ہفتہ، 14 دسمبر، 2013

پارٹی میں تنقید کی اہمیت


ماؤزے تنگ

انقلابی پارٹی تنقید سے خوفزدہ نہیں ہوتی کیونکہ ہم مارکسی ہیں اور سچائی، عوام، مزدور اور ہاری ہمارے ساتھ ہیں۔ ایسے سائنسی انقلابی ہرخوف سے عاری ( نڈر ) ہوتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ جدوجہد کے میدان پرقائم ہمارے تمام ساتھی بہادری کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے اور بیشتر مشکلات پر قابو پالیں گے۔ وہ بغیر کسی گھبراہٹ اور بغیر پریشانی کے ہم پر تنقید کریں گے اور ہمیں تجاویز بھی دیں گے۔جوہزارزخموں کے باوجود موت سے نہیں ڈرتا ‘ وہی شہنشاہ کو ہاتھ سے پکڑ کر گھوڑے سے اتار سکتا ہے۔ انقلابی جدوجہد میں اسی ناقابل شکست جذبے کی ضرورت ہے ۔ہمارے پاس مارکسی‘ لیننی تنقید اور ذاتی تنقید کا ہتھیار ہے ۔ان کی مدد سے ہم غلطیوں سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں اور اچھے طریقہ کار استعمال کرسکتے ہیں ۔ذاتی تنقید پر عمل ہی ایک ایسی نمایاں چیز ہے جو ہماری پارٹی کو دیگر سیاسی پارٹیوں سے منفرد بناتی ہے۔جس طرح کسی کمرے کو اچھی طرح سے صاف نہ کیا جائے تو اس میں گند بھر جاتا ہے اسی طرح اگر ہم اپنے چہروں کو باقاعدگی سے دھوتے نہ رہیں تو وہ گندے ہوجاتے ہیں ۔ہمارے کامریڈوں کے اذہان اور ہماری پارٹی کے کام میں بھی گند جمع ہوسکتا ہے۔
اپنے کام کی باقاعدہ جانچ پڑتال کرنا اور اس عمل میں جمہوری طریقہ اپنانا‘ناہی تنقید اور ذاتی تنقید سے گھبرانا ’ہربات بنا کسی خوف کے کہہ دینا ‘غلطی کی نشاندہی کرنے والے کو الزام دینے کی بجائے اس کے کہے ہوئے الفاظ کا احترام کرنا‘ کوئی غلطی ہوئی ہو تو اسے درست کرنا اور اگر غلطی نہ ہوئی ہو تو بھی اس سے بچنے کی کوشش کرنا ‘یہی وہ موثر طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنے کارکنوں کے اذہان اور پارٹی کے بدن سے ہرقسم کے سیاسی جراثیم اور گندگی کو جمع ہونے سے روک سکتے ہیں ۔
پارٹی میں مخالف اور مختلف قسم کے خیالات کے مابین تکرار ہوتی رہتی ہے۔ یہ پارٹی کے اندر مختلف طبقہ ہائے فکر کے درمیان اور معاشرے میں نئے اور پرانے ( خیالات ) کے درمیان تضادات کا ایک عکس ہے۔ اگر پارٹی میں تضادات نہ ہوں اور انہیں حل کرنے کے لئے نظریاتی جدوجہد نہ ہو تو پارٹی کی جدوجہد ختم ہوجاتی ۔ ہم بھر پور نظریاتی جدوجہد کے حامی ہیں کیونکہ ہماری جدوجہد کے مفاد میں پارٹی اور انقلابی اداروں کے اندر اتحاد قائم کرنے کا یہی موثر ہتھیار ہے۔ ہر انقلابی کو اس ہتھیار سے لیس ہونا چاہئے۔ لیکن آزادخیالی نظریاتی جدوجہد کو رد کرتی ہے اور یہ بے اصول امن کی علمبردار ہے، جس سے ایک منفی نظریہ جنم لیتا ہے اور پارٹی کے اندر مختلف یونٹوں ،افراد اور انقلابی اداروں میں سیاسی تباہی اور بربادی کا باعث بنتی ہے۔ اندرونی گروپ بندی اور پارٹی میں انقلاب دشمن فکر کی مخالفت کرتے ہوئے ہمارے ذہن میں دومقصد ہونے چاہئیں ؛اول یہ کہ مستقبل میں غلطیوں سے بچنے کیلئے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور دوم یہ کہ مریض کو بچانے کیلئے اس کا علاج کریں۔ کسی کی مخالفت کا خیال کئے بغیر ماضی کی غلطیوں کا آئینہ دکھایا جائے ۔
ایک سیاسی نقطہ نظر کے تحت ماضی کی برائیوں کا تجزیہ اور احتساب ضروری ہے تاکہ مستقبل کا کام مزید احتیاط اور بہتر انداز میں کیا جاسکے ۔مستقبل میں غلطیوں سے بچنے کیلئے ماضی کی غلطیوں کو ظاہر کرنا اور اپنی خامیوں پر تنقید کرنے سے ہمارا مقصد ایک ڈاکٹر جیسا ہے جو مریض کو مارنے کی بجائے اسے صحت یاب کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور زخم اگر بڑھ جائیں تو اسے بچانے کیلئے اس کا آپریشن کرکے فالتو غدود نکال دیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص علاج کے خوف سے اپنی بیماری کو چھپا نا چھوڑ دے اور اس کا مرض لاعلاج نہ ہوچکا ہو تو ہمیں بھی اسے ایک اچھا کارکن بنانے کیلئے اس کا علاج کرنا چاہئے۔ اسے ( محض ) برا کہنے سے ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ کسی سیاسی نظریاتی بیماری کا علاج کرتے ہوئے ہمیں ایسے شخص پر غصہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ ایسے مریض کی جان بچانے کیلئے اس کا علاج کرنا چاہئے کہ یہی صحیح اور موثر طریقہ ہے ۔
پارٹی میں تنقید کے سلسلے میں ایک ضروری بات یہ ہے کہ کارکن تنقید کرتے وقت بڑے مسائل کو نظر انداز کرکے اکثر چھوٹے مسائل پر ساری توجہ خرچ کرتے ہیں ۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ تنقید کا بڑا مقصد سیاسی اور تنظیمی غلطیوں کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ جہاں تک ذاتی خامیوں کا تعلق ہے بشرطیکہ وہ سیاسی اور تنظیمی غلطیوں سے وابستہ نہ ہوں، ان پر ضرورت سے زیادہ تنقید کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔دوسری صورت میں ہمارے کامریڈ جھنجھٹ کا شکار ہوجائیں گے اور انہیں پتہ ہی نہیں چلے گا کہ وہ کیا کریں۔ اس کے علاوہ اگر ایک بار اس قسم کی نکتہ چینی کا پارٹی کے اندررواج پڑگیا تو پھر چھوٹی چھوٹی باتوں پر زیادہ توجہ دینے کا چلن عام ہوجائے گا اور ہر کوئی ضرورت سے زیادہ محتاط ہوکر پارٹی کے سیاسی معاملات سے کنارہ کش ہوجائے گا ۔
پارٹی کے اندر تنقید کا معیار سطحی اور حاسدانہ نہیں ہوناچاہئے ۔ بات سچائی اور حقیقت پر مشتمل ہو اور تنقید زیادہ تر سیاسی پہلوؤں سے ہونی چاہئے ۔پارٹی کے اندر تنقید ایک ایسا ہتھیار ہے جو پارٹی کی تنظیم سازی کو منظم کرتا ہے اور اس سے جنگی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ سرخ فوج کی پارٹی تنظیم میں تنقید کی نوعیت ہمیشہ اس قسم کی نہیں ہوتی اور کبھی کبھار یہ ذاتی حملوں میں بدل جاتی ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی تنقید سے پارٹی کے علاوہ افراد( کی ساکھ ) کو بھی نقصان پہنچتا ہے ۔یہ چھوٹی سرمایہ دارانہ ذہنیت ہے۔ اس صورتحال کو اصلاح کے مطمع نظر سے پارٹی کے کارکنوں کو یہ سمجھانا ہے کہ تنقید کا مقصد طبقاتی جدوجہد میں فتح حاصل کرنے کیلئے پارٹی کی جدوجہد کی صلاحیت میں اضافہ کرنا ہے نہ کہ اسے ذاتی حملوں کے طور پر استعمال کرنا۔ ہمارے اندر اگر خامیاں ہیں تو ہمیں تنقید سے گھبرانا نہیں چاہئے کیونکہ ہمیں عوام کی خدمت کرنی ہے ۔خواہ کوئی بھی ہو‘ا سے ہماری خامیوں پر انگلی اٹھانے دیں ( اگر ) وہ صحیح کہتا ہے تو ہم اپنی خامیوں کو دور کریں گے، اگر اس کی تجاویز سے عوام کو فائدہ پہنچتا ہے تو ہمیں اس پر عمل کرنا پڑے گا۔

اتوار، 8 دسمبر، 2013

جنگ......تحریر, چی گویرا


جنگ،گوریلا زندگی کے عروج کا نقطہ ہے۔ ہر ایک جھڑپ چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو، گوریلا سپاہی کے لئے ایک گہرا جذباتی تجربہ رکھتی ہے۔
حملہ کا مقصد ہمیشہ فتح ہونا چاہئے۔ گوریلا کشمکش کے ابتدائی دور میں جب جنگ کا میدا ن ہموار اور قاعدہ کے مطابق نہیں ہوتا تو دشمن کے دستے باغی علاقوں میں کافی اندر تک چلے آتے ہیں۔اس سلسلے میں دشمن کے ہر اول دستے پر چھپ کر شکاری کی طرح حملہ کرنا اور اس کے اسلحہ،گولہ بارود اور دوسرے سازو سامان پر قبضہ کرنا کچھ مشکل کام نہیں ہے۔ اس دوران دشمن کی باقی اصل فوج کو وقتی طور پر مصروف رکھیں اور اسے بے بس کر دیں۔ اگر گوریلا فوج کی پوزیشن اچھی خاصی مضبوط ہے تو پھر پیش قدمی کرتی ہوئی پوری فوج کو گھیرے میں لیا جا سکتا ہے۔ اس بات کا یقین کر لینے کے بعد کہ پیش قدمی کرتے کرتے دشمن کیسامنے آپ کی فوج کے مورچے مضبوطی سے قائم ہیں ،پھر دشمن پر عقب سے حملہ کریں۔ اگر علاقہ موزوں ہے تو اس طریقے سے کام لیتے ہوئے اپنے سے دس گنا بڑی اور بہترین فوج کو بھی تباہ کیا جا سکتا ہے ۔لیکن اگر حالات ناموزوں ہوں تو پھر ’’ضرب لگاؤ اور بھاگ جاؤ‘‘ پر عمل کریں۔اس طرح اگرچہ آپ دشمن کے ساز و سامان پر تو قبضہ نہیں کر سکتے لیکن اس کے باوجود اسے اس قدر کمزور کر دیں کہ دوبارہ کسی مناسب حملہ میں اس کا خاتمہ ہو سکے۔
کسی باقاعدہ فوج یا اس کی پوزیشن پر حملہ کرتے وقت اس کی پیش چوکیوں کو منتخب کریں اور رات کے وقت ان پر غیر متوقع اور اچانک حملہ کریں اور دل لگاکر لڑ یں۔ اپنے فرار اور کمک کے راستوں کی حفاظت کریں ۔ 
دشمن کے اسلحہ اور جنگی سامان میں توپیں،مارٹر،ہوائی جہازاور ٹینک شامل ہوتے ہیں۔غیرموزوں اور غیرہموار علاقے میں ٹینک آزادانہ حرکت نہیں کر سکتے۔ اس لئے وہ زیادہ خطرناک نہیں ہوتے ہیں ۔بارود سرنگیں اور خفیہ گہرے کھڈے ان ٹینکوں کے خلاف بہترین ہتھیار ہیں ۔دوبدو لڑائی میں پیٹرول سے بھری بوتلیں جنہیں ہم مذاقاََ ’’مولوٹوف کی شراب‘‘ کہتے تھے، بہترین ہتھیار ہیں۔ (ہم یہاں گولہ داغنے والی بندوق کا ذکر کر رہے ہیں جو ان حالات میں بہترین ہتھیار ہے، لیکن گوریلا جنگ کے ابتدائی دور میں اس کااستعمال کچھ مشکل ہے) توپ خانے یا مارٹر سے گولہ باری ان دشمنوں کے خلاف پہلا حربہ ہے جو نرغے کی شکل میں جمع کئے گئے ہوں۔ لیکن وہ دشمن سپاہی جو گھیرے سے باہر نکل کر منتشر ہو جائیں ،زیر زمین پناہ گاہوں میں بیٹھے ہوں ، ان کے خلاف یہ حربہ موثر نہیں ہے۔ طاقت ور بموں اور نیپام بموں کے باوجود ہوئی جہاز گوریلا فوج کے لئے زیادہ خطرناک نہیں ہیں ،کیونکہ گوریلا چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم ہو کر منتشر ہوتے ہوئے دشمن کے بالکل قریب اور اپنے مورچوں میں ہوتے ہیں۔
دور سے کنٹرول کی جانے والی بارود سرنگیں زیادہ کارگر ہوسکتی ہیں۔لیکن ان کا بنانا ، تیار کرنا انتہائی بڑا پیشہ ورانہ فنی مہارت کا کام ہے جو گوریلوں کو اکثر دستیاب نہیں ہوتا ہے۔ دباؤ کے تحت پھٹنے والی بارود ی سرنگیں، فیوز والے بم اور برقی رو سے پھٹنے والی سرنگیں بہت کارآمد ہوتی ہیں۔ بالخصوص پہاڑی علاقوں میں جہاں دشمن ان کا پتہ آسانی سے نہیں لگا سکتا۔ ٹینکوں کو روکنے والے ، یہ اور اس طرح کے اور حربے دشمن کے خلاف بہت کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ان ہتھیاروں کے لئے جن کی حرکت ٹرکوں اورجیپوں کی محتاج ہو جبکہ وہ گاڑیاں رات کے وقت استعمال ہوتی ہوں۔ 
دشمن اکثر اپنی حرکت کے لئے کھلے ٹینک استعمال نہیں کرتا ہے ،جن کے آگے آرمڈ گاڑیاں چلتی ہیں۔ اس انداز سے سفر کرتے ہوئے دشمن کے سارے پلاٹون کو محاصرے میں رکھ کر اچھی طرح ملیامیٹ کیا جا سکتا ہے۔
اگر ہاتھ آ سکیں تو دستی بم اور سولہ گیج کا شاٹ گن جن کے بک شاٹ(Buck Shot) چلائے جائیں،جو اس مقصد کے لئے لاجواب ہیں۔ کامیاب حملہ کے بعد پھر گوریلا فوج کو دشمن کا سازو سامان جمع کر کے فوراََ فرار ہو جانا چاہئے۔
مدافعتی جنگ یا دشمن کا راستہ روکنے کے لئے اسے غیر متوقع حملوں سے اس قدر پریشان کریں کہ اسے آپ کے حفاظتی اقدامات اور ڈیفنس لائن کا پتہ بالکل چلنے نہ پائے اور نہ ہی وہ یہ جان سکے کہ کب اس پر حملہ ہوگا۔ علاقے کے کسان چونکہ راز نہیں رکھ سکتے اور وہ فوج سے خوف زدہ ہوتے ہیں نتیجتاََ ان میں سے کوئی دشمن کو آگاہ کر سکتا ہے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ رات کے وقت کام کیا جائے اور انتہائی قابلِ بھروسہ اور وفادار ساتھیوں کے علاوہ کسی بھی شخص پر اعتبار نہ کیا جائے۔ خوراک کا اچھا خاصا ذخیرہ ساتھ ہونا چاہئے جو کئی دنوں تک چل سکے۔ جس جگہ پر حملہ کرنا ہو،وہ گوریلا پڑاؤ سے کم از کم ایک دن کی مسافت پر ہونا چاہئے۔ کیونکہ دوسرے حالت میں دشمن کو آپ کے پڑاؤ کا پتہ چل جائے گا۔
جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ دشمن کی فائرنگ سے ہی اس کے متعلق اچھی طرح اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بھاری اسلحہ سے لیس شدہ سپاہی فطری طور پر بے تحاشا اور اکثر وبیشتر بغیر نشانہ لئے فائرنگ کریں گے ۔گوریلا فوج اسلحہ کی کمی کے باعث ایک گولی بھی فالتو نہیں چلائے گی ۔اس کے برعکس یہ بھی پاگل پن ہوگا کہ محاصرے میں یا بھٹک کر آئے دشمن کو صرف بارود بچانے کے بہانے پر چھوڑ دیا جائے یا نکلنے کا موقع دیا جائے۔ یہ فیصلہ پہلے ہی کر لینا چاہئے کہ اس طرح کے حالات میں کس قدر گولہ بارود کو ایک مکمل پابندی کے تحت خرچ کرنا چاہئے۔
