ہفتہ، 26 مارچ، 2016

بلوچستان کی تاریخی حیثیت: آزادی سے پاکستانی قبضے تک کی اصل کہانی



تحریر : ڈاکٹر عنایت اللہ بلوچ 
گیارہ گست1947 ؁ء میں برطانوی اقتدار کے خاتمے کے بعدِ بلوچستان ایک آزاد اور خودمختار ریاست بنا۔ 15 اگست 1947 ؁ء کو خان میر احمد یار خان 
نے ایک عوامی اجتماع میں آزادی کا اعلان کیا ۔ انہوں نے نو آبادیاتی طرزِ تقریر کے برعکس سامعین سے بلوچی میں خطاب کیا جبکہ انگریزی نظام میں تقاریر انگریزی ، فارسی یا پھر اردو میں کی جاتی تھیں۔ خان نے واضح طور پر کہا:

’’ میں آج آپ لوگوں سے بلوچی میں خطاب کرنے پر فخر محسوس کررہا ہوں ۔ انشاء اﷲ اگر مستقبل میں بھی خطاب کیا تو وہ بھی بلوچی میں ہی ہوگا کیونکہ بلوچ قوم کی زبان بلوچی ہی ہے۔‘‘ اپنے سیاسی نظریات اور مستقبل کے منصوبوں کے متعلق انہوں نے کہا: 
’’ اب تک ایک غیر ملکی اقتدار کی وجہ سے میں آپ لوگوں کے سامنے اپنے خیالات و نظریات کھلے طور پر پیش نہیں کرسکا ہوں ۔ آج ہمارا ملک آزاد ہے لہٰذا میں صاف اور بلا جھجک انداز میں بات کرسکتا ہوں۔‘‘
انہوں نے اعلان کیا کہ ان کی مستقبل کی پالیسی کی بنیاد ریاستِ بلوچستان کی خودمختاری کا تحفّظ اور بلوچوں کو ایک پرچم تلے متحد کرنا ہوگا۔ ’’ مکمل خود مختاری اور بلوچوں کی یکجہتی کی تکمیل تک ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے ۔اس مقصد کے حصول کے سِوا ہم کسی اور چیز پر مطمئن نہیں ہوں گے۔‘‘ خان نے واضح طور پر کہا کہ ’’ خارجہ پالیسی کا مرکز تمام اقوام اور خصوصاً ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ عدم مداخلت اور دوستانہ تعلقات ہوں گے۔‘‘ اپنی تقریر میں انہوں نے نظام بادشاہت کی مخالفت کرتے ہوئے ایک ایسے بلوچی ’’رواج‘‘ (غیر مروّجہ آئین) کی طرفداری و حمایت کی جسکا ڈھانچہ جمہوری اصولوں پر استوار ہو۔
’’ لوگوں کی اکثریت میرے لئے اپنی گفتگو اور خطوط میں لفظ شاہ استعمال کرتے ہیں ۔ میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ہمارے افتخار اور شان کی وجہ بادشاہت نہیں ہے میں بلوچ قوم اور اسلام کا ایک خادم ہونے پر فخر محسوس کرتا ہوں ۔‘‘
بلوچ آئین(رواج) میں موجود جمہوری اصولوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ ہمارے آباء و اجدادخودکو شاہ یا حاکم تصور نہیں کرتے تھے ۔ عظیم نصیر خان نوری نے ہمارے خاندان کے لئے یہی نصیحت چھوڑی ہے ۔ حقیقی کامیابی اس وقت ملے گی جب ہم اپنے آپ کو بلوچ عوام کا خادم تصور کریں گے۔جس دن ہم نے قوم سے اپنے آپ کو برتر و اعلیٰ تصور کیا یقیناً ہماری بربادی اور تنزّل کا آغاز ہوگا۔‘‘
خان کے خطاب کے بعد قومی جھنڈا لہرایا گیا ۔ جھنڈے میں موجود سُرخ اور سبز رنگ بالترتیب انقلاب اور امن کی علامت کی نشاندہی کررہے تھے ۔ ایک اور روایت کے مطابق سبز رنگ قرآن پاک جبکہ سُرخ رنگ تلوار یاجہاد کی علامتیں ہیں۔

آئین:
اسی مہینے خان کی جانب سے ایک شاہی فرمان کے ذریعے ایک مروّجہ ریاستی آئین کا نفاذ کیا گیا۔ نیا مرتب کردہ آئین تین حصوں پر مشتمل تھا ۔ پہلا حصّہ ریاستی قوانین اور عدالتی امور کے بابت ، دوسرا حصّہ ریاست کے انتظامیہ کے متعلق اور تیسرا اور آخری حصّہ قانون سازی کے حوالے سے لکھا گیا تھا۔آئین میں واضح طور پر نشاندہی کی گئی تھی کہ خان اقتدار اعلیٰ کے منصب کے امین اور پارلیمان لوگوں کا نمائندہ ادارہ ہوگا۔
وزراء کی کونسل:
یہ ایک وزیرِ اعظم اور اس کے کابینہ کے ارکان پر مشتمل تھا ۔ان کی تعینّاتی خان کے ذریعے ہوتی تھی اور خان کی تفویض کردہ اختیارات کے تحت وہ اپنا کام کرتے تھے ۔ کونسل کا کام معزّز خان کو ریاستی امور کے چلانے میں مشورہ اور مدد فراہم کرنا تھا۔ کونسل کا سربراہ وزیر اعظم مقرر تھا ۔بصورت دیگر سربرائی خان کی ہوتی تھی۔ خان کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ کسی بھی فرد کو کونسل کا رکن منتخب کرے جن میں غیر ملکی شہری بھی شامل تھے مثال کے طور پر وزیر اعظم نوابزادہ محمد اسلم اور وزیر خارجہ ڈی وائی فیل دونوں غیر ملکی تھے اور ان کا تعلق بالترتیب پاکستان اور برطانیہ سے تھا ۔ خان کے یہ وسیع تر اختیارات بلوچ قوم کے لئے فائدہ مند نہیں تھے کیونکہ وزیر اعظم محمد اسلم اپنے دورِ حکومت میں پاکستانی مفادات کیلئے کام کرتے رہے اور بلوچ قوم اور خان سے دغابازی کے مرتکب ہوئے۔
مجلسِ قانون ساز:
مرتب شدہ آئین دو قانون ساز اداروں پر مشتمل تھا۔

(الف) دارالامراء جو ایوانِ بالا کہلاتا تھا اور قبائلی سرداروں پر مشتمل تھا۔
(ب) دارالعوام جو کہ ایوانِ زیریں کہلاتا تھا۔

ایوان بالا میں جھالاوان اور ساراوان صوبوں کے موروثی سردار موجود تھے جبکہ اس میں شامل چھیالیس ارکان میں سے دس کا انتخاب خان کے ذریعے ہوتا تھا۔ مزید براں ان دس میں سے آٹھ کا انتخاب ایوان زیریں اور وزراء کی کونسل سے جبکہ باقی دو کا انتخاب اقلیتوں مثلاً ہندوؤں سے ہوتا تھا ۔کابینہ کے ارکان کو اجازت تھی کہ وہ بحث و مباحثے میں شرکت کریں لیکن انہیں ووٹ دینے کا اختیار نہیں تھا۔ اگرچہ مجلسِ قانون ساز کی مدتِ عمل پانچ سال ہوتی تھی لیکن خان کو اختیار حاصل تھا کہ وہ ایوانوں کو مقررہ مدت سے قبل ہی تحلیل کردے یا مدت میں مزید ایک سال کی حد تک اضافہ کردے۔ ایوان بالا کی تحلیل کرنے کی صورت میں خان کو اس بات کا ذمہ دار بنایا گیا تھا کہ وہ نئے ایوان کی تشکیل کیلئے چھہ ماہ کے اندر اندر کسی تاریخ کا اعلان کردے ۔ وزیراعظم ایوان بالا کا صدر تھا جبکہ اس کی غیر موجودگی میں یہ منصب ایک سینیئر وزیر کے حوالے کردیا جاتا تھا ۔ خان کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنی منشاء پر ایوانوں کے اجلاس کسی بھی وقت طلب کرسکتا تھا گر چہ سال میں کم از کم ایک مرتبہ اجلاس کا منعقد کرنا لازمی تھا۔

ایوان زیریں ،جو کہ 55 اراکین پر مشتمل تھا ،کے پچاس ارکان کا انتخاب بذریعہ چناؤ ہوتا تھا جبکہ پانچ کا تقرر خان اپنی صوابدید سے کرتا تھا ۔ ایوان زیریں کا سربراہ بھی وزیر اعظم ہوتا تھا جبکہ ان کی عدم موجودگی میں یہ ذمہ داری کسی سینیئر وزیر کو سونپی جاتی تھی۔ اراکین کا انتخاب پانچ سال کے لئے کیا جاتا تھا۔ 
یہ لکھا گیا آئین کوئی منفرد دستاویز نہیں بلکہ قلات ایکٹ 1946 ؁ء کی ہی ایک سادہ سی نقل تھی ۔اس میں خارجہ امور میں خان کے اختیارات کے حوالے سے کوئی بات نہیں کہی گئی تھی اور نہ ہی سزائے موت کے متعلق اختیاراتی معلومات فراہم کیے گئے تھے ۔ اس میں شاہی خاندان کے حقوق و فرائض کی بھی نشاندہی نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی لسبیلہ اور خاران جیسے قبائلی ریاستوں کے قلات کے ساتھ تعلقات کا تذکرہ موجود تھا ۔ جبکہ آئین کے متوازی نظام ’’رواج‘‘ بدستور نافذ العمل رہا۔

پارلیمان کا چناؤ:
آئین کے نافذ العمل ہوتے ہی بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ریاستِ قلات میں انتخابات منعقد ہوئے ۔ قلات نیشنل پارٹی نے ایوان کے کل اکیاون میں سے اُنتالیس نشستیں جیت لیں ۔ باقی نشستیں ان آزاد امیدواروں نے حاصل کیے جو قلات نیشنل پارٹی کے حامی تھے ۔ انتخابات کا انعقاد پذیر ہونا بلوچستان کی اُن جمہوری قوتوں کا فتح تھا جو1920 سے جمہوریت اور ایک خود مختار عظیم تر بلوچستان کیلئے کوشاں تھے۔
بلوچ۔ پاکستان تعلقات:
 تیرہ دسمبر کو خان نے ریاستی امور پر بحث کرنے کے لئے ایوانِ زیریں کا اجلاس طلب کرلیا۔تین دن تک چلنی والے اس اجلاس میں مندرجہ ذیل امور زیر ِ بحث لائے گئے۔
(الف) بلوچستان کی قومی اور سرکاری زبان ۔

(ب) شریعت ( اسلامی قانون )۔
(ج) پاکستان کے ساتھ بلوچستان کے تعلقات، خصوصاً الحاق کے حوالے سے۔
(الف) ایوان نے بلوچی زبان کو بلوچستان کی قومی اور سرکاری زبان قرار دیا ۔ اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کی گئی جس کے ذمے یہ کام سونپا گیا کہ وہ ایسے تجاویز اور اقدامات تجویز کرے کہ جس سے اسکولوں میں بلوچی زبان کو بطور ذریعہ تعلیم رائج کیا جاسکے ۔
(ب) طویل بحث و مباحثے کے بعد ایوان نے فیصلہ کیا کہ چونکہ لوگ اپنے معاملات ’’رواج‘‘ (رِوایت) کے تحت چلا رہے ہیں لہٰذہ بلوچ معاشرے میں شریعت کا لاگو کرنا ایک مشکل امر ہوگا لیکن ایوان نے فیصلہ کیا کہ ایک کمیٹی ترتیب دی جائے جو کہ شریعت کے مرحلہ وار نفاذ کے حوالے سے اقدامات تجویز کرے۔ 
(ج) ستمبر 1947 ؁ء میں وزیراعظم نوابزادہ محمد اسلم اور وزیر خارجہ ڈی وائی فیل(DYFell) نے کراچی کا دورہ کیا تاکہ 1947 ؁ء کے قلات ۔پاکستان معائدہ پر بحث کی جائے جس کے تحت بعض علاقے پاکستان کو لیز پر دیئے گئے تھے۔لیکن دونوں ریاستوں کے درمیان ان اجلاس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل سکا کیونکہ پاکستانی حکومت قلات کی پاکستان کے ساتھ غیر مشروط الحاق کرانے کی پالیسی پر بضد تھی ۔ لہٰذا اگست1947 ؁ء کے تحت طے شدہ مذاکراتی عمل پر بحث نہ کی جاسکی ۔ ریاست قلات کا وفد واپس روانہ ہوا اور اپنی رپورٹ خان کے حوالے کردی۔20 ستمبر 1947 ؁ء کو پاکستان کے خارجہ سیکریٹری اکرام اﷲ نے ریاست قلات کے وزیر اعظم محمد اسلم کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے مذاکرات کے بجائے ریاست قلات کی پاکستان کے ساتھ الحاق پر اصرار کیا ۔ انہوں نے لکھا ’’ بحث کے دوران آپ نے (بشمول ڈی وائی فیل ) ایسے نقطوں پر بات کی جن کے بارے میں خان معظم کو تشویش ہے کہ وہ حل ہوجائیں ۔اگر ہم ان نقطوں پر بحث کرنے لگ جائیں تو ہم قلات کے ساتھ بعض اہم امور طے کرنے کے مواقع گنوادیں گے ۔‘‘ اسی دوران قاضی عیسیٰ نے، جو برٹش بلوچستان میں مسلم لیگ کے صدر تھے ،نے خان سے ملاقات کی اور انہیں گورنر جنرل پاکستان جناح کا پیغام پہنچایا جنہوں نے خان کو دعوت دی تھی کہ وہ کراچی آئیں تاکہ پاکستان اور ریاستِ قلات کے مابین مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے بحث کی جاسکے ۔ خان نے اپنے اکتوبر 1947 ؁ء کے دورہِ پاکستان سے قبل اپنے وزیراعظم اور وزیرِخارجہ سے تمام ممکنہ اقدامات کے حوالے سے گفت و شنید کی ۔ انہوں نے پانچ ممکنات پر بحث کی۔ 

(الف) ایران سے الحاق ۔

(ب) افغانستان میں شمولیت (الحاق)
(ج) ہندوستان سے الحاق
(د) پاکستان سے الحاق 
(ر) حکومتِ برطانیہ کے ساتھ بطور ذیلی ریاست شمولیت ۔
(الف) ایران میں شمولیت اس حوالے سے ناممکن تھی کہ دونوں قوموں کے درمیان تاریخی دشمنی کی رکاوٹ حائل تھی ۔ ایران جسے خود اپنے بلوچوں سے آزادی کے مطالبے کی وجہ سے مسائل درپیش تھے، بلوچ عوام بلوچستان کی ایران میں شمولیت کو کبھی بھی قبول نہ کرتا ۔ لیکن وزیر خارجہ فیل اس الحاق کے خلاف نہیں تھے کیونکہ ان کے خیال میں آگے جاکر اس قدم سے بلوچ اتحاد کے لئے راہ ہموار ہوجائے گی۔
(ب) افغانستان کے ساتھ الحاق کے لئے کچھ اراکین نے اثبات کا اظہار کیا جن میں افغانستان کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی خان کی شریکِ حیات کے علاوہ خان کے بعض خاندان کے افراد اور شہزادہ سلطان ابراہیم بھی شامل تھے۔ لیکن وزیرخارجہ فیل نے اس کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ افغانستان خود بیرونی مدد کے بغیر روس سے اپنا دفاع تک نہیں کرسکتا ابھی تک تو افغانستان چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ایک ایسا ملک ہے جسے کسی ملک کی دلچسپی کا سامنا نہیں ہے لیکن اگر اس کی سرحدیں بلوچستان کی صورت میں سمندر تک پہنچ جاتی ہیں تو پھر روس اسے حاصل کرنے کے لئے افغانستان کی خودمختاری کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ لہٰذا خان نے ،جو ایک کٹّر مسلمان اور کمیونزم کے خلاف تھا ، اس خیال کو سختی کے ساتھ رد کردیا ۔ مزید براں یہ حل بلوچوں کے لئے بھی قابلِ قبول نہیں تھا جو اپنے وطن کو افغانستان کی طرح ایک مساوی آزاد ملک گردانتے تھے۔
(ج) انڈیا کے ساتھ الحاق جغرافیائی اور سیاسی دشواریوں کے بنا پرناممکن تھی اور یہ پاکستان کے لئے بھی انتہائی اشتعال انگیزی کا باعث بنتا۔ اس کے علاوہ خان اور کانگریس کے درمیان تعلقات تواسی وقت کشیدہ ہوگئے تھے جب نہرو نے قلات کی بطور خودمختار اور آزاد حیثیت ریاست کی مخالفت کی تھی۔اگست 1947 ؁ء میں قلات نے حکومتِ ہندوستان کی توجہ اس پاک قلات معاہدے کی جانب دلائی جس کے تحت حکومتِ پاکستان نے قلات کی بطورِ آزاد ریاست حیثیت کو تسلیم کرلیا تھا۔خان کی حکومت نے ہندوستان کی حکومت کو بھی ایک ایسا ہی معاہدہ کرنے کی دعوت دی ۔ اس کے بعد خان کے نمائندے سر سلطان احمد کی جانب سے دہلی میں ایک تجارتی مرکز قائم کرنے کی درخواست کی گئی لیکن نمائندے کو بتایا گیا کہ ان درخواستوں پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکتا۔ ان تمام حقائق کی بناء پر خان نے الحاقِ ہندوستان کے خیال کو مسترد کردیا ۔
(د) پاکستان کے ساتھ الحاق اس بنا پر دشوار کن تھا کہ لوگوں کی اکثریت قلات ا سٹیٹ نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم کی صورت میں اسکے خلاف تھی اور ایک آزاد ریاست قلات کو عظیم تر بلوچستان کا بنیادی مرکز سمجھتی تھی ۔ خان نے محمد اسلم کو حکم دیاکہ وہ پاکستان کے ساتھ ایک با عزت وباوقار معاہدہ کرائیں۔
(ر) جہاں تک حکومتِ برطانیہ میں بطور ایک ذیلی ریاست کے شمولیت کا تعلق تھا (جیسا کہ خلیج کے عرب ممالک نے کیا تھا) تو وزیر خارجہ فیل(Fell) کا کہنا تھا کہ ’’ یقیناًخان کے ذہن میں یہ بات موجود ہے کہ قلات کو آزاد رہنے کے لئے ایک طاقتور حمایتی کی ضرورت ہے ‘‘ لیکن وزیر خارجہ نے خان کو اطلاع دی کہ بلوچستان کے ایک ایسی حیثیت حاصل کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے، لہٰذہ جب دسمبر 1947 ؁ء میں وزیر خارجہ فیل انگلستان گئے تو وہاں انہوں نے دولتِ مشترکہ کے تعلقات عامّہ کے ایک افسر مائلز کلاسن(Miles Clausen) سے مشورہ کیا جنہوں نے یہ کہہ کر بلوچستان کو بطورِ برطانیہ کے تحفّظ شدہ ریاست کے نفی کی اس سے پاکستان کی حکومت ناراض ہوگی بلکہ انہوں نے قلات اور پاکستان کے مابین معاہدے کی حمایت کی اور کہا کہ برطانیہ بلوچستان کو ایک ہندوستانی ریاست کے طور پر دیکھتی ہے ۔ درحقیقت تو حکومت برطانیہ اپنے اقتدار کے خاتمے سے قبل بھی قلات کی آزاد حیثیت کی مخالفت کرتا رہا تھا ۔شاہی نمائندے نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن(Lord Mount Batten) کو ایسے امکان کے خطرات سے آگاہ بھی کیا گیا تھا جسے انہوں نے پاکستانی حکومت تک پہنچایا تھا۔
جناح کی دعوت پر خان ایک ایسا مرتب کردہ معاہدہ اپنے ساتھ لے کر پاکستان گئے جسے وہ حکومتِ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے دوران بطورِ دستاویز استعمال کرنا چاہتے تھے ۔ اس معاہدے کے تحت قلات کی پاکستان کیساتھ تعلقات کی حدبندی کی گئی تھی ۔ مجوزہ معاہدے میں مندرجہ ذیل نکات شامل تھے:

(الف) قلات کو بطور ایک آزاد ریاست کے تسلیم کرنا۔

(ب) بیرونی ملک کی جانب سے حملے کی صورت میں اُس کے خلاف اتحاد کیلئے حتمی اقدام کرنا۔
(ج) دونوں ممالک کا ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت اور مسائل کو پُر امن ذرائع سے حل کرنے کیلئے پالیسی کا تعین۔
لیکن سفارتی آداب کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کراچی میں خان کی آمد پر نہ گورنر جنرل اور نہ ہی وزیراعظم پاکستان نے ان کا استقبال کیا۔ اس سے قلات کے متعلق پاکستان کی پالیسی میں بدلاؤ کااشارہ ملتا تھا۔ جناح نے خان سے برطانیہ کے ماتحت ہندوستانی غیر خود مختار حاکموں جیسا سلوک کیا جس سے خان کو مایوسی ہوئی۔ جناح نے خان کو تاکید کی کہ وہ قلات کو پاکستان کے اندر ضم کردیں اور یہ کہ وہ الحاق سے کم کسی بھی حل پر تیار نہیں ہوں گے۔
پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی کی اہم وجہ برطانوی حکومت تھی کیونکہ پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر نے حکومت پاکستان کو ان خطرات کے متعلق تنبیہ کیا تھا جو اسے قلات کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کی صورت میں درپیش ہوسکتے تھے۔لیکن ان تمام حالات کے باوجود خان نے جناح کے مطالبے کو رد کردیااور کہا ’’ بلوچستان کثیر قبائل پر مشتمل خطّہ ہے لہذا کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے وہاں کے عوام سے مشاورت کرنا ہوگا۔ لہذا میں جب تک انہیں اعتماد میں نہیں لیتا قبائلی روایت کے مطابق ان پر کوئی فیصلہ مسلّط نہیں کروں گا ‘‘۔

’’حکومتِ برطانیہ کی پالیسی اور قلات کیلئے ہتھیار‘‘

پاکستان سے واپسی پر خان کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ قلات پر بیرونی جارحیت کی صورت میں کیسے اس کا دفاع کیا جائے ۔ لہذا انہوں نے قلات کی فوج کے کمانڈر انچیف بریگیڈیئر پرویز کو حکم دیا کہ وہ افواج کی صف بندی کریں اور گولہ بارود و ہتھیاروں کے ذخائر کو منظّم کریں ۔ جنرل پرویز نے دسمبر1947 ؁ء میں اپنے دورہِ انگلستان کے دوران دولتِ مشترکہ کے تعلقاتِ عامّہ اور وزیرِ ترسیلات سے ملاقات کی لیکن 25 مارچ1948 ؁ء کو دولتِ مشترکہ تعلقات کے دفتر کے ایک اہلکار لیفٹیننٹ کرنل پنّل(Pinnel) کو حکومت برطانیہ کے وزیر ترسیلات نے آگاہ کیاکہ حکومتِ پاکستان کی منظوری کے بغیر کوئی ہتھیار نہ بھیجے جائیں ۔ اس کے بعد دولتِ مشترکہ کے تعلقات کے دفتر کے سیاسی شاخ نے پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر کو اطلاع دی کہ اگر پاکستانی حکومت کی رضا مندی ہو تو قلات کے لئے مندرجہ ذیل ذخائر حاصل کئے جاسکتے ہیں:

(الف) ہتھیار ( بشمول 1500 رائفلز، 4مارٹر گولے اور 6 وکِّرز(Vicker): قیمت سات ہزار نو سو چھیانوے پاؤنڈ ۔

(ب) گولہ بارود ( تقریباً پچاس لاکھ راؤنڈز ): قیمت اسّی ہزار پاؤنڈ ۔
(ج) کپڑے اور کمبل :قیمت سات ہزار دو سو پاؤنڈ۔

مندرجہ بالا معلومات پاکستان میں فائز ہائی کمشنر کو 2 اپریل1948 ؁ء کو اس وقت پہنچائی گئیں جب قلات کو پہلے ہی الحاق کرنے پر مجبور کیا جاچکا تھا۔ حکومتِ برطانیہ کے اس سوچے سمجھے تاخیر سے پاکستان کو بلوچستان میں فوجی کارروائی کے دوران فائدہ پہنچا۔

قلات کی پارلیمنٹ اور الحاق:

اپنے پاکستان کے دورے میں خان نے جناح سے وعدہ کیا تھا کہ وہ قلات کی پارلیمنٹ سے صلاح و مشورہ کرنے کے بعد انہیں جواب دیں گے۔ بلوچ آئین کے مطابق خان مطلق العنان حاکم نہیں تھا بلکہ پارلیمان کو بھی حق حاصل تھا کہ وہ اہم معاملات مثلاً الحاق وغیرہ پر فیصلہ کرے۔ 12دسمبر 1947 ؁ء کو خان نے دارالعلوم کا ایک اجلاس بلایا کہ الحاق کے مسئلے پر بات چیت کی جاسکے ۔ وزیر خارجہ فیل نے ایوان کو بتایا کہ پاکستان نے معاہدہ کرنے سے انکار کردیا ہے اور غیر مشروط الحاق کا مطالبہ کیا ہے ۔ ان کے خطاب کے بعد ایوان کے دوسرے ارکان نے بھی خطاب کیا جن میں قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کے ارکان کی اکثریت تھی ۔ ایوان کے قائد غوث بخش بزنجو نے حکومت پاکستان کے غیر دوستانہ رویّے پر تنقید کی اور تنبیہ کیا کہ بلوچ کسی توہین آمیز رویے کو برداشت نہیں کریں گے اور اپنی قومی آزادی کے لئے جان تک قربان کردیں گے۔ایوان کے دوسرے اراکین نے بھی میر بزنجو کے خیالات کی تائید کی ۔ ایوان نے طویل بحث مباحثے کے بعد 14دسمبر 1947 ؁ء کو مندرجہ ذیل قرارداد متفقّہ طور پر منظور کرلی۔

’’ پاکستان کیساتھ الحاق کے بجائے دوستی پر مشتمل ایک ایسا معاہدہ کیا جائے جو کسی بھی دو آزاد و خودمختار ریاستوں کے مابین ہوسکتا ہے‘‘۔
4 جنوری 1948 ؁ء کو الحاق کے معاملے پر غور کرنے کے لئے دارالامراء کا اجلاس ہوا۔ ایوان بالا نے دارالعوام کے فیصلے کو خراجِ تحسین پیش کیا ۔ ایوان بالا جو کہ سرداروں کی اکثریت( بشمول کیچ مکران کے گچکی سردار حالی خان پر مشتمل تھی ) نے درج ذیل قرار داد کی منظوری دی:
’’ یہ ایوان حکومتِ پاکستان کے ساتھ خان کی جانب سے ہر باوقار اور دوستانہ معاہدے کی توثیق کرے گی بشرطیکہ (ہمارے) مُلک کی آزادی اور اقتدارِ اعلیٰ کو برقرار رکھا گیا ہو ، لیکن یہ ایوان کسی بھی ایسے الحاق کو نہیں مانے گی جس سے بلوچستان کی علیحدہ اور جدا گانہ حیثیت پر ضرب پڑتا ہو ‘‘۔
وزیراعظم محمد اسلم کراچی کے اپنے دورے میں پارلیمنٹ کے قراردادوں کی کاپیاں اپنے ساتھ لے آئے تھے۔اُنہوں نے جناح سے ملاقات کی اور الحاق کے معاملے پر بات چیت کی ۔ وہ فروری میں قلات واپسی پر 2فروری1948 ؁ء کو لکھے گئے جناح کے خط کو ساتھ لائے اور اسے خان کے لئے پڑھا۔ اس خط میں ایک بار پھر جناح نے پاکستان میں شمولیت کرنے کے اپنے مطالبے کو دہرایا۔

پاکستان کی الحاق کے حوالے سے پالیسی:
گیارہ فروری1948 ؁ء کو جناح سابقہ برٹش بلوچستان میں واقع سبّی (ایک قدیم شہر اور بلوچ کنفیڈریشن کا پرانا دارالخلافہ) آئے جہاں اگلے دن کے شام کو خان اور ان کے درمیان ملاقات ہوئی۔ 13فروری کو قلات کے سرد موسم کے دارالخلافہ ڈھاڈر میں ان کے درمیان دوسری ملاقات ہوئی جبکہ 14 فروری کو طے شدہ ایک اوراجلاس خان کے اچانک خرابیِ صحت کی وجہ سے برخاست کی گئی ۔ اپنے غیر متوقع خرابیِ صحت کے متعلق بات کرتے ہوئے خان نے حکومتِ پاکستان کی قلات کے حوالے سے اُن کے غیر مصنفانہ اور غیر دوستانہ پالیسی پر تنقید کی ۔ ان کا کہنا تھا :

’’ جب میں سبّی میں محمد علی جناح سے دوسری بار ملا تو انہوں نے مجھے بتایاکہ حکومت پاکستان نے کچھ ترامیم اور تبدیلیوں کے بعد الحاق کے متعلق ایک اور دستاویز بنائی ہے لہذا میں اس نئے دستاویز کو دیکھوں ۔ جب میں نے دستاویز پڑھی تو ایک لمحے کے لئے حیران رہ گیا کیونکہ اس میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 ؁ء اور آزادی ایکٹ 1947 ؁ء کے حوالاجات (references) موجود تھے ۔ان سے قلات کے تاریخی حیثیت پر اثر پڑ تا تھااوراصلی معاہدے میں یہ چیزیں شامل نہیں تھیں۔ میرے ارادے تمام مراحل میں دیانتداری پر مشتمل تھے۔الحاق سے متعلق دستاویز میں یہ تبدیلی نہ صرف میرے لئے شدید حیرانی کا باعث بنی بلکہ مجھے شدید طور پر متاثر بھی کرگئی پچھلے مہینے کے شدید مصروفیات نے میرے ذہن اور جسم پر اپنے اثرات مرتب کئے تھے اب اسی آخری دھچکے نے مجھے دماغی طور پر نڈھال کردیا ۔ میں بیمار پڑ گیا اور نئے تبدیلیوں کی وجہ سے کافی مایوس اور دلبرداشتہ ہوگیا۔ میری طبیعت اتنی بگڑ گئی کہ میں آج محمد علی جناح کو خدا حافظ کہنے بھی نہ جاسکا اور انہیں صرف ایک الوداعی خط بھیج دیا ‘‘۔
14 فروری کو جناح کے ایک خصوصی سفیر ایس۔ پی ۔شاہ نے خان سے ملاقات کی ۔ ملاقات کے دوران خان نے الحاق کے متعلق دستاویز میں ترامیم پر احتجاج کیاجو کہ پاکستان کے خارجہ سکریٹری اکرام اﷲ کی طرف سے لکھے گئے 20 ستمبر1947 ؁ء کے خط میں کیے گئے وعدے کے خلاف تھے۔ اس خط میں اکرام اﷲ نے قلات کی ممتاز حیثیت سے برقرار رہنے اور الحاق کے دستاویز میں مفید اقدامات کی بات کی تھی۔خان نے 14فروری 1948 ؁ء کو لکھا گیا ایک خط کرنل ایس۔ پی۔ شاہ کے ذریعے جناح کو بھیجا اور اس میں اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ 9 مارچ 1948 ؁ء کو خان کو بتایا گیا کہ ’’ جناب عالی(جناح)نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب قلات کے ساتھ مذاکرات اور پاکستان اور قلات کے ساتھ مستقبل کے تعلقات کو ذاتی طور پر نہیں چلائیں گے‘‘۔کرنل ایس ۔ پی ۔ شاہ کو قلات کے معاملات پر اختیار سونپا گیا تھا اور ان کے ساتھ محمد اسلم کو شامل رکھا گیا تھا جنہیں خان اور ان کے سرداروں (بشمول دو جاگیردار سردار غلام قادر ، جام لسبیلہ اور میر حبیب اﷲ نوشیروانی ، نواب خاران) کے مابین اندرونی اختلافات اور رقابتوں کا علم تھا۔ جام لسبیلہ کے خان کے ساتھ مراسم خاندانی شادیوں کے حوالے سے تھے اور وہ عظیم میر نصیر خان کے زمانے سے قلات کے ایک جاگیردار تھے۔ اپنے غلبے کے دوران جام نے بطور ماتحت حاکم کی حیثیت سے انکار کرنے کی کوشش کی تھی ۔ جام نے 6 جولائی1947 ؁ء کو اے جی جی بلوچستان کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ لسبیلہ کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے ۔ اسی مہینے اے جی جی بلوچستان نے انہیں اطلاع دی کہ وہ ریاست قلات کے ایک ماتحت حکمران ہیں ۔اے جی جی نے مزید کہا کہ 1939 ؁ء میں سر میٹکاف(Sir Metcalf) نے جام کو بتایا تھا کہ لسبیلہ کی آئینی حیثیت قلات کے زیرِاثر ایک جاگیردانہ ریاست کی ہے اور یہ حیثیت جام نے منظور کرلی تھی ۔ اب اگر( جام کی طرف سے ) نافرمانی کی جاتی ہے تو خان کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنا اختیار قائم رکھنے کے لئے تمام ذرائع استعمال کرے۔ بالکل اسی طرح کا پیغام نواب خاران کو بھی پہنچایا گیالیکن دونوں سردار اپنی حیثیت سے خوش نہیں تھے۔
انہوں نے فروری 1948 ؁ء کے آخر میں پاکستان سے الحاق کی کوشش کی لیکن جناح نے ان کو منع کردیا ۔ اب پاکستان کے ساتھ الحاق سے قلات کے انکار نے پاکستان کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ لسبیلہ اور خاران کے جاگیر دارسرداروں سے براہ راست سودے بازی کرے لہٰذہ حکومتِ پاکستان نے لسبیلہ اور خاران کے سرداروں کو دعوت نامے جاری کردیے ۔ ان جاگیردار سرداروں کے علاوہ سردار بائیان گچکی، جو کہ خان کے سالے اور قلات کے ایوانِ بالا کے رکن تھے اور جنہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی مخالفت کی تھی ، بھی کراچی چلے گئے۔ حاکمِ قلات نے لکھا :
’’ میں نے نواب بائیان گچکی کو ان کے علاج کی خاطر کراچی جانے کی اجازت دی تھی اور ساتھ ہی انہیں تاکید کی تھی کہ وہ سرداروں کی کونسل کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لئے25مارچ یا پھر ہر حال میں 30 مارچ (1948) واپس لوٹ جائیں ۔ سردار بائیان کے قلات کے ساتھ کچھ مالی مسائل تھے کیونکہ وہ مکران صوبے کے ضلع کیچ کے معصولات میں سے آدھا حصّہ قلات کے اداروں کو ادا کرنے سے انکاری تھے۔ سردار بائیان اگست 1947 ؁ء سے اپنے لئے شئے عمر کے ذریعے پاکستانی اداروں سے رابطہ کرنے کے لئے خفیہ طور پر کوشش کررہے تھے ۔ اپنے کراچی آمد کے دوران وہ قلات کے جاگیردار سرداروں کے ساتھ شامل ہوگئے ۔ وہ 17مارچ1948 ؁ء کو جناح سے ملے اور انہیں آگاہ کیا کہ اگر پاکستان فوری طور پر ان کے الحاق کی دعوت کو قبول نہیں کرلیتا تو وہ مجبور ہونگے کہ خان قلات کے جارحانہ اقدامات کے خلاف اپنے تحفظ کے لئے دوسرے انتظام کریں ۔ انہوں نے خان پر درج ذیل الزامات لگائے:

(الف) خان چاغی اور مکران کے فصلوں پر لگائی محصول ہتھیاتے رہے ہیں ۔

(ب) خاران کے لوگوں کو سردار کے خلاف اُکسایا جارہا ہے ۔
(ج) اپنے چھوٹے بھائی کو ان ہدایات کے ساتھ مکران بھیجا ہے کہ وہ لوگوں کو سردار بائیان کے خلاف بھڑکائے۔
(د) بولان کے درّے پر ٹریفک کو کنٹرول کرنے کی کوشش۔
(ر) جناح کے خلاف بلوچستان میں غلط اور بغض پر مبنی پراپیگنڈہ۔ 

جناح کے ساتھ اُنکی ملاقات کے بعد پاکستان کی کابینہ کا ایک ایمرجنسی سیشن بلایا گیا جس میں بلوچستان کے سرداروں کے اِن مطالبات کا جائزہ لیا گیا ۔ کابینہ نے فیصلہ کیا کہ ان کے پیشکش کو مان لیا جائے تاکہ خان پر الحاق کیلئے دباؤ ڈالا جاسکے۔17 مارچ کو حکومت پاکستان کی طرف سے ایک غیر آئینی قدم اُٹھایا گیا اور جناح نے جاگیردار سردار بشمول سردار بائیان کی الحاق کے پیشکش کو مان لیا ۔ اس موقع پر جناح نے بائیان کے کردار 

کی تعریف کی اور کہا ’’بائیان! لسبیلہ اور خاران کے موجودہ سردار برطانیہ کی پیداوار ہیں لیکن آپ کی تخلیق پاکستان نے کی ہے‘‘۔
18 مارچ کو پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے ایک اخباری بیان جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نے مکران، خاران اور لسبیلہ کی جانب سے الحاق کو منظور کرلیا ہے ۔ ان علاقوں کے الحاق کرنے کے بعد قلات اپنے آدھے حصّے سے محروم ہوگیا ۔ ایران اور افغانستان کے ساتھ اس کے رابطے منقطع ہوگئے اور سمندر کے لئے جانے والے راستے بھی اس سے کٹ گئے ۔ پاکستان کی حکومت نے اپنی جارحیّت اور غیر آئینی اقدام کو مندرجہ ذیل وجوہات کی صورت میں جائز قرار دیا:
(الف) خان ایک ایجنٹ کے ذریعے ( غالباً برٹش افغانستان کے ایک کانگریسی حمایت یافتہ رہنما عبدالصمد خان اچکزئی) ہندوستان کو الحاق کی پیشکش کررہا ہے اور قلات کے ہوائی اڈوں کو(ہندوستان کے لئے ) استعمال کرنے پر بھی راضی ہے ۔ 
(ب) خان نے افغانستان کو مکران کے ساحل کے سمندری بندرگاہوں کو استعمال کرنے کی پیش کش کی ہے ۔
(ج) قلات کے بعض علاقوں کی پاکستان کیساتھ الحاق کی خبر سن کر خان حکومت برطانیہ سے تحفظ فراہم کرانے کی کوشش کررہے ہیں ۔
ریاست قلات نے ان الزامات کی تردید کی لیکن پاکستان نے اِن احتجاج کو مسترد کرتے ہوئے خان پر پاکستان کے مفادات کے خلاف سازش کرنے کا الزام عائد کیا ۔ خان نے اِس الزام کی تردید کی اور دھمکی دی کہ وہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس اور اقوامِ متحدہ سے رابطہ کریں گے ۔ خان نے پاکستانی حکومت اور جناح کو اُنہیں اور بلوچ قوم کے ساتھ دھوکہ بازی کرنے پر تنبیہ کی ۔ انہوں نے کہا :
’’ اگر قلات کو الحاق کرانے پر مجبور کیا جاتا ہے تو یہ الحاق رضاکارانہ نہیں ہوگا۔‘‘
پاکستان کی حکومت قلات کے تابعدار ریاستوں کی جانب سے الحاق کرانے کے بعد قلات کو تقسیم کرانے کی پالیسی پر گامزن ہوگئی۔ وزارتِ خارجہ کے جوائنٹ سیکرٹری ایس بی شاہ نے بلوچ سرداروں وڈیرہ بنگلزئی ، سردار شاہوانی اور سردار سنجرانی سے رابطے کیے تاکہ اُنہیں رشوت دیکر خریدا جاسکے ۔ اُس نے انہیں پیشکش کی کہ اگر وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کردیں تو انہیں خودمختار حیثیت دی جائے گی ۔ اس دوران سردار رئیسانی نے کرنل شاہ کو تعاون کی پیشکش کی۔ تاہم جب یہ سازشیں جاری تھیں اسی دوران آل انڈیا ریڈیو نے 27مارچ 1948 ؁ء کو وی پی مینن (V.P.Menon) کا یہ بیان نشر کردیا کہ خان نے الحاق کے لئے ایک سفارتی نمائندہ ہندوستان بھیج دیا ہے ۔ اسی دن خان نے گورنر جنرل انڈیا ماؤنٹ بیٹن کو ایک خط لکھا اور شدید احتجاج کیا ۔ اُنہوں نے لکھا :
’’میں اس شرارتی خبر کے سننے پر بہت حیران ہوں اور پرزور انداز میں اس کی تردید کرتا ہوں۔ قلات کی حکومت نے ایسی کوئی درخواست ہندوستان سے نہیں کی ہے ۔ میں درخواست کروں گا کہ آپ اس خبر کی تردید کردیں یا پھر اگر آپ کے پاس قلات حکومت کی طرف سے واقعی کوئی خط وغیرہ ہے تو پھر آپ اسے اخبارات میں کیوں شائع نہیں کرتے ؟‘‘
انڈیا اور قلات:
تیس مارچ1948 ؁ء کو گورنر جنرل انڈیا نے خان کو ٹیلی گرام بھیجا جس میں انہوں نے آل انڈیا ریڈیو کی رپورٹنگ پر افسوس کا اظہار کیا اور اسے ایک غلطی قرار دیا ۔ اسی دن نہرو نے ہندوستانی پارلیمنٹ کو بتایا کہ آل انڈیا ریڈیو کی رپورٹ ایک غلطی کا نتیجہ ہے جس پر وہ افسوس کا اظہار کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا :
’’ اب تک نہ حاکم قلات کے کسی نمائندے اور نہ ہی حکومتِ ہندوستان کی جانب سے ریاستِ قلات کی انڈیا کے ساتھ الحاق پر کوئی بات کی گئی ہے۔ قلات کی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ میں یہ کہتا چلوں کہ بیرونی اخبارات میں ریاستِ قلات اور حکومتِ ہندوستان کے مابین جن سیاسی مذاکرات کا لکھا گیا ہے وہ بالکل بے بنیاد ہیں ۔ یہ بیان کہ ہماری حکومت نے قلات کو رقم فراہم کی ہے اور قلات میں ہوائی اڈوں کی مانگ کی ہے ، بھی مکمل طور پر بے بنیاد ہیں۔‘‘
اسی دن ماؤنٹ بیٹن نے وی پی مینن سے ملاقات کی اور ان سے خانِ قلات کے احتجاج کے متعلق گفتگو کی ۔ بحث کے بعد ماؤنٹ بیٹن نے اعلان کیا کہ ’’ ریاستِ قلات کے متعلق انتقالِ اقتدار کے دوران مسٹر جناح نے اس کی آزاد حیثیت کو تسلیم کرلیا تھا۔ بعد میں سوچا گیا کہ قلات کو ہر حال میں پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہئے ۔ لیکن جب قلات نے دباؤ کو مسترد کردیا تو اسے توڑنے کے لئے اس کے ماتحت سرداروں کا الحاق منظور کرلیا گیا۔ مسٹر مینن کا خیال ہے کہ یہ متوازی صورتحال حیدر آباد کے ساتھ بھی ہے۔‘‘
تحلیلِ قلات:
مینن کے بیان اور پاکستان کے قلات کو کئی حصّوں میں تقسیم کرنے کے پالیسی نے خان کو پریشان کیا ہوا تھا ۔ ان کے سامنے دو راستے تھے:
(الف) محل چھوڑ دیں اور پہاڑوں میں پناہ لے لیں تاکہ پاکستان کی جانب سے حملے کی صورت میں دفاعی جنگ لڑسکیں اور اقوامِ متحدہ سے رابطہ و دوستوں کی تلاش کی جائے تاکہ قلات کی اقتدارِ اعلیٰ کا تحفظ کیا جاسکے۔
(ب) الحاق کے مطالبے کو تسلیم کرلیا جائے ۔
وزیر خارجہ فیل نے پہلے تجویز کی اس بنیاد پر مخالفت کی کہ اس سے روس کو بلوچ آبادی کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے کا موقع مِل سکتا ہے ۔لیکن پہلے تجویز کی قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے اراکین ، بلوچ لیگ ، پرنس عبدالکریم گروپ ، سلطان ابراہیم اور مری کے قبائلی خطے کے ’’ مظلوم پارٹی‘‘ کے رہنما شیر محمد مری نے حمایت کی ۔ لیکن خان نے فیل کے غلبے کے زیرِ اثر پہلے تجویز کو رد کردیا۔ اپنے آباء و اجداد کے مزاحمت کے عظیم روایت کے برعکس (جو ایرانیوں ، افغانیوں اور برطانیوں سے بلوچستان کی اقتدارِ اعلیٰ کے لئے لڑتے رہے) خان نے پارلیمان کی منظوری کے بغیر الحاق کے ’’ عقل مندانہ‘‘ فیصلے کا اعلان کردیا ( 27 مارچ کو پاکستانی قبضے کے بعد خان سے زبردستی الحاق کے کاغذات پر دستخظ کروایا گیا)۔ 28مارچ کو اُنہوں نے حکومتِ پاکستان کو اپنے فیصلے سے آگاہ کردیا اورریاستِ قلات پاکستان کا حصہ بن گیا۔ اُن کے فیصلے کی بلوچ قوم پرستوں نے مخالفت کی جیسا کہ ایک بلوچ لکھاری لکھتا ہے :
’’ نصیر اول نے بلوچوں کو متحد کیا ۔ نصیر دوئم نے اس اتحاد کو برقرار رکھنے کیلئے جدوجہد کی ۔ خدائے داد خان نے اپنی پوری زندگی حکومت منظم کرنے کے لئے لڑ کر گزار دی ۔ محمود خان دوئم نے ریاست کی خاطر کفن ہمیشہ تیار رکھا اور احمد یار موجودہ خان نے اپنی تمام زندگی کی ناز اور شان و شوکت کو دفن کردیا۔‘‘
بلوچ قومی مزاحمت :
ریاستِ بلوچستان کے حکمران میر احمد یار خان کو الحاق کے مسوّدے پر دستخط کرنے کے لئے مجبور کیا گیا ۔خان ایک مطلق العنان حکمران نہیں تھے ۔ اُنہیں ’’رواج‘‘ (بلوچی آئین) کے تحت کام کرنا ہوتا تھااور انہیں کوئی اختیار نہیں تھا کہ پارلیمان کی مرضی کے بغیر وہ مسوّدے پر دستخط کرتے ۔ خان نے اپنی آپ بیتی میں تسلیم کیا ہے کہ انہوں بلوچستان کے پاکستان میں ضم کرنے کے دستاویز پر دستخط کرکے اپنے منصب کی خلاف ورزی کی ہے ۔خان کا دعویٰ تھا کہ ان کے اس غیر آئینی اقدام کے باوجود بلوچ قوم نے نہ ہی اس کے خلاف آواز بلند کیا اور نہ اس پر احتجاج کیا لیکن حقائق اُن کے اس دعوے کی تردید کرتے نظر آتے ہیں ۔ قلات کی بزورِ قوت انضمام سے پاکستان مخالف ریلیوں کا پورے ریاست میں آغاز ہوا۔ بلوچ قوم کے جذبات پر قابو کرنے کے لئے فوج کو چوکس رہنے کا حکم دیا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے 15 اپریل 1948 ؁ء کو ریاستِ قلات کے پورے انتظامیہ کو اپنے تحویل میں لینے کا فیصلہ کرلیا ۔ اے جی جی بلوچستان نے جناح کے ان احکامات کا اعلان کیا کہ قلات کی حیثیت سابقہ برطانوی دورِ اقتدار والی حالت پر واپس چلی جائے گی ۔ قلات کے انتظامیہ کو چلانے کے لئے ایک پولیٹیکل ایجنٹ کا تقرر کیا گیا۔خان نے با دِل نخواستہ اس تبدیلی کو قبول کرلیا اور گورنر جنرل پاکستان جناح کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ : ’’ میرے قانونی اختیار بطور خانِ اعظم کا 15 اپریل1948 ؁ٗ ؁ء کو خاتمہ کردیا گیا ، قلات کے معاملات میں میرا دخل ختم کر دیا گیا اور مجھے آرڈر کے موصول ہونے کے بیس گھنٹوں کے اندر اندر حکومتِ قلات کے بیشتر وزراء کو گرفتار یا جلا وطن کردیا گیا ۔ میرے متعارف کرائے گئے تمام سماجی، معاشی اور انتظامی اصلاحات کو یکسر پلٹ دیا گیا۔ بلوچوں کی نمائندہ پارلیمنٹ اور بلوچ کنفیڈریشن کو بہ یک جنبشِ قلم توڑ دیا گیا۔‘‘
پاکستان کی مرکزی حکومت کی قلات کے لئے پالیسی کے علاوہ جناح نے بلوچستان کو بھی خودمختیاری دینے سے انکار کردیااس کے بدلے میں اس نے سرداروں کے بدنام زمانہ سنڈیمن سسٹم کے مطالبے کو تسلیم کردیا ۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے بلوچستان کو ایک بوجھ سے تشبیہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری اداروں کے بجائے بلوچستان کو ان کی رہنمائی کے تحت سماجی اور معاشی پروگراموں کی ضرورت ہے۔ اپریل 1948 ؁ء میں بلوچستان سے کئی سیاسی لیڈر جیسے محمد امین کھوسہ اور عبدالصمد اچکزئی کو گرفتار کیا گیا۔ انجمن وطن پارٹی جو کانگریس نواز پارٹی تھی اور صمد اچکزئی کی سربرائی میں کام کرتی تھی کو غیر قانونی قرار دیا گیا ۔
خود مختیاری دینے سے انکار ، سنڈیمن نظام کی واپسی اور بلوچستان کے پاکستان میں غیر آئینی اور غیر جمہوری انضمام نے بے چینی اور ہلچل کو جنم دیا ۔لہذا 16 مئی 1948 ؁ء کو خان کے چھوٹے بھائی پرنس عبدالکریم نے قومی آزادی کی تحریک کی قیادت کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ انہوں نے قوم پرست سیاسی جماعتوں کے سرکردہ اراکین (جن میں قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی ، بلوچ لیگ اور بلوچ نیشنل ورکرز پارٹی شامل تھے ) کو دعوت دی کہ وہ ایک عظیم تر بلوچستان کی آزادی کے کوششوں میں ان کا ساتھ دیں ۔ اپنے سیاسی عزائم کے ساتھ ساتھ پرنس شاہی خاندان کے رکن اور صوبہ مکران کے سابق گورنر تھے ۔ قلات کے بزورِ طاقت الحاق اور سردار بائیان کے بطور والی مکران تقرر ہونے سے وہ برہم ہوگئے ۔ اُنہوں نے افغانستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہاں سے مدد لی جاسکے اور تحریکِ آزادی کو منظّم کیا جاسکے۔ پرنس کریم نے 28جون1948 ؁ء کو خان کو ایک خط لکھا اور اُنہیں اپنی جلاوطنی کے وجوہات سے آگاہ کیا اپنے طویل مضمون میں انہوں نے جلاوطنی کے وجوہات کے حوالے سے خاران اور مکران کے غیر آئینی شمولیت ، مکران صوبے کے غیر منصفانہ الحاق اور قلات کے بزورِ طاقت
پاکستان میں انضمام کا ذکر کیا ۔ انہوں نے لکھا:
’’ اس تمام بے چینی اور گڑبڑ کی اصل وجہ پاکستانی لوگوں کی انتہا پسندی اور غیر قانونی اقدام ہیں ۔ ہمارے دونوں ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں نے الحاق کے خلاف متفقہ طور پر فیصلہ دیا تھا اور زندگی کے آخری لمحے تک اپنی مکمل آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے تیار تھے ۔آپ (خان) نے بھی کئی موقعوں پر اپنی خطوط اور زبانی کلاموں میں بھی ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا ہے ۔ کیا اِن سب کی وجہ میں ہوں؟ اگر پاکستانی لوگ ریاستِ قلات کی آزادی کو سلب کر رہے ہیں تو وہ یہ ایک باقاعدہ طے شدہ پروگرام کے تحت کر رہے ہیں ،میرے جلاوطنی کی وجہ سے نہیں۔ میں تو جب سے یہاں آیاہوں مکمل خاموش رہا ہوں لیکن وہ (پاکستانی)ہمارے آزادی اورقومیت کو تباہ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں ۔ بلوچ ریاست جیسے کہ مستونگ کے لئے پولیٹیکل ایجنٹ کی تقرری ،ساراوان میں ناظم کا چناؤ اور مرکز میں ایک معاون وزیرِ اعظم کا لانا ، ریاست کے غداروں پر مراعات کے دروازے کھول دینا اور ریاست کے وفاداروں پر ظلم و ستم کرنا ، یہ سب چیزیں کیا معنی رکھتے ہیں ؟ کیا لوگ ان چیزوں کے بارے میں اندھے ہوگئے ہیں ۔آپ اور آپ کی ہدایات کے ماتحت بلوچ قوم نے برطانوی آقاؤں کی منشاء کے خلاف پاکستان کے بقاء کے لیئے اخلاقی اور مادی امداد فراہم کی لیکن نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے ۔ آپ کو ابھی تک فریب ہے کہ پاکستان کے خالق (جناح) آپ کے رفیق ہیں اور وہ بلوچ قوم کو خوش اور ترقی کرکے دنیا میں آگے بڑھتے دیکھنا چاہتے ہیں ۔ لیکن ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ الحاق کرانے کے باوجود ( جو کہ سراسر بلوچ قوم کی منشاء کے خلاف تھا) آپ کو کس قدر غیر اخلاقی ، غیر معاشرتی اور غیر مذہبی سلوک سے نوازا گیا ۔ مکران کے صوبے کو بغیر کسی وجہ کے قلات سے کاٹ دیا گیاہے یہ ایک ایسا اقدام ہے جس کی ہمت اُن لادین برطانوی لوگوں کو بھی نہیں ہوئی جنکے خلاف ہم نے ( خدمات قبول کرنے کے ساتھ ساتھ )کئی مسلّح جنگیں لڑیں جو کہ خان محراب خان کے زمانے سے لیکر پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے تک جاری رہیں تھیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی لوگ نہ صرف یہ کہ برطانیوں سے زیادہ جارحیّت پسند ہیں بلکہ انہیں اپنے دوستوں کو دغا دینے کی بھی عادت ہے۔ اس حقیقت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ (پاکستانی) کس کردار کے لوگ ہیں ۔
’’بلوچستان سے نکلنے کے وقت حکومتِ برطانیہ نے آپ کے اقتدار اعلیٰ کے منصب کو مدّ نظر رکھتے ہوئے لسبیلہ اور خاران کے خطّے آپ کے حوالے کر دیئے تھے آپ نے جناح کی اس حد تک خدمت کی کہ نامساعد حالات کے دوران آپ سے متاثر ہوکر انہوں نے آپ کو اپنا فرزند قرار دیا ۔ اب انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اپنے پدری حیثیت کا خیال رکھتے ہوئے وہ ایک قدم آگے آتے اور نوشکی ، کوئٹہ ، بولان اور نصیر آباد کے علاقوں کو ( جن کی لیز کی مدّت قانونی طور پر ختم ہوچکی تھی) آپ کے حوالے کرتے لیکن اس کے برعکس قربانیوں کا صلہ انہوں نے آپ کو استبداد کی صورت میں دیا۔ اگرچہ لسبیلہ اور خاران کا الحاق بھی غیر قانونی تھا لیکن مکران کے الحاق کا تسلیم کیا جانا پورے بلوچ قوم اور آپ کے لئے ایک کھلی توہین کے برابر تھا۔ لیکن ان سب کے باوجود آپ نے اپنی جھوٹی امیدیں نہیں چھوڑی اور اپنی فرزند کی حیثیت میں رہتے ہوئے اپنے پدری نسبت کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور قوم سے التجا کی کہ وہ خوشی سے الحاق کو قبول کریں اور انصاف کی توقع کریں ۔ ایک لمبے عرصے تک بلوچ قوم نے چپ سادھ رکھی کہ وہ جلد ہی ریڈیو سے یہ اعلان سنیں گے کہ خان قلات کے تمام اختیارات کو بحال کردیا گیا ہے، مکران کو قلات ہی کا حصہ رہنے دیا گیا ہے ، لسبیلہ اور خاران پر قلات کے اقتدار کو مان لیا گیا ہے اور یہ کہ لیز پر دیئے گئے علاقوں پر قلات کا اختیار مان لیا گیا ہے۔لیکن جب اعلان سامنے آیا تو اس پرانی استبداد پر مبنی مطالبہ تھا کہ مکران کو خالی کیا جائے اور اسکی انتظامیہ کو کیچ کے غدّار سردار بائیان کے حوالے کیاجائے۔
