئے۔آج کے مفادات کے سامنے کولپور اور مہر گڑھ کے یادگاروں کی کیا حیثیت۔
صدیوں پہلے اس بازار میں بیٹھے لوگوں کی یادیں ان کی سود وضیاع سے پاک ہنسی اور کھلھلاہٹ اب بھی اس بازار کے درودیوار میں محفوظ ہے ۔قدیم بازار اوراس کے پرانے مکانات کے درو دیوار پر اگر دیکھنے والی آنکھ سے دیکھاجائے تو سب صاف نظرآئے گا اور سننے والے کان سے سنا جائے تو اس ہنسی اور کھلھلاہٹ ٹاکو  کی گونج اب بھی سنائی دے گی۔لوگوں نے یہاں بیٹھ کرعلاقے کے موسم پر بات کی ہوگی ۔کس سمت سے آنے والے بادل برسیں گے اور کون سے بادلوں کو تیز ہوا اڑا کرلے جائے گی۔فصل کیسے ہوگی مالداری کا کیاہوگا؟ کولپور کے بازار میں ان معاملات پر ماہرانہ رائے کا اظہار ہوتا ہوگا اور چائے پر چائے کا دور چلتا ہوگا ۔کوئی شوہان اگر بولان سے آتا دکھائی دیتاہوگاتو اسے ضرور حال احوال کرکے کچھی کے موسم اور آبادی(فصلوں کی پیداوار) کے بارے میں پوچھاجاتا ہوگا ۔
کولپور بلوچستان کے عظیم یادگاروں میں سے ایک یادگار ہے

جمعہ، 8 دسمبر، 2017

انتفادہ کیا ہے؟


حماس کے مطابق امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے سے تیسری انتفادہ شروع ہو سکتی ہے۔ لیکن
انتفادہ کیا ہے اور پہلی دو کے فلسطین اسرائیل تنازعے پر کیا اثرات مرتب ہوئے تھے؟
عمومی طور پر انتفادہ کا ترجمہ بغاوت سے کیا جاتا ہے لیکن عربی زبان میں اس کے معنی ہلا دینے یا چھٹکارہ حاصل کرنے کے زیادہ قریب ہیں۔ اگر انتفادہ کا لفظ اسرائیل اور فلسطین کے تناظر میں استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب فلسطینیوں کی اسرائیلی فوج کے خلاف نچلی سطح تک منظم اور سیاسی حمایت یافتہ بغاوت سمجھا جاتا ہے۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین پہلے ہی اس طرح کی دو لڑائیاں ہو چکی ہیں۔ پہلی انتفادہ کا آغاز 1987ء میں ہوا تھا اور یہ 1993ء میں اختتام پذیر ہوئی۔ دوسری انتفادہ اس سے بھی خونریز تھی، جو سن 2000ء میں ہو شروع ہوئی اور چار برس تک جاری رہی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے بعد اب فلسطینی گروپ حماس نے تیسری انتفادہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اسرائیل یروشلم کو اپنا دارالحکومت قرار دیتا ہے جبکہ فلسطینی حکام مشرقی یروشلم کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔ مشرقی یروشلم پر اس وقت اسرائیل قابض ہے۔ امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کا واضح مطلب اسرائیل کی حمایت کرنا سمجھا جا رہا ہے۔
پہلی انتفادہ کیا تھی؟
پہلی انتفادہ کا آغاز آٹھ دسمبر 1987ء کو اس وقت ہوا تھا، جب ایک اسرائیلی فوجی کے ٹرک کی ٹکر اس کار سے ہوئی تھی جو فلسطینی مزدوروں کو لے کر جا رہی تھی۔ اس تصادم کے نتیجے میں چار فلسطینی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد اسرائیل کا کہنا تھا کہ ٹرک ڈرائیور کے کنٹرول سے باہر ہو گیا تھا لیکن زیادہ تر عرب مبصرین کے مطابق عام فلسطینیوں کی گاڑی کو جان بوجھ کر ٹکر ماری گئی تھی۔ اس طرح اس اسرائیلی کا بدلہ لیا گیا تھا، جو چند روز پہلے چاقو کے ایک حملے میں ہلاک ہو گیا تھا۔
ان فلسطینیوں کی ہلاکت کے بعد پرتشدد کارروائیوں کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ اسرائیلی فوجیوں کے خلاف پرتشدد احتجاج کیا گیا اور فوجیوں نے مظاہرین پر براہ راست گولیاں فائر کیں۔ رفتہ رفتہ احتجاجی مظاہروں میں شدت آتی گئی۔ ابتدائی مظاہرے اچانک اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے تھے لیکن بعدازاں یاسر عرفات کی قیادت میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) نے انہیں منظم طریقے سے شروع کیا۔
اسی وقت زیادہ تر فلسطینیوں نے اسرائیل میں ملازمت پر جانے سے انکار کر دیا۔ تحریک سول نافرمانی کے تحت ٹیکس کی ادائیگی اور اسرائیلی مصنوعات کا بھی بائیکاٹ کر دیا گیا۔ پہلی انتفادہ کے دوران ہی حماس نے جنم لیا۔ اس کی بنیاد شیخ احمد یاسین نے رکھی اور پی ایل اور کے سخت عقیدے کے مذہبی اراکین کے ساتھ ساتھ اسے اخوان المسلمون کی حمایت بھی حاصل رہی۔
اسرائیلی فورسز نے مقبوضہ علاقوں میں انتفادہ کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں۔ کرفیو نافذ کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں۔ فلسطینیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس سے یہ پرتشدد کارروائیوں کو مزید ہوا ملی۔
کئی سالہ تشدد کے بعد اسرائیل اور پی ایل او کے مابین 1993ء میں اوسلو معاہدہ ہوا اور اس طرح پہلی انتفادہ اپنے اختتام کو پہنچی۔ اس دوران ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں متضاد اعداد و شمار پائے جاتے ہیں۔ ایک اسرائیلی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق اس دوران 1203 فلسطینی ہلاک ہوئے جبکہ 179 اسرائیلی مارے گئے۔ اس دوران اسرائیل کے سخت کریک ڈاؤن کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر اس کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔
دوسری انتفادہ کیا تھی؟
اٹھائیس ستمبر سن 2000 کو اسرائیلی سیاستدان ایریل شیرون نے مشرقی یروشلم کے مقبوضہ علاقے کا دورہ کیا، جس سے دوسری انتفادہ کا آغاز ہوا۔ اس دورے کو یروشلم پر اسرائیلی ملکیت کے دعوے کے طور پر دیکھا گیا۔ احتجاجی مظاہرین نے پولیس اہلکاروں، ایریل شیرون اور ان کے ہمراہ دیگر سیاستدانوں پر حملہ کر دیا۔ یہ جھڑپیں تیزی سے پھیل گئیں اور ان دو دن کے دوران عوام کے سامنے ایک بارہ سالہ فلسطینی لڑکے کو ہلاک کر دیا گیا۔ حماس نے چھ اکتوبر کو یوم غضبقرار دیتے ہوئے اسرائیلی فوجیوں کی بیرونی پوسٹوں پر حملے کرنے کا کہا۔ یہ تنازعہ یوں پھیلتا چلا گیا اور کئی سال جاری رہا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق دوسری انتفادہ پہلی انتفادہ کی نسبت زیادہ خونریز تھی۔ اس میں تقریبا 1330 اسرائیلی ہلاک ہوئے جبکہ مارے جانے والے فلسطینیوں کی تعداد 3300 سے زائد تھی۔ دوسری انتفادہ کے اختتام کی کوئی حتمی تاریخ موجود نہیں ہے۔ زیادہ تر مبصرین کے مطابق سن 2004 میں یاسر عرفات کی وفات کے ساتھ یہ ختم ہو گئی تھی۔ یاسر عرفات کی وفات کے بعد ہلکی نوعیت کی جھڑپیں کچھ عرصہ تک جاری رہیں۔
DW

