جمعہ، 30 دسمبر، 2016

اگر میرے درد سے آشنا ہو توآگے بڑھو


تحریر : کوہ زاد بلوچ
چمکتے ہیں نقش راہ بن کرسربیاباں لہو کے قطرے


جو ہاتھ آج کٹیں گے نقیبِ جاں ہونگے
جو سَر زمین پہ گریں گے آسماں ہونگے۔ 



ابھی تو میں نے ہواؤں میں رنگ بھرنے ہیں 
ابھی تو میں نے افق در افق بکھرنا ہے 
دلیر ہیں کہ ابھی دوستوں میں بیٹھے ہیں 
گھروں کو جاتے ہوئے سایے سے بھی ڈرنا ہے
ہزار صدیوں کی روندی ہوئی زمین ہے نسیم
نہیں ہوں میں کہ جیسے پہلا پاؤں دھرنا ہے
معصوم ماتھے پے یہ شکن اور یہ گہری فکر ضعیف و زوال پذیراحساس کیلئے بہت بڑی معنی رکھتے ہیں اگر پیشانی کے لکیر اور اس گہری فکرکے تعلق میں جھانکنے کی ہمت ہو تو ضعیف سے ضعیف اور زوال پذیر احساس بھی اس کی حقیقت کو دل کے قریب محسوس کرکے ضمیر کو یہ آواز ضرور دے گا کہ یہ درد تو گولی کی زخم سے پیدا نہیں اور نہ ہی موت کی دہلیز پر زندگی کو الوداع کہنے سے ہے اور نہ ہی اس بے بسی سے جس میں نہ دوا و علاج نہ رسد و کمک نہ کفن و قبرکچھ بھی میسرنہ ہوگا۔ کیونکہ یہ سب تو سلیمان بلوچ سالوں سے اپنے پیش روں کے ساتھ ہوتا دیکھتے و سہتے آرہے تھے تو یہ درد ہے کیا؟؟؟؟
یہ تو وہ درد ہے جس نے احساس کو بیدار کیا ضمیر کو تقویت دی فکرکو جلا بخشا جس کی وجہ سے باقی تمام مصائب و تکالیف بے معنی ہوکر رہ گئے جو اپنے لوگوں اور اپنی دھرتی سے جان قربان کرنے کی حد تک محبت کرتے ہیں ان کے ہاں خونی رشتوں خاص کر ماں بہن بھائی اور عزیز و اقارب کی کیا قدر و قیمت ہوگی اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں لیکن یہی وہ درد ہے جو ایسے عظیم رشتے ناطوں سے بھی بے پرواہ کر دیتا ہے جب صرف خیال و تصور بہتری ہوتو دوسری بات لیکن جب ناانصافی و بے عزتی،ظلم وبربریت دیکھتے سہتے ہوئے حق انصاف مساوات امن خواب بن جائے تب یہ درد جنم لیتا ہے جب یہ درد احساس کو ضمیر و فکر سے مربوط کرتا ہے تب میرے لوگ میرا دھرتی امن وانصاف، مساوات عزت و وقار ہی میزان ٹھہرتا ہے جن کے سینے میں صرف اور صرف یہی درد پنپتا ہے وہ بے غرض ہوتے ہیں وہ ان مفادات و خواہشات سے بالاتر ہوتے ہیں جو انکے میزان کے توازن کو ذرا برابر بھی بھگاڑتا ہو وہ آسائش، آرام، کاہلی،حسد،جھوٹ،چاپلوسی اور 




گروبندی سے نابلد سلیمان، امتیاز،ماما مہدو،صبادشتیاری 
شہک اور ان جیسے ہزاروں ہوتے ہیں



میں اپنا بارگراں چھوڑکے جارہا ہوں سنو 
اگر میرے درد سے آشنا ہو توآگے بڑھو

پیر، 26 دسمبر، 2016

امتیازات و شعور : تحریر : کوہ زاد بلوچ



اچھے اور برے کے بیچ فرق جاننا بہت ہی ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ یہ شعور بھی انتہائی ضروری ہے کہ امتیازات سکھائے جاتے کیوں ہیں اور ہم سیکھتے کیوں ہیں ؟؟؟؟
آگ میں جلانے اور پانی میں ڈوبونے میٹھے و کارے کی خاصیت (تاثیر و طاقت) کے علاوہ انکےباقی ماندہ فوائد کو انسانوں کےلئے سمجھنا اور ان پر مہارت حاصل کرنا ان میں امتیاز کے بعد شعور کی نشاندہی کرتا ہے۔ 
تو کسی بھی تعمیری عمل میں کمزوری،خامی و خرابی کی اصل نوعیت کی پہچان و نشاندہی،بیان و وضاحت کہنے سننے اور غور کرنے سے تعلق رکھنے کے ساتھ ہی بنیادی طور تعمیری عمل کو بہتر انداز میں جلد از جلد تکمیل پذیری سے گزارنا ہوتا ہے ناکہ اسکو تقسیم یا تخریب کا شکار کرنا ہوتا ہے۔ 
جب ہم کسی کو یا کوئی ہمیں اچھائی و برائی کے بیچ امتیازات کا درس دیتا ہے تو بظاہراسکا صاف اور سیدھا سا مقصد ہوتا ہے کہ دو کے بیچ فرق یعنی کسی بھی عمل میں اچھائی و برائی کے بیچ فرق کو سمجھنا لیکن وہ ہمیں دیکھائی نہیں دیتا ہم اپنے اور کہنے و نشاندہی کرنے والے کے بیچ فرق کو واضح کرنے لگتے ہیں ہم اس عمل میں اچھائی کو لیکر برائی کی نوعیت و حقیقت کو سمجھنے سمجھانے کی بجائے اپنے آپ کو اور کہنے والے کو صیح یا غلط اچھا یا برا ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں جو اشتعال انگیز ی جذباتی ردعمل کا سبب بن جاتا ہے ایسا ہوتا کیوں ہے کیا ہمارا طزر فکر یا زاویہ نظر درست نہیں ؟؟؟ ۔
مثلا جب اچھے عمل میں برائی کی موجودگی یا کسی بھی عمل سے برائی پیدا ہونے کے اندیشوں کا اظہارکیاجاتا ہے تو لازمی طور پر اس اظہار کے بیچ دو عوامل مربوط ہوتے ہیں یعنی ایک کہنے نشاندہی کرنے والا اوردوسرا سننے و غور کرنے والا( اس دوران یکجہتی ،یگانگت ،اتفاق،ہمراز و ہمراہی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ) سننے اور غور کرنے پر توجہ ہو سننا اور غور کرنا دو مختلف عملی مراحل ہیں سننے یا پڑھنے کا عمل یعنی اولین مقصد سمجھنا اور پھربعد میں سمجھے ہوئے پر غور کرنا۔۔۔
کچھ بھی سمجھ میں نہیں آنے کی صورت میں وضاحت طلب کرنا یا اس اظہار میں مفروضات خالی خولی خدشات وغیرہ کی نشاندہی کرکے ان کو بحث کےلئے پیش کرنا اسکے بعد تسلیم کرنے متفق ہونے یا رد کرنے یا اختلاف رکھنے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے رد و اختلاف کے وجود کو بھی جواز ضرورت ہوتی ہے ایسا ہو نہیں سکتا کہ بس میں نہ مانوں تو نہ مانوں ۔
اتنے طویل مرحلے سے گزرے بغیر برائے راست ایک دوسرے کے گلے پڑجانا ایک دوسرے کی نفی کرنا کیسے اور کیونکر مثبت نتائج دے سکتے ہیں اور دیکھنے اور سننے والوں کو مسائل کی اصل نوعیت کو سمجھنے میں کیسے معاون ثابت ہوسکتے ہیں ؟؟؟؟در حقیقت ان سے تو طفلی رویوں کی نشاندہی ہوتی ہے 
ہمارے مقصد کے حصول کےلئے کامیابی کا راز متفق الرائے، ہمراز ،یگانگت، اتفاق، اتحاد و یکجہتی پر منحصر ہے اور درحقیقت امتیازی تاثرات تنقید بحث مباحثوں کا مقصد صرف اور صرف کمزوریوں، خامیوں و خرابیوں پر قابو پاکر یکدلی کومزید مضبوط بنانا ہے۔
کیا ہم جانتے ہیں کہ ہمارا مقصد ایک ہے ہمارا دشمن ایک ہے نفع و نقصان کو لیکر ہمارے بقاء کا مسئلہ ایک ہے؟؟؟؟؟ اگر ہم یہ جانتے ہیں تو یہ کیوں نہیں جانتے کہ ہمیں کرنا کیا ہے کئی سے بھی ہو ہمارے کمزوریوں،خامیوں و نادانیوں کی نشاندہی ان پر تنقید یا بحث مباحثے کیوں ہمارے اتفاق و یگانگت،یکدلی کو پارہ پارہ کرتے ہوئے ہمارے گروہی ،شخصی تعمیر پر معمور نظر آتے ہیں ہمارے تمام دعوے یکجہتی کے گرد تمام کاوشیں گرویت کے گرد اور نتائج مسلسل اندرونی تعصب و تقسیم کےطور پرسامنے آتے رہتے ہیں یہ کہنے میں شاہد آج عار محسوس نہ ہو کہ ہمارا طرز فکر ٹھیک نہیں جب طزر فکر ٹھیک نہ ہو تو مسائل کو دیکھنے،سمجھنے اور حل کرنے کا طریقہ کار کیسے صیح ہوگاسولہ سالہ جد مسلسل کوئی جھوٹی بات نہیں اتنے عرصے میں تو نرسری سے بچہ یونیورسٹی تک پہنچ جاتا ہے ہمارے پاس نتائج کیا ہیں؟؟؟
کیا ہم نے چالیس سے بڑھکر چار سو افراد کو یکجاء کام میں لانے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے۔ چار سو سے بڑھکر چار ہزار افراد کی انتظامی صلاحیت حاصل کرلی ہے دشمن سے نبرآزما قوتوں کےلئے یہ ایک بنیادی سوال ہے کیا چالیس افراد کے بیچ بے یقینی اور بے چینی سیدھی طرح ہمارے کارکردگی پر سوالیہ نشان نہیں ؟ چائے ہم اسکو کوئی بھی نام دیں یا دن رات ایک دوسرے کے سر تھونپتے رہے۔ 
مجموعی طور پر پچھلے تمام عرصے کے تجربات سے دشمن کے جبر و بربریت سے تسلسل کے ساتھ اپنےناکامیوں سے قوم کے بدحالی و مظلومیت سے اگراحساس نہیں ہورہا تواپنے اپنے انا و ضد کے خاطر یہ احساس کریں کہ کل کو یہی سپریم کونسل یہی قومی لیڈرز یہی قومی دانشور و قومی لشکر و کمانڈرز ناکامی و شکست کےلئے قوم کو کیا جواب دینگے 
کیا اس وقت بھی کسی کے قبر پے و کسی کے سر پر تھونپ کر خود کو بری الزمہ قرار دینگے ۔۔
ہم میں سے ہر ایک کےلئے اوپر سے لیکر نیچے تک نیچے سے لیکر اوپر تک مجموعی حالات کے ساتھ ہی ساتھ اپنے اندر کا جائزہ لینا ضروری ہوچکا ہے وہ بھی روزانہ کی بنیاد پر کیونکہ آزاد ہونے کے لئے ہمیں سب سے پہلے اندر سے آزاد ہونا ہوگا کیونکہ موجود صورت حال میں باہر کے غلامی سے زیادہ اب ہمارے اندر کی غلامی کا عمل دخل بڑھتا جارہا ہے کیونکہ ہم میں سے ہر ایک اپنے اندر کے خواہشات کا غلام نظر آرہے ہیں اسی لئے تو تمام سرگوشیاں ہم سے زیادہ میں میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں ۔

پیر، 19 دسمبر، 2016

بختیار بگٹی کو انصاف کون دے گا ؟؟؟



ادھیڑ عمر بختیار بگٹی بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کے شورش زدہ علاقے چھتر کے رہائشی ہیں۔ایک سال قبل ان کے نوجوان بیٹے نواز بگٹی عرف مور کو قتل کر دیا گیا۔ تب سے ان کی ذہنی مالی اور سماجی حالت ٹھیک نہیں ہے۔
اپنے علاقے میں امن ِ عامہ کی مخدوش صورتحال کے باعث انہوں نے مناسب جانا کہ وہ سندھ بلوچستان کے سرحدی علاقے میں ملاقات کریں۔ انکے جھریوں بھرے چہرے پر تشویش اور بے چارگی تھی اور باتوں میں ربط کی کمی بتا رہی تھی کہ وہ ذہنی طور پر شدید دباؤ کا شکار ہیں۔
سر 2015 میں ہمارا مسئلہ ہوا تھا ۔ ہمارا لڑکا تھا بڑا۔ اس کی دو بیبیاں تھا۔ چار بچے تھا۔ کمانے والا بھی وہی تھا اب کوئی نہیں ہےِ۔ حالات ہمارا صحیح نہیں ہے ۔
ان کے بقول ایک سال پہلے انکے قبیلے کے ایک فرد نے ان سے ان کی زمین خریدنا چاہی مگر انھوں نے انکار کر دیا۔
اس انکار کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ بارانی زمین ان کے روزگار کا واحد ذریعہ تھی اور دوسرا انھیں یقین تھا کہ وہ بااثرافراد زمین کا پورا معاوضہ بھی نہیں دیں گے۔
چند دن بعد شام کے وقت جب ان کا میٹرک پاس بیٹا نواز بگٹی کھیتوں میں کام کر رہا تھا تو ایک شخص اس سے آ کر ملا۔
بختیار بگٹی اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں بتا رہے تھے کہ کچھ دیر بات چیت کے بعد جیسے ہی نواز بگٹی اپنے گھر کی جانب روانہ ہوئے اس شخص نے پیچھے سے اس پر پستول سے فائر کیا اور موقع سے بھاگ گیا۔
اور پھر مبینہ طور پر اپنے گھر جا کر اپنی جوان بھابھی کو بھی قتل کرنے کے بعد ان دونوں پر سیاہ کاری کا الزام عائد کر دیا۔
جب بختیار بگٹی اپنے خاندان کے کچھ لوگوں کے ساتھ ان کے گھر پہنچے تو مقامی وڈیرے نے اس معاملے کو پولیس اور کچہری لے جانے سے منع کر دیا اور قرآن بیچ میں لا کر بختیار بگٹی کو مقامی بلوچ روایات کے مطابق فیصلہ کرنے پر راضی کر لیا۔
بختیار کے پاس ان کا حکم ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
ان کے مطابق مقامی وڈیرے نے اس تمام کارروائی اور شہادتوں کا بیان تحریر کیا کہ نواز بگٹی اور لڑکی کی لاشیں ایک دوسرے سے بہت دور پائی گئیں۔ دونوں برہنہ حالت میں بھی نہیں تھے اور مقتولین پر سیاہ کاری کا الزام لگایا گیا ہے۔
یہ تحریری بیان بختیار بگٹی کو دے دیا گیا اور وہ پھر انصاف کے لیے چھتر سے کوئٹہ پہنچ کر اپنے نواب سے ملنے بگٹی ہاؤس چلے گیا۔
'وہ ہاتھ نہیں آیا۔ میں نوابوں کے پاس گیا ہوں۔ میر عالی کے پاس گیا ہوں۔۔ نواب صاحب کا لڑکا تھا۔ اس نے خط دیا۔ اس نے کہا وہ آئے گا۔ پر وہ نہیں آیا۔۔وہ بھاگ گیا۔ ادھر بھی ہمارا تشویش کوئی نہیں ہوا۔'
نواب صاحب نے بختیار بگٹی کو اس مقامی وڈیرے کے نام ایک اور خط دیا جس میں اُسے ہدایت کی گئی کہ وہ مبینہ قاتل کو بلوچی رسم و رواج کے مطابق دہکتے انگاروں پر سے گزاریں اور اگر قاتل بخیریت ان پر سے گزر جاتا ہے تو وہ بےگناہ ہے بصورت دیگر اس پر جرمانہ عائد کیا جائے۔
تاہم جب تک بختیار بگٹی اپنے علاقے چھتر پہنچتے قاتل اپنے گھر والوں کو لے کر فرار ہو چکا تھا اور اس دن سے لے کر آج تک بختیار بگٹی انصاف کے لیے سرگرداں ہیں۔
بختیار بگٹی کے ہمراہ آنے والے جعفرآباد کے صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن علی احمد بلوچ نے بتایا کہ اس واقعہ کو ایک سال ہو چکا ہے اور جس وڈیرے نے انھیں انصاف دلانا تھا وہ خود بھی قبائلی دشمنی کا شکار ہو چکا ہے۔
مرنے والی لڑکی کے بھائی نے اپنی بہن کے قتل کی ایف آئی آر مقامی تھانے میں درج ضرور کروائی تھی مگر ایسے معاملات میں کوئی خاص سرکاری پیش رفت بھی نہیں ۔
علی احمد بلوچ مزید کہتے ہیں کہ عدالتی کاروائیاں اتنی طویل اور پیچیدہ ہوتی ہیں کہ لوگ قبائلی جرگہ سسٹم کو ان پر ترجیح دیتے ہیں لیکن بعض اوقات یہ جرگے بھی انصاف پہنچانے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔
زمین جائیداد کے اس جھگڑے میں اس لڑکی کا کیا ہوا جسے غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا۔ یہ بات اس پسماندہ قبائلی سماج میں کوئی نہیں جانتا اور 
نہ ہی شاید ایک لڑکی کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔
رپورٹ:  شرجیل بلوچ

جمعرات، 15 دسمبر، 2016

جنگل کا قانون/ غنی پرواز


دفتر میں داخل ہوتے ہی وہ حیران رہ گیا۔ کیونکہ دفتر کے تمام ملازمین کے چہرے اسے بہت عجیب دکھائی دے رہے تھے۔ کچھ کی آنکھیں باہر
 نکلی ہوئی تھیں۔ کچھ کے کان کھڑے ہوگئے تھے۔ کچھ کی زبانیں نیچے لٹکی ہوئی تھیں اور کچھ کے ہونٹ پھولے ہوئے تھے۔ وہ حیرانی سے کھڑا سب کو تکتا رہا۔
بابو آفتاب نے سر اٹھایا اور باہر نکلی ہوئی آنکھیں مزید باہر نکالیں۔
'تم آج ہمیں اس طرح دیکھ رہے ہو، جیسے ہم کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہیں۔'
اسسٹنٹ امداد نے اپنا سر اوپر اٹھایا اور کھڑے ہوئے کان مزید کھڑے کیے۔ 'تم ہمیں اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو۔'
کیشیر ظہیر نے سر اٹھایا اور اپنی لٹکی ہوئی زبان اور زیادہ لٹکالی۔
'آج اس کی طبیعت ٹھیک نہیں۔'
ہیڈ کلرک مزمل نے سر اٹھایا اور پھولے ہوئے ہونٹوں کو اور زیادہ پھلایا۔
'اسے ٹھیک کرنا پڑے گا۔'
وہ آگے بڑھا اور سب کے بیچ میں کھڑا ہوگیا۔ 'لیکن آپ لوگوں کی حالت اس طرح کیوں ہے؟'
سب نے پہلے ایک دوسرے کی طرف اور پھر اس کی طرف دیکھا۔
'ہمیں کیا ہوا ہے بھلا؟'
وہ طنزیہ انداز سے مسکرایا: 'کچھ کی آنکھیں باہر نکلی ہوئی ہیں، کچھ کے کان کھڑے ہیں، کچھ کی زبانیں لٹکی ہوئی ہیں، کچھ کے ہونٹ پھولے ہوئے ہیں۔'
بابو آفتاب جلدی جلدی اپنی جیب سے چھوٹا سا آئینہ نکال کر خود کو دیکھنے لگا۔ 'جھوٹ کیوں بولتے ہو؟'
باقی لوگ بھی جلدی جلدی اٹھے اور بابو آفتاب کے چھوٹے سے آئینے میں خود کو دیکھنے لگے۔ 'تم تو بہت بڑے جھوٹۓ ہو۔' کسی نے کہا۔
'تم اتنے بڑے جھوٹ کیوں بولتے ہو؟' کسی اور نے کہا۔
'مذاق کیوں کرتے ہو؟' ایک نے پوچھا۔
'اس قسم کا مذاق ٹھیک نہیں۔' دوسرے نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
ہیڈ کلرک مزمل چھوٹا آئینہ دیکھنے سے مطمئین نہیں ہوا۔ اس لیے اٹیچ باتھ روم گیا اور بڑے آئینے میں خود کو دیکھ کر آگیا۔ 'جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔'
وہ اپنی کرسی پر بیٹھ کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ 'میں نہیں جانتا کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے یا اس کا سر نہیں ہوتا، لیکن یہ اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ آپ ٹھیک نہیں ہیں۔'
'کیا بات ہے، جو آپ سبھی لوگ حیران و پریشان نظر آرہے ہیں۔' چیئر میں کی سیکرٹری فرحت بھی دفتر میں داخل ہوگئی۔
'اطہر کا کہنا یہ ہے کہ آج ہم سب کے چہرے بگڑے ہوئے ہیں۔' ہیڈ کلرک مزمل اس کی جانب متوجہ ہوا۔
'آپ کے چہروں کو تو کچھ نہیں ہوا ہے۔' فرحتت نے سب کے چہروں پر نگاہ ڈالی۔
'تم اپنی خیر منائو۔' اطہر مسکرایا۔
'مجھے کیا ہوا ہے؟' فرحت سٹپٹائی۔
'تمہارے گال سوجے ہوئے ہیں۔'
'باپ رے باپ!' اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا کر اٹیچ باتھ روم کا رخ کیا۔ اور کچھ دیر بعد واپس لوٹ آئی۔ 'تم بڑے مکار ہو۔ چوکیدای کے لائق نہیں۔'
'اس نے ہمارا تو ستیہ ناس کردیا، لیکن آپ کو بھی نہیں بخشا۔ صاحب کے پاس اس کی شکایت کرنی چاہیے۔'
'بے فکر رہیں۔ ظاہر صاحب کو آنے تو دیں۔ میں اس کا علاج خود کرائوں گی۔'
یکایک دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور چیئرمین ظاہر علی اندر داخل ہوا۔ اس نے سب کی جانب سرسری سی نگاہ ڈالی اور اپنے کمرے میں گھس گیا۔ اسی اثنا میں فرحت بھی جلدی جلدی اس کے کمرے میں چلی گئی۔
'کیا بات ہے؟۔۔۔۔آج تم سب کے چہروں پر ہوائیاں سی اڑ رہی ہیں۔' چیئرمین ظاہر علی نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے اپنا سیاہ چشمہ اتار کر میز پر رکھ دیا۔
'آج اطہر کا دماغ پھر گیا ہے'
'کیسے؟'
'سب کو برا بھلا کہہ رہا ہے۔'
'تم اپنی کرسی سنبھالو۔ میں اسے ابھی بلاتا ہوں۔'
'جی صاحب!' گھنٹی کی آواز پر چپراسی جمعہ اندر داخل ہوا۔
'اطہر کو بلائو۔' چیئرمین نے حکم دیا۔
'صاحب!۔۔۔۔۔۔آپ نے مجھے بلایا ہے؟' اطہر نے آتے ہی پوچھا اور حیرانی سے اسے دیکھنے لگا۔
'ہاں! سنا ہے تم لوگوں کو برا بھلا کہہ رہے ہو؟'
'میں نے کسی کو برا بھلا نہیں کہا ہے۔' اطہر نے کہا۔ 'میں نے تو وہی کہا ہے جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔'
'آخر تم نے کیا دیکھا ہے؟'
'یہی کہ سب کی شکلیں بگڑی ہوئی ہیں۔'
'مثلاً۔۔۔۔۔کس طرح؟'
مثلاًآفتاب کی آنکھیں باہر نکلی ہوئی ہیں۔ امداد کے کان کھڑے ہیں۔ ظہیر کی زبان لٹکی ہوئی ہے۔ مزمل کے ہونٹ پھولے ہوئے ہیں اور فرحت کے گال سوجے ہوئے ہیں۔'
'مجھے بھی تم مسلسل عجیب انداز سے دیکھ رہے ہو۔ کیا مجھ میں بھی اس قسم کی کوئی تبدیلی دکھائی دے رہی ہے؟'
'معاف کیجیے گا صاحب! آپ سے گستاخی نہیں کرسکتا۔'
'کیوں؟'
'آپ ہمارے صاحب جو ہیں۔'
'اگر کچھ دیکھ رہے ہو تو بتائو۔'
'اچھا، تو پھر گستاخی معاف، ماشا اللہ آپ کی توند آج بہت بھاری لگ رہی ہے اور باہر کو نکلی جارہی ہے۔' اس نے خوف سے لرزتے ہوئے دیکھا۔
چیئرمین خاموشی سے اٹھا اور اپنے کمرے کے باتھ روم میں گھس گیا۔ کچھ دیر بعد واپس آیا اور اسے گھور گھور کے دیکھنے لگا۔ 'تم بڑے خبیث ہو۔'
اطہر سر سے پائوں تک کانپنے لگا۔ 'صاحب! مجھے معاف کیجیے۔'