’’ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی کی وجہ ان میں عدم اتحاد کا پا یا جانا ہے لیکن کیا اس کا احساس پاکستان کے لوگوں کو بھی ہے کہ جن کے رواج اور اعمال غیر بھائی چارے ، غیر مساوات، ناانصافی اور استبداد پر مبنی ہیں؟لہٰذا ان تمام حقائق کو مدّنظر رکھتے میں درخواست کرتا ہوں کہ اب جھوٹی امیدیں باندھنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس کا مطلب ایک ایسے شخص کو پرکھنا ہے جسے کہ پہلے ہی پرکھا جاچکا ہے اور وہ اس میں ناکام ثابت ہُوا ہے۔ ہم کسی بھی نظریئے سے پاکستان کے موجودہ حکومت پر نظر ڈالیں توجو چیز ہمیں نظر آتی ہے وہ ہے صرف اور صرف پنجابی فاشزم ۔ لوگوں کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ یہ آدمی اور اسلحہ ہیں جن کی حکمرانی ہے یہاں کوئی اخلاقی نظام اور انصاف نہیں ہے ۔ خودغرضی اور استبداد کا دور دورہ ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ یہ ایک غیر اخلاقی فوجی حکومت ہے جو کہ برطانوی جمہوریت سے کئی درجے بدتر ہے ۔ اس حکومت میں کسی دوسرے قوم کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے چاہے وہ بلوچ ہوں یا سندھی، بنگالی ہوں یا پٹھان ، تا وقتیکہ وہ اپنے آپ کو یکساں طور پر طاقتور نہ بنائیں ۔ان حقائق کی روشنی میں ایسا سوچنے کا کوئی جواز نہیں ہے کہ پاکستان دُنیا کی پانچواں سب سے بڑی ریاست ہے اور دنیامیں مسلمانوں کی سب سے بڑی اور اپنے وسیع ذخائر کی وجہ سے اس بات کا امکان ہے کہ یہ مسلمانوں کے اتحاد اور بھائی چارے کا مرکز بن جائے ۔کیونکہ یہ ملک اسلامی اصولوں کی بنیا دپر قائم ہوا ہی نہیں ہے اسلامی اصولوں کی بات تو ایک طرف اِنہیں (پاکستانیوں کو)تو اس کے نام کا بھی خیال نہیں ہے ۔ شراب کی دکانیں اور طوائفوں کے کھوٹے بدستور چل رہے ہیں اور پنجابی فاشزم کی ہرجگہ حکمرانی ہے ۔ ان وجوہات کی بنا پریہ مملکت اپنے وجود کو برقرار رکھنے اور ترقی کرنے کے لیے استعماری طاقتوں کے لئے ایک مضبو ط مرکز بننے پر مجبور ہے یہ ان کے اشاروں پر ناچتی ہے اور دوسرے قوموں کے فطری آرزوؤں کو دباتی رہی ہے ۔ یہ (پاکستان) استبدادیت کا راستہ ہے اور انسانی تجربے اور خود قرآن پاک کا یہ فیصلہ ہے کہ استبداد کبھی بھی قائم دائم نہیں رہ سکتا چاہے وہ کتنی ہی مادی وسائل سے ہی لیس ہو۔یہی یقین میرا واحد سہارا بن کے مجھے یہاں کھینچ کر لائی ہے ۔ میں نہایت انکساری سے آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ بلا ضرورت میرے لئے بلاوا بھیج کر میرے مشکلات میں اضافہ نہ کیجئے گا۔آپ کے ہاتھ میں اب کچھ نہیں ہے کہ جس سے مجبور ہوکر میں اپنی جلا وطنی ختم کردوں ۔ مکران کے بزورِ قوت الحاق کو ختم کرایئے اُس صوبے کو واپس قلات میں شامل کرایئے تاکہ مجھے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کی جھلک دیکھنے کو ملے ۔ اگر آپ خود ایسا نہیں کرتے تو کیا مکران کے الحاق کی صورت میں دیئے گئے زخم کو مندمل کرنے کے حوالے سے قلات کے تمام اختیارات کو بحال کرکے اسلامی بھائی چارے کا کوئی بھی ثبوت دیا ہے ؟ یہ دکھلایا ہے کہ پنجابی فاشزم کس حد تک جُھک سکتی ہے ؟ یقیناًایسا نہ ہوا ہے اور نہ ہوگا ۔ اگر کچھ واقعی ہوا ہے تو یہ کہ فوجی (پاکستانی فوج) طاقت میں اضافہ کیا گیا ہے ، محاصرے کو سخت کیا گیاہے، پُر امن راہگیروں کو گرفتار اور گولیوں سے چھلنی کیا جارہا ہے اور پورے ریاست میں میرے نام پر پابندی لگائی گئی ہے۔مجھے معاف کیجیئے، میں ایسے دردناک اور استبداد کے ماحول میں رہنے کے قابل نہیں ہوں ۔ میں آپ سے اقرار کرتا ہوں کہ میں اُسی وقت ضرور واپس لوٹوں گا جب میرے جلا وطنی کے وجوہات ختم کردیئے گئے ہوں یا پھر میں خود طاقت حاصل کرکے اُنہیں دور کردوں ‘‘۔
پرنس کریم کی روانگی سے قبل خان کی شریکِ حیات نے انہیں مالی مدد کے طور پر سونا اور چاندی دیا تھا ۔ اس سے ان کے اقدام (جلاوطنی) کے لئے خان کی منظوری کی نشاندہی ہوتی ہے کیونکہ خان کو پرنس کریم کے جدوجہد کی صورت میں ان کے شاہی امتیازی اختیارات کے بحالی کی امید نظر آتی تھی۔ لیکن وزیر خارجہ فیل نے خان اور شہزادے کے مابین کسی بھی رابطے کا انکار جنہیں کہ ریاست کے چند اہلکاروں اور فوجی جوانوں کی مدد حاصل تھی ۔ چند نمایاں سیاسی رہنما جنہوں نے پرنس کریم کے ساتھ جدوجہد میں حصہ لیا ، درج ذیل ہیں: محمد حسین عنقا ( بلوچ لیگ پارٹی کے سیکرٹری اور ہفتہ وار ’’ بولان‘‘ مستونگ کے ایڈیٹر ) ، ملک سعید دہوار ( قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کے سیکرٹری) ، قادر بخش نظامانی( بلوچ لیگ کے رکن اور کمیونسٹ پارٹی سندھ ۔ بلوچستان کے شاخ کے ایک ممتاز رکن ) اور مولوی محمد افضل ( ممبر جمعیت علمائے بلوچستان) ۔ بلوچ مجاہدین ( جیسا کہ وہ خود کو کہلواتے تھے ) افغانستان میں داخل ہوگئے اور صوبہ قندہار کے علاقے سر لٹھ میں قیام پذیر ہوئے ۔ اپنے قیام کے دوران بلوچ آزادی کے جنگجوؤں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیئے مندرجہ ذیل اقدامات پر کام کیا۔ 
(الف) مشرقی اور مغربی بلوچستان کے بلوچ سرداروں کو جدوجہد میں شامل ہونے کیلئے پیغامات بھیجنا۔
(ب) بلوچستان میں ایک پراپیگنڈہ مہم چلانا جس کے ذریعے بغاوت ، ہلچل اور گڑبڑ پھیلائی جاسکے۔ ساتھ ہی نیشنل لبریشن فورس کے لئے لوگوں کو بھرتی کرنا۔
(ج) بین الاقوامی اور خصوصاً افغانستان اور سوویت یونین سے امداد حاصل کرنے کی کوشش ۔ 
اوپر درج کیے گئے مقاصد کے سلسلے میں رودینی قبیلے کے میر غلام فاروق ، چاغی کے سنجرانی قبیلے کے میر وزیر خان ،سردار محراب خان، میر جمعہ اور کئی دوسرے سرداروں کو پیغامات ارسال کیے گئے جبکہ پراپیگنڈہ کو دو محاذوں پر چلایا گیا :
(الف) قومی ثقافتی محاذ ۔
(ب) مذ ہبی محاذ۔
(الف) قومی ثقافتی محاذ کے سلسلے میں پارٹی نے بلوچستان کے تمام علاقوں میں پمفلٹ تقسیم کیے تاکہ لوگوں کو پاکستان کے استبدادی حکومت کے خلاف بغاوت کے لئے آمادہ کیا جائے ۔ پمفلٹ میں لکھا گیا ۔
’’ محمد علی جناح اور ان کے ساتھی ، جن کے ہاتھوں میں انگریزوں نے حکومت نے دی ہے ، ہمیں غلام بنانے کی خواہش رکھتے ہیں اور ہمارے مادرِ وطن (بلوچستان) پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں ۔ وہ مادرِ وطن جس کے ایک ایک انچ کے لئے ہمارے آباء و اجداد نے اپنے خون کی قربانی دی اور اسے غیر ملکیوں سے آزاد کرایا ۔ ہم اپنے پیشروں کی روایت کے خلاف غافل اولاد بننے کے لئے تیار نہیں ۔ ہم نے اپنے مادرِ وطن کے ایک ایک انچ کی آزادی کے لئے لڑنے کا پختہ ارادہ کیا ہے ۔ محمد علی جناح اور اس کے بے شرم ساتھی ہمارے بلوچ ثقافت کا دیوالیہ نکالنا چاہتے ہیں تاکہ مستقبل میں ہم اپنے آپ کو بلوچ نہ کہلواسکیں، اپنی مادری زبان میں بات نہ کرسکیں ۔اپنے پرانے مہذّب رسومات کو نظر انداز کرکے ان کے بے حیا طور طریقے اپنائیں۔ لیکن ہم نے مصمّم ارادہ کرلیا ہے کہ ہم اپنے ثقافت کا تحفّظ کریں گے ۔ جب تک جان ہے اپنی مادری زبان نہیں چھوڑیں گے اور آخر تک اپنے وقار کا دفاع کریں گے۔‘‘
(ب) مذہبی محاذ پر ایک ممتاز مذہبی لیڈر مولوی محمد افضل نے ایک فتویٰ جاری کیا جس میں سرکاری ملازموں اور فوجی اہلکاروں کو مخاطب کیا گیا تھا ۔ فتوے میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کے مسلمان اور خصوصاً فوجی پاکستان کے غیر اسلامی حکومت کے خلاف جہاد میں شامل ہوجائیں ۔ فتوے میں اعلان کیا گیا تھا کہ پاکستان کا حکمران جناح مذہب کے لحاظ سے ایک خوجہ ہے جبکہ اُس کے وزراء میں لیاقت علی خان رافضی (کافر) عبدالرّب نشتر ایک مُلحد جبکہ ظفراﷲ ایک لادین قادیانی ہے۔وہ اسلام کے کبھی بھی خیرخواہ نہیں ہوسکتے ۔فتوے میں پاکستانی فوج سے درخواست کی گئی کہ وہ ایک سچّے اسلامی جذبے کے ساتھ ایک غیر اسلامی حکومت کے خلاف جہاد کے لئے بلوچ لبریشن فورس میں شامل ہوجائیں ۔ فتوے میں مسلمان سپاہیوں کو تنبیہ کی گئی تھی کہ اِس اسلامی جہاد میں جو ہمارے خلاف لڑے گا وہ عام اصطلاح میں خنزیر کہلائے گا اور خدا اور اس کے پاک رسول ﷺ کے سنگین نافرمانوں میں سے ہوگا۔
ثقافتی اور مذہبی تحریکوں کے ساتھ ساتھ آغا عبدالکریم نے قلات کے سابق سپاہیوں اور اہلکاروں پر مشتمل ایک لبریشن فورس کو منظم کیا اور اسے بلوچ مجاہدین کانام دیا۔شہزادہ کریم کو سپریم کمانڈر کے طور پر منتخب کیا۔ اس سلسلے میں بھرتیوں کے لئے پرنس کی جانب سے ایک اپیل بھی جاری کیاگیا کہ جو شخص سو آدمیوں کو فوج میں بھرتی کراتا ہے اسے بطورِ میجر اور پچاس آدمی بھرتی کرانے والے شخص کو بطورِ کیپٹن تعینات کیاجائے گا۔بلوچ لبریشن آرمی کی ایک خفیہ ایجنسی ’’ جان نثار‘‘ کے نام سے قائم کی گئی جس کی ذمہ داریوں میں معلومات اکھٹا کرنا، ترسیلات کے نظام کو تباہ کرنااورغدّاروں کے سرگرمیوں پر نظر رکھنا تھا۔ جان نثار ایجنسی کے ماتحتوں میں ’’ جان باز‘‘ شامل تھے۔ایجنسی کی قیادت پرنس کریم کے پاس تھی اور اس کے ہیڈ کوارٹر کو ’’ بابِ آلی‘‘ (خفیہ جنگ کا دفتر) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ جان نثار کے اراکین کی تعداد تیس تھی جبکہ جان بازوں کی صحیح تعداد کا تعین نہیں کیا جاسکا ہے ۔ بابِ آلی کے جان نثاروں اور جان بازوں کے لئے پہلے حکم میں ان کے مقصد کے لئے مندرجہ ذیل جملے شامل تھے ۔
’’ باب آلی جان نثاروں کے ان مسلسل رپوٹوں اور تجاویز سے اتفاق کرتی ہے کہ بلوچ قوم اور قلات کے غدّاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے ۔ لہٰذہ بابِ آلی جان بازوں کو قطعی حکم جاری کرتی ہے کہ یکم جون 1948 ؁ء سے اس حکم پر نہایت احتیاط عمل درآمد
کرایا جائے چاہے اس میں ان کی جان (جان بازوں کی ) ہی کیوں نہ چلی جائے۔ جب ایک جان نثار کسی غدّار کے نام کو جان باز کے سامنے لاتا ہے تب یہ جان باز کا فرض بن جاتا ہے کہ وہ غدار کے زندگی کا خاتمہ کرے اور اس کی رپورٹ متعلقہ جان نثار کے ذریعے آگے بھیجے ‘‘۔
تاہم افغانستان کے انکار اور اسٹالینی روس کے تعاون پر خاموشی کی وجہ سے پرنس آزادی کی جنگ شروع نہ کرسکے۔سرلٹھ میں اپنی قیام کے دوران پرنس کریم نے ملک سعید اور قادر بخش نظامانی کو بطور سفیر افغان حکومت اور کابل میں دوسرے سفارت خانوں کے اخلاقی اور مادی تعاون حاصل کرنے کے لیئے بھیجا۔ نظامانی نے رپورٹ پیش کی کہ افغان حکومت نے کسی بھی طرح کے تعاون سے انکار کیا ہے اوار کہا ہے کہ وہ (بلوچ) یا تو بطور پناہ گزین قندھار میں رہیں یا پھر واپس لوٹ جائیں ۔افغان اربابِ اقتدار نے باغیوں کو افغان سرزمین سے کاروائی کرنے کی اجازت نہیں دی ۔نظامی نے ایرانی سفارت خانے کو بھی بلوچوں کے مطالبات سے آگا ہ کیا۔ایرانی ایلچیوں نے اپنی تشویش کا اظہار کیا اور باغیوں کو ایران میں پناہ گاہ فراہم کرانے کے خواہش کا اظہار کیا لیکن تعاون کی پیشکش انہوں نے بھی نہیں کی ۔پرنس کے نمائندے کی آخری امید روسی سفارتخانے کی صورت میں تھی۔سوویت اہلکاروں نے غور سے نظامانی کے گفتگو کو سنا ۔ اگرچہ انہوں نے کسی طرح کی یقین دہانی تو نہیں دلائی تاہم وعدہ کیا کہ وہ ماسکو کو آگاہ کریں گے۔یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں افغان حکومت ، جو کہ پاکستان کے خلاف تھی، بلوچ قومی تحریک کی مدد کرنے میں ناکام رہی اور کیوں اسٹالینی روس نے مارکسزم اور لیننزم کے اصولوں کی روشنی میں بلوچوں کے حقِ خودارادیت کی حمایت نہیں کی، جبکہ اُنیس سو بیس کے عشرے میں لینن نے افغانستان میں سوویت نمائندگان کو بلوچ انقلابیوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے اور ان کی مدد کرنے کی تلقین کی تھی ، اور کیوں ایرانیوں نے بلوچ مسئلے میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا جو کہ ایرانی پالیسی کے خلاف تھی۔ واضع رہے کہ ایران پالیسی بلوچ ، کرد اور آذری قومی تحریکوں کو زیرِ قابو کرنے پرمشتمل تھی۔ یہ سوالات ایک تاریخی تجزیے کا طلبگار ہیں ۔
افغانوں نے احمد شاہ کے زمانے سے بلوچستان کو ایک تابعدار ریاست کے طور پر تصور کیا تھا تاوقتیکہ 1758 ؁ء میں بلوچوں اور افغانوں کے مابین جنگ ہوئی اور دونوں ریاستوں کے درمیان عدم مداخلت کے معاہدے پر دستخط ہوا۔19 ویں صدی میں افغان حکمرانوں شجاع الدین اور امیر عبدالرحمٰن نے بلوچستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ۔ امیر عبدالرحمٰن نے اپنی توسیع پسندانہ پالیسی کا اظہار اپنی جان نشینوں کے لیے وصیت نامے میں کیا ۔
’’ اگر افغانستان کو پانی تک رسائی مل جائے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے ملک امیر و کبیر ہوجائے گا ۔ اگر میری زندگی کے دوران اس مقصد میں کامیابی نہیں ملی تو میرے بیٹوں اور جان نشینوں کو اس سلسلے میں بلوچستان کے خطے پر اپنی آنکھیں جما لینی چاہیئے ۔‘‘
1947 ؁ء میں افغانستان کی حکومت نے مطالبہ کیا کہ پشتونستان کا قیام عمل میں لایا جائے جس کی سرحدیں چترال اور گلگت سے لیکر بحیرہ عرب کے بلوچ ساحل تک پھیلی ہوئی ہوں۔افغان حکومت اپنے بیانات اور تحریروں میں بلوچستان کو جنوبی پشتونستان کے نام سے منسوب کرتی تھی۔ افغان توسیع پسندانہ پالیسی کے مضمرات اس چاروں طرف سے خشکی میں گھری ہوئی ملک کے معاشی مفادات میں چھپی ہوئی تھیں ۔لیکن ساَ تھ ہی افغان حکومت کے لیے یہ بھی نا ممکن تھاکہ وہ اپنے قومی مفادات کو نظر انداز کرکے ایک آزاد عظیم تر بلوچستان کی تحریک کو مدد فراہم کرتا جو کہ افغانستان میں موجود بلوچ خطّوں کابھی دعوے دار تھا۔ اسٹالنی ٹولی مشرق میں لینن کے پالیسیوں پر عمل پیرا نہیں تھی اور ہندوستان میں تو اسٹالن کے پیروکار مذہب کے نام پر قائم ہونے کے دعویدار پاکستان کے حق میں تھے۔ مزیدبراں ماسکوکی اسٹالن حکومت افغانوں اور برطانیوں ، جو ایک آزاد و خود مختار بلوچستان کے مخالف تھے، کوناراض کرنے پر تیار نہیں تھے۔
جہاں تک ایرانی پالیسی کا تعلق ہے تو یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایرانی چاہتے تھے کہ بلوچ رہنماؤں کو دھوکے سے ایران بلا کر انہیں پاکستانی اداروں کے حوالے کیا جائے ۔ ( ہمیں یاد رکھنا چائیے کہ شاہِ ایران ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے پاکستان کو ایک آزاد و خودمختار ملک کے طور پر تسلیم کیا تھا)۔
اس دوران ، 24 مئی 1948 ؁ء کو ایک شاہی فرمان کے ذریعے پرنس کریم اور اس کی پارٹی کو ایک باغی گروپ قرار دے دیا گیااور کہا گیا کہ پرنس اور اس کی جماعت کے ساتھ کوئی کسی قسم کا تعلق نہیں رکھے گااور نہ ہی انہیں کوئی راشن فراہم کرے گااور اگر باغی گروپ کے کسی رکن نے کسی نافرمانی کا ارتکاب کیا تو اسے سزا دی جائے گی ۔پاکستان کی حکومت نے فوج پنجپائی چمن چشمہ اور افغان سرحدوں کے قریب راستری کے فوجی اڈّوں پر بھیجی تاکہ باغیوں کی راشن سپلائی لائن کو کنٹرول کیا جائے جو کہ انہیں آزادی کے حامی لوگوں کے ذریعے ملتی تھی ، اور ان کے سرگرمیوں یا حملے کی کوشش پر قابو پایا جائے ۔
پاکستانی اداروں نے اس کی فوج اور لبریشن فورسز کے درمیان دو جھڑپوں کی تصدیق کی۔ بلوچستان میں موجود تناؤ اور ہلچل سے بچنے کے لئے خان نے اپنے ماموؤں حاجی ابراہیم خان اور حاجی تاج محمد کو سرلٹھ بھیجا تاکہ وہ پرنس کریم کو واپس قلات بلالیں لیکن پرنس کریم نے اپنے 18 مئی 1948 ؁ء کو خان کو لکھے گئے خط میں واپسی کو مشروط کردیا۔ انہوں درج ذیل شرائط پیش کئے:

(1) بلوچ، افغانوں کی طرح ایک علیحدہ قوم ہے ۔ ان کی اپنی زبان اور ثقافت ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی تصدیق جغرافیہ اور تاریخ سے ہوتی ہے ۔ انہیں ایک آزاد قوم کی طرح زندہ رہنے کا حق دیا جانا چائیے۔
(2) قلات بلوچوں کا قدیم مرکز رہا ہے اب اگر وہ خطے جنہیں قلات سے کاٹ کر پاکستان کی حکمرانی میں ڈالا گیا واپس قلات میں شامل ہونے چاہیے تو پاکستان کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چائیے۔
(3) پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت قلات کو اپنی خودمختار حیثیت کو برقرار رکھنا چائیے۔

لیکن پرنس اور آزادی کی تحریک داخلی اور بیرونی امداد حاصل کرنے میں ناکام رہے جبکہ بلوچ قوم پرست بھی دو حصوں میں بٹ گئے تھے ۔ محمد حسین عنقا اور ملک سعید گوریلا جنگ کی صورت میں مسلح جدوجہد کی حق میں تھے جبکہ میر غوث بخش بزنجو اور دوسرے نمایاں رہنما تیاریوں کی کمی اور داخلی و بیرونی امداد کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ کسی فوجی مقابلے کے معاملے پر خاموش دکھائی دیتے تھے۔ مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر پرنس کریم کو مجبوراً واپس قلات آنا پڑا تاکہ اپنے مطالبات پر پرامن مذاکرات کئے جائیں ۔ جب 8 جولائی 1948 ؁ء کو قلات میں پرنس کی آمد کی خبر پہنچی تو انہیں خان کا پیغام سنانے کے لئے ڈی وائی فیل قلات اسٹیٹ فورس کے ساتھ ہربوئی پہنچے ۔ ان کی ملاقات کے دوران ڈی وائی فیل نے ان کے کچھ مطالبات مان لیے اور یقین دلایا کہ اگر وہ اپنے لشکر کو غیر مسلح کردیں تو انہیں معافی دی جائے گی ۔پرنس نے اس پر عمل درآمد کرادیا ایک اور خیال کے مطابق پاکستان کے اعلیٰ اہلکاروں نے ہربوئی کے مقام پر پرنس کی پارٹی کے ساتھ مسلمانوں کی مقدس ترین کتاب قرآن پاک پر قسم کھاکرایک ’’ محفوظ طرزِ عمل‘‘ کا معاہدہ کیا لیکن معاہدے کی خلاف ورزی اس وقت کی گئی جب پاکستانی فوج نے آغا کریم اور ان کی پارٹی کے 142 اراکین پر حملہ کردیا ۔ 
پاکستان کے سرکاری نقطہِ نظر کے مطابق عبدالکریم افغان امداد کے ساتھ بلوچستان میں داخل ہوئے اور زرکزئی قبیلے کے ایک بااثر قبائلی لیڈر میر گوہر خان زہری کے تعاون سے جھالاوان کے علاقے میں پاکستان کے خلاف ایک بغاوت کو منظم کیا ۔ مزید براں یہ کیا گیا کہ ساتویں بیڑے کے انچارج میجر جنرل اکبر خان کو احکامات جاری کئے گئے کہ وہ سرکشوں پر حملہ کرکے اُنہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کریں۔ پرنس کریم اور ان کے 142 پیروکاروں کو گرفتار کرلیا گیا اور انہیں مچھ اور کوئٹہ کے جیلوں میں قید کرلیا گیا۔ اس سلسلے میں ایک تفصیلی اور دلچسپ بیان جنرل اکبر خان کی طرف سے 14 اگست1960 ؁ء کو ان کی طرف سے روزنامہ ڈان میں شائع کردہ آرٹیکل ’’ ایک سپاہی کی تازہ یادیں ‘‘ ۔ جنرل اکبر اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ریاست قلات پر حملے کا ایک باقاعدہ منصوبہ تیار کیا گیا تھا وہ پاکستانی فوج اور بلوچ لبریشن فورس کے مابین تصادموں کا بھی ذکر کرتے ہیں ۔ اکبر کے مطابق جناح نے احکامات جاری کیے تھے کہ اس خبر کو پریس میں نہ پھیلنے دیا جائے ۔ میجر جنرل نے اپنے آرٹیکل میں لکھا :
’’ مسٹر جناح نے مجھے گفتگو کے لیے بلایا تو میں نے اُن کے سامنے اپنا منصوبہ ( حملے کا) پیش کردیا ۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ ہمیں قلات پر اس طرح سے حملہ نہیں کرنا چائیے کہ جس سے دنیا کو پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے کا موقع مِل جائے ۔ اُن کے منصوبے کے تحت مسٹر جناح نے بلوچستان کے ریاستوں کو شدید ہلچل اور گڑبڑ والے علاقے قرار دیا ۔مجھے آٹھویں فوجی دستے کا کمانڈر مقرر کیا گیا ۔ یہ واقعہ رمضان کے مہینے میں پیش آیا ۔میں نے ساتویں بلوچ بٹالین کو حکم دیاکہ وہ ریاست پر پیش قدمی کریں ۔ میرے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے کرنل گلزار احمد نے کچھ اُونٹ اکھٹے کیے ۔ جن پر ہم نے جنگی سامان لادا اور طے کیا کہ ہم ریاست میں اس طرح داخل ہونگے کہ کوئی بھی ہم پر شُبہ نہ کرسکے ۔ اِس طرح سے ہمارے سپاہی ریاست میں تاجروں کا بھیس بدل کر داخل ہوئے ۔ اسی دوران ہمارے مرکزی قلات روڈ سے گزرنے کے بعد ریاستی فورسز جُھلو کے وادی میں داخل ہو گئے تھے۔ خان قلات نے جان بوجھ کر اپنے محل کو چھوڑ دیا تھا تاکہ پرنس عبدالکریم اُس پر قبضہ کرکے ریاست کی آزادی کا اعلان کردیں ‘‘۔ اکبر خان مزید لکھتا ہے :
’’ خان کو بے وقوف بنانے کے لئے میں نے ان کی جانب سے پاکستان آرمی کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے میں شرکت کی دعوت دی۔ ریاستی اداروں نے روایتی رقص اور موسیقی کا انتظام کیا تھا ۔ جشن کے دوران میں نے میجر بُخاری کے اصرار پر تقریب کو چھوڑ دیا۔ میں سیدھا شاہی مہمان خانے تک بذریعہ گاڑی پہنچا اور پھر وہاں کے پچھلے دروازے سے باہر نکل گیا ۔ میں نے وہ جگہ ایک فوجی جیپ کیساتھ چھوڑی ۔ قلات کے ریاستی فوج کو اس شام (ہمارے) حملے کی اطلاع مل گئی تھی اور اس کی فوجیں پہاڑوں پر پوزیشنیں سنبھالے ہوئے موجود تھے ۔ اُنہوں نے رمضان کا روزہ رکھا ہوا تھا ۔ اچانک پاکستانی فوج نے قلات کے ریاستی فورسز پر دھاوا بول دیا چار گھنٹے تک لڑائی جاری رہی ۔ اس دوران کرنل گلزار کے بٹالین نے بھی اپنی پیش قدمی کو شروع کردیا ، جب مسٹر ڈگلس فیل کو میرے منصوبے کا علم ہُوا تو انہوں نے مجھے ہٹانے کے احکامات جاری کردیئے ۔ جب رات کو میں اپنے فوجیوں سے ملا تو پتا چلا کہ پاکستانی بریگیڈیئر کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی کیونکہ وہ ہر اٹھائے گئے قدم کے سلسلے میں اپنے انگریز آفیسر سے مشورہ کرتے تھے ، وہ (انگریز) اپنے منصب سے انصاف نہیں کررہے تھے ۔ میں نے اسے معطل کردیا اور اس کی جگہ پر محمد زمان خان کو مقرر کردیا ‘‘۔ 
اس طرح سے آزادی کیلئے پرنس آغا عبدالکریم اور ان کے لبریشن فورس کی کوششیں اپنے اختتام کو پہنچیں ۔
مُقدمہ:
پرنس کریم اور ان کے پارٹی ارکان کی گرفتاری کے بعد اے جی جی نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کوئٹہ خان صاحب عبداﷲ خان کی سربراہی میں ایک تفتیشی ٹیم کے لیے احکامات جاری کردیئے جس نے 12 ستمبر 1948 ؁ء کو اپنی رپورٹ پیش کردی ۔ یہ رپورٹ پرنس کی سرگرمیوں اور لبریشن فورس کے ذریعے تقسیم کیے گئے خطوط اور دستاویزات کے متعلق تھی۔ تفشیش کے بعد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کوئٹہ آر ۔کے۔ساکر نے ایک خصوصی جرگہ (معتبرین کا سرکاری کونسل) تشکیل دیا جس میں مندرجہ ذیل اراکین شامل تھے:
-:1 خان بہادر صاحبزادہ محمد ایّوب خان عیسیٰ خیل جو پشین کے ایک پشتون تھے۔
-:2 کے بی باز محمد خان جوگیزئی ، جو لورالائی کے پشتون تھے۔
-:3 عبدالغفار خان اچکزئی ، جو پشین کے پشتون تھے۔
-:4 ایس بی وڈیرہ نور محمد خان ، جو قلات کے ایک بلوچ سردار تھے۔
-:5 قلات کے سیّد اورنگ شاہ ۔ 
-:6 شیخ باز گل خان ، جو پشتون(ژوب) تھے۔
-:7 وہاب خان پانیزئی جو سبّی کے پشتون تھے۔ اور
-:8 سردار دودا خان مری ۔ جو سبّی کے ایک بلوچ تھے۔
جرگے کو احکامات جاری کیے گئے کہ وہ اُن حالات و واقعات کا جائزہ لیں جو بغاوت کی وجہ بنے اور اپنی سفارشات ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو پیش کریں ۔10 نومبر1948 ؁ء کو جرگے نے ملزمان کے بیانات سُنے اور 17 نومبر1948 ؁ء کو اپنی سفارشات ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے حوالے کردیئے جن میں پاکستان حکومت کے صوابدید پر لورالائی سے پرنس کی رہائی کے علاوہ کچھ جُرمانے شامل تھے لیکن ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے جرگے کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے 27 نومبر کے آرڈر میں پرنس کو 10 سال قیدِ بامشقّت کی سزا سنائی اور اُن پر 5000 روپے جُرمانہ عائد کیا جبکہ اُن کے پارٹی کے دوسرے ارکان کو مختلف سزائیں اور جرمانے دی گئیں ۔
اس طرح سے پاکستانی حکومت نے ( بلوچوں کے) پہلے قومی جدوجہد(برائے آزادی) کو کُچل دیا۔ 
تجزیاتی کلمات :
اس تحقیق میں بلوچ نیشنلزم کے مختلف پہلوؤں ریاست قلات کے زوال کے مختلف وجوہات اور قوم پرستوں کے 1947 ؁ء1948- ؁ء میں کیے گئے ایک آزاد وطن کے دفاع کے حصول میں ناکامی پر بحث کی گئی ہے۔
ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ ثقافت اور تاریخ سے بلوچ کاز کو کافی قوّت حاصل ہوتی ہے اور نسلی واقفیت اسے مددفراہم کرتی ہے جبکہ جغرافیہ مثبت اور منفی اثرات کی حامِل ہے ۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ سنگلاخ چٹانوں اور صحرائی خطوں نے تاریخی طور پر اُن کے (بلوچوں کے) آزادی کی حفاظت کی تھی ۔ حملہ آور بلوچ خطّے پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے لیکن دوسری طرف سخت موسمی حالات اور پانی کی عدم دستیابی بلوچوں کو بطور ایک جاگیردار قوم کے اُبھرنے نہ دیا۔اگرچہ قلات کے خانوں ، بلیدیوں اور دودائیوں نے ایک جاگیردار قوم بنانے کی کوششیں کیں لیکن اِس عمل میں اندرونی جھگڑوں اور بیرونی حملوں ( جیسے کہ ڈیرہ جات پر دُرّانی کے حملے ) ، برطانیوں کی مداخلت اور پھر بلوچستان پر برطانیہ کے بلاواسطہ حکمرانی نے مشکلات پیدا کیے ۔ شدید موسم اور پانی کی کمی نے بلوچوں کو مجبور کیے رکھا کہ یا وہ خانہ بدوشی یا نیم خانہ بدوشی کی زندگی گزاریں یا پھر برصغیر ہند، وسطی ایشیاء ، مشرقی افریقہ اور عرب مشرقِ وسطیٰ ہجرت کرجائیں ۔
بلوچستان پر برطانوی قبضے کا عمل 1840 ؁ء کے عشرے سے شروع ہوا اور 1893 ؁ء میں جاکر مکمل ہوا ۔ برطانیہ کیابلوچستان میں دلچسپی فوجی اور جغرافیائی و سیاسی وجوہات کی بنا پر تھی تاکہ وہ مدِّ مقابل توسیع پسندانہ قوتوں روس، فرانس اور جرمنی سے اپنے کالونی (ہندوستان ) کی حفاظت کرسکے اور وہ بلوچستان کو افغانستان اور ایرانی خلیج کے خطوں میں اپنے مفادات کے تحفّظ کے لئے استعمال کرسکے ۔ برطانیہ نے بلوچستان کو متعدد حصّوں میں تقسیم کیا جن میں سے ہر ایک حصّے کو مختلف آئینی اور سیاسی حیثیت دی گئی ۔ ہندوستان کے برعکس اُنہوں نے بلوچستان کے معاشی وسائل کا نوآبادیاتی طریقے سے استحصال نہیں کیا ۔ مثلاً اس کے باوجود کہ بلوچستان کے پاس ایک وسیع و عریض ساحلِ سمندر موجود تھی ۔ اُنہوں نے کبھی بھی بلوچستان کے بندرگاہوں کو برآمداتی سہولیات فراہم نہیں کیے۔ اس کے بجائے اُنہوں نے ایک نیا سماجی و سیاسی نظام ’’ سنڈیمن یا سرداری نظام‘‘ کے نام سے قائم کیا ۔ 1854 ؁ء میں برطانوی دباؤ سے مجبور ہوکر خان قلات نے بلوچستان کی حکومتِ برطانیہ کے ذیلی ریاست کے حیثیت کو تسلیم کر لیا۔1876 ؁ء حکومتِ برطانیہ نے خان کو بے بس کردیا اور ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنے دوسرے سرداروں کے ساتھ اختلافات اور اندرونی چپقلشوں میں برطانیہ کو ثالث مان لیں اس نئی پالیسی کی وجہ سے قبائلی صوبوں میں خان کو اپنے جاگیردارانہ اختیارات سے دستبردار ہونا پڑا ساتھ ہی لیز پر دیئے گئے خطوں (Leased land) میں بھی اُن کی گرفت ختم ہو کر رہ گئی 1876 ؁ء کے اس معاہدے نے بلوچ معاشرے میں نئے سیاسی قوتوں کو جنم دیا۔ خان کا زوال اور سرداروں کی طاقت میں اضافہ ہوا ۔سنڈیمن نظام کے تحت قبائلی علاقوں کو مکمل خودمختاری دی گئی ۔سردار کی حیثیت کو ایک جاگیردار امیر کی صورت میں تحلیل کیا گیا اور قبائلیوں کو رعایا قرار دیا گیا۔سرداروں نے برطانیہ کے اختیار کو تسلیم کرلیا ۔ اس نئے نظام کی وجہ سے بلوچوں کے اس جمہوری روایت کا خاتمہ ہوگیا جس کے ذریعے بلوچ ایک منتخب ’’ مجلس‘‘ یا ’’جرگہ‘‘ کے ذریعے اپنے جھگڑے حل کرلیتے تھے۔ اس کے مقابلے میں موروثی سرداروں پر مشتمل ایک نیا جرگہ سسٹم ’’سرداری یا شاہی جرگہ ‘‘ کہ نام سے قائم کیا گیا جسے بلوچ عوام کے جان و مال پر وسیع ترین اختیارات دیئے گئے ۔ نئے نظام کے تحت امن و امان کی ذمّہ داری قبائلی سرداروں کے ذمّے سونپی گئی ۔اس نظام نے برطانیوں کو قوم پرستانہ رُجحانات کو کچلنے میں مدد فراہم کیا۔ حقیقت میں سنڈیمن نظام کے تحت سرداروں کی ان کے اپنے قبیلے کے اندر کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا تھا۔اُنہیں ایسے رقومات اورمالی و قانونی اختیارات تفویض کئے گئے جو 1876 ؁ء سے پہلے کبھی بھی اُن کے پاس نہیں تھے۔بس یہاں سے بلوچ عوام اور سرداروں کے درمیان بلوچ معاشرے میں ایک واضح طبقاتی اختلاف کاآغازہوا ۔نئے نظام کے تحت بلوچ معاشرے میں قبائلیوں اور سرداروں کے درمیان تضاد شروع ہوا۔اس صورتحال میں سرداروں سے مقابلہ مشکل ہوگیا، کیونکہ انہیں برطانیہ کی امداد و پشت پناہی حاصل تھی ۔ بلوچ عوام نے
ایک سامراج مخالف جدوجہد کا آغاز کیا لیکن ان کوششوں کو سرداروں نے برطانوی تعاون سے شکست دیدی۔ سرداروں اور ان کے سرپرست کے خلاف لڑنے کا واحد طریقہ بلوچ عوام کو ایک ایسی سیاسی جھنڈے تلے منظم کرنا تھا جس کی بنیاد ایک ترقی پسندانہ سوچ رکھنے والی قوم پرست تحریک ہو۔ اس حقیقت کا ادراک قوم پرستوں کو 1929 ؁ء میں ہوا جب انہوں نے اپنے سیاسی پروگرام کا آغاز کیا ۔ وہ جانتے تھے اُنہیں سردار اور برطانیہ دونوں کے خلاف لڑنا ہوگا جو ایک آسان کام ہرگز نہیں تھا۔اپنی اس جدوجہد میں انہوں نے خان سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی (جس کے اختیارات برطانیہ نے سرداروں کے تعاون سے پہلے ہی ختم کردیئے تھے ) یوسف عزیز مگسی نے تعلیمی اصلاحات کے لئے برطانیہ سے بھی امداد حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوششیں برطانیہ اور سرداروں کی مخالفت سے ناکام ہوئیں اور 1939 ؁ء میں اس خوف سے کہ کئی سردار برطانیہ سے اتحاد نہ بنالیں ، خان نے قوم پرستوں سے اپنے تعاون کو واپس لے لیا۔
قومی تحریک کے ناکامی کی سب سے بڑی وجہ قومی تعمیر کے لئے ایک ترقی پسند سماجی بنیاد کی ناپیدی تھی۔سردار جدید اداروں اور اصلاحات کی مخالفت کرتے تھے ۔ 1929 ؁ء سے لیکر1948 ؁ء تک کوئی صنعتیں ، کالج یا یونیورسٹی قائم نہیں کی گئی تھی اور مملکت محض قبائلی امراء مظلوم خانہ بدوشوں اور کسانوں پر ہی مشتمل تھی ۔قوم پرست رہنما جو اکثر نچلے درمیانے طبقے کا پس منظر رکھتے تھے، سرداروں کے مضبوط گرفت اور برطانیہ کے مخالفت کی وجہ سے بلوچ عوام کو قبائلی علاقوں میں حرکت میں لانے کی پوزیشن میں نہیں تھے اور سرداروں کو کمزور کرنے کے لئے انہوں نے بلوچستان سے باہر مدد حاصل کرنے کے لئے دیکھنا شروع کردیا ۔ اس سلسلے میں انہوں نے آل انڈیا کانگریس سے اتحاد بھی کرلیا جبکہ مسلم لیگ نے خان اور سرداروں کے ساتھ اپنے اشتراک کی وجہ سے اتحاد سے انکار کردیا ۔1947 ؁ء میں برطانیہ کے اقتدارکے خاتمے کی وجہ سے قوم پرستوں کو بلوچستان کی سیاست میں ایک نئے صورتحال کا سامنا ہوا ۔ سرداروں کو ایک اور آقاکی تلاش تھی جس کے لئے انہوں نے مسلم لیگ سے اتحاد کرلیا ۔ اسکے بدلے میں جناح نے ان کے مفادات کا خیال رکھنے کا وعدہ کرلیا۔ یہ قبائلی امراء خان قلات کے ساتھ اتحاد کرنے سے قاصر رہے جو قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے جدید اداروں کو متعارف کرانا چاہتے تھے۔
1948 ؁ء میں خانِ قلات سرداروں کے خلاف بلوچ قوم پرستوں کی حمایت حاصل کرنے اور بلوچستان کی آزادی کے لئے ایک طاقتور معاون تلاش کرنے میں ناکام ہوئے ۔ اگر ان کا رابطہ سوویت یونین سے ہوجاتا تو ممکن تھا بحیرہ عرب میں سمندری سہولیات فراہم کرنے کے بدلے وہ ایک ڈیل کے ذریعے روسی امداد حاصل کرلیتے ۔1948 ؁ء کے پرنس آغا عبدالکریم کی قیادت میں پہلی بلوچ بغاوت کے رہنما برطانوی سامراج ،پاکستان اور سرداروں کے مابین اتحاد کے چیلنج کا مقابلہ نہیں کرسکے۔ بلوچ قوم پرستوں کی 1920 ؁ء تا 1948 ؁ء کے دورانیے پر مشتمل بلوچ نیشنلزم کی ناکامی کی وجہ سے سرداری نظام مضبوط ہوا اور جدید سماجی بنیادیں استوار نہیں کی جاسکیں اور آخر میں جاکر خان کے آزادی کے لئے ایک مضبوط حامی حاصل کرنے میں ناکامی کا بھی سبب بنا جو کہ انہیں سرمایہ دارانہ نظام کے اُس مرحلے سے بچ نکلنے میں مدد فراہم کر تا اور قبائلی معاشرے کو ایک جدید قومی ریاست میں ڈھال دیتا۔
تاہم بلوچ نیشنلزم کے اثرات بلوچستان پر پڑے اور اِس سے آگاہی اور سیاسی شعور میں اضافہ ہوا۔ اس کے اثرات آج کے بلوچ سیاست میں نظر آتے ہیں ۔
***

اتوار، 20 مارچ، 2016

سیاسی اور سماجی نظریات کا فلسفیانہ عمل



جس طرح ڈاکٹر کا نسخہ، وکیل کی عرضی، جج کا فیصلہ، گرامر کی تفہیم اور لغت کی ترتیب و تدوین کبھی ادب نہیں بن سکتے۔ بالکل اْسی طرح سیاسی و 
سماجی فلسفہ بھی سماج میں اپنے اطلاقی میکانزم کے بغیرفلسفہ نہیں کہلاتا۔ سیاسی و سماجی فلسفے کا منتہائے نظر سماج میں پھیلی بے چینی اور عدم اطمنان جیسے مسائل کا حل پیش کرنا ہوتا ہے۔بے چینی اور عدم اطمنان کبھی غیرجانبدار نہیں ہو سکتے اور نہ ہی یہ کسی انفرادی عقلی اور ذہنی مشق ہوتے ہیں۔ بے چینی اور عدم اطمنان سے مراد ہی سماج میں مروجہ سیاسی اور سماجی روایات اور قوانین سے غیر مطمئن ہوناہے۔ اس لئے کوئی بھی سیاسی اور سماجی فلسفہ خلا میں جنم لیتا ہے اور نہ ہی غیر جانبدار ہوتا ہے۔ سیاسی اور سماجی فلسفے میں غیرجانبداری محض اکیڈمک اصطلاح تو ہو سکتی ہے، اس کی کوئی عملی افادیت نظر نہیں آتی۔کوئی بھی سماجی و سیاسی فلسفہ اگر سماج میں اپنے اطلاقی میکانزم کے بغیر مرتب کیا جاتا ہے تو وہ محض لفاظی کے اور کچھ نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھار تو محض ذہنی عیاشی بن کر رہ جاتا ہے۔ سماجی اور سیاسی فلسفے کے سامنے چند واضح مقاصد ہوتے ہیں۔ اس فلسفیانہ عمل میں سب سے بڑھ کراْس زمانے کے مروجہ سماجی اور سیاسی نظام سے بے چینی اورعدم اطمینان ہی کارفرما ہوتے ہیں۔ یہ وہ علتِ اولیٰ ہے جو کسی بھی سماجی اور سیاسی فلسفہ کے مرتب کرنے والے فلسفی کوفلسفیانہ عمل پر اکساتی ہے اور ایک طاقتور محرک کے طور پر اس کے سامنے رہتی ہے ۔ یہی کیفیات سماج ہی کی دی گئی ہوتی ہیں۔ فلسفی انہی بے چینیوں اور عدم اطمینانیوں کوایک بہتر اور قابلِ عمل اجتماعی شعورکے ساتھ ، امن اور احترامِ آدمیت کی شکل میں ڈھال کرایک منظم و مرتب نظام کے طور پر واپس سماج کو لوٹا دیتا ہے۔ ایسے میں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ فلسفہ غیر جانبدار ہے۔تاہم مابعد از جدیدیت کی اصطلاحات میں الجھے ہوئے کچھ دانشوراس عمل کو نہ صرف بے وقعت کر دیتے ہیں بلکہ ان کی نظر میں اس قسم کی کلیت ممکن ہی نہیں ہے۔ ثقافتوں کے تنوع میں اس قسم کی کلیت کی فکر ممکن نہیں ہے۔ کچھ دانشواس عمل میں غیر جابندارانہ کی اصطلاح کی آڑمیں پناہ لیتے ہیں۔ حالانکہ وہ خود بھی کسی نہ کسی فکر یا نظرئے کو چمٹے ہوئے ضرور ہوتے ہیں۔جدیدیت کوئی منظم اور مرتب فلسفہ نہیں دے سکی ہاں البتہ اس سے ڈی کنسٹرکشن یعنی ساختیات اور پسِ ساختیات جیسی کچھ اصطلاحات کو جنم دیا ہے۔ ایسے میں کچھ اکیڈمیشیئنز اور دانشورسیاسی اور سماجی عمل میں بھی غیر جابنداری کی اصطلاح استعمال کرتے رہتے ہیں۔بے شک کائنات کی ہر چیز کی طرح سماج بھی تغیر و تبدل کے تابع رہتا ہے۔ کسی بھی سیاسی یا سماجی فکر اور فلسفے کی سچائی اور صداقت کا سب سے بڑا پیمانہ وہ زمانہ خود ہوتا ہے جس میں کہ وہ رائج ہے۔ اگر سماج اپنی مروجہ روایات اور قوانین سے مطمئن ہے اور نظام ان کی ضروریات پوری کرتا ہے تو لوگ اس کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں۔ لیکن جب کوئی نظام سماج کی اکثریت کی ضروریات اور تقاضوں کو حل کرنے میں ناکام ہوجائے تویہی عدم اطمنان اور بے چینی ہی نظام کی تبدیلی کا محرک ثابت ہوتی ہے۔ یہی علتِ اولیٰ جو فلسفی سماج سے لیتے ہیں اور یہی اس کی فلسفیانہ فکر کا محرک بنتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ چند ایک دیگر سچائیاں اور صداقتیں بھی منسلک ہوتی ہیں جیسا کہ کسی بھی زمانہ میں کون سا سماجی فلسفہ کتنے انسانوں کی سماجی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے ۔ وہ فلسفہ جوزیادہ سے زیادہ انسانیت کی خدمت کرے حقیقی فلسفہ کہلاتا ہے۔ہر سماجی اور سیاسی فلسفہ اپنی اطلاقی شکل میں اپنے زمانے کے سیاسی اور سماجی فلسفیوں کی مسلسل جانچ پڑتال کا سبب بھی بنتا رہتا ہے ۔ یہی بے چینی اور عدم اطمنان ہی ایک دفعہ پھر اس کی تبدیلی اور تغیر کی کسوٹی بن جاتے ہیں۔
تحریر : ارشد نذیر ۔ نیا زمانہ 

