منگل، 27 فروری، 2018

بلوچ ، مذہبی انتہا پسندی اور نوری نصیر خان


بلوچ ، مذہبی شدت پسندی
ذولفقار علی زلفی
بلوچستان میں ہزارہ برادری کی نسل کشی میں ملوث افراد کی اکثریت ، جامعہ حفصہ اسلام آباد کے سربراہان غازی عبدالرشید و مولانا عبدالعزیز اور سیہون دھماکے کے ماسٹر مائنڈز ڈاکٹر غلام مصطفی مزاری، صفی اللہ مزاری اور نادر جکھرانی کی قومی شناخت "بلوچ" ہے ـ
اس سے پہلے القاعدہ کے اہم ترین اراکین یوسف رمزی اور خالد شیخ محمد کی قومی شناخت بھی "بلوچ" رہی ہے ـ
بلوچ معاشرہ تاریخی طور پر مذہبی لحاظ سے کبھی بھی شدت پسند نہیں رہا ـ بلوچ تاریخ میں مذہبی شدت پسندی کی پہلی لہر بلوچ قومی ہیرو سمجھے جانے والے نوری نصیر خان کو قرار دیا جاسکتا ہے ـ جنہوں نے مکران کو "بلوچ ریاست" میں شامل کرنے کے لئے وہاں کے گچکی حکمرانوں کو زکری فرقے سے تعلق کی بنا پر غیر اسلامی قرار دیا ـ
نوری نصیر خان کی مذہبی شدت پسندی کو یہ مان کر آگے بڑھا جاسکتا ہے کہ چونکہ ان کی پرورش افغان حکمران احمد شاہ ابدالی کے زیرِ سایہ ہوئی ہے اس لئے ان کے فکر و عمل کو بلوچ سماج کا عکس نہیں مانا جاسکتا ـ یقیناً اس دلیل میں قوت بھی پائی جاتی ہے مگر خوانینِ قلات کی فکری ساخت اور ریاستی معاملات پر ان کی ترجیحات سے یہ پتہ چلتا ہے خوانین ، مذہب کو ریاست کا اہم حصہ تصور کرتے تھے ـ جیسے خان قلات میر احمد یار خان کو اس پر دکھ نہ تھا کہ پاکستانی فوج نے بلوچستان پر حملہ کیا بلکہ ان کا دکھ یہ تھا اس حملے میں مسجد کے میناروں کو نقصان پہنچا اور یہ حملہ نماز فجر کے وقت کیا گیا ـ
خوانین قلات کی مذہبی وابستگی کے اور بھی مظاہر ہیں جن کا تذکرہ طوالت کے خوف سے حذف کرنے پڑرہے ہیں ـ برطانوی دور میں آل انڈیا بلوچ کانگریس منعقدہ خان گڑھ (جیکب آباد) کی روداد سے اس کانگریس میں شریک سیکولر سمجھے جانے والے بلوچ رہنماؤں کی مذہب پسندی پر بھی کافی مواد ملتا ہے ـ
بلوچ حکمرانوں کے برعکس معاشرے میں مذہبی شدت پسندی کا سراغ نہیں ملتا ـ بلوچستان پر پاکستانی قبضے سے لے کر ضیا دور تک میں بھی بلوچ معاشرہ پاکستان کے دیگر معاشروں کی نسبت سیکولر مزاج رہا ہے ـ
نوے کی دہائی میں، سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بلوچ سیاست نے نظریاتی کرپشن، موقع پرستی اور عملیت پسندی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ـ اس طرزِ سیاست نے معاشرے کو کرپٹ اور کھوکھلا کردیا ـ رہی سہی کسر پاکستانی ریاست نے پوری کردی ـ
اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں بلوچ مزاحمت کے ابھار نے صورتحال کو بہتر بنانے کی جانب قدم بڑھایا مگر دوسری یعنی موجودہ دہائی کے اوائل اور وسط میں بعض مزاحمتی قوتوں نے دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے کہ غلط نعرے کو بنیاد بنا کر مذہبی شدت پسندوں سے مفاہمت کا راستہ اپنایا ـ اس مفاہمت کے بدترین اثرات مرتب ہوئے ـ آج بلوچ معاشرہ مذہبی لحاظ سے خوفناک حد تک تنگ نظر بنتا جارہا ہے ـ
کیا آپ کو ایسا محسوس نہیں ہورہا؟ ـ
____________

نوری ،مزاری  ، انتہاء پسندی اور زلفی 

زرک میر 
ذوالفقارعلی زلفی کے اس بات کو انکشاف سمجھیں یا اعتراف کہ بھٹو زندہ ہو یا نہ ہو نوری نصیر خان زندہ ہے  وہ جامعہ حفصہ والے غازی رشید مزاری مولانا عبدالعزیز مزاری کی صورت میں زندہ ہے بلے مزاری بگٹی مری لغاری اور کھوسہ سینہ ٹھوک کر کہتے ہیں کہ وہ نہ تو تاریخ میں کبھی خان کو مانتے تھے نہ اب مانتے ہیں۔
بقول زلفی نوری نصیر خان زندہ ہے آج کے سرمچاروں کی شکل میں  بلے آج کے مزاحمتی(انتہاء پسند) لیڈر مری اور بگٹی نے کھبی خان کو درغوراعتناء نہ سمجھا 
بقول زلفی نوری نصیر خان زندہ ہے آج کے ہزار ہ کش مجاہدین کی صورت میں بلے آج کے مجاہدین کا سربراہ حق نواز جھنگوی ہے جوکہ چاکر خان رند کے جھنگ پنجاب میں رہنے والے اولادوں میں سے ہیں 
بقول زلفی نوری نصیر خان زندہ ہے کہ جس نے انتہاء پسندی سے مکران کو ذگری قرار دے کر قتل عام کرایااور بلوچ ریاست میں شامل کرایا بلے آج مکران بلوچستان کا سب سے بڑا محب وطن خطہ قرارپاتا ہے
بقول زلفی نوری نصیر خان زندہ ہے آج کے مذہبی انتہاء پسند وں کی صورت میں بلے میر یوسف عزیز مگسی نے خلافت عثمانیہ کیلئے مجاہدین کی بھرتی کیمپس قائم کئے اور سینکڑوں نوجوانوں کو وہاں بھیج دیا جو آج تک واپس نہ آسکے
بقول زلفی نوری نصیر خان زندہ ہے انتہاء پسندوں کے باوا آدم کی صورت میں بلے انتہاء پسندی آج کی سیاسی اقتصادی سرمایہ داری کی جدید اصطلاح ہے بلے ہی نوری نصیر خان صنعتی دور سے پہلے کا پراناانسان گزرا ہے ۔
نوری نصیر خان کو آج کی بلوچ انتہاء پسندی کا ذمہ دار ٹھہرا کر زلفی نے یقیناًکوئی اچھنبے کی بات نہیں کی اور ان کے اس اظہاریئے کو کئیگھنٹے گزرے ہیں کسی نے ان کی تصحیح نہیں کی کاش کہ یہ کسی ادبی گروپ پر تنقید ہوتی تو اس وقت یقیناًاس کاجواب فورا آتاجبکہ تاریخی حوالوں کو جھٹلانے اور ان کے غلط استعمال پر منٹونما فیض نما اور جون نما دانشور چھپ سادھے ہوئے ہیں زلفی جان اور ان کے دوستوں سے پہلے بھی گزارش کی تھی کہ خدارا بلوچ سیاسی بیانئے پر انحصار کی بجائے کبھی کبھی تاریخ بھی پڑھ لیاکریں اور کسی کی نہ سہی اپنے ہیرو گل نصیر خان کی ہی لکھی ہوئی تاریخ پڑھ لیں افاقہ ہو گاکہ جس میں وہ نوری نصیر خان کے مکران پر حملے کے پس منظر کو واضح طورپر بیان کرتے ہیں جس میں ایک الگ چیپٹر ہے جس میں واضح طورپر یہ کہاگیا ہے کہ 
ملک دینار گچکی کی سرداری سے قبل کیچ پر بلیدیوں کی سرداری تھی جس زمانے کا یہ واقع ہے میر بلال بلیدی جو بعد میں شہ یا شیخ بلال کے نام سے مشہور ہوا۔میر بلال زیادہ تر گوادر میں رہاکرتاتھا اسی زمانے میں کیچ کی تمام آبادی ذکری مذہب کی پیروکارتھی چنانچہ میر بلال بھی مذہبا ذکری تھا ۔ روایت ہے کہ ایک دفعہ مکہ معظمہ سے کوئی حاجی جو کہ ایک جید عالم بھی تھا گوادر آیا اور میر بلال سے اس کی ملاقات ہوئی ۔اس حاجی کی پند ومواعظمت کا میر بلال (شے بلال ) پر گہرا اثر ہوا یہاں تک کہ ذکریت سے تائب ہوکر میر بلال نے نماز پڑھنا شروع کردی۔ ملک دنیار گچکی ان دنوں ذکری مذہب کا خلیفہ تھا اسے شہ بلال کی اس حرکت پر غصہ آیا اور ذکریوں کو اشتعال دلا کر اس نے قلعہ کیچ پر حملہ کردیا۔ شہ بلال کا بھتیجا جو بطور نمائندہ قلعہ میں موجود تھا ملک دینار گچکی کا مقابلہ نہ کرسکا ۔سراسیمہ ہوکر گوادر بھاگ گیا اور ملک دنیار نے کیچ پر قبضہ کرلیا ۔شہ بلال نے اطلاع پاکر ایک مختصر جمعیت کے ساتھ کیچ پر حملہ کردیا مگر ذکریوں سے شکست کھا کر تمپ بھاگ گیا ۔تمپ میں بھی ذکریوں نے اسے ٹکنے نہیں دیا ۔وہاں بھی ایک معمولی سی لڑائی ہوئی جس میں شہ بلال زخمی ہوکر گودار بھاگ گیا مگر ذکریوں نے اس کا تعاقب جاری رکھا ۔راستہ میں زخموں سے چور ہوکر شہ بلال ایک چشمہ پر ٹھہرا ہوا تھا کہ ذکری پہنچ گئے اور شہ بلال کو اسی جگہ زخمی حال میں  شہید  کردیا ۔یہ چشمہ اب تک سردار بلال کے نام سے سردار آپ  کے نام سے مشہور ہے ۔ ( اقتباس تاریخ بلوچستان ، مصنف میر گل خان نصیر صفحہ نمر 66)
اس تاریخی حوالہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بلوچستان میں پہلا اہم قتل مذہب کے نام پر نوری نصیر خان یا کسی اور نے نہیں بلکہ ذکریوں نے اپنے حکام کا مسلمان ہونے پر کیا  
ہم عرض کرینگے تو شکایت ہوگی آسمان سرپر اٹھا لیاجائے گا  لیکن یونہی تاریخی حوالوں سے ہٹ کر بات کرکے تاریخی مغالطے کا شکار لوگوں کی تصحیح کئے بغیر رہا بھی نہیں جاسکتا ۔ یہ مغالطوں اور سنی سنائی باتوں پر نظریات گڑھنے کا پہلا موقع نہیں ۔ دیکھنے والی نظریں سوشل میڈیا پر ایسی مغالطوں اور بے بنیاد یکطرفہ باتوں کی طومار سے بھرا پڑا ہے ۔میر گل خان نصیر کی کلیات کو پڑھنے والے ان کی اس تاریخی گوشے سے ناواقف نکلے جو کہ چیخ چیخ کے کہہ رہا ہے کہ ذگریوں نے اپنے حاکم کے مذہب تبدیل کرنے کو برداشت نہ کرکے اسے قتل کردیا اور اقتدار پر قابض ہوگئے (آج کے انتہاء پسندانہ قتل کے فتوے اور اس وقت فتوے سے بڑھ کر قتل کی انتہاء پسندی ملاحظہ ہو) یعنی مذہب کی تبدیلی پر ذگری حاکم کاقتل خود ذگریوں نے کیا ۔نصیر خان نوری کا قضیہ تو بعد میں آتا ہے جو جنگیں انہوں نے وہاں لڑیں اس سے قطعی انکار نہیں لیکن ان پر یہ الزام کہ انتہاء پسندی کے رجحان کے ضیاء الحق نوری نصیر خان ہیں بالکل غلط اور لغو ہے ۔ اب 
اس حوالے سے دوسرے مغالطے کی تصحیح ملاحظہ فرمائیں جہاں زلفی نے کہا کہ نوری نصیر خان چونکہ احمد شاہ ابدالی کے تربیت یافتہ تھے تو ان سے یہ سب بعید نہیں تھا ۔
شہ بلال کے تین لڑکے تھے نورمحمد  ولی محمد  اور محمد شفیع تینوں بھائی مسلمان ہوچکے تھے اور گوادر میں رہتے تھے ۔میر نصیر خان کے عہد حکومت میں اس کی شہرت اور دبدبہ کا سن کر میر نور محمد (زکریوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے شہ بلال کے بیٹے ) نے گوادر سے ہجرت کرکے قلات پہنچے اور چند سال میر نصیر خان کی خدمت میں رہا۔ نور محمد اپنی شجاعت اور شرافت سے میر نصیر خان کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔اس نے ذکریوں کے ارتداد سے میر نصیر خان کو روشناس کرایا اور اس کے دل میں ذکریوں کے خلاف انتہائی نفرت پیدا کرکے آخر کار میر نصیر خان کو کیچ پر حملہ کیلئے جانے پر آمادہ کرلیا ۔ ( گویا گھر کو لگی آگ گھر کے چراغ سے مصداق کے مطابق نور محمد نے ذکریوں کے خلاف خان میر نصیر سے مدد طلب کی) میر نصیر خان نے 1756-57میں اپنے قبائلی دستوں کو سمیٹ کر پنجگور کے راستے کیچ پر حملہ کردیا ۔قصہ مختصر ملک دینار نے شکست کھا کر دم کے قلعہ میں جا کر دم لیا ۔ قلعہ کا محاصرہ کئی دن تک جاری رہا آخر کار ملک دنیار نے ہتھیار ڈال دیئے اور گرفتارہوگیا ۔میر نصیر خان نے ملک دینار کو نماز پڑھنے کو کہا لیکن ملک دنیار نے انکار کردیا قاضی اور علماء نے ہرچند ملک دنیار کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی لیکن وہ کٹر بے نماز اپنی ضد پر ڈٹا رہا الغرض میر نصیر خان نے مایوس ہو کر اس کو قتل کا حکم دے دیا ۔ میر نور محمد بلیدی ( شے بلال کے بیٹے ) نے تلوار نکال کر ملک دینار کا سرتن سے جدا کردیا ۔
پھر جب میر نصیر خان نے قلعی تمپ کا ملک دینار کے خلاف محاصرہ کیاہوا تھا تو ملک دینار نے اپنے بھائی میر شا بیگ کو خفیہ راستے سے قلعہ سے نکال کر احمد شاہ ابدالی کے پاس فریادی قندھار بھجوایا تھا شا بیگ کے قندھار پہنچنے پر احمد شاہ ابدالی نے اپنے ایک تیز رفتار قاصد کے ذریعے میر نصیر خان نوری کے نام اپنا شاہی فرمان بدین مضمون لکھ کر روانہ کردیا کہ  دن یا رات کے کسی پہر میں جب اور جس وقت یہ شاہی فرمان میر نصیر خان کے ملاحظہ سے گزرے بمجر درسیدن فرمان بلاتاخیر فورا کیچ خالی کرکے قلات واپس ہوجائے بصورت دیگر شاہی فوج اس کو طاقت کے ذریعے مکران سے نکالنے کیلئے روانہ کردی جائے گی ۔(اقتباس تاریخ بلوچستان ۔مصنف میر گل خان نصیر صفحہ نمبر 66)
قصہ مختصر خان میر نصیر واپس قلات کے لئے روانہ ہوگیا ۔اس اقتباس سے صاف ظاہر ہوہو رہا ہے کہ اس وقت احمد شاہ ابدالی کی دست شفقت محض میر نوری نصیر پر نہیں تھی بلکہ مکران سمیت پورے خطے کے اقوام پر تھی جو جس وقت چاہتا ان سے بغیر کسی مذہبی اور لحاظ کے ان کے پاس مدد کے لئے پاس پہنچ جاتا ۔محض نوری کو اس پر موردالزام ٹھہرانا یکطرفہ اور تصویر کا ایک رخ پیش کرنے کی کوشش قرار دی جاسکتی ہے ۔اسی چیپٹر میں بعد میں میر نوری نصیر کے احمد شاہ ابدالی سے اختلافات بھی ملاحظہ فرمائیں جس میں میر نصیر نوری کے احمد شاہ ابدالی سے شدید اختلافات ہوئے اور اس کی ایک بنیادی وجہ بلوچ ریاست کی سرحدوں کا تعین تھا ۔ کچھ فارغ ٹائم ملے تو ملاحظہ فرمائیں۔ 
۔زلفی اور ان کے پڑھے لکھے ساتھیوں کیساتھ ہمیشہ ایسا ہوتا آیا ہے جہاں وہ بنیادی چیزوں سے متعلق بے خبر نکلتے ہیں ا س پر بہت حیرانگی ہوتی ہے کہ بغیر تاریخی حوالہ کے ایسی بڑی باتیں کیسے کہہ جاتے ہیں ،کیسے نہ کہیں سیاسی جماعتوں کے پمفلٹوں سے اقتباس لئے ہوئے حوالے ایسے ہی ہوتے ہیں ہمارے انقلابیوں کے ماضی کے بلوچستان سے متعلق معلومات مجھ جیسے کارکن کی جانب سے لکھے گئے پمفلٹ سے مستعار لئے گئے ہوتے ہیں جو کہ افسوسناک حدتک ناقص ہوتے ہیں ۔
مکران پر نوری نصیر کے حملے کے پس منظر کو جانے بغیر اور نوری نصیر کو شاہ ابدالی کی تربیت کاحامل قراردیتے ہوئے کاش باقی ماندہ ذگریوں کا نوری نصیر کے خلاف اسی مذہبی احمد شاہ ابدالی سے مدد لینے کو بھی مدنظررکھتے تو ایسی غلط فہمی کی گنجائش نہ ہوتی  مجھے نوری نصیر کی دفاع کرنے کا کوئی شوق نہیں اور نہ ہی ان سے مکمل اتفاق کرتاہوں لیکن جب بات ناقص اور غلط تاریخی حوالوں کے ذریعے اپنی من چاہی بات کی جائے تو اپنے طورپر تصحیح لازمی ہوتی ہے چاہے وہ مکران کی تاریخ ہو قلات کی ہو یا باقی کسی جگہ کی ۔ 
ویسے مکران پر نوری نصیر کے حملے کو انتہاء پسندی قرار دینا بھی دلچسپ ہے گویا زلفی کے خیال میں اس وقت مارکس اور اینگلز کا مارکسز م لبرل ازم سیکولر ازم کا عروج تھا انقلابات رونماء ہورہے تھے لیکن نوری نصیر خان نے ان نظریات سے منہ موڑا اوران نظریات سے استفادہ کرنے کی بجائے کٹرمذہبی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے گویا ا س وقت کے اس مکران پر حملہ کیا جو مارکسزم لبرل ازم ہیومنزمنیشنلزم کا گڑھ تھا ۔تاریخ سے ثابت ہے کہ پہلا مذہبی قتل کے شواہد مکران میں ہی ملتے ہیں شہ بلال کی ذکریوں کے ہاتھوں سفاکانہ قتل کی صورت میں ۔
ویسے زلفی نے بہت جلد بازی دکھائی ہے جہاں قلات کے حکمران(وہ اسے واضح طورپر بلوچ ریاست بھی قراردے رہے ہیں)کے مکران پر حملے کو مذہبی انتہاء پسندی کے تناظرمیں دیکھ رہے ہیں لیکن شاہد وہ بتا سکیں کہ 1640کی بجائے 1430کے دور کے بلوچستان بلوچوں کے ہیرو چاکر خان اپنے والد اور لاؤ لشکر کیساتھ مکران سے نکلتے ہیں اور قلات کی طرف آنکلتے ہیںیہاں عمر میروانی کی سربراہی میں نوزائیدہ ریاست پر ٹوٹ پڑتے ہیں میرو میروانی کو قتل کرکے قلات کو تاراج کرتے ہیں اور میر مندو کو حاکم بنا بیٹھتے ہیں  زلفی اگر ہمیں چاکر خان کے اس حملے کی منطق اور وجہ سمجھیں دیں اور بتا دیں کہ یہ انتہاء پسندی تھی کہ نہیں۔اگر ویہ بتا سکیں تو یقیناًاس سے کئی ایک مغالطے حل ہوسکتے ہیں ۔بعدمیں چاکر خان کی لشکرکو مکران سے نکل کر قلات میں بھی آرام نہیں ملا  روایت کے مطابق قلات کی یخ برف اور سردی نے چاکر خان اور اس کے لشکر کو قلات چھوڑنے پر مجبور کیا پھران کی کچھی سبی کے میدانوں میں گھمسان کی وہ لڑائیاں ہوئیں کہ اس سے خطہ لرزاٹھا۔ ان آپسی لڑائیوں میں بلوچوں کے دونوں فریقوں نے بیرونی مدد لی اورافغانستان بھی جاتے رہے اور ایک دوسرے کے خلاف مدد لیتے رہے۔ یہی افغانستان بعد میں کٹرمذہبی احمد شاہ ابدالی کو بھی جنم دیتا ہے جو کہ نوری نصیر خان کے مقابلے میں مکران کے ذگریوں کی مدد کرتا ہے نوری نصیر خان کی نہیں ۔ چنانچہ افغانستان یا بیرونی قوتوں سے مدد لینے کاسلسلہ نوری نصیر خان سے شروع نہیں ہوتا اور نہ ہی قتل وغارت گری کا سلسلہ نوری نصیر خان کے ہی دور سے آغاز ہوتا ہے بلکہ اس کا سب سے پہلے نشانہ میرو میروانی چاکر خان کے ہاتھوں بنتا ہے بعد میں رند ولاشار آپسی خونریزی کی داستانیں رقم کرتے ہیں۔اب زلفی بتائیں کہ نوری نصیر خان سے ڈھائی تین صدی قبل کی رند ولاشار کی ان آپسی جنگوں کوانتہاء پسندی کے علاؤہ کیا نام دیں؟ نوری نصیر خان تو بعد کا قصہ ہے اور جس واقعہ کو بنیاد بناکر نوری نصیر خان کو انتہاء پسندی کا باوا آدام ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ واقعہ نوری نصیر خان کی مداخلت سے قبل ذگریوں کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوچکاتھا جن کو اپنے حکام کی مذہب کی تبدیلی برداشت نہیں ہوئی اور اسے تمپ کے مقام پر شاہی محل کا گھیراؤ کرکے قتل کردیا ۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ نوری نصیر خان نے ان کی آپسی لڑائی سے فائدہ اٹھایا لیکن مذہبی انتہاء پسندی کا الزام قطعی درست نہیں ،مذہبی انتہاء پسندی کے براہ راست ذمہ دار خود ذگری تھے اور انہوں نے نوری نصیر خان کو فائدہ اٹھانے کا خود موقع دیا۔
اگرہم رند وں کی قلات حملے سے بھی کچھ پیچھے چلے جائیں تو تاریخ دانوں کا دعویٰ ہے او ربلوچ کے بعض حلقوں کا ا تفاق بھی ہے کہ بلوچ عرب اور ایران سے آئے ہیں اس سلسلے میں بلوچ اپنے آپ کو امام حسین کے لشکری بھی کہتے ہیں  ہم مانیں یا نہ مانیں یہ بھی تاریخی دعویٰ ہے کہ ایران سے جنگجو اور لٹیرے ہونے کی وجہ سے بلوچ دربدر کردیئے گئے جہاں ان کا ٹھکانہ مکران بلوچستان رہا ۔ چنانچہ جہاں جہاں سے تاریخی حوالوں کی بات کرینگے بلوچوں کا جنگ اور جنگجوہانہ رویوں سے تعلق سے انکار نہیں کیاجاسکتا ۔دلچسپ تو یہ ہے کہ بلوچ سیاسی بیانیہ اس روایتی جنگجوہانہ رویئے پر نازاں ہے جبکہ زلفی جان جیسے کامریڈ دیگر لبرل سیکولر اور ہیومنسٹوں کے سامنے بلوچ کو غیر جنگجوہانہ ظاہر کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں ۔ 
 زلفی جان نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیاہے کہ بلوچ سیکولر اور لبرل رہے ہیں  زلفی جان پہلے کی طرح یہ نہیں بتا سکے کہ بلوچ پہلے لبرل اور سیکولر کیسے تھے  اور وہ کونسی روایات تھیں جوہمیں لبرل اور سیکولر ظاہرکرتی آئی ہیں اور اب بھی کررہی ہیں اور وہ روایات خطے کی دوسری اقوام میں نہیں ۔یقیناًاب تک ایسا دعویٰ کرنے والے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکے ہیں ۔
آخر میں ایک اہم اور تاریخی غلطی کی جانب نشاندہی کرکے اپنا تبصرہ ختم کرونگا کہ جہاں زلفی جان نے مکران پر حملے کو جواز بناکر تمام خوانین قلات کو مذہبی انتہاء پسند قرار دے کراس حوالے سے اپنی بات باوزن بنانے کیلئے ایک سطحی اور غلط تاریخی حوالہ لکھ ڈالا ہے جہا ں زلفی رقمطراز ہیں کہ خان قلات احمد یار خان اس بات پر نہیں بگڑے کہ بلوچستان کا الحاق ہونے جارہا ہے بلکہ اس بات پر بگڑے کہ پاکستانی فورسز کی جانب سے فائر کیاگیا گولہ مسجد کو کیوں لگا گویا یہ ان خوانین قلات کی جانب سے مذہبی انتہاء پسند ہونے کی دلیل ہے  باقی معاملات پر تو مجھے حیرانگی تھی کہ کسی نے بھی زلفی جان کی تصحیح نہیں کی بلکہ یہ تو اب کی ماضی قریب کی بات ہے کہ مسجد پر گولہ لگنے سے احمد یارخان نے مزاحمت شروع نہیں کی بلکہ احمد یار کی گرفتاری کا معاملہ مسجد پر گولہ لگنے سے دس سال پہلے کا واقعہ ہے یعنی 1948 کا جبکہ مسجدپر گولہ لگنے کا واقعہ 1958کو پیش آیا جس پر نوروزخان زرک زئی نے مزاحمت شروع کی ۔1948کو الحاق کی مخالفت پر قلات پر پولیس ایکشن ہوا اورخان قلات احمد یار کو گرفتارکیاگیا بعد میں انہیں رہا کیاگیا لیکن بعد میں خان میر احمد یار خان نے دوبارہ سے ایسی سرگرمیاں شروع کیں جس پرلگا کہ وہ ریاست کی بحالی کی تحریک کی تیاریاں کررہے ہیں جس پر 1958میں دوبارہ ان کا قلات میں گھیراؤ کیاگیا اور گولے فائر کئے گئے جس پر ایک گولہ مسجد کو بھی لگا اس گھیراؤ اور آپریشن کے خلاف نوروز خان زرک زئی نے مزاحمت شروع کی ۔اب زلفی جان بھول گئے اور یہ کہہ گئے کہ خان قلات کو الحاق کی تو کوئی پروا ہ نہیں تھی وہ تو مسجد کو گولہ لگا تو وہ مذہبی رجحان کے طورپر مزاحمت پر آمادہ ہوگئے اب غورکرنے والی بات ہے کہ اگر خان قلات کی مزاحمت کا کوئی ارادہ نہ تھا تو فورسز نے قلات کا دوبارہ 1958میں گھیراؤ کیوں کیاگیا اور مسجد کو گولہ لگنے کی نوبت کیوں آئی ؟ ظاہر سی بات ہے کہ خان قلات کے خلاف ہی گولے فائر ہوئے جن میں سے ایک مسجد کو جالگی اب یونہی مسجد پر گولے باری کیوں کی جاتی ۔ کوئی اگر مزاحمت نہیں کرنا چاہتا تو اسے بڑھکانے کیلئے مسجد پرگولہ کیونکر فائر کیاجاتا۔ ویسے بھی وہ مسجد بھی قلات وطن کی مسجد تھی اس پر حملے کی صورت میں مزاحمت جائز ہے کیونکہ اس حملے کو خالصتا قلات وطن پر حملہ تصور کیاگیا۔ لہذا کج روی اور بغیر درست حوالوں کے بات کرنے پر یقیناًاس کا ٹھوس جواب آنا چاہئے تھا اور افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے سیاسی بیانیے نے ہمیں جو سکھایاہے ہم وہی رٹتے ہیں حالانکہ ہم خود مشاہدے کی حس رکھتے ہیں تاریخ پڑھ سکتے ہیں لیکن کیا کریں کسی نے سیاسی بیانیے کے خلاف بات کی تو وہ قوم کی تقسیم کرنے والا قراردیاجاسکتاہے اور اسے مختلف القابات سے نوازہ جاتا ہے ۔ تنگ نظری عدم برداشت کا وہ مظاہرہ کیاجاتا ہے کہ اللہ کی پنا ہ ۔اس کے باوجو د زلفی جان بضد ہیں کہ بلوچ سیکولر رودار اعتدال پسند قوم ہے ۔
(آؤ کہ اختلاف رائے پر اتفاق کریں )

ــــــــــــــــــ
قاسم بلوچ لکھتے ہیں کہ 
زلفی صاحب میرے ان فیس بک فرینڈز میں سے ہیں جن سے بحثیت طالب علم مجھے سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے.اور جس معتبر انداز سے وہ کراچی سے خیبر تک کے مختلف اقوام کے سماجی, سیاسی اور ثقافتی امور کے انجینئرنگ پر تاریخی جائزہ لیتے ہیں وہ مجھ جیسے طالب علم قارئین کے لیے علمی سرمایہ سے کم نہیں ہوتا. بات جب بلوچستان کے قبائلی ڈھانچے اور اس کی قبائلی امور پر آتی ہے,جسے آج کل اکثر اوقات بلوچ سیاست کے نام سے زیر بحث لا کر برصغیر کے سیاست سے الگ رکھنے کے لیے دلیل کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے, تو ایک دم چیزوں کو پرکھنے کے پیمانے تضاد کا شکار ہو جاتے ہیں...میں پھر کہوں گا کہ میں سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں نہ کہ غلطی نکالنے کی کیونکہ میں اس عمل سے سیکھ رہا ہوں اور بحثیت قاری اپنی رائے دے رہا ہوں کیونکہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ کم علمی کی وجہ سے میں زلفی صاحب یا دوسرے دوستوں کے ساتھ ٹھوس بنیادوں پر تاریخی بحث نہ کر سکوں. .زلفی صاحب جب بلوچ تاریخی قبائلی امور یا کہ بلوچ سیاست پر لکھتے ہیں تو وہ یہاں کے طاقت کے ڈسکورس اور سماجی ڈھانچے کا تجزیہ کرتے ہوئے خوانین قلات,مری و بگٹی,مینگل اور ہر دل عزیز سیکولر مکران کے بارے میں حقائق کو ایک مخصوص سیاسی بیانیہ کے ساتھ ایسے الجھاتے ھیکہ ہم جیسے نئے قارئین کو مولہ,ہربوئی اور بولان میں سفر کرنے والے سخت جان لوگوں کسی فلم کے ولن کے جابرانہ عزائم کو دوام بخشنے والے سطی ذہنیت کے دو ٹکے کے غنڈوں کا ایک گینگ لگنے لگتے ہیں اور دوسری طرف بحرعرب کے مضافات سے لے کر فارس کے ہمسائے میں بسنے والے... فلمی دنیا کے ایک مظلوم بستی کے بے بس باسی... ایسے لگتے ہیں جیسے ریاست قلات کے غنڈوں نے نوری نصیر خان کےظالمانہ سربراہی میں ان پر لشکر کشی کر کے ہزاروں غریب اور مفلس لوگوں کو قتل کر کے بہت سارا مال غنیمت,سیکولر غلام اور لونڈیاں شاھی دربار قلات پہنچا کہ عربی مذہب کے سچے پیروں کار ہونے کا ثبوت دی ہے
ـــــــــــــــــــــــــ
ذولفقار علی زلفی 
عرض یہ ہے کہ زرک صاحب کا مسئلہ بلوچ سماج کے تضادات کی تفہیم یا ان پر اپنا نکتہِ نظر واضح کرنا نہیں ہے ـ ان کا غصہ صرف نوری نصیر خان کو تنقید کے دائرے میں لانے پر ہے ـ یہ غصہ بھی صرف اس لئے ہے کیونکہ وہ براھوی سماج کو بلوچ معاشرے سے جدا کرکے دیکھتے ہیں ـ اس کی ایک جھلک جھنگ، چاکر خان رند کے بے وقت کی راگنی سے بھی ملتا ہے ـ
میرے نزدیک نوری نصیر خان ایک بلوچ حکمران ہیں اور بلوچ قوم کی اکثریت (سوائے مکران کے زکری فرقے کے) انہیں اپنا قومی ہیرو سمجھتی ہے ـ نوری نصیر خان کی شاہی سلطنت کے تضادات اور ان کی حکمرانی کے حسن و قبح پر بہت کم بحث کی جاتی ہے کیونکہ ہم "ہیروؤں" پر بات نہیں کرتے ـ
کسی بھی ایشو پر میری رائے محض رائے ہے اسے فتوی نہ سمجھا جائے ہاں میری رائے میں بلوچی، براھوی، سرائیکی اور جدگالی تعصب تلاش نہ کی جائے ایسا کرنے والوں سے مکالمہ کرنا میرے لئے ممکن نہیں ـ
مکران ہو یا دیگر خطے یہ سب بلوچ سماج کے حصے ہیں ـ ان کے درمیان تفریق کرنا، کسی کو اوپر نیچے کرنا بددیانتی ہے جو کم از کم میرے لئے ممکن نہیں ـ
زرک صاحب بلوچی براہوئی تضادات کا شوق پالتے ہیں اس شوق سے مجھے کوئی علاقہ

ـــــــــــــــــــــــ
زرک میر 
باقی باتیں اپنی جگہ، زلفی صاحب اصل مدعے پر اپنی رائے دیں کہ ذگریوں میں پہلا قتل کس بنیاد پر ہوا اور کس نے کیا۔۔۔۔۔۔اور قلات مسجد پر حملے کے پد منظر سے متعلق اپنے مغالطے پر کیا کہتے ہیں
ذولفقار علی زلفی 
خان قلات نے اپنی کتاب میں بلوچستان پر قبضے سے زیادہ اللہ اکبر کی صداؤں، مسجد کے میناروں، نمازِ فجر اور پاکستانی فوج کے مسلمان ہونے پر ذیادہ دکھ کا اظہار کیا ہے ـ مزکورہ پوسٹ میں اشارہ اسی جانب تھا ـ
خان کو آزادی پسند قرار دینا یوں بھی مشکل ہے ان کی پوری سیاسی زندگی اور فیصلوں کا جائزہ لیا جائے تو عقدہ کھلتا ہے ان کا اہم ترین مسئلہ اپنا طبقاتی اسٹیٹس برقرار رکھنا تھا چاہے بدلے میں پوری قوم کا بیڑہ ہی کیوں نہ غرق ہوجائے ـ
یوسف عزیز مگسی پر بھی اس پوسٹ میں اشارتاً تنقید کی گئی ہے، ایک بار پھر دیکھ لیں ـ اب آپ براھوی عینک لگا کر دیکھیں گے تو ظاہر ہے آپ کو "براھوی دشمنی" ہی نظر آئے گی ـ
زرک میر 

یہاں براہوئی بلوچی کی بحث نہیں ہورہی یہ تو آپ کی تصحیح کی گئی ہے جہاں آپ نوری نصیر کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔۔۔جبکہ اصل بات یہ ہے کہ زکریوں میں پہلا قتل مذہبی بنیاد پر ہوا جہاں شہ بلال کو مسلمان ہونے پر دینار گچکی نے قتل کرایا۔۔
میری عینک بلے براہوئی تناظر دیکھتا ہو لیکن کیا اس سے حقائق جٹھلائے جا سکتے ہیں جہاں آپ انتہا پسندی عورتوں کے حقوق غصب کرنے اور لٹیرے کے طور پر آپ کو حوالہ پوری تاریخ میں پر پرا کر نوری نصیر ہی ملتے ہیں۔۔۔۔کبھی آپ نے یہ دیکھا کہ تاریخ کے المیے اور بھی ہیں۔مکران کے علاوہ آپ لوگ باقی بلوچستان سے متعلق سوچتے ہوئے بالکل پبجابی جیسے بن جاتے ہو۔
ــــــــــــــــ

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں