عورت کی بلوچ معاشرے میں حیثیت کا جائزہ۔
تحریر : زرک میر
گزشتہ دنوں کے ایک پوسٹ میں اس بات پر مختلف رائے سامنے آئیں کہ " بلوچ قبائلی جنگوں میں جب عورت کا میڑھ بھیجاجاتا ہے تواس کے پس منظر میں عوامل کیا ہوتے ہیں " میں نے موقف اختیارکیاتھا کہ جنگوں میں عمومی طورپر مرد حضرات جو سردار میر ٹکری اور سید وملاوغیرہ پرمشتمل ہوتی ہے اسے بھیجاجاتا ہے لیکن ان مردحضرات کے بعد اگر جنگ کا کوئی فریق اپنی طرف سے عورتوں کو میڑھ کے لئے بھیجے تو اس کو اس فریق کی جانب سے جنگ میں شکست کا پیغام ہی سمجھا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ اس پر مختلف رائے سامنے آئیں جس میں کچھ دوست تو اس تصور اور رواج سے ہی بے خبر نکلے کہ عورت کو بھی میڑھ کے لئے بھیجا جاتا ہے ،دوسری رائے یہ تھی کہ عورت کو میڑھ کے لئے بھیجاجاتا ہے لیکن اس میں شکست کے پہلو کی بجائے عزت وتکریم کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ان دوستوں نے لشکر کشی یا بعض اوقات مشتعل قبائلیوں کی جانب سے گھروں اور دیہات پرحملے کے لئے لشکر کشی کی جائے تواس کو روکنے کے لئے غیر متعلقہ قبائل کے مرد یا بعض اوقات عورتوں کو بھیجا کر جنگ بندی کی کوشش کروائی جاتی ہے۔اس بات میں بھی کوئی شک نہیں لیکن یہ رائے رکھنے والے دوستوں نے عورت کے میڑھ کو لشکر کشی یا دوبدو جنگ کو روکنے کے تناظر میں ہی لیا اور اس کو عورت کی عزت وتکریم کے طورپر پیش کیا۔۔۔۔۔۔ یہاں تک تو بات واضح ہوگئی کہ بلوچ قبائلی جنگوں میں عورت کو بطورمیڑھ بھیجاجاتا ہے اور اس کا تصور موجود ہے۔لیکن میرا موقف یہ ہے کہ میل کشی لشکر کشی اور گھروں پرحملوں کے مخصوص جنگوں کے علا?ہ عام جنگیں جس میں گھروں میں جنگ کرنے و الے کسی بھی حملے سے محفوظ تصور ہوتے ہیں لہٰذا بدلہ لینے والا فریق اس فریق کے گھر سے نکلنے کا انتظارکرتا ہے۔اس کی راہ تھکتا ہے‘ معلومات حاصل کرتا ہے دوسرے شہروں میں جاکر اس قبیلے کے افراد پر حملے کی کوشش کرتا ہے تو ایسی صورت میں عورت کیسے درمیان میں پڑسکتی ہے چنانچہ عام جنگوں میں پہلے کے اقدام کے طورپر عورت درمیان میں نہیں پڑتی بلکہ ایسی عمومی جنگ میں ایک فریق حملہ کرتا ہے اورفورا مردحضرات کو میڑھ کے لئے اپنی رضامندی سے بھیجتا ہے دوسرا فریق اگر قبول نہ کرے تو وہ بدلہ لیتاہے اور بدلہ لیتے ہی اب وہی مردحضرات (سردار میر ٹکری سید ملاوغیرہ) کو دوسرے فریق کے پاس رضامندی سے میڑھ کے لئے بھیجتا ہے جنگ جاری رہتا ہے اور یہ قبائلی روایت کے مطابق میڑھ بھیجتے رہتے ہیں اس دوران ثالثین کی کوششیں جاری رہتی ہیں اور جنگ بھی جاری رہتا ہے۔اس وقت تک عورت درمیان میں نہیں کھود پڑتی جب تک ایک فریق جنگ میں بالادستی حاصل کرے اور دوسرا فریق پس کر رہ جائے او ر اس کی طرف سے مرد حضرات کے مسلسل میڑھ بھیجنے کو قبول نہ کرے تب اس پسے ہوئے فریق کے پا س عورتوں کو میڑھ بھیجنے کا آخری آپشن بچ جاتا ہے۔اس کی میں نے نواب بگٹی کی مثال دی حال ہی میں ایک براہوئی قبیلہ کے ہاں سیاہ کاری کاواقعہ ہوا جس میں کیس ثابت نہ ہوا لڑکی کے باپ کی طرف سے سیاہ کار کرنے والے فریق کو سخت دبا? میں رکھا قبائلیوں کے میڑھ کو تسلیم نہیں کیاگیا جس پردبا? کے شکار قبیلے کے لوگوں نے عورتوں کو میڑھ بھیجا جہاں لڑکی کے باپ اور اس کے قبیلے کے لوگوں نے عورتوں کو بطور احترام دوپٹہ دیا اوران کو واپس کردیا اور جنگ بندی سے انکار کردیا۔نواب بگٹی کے حوالے سے بھی کلپر قبیلے کو معلوم تھا کی نواب بگٹی کی قبائلی انا کو کون ختم کرسکتا ہے؟ نہ تو یہ خان کے بس کی بات ہے نہ کسی عام سردار کی لہٰذا کلپر قبیلے کی خواتین نواب بگٹی کے پاس قرآن لے کرگئیں جہاں نواب بگٹی نے ان خواتین کے لئے دعوت کا اہتما م کیااوران کو دوپٹہ وغیرہ دے کر رخصت کیالیکن معاف نہ کیا جس پر کلپر خاندان علاقے سے نکل کر صادق آباد وغیرہ میں ہی آباد ہوگئے اورابھی تک دربدر ہیں جبکہ بدلے کے طورپرنے کلپر وڈیرہ کے بیٹے قربان سمیت چند افرد مارے بھی گئے۔ایک تو عورتوں کے میڑھ تک بات نہیں پہنچتی بہت کم حدتک بات عورتوں کی حدتک پہنچتی ہے تو عورتوں کو میڑھ کے لئے ضروربھیجاجاتا ہے۔اب میڑھ کے بارے میں یہ واضح ہو کہ ایک میڑھ تو وہ ہے جو میل کشی جہاں لگے کہ ایک ہجوم بدلہ لینے کے لئے بھاری سازوسامان اور لوگوں کے جارہاہے اسے روکنے کے لئے مردحضرات یا عورتیں درمیان میں آتی ہیں اس میں جنگ بندی ہی ممکن ہوتی ہے اس میں مزید پیشرفت پھر باقاعدہ میڑھ کی صورت میں ہی ہوتا ہے اور یہ باقاعدہ میڑھ کسی ایک فریق یا بعض دفعہ دونوں فریق بااعتماد ثالثین کو چن کر اختیاردے دیتے ہیں جہاں فیصلہ ہوتا ہے لیکن جب عورت میڑھ کے لئے جاتی ہے تو اس کے پاس ایک ہی اختیارہوتا ہے وہ یہ کہ ایک فریق جنگ کی سکت نہیں رکھتا اور اپنی شکست تسلیم کرتا ہے جبکہ باقاعدہ مردوں کے میڑھ میں دونوں فریقوں سے اختیارلے کر معاملے کی تہہ تک پہنچاجاتا ہے۔جنگ میں نقصانات کا اندازہ لگایاجاتا ہے اور سب سے اہم یہ کہ جس چیز پر جنگ ہوئی ہے اس کی ملکیت کا اندازہ لگایاجاتا ہے تب کسی فیصلے پر پہنچ جاتے ہیں اب ایسے دانشمندی کے کاموں میں عورتوں کا کیا کام؟اگرعورت کو بلوچ معاشرے میں عزت وتکریم حاصل ہے اور اس کی عزت کسی مرد سے بھی زیادہ ہے تو پہلے ہی میڑھ میں مردحضرات کیساتھ جو سردار میر معتبر ٹکری سید اور ملاپرمشتمل ہوتا ہے اس میں ایک عورت کو بھی شامل کیاجائے تاکہ جنگ پہلے ہی باقاعدہ میڑھ میں رک جائے ختم ہوجائے لیکن ایسا نہیں یہی سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کا میڑھ لے کرجانا عزت وتکریم سے زیادہ ہزیمت اور شکست کے واضح اعلان کیساتھ ناگزیر اور باحالت مجبوری بھیجاجاتا ہے اس میں مجھے عزت وتکریم کا عنصر نظرنہیں آتا۔مردحضرات بیسیوں میڑھ لے کرجاتے ہیں لیکن عورت کو اپنے ساتھ نہیں لے جاتے جب تک کہ معاملہ مرد کے ہاتھ سے نکل جائے تب شکست اور سرخم تسلیم کرنے کے طورپر عورت کو بھیجاجاتا ہے۔۔۔۔۔۔ رند رئیسانی قبائل کی جنگ کی مثال لیں جہاں بلوچستان سندھ اور پنجاب تک کے بااثر افراد کو میڑھ کے لئے بھیجاجاچکاہے لیکن چونکہ دونوں قبائل ابھی تک اس پوزیشن میں نہیں کہ شکست تسلیم کریں تب ہی عورتوں کودرمیان میں نہیں لایاجارہا۔ورنہ ان خاندانوں کے درمیان رشتہ داریاں بھی ہیں ،دونوں ہم پلہ قبائل ہیں عورت کو بیچ میں لانا اپنی شان کے خلاف اور اپنی قبائلی توہین سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میڑھ کا مقصد برابری کا توازن برقراررکھنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اس رواج کا مقصد کسی کو ظاہری طورپر کمتر خیال نہ کرنا ہے بے شک حقیقی طورپر مخالف قبیلہ کس قدرعددی حوالے سے کمزورکیوں نہ ہو یہ ایک ضروری امر ہے اگر کبھی کسی جنگ میں حملہ آور فریق حملہ بھی کرے اور میڑھ بھی نہ بھیجے اورمعاملہ خواہ کتنا ہی معمولی نہ ہو مخالف کو ہرطرح سے حملے کا بھرپورحق حاصل ہوتا ہے اور فیصلے کے وقت پہلے والے حملہ آور کو اس بات پر سزادی جاتی ہے کہ اس نے حملہ کرنے کے بعد مخالف کو میڑھ کیوں نہیں بھیجا۔۔یہ ایک رواج ہے اوررسم ہے۔۔۔۔۔۔ چنانچہ میڑھ کو ہم قبائلی رسم ورواج کے طورپر ایک رسم بھی لے سکتے ہیں جبکہ عام طورپر حملہ ناگزیر ہوتا ہے کیونکہ اکثر مسائل جب تک جنگ کے سطح پر نہ پہنچیں حل ہی نہیں ہوتیں۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنے ایک مضمون میں کبڑا چیف کاذکر کیاتھا جو مسائل کے حل کے لئے اپنی ذہانت کے طورپر فریقوں کو جنگ پرراغب کرتا ہے۔ جنگ سے قبل بہت کم ہی مسائل حل ہوتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ ہمارا بوسیدہ اور غیر فعال معاشرتی نظام ہے چنانچہ پہلا حملہ مسئلے کی شدت کو اجاگر کرنے کے لئے ہی ہوتا ہے تب میڑھ لازمی قرارپاتا ہے کہ اب اس مسئلے کو مسئلہ سمجھ کر حل کیاجانا چاہئے۔اور میڑھ دونوں فریقوں کی پوزیشن کو واضح کرنے کابھی ذریعہ ہے کہ دونوں فریق جنگ کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں یا صلح کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔چنانچہ سردار میر معتبر اور سید مولوی وغیرہ درمیان میں آکر مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اب یہاں مسئلے کی نوعیت اہم ہوتی ہے۔عورت میڑھ کی صورت میں جائے تو یہ سفید جھنڈا کی مانند ہوتا ہے کہ وہ فریق جنگ نہیں چاہتا۔۔۔۔ البتہ یہاں بنیادی طورپرجن دوستوں نے رائے دی ان میں سے ایک آدھ کے علاوہ باقیوں نے مسئلے کی بنیادی نوعیت کو سمجھا اور اپنی رائے دی لیکن ان کی رائے سے جواختلافی پہلو نکلتا ہے وہ ہے بلوچ معاشرے میں عورت کا مقام اور حیثیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب چونکہ بلوچ سوسائٹی قبائلی سوسائٹی ہے جہاں نسلی امتیاز قبائلی انا باہمی بغض اورجھگڑوں کا تصور ہمیں کثرت سے ہی ملتا ہے۔۔۔۔خان قلات کی مرکزیت رضاکارانہ اور ڈھیلی ڈھالی رہی ہے لیکن بنیادی طورپر خان قلات کے وضح کئے گئے(جو خود قبائلی سماج کے تجربات سے ہی اخذ کئے گئے ہیں بعد میں ان میں اسلامی عناصر بھی کثرت سے شامل ہوئے) قوانین جو روایات کی صورت میں موجود ہیں ان پر ہی عملدرآمد ہوتا آیا ہے اور میرے نذدیک یہ قوانین وطن سے محبت اور لگا?کے علا?ہ مذہبی بنیادوں پر قائم رہے ہیں لہذا اس تناظر میں بلوچ معاشرے میں عورت کے مقام کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں جہاں اسلامی شریعت میں عورت کی فزیکلی کمزرویوں ،جنسی لحاظ سے جنسی جذبات کے ابھارنے اور بچے پیدا کرنے کے کردار کودیکھتے ہوئے اسے گھر میں رہنے کا پابند کیاگیا ہے اسے باقی چیزوں میں کردار ادا کرنے میں منع کیاگیا ہے۔۔۔۔اسی طرح دیگر کمزرویوں کے باوصف شریعت میں عورت کو پردہ کرنے سمیت گھر میں رہنے کی ہی تاکید کی گئی ہے البتہ اس کو ظاہری طورپر یہ قراردیاگیا کہ اسلام نے عورت کو گھر کی زینت قراردیا ہے۔ یہ جنت میں حوروں کی سردار ہوگی وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی باطنی طورپر عورت کو گھر میں قید رکھنے کی وجوہات عورت کی کمزوریاں ہی ہیں لیکن ظاہری طورپر اسے خوبصورت نام دے دیاگیا کہ عورت گھر کی زینت اور سردار ہے۔۔۔اب ہم عملی طورپر اس کا بخوبی مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہماری گھر کی سردارنیاں اور زینت کس اذیت سے دوچار ہیں ، جب ان کو ڈاکٹر کے پاس جانے کی اجازت نہیں ، ان کو کسی غیر مرد سے نظریں ملانے پر سیاہ کارکیاجاتا ہے۔۔۔۔۔اب چونکہ بلوچ معاشرہ بھی عورت کو اپنے قوانین میں عزت کے لیبل کے ساتھ بخوبی پیش کرتا ہے اور دلچسپی سے یہ بات خالی نہیں کہ ہمارے بلوچ سیاسی رہنماء4 کارکن اور ادیب بھی اس ظاہری لیبل کو ہی حقیقت ماننے پر مجبورہوکر اس بات پر متفق ہیں کہ بلوچ معاشرے میں عورت کو عزت وتکریم حاصل ہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلوچ معاشرے میں بھی عورت کو گھر میں رکھنے پردے میں رکھنے سمیت دیگر عوامل کی وجہ سے کمزور اور لاچار قراردے کر اس کے کردار کو معاشرے میں محدود کرکے عزت وتکریم کانام دیاگیا۔ گویا ہمارے عام رویئے عورت کو قدم قدم پر بے حرمت ظاہرکرتے ہیں ‘ اس کے ساتھ امتیاز اپنے عروج پرہوتا ہے۔یہاں دلچسپی کے لئے ایک مثال پیش کروں ،ایک عام بلوچ اور نواب وسردار چارشادیاں تک کرتے ہیں اول تو اس سے بلوچ معاشرے میں عورت کی عزت وتکریم اور حقوق کا پتہ چلتا ہے جو بنیادی بات ہے اور اسلام کو بھی آج اس قانون پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔اب ایک نواب چارشادیاں کرتا ہے ، ایک اپنے قبیلے سے تو باقی شادیاں غیر قبیلوں یا اکثر غیر بلوچوں میں کی جاتی ہیں۔ان تمام بیویوں سے بیٹے پیدا ہوتے ہیں جو نوابزادہ یاسردار زادہ کہلاتے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں ہی تخصیص شروع ہوتی ہے یعنی نواب وسردار کا جوبیٹا اپنے متعلقہ قبیلہ کی بیوی سے ہے اس کا بیٹا ہی حقیقی بیٹا اور سردار کا جانشین خیال کیاجاتا ہے قطع نظر دوسری بیویوں کے بیٹے عمر میں بڑے ہی کیوں نہ ہوں۔یہاں بلوچ قوانین بنانے والے سردار ونواب کے گھر میں عورتوں کیساتھ ما?ں کیساتھ تخصیص یقیناًہمارے بلوچ سیاسی کارکنوں اورادیبوں کے لئے غورطلب امر ہے۔نوابزادہ طلال اکبر بگٹی نے ببانگ دہل میڈیا میں اعلان کیا، گوکہ جمیل بگٹی مجھ سے عمر میں بڑے ہیں لیکن چونکہ ان کی والدہ پشاوری ہیں اس کے لئے وہ نواب نہیں بن سکتے نوابی کا حقدار میں ہی ہوں۔ نواب بگٹی کی ایک بیوی انگریز تھی اور ایک میمن۔۔۔میمن بیوی سے ایک بیٹا بھی ہے جس سے ہمارے بلوچ قوانین پرنازاں افرادناآشنا ہیں جس کا نام شازور بگٹی ہیں۔نواب بگٹی کی شہادت پر شازور کہہ رہے تھے کہ مجھے پاور میں نہیں آنا میرے والد کے قاتل گرفتارکئے جائیں۔صحافی نے پوچھا آخری دفعہ نواب بگٹی (والد) سے کب ملے تھے۔ شازور نے کہا میں 1997 میں والد نواب بگٹی سے آخری بارملا۔ پھر سوال کیاگیا کہ آپ اپنے آبائی علاقے ڈیرہ بگٹی گئے ہیں تو انہوں نے کہا میں کبھی نہیں گیا ، اس معاملے میں ہمارے ادیب وسیاسی کارکن عورت کی عزت وتکریم کا پہلو کہاں سے ڈھونڈیں گے جو ایک ہی نواب کی بیویوں میں سے ایک کو اعلیٰ اور ایک کو کم ترقراردیں۔۔۔۔۔۔۔۔رئیسانیوں کے ہاں نوابزادہ امین رئیسانی کی حیثیت بھی ہم سب کے سامنے ہے جس کو ماں کے غیر بلوچ ہونے پر دھتکارہ گیا ہے۔زہریوں میں بھی یہ مسئلہ رہا ہے۔ایک قبیلے کے حوالے سے یہ مشہور ہے کہ جب اس کا سردار والد مر گیا تو تیسرے دن قبائلی رسم ورواج کے مطابق اس کی دستاربندی ہونی تھی اور یہ چھوٹا تھا اس کو کہا گیا کہ اب تم سرداربنوں گے تو یہ بے چارہ کہنے لگا ’’ سلبو ای آئی آن ارفو‘‘ یعنی میں ماں سے پوچھ کرآجا?ں۔اس نے بات تو حکمت کی تھی جو اس وقت باپ کی غیر موجودگی میں اس کا سب کچھ تھا ، عورت کے عزت وتکریم کی بات کرنے والوں نے اس کو اس کے لئے شغان بنادیا اورکہاجاتا ہے کہ اس کی جگہ اس قبیلے کا غیرسردارخیل نوجوان بیٹا تھا اس نے کہا میں سردار بنوں گا اسے سردار بنادیاگیااور ابھی تک وہ سلسلہ چل رہا ہے۔ہم یہ بات ابھی تک سنتے ہیں اور ماں سے مشورے کو ان قبیلے والوں کے لئے بطورشغان استعمال کرتے ہیں۔اب بلوچ سیاسی کارکن اور ادیبوں کو محض بلوچ کوڈ وقوانین کو خوبصورت لیبل میں نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ ان کا کام عام شخص سے زیادہ باریک بین ہونا چاہئے لیکن افسوس ایسا نہیں ، حقائق یہ ہیں کہ اسلامی معاشرے کی طرح بلوچ معاشرہ بھی عورت کو حقیقی طورپر کمزور اور برابر نہ سمجھ کر اس کو ایک نہتا اور غیر متحرک (passive) خیال کیاجاتا ہے اب قوانین اور عام طورپر ظاہرکرنے میں اسے کمزور اور ناتواں کہا نہیں جاسکتا لہٰذا اسلام کی ہی طرح بلوچ معاشرہ بھی اسے عزت وتکریم کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ بنیادی طورپر اختلافی پہلو کا حل یہاں نکل آتا ہے باطنی طورپرعورت کی کمزوری کوہی مد نظر رکھ کراس کے میڑھ کو قبول کیاجاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عورت کی بلوچ معاشرے میں کمزوری پر عمومی اتفاق کے مناظر ہم آئے روز دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ جنگوں میں اکثر یہ جملے سننے کو ملتے ہیں یاپھر جنگوں کاسبب ہی یہ جملے بنتے ہیں کہ مجھے عورت مت سمجھنا ، اور یہ کہ عورت اپنے بچے کو یہ لوری سناتا ہے کہ میرا بچہ مرد اور بہادر بنے گا کھبی نہیں کہے گا کہ میرا بچہ میری طرح عورت بنے گا میری خاصیتیں اس میں ہونگی نہیں وہ اپنے بچے کے لئے اس کے باپ کو ہی آئیڈیل بناکرپیش کرتا ہے۔، مزید یہ کہ کسی بھی مرد کو عورت سے تشبہ دینا اس کی مردانگی کو چیلنج کرکے اس کو جنگ کی دعوت دینا ہے۔براہوئی میں مثال ہے کہ ’’ نیاڑی نت انا لتھر ء4243یعنی عورت پا?ں کی جوتی ہے، ایک اور مثال ’’ نیاڑی نا عقل کڑی ٹی ء4 ‘‘ یعنی عقل ودانش میں بھی اس کو کمتر خیال کیاجاتا ہے اور ہمارے روز مرہ کے رویئے عورت کے بارے میں اوپر کی مثالوں جیسے ہیں قطع نظر کہ بلوچ قوانین ان رویوں کو عزت وتکریم کا لبادہ پہناتا ہے،دراصل عورت کی کمزور حیثیت کو عزت وتکریم کانام دینے والے یہاں ایک اور غلطی کررہے ہیں کہ اگر بلوچ معاشرہ متوازن معاشرہ ہے تو اس میں عورت کو امتیازی عزت دینے بجائے برابری دینی چاہئے تھی تب بات ہوتی۔امتیازی عزت کا دعویٰ یہاں بھی مشکوک ہوکررہ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ یہاں بلوچ سیاسی رہنماء4 اور اس کے کارکن اور ہمارے ادیب یہاں الٹا کردار ادا کررہے ہیں انہیں چاہیئے تھا کہ وہ بلوچ قبائلی روایات کو فرسودہ اور غیر انسانی بنیادوں پر قائم قراردے کران کو ڈھانے کا کام کرتے لیکن چونکہ یہ خوش فہمیاں اور مبالغہ آرائی اور بلوچ معاشرے کا ظاہری لیبل ان کو سیاست کے لئے بنیاد فراہم کرتے ہیں کہ ہم ایک عظیم ریاست کے مالک تھے ہماراآئین تھا ہماری اسمبلیاں تھیں۔ اور بلوچ ادیب بلوچ معاشرے میں عورت کے عزت وتکریم کا گن گا کر اپنی غزلیں تعمیر کرتا ہے سیاسی کارکن اپنی نیشنلزم کی بنیادیں ان مبالغہ آرائیوں میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے تب ہی ہمارا نیشنلزم باہر کی دنیا میں قبائلی کاقبائلی اور جنگجو قرارپاتا ہے کیونکہ نیشنلزم یا ترقی پسند سیاست کو نئی بنیادیں چاہیے ہوتی ہیں‘نئی اصلاحات درکارہوتی ہیں لیکن ہمارے آبا?اجداد تو اس قدر ویڑنری تھے کہ ہمارے لئے ہزار سالوں کے لئے جدید معاشرتی بنیادیں متعین کرکے گئے جن پرہم چل کر خواہش رکھتے ہیں کہ نیلسن منڈیلا اور فیڈل کاستروہماری تعریف کریں۔ ادیبوں اور سیاسی رہنما?ں کو انقلابی ہونا چاہئے تھا اور بلوچ معاشرے کی پرانی بنیادوں کو ڈھاکر ازسرنو نئی ترقی پسند بنیادیں تعمیر کرنے کے بارے میں حکمت عملی اختیارکرنی چاہئے تھی لیکن یہاں سب بلوچ معاشرے میں عورت کے عزت وتکریم کے ظاہری آئینی لیبل پر متفق نظرآتے ہیں اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کا سخت گیر معاشرہ بھی بلوچ سیاست اور ادیب جیسا دعویٰ کرتا ہے کہ اسلام نے عورت کو وہ حقوق دیئے ہیں جن کا دنیا تصور نہیں
کرسکتی۔۔۔۔۔۔۔۔ بلوچ اوراسلامی معاشرے میں یہاں بہترین مماثلت نظرآتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے سیاسی کارکنوں اور ادیبوں کے تناظر میں دیکھاجائے تو ہمارا بلوچ معاشرہ عورت سمیت دیگر معاملات میں اس قدر ویڑنری رہا ہے کہ فلاسفر جان لاک وغیرہ کو بلوچ معاشرے سے سیکولرازم کی مثالیں لینی چاہئے تھی لیکن افسوس ہم گم گشتہ رہے۔۔۔۔۔۔۔۔ بلوچ سیاسی رہنما?ں اور بلوچ ادیبوں کی باتوں سے ایسا ہی لگتاہے کہ بلوچ معاشرہ تمام حوالوں سے بالخصوص عورتوں کے حوالے سے آئیڈیل ہے۔۔۔۔ دلچسپ تو یہ ہے کہ طالبان بھی یہی دعوے کرتے ہیں کہ اسلامی معاشرے نے عورت کو اس قدر عزت دی ہے کہ دنیا اس کا تصور تک نہیں کرسکتی اور اسلام کے داعی بھی ہمارے ادیبوں کی طرح یہی کہتے پھرتے ہیں کہ اسلام نے تو عورت کو بیش بہا حقوق سے نوازا ہے لیکن افسوس آج کے مسلمان ان قوانین پر عملدرآمد نہیں کرتے۔۔۔۔یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہمارے بلوچ ادیب اور سیاستدان بھی یہی کہتے رہتے ہیں کہ قوانین تو عزت وتکریم پر مشتمل ہیں لیکن ہمارے رویئے اگر عورت کو کمزور سمجھتے ہیں تو اس میں قوانین کا قصور نہیں۔