'تم معافی کے نہیں سزا کے قابل ہو۔'
چیئر مین نے غصے بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا اور گھنٹی بجائی۔ چپراسی بھاگتا ہوا اندر داخل ہوا۔
'جی صاحب!'
'ذرا ان لوگوں کو بلائو تو۔۔۔۔'
'کن لوگوں کو صاحب؟'
'آفتاب، ظہیر اور مزمل کو'
'ٹھیک ہے صاحب!' وہ جلدی جلدی واپس چلا گیا اور کچھ دیر بعد تینوں آگئے۔
'تم لوگ ایک دوسرے میں نئی تبدیلی دیکھتے ہو؟' چیئرمین نے فکر مندی سے سب کی طرف دیکھا۔
'نہیں!' سب نے نفی میں سرہلایا۔
'مجھ میں کوئی تبدیلی؟'
نہیں!'
'تو پھر یہ کمبخت ایسا کیوں بولتا ہے؟' وہ غصے کے مارے پیچ و تاب کھارہا تھا۔
'صاحب! اس کی آنکھیں خراب ہیں۔' مزمل نے اطہر کی آنکھوں کی طرف اشارہ کیا۔
'مزمل ٹھیک کہتا ہے۔ تمہاری آنکھیں خراب ہیں۔' چیئرمین نے اطہر کی جانب دیکھا۔
'میری آنکھیں۔۔۔خراب تھیں۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔'
'لیکن کیا؟'
'لیکن ان کا علاج کروالیا ہے۔۔۔۔'
'علاج نے تمہاری آنکھوں کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔' چیئرمین نے اس کی آنکھوں کے اندر دیکھا۔ 'لیکن تمہاری آنکھوں میں خرابی کیا تھی، جو تم نے علاج کروا کے انہیں بگاڑ دیا ہے؟'
'میری آنکھیں جھلملاتی تھیں۔۔۔۔'
'آنکھیں جھلملاتی تھیں؟۔۔۔۔۔۔بھلا آنکھیں بھی کبھی جھلملاتی ہیں؟'
'جی ہاں صاحب!۔۔۔۔۔جھلملاتی تھیں اور مجھے یوں محسوس ہوتا تھا، جیسے میری آنکھوں کے اندر نئی اور زیادہ روشن آنکھیں اگ رہی ہیں۔'
'کس ڈاکٹر نے ان کا علاج کیا ہے؟ اور کس قسم کا علاج کیا ہے؟'
'ڈاکٹر صالح میمن نے آپریشن۔۔۔۔۔'
'چاہے جس نے بھی آپریشن کیا ہو، مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ آپریشن الٹا ہوا ہے۔'
'آپریشن الٹا؟'
'ہاں الٹا ہوا ہے۔'چیئرمین نے اپنا سر اثبات میں ہلایا۔ 'لیکن جناب! میری آنکھوں کی روشنی میں پہلے سے کافی اضافہ ہوا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے، جیسے میں اندرونی چیزوں کو بھی دیکھ سکتا ہوں۔'
'کیا مطلب ہے تمہارا اندرونی چیزوں سے۔۔۔۔؟'
'یعنی میں دیکھ رہا ہوں کہ باہر نکلی ہوئی آنکھیں کیا دیکھ رہی ہیں۔گھرے ہوئے کان کیا سن رہے ہیں۔لٹکی ہوئی زبانیں کیا کہہ رہی ہیں۔ پھولے ہوئے ہونٹ کیا مانگ رہے ہیں۔ سوجے ہوئے گال کیا تلاشتے ہیں اور موٹی۔۔۔۔۔'
'بس بے ادب۔۔۔۔۔' وہ مسلسل بولتا جارہا تھا کہ چیئرمین نے اس کی بات سختی سے کاٹی۔ 'اگر تم ہمارے پرانے ملازم نہ ہوتے تو میں ابھی اسی وقت تمہیں نوکری سے نکال دیتا۔'
'رحم کیجیے صاحب!'اس نے اپنے دونوں ہاتھ باندھ لیے۔'مجھ معاف کردیجیے۔'
'ایک شرط پرتمہیں معاف کرسکتا ہوں، صرف ایک شرط پر۔'چیئرمین نے اپنی کرسی آگے کی طرف کھینچ لی اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا۔
'مجھے ہر شرط ۔۔۔منظور ہے۔'اطہر نے اپنا سر جھکالیا۔
'میں ڈاکٹر سلیم سے تمہارا ایک سیدھا آپریشن کرائوں گا۔اور آپریشن کی فیس اور اخراجات تھوڑا تھوڑا کرکے تمہاری تنخواہ سے کاٹوں گا۔ چیئرمین نے اپنا فیصلہ سنادیا۔
'تم کیا کہتے ہو؟'مزمل طنزاً مسکرایا۔
'میں بھلا کیا کہہ سکتا ہوں؟' اطہر نے بے بسی کا اظہار کیا۔
آپریشن کے بعد، جب اس کی آنکھیں ٹھیک ہوگئیں اور وہ پھر سے دفتر جانے لگا تو اب اس کی نگاہوں میں ہر شخص اپنی اصل حالت میں تھا۔ کسی کی آنکھیں،کان، زبان، گال، توند یا کوئی اور چیز بگڑی ہوئی نہیں تھی۔
وہ دروازے کے قریب کھڑا تھا کہ چیئرمین آپہنچا۔
اب تمہاری آنکھیں کیسی ہیں؟'چیئرمین نے طنزاً پوچھا۔
ہمیشہ کی طرح ہیں۔'اطہر نے حسرت سے جواب دیا۔
'یاد رکھو، انسان کے لیے آنکھوں کی زیادہ روشنی ٹھیک نہیں۔'چیئرمین نے اسے اچھی طرح سے سمجھایا۔
'کیونکہ آنکھوں کی زیادہ روشنی انسان کو زیادہ مصیبتوں میں ڈال سکتی ہے۔'
'میں آپ کی یہ نصیحت کبھی نہیں بھلائوں گا۔'اطہر تلخی سے مسکرایا۔'کیونکہ میں زیادہ مصیبتیں برداشت نہیں کرسکتا۔'
٭٭٭
(بلوچی کہانی)
اردو ترجمہ: حمل غنی

