بدھ، 14 جون، 2017

منگل، 13 جون، 2017

قطر بحران کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے؟



قطر کا بحران دو باتیں ثابت کرتا ہے: عرب ریاستیں اب بھی بچکانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں، اور دو ہفتے قبل سعودی عرب میں سربراہی کانفرنس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی مضحکہ خیز موجودگی میں جنم لینے والے سنی اسلامی اتحاد کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔
مرتے دم تک شیعہ ایران کی 'دہشتگردی' سے جنگ کا وعدہ کرنے کے بعد سعودی عرب اور اس کے قریب ترین دوستوں نے اپنے امیر ترین پڑوسیوں میں سے ایک، قطر، کے خلاف 'دہشتگردی' کا منبع ہونے کی وجہ سے محاذ کھول لیا ہے۔ پیٹھ میں ایسا چھرا گھونپنے کی مثال صرف شیکسپیئر کے ڈراموں میں ہی مل سکتی ہے۔
اس پوری کہانی کے بارے میں بہت کچھ حیرت انگیز ہے۔ قطر کے شہریوں نے بلاشبہ دولتِ اسلامیہ کو مدد دی ہے، مگر سعودی عرب کے شہریوں نے بھی ایسا کیا ہے۔ 11 ستمبر کے دن نیو یارک اور واشنگٹن میں کسی قطری شہری نے جہاز عمارتوں سے نہیں ٹکرائے تھے۔ مگر 19 میں سے 15 ہائی جیکر سعودی تھے۔ بن لادن بھی قطری نہیں تھے۔ وہ بھی سعودی تھے۔
مگر بن لادن اپنی ذاتی براڈکاسٹ کے ذریعے قطر کے الجزیرہ چینل کی حمایت کرتے تھے، اور یہ الجزیرہ ہی تھا جس نے شام میں برسرِپیکار القاعدہ اور النصرۃ فرنٹ کے جنگجو رہنما کو گھنٹوں کا ایئرٹائم صرف یہ بتانے کے لیے دیا کہ وہ کس قدر اعتدال پسند اور امن پسند گروہ ہیں۔
سب سے پہلے تو اس کہانی کے انتہائی مضحکہ خیز پہلوؤں سے جان چھڑائیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ یمن نے قطر سے اپنے فضائی رابطے منقطع کر لیے ہیں۔ بیچارے قطری امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی کے لیے یہ حیرت کی بات ہے کیوں کہ ان کے سابق دوستوں عرب امارات اور سعودی عرب نے یمن پر اتنی بمباری کی ہے کہ اس کے پاس قطر کے ساتھ فضائی رابطے قائم رکھنے کے لیے کوئی سالم جہاز بچا ہی نہیں ہے، تو رابطے توڑنے کی کیا بات کریں۔
مالدیپ نے بھی قطر سے اپنے تعلقات منقطع کر لیے ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ سعودی عرب کی جانب سے مالدیپ کو 30 کروڑ ڈالر کے پانچ سالہ قرضے کے وعدے، سعودی پراپرٹی کمپنی کے مالدیپ میں ایک فیملی ریزورٹ میں 10 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبے، اور سعودی اسلامی علماء کی جانب سے مالدیپ میں 10 'ورلڈ کلاس' مساجد کی تعمیر کے لیے ایک لاکھ ڈالر کے وعدے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
اور ہاں، دولتِ اسلامیہ اور دیگر انتہاپسند گروہوں کے افراد کی اس بڑی تعداد کو کیسے بھول سکتے ہیں جو عراق اور شام میں دولتِ اسلامیہ کی جنگ لڑنے کے لیے، آپ نے صحیح سمجھا، مالدیپ سے آئے تھے۔
ویسے اگر سعودی عرب نے قطر میں استحکام کی بحالی کے لیے اپنی فوجیں بھیجنے کی پیشکش کرنے کا فیصلہ کیا 151 جیسا کہ اس نے 2011 میں بحرین کے بادشاہ کے ساتھ کیا تھا  تو قطری امیر کے پاس اپنے چھوٹے سے ملک کو بچانے کے لیے کافی تعداد میں فوجیں نہیں ہوں گی۔ مگر شیخ تمیم بلاشبہ امید رکھتے ہیں کہ قطر میں موجود امریکی ایئربیس سعودی عرب کی ایسی کسی فراخدلانہ پیشکش کو ٹھکرانے کے لیے کافی ہوگی۔
جب میں نے ان کے والد شیخ حماد (جنہیں بعد میں شیخ تمیم نے معزول کر دیا تھا) سے پوچھا تھا کہ وہ قطر سے امریکیوں کو باہر کیوں نہیں نکال دیتے، تو انہوں نے کہا تھا کہ: "اگر میں نے ایسا کیا، تو میرے عرب بھائی مجھ پر حملہ کر دیں گے۔" مجھے لگتا ہے کہ جیسے والد، ویسا ہی بیٹا، امریکا زندہ باد۔یہ سب تب شروع ہوا  یا ہم سے توقع ہے کہ ہم ایسا مانیں گے جب قطر نیوز ایجنسی مبینہ طور پر ہیک ہوئی، اور اس نے قطری امیر کے ایران کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کی ضرورت پر تشویشناک حد تک سچائی پر مبنی بیانات شائع کر دیے۔
قطر نے اس خبر کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا۔ سعودیوں نے فیصلہ کر لیا کہ یہ خبر درست ہے، اور اپنے انتہائی روایتی (اور شدید بورنگ) سرکاری ٹی وی چینل پر وہ خبر نشر کر دی۔ پیغام میں کہا گیا کہ نودولتیے امیر اس دفعہ بہت آگے جا چکے ہیں۔ خلیج میں پالیسیاں سعودی طے کریں گے، ننھا قطر نہیں۔ کیا ٹرمپ کے دورے سے یہ بات ثابت نہیں ہو گئی؟
مگر سعودیوں کے پاس فکرمند ہونے کے لیے اور بھی مسائل تھے۔ کویت، جو قطر سے تعلقات منقطع کرنے سے ابھی بہت دور ہے، اب سعودیوں و اماراتیوں اور قطر کے درمیان صلح کی کوششوں میں مصروف ہے۔ دبئی کی امارت ایران کے کافی قریب ہے، یہاں بیسیوں ہزار ایرانی کام کرتے ہیں، اور وہ ابو ظہبی کے قطر مخالف غصے کی مثال پر شاید ہی عمل کر رہا ہو۔
عمان تو دو ماہ قبل تک ایران کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں بھی کر رہا تھا۔ پاکستان نے طویل عرصہ قبل یمن میں اپنی سعودی عرب کی مدد کے لیے افواج بھیجنے سے انکار کر دیا تھا کیوں کہ سعودی عرب نے صرف سنی فوجی بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا۔ پاک فوج کو قابلِ فہم طور پر اس بات پر شدید غصہ آیا کہ سعودی عرب اس کے فوجیوں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف بھی اطلاعات کے مطابق 'دہشتگردی' کے خلاف سعودی سربراہی میں بننے والی اسلامی اتحاد کی قیادت سے استعفیٰ دینے پر غور کر رہے ہیں۔مصر کے صدر فیلڈ مارشل عبدالفتح السیسی الاخوان المسلمون کی حمایت کرنے پر قطر کے خلاف چنگھاڑ رہے ہیں، اور قطر واقعی اب کالعدم قرار دے دیے گئے اس گروہ کی مدد کرتا ہے جسے السیسی غلط طور پر دولتِ اسلامیہ کا حصہ قرار دیتے ہیں، مگر اہم بات یہ ہے کہ مصر بھلے ہی سعودی عرب سے کروڑوں ڈالر حاصل کر چکا ہو، مگر وہ یمن کی تباہ کن جنگ میں سعودی عرب کی مدد کے لیے اپنے فوجی نہیں بھیجنا چاہتا۔ اس کے علاوہ سیسی کو اپنے فوجی اپنے ملک میں درکار ہیں تاکہ دولتِ اسلامیہ کے حملوں کا مقابلہ کیا جا سکے، اور اسرائیل کے ساتھ مل کر فلسطین کی غزہ پٹی کا محاصرہ جاری رکھا جا سکے۔پر اگر ہم تفصیلی جائزہ لیں تو یہ دیکھنا مشکل نہیں ہے کہ سعودیوں کی اصل پریشانی کیا ہے۔ قطر بشار الاسد حکومت کے ساتھ بھی خفیہ رابطے برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس نے النصرۃ فرنٹ کی قید میں موجود شام کی عیسائی راہباؤں، اور مغربی شام میں دولتِ اسلامیہ کی قید میں موجود لبنانی سپاہیوں کی رہائی میں مدد دی۔ جب راہبائیں قید سے رہا ہوئیں تو انہوں نے بشار الاسد اور قطر دونوں کا شکریہ ادا کیا۔
اس کے علاوہ خلیج میں قطر کے بڑے ارادوں، یعنی جنگ زدہ شام کی تعمیرِ نو، کے بارے میں شکوک و شبہات بھی ہیں۔ اگر اسد صدر رہے، تب بھی شام پر قطر کا قرضہ ملک کو قطر کے اقتصادی کنٹرول میں دے دے گا۔اور اس سے ننھے قطر کو دو سنہری فوائد حاصل ہوں گے۔ اب اس کے پاس الجزیرہ کی صورت میں جتنی بڑی ابلاغی سلطنت موجود ہے، اتنی ہی بڑی زمینی سلطنت بھی آ جائے گی۔ اور یہ اپنی سخاوت شامی علاقوں تک بڑھائے گا، جسے کئی تیل کمپنیاں خلیج سے یورپ براستہ ترکی اپنی پائپ لائنز کے روٹ کے لیے استعمال کرنا چاہیں گی، یا پھر شامی کی اللاذقیہ بندرگاہ سے تیل کے جہاز بھیجنا چاہیں گی۔یورپ کے لیے ایسا روٹ روس کی تیل پر بلیک میلنگ کے امکانات کم کر دے گا، اور اگر جہازوں کو خلیجِ ہُرمز سے نہ گزرنا پڑا، تو تیل کے روٹس کے لیے خطرہ بھی کم ہو جائے گا۔تو قطر، یا پھر سعودی عرب، دونوں کے لیے بہت سارے فوائد موجود ہیں، اگر امریکی قوت کے بارے میں دو امراء یعنی حماد اور تمیم کی امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ قطر میں موجود سعودی افواج ریاض کو سلطنت میں موجود تمام تر مائع گیس پر کنٹرول فراہم کر دیں گی۔ مگر امن پسند اور 'دہشتگردی مخالف' سعودی سر قلم کرنے کے شوق کو تھوڑی دیر کے لیے بھول جائیں  اپنے عرب بھائی کے لیے ایسا کبھی نہیں چاہیں گے۔تو فی الوقت صرف یہ امید کرتے ہیں کہ قطر کی سیاست میں صرف قطر ایئرویز کے روٹ ہی وہ چیز ہیں جنہیں کاٹا جائے گا۔