کوئی بھی اچھا گوریلا کبھی اپنے دستے کی منظم اور باقاعدہ پسپائی سے غفلت نہیں کرتا۔ پسپائی مناسب وقت اور مدت کے اندر انتہائی تیزی کے ساتھ ہونی چاہئے۔ اور تمام زخمیوں معہ سازو سامان اورگولہ بارودکے لوٹنا چاہئے۔پسپا ہوتے وقت گوریلا فوج پر کسی متوقع حملہ یا دشمن کی طرف سے محاصرہ کئے جانے کی کوشش کے امکان کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ اس ضمن میں اِدھر سے اُدھر تک پیغامات پہنچانے کا انتظام ہونا چاہئے۔
لڑائی کے دوران کچھ افراد غیر مسلح رہیں اور باقاعدہ جنگ میں حصہ نہ لیں۔ ہر دس لڑاکا سپاہیوں کے ساتھ دو یا تین ایسے ہو ں جو مردہ ساتھیوں اور دشمن سپاہیوں کے اسلحہ پر قبضہ کرنے کاکام کریں ۔ قیدیوں کو اپنی حراست میں رکھنے، زخمیوں کو پیچھے لے جانے اور پیغا م پہنچانے کا کام سر انجام دیں۔
مدافعتی جنگ میں آپ کی اور دشمن کی پوزیشن اور جائے واردات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے باوجود غیر متوقع اقدامات کے ذریعے دشمن کو تنگ کرناانتہائی ضروری ہے۔ مورچے بنانے یا دوسرے دفاعی اقدامات اٹھاتے وقت اگر علاقے کے لوگ آپ کو دیکھ
لیں تو پھر ایسا معقول و مناسب بندوبست کیا جائے کہ وہ لوگ آپ کے اثر والے علاقے سے باہر نکل نہ سکیں۔دشمن کبھی کبھی گوریلوں کے زیر اثر علاقوں کی ناکہ بندی کر لیا کرتا ہے اور مقامی آبادی کو اپنی ضروریا ت کی چیزوں کے لئے دور دور کے علاقوں تک جانا پڑتا ہے۔ایسے حالا ت میں ’’جلا کر راکھ کر دو‘‘ کی حکمتِ عملی پر عمل کرنا لازمی ہے۔
ایک دفاعی حربہ یہ بھی ہے کہ آمدو رفت کے رستے وغیرہ اس طرح بنائے اور مٹائے جائیں کہ دشمن کا ہر اول دستہ آپ کے چھپے سپاہیوں کے قریب سے گزرے اور شکار ہوجائے۔ اس کا زبردست نفسیاتی اثر یہ ہوگا کہ دشمن کا کوئی بھی سپاہی ہر اول دستے میں شامل ہونے پر تیار نہ ہوگا اور فوج ہر اول دستے کے بغیر پیش قد می نہیں کر سکتی۔ اس کے علاوہ دشمن کو محاصرے میں لیا جا سکتا ہے۔ لیکن اطراف و اکناف کی تمام تر جگہوں پر توجہ دینا،ان پر نظر رکھنا لازمی ہے کہ جہاں سے دشمن فوج کا کوئی حصہ مڑ کر آگے بڑھ سکے اور آپ کے آگے یا سامنے سے گزر سکے۔ اپنی پوزیشن کے تحفظ کے لئے زیادہ آدمی استعمال نہ کئے جائیں اور سپاہیوں کو حکم دیا جائے کہ وہ آخری حکم تک اپنی پوزیشن نہ چھوڑیں۔
اردگرد کے دفاع کا جائزہ لینے والی خندق یا مورچے کو جتنا چھپایا جا سکے،بہتر ہے۔ اور مارٹر حملوں سے تحفظ کے لئے ان پر شیلٹر بنایا جائے۔عموماََا کثر استعمال ہونے والے مارٹر کے گولے جو 60یا65میٹر کے ہوتے ہیں ،وہ مورچوں اور خندقوں کے اوپر مٹی کے گارے اور پتھروں سے بنی مضبوط چھت کو پار نہیں کر سکتے۔ ہر مورچہ اور خندق کے اندر بھاگ جانے کے لئے ایک خفیہ راستہ ہونا لازمی