منگل، 13 دسمبر، 2016

صبح کی سرخی/جوزف میگنس وینر


یہ میرے دوست ایوان ساووف کی کہانی ہے جو بلغاری فوج کی تھرڈ بٹالین میں ایک سینئرماتحت افسر تھا اور میری نگاہوں کے سامنے سرویائی سلسلۂ کوہ میں ایبار اور موراوا کے درمیان قائم کردہ محاذ پر کام آیا۔جنگِ عظیم کے دوسرے سال کے اواخرِ خزاں میں میری سالگرہ سے اگلے روز کا قصہ ہے کہ میں سفیدے کے دو مُردہ درختوں کے بیچ جھاڑیوں میں اپنی سالگرہ کی خوشی منا رہا تھا۔ کیمپ کے جلتے الاؤ اور اُن کے بھڑکتے شعلوں میں سرمئی آسمان سے کبھی کبھار گرتے اکا دکا برف کے گالے مکمل تنہائی کے احساس کو مزید گہرا کر رہے تھے۔یاد پڑتا ہے کہ یہ منظر مجھے اچانک ذرا مزاحیہ سا لگا تھا۔ کسی معرکے سے ایک دن قبل محاذ پر سرگرم ایک سپاہی کے لئے صرف چوبیس برس قبل پیدا ہونے کا واقعہ آخر کیا اہمیت رکھتا تھا؟ پھر بھی موت کا خیال اتنا ہی لغو تھا۔ بھلا کوئی اپنی سالگرہ سے ایک دن پہلے بھی مرتا ہے! لہذا میں نے خود کو لمبے کوٹ میں مزید سختی سے لپیٹتے ہوئے جھنڈ کی آڑ میں پناہ لی اور مانوس درختوں کی بل کھاتی ننگی شاخوں کے بیچ سے جھانکتے آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں کو دیکھنے لگا۔
صبح تین بجے الارم بج گیا۔ بویریائی دستے کی فرسٹ انفنٹری بٹالین نے حملہ کرنا تھا۔ نیند میں گیلے جھنڈ سے باہر سرک رہا تھا کہ میں نے ایوان ساووف کو ایلپائن کور کے سٹاف افسروں کے ہمراہ گزرتے دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں جی ایچ کیو کا ایک نقشہ تھا اور وہ شمال کی جانب اشارہ کر رہا تھا۔میں چھلانگ مار کر اس کی جانب بڑھتے ہوئے یہ کہنے ہی والاتھا کہ ’’ایوان ساووف، کیا میں تمہیں یاد ہوں؟ کیا جینا یاد نہیں، جب ہم ملے تھے؟ میں جانتا ہوں تم افسر ہو اور میں صرف ایک سپاہی لیکن مجھے آگے بڑھ کر ہاتھ تو ملانا ہی چاہئے۔‘‘دوسرے افسر شاید چونک کر پیچھے ہٹ جاتے کیوں کہ دو دستوں کے لئے کئی سالوں کی جدائی کے بعد کسی معرکے کی صبح ملنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔
لیکن میں ان دو درختوں کے درمیان سے باہر نہ نکلا۔وہیں دونوں گیلے تنوں کو ہاتھوں سے دبائے کھڑا رہا۔ میں سپاہی تھا اور آخر انتظار کرنا تو سیکھ ہی چکا تھا۔ایوان ساووف دوسروں کے ہمراہ دھند میں غائب ہو گیااور بٹالین آگے بڑھ گئی۔
لیکن صبح کی پہلی کرنوںمیں بے گیاہ اونچائیوں پر بکھری ہوئی پست قامت جھاڑیوں کے منور ہوتے سمے، جب وہ سرمئی سپاہی ایک بھوری ندی کو پار کرتے ہوئے ایک اجاڑ تنگنائے میں نیچے اتر رہے تھے تو مجھے ایک بار پھر ایوان ساووف کا خیال آیا۔
جینا کی و ہ پُرکیف راتیں میرے ذہن میں نہیں تھیں جب ہم بادۂ احمر سے لطف اٹھاتے، ملی ترانے گنگناتے ، ایک دوسرے سے بغل گیر، فلسفہ آمیز گپ شپ لگاتے آس پاس کے مطمئن شہری راہگیروں کے اضطراب کا باعث بن رہے تھے۔ نہیں ، میں اس فولادی نیلے بالوں، زیتونی چہرے پر اکڑی ہوئی پلکوں اور مضبوط مخروطی ہاتھوں والے نوجوان بلغاری مصور کے بارے میں بھی نہیں سوچ رہا تھا۔ ہمارے ان دوسرے رفیقوں کے نزدیک جن کے ساتھ ہم آسمان پر تاروں کے مدھم ہو جانے اور پرندوں کے گیت چھیڑنے تک ہم رقص رہتے، وہ کام میں صبح شام ایک کر دینے والا ایک خوش مزاج بانکا تھا جو سارا دن تو زایس اور شاٹ کی فیکٹریوں میں دو پیسے کمانے کے لئے اپنی تکنیکی تصویروں کے ساتھ مشغول رہتا اور رات کا پہر دو پہر بس نیند کے حملوں سے نبرد آزما رہنے میں گزار دیتا۔ میرے ذہن میں تو وہ خوش نصیب لمحہ تھا جب مجھے اس کا دوسرا روپ دیکھنے کا موقع ملا۔
ایک دن وہ مجھے اپنی مخصوص گوشۂ تنہائی میں لے گیا، ایک مخدوش سا چوبارہ جہاں ساری جگہ بس پلنگ ، میز، کرسی اور نقاش تپائی نے ہی گھیر رکھی تھی۔میری طرف بے توجہی سے ایک ایسی خاکہ کشی کی کتاب پھینکنے کے بعد جو بس عام سے فطری مناظر،انسانی شبیہوں اور عمارتوں پر مشتمل تھی، اس نے ایک پردہ سرکایا جس کے پیچھے چنی ہوئی سفید دیوار پر ایک بہت بڑا کینوس نظر آ رہا تھا۔میری آنکھوں کے سامنے اس کی زندگی کی محنت تھی، بلاشبہ وہ خود کو جتنا بھی صرف کر سکتا تھا۔ نوکیلے پہاڑوں کے خدوخال کے عقب میں موجود ایک سرخ آسمان کے مقابل دو پہلوان اپنی آخری سانس تک کشتی میں مشغول تھے۔ دیومالائی قوت و جسامت والے دو برہنہ آدمی جو گنبد افلاک کو اپنے شعلہ آگیں غیظ و غضب سے بھڑکائے دے رہے تھے۔زمین اپنی آب و تاب میں آسمان کو چُھو رہی تھی اور لڑنے والوں کے اعضاء ایک ایسے کرّے پر پھیل رہے تھے جو محور سے کٹ کر دو حصوں میں جدا ہوتا محسوس ہوتا تھا۔ اب یاد آتا ہے کہ اس منظر نے مجھے کتنا متاثر کیا تھا لیکن ایوان ساووف بول پڑا: ’’جوسن یہ سب کچھ غلط ہے! یہ سرخ رنگ شعلہ آتشیں ہونا چاہئے، صبح کی سرخی ۔۔۔‘‘
صرف میں ہی جانتا ہوں کہ ساووف نے اس رنگ کے لئے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے۔ اُس کی اذیت آسیبی تھی، غیرمعقول اور ناامید کر دینے والی۔ وہ اپنے حقیر سے تختۂ مصوری سے اس قسم کا سرخ رنگ تخلیق نہیں کر سکتا تھا اور باالآخر ایک دن اس نے مجھے کہہ ہی دیا کہ وہ اپنے وطن بلغاریہ میں ایک اور طلوعِ سحر دیکھے بغیر اس تصویر کو مزید ہاتھ نہیں لگا پائے گا۔ انہی گرمیوں میں جنگ شروع ہو گئی ۔میں نے خود کو اپنے دوست اور اُس کی اُس نامکمل تصویر سے جدا کیا جو یک لخت تقدیر کی لکھی ایک زمانی علامت میں ڈھل چکی تھی ۔۔۔او راب۔۔۔
چار دن بعد اُس سے دوبارہ ملا قات یوں ہوئی کہ میں ایک سرویائی گاؤں کے آگے نصب حفاظتی چوکی پر کھڑا تھا جب دو بلغاری افسران اپنے گھوڑوں پر سامنے سے آتے دکھائی دئیے۔ وہ ایک دوسرے کے پہلو میں سست رفتار دُلکی چال سے ہم رکاب تھے اور ایک کا بازو دوسرے کے کاندھوں پر تھا۔ ان کے سامنے سے گزرنے کے بعد ہی میں نے ایوان ساووف کو پہچانا۔ اسی صبح جب ہم ایک نامعلوم منزل یعنی آمسل کے معرکے کے لئے نکل رہے تھے تو میں نے اسے دوبارہ دیکھا لیکن کچھ نہیں بولا۔
پیش قدمی کا نقارہ بجتے ہی میرا دل بلیّوں اچھلنے لگا۔ ہم ایک پہاڑی کی چوٹی پر قبضہ کر چکے تھے اور ہمارے مقابل وادی کی دوسری جانب سرویائی تھے۔ سنگینیں چڑھاتے ہوئے دشمن کی گامزن گولیاں پرندوں کی طرح ہمارے اوپر سے گزر رہی تھیں کہ اچانک کمان دار کا حکم ہمارے کانوں میں گونجا،’’حملہ!‘‘۔ چلّاتے ہوئے حملے کے لئے بڑھے تو سیٹیاں بجاتی گولیاں ہمارے آس پاس سے گزر رہی تھیں۔ پہاڑوں کے نام کون جانتا تھا، بس اتنا ہی معلوم تھا کہ بلغاریہ اور مقدونیہ ہمارے بائیں جانب ہیں، مونٹی نیگرو دائیں اور دشمن شمال کی سمت میں ہے۔ مکئی کے ایک کھیت کو چیرتے، بھوسے اور جھاڑیوں کو قدموں تلے روندتے ہوئے ایک وادی سے گزرنے کے بعد اب ہم ایک چڑھائی چڑھ رہے تھے۔ اسی اثناء میں سرویائی ٹوپیوں والے دو جوانوں نے ہینڈ گرینیڈ پھینکے جن میں سے ایک ہمارے ایک ساتھی کو لگا ، لیکن بہرحال ہم نے پہاڑی پر قابض ہوتے ہوئے سرویائی جوانوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ آگے بڑھتے ہوئے لگاتار فائرنگ جاری تھی ، زمین مسلسل لرز رہی تھی اور ہم لڑکھڑاتے ہوئے خالی مورچوں کے درمیان سے گزر رہے تھے۔ایک جوان رک کر روٹی یا تمباکو کی تلاش میں ایک مردہ سرویائی کا رسدی تھیلا علیحدہ کرنے لگا۔ آخر کار ہم دوسری پہاڑی تک پہنچ گئے جہاں بھورے سبز سرویائیوں کا ایک لشکر ڈھلوان سے چپکا نظر آ ر ہاتھا۔ اسی جگہ دشمن سے تقریباً تین سو گز پہلے ہمارا رستہ ایک پتھریلی دیوار نے روکا۔حکم ملا کہ اس کے سامنے پوزیشن لیتے ہوئے فائرنگ جاری رکھیں۔دشمن بے تحاشہ فائر کر رہا تھا ، گولیوں کی بوچھاڑ پتھروں کو توڑ رہی تھی اور ہمارے قدموں تلے موجود خود رو جھاڑیوں کے چیتھڑے اڑا رہی تھی۔ ایک دفعہ پھر حملے کا حکم ملا تو ہم ایک وحشیانہ مسرت کے ساتھ جست لگا کر آگے بڑھے۔ سرویائی قطاریں افراتفری کا شکار ہو کر ٹوٹ گئیں،باریش اجنبی چہرے اپنی ٹوٹی پھوٹی ناکارہ بندوقوں کے ساتھ ہمارے ارد گرد موجود تھے۔ نقل و حمل دستے کے سپاہیوں نے قیدیوں کو نرغے میں لے لیا جب کہ ہم فرار ہوتے دشمن کے تعاقب میں دریا تک جا پہنچے۔
اس دن ہم نے سات پہاڑیوں پر پیش قدمی کی۔ ساعتیں شمار کرنے کا موقع کہاں تھا، نہ اماں ابا کا کوئی خیال، شام ڈھلے ہی ہم پر کُھلا کہ ہم کہاں پہنچ چکے ہیں۔یہ ایک اونچی پتھریلی پہاڑی تھی جس پر کسی قسم کی کوئی آڑ موجود نہیں تھی۔ ہمارے مقابل پہاڑی کے پیچھے، افق پر سرویائی فوجیوں کے محفوظ دستے موجود تھے۔ وہ اب بھی مسلسل فائر کررہے تھے لیکن جیت ہماری ہی تھی۔ اب پہلی بار ہمارے افسروں نے نقشے نکالے اور یہ معلوم ہوا کہ ہم احکامات میں دی گئی مطلوبہ سرحد سے آگے نکل آئے ہیں۔لہٰذا ہم نے ایک گھنٹہ واپسی کا سفر کیا اور خیمہ زن ہو گئے۔
اب یہ معلوم ہوا کہ ہم ایک افسر پیچھے بھول آئے ہیں۔ جب ہم اس اونچی پہاڑی کی ڈھلوان پر لیٹے تھے تو کمپنی نمبر ۲ کا کماندار ،نوجوان کپتان ’پی‘صرف ایک جوان کے ہمراہ اس مقصد سے ہاتھوں پیروں کے بل چلتا ہوا وادی میں داخل ہوا تھا کہ ایک ایسی بارودی چرخی پر قبضہ کر لے جس کی مدد سے دشمن مسلسل فائر کر رہا تھا۔شام ڈھلے واپس لوٹتے ہوئے ہم اس بہادر سپاہی کو بھول آئے تھے، لہٰذا کرنل نے کپتان کو واپس لانے کے لئے رضاکار طلب کئے۔ اچانک بجلی سی کوند گئی، جوان اُچک اُچک کر خود کو پیش کر رہے تھے، میں نے دیکھا کہ ایوان ساووف اس پارٹی کی کمان کے لئے خود کو پیش کر رہا تھا اور تھوڑی پس و پیش کے بعد کرنل نے آخر کار اس کی بات مان لی۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہتے ہوئے اس ساکت و پُراسرار رات میں نکل پڑے۔
ایوان ساووف راستے سے خوب واقف تھا اسی لئے اس نے خود کو راہنمائی کے لئے پیش کیا تھا۔ میں جلد ہی باقی ساتھیوں کے بیچ سے گزرتا ہوا اس کے بازو میں پہنچ گیا۔میں نے ابھی ’’جینا، جوسن،‘‘ ہی کہا تھا کہ اس نے اپنی گہری کھنکھارتی آواز میں قہقہہ لگایا اور ہم ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔ رات کی تاریکی میں دور دور سے لپکتی گولیوں کی جھنکارسنائی دے رہی تھی۔ میں اسے چار ہفتے قبل فرانس کے ایک معرکے میں کام آ جانے والے اپنے بھائی کے متعلق بتاتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ اب اس ملک میں وہی میرا بھائی ہے۔ ہم ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے ،آہستگی سے دھند کی ایک سرنگ میں نشیب و فراز طے کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے، جب گئے دنوں کی طرح ایک بار پھر تفلسف آمیز گپ شپ شروع ہو گئی ۔ اُس تصویر ، ان دو پہلوانوں اور شعلہ آگیں آسمان کا ذکر چھڑ گیا۔ ’’میں نے اب تک اسے پینٹ نہیں کیا،‘‘ اس نے میرے ہمراہ ایک ہیولا نما اونچائی طے کرتے ہوئے سرگوشی کی۔۔۔’’جنگ کے بعد ہم ایک بار پھر اکٹھے ہوں گے، جینا، میونخ یا صوفیہ میں۔‘‘
اچانک پتہ چلا کہ ہم ایک غلط پگڈنڈی پر ہیں۔ مکمل ابر آلود آسمان سے ہمیں ذرا سی روشنی بھی میسر نہیں تھی اور جب ہم نے سمت نما کے مطابق چلنے کی کوشش کی تو پہاڑی نالوں اور کھائیوں تک تو پہنچے لیکن اس گہری وادی کا کوئی نشان نہ تھا جہاں بارودی چرخی نصب تھی۔ دشمن کے فائر کی گونج ہمیں اِدھر اُدھر بھٹکاتی رہی، دھند روشن ہوتی گئی ، یہاں تک کہ صبح کے تقریباً پانچ بجے ہمیں اپنے نیچے ا س منحوس سرویائی بارودی چرخی کے پہیے نظر آئے۔
دور اونچائی سے آتی سرویائی گولیوں کی مسلسل سیٹیوں تلے ، ہم بہت دھیان سےہاتھوں پیروں کے بل نیچے جانے لگے۔ عجیب بات تھی کہ چرخی جنگلی پہاڑی چشمے کےتیز دھارے کی قوت سے اب بھی چل رہی تھی۔ ہم رینگتے ہوئے قریب پہنچے ، کوئی حرکت تو نہیں تھی لیکن ہمیں پہیے کے نیچے ایک آدمی بیٹھا نظر آیا۔ اپنی بندوقوں سے حفاظتی قفل ہٹاتے ہوئے ہم نے اسے للکارا۔ وہ کمپنی نمبر ۲ کا حوالدار ’کے‘ تھا جس کے قدموں میں کپتان ’پی‘ پڑا تھا جو ران میں گولی لگنے کے باعث زیادہ خون بہہ جانے سے مر چکا تھا۔ لاش کی حفاظت کرتے جوان کو ہوش میں لانے میں کافی وقت لگا۔ پھر ہم نے ایک قبر کھودی اور مردہ آدمی کو اس طرح اُس میں لٹا دیا کہ چہرہ دشمن کی طرف تھا اور ٹانگیں شمال میں بنجر پہاڑ کی ڈھلوان کی جانب۔ زمین سخت اور پتھریلی تھی اور ہماری کدالیں چل رہی تھیں کہ صبح کاذب کی روشنی دکھائی دی۔قبر کے دامن میں صلیب نصب کرتے کرتے مردہ جوان کی ہیلمٹ ایک لطیف سی سرخی میں نہا گئی۔ ہمیں فوراً دوڑتے ہوئے آڑ لینی چاہئے تھی لیکن سورج ہم سے زیادہ طاقت ور تھا۔ وہ مشرق میں موجود دندانی پہاڑیوں کے عقب میں ہمارے خوابیدہ وطن بلغاریہ سے آہستگی سے ابھرا اور مقدونی پہاڑیوں کو اپنے سیلِ نُور میں بہا کر لے گیا۔ایبار اور موراوا کے بیچ صبح کی سرخ چمک نے ہم پرانے ، سخت جان سپاہیوں کو اپنے گھٹنوں پر گرا دیا۔
اسی لمحے میں نے ایوان ساووف کو عبادت کی سرشاری میں ڈوبے ہوئے ایک انسان کے رُوپ میں دیکھا۔ اُس کی تجسس سے لبریز آنکھوں پر ایک پردہ سا پڑا تھا، ایک ایسا پردہ جو نزدیک ہوتی موت کو آنکھوں سے اوجھل کر دے۔ وہ موت کو آتے نہیں دیکھ سکتا تھا کہ اس لمحے موت اس کے لیے قطعی نامانوس تھی۔ لیکن میں، اس کا دوست، موت کو بخوبی دیکھ رہا تھا ۔۔۔ایوان ساووف اوپر اٹھا تو چہرہ اُس کے وطن کی جانب تھا۔ صبح کی کرب انگیز ، پرسکون سرخی دیکھتے ہوئے وہ میری جانب مڑا اور کہا:’’تم نے دن نکلتے دیکھا۔ یہ ہوتا ہے سرخ۔۔۔‘‘ اسی لمحے پہاڑی کے بالائی کنارے سے ایک گولی آ کر اسے لگی۔ میں نے اس کے لبوں پر ایک متکبرانہ سی مسکراہٹ دیکھی لیکن گولی اس کا دل چیر چکی تھی۔ اس نے صبح کی سرخی میں اپنا وطن دیکھ لیا تھا۔ کاش وہ اسے پینٹ بھی کر سکتا۔۔۔!
تو اب ہمیں ایک اور قبر کھودنا تھی ۔ لیکن ہم نے ایوان ساووف کو جرمن افسر کے بازو میں ہی دفنا دیا، چند قد م مشترکہ زمین پر موجود دو فوجی کامریڈوں کے بیچ سرحدوں کی ضرورت بھی کیا تھی۔ جرمن قبر کی مٹی ہی بلغاری سینے پر گر رہی تھی سو ہم نے ان کے ہاتھ ایک دوسرے میں تھما دئیے۔ جب ہم صبح کی سرخی میں واپس لوٹ رہے تھے تو مکمل سکوت تھا ۔آخری گولی چل چکی تھی۔
***

ترجمہ: عاصم بخشی

ہفتہ، 10 دسمبر، 2016

نوآبادیاتی نظام میں پسماندہ اقوام کا نفسیاتی استحصال


تحریر: ہمایوں احتشام
 افریقہ پہ یورپی نوآبادیات کی تاریخ کا آغاز تیرہویں صدی عیسوی سے شروع ہوتا ہے، جب پرتگالی اور ہسپانوی سامراج نے دنیا کی تقسیم پر سمجھوتہ کیا اور اس سمجھوتے کو پایہِ تکمیل تک پہنچانے میں اہم ترین کردار پاپائے روم نے ادا کیا.

ہسپانوی سامراج نے مغرب کی طرف نوآبادیاں بنانے کی راہ اختیار کی اور پرتگال نے جنوب کا راستہ پکڑا. ہسپانیہ نے لاکھوں سرخ ہندی لوگوں کا قتلِ عام کرکے اپنی سلطنت قائم کی تو پرتگال بھی پیچھے نہیں رہا. اس نے مغربی افریقہ کے ساحلی ملکوں انگولا، گنی، گنی بساؤ، گولڈ کوسٹ، سیرالیون، سلطنتِ مالی اور جزائر کیپ ورڈی اور ساؤ ٹوم پرنسائپ پہ قبضہ کرلیا، لیکن یہ کہانی ابھی مغربی افریقہ اور پرتگال کی ہے. مشرقی افریقہ میں پرتگال نے عدن، موزمبیق اور سوازی لینڈ پہ قبضہ کرلیا.

ادھر پرتگال کی بے مثال کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے دوسرے یورپی سامراجی ملک شہد کی مکھیوں کی طرح سونے کی چڑیا براعظم کی طرف لپکے. شمالی اور وسطی افریقہ، فرانسیسی تسلط میں چلے گئے تو جنوبی افریقہ، رہوڈایشیا اور نمیبیا برطانوی سامراج کے پنجے میں. اٹلی نے ایتھوپیا ہتھیا لیا اور بیلجیم کانگو پہ قابض ہوا. سترویں صدی تک افریقہ کی ایک انچ زمین بھی ایسی نہ تھی جو سامراجی قبضے سے آزاد ہو. لوگوں کی زمینوں پہ قابض ہونا، ان کی روایات کا مذاق اڑانا، جبراً مذہب تبدیل کرنا اور انہیں نام نہاد تہذیب سکھانا، یہ خداوند نے یورپیوں کو ڈیوٹی بخشی تھی. اور اس بات کا اعتراف ایک مشہور برطانوی وزیرِاعظم نے بھی کیا.

اسی مذہب تبدیلی پہ ایک گم نام پہاڑی ڈھلوان پہ بیٹھنے والے شاعر نے نوحہ لکھا: "جب یہ گورے افریقہ آئے تو ان کے پاس بائبل تھی اور ہمارے پاس زمینیں، مگر پھر ہم نے آنکھیں بند کر کے بائبل سیکھی تو آنکھیں کے کھلنے پہ بائبل ہمارے ہاتھوں میں تھی اور زمینیں ان کے پاس".

الجزائر کے دس لاکھ لوگوں کا قتلِ عام ہو یا انگولہ میں دیسی باشندوں کے ہونٹوں میں سوراخ کرکے تالے لگانا یا کانگو میں باغیوں کے ہاتھ کاٹ دینا، سامراج نے وطن پرست سامراج مخالفوں اور شک زدہ لوگوں پہ اپنے تشدد کو جاری و ساری رکھا.
ملک غلام ہوگیا، سامراج فاتح ہوا. اس قبضے کے خلاف دیسی نوآبادیاتی لوگوں نے شدید مزاحمت دکھائی، مگر جب اپنا بااثر طبقہ غدار ہو، عددی کمی ہو اور بہتر ہتھیاروں کی عدم دستیابی ہو تو شکست مقدر بنتی ہے. سو افریقی لوگ ایک طویل، پُرتکلیف اور ظالم غلامی کی گود میں جا پڑے.

برازیل پرتگالیوں نے دریافت کیا تو وہاں مزدوروں کی کمی تھی. اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بیس لاکھ دیسی افریقیوں کو مغربی افریقہ سے جہازوں میں بھرا اور برازیل کی طرف کوچ کیا. راستے کی صعوبتیں، بھوک، پیاس، فاقہ، بیماری نے چھ لاکھ افریقیوں کو درانِ راستہ موت کے گھاٹ اتار دیا. افریقہ غلام تھا.

یورپ فاتح ہوا. غلامی کا شکار. پہلی نسل پر نوآبادیاتی مشنری نے کام شروع کردیا. پہلے سے موجود جاگیردار طبقہ سامراج کی گماشتگی کرتا تھا، اور اپنے ہی لوگوں کے خلاف سامراج کے دفاع میں طاقت کا استعمال کرتا تھا. ایک نوزائیدہ بورژوازی تشکیل دی گئی جو سامراج اور استعمار کی ہی حاشیہ بردار تھی. یہ تارریخ میں کسی انقلابی کردار کو ادا کرنے سے بھی قاصر تھی. ان حالات میں درمیانہ طبقہ بھی کچھ حد تک استعمار کا کاسہ لیس بن گیا. مگر مزدور کسان اور پسماندہ طبقات ابھی تک سامراج مخالف ہی تھے، کیوں کہ ان کے لیے سامراج کی بربریت مکمل برہنہ تھی. یہ لوگ سامراج اور جاگیردار دونوں کا ظلم سہتے. بے تحاشا ظلم اور ڈر اور خوف نے ان دیسی لوگوں کو کام چور، ڈھیٹ اور کاہل بنا دیا. جیسا کہ عام زندگی میں ہوتا ہے کہ جس بچے پر بہت زیادہ تشدد کیا جائے وہ ڈھیٹ ہوجاتا ہے.

لیکن ابھی یہ دیسی باشندہ انسانیت کی آخری سیڑھی یعنی غلامی پہ براجمان تھا. سامراج نے تو ابھی اسے مزید ابتر حالاتِ زندگی سے دوچار کرنا تھا. سو مسلح فوجیوں کو گاؤں میں بھیجا جاتا، جہاں ان دیسی کسانوں سے زبردستی کام لیا جاتا، ان کی خواتین سے چھیڑ چھاڑ کی جاتی، جو شخص ایسا کچھ برداشت نہیں کرتا اور علم بغاوت بلند کرتا اس کے لہو سے زمین رنگین ہو جاتی. مگر جو ایسا کچھ برداشت کر لیتا تو اس کے اندر کا انسان مر جاتا ہے. یہ شرمسار انسان اپنے اندر کے انسان کی تدفین کرکے ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ انسان اور حیوان کے درمیان کی مخلوق ہوتا ہے. ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے تقریباً ہر باشندے کی ذہنی صلاحیت ایسی ہی ہوتی ہے. ان لوگوں میں یورپ اور گورے کے خلاف شدید نفرت ہوتی ہے.

دوسری نسل آغازِ زندگی سے ہی اپنے والدین کو تشدد اور خوف کے زیرِ اثر دیکھتی ہے، ان پر کم عمری سے ہی تشدد شروع ہوجاتا ہے. ان میں سامراج سے نفرت بے تحاشا ہوتی ہے مگر وہ ڈرپوکی کی وجہ سے اس کا اظہار نہیں کرتے اور یہ ہی نفرت انہیں اندر ہی اندر گھول کر رکھ دیتی ہے. اسی لیے نوآبادیات افریقہ اور ایشیا میں خودکشیوں کی شرح بہت زیادہ تھی.

شرمساری، ہر روز کے سامراجی ٹٹوؤں کے ہاتھوں بیعزتی، یہ تمام چیزیں اس کے ضمیر کی آواز بن جاتے ہیں. یہ ضمیر کی آواز اسے کچوکے لگاتی ہے، طعنے دیتی ہے اور اسے پریشان رکھتی ہے. ان سے چھٹکارے کے لیے وہ مذہب کی طرف آتا ہے. پادری، مولوی، پنڈت اسے، "ہر چیز خدا کی طرف سے ہے" کا دلاسہ دے کر رخصت کر دیتے ہیں. اب اس میں سے سب اچھا ہے کی بھی صدا آنے لگتی ہے، لیکن ضمیر بھی سراسر اس کی کم ہمتی اور خوف سے بھرپور شرمسار زندگی پر تذلیل کرتا رہتا ہے، اور یہ دیسی باشندہ اب ذہنی شعور کے دو مدارج میں تقسیم ہوجاتا ہے: وہ زہنی طور پر اتنا تندرست نہیں رہتا، پھر یورپی ڈھونگی ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر بکواس کرتے ہیں کہ "افریقیوں کے ذہن کا ڈھانچہ کچھ ٹھیک نہیں، وہ اپنے ذہن کے گوشوں کو استعمال نہیں کرتے".

اسی درانیے میں سامراج کے گماشتے دانش ور منظرِعام پہ آتے ہیں. یہ سب اچھا ہے اور سامراج اور گورے آقاؤں کی قصیدہ گوئی کرتے ہیں. یہ دانش ور زیادہ تر درمیانے طبقے اور اعلیٰ طبقے سے ہوتے تھے. مزدور اور کسان ان سے شدید نفرت کرتے تھے،
کیوں کہ یہ استعمار کے وظیفہ خوار اور اس کے چمچے ہیں. اپنے اندرونی خوف کو مٹانے اور اندر کی خفت جو یہ سامراجی چمچوں کے ہاتھوں تذلیل کے بعد حاصل کرتے ہیں، کو ختم کرنے کے لیے یہ لڑتے ہیں. آپس میں خوف ناک قبائلی جنگیں لڑتے ہیں. یہ ذہنی انتشار اور تناؤ ہی ہوسکتا ہے کہ لوگ اصل دشمن کے مقابلے میں اپنے بھائی سے لڑتے ہیں.

سامراجی ان حالات میں بیٹھ کر مزے سے ساری صورت حال کا معائنہ کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ان کا لڑاؤ اور تقسیم کرو کا کلیہ کامیابی سے جاری و ساری ہے. دوسری نسل کے بعد تیسری نسل آتی ہے اس کا ذہنی شعور دوسری نسل سے زیادہ ہوتا ہے, اور بائیں بازو کے مارکسی لیننی نظریات ان کو جڑت کی بنیاد فراہم کرتے ہیں. یکساں نظریہ قبائلی مخالفتوں کے باوجود نوجوان طبقے کو جوڑ کر ایک کرتا ہے. یہ دیسی انسان جو جانور اور انسان کے درمیان کی پیڑھی پہ کھڑا ہوتا ہے، یہ اپنی تکمیل چاہتا ہے. اور اسی تکمیل کے حصول کے لیے وہ گورے کو قتل کرتا ہے. اس حالت میں وہاں اگر ایک انسان مرتا ہے تو دوسرے کی تکمیل ہوتی ہے، وہ سمجھتا ہے کہ وہ غلامی سے آزاد ہوگیا ہے. تیسری نسل تشدد کا راستہ اختیار کرتی ہے. وہی تشدد جس کے سہارے سامراج نے وطن پہ قبضہ کیا. تیسری نسل اسی تشدد کو ہی سامراج کو نکال باہر کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے. فینن کہتا ہے، " تیسری دنیا میں سب سے زیادہ انقلابی طبقہ بے زمین کسان ہوتے ہیں. اس کی وجہ یہ کہ ان کا ننگا استحصال ہوتا ہے."

دیسی باشندے کی تکمیل اس دن ہوتی ہے جس دن وہ دھکے دے کر سامراجی، استعماری ایجینٹوں اور گماشتوں کو اپنی زمین سے نکال باہر کرتا ہے. تیسری نسل کی جدوجہد اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک کہ وطن سامراج کے چنگل سے مکمل آزاد نہ ہوجائے.

مگر جدوجہد کا اختتام یہاں ہی نہیں ہوتا. اگر اس قومی انقلاب کی قیادت مزدوروں اور کسانوں کے ہاتھ میں رہے یا ان کی اپنی پارٹیوں کے ہاتھ میں تو یہ اشتراکی انقلاب ہوتا ہے جو ردِ سامراج، ردِ استحصال اور ردِ سرمایہ داری، مظلوموں کے اتحاد کا پیش خیمہ ہوتا ہے. لیکن اگر یہ ہی انقلاب بورژوازی یا جاگیرداروں کے ہاتھ چڑھ جائے تو وطن دوبارہ سے سامراج کی غلامی یعنی سامراج کے گماشتوں کے ہاتھ لگ جاتا ہے اور دوبارہ استحصال کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع…..
بشکریہ: حال حوال

جمعرات، 8 دسمبر، 2016

پاک افغان خطے میں دہشت گردوں کی شرح بلند ترین سطح پہ



واشنگٹن: افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل جان نکولسن نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا بھر میں دہشت گرد گروپوں کی بلند ترین شرح پاک افغان خطے میں ہے۔افغانستان میں امریکی فوج کے سالانہ جائزے کے مطابق رواں برس افغانستان میں امریکی فوج کو سابق وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کو عسکریت پسندوں سے بازیاب کرانے اور پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر 16 دسمبر 2014 کو ہونے والے حملوں میں ملوث ملزمان کو ہلاک کرنے جیسی کامیابیاں ملیں۔امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون میں سالانہ جائزے پر بریفنگ دیتے ہوئے جنرل نکولسن نے کہا کہ دنیا بھر میں 98 دہشت گرد گروپ موجود ہیں جن میں سے 20 گروپ پاک افغان خطے میں ہیں اور یہ اعداد و شمار دنیا بھر میں دہشت گرد گروپوں کی بلند ترین نمائندگی کو بیان کرتے ہیں۔افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر کا کہنا تھا کہ خطے میں موجود 20 دہشت گرد گروپوں میں سے 13 افغانستان جب کہ 7 گروپ پاکستان میں موجود ہیں، ان میں سے زیادہ تر گروپ مشترکہ کارروائیاں کرنے کی وجہ سے خطرناک ترین بن چکے ہیں۔جنرل نکولسن نے مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسلامک اسٹیٹ آف خراسان کی تشکیل کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان اور افغان طالبان کے کچھ سابق ارکان نے مل کر کی۔انھوں نے اپنی بریفنگ میں مزید بتایا کہ سال 2016 میں امریکی فوج کے محکمہ انسداد دہشت گردی نے القاعدہ اور داعش کے خلاف350آپریشن کیے جب کہ دیگر گروپوں کے خلاف بھی درجنوں آپریشن کیے گئے۔جنرل جان نکولسن کے مطابق امریکی فوج نے آپریشنز کے دوران القاعدہ برصغیر کے 50 رہنماؤں کو ہلاک اور گرفتار کیا جب کہ القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے بھی 200 کمانڈرز کو ہلاک اور گرفتار کیا گیا۔
جنرل نکولسن نے مزید بتایا کہ امریکی انسداد دہشت گردی فورس نے مشرقی افغانستان میں کارروائی کرکے پاکستان کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو بازیاب کراتے ہوئے 5 امیروں سمیت 20 دہشت گردوں کو ہلاک کیا، آپریشن میں اسلامک جہاد یونین کے امیر حامد اللہ اور طارق گیڈر گروپ کے امیر عمر خلیفہ کو بھی ہلاک کیا گیا۔ جنرل نکولسن نے پینٹاگون کو بتایا کہ رواں برس 23 اکتوبر کو امریکی فوج نے مشرقی افغانستان میں کارروائی کرکے القاعدہ اسلامک اسٹیٹ کے امیر فاروق القطری کو ہلاک کیا، قطری القاعدہ اسلامک اسٹیٹ کے بیرونی آپریشنز کے ڈائریکٹر بھی تھے جب کہ قطری اور اس کے ساتھی امریکا میں دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی میں بھی ملوث تھے۔امریکی فوج کے سربراہ نے بتایا کہ امریکی فوجیوں نے آپریشنز کے ذریعے ملا منصور کو بھی ہلاک کیا۔ایک سوال کے جواب میں جنرل نکولسن کا کہنا تھا کہ حقانی نیٹ ورک تاحال امریکا، اس کے اتحادیوں اور افغانستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔جنرل جان نکولسن نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک کے پاس اس وقت بھی 5 امریکی شہری یرغمال ہیں اور اس نے پاکستان میں محفوظ ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں۔

بدھ، 30 نومبر، 2016

افغان طالبان کی آپسی اختلاف



افغان طالبان کو نقد رقوم کی شدیدقلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ ان کی مالی مدد کرنے والوں نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے ہیں۔ کئی طالبان لیڈروں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ایک ایسی تحریک کی مالی مدد کرنے میں ہچکچا رہے ہیں جن کا نشانہ غیر ملکی فورسز کی بجائے عام شہری بن رہے ہیں۔گارڈین میں شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ میں طالبان دورکے ایک اہم سفارت کار مولانا رحیم اللہ کاکازادہ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ پچھلےسال میدان جنگ میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود طالبان کے لیے سرمائے کے حصول میں مشکلا ت بڑھ رہی ہیں۔انہوں نے اخبار کو اپنے انٹرویو میں بتایا کہ اب لوگوں میں ہماری جنگ غیر مقبول ہوتی جا رہی ہے کیونکہ عام شہریوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے ہماری شہرت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔نقد عطیات دینے والے یہ نہیں چاہتے کہ ان کی رقم بچوں کو مارنے پر خرچ ہو۔طالبان کو طویل عرصے سے افغانستان اور خلیجی علاقوں کے کاروباری اور مال دار افراد سمیت خطے میں اپنے حامیوں سے عطیات ملتے رہے ہیں۔لیکن اب ان کے پاس سرمائے کی اتنی کمی ہوچکی ہے کہ ان کے شدید زخمی جنگجوؤں کا پاکستان کے پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج نہیں ہو پا رہا۔کیونکہ وہ اپنے بل چکانے کے قابل نہیں رہے۔کاکازادہ نے اخبار کو بتایا کہ 2014 میں افغانستان سے زیادہ تر غیرملکی فوجیوں کی واپسی اور طالبان دھڑوں میں خونی جھڑپوں سے ان کی طاقت میں کمی آئی ہے۔اگرچہ کاکازادہ طالبان کی پندرہ سالہ جدوجہد کا حصہ نہیں رہے لیکن اخبار کا کہنا ہے کہ وہ متحرک طالبان لیڈروں کے بہت قریب ہیں۔طالبان کے ایک سینیئر لیڈر نے گارڈین کو بتایا کہ عطیات میں شدید کمی پچھلے سال جولائی میں یہ خبریں منظر عام پر آنے کے بعد ہوئی کہ طالبان کے سربراہ ملا عمر کا انتقال دو سال پہلے ہوگیا تھا۔ان کے بعد طالبان کی قیادت سنبھالنے والے ملا اختر منصور کی امریکی ڈروں حملے میں ہلاکت کے بعد تحریک لیے فنڈز اکھٹے کرنا مزید دشوار ہوگیا کیونکہ ملا منصور کے کئی کاروباری افراد سے براہ راست تعلقات تھے اور وہ انہیں عطیات دیتے تھے۔طالبان کی آمدنی کا ایک اور بڑا ذریعہ ملک کے جنوب میں اپنے کنڑول کے علاقوں پر ٹیکس، خاص طور پر پوست اور افیون کی آمدنی پر ٹیکس تھا۔ لیکن اندرونی رسہ کشی سے اس آمدنی کو بھی نقصان پہنچا ہے۔باہمی اختلافات کی وجہ سے ہلمند میں طالبان کمانڈر ملا منصور کی کوئٹہ شوری کو جو رقوم بھیجتے تھے ، وہ انہوں نے ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کو دینے سے انکار کر دیا۔طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ ہلمند کے فوجی کونسل کے کمانڈر ملا ابراہیم صدر نے اخوند زادہ سے کہا ہے وہ پاکستان سے ہلمند منتقل ہوجائیں۔اخوندزادہ کے حوالے سے اخبار نے لکھا ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ سینیئر راہنماؤں میں اس بارے میں اتفاق پایا جاتا ہے کہ انہیں افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہیئں۔ البتہ میدان جنگ میں لڑنے والے کئی جنگجو اس سے اتفاق نہیں کرتے۔طالبان کا کہنا ہے کہ قندوز جیسی کامیابیاں ان کی مدد نہیں کرسکتیں۔کیونکہ اس شہر پر صرف ایک ہفتے کے قبضے کے لیے انہیں ایک سال تک تیاری کرنی پڑی تھی جب کہ افغانستان کے 34 صوبے ہیں اور وہ ان پر قبضے کے 34 سال تک انتظار نہیں کرسکتے۔اس لیے ہمیں بات چیت کا ہی راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے اثر سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عزت و احترام حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ یہ تاثر نہ لیں کہ وہ کسی اور کے مفاد کے لیے مجبوراً مذاکرات پر آمادہ ہوئے ہیں۔پاکستان کے ساتھ طالبان کی برہمی کا اظہار پچھلے مہینے قطر میں طالبان کے دفتر کے سربراہ سید محمد طیب آغا کی جانب سے ملا اخوندزادہ کے نام خط کے انکشاف سے ہوتا ہے۔ خط میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ لڑائیوں میں نمایاں کمی کریں او ر پاکستان کی خفیہ ایجنسی سے اپنے رابطے ختم کریں اور انہیں پاکستان کی اپنی پناہ گاہیں چھوڑ دینی چاہیئں۔ریڈیو فری یورپ کے مطابق خط میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں رہ کر آپ کس طرح افغان عوام کی توقعات پوری کر سکتے ہیں۔تاہم ملا اخوندزادہ اس سے اتفاق نہیں کرتے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم پاکستان چھوڑ دیں تو ایک ہفتہ بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