پیر، 12 جون، 2017

وہ جنگ جس نے مشرقِ وسطیٰ کو بدل کر رکھ دیا



تحریر :جیریمی بوئن
مدیر برائے مشرقِ وسطی، بی بی سی
  پچاس برس سال قبل اسرائیل اور اس کے ہمسایہ عرب ممالک کے درمیان جنگ چھڑی تھی۔ یہ جنگ صرف چھ روز جاری رہی لیکن اس کے
 اثرات آج بھی موجود ہیں۔
سنہ 1948 میں اسرائیل کے عرب ہمسایوں نے نئی نئی قائم ہونے والی اس ریاست کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے اس پر ناکام حملہ کیا۔ مصر کی فوج کو پسپا ہونا پڑا لیکن چند دستے جو فلوجہ میں محصور ہو گئے تھے انھوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔
مصر کے نوجوان افسروں کے ایک گروپ اور اسرائیل فوج کے افسروں نے اس تعطل کو توڑنے کی کوشش کی۔
ان میں اسرائیل فوجی خاندان سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ اسحاق رابن جو جنوبی محاذ پر جنگ کارروائی کی قیادت کر رہے تھے اور 30 سالہ مصری میجر جمال عبدالناصر بھی شامل تھے۔
نازیوں کی طرف سے 60 لاکھ یہودیوں کے قتل عام کے چند سال بعد مقدس سرزمین پر یہودی ریاست کے قیام کا خواب پورا ہو گیا تھا۔
فلسطینی سنہ 1948 کے اس واقعے کو ’النکبہ‘ یا تباہی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین سے بے دخل کر کے اسرائیل کا وجود عمل میں لایا گیا اور ان فلسطینیوں کو واپس جانے نہیں دیا گیا۔
عربوں کی اسرائیل کے ہاتھوں شکست ایک ایسا تہلکہ خیز سیاسی واقعہ تھا جس کے بعد یہ خطہ اب تک عدم استحکام کا شکار ہے۔
مصر کی فوج نے جو ندامت اور اپنے ساتھ غداری کے احساس سے چور تھی، اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ جنگ کے چار سال بعد ناصر کی قیادت میں نوجوان افسران کے ایک گروپ نے مصر میں بادشاہت کا خاتمہ کر دیا۔
دونوں ملکوں کو بخوبی علم تھا کہ اگلی جنگ جلد یا بدیر ضرور ہو گی۔
سنہ 1956 میں جمال عبدالناصر نے صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔ اسی برس انھوں نے برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نہر سویز کو قومیانے کا فیصلہ کر لیا اور یوں وہ قومی ہیرو اور عربوں کے قائد بن گئے۔
اسرائیل میں اسحاق رابن فوج میں نوکری کرتے رہے اور سنہ 1966 میں فوج کے اعلیٰ ترین افسر یعنی چیف آف سٹاف بن گئے۔
عربوں کے زخم مندمل نہیں ہوئے۔ اسرائیل یہ کبھی فراموش نہیں کر سکا کہ اس کے ہمسایہ ملکوں نے اس کو صفحہِ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی۔ دونوں کو پوری طرح احساس تھا کہ اگلی جنگ جلد یا بدیر ضرور ہو گی۔
خراب ہمسائے
اسرائیل اور عرب ہمسائیوں کے لیے باہمی نفرت اور ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھنے کے لیے بہت سی وجوہات موجود تھیں۔
سنہ 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں سرد جنگ نے بداعتمادی اور کشیدگی کی فضا کو مزید ایندھن فراہم کیا۔
سویت یونین نے مصر کو جدید فضائی طیارے فراہم کیے۔ اسرائیل کے امریکہ کے ساتھ قریبی دوستی تھی لیکن یہ ابھی امریکی دفاعی امداد حاصل کرنے والا سب سے بڑا ملک نہیں بنا تھا۔ سنہ 1960 میں اسرائیل نے فرانس سے طیارے اور برطانیہ سے ٹینک حاصل کیے۔
سنہ 1948 کے بعد اسرائیل نے اپنی پوزیشن کو مسحتکم کرنے کے لیے انتھک محنت کی اور اس دوان اس نے مزید دس لاکھ یہودی تارکین وطن کو آباد کیا۔ اسرائیل میں آنے والوں کے لیے فوج میں خدمات انجام دینا ایک لازمی شرط تھی۔
اسرائیل نے ایک سریع الحرکت اور ہلاکت خیز فوج تیار کر لی اور 1967 میں وہ جوہری ہتھیاروں کے حصول کے قریب تھا۔
اسرائیل میں پیدا ہونے والے نئے اسرائیلی جنھیں 'سبراس' (عبرانی زبان میں ایک ترش پھل کا نام) کہا جاتا تھا مختلف ملکوں میں آباد یہودیوں کی ماضی میں کی گئی غلطیوں کو نہ دہرانے کے لیے پرعزم تھے۔
رابن اسرائیل فوج کے بارے میں پراعتماد تھے۔ ان کا مشن ہر جنگ جیتنا تھا اور اسرائیل ایک جنگ بھی ہارنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔
مصر کی افواج اور اس کے اتحادی شام کی فوجیں جو کم تربیت یافتہ تھیں، بلند و بانگ دعوے کرنے لگیں اور یہ فراموش کر بیٹھیں کہ 1956 میں نہر سویز کے بحران سے حاصل ہونے والی سیاسی فتح کے بعد انھیں فوجی شکست کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔
جمال عبدالناصر نے عرب دنیا میں قومی تحریک پر توجہ مرکوز رکھی جس کے بارے میں ان کے رفقا کا خیال تھا عربوں کے قومی تفاخر کو بحال کر کے اسرائیل سے بدلہ لیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے اپنے سب سے قریبی ساتھی فیلڈ مارشل عبدالحکیم عامر کو مسلح افواج کا کمانڈر ان چیف بنا دیا۔
مصر ایک قدیم ملک ہے جس میں عدم تحفظ کا احساس نہیں تھا جو اسرائیل جیسے جارح ملک کو کھائے جاتا ہے۔
عبدالحکیم عامر کا سب سے اہم مشن جو انھوں نے بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا، وہ نوجوان افسران کو خوش اور مطمئن رکھ کر فوج کی وفاداری کو یقینی بنانا تھا۔
فوج کی لڑائی کی صلاحیت کو بہتر بنانا ان کی ترجیحات میں نہیں تھا۔
سنہ 1967 تک مصر یمن کی جنگ میں ملوث ہو چکا تھا جو اس کا اپنا ویتنام بن گیا۔ وہ بہتر انداز میں جنگ نہیں کر سکا۔ لیکن ناصر عامر کی جگہ کوئی بہتر فوجی نہیں لا سکتے تھے۔
شام کی فوج بھی سیاست کا شکار ہو چکی تھی اور سویت یونین کی طفیلی ریاست بن گئی تھی اور وہاں کئی جرنیل فوجی بغاوتوں کے نتیجے میں برسراقتدار آئے۔
عرب قومیت، سوشلزم اور اتحاد کی بہت بات کرتے تھے لیکن حقیقت میں وہ بری طرح تقسیم کا شکار تھے۔
شام اور مصر کی قیادت اپنے خلاف سازشوں کی شکایت کرتے تھے جو ان کے بقول اردن اور سعودی عرب کی بادشاہتیں کر رہی تھیں۔
سعودی عرب اور اردن کی بادشاہتیں مصر اور شام میں مقبول فوجی آمروں سے خائف تھیں کہ وہ پوری عرب دنیا میں انقلابی جذبات بھڑکا سکتے تھے۔
اردن کے فرمانروا شاہ حسین برطانیہ اور امریکہ کے قریبی اتحادی تھے۔ اردن وہ واحد اسلامی ملک ہے جو سنہ 1948 کی جنگ میں فاتح رہا تھا۔
شاہ حسین کے دادا شاہ عبداللہ کے یہودی ایجنسی سے خفیہ روابط تھے جو برطانیہ کی حاکمیت والے فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کی نمائندگی کرنے والی مرکزی تنظیم تھی۔ انھوں نے 1948 میں پہلے سے طے شدہ برطانوی انخلاء کے بعد اس زمین کو آپس میں بانٹ لینے کی گٹھ جوڑ کر رکھی تھی۔
سنہ 1951 میں ایک فلسطینی قوم پرست نے شاہ عبداللہ کو بیت المقدس کی الاقصیٰ مسجد میں ہلاک کر دیا۔ 15 برس کے شہزادہ حسین نے اپنی دادا کو ہلاک ہوتے دیکھا اور اس کے اگلے دن پہلی مرتبہ بندوق اٹھائی۔ ایک سال بعد وہ بادشاہ بن گئے۔
سنہ 1948 کی جنگ کے بعد اردن اور اسرائیل قریب آئے لیکن اتنے قریب نہیں آ سکے کہ امن ممکن ہو سکے۔ شاہ حسین کے دور میں بھی خفیہ مذاکرات جاری رہے۔ وہ اردن کی کمزوری سے بخوبی واقف تھے۔
اس کا زیادہ تر علاقہ صحرا پر مشتمل تھا اور اس کی اکثریتی آبادی عدم اطمینان کا شکار فلسطینی پناہ گزینوں پر مشتمل تھی۔
شامی علامات
سنہ 1967 کی جنگ عرب اور اسرائیلی فوجوں کے درمیان طویل کشیدگی اور خوفناک سرحدی جھڑپوں کے بعد شروع ہوئی۔