منگل، 5 دسمبر، 2017

38 سال قبل کا واقعہ ، جس نے مسلم دنیا کو بدل کر رکھ دیا



سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے حال ہی میں امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ 'ہم ملک میں اسلام کو 
اس کی اصل شکل میں واپس لے جانا چاہتے ہیں اور سعودی معاشرے کو ویسا بنانا چاہتے ہیں جیسا وہ 1979 سے پہلے تھا۔'
اس حوالے سے کئی لوگوں کے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ 1979 میں ایسا کیا ہوا تھا جس نے سعودی معاشرے کی شکل تبدیل کر دی تھی؟
1979 کو ویسے تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے لیکن سعودی عرب میں یہ سال مکہ میں خانہ کعبہ پر کیے جانے والے حملے اور دو ہفتوں پر محیط محاصرے کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے جس میں ہزاروں افراد ہلاک اور تقریباً ایک لاکھ لوگ مسجد الحرام میں محصور ہو گئے تھے۔
38 برس قبل چار دسمبر کو سعودی حکومت نے فرانسیسی کمانڈوز، پاکستانی فوج اور سعودی فوج کی مدد سے لڑائی کا خاتمہ کیا جس کا آغاز 20 نومبر کو ہوا تھا جب 400 سے 500 شدت پسندوں نے یکم محرم 1400 ہجری کو نئے اسلامی سال کے آغاز پر خانہ کعبہ پر حملہ کر کے ایک لاکھ عبادت گزاروں کو مسجد میں محصور کر کے خود انتظام سنبھال لیا تھا۔
حملہ آوروں کی قیادت کرنے والے جہيمان بن محمد بن سيف العتيبی کا تعلق نجد کے ایک بدو قبیلے سے تھا، اور وہ سعودی عرب کے معروف عالم دین عبد العزیز بن باز کی تعلیمات سے نہایت متاثر تھا۔
عبد العزیز بن باز 1940 اور 1950 کی دہائی میں سعودی عرب کو جدت پسندی کی راہ پر گامزن کرنے کی شاہی کوششوں کے خلاف تھے اور اس کے بارے میں تقاریر اور تنقید کرتے تھے، لیکن بعد میں سعودی حکومت نے بن باز کو مرکزی مفتی کے عہدے پر فائز کر دیا تاہم ان کی تنقید ختم نہ ہوئی۔
جہيمان بن محمد بن سيف العتيبی بھی انھی تقاریر سے متاثر ہوئے جس کے بعد انھوں نے عبد العزیز بن باز کی قائم کی ہوئی سلفی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی جس کا مقصد سعودی عرب میں 'اسلام کی اصل شکل برقرار رکھنا تھا' اور سعودی عرب میں بڑھتی ہوئی مغربیت، مخلوط ماحول کا قیام اور ٹیلی ویژن کے منفی اثر کو ختم کرنا تھا۔
العتیبی کی شدت پسندی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی جس کے بعد 1978 میں سعودی حکومت نے انھیں ان کے کچھ ساتھیوں کے ساتھ حراست میں لے لیا۔
رہائی ملنے کے باوجود العتیبی کے خیالات میں تبدیلی نہیں آئی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر انھوں نے نئی اسلامی صدی کے آغاز پر خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا اور 20 نومبر 1979 کو فجر کی نماز کے موقعے پر اپنے تقریباً 500 ساتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ میں داخل ہو کر دروازے بند کر دیے اور ایک لاکھ نمازیوں کو یرغمال بنا کر مسجد کو اپنے زیر انتظام لے لیا۔
انھوں نے اپنے بہنوئی محمد بن عبد اللہ القحتانی کو امام مہدی قرار دیا۔ یہ صدیوں میں پہلا موقع تھا جب خانہ کعبہ عام مسلمانوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔
سعودی حکومت نے اس واقعے سے نمٹنے کے لیے اپنی فوج بھیجی لیکن خانہ کعبہ کے تقدس اور کم تربیت کی وجہ سے سعودی فوجی بغاوت کرنے والوں کے خلاف متاثر کن کارروائی کرنے میں ناکام رہی۔
سعودی حکومت نے خفت سے بچنے کے لیے مواصلاتی نظام بند کر دیا تاکہ اس واقعے کے بارے میں خبر محدود رہے لیکن وہ اس میں مکمل طور پر کامیاب نہ ہوئے۔
پاکستان میں اس خبر کے آنے کے بعد اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے پر حملہ کر دیا گیا کیونکہ ایران کی جانب سے اسے امریکی اور اسرائیلی سازش قرار دیا گیا تھا۔
مسلسل ناکامی کے بعد سعودی حکومت نے فرانس کی حکومت اور پاکستانی فوج سے مدد طلب کی۔
صحافی یاروسلاف ٹرافی موو نے اس واقعے پر مبنی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ فرانسیسی کمانڈوز نے سعودی فوج کو ہنگامی تربیت دی تاکہ وہ شدت پسندوں کا خاتمہ کر سکیں لیکن کیونکہ مکہ میں غیر مسلم افراد کا داخلہ ممنوع ہے تو سعودی اہلکار پاکستانی فوجیوں کی مدد سے چار دسمبر کو یہ بغاوت بالآخر ختم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
اس واقعے میں مسجد کی عمارت کو کافی شدید نقصان ہوا لیکن خانہ کعبہ محفوظ رہا۔
غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس واقعے میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں شدت پسند، نمازی اور فوجی شامل تھے۔
جوہامن العتیبی سمیت 60 سے زیادہ شدت پسندوں کو حراست میں لے لیا گیا جنھیں جنوری 1980 میں سزائے موت سنا دی گئی۔ جوہامن العتیبی کے بہنوئی القہتانی جنھیں امام مہدی قرار دیا گیا تھا، دوران آپریشن ہلاک ہو گئے تھے۔
اس واقعے کے بعد سعودی حکومت نے ملک کے علماؤں سے مشاورت کے بعد شریعہ قوانین کے اطلاق کا وعدہ کیا جس کے بعد سے ملک سے مخلوط نظام پر مکمل پابندی لگا دی گئی اور ملک میں سابق بادشاہ شاہ فیصل اور اس وقت کے بادشاہ شاہ خالد کی اعتدال پسند پالیسیوں کو ختم کر دیا گیا۔
کچھ کے مطابق اس سال کا اہم ترین واقعہ ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں آنے والا انقلاب تھا جس نے ایرانی بادشاہت کو ختم کردیا اور کچھ کے مطابق روس کا افغانستان پر کیے جانے والا حملہ اس سال کو اتنا اہم بناتا ہے۔
کئی مبصرین کے مطابق جہاں اس واقعے کے بعد سے سعودی عرب میں وہابی اسلام کا بول بالا ہوا، دوسری طرف دسمبر 1979 روس کی جانب سے افغانستان پر حملے نے خطے کی سیاست پر دور رس اثرات قائم کیے۔
#BBC

