جمعہ، 29 جنوری، 2016

انقلابی لیڈر کم اِل سنگ



(کم اِل سنگ (تقریر
(9اکتوبر1975)
کامریڈز!
ہماری پارٹی کی سابقہ 30سالہ تاریخ کے دوران‘ بین الاقوامی میدان میں ایک عظیم انقلابی تبدیلی رونما ہوئی ہے اور دنیا کی شکل میں بنیادی تبدیلی آگئی ہے۔ بین الاقوامی کمیونسٹ اور محنت کش طبقہ کی تحریکوں اور قومی آزادی نیز جمہوری تحریکوں کو عظیم فتوحات حاصل ہوئی ہیں جب کہ سامراج کی رجعت پسندانہ قوتیں بہت کمزور اور زوال پذیر ہوگئی ہیں۔ سوشلزم نے ایک ملک کی سرحدوں سے نکل کر عالمگیر سطح پر ترقی کی ہے۔ سوشلزم ایشیا اور یورپ کے متعدد ملکوں میں فتح یاب ہوا ہے۔ لاطینی امریکہ کے ایک ملک بھی اسے فتح حاصل ہوئی ہے۔
دوسری عالمگیر جنگ کے بعد انقلاب کے شدید طوفان نے سامراج اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے براعظموں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اسے کروڑوں لوگوں نے جو صدیوں تک جبروتشدد کا شکار رہے تھے‘ قومی آزادی حاصل کرلی اور خود مختار ترقی کی راہ پر چل پڑے۔ تیسری دُنیا نے جو ہمارے زمانے کی عظیم سامراج دشمن انقلابی قوت ہے۔ تاریخ کے میدان میں داخل ہونے سے قبل جدوجہد آزادی کے خوفناک شعلوں سے جنم لیا تھا۔
تیسری دنیا اب سوشلسٹ قوتوں کی قابل اعتماد اتحادی ہے اور انسانی تاریخ کو آگے بڑھانے والی عظیم متحرک قوت ہے تیسری دنیا کے بہت سے عوام سوشلزم کی جانب رواں ہیں اور سوشلسٹ ملکوں کے ساتھ ساتھ ایک مشترکہ مقصد کی خاطر بہ سر پیکار ہیں۔ تیسری دنیا کے ملکوں اور سامراجیوں کے درمیان شروع سے شدید اختلافات موجود ہیں اور ان کے درمیان شدیدجدوجہد ہورہی ہے۔ نہ صرف یہ کہ ماضی میں سامراجیوں نے تیسری دنیا کے ملکوں میں طویل عرصے تک جبر وتباہی کا عمل جاری رکھا بلکہ ان ملکوں کے قومی آزادی حاصل کرلینے کے بعد بھی وہ جدید نوآبادیاتی ذرائع سے ان پر جارحیت کرنے اور انہیں تخت وتاراج کرنے کے شرانگریز عمل ملوث ہیں۔ ان حالات میں جب کہ سامراجی جارحیت اور ان لکوں کی تباہی کا عمل جاری ہے۔ یہ ایک ناگزیر امر ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک سامراج کے خلاف نبردآزما ہوجائیں۔
تیسری دنیا آج ایسا محاذ جنگ بن گئی ہے جہاں سامراج کے خلاف جنگ بہت خوفناک ہوتی جاری ہے۔ اس میں بہت سے انقلابی ممالک ہیں اور سامراج کے خلاف تیسری دنیا کے ممالک کی جدوجہدسامراجیوں پر تباہ کن ضربیں لگارہی ہے۔
سرمایہ دار ملکوں میں سرمایہ کے جبر و استحصال کے خلاف اور اپنے وجود نیز سوشلزم کے حق کی خاطر محنت کش طبقہ اور محنت کش عوام کی انقلابی
جدوجہد مین بھی وسعت اور قوت کے لحاظ سے اضافہ ہوا ہے۔
بین الاقوامی انقلابی قوتوں کی تیز ترقی کے برخلاف سامراجی قوتیں یقیناًکمزور پڑگئی ہیں خاص طور پر امریکی سامراجی دنیا کے انقلابی عوام کی شدید ضربوں سے بڑی تیزی سے زوال پذیر ہوئے ہیں۔ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد امریکی سامراج نے مکاری سے دنیا پر تسلط جمانے کی کوشش کی ہے۔