مصر اور اسرائیل کے درمیان سرحد عموماً پرامن رہی۔ اسرائیل کی شمالی سرحد مستقل کشیدگی کا شکار تھی جہاں متنازع علاقوں اور دریائے اردن کے پانی کا رخ موڑنے کی مصری فوج کی کوششوں کی وجہ سے جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں۔
شام نے فلسطینی گوریلا جنگجوؤں کو پناہ دے رکھی تھی جو اسرائیل کے اندر حملے کرتے رہتے تھے۔
مغربی قوتوں کو اس بارے میں کوئی ابہام نہیں تھا کہ مشرق وسطیٰ میں سنہ 1967 کی جنگ سے قبل کون سی فوجی طاقت کا توازن کس کے حق میں تھا۔ امریکہ کے جوائنٹ چیف آف سٹاف کا کہنا تھا کہ اسرائیل کم از کم اگلے پانچ برس تک کسی بھی عرب اتحاد کی مشترکہ فوجوں کا تنہا مقابلہ کر سکتا ہے۔
سنہ 1967 میں تل ابیب میں تعینات برطانوی فوجی اتاشی کا اسرائیلی فوج کے بارے میں ایک رپورٹ میں کہنا تھا کہ کمان، تربیت، دفاعی سازو سامان اور رسد کے شعبوں میں اسرائیلی فوج جنگ کے لیے اس سے زیادہ کبھی تیار نہیں تھی۔
اعلیٰ تربیت یافتہ، خودانحصار، سخت جان اسرائیلی فوجیوں میں اپنے ملک کے دفاع کے لیے لڑنے کا جذبہ اوج پر تھا اور وہ جنگ پر جانے کے لیے تیار تھے۔
سرحدی جنگیں کشیدگی کے باعث شروع ہوئیں۔ فلسطینی گوریلا ایک سرحدی باڑ توڑ کر اندر آئے۔ اسرائیل نے اس حملے کو دہشت گردی قرار دے کر مذمت کی اور اس طرح کے حملے روکنے کے لیے اس نے بھرپور جوابی کارروائی کی۔
اردن کے زیر قبضہ غرب اردن کے ایک گاؤں سیموا میں نومبر 1966 میں اسرائیلی فوج کی ایک بڑی کارروائی کے بعد اسرائیل کے اندر ایک بارودی سرنگ کا حملہ ہوا۔
غرب اردن میں اسرائیلی فوجی کارروائی پر فلسطینیوں میں خوب شور شرابہ ہوا۔ حسین دہشت زدہ تھے۔ انھوں نے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کو بتایا کہ وہ تین برس سے اسرائیل کے ساتھ خفیہ مذاکرات کر رہے ہیں اور ان کے اسرائیلی رابطہ کار نے جس دن کارروائی کی گئی اس صبح
بھی یہ یقین دلایا تھا کہ جوابی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
امریکہ کا رویہ ہمدردانہ تھا۔ انھوں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی اس قرار داد کی بھی حمایت کی جس میں سیموا کے حملے کی مذمت کی گئی۔
شاہ حسین نے غرب اردن میں مارشل لاء نافذ کر دیا اور انھیں تقریباً یہ یقین ہو گیا تھا کہ غم اور غصے کا شکار فلسطینی ان کا تخت الٹ دیں گے۔
انھیں یہ خوف لاحق ہو گیا کہ ان کی فوج میں جمال عبدالناصر کے حمایتی فوجی افسر ان کے خلاف بغاوت کر دیں گے اور اسے بہانا بنا کر اسرائیل غرب اردن اور مشرقی بیت المقدس کو ہڑپ کر جائے گا۔
وہ اس حشر کا شکار نہیں ہونا چاہتے تھے جو مشرق وسطیٰ میں دوسرے ہاشمی فرمانروا اور ان کے رشتے کے بھائی اور دوست عراق کے بادشاہ فیصل کا مقدر بنا تھا۔
عراق کے شاہ فیصل کو ان کے محل کے دالان میں سنہ 1958 کی بغاوت میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
شام اور اسرائیل کی سرحد پر بڑھتی ہوئی کشیدگی سے جنگ کے بادل گہرے ہوتے چلے جا رہے تھے۔ شاہ حسین کے برعکس جن کے بارے میں امریکیوں کو بھی یقین تھا کہ وہ فلسطینیوں کی چھاپہ مار کارروائی روکنے کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں، شام فلسطینیوں کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا۔
اسرائیل متنازع علاقوں پر اپنے دعوؤں کو جارحانہ انداز میں آگے بڑھا رہا تھا جن میں غیر فوجی علاقوں میں بکتر بند ٹریکٹروں کے ذریعہ گھاس کی کٹائی کا عمل بھی شامل تھا۔
سات اپریل سنہ 1967 کو شام اور اسرائیل میں بھرپور جنگ شروع ہو گئی۔ اسرائیل کی فوج نے شامی افواج کو زبردست نقصان پہنچایا۔
اگلی صبح ایک برطانوی سفارت کار کے مطابق بیت المقدس میں اسرائیلی فوجی قوت اور عربوں کی بے بسی پر ششدر فلسطینی نوجوان یہ کہتے نظر آئے کہ مصر کہاں ہے اور جمال عبدالناصر پر عملی اقدام کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا تھا۔
اسرائیل قومی تفاخر کے جذبے سے سرشار تھا لیکن چند سیاست دان اور فوجی خدشات کا شکار تھے۔ اسرائیلی پارلیمان کی ایک راہداری میں فوج کے سابق چیف آف آرمی سٹاف موشے دایان کا آمنا سامنا جنرل ایزر وائزمین میں سے ہوا جو اسحاق رابن کے دستِ راست تھے۔ موشے دایان نے ان سے پوچھا کیا تم ہوش میں تو ہو۔ تم تو ملک کو جنگ میں دھکیل رہے ہو۔'
شام اور فلسطینی گوریلا گروپ اسرائیل کو اشتعال دلانے کی ہرممکن کوشش کر رہے تھے اور اسرائیل ہر اشتعال انگیزی کا بھرپور جواب دینے کے لیے آمادہ تھا۔
مصر اور شام کو نظر آ رہا تھا اور برطانیہ اور امریکہ بھی دیکھ رہے تھے کہ اسرائیل بڑی جنگ کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
ایک نیوز ایجنسی کی مبالغہ آمیز رپورٹ میں اسرائیلی فوجی ذرائع کے حوالے سے کہا گیا کہ اگر فلسطینیوں کی طرف سے کارروائیاں جاری رہیں تو اسرائیل محدود فوجی کارروائی کرے گا جس کا مقصد دمشق میں شام کی فوجی کا تخت الٹنا ہو گا۔
اس خبر کا ذریعہ فوجی انٹیلی جنس کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل ہارون ایرو تھے۔ انھوں نے شامی حکومت کے خاتمے کو ممکنہ اقدامات میں سے انتہائی اقدام قرار دیا لیکن اس خبر کو شام اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ، دونوں نے بڑی سنجیدگی سے لیا۔
اور پھر سوویت یونین کی مداخلت نے سب کچھ بدل دیا۔ 13 مئی کو ماسکو نے قاہرہ کو صاف الفاظ میں خبردار کر دیا کہ اسرائیل شام کے ساتھ اپنی سرحد پر فوجیوں جمع کر رہا ہے اور وہ ایک ہفتے کے اندر اندر شام پر حملہ کر دے گا۔
اس سوال پر اس دن سے بحث ہو رہی ہے کہ آخر سوویت یونین نے اس جنگ میں پہلی گولی کیونکر چلائی تھی۔ دو اسرائیلی تاریخ دانوں، ایزابیلا گنور اور گڈیون ریمیز، کا خیال ہے کہ سوویت یونین نے جان بوچھ کر تنازع شروع کرایا تھا۔ ان دونوں کا کہنا ہے کہ اصل میں سوویت یونین اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کے منصوبے کو روکنا چاہتا تھا اور اس لڑائی میں اپنی فوجیں بھیجنے تک کے لیے تیار تھا۔
اُس وقت ایک درمیانے درجے کے سوویت افسر نے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کو بتایا تھا کہ سوویت یونین عربوں کو اکسا رہا تھا کہ وہ امریکہ کے لیے مسائل پیدا کریں۔ اس وقت امریکہ کو ویتنام میں ایک بڑے مسئلے کا سامنا تھا اور اگر مشرق وسطیٰ میں ایک نئی جنگ چھڑ جاتی تو امریکہ کے لیے ایک نیا دردِ سر پیدا ہو سکتا تھا۔
سچ تو یہ ہے کہ ان دنوں اسرائیل اور اس کے عرب ہمسائیوں کو کسی کے اکسانے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ چنانچہ دونوں فریقوں نے اُس لڑائی میں چھلانگ لگا دی جس کی توقع دونوں ایک عرصے سے کر رہے تھے۔
ناصر کا جوا
سوویت یونین کی جانب سے خبردار کیے جانے کے محض 24 گھنٹے بعد مصری فوج کے کمانڈر، فیلڈ مارشل حکیم عامر نے نے اپنی فوج کو جنگ کے لیے پوری طرح تیار رہنے کا حکم دے دیا
فوج کے چیف آف آپریشنز جنرل انور القادی نے اپنے کمانڈر کو بتایا کہ بہترین فوجیوں سمیت ملک کی آدھی سے زیادہ فوج یمن میں الجھی ہوئی ہے اور اس وقت یہ فوج اسرائیل کے ساتھ لڑنے بالکل قابل نہیں ہے۔
اس پر عامر نے جنرل القادی کو ایک مرتبہ پھر یقین دلایا کہ لڑائی منصوبے کا حصہ ہے ہی نہیں، بلکہ وہ اسرائیل کی جانب سے شام کو دے جانے والی دھمکیوں کے جواب میں محض طاقت کا 'مظاہرہ' کرنا چاہتے ہیں۔
دو دن بعد مصر نے اسرائیل سے جڑی سرحد پر 1956 سے گشت کرنے والے اقوامِ متحدہ کے مبصرین کو نکال کر اور اپنی فوج کو صحرائے سینا میں تعینات کر کے خود کو اس بحران میں مزید پھنسا لیا۔
اس وقت چونکہ اسرائیلی فوج کے سر پر شام سوار تھا، اس لیے اسرائیل نے مصر کے ساتھ صبر کا مظاہرہ کیا۔.
