جمعہ، 6 مئی، 2016

عورت کی بلوچ معاشرے میں حیثیت کا جائزہ



عورت کی بلوچ معاشرے میں حیثیت کا جائزہ۔
تحریر : زرک میر 
گزشتہ دنوں کے ایک پوسٹ میں اس بات پر مختلف رائے سامنے آئیں کہ " بلوچ قبائلی جنگوں میں جب عورت کا میڑھ بھیجاجاتا ہے تواس کے پس منظر میں عوامل کیا ہوتے ہیں " میں نے موقف اختیارکیاتھا کہ جنگوں میں عمومی طورپر مرد حضرات جو سردار میر ٹکری اور سید وملاوغیرہ پرمشتمل ہوتی ہے اسے بھیجاجاتا ہے لیکن ان مردحضرات کے بعد اگر جنگ کا کوئی فریق اپنی طرف سے عورتوں کو میڑھ کے لئے بھیجے تو اس کو اس فریق کی جانب سے جنگ میں شکست کا پیغام ہی سمجھا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ اس پر مختلف رائے سامنے آئیں جس میں کچھ دوست تو اس تصور اور رواج سے ہی بے خبر نکلے کہ عورت کو بھی میڑھ کے لئے بھیجا جاتا ہے ،دوسری رائے یہ تھی کہ عورت کو میڑھ کے لئے بھیجاجاتا ہے لیکن اس میں شکست کے پہلو کی بجائے عزت وتکریم کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ان دوستوں نے لشکر کشی یا بعض اوقات مشتعل قبائلیوں کی جانب سے گھروں اور دیہات پرحملے کے لئے لشکر کشی کی جائے تواس کو روکنے کے لئے غیر متعلقہ قبائل کے مرد یا بعض اوقات عورتوں کو بھیجا کر جنگ بندی کی کوشش کروائی جاتی ہے۔اس بات میں بھی کوئی شک نہیں لیکن یہ رائے رکھنے والے دوستوں نے عورت کے میڑھ کو لشکر کشی یا دوبدو جنگ کو روکنے کے تناظر میں ہی لیا اور اس کو عورت کی عزت وتکریم کے طورپر پیش کیا۔۔۔۔۔۔ یہاں تک تو بات واضح ہوگئی کہ بلوچ قبائلی جنگوں میں عورت کو بطورمیڑھ بھیجاجاتا ہے اور اس کا تصور موجود ہے۔لیکن میرا موقف یہ ہے کہ میل کشی لشکر کشی اور گھروں پرحملوں کے مخصوص جنگوں کے علا?ہ عام جنگیں جس میں گھروں میں جنگ کرنے و الے کسی بھی حملے سے محفوظ تصور ہوتے ہیں لہٰذا بدلہ لینے والا فریق اس فریق کے گھر سے نکلنے کا انتظارکرتا ہے۔اس کی راہ تھکتا ہے‘ معلومات حاصل کرتا ہے دوسرے شہروں میں جاکر اس قبیلے کے افراد پر حملے کی کوشش کرتا ہے تو ایسی صورت میں عورت کیسے درمیان میں پڑسکتی ہے چنانچہ عام جنگوں میں پہلے کے اقدام کے طورپر عورت درمیان میں نہیں پڑتی بلکہ ایسی عمومی جنگ میں ایک فریق حملہ کرتا ہے اورفورا مردحضرات کو میڑھ کے لئے اپنی رضامندی سے بھیجتا ہے دوسرا فریق اگر قبول نہ کرے تو وہ بدلہ لیتاہے اور بدلہ لیتے ہی اب وہی مردحضرات (سردار میر ٹکری سید ملاوغیرہ) کو دوسرے فریق کے پاس رضامندی سے میڑھ کے لئے بھیجتا ہے جنگ جاری رہتا ہے اور یہ قبائلی روایت کے مطابق میڑھ بھیجتے رہتے ہیں اس دوران ثالثین کی کوششیں جاری رہتی ہیں اور جنگ بھی جاری رہتا ہے۔اس وقت تک عورت درمیان میں نہیں کھود پڑتی جب تک ایک فریق جنگ میں بالادستی حاصل کرے اور دوسرا فریق پس کر رہ جائے او ر اس کی طرف سے مرد حضرات کے مسلسل میڑھ بھیجنے کو قبول نہ کرے تب اس پسے ہوئے فریق کے پا س عورتوں کو میڑھ بھیجنے کا آخری آپشن بچ جاتا ہے۔اس کی میں نے نواب بگٹی کی مثال دی حال ہی میں ایک براہوئی قبیلہ کے ہاں سیاہ کاری کاواقعہ ہوا جس میں کیس ثابت نہ ہوا لڑکی کے باپ کی طرف سے سیاہ کار کرنے والے فریق کو سخت دبا? میں رکھا قبائلیوں کے میڑھ کو تسلیم نہیں کیاگیا جس پردبا? کے شکار قبیلے کے لوگوں نے عورتوں کو میڑھ بھیجا جہاں لڑکی کے باپ اور اس کے قبیلے کے لوگوں نے عورتوں کو بطور احترام دوپٹہ دیا اوران کو واپس کردیا اور جنگ بندی سے انکار کردیا۔نواب بگٹی کے حوالے سے بھی کلپر قبیلے کو معلوم تھا کی نواب بگٹی کی قبائلی انا کو کون ختم کرسکتا ہے؟ نہ تو یہ خان کے بس کی بات ہے نہ کسی عام سردار کی لہٰذا کلپر قبیلے کی خواتین نواب بگٹی کے پاس قرآن لے کرگئیں جہاں نواب بگٹی نے ان خواتین کے لئے دعوت کا اہتما م کیااوران کو دوپٹہ وغیرہ دے کر رخصت کیالیکن معاف نہ کیا جس پر کلپر خاندان علاقے سے نکل کر صادق آباد وغیرہ میں ہی آباد ہوگئے اورابھی تک دربدر ہیں جبکہ بدلے کے طورپرنے کلپر وڈیرہ کے بیٹے قربان سمیت چند افرد مارے بھی گئے۔ایک تو عورتوں کے میڑھ تک بات نہیں پہنچتی بہت کم حدتک بات عورتوں کی حدتک پہنچتی ہے تو عورتوں کو میڑھ کے لئے ضروربھیجاجاتا ہے۔اب میڑھ کے بارے میں یہ واضح ہو کہ ایک میڑھ تو وہ ہے جو میل کشی جہاں لگے کہ ایک ہجوم بدلہ لینے کے لئے بھاری سازوسامان اور لوگوں کے جارہاہے اسے روکنے کے لئے مردحضرات یا عورتیں درمیان میں آتی ہیں اس میں جنگ بندی ہی ممکن ہوتی ہے اس میں مزید پیشرفت پھر باقاعدہ میڑھ کی صورت میں ہی ہوتا ہے اور یہ باقاعدہ میڑھ کسی ایک فریق یا بعض دفعہ دونوں فریق بااعتماد ثالثین کو چن کر اختیاردے دیتے ہیں جہاں فیصلہ ہوتا ہے لیکن جب عورت میڑھ کے لئے جاتی ہے تو اس کے پاس ایک ہی اختیارہوتا ہے وہ یہ کہ ایک فریق جنگ کی سکت نہیں رکھتا اور اپنی شکست تسلیم کرتا ہے جبکہ باقاعدہ مردوں کے میڑھ میں دونوں فریقوں سے اختیارلے کر معاملے کی تہہ تک پہنچاجاتا ہے۔جنگ میں نقصانات کا اندازہ لگایاجاتا ہے اور سب سے اہم یہ کہ جس چیز پر جنگ ہوئی ہے اس کی ملکیت کا اندازہ لگایاجاتا ہے تب کسی فیصلے پر پہنچ جاتے ہیں اب ایسے دانشمندی کے کاموں میں عورتوں کا کیا کام؟