جمعہ، 26 فروری، 2016

نیا سال 2016ء دنیا کو کیسے بچایا جائے



پرانوں کو بھول جاؤ، نئے کو گلے لگاؤ۔۔۔‘‘ یہ ہمیشہ نئے سال کا حوصلہ افزا پیغام ہوتا تھا۔ لیکن تمام تر رقص و سرودکی محفلوں کے باوجود حکمران طبقات اور ان کے پالیسی سازوں کی محفلوں میں مستقبل کے بارے میں کسی طرح کی امید یا رجائیت موجود نہیں تھی۔ اس کے برعکس بورڑوا اخبارات کے مضامین میں مایوسی بھری ہوئی ہے۔اٹھائیس دسمبر کو فنانشل ٹائمز نے گیڈؤن راکمین کا ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان بہت دلچسپ تھا، ''برباد، کچلا ہوا اور متلاطم... پوری دنیا تباہی کے دہانے پر‘‘۔ اس میں ہمیں پڑھنے کو ملتا ہے کہ:دو ہزار پندرہ میں دنیا کی تمام بڑی طاقتوں پر پریشانی اور مایوسی چھائی رہی۔ بیجنگ سے واشنگٹن، برلن سے برازیل اور ماسکو سے لے کر ٹوکیو تک حکومت، میڈیااور شہری دگر گوں رہے۔ اس طرح کی عالمی بے چینی غیر معمولی ہے۔ پچھلے تیس سال سے زائد کے عرصے میں کم سے کم ایک عالمی طاقت ایسی موجود رہی ہے جو بہت زیادہ پرامید تھی۔ 80ء کی دہائی کے اواخر میں جاپان ابھی تک دہائیوں کی معاشی ترقی سے مستفید ہورہا تھا اور پراعتماد انداز میں پوری دنیا میں اثاثے خرید رہا تھا۔ نوے کی دہائی میں امریکہ سرد جنگ میں فتح اور طویل معاشی پھیلاؤ کے نشے میں دھت تھا۔ 2000ء کے شروع میں یورپی یونین پرجوش تھی، واحد کرنسی کا اجرا کیا اور اپنی رکنیت کو تقریباً دگنا کر دیا۔ اور پچھلی دہائی کے زیادہ تر عرصے میں چین کی بڑھتی ہوئی سیاسی اور معاشی طاقت نے پوری دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔تاہم موجودہ حالات میں تمام اہم کھلاڑی تذبذب کا شکار ہیں، حتیٰ کہ خوفزدہ ہیں۔ میرے خیال میں اس سال واحد استثنیٰ ہندوستان ہے جہاں کاروباری اور سیاسی ٹولے وزیر اعظم نریندرا مودی کے اصلاح پسند اقدامات کی وجہ سے خوش ہیں۔ اس کے برعکس جاپان میں یہ یقین دم توڑ رہا ہے کہ 'ایبنومکس‘ کے نام سے ریڈیکل اصلاحات ملک کے قرضوں اور تفریط زر کے چکر کو توڑ سکتی ہے۔ چین کے ساتھ تناؤ سے جاپان کی پریشانی میں اور بھی اضافہ ہورہا ہے۔ تاہم اس سال چین کے دورے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ ملک بھی چند سال پہلے کی طرح مستحکم نہیں رہا۔ وہ دور اب گزر چکا جب حکومت آسانی سے 8 فیصد کی شرح نمو حاصل کرلیتی تھی۔ داخلی مالی استحکام کے بارے میں پریشانی بڑھ رہی ہے جیسا کہ پچھلی گرمیوں میں شنگھائی سٹاک ایکس چینج میں بھونچال نے واضح کردیا تھا۔ ‘‘
مشرق وسطیٰ میں نیا بھونچال
نئے سال کا آغاز ایک ہنگامے کے ساتھ ہوا اور جائے وقوعہ متوقع طور پر بھونچال کی زد میں آیا ہوا مشرق وسطیٰ تھا۔ یہ ہنگامہ ممتاز شیعہ عالم شیخ نمر النمرکی پھانسی سے ہوا جو 2012ء میں اپنی گرفتاری تک مسلسل سعودی شاہی خاندان کا ناقد اور عرب بہار کے دوران سعودی عرب میں ابھرنے والے احتجاجوں میں پیش پیش رہا تھا۔واشنگٹن ان واقعات کے حوالے سے متفکر اور بے بس ہے۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان جان کربی نے بے بس الفاظ میں کہا؛ ''ہم خطے کی قیادت پر زور دیتے ہیں کہ وہ معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے مؤثر قدم اٹھائیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سفارتی میل جول اور براہ راست گفتگو بہت اہم ہیں۔‘‘ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ نرمی کا مظاہرہ کرنے کی بات کررہا ہے، ریاض میں اس کے دوست اور اتحادی پہلے سے دھماکہ خیز صورت حال پر مزید تیل چھڑک رہے ہیں۔ کربی کی باتیں آدم خوروں کے سالانہ کنونشن میں ایک سبزی خورکی تقریر کی مانند ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ جس شخص نے یہ تقریر کی ہے وہ خود دنیا کی سب سے آدم خور طاقت کا نمائندہ ہے۔
مشرق وسطیٰ میں لگی آگ عراق پر مجرمانہ حملے اور امریکی سامراج کی اس بد قسمت خطے میں مسلسل مداخلت کا براہ راست نتیجہ ہے۔عراق کو تباہ و برباد اور کھنڈرات میں تبدیل کرکے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شام میں رجعتی قوتوں کو پروان چڑھایا جو اب ان کے اپنے مفادات کے لیے خطرہ بن گئی ہیں۔ لیکن گزشتہ سالوں میں عراق میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے شروع کی گئی ''دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔بزدل اور قابل رحم عراقی فوج، جو امریکہ کے ماتحت ہے، کا رمادی کو داعش سے چھڑانے کا دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا۔ان سطروں کی نگارش کے وقت جہادی قوتیں شہر(یا شہر کی باقیات) کے بڑے حصوں پر قابض ہیں اور لڑائی اب بھی جاری ہے۔ بلاشبہ عراقی فوج بالآخر ان کھنڈرات کے بڑے حصوں پر قبضہ کر لے گی۔ لیکن رمادی کی ''فتح‘‘ نے صرف عراقی فوج کی بیکاری کو ہی واضح کیا ہے۔ اس سے پینٹا گون کے تمام تر کھوکھلے دعوؤں کی قلعی کھلتی ہے جو ان فوجیوں کو تنخواہ دیتا ہے اور ان کے ہاتھوں میں اسلحہ تھماتا ہے اور جیسے ہی ان کو کوئی مناسب موقع میسر آتا ہے تو وہ اس اسلحے کو پھینک کر بھاگ جاتے ہیں۔
امریکہ، روس اور ایران
بالآخر بے قابو قوتوں کے خطرات کا احساس ہونے کے بعد امریکی لاچارگی کے عالم میں ایسی قوت کی تلاش میں ہیں جو ان کی اپنی لگائی ہوئی آگ کو بجھانے میں ان کی مدد کرے۔ لیکن وہ کون ہوسکتا ہے؟ ہچکچاتے ہوئے اور اپنے دانت پیستے ہوئے، امریکیوں کو مجبوراً سب سے غیر متوقع اور ان کی سب سے ناپسندیدہ قوتوں، روس اور ایران، کی طرف ہاتھ بڑھانا پڑ رہا ہے۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب امریکی اور ان کے نیٹو اتحادی مسلسل ''روس کو تنہا‘‘ کرنے کی بات کرتے تھے۔''ہاں! روس کو عالمی سطح پر تنہا کردیا گیا ہے‘‘ دن رات وہ اس منتر کا ورد کرتے تھے۔ لیکن اچانک، جیسے کسی جادو کے نتیجے میں، روس قطعاً تنہا نہیں ہے بلکہ نپے تلے انداز میں اس کی تعریفیں اور قصیدے پڑھے جا رہے ہیں۔''ہم روس کو تنہا نہیں کرنا چاہتے،‘‘ ''ہمیں روس کے ساتھ سمجھوتہ کرنا چاہیے‘‘، وہ اس امید کے ساتھ یہ باتیں بار بار دہرا رہے ہیں کہ کوئی لہجے کی اس تبدیلی کو نوٹ نہیں کرے گا۔
سال 2015ء میں امریکہ نے صرف یہی ایک قلابازی نہیں لگائی۔ سفارتی میدان میں ایران کے معاملے میں اس سے بھی بڑی قلابازی لگائی گئی۔وہی ایران جس کے ساتھ (روس کی مانند)عالمی سطح پر اچھوت کی طرح رویہ رکھا گیا، اس پر سخت اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں اور ایک موقع پر تو اس پر فضائی حملہ کرنے کے بارے میں بھی سوچا گیا، اب امریکہ کا دوست بن چکا ہے اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے!
ان حیرت انگیز سفارتی قلابازیوں کی وجہ تلاش کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ شام میں جہادیوں کے خلاف واحد سنجیدہ فوجی کاروائی بشارالاسد کی شامی فوج کے تعاون سے روسیوں نے کی ہے۔اور اسی طرح عراق میں داعش کے خلاف واحد سنجیدہ فوجی کاروائی (کْردوں کے علاوہ، جو صرف اپنے علاقوں میں ان کے خلاف لڑتے ہیں)نام نہاد عراقی فوج اور ان کے امریکی آقاؤں نے نہیں بلکہ ایرانی حمایت یافتہ شیعہ ملیشاؤں اور ایرانی فوج کے کچھ حصوں نے کی ہے۔
امریکہ کو عملی طور پر روس اور ایران کے اس مطالبے کو ماننا پڑا ہے کہ بشارالاسد کو کم از کم مستقبل قریب تک اقتدار میں رہنا چاہیے۔ لندن ریویو آف بْکس کی ایک رپورٹ میں ممتاز امریکی تفتیشی صحافی 'سیمور ہرش‘ نے کہا ہے کہ ''امریکی جوائنٹ ملٹری سٹاف نے جرمنی، روس اور اسرائیل کے ذریعے شامی فوج کو خفیہ معلومات فراہم کیں۔‘‘ یہ بات امریکی 'ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی‘ کے سابقہ ڈائریکٹر مائیکل فلن کے بیانات سے مطابقت رکھتی ہے جس نے اسی میگزین میں کہا تھا کہ اس کی ایجنسی نے 2012ء4 اور 2014ء4 کے دوران بہت سے پیغامات بھیجے تھے جس میں بشارالاسد کی حکومت کو گرانے کے تباہ کن اثرات کے بارے میں خبردار کیا گیا تھا۔اس کی ایجنسی نے بشار حکومت کو خفیہ معلومات دینا شروع کیں(ظاہری طور پر امریکی سیاست دانوں کی رضامندی کے بغیر) تاکہ ''مشترکہ دشمن‘‘ کے خلاف جنگ کو تقویت دی جاسکے۔
امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کو حالات سے مجبور ہو کر شام میں ''معتدل اسلامی اپوزیشن‘‘ کی بیہودہ خام خیالی کو ترک کرنا پڑ رہا ہے۔ جیسا کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ ''معتدل اپوزیشن‘‘ النصرہ فرنٹ، جسے امریکہ نے حمایت دی اور جو القاعدہ کی شامی برانچ ہے، جیسی شدت پسند جہادی تنظیموں پر مشتمل ہے۔ امریکی سامراج کا ایک دھڑا (سی آئی اے)اس پالیسی کو جاری رکھنا چاہتا ہے لیکن یہ امریکہ کی ایران اور روس کی طرف تازہ پالیسی سے متصادم ہے۔ اسی دوران روس جی بھر کر جہادی تنظیموں پر بمباری کررہا ہے اور واشنگٹن کے احتجاجوں پر ذرا بھی کان نہیں دھر رہا۔
سعودی عرب اور ترکی
واشنگٹن میں یہ چپقلش تذبذب اور پس و پیش کو جنم دے رہی ہے جو صدر اوباما کی شخصیت میں منعکس ہوتی ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ترکی کی جانب سے روسی طیارے کو مار گرانے کا کام اردگان کی ایک دانستہ اشتعال انگیزی تھی تاکہ امریکہ اور روس کے بیچ شگاف ڈالا جاسکے۔ جیسا کہ ہم نے پیش گوئی کی تھی، یہ چال مکمل طور پر ناکام ہوگئی۔
شیخ نمر النمر کی سزائے موت، ایک عدالتی قتل جو سعودی شاہی ٹولے کے حکم پر ہوا، بھی اسی طرح کی چال تھی۔ یہ ایک دانستہ اشتعال انگیزی تھی تاکہ سنیوں اور شیعوں کے درمیان ایک جنگ بھڑکائی جائے اور تہران سعودی عرب پر حملہ کردے جو بعد میں مدد کے لیے امریکہ کو آواز دے گا۔اس واضح عدالتی قتل کے فوری رد عمل میں تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ کیا گیا۔ سعودی عرب نے فوری طور پر ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے۔ یہ سب پہلے سے طے شدہ تھا۔ واقعات بیلے ڈانسر کی چالوں کی مانند آگے بڑھے۔ لیکن یہ موت کا رقص تھا۔ یہ مشکلات میں گھری ہوئی اور اکھاڑ پھینکے جانے کے خطرے سے دوچار حکومت کی ایک مایوس کن کوشش تھی۔سعودی غنڈوں نے یمن میں غلط اندازہ لگایا جہاں وہ ایک نا جیتی جا سکنے والی جنگ میں پھنس گئے ہیں۔ اب انہوں نے شیعوں کو مشتعل کیا ہے جو سعودی آبادی کا کم سے کم بیس فیصد ہیں اور سب سے غریب اور استحصال زدہ ہیں۔ ''آل سعود کی موت‘‘ کے نعروں کے ساتھ سعودی شہروں میں عوامی مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔سعودی حکمران ٹولے نے اپنی چادر سے بڑھ کر پاؤں پھیلائے اور اب اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
پناہ گزینوں کا بحران
اصلاح پسند نام نہاد مارکسی ہوبسبام نے ایک نظریہ پیش کیا، جسے کاؤتسکی نے اس سے بہتر انداز پیش کیا تھا، کہ عالمگیریت کے دور میں قومی سرحدیں بے معنی ہوجائیں گی اور جنگیں قصہ پارینہ بن جائیں گی۔ اس کے برعکس، اکیسویں صدی ناختم ہونے والی جنگوں، تشدد اور ہر طرح کے قومی تنازعوں سے بھری ہوئی ہے۔ مشرق وسطیٰ اس عمل کی صرف ایک مثال ہے۔
شام میں خونی انتشار ایک وسیع ہجرت کو جنم دے رہا ہے جو غالباً دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ سردی، تھکن اور بھوک کے مارے لاکھوں مہاجرین اپنے خالی ہاتھوں سے خاردار تاروں کی رکاوٹوں کا مقابلہ کر رہے ہیں جنہیں تہذیب یافتہ یورپ نے کھڑا کیا ہے۔ یورپی بورڑوازی کی منافقت کو ان کے مہاجرین کی طرف رویے سے زیادہ کوئی اور چیز واضح نہیں کر سکتی۔سالوں تک یورپ اور امریکہ کے عوام کو یہ جھوٹ باور کرایا گیا کہ تما م تر سامراجی جارحیت خالص 'انسانی جذبات‘ کے تحت کی جا رہی ہے۔ انہی ''جذبات‘‘ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد کے سب سے بڑے انسانی المیے کو جنم دیا ہے۔شام میں اپنے حصے کا گند کرنے کے بعد یورپ کی حکومتیں اب جنگ کے شکار لوگوں کے لیے دروازہ بند کرنے کے مؤثر طریقے ڈھونڈ رہی ہیں۔
بحر اوقیانوس کے دوسری طرف بھی حالات زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ سو سال پہلے امریکہ نے اپنے مجسمہ آزادی پر یہ الفاظ کندہ کیے تھے:
''اپنے تھکے ہوئے، درماندہ لوگوں کو
آزاد فضا میں سانس لینے کی خواہش رکھنے والوں کو
اپنے پرہجوم ساحل کے دھتکارے ہوئے لوگوں کو
مجھے دے دو
ان بے گھر، طوفان زدہ لوگوں کو
میرے پاس بھیجو
ان کے لیے میرے دروازے کھلے ہیں‘‘
کل کی یہ باتیں آج طنز لگتی ہیں۔ وہی امریکہ اب پہلے سے بھی زیادہ اونچی دیواریں کھڑی کر رہا ہے تاکہ غریب لوگوں کو 'ریو گراندے‘ دریا کے اس پار رکھا جاسکے۔ رپبلکن پارٹی کا اہم صدارتی امیدوار واضح طور پر امریکہ میں آنے کی خواہش رکھنے والے تمام مسلمانوں پر داخلے کی پابندی لگانے کی بات کرتا ہے۔یہ اکیسویں صدی کی سرمایہ داری کی حقیقی آواز ہے: کھلی رجعت، شاونزم، دیگر اقوام سے نفرت اور کھلی نسل پرستی کی آواز۔'بغیر سرحدوں کی دنیا‘ کے اصلاح پسند یوٹوپیا کے برعکس قومی سرحدوں کو ہرجگہ مضبوط کیا جا رہا ہے۔ نہ صرف یورپ کے گرد بارڈر کنٹرول متعارف کیا جارہا ہے بلکہ شینجن معاہدہ میں شامل ممالک کے درمیان بھی۔ شائستہ اور جمہوری سویڈن اب شائستہ اور جمہوری ڈنمارک سے آنے والے مسافروں کی تلاشی متعارف کرارہا ہے! متحدہ یورپ کا خواب چکنا چور ہوچکا ہے جو سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ہمیشہ سے ہی ناممکن تھا۔
یورپ بحران کی زد میں
یورپ پر افسردگی چھائی ہے۔ سال 2015ء4 اپنے آغاز اور اختتام میں پیرس میں دو خونخوار دہشت گرد حملوں سے داغدار تھا۔ میونخ اور برسلز کے لوگ دہشت گرد حملوں کے خوف کی وجہ سے نئے سال کو روایتی انداز میں نہیں منا سکے۔ پیرس میں آتش بازی کو معطل کیا گیا۔ ہر جگہ خوف اور غیر یقینی کیفیت ہے۔
تمام تر سنجیدہ معاشی ماہرین عالمی معیشت میں ایک نئے زوال کی توقع کر رہے ہیں جو طاقتور چینی معیشت میں سست رفتاری کی وجہ سے ایشیا سے شروع ہوسکتا ہے۔لیکن یہ یورپ سے بھی شروع ہوسکتاہے۔ یورپ کی معاشی ترقی کے سابق معاشی انجن جرمنی کی معیشت رک چکی ہے اور مشرق وسطیٰ اور دوسرے جنگ زدہ علاقوں سے ایک ملین سے زائد مہاجرین کی آمد سے یہ بحران میں جا چکی ہے۔
یورو اور شین جن معاہدے، جنہیں معاشی یکجہتی کی بنیاد بننا تھا، اپنے الٹ میں تبدیل ہوگئے ہیں۔جرمنی اور جنوبی یورپی ملکوں کے درمیان ایک بڑھتی ہوئی خلیج پیدا ہوگئی ہے جبکہ مہاجرین کے بحران نے جرمنی اور اس کے مشرقی ملکوں کے درمیان خلیج کو جنم دیا ہے۔یونان کی طویل اذیت جاری رہے گی کیونکہ کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ یورو سے یونان کا اخراج اب ہوا کہ اب ہوا۔۔۔اس سے یونانی عوام کی تکلیفوں میں مزید اضافہ ہوگا اور یہ عمل دوسرے ممالک کے یورو سے اخراج کو مزید تیز کرے گا۔برطانیہ ایک ریفرنڈم منعقد کر رہا ہے جو اس کے یورپی یونین سے اخراج پر منتج ہو سکتا ہے۔ فرانس اور دوسرے ممالک میں یورپی یونین مخالف جذبات شدت پکڑ رہے ہیں۔ نہ صرف یورو بلکہ خود یورپی یونین کا مستقبل خطرے میں ہے۔
سیاسی بھونچال
بورڑوازی کی قنوطیت بے وجہ نہیں ہے۔ لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ سرمایہ داری کا بحران ناگزیر طور پر اپنے متضاد کو جنم دیتا ہے؛ بغاوت کے ایک نئے جذبے کا جنم، صرف یہی انسانیت کو مستقبل کی نوید دیتا ہے۔آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر عوامی شعور جاگ رہا ہے۔ معاشی بحالی کی باتیں صرف ماہرینِ معیشت کی ذہنی اختراع ہیں لیکن انقلابی کیفیت کے ابھار کی پہلی علامات حقیقی اور واضح ہیں۔
یہ جدلیاتی مادیت کے بنیادی مفروضوں میں سے ایک ہے کہ انسانی شعور حالات کے پیچھے چلتا ہے۔ لیکن جلد یا بدیر یہ ایک دوسرے سے آ
ملتے ہیں۔ یہی انقلاب ہے اور جو کچھ ہم برطانیہ میں دیکھ رہے ہیں، یہ ایک سیاسی انقلاب کی شروعات ہے۔ راتوں رات سب کچھ بدل گیا ہے۔ یہ خود سماج میں ہونے والی گہری تبدیلی کی علامات ہیں۔ موجودہ حالات میں تیز اور اچانک تبدیلیاں مضمر ہیں۔
یہ سچ ہے کہ شعور بڑی حد تک ماضی کی یادوں سے تشکیل پاتا ہے۔ اصلاح پسندی کی پرانی غلط فہمیوں کو عوامی شعور سے ختم ہونے میں وقت لگے گا۔ لیکن واقعات کے طاقتور تھپیڑوں کے نتیجے میں شعور میں اچانک اور تیز تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ قابل رحم ہیں وہ لوگ جو ایک ایسے ماضی کے شعور پر تکیہ کرتے ہیں جو پہلے ہی ختم ہوچکا ہے۔ مارکسسٹوں کو زندہ عوامل اور مستقبل کے تناظر پر تکیہ کرنا ہوگا۔
بحران سے نکلنے کے لیے عوام ایک کے بعد دوسری پارٹی کو آزماتے ہیں۔ پرانے لیڈران اور پروگرامز کو پرکھا جاتا ہے اور مسترد کردیا جا تا ہے۔ جو بھی پارٹیاں منتخب ہوں جب وہ لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیں، اپنے انتخابی وعدوں سے غداری کریں، پھر وہ تیزی سے مسترد ہوتی ہیں۔ جن نظریات کو عمومی سمجھا جاتا تھا وہ قابل نفرت بن جاتے ہیں۔ مشہور لیڈر وں سے نفرت کی جانے لگتی ہے۔ تیز اور اچانک تبدیلیاں اب معمول بن چکی ہیں۔
سیاسی جغادریوں، امیروں، طاقتوروں اور مراعات یافتہ لوگوں کے خلاف ایک روزافزوں غم و غصہ ہے۔ حالات کے خلاف یہ رد عمل، جس میں ایک انقلابی تبدیلی کے بیج موجود ہیں، معیشت کی بحالی کی علامات ظاہر ہونے کے بعد بھی جاری رہ سکتے ہیں۔ لوگ اب سیاست دانوں کی باتوں اور وعدوں پر یقین نہیں رکھتے۔ سیاسی قیادت اور سیاسی پارٹیوں سے ایک عمومی بیزاری پائی جاتی ہے۔سماج میں معاشی بے چینی کا ایک گہرا اور عمومی احساس پایا جاتا ہے۔ لیکن ایک راستے کی کمی ہے جو اس بیزاری کو ایک منظم اظہار دے۔
فرانس جہاں سوشلسٹ پارٹی نے پچھلے الیکشن میں بڑی کامیابی حاصل کی تھی، اب وہاں فرانسو الاند 1958ء4 کے بعد سب سے غیر مقبول صد ر ہے۔ یونان میں ہم نے پاسوک کا انہدام اور سائریزا کا ابھار دیکھا۔ سپین میں پوڈیموس اچانک نمودار ہوئی اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ سپین کی پارلیمنٹ میں 66 نشستیں حاصل کیں اور واحد اپوزیشن پارٹی کی حیثیت اختیار کر لی۔ یہی عمل ہم نے آئرلینڈ میں حالیہ ریفرنڈم میں دیکھا۔ صدیوں تک آئرلینڈ یورپ میں سب سے زیادہ کیتھولک ملک تھا۔ کچھ عرصہ پہلے تک زندگی کے ہر شعبے پر چرچ کا تسلط تھا۔ ہم جنس شادی پر ریفرنڈم کے نتائج، جس میں 62فیصد نے ہاں کا ووٹ دیا، رومن کیتھولک چرچ پر ایک کاری ضرب تھی۔ یہ چرچ کی سیاست اور لوگوں کی زندگی میں مداخلت کے خلاف ایک وسیع احتجاج تھا۔ یہ آئرش سماج میں ایک بنیادی تبدیلی کا اظہار تھا۔
برطانیہ میں تمام تر مشکلات کے باوجود جیرمی کوربن لیبر پارٹی کا الیکشن جیت گیا۔ یہ ایک سیاسی زلزلہ تھا جس نے راتوں رات برطانیہ کی صورتحال کو تبدیل کردیا۔ اس تبدیلی کا اظہار پہلے سکاٹ لینڈ میں ہوا جہاں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بغاوت سکوٹش نیشنل پارٹی (ایس این پی ) کے ابھار کی صورت میں ظاہر ہوئی، یہ دائیں جانب نہیں بلکہ بائیں جانب جھکاؤ کی علامت تھی۔ یہ قوم پرستی کا اظہار نہیں تھا بلکہ ویسٹ منسٹر میں حکمرانی کرنے والے فرسودہ اور خستہ حال ٹولے کے خلاف نفرت کا اظہار تھا۔ اپنی قیادت کی بزدلانہ طبقاتی مصالحت کی پالیسیوں کی وجہ سے لیبر پارٹی کو اسی ٹولے کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
دائیں بازو کی قیادت میں لیبر پارٹی دہائیوں تک موجودہ نظام کا ایک ستون تھی۔ حکمران طبقہ ایک سخت لڑائی کے بغیر اسے ترک نہیں کرے
گا۔سرمایہ دارانہ نظام کے دفاع کی پہلی صف خود پارلیمانی لیبر پارٹی (لیبر پارٹی کی اشرافیہ) ہے۔ اس کشمکش میں پارلیمانی لیبر پارٹی کی بلیرائیٹ اکثریت بینکرز اور سرمایہ داروں کی براہ راست اور دانستہ دم چھلہ ہے۔ جیرمی کوربن سے جان چھڑانے کی ان کی تمام تر متعصبانہ کوششوں کے پیچھے یہی راز ہے۔لیبر پارٹی میں ایک تقسیم ہونے والی ہے جس سے برطانیہ میں ایک نئی صورت حال جنم لے گی۔ یہ سب سماج میں موجود گہری بے چینی کا اظہار ہے جو ایک سیاسی اظہار کی راہ دیکھ رہی ہے۔ پورے یورپ میں ایک خوف چھایا ہوا ہے کہ کٹوتیوں کی پالیسیاں ''عارضی ایڈجسٹمنٹ‘‘ نہیں بلکہ معیارزندگی پر مسلسل حملے ہیں۔ یونان، پرتگال اور آئرلینڈ جیسے ممالک میں ان پالیسیوں کے نتیجے میں اجرتوں اور پنشن میں وسیع کٹوتیاں ہوئی ہیں جبکہ خسارے کا مسئلہ بھی حل نہیں ہوا۔ یعنی عوام کی تمام تر اذیتیں اور بربادی رائیگاں چلی گئی۔ ہر جگہ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہورہے ہیں۔
یہ عمل صرف یورپ تک محدود نہیں ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات ایک دلچسپ صورت حال کی غمازی کرتے ہیں۔ امریکی سیاست کی متذبذب اور غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے نتائج کی ٹھوس پیش گوئی فی الوقت ناممکن ہے۔ میڈیا کی زیادہ تر توجہ ڈونلڈ ٹرمپ پر ہے۔ اس بات کی توقع نہیں ہے کہ امریکی حکمران طبقہ اپنے معاملات کو ایک جاہل مسخرے کے ہاتھوں میں دے گا۔ لیکن ماضی قریب میں انہوں نے کم از کم دو مرتبہ ایسا کیا ہے۔ حکمران طبقے کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو ہیلری کلنٹن یقینی طور پر 'محفوظ جوا‘ ہے۔ لیکن کلنٹن یا ٹرمپ سے زیادہ اہم برنی سینڈرز کی وسیع حمایت ہے جو واضح طور پر سوشلزم کی بات کرتا ہے۔ برنی سینڈرز کا ڈیموکریٹس کے صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آنا سماج میں گہری بے چینی اور اضطراب کی علامت ہے۔ اس کے ارب پتیوں کے خلاف حملوں اور ''سیاسی انقلاب‘‘ کی باتیں لاکھوں لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں اور لوگ ہزاروں کی تعداد میں اس کے جلسوں میں شرکت کرتے ہیں۔
''سوشلزم‘‘ کا لفظ اب مین سٹریم میڈیا میں کثرت سے استعمال ہونے لگاہے۔ 2011ء4 میں ایک رائے شماری کے مطابق امریکہ میں 18 سے 29 سال کے 49 فیصد لوگ سوشلزم کے بارے میں مثبت رائے رکھتے تھے جبکہ اس کے مقابلے میں 47 فیصد لوگ سرمایہ داری کے حق میں تھے۔ ایک زیادہ حالیہ رائے شماری، جون 2014ء4 ، کے مطابق 47 فیصد امریکی سوشلزم کو ووٹ دینے کے حق میں ہیں جن میں سے 69 فیصد کی عمریں تیس سال سے کم تھیں۔لوگوں کی بڑی تعداد، جن میں زیادہ تر نوجوان تھے، برنی سینڈرز کے پیغام کو سننا چاہتے تھے۔ یہ سچ ہے کہ اس کی باتیں حقیقی سوشلزم سے زیادہ سکینڈنیوین سوشل ڈیموکریسی سے مماثلت رکھتی ہیں۔ اس کے باوجود یہ ایک اہم نشانی ہے کہ امریکہ تبدیل ہورہا ہے۔
روس کے حالات نے باقی یورپ کے ساتھ اختلافات کو واضح کیا ہے۔ظاہری طور پر یہ بات عجیب لگتی ہے کہ پیوٹن یوکرائن اور شام کے بحران کے نتیجے میں طاقتور ہوا ہے۔ مغرب کی اسے تنہا کرنے کی تمام کوششیں بری طرح ناکام ہوئی ہیں۔ شام میں اب وہی سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ حتیٰ کہ اگر امریکہ کریمیا اور یوکرائن کے معاملے پر روس پر پابندیاں جاری رکھنے پر اصرار کرتا ہے تو ہم اعتماد سے یہ پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ اس کے یورپی اتحادی خاموشی سے اپنی پابندیاں ہٹا لیں گے۔ بحران زدہ یورپی معیشت کو روسی منڈی اور گیس کی اسی طرح ضرورت ہے جیسے یورپی بورڑوازی کوشام میں اپنا گند صاف کرنے اور مہاجرین کے نہ ختم ہونے والے بہاؤ کو روکنے کے لیے روس کی
ضرورت ہے۔
لیکن اگر ہم حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو یہ واضح ہوگا کہ روس اتنا مستحکم بھی نہیں ہے جتنا یہ دکھتا ہے۔ روسی معیشت گرتی ہوئی تیل کی قیمتوں اور مغربی معاشی پابندیوں کی وجہ سے مسلسل گر رہی ہے۔ حقیقی اجرتیں گر رہی ہیں۔ مڈل کلاس اب لندن اور پیرس میں مزید خوشگوار چھٹیاں نہیں منا سکتی۔ وہ شکایت کرتے ہیں لیکن کرتے کچھ نہیں۔ روسی مزدور یوکرائن کے معاملے میں سرکاری پروپیگنڈے کے زیر اثر تھے۔ وہ یوکرائنی فاشسٹوں اور انتہا پسند قوم پرستوں کی سرگرمیوں سے متنفر تھے اور پیوٹن ان کی مشرقی یوکرائن میں اپنے بھائیوں اور بہنوں سے فطری ہمدردی کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں کامیاب ہوا۔
پیوٹن ایک خاص وقت تک طاقت پر اپنی گرفت قائم رکھنے میں کامیاب ہوجائے گا لیکن ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور بالآخر تاریخ کو اپنا حساب لینا ہوتا ہے۔ معاشی بحران سے محنت کشوں، بالخصوص پیٹرزبرگ اور ماسکو کے باہر کے معیاری زندگی میں گراوٹ آئی ہے۔ عوام صابر ہیں لیکن ان کے صبر کی ایک حد ہوتی ہے۔ اس چیز کا ثبوت ہمیں 2015ء4 کے آخر میں نظر آیا جب طویل فاصلے کے ٹرک ڈرائیوروں نے ہڑتال کی۔ ایک چھوٹی سی نشانی لیکن جو اس چیز کی علامت ہے کہ جلد یا بدیر روسی محنت کش اپنے اضطراب کا اظہار بڑے مظاہروں میں کریں گے۔
مایوس کن مستقبل
بنیادی طور پر یہ تمام مظاہر اس بات کے عکاس ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی حدود کو پہنچ چکا ہے۔ عالمگیریت اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرکے اپنے الٹ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ معاشی نمو کے ایک طاقتور عامل سے اب یہ پورے غیر مستحکم معاشی نظام کو منہدم کرنے والی چیز میں تبدیل ہوگئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نام نہاد معاشی بحالی، جو قطعاً بحالی نہیں ہے، اتنی کمزور اور لاغر ہے کہ کوئی بھی حادثہ، چاہے معاشی ہو، سیاسی یا عسکری، اس تمام بحالی کے عمل کو پچھاڑ دے گا۔
رکتی ہوئی چینی معیشت پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے۔ چین، برازیل جیسے ملکوں سے اجناس کی بڑی مقدار درآمد کر رہا تھا۔ اب برازیلی معیشت 4.5 فیصد کے حساب سے سکڑ رہی ہے۔ بی ا?ر ا?ئی سی ایس کے دوسرے ممالک کا بھی یہی حال ہے۔ سرمائے کے ترجمانوں کی مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں بہت ہی مایوس کن ہیں۔ وال سٹریٹ جرنل نے ایڈم پارکرکو نقل کیا ہے؛ '' ہم سمجھتے ہیں کہ ایک کم آمدنی والا ہیجان خیز سال ہمارے سامنے ہے اور ہمیں شک ہے کہ دوسرے بھی یہی سوچ رہے ہوں گے۔‘‘ہونڈائی موٹرز کے ایگزیکٹو نے کہا ہے کہ اس سال کا تناظر تاریک ہے۔ گروپ چیئر مین چنگ منگ کو نے بیرون ملک آٹو میکرز کے سربراہان کو بتایا کہ 2015ء4 میں نمو کو کمزور عالمی معیشت، دنیا کی دوسری سب سے بڑی آٹو مارکیٹ یعنی چین میں معاشی سست روی اور ابھرتی ہوئی منڈیوں میں طلب کی گراوٹ نے روکے رکھا۔ اس نے کہا، ''اہم معاشی اعشاریوں کی روشنی میں اگلا سال آٹو مارکیٹ کے لیے زیادہ روشن نہیں ہے۔‘‘ اسی طرح کی اور بہت سی مثالیں ہیں۔گڈوئن راکمین نے انتہائی مایوس کن منظر کشی کی ہے؛''عالمی بحران نے عالمی سیاسی نظام کو اس مریض کی طرح بنا دیا ہے جو ابھی تک ایک شدید بیماری سے صحت یاب ہونے کی کوشش کر رہا ہو جس کا آغاز 2008ء4 کے مالی بحران سے ہوا تھا۔ اگر مزید بھونچال نہ آئے تو بحالی بتدریج آگے بڑھے گی اور بد ترین سیاسی علامات غائب ہوجائیں گی۔ مریض کی حالت ابھی غیر مستحکم ہے۔ ایک اور شدید جھٹکا، جیسے کوئی بڑی دہشت گرد کاروائی یا ایک معاشی زوال شدید مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔‘‘یہ سرمائے کے پالیسی سازوں کی حقیقی آواز ہے۔ وہ مستقبل کے بارے میں خوفزدہ ہیں اور اپنے طبقاتی تناظر کے حوالے سے وہ غلط نہیں ہیں۔ 2016ء4 میں مزید انتشار، معاشی بحران، معیار زندگی پر حملے، مزید نابرابری، ناانصافی اور مزید خونریزی اور بربادی ہوگی۔نیا سال پرانے کا چربہ ہوگا لیکن اس کی شدت کہیں زیادہ ہوگی۔ مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ایشیا میں جنگیں انسانی بربادی کرتی رہیں گی جو پھر یورپ کی طرف جائے گی جہاں ان کے سامنے خاردار تاریں اور غیر انسانی سلوک منتظر ہو گا۔دہشت گردی جو پوری دنیا میں ایک بے قابو وبا کی طرح پھیل رہی ہے، بذات خود اکیسویں صدی میں سرمایہ داری کی بیماری کی غمازی کرتی ہے۔ دہشت گردی کی مزید کاروائیاں ناگزیر ہیں۔ دہشت گردوں کو پولیس کے ذریعے نہیں روکا جاسکتا۔ دنیا میں اتنے پولیس والے نہیں جتنے معصوم لوگوں کا خون بہانے کو تیار شدت پسند ہیں۔جب لینن نے یہ لکھا تھا کہ سرمایہ داری نہ ختم ہونے والی وحشت ہے تو وہ صحیح کہتا تھا۔ اس وحشت کے بارے میں شکایت کرنا ایسا ہی جیسے بچہ جننے کی تکلیف کے بارے میں شکایت کی جائے۔مارکسسٹوں کا کام سرمایہ دارانہ زوال پذیری کے ناگزیر نتائج کے بارے میں ماتم کرنا نہیں ہے۔ یہ کام ہم مبلغوں اور امن پسندوں کے لیے چھوڑتے ہیں۔ہمارا فریضہ انتھک محنت سے محنت کشوں اور نوجوانوں کو اس وحشت اور ذلت کی وجوہات سمجھانا ہے اور یہ واضح کرنا ہے کہ کس طرح مسئلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاسکتا ہے۔ یہ سماج کی بنیادی تبدیلی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ دیوہیکل مسائل کے حل کے لئے دیوہیکل اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ صرف سوشلزم کے ذریعے ہی انسانیت کے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ آج یہی وہ واحد مقصد ہے جس کے لیے لڑاجاسکتا ہیایلن ووڈز، ترجمہ: حسن جان

ہفتہ، 20 فروری، 2016

فلسفہِ پراسراریت



تحریر : ارشد نذیر
بیسویں صدی میں سائنس کے میدان کا چمکتا ہوا ستارہ آئن سٹائن جس نے فوٹو الیکٹرانک ایفیکٹ کا قانون، الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ میں کلاسیکل مکینکس
 کی نیوٹن کے بنیادی قوانین سے عدم مطابقت ، مخصوص نظریہِ اضافیت، ذرات کی وضاحت کا نظریہ اورمالیکیولز کی حرکت اور روشنی کا نظریہ فوٹان جیسے نظریات کے علاوہ دیگر کئی ایک اور نظریات پیش کرکے کوانٹم فزکس اور سٹیٹسٹیکل مکینکس جیسے فزکس کے شعبہ میں نہ صرف بے پناہ وسعت پیدا کی بلکہ تمام تر سائنسی فکر میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ تاہم اس عظیم سائنسدان کو بادمِ شہرت پر اسکا عمومی نظریہِ اضافیت لے کر گیا ۔ 1917 ء میں اُس نے اپنے اس نظرئیے کا اطلاق بڑے پیمانے پر کر تے ہوئے اسے پوری کائنات پر پھیلا دیا۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ امیجز میں سوچنے والے اس ذہن نے پوری کائنات کو دیکھا تو ایک عام انسان کی آنکھ ہی سے تھا اور یقیناًپوری کائنات کا تصوراتی تصویری عکس اُس کی آنکھ کے ریٹینا پر بھی ایک عام آدمی کے پردہِ چشم پر اُلٹا ابھرنے والے عکس ہی کی طرح کا تھالیکن اُس کے ذہن نے اس امیج کو سیدھا کرنے میں جو پراسس کیا وہ نہ صرف سائنسی تھا بلکہ وہ بیک وقت فلسفیانہ ، شاعرانہ اور موسیقارانہ بھی تھا۔ کائنات کی وسعت کو اُس نے جس طرح سمیٹ کر اپنے ذہن پر مرتسم کیا اور پھر ریاضیاتی عمل سے اسے دیگر قارئین کے لئے قابلِ فہم بنا دیاوہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔اس کے تمام نظرئیے ماسوائے عمومی نظریہ اضافیت کے درست ثابت ہو چکی ہیں۔ اب تک کششِ ثقل سے متعلق اس نظریے کا ثابت ہونا باقی تھا۔حال ہی میں یہ نظریہ بھی درست ثابت ہو گیا ہے ۔ اُس کے اس نظرئیے کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ کائنات میں خلائی وقت کی تنی ہوئی چادر پرتوانائی کی بہت شدید اور طاقتور ترین سرگرمی ہونے کی وجہ سے لہریں یا سلوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔آئن سٹائن نے ریاضیاتی عمل سے یہ واضح کیا کہ جب بہت بڑے حجم کی اجسام جیسا کہ نیوٹران سٹارز یا بلیک ہولزجو ایک دوسرے کے مدار میں گھومتے ہیں ، تو خلائی وقت میں سلوٹیں پیدا ہوتی ہیں کہ ان سلوٹوں سے لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ یہی لہریں کائنات میں روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔ ان لہروں میں اس بڑے پیمانے پر ہونے والے تصادم کی معلومات بھی ہوتی ہیں اور کششِ ثقل کے حوالے سے ا شارے بھی پائے جاتے ہیں۔ آئن سٹائن کے اس ریاضیاتی ماڈل کے حوالے سے زمان و مکان ایک ہو کر رہ جاتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے میں چادر کے دھاگوں کی طرح بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ چادر کے افقی دھاگے مکان تصور کئے جاسکتے ہیں اور ان کے عمودی دھاگوں کو زمانہ خیال کیا جاسکتا۔اگر کوئی جسم روشنی کی رفتار سے سفر کرنا شروع کر دے تو جسم کی تین ڈائمنشنزاور وقت کی چوتھی ڈائمینشن ایک دوسرے میں ضم ہو جاتی ہیں اور زمان و مکان ایک ہو کر رہ جاتے ہیں۔جب سپر نووا، بلیک ہولز یانیوٹران سٹارز یا وائٹ ڈوارف سٹارز وغیرہ جیسے اجسام ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں تو خارج ہونے والی لہروں کی وجہ سے کائنات کی پیدائش ہوتی ہے۔
کششِ ثقل کی ان لہروں کاLaser Interferometers Gravitational-wave Observatory (LIGO)
کے آلے کی مدد سے لگایا گیا ہے۔ اس آبزرویٹری میں جو لہریں پیدا ہوئی ہیں یہ اُسی قسم کی ہیں جو ڈرائنگ میں بیان کی گئی ہیں۔
اس طرح سائنس جو ایک مقام پر آکر رکی ہوئی تھی، اُس کے لئے سوچوں کے نئے دریچے وا ہوئے ہیں۔ روایتی سائنسی نظریات میں تبدیلی بھی آئے گی۔ کائنات ، ہمارے نظامِ شمسی ، ہماری زمین کی تخلیق وغیرہ سے متعلق سوچ کو بھی نئے زاویے ملیں گے۔ سائنس زندگی کے جوہر پر نئے انداز سے سوچے گی۔علمِ فلسفہ بھی عرصہ دراز سے ایک مقام پر آکر رک سا گیا ہے او ر اس میں آج تک کوئی بریک تھرو نہیں ہو پا رہا تھا۔ علمِ فلکیات کے ماہرین جو آج تک کائنات کے مطالعہ کے لئے الیکٹرومیگنیٹک سپیکٹرم جیسا کہ ویزیبل لائٹ ، ایکس ریز اور انفراریڈز ہیں کا استعمال کرتے رہے ہیں لیکن وہ اجسام جن پر الیکٹرومیگنیٹک وِیوز اثر نہیں کرتی تھیں، وہ نظر سے اوجھل ہی رہ جاتے تھے۔ لیکن اب کششِ ثقل کی لہروں کو کس طرح سے دریافت کیا جا سکتا ہے ۔ اسطرح کششِ ثقل کی یہ لہریں کائناتی مظاہرِ فطرت کو دیکھنے کے بالکل نئے زوئیے فراہم کرتی ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس سے علمِ فلکیات میں ایک انقلاب برپا ہو گیاہے۔اگرچہ اس عظیم سائنسدان کے پیش کردہ ٹائم سپیس کی اس چادر پر ابھرنے والے ماضی کے واقعات میں بھی جھانکنا ممکن ہو سکے گا اور مستقبل پر بھی نظر دوڑائی جا سکے گی لیکن ہماری زمین کے ٹھنڈے ہونے اور اس پر زندگی کی ابتداء اور ارتقاء کا جو معاملہ ہے شاید سائن سٹائن کا یہ نظریہ اس میں کوئی زیادہ انقلابی جست نہ لگا سکے کیونکہ اب تک گیسزپر مشتمل سیاروں اور ستاروں کی ماہیت کا جو مطالعہ سامنے آیا ہے اُس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری زمین کا زندگی اور پھر انسانی زندگی کے لئے موزوں درجہِ حرارت تک پہنچنے کا یہ سفر ارتقائی تھا۔ اس ارتقائی سفر میں خود انسانی زندگی بھی لازماً بہت سے ارتقائی مراحل سے گزری ہو گی۔ تاہم زمین کے اس ارتقائی سفر، اس پر رونما ہونے والے واقعات سے اس کی تخلیق کے بارے میں کافی حد تک قابلِ یقین علم تک رسائی کے دروازے کھل جائیں گے۔ اس کے بارے میں بہت سی اساطیری ، دیومالائی اور مذہبی کہانیوں کو ضرب لگے گی۔

بدھ، 10 فروری، 2016

اجتماعی شعور اور ترقی

اجتماعی شعور اور ترقی 
تحریر۔ارشد نذیر
کیا ہمارا اجتماعی شعور ترقی یافتہ سماجوں یا قوموں کے اجتماعی شعور سے پیچھے ہے؟ یہ قضیہ اپنی بُنت میں تقابلی ہونے کے ساتھ ساتھ’’ اجتماعی شعور ‘‘او ر ’’ترقی‘‘ جیسی اصطلاحات کی تفہیم کا متقاضی بھی ہے ۔ بحث کوپھیلانے سے قبل یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ یہاں ہمارا مطمحِ نظر دورِ جدید ہی کے سماج پر اپنی توجہ مرکوز رکھنا ہے نہ کہ اسکی ترقی و ارتقاء پر بات کرنا ہے۔ اس لئے دورِ جدید ہی کے سماج کے اجتماعی شعور اور اسکی ترقی کے عمل کو سمجھنے کی کوشش کر تے ہیں۔اجتماعی شعور کسی قوم کے افراد اور گروہوں کی بلاتفریق صنف ، رنگ و نسل، مذہب اور زبان سماج میں اکٹھے رہنے اور آگے بڑھنے کی خواہش ہوتی ہے ۔ جب افراد کا ایک گروہ زندگی گزارنے کے کچھ قواعد پر باہم اتفاق کر لے اور انہی مشترک اقدار کی بنا پر اکٹھے رہنا شروع کر دے تواُن کی ان مشترکہ اقدار کو ان کا اجتماعی شعور کہا جائے گا۔ یہ سماج اور اس کے افراد کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے ۔اسی غیر تحریری معاہدے کے تحت سماج کے لئے لازمی ہوتا ہے کہ وہ اپنے افراد کی انفرادی صلاحیتوں کی بھرپور نشوونما کرنے کرے ، ان صلاحیتوں کی بڑھوتری کے لئے ذرائع اور نئے امکانات پیدا کرے ، انہیں وسعت دے ، جواباً افراد بھی سماج کے اس پیدا کردہ اور فراہم کردہ ماحول کی بقاء اور دوام کی نہ صرف خواہش رکھیں بلکہ اسے برقرار رکھنے کے عمل میں دل و جان سے اس میں شریک ہو جائیں ، تو کہا جاتا ہے کہ سماج عمومی ترقی کی راہ پر گامزان ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ اجتماعی شعور افراد اور سماج کے درمیان دو طرفہ خیر سگالی کے جذبات پر مبنی ہوتا ہے۔ دونوں میں سے کسی بھی ایک کی سوچ اگر دوسرے کے متضاد اور مخالف ہو جائے تو سماج کی ترقی و ارتقا ء میں رکاوٹ پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ لفظ ’’ترقی‘‘ مطلق جوہر نہیں ہے بلکہ یہ خود بھی ایک متحرک صفاتی فعل ہے جوساکن ہونے کا تخالف ہے۔ لہٰذا افراد اور سماج کے درمیان قائم یہ سماجی تعلق یا تفاعل بھی ہر وقت حرکی جوہر سے متصف رہتا ہے ۔سماج کی ترقی کی رفتار تیز یا سست بھی ہو سکتی ہے اورزوال پذیری کاشکار بھی ہو سکتی ہے ۔ کسی سماج کے افراد کی جتنی زیادہ تعداد ترقی کی سمت اور رفتار کے بارے میں شعوری آگاہی رکھے گی، اتنا ہی سماج میں ترقی یافتہ ہونے کے امکانات روشن ہونگے۔ پس سماج اور افراد کے درمیان قائم اس تفاعل کی ہم آہنگی اور مضبوطی کی خواہش ہی اُس کا اجتماعی شعور ہوتی ہے۔ دونوں کے درمیان مضبوط تفاعل اجتماعی شعور کی بلندی کا سبب بنتا ہے۔سماج کی اجتماعی نفسیات یا شعور جس کی بنیاد پر وہ آگے بڑھتا ہے اور ترقی کرتا ہے ، کو سمجھنے کے کچھ طریقے ہوتے ہیں۔ ترقی کے اس عمل کو سمجھنے کا ایک طریقہ تو تقابلی جائزے کا ہو سکتاہے اور اس تقابل کے مندرجہ ذیل طریقے ہو سکتے ہیں:۔
۔۱کسی سماج کااُس کے اپنے ماضی سے تقابل
۔۲دوسری قوموں یا سماج سے تقابل
۔۳بیک وقت دونوں طرز کا تقابل
تقابل کی پہلی صورت سے تو قوم اور سماج کے زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کی اجتماعی نفسیات کا پتہ چلتاہے۔ اس کا اندازہ اُس کے فرد اور فطرت کے درمیان قائم کردہ تعلق سے لگایا جا سکتا ہے ۔ فطرت اور اس کے وسائل، ان وسائل کا افراد اور سماج کے ساتھ ربط و تعلق اور اس ربط و تعلق کے درمیان کفایت شعاری، بہتری اور انسانی وسائل کی صلاحیتوں کو ترقی دینے کی خواہش ، یہ سب ایسے عوامل ہیں جو انسان کی فطرت اور قدرتی ماحول کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے ، ان میں تنوع اور جدت لانے کا اظہار ہوتے ہیں۔جب یہ خواہش اجتماعیت میں اپنا اظہار کرنا شروع کر دے ، تو کہا جاتا ہے کہ یہ بحیثیتِ کل سماج کی اجتماعی نفسیات ہے۔یہ جاننے کے لئے کہ کسی سماج کے اجتماعی شعور میں کس طرح اور کس حد تک زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کی خواہش موجود ہے ، سماج کے افراد کی اوسط کے انہی اوصاف کا جائزہ لیا جاتا ہے۔اُس سماج کے آرٹ، موسیقی، شاعری، رقص، ادب ، فلسفہ، نظامِ تعلیم ، سائنس اور ٹیکنالوجی وغیر ہ ایسے علوم و فنون ہیں جو اُن کے اجتماعی شعور اور نفسیات کے عکاس ہوتے ہیں۔ان کے ادب ، آرٹ ، موسیقی، شاعری، فلسفہ، رقص، سائنس و ٹیکنالوجی وغیرہ کے ماضی اور حال کا جائزہ اجتماعی شعور اور اجتماعی نفسیات جیسے گہرے سوال کی کئی گرہیں کھول دیتا ہے ۔ ماضی اور حال کے انسان میں تبدیلی کے اس سفر کے دوران اگر ان فنون سے رغبت بڑھ رہی ہے، ان میں تنوع اور جدت پیدا ہو رہی ہے ، تو کہا جا سکتا ہے کہ قوم یا سماج ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔سماجی ترقی کی ان منزلوں کو عبور کرنے کے لئے سیاسی اور سماجی ادارے قائم کرتا ہے ۔ ان اداروں کا بنیادی فلسفہ اور نظریہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے افراد کو زیادہ سے زیادہ فکری بالیدگی، آزادی اور امن کی فضا فراہم کریں تاکہ وہ قدرتی وسائل اور انسانی وسائل کے درمیان ایک بامعنی اور مثبت سمت کا تفاعل قائم کر سکیں۔ یہ انتہائی پیچیدہ سماجی عمل ہوتا ہے ۔ یہ عمل سادہ طریقے سے آگے نہیں بڑھتا کیونکہ یہ منظم ادارے اپنے وجود کی بقاء کے لئے معاشی اور مالی وسائل کے محتاج ہوتے ہیں۔ سماج ہی انہیں یہ وسائل فراہم کرتا ہے ۔ان اداروں کو چلانے والے افراد میں کچھ عرصے کے بعد ڈکٹیٹرشپ جنم لینا شروع ہو جاتی ہے۔ پھر یہ ادارے اپنے قیام کے بنیادی مقصد اور فلسفے کو بھول جاتے ہیں ۔ ان کا مقصد مسلط ہونے والے افراد اور ان اداروں سے بلواسطہ طور پر مستفید ہونے والوں کے درمیان ایک منحوس اور استحصالی ربط و تعلق قائم کرنا رہ جاتا ہے۔اداروں کے یہ افراد اور بلواسطہ طور پر مستفید ہونے والے دیگر افراد ان اداروں کے قائم کے بنیادی فلسفے کو اپنے ذاتی مفادات کی بھنٹ چڑھانا شروع کر دیتے ہیں ۔یہاں سے فرد اور ادارے کے درمیان کشمکش جنم لینے لگتی ہے۔ یہ کشمکش اس بات کی متقاضی ہوتی ہے کہ اداروں کو ازسرِ نو اور جدید تقاضوں کے ساتھ دوبارہ تعمیر کیا جائے ۔ اس کے ڈھانچے کو بدل دیا جائے لیکن اس سے مستفید ہونے والے استحصالی طفیلئے اس تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی خواہش دھیمی بھی ہوسکتی ہے اور شدید بھی۔ یا یہ خواہش بالکل مفقود بھی ہو سکتی ہے۔یہی خواہش سماجی تحریک و حرکت کا سبب ہوتی ہے۔سماج کی متحرک پرت جو کہ اس کے محنت کش ہوتے ہیں ہی اس تبدیلی کے ہراول دستے کا کام کرتے ہیں۔ لیکن سماجی و سیاسی دانشور ، شاعر، ادیب ، فلسفی ، موسیقی کار ، دستکار اور دیگر فنون کے ماہرین اس خواہش کی سمت متعین کرنے میں اور سماجی میں اس حالت کو بدل دینے اور ایک جست لینے کے منظم انقلابی اقدام کا سبب بنتے ہیں۔ بصورت دیگر وہ سماج اسی کشمکش کا شکار ہو کر زوال پذیری کی طرف لڑھکنا، سرکنا یا پھر پھلسنا شروع کر دیتا ہے ۔ سادہ الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ سماج کے اپنے قائم کردہ سیاسی اور سماجی ادارے ہی فرد اور سماج کے درمیان ربط و تعلق کو سمجھنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔اگر سماج کے افراد میں ان سماجی اداروں میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ جدت اور تنوع بھی شامل ہو جائے، تو کہا جاسکتا ہے وہ تبدیلی کے عبوری دور سے گزر رہا ہے۔ تبدیلی کے اس عبوری دور میں افراد پر یاسیت اور بے بسی کے دور بھی آتے ہیں۔ یہ دور طویل بھی ہوتے ہیں۔ ایسے ادوار میں معاشی حملے تیز تر اور شدید تر ہو جاتے ہیں۔ ان کا ردِعمل بھی شدید ہی ہوتا ہے ۔ اس کیفیت کا سماج کے اپنے تاریخی سفر اورارتقا ء میں بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے اور دیگر سماجوں کے ساتھ تقابل میں بھی۔سماج کے اجتماعی شعور اور اس کی ترقی کی خواہش کو سمجھنے کا دوسرا طریقہ دوسری قوموں اور سماجوں کے ساتھ تقابل کا ہوتا ہے۔ایسی صورت میں دونوں سماجوں کے افراد کے قدرتی وسائل اور انسانی وسائل کے بہترین استعمال ، اس کے لئے فراہم کردہ ماحول اور اس میں ترقی و توسیع وغیرہ کا جائزہ لیا جاسکتا ہے ۔دونوں صورتوں کا بیک وقت جائزہ سائنس ، ٹیکنالوجی اور انفامیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کی صورت میں بھی لیا جاسکتا ہے اور ان کی ثقافت اور شعور و آگاہی کی صورت میں بھی ۔ سائنسی ترقی نے دنیا کو ایک گلوبل ویلج بنا دیا ہے ۔ آج کوئی بھی سماج اپنے ہمسائیوں اور دیگر ممالک سے الگ تھلگ رہ کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ کوئی سماج تن تنہا ترقی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اُسے دیگر سماجوں سے تعلق اور واسطہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے سماجی ، سیاسی ، لسانی، مذہبی اوراخلاقی مسائل کے حل کرنے کے طریقوں کو بھی سمجھنا ہوتا ہے۔ترقی کے اس عمل میں سارے سماج ایک ہی معیار پر نہیں ہیں۔ پسماندہ ، ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک ہمارے سامنے ہیں۔ سرمایہ داری نظام جس میں آزاد منڈی کی بات کی جاتی ہے نے سرمایہ کار اور ترقی یافتہ ریاستوں کے درمیان تضادات کو بھی گہرا کر دیا ہے ۔ سرمایہ دار کا ترقی یافتہ سماجوں کے ساتھ بھی تضاد ہے ۔ وہ ان ترقی یافتہ سماجوں کے سائنسی اور تکنیکی علوم سے استفاد ہ تو کرنا چاہتا ہے لیکن وہ ان ترقی یافتہ ممالک کے ریاستی اداروں کو اپنی راہ کی رکاوٹ خیال کرتا ہے۔ وہ اپنے اوپر ان اداروں کے نظم و ضبط کی پابندیوں کو قطقاً برداشت نہیں کرتا۔دوسری طرف وہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے قدرتی وسائل کو اپنے منافع کی ہوس کے تابع رکھ کر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ سرمایہ دار کا ترقی یافتہ سماج کے اداروں کے ساتھ یہ تضادہے کہ وہ ان کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرکےسامراجی عزائم کی وسعت اور پھیلاؤ چاہتا ہے اور یہ تمام کچھ وہ بلاتفریق سماج اور جغرافیہ تمام انسانیت کو غربت ، بے روزگاری ، محتاجی، بیماری ، بیروزگاری اور دہشت گردی کی طرف دھکیل کرکرنا چاہتا ہے۔ وہ تمام حدود کو توڑ کر اپنے منافعوں کی ہوس کی تکمیل چاہتا ہے۔دوسری طرف سرمایہ دار پسماندہ اور ترقی پذیر سماجوں کے انسانی وسائل اور قدرتی وسائل کو لوٹنا چاہتا ہے۔ اس کی یہ ہوس بین الاقوامی ریاستی اداروں کے آپسی تضادات کو بڑھاوا دے رہی ہے اور سرمایہ دار اور ترقی یافتہ ریاستوں کے باہم بھی یہ تضاد روز بروز پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال پراکسی وارز کو بھی جنم دی رہی ہے اور ریاستوں کے روایتی وجود پر بھی ایک سنجیدہ سوال اُٹھا رہی ہے۔ یہ صورتحال پرانے نظام کو یکسر بدل دینے کا تقاضا کر رہی ہے۔ ترقی یافتہ سماج میں یہ بے چینی دیکھی جا سکتی ہے۔پُرانے ریاستی تصور اور ریاستی اداروں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم سرمایہ دار کے نرغے میں آ گئے ہیں۔ ریاست پرانے اور بوسیدہ اداروں کے ساتھ ان علوم کو سرمایہ دار کے نرغے سے نکال نہیں سکتی۔ مجبوراً ترقی یافتہ ممالک سرمایہ دار کے ساتھ مل کر پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے قدرتی وسائل کے استحصال کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ معاشی نظام نے ملٹی نیشنل کمپنیز کے کلچر کو جنم دیا۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور کارٹلز کے اس کلچر نے روایتی سیاسی اور سماجی اداروں میں بہت تیزی سے توڑ پھوڑ کا عمل شروع کر دیاہے۔ سرمایہ دار نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی حاصلات کو افراد تک بحیثیت صارف ہی پہنچایا ہے ۔اس کارپوریٹائزیشن کے کلچر اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافع کی ہوس نے انسانیت کی روح کو مجروح کیا ہے ۔ سامراجی کردار نے انتہائی بھیانک روپ اختیار کر لیا ہے۔ آج زندگی ، ماحول اور فضاء سب کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے ۔ سائنس، علوم اور ٹیکنالوجی جس کے بطن سے انسان اور انسانیت کے بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب، زبان اورصنف ایک عالمگیر کلچر کے جنم لینے کے امکانات تھے وہ معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ تباہی کے اس عمل میں سامراجیت اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔آج کے بین الاقوامی انسان کے اندر بے چینی اور بے قراری موجود ہے ۔ اُس کی یہ بے چینی اور بے قراری اس بات کی علامت ہے کہ وہ سرمایہ داری کے غیر انسانی اور وحشیانہ تسلط سے باہر نکلنا چاہتا ہے۔ صورتحال بہت گھمبیر ہے استحصال کرنے والوں اور استحصال زدہ طبقوں کے درمیان یہ کشمکش اس نظام سے بیزاری کا اظہار بھی ہے اور تبدیلی کی علامت بھی۔دو مختلف سماجوں اور قوموں کے تعلقات کا انحصار زبان ، رنگ ، نسل یا مذہب کی بنیاد پر قائم نہیں ہوتا بلکہ ایسے تعلقات کا انحصار ان کے جغرافیہ ، قدرتی وسائل اور انسانی وسائل کے درمیان علمی ، فکری اور سائنسی ارتباط اور رشتہ پر ہوتا ہے ۔ لیکن سرمایہ داری نظام نے علوم کی غیر جانبدارانہ اور معروضیائی ترقی اور ارتقاء کے عمل کو روک دیا ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی محض مراعات یافتہ طبقے کی خدمت پر معمور ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ترقی پزیر اور پسماندہ سماجوں کو منتقل کی جاتی ہے اور نہ ہی غیر منافع بخش مگر انسانیت کی عمومی فلاح کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔یہ استحصال کی نئی صورت ہے۔ یہ استحصال سرمائے کے ارتکاز کا باعث ہے ۔ استحصالی ریاستیں اور سرمایہ دار اس وقت تک اس استحصال کو جاری رکھتے ہیں جب تک یہ عمل اُن کے لئے فائدہ مند رہتا ہے۔ روز بروز گہرے ہوتے ہوئے تضادات سے بھرپوریہ ریاستی ادارے اور سرمایہ دار ی نظام اب خود ہی ان کے پاؤں کی زنجیر بنتا جا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس کیفیت سے متعلق بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کے اپنے طبقات میں بھی یہ بے چینی موجود ہے۔ معاشی بحران طبقاتی کشمکش کو شدید کر رہا ہے۔ وہاں بھی بڑے پیمانے پر احتجاجات ان کی نظام سے بے چینی اور بے زاری کی عکاسی کر رہے ہیں۔اگر بیان کئے گئے معیارات پر اپنے سماج کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی میں اتنی ترقی بھی نہیں کر سکے کہ ہم اپنے ملکی وسائل کو ہی بروئے کار لا سکیں۔ اگر اپنے سماج کے ان علوم میں دسترس کا موازنہ دیگر سماجوں کے ساتھ کریں تو ہم خود کو یہ ماننے پر مجبور پاتے ہیں کہ ہم اپنے قدرتی وسائل کے استعمال اور استفادے کے لئے بھی ترقی یافتہ ممالک کے دست نگر ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک ہمارے ملکی وسائل پر جن سامراجی عزائم کے ساتھ قابض ہو رہے ہیں ہم اس صورتحال سے باہر نہیں نکل پارہے۔ دیگر سماجوں پر ہمارا معاشی انحصار بھی واضح ہے۔ ہم ایک صارف معاشرہ بن چکے ہیں۔یہ صورتحال ہماری بدحالی کا نہ صرف منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ استحصال زدہ کیفیت میں مبتلا معاشرے کی بے بسی کی علامت بھی ہے۔ ہمارے سیاسی اور سماجی اداروں اور افراد کے درمیان ربط وضبط اور وہ ہم آہنگی نظر نہیں آتی جو اجتماعی شعور اور اجتماعی نفسیات کی تشکیل کا باعث بنتی ہے۔جہاں سیاسی ادارے کمزور اور افراد مضبوط ہیں۔ جہاں سیاست بغیر نظرئیے کے ہو رہی ہے ، تو ایسے سماج میں لسانی ، جغرافیائی ، قومی اور مذہبی تقسیم اور فرقہ واریوں کو ہوا دی جاتی ہے۔ہمارے سماج کا مذہبی شعور اور تشریحات و توضیحات بھی اس سماجی انتشار کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے والے افراد میں بھی اجتماعیت اور اجتماعی شعور کا فقدان ہے۔ مذہب دورِ جدید کے اُٹھائے گئے منطقی سوالات کے جوابات دینے میں ناکام ہے۔معاشی استحصال موجود بھی ہے اور بڑی تیزی سے ناقابلِ برداشت حدودوں کو چھونے لگا ہے ۔ہمارا مزدور اور محنت کش طبقہ اپنی اس حالت پر غصے اور نفرت کا اظہار بھی کررہا ہے۔ لڑائی جاری ہے ۔ بائیں بازو کی نظریاتی سیاست کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ معروضی حالات ان کے شعور پر ضرب لگاتے ہیں اور اسے جدوجہد کے میدان میں اتارتے ہیں ۔ لیکن اپنی معاشی احتیاجات اور فکری و شعوری جدوجہد کے درمیان جھولتا یہ طبقہ کبھی ’’بیگانگی‘‘ کی طرف لوٹ جاتا ہے اور کبھی لڑائی کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔دونوں کیفیتوں میں ہماری سماجی اور سیاسی پسماندگی جس میں نفسانفسی ، خود غرضی اور لالچ شامل ہیں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ طبقاتی جدوجہد کے اس شعور پر قومی ، لسانی اور مذہبی منافرتوں کے وار بھی کئے جا رہے ہیں۔لیکن بڑھتے ہوئے معاشی حملے ان کے لئے کوئی اشرافیہ کا سیاسی کھیل نہیں ہیں بلکہ یہ ان کی بقاء کا سوال ہوتا ہے۔ معاشی استحصال جہاں بڑے پیمانے کی سیاسی لڑائی کے امکانات واضح کرتا جا رہا ہے ، وہاں مزدوروں کے سیاسی اور اجتماعی شعور کا امتحان بھی بنتا جا رہا ہے۔ اگر وہ معاشی استحصال کی اس لڑائی کو طبقاتی لڑائی میں تبدیل نہیں کرتے ، تو دوسری صورت میں فرقہ وارانہ، لسانی اور جغرافیہ انتشار اور خون ریزی کے امکانات کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔اس منتشر سماج میں ہمارا شاعر ، ادیب ، دانشور اور فلسفی بھی کوئی انفرادی اور آفاقی نظریہ منظرِ عام پرلانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ تاہم معروضی جبر، بین الاقوامیت کا سامراجی کردار اور اس میں ہمارے دانشوروں کا کردار جیسے فکری قضیوں کے بارے میں سوچ ابھر رہی ہے۔ علاقائی شاعری اور دانش میں بھی سماجی اور سیاسی جبر کی داخلی اور خارجی وجوہات پر بے چینی دیکھنے کو ملتی ہے۔اس یاسیت کے باوجود امید کی جو ایک کرن نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے نئے لکھاریوں، ادیبوں ، شاعروں اور دانش وروں میں نہ صرف اس انتشار کا ادراک موجود ہے بلکہ اب اس کے داخلی اور خارجی اسباب پر معروضی انداز سے بحث جاری ہے۔ یہی بے چینی بیداری کا پہلا زینہ ہوتی ہے اور یہی بے چینی ہی دراصل نئی صبحیں تراش لانے کا سبب بنتی ہے۔
بشکریہ نیا زمانہ

پیر، 8 فروری، 2016

جوزے مارتی (کیوبا کی جنگ آزادی کا معمار)



جوزے مارٹی (Jose Marti) 
’’کیوبا کی جنگ آزادی کا معمار
لاطینی امریکا کے عوام کا ہیرو‘‘
لاطینی امریکہ میں جوزے مارتی کو دیوتا کا درجہ حاصل ہے۔ اس کا نام دنیا کے ان ممتاز ترین حُریت پسندوں کی فہرست میں شامل ہے، جو غلامی کے شکنجے میں جکڑے اپنے وتن کی آزدی کے لئے زندگی بھر جدوجہد کرتے رہے اور اس کانٹوں بھرے راستے پر سفر کرتے ہوئے جاں سے گزر گئے۔
19ویں صدی (1800)کے اوائل میں کیوبا‘ جو اسپین کے قبضے میں تھا‘ گراں خوبی کی زنجیریں توڑ کر آزادی حاصل کرنے کے لئے تڑپ رہا تھا۔ اس دوران متعدد تحریکوں نے جنم لیا، لیکن چوں کہ ان کے پیچھے کوئی طاقت ور نظریاتی قیادت نہیں تھی۔ اس لئے انہیں ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ تقریباًنصف صدی کے بعد جوزے مارتی کے روپ میں ایک ایسی شخصیت سامنے آئی‘ جس نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے کیوبا کے محکوم باشندوں کو ایک پلیٹ فارم پریک جارکر دیا۔ اگرچہ کیوبا جوزے مارتی کی زندگی میں آزاد نہ ہوسکا‘ لیکن اس کی تحریک ہی وہ راستہ روشن کیا‘ جس پر چلتے ہوئے کیوبا کے عوام منزل آزادی سے ہم کنار ہوئے۔ اس لئے اسے کیوبا کی جنگ آزادی کا معمار کہا جاتا ہے‘ جس کا اعتراف خود فیڈل کاستر اور اس کے ساتھ بھی کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں‘ جوزے مارتی پورے لاطینی امریکا کا ہیرو ہے اور اسے لاطینی امریکا کے ہر ملک میں عقیدت اور احترام کی نظرسے دیکھا جاتا ہے۔
مارتی انسان کی مکمل آزادی پر یقین رکھتا تھا ار اپنی جدوجہد کے دوران مشکل سے مشکل مرحلے پر بھی اس کے قدم نہیں لڑکھڑائے۔ اس نے لکھا:
’’بلند پہاڑی سے نیچے کی طرف لڑھکتے ہوئے پتھروں کی طرح اچھے خیالات بھی تمام رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے اپنی منزل پالیتے ہیں۔ یہ تو ممکن ہے کہ رکاوٹوں کے سبب ان کی رفتار سست پڑجائے‘ لیکن انہیں روکنا نا ممکن ہوتا ہے‘‘۔
اور اس نے اپنی ایک نظم میں لکھا:
’’ اے آزادی‘ تو جن لوگوں کے پاس ہے‘ وہ تیری قدروقیمت سے واقف نہیں‘ اور تو جن لوگوں کے پاس نہیں ہے‘ انہیں محض تیرا تذکرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ جان کی بازی لگاکر تجھے جیت لینا چاہیے‘‘۔
جوزے مارتی ایک شہرہ آفاق شاعر‘ ادیب، صحافی‘ فلسفی اور سیاسی رہنما تھا، جس نے اپنے وطن ، کیوبا کو اسپین کی غلامی سے آزاد کرانے کے لئے نہ صرف قلم کا محاذ گرم رکھا، بلکہ میدانِ کارزار میں لڑتے ہوئے اسے اپنی آخری سانسوں کا تدرانہ بھی پیش کردیا۔
آج گوانتانامو کے نام سے پوری دنیا واقف ہے ، جہاں کے درودیوار امریکی سامراج کی درندگی کے لرزہ خیز مناظر پیش کررہے ہیں۔ اسی گوانتاناموکے حوالے سے ایک گیت دُنیا بھر میں مشہور رہا ہے اور اس کی دل کش دُھن پر دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں گیت تخلیق کیے جاتے ہیں۔
گلوکار عالم گیر نے بھی اس دُھن پر اردو میں ایک مقبول گیت گایا تھا:
البیلا راہی، میں ہوں البیلا راہی
البیلا راہی،
میں ہوں ال۔۔۔بیلا۔۔۔را۔۔۔ہی۔۔۔۔۔۔
یہ گیت جوزے مارتی ہی کی چند مشہور نظموں سے اخذ کیا گیا ہے، لاطینی امریکا کے تمام ممالک میں اس گیت کو ’’ قومی ترانے‘‘ کی حیثیت حاصل ہے اور جب بھی اور جہاں کہیں اس گیت کے بول ہوا کے دوش پر اُبھرتے ہیں، بچے بوڑھے، جوان، مرد اور عورتیں دیواہ وار اُٹھ کر رقص کرنے لگتے ہیں۔
کوبا کی جنگ آزادی کے ہیرو اور بے مثل شاعر ‘ جوزے مارتی نے ایک مختصر زندگی پائی، لیکن اس مختصر عرصے میں اس نے اپنی انقلابی جدوجہد کے ذریعے کیوبا کے تمام سیاسی گروپوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکھڑا کیا، جس کا مقصد نو آبادیت اور امریکی توسیع پسندی سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا۔ اس کی نظموں کے تین مجموعے شائع ہوئے، جو اسپینی زبان بولنے والے تمام ممالک میں بے حد مقبول ہیں ۔ اس کی نثری تخلیقات کی تعداد بہت زیادہ ہے، جو اس کی موت کے بعد 1936اور 1953کے درمیانی عرصے میں 73جلدوں کی صورت میں منظر عام پر آئے۔ جوزے جولین مارتی پیریز 28جنوری1853کو کیوبا کے ایک شہر لاہبانا میں پیدا ہوا۔ اس کے والد ماریانومارتی ناواروا اسپینی نژاد فوجی تھے۔ جب کہ والدہ‘ لیونور سپریز کا بریرا کا تعلق جزائر کا ناری سے تھا۔ جوزے مارتی کی سات بہنیں تھیں‘ جو عمر میں اس سے چھوٹی تھیں۔ جب اس کی عمر چار سال تھی تو یہ خاندان کیوبا سے نقل مکانی کرکے اسپین کے شہر ویلنیشیا میں آباد ہوگیا لیکن دو سال بعد وہ وہاں سے واپس آگئے۔ چھ سال کی عمر میں جوزے مارتی کو ایک مقامی پبلک سکول‘ انسٹی ٹیوٹ ڈی ہوانا میں داخل کرادیا گیا ۔ اس اسکول میں اس کی تربیت مشہور ماہر تعلیم رافیل ماریاڈی مینڈائیونے کی، جس نے مارتی کے سیاسی نظریات کی تشکیل میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
جوزے مارتی ایک عظیم ادیب‘ شاعر اور صحافی ہونے کے ساتھ ایک عمدہ مصور بھی تھا ۔ اس کی ابتدا اس وقت ہوئی، جب 1867میں اس نے ہوانا کے مشہور مصوری اور مجسمہ سازی کے اسکول میں داخلہ لیا۔ 1869میں، جب وہ صرف سولہ سال کا تھا تو "ABDALA"کے نام سے اس کا پہلا ڈرامہ شائع ہوا۔ جس کا موضوع حب الوطنی تھا۔ اس سال اس کی مشہور سانیٹ "10De Octobre"(دس اکتوبر) منظر عام پر آئی۔ جو سب سے پہلے اس کے اسکول کے اخبار میں شائع ہوئی۔ تاہم اسی برس اسپینی نوآبادیاتی حکومت نے اس سکول
کو بند کردیا اور اس طرح جوزے مارتی کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اپنے وطن پر اسپینی حکم رانی کے خلاف اور غلاموں کی خرید و فروخت کے خلاف (جو اس وقت کیوبا میں رائج تھی) اس کے دل میں نفرت کا لاوا اُبل رہا تھا اور وہ اپنی باغیانہ تحریروں اور تقریروں کے سبب نو آبادیاتی حکم رانوں کے لئے ایک خطرناک آدمی بن گیا۔ وہ نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف سرگرم عمل دو زیر زمین اخبارات Al Diable Cojveloاور La Partria Libra کے منتظمین اور قلم کاروں میں شامل تھا۔ جنوری 1869میں کیوبا کے ایک طالب علم کو محض اس جرم میں موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا کہ اس نے ایک اسپینی فوجی افسر کے راستے سے ہٹنے میں دیر کردی تھی۔ اگلے دن مارتی کی ایک باغیانہ نظم شائع ہوئی۔ جس میں وطن کے لئے جان کی بازی لگانے کا درس دیا گیا تھا۔ یہ نظم اس کے ایک دوست، فرمین ڈو مینگیز کی مدد سے شائع ہوئی تھی۔ اس لیے وہ بھی عتاب میں آگیا۔ جب پولیس نے ڈومینگیزکے گھر پر چھاپا مارا تو وہاں سے ایک خط بھی برآمد ہوا۔ جو مارتی اور ڈومینگیز نے مشترکہ طور پر اپنے ایک ہم جماعت کے نام لکھا تھا۔ اس خط میں انہوں نے اسے غدار کے نام سے مخاطب کیا تھا، کیونکہ وہ اسپینی فوج میں بھرتی ہوگیا تھا۔ چنانچہ ’اکتوبر 1869میں‘ جب مارتی کی عمر صرف سولہ سال تھی، اس پر بغاوت کا الزام عاید کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ چار ماہ تک مقدمے کی سماعت کی سماعت ہوتی رہی۔ جس کے دوران جوزے مارتی نے یہ الزام تسلیم کرلیا کہ وہ اسپینی حکمرانی سے نفرت کرتا ہے، چنانچہ اسے چھ سال قید بامشقت کی سزا سنادی گئی۔ اس کی ماں اپنے بیٹے کی رہائی کے لئے مسلسل حکومت سے اپیلیں کرتی رہی۔ اس کے والد نے بھی اپنے ایک وکیل دوست کی خدمات حاصل کیں، لیکن ساری تدبیریں بے سُود ہوئیں۔ امیری کے دوران جوزے مارتی شدید بیمار ہوگیا اور اس کی ٹانگیں جو ہر وقت بیڑیوں میں جکڑی ہوتی تھیں، زخموں سے بھر گئیں۔ یہ رقم اتنے گہرے اور خوف ناک تھے کہ اس کے بعد چلنے پھرنے کے لئے مارتی کو زندگی بھر چھڑی کا سہارا لینا پڑا۔
تین سال تک جیل کے عذاب سے گزرنے کے بعد مارتی کو قید و بند سے تو نجات مل گئی لیکن اسے ہوانا سے بے دخل کرکے کیوبا کے ایک علاقے Isla De Pinosمیں بھیج دیا گیا اور وہاں اس کی نقل وحرکت پر پابندی عائد کردی گئی۔ تاہم کچھ عرصے کے بعد حکومت نے محسوس کیا کہ کیوبا میں رہتے ہوئے وہ ہمیشہ اس کے لئے خطرہ بنا رہے گا۔ اس لئے اسے جلاوطن کرکے زبردستی اسپین بھیج دیا گیا۔ اسپین میں مارتی نے یونیورسٹی آف میڈرڈ اور یونیورسٹی آف ساراگوسا میں قانون، فلسفے اور ادبیات کی تعلیم حاصل کی اور ساتھ ساتھ کیوبا میں اسپنی حکومت کے مظالم کے خلاف مضامین بھی لکھتا رہا۔
یہیں اس کے ادبی کیریئر کا آغاز ہوا اور اس کی دل کش نظمیں اور مضامین تواتر سے منظر عام پر آنے لگے۔ اسپین میں اس نے بیچلرآف آرٹس کی ڈگری اور ’’شہری حقوق‘‘ کی قانونی سند بھی حاصل کی۔ پھر وہ میکسیکو سٹی جاکر ایک اخبار نویس کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔
میکسیکو کی فوجی حکومت کو اس کی تیز و تند پسندنہ آئیں۔ وہ اسے گرفتار کرنے ہی والی تھی کہ وہ وہاں سے فرار ہوکر فرانس چلا گیا۔ جہاں اس نے اپنا مشہور ڈراما "Amor Can Amor Se Paga" تحریر کیا لیکن فرانس میں اس نے زیادہ عرصہ نہیں گزارا اور ایک فرضی نام سے سفر کرتا ہوا 1877میں کیوبا جا پہنچا۔ کیوبا میں اسے ملازمت نہیں ملی تو وہ وہاں سے گواٹے مالا چلا گیا، جہاں اسے یونیورسٹی آف گواٹے مالا میں فلسفے اور ادب کے پروفیسر کی حیثیت سے جاب مل گیا لیکن وہاں کی حکومت نے بھی اسے ’’خطرناک‘‘ شخص قرار دے دیا
اور اس پر سختیاں کرنے لگی۔ یہیں اس کی ملاقات کارمین زایاس بازان سے ہوئی۔ جو کیوبا کے ایک جلاوطن، متمول باشندے کی بیٹی تھی۔ اس ملاقات کے کچھ عرصے بعد دونوں کی شادی ہوگئی۔
اگلے سال 1878میں کیوبا کی اسپینی حکومت نے تمام مطلوب جلاوطن ’’مجرموں‘‘ کے لئے عام معافی کا اعلان کیا تو وہ اپنی بیوی کے ساتھ واپس ہوانا آگیا۔ جہاں اس کے بیٹے ’جوزے فرانسکو‘ کی ولادت ہوئی۔ یہاں وہ کچھ عرصہ تک ایک لاء آفس میں کام کرتا رہا ۔ تاہم اگلے سال 1979میں اسے پھر گرفتار کرکے اسپین بھیج دیا گیا، جب کہ اس کی بیوی اور بیٹا کیوبا میں مقیم رہے۔
1880میں مارتی کسی طرح نیویارک جا پہنچا اور وہاں ایک سال گزارنے کے بعد مستقل قیام کے ارادے سے وینزویلا جا پہنچا۔ لیکن یہ ملک بھی اسے راس نہیں آیا اور اس کی انقلابی سرگرمیوں کی بناء پر وینزویلا کی آمر حکومت نے اسے وہاں سے فرار ہونے پر مجبور کردیا۔ اس طرح اسے دوبارہ نیویارک کا رخ کرنا پڑا۔ اگلے چودہ سال اسے نے امریکا ہی میں گزارے۔ اس کا زیادہ وقت ’’کی ویسٹ‘‘ کے علاقے میں گزرا، جہاں کیوبا کے جلاوطن باشندے کثیر تعداد میں آباد تھے لیکن وہ کئی گروہوں میں بٹے ہوئے تھے، جوزے مارتی نے انہیں یک جا اور متحد کرنے کا بیڑا اُٹھایا اور اس مقصد میں کامیاب رہا۔ اس کا اصل مقصد ایک ایسی انقلابی پارٹی کی تشکیل تھا۔ جس کے زیر قیادت کیوبا میں اسپینی حکم رانوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا آغاز کیا جاسکتا تھا ۔ اس سے پہلے وہ کیوبا کے ایک ساہ فام جلاوطن باشندے’ رافیل سیرا‘ کی معاونت سے La Liga کے نام سے ایجوکیشنل سینٹر بھی قائم کرچکا تھا۔ جس نے اس کی انقلابی تحریک کے لئے ہر اول قوت کا کردار ادا کیا، اس دوران وہ مختلف اخبارات کے لئے کام کرتا رہا اور وینزویلا، ارجنٹینا اور میکسیکو کے بعض اخبارات کے نمائندے کی حیثیت سے ان کے لئے مضامین اور رپورٹیں بھی روانہ کرتا رہا۔ اسپینی استعمار سے کیوبا کی آزادی کے حق میں اور کیوبا میں امریکی عزائم کے خلاف اس کے تندوتیز مضامین تواتر سے سامنے آتے رہے۔ ایک بار اس نے کہا:
’’میں اس عفریت (امریکہ) کے اندر رہ چُکا ہوں اور اس کی آنتوں کے پھیلاؤ سے واقف ہوں‘‘۔
وہ ریاست ہائے متحدہ کو ’’اینگلو سیکسن امریکہ‘‘ قرار دیتا تھا۔ جس کی توسیع پسندی سے پورے لاطینی امریکہ کو خطرہ لاحق تھا اور وہ ان امریکی لیڈروں پر بھر پور حملے کرتا تھا، جو اسپین کو بے دخل کرکے کیوبا کو اپنی عمل داری میں لانے کی وکالت کرتے تھے۔
جوزے مارتی نے امریکہ میں یوروگوئے، پیراگوئے اور ارجنٹائن کے مشترکہ قونصل کی حیثیت سے فرائض بھی انجام دیئے اور امریکہ میں مقیم کیوبا کے جلاوطن شہریوں کے گروہوں کو منظم اور متحد بھی کیا۔ اس کے مضامین اور اس کی نظموں کی آگ پہلے ہی پورے لاطینی امریکا کو اپنی لپیٹ میں لے چُکی تھی اور اس کے پُرستاروں کا دائرہ تیزی سے پھیلتا جارہا تھا۔ جنوری 1892میں اس نے کیوبا کو آزاد کرانے کے لئے ’’ کیوبن انقلابی پارٹی‘‘ Cubano Partido Revolucionario کی بنیاد ڈالی جو دیکھتے ہی دیکھتے کیوبا کے حریت پسندوں کی مقبول ترین پارٹی بن گئی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے La Patria کے نام سے ایک اخبار بھی جاری کیا جس کا نصب العین کیوبا کی آزادی کا حصول تھا۔1894 میں جنگ آزادی کا آغاز کرنے کے لئے کیوبا کی طرف روانہ ہوا لیکن راستے ہی میں ’فلوریڈا‘ کے مقام پر اسے پکڑ کر واپس بھیج دیا گیا۔ 25مارچ1895کو جوزے مارتی نے ’’مونٹے کرسٹوکا منشور‘‘ شائع کیا جو اس نے ایک اور کیوبن دانشور
میکسیمو گومیز کے ساتھ مل کر تحریر کیا تھا۔ یہ دراصل جنگ آزادی کا اعلان نامہ تھا جس نے اسپینی نوآبادیاتی حکم رانوں پر لرزہ طاری کردیا۔ اس دوران وہ اس کے ساتھ امریکہ مقیم کیوبا کے جلاوطن شہریوں پر مشتمل ایک فوجی دستہ تشکیل دینے میں مصروف رہے جس کا نصب العین جنگ آزادی کا آغاز کرنا تھا۔
11اپریل1895کو مارتی اس چھوٹے فوجی دستے کے ساتھ کیوبا کے ساحل پر اُترا۔ وہ ایک بیالیس سالہ دبلا پتلا دانشور تھا اور اسے باقاعدہ جنگ یا گوریلا جنگ لڑنے کا ذرا بھی تجربہ نہیں تھا۔ البتہ وہ سچے جذبوں کی لافانی طاقت سے مالا مال تھا۔ ایک بار اس نے کہا:
’’صاحب عمل لوگ اور ان سے بھی زیادہ وہ لوگ جو محبت کے سائے میں چلتے ہیں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور جولوگ محض کھوکھلی باتیں کرتے ہیں ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں‘‘۔
جزلسیمو (Maximo Gomez Baez)بھی جوزے مارتی کے ساتھ تھا۔ جو اس ’’فوج‘‘ کا سربراہ تھا۔ مئی کے ابتدائی دنوں میں انہوں نے میجر جنرل (Antomio Grajale)سے ملاقات کی جیس (Gomez Baez) کا نائب مقرر کیا گیا۔ خود جوزے مارتی کو بھی میجر جنرل کا عہدہ دیا گیا۔ اس دستے نے پہاڑوں کا رُخ کیا۔ جہاں ’’انقلابی فوج‘‘ کے مقامی دستے پہلے سے موجود تھے۔
19مئی 1895کو اسپینی فوج کے خلاف Dos Rosکی لڑائی میں جوزے مارتی لڑتا ہوا مارا گیا۔ دراصل یہ یک طرفہ لڑائی تھی اور اس میں باغیوں کے جیتنے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔
Gomezنے جو باغی دستے کی قیادت کررہا تھا جب یہ دیکھا کہ اسپینی فوج پام کے گھنے جُھنڈ کے درمیان مضبوط مرچہ بنائے ہوئے ہے تو وہ سمجھ گیا کہ اس پر حملہ کرنا خودکشی کے مترادف ہوگا چنانچہ اس نے حکم جاری کیا کہ اس کے ساتھ پس ہوکر ادر اُدھر منتشر ہوجائیں اس وقت مارتی اپنے گھوڑے پر سوار تیزی سے اگے کی طرف بڑھ رہا تھا اس نے اِدھر اُدھر دیکھا اسے اپنے پاس صرف ایک نوجوان شہ سوار دیکھائی دیا اس نے اسے مخاطب کرتے ہوئے چلاکر کہا:
نوجوان (دشمن پر) ٹوٹ پڑو!
یہ دوپہر کا وقت تھا۔ مارتی ہمیشہ کی طرح سیاہ جیکٹ پہنے ہوئے تھا اور اس کا گھوڑا سفید رنگ کا تھا۔ اس لیے وہ اسپینی فوجیوں کو آسانی سے نظر آسکتا تھا چناں چہ انہوں نے پل بھر میں اسے گولیوں سے بھون ڈالا۔ اس کا حواس باختہ نوجوان ساتھی اپنے گھوڑے سے ہاتھ دھو بیٹھا اور پا پیادہ بھاگتا ہوا یہ خبرسنانے کے لئے اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا یا کہ کیوبا کا سب سے نام ور شاعر، ادیب اور آزادی کا متوالا جوزے مارتی وطن کی راہ میں شہید ہوگیا۔
اسپینی فوجیوں نے ایک گڑھا کھود کر مارتی کی لاش قریب ہی دفن کردی۔ پھر جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ کون تھا تو انہوں نے لاش باہر نکال لی۔ اب مارتی کی قبر سانیتا گوڈی کیوبا کے ایک قبرستان میں ہے۔ اس نے اپنے ایک نظم میں لکھا تھا:
وہ مجھے تاریک جگہ پر دفن نہ کریں
جیسے کسی غدار کے ساتھ کیا جاتا ہے
میں ایک صاحب کردار آدمی ہوں
اور ایک صاحب کردار آدمی کی حیثیت سے
یہ چاہتا ہوں کہ جب مروں تو
میرا چہرہ سورچ کی طرف ہو
کیوبا کے علاوہ لاطینی امریکہ کے مختلف شہروں میں جوزے مارتی کے قدِ آدم مجسمے نصب ہیں۔ کیوبا کے دارالحکومت ہوانا کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ ’’جوزے مارتی انٹرنیشنل ائیر پورٹ‘‘ کہلاتا ہے اس کی جائے ولادت لاہبانا کا ہوائی اڈا بھی اس کے نام سے منسوب ہے۔ اس کے علاوہ اس کے نام سے ایک شہر ’’مارتی‘‘ بھی ہے۔ کیوبا کے مختلف شہروں میں سڑکوں کے نام اس سے منسوب کیے گئے ہیں۔ امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر Ybarمیں ’’جوزے مارتی پارک‘‘ میں اس کا ایک قد آدم مجسمہ ایفروکیوبن محب وطن Paulina Peosoraکی رہائش گاہ کے سامنے ایستادہ ہے۔ جہاں کسی زمانے میں مارتی رہا کرتا تھا۔ یہیں ایک بار ایک اسپینی جاسوس نے اسے زہردے کر ہلاک کرنے کی کوشش کی تھی، جسے اس نے معاف کردیا تھا۔ وہاں سے کچھ فاصلے پر Ybar Cigar Factory, Complexکے سامنے بھی ایک ’’ مارتی پارک‘‘ ہے جہاں اس کا مجسمہ نصب ہے۔ یہاں مارتی نے سگار فیکٹری کے مزدوروں کو اسپین کی غلامی کے خلاف لڑنے کا درس دیا تھا۔ فلوریڈا ہی میں Key Westکے مقام پر اس کی یاد میں ایک میموریل ہاؤس موجود ہے جس کے باہر اس کا مجسمہ رکھا ہوا۔
جوزے مارتی نے ایک جگہ لکھا تھا:
’’یہ شرف آدمیت نہیں کہ آدمی بے حسی کے ساتھ لوگوں کو غلامی اور تذلیل زنجیروں میں جکڑا دیکھتا رہے اور ان کی جہد آزادی کا دُور سے تماشا دیکھتا رہے‘‘۔
جوزے مارتی کی زندگی اس کے اس قوم کا آئینہ تھی۔ اس نے دُور سے تماشا نہیں دیکھا بلکہ زندگی کی آخری سانس تک عملی طور پر اسپینی نو آبادیاتی حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کرتا رہا اور دوسروں کو بھی اس جنگ میں حصہ لینے کی تحریک دیتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ: (جنگ جاری رہے گی۔احفاظ الرحمٰن ۔صفحہ219تا225)