اس وقت شلومو گزیت فوجی انٹیلی جنس کے سربراہ تھے۔ انھوں نے امریکی سفارتکاروں کو بتایا کہ اسرائیل کو مصر کے جارحانہ رویے پر بہت حیرت ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اسے مصر کی جانب سے محض 'لفظوں کی جنگ' سمجھتا ہے، اور اسرائیل مصر کی دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لائے گا تاکہ وقتیکہ کہ مصر بحیرہ احمر میں آبنائے طیران کو بند کر کے ایلات کی بندرگاہ کو اسرائیل کے لیے بند نہیں کر دیتا۔
مصر میں اسرائیل کے خلاف جذبات کو مہمیز دینے میں جمال عبدالناصر کے پسندیدہ ریڈیو سٹیشن 'صوت العرب' نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔
قاہرہ میں قائم اس ریڈیو سٹیشن کی نشریات پورے مشرق وسطیٰ میں سنی جاتی تھیں اور یہ جمال ناصر کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم آلہ بن چکا تھا۔
اسرائیل نے ناصر کے اقوام متحدہ کے فوجیوں کو نکالنے اور صحرائے سینا میں مزید فوج بھیجنے کے فیصلوں پر کسی خاص رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ چنانچہ ناصر نے اسرائیل کو مزید زِچ کرنے کے لیے ایلات کی بندرگاہ کو ایک مرتبہ پھر بند کر دیا۔
صحرائے سینا میں مصری فضائیہ کے اڈے پر تقریر کرتے ہوئے جمال ناصر نے اعلان کیا کہ ’اگر اسرائیل ہمیں جنگ کی دھمکی دیتا ہے، تو ہم اس کا استقبال کریں گے۔‘
ناصر کی خواہش تھی کہ دنیا بھر میں ان کی شناخت ایک ایسے عرب رہنما کی بن جائے جو یہودی ریاست کے سامنے کھڑا ہونے کی جرات رکھتا ہے۔ چنانچہ جدید لڑاکا طیارے اڑانے والی فضائیہ کے ہوابازوں کے درمیان کھڑے ناصر کی تصویر کی دنیا بھر میں خوب تشہیر کی گئی۔
اس تصویر وہ ایک ایسے بچے کی طرح خوش دکھائی دے رہے ہیں جس نے کوئی ایسی لکیر عبور کر لی ہو جس کی توقع بچے سے نہیں کی جاتی۔
مصر کی جانب سے اس اعلان کے صرف 42 منٹ بعد ہی امریکہ نے نائب صدر کے مصر کے دورے کی امید دلا کر کہا کہ اگر اس تنازعے کو بڑھنے نہ دیا جائے تو یہ دورہ ممکن ہو سکتا ہے۔ اس وقت تک امریکی صدر لنڈن جانسن ساری صورت حال پر خاصے برہم ہو چکے تھے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل یو تھاٹ امن مشن پر مشرق وسطیٰ کی جانب سفر شروع کر چکے تھے۔ اس موقعے پر ناصر نے اپنے اس وعدے کا اعادہ کیا کہ مصر پہلی گولی نہیں چلائے گا۔
لیکن اپنے دورے کے اختتام پر یو تھاٹ کا تجزیہ یہی تھا کہ اگر ایلات کی بندرگاہ کا محاصرہ ختم نہیں ہوتا تو جنگ یقینی ہے۔
حملے کے لیے دباؤ
جمال ناصر کی جانب سے آبنائے طیران کے بند کیے جانے کے صرف ایک دن بعد ہی اسرائیلی وزیر اعظم لیوی ایکشول نے اپنی فوجوں کو سرحد کی جانب پیش قدمی کا حکم دے دیا۔ اس حکم کے 48 گھنٹے کے اندر اندر پچاس سال تک کی عمر کے دو لاکھ 50 ہزار فوجی اور نیم فوجی دستے میدان میں اترنے کے لیے تیار تھے۔
جنرل رابن پر دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ تمام شواہد بتا رہے تھے کہ اسرائیل یہ جنگ جیت جائے گا، لیکن جنرل رابن خود کو قائل کر چکے تھے کہ وہ اسرائیل کو آگ میں جھونکنے جا رہے ہیں۔
وہ اس قدر ذہنی دباؤ کا شکار تھے کہ سگریٹ کی کئی ڈبیاں پینے کے بعد وہ تھک ہار کے بستر پر گر گئے۔ وہ تقریباً 24 گھنٹے سوتے رہے اور پھر جا گے تو واپس دفتر لوٹے۔
جہاں تک جنگ کو رکوانے کی بین الاقوامی کوششوں کا تعلق ہے تو سفارتکاری کی دنیا میں ان کا آغاز تنازع شروع ہوتے ہی ہو گیا تھا۔ اسرائیلی وزیر خارجہ، ابا ایبان، نے بھی پہلی پرواز پکڑی اور صدر جانسن سے ملاقات کے لیے واشنگٹن روانہ ہو گئے۔
اس سے پہلے جب سنہ 1956 میں اسرائیل نے برطانیہ اور فرانس کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کر کے مصر پر حملہ کیا تھا، اس وقت امریکہ نے نہ صرف اسرائیل کو جارح ملک قرار دیا تھا بلکہ اسے ان علاقوں سے نکل جانے پر مجبور کر دیا تھا جن پر اسرائیل قبضہ کر چکا تھا۔ اسی لیے اِس مرتبہ اسرائیل کی کوشش تھی کہ اسے امریکہ کی تائید حاصل ہو جائے۔
صدر جانسن نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ پہلی گولی اس کی طرف سے نہیں چلنی چاہیے۔ انھوں نے اسرائیلی وزیر خارجہ کو کہا کہ وہ مصر کی فکر نہ کریں۔ مصر کی جانب سے جنگ کے امکانات کم ہی ہیں، اور اگر ایسا ہوتا ہے تو (مجھے پتہ ہے) ’آپ مار مار کے اُس کا بھرکس نکال دیں گے۔‘
صدر جانسن نے ملاقات میں یہ اشارہ بھی دیا کہ اگر موزوں ہوا تو امریکہ شاید اپنے اتحادیوں کی بحریہ کے ساتھ مل کر آبنائے طیران کو کھولنے کے لیے حملہ بھی کر سکتا ہے۔
ایبا ایبان نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اسی رفتار پر چلیں گے جس پر امریکہ چل رہا ہے، لیکن اسرائیلی فوج حملے کے لیے تیار تھی اور ان کے جرنیل بھی 
سیاستدانوں کی تاخیر سے مایوس ہو رہے تھے۔
فوجی ایبان کے رویے سے بہت چِڑ چکے تھے اور وزیر خارجہ کا انداز گفتگو اور ان کے شہری طور طریقے ان فوجیوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہے تھے۔
اسی لیے جب 28 مئی کو اسرائیلی کابینہ نے مزید دو ہفتے تک انتظار کا فیصلہ کیا تو جرنیل بہت برہم ہوئے۔ اُن کے خیال میں یہ مسئلہ صرف آبنائے طیران کے کھلنے کا نہیں تھا، بلکہ ان کی نظر خطے کی بڑی تصویر پر تھی۔
جرنیلوں کے خیال میں جمال ناصر تمام عرب دنیا کو اسرائیل کے خلاف متحد کر رہے تھے اور اسی مقصد کی خاطر انھوں نے اپنی فوج صحرائے سینا میں بھیج دی تھی تاکہ وہاں سے اسرائیلی سرحد پر براہ راست حملہ کیا جا سکے۔
اردن کا مخمصہ
جمال ناصر سنہ 1956 سے عرب دنیا کے واحد متفقہ رہنما بن چکے تھے۔ اور جب وہ عربوں کی نفرت کی علامت اسرائیل کے خلاف کھڑے ہوئے تو عربوں میں ان کی سیاسی حیثیت مزید مستحکم ہو گئی۔
انھوں نے 28 مئی کو قاہرہ میں غیر ملکی صحافیوں سے ایک ملاقات کی جس میں انھوں نے صحرائے سینا اور آبنائے طیران میں بحران کو فلسطین کے خلاف اسرائیل کی 'جارحانہ کارروائیوں' سے نسبت دی۔
جمال ناصر کا کہنا تھا کہ چونکہ اسرائیل سنہ 1948 میں فلسطینیوں پر ڈاکہ ڈال کر ان کے علاقے چھین لیے ہیں، اس لیے اب اسرائیل کے ساتھ امن بقائے باہمی کے تحت رہنا ممکن نہیں رہا۔
جمال ناصر کے اعتماد نے اردن کے شاہ حسین کو ایک کونے میں دھکیل دیا۔ حسین ناصر پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔ انھوں نے عمان میں سی آئی اے کے سربراہ کو بتایا کہ ان کے خیال میں اسرائیل کا اصل ہدف غربِ ادرن پر قبضہ کرنا ہے۔
حسین کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی اپنی بقا اور بادشاہت تھی۔ اسی لیے انھوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی جمال ناصر کے ساتھ مفاہمت کا فیصلہ کر لیا۔
جنگ کے کچھ سال بعد انھوں نے تاریخ دان، ایوی شلیم سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 'مجھے معلوم تھا کہ جنگ ہو کے رہے گی۔ مجھے پتہ تھا کہ ہم یہ جنگ ہار جائیں گے۔ مجھے معلوم تھا کہ اردن خطرے میں ہے۔ ہمیں دونوں طرف سے خطرہ تھا، تو ایک حل تو یہ تھا کہ ہم وہی کرتے جو ہم نے کیا، اور اگر ہم اس تنازع سے باہر رہتے تو ہمارا ملک دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا۔'
خوف اور خطرات
اگر اسرائیلی جرنیلوں کو وہ کرنے دیا جاتا جو وہ چاہتے تھے تو انھیں یقین تھا کہ وہ اسرائیل کو زبردست فتح سے ہمکنار کر سکتے تھے۔ لیکن اسرائیل میں فوج کے اندر کے معاملات پر سخت سینسر کی وجہ سے جرنیلوں کی باتیں باہر نہیں آ سکتی تھیں۔
اور دوسری جانب عرب ریڈیو سٹیشنوں اور اسرائیلی اخبارات میں ایک دوسرے کے خلاف خوفناک دھمکیاں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورے اسرائیل پر ناامیدی کے بادل چھا گئے۔
حکومت نے متوقع اموات کے پیش نظر تابوت اکھٹے کرنا شروع کر دیے اور مذہبی رہنماؤں نے ہنگامی بنیادوں پر عوامی پارکوں کو قبرستانوں میں تبدیل کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔
ان حالات میں وزیر اعظم لیوی ایشکول کی 28 مئی کی تقریر نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ تقریر کے دوران ان کی زبان لڑکھڑا رہی تھی اور وہ الفاظ ادا نہیں کر پا رہے تھے۔
تقریر کے بعد ایک ملاقات میں اسرائیلی جرنیلوں نے وزیر اعظم کے خوب لتے لیے۔ جب تمام جرنیل انھیں برا بھلا کہہ رہے تھے تو بریگیڈیئر جرنل ایریل شیرون نے چیخ کر کہاکہ مسٹر وزیر اعظم نے 'ہم نے اپنا سب سے بڑا ہتھیار کھو دیا ہے، اور وہ ہتھیار ہے ہمارا خوف۔'
اس ملاقات میں موجود بہت سے کمانڈروں نے نہایت سخت اور تضحیک آمیز الفاظ استعمال کیے اور اپنی حکومت کا موازنہ ان یہودی رہنماؤں سے کرنا شروع کر دیا جو یورپ سے جلاوطنی کے بعد غلاموں کی طرح رحم کی بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
یورپ سے آئے ہوئے اپنے سیاسی رہنماؤں کے برعکس سنہ 1950 اور 60 کی دہائیوں میں اسرائیل میں پیدا ہونے والے لوگوں کی پرورش اس انداز میں ہوئی تھی کہ وہ یورپی یہودیوں کو کمزور سمجھتے تھے کہ یہ لوگ نازیوں کے ظلم کے خلاف کھڑے نہیں ہوئے اور اُن کا ہر ظلم برداشت کیا۔
اکثر اسرائیلی وزرائے اعظم کی طرح ایشکول کے پاس وزارت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ وزارت دفاع کا قلمدان بھی تھا۔ لیکن جلد ہی انھیں مجبوراً وزارت دفاع کا عہدہ اسرائیل کے ایک جنگی ہیرو، ایک آنکھ والے جنرل موشے دان کو دینا پڑ گیا۔
موشے دان کی شہرت یہ تھی کہ وہ ہر وقت جنگ کے لیے تیار رہنے والے شخص ہیں۔
جنگ سے پہلے آخری دن
جمال ناصر ایک بڑا جُوا کھیل رہے تھے۔ اگرچہ مصر کے پاس ایک جدید فضائیہ تھی، لیکن اس کی برّی فوج کمزور تھی۔ ناصر کے جرنیلوں کو بھی معلوم تھا کہ ناصر کی خطروں سے کھیلنے کی عادت انھیں ایک تباہ کن جنگ کے دہانے پر لے آئی ہے۔
دوسری جانب جنگ کو روکنے کی بین الاقوامی کوششیں بھی ناکام ہو چکی تھیں۔ برطانیہ اور امریکہ کے پاس لے دے کے یہی حل بچا تھا کہ بحرہ احمر میں مجوزہ بحری ٹاسک فورس کسی طرح آبنائے طیران کو مصر کے ہاتھوں سے چھڑا لے لیکن برطانوی اور امریکی بحریہ کے سربراہوں کو یہ حل بالکل پسند نہیں تھا۔ انھیں فکر تھی کہ اگر وہ آبنائے طیران کو چھڑوا نہ سکے تو یہ جمال ناصر کی ایک اور فتح ثابت ہو گی۔
اور پھر جمعہ دو جون کو اسرائیلی جرنیلوں نے اپنی دفاعی کابینہ کو جنگ کا حتمی فیصلہ پیش کر دیا۔ انھوں نے سیاستدانوں کو بتایا کہ وہ مصر کی پٹائی کر سکتے ہیں، لیکن وہ اس میں جتنی تاخیر کریں گے یہ کام اُتنا ہی مشکل ہو جائے گا۔
اس سے چند دن پہلے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے سربراہ میئر امیت بھی بھیس بدل کر ایک نقلی پاسپورٹ پر واشنگٹن کا سفر کر چکے تھے۔ وہ
جنگ کا مزید انتظار نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ 50 سال تک کی عمر کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو طویل عرصے کے لیے فوج میں بلانے کے بعد ملک کی معیشت تباہ ہو جائے گی۔
امریکیوں نے بھی اسرائیل کو واضح اشارہ دے دیا۔ امریکیوں کو بتا دیا گیا تھا کہ اب اسرائیل جنگ کرنے جا رہا ہے اور وہ (امریکی) اس جنگ کو روکنے کی کوشش نہیں کریں گے۔
موساد کے سربراہ میئر امیت جب طیارے میں واپس اسرائیل آئے تو امریکہ میں اسرائیل کے سفیر ایب ہارمن بھی ان کے ہمراہ تھے اور اُس طیارے میں تمام مسافروں کے لیے گیس ماسک بھی موجود تھے۔۔ وہ سنیچر تین جون کو تل ابیب کے ہوائی اڈے پر اترے۔
ایک کار ان دونوں کو لے کر سیدھی وزیر اعظم ایشکول کی رہائش گاہ پر پہنچی، جہاں وہ اپنے وزرا کے ہمراہ اِن دونوں کا انتظار کر رہے تھے۔ میئر امیت کی خواہش تھی کہ فوراً جنگ شروع کر دی جائے، جبکہ ایب ہارمن چاہتے تھے ہفتہ بھر انتظار کیا جائے۔
موشے دایان نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'اگر ہم سات، نو دن تک انتظار کرتے ہیں تو ہزاروں لوگ مر چکے ہوں گے۔ پہلا حملہ ہمیں کرنا دینا چاہیے، اور جہاں تک سیاسی پہلو کا تعلق ہے، وہ ہم حملے کے بعد دیکھ لیں گے۔'
کمرے میں موجود کسی بھی شخص کو اب یہ شک نہیں رہا تھا کہ جنگ کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ اسرائیل جنگ کرنے جا رہا ہے۔
اگلی ہی صبح کابینہ نے بھی اس فیصلے کی توثیق کر دی۔
جمال ناصر کی پیشنگوئی یہ تھی کہ اسرائیل چار یا پانچ جون کو حملہ کر دے گا۔ ان کی اس پیشنگوئی کی بنیاد وادیِ اردن اور اسرائیل کی جانب عراقی توپ خانے کی پیش قدمی تھی۔
اچانک حملہ
پانچ جون صبح سات بج کر 40 منٹ تل ابیب میں وزارت دفاع کے دفتر میں ہر ایک سانس روکے بیٹھا تھا کیونکہ حملے کا لمحہ قریب آ چکا تھا۔ اسرائیلی جنگی طیاروں کی بمباری کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر تھا کہ وہ دشمن کو سوچنے کا موقع ہی نہ دیں اور نہایت سرعت سے مصر سے آغاز کر کے عرب فضائیہ کے تمام اڈّوں کو تباہ کر دیں۔
اسرائیلی فضائیہ ان حملوں کی تیاری کئی سالوں سے کر رہی تھی۔ اس مقصد کے لیے جاسوس طیاروں کی مدد سے انھوں نے عرب فضائیہ کے تمام اڈوں کا بغور مطالعہ کر لیا تھا۔
مصر اور دیگر عرب ملکوں کے برعکس اسرائیلیوں نے اپنی پوری تیاری کی تھی۔ انھوں نے مصر، اردن اور شام کے ہوائی اڈوں کی مکمل تصویر حاصل کرنے کے لیے سینکڑوں جاسوس مشن بھیجے۔ ہر پائلٹ کے پاس اہداف کی ایک کتاب تھی جس میں اس کے محل وقوع اور دفاع سے متعلق تفصیل موجود تھی۔ حتیٰ کے انھوں نے ریڈیو کالز سن کر بڑے عرب کمانڈروں کی آوازوں کو شناخت کرنے کے لیے نظام بنا لیا تھا۔
یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ فیلڈ مارشل عامر اور مصر کی اعلی قیادت سینا میں موجود ایک ہوائی اڈے بیر تمادا میں ملاقات کر رہے تھے۔ اجلاس شروع ہونے کو تھا کہ اسرائیلی جنگی طیاروں نے بم گرانا شروع کیا۔ فوجی جنرل اتنے حیران تھے کہ ان کے ذہنوں میں پہلا خیال بغاو ت کا
آیا یا مصر کے ساتھ کسی قسم کے دھوکے کا۔
عامر اپنا جہاز اڑانے میں کامیاب ہو گئے لیکن ایک ایسا وقت بھی آیا کہ انہیں جہاز اتارنے کے لیے کوئی جگہ نہیں مل رہی تھی کیونکہ مصر کے سبھی ہوائی اڈوں پر حملہ کیا گیا تھا۔
ادھر تل ابیب میں ایزر وائزمین بہت خوش تھے۔ حملے ان کی توقع سے اچھے جا رہے تھے۔ انھیں دشمن کے خلاف حیران کن کامیابی ملی تھی۔ انھوں نے اپنی اہلیہ کو فون کیا ’ہم جنگ جیت گئے۔‘ وہ چلائے تھے۔
اس دن اسرائیل نے اردن اور شام کی فوج کے پیشتر ہوائی اڈے تباہ کر دیئے تھے۔ فضاؤں پر اسرائیل کا قبضہ تھا۔
اسرائیل نے شاہ حسین کو متنبہ کیا کہ جنگ میں شامل نہ ہوں لیکن انھوں نے ذہن بنا لیا تھا اس لیے انھوں نے اردن کی قابل فوج کو مصر کے نااہل جنرل کے ماتحت دے دیا۔ یروشلم میں لڑائی کے آغاز کے آدھے دن بعد ہی اردن کی فوج نے فائر کھول دیا۔ شاہ حسین نے اسرائیل کی جانب سے جنگ سے دور رہنے کی صورت میں بچ جانے کے اشاروں کو درگزر کیا۔ 1966 میں سمووا ریڈ کے بعد انھوں نے اسرائیل کی یقین دہانی پر بھروسہ نہیں کیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر وہ مصر کے ساتھ فوجی اتحاد سے نکلے تو وہ اپنا تخت کھو دیں گے۔
جنوب میں اسرائیلی زمینی فوج صحرائے سینا میں تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔ ادھر مصری فوج بھی بہادر سے لڑ رہی تھی لیکن وہ اسرائیلی فوج کی طرح حاضر دماغی میں تربیت یافتہ، لچک دار اور پھرتیلے نہیں تھے۔
قاہرہ میں فوج کے صدر دفتر میں کمانڈرز گھبراہٹ کا شکار ہو رہے تھے۔ جنرل صلاح الدین ہدیدی مان چکے تھے جنگ آدھی ہاری جا چکی ہے اور یہ مصر کے لیے بدترین شکست تھی۔
لیکن باہر سڑکوں پر لوگ جشن منا رہے تھے۔ حکمران جماعت کی جانب سے فراہم کی گئی بسوں پر لوگ شہر میں آ رہے تھے۔ وائس آف عرب خبروں اور سچ کا ایک قابلِ بھروسہ ذریعہ تھا اور وہ سراب پھیلا رہا تھا۔
رات آٹھ بج کر 17 منٹ پر وہ یہ خبر دے رہا تھا کہ 86 اسرائیلی طیارے مار گرائے گئے اور مصر ٹینک اسرائیل میں گھس گئے ہیں۔ صحرائے سینا میں موجود جنرل محمد عبدالغنی بڑھتی ہوئی دہشت کے ساتھ یہ خبر سن رہے تھے اور وہ جانتے تھے کہ یہ سب بکواس ہے۔
برسوں بعد میں نے احمد سے پوچھا کہ انھوں نے آن ائر جھوٹ کیوں بولا۔ انھوں نے اپنا دفاع کیا: ’آپ لوگوں سے لڑنے کے لیے کہہ
رہے ہیں رقص کرنے کے لیے نہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ نشریات ہمارا سب سے طاقتور ہتھیار تھیں۔ ہمارے کئی سامع ان پڑھ تھے اس لیے ریڈیو ان تک رسائی کا سب سے اہم ذریعہ تھا۔‘
1967 میں جب شکست کی درست خبر سامنے آئی ناصر اور عامر اپنے مسکن میں لوٹ آئے۔ انور سادات نے بحیثیت صدر اسرائیل کے ساتھ تاریخی امن معاہدہ کیا جس کے بعد انھیں انہی کے محافظ نے قتل کر دیا۔
ایک نیا منظر نامہ
پانچ دنوں میں اسرائیل نے مصر، اردن اور شام کی فوجوں کو اکھاڑ پھینکا۔ اس نے مصر سے غزہ کی پٹی اور صحرائے سینا، شام سے گولان کی پہاڑیوں اور اردن سے مغربی پٹی اور مشرقی یروشلم کے علاقے چھین لیے۔
دو ہزار سال میں پہلی مرتبہ یہودیوں کے مقدس مقام یروشلم پر یہودیوں کا قبضہ ہوا۔ جس کے بعد مزید فلسطینی بے دخل، فرار اور قتل ہوئے تاہم یہ 1948 کے پیمانے پر نہیں ہوا۔
ناصر نے استعفی دے دیا تاہم لاکھوں لوگوں کے احتجاج کے بعد انھیں یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ اس کے بعد وہ اپنی وفات تک 1970 تک اپنے عہدے پر قائم رہے۔ فیلڈ مارشل عامر کی موت پراسرار حالات میں ہوئی۔ ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ انھیں زہر دیا گیا۔
اردن کے شاہ حسین نے مشرقی یروشلم کھو دیا لیکن ان کا تحت باقی رہا۔ انھوں نے اسرائیل کے ساتھ خفیہ مذاکرات جاری رکھے اور دونوں ممالک میں سنہ 1994 میں امن قائم ہوا۔
شام میں فضائی فوج کے کمانڈر نے 1970 میں اقتدار پر قبضہ کر لیا ان کا نام حفیظ الاسد تھا اور سنہ 2000 میں ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے بشارالاسد ان کے جانشین بنے۔
اسرائیل میں وزیرِ اعظم ایشکول سنہ 1969 میں دل کا دورے پڑنے سے وفات پا گئے۔ ان کی بیوہ مریم کا کہنا تھا کہ وہ جنگ کی شام وزراتِ دفاع سے جبراً نکالے جانے کے صدمے سے کبھی نکل ہی نہیں پائے۔
ایشکول کے جانشین گولڈا میئر کو سنہ 1973 میں خبردار کیا گیا کہ شام اور مصر ایک اچانک حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔ لیکن اسرائیلی اب تک سنہ 1967 میں مخالفین کو دی گئی شکست کے گھمنڈ کے زیرِ اثر تھے۔
اس جنگ میں امریکہ نے اسرائیل کی کافی مدد کی۔ 1967 کے بعد امریکیوں نے اسرائیل کو ایک نئی نگاہ سے دیکھنا شروع کیا۔ انھیں نوجوان سبراس سے محبت ہو گئی جنھوں نے تین عرب فوجوں کو شکست دی۔
اسرائیل اور فلسطین پر سنہ 1967 کی جنگ کے اثرات مرتب ہوئے اور اسرائیل نے فلسطینی سرزمین پر قبضہ شروع کر دیا جو آج نصف صدی کے بعد بھی جاری ہے۔ اسرائیل نے مشرقی یروشلم اور گولان کی پہاڑیوں کو ریاست میں ضم کر دیا جسے عالمی طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔
جنگ کے ختم ہوتے ہی اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریئن نے فتح کی دلفریب اور پرکشش چمک دھمک سے متعلق خبردار کیا۔ ایک تھنک ٹینک سے خطاب میں انھوں نے کہا ’ان خطوں میں رہنا یہودی ریاست کو بگاڑ دے گا یا شاید اسے تباہ کر دے۔ اسرائیل کو یروشلم کو پاس رکھتے ہوئے باقی علاقے عربوں کو لوٹا دینے چاہییں۔ چاہے یہ امن معاہدے کے تحت کریں یا اس کے بغیر ہی۔‘
نقشے پر اسرائیلی ریاست کا گولان سے سوئز تک پھیلاؤ اور دریائے اردن کی لمبائی دیکھ کر اسرائیلی وزیرِ خارجہ ابا ایبان اسے امن کی ضمانت کے بجائے جنگ کے دعوت نامے کے طور پر دیکھ رہے تھے۔
لیکن اسرائیل میں کسی بھی احتیاط کو مکمل رد کر دیا گیا کیونکہ ان کی فوج نے عربوں سے نمٹا تھا۔ مذہبی رجحان رکھنے والے یہودیوں کا کہنا تھا کہ یہ فتح ایک معجزہ تھی اور خدا نے انھیں عطا کی ہے۔
یہودی (مبلغ) ربی زوی یہودہ کوک نے پوراٹ سمیت کئی آبادکاروں کو قائل کیا۔ کوک ایک صیہونی رہنما تھے اور انھوں نے لوگوں کو بتایا کہ اسرائیلی فوج نے خدا کا دیا ہوا کام کیا۔
ان کے بقول ’اسرائیلی دفاعی افواج مقدس ہیں۔ وہ خدا کی زمین پر اس کے بندوں کی حکومت کے ترجمان ہیں۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ خدا کی طرف سے یہودیوں کو تحفے میں دی جانے والے زمین کو چھوڑنا نہیں چاہیے۔
لیکن ان کی مشکل یہ تھی کہ فلسطینی اسے اپنی زمین قرار دیتے ہیں اور اپنے مقدس مقامات کی حفاظت اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
جنگ کے ایک ماہ بعد ہی امریکی صدر جانسن کے مشرقِ وسطی کے لیے مشیر باب اینڈرسن نے خبردار کیا کہ یروشلم کی عربوں کے لیے ایک خاص اہمیت ہے۔
بعض اسرائیلوں کا خیال تھا کے بعض خطوں کو امن معادہدے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن مشرقی یروشلم اس کا حصہ نہیں تھا بلکہ مغربی پٹی سے اس میں داخلے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔
اگست میں خرطوم میں ہونے والے اجلاس میں عرب ریاستیں ایک ایسے ملک کو عزت دینے کے حق میں نہیں تھیں جس نے ان کی تذلیل کی۔ عرب رہنماؤں کا کہنا تھا اسرائیل کے ساتھ کوئی مذاکرات، کوئی امن معاہدہ نہیں ہوگا۔
سنہ 1967 کی شکست فلسطینی نیشنل موومنٹ کے آغاز کا باعث بنی۔ اس سے پہلے فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن ناصر کی کٹھ پتلی کے طور پر کام
کر رہی تھی جس کے ذریعے درحقیقت فلسطینیوں کو استعمال کیا جا رہا تھا نا کہ ان کی آزادی کی جنگ میں مدد کی جاتی۔
1967 کے بعد یاسر عرفات اور ان کی جماعت الفتح نے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ 1968 میں تین ماہ کے دوران درجنوں حملوں کے بعد اسرائیل نے اردن کے کیمپ میں واقع تنظیم کے صدر دفتر پر حملہ کیا۔
انھیں غیر متوقع طور پر فلسطینی گوریلوں اور اردن کے اسلحے کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر کار اسرائیل نے کرامہ کو تباہ کر دیا تاہم کئی گھنٹوں تک سڑکوں پر جاری رہنے والے اس لڑائی میں ان کے 30 جوان مارے گئے۔
اس لڑائی میں الفتح کے 100 جنگجو ہلاک ہوئے اور انھیں قومی ہیرو قرار دیا گیا۔ یاسر عرفات قریب المرگ فلسطینی لبریشن آرگینائزیشن کے سربراہ بنے۔ جہاں فلسطینی لبریشن کی پہچان اور بین الاقوامی شخیصت بن گئے وہیں وہ اسرائیلیوں کے لیے دنیا کے بدترین دہشت گرد قرار پائے۔
پائیدار میراث
سنہ 1967 کی جنگ نے اسرائیل کو قابض بنا دیا جو باقی ہر چیز سے زیادہ معنی رکھتا ہے۔ یہ اسرائیل اور فلسطین دونوں کے لیے ایک تباہی کا باعث تھا۔ اسرائیل نے بین الاقومی قوانین سے سرکشی کرتے ہوئے یہودی بستیاں تعمیر کیں۔ قوانین کے مطابق قبضہ کرنے والے مقبوضہ اراضی پر اپنے لوگوں کو آباد نہیں کر سکتے لیکن اسرائیل اسے مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔
ابا ایبان نے پیش گوئی کی تھی کہ فلسطینی ’آزادی، تفاخر، عزت اور پرچم‘ کا ذائقہ کبھی نہیں بھولیں گے۔
فوجی قبضے کا مطلب جبر ہے۔ قبضہ تشدد کی فضا قائم کرتا ہے جس کی وجہ سے انسانی جانیں سستی ہو جاتی ہیں اور مقبوضہ علاقوں کے لوگوں پر ظلم کیا جاتا ہے اور جو لوگ اس کے خلاف لڑتے ہیں ان پر طاقت کا استعمال کیا جاتاہے۔
سنہ 1967 کی جنگ کے بعد کے حالات کو سدھارنے کے لیے 90 کی دہائی میں مذاکرات شروع ہوئے۔ سنہ 1993 میں امریکی صدر کلنٹن کی میزبانی میں اس وقت کے اسرائیلی وزیرِ اعظم یِتزک ریبن نے اپنے پرانے دشمن یاسر عرفات سے ہاتھ ملایا۔