اگرعورت کو بلوچ معاشرے میں عزت وتکریم حاصل ہے اور اس کی عزت کسی مرد سے بھی زیادہ ہے تو پہلے ہی میڑھ میں مردحضرات کیساتھ جو سردار میر معتبر ٹکری سید اور ملاپرمشتمل ہوتا ہے اس میں ایک عورت کو بھی شامل کیاجائے تاکہ جنگ پہلے ہی باقاعدہ میڑھ میں رک جائے ختم ہوجائے لیکن ایسا نہیں یہی سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کا میڑھ لے کرجانا عزت وتکریم سے زیادہ ہزیمت اور شکست کے واضح اعلان کیساتھ ناگزیر اور باحالت مجبوری بھیجاجاتا ہے اس میں مجھے عزت وتکریم کا عنصر نظرنہیں آتا۔مردحضرات بیسیوں میڑھ لے کرجاتے ہیں لیکن عورت کو اپنے ساتھ نہیں لے جاتے جب تک کہ معاملہ مرد کے ہاتھ سے نکل جائے تب شکست اور سرخم تسلیم کرنے کے طورپر عورت کو بھیجاجاتا ہے۔۔۔۔۔۔ رند رئیسانی قبائل کی جنگ کی مثال لیں جہاں بلوچستان سندھ اور پنجاب تک کے بااثر افراد کو میڑھ کے لئے بھیجاجاچکاہے لیکن چونکہ دونوں قبائل ابھی تک اس پوزیشن میں نہیں کہ شکست تسلیم کریں تب ہی عورتوں کودرمیان میں نہیں لایاجارہا۔ورنہ ان خاندانوں کے درمیان رشتہ داریاں بھی ہیں ،دونوں ہم پلہ قبائل ہیں عورت کو بیچ میں لانا اپنی شان کے خلاف اور اپنی قبائلی توہین سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میڑھ کا مقصد برابری کا توازن برقراررکھنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اس رواج کا مقصد کسی کو ظاہری طورپر کمتر خیال نہ کرنا ہے بے شک حقیقی طورپر مخالف قبیلہ کس قدرعددی حوالے سے کمزورکیوں نہ ہو یہ ایک ضروری امر ہے اگر کبھی کسی جنگ میں حملہ آور فریق حملہ بھی کرے اور میڑھ بھی نہ بھیجے اورمعاملہ خواہ کتنا ہی معمولی نہ ہو مخالف کو ہرطرح سے حملے کا بھرپورحق حاصل ہوتا ہے اور فیصلے کے وقت پہلے والے حملہ آور کو اس بات پر سزادی جاتی ہے کہ اس نے حملہ کرنے کے بعد مخالف کو میڑھ کیوں نہیں بھیجا۔۔یہ ایک رواج ہے اوررسم ہے۔۔۔۔۔۔ چنانچہ میڑھ کو ہم قبائلی رسم ورواج کے طورپر ایک رسم بھی لے سکتے ہیں جبکہ عام طورپر حملہ ناگزیر ہوتا ہے کیونکہ اکثر مسائل جب تک جنگ کے سطح پر نہ پہنچیں حل ہی نہیں ہوتیں۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنے ایک مضمون میں کبڑا چیف کاذکر کیاتھا جو مسائل کے حل کے لئے اپنی ذہانت کے طورپر فریقوں کو جنگ پرراغب کرتا ہے۔ جنگ سے قبل بہت کم ہی مسائل حل ہوتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ ہمارا بوسیدہ اور غیر فعال معاشرتی نظام ہے چنانچہ پہلا حملہ مسئلے کی شدت کو اجاگر کرنے کے لئے ہی ہوتا ہے تب میڑھ لازمی قرارپاتا ہے کہ اب اس مسئلے کو مسئلہ سمجھ کر حل کیاجانا چاہئے۔اور میڑھ دونوں فریقوں کی پوزیشن کو واضح کرنے کابھی ذریعہ ہے کہ دونوں فریق جنگ کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں یا صلح کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔چنانچہ سردار میر معتبر اور سید مولوی وغیرہ درمیان میں آکر مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اب یہاں مسئلے کی نوعیت اہم ہوتی ہے۔عورت میڑھ کی صورت میں جائے تو یہ سفید جھنڈا کی مانند ہوتا ہے کہ وہ فریق جنگ نہیں چاہتا۔۔۔۔ البتہ یہاں بنیادی طورپرجن دوستوں نے رائے دی ان میں سے ایک آدھ کے علاوہ باقیوں نے مسئلے کی بنیادی نوعیت کو سمجھا اور اپنی رائے دی لیکن ان کی رائے سے جواختلافی پہلو نکلتا ہے وہ ہے بلوچ معاشرے میں عورت کا مقام اور حیثیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب چونکہ بلوچ سوسائٹی قبائلی سوسائٹی ہے جہاں نسلی امتیاز قبائلی انا باہمی بغض اورجھگڑوں کا تصور ہمیں کثرت سے ہی ملتا ہے۔۔۔۔خان قلات کی مرکزیت رضاکارانہ اور ڈھیلی ڈھالی رہی ہے لیکن بنیادی طورپر خان قلات کے وضح کئے گئے(جو خود قبائلی سماج کے تجربات سے ہی اخذ کئے گئے ہیں بعد میں ان میں اسلامی عناصر بھی کثرت سے شامل ہوئے) قوانین جو روایات کی صورت میں موجود ہیں ان پر ہی عملدرآمد ہوتا آیا ہے اور میرے نذدیک یہ قوانین وطن سے محبت اور لگا?کے علا?ہ مذہبی بنیادوں پر قائم رہے ہیں لہذا اس تناظر میں بلوچ معاشرے میں عورت کے مقام کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں جہاں اسلامی شریعت میں عورت کی فزیکلی کمزرویوں ،جنسی لحاظ سے جنسی جذبات کے ابھارنے اور بچے پیدا کرنے کے کردار کودیکھتے ہوئے اسے گھر میں رہنے کا پابند کیاگیا ہے اسے باقی چیزوں میں کردار ادا کرنے میں منع کیاگیا ہے۔۔۔۔اسی طرح دیگر کمزرویوں کے باوصف شریعت میں عورت کو پردہ کرنے سمیت گھر میں رہنے کی ہی تاکید کی گئی ہے البتہ اس کو ظاہری طورپر یہ قراردیاگیا کہ اسلام نے عورت کو گھر کی زینت قراردیا ہے۔ یہ جنت میں حوروں کی سردار ہوگی وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی باطنی طورپر عورت کو گھر میں قید رکھنے کی وجوہات عورت کی کمزوریاں ہی ہیں لیکن ظاہری طورپر اسے خوبصورت نام دے دیاگیا کہ عورت گھر کی زینت اور سردار ہے۔۔۔اب ہم عملی طورپر اس کا بخوبی مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہماری گھر کی سردارنیاں اور زینت کس اذیت سے دوچار ہیں ، جب ان کو ڈاکٹر کے پاس جانے کی اجازت نہیں ، ان کو کسی غیر مرد سے نظریں ملانے پر سیاہ کارکیاجاتا ہے۔۔۔۔۔اب چونکہ بلوچ معاشرہ بھی عورت کو اپنے قوانین میں عزت کے لیبل کے ساتھ بخوبی پیش کرتا ہے اور دلچسپی سے یہ بات خالی نہیں کہ ہمارے بلوچ سیاسی رہنماء4 کارکن اور ادیب بھی اس ظاہری لیبل کو ہی حقیقت ماننے پر مجبورہوکر اس بات پر متفق ہیں کہ بلوچ معاشرے میں عورت کو عزت وتکریم حاصل ہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلوچ معاشرے میں بھی عورت کو گھر میں رکھنے پردے میں رکھنے سمیت دیگر عوامل کی وجہ سے کمزور اور لاچار قراردے کر اس کے کردار کو معاشرے میں محدود کرکے عزت وتکریم کانام دیاگیا۔ گویا ہمارے عام رویئے عورت کو قدم قدم پر بے حرمت ظاہرکرتے ہیں ‘ اس کے ساتھ امتیاز اپنے عروج پرہوتا ہے۔یہاں دلچسپی کے لئے ایک مثال پیش کروں ،ایک عام بلوچ اور نواب وسردار چارشادیاں تک کرتے ہیں اول تو اس سے بلوچ معاشرے میں عورت کی عزت وتکریم اور حقوق کا پتہ چلتا ہے جو بنیادی بات ہے اور اسلام کو بھی آج اس قانون پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔اب ایک نواب چارشادیاں کرتا ہے ، ایک اپنے قبیلے سے تو باقی شادیاں غیر قبیلوں یا اکثر غیر بلوچوں میں کی جاتی ہیں۔ان تمام بیویوں سے بیٹے پیدا ہوتے ہیں جو نوابزادہ یاسردار زادہ کہلاتے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں ہی تخصیص شروع ہوتی ہے یعنی نواب وسردار کا جوبیٹا اپنے متعلقہ قبیلہ کی بیوی سے ہے اس کا بیٹا ہی حقیقی بیٹا اور سردار کا جانشین خیال کیاجاتا ہے قطع نظر دوسری بیویوں کے بیٹے عمر میں بڑے ہی کیوں نہ ہوں۔یہاں بلوچ قوانین بنانے والے سردار ونواب کے گھر میں عورتوں کیساتھ ما?ں کیساتھ تخصیص یقیناًہمارے بلوچ سیاسی کارکنوں اورادیبوں کے لئے غورطلب امر ہے۔نوابزادہ طلال اکبر بگٹی نے ببانگ دہل میڈیا میں اعلان کیا، گوکہ جمیل بگٹی مجھ سے عمر میں بڑے ہیں لیکن چونکہ ان کی والدہ پشاوری ہیں اس کے لئے وہ نواب نہیں بن سکتے نوابی کا حقدار میں ہی ہوں۔ نواب بگٹی کی ایک بیوی انگریز تھی اور ایک میمن۔۔۔میمن بیوی سے ایک بیٹا بھی ہے جس سے ہمارے بلوچ قوانین پرنازاں افرادناآشنا ہیں جس کا نام شازور بگٹی ہیں۔نواب بگٹی کی شہادت پر شازور کہہ رہے تھے کہ مجھے پاور میں نہیں آنا میرے والد کے قاتل گرفتارکئے جائیں۔صحافی نے پوچھا آخری دفعہ نواب بگٹی (والد) سے کب ملے تھے۔ شازور نے کہا میں 1997 میں والد نواب بگٹی سے آخری بارملا۔ پھر سوال کیاگیا کہ آپ اپنے آبائی علاقے ڈیرہ بگٹی گئے ہیں تو انہوں نے کہا میں کبھی نہیں گیا ، اس معاملے میں ہمارے ادیب وسیاسی کارکن عورت کی عزت وتکریم کا پہلو کہاں سے ڈھونڈیں گے جو ایک ہی نواب کی بیویوں میں سے ایک کو اعلیٰ اور ایک کو کم ترقراردیں۔۔۔۔۔۔۔۔رئیسانیوں کے ہاں نوابزادہ امین رئیسانی کی حیثیت بھی ہم سب کے سامنے ہے جس کو ماں کے غیر بلوچ ہونے پر دھتکارہ گیا ہے۔زہریوں میں بھی یہ مسئلہ رہا ہے۔ایک قبیلے کے حوالے سے یہ مشہور ہے کہ جب اس کا سردار والد مر گیا تو تیسرے دن قبائلی رسم ورواج کے مطابق اس کی دستاربندی ہونی تھی اور یہ چھوٹا تھا اس کو کہا گیا کہ اب تم سرداربنوں گے تو یہ بے چارہ کہنے لگا ’’ سلبو ای آئی آن ارفو‘‘ یعنی میں ماں سے پوچھ کرآجا?ں۔اس نے بات تو حکمت کی تھی جو اس وقت باپ کی غیر موجودگی میں اس کا سب کچھ تھا ، عورت کے عزت وتکریم کی بات کرنے والوں نے اس کو اس کے لئے شغان بنادیا اورکہاجاتا ہے کہ اس کی جگہ اس قبیلے کا غیرسردارخیل نوجوان بیٹا تھا اس نے کہا میں سردار بنوں گا اسے سردار بنادیاگیااور ابھی تک وہ سلسلہ چل رہا ہے۔ہم یہ بات ابھی تک سنتے ہیں اور ماں سے مشورے کو ان قبیلے والوں کے لئے بطورشغان استعمال کرتے ہیں۔اب بلوچ سیاسی کارکن اور ادیبوں کو محض بلوچ کوڈ وقوانین کو خوبصورت لیبل میں نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ ان کا کام عام شخص سے زیادہ باریک بین ہونا چاہئے لیکن افسوس ایسا نہیں ، حقائق یہ ہیں کہ اسلامی معاشرے کی طرح بلوچ معاشرہ بھی عورت کو حقیقی طورپر کمزور اور برابر نہ سمجھ کر اس کو ایک نہتا اور غیر متحرک (passive) خیال کیاجاتا ہے اب قوانین اور عام طورپر ظاہرکرنے میں اسے کمزور اور ناتواں کہا نہیں جاسکتا لہٰذا اسلام کی ہی طرح بلوچ معاشرہ بھی اسے عزت وتکریم کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ بنیادی طورپر اختلافی پہلو کا حل یہاں نکل آتا ہے باطنی طورپرعورت کی کمزوری کوہی مد نظر رکھ کراس کے میڑھ کو قبول کیاجاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عورت کی بلوچ معاشرے میں کمزوری پر عمومی اتفاق کے مناظر ہم آئے روز دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ جنگوں میں اکثر یہ جملے سننے کو ملتے ہیں یاپھر جنگوں کاسبب ہی یہ جملے بنتے ہیں کہ مجھے عورت مت سمجھنا ، اور یہ کہ عورت اپنے بچے کو یہ لوری سناتا ہے کہ میرا بچہ مرد اور بہادر بنے گا کھبی نہیں کہے گا کہ میرا بچہ میری طرح عورت بنے گا میری خاصیتیں اس میں ہونگی نہیں وہ اپنے بچے کے لئے اس کے باپ کو ہی آئیڈیل بناکرپیش کرتا ہے۔، مزید یہ کہ کسی بھی مرد کو عورت سے تشبہ دینا اس کی مردانگی کو چیلنج کرکے اس کو جنگ کی دعوت دینا ہے۔براہوئی میں مثال ہے کہ ’’ نیاڑی نت انا لتھر ء4243یعنی عورت پا?ں کی جوتی ہے، ایک اور مثال ’’ نیاڑی نا عقل کڑی ٹی ء4 ‘‘ یعنی عقل ودانش میں بھی اس کو کمتر خیال کیاجاتا ہے اور ہمارے روز مرہ کے رویئے عورت کے بارے میں اوپر کی مثالوں جیسے ہیں قطع نظر کہ بلوچ قوانین ان رویوں کو عزت وتکریم کا لبادہ پہناتا ہے،دراصل عورت کی کمزور حیثیت کو عزت وتکریم کانام دینے والے یہاں ایک اور غلطی کررہے ہیں کہ اگر بلوچ معاشرہ متوازن معاشرہ ہے تو اس میں عورت کو امتیازی عزت دینے بجائے برابری دینی چاہئے تھی تب بات ہوتی۔امتیازی عزت کا دعویٰ یہاں بھی مشکوک ہوکررہ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ یہاں بلوچ سیاسی رہنماء4 اور اس کے کارکن اور ہمارے ادیب یہاں الٹا کردار ادا کررہے ہیں انہیں چاہیئے تھا کہ وہ بلوچ قبائلی روایات کو فرسودہ اور غیر انسانی بنیادوں پر قائم قراردے کران کو ڈھانے کا کام کرتے لیکن چونکہ یہ خوش فہمیاں اور مبالغہ آرائی اور بلوچ معاشرے کا ظاہری لیبل ان کو سیاست کے لئے بنیاد فراہم کرتے ہیں کہ ہم ایک عظیم ریاست کے مالک تھے ہماراآئین تھا ہماری اسمبلیاں تھیں۔ اور بلوچ ادیب بلوچ معاشرے میں عورت کے عزت وتکریم کا گن گا کر اپنی غزلیں تعمیر کرتا ہے سیاسی کارکن اپنی نیشنلزم کی بنیادیں ان مبالغہ آرائیوں میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے تب ہی ہمارا نیشنلزم باہر کی دنیا میں قبائلی کاقبائلی اور جنگجو قرارپاتا ہے کیونکہ نیشنلزم یا ترقی پسند سیاست کو نئی بنیادیں چاہیے ہوتی ہیں‘نئی اصلاحات درکارہوتی ہیں لیکن ہمارے آبا?اجداد تو اس قدر ویڑنری تھے کہ ہمارے لئے ہزار سالوں کے لئے جدید معاشرتی بنیادیں متعین کرکے گئے جن پرہم چل کر خواہش رکھتے ہیں کہ نیلسن منڈیلا اور فیڈل کاستروہماری تعریف کریں۔ ادیبوں اور سیاسی رہنما?ں کو انقلابی ہونا چاہئے تھا اور بلوچ معاشرے کی پرانی بنیادوں کو ڈھاکر ازسرنو نئی ترقی پسند بنیادیں تعمیر کرنے کے بارے میں حکمت عملی اختیارکرنی چاہئے تھی لیکن یہاں سب بلوچ معاشرے میں عورت کے عزت وتکریم کے ظاہری آئینی لیبل پر متفق نظرآتے ہیں اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کا سخت گیر معاشرہ بھی بلوچ سیاست اور ادیب جیسا دعویٰ کرتا ہے کہ اسلام نے عورت کو وہ حقوق دیئے ہیں جن کا دنیا تصور نہیں
کرسکتی۔۔۔۔۔۔۔۔ بلوچ اوراسلامی معاشرے میں یہاں بہترین مماثلت نظرآتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے سیاسی کارکنوں اور ادیبوں کے تناظر میں دیکھاجائے تو ہمارا بلوچ معاشرہ عورت سمیت دیگر معاملات میں اس قدر ویڑنری رہا ہے کہ فلاسفر جان لاک وغیرہ کو بلوچ معاشرے سے سیکولرازم کی مثالیں لینی چاہئے تھی لیکن افسوس ہم گم گشتہ رہے۔۔۔۔۔۔۔۔ بلوچ سیاسی رہنما?ں اور بلوچ ادیبوں کی باتوں سے ایسا ہی لگتاہے کہ بلوچ معاشرہ تمام حوالوں سے بالخصوص عورتوں کے حوالے سے آئیڈیل ہے۔۔۔۔ دلچسپ تو یہ ہے کہ طالبان بھی یہی دعوے کرتے ہیں کہ اسلامی معاشرے نے عورت کو اس قدر عزت دی ہے کہ دنیا اس کا تصور تک نہیں کرسکتی اور اسلام کے داعی بھی ہمارے ادیبوں کی طرح یہی کہتے پھرتے ہیں کہ اسلام نے تو عورت کو بیش بہا حقوق سے نوازا ہے لیکن افسوس آج کے مسلمان ان قوانین پر عملدرآمد نہیں کرتے۔۔۔۔یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہمارے بلوچ ادیب اور سیاستدان بھی یہی کہتے رہتے ہیں کہ قوانین تو عزت وتکریم پر مشتمل ہیں لیکن ہمارے رویئے اگر عورت کو کمزور سمجھتے ہیں تو اس میں قوانین کا قصور نہیں۔

بدھ، 4 مئی، 2016

عابد میر کی تحریر اور گلزار بلوچ کا جوابی تحریر



طبقاتی بلوچستان میں غیر طبقاتی سیاست

عابد میر

’’دنیا کے مزدورو‘ ایک ہو جاؤ‘ ‘۔۔۔یہ شاید دنیا کا اب تک سب سے زیادہ استعمال ہونے والا نعرہ ہے۔ وہ نعرہ جو محنت کشوں کے بائبل ’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ نامی مختصر کتابچے کی پیشانی پہ جگمگا رہا ہے۔ وہ مینی فیسٹو جس کا آغاز اس مشہورِ زمانہ فقرے سے ہوتا ہے کہ،’’یورپ کے سر پرایک بھوت منڈلا رہا ہے؛ کمیونزم کا بھوت۔‘‘اس مختصر پمفلٹ کے اس فقرے کو اس سال فروری میں 168سال مکمل ہو گئے، یورپ آج بھی اس بھوت سے پیچھا نہیں چھڑا سکا۔اپنی تخلیق(1848ء) کی انیسویں صدی میں دنیا میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا یہ مختصر کتابچہ اب تک سو سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو کردنیا کے کروڑوں انسانوں کی رہنمائی کا سنگِ میل رہا ہے۔ اس کا تازہ و آخری ترجمہ بلوچی زبان میں ابھی دو سال پہلے، بلوچستان میں ہوا۔ حالاں کہ یہ خطہ اس کتاب کے اولین ترجمے کا حق دار تھا۔ اس خطے میں سیاست کی بنیاد ہی اسی کتاب سے پڑی۔ جدید سیاست کا ہمارا امام یوسف عزیز مگسی اس کی تخلیق کے سو سال بعد سام راج مخالف جدوجہد کی پاداش میں جلاوطن ہو کراس کی جائے پیدائش(لندن) پہنچا ، تو اس کا سامنا مینی فیسٹو کے اصل ماخذ سے ہوا۔ جو اس کے مطالعے میں کہاں جگہ پاتا تھا، اس کا اظہار اُس نے اپنے دوست کے نام خط میں یوں کیا کہ،’’ان دنوں میرے سرہانے دو کتابیں دھری رہتی ہیں؛ ایک طرف ’دنیا کو جھنجھوڑ دینے والے دس دن‘، دوسری طرف داس کیپٹل!‘‘ اور پھر اُس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش بلوچ ان دونوں کتابوں کو اپنے مطالعے کا لازمی حصہ بنا لیں۔۔۔۔۔۔ بلوچ اس ماخذ سے دور رہے، سو منزل کہاں پانی تھی!!

المیہ ملاحظہ ہو،وہ دھرتی جس کے اکابرین نے کمیونسٹ مینی فیسٹو نامی مختصر کتابچے کو اپنی سیاست کا سنگِ میل بنایا، وہاں کے سیاسی کارکنوں کا ایک گروہ آج اس بات پہ مصر ہے کہ بلوچستان میں طبقات کا کوئی وجود ہی نہیں۔ سرداروں ، جاگیرداروں ، مڈل کلاسیوں کی دھرتی پہ یہ دعویٰ مضحکہ خیزی کے ساتھ ہمارے سیاسی شعور کا منہ چڑانے کو کافی ہے۔ اس دعوے داری میں محض نظریات کے سراب کے پیچھے جوانیاں گنوانے والے سفید ریش سیاسی کارکن ہی نہیں، تجربات کی بھٹی میں بال سفید کرنے والے اہلِ دانش بھی شامل ہیں، جنھیں بجا طور پر سرداروں اور جاگیرداروں کا’ فکری باڈی گارڈ‘ ہونے کا طعنہ ودیعت ہوا۔ سرداروں اور جاگیرداروں کے بلوچستان میں ‘طبقات سے انکار، ان سرداروں اور جاگیرداروں کو فکری ایندھن میسر کرنا ہی تو ہے جو کبھی قومیت کے نام پر اس دھرتی کو بیچتے رہے تو کبھی مذہب کے نام پر استحصالیوں کی بداعمالیوں کی پردہ پوشی کی۔ ان کی مثال پاکستان کے اُن دانش وروں کی سی ہے جنھوں نے آمریتوں کو جلا بخشنے کے لیے کبھی انھیں مذہب کا لبادہ اوڑھایا تو کبھی روشن خیالی کی چادر پہنائی۔ جیسے آمر خواہ کسی بھی پردے میں چھپ کر آئے، وہ اپنی آمرانہ فطرت پہ قابو نہیں پا سکتا، اسی طرح سردار اور جاگیردارکے فکری باڈی گارڈ خواہ انھیں کوئی بھی چولا پہنا دیں، وہ اپنی فطرت میں استحصالی اورعوام دشمن ہی رہتا ہے۔
بلوچستان میں طبقات سے انکاری سیاسی کارکنوں اور دانش مندوں کو جاگیرداری کے شکنجے میں جکڑے لاکھوں مزدور کسانوں والے نصیرآباد کی مثال دیں تو جھٹ سے کہیں گے صرف مشرقی حصہ ہی بلوچستان نہیں، ماہی گیروں کی مثال لائیں توانھیں صرف مکران کے ساحلوں تک محدودبتائیں گے، صنعتی مزدوروں کا ذکر کریں تو انھیں صرف حب و بیلہ تک محدود کر دیں گے، بلوچستان کے ہر شہر ہر قصبے میں موجود نائی، دھوبی، بوٹ پالش کرنے والے، ریڑھی بانوں،ڈاکیوں، کلرکوں کا نام لیں تو ایک طویل وقفے سے جواب آئے گا، ’یہ طبقات کی کلاسیکل تعریف میں نہیں آتے۔۔۔‘ پھر ’بلوچستان میں طبقات اُس طرح سے واضح نہیں۔۔۔‘ اور ’قومی سوال‘ کے طویل لاینحل مسائل کی گتھیوں میں اس سوال کو اس طرح الجھا دیا جائے گا کہ سوال کرنے اور جواب دینے والا دونوں ہی اس کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر رہ جائیں!
یہ وہی بلوچستان ہے جہاں ایشیا میں سب سے زیادہ جاگیریں رکھنے والے جاگیردار بستے ہیں، جہاں لاکھوں ایکڑ زرعی زمین کا مالک جاگیردار بستا ہے، جہاں دنیا کے ٹاپ ٹین اسمگلر کی فہرست میں جگہ پانے والا کھرب پتی اسمگلر مڈل کلاس سیاسی جماعت میں پناہ پاتا ہے، جہاں سردار‘ سردار کے مفاد میں اپوزیشن کی سیاست ہی ترک کر دیتا ہے۔ جہاں پاکستان میں عوام کی ازلی و ابدی دشمن مقتدرر قوتیں انھی عوام دشمن سرداروں کو پالتی پوستی ہیں، جب چاہیں اپنی ضرورت کے تحت انھیں ہیرو بنا دیں، جب چاہیں انھیں ولن دکھا دیں۔ 
وہی بلوچستان جہاں اپنے مخالف جاگیرداروں کو سبق سکھانے کے لیے بھٹو کی زرعی اصلاحات کے خلاف سبھی جاگیردار نسلوں سے ان کی زمینوں کو آباد کرنے والے ہاریوں کے خلاف یک جا ہو گئے۔ ہاری جس زمین کو اپنے پسینے سے سیراب کرتے تھے، جاگیرداروں نے اس زمین کو انھی کے خون سے سیراب کر دیا۔ جس کے بطن سے خونی پٹ فیڈر تحریک نے جنم لیا۔اس سے پہلے کہ یہ ہاری کسان ان جاگیرداروں کا اصل روپ دیکھ کر ان کا مکروہ استحصالی چہرہ ہمیشہ کے لیے پہچان لیتے، ان کے ازلی فطری اتحادی مذہب کا کاروبار کرنے والے آگے آئے اور ’زمین خدا کی ہے‘ ، ’خدا جسے چاہے جتنا رزق دے‘ ، جیسی تاویلوں اور قناعت کی نصیحتوں کا افیون دے دے کر ساری بغاوت کو سلا دیا۔
وہ بلوچستان جہاں مزدوروں، کلرکوں پر مشتمل ایسی منظم و مضبوط ٹریڈ یونین نے جنم لیا کہ اس سے خوف زدہ ہو کر،اسے توڑنے کے لیے مقتدرہ نے اس میں مافیاز بھرتی کر دیے۔ انھیں اس قدر بدنام بنا دیا گیا کہ آج ٹریڈ یونین کرپٹ نوکر شاہی اور کرپٹ ترین حکم رانوں کا حصہ بن چکی ہیں۔
ماہی گیر مزدوروں کے مسائل قومی سوال کے پردے میں دبا دیے گئے۔ باقی سرداروں کے باڈی گاڈ بننے والے، ان کے گھروں میں کھانا پکانے والے، ان کی جوتیاں سیدھی کرنے والے تو ایک ’قومی فریضہ‘ سرانجام دے رہے ہیں۔۔۔تو یوں بلوچستان میں نہ کوئی طبقہ رہا، نہ کوئی طبقہ نواز۔ تو یہاں طبقاتی جدوجہد کا سوال ہی غیرمتعلق ٹھہرا۔
طبقاتی جدوجہد کی سیاست بلوچستان میں ایک عرصے سے ناپید ٹھہری۔ صرف بلوچستان ہی کیا، پورے پاکستان سے لے کر ایران ، افغانستان، ہندوستان تک آج طبقاتی جدوجہد، مزدور کسان سیاست کا نام و ہی نشان ہی نظر نہیں آتا۔ کمیونزم کے بھوت سے نمٹنے کے لیے یورپ اور سرمایہ داری کے سردار امریکہ بہادر نے دہشت گردی اور قومی جدوجہد کا ایسا ہوا کھڑا کیا کہ گذشتہ بیس برسوں سے اس خطے میں یوں لگتا ہے کہ دہشت گردی کے سوا نہ اور کوئی سماجی مسئلہ ہے نہ قومی سوال کے سوا کوئی سوال کوئی جدوجہد معنی رکھتی ہے۔ ان سوالوں کی کثرت سے عوام اگر بے زار ہو تو سیکولر ازم ، لبرم ازم کا تڑکا لگائیے اور بھوک و فاقوں کے مسائل بھول جائیے۔ان ریاستوں کے نصاب سے لے کر، ان کا کارپوریٹ میڈیا تک مزدور، کسان ، ہاری اور نچلے طبقات کو یوں حاشیے پر ڈال چکا کہ لگتا ہے جیسے سماج میں ان کا وجود ہی ناپید ہو چکا ہو۔ انقلابات کو قصہ پارینہ بتانے والوں میں سبھی شکم سیر ہیں۔ ہر وہ شخص جس کی شکم سیری کا سامان موجود ہے، امن کا داعی رہتا ہے۔ پیٹ خالی ہو تو ہر فکر اور جذبے کی مانندامن بھی اپنے معنی کھو دیتا ہے۔ یاد رکھیے، آسمان پہ ایک ہی چاند چمکتا ہے، کوئی اس سے حسن کشید کرتا ہے تو کسی کو یہ روٹی کی مانند دِ کھتا ہے۔ 
بھوکے پیٹ والوں کے لیے آئیے مینی فیسٹو کی سطریں یاد کیجیے۔ اس تاریخی کتابچے کے مصنفین نے خبردار کیا تھا کہ،’’محنت کشوں کے سامنے سوائے اس کے کوئی راستہ ہے ہی نہیں یا تو وہ ماریں یا مر جائیں۔‘‘ مت بھولیے کہ اب تک مرنے پہ اکتفا کرنے والا محنت کش کسی بھی وقت مارنے پر بھی مائل ہو سکتا ہے۔ اپنی محنت استحصالیوں کے ہاتھ گروی رکھنے والا یہ محنت کش طبقہ اُسی روز بیدار ہوگا جس روز اسے یہ احساس ہو گیا کہ،ان کے پاس کھونے کو صرف زنجیریں اور پانے کو سارا جہان پڑا ہے۔۔۔!





مزدور کو نصیحت
گل خان نصیر کی بلوچی نظم



شاہ و گدا‘ سیٹھ اور خوار
مزدورِ برہنہ اور سرمایہ دار
آقا اور بھوکا کاشت کار
مظلوم وظالم مردہ خور
باندی غلام اور تاج دار
جتنا بھی ہوں شیر و شکر
نہ ہوں گے بہن بھائی کبھی
کہ گرگ و گوسفند کی یاری نہیں ہو سکتی



گفت و شنید نہیں ہو سکتی ظالم اور طاقت ور کے ساتھ
رحم کی درخواست کبھی ان کے پاس نہ لے جا
اگر تم عاقل ہو، دانا ہو اور دانش مند ہو
تو اُن سے اپنے حقوق تیغ و تبر کے ذریعے لے لو



میں مزدور تو دہقاں، اُف تم پہ، آہ مجھ پہ
کب تک رہے گا ڈنڈا تیرے لیے اور گالی میرے لیے
یہ حیلہ و مکاری سے ہمارا خون چوستے ہیں
ہر ایک جونک کی طرح ہے؛ پیر تمہارے لیے ،شاہ میرے لیے 
ہم جاہل و کم زور ہیں، بے علم و ہنراندھے ہیں
یہ کاہلی نادانی بری تیرے لیے اور گناہ میرے لیے

بلوچی سے ترجمہ: شاہ محمد مری
___________________________________________________
طبقاتی بلوچستان میں غیر طبقاتی سیاست اور عابد میر کے تضادات

گلزار بلوچ
عابد میر کے یکم مئی کے آرٹیکل "طبقاتی بلوچستا ن میں غیر طبقاتی سیاست " کے عنوان سے پڑھا۔عابد میر نے جس نقطے کو یہاں زیر بحث لایا ہے وہ نقطہ ہے بلوچستان میں قومی سوال کا۔عابد میر نے بڑی ڈھٹائی سے بلوچستا ن کے ’’ قومی سوال ‘‘کو یورپ اورامریکہ کی پیداوار قراردیا۔عابد میر کے مطابق
’’ماہی گیری مزدوروں کے مسائل قومی سوال کے پردے میں دب گئے۔باقی سرداروں کے باڈی گارڈبننے والے ان کے گھروں میں کھانا پکانے والے ان کی جوتیاں سیدھی کرنے والے توایک ’’قومی فریضہ ‘‘سرانجام دے رہے ہیں۔تو یوں بلوچستان میں نہ کوئی طبقہ رہا اور نہ کوئی طبقہ نواز تو یہاں طبقاتی جدوجہد کاسوال ہی غیر متعلق ٹھہرا۔طبقاتی جدوجہد کی سیاست بلوچستان میں ایک عرصے سے ناپید ٹھہری۔کیمونزم سے نمٹنے کے لئے یورپ اور سرمایہ داری کے سردار امریکہ بہادر نے دہشتگردی اور قومی جدوجہد کاایسا ’’ہوا ‘‘ کھڑا کیا کہ گزشتہ بیس برسوں میں سے اس خطے میں یوں لگتا ہے کہ دہشتگردی کے سوا نہ اورکوئی سماجی مسئلہ ہے نہ قومی سوال کے سواکوئی سوال کوئی جدوجہد معنی رکھتی ہے’‘
یعنی بلوچستان میں قومی سوال اور دہشتگردی کو یورپ اورامریکہ کی جانب سے کمیونزم کے خلاف کھڑا کیاگیا۔آگے لکھتے ہیں کہ اب دہشتگردی اور قومی سوال کے علاوہ کوئی سوال رہا ہی نہیں۔ یعنی دہشتگردی اور قومی سوال ایک ہی معنی دیتے ہیں اور یہ کہ دونوں امریکہ کے پیداکردہ ہیں اور پھر اگر بلوچستان میں قومی سوال کو اہمیت حاصل ہے تو یہ خارجی ہے قومی سوال اندرونی جڑیں نہیں رکھتا۔
یہ الفاظ عابد میر کے مضمون میں پڑھ کرپروفیشنل لکھاریوں کی تعریف سمجھنے میں کچھ کچھ آسانی ہورہی ہے۔عابد میر کے سابقہ کچھ ہی تحریروں کاجائزہ لیاجائے تو یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ وہ یکم مئی کو "ایک دن کے لئے سوشلسٹ بننے " کااعزاز حاصل کرچکے ہیں اور ہر خصوصی دن کی مناسبت سے موصوف وہی روپ دھارلیتے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں غور کیاجائے تو موصوف اور اسکے گروپ(سنگت اکیڈمی) کی تحریریں ایک دوسرے کا خود ضد بنتی رہتی ہیں یعنی اگلی روز کی تحریرپچھلی تحریر کو مکمل رد کرتی نظرآتی ہے۔ تب ہی اکثر اوقات قومی سوال کی اہمیت کا بیان اورقومی جدوجہد کے گن گانے تعریف وتوصیف اوراہم مسئلہ قرار دینے بعد قومی سوال ایک دم سے امریکہ کی جانب سے "ہوا" کھڑا کرنا قرارپاتا ہے ‘امید ہے آنے والے دنوں میں یہ ہوا پھر سے حقیقت بن جائے اور پھر کسی خاص موقع پر یہ محوہوجائے۔اب اگر ہم خود عابد میر کی تحریروں کا جائزہ لیں تو یہ تضادات سے پرہوتے ہیں اور ایک دوست زرک میر صاحب متعدد بار موصوف کے تضادات پر لکھ چکے ہیں۔ یہ موصوف ایک دن کے لئے جہاں سوشلسٹ بنتے نظرآتے ہیں تو وہاں ایک دن کے لئے کبھی یہ مسلم لیگی بن جاتے ہیں اوراس پر زرک میر نے بھی لکھا تھا۔ جہاں مہینوں پہلے ایک آرٹیکل میں مسلم لیگ نواز شریف کی خاتون رکن اسمبلی راحیلہ درانی کے بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہونے کو اہم پیشرفت اور انقلاب سمجھنے لگتے ہیں ،پھر جناب کمال مہارت دکھاتے ہوئے راحیلہ درانی کی اسپیکر شپ کو جہاں اہم پیشرفت قراردیتے ہیں وہیں گودی کریمہ کی بی ایس اوآزاد کی چیرپرسن بننے کوبھی اس جیسا انقلاب اور اہم پیشرفت قراردیتے ہیں‘کیا کمال سوشلزم ہے جہاں ایک طرف راحیلہ درانی کی اسپیکر شپ انقلاب قرارپائے جو خود ‘خود ساختہ سوشلزم کے چہرے پردھبہ ہے اورپھر راحیلہ اور کریمہ ایک ہی شخص کے لئے انقلابی خواتین قرارپاتی ہیں جو آگ اورپانی کے میلاپ کے مترادف ہے۔ممکن ہے ایک طرف ن لیگ جیسی غیر نظریاتی پارٹی کی غیر نظریاتی خاتون کے اسپیکر بننے کو سوشلزم کے ہاں انقلاب کا درجہ ملے تب یہ صاحب گودی کریمہ بلوچ کو کہاں اس عمل میں فٹ پاتے ہیں جہاں انہوں نے قومی سوال کو امریکہ کا ہوا قراردیا ہے۔مطلب عجیب تضاد ہے جو ایک نہیں دو نہیں تین نہیں بلکہ درجنوں تضاد رکھتا ہے ‘کہاں راحیلہ درانی اور اس کے اسپیکر بننے کے پس پردہ عوامل کہاں اس کے اسپیکر بننے کاسوشلزم سے تعلق اور کہاں کریمہ بلوچ اوراس کی قومی سوال سے جڑت جدوجہد۔قارئین اس تضاد کی گتھی کو خود سلجھائیں میں تو کنفیوز ہورہا ہوں۔اب کچھ اور پیچھے چلے جائیں تو یہ مادیت پرست سوشلسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیں مست توکلی کے گن گاتے ہوئے ایک ایسے صوفی نظرآتے ہیں کہ فکر روحین کے داعی اور مادیت پرستوں کے اہم نقیب نظرآتے ہیں۔(مست توکلی کے عشق کو عورتوں کی تحریک کی بنیاد قراردینازیر بحث ہی نہیں )مزید غورکرنے پر موصوف عورتوں کے حقوق کے ایسے علمبردار نظرآتے ہیں کہ سموراج موومنٹ کی تشکیل کاربن جاتے ہیں اور پاکستان کے پائے کے سیکولراستادوں وجاہت مسعود وغیرہ کو استاد ماننے لگتے ہیں۔کچھ سال پیچھے نظرڈوڑائیں تو یہ بلوچ قوم پرست تحریک کے روح رواں کامریڈ خیربخش مری کے پیرو قرارپاتے ہیں اور بقول عابد میر کے نوابوں کے’’ بوٹ پالش کرنے والے ‘‘ایک رہنما جو آٹھ دس سال جیل کاٹ کر جب باہر نکلے تو عابد میر صاحب کی ان سے نظریاتی قربت دیدنی تھی۔یہی نہیں الفاظ کے گورکھ دھندوں سے لے کر کتابوں کے تعریفی وتوصیفی دیپاچے اس مہا نواب(کامریڈ مری) کے بارے میں لکھے گئے اور بقول عابد میر سیاسی کارکن اس نواب کے بولٹ پالشیئے رہے ہیں اور یہ تعریفی اور توصیفی دیپاچے کوئی اور نہیں عابد صاحب کے استاد محترم لکھتے رہے گویا ان نواب کے فکری باڈی گارڈوں میں اکیڈمی کے معزز سربراہ بھی سرفہرست نظرآتے ہیں (ہم انہیں بوٹ پالشیئے نہیں کہہ سکتے )اور خود عابد اس نواب کے ایک دیرینہ فکری ساتھی کے فکری آئیڈیل جانے جاتے تھے۔یعنی جناب کی پچھلی تحریروں کا اگر ریکارڈ حاصل کیاجائے تو اس نئے فکری مراجعت کی بنیادتضاد ہی نظرآئیگی۔اب ایسا لگتا ہے کہ اکیڈمی میں ایک مخصوص "کلینڈر " ترتیب دیاگیا ہے جس میں ماہانہ وار اوراق پر مخصوص ایام نشان زد نظرآتے ہیں۔یکم مئی ‘عورتوں کا عالمی دن‘ معذوروں کا عالمی دن ‘کتابوں کا عالمی دن ‘جانوروں کا عالمی دن پھولوں کا عالمی دن ‘اب اگر اقوام متحدہ سرمایہ داری کا عالم دن رکھ لے تو روایتی تسلسل کو دیکھ کر گمان کیاجاسکتا ہے کہ ایک خصوصی تحریر سامنے لائی جائے کہ صاحب مزدور بنتے ہی سرمایہ دار ی کی وجہ سے اگر سرمایہ دار نہ ہوگا تو سوشلسٹ انقلاب آئے گا کہاں سے۔ لہٰذا سرمایہ دارانہ انقلاب زندہ باد۔ اب اقوام متحدہ کی طرف سے اگر نیشنلزم کا کوئی دن مقررکیاجائے تواس دن یوسف عزیز مگسی بلوچ قوم پرست بنتے نظرآئیں گے تب شاہد وہ دیباچے بھی سا منے لائے جائیں جو فضول اور جاہلانہ دہشتگردانہ اور امریکیائی ہوا جیسے کھڑے قومی سوال کا پرچارکرنے والے نواب مری کے حق میں لکھے گئے تھے۔وہ تحریریں تو محفوظ ہونگی وہ ضرورسامنے لائی جائیں گی اور قوم پرستی کا پرچم ضرور بلند ہوتا ہوا نظرآئے گااور جواز دیاجائے گاسوویت یونین کے انہدام میں قومی سوال کا حل نہ کرنا بھی ایک بہت بڑا موجب تھا اورگمان غالب ہے کہ پھربوٹ پالیشیوں کوسرمچار اور کامریڈ بھی قراردیاجائے اس دن یقیناًسوشلزم سے قبل قومی سوال کی اہمیت کو مدنظررکھ کر ایسا کچھ لکھاجائے گا کہ سوشلسٹ بھی حیران رہ جائیں۔ یہ بنیادی نقطہ ہے کہ عابد میر قومی سوال کو کیسے غلط قراردیتے ہیں اور انتہائی طورپر اسے امریکہ کی پیداوار کیسے قراردیتے ہیں۔ عابد تاریخ سے ناواقف ہوسکتے ہیں لیکن اس قدر ناواقفیت تو پاکستان کے بڑے بڑے لکھنے والے وجاہت مسعود یا بڑے بڑے سوشلسٹوں کے ہاں بھی گمان نہیں کیاجاسکتا۔کیا بلوچ قومی سوال روس میں کمیونزم کے انقلاب سے نتھی رہا یا اس انقلاب کے بطن سے امریکہ کی جانب سے پیدا کیاگیا یا پھر یہ ہر اس ریاست اور اس کی قوم کے ساتھ جڑاہوتا ہے جو اپنا وجود او رشناخت رکھتی ہے ؟اس حوالے سے یہ سوال اہم ہے کہ کیا بلوچ قوم کا وجود سوویت یونین کے انقلاب کے بعد کی پیداوار ہے جہاں سب سے پہلے قوم کا ہوا کھڑا کیاگیا بعد میں قومی سوال کا وجود تخلیق کیاگیا ؟ چنانچہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عابد میر پہلے قومی سوال کی تعریف تو کرتے کہ بلوچ قومی سوال کیسے امریکہ کی پیداوار ہے ؟یوسف عزیز مگسی جب کہتے ہیں کہ کاش بلوچ نوجوان داس کیپٹل اور انقلاب کے دس دن والی کتابوں کا مطالعہ شروع کریں تو انہیں بلوچ کالفظ استعمال کرنے کی نوبت کیوں آئی ؟انہیں کیوں اس امریکہ کے کھڑے کئے گئے ہوا کا گمان نہ گزرا ؟گل خان نصیر جیسے سوشلسٹ (؟) کو اپنے اظہار میں بلوچ وطن اور بلوچ زبان وتہذیب کیوں رہ رہ کریاد آتے گئے جہاں ان کی تحریریں وطن سے محبت پر ہی محیط ہیں جبکہ جس سیاست کو عابد میر ان کے ہاں سوشلسٹ پہچان بتاتے ہیں وہ سب سرداروں اور نیپ کے زیر سایہ رہی اگر نیپ سوشلسٹ پارٹی تھی تو اس میں سردار مینگل نواب مری امیر الملک وغیرہ وغیرہ کیوں سوشلسٹ قرارنہیں پاتے ؟ فدا بلوچ جیسی شخصیت کا بھی حوالہ دیاگیا۔اب فدا ور پھر بلوچ اور پھر بی این وائی ایم جیسی پارٹی کے بانی رہنماء4 کے ذہن میں یہ امریکی ہوا کیوں محو ہوگیا کہ انہوں نے بلوچ قومی سوال کی ہی بات کی۔۔۔۔ پوری سیاست بلوچ قومی سوال کے گرد محیط رہی چنانچہ عابد میر نے جن شخصیات کا حوالہ بطور سوشلسٹ دیا ہے ان کے ہاں ہی ہمیں بلوچ قومی سوال جس شد ومد سے نظرآتا ہے کہ جس کو کوئی بلوچ یا غیر بلوچ بھی رد نہیں کرسکتا۔