جمعرات، 17 مارچ، 2016

ایک سیاہ فام کی کہانی۔ایک امریکی ادیب


یہ واقعہ امریکہ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ہوا۔ اس واقعے کو گزرے کچھ
زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ بڑے بڑے پتھروں سے بنی ایک کوٹھڑی کے سامنے ایک برآمدہ تھا۔ اس برآمدے میں بھٹی دہک رہی تھی۔ بھٹی کے سامنے ڈیوس بیٹھا تھا۔ ڈیوس لوہار تھا او روہ گھوڑوں کے ٹاپوں پر لگانے والے لوہے کے نعل بناتا تھا۔ ڈیوس سیاہ فام تھا۔ سیاہ فام وہ لوگ تھے جنہیں کئی سوسال کے دوران افریقہ سے امریکہ میں لایا گیا تھا۔ ان کو غلام بناکر یہاں رکھا جاتا تھا اور یہ کھیتوں اور کارخانوں کے علاوہ ہرطرح کے محنت والے کام کرتے تھے۔ یہ سفید جلد والے انگریزوں کے لئے کام کرتے تھے۔
ڈیوس ایک خوبصورت گھوڑے کے ٹاپوں پر نعل لگارہا تھا اور اس کی دکان میں بہت سے سیاہ فام نوجوان بیٹھے گپیں لگارہے تھے۔
دکان سے چند میٹر آگے ایک شاندار بگھی کھڑی تھی۔ بگھی ایک درخت کے سائے میں تھی اور اس پر ایک سفید فام شخص بیٹھا بڑے غورسے ڈیوس کو نعل لگاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اس شخص کا نام تھارٹن تھا او ریہ فوج میں کرنل تھا۔ اسے اچھی نسل کے گھوڑے پالنے کا بہت شوق تھا۔ وہ اپنے گھوڑوں کی دیکھ بھال خود کرتا تھا۔ آج اس کے ایک گھوڑے کا نعل کچھ ڈھیلا ہوگیا تھا او رفوراً اسے ٹھیک کروانے ڈیوس کی دکان پر لے آیا تھا۔
’’
لیجئے کرنل صاحب، کام ہوگیا۔۔۔‘‘ ڈیوس نے اونچی آواز میں پکار کر کرنل کو اطلاع دی او رساتھ ہی اپنے شاگرد سے کہنے لگا:’’ٹام، ادھر آؤ، گھوڑا بگھی میں جوت دیں۔۔۔‘‘
کرنل تھارٹن بگھی سے اترا، نعل کا معائنہ کیا اور پھر اطمینان ظاہر کرنے کے لئے اپنا سرہلایا۔ لوہار او راس کا شاگرد، دونوں گھوڑے کو بگھی میں جوتنے لگے۔ کرنل ایک طرف کھڑا ہوکر انہیں دیکھ رہا تھا۔ 
’’
کرنل صاحب، آپ کایہ چابک بہت خوبصورت ہے۔‘‘ ڈیوس نے گھوڑے کی طنابیں درست کرتے ہوئے کہا۔’’میرا بھی دل چاہتا ہے کہ ایسا ہی چابک میرے پاس بھی ہو۔ آپ نے اسے کہاں سے خریدا ہے؟‘‘
’’
اسے میرا بھائی نیویارک سے لایا تھا۔‘‘ کرنل نے بڑے تکبر سے کہا۔’’تمہیں یہ کہیں سے بھی نہیں ملے گا۔‘‘
’’
یہ واقعی بہت خوبصورت ہے۔ دیکھیں، اس کی دستی پر کیسی مہارت سے خوبصورت ڈیزائن بنائے گئے ہیں۔‘‘ ڈیوس نے کافی مرعوب لہجے میں جواب دیا۔’’کاش ایسا چابک مجھے بھی مل جاتا۔۔۔‘‘ وہ بڑی حسرت سے چابک کو دیکھ رہا تھا کہ کرنل نے بگھی آگے بڑھادی؟
’’
کیوں، اس میں کیا برائی ہے؟ کیا میں اچھے گھوڑے، خوبصورت بگھی او رڈیزائن والے چابک کو لینے کی خواہش نہیں کرسکتا؟‘‘
’’
ہم سیاہ فام، نیگرولوگوں کی قسمت میں صرف ذلت ہی نہیں، وہ اگر پیسے جمع کرلیں تو جو چاہیں خرید سکتے ہیں۔۔۔‘‘ ڈیوس نے ایک دہکتے ہوئے نعل پر ہتھوڑے کی چھوٹیں لگاتے ہوئے کہا۔
وہ ان باتوں اور کام میں اس قدر محوتھا کہ اس کی پشت کی جانب سے دوسفید فام وہاں آئے اور اسے اسی کی خبر ہی نہ ہوئی۔
’’
اگر تم نیگرولوگ‘‘ ڈیوس نے بھٹی میں مزید کوئلے ڈالتے ہوئے کہا،’’اپنی رقم کھیل تماشے میں ضائع نہ کرو، اور فضول کاموں پر نہ گنواؤں تو ہم بہت جلد ترقی کرسکتے ہو۔ کھیل تماشے کا سارا روپیہ گوروں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔‘‘
’’ 
ڈیوس تم ٹھیک کہتے ہو،‘‘ ایک سفید فام نے کہا۔’’جب تک تم جائیدادوں کے مالک نہیں بنتے، تمہاری کوئی عزت نہیں۔‘‘
پھر گفتگو کا موضوع بدل گیا۔ سفید فام آدمیوں نے ڈیوس کو کسی کام کے بارے میں پوچھا اور دکان سے رخصت ہوگئے۔
دکان کے قریب ہی ایک کارخانے سے دوپہر کے کھانے کا بگل بجا۔ دکان پر بیٹھے بے کار نوجوان بھی دکان سے رخصت ہوگئے۔
’’
ٹام اب تم کھانا کھانے چلے جاؤ۔‘‘ ڈیوس نے اپنے شاگرد سے کہا۔’’او رسنو جب میرے گھر کے سامنے سے گزروتو دستک دے کر میری بیوی نینسی کو بتادینا کہ میں ابھی آدھ گھنٹے میں آتا ہوں، میں اس ہل کا پھل ٹھیک کرلوں۔‘‘
ڈیوس نے کھانے کے وقفے کے لئے دکان کو بند کیا او رگھر کی طرف چل پڑا۔ گرمی زوروں پر تھی۔ اس نے اپنا تنکوں والا ہیٹ سرسے اٹھایا او رجیب سے ایک سرخ رومال نکال کر اپنا ماتھے اور گردن کو پسینے سے صاف کیا۔ گھر پہنچا او ردروازے پر دستک دی۔ کچھ دیر کے بعد اس کی پرُکشش مگر کمزور بیوی نے دروازہ کھولا۔ دروازہ کھلتے ہی گھر میں پھیلی کھانے کی خوشبو اس کے ناک میں گئی۔
’’
واہ لگتا ہے آج آلو او رچاول پکے ہیں!‘‘ ڈیوس نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔ ڈیوس کھانے کی میز پر جابیٹھا۔
’’
نینسی، جلدی کرو، مجھے سخت بھوک لگی ہوئی ہے۔ ابھی میں نے دکان سے مہینے بھر کا سودا لینا ہے۔ آج میں دکاندار کو ایک سو ڈالر زیادہ دے دوں گا۔ باقی رقم الگے مہینے دے کر حساب بے باق ہوجائے گا۔ پھر ہم پر کوئی قرض نہ رہے گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی بیوی کی طرف بڑے پیارسے دیکھا اور کہنے لگا:
’’
کیا بات ہے نینسی، تم کچھ گھبرائی سی لگ رہی ہو؟‘‘
نینسی واقعی گھبرائی ہوئی تھی۔ اس کا دل برُی طرح دھک دھک کررہا تھا او رسانس الجھ رہی تھی۔ اس نے اکھڑے اکھڑے لفظوں میں کہنا شروع کیا:
’’
وہ۔۔۔ میں نے۔۔۔ ابھی ابھی باغیچے میں ایک بڑاسانپ دیکھا ہے۔۔۔‘‘
ڈیوس ایک دم کرسی سے اٹھا اور باغیچے کی طرف لپکا۔ باغیچہ ان کے چھوٹے سے گھر کے پچھواڑے میں تھا اور اس کا راستہ باورچی خانے میں سے گزرتا تھا۔ ڈیوس نے باورچی خانے کے باغیچے کی طرف کھلنے والے دروازے میں پڑے بیلچے کو اٹھایا او رباغیچے کی طرف بھاگا۔
ڈیوس نے باغیچے میں جھاڑیوں او رباڑ کے نیچے جھانکا۔ بیلچے کو ان پر مارا۔ ٹماٹروں او رمرچوں کے پودوں کو ہلایا مگر سانپ کہیں نظر نہ آیا اور نہ ہی اس کی پھنکارسنائی دی۔
’’
میرا خیال ہے، سانپ بھاگ گیا ہے۔‘‘ ڈیوس نے بیوی کو تسلی دیتے ہوئے کہا اور پھر پوچھنے لگا:۔
’’
بچے کدھر ہیں؟ کہیں وہ باہر جھاڑیوں میں تو نہیں کھیل رہے، انہیں کئی دفعہ منع کیا ہے مگر ان پر اثر ہی نہیں ہوتا۔۔۔!‘‘
’’
نہیں‘‘ اس کی بیوی نے جواب دیا۔’’وہ چشمے سے پانی لینے گئے ہیں۔‘‘
ڈیوس کو اطمینان ہوا او روہ دوبارہ میز کے پاس کرسی پر آبیٹھا۔ اس کی بیوی نے کھانا پروسا اور وہ کھانے میں مصروف ہوگیا۔ اسی اثنا ڈیوس کے بچے گھر میں داخل ہوئے۔ ایک گیارہ سال کا لڑکا او راس سے دوسال چھوٹی لڑکی۔ لڑکا اپنی ماں کی طرح زرد چہرے والا تھا جبکہ لڑکی کا رنگ اپنے والد کی طرح گہرا سیاہ تھا۔ دونوں بڑے ذہین اور صاف ستھرے تھے۔ دونوں سکول جاتے تھے اور پڑھائی میں بھی بہت اچھے تھے۔
’’
ٹام چچا بھی چشمے پر آئے تھے‘‘۔ لڑکی نے پانی کا ڈول ایک کونے میں رکھتے ہوئے کہا۔’’میں نے کہا کہ یہ ڈول اٹھالیں تو بولے’’مجھے کام ہے، اپنی امی سے کہہ دینا کہ تمہارے ابو ابھی کھانے کے لئے گھر آنے والے ہیں۔۔۔‘‘ لڑکی نے شکایتی لہجے میں باپ کی طرف دیکھا۔ ڈیوس ہنسنے لگا اور بیوی سے مخاطب ہوکر بولا:۔
’’
یہ لڑکا پتہ نہیں کن چکروں میں رہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ایک دن میں بہت سا روپیہ کمالے ۔۔۔ اسے لوہے کے کام سے چھٹکارا مل جائے۔ محنت سے کتراتا ہے او راِدھر اُدھر ہاتھ مارتا رہتا ہے۔۔۔!‘‘ ڈیوس کھانے سے فارغ ہوکر دکان پر پہنچا۔ وہاں کرنل تھارٹن کا ملازم پھر بگھی لئے کھڑا تھا۔
’’
کیا ہوا؟ ابھی تو نعل لگوا کر تمہارا صاحب گیا ہے، تم پھر بگھی کو لے آئے‘‘۔ ڈیوس نے کرنل تھارٹن کے ملازم سے پوچھا۔
’’
ہاں ہاں، کرنل تھارٹن کو تمہارا کام بہت پسند آیا ہے۔ اس گھوڑے کے باقی کے تین نعل بھی بدلوانے کے لئے بھیجا ہے۔۔۔‘‘
’’
دیکھا،اچھے کام کی یہ عزت ہوتی ہے۔‘‘ ڈیوس نے اپنے شاگرد ٹام کو مخاطب کرکے کہا۔’’تم تو بغیر کام کے پیسہ کمانا چاہتے ہو، اچھا کام کرکے عزت حاصل کرنا بھی سیکھو۔۔۔‘‘
’’
کتنی دیر لگے لگی؟‘‘ کرنل کے ملازم نے پوچھا۔
’’
ڈیڑھ گھنٹہ تو لگے گا ہی، میں کرنل کاکام بڑے اطمیان سے کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ ڈیوس نے بھٹی میں سے دہکتے ہوئے نعل کو نکالتے ہوئے کہا۔
اس وقت سہہ پہر ہوچکی تھی او رسورج ڈیوس کی دکان کے قریب جنگل کے اونچے اونچے درختوں کے پیچھے جاچکا تھا۔ گرمی کم ہوگئی تھی۔ کرنل کے نوکر نے لمحہ بھر کے لئے سوچا او رپھر ڈیوس سے کہنے لگا:
’’
مجھے ابھی کرنل کا ایک ضروری کام نمٹانا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مجھے کافی دیر ہوجائے۔۔۔‘‘
نوکر نے ابھی بات ختم بھی نہ کی تھی کہ ڈیوس اس کا مطلب سمجھ گیا۔ کہنے لگا:
’’
تم فکر نہ کرو، تم اپنا کام کرلو۔ جو نہی گھوڑے کے نعل لگے، میں اسے بگھی سمیت کرنل کے گھر پہنچادوں گا۔۔۔‘‘
’’
تم نے تو میرا مسئلہ ہی حل کردیا۔ بات دراصل یہ ہے کہ کرنل غصے کا بہت بُرا ہے۔ کام میں دیری ہوجائے یا کام اس کی مرضی کے مطابق نہ ہو تو وہ ہاتھ اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔۔۔‘‘ کرنل کے نوکر نے کہا۔
’’
چلو، اب تم بے فکر ہوجاؤ، تم اپنا کام نمٹاؤ، بگھی پہنچ جائے گی۔‘‘ ڈیوس نے ہمدردی سے کہا اور بھٹی سے نعل نکال کر اسے ایک بڑے ہتھوڑے کے ساتھ پیٹنے لگا۔
(2)
ڈیوس امریکہ کی ریاست کیرولینا میں رہتا تھا۔ اس کی سب سے بڑی عدالت کی عمارت بہت بڑی تھی۔ اس پر تازہ تازہ سفیدی کی گئی تھی۔ اس پر صبح کی نرم دھوپ پڑتی تو یہ چاند کی طرح چمک اٹھتی۔ اس عمارت کے پیچھے جنگل تھا اور اس کے گھنے سیاہی مائل سبزدرخت، عمارت کی سفیدی کو مزید اجاگر کررہے تھے۔ درختوں پر لمبی لمبی گردنوں والے بگلے ڈاروں کی شکل میں آجارہے تھے۔ آسمان کا رنگ گہرا نیلا تھا۔ اس پر چیلیں او رگدھ تیررہے تھے۔
ڈیوس کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں تھیں۔ وہ سخت پریشان، اس عمارت کے صحن میں بیٹھا، عدالت میں حاضری کا انتظار کررہا تھا۔ وہ باربار آسمان کی طرف دیکھتا او ردل ہی دل میں کہا:
’’
ارے میرے مولا، رحم کر، تجھے تو معلوم ہے کہ میں بے گناہ ہوں۔ میں نے اپنی ساری زندگی محنت کرکے کمایا ہے۔ کم کھالیا ہے، ادھار لے لیا ہے مگر چوری کبھی نہیں کی۔ میں نے کرنل تھارٹن کا چابک نہیں چرایا۔ تجھے تو معلوم ہے، اب تو ہی میری مدد فرما۔۔۔‘‘
پولیس کے سپاہی بھی ڈیوس کی طرح سیاہ فام تھے۔ انہوں نے جب ڈیوس کو آنکھیں بند کئے، منہ میں کچھ بولتے دیکھا تو ان کا دل بھی نرم پڑگیا۔ انہیں بھی معلوم تھا کہ ڈیوس ایسا آدمی نہ تھا۔
عدالت کا وقت شروع ہوا تو عدالت کے ہر کارے نے آواز لگائی:
’’
ملزم ڈیوس، جس پر چوری کاالزام ہے، عدالت میں حاضر ہو!‘‘ ڈیوس کی ہتھکڑیاں ایک سپاہی کی پیٹی کے ساتھ بندھی تھیں۔ اس کا چہر اتر ہوا او رہلدی کی طرح زرد تھا۔ اس کی چال سے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ کسی شدید بیماری سے اٹھا ہوں۔
عدالت کے کمرے میں خاصا ہجوم تھا۔ بستی کے کئی سیاہ فام، کرنل تھارٹن او راس کے نوکر، ڈیوس کی بیوی اور بچے، اس کے ہمسائے، اس کا شاگرد ٹام او رکئی سفید فام کمرے میں موجود تھے۔ جونہی ڈیوس عدالت میں داخل ہوا، سب لوگوں نے نظریں اس کی طرف پھیردیں۔ ڈیوس کو محسوس ہورہاتھا کہ جیسے سب کی نظریں اس کے جسم میں پیوست ہورہی ہے۔ اس کا دل چاہا کہ اس کے اردگرد کوئی دیوار ابھر آئے یا پھر وہ کوئی چادر اوڑھ لے۔ وہ سب لوگوں سے چھپ جانا چاہتا تھا۔
جج، کمرہ عدالت میں داخل ہوا۔ سب لوگ اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ وہ ادھیڑ عمر کا سفید فام تھا۔ وہ کرسی پر بیٹھا اور عدالت کی کارروائی شروع ہوگئی۔ عدالت کے ایک کلرک نے پوچھا:
’’
کیا تم ڈیوس ہو جو بستی میں لوہار کاکام کرتے ہو؟‘‘
’’
جی۔۔۔‘‘ ڈیوس نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
’’
تم پر الزام ہے کہ تم نے کرنل تھارٹن کے اصطبل سے ایک خوبصورت چابک چرایا ہے، جس کی مالیت پندرہ ڈالر ہے۔‘‘
’’
میں بے گناہ ہوں۔۔۔ میں نے اپنی ساری زندگی ایسا کام نہیں کیا۔۔۔‘‘ ڈیوس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
اس دوران جج ایک فائل کو پڑھ رہا تھا او راپنا سرہلا تا جارہا تھا۔ اس کے پہلو میں کچھ لوگ بیٹھے تھے جو تمام کے تمام سفید فام تھے۔ یہ لوگ جیوری کے ممبر تھے او ران کاکام فیصلہ کرنے میں جج کی مدد کرنا تھا۔ کرنل تھارٹن کا وکیل کھڑا ہوا او رجج کی اجازت لے کر بولنے لگا:
’’
جناب، ملزم ایک خطرناک آدمی ہے او ریہ سفید فام لوگوں کے خلاف باتیں کرتا رہتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ہم سفید لوگ، کالے لوگوں پر ظلم کرتے ہیں او رہم نے انہیں اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ یہ کہتا ہے کہ اگر گورے اس ملک میں نہ ہوتے تو کالے لوگوں کی زندگی کے تمام دکھ ختم ہوجاتے۔‘‘
’’
اس کے خیالات سے سیاہ فام لوگوں کو غصہ آتا ہے او روہ سفید فام لوگوں کے خلاف ہوجاتے ہیں۔ اس سے امن وامان کی صورتحال بگڑ سکتی ہے۔ میں عدالت سے استدعا کروں گا کہ مجرم کو سخت سے سخت سے سزادی جائے۔‘‘
’’
جناب، ان تمام باتوں کا مقدمے سے کوئی تعلق نہیں، مقدمے کا فیصلہ شہادتوں پر ہونا چاہئے۔‘‘ڈیوس کے وکیل نے کہا۔
’’
کرنل صاحب کے وکیل صرف مقدمے پر بات کریں او رشہادتوں پر زور دیں۔۔۔!‘‘ جج نے نرمی سے کہا۔
کرنل کے وکیل نے اپنی بات پھر سے شروع کی۔
’’
میں عدالت کے سامنے یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ ملزم نے کرنل تھارٹن کے گھوڑے کا نعل درست کیا‘‘۔