امن عمل میں دونوں جانب سے کمیاں دیکھنے میں آئیں۔ انتہائی دائیں بازوں کے اسرائیلیوں نے اسے سنجیدگی سے لیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے ان کے اس پورے خطہِ زمین پر حکومت کے خواب کو دھچکا لگا جو خدا نے انہیں دی تھی۔
سنہ 1995 میں ایک انتہا پسند یہودی نے وزیرِ اعظم ریبن کو تل ابیب میں قتل کر دیا۔ ان کا قاتل اتنا خوش تھا کہ اس نے ایک ایسے شخص کو قتل کیا جو یہودیوں کے لیے خطرہ تھا۔
ریبن اسرائیلیوں کے لیے بہت اہم تھے، وہ اپنے تحفظ کے لیے ان پر بھروسہ کرتے تھے۔
امن عمل شاید ریبن کے ساتھ ناکام ہوا لیکن ایک ایسے شخص کے بغیر امن ممکن بھی نہیں تھا جس نے 1967 کی جنگ اور فلسطینیوں کے تشدد کے دوران فوجی کی قیادت کی۔
1967 کے پچاس سال گزرنے کے بعد کئی دوسرے امریکی صدور کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کو امید ہے کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن عمل میں مدد کریں گے۔
اگر ان کے خواب بات چیت میں بدلتے ہیں تو ایسے خطے کے مستقبل کا تعین ہوگا جس پر چھ دن کی جنگ کے بعد قبضہ کر لیا گیا۔ یہ ایک غیر معمولی انسانی ڈرامہ تھا جس میں ایک اسرائیلی نسل کو بھاری کامیابی ملی جبکہ عربوں کے بچے اور ان کے بچے اس جنگ کے باعث بننے والے دنیا میں امن سے نہیں رہ پائے۔
ایک مقدس زمین جس کادل یروشلم (بیت المقدس) ہے جہاں مذاہب، تہذیبوں اور قومیتوں کی ٹیکٹونک پلیٹس یکجا ہوتی ہیں۔ ان کے درمیان گزرنے والی فالٹ لائن کبھی خاموش نہیں رہتی، یہ ہمیشہ خطرناک رہتی ہے۔ سنہ 1967 کی میراث سے جان چھڑانا آسان نہیں ہے۔

جمعرات، 8 جون، 2017

میری نازو __میرا بولان ___ تحریر: گلزار بلوچ


گرمی کچھ بڑھ رہی تھی, بزگل کا گذر ابھی نہیں ہورہا تھا, اِلّہ مِسکان خراسان کا گولوّ کر کے آچکا تھا - بابا نے خلق میں کہلوا بھیجا کہ کراہی کی تیاری کر لو بزگل صبح روانہ ہوگا۔۔ بادو ،مامد اور نور جان، بزگل کیساتھ ہونگے شوہان نبو اور نودان بھی ساتھ ہونگے۔۔ باہر اوربگ کو بھی ہمراہ لے چلو بابا کے حکم پہ سب پر جیسے ایمرجنسی نافذ ہوگئی۔۔ میں بابا کے حکم کا منتظر اس دعا کیساتھ کہ یا شیرجب (واضح رہے کہ شیر جب ہمارا مرشد ہے )بزگل کے ساتھ نہیں بھیجے۔۔۔ بابا نے رعب دار آواز میں مجھے آواز دی کہ چاکر تم آلم کے ساتھ ہماری ہمراہی میں رہو گے۔۔
جاﺅ اپنے اِلّہ مِسکان اور باقی سب سے کہو کہ کل تیاری ہے پرسوں کاروان نکلے گا۔۔ میں خوشی سے جیسے دیوانہ ہوئے جارہا تھا۔ میں تو جیسے ہواﺅں میں تھا, بولان کے ول ول کو خیالوں میں لائے ان حسین مناظر کی تصویر کشی کرکے مدہوش ہورہا تھا۔ کیوں کہ میری گراں ناز کو میر ے ساتھ ہونا تھا۔۔۔ تہذیب کا سفر ہونے جارہا تھا۔۔۔ رقص کو تقدس بخشنے جارہے تھے ہم۔۔سنگیت کو سر۔۔۔ اور رنگوں کورنگ دینے جارہے تھے ہم۔۔۔
میں گران ناز کو بولان کی خوبصورت بل کھاتی گھاٹیوں میں اونٹوں کے درمیان چلتے اور ہواﺅں سے اس کے بکھرتے بال دیکھنے کیلئے جیسے پاگل ہورہا تھا۔۔۔ میں بھاگتے بھاگتے الہ مسکان کی خلق تک پہنچا۔۔۔ مجھے پتہ تھا الہ مسکان اس وقت بکریوں کے بچوں(زہ) کو چرانے خلق سے دور (زرت کی ناڑ) جواری کی فصل میں ہونگے مگر مجھے تو دیدارِ نازو کھینچے لے جارہا تھا۔۔۔
میں نے گدان کے باہر تاتی ماہ گنج کو دیکھ کر پوچھا تاتی الّہ مسکان کہاں ہے۔۔۔تاتی نے کہا آپ کا چاچا بکریوں کے بچے (زہ) کو چَرانے لے گیا ہے۔۔۔ تاتی مجھے الّہ مسکان کے بارے میں بتارہی تھی اور میری نظریں نازو کو ڈھونڈرہی تھیں۔۔۔ میں مایوس ہوا نازو نظر نہیں آرہی تھی۔۔۔ میں وہاں سے چل پڑا الّہ
 مسکان کی طرف اور اسے بابا کا پیغام پہنچایا۔۔۔۔
واپس خلق آکر اپنا چنگ لیکر دور ایک ٹیلے پر بیٹھ کر موسم کی رنگینی دیکھنے لگا۔۔۔ سورج ڈھلنے جارہاتھا۔۔۔اسکی سرخی مائل روشنی ہرطرف جیسے رنگ بکھیر رہی تھی۔۔۔ میں سوچوں میں گم تھا۔۔نظروں میں بولان تھا۔۔بولان میرا مقدس مکہ۔۔۔جو میری (ہانی )نازو کو اپنے حسین بل کھاتے راستوں میں اپنے ماتھے کا جھومر بنانے جارہا تھا۔۔۔ ہائے اللہ۔۔۔ کیا منظر ہوگا جب ہم بولان سے گذریں گے۔۔۔ اس ہتم میں ان حسین مناظر کو سوچتے سوچتے کب چنگ میرے ہونٹوں سے لگ کر گیت بکھیرنے لگا اور میں مدہوشی میں گم ہوکر خیالوں کی دنیامیں چلا گیا پتہ نہیں چلا۔۔۔ کل کو تیاری تھی بزگل نکل چکا تھا۔۔۔
ہم تیاریوں میں تھے کہ کل ہمیں بھی نکلنا ہے۔۔۔ بابا نے مجھے زادِ رہ ( توشہ) کیلئے ڈھاڈر بھیجا تاکہ میں شہر سے سامان لے آو۔۔۔ میں جب ڈھاڈر پہنچا تو خریداری کے بعد ایک دکان گیا اپنی نازو کیلئے کچھ لینے جو میں نے اسے بولان میں دینا تھا تاکہ وہ پہن کر اس کارواں کی خوبصور تی کو امر کردے۔۔۔ میں نے اس کے لئے پازیب لی, چوڑی لی اور ایک ہار (کنڈی ) بھی خرید لیا۔۔۔
میری نازو کتنی خوبصورت لگے گی جب وہ یہ پہنے بولان میں اونٹوں کے درمیان ہنستی بشخندہ ہوتی مجھے دیکھے گی یہ سوچتے سوچتے میں نے ڈھاڈر سے خلق کا طویل سفر کیسے طے کیا پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔
خلق پہنچتے ہی میں نے زادی جو میر ی چھوٹی بہن ہے اسے یہ چیزیں دیں تا کہ وہ یہ چیزیں نازو کو دے اور اسے کہے کے کل یہ پہن لے کہ سفر پہ نکلنا ہے۔۔۔رات بھر میں نے کروٹ بدلتے گذاری۔۔۔ رات کی تاریکی سے صبح کی پھوٹتی سرخ کرنوں کیساتھ ہم نے ہڑپ چائے (گڑوالی چائے) پی اور رختِ سفر باندھ لیا۔۔اب تک بابا اونٹو ں کے مہاری کو لیکر آگے اور میں اس کے پیچھے تھا الہ مسکان والوں کے اونٹ ہمارے پیچھے کچھ فاصلے پر تھے میں باربار پیچھے مڑ کر دیکھتا کہ نازو کو دور سے دیکھ سکوں مگر کچھ فاصلہ ہونے کی وجہ سے وہ نظر نہیں آرہی تھی۔۔
ہم جو نہی دربی سے آگے نکلے کوندالی کی بل کھاتی ندی میں پہنچے۔۔۔جہاں گذرتا پانی جیسے تاریخ میں سانس لیتی تہذیبوں کی پیاس کو بجھاتے ہوئے اپنے ہر آنے والے عاشق کیلئے بانہیں پھیلائے ہوئے تھا۔۔۔جہاں ہوا قدیم سربکھیر رہی تھی۔۔۔ہم تھوڑی دیر کے لئیے رکے تاکہ خواہ/ /مشکیزہ پانی سے بھر لیں۔۔۔۔ میں اس انتظار میں تھا کہ الہ مسکان والے پہنچ جائیں تاکہ ہم ساتھ سفر کریں۔۔۔
اتنے میں بابا نے مہاری کے رخت میں بندھا چا دان اتار کر کہا۔۔۔ چاکر جلد اس میں چائے بنا لو ایک ایک پیالی چائے پی کر نکلتے ہیں۔۔۔۔میں چائے بنانے لگا ایسے میں بابا نے کہا وہ دیکھو مسکان پہنچ گیا خیر سے۔۔۔ میں نے دیکھا نازو مشکیزہ لیکر پانی بھرنے لگی۔۔الہ مسکان کا ایک ہی بیٹا تھا وہ بزگل کے ساتھ پہلے ہی ہم سے آگے آگے جارہا تھا۔۔۔
بابا نے مجھے آواز دی چاکر گراں ناز سے مشکیزہ لے کر اونٹ پر لاد دو۔۔ میں نازو کے پاس گیا اور کہا نازو لاﺅمجھے دو میں مشکیزہ اٹھا کر اونٹ کے اوپر رکھ دوں۔۔۔۔وہ ناز سے اٹھ کر دور کھڑی اپنا آنچل سمیٹ کر مجھے ہنستی ہوئی آنکھوں سے دیکھنے لگی.. میں اسکی انہی اداوں کیلئے تو زندہ تھا۔۔انہی کی تو خیالی عبادت کرتا تھا۔۔میں نے مشکیزہ لیکر اونٹ پر رخت کے ساتھ باندھ دیا۔۔میں نے دیکھا نازو کے پاﺅں پانی میں ننگے تھے۔۔۔
آنسو کی طرح پاک مقدس بولان کے بہتے پانی میں نازو کے نازک پیروں میں پہنے پائل کا حسین منظر بولان کی وادی کوندلانی میں میرے لئے جنت کا سامان بنا رہے تھے۔۔۔۔ بابا نے آواز دی چاکر چلو دیر ہوگئی رات کرتہ میں رکنا ہے سفر طویل ہے۔۔۔
میں دوڑا دوڑا بابا کے مہاری اونٹ کیساتھ ہو لیا۔۔۔بہار کا موسم تھا۔۔۔سفر تھا۔۔۔ہم سفر بھی ساتھ تھا۔۔۔بولان تھا۔۔مقدس مکہ تھا میرا۔۔۔اسکے بیچ میری نازو ان حسین وادیوں کی خوبصورتی کیساتھ جیسے اسکی ہواﺅں کیساتھ اسکے رنگوں کیساتھ باتیں کررہی تھی۔۔۔۔۔میں پلٹتا۔۔۔دیکھتا۔۔۔بولان دِکھتا میری نازو دِکھتی, خوبصورتی دِکھتی۔۔رنگ دِکھتے۔۔۔بولان معطر تھا۔۔۔ نازو کے پاﺅں جیسے بولان کی ریت پر پڑتے تب لگتا دونوں ایک دوسرے کی زیارت کرتے بوسہ لے رہے ہوں۔۔ بولان کی ہوا ایسے جیسے نازو کی زلفوں سے شرارت کرتی انہیں چھیڑرہی تھی۔۔ ہواﺅں میں بِکھرے بال جب رخسارِ نازو کو چھوتے تو لگتا جیسے بولان کو بادلوں نے اپنی بانہوں میں بھر لیا ہو۔۔ نازو مجھے دیکھتی اور بشخندہ ہوتی تو لگتا بولان ہنس رہا ہے اپنے عاشق بالاچ کے ساتھ۔۔۔