جمعرات، 23 نومبر، 2017

نیشنلزم



تحریر : حمید بلوچ

نیشنل ازم کیا ہے؟ قوموں کی تشکیل میں نیشنل ازم کا کیا کردار ہے ؟ قوموں کو متحد کرنے اور ان کی ترقی میں نیشنل ازم نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ان سوالوں کا جواب معلوم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قوم اور قومیت کیا ہے جب ہم صیح ان کے مفہوم سے آگاہ ہوجائیں تو نیشنل ازم کا نظریہ ہماری سمجھ میں آسانی سے آ جائے گا۔ قوم کی تعریف مختلف مفکرین نے کی ہیں جن میں چند درج ذیل ہے۔ 
لارڈ برائٹس کے بقول؛ قوم ایک ایسی قومیت ہے جس نے اپنے آپکو سیاسی طور پر منظم کرلیا ہو خواہ وہ آزاد ہو یا آزادی حاصل کرنے کی خواہش رکھتی ہو۔ ہیز کے خیال میں قومیت جب اتحاد اور حاکمانہ خود مختاری حاصل کرلیتی ہے تو قوم بن جاتی ہے۔ماہر عمرانیات کے مطابق قوم سے مراد وہ علاقہ یا خطہ جس کے رہنے والوں میں تاریخی تسلسل پایا جاتا ہو لیکن شرط یہ ہے کہ تاریخی تسلسل کئی صدیوں تک برقرار رہا ہو۔ ان تمام تعریفوں کی روشنی میں ہم قوم کی تعریف اس طرح کرسکتے ہیں کہ قوم لوگوں کے ایسے اجتماع کو کہتے ہیں جو کسی خاص خطہ زمین پر آباد ہو جنکی زبان ثقافت تاریخ رسم ورواج مشترکہ ہو لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ زبان ایک ہی ہو۔ ایک قوم میں مختلف زبان بولنے والے افراد موجود ہوتے ہیں۔جب لفظ قوم کا استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد لوگ اور شہری ہوتے ہیں اور تاریخی طور پر ان کا تعلق ریاست سے ہوتا ہے اور ان کی پہچان قومیت ہوتی ہے۔ 1300 ویں صدی میں جب قوم کا اصطلاح استعمال کیا گیا تو اس دور میں قوموں کی پہچان بادشاہوں اور امراہوں کے ذریعے ہوتی تھی لیکن جب انقلاب فرانس کے بعد قومی ریاستیں وجود میں آہیں تو قوموں کی پہچان قومیت بن گئی۔ قوم کے وجود نے ہی قومیت کو جنم دیا اور قومیت نے قوم پرستی کو جنم دیا۔ قوم پرستی کو بیان کرنے کے لیے قومیت کی تعریف ضروری ہے قومیت کو مختلف مفکرین نے اپنے نقطہ نظر میں بیان کیا ہے جن میں چند مندرجہ ذیل ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف قومیت کی تعریف ان الفاظوں میں کرتا ہے۔ وہ قانونی بندھن جسکی بنیاد سماجی حقیقت پر مبنی ہو جس سے احساس مفاد اور وجود کا حقیقی واسطہ ہو اور جہاں حقوق و فرائض لازم و ملزوم ہو۔ جے ایچ روز کے مطابق قومیت دلوں کا ایسا اتحاد ہے جو ایک مرتبہ پیدا ہوجائے تو کبھی ختم نہیں ہوتا۔لارڈ برائس کے مطابق قومیت سے مراد ایسی آبادی ہے جو بعض رشتوں مثلاً زبان، ادب، افکار اور رسم و رواج کی بنیاد پر اسطرح متحد ہو کہ اسے وحدت کے طور پر محسوس کیا جاسکے۔جان اسؤرٹ مل قومیت کی تعریف کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ قومیت انسانوں کا ایک ایسا اجتماع ہے جو اپنے اندر مشترکہ ہمدردیوں کے سبب آپس میں متحد ہو اور یہ اتحاد دوسروں کے درمیان نہیں ہوتی اور جسکے سبب دوسروں کی نسبت آپس میں تعاون کرنے میں رضامند ہوتے ہیں اور رضامندانہ طور پر ایک حکومت کے اندر رہنا چاہتے ہیں اور اپنی حاکمیت چاہتے ہو۔ ان تمام تعریفوں کا مختصر یہ ہے کہ قومیت محبت و دوستی کا ایسا جذبہ ہے جو قوم میں اتحاد کا جذبہ پیدا کرتی ہے اور قوم کو احساس دلاتا ہے کہ وہ ایک ہے اور دوسروں سے مختلف اور یکتا ہے۔محبت اور دوستی کے جذبے اور دوسروں سے الگ ہونے کے تصور نے ہی قوم پرستی کو جنم دیا۔قوم پرستی کی بنیاد دراصل عقلی بنیادوں پر نہیں بلکہ جذبات پر ہوتی ہے اس لیئے ہٹلر جیسے رنماؤں نے قوم کے جذبات کو ابھار کر انیہں جنگ پر آمادہ کیا۔ہے۔نیشنل ازم کی تشکیل میں ان عناصر کا اہم کردار ہے جنھوں نے مختلف گروپوں جماعتوں برادریوں اور قبائل کو آپس میں متحد کرکے قوم پرستی کا جذبہ پیدا کیا کچھ مفکر ین جغرافیہ اور آب و ہوا اور کچھ زبان تاریخ ثقافت کو اسکی وجہ قرار دیتے ہیں۔اگر امریکہ کی جنگ آزادی کا مطالعہ کریں تو اس جنگ میں نیشنل ازم کا جذبہ کار فرما تھا جس نے قوم کو متحد کرکے آزادی کی جنگ کا حصہ بنایا۔فرانس کا انقلاب جس نے لوگوں کو شہنشاہت سے آزادی دلائی اور یہ لوگ یورپی حملوں کے خلاف متحد ہوئے۔ انقلاب فرانس میں ہی نیشنل ازم کا لفظ پہلی بار استعمال ہوااور 1830ء کے یورپی انقلاب میں اس لفظ کو دہرایا گیا۔کوہن نے قوم پرستی کے ابھار میں دو نقطہ نظر دیئے اسکے مطابق جہاں عوام کے نمائندے طاقتور تھے وہاں نیشنل ازم سیاسی و معاشی طاقت کے طور پر ابھرا جبکہ کمزور ملکوں میں کلچر کے ذریعے اس کا ابھار ہوا۔نیشنلزم کی اہمیت اسکے عناصر کی وجہ سے ہیں خود مختاری اتحاد اور شناخت یہی تینوں عناصر معاشرے کو ذہنی طور پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ ایک آزاد ملک و معاشرے کے لئے جدوجہد کریں اور وقت آنے پر قربانی دیں۔19ویں صدی میں نیشنل ازم نے قومی ریاستوں کی بنیاد رکھ کر ایک مثبت کردار ادا کیا نیشنل ازم نے یورپ پر اثر ڈالااور اس اثر نے افریقہ و ایشیا کے ممالک کو بھی متاثر کیا۔کولونیل دور میں ایشیا و افریقہ کے ملکوں میںآزادی کی تحریکیں ابھریں انکی بنیاد کلچرل نیشنل ازم تھی ان تحریکوں کا مقصد کولونیل ازم سے آزادی تھی اس لیے انہوں نے مغربی افکار کو چیلنج کیا اور اپنے کلچر کی تبلیغ کی جس نے عوام کے ذہنوں کو فتح کیا۔جدید دنیا نے قومی ریاست کی اہمیت کو بہت زیادہ بڑھایا ہے آج کی دنیا میں اقوام متحدہ کا رکن بننے کے لئے قومی ریاست کا ہونا ضروری ہے قومی ریاست اس صدی کی پیداوار ہے جب دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام ترقی کررہاتھااسلئے ان ریاستوں کو منڈیوں کی تلاش تھی اور اسی تلاش نے سامراج کو پیدا کیا اور دنیا میں قبضے کا عمل شروع ہوا۔ دنیا کے طاقتور قوموں نے کمزور و نہتے ممالک پر قبضہ کرنا شروع کیا مقبوضہ ممالک کے کلچر اور روایات کو توڑ کر اپنی روایات و کلچر کو فروغ دیکر تصادم کا ماحول پیدا کیا اور مظلوموں کی شناخت کو پیچیدہ بنادیا۔مظلوموں نے قومی شناخت کے لئے اپنے عوام کی شعوری تربیت کرکے قومی وجود کا احساس دلایا اور ظالم سے خود کو الگ ظاہر کرکے قوم کو ایک پلیٹ فارم دیا اور جدوجہد کرنے کا پیغام دیا انہی قومی تحریکوں سے نئے ملک آزاد ہوئے لیکن ظالم و طاقتوروں نے انکی سرزمین کو تقسیم کرکے اپنے مفادات حاصل کئے انکی زبان کلچر کو علیحدہ خانوں میں بانٹ دیا گیا ۔مشرق وسطٰی میں اردن و اسرائیل خلیج فارس میں عرب امارات ہندوہستان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا بلوچستان کے علاقے ایران، پاکستان اور افغانستان کو دیئے گئے افریقہ، کوریا اوریتنام کو بھی تقسیم کیا گیا۔لیکن سامراجی پالیسیوں نے آزادی کے بعد بھی ان ریاستوں میں اپنے حمایت یافتہ حکمرانوں کو بٹھاکر قومیت کا استحصال کیا اور نام نہاد قوم پرست حب الوطنی کا نعرہ لگاکر عوام کو ریاستوں سے جوڑ رہے ہیں۔ موجودہ دور میں قومی ریاستیں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پھیلاؤ سے خطرے میں ہے جو انکی طاقت کو ختم کررہی ہے۔ نیشنل ازم کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا کردار تاریخ میں اہم ہے یہ ایک موثر طاقت کے طور پر ابھرا اور اپنی قوت سے عثمانیہ سلطنت اور دیگر امپائر کا خاتمہ کردیا۔ قوم پرستی کی تاریخ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسکے لئے ایک قوت اور جدوجہد کی ضرورت ہے جو قوموں کو غفلت کی نیند سے جگادے مگر آج بھی دنیا قومی ریاستوں کی تشکیل میں تعصب کا شکار ہے انسانی حقوق کے چمپین ادارے اور ممالک سرمایہ داروں کے ہاتھوں یرغمال ہے بجائے کمزور قومی ریاستوں کی مدد کرنے کے بجائے ظالم ملکوں کو مدد کررہے ہیں اور انسانی جانوں کے ضیاع پر خاموش تماشائی کا
کردار ادا کررہے ہیں۔انسانی اداروں کو خضدار توتک میں اجتماعی قبریں، خواتین پر تیزاب پاشی ،بلوچ عوام کی مرضی کے بغیر سی پیک معاہدہ اور بلوچستان میں خونی آپریشن نظر نہیں آتی۔ اگر بلوچوں کو پاکستانی تسلط سے چھٹکارا پاناہے تو اس مقصد کے لئے کسی محرک کی تلاش سوائے جذبہ قومیت کے بالکل غلط ہے انگریز سرکار اور پاکستان نے بلوچوں کی سرزمین کو تقسیم کرکے سرداروں کی طاقت میں اضافہ کرکے بلوچ قوم کو قبائل میں تقسیم کردیاہے اور ان کا خاتمہ قوم پرستی ہی کرسکتا ہے۔ بلوچ کی نجات اسکی قومی آزادی ہے اور قومی آزادی کے لئے بلوچ عوام کا متحرک ہونا ضروری ہے اور اسکا اہم ہتھیار قوم پرستی ہے جس کے ذریعے عوامی جذبے کو ابھار کر انہیں جنگ آزادی کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔انگریز سامراج اور پاکستانی سامراج نے سرداران بلوچستان کو طاقت و مراعات سے نواز کر اتنا مضبوط کردیا ہے کہ انہوں نے قوم کو مختلف قبائل میں تقسیم کرکے ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے۔آج کے پرآشوبی دور میں بلوچ سیاسی پارٹیوں پر بھاری ذمہداری عائد ہوتی ہے کہ وہ بلوچ قوم میں نیشنلزم کے جذبے کو ابھار کر قوم کو متحد کریں اتحاد ہی ہمیں قومی آزادی دلاسکتا ہے۔

بدھ، 22 نومبر، 2017

نوآبادیاتی صورت حال کیا ہے ؟



نوآبادیاتی صورتِ حال، فطری اور منطقی صورتِ حال نہیں ہے۔ یہ ازخود کسی قابل فہم فطری قانون کے تحت رونما نہیں ہوتی۔ہر چند اس کی رونمائی تاریخ کے ایک خاص لمحے میں ہوتی ہے، مگر تاریخ کا یہ لمحہ کسی الہامی حکم یا فطری طاقتوں کے اپنے قوانین کی ’’پیداوار‘‘ نہیں ہوتا۔ اسے ’’پیدا‘‘ کیا جاتا اور تشکیل دیا جاتا ہے۔ چوں کہ ’’پیدا‘‘ کیا جاتا ہے، اس لیے مخصوص مقاصد کے حصول کو سامنے رکھا جاتا ہے، لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ یہ انسانوں کے مخصوص گروہ کے ہاتھوں مخصوص مقاصد کی خاطر برپا ہونے والی صورتِ حال ہے۔ اس گروہ کو نوآبادکار نام دیا گیا ہے۔ نوآبادکار بعض تاریخی قوتوں کو اپنے اختیار میں لا کر ایک نئی ’’تاریخی صورتِ حال‘‘ کی تشکیل کرنے میں کام یاب ہوتا ہے، جو اس کے سیاسی اور معاشی مفادات کی کفیل ہوتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم تک نوآبادکار یورپی (برطانیہ اور فرانس بالخصوص) تھے۔ بعد میں نوآبادکاری پر امریکا نے اجارہ داری قائم کرلی، مگر بانداز دگر! اس نے براہ راست نوآبادیات بنانے کے بجائے بالواسطہ طریقے سے نوآبادیاتی صورتِ حال کو پیدا کرنے اور اپنے قابو میں رکھنے کی حکمتِ عملی اختیار کی ہے۔
نوآبادیاتی صورتِ حال کی ’’منطق‘‘ ثنویت سے عبارت ہے۔ یہ دو دنیاؤں کو تشکیل دیتی ہے۔ ایک نوآبادکار کی دنیا اور دوسری نوآبادیاتی یا مقامی باشندوں کی دنیا۔ دونوں دنیائیں ایک دوسری کی ضد ہوتی ہیں۔ فرانز فینن کا کہنا ہے کہ یہ ضد کسی بڑی اکائی کو پیدا کرنے کے لیے نہیں ہوتی۔ یہ دونوں ارسطالیسی منطق کے تحت ایک دوسرے کو خارج کرنے کے اصول پر قائم رہتی ہیں۔ (افتادگان خاک، ص ۴۳) یہ تو بجا کہ نوآبادکار کی دنیا، مقامی باشندوں کی دنیا کو خارج کرنے کے اصول پر قائم رہتی ہے۔ نوآبادکار اپنی شخصیت، اپنی ثقافت، اپنے علمی ورثے، اپنے سیاسی نظریات، اپنے فنون کے بارے میں جو آراء پھیلاتا ہے، وہ نوآبادیاتی دنیا کے افراد کی شخصیت، ثقافت، علم اور فنون کے متعلق موجود آرا ء کے متضاد اور انھیں بے دخل کرنے والی ہوتی ہیں، مگر یہ درست نہیں کہ مقامی باشندوں کی دنیا، نوآبادکار کی دنیا کے اوصاف کو خارج کرنے کا اصول قائم کرتی ہیں۔ اپنی متقابل دنیا کی اشیاء اور تصورات کو خارج کرنے کے لیے اقتداری حیثیت کا مالک ہونا ضروری ہے، نوآبادیاتی دنیا اس سے بُری طرح محروم ہوتی ہے۔ اپنی محرومی کا ادراک، نوآبادیاتی دنیا دو صورتوں میں کرتی ہے: محرومی کے خاتمے کی صورت میں اور محرومی کے سبب کی صورت میں۔ پہلی صورت میں وہ نوآبادکار کی دنیا کو جذب کرنے کی کوشش کرتی ہے اور دوسری صورت میں وہ نوآبادکار کو اپنی محرومی کا سبب سمجھتی اور اس کے خلاف بغاوت کا تصور کرتی اور شاذو نادرمظاہرہ کرتی اور اپنی بازیافت پر مائل ہوتی ہے۔ مگر سب صورتوں میں وہ نوآبادکار کی دنیا کے اخراج سے قاصر رہتی ہے۔
نوآبادیاتی دنیا کی دو میں تقسیم کا اختیار، نوآبادکار کے پاس ہوتا ہے۔ نوآبادکار محض اس تقسیم کے ذریعے اپنے اختیار کا مظاہرہ ہی نہیں کرتا، اس تقسیم کے نتیجے میں اپنے اختیار کو بڑھاتا بھی ہے۔ یہ تقسیم طبعی اور ذہنی، بہ یک وقت ہوتی ہے۔ نوآبادکار اپنی اقامت گاہوں، چھاؤنیوں، دفاتر کو مقامی باشندوں سے الگ رکھتا ہے، اور مقامیوں کو ان کے قریب پھٹکنے کی سختی سے ممانعت ہوتی ہے۔ ’’کتوں اور ہندستانیوں کا داخلہ ممنوع ہے‘‘ کی تختی جگہ جگہ آویزاں ہوتی ہے۔ آرکی ٹیکچر کے شکوہ، حفاظی دستوں کی طاقت اور تعزیری قوانین کے ذریعے مقامی باشندوں کو دور رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں نوآبادکار اپنے طرز حیات اور طرز کار کے ذریعے بھی اپنے مختلف اور ممتاز ہونے کا تاثر برابر اُبھارتا رہتا ہے اور نوآبادیاتی باشندوں کو دور رکھتا ہے۔ یہ دو طرح کی تقسیم نوآبادکار کی طاقت کو مسلسل بڑھاتی ہے۔ اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس طاقت کا نشانہ نوآبادیاتی قوم ہوتی ہے۔ نوآبادکار کی طاقت جتنی بڑھتی ہے، مقامی لوگوں کی طاقت اسی تناسب سے گھٹتی ہے، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ نوآبادکار، نوآبادیاتی اقوام کی طاقت کو اپنی طاقت میں شامل کرتا رہتا ہے۔
نوآبادکار، نوآبادیاتی دنیا کو دو میں تقسیم ہی نہیں کرتا، نوآبادیاتی باشندوں کی دنیا کو تشکیل بھی کرتاہے۔ دوسرے لفظوں میں نوآبادیاتی باشندوں کی دنیا ان کی اپنی دنیا نہیں ہوتی، انھیں اپنی ’دنیا‘ پر کوئی تصرف اور اختیار نہیں ہوتا، نہ اس دنیا کے حقیقی، عملی معاملات پر اور نہ اس دنیا کے تصور اور اس کے نظام اقدار پر۔ وہ اپنی ہی دنیا میں اجنبی، اور اس سے ’باہر‘ ہوتے ہیں۔ غضب یہ ہے کہ نوآبادیاتی باشندے کو نوآبادکار جو تصور ذات دیتا ہے وہ اسے بالعموم قبول کرتا اور اس کے مطابق جینا شروع کر دیتا ہے اور نوآبادیاتی دنیا میں جو کردار اسے ادا کرنے کے لیے کہا جاتا ہے، وہ اسے عموماً تسلیم کر لیتا ہے۔ فرانز فینن، البرٹ میمی اور ایڈورڈ سعید تینوں اس امر پر متفق ہیں کہ نوآبادیاتی اقوام، نوآبادکار کے دیے گئے تصور ذات اور کردار کو تسلیم کر لیتی ہیں اور اس کی وجہ سے نوآبادیاتی نظام قائم رہتا ہے۔ چنانچہ یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں کہ نوآبادیاتی نظام کی برقراری میں خود مقامی باشندوں کا انفعالی کردار معاونت کرتا ہے۔
نوآبادیاتی باشندوں کو ایک ایسا ’’تصور ذات‘‘ دیا جاتا ہے، جو نوآبادیاتی نظام کے قیام و استحکام میں مدد کرتا ہے۔ البرٹ میمی کے مطابق نوآبادکار مقامی باشندوں کی اساطیری تصویر بناتا ہے اور اس میں انھیں ناقابل یقین حد تک کاہل دکھایا جاتا ہے۔(۱) جب کہ فرانز فینن کا کہنا ہے کہ نوآبادیاتی باشندے کے لیے جو اصطلاحیں نوآبادکار استعمال کرتا ہے، وہ حیوانیات کی اصطلاحیں ہیں۔ (افتادگان خاک، ص ۸۳) کاہل یا حیوان کہنے کا مطلب مقامی باشندوں کو انسانی درجے سے گرانا ہے۔ نوآبادکار خود کو انسانی درجہ پر فائز قرار دیتا اور انسانی پیمانے کی مثال کے طور پر پیش کرتا ہے۔ نوآبادیاتی اقوام کو کاہل اور حیوان باور کرا کے اوّلاً یہ بات ثابت کی جاتی ہے کہ انھیں ذہنی تحرک اور جستجو سے کوئی واسطہ نہیں، افکار و علوم کی تخلیق سے انھیں کوئی دل چسپی نہیں۔ یہاں نوآبادکار اپنے ذہنی تحرک، جستجو، اور اپنے علوم کوبہ طور نمونہ پیش کرتا ہے۔
نوآبادکار اپنے اقتدار کے مراکز، پولیس اور عدالت کے نظام کو جائز ثابت کرتا ہے کہ کاہلوں اور حیوانوں کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیس کا جابرانہ اور عدالت کا سفاکانہ نظام ناگزیر ہے۔ نوآبادیاتی باشندے بالعموم اپنے کاہل اور حیوان ہونے کا یقین کر لیتے ہیں۔ اس یقین کو پیدا کرنے کے لیے نوآبادکار کئی نفسیاتی حربے بروئے کار لاتاہے۔ اور سب سے بڑا حربہ اپنی مقتدر حیثیت کا مختلف طریقوں اور زاویوں سے مظاہرہ ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا نوآبادیاتی صورتِ حال میں انجذاب، بغاوت اور آفاقیت کی اصل روح تک رسائی کا امکان ہوتا ہے؟ کیا نوآبادیاتی باشندہ ایک حقیقی فرد بن سکتا، اپنی اصل ثقافت کے مکمل احیا پر قادر ہو سکتا اور دو مختلف اور متبائن ثقافتی نظاموں کے امتزاج کو ممکن بنا سکتا ہے؟ جب تک نوآبادیاتی صورتِ حال برقرار رہتی ہے اور نوآبادیاتی باشندہ اس کے جبر میں ہوتا ہے، وہ مذکورہ سوال کا سامنا ہی نہیں کرتا، وہ نہیں سوچتا کہ کیا کامل انجذاب، مکمل بغاوت یا مثالی آفاقیت ممکن ہے یا نہیں۔ وہ تو صورتِ حال کے دستیاب مواقع میں سے کسی کو اختیار کر لیتا ہے۔ یہ سوال ہمیشہ مابعد نوآبادیاتی مطالعات میں اٹھایا جاتا ہے۔ فرانز فینن اور البرٹ میمی نے بالخصوص یہ سوال اٹھایا ہے اور ان کا موقف ہے کہ ان تینوں میں سے کوئی ایک بات بھی ممکن نہیں۔ 
نوآبادیاتی باشندہ نوآبادکار کو اپنے لیے جب ماڈل بناتا ہے تو خود اس جیسا بننے کی تگ و تاز کرتا ہے۔ اور اس تگ و تاز میں خود کو بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔
‘‘The first ambition of the colonized is to become equal to that splendid model and to assemble him to the point of disappearing in him.’’
(Albert Memmi, The Colonized and the Colonized, P 184)

نوآبادیاتی باشندہ، نوآبادکار کا اثبات اور اپنی نفی کرتا ہے۔ اثبات و نفی کے اس عمل سے گزرتے ہوئے وہ یہ غور نہیں کرتا کہ نہ تو کامل اثبات ممکن ہے نہ نفی۔ وہ نوآبادکار جیسا، اس لیے نہیں بن سکتا کہ وہ اپنی نوآبادیاتی حیثیت (جو اصل میں محکومیت، پس ماندگی، ذلت سے عبارت ہے) سے دست کش نہیں ہو سکتا۔ نوآبادیاتی صورتِ حال غلام کو آقا کا ہم پلہ بننے کا خواب دیکھنے کی اجازت تو دیتی ہے کہ اس خواب کے ذریعے ہی نوآبادکار کی ’’مقتدر و مثالی‘‘ حیثیت کا تسلط قائم رہتا ہے، مگر اس خواب کو پورا ہونے کی اجازت کبھی نہیں دیتی کہ اس طرح نوآبادکار اور نوآبادیاتی باشندے میں فرق مٹ جائے گا۔ یہ فرق نوآبادیاتی صورتِ حال کو قائم رکھنے کے لیے اشد ضروری ہے۔ نوآبادیاتی باشندہ انجذاب کے ذریعے نوآبادکار کا قرب حاصل کرنے اور نتیجتاً مراعات حاصل کرنے میں کام یاب ہوتا ہے مگر یہ مراعات بھی نوآبادکار کے اپنے ملک کے شہری کی مراعات کے برابر کبھی نہیں ہوتیں۔ ان مراعات کی قیمت ہوتی ہے، جو نوآبادیاتی باشندے کو لازماً ادا کرنا ہوتی ہے۔
انجذاب کے عمل میں نوآبادیاتی باشندہ، نوآبادکار کی زبان سیکھتا ہے اس کا لباس اختیار کرتا ہے، اس کے طرز بودوباش کی نقل کرتا ہے۔ نقل و تقلید میں وہ جتنا آگے جاتا ہے، اپنی تاریخ، ثقافت، اور اپنی اصل سے اتنا ہی دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ اپنی اصل سے دوری اسے طبعی اور نفسیاتی سطح پر ضرر پہنچاتی ہے،جسے وہ بخوشی قبول کرلیتا ہے۔وہ اس ضرر کو محسوس کرتا ہے،مگرنو آباد کار جیسا بننے کی خواہش کا زور اس کے احساس پر غالب آ جاتا ہے۔یہ ایک پیچیدہ نفسیاتی عمل ہوتا ہے۔نوآباد کار کی نقل سے ہر چند بعض مادی فوائدوابستہ ہوتے ہیں،اور ایک حد تک ان فوائد کا حصول نقل کا محرک ہوتا ہے،لیکن یہ واحد محرک نہیں ہوتا۔اگر ایسا ہوتا تو صرف وہی لوگ یا طبقے نو آباد کا رکی نقل کرتے جنھیں مادی فائدے ملتے،مگر اس کا کیا کیا جائے کہ نو آباد کار کی ثقافت کا انجذاب وہ لوگ اور طبقات بھی کرتے ہیں جو نوآباد کار سے دور ہوتے اور کسی فائدے کی انھیں توقع ہوتی ہے نہ امکان۔انھیں ایک نفسیاتی اطمینان ملتا ہے۔وہ نوآباد کار کی ثقافت کا تصور ایک ’’اعلا یافت‘‘کے طور پر کرتے ہیں۔چونکہ اعلا کا تصور تجریدی نہیں
بلکہ ان کی اپنی ثقافت کے حقیر ہونے کے لازمی اور قوی احساس کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے،اس لیے حقیر کا ’’ترک‘‘ اوراعلاکا ’’قبول‘‘ انھیں ایک نفسیاتی آسودگی دیتا ہے۔چنانچہ ایک مقام آتا ہے کہ نو آباد کار کی نقل و تقلید ایک آدرش بن جاتی ہے۔
اس صورتِ حال کی عمدہ عکاسی ملک راج آنند کے ناول اچھوت میں کی گئی ہے۔ناول کا مرکزی کردار باکھا یوروپیوں جیسا بننے کی کوشش کرتا اور خود سے کوسوں دور ہوجاتا ہے۔باکھے کا تعلق بھنگیوں کے ’’نیچ‘‘ طبقے سے ہے۔وہ انگریزوں کی نقل کے عمل میں تمام ہندستانیوں کی نمائندگی کرتا ہے۔
’’جب وہ(باکھا)اپنے چچا کے ساتھ برٹش رجمنٹ کی بارکوں میں رہنے گیا تھا۔وہاں ٹھیرنے کے دوران اس نے ٹامیوں کی زندگی کی جھلکیاں دیکھی تھیں133اسے جلد ہی ایک شدید خواہش نے جکڑ لیا کہ وہ بھی ان ہی کی طرح زندگی بسر کرے گا۔اسے بتایا گیا تھا کہ وہ صاحب لوگ تھے،یعنی زیادہ اعلی آدمی۔اسے محسوس ہوا کہ جو ان کی طرح کپڑے پہنے گا وہ بھی صاحب بن جائے گا،اس لیے اس نے ان کی ہر بات میں نقل کرنے کی کوشش کی 133باکھا خود بھی یہ جانتا تھا کہ انگریزی کپڑوں کے سوا اس کی زندگی میں کوئی چیزانگریزی نہیں تھی،لیکن اس نے سختی سے اپنی نئی شکل کو برقرار رکھا اور وہ دن رات یہی کپڑے پہنے رہتا۔وہ ہندستانی پن کے ہر حقیر دھبے سے بچتا تھا،یہاں تک کہ بھدی شکل کے ہندستانی لحاف کو بھی نہیں اوڑھتا تھا،حالانکہ وہ رات کو ٹھنڈسے کانپتا رہتا تھا۔‘‘
(اچھوت،ص۳۱تا ۵۱)
نوآبادیاتی باشندہ، نوآبادکار کے خلاف بغاوت بھی کرتا ہے۔ یہ بغاوت براہ راست اور بالواسطہ صورتوں میں ہوتی ہے۔ جب یہ بغاوت اپنی محرومی کے سبب کے تجزیے کے نتیجے میں ہوتی ہے، مقامی، نوآبادکار کو اپنی حالت زار کا سبب سمجھتا اور اس کے خلاف بغاوت کرتا ہے تو یہ بغاوت براہ راست ہوتی ہے۔ بالواسطہ بغاوت اس طبقے کے خلاف ہوتی ہے، جو نوآبادکار کی ثقافت کے انجذاب کا قائل ہوتا ہے اور خود کو اس طرح، نوآبادکار کا حلیف بنا کر پیش کرتاہے۔ نوآبادکار ماڈل ہوتا ہے اور بغاوت کی صورت میں اینٹی تھیسس کا درجہ اختیار کر جاتا ہے۔ اصل میں بغاوت، انجذاب کا اینٹی تھیسس ہے۔ انجذاب کا اثبات، بغاوت کی نفی میں اور انجذاب کی نفی، بغاوت کے اثبات میں بدل جاتی ہے۔ بغاوت میں نوآبادکار کا انکار اور اپنا اثبات کیا جاتا ہے۔ اب اسی شدت سے اپنے ماضی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ بغاوت کے نتیجے میں علاقائیت اور قومی ثقافت کے احیا کی تحریکیں چلتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں تمام نوآبادیاتی ممالک میں قومی ثقافتوں کی تحریکوں کا آغاز، نوآبادیاتی نظام کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں ہوا ہے۔ انجذاب میں استدلال سے زیادہ جذباتیت کارفرما ہوتی ہے، بغاوت میں بھی خالص استدلال سے زیادہ جذباتیت ہوتی ہے۔ قومی ثقافت سے جذباتی وابستگی کو اچانک دریافت کر لیا جاتا ہے۔ دو باتیں فراموش ہو جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ ثقافت ایک متحرک عمل ہے۔ ماضی کے ایک خاص حصے کو مثالی سمجھ کر اسے اپنے لیے ایک نمونہ خیال کیا جاتا اور اس کے احیا کی کوشش ہونے لگتی ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ تاریخ کا وہ سنہرا دور، جن تاریخی و سماجی حالات کی پیداوار تھا، وہ حالات اب نہیں رہے، اس لیے اس کا کامل احیا ممکن ہی نہیں۔ دوسری یہ بات کہ قومی ثقافت کے تصور میں علاقائی، ثقافتی افتراقات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ افریقہ میں نیگرو ثقافت کا تصور تشکیل دیا گیا جو ایک تجریدی تصور ہے، اور افریقہ کی مقامی ثقافتی روایات کے اختلافات کو نظرانداز کرتا ہے۔ اسی طرح ایشیا میں عرب ثقافت کو مثال بنا کر پیش کیا گیا، پان اسلام ازم کی تحریک چلائی گئی اور عرب ممالک کے جغرافیائی، علاقائی، ثقافتی اختلافات کو پس پشت ڈالا گیا۔
البرٹ میمی کا خیال ہے کہ نوآبادیاتی اقوام بغاوت کے عمل میں، فکر کی جو تیکنیک اور جنگ کا جو حربہ استعمال کیا جاتا ہے، وہ نوآبادکار سے مستعار ہوتا ہے۔ (دی کولونازر اینڈ کولونایزڈ، ص ۵۹۱) شاید اس لیے کہ جبھی نوآبادکار، مقامی باشندوں کی تحریک کا مفہوم سمجھ سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں نوآبادیاتی باشندے اپنی بازیافت کے عمل میں دوہری صورتِ حال سے دوچار ہوتے ہیں: وہ اپنی اصل سے بھی جڑنا چاہتے اور ایک بامعنی وجود بننا چاہتے ہیں مگر ساتھ ہی اپنے بامعنی وجود کا ادراک نوآبادکار کو بھی کروانا چاہتے ہیں۔ نوآبادیاتی باشندے کی یہ تگ و دو، دو وجوہ سے ناکام رہتی ہے۔ اوّل اس لیے کہ یہ تگ و دو ڈسکورس کا درجہ اختیار نہیں کر سکتی، نوآبادیاتی باشندہ اس سیاسی یا دانش ورانہ یا آئیڈیالوجیکل اقتدار کا حامل نہیں ہوتا، جو کسی بات کو حقیقت تسلیم کرانے کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے نوآبادکار مقامی باشندوں کی تحریک بازیافت کے مفہوم کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، دوسری وجہ یہ ہے کہ اپنی بازیافت کی کوششوں کے شعور میں تاریخ کے تحرک کے اصول کو پس پشت ڈالا جاتا ہے، ماضی کے ایک عہد کو مثالی تصور کر لیا جاتا اور دوسرے زمانوں اور خود اپنے زمانے کی زندہ سچائیوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ احیا اور بازیافت کے جوش میں اپنے عہد کی اصل صورتِ حال سے صرفِ نظر کرنا، عقلی اصول بن جاتا ہے۔ چنانچہ نہ تو اپنے عصر کی صورتِ حال کی پوری تفہیم کی ہمہ گیر کوشش ہوتی ہے نہ اسے بدلنے کی کسی حکمت عملی کو وضع کرنے کا کوئی امکان ہوتا ہے۔
آفاقی نقطہ نظر میں نوآبادکار اور نوآبادیاتی دنیاؤں کے اقداری فرق کو ختم کرنے کی کوشش ہوتی ہے، دونوں میں مماثلتیں دریافت کی جاتی ہیں اور انھیں یکجا کرنے کا عمل ہوتا ہے۔ یہ عمل عموماً دو صورتوں میں ہوتا ہے: ایک یہ کہ نو آباد کار کی ثقافت کو آفاقی خیال کیا جاتا اور اس کی تقلید کی جاتی ہے۔ اس صورت میں فرض کر لیا جاتا ہے کہ ’’آفاقی ثقافت‘‘تمام خطوں کے لیے ہے۔یہ بات نظر انداز کی جاتی ہے کہ جسے آفاقی خیال کیا جارہا ہے وہ اپنا مکانی اور زمانی تناطر رکھتی اور اسی تناظر میں بامعنی ہے۔کسی دوسرے تناظر میں وہ اجنبی یا محدود معنی کی حامل ہے۔ دوسری یہ کہ نو آباد کار اور مقامی ثقافتوں میں متعدد اشتراکات ہیں۔ان اشترا کات کی تلاش ساتھ تاریخی اور منطقی سطحوں پہ کی جانے لگتی ہے۔ اس تلاش کو عملی ضرورتوں کا جبر مہمیز کرتا ہے۔یہیں سے تاریخ کی نئی تعبیرات کا آ غاز ہوتا ہے۔اور ان تعبیری کوششوں کا بنیادی نکتہ دونوں ثقافتوں کے درمیان موجود فاصلوں اور فرق کو ختم کرنا ہوتا اور انھیں یکجا کرنا ہوتا ہے۔ چونکہ یہ سب کچھ نوآبادیاتی صورتِ حال میں ہو رہا ہوتا ہے، اس لیے دونوں دنیاؤں کا اقداری فرق ختم کرنے کی کوشش کام یاب نہیں ہو سکتی۔ مشرق، مشرق رہتا ہے، اور مغرب، مغرب۔ دونوں کے امتزاج کی کوشش میں ایک کا برتر اور دوسرے کا فروتر ہونا لازم ہے لہٰذا جسے، آفاقی نقطہ نظرقرار دیا جاتا ہے، وہ دراصل محدود انجذاب ہے۔ مشرق کا مغرب کو خود میں جذب کرنا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ مظاہرہ ذولسانیت میں ہوتا ہے۔ ہر نوآبادیاتی صورتِ حال ذولسانیت کو جنم دیتی ہے۔ مگر دونوں زبانیں برابر رتبے کی نہیں ہوتیں، نوآبادکارکی زبان اسی کی مانند مہذب اور افضل ہوتی ہے، جب کہ نوآبادیاتی اقوام کی زبانیں، گنوار لوگوں کی زبانیں اور ناشائستہ ہوتی ہیں۔ زبان کا اقداری درجہ اس کے بولنے والوں کی نسبت سے متعین ہونے لگتا ہے بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ زبان ایک آلہ اظہار کے بجائے ایک ’’علامتِ رتبہ‘‘بن جاتی ہے۔دنیا کی کوئی زبان حقیقتاً کم تر ہوتی ہے نہ نا مکمل۔وہ اپنے بولنے والوں کی جملہ ابلاغی اور ترسیلی ضرورتوں کی تکمیل کررہی ہوتی ہے،مگر نوآبادیاتی صورت حال میں زبان کا یہ تصور باقی نہیں رہتا۔زبان اپنے بولنے والوں کے سیاسی اور ثقافتی مرتبے کی نسبت سے کم تر یا برتر سمجھی جانے لگتی ہے۔نوآبادیاتی اقوام، نوآبادکار کی زبان کو اپنے اندر جذب کرنے کی سعی کرتی ہیں، اور اپنی زبان کے لچک دار اور ترقی پسند ہونے کا دعوی کرتی ہیں، نیز نوآبادیاتی باشندہ بہ یک وقت دونوں زبانوں پر دسترس کا دعوی کرتا ہے مگر اپنے ذولسانی اقداری نظام میں نوآبادیاتی زبان کو وہی مرتبہ دیتا ہے، جس کا تعین نوآبادکار نے کیا ہے۔ نوآبادکار بھی مقامی زبانیں سیکھتا ہے، مگر وہ کبھی ان زبانوں کو وہ مرتبہ نہیں دیتا، جو اس نے اپنی زبان کو دے رکھا ہے۔
ان باتوں کی تائید سرسید کے زبان سے متعلق خیالات سے بھی ہوتی ہے۔ان میں آفا قیت کا مندرجہ صدر تصور کی دونوں صورتیں موجود ہیں۔
انجذاب، بغاوت اور آفاقیت و امتزاج کے آزادانہ مفاہیم بھی ہیں جو نوآبادیاتی صورتِ حال میں ظاہر ہونے والے مفاہیم سے مختلف ہیں۔ نوآبادیاتی باشندے جب تک، نوآبادیاتی صورتِ حال کے زمروں میں مقید ہو کر یہ عمل انجام دیتے ہیں، وہ اسی طرح کے نتائج تک پہنچتے ہیں جن کا ذکر گزشتہ سطور میں ہوا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ نوآبادیاتی نظام میں کیا کوئی مقامی فرد یا گروہ آفاقیت کا آزادانہ مفہوم قائم کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا؟ کیا اس نظام کا جبر اتنا شدید، اتنا ہمہ گیر اور اتنا سرایت گیر ہوتا ہے کہ ایک خطے میں ایک عہد کی تمام انسانی روحیں نوآبادیاتی نظام کی صلیب پر لٹک جاتی ہیں؟ کوئی آزاد و فعال ذہن باقی نہیں رہتا؟ اس سوال کا جواب اثبات میں دینے کی صورت میں نوآبادیاتی ممالک کی قومی اہانت وہ تصور اُبھرتا ہے، جو نوآبادکار کو ’عزیز‘ ہوتا ہے اور اس کے تاریخی بیانیوں میں کثرت سے ابھارا جاتا ہے تاکہ اُس کے ہر اقدام کا جواز مہیا ہو سکے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہر نوآبادیاتی ملک میں کچھ افراد یا گروہ آزاد، ذہنی فعالیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ نوآبادکار کی ثقافت کا براہ راست علم حاصل کرتے ہیں، مگر اپنی ثقافت سے بے گانگی کی قیمت پر نہیں۔ دونوں ثقافتوں سے راست اور گہرا ربط ضبط رکھنے کی وجہ سے وہ حقیقی آفاقی نقطہ نظر اختیار کرنے کی اہلیت حاصل کر لیتے ہیں۔ وہ نہ اپنی ثقافت کے سلسلے میں ماضی پرستی اور تعصب کا شکار ہوتے ہیں نہ نوآبادکار کی ثقافت سے مرعوب ہوتے ہیں، ان کا ذہنی رشتہ
ثقافتوں کے فکری و عملی اور تخلیقی حاصلات سے قائم ہو جاتا ہے، چنانچہ وہ دونوں کی خوبیوں کے مداح اور دونوں کی کم زوریوں کے نکتہ چیں ہوتے ہیں، اور خوبیوں اور کم زوریوں کا تصور، وہ کسی ایک ثقافت سے نہیں، مجموعی انسانی ثقافت سے اخذ کرتے ہیں۔ نوآبادکار اپنی نوآبادیاتی ذہنیت کے مظاہرے کے لیے سیاسی و سماجی، معاشی، تعلیمی شعبوں کو منتخب کرتا ہے، ان میں اپنی آئیڈیالوجی کا بیج بوتا ہے۔ آفاقی نقطہ نظر ان شعبوں کے بجائے، مستقل اہمیت کے فکری و علمی منطقوں سے خود کو منسلک کرتا ہے۔ یہ نوآبادیاتی صورتِ حال سے فرار اور ذہنی خانقاہوں میں پناہ گزین ہونے کا عمل نہیں ہے، بلکہ نوآبادیاتی آئیڈیالوجی کا تابع مہمل بننے سے انکار اور حقیقی انسانی علم کی روایت سے وابستہ ہونے کا آزدانہ ذہنی عمل ہے۔
تحریر : ناصر نیر

ہفتہ، 11 نومبر، 2017

سعودی عرب کی ناکام سفارت کاری



یوں تو سعودی عرب کے جواں سال ولی عہد، شہزادہ محمد بن سلمان، کے سنہ 2015 میں سیاسی منظر نامے پر نمودار ہوتے ہی سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں جارحیت کا عنصر حاوی نظر آنے لگا تھا، لیکن گزشتہ چند دنوں کی پیش رفت سے ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ سعودی عرب اندرونی طور پر بھی خاندانی حکمرانی سے شخصی آمریت کی طرف بڑھ رہا ہے۔
معاشی اصلاحات ہوں یا سماجی، کرپشن کے نام پر مخالفین کے خلاف کارروائی، یا طاقت پر اپنی گرفت کو مضبوط کرنا یا پھر سعودی عرب کا سنہ 2030 کا اقتصادی ویژن، ان سب اقدامات کے پیچھے ایک جارحانہ سوچ اور عجلت کا عنصر دکھائی دیتا ہے۔
عجلت تو مسلم دنیا کے ایک اہم ترین ملک کی بادشاہت حاصل کرنے کی وجہ سے ہو سکتی ہے لیکن جارحیت کا عنصر صرف مزاج کی تیزی اور شخصیت کا خاصہ ہی ہو سکتا ہے۔
سنہ 2015 میں محمد بن سلمان کے وزیر دفاع کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی سعودی عرب کی افواج نے دنیا کے ایک غریب ترین مسلمان ملک یمن پر یلغار کر دی جو تاحال جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے حوثی باغیوں کی طرف سے ریاض کے ہوائی اڈے پر مبینہ طور پر ایرانی ساخت کے میزائل داغے جانے سے واضح ہو گیا ہے کہ سعودی عرب کے دو سال سے یمن پر مسلسل بمباری سے کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔
جنگ کا اختتام ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ ریاض کے ہوائی اڈے پر ناکام میزائل حملے کے بعد سعودی عرب کی طرف سے یمن کے بحری، بری اور فضائی بائیکاٹ سے یمن کے عوام کی مشکلات سنگین تر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔
شام میں حزب اللہ کی مدد و معاونت اور روسی کی براہ راست مداخلت سے اسد مخالف مسلح گروہوں اور نام نہاد دولت اسلامیہ کے خاتمے کے بعد اسد حکومت استحکام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ مغربی طاقتیں اور سعودی عرب جو شام میں صدر اسد کو اقتدار سے علیحدہ کرنے سے کم کسی حل پر تیار نہیں تھیں بری طرح ناکام ہو گئی ہیں اور اندھیرے میں ہاتھوں پاؤں مارتی نظر آ رہی ہیں۔
شام کے علاوہ اسی دوران سعودی عرب اور اس کے خلیجی اتحادیوں کی طرف سے قطر کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ یہاں بھی سعودی عرب قطر سے وہ پندرہ شرائط منوانے میں ناکام رہا جن میں الجزیرہ نیوز نیٹ ورک کو بند کرنے کی شرط بھی شامل تھی۔
بے شک یمن، شام اور قطر کے محاذوں پر سعودی عرب کو تاحال کچھ حاصل نہیں ہوا ہے، اس کے باوجود اب سعد الحریری سے استفعی کا اعلان کروا کے لبنان میں بھی ایک سیاسی بحران کھڑا کر دیا گیا ہے۔
ریاض کے ہوائی اڈے پر میزائل حملے کا ذمہ دار محمد بن سلمان ایران کو ٹھہراتے ہیں اور ایران کی طرف سے ان الزامات کی تردید کے باوجود سعودی ولی عہد نے اسے اعلان جنگ قرار دیا ہے۔
ایران کی مخالفت میں ٹرمپ انتظامیہ اور اسرائیل پوری طرح محمد بن سلمان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ امریکہ میں سابق صدر اوباما کے دور اقتدار کے آخری دنوں میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر جتنی برہم اسرائیلی حکومت تھی اتنا ہی غصہ محمد بن سلمان کو تھا۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں یہ پہلا موقعہ تھا جہاں سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں واضح کشیدگی نظر آئی تھی۔
مشرقی وسطی گزشتہ ایک صدی سے مغربی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا میدان بنا رہا ہے لیکن دنیا بھر کے ماہرین اور تجزیہ کار آج اس بات پر مکمل طور یک زبان ہیں کہ مشرق وسطی جتنا آج غیر مستحکم اور خطرناک صورت حال کا سامنا کر رہا ہے، اس پہلے کبھی اسے اتنی خطرناک صورت حال کا سامنا نہیں رہا۔
بیرونی محاذوں پر ناکامیوں اور خطرات کے باوجود داخلی محاذ پر محمد بن سلمان نے جو اقدامات کیے ہیں ان پر نہ صرف تجزیہ کار بلکہ امریکی خیفہ اداروں کے اہلکار بھی حیران ہیں۔
سعودی عرب میں کرپشن کے نام پر جس پیمانے پر کارروائی کی گئی ہے اس کی کوئی نظیر سعودی تاریخ میں نہیں ملتی۔
بین الاقوامی اخبارات میں شائع ہونے والے تبصروں اور تجزیوں میں مبصرین نہ صرف اس اچانک کارروائی پر انگشت بدنداں ہیں بلکہ وہ ان اقدامات کے نتائج کے بارے میں بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ پا رہے ہیں۔
سعودی عرب میں پالیسی سازی ہمیشہ ہی سات پردوں کے پیچھے کی جاتی رہی ہے، لیکن گزشتہ چند دنوں میں لیے جانے والے فیصلوں میں جس قسم کی راز داری برتی جا رہی ہے، ماضی میں اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔
سعودی عرب میں انتقال اقتدار کے فیصلے افہام و تفہیم اور خاندانی سطح پر مفاہمت کی بنیاد پر ہی کیے جاتے رہے ہیں۔ سلطنت کے اہم فیصلوں میں یہ عنصر ہمیشہ مدِ نظر رہا ہے کہ آل سعود کے اہم افراد کو کسی نہ کسی سطح پر اقتدار میں شریک رکھ کر مطمئن رکھا جائے۔
سعودی عرب کے اندرونی معاملات پر نظر رکھنے والے مبصرین کے مطابق کرپشن کے نام پر کی گئی کارروائی کو سعودی نوجوان میں پذیرائی حاصل ہوئی ہے لیکن اس کا اصل مقصد تخت تک پہنچنے کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔
محمد بن سلمان نے جو راہ اختیار کی ہے اس کے مستقبل قریب اور مستقبل بعید میں کیا اثرات مرتب ہو ں گے ان کا مکمل طور پر احاطہ کیا جانا فی الوقت ممکن نہیں ہے لیکن یہ راہ بہت پر خطر دکھائی دیتی ہے اور نہ صرف ملک بلکہ پورے خطے کو سنگین بحران سے دو چار کر سکتی ہے۔
BBC

جمعہ، 10 نومبر، 2017

ٹرمپ کی نئی افغان حکمت عملی میں علاقائی کھلاڑیوں کی اہمیت



ٹرمپ انتظامیہ نے جنوبی ایشیا کے لئے، پرانی پالیسی ختم کر کے نئی حکمت عملی کا اعلان کیا ہے۔ دفتر خارجہ کے دو سابق عہدیداروں کا کہنا ہے کہ أفغان مسئلے کے حل کے لئے امریکہ کی نئی حکمت عملی میں ایک ایسے علاقائی لائحہ عمل کی ضرورت ہے جس میں پاکستان، أفغانستان اور بھارت کے علاوہ ایران، چین اور روس بھی شامل ہوں۔


نئی حکمت عملی میں اوباما دور کے متعارف کردہ افغانستان اور پاکستان کے لئے خصوصی نمائندے کے دفتر کو ختم کر دیا گیا ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس دفتر کی افادیت تھی اور کیا وہ موثر رہا؟



ٹرمپ انتظامیہ نے أفغان مسئلے کے حل کے لئے، جنوبی ایشیا کی نئی حکمت عملی کا اعلان کیا۔ نئی حکمت عملی کی تشکیل کی ذمہ داری پنٹاگان کو تفويض کی گئی۔ امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے سینٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے ایک سماعت کے دوران کہا کہ نئی حکمت عملی کا مقصداس خطے کو محفوظ اور مستحکم بنانا ہے۔ انہوں نے نئی حکمت عملی کے خد و خال بیان کرتے ہوئے فور آر پلس ایس نامی ایک نئی اصطلاح استعمال ۔ اس میں پہلے آر کے معنی ریجینالائیز کرنا تھے یعنی علاقائی بنانا۔



جم میٹس نے سماعت کے دوران کہا کہ علاقائی بنانے کے معنی ہیں کہ یہ تسلیم کرنا ہے کہ أفغانستان سے آگے بھی چیلنج موجود ہیں۔ اس حکمت عملی کے لئے جغرافیائی ڈھانچے کو اپنایا گیا ہے، جو جامع ہے اور جس میں سب کی شمولیت ہے۔ صرف أفغانستان پر توجہ مرکوز رکھنے کی بجائے، اس میں بھارت، پاکستان، ایران اور روس کو شامل کرنے پر غور کیا گیا ہے، اور پھر بعد میں اس حکمت عملی میں بیرونی تبدیلیاں بھی متعارف کرائی جا سکتی ہیں۔



سابق امریکی معاون وزیر خارجہ کارل اِنڈر فرتھ کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ہمیں افغانستان کے لئے دوبارہ علاقائی پالیسی تشکیل دینا ہو گی۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ کا علاقائی لائحہ عمل بظاہر افغانستان، پاکستان اور بھارت تک ہے۔



ان کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ اس علاقائی لائحہ عمل میں ایرانی کہاں ہیں، اس میں چینی کہاں ہیں، اور اس میں روسی کدھر ہیں اور سعودی کہاں ہیں؟ اور میں نے ابھی تک ایسا کوئی ثبوت نہیں دیکھا جس سے یہ ظاہر ہو کہ انتظامیہ کے پاس ایک ایسی جامع حکمت عملی موجود ہےجس سے ان تمام کھلاڑیوں کی مدد سے اس مسئلے کا حل نکالا جاسکے جس کا ہمیں افغانستان میں سامنا ہے۔



افغانستان اور پاکستان کے لئے، امریکہ کے سابق خصوصي نمائندے، ڈین فیلڈ مین کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے جنوبی ایشیا سے متعلق حکم عملی کے اعلان کے بعد افغانستان میں فوجیوں کی تعداد میں اضافہ اور انہیں مزید اختیارات تفويض کئے گئے ہیں، اور وہ وہاں کافی عرصے تک موجود رہیں گے۔



ان کا کہنا تھا کہ میرا موقف یہ ہے کہ اس میں اہم شراکت داروں کو شامل رکھنے کی ضرورت ہے، خصوصي طور پر پاکستان، بھارت چین، روس، ایران، خلیجی ریاستیں، اور دیگر نیٹو شراکت داروں کو، جو وہاں شریک رہے ہیں، مسلسل شامل رکھنا ہو گا۔



اس سوال پر کہ کیا اوباما دور میں افغانستان اور پاکستان کے لئے نمائندے کے دفتر کی افادیت کے متعلق کوئی داخلی بحث ہوئی تھی ِ ، ڈین فیلڈ مین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مسلسل بحث جاری رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسے ایک مستقل دفتر بنانے کا ارادہ کبھی نہ تھا۔ اس لئے یہ بحث ہمیشہ رہی کہ ا س خصوصي دفتر کو دفتر خارجہ کے وسطی اور جنوبی ایشیائی أمور سے متعلق بیورو میں ضم کر دیا جائے۔



ہمیشہ یہ بحث ہوتی ہے کہ کیا صرف افغانستان اور پاکستان کے لئے ایک خصوصي دفتر کا ہونا معقولیت ہے؟ اور ہمیشہ ہی یہ فیصلہ ہوتا کہ اس خطے میں امریکی مفادات کے پیشِ نظر، اور امریکی فوجیوں کی تعداد کے تناظر میں، اور سفارتی، امدادی اور دیگر عملے کے پیش نظر، اور جس مقدار میں امریکی وسائل افغانستان میں استعمال ہو رہے تھے، اور اس پالیسی کے لئے پاکستان کی اہمیت کے پیش نظر، یہ دفتر کو قائم رکھنا ضروری ہے۔



ہم نے ہمیشہ یہ سوچا کہ امریکہ کے اندر ایک اعلیٰ سطحی سفارت کار، ان معاملات پر مختلف شعبوں میں رابطہ کاری اور کام کا کوئی ذمہ دار ہو جو اتحادیوں اور شراکت داروں سے رابطہ رکھے اور جو وزیر خارجہ یا صدر کو رپورٹ کرے۔ اس لئے ہم نے ہمیشہ یہ سوچا کہ اس معاملہ کی اہمیت اور افادیت اور موثر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔



نئی انتظامیہ نے اچانک ہی خصوصي ایلچی کے دفتر کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن اُنہوں نے نمائندہ خصوصي کا منصب برقرار رکھا ہے، جس پر عارضی طور پر سفیر ایلس ویلز کو تعینات کیا گیا ہے، اور انہیں قائم مقام معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا کا منصب بھی دیا ہے۔





کارل انڈرفرتھ کا کہنا تھا کہ اوباما انتظامیہ کے دور میں اس پر بحث تو ہوئی، لیکن اس وقت فیصلہ ہوا کہ جب تک نئی انتظامیہ نہیں آتی تب تک اس پر کوئی قدم نہ اٹھایا جائے اور اسے ٹرمپ انتظامیہ پر چھوڑ دیا جائے۔



انہوں نے کہا کہ اگر تو اس دفتر کی مہارتیں دفتر خارجہ کے جنوبی ایشیا بیورو میں منتقل ہو جاتی ہیں، تو اس کا ختم ہونا کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے بیورو کو سمت دینے والا مستقل معاون وزیر خارجہ موجود نہیں۔ اس انتشار کی وجہ، ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے دفتر خارجہ میں موجود خالی اسامیاں بھرنے کے عمل میں سستی ہے۔



کارل انڈر فرتھ کا کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اور خاص کر سفیر ہول بروک کی وفات کے بعد، یہ واضح ہوتا گیا کہ اوباما انتظامیہ افغانستان سے نکلنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی تھی۔ چونکہ یہ ان کی اولین ترجیح تھی، اس لئے خصوصي نمائندے کے دفتر اہمیت کم ہوتی چلی گئی۔ اور اوباما انتظامیہ دور کے اختتام پر، یہ دفتر افادیت کے لحاظ سے ہولبروک کے عہد کے مقابلے میں محض ایک ڈھانچہ سا بن کر رہ گیا تھا۔
انجم ہیرلڈ گل