ہے۔
گوریلا طر ز کی فوج میں جنگ کے وقت کے علاوہ قلعہ بندی اور دفاعی قطاروں وغیرہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ بلکہ یوں سمجھنا چاہئے کہ علاقے پر دن کے وقت دشمن کا اور رات کے وقت گوریلوں کا راج ہوتا ہے۔ اسی علاقے سے رسد ،کمک اور دوسرا سامان گزر کر گوریلوں تک پہنچتا ہے۔ نئے رضاکار آتے ہیں ،وہ آس پاس کی اطلاعات وصول کرتے ہیں ۔اس لئے مقامی آبادی کے ساتھ خوشگوار اور اچھے تعلقات بنانا اور قائم رکھنا لازمی ہے۔ 
اس طرز کی جنگ میں ان لوگوں کا کام جو باقاعدہ لڑائی میں شریک نہیں ہوتے،بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دشمن کے روزانہ حالات کی سہی سہی خبر گوریلوں کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ دشمن کی جاسوسی کے لئے مقرر ہونے والے اشخاص کا انتخاب انتہائی احتیاط اور خبرداری سے کیا جائے ۔ اس میں دشمن کے جاسوسوں کا خطرہ بھی مستقل طور پرموجود رہتا ہے۔لیکن غلط اعلاعات چاہے وہ مبالغہ آمیزی کے باعث ہوں یا غلط فہمی کا نتیجہ ہوں ، بے حد خطرنا ک ہیں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ لڑائی میں شامل لوگ اپنی مشکلات اور خطرات کا ذکر بڑھا چڑھا کر کرتے ہیں۔لوگوں کو دشمن کی جاسوسی کرنے پر آمادہ کرنا اس قدر مشکل کام نہیں ہے ،جیسا کہ سمجھا جاتاہے۔
کاروباری لوگ،پیشہ ور افراد یہاں تک کہ مذہبی رہنما بھی اس سلسلے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔اور مطلوبہ اطلاعات دے سکتے ہیں۔
گوریلا جنگ کی عجیب خاصیت کا یہی فرق ہے جو دشمن کی حاصل کردہ اطلاعات اور گوریلا فوج کی حاصل کردہ اطلاعات میں ہوتا ہے۔
دشمن کے سپاہی جس علاقے سے گزرتے ہیں وہاں کے عوام ان کے خلاف ہوتے ہیں اور وہ ہربات میں خاموشی اختیار کرتے ہیں ۔باغی گوریلا فوج ان دوستوں اور رشتے داروں پر اعتماد کر سکتی ہے جو گوریلا علاقے اور دشمن کے علاقے کے درمیان سفر کرتے رہتے ہیں ۔لیکن جب دشمن درجہ ب درجہ آپ کے علاقے میں پیش قدمی کرتا آگے آئے تو پھر اس ضمن میں محتا ط رہنا چاہئے۔ اکثر مرد بھاگ کر گوریلا دستوں میں شامل ہو جائیں گے لیکن دشمن ان کی املاک اور بچوں پر قبضہ کرے گا۔ایسے لوگوں سے بہترین دوستانہ مراسم رکھیں ،ان کی مدد کریں چاہے اس کی نتیجے میں کوراک کی کمی کے مسائل یا اور مشکلات کیوں نہ حائل ہوں ۔ اس طرح وہ ہمیشہ دشمن کو قابلِ نفرت سمجھتے رہیں گے۔
گوریلا اپنی عددی قلت کے باعث ریزرو(Reserve)فوج نہیں رکھ سکتے،لیکن غیرمتوقع،ناقابلِ اعتبار مخالف حالات ،مشکل اور دشوار لمحات کے لئے ایک گوریلا ریزرو کا ہونا لازمی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ منتخب بہادر لوگوں پر مشتمل ایک خاص پلاٹون قائم کی جائے اور اس کا نام ’’جانبازوں کی پلاٹون‘‘ وغیرہ جیسارکھاجائے۔اور بہادری اور شجاعت کے لئے اس پلاٹون کی شہرت اور ساکھ اس طرح قائم کی جائے کہ اسے انتہائی مشکل مہمات پر بھیجا جائے۔