آج چاکر مدہوش تھا۔۔۔۔وہ کارواں سے آگے نکل چکا تھا دور جاکر ایک ٹیلے پر بیٹھ کر کارواں کا حسین منظر دیکھتا۔۔اپنی نازو کو دیکھتا۔۔بولان دیکھتا۔۔۔خود سے کہتا۔۔ہم کلام ہوتا چاکر دیکھو شداد کی جنت بھی شرما رہی ہے میرے بولان کے آج کے ان حسین مناظر پر۔۔۔ میرے اندر یہ خیال سفر کر رہا
تھا کہ بولان کا حسن جاننے کے لئیے, اپنی زمین کے رنگوں کی پرستش تک پہنچنے کے لئیے، آخر کیوں ایک عورت کی ضرورت ہے؟ اسکے عشق سے گزرنا کیوں ضروری ہے؟ اور اس عشق کے سفر میں عورت زمین کیسے بن جاتی ہے؟
آلم کرتہ خیر پر پہنچا رات ہوئی تھوڑی سردی نے آن گھیرا۔۔۔۔بابا نے کہا چاکر ایک آگ جلاﺅ بڑی سی کچھ کھانے کیلئے بنانا ہے اور تھوڑی سردی بھی ہے ہاتھو ں کو گرمانا ہے۔۔۔میں نے ایک کری کے درخت سے لکڑیا ں لیں اور آگ جلائی۔۔۔ بابا نے کہا ک ±رنو بنانا ہے چاکر تم چائے بناو۔۔تھوڑی دیر میں کرنو تیار ہوا اور چائے بھی۔۔۔
ہم کچھ کھا کے آگ کے اردگرد بیٹھے اپنی تھکان مٹا رہے تھے۔۔۔ میں اِلّہ مسکان اور بابا آگ کے گرد بیٹھے تھے۔۔عورتیں دوسری جانب بیٹھی تھکان مٹانے کے جتن کر رہی تھیں۔۔۔۔ایسے میں الہ مسکان اور بابا نے کہا ہم سونے جارہے ہیں چاکر تم جاگتے رہو آدھی رات کو مجھے اٹھانا پھر تم سو جانا۔۔۔ میں نے حکم کی بجاآوری میں سر ہلایا۔۔اب میں آگ کے ایک طرف بیٹھا بولان کی سرد رات کی دلگیر تاریکی میں کچھ دور بیٹھی حسن کی اس دیوی کی زیارت کررہا تھا۔۔۔ مدہوشی تھی حسن کہ نشہ اترنے نہیں دے رہی تھی۔۔ تاریکی میں جیسے چاند بادلوں سے نکل رہا ہو۔۔۔ ایسے میں دیکھا نازو اور زادی آگ کے قریب دوسری طرف آکر بیٹھ گئیں۔۔۔ منظر ہی بدل گیا۔۔فضاءہی بدل گئی۔۔۔۔ آگ کے الاﺅمیں نازو کا رخسار جیسے رنگوں کے حسین امتزاج میں بنایا گیا وہ شاہکار ہو جس میں موجود رنگ سانس لیتے ہوں۔۔۔محو رقص ہوں۔۔۔آگ کے شعلے نازو کی آمد پر جیسے رقص کررہے تھے۔۔۔تاریکی اور آگ کی سرخی میں نازو کا چہرہ اور گہری آنکھیں روح کو جنھجوڑنے والے احساس کا منظر پیش کررہی تھیں۔۔۔۔ دوسرا دن تھا ہم بی بی نانی سے ہوتے ہوئے آگے گیشتری کے مقام پر پہنچے۔۔۔۔۔ایک طرف آب گم کا خیر دوسری طرف گیشتری کے حسین پہاڑ اور ہم بولان کے دامن میں مچھ شہر کے قریب سے ہوتے ہوئے گذررہے تھے۔۔۔کارواں تھا۔۔۔اونٹوں کی قطار تھی۔۔۔ بابا کا مہاری تھا جو رہنماءبنے بولان کے عظیم دروں میں سینہ تانے بڑھ رہا تھا۔۔۔اونٹوں پر لادہ سامان اور انکے اوپر بکری کے چھوٹے بچے اور مرغیاں۔۔۔کارواں تھا۔۔۔ نقل مکانی تھی۔۔۔ مگر اجڑے لوگوں کی نہیں۔۔۔ دھتکارے گئے لوگوں کی نہیں۔۔۔ آفت زدہ نہیں تھے یہ۔۔۔ بھاگے اور پیٹھ دکھانے والوں کا لشکر نہیں تھا یہ نہ ہی دیار غیار میں جانے والوں کا قافلہ تھا یہ۔۔۔یہ تو اپنے وطن سے مانوس, بولان کے حسن کا زیور تھے۔۔۔ یہ پیار سے بھر پور, زندگی کے شعور سے آشنا فطرت کے وہ مظاہر ہیں جو خود میں فطرت رکھتے ہیں۔۔۔ کارواں میں زندگی ہے۔۔۔ امیدیں ہیں۔۔۔ چھوڑنے والے حسین خیال اور پانے والی بے پنا امیدیں انکے چہروں پر مسکراہٹ کی صورت میں موجود رہتی ہے۔۔۔
جہاں ڈیرہ ڈالا وہاں زندگی اپنے حسن بکھیرنے لگتی ہے۔۔۔ جہاں سے چلے وہاں زندگی اپنی حسین یادوں کی تاریخ چھوڑ جاتی ہے۔۔ جہاں سے گذرے وہاں زندگی نے ڈیر ے ڈال دئیے۔۔یہ کارواں جو وطن کی محبت سے بھر پور فطرت سے آشناءاور خود پر اعتماد کی عظیم انسانی خصلیتں لئے جب بولان میں محوِ سفر رہتا ہے تو یہ محض کارواں نہیں رہتا ارتقا کا سفر ہورہا ہوتا ہے۔۔انسانی بقا کا دھارا ہوتا ہے۔۔اس کارواں میں مکمل زندگی سانسیں لے رہی ہوتی ہے۔۔۔ امیدیں اور عزم کا اظہار ہورہا ہوتا ہے۔۔۔ موسموں کی آمد رنگوں کی بکھرنے اور ان سے لطف اٹھانے کا اعلان ہورہاہوتا ہے۔۔۔ یہ رقص ہے تہذیب کا۔۔یہ حسن ہے انسانی شعور کا۔۔یہ اظہار ہے وطن کے ہر چپّے سے محبت کا۔۔
ہم بابا دلو کے مزار کے قریب سے گذرے۔۔ میں پرانا مچھ کی جانب نازاں نظروں سے دیکھتے ہوہے مخاطب ہوکر کہنے لگا۔۔ سنو میرے مچ۔۔۔! میں بولان کی خوبصورتی کو ساتھ لئے محوِ سفر ہوں۔۔ میں کُلی کے سینہ سپر پہاڑ کو دیکھے جارہا تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ اس نے ایسے کتنے سفر دیکھے ہونگے۔۔؟ اور ہر سفر کے خوابوں کا عکس بولان نے اپنے سینے میں محفوظ رکھا ہوگا۔ ان پہاڑوں نے اپنے کلیجے میں کتنا درد سنبھال رکھا ہے اور اسکے باوجود پناہ اور محبت ہی بخشتے ہیں۔ کیا اس زمین پر کاروباری افراد، ترقی کے نام پر آنے والے اپنی بقا کے تحفظ کی خاطر، آکر زندگی گذارنے لگیں گے تو وہ اس مٹی کی روح کو جان پائیں گے؟ کیا بولان انہیں پہچانے گا؟ میرے دل سے جیسے کسی کوہسار کی آواز آئی،’ہاں ہم بلا تفریق محبت دیتے ہیں، مگرہم عشق صرف تمہارا ہیں۔
ہمارا سفر, امیدیں , ہتم (بہار) کی تڑپ, خراسان کا مہر, بولان کا عشق لئے (باسن دیر) ہیرونک پہنچے۔۔۔ ہیرونک کے بہتے چشمے کے شہد جیسے میٹھے پانی کا جیسے میں برسوں سے پیاسا تھا۔۔۔ ہمارا کارواں رکا میں نے اونٹوں کو پانی پلایا بابا نے کہا چاکر زیادہ دیرنہیں رکنا مشکیزے بھر لو ہمیں ’ہرک’ کے خیر پر ہنکین بنانی ہے۔۔۔ ہم نے ہرک خیر پر ہنکین بنانی تھی ڈیرہ ڈالنا تھا۔۔۔
میں نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو ’نود گوار’ پہاڑ سینہ تانے کھڑا جیسے ہمیں بغل گِیر کرنے کیلئے پکار رہا ہو۔۔۔نظریں دوسری طرف گئیں تو ساتھ میں شوگ کا پہاڑ جیسے برسوں سے ہمارا منتظر رہا ہو۔۔۔ اودباش کی پہاڑی جیسے ممتا کا مہر لئے آنکھوں میں آنسو بھر ے اپنی آغوش میں لینے کے لئے بے تاب ہو۔۔۔۔ قدم تھے کہ رک نہیں رہے تھے۔۔۔ خوشی تھی کی ہماری اوقات پہ نازاں تھی۔۔ہاں ہم عاشقوں کیلئے بولان کا عشق تھا۔۔۔ بولان, بالاچ کا بولان۔۔۔ ہم جلدی سے پانی بھرنے لگے۔۔ میری نظریں نازو کو ڈھونڈ رہی تھیں۔۔۔ ہلکی ہلکی سردی بھی تھی۔۔بادل بھی تھے۔۔۔ہوا (چِرک ) چل رہی تھی۔۔۔ بولان کی سرد ہواہیں جیسے نازو کو چھیڑ رہی تھیں۔۔وہ خود کو اپنے آنچل میں (پلویڑ)اوڑھنے کی کوشش کرکے بولان کی ان شرارتی ہواﺅں سے جیسے لڑرہی تھی۔۔چشمے کا میٹھا پانی نازو کو چھونے کے بعد جیسے معّطر ہونے لگا۔۔۔ میں اردگرد کے ماحول سے بے خبر نازو کی ادائیں دیکھ رہا تھا۔۔۔بولان دیکھ رہا تھا۔۔بلوچستان دیکھ رہا تھا۔۔۔ عشق تھا یہ۔۔۔ مہر سے کہیں بڑھ کر۔۔۔ نازو بولان تھی یا بولان نازو۔۔۔ میری کائنات سمٹ گئی تھی جیسے۔۔۔ رنگ تھا بکھرا ہر طرف۔۔۔ سر تھے چاروں اور۔۔۔ سنگیت تھا ہواﺅں میں۔۔۔ سفر تھا زندگی کا۔۔۔ میں لمحوں میں ہزاروں سال جی رہا تھا۔۔۔
ہم باسن دِیر سے روانہ ہوئے تو ہلکی بارش شروع ہوئی۔۔۔ منظر تھا کہ خدا کی خدائی۔۔۔ کائنات کا ہر رنگ جیسے یک جاں ہوکہ سمٹ گئے اس قافلے میں۔۔۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو پانی کی بوندیں نازو کی زلفوں سے کھیل کر گرتے ہوئے اس کے قدم بوسی کررہی تھیں۔۔۔ یہ بارش نہیں تھی بولان کا میری نازو کو’بخیر’ تھا۔۔۔ بولان اپنا مہر ہم پر برسا رہا تھا۔۔۔ بارش کے قطروں کے باعث جڑی بوٹیوں سے اٹھنے والی خوشبو جیسے فضاءمیں منادی تھی ہمارے آنے کی نازو کے آنے کی۔۔۔ ہمارا انگ انگ محو رقص تھا ۔۔۔ عشق کی وادی میں عاشقوں کا بسیرا ہونے جارہا تھا۔۔۔ خدا کی خدائی مکمل ہونے جارہی تھی۔۔
ایکدوسرے کے تعلق میں غرق ہوکر ملنے والا ’قرار’ محبت ہے۔ جیسے بارش ہوتی ہے تو جڑی بوٹیاں مہکنے لگتی ہیں، یہ مہک یہ خوشبو محبت ہے جس پہ ہر انسان ہر جاندار، فطرت کے ہر مظہر کا حق ہے۔ برسات اور جڑی بوٹیاں اس خوشبو کو جنم تو دیتے ہیں پر وہ اس خوشبو کے آقا نہیں ہوتے وہ تو عشق کے سفر میں صرف اپنی حاضری لگاتے ہیں۔ ویسے ہی میں اور میری نازو اپنا حصہ ادا کرنے آئے ہیں۔۔

جمعرات، 1 جون، 2017