جب وہ نعل درست کررہا تھا تو اس نے کرنل کے چابک کے بارے میں طرح طرح کے سوال کئے۔ وہ دیر تک اسے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا رہا۔ اس نے اسے حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ جب کرنل تھارٹن نے اپنے گھوڑے کے باقی تین نعل ٹھیک کروانے کے لئے اپنے ملازم کو اس ملزم(وکیل نے ڈیوس کی طرف اشارہ کیاکے پاس بھیجا تو اس نے بہانہ کرکے ملازم کو روانہ کر دیا اور خود بگھی چھوڑ نے کرنل صاحب کے گھر چلا آیا۔ اس وقت سورج غروب ہورہا تھا۔ اگلی صبح معلوم ہوا کہ بگھی سے چابک غائب تھا۔ چابک کی چوری کا شک ملزم کی طرف گیا۔ جب اس سے اس چوری کے بارے میں پوچھا گیا تو ملزم نے کرنل تھارٹن کے ملازم اور پولیس کانسٹیبل کے ساتھ سخت بدتمیزی کا سلوک کیا۔ تلاشی لی گئی تو اس کی دکان کے ایک کونے میں پڑے کاٹھ کباڑ کے نیچے سے چابک برآمد ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ یہ اسی نے چرایا تھا۔۔۔‘‘
ڈیوس پھٹی پھٹی نگاہوں سے کرنل کے وکیل کو دیکھ رہا تھا او رنفی میں سر ہلاتا جارہا تھا۔ وکیل صفائی، ڈیوس کے بچاؤ میں دلائل دینے کے لئے کھڑا ہوا۔ اس نے بہت مختصر او ربے جان بیان دیا۔ اس نے عدالت سے درخواست کی کہ ملزم کو اس کے اچھے کردار کی وجہ سے معاف کردیا جائے۔
کرنل تھارٹن نے ملزم سے برآمدہونے والے چابک کی شناخت کی۔ اس نے ڈیوس کی دکان پر، ڈیوس کی چابک کے بارے میں گفتگو کی تصدیق کی۔ پولیس سپاہی، جس نے ڈیوس کی دکان کی تلاشی لے کر چابک برآمد کیا تھا، نے عدالت کے سامنے گواہی دی۔ مقدمے پر بحث ہوئی۔ اس تمام کارروائی کے دوران سب لوگ ڈیوس کے لئے پریشان تھے۔ صرف چند سفید فام او رڈیوس کا شاگرد، ٹام کسی او رطریقے سے سوچ رہے تھے۔ ٹام بار بار کرنل کی طرف دیکھتا اور کرنل ہلکی سی مسکراہٹ سے اس کو جواب دیتا۔ دونوں کے چہروں پر خونخوارجانوروں جیسی سختی نظر آرہی تھی۔
عدالت میں بھنبھناہٹ شروع ہوگئی۔ لوگ آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے۔ جیوری کے ممبر عدالت سے اٹھ کر ایک ساتھ والے کمرے میں چلے گئے۔ جج، کرنل تھارٹن کے پاس کھڑا تھا او روہ آپس میں بات چیت کررہے تھے۔
’’
کرنل صاحب، کیا آپ کیس کے بارے میں کچھ کہنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’
ہاں، میرے خیال میں سزا ذراکم رکھیے گا، یہ اس علاقے کا سب سے اچھا لوہارہے۔۔۔!‘‘ کرنل نے کہا۔
کچھ ہی دیر میں جیوری کے ممبران دوبارہ کمرہ عدالت میں داخل ہوئے۔ کمرے میں ایک دم مکمل خاموشی چھاگئی۔ ڈیوس ان تمام ممبروں کے چہروں کو دیکھ کر اندازہ لگارہا تھا کہ ان کے دِل میں کیا ہے۔ وہ ان سے رحم کا طلب گار تھا مگر وہ سب اس کی طرف نہیں دیکھ رہے تھے۔
’’
معزز اراکین جیوری، کیا آپ کسی فیصلے پر پہنچ گئے ہیں؟‘‘ جج نے پوچھا۔
’’
جی ہاں‘‘ سب سے بڑے ممبر جیوری نے کہا۔
عدالت کے کلرک نے آگے بڑھ کر اس ممبر کے ہاتھ سے ایک کاغذ لے لیا او راس پر لکھی ہوئی عبارت کو بلند آواز میں پڑھنا شروع کیا:
’’
ہم تمام ارکان جیوری نے مقدمے کے تمام پہلوؤں پر غور کیا۔ عدالت میں جو شہادتیں اور بیان ہوئے ان پر بھی سوچ بچار کی۔ ہم نہایت ذمے داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ ملزم نے اس جرم کا یقیناًارتکاب کیا۔۔۔‘‘
کمرہ عدالت میں مکمل خاموشی تھی۔ اس خاموشی کو اچانک ایک عورت کی چیخ سے توڑ ڈالا۔ یہ ڈیوس کی بیوی تھی جو غم کے مارے اونچی آواز میں رونے اور اپنے آپ کو پیٹنے لگی تھی۔ ماں کو روتے دیکھا تو اس کے بچے بھی رونے لگے۔ وہ حیرت او ربے بسی والی نگاہوں سے اپنے باپ کو دیکھ رہے تھے۔ انہیں مقدمے سے پیدا ہونے والی صورت حال کا کچھ اندازہ نہ تھا۔ اس صورت حال کو ڈیوس او راس کی بیوی بہت بہتر طور پر جانتے تھے۔۔۔ بچوں کو بس اتنا اندازہ تھا کہ ایسا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔۔۔ان کا باپ نہ اس قدر آزردہ تھا او رنہ ہی ان کی ماں اس قدر غمگین اور دُکھی تھی۔
ڈیوس عدالت کے کٹہرے میں کھڑا تھا۔ اس نے جب جیوری کا فیصلہ سنا تو وہ بے جان سا ہو کر وہاں رکھی ایک کرسی پر ڈھے سا گیا۔ جیسے زیادہ گیلی مٹی کا کھلونا، بنتے ہی، اپنے وزن کے ساتھ گرجاتا ہے۔
جج نے عدالت اگلے دن کے لئے برخاست کردی۔ ڈیوس کا وکیل، ڈیوس کے پاس آیا او راسے دلاسہ دینے لگا:۔’’حوصلہ کرو، ڈیوسمیں تمہارے لئے جو کچھ کرسکتا تھا، میں نے کیا۔ میں کل جج سے مل کر تمہاری سزا کم کروانے کی سفارش کروں گا۔معمولی سے جرم پر، تھوڑا سا جرمانہ ہوجائے گا۔۔۔ اور کیا؟‘‘
ڈیوس نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ اسے تھوڑا سا حوصلہ ہوا مگر فوراً ہی اس کے دماغ پر پہلی سی اداسی پھیلنے لگی۔ پولیس والے اسے عدالت سے باہر لائے ۔ برآمدے میں اس کی بیوی او ربچے پاگلوں کی طرح اس سے لپٹ کررونے لگے۔ ڈیوس کی حالت بُری ہورہی تھی مگر وہ بالکل ایک فوجی سپاہی کی طرح تنا ہوا کھڑا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ اگر اس نے اپنے آپ کو کمزور ہونے دیا تو پھر آنسوؤں کا طوفان بہہ نکلے گا۔ اس نے صرف اپنے بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پولیس سپاہیوں کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔
(3)
اگلے دن ڈیوس کو ہتھکڑیاں او ربیڑیاں پہنا کر عدالت میں لایا گیا۔ اس کے کندھے جھکے ہوئے تھے، نگاہیں زمین پر تھی او رچہرے سے لگ رہا تھا جیسے وہ کئی دنوں سے سو یا نہ ہو۔ اسے عدالت میں لائے گئے دیگر ملزموں کے ساتھ قطار میں کھڑا کر دیا گیا۔ یہ سب اپنے اپنے جرم کی سزا سننے کے لئے عدالت میں حاضر ہوئے تھے۔ ڈیوس کے دل میں گھبراہٹ اور بے چینی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ جو بھی فیصلہ ہونا ہے جلد ازجلد ہوجائے۔ عدالت میں اس کی بیوی، بچے او رچند دوست موجود تھے۔ وہ کسی کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ ویسے عام حالات میں تو ان لوگوں کی موجودگی سے اسے خوشی ہوتی تھی، مگر آج وہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ رہا تھا۔ اس کا دِل چاہتا تھا کہ یہ لوگ عدالت میں موجود نہ ہوتے تو اچھا تھا۔
پہلا مجرم عدالت کے کٹہرے میں آیا۔ یہ ایک سفید فام نوجوان تھا۔ اس نے ایک سیاہ فام نوجوان کو قتل کیا تھا۔ جج نے اسے سمجھایا کہ کچھ بھی ہوجائے، انسان کو قتل سے گریز کرناچاہئے۔ اسے بطور سزا ایک سال کے لئے جیل بھیج دیا گیا۔
اس کے بعد ایک سفید فام نوجوان کلرک کی باری تھی۔ اس کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ اس نے سرکاری رقم میں خوردبرد کی تھی۔ جج نے اس سے مخاطب ہوکر کہا:
’’
تم ابھی جوان ہو، ابھی ساری زندگی تمہارے سامنے پڑی ہے۔ اگر تم نے ابھی سے اپنے آپ کو بے ایمانی او رلالچ کے راستے پر ڈال لیا تو تم ساری زندگی جیل میں گزاروگے۔ تمہارے خاندان والے معزز ہیں او رلوگ انہیں اچھا سمجھتے ہیں۔ تم ان کے لئے پریشانی کی وجہ بن رہے ہو۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ تم آئندہ ایسا نہیں کرو گے۔ میں تمہیں چھے ماہ کی قید اور سوڈالر جرمانہ کی سزا دیتا ہوں۔ جرمانے کی رقم خوردبرد کی ہوئی رقم سے ادا کی جائے گی۔‘‘
’’
ڈیوس، اب تم کٹہرے میں آؤ۔۔۔‘‘ جج نے کہا:ڈیوس ایک دم چونکا۔ اس کی آنکھوں میں بے بسی او رخوف تھا۔ اس ہرنی کی طرح جس کو چاروں طرف سے شکاری کتوں نے گھیر لیا ہو۔
’’
ڈیوس، تم پر جو مقدمہ چلا، اس میں چوری کا جرم ثابت ہوگیا ہے۔ تم نے اپنی غربت کی وجہ سے چابک کو چوری کیا۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں، تم سیاہ فام لوگ ایسے ہی کرتے ہو۔ تم سفید فام لوگوں کے خلاف زہر اگلتے ہو، انہیں بُرا بھلا کہتے ہو، یہ اچھی بات نہیں۔ اس سے نفرت بڑھتی ہے او رتم اس کے ذمے دار ہو۔ میں تمہیں ایسی سزادوں گا کہ تمہاری نسل میں کوئی اور شخص سفید فام لوگوں کو تنگ کرنے کے بارے میں کبھی سوچنے کی جرأت بھی نہ کرے گا۔ مجھے تمہاری بیوی او ربچوں کا بھی خیال ہے، اس لئے میں رحم کرتے ہوئے تمہیں پانچ سال قید بامشقت کی سزاد یتا ہوں۔۔۔‘‘ جج نے فیصلہ سنایا۔
’’
میں نے چوری نہیں کی۔۔۔‘‘ ڈیوس نے چلاّتے ہوئے کہا۔
’’
اوہ میرے مالک، ہم بربادہوگئے، میرے خاوند کو ان لوگوں نے بلاوجہ ماردیا۔۔۔!‘‘ ڈیوس کی بیوی رو رہی تھی اور ساتھ ہی چلاّرہی تھی۔ وہ بھاگی او راپنے خاوند سے جالپٹی۔
’’ 
بیچاری بیوی۔۔۔ اصل ظلم تو اس عورت پر ہوا۔۔۔‘‘ ایک سیاہ فام عورت کہنے لگی۔
’’
پیچھے ہٹو، نینسی، اب تم ڈیوس سے جیل میں مل لینا۔‘‘ ایک سپاہی نے نینسی کو ڈیوس سے الگ کرتے ہوئے کہا۔
(4)
پانچ سال کے بعد، جون کی ایک صبح، ایک سیاہ فام آدمی لنگڑاتا ہوا، بستی کی سڑک پر چلا جارہا تھا۔ یہ لمبے قد والا آدمی تھا مگر اس کے کندھے آگے کی طرف جھکے ہوئے تھے۔ لگتا تھا جیسے وہ بہت سال بہت سا بھاری سامان اپنے کندھوں پر اٹھائے کھڑا رہا ہو اور اس کے کندھے مستقل طور پر جھک گئے۔ اس کا چہرہ جھریوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں ، جیسے شدید آگ میں جل رہی ہوں۔
’’
پتہ نہیں نینسی، اچانک مجھے دیکھ کر کیا کہے گی؟ ان پانچ برسوں میں اس نے بچوں کو کیسے پالا ہو گا؟ شاید وہ لوگوں کے گھروں میں کپڑے دھونے یا صفائی کرنے کاکام کرتی ہوگی۔ پتہ نہیں، بچے میری جیل سے واپسی پر خوش ہوں گے کہ نہیں۔۔۔؟ کہیں وہ یہ نہ سوچتے ہوں کہ میں نے واقعی چابک چرایا تھا؟ دونوں کافی بڑے ہوگئے ہوں گے۔۔۔ معلوم نہیں اب وہ کیسے لگتے ہوں گے؟۔۔۔‘‘
پانچ منٹ کے بعد یہ شخص ایک مکان کے باہر کھڑا تھا اور کھڑکی سے اندر جھانکنے کی کوشش کررہا تھا۔ یہ گھر بھی ڈیوس کا اپنا گھر تھا۔ کھڑکی سے جھانکتے ہوئے، پہلے تو اس کے چہرے پر اُمید کی خوشی تھی، پھر بے چینی کا زردرنگ ابھرا۔ وہ جلدی سے دروازے کی طرف لپکا او راسے دھڑدھڑ پیٹنے لگا۔
’’
کون ہے؟‘‘ اندرسے ایک عورت کی آواز آئی۔
’’
کیا ڈیوس کی بیوی نینسی گھر پر ہے؟‘‘ اس نے دروازہ کھولنے والی اجنبی سفید فام عورت سے پوچھا۔
’’
نینسی اب یہاں نہیں رہتی۔‘‘
’’
یہ گھر کس کا ہے؟‘‘
’’
یہ میرے شوہر سمتھ کی ملکیت ہے۔۔۔!‘‘
’’
میں معذرت چاہتا ہوں۔ کچھ برس پہلے یہاں ڈیوس رہتا تھا۔ وہ اس بستی میں لوہار کاکام کرتا تھا ۔ یہ مکان اس کی ملکیت تھا۔۔۔ میں اس سے ملنے یہاں آیا تھا۔۔۔‘‘
’’
ہاں ہاں، مجھے یاد آیا۔ ڈیوس۔۔۔ لوہار۔۔۔ یہ وہی آدمی ہے جسے چوری کے الزام میں جیل ہوگئی تھی۔۔۔ اس نے شاید بکری یا بھیڑ چرائی تھی یا اس طرح کی کوئی چیز۔۔۔‘‘
وہ شخص اگلے دروازے پر جاکھڑا ہوا۔ ایک عورت اس کی دستک کے جواب میں گھر کے دروازے پر نمودار ہوئی۔ وہ اس شخص کو آنکھیں سکیڑ کر دیکھ رہی تھی۔
’’
کیا بات ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’
مہربانی فرماکرکیا آپ مجھے بتاسکتی ہے کہ آپ کے پڑوس میں کبھی ڈیوس نام کا لوہار رہتا تھا؟‘‘
’’
ہاں ، وہ ساتھ والے گھر میں رہتا تھا۔ اسے قتل کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔۔۔‘‘
’’
کیا آپ بتاسکتی ہیں کہ اس کی بیوی او ربچوں کا کیا ہوا؟وہ کہاں ہیں؟‘‘
’’
وہ یہ جگہ چھوڑ کر کہیں چلی گئی۔ سنا ہے کہ اس نے اپنے خاوند کے جیل میں جانے کے بعد کسی اورکے ساتھ شادی کرلی اور بچوں کو اللہ کے سہارے چھوڑگئی۔۔۔‘‘
ڈیوس کو لگا، جیسے اس کی ٹانگیں اس کو اٹھانے سے انکار کررہی ہیں۔ اس نے دیوار کا سہارا لے لیا۔ 
’’
اوربچے۔۔۔؟‘‘
’’
لڑکی تو مرگئی۔۔۔ شاید دریا میں ڈوب گئی تھی۔ کسی نے دھکادے دیا تھا۔۔۔‘‘
ڈیوس کاسارا جسم جیسے بے جان ساہوگیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی بیٹی کی تصویر آگئی۔
’’
ان کی جائیداد کا کیا ہوا۔۔۔؟‘‘
’’
لڑکا، اپنے باپ کے نقش قدم پر چلنے لگا۔ اس نے لوگوں سے ادھار لے کر کھانا شروع کردیا۔ وہ ہر طرح کے جُرم کرتا، پولیس اس کے پیچھے رہتی۔۔۔ پھر وہی عدالتوں کا چکر او روکیلوں کی فیس۔۔۔ آخر گھر بک گیا، اسے ایک سفید فام نے خرید لیا۔‘‘
’’
لڑکے نے ایک سفید فام کو قتل کردیا۔۔۔‘‘
اب پوچھنے کے لئے کچھ بھی نہ بچا تھا۔ ڈیوس نے پوٹلی کمر میں دبائی او ردریا کے کنارے جابیٹھا۔
(5)
ڈیوس نے دریاکے کنارے ایک درخت کی موٹی ٹہنی، ایک لمبے چاقو سے کاٹی۔ اس کی تراش خراش کرکے ایک لمبا ڈنڈا بنایا۔
وہ ہاتھوں میں ڈنڈا اٹھائے، تیز تیز قدموں کے ساتھ ایک سفید بنگلے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ بنگلے کے ساتھ ایک وسیع لان تھا او ران میں آدھے دائرے کی شکل میں سڑک بنی ہوئی تھی۔ سڑک کے دونوں کناروں پر گھنی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ ڈیوس نے اپنے آپ کو ان جھاڑیوں میں چھپا لیا۔ ایک بچی گھر سے نکلی اور سڑک پر کھیلنے لگی۔ ڈیوس کو خیال آیا کہ وہ اس بچی کو نقصان پہنچا کر، اس کے باپ کو بہت بڑی سزا دے سکتا تھا۔ اس نے اس خیال کو جھٹک دیا۔ بچی پھول توڑ کر اپنے بالوں میں سجارہی تھی۔ اتنے میں ایک بگھی بنگلے میں داخل ہوئی۔ ڈیوس کو اس کاانتظار تھا۔ ڈیوس وار کرنے کے لئے اٹھا مگر اس سے وارنہ ہوسکا۔ اس نے سوچا، اگر اس خبیث کرنل کو کچھ ہوگیا تو اس بچی کا کیا ہوگا۔ وہ فوراً واپس جھاڑی میں چھپ گیا۔ مگر کرنل تھاڑٹن ایک گندے سیاہ فام کو جھاڑی میں چھپتا ہوا دیکھا چکا تھا۔ خوف کی لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑنے لگی۔ اس نے پھرتی سے اپنا پستول نکالا۔ فائر ہوا، کرنل کا نشانہ خطانہ ہوا۔ گولی ڈیوس کے سر میں لگی، وہ لڑکھڑا کر زمین پر گرگیا۔ وہ عین اس جگہ پر گرا جہاں کرنل کی بیٹی پھول چن رہی تھی۔فائر ہوا تو وہ ڈرکے مارے بھاگ گئی۔ پھول اس کے ہاتھ سے زمین پر گر پڑے۔ ڈیوس گرا او راس نے دم توڑدیا۔ بچی کے چُنے ہوئے سفید گلاب ، ڈیوس کے خون سے سرخ ہوگئے۔
 تحریر :سبط حسن