سوشلسٹ اور ترقی پسند ملکوں کے خلاف جارحانہ لڑائیاں اور تخریبی کاروائیاں جاری رکھتے ہوئے اور اپنی قوت کی پالیسی پر سختی سے عمل کرتے ہوئے اس نے ڈالر کی کشش کے ذریعے اپنی جارحیت کے پنجے دنیا کے متعدد ملکوں تک پھیلادیئے تاہم امریکی سامراجیوں کے جارحانہ ہتھکنڈے ہر جگہ بے اثر کردیئے گئے اور انہیں مسلسل ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑا۔ آج کل سامراجی ایسے سخت معاشی بحران سے دوچار ہیں جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ سامراجی ملکوں کے اندرونی تضادات بہت سنگین ہوگئے ہیں اور سامراجی قوتوں کے درمیان تضازعات شدید ہوگئے ہیں۔ اندرونی و بیرونی لحاظ سامراجی سختیوں میں مبتلا ہیں اور عوام نے انہیں ردکرکے ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ ہمارا زمانہ آزادی کا زمانہ ہے۔ آج دنیا میں متعدد اقوام آزادی کی خواہاں ہیں اور ہر طرح کی محکومیت کے خلاف نبردآزما ہیں۔ کوئی قوم برداشت نہیں کرسکتی کہ دوسرے اس کی آزادی کو پامال کریں۔ سوشلسٹ اور تیسری دنیا کے ملکوں کے عوام کا تو ذکر ہی کیا۔ سرمایہ دار ملکوں تک کے عوام آزادی کے خواہاں ہیں یہ ہمارے زمانے کا بنیادی رجحان ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ دنیا کے لوگ آزدی چاہتے ہیں اور کئی ملک آزادی کی شاہراہ پر چل پڑے ہیں۔ 
کامریڈ! کوریا کی ورکرز پارٹی نے اپنے آغاز سے ایک آزاد خارجہ پالیسی کو اپنایا ہے ملک کے آزاد پُرامن ازسر نو اتحاد‘ قومی سطح پر کوریائی انقلاب کی فتح اور عالمی انقلاب کی اخری فتح کو قریب لانے کے خیال سے ہماری پارٹی نے ایک اہم انقلابی پروگرام پیش کیا کہ بین الاقوامی قوتوں کو مستحکم کیا جائے اور ان کے ساتھ باہمی اتفاق کو پائیدار بنایا جائے۔ ہماری پارٹی نے اس پروگرام پ ر مسلسل عملکی اہے۔ عہد ماضی میں ہماری پارٹی نے یہ کوششیں زوروشور سے کی ہیں کہ سوشلسٹ ملکوں کے قُربت اور بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک کے اتحاد کو مضبوط بنیا جائے۔ سامراج کے خلاف مجبور عوام کی قومی آزادی کی تحریک اور تمام لوگں کی انقلابی تحریکوں کی حمایت کی جائے۔ تیسری دنیا کی قوموں سمیت ان تمام ملکوں سے دوستی اور تعاون بڑھایا جائے جو ہمارے ملک کے دوست ہیں۔ جارحیت اور جنگ کی سامراجی پالیسی کی مخالفت کی جائے اور عالمی امن نیز بنی نوع انسان کی ترقی حاصل کی جائے۔ بیرونی سرگرمیوں میں ہماری پارٹی نے آزادی کو پوری قوت سے برقرار رکھا ہے۔ اس نے دوسری پارٹیوں اور ملکوں سے اپنے تعلقات مکمل برابری اور باہمی عزت کے اصولوں پر استوار کئے ہیں۔ خارجہ امور کے شعبے میں اُٹھنے والے تمام مسائل اس نے کورریائی انقلاب کے مفادات سے آگے بڑھ کر اپنے ہی فیصلے کے مطابق آزادانہ حل کئے ہیں۔ ہماری پارٹی اازاد خارجہ پالیسی اور اس کی توانا خارجی سرگرمیوں کے طفیل ہماری پارٹی اور حکومتِ جمہوریہ کے غیر ملکی تعلقات نمایاں طور پر وسیع ہوئے ہیں اور ہمارے انقلاب کا بین الاقوامی استحکام مزید مضبوط ہوا ہے۔ آج تمام دنیا میں ہمارے عوام کے دوست اور ہمدرد بھاری تعداد میں موجود ہیں۔ اس سے ہماری پارٹی کی اازاد خارجہ پالیسی کی صحت اور قوت کا واضح ثبوت ملتا ہے۔
اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے میں برادر پارٹیوں‘ برادر سوشلسٹ ملکوں تیسری دنیا کی قوموں اور دنیا کے متعدد دیگر ملکوں کی حکومتوں اور
عوام کا تہ دل سے شکر گزر ہوں جنہوں نے ماضی میں ہماری پارٹی اور ہمارے عوام کے انقلابی مقصد کی سرگرم حمایت اور حوصلہ افزائی کی۔ ہماری پارٹی کی خارجہ پالیسی کا یہ اتل صول ہے کہ دنیا کے ان عوام کے ساتھ اتحاد و تعاون کو مضبوط بنایا جائے اور فروغ دیا جائے جو آزادی کے ہمنواہیں۔ دنیا کے ان عوام کا ساتھ دیناا ور ان کے ساتھ دوستی و تعاون بڑھانا جو آزادی کی حمایت کرتے ہیں۔ ہمارے انقلاب کے مطابق بین الاقوامی انقلابی قوتوں کی مدد کرنے کے لیے اور ہماری انقلاب کی فتح کو قریب تر لانے کے لیے اہم ضمانت ہے۔ ماضی کی طرح مسقبل میں بھی کوریائی ورکرز پارٹی بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک اور سوشلسٹ قوتوں کے اتحاد و اتصال کو مستحکم کرنے اور تمام سوشلسٹ ملکوں کے ساتھ دوستی اور تعاون بڑھانے کی کوشش کرتی رہے گی۔
دنیا بھر کے کمیونسٹوں اور ترقی پسند عوام کا یہ بین الاقوامی فریضہ ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ اتحاد برھایا جائے جو سامراجی جارحیت کے خلاف اور قومی آزادی کے حق میں جنگ آزما ہیں اور ان کی برحق جدوجہد کی سرگرم حمایت اور حوصلہ افزائی کی جائے۔ کوریا کی ورکرز پارٹی ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے عوام کی سامراج دشمن قومی آزادی کی تحریک کی حمایت اور حوصلہ افزائی پوری قوت کے ساتھ کرے گی اور ان کے ساتھ باہمی اتحاد کو مضبوط بنانے کی کوشش کرے گی۔ کوریا ورکرز پارٹی تیسری دنیاکے انقلابی ملکوں اور نئی اُبھرتی ہوئی قوتوں والے ملکوں کے ساتھ اتحاد دوتعاون کو مزید مستحکم کرے گی اور ترقی دے گی اور ان کے ساتھ شانہ بشانہ سامراجی و نوآبادیاتی جارحیت وغارت گری کے خلاف اور تمام دنیا کے ترقی پسند عوام کے مشترکہ مقصد کی کامیابی کے حق میں بہادری سے نبردآزما رہے گی۔ تیسری دنیاکے ملک نیز نئی اُبھرتی ہوئی قوتوں والے ملک کبھی سامراج کی نوآبادیاں یا نیم نوآبادیاں تھے۔ ان ملکوں نے قومی آزادی حاصل کرلی ہے اور اب ایک نئے معاشرے کی تعمیر کا آغاز کر چکے ہیں ۔ تیسری دنیا کے ملکوں کو اگر سامراجی جارحیت و غارت گری کو ختم کرنا ہے۔ قومی آزادی کو مستحکم کرنا ہے اور خوشحالی لانا ہے تو انہیں اپنی آزادی کو برقرار رکھناچاہیے۔ ایک ملک اور قوم کے لیے اازادی بہت اہم ہے۔ صرف آزادی برقرار رہنے ہی پر ملک وقوم کے وقار کا تحفظ اور ایک نئے خوشحال معاشرہ کے تعمیر ممکن ہے۔
معاشی لحاظ سے اپنے آپ پر انحصار رکھنا آزادی کی مادی اساس ہے، معاشی آزاددی نہ رہنے کی صورت میں دورے ممالک کی محکومیت اور نوآبادیاتی غلامی سے محفوظ رہنا ممکن ہے معاشی انحصار سیاسی محکومیت کی طرف لے جاتا ہے اور معاشی عدم مساوات سیاسی عدم مساوات کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ تیسری دنیا کے ملکوں کو اگرا پنی آزادی کو قائم رکھنا ہے تو انہیں ہر قیمت پر ایک آزاد معیشت کی تعمیر کرنی ہوگی۔
تیسری دنیا کے عوام کے درمیان اتحاد و تعاون کے کئی اسباب ہیں۔ وہ سب ماضی میں سامراجیوں کے جبر واستحصال کا شکار رہے ہیں اور اب قومی آزادی کے حصولی اور نئے معاشرے کی تعمیر کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کے سابقہ حالات اور موجودہ کوششوں کی یکسانیت کے سبب ان کا یک جان وقالب ہونا بہت ضروری ہے۔ دلبستانوں سیاسی نظریوں اور مذہبی عقیدوں کے لحاظ سے تیسری دنیا کے لوگوں کے اختلافات سامراج دشمنی اور آزادی کے پرچم تلے رہنے کے سبب تعاون کی راہ میں حائل نہیں ہونے چاہئیں۔ آزادی کے اُصول پر ان لوگں کو ایک دوسرے سے اچھی طرح متحد ہونا چائیے اگر وہ اس اصول پر مکمل اتحاد کے ساتھ جدوجہد کریں تو ہرسامراجی کو شکست دینے اور بین الاقوامی میدان میں تمام معاملات کو ترقی پسند عوام کے مفادات کے مطابق حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تیسری دنیا کے عوام کی
مشترکہ قوت اب عالمی سیاست پر بہت اثر دال رہی ہے۔ بین الاقوامی میدان میں اب متعدد مسائل کو تیسری دنیا کے عوام مشترکہ کوششوں سے صحیح طورپر حل کررہے ہیں۔ تیسری دنیا کے لوگوں کو اب زیادہ یکجہتی کے ساتھ ایسی جدوجہد چلانی چائیے کہ بین الاقوامی میدان میں سامراجیوں کی یکطرفہ کاروائیوں کا خاتمہ کیا جاسکے اور بڑی طاقتوں کے جوڑ توڑ والے ناجائز بین الاقوامی اداروں کو دُنیا کے ترقی پسند عوام کے فلاحی اداروں کی صورت میں تبدیل کیا جاسکے۔ تیسری دنیا کے ممالک کو محض سیاسی طورپر ہی متحد نہ ہونا چائیے بلکہ معاشی طور پر بھی آپس میں گہرا تعاون کرنا چائیے۔ ان میں معاشی تعاون کی بڑی صلاحیتیں ہیں ان کے پاس بہت زیادہ قدرتی وسائل ہیں اور وہ تجربوں اور تکنیک کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے کو بہت کچھ دے سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کی ضرورتوں کو پوران کرنے کے اصول کے مطابق اگر یہ ممالک معاشی فنی تعاون کو مستحکم کریں تو وہ عظیم کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں اور بڑی طاقتوں پر انحصار ختم کرکے بھی تیزی سے ترقی کرسکتے ہیں۔ تیسری دنیا کے لوگوں کو متحدہ کوششوں کے ذریعے سامراجیوں کے غرور کو توڑنا چائیے اور ایک ایسے نئے معاشرے کی تعمیر کرنی چائیے جو سامراجیت‘ نوآبادیت‘ غارت گری اور استحصال سے پاک ہو۔
مارکسزم، لینن ازم اور پرولتاری بین الاقوامی نیز سامراج دشمنی و آزادی کے انقلابی پرچم تلے کوریاکے ورکرز پارٹی اور کوریائی عوام دنیا کے ان عوام کے ساتھ مل کر جو آزادی کے علمبردار ہیں، سامراج اور نوآبادیات کی مخالفت کرتے رہیں گے اور امن، جمہوریت، قومی آزادی، سوشلزم اور کمیونزم کی خاطر پوری قوت سے جدوجہد کرتے رہیں گے۔
***
کم اِل سنگ (خط) (8جنوری1965)
(واشنگٹن میں ادارہ برائے کوریائی امور کے صدر کے خط کا جواب)

آپ کا خط مجھے ملا۔ یہ معلوم ہوکر مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ ملک کے ازسر نو اتحاد کے مسلے پر آپ فکر مند ہیں۔
آپ کو معلوم ہی ہے کہ ہماری قوم کو علاقائی اور قومی تقسیم کا نشانہ بنے بیس سال گذرچکے ہیں۔ ملک کے ازسر نو اتحاد کا تو ذکر ہی کیا جو قوم کی بڑی پرانی تمنا ہے۔ شمالی و جنوبی کوریا کے درمیان میل جول اور سفر تک کی سہولتیں فراہم نہیں کرسکی ہیں۔