ان شخصیات کی شناخت ہی بلوچ قوم پرستی کے حوالے سے ہے ؟مجھے عابد سے کوئی بغض نہیں وہ سوشلسٹ ہیں اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں اچھی بات ہے لیکن اس بات پر اعتراض ضرور ہے کہ قومی سوال کو یورپ اور امریکی ہوا(بے بنیاد) قراردینا اور اس سے لاتعلقی کا اظہار کرناکسی طرح سے بھی تضاد سے خالی نہیں۔چنانچہ بلوچ قومی سوال کو بلوچ قومی تشکیل سے ہی لیا جاسکتا ہے جویقیناًسوویت یونین سے کہیں زیادہ پرانا ہے اگرقومی وجود کو لے کر قومی سوال کی اہمیت اور وجود کی بات کی جائے تو یہ کمیونزم اور خود امریکہ سے ہی بہت پرانے ہیں اور اگر سوویت یونین کے مختصر دور میں بلوچ قومی سوال کا ہوا کھڑا کرنے کو درست تسلیم بھی کیاجائے تو 90کی دہائی کے بعد سوویت یونین کے انہدام کے بعد اس بلوچ قومی سوال کے ہوا کو کیونکر کھڑا کرنے کی اب تک ضرورت پیش آئی ہے۔ جہاں عابد میر اور ان کے استادوں کو بھی بلوچ قوم پرستی کے نواب رہنما?ں کی پیروی کرنا پڑی اور وہ بھی ان کے فکری بارڈی گارڈوں میں شامل ہونے کا شرف حاصل کرتے رہے۔چنانچہ عابد میر بلوچ قومی تشکیل اور وطن وقومی مفادات کے تحفظ کے فطری احساس کے تناظر میں ان مسائل کو دیکھنے سے قطعی قاصر رہے ہیں اور ایسے ماہر اساتذہ کی نگرانی میں بھی جناب موصوف فکری مغالطوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں جو دانش کے نام پر بلوچستان میں ہونے والی کوششوں پر ایک بنیادی سوال ہے۔کیا بلوچ قومی تشکیل امریکہ اور سوویت یونین سے جڑی ہے ؟ اگر جڑی ہے تو کیسے ؟جبکہ سادی سی حقیقت یہ ہے کہ بلوچ قومی تشکیل بلوچ ریاست اور قومی مفادات کے تحفظ کی جدوجہد تو مارکسزم سے بھی بہت پہلے کی ہے۔ بلوچوں کی یہاں آمد کی تاریخ بھی دیکھی جاتی تو شاہد عابد میر کو مبالغہ نہ ہوتا۔جب خان آف قلات محراب خان انگریز کے یلغار کے خلاف دوبدو لڑائی لڑرہے تھے تواس وقت داس کیپٹیل لکھا بھی نہیں گیا تھا اورنہ مارکس اپنے نظریئے کو متعین کرسکے تھے۔اگر بلوچ قومی وجود کو لیاجائے تو اس وقت امریکہ بھی دریافت نہیں ہواتھا بلوچ امریکی دریافت سے بھی کہیں پہلے کی قوم ہے۔خان محراب خان سے بھی اگر شروع کیاجائے تو یہ سوویت یونین اور امریکہ کے سردار بننے سے پہلے کا قومی سوال قرارپاتا ہے۔مطلب میںیہ لکھتے ہوئے کنفیوز ہورہاہوں اور میری کیفیت ایسی ہے کہ اگر کسی بچے کواس کی ذہن سے بھی ماورا شہ سمجھائی جائے تو ممکن ہے کہ ایسا کیفیوڑن نہ ہو جیسا کہ اس معاملے پر عابد صاحب کی خدمت میں کچھ لکھتے ہوئے مجھے کیفیوڑن ہورہی ہے۔چنانچہ بلوچ قومی سوال کو سوویت یونین اور امریکہ کی سرداری سے نتھی کرنا ایسا ہے کہ عابد کے لئے بلوچستان کی عمر اس قدر طویل نہیں اور یہ اسے ایک صدی قبل کی ہی دریافت تخلیق یا بنیادی طورپر ’’ہوا ‘‘ قراردیتے ہیں۔چنانچہ بلوچستان کی جس قدر عمر ہے بلوچ قومی سوال بھی اس قدر پرانا ہے جس کا نہ تو سوویت یونین سے کسی طور پرکوئی تعلق ہے اور نہ ہی امریکہ کی سرداری کا اس کے وجود سے کوئی تعلق ہے۔
عابد میر نے ایک او رنقطہ بھی اٹھایا جو بدقسمتی سے تضاد بیانی سے خالی نہیں ہے وہ یہ کہ بھٹو نے یہاں زرعی اصلاحات کی کوشش کی تو یہاں کے جاگیرداروں نے اس کو ناکام بنایا۔اول تو یہ کہ یہ ایک ایسا رویہ ہے جو وقتا فوقتا دہرایاجاتا ہے یہ ایسا ہے کہ ڈیرہ بگٹی میں سکولوں کے قیام اور سڑکوں کی تعمیر کی بات کی جاتی تھی تو وفاق کہتا کہ وہاں نواب بگٹی ایسا کچھ نہیں چھوڑتے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جب تک نواب بگٹی اسکول وغیرہ نہیں چھوڑتے رہے زندہ رہے بلکہ وزیر مملکت سے لے کر گورنر اور وزیراعلیٰ تک بنتے رہے لیکن جونہی انہوں نے بلوچ قومی سوال کی بابت معاملہ اٹھایاتو اسے راستے سے ہٹادیاگیا یعنی جو چیز یہاں نہ کرنی ہواسے جاگیرداروں اور سرداروں کی بدمعاشی قراردی جائے اور اسکے سامنے وفاقجیسی طاقت بے بس ہوجائے لیکن جونہی کوئی قومی سوال کے حوالے سے موقف اپنائے تو یہی طاقت ان سرکش سرداروں اور جاگیرداروں کو غاروں میں جاکر مارے۔اب بھٹو کی زرعی اصلاحات کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی رہا۔ذوالفقار علی بھٹو نے نیپ کی حکومت ختم کردیِ سردار مینگل وغیر ہ گرفتارکئے گئے ، بھٹو نے ان سرکش سرداروں کو سبق سکھانے کے لئے بلوچستا ن کے دورے پر تھے ،جھالاوان میں جلسہ سے خطاب کررہے تھے اور کہہ رہے تھے آج سے میں بلوچستان میں سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کرتا ہوں پھر فورا نیچے جھکے اور اسٹیج پر بیٹھے سردار دودا خان زہری سے کہنے لگے ’’آپ کے علا?ہ ‘‘ یعنی سرداری نظام کے خاتمے کی سنجیدگی کا یہ عالم تھا تو زرعی اصلاحات کا عالم کا خود ہی اندازہ لگایئے جہاں آج گڑی خدا بخش میں شہداء4 پی پی کے لئے جو زمین مختص ہے اور وہاں کی وسیع وعریض زمین پرجس انداز سے مقبرے تعمیر ہیں۔اب یہ شاہانہ طرز زندگی اور بعداززندگی دیکھ کر مدفن شخص کو تاریخ زرعی اصلاحات کرنے والے رہنماء4 کے طورپر قطعی یادنہیں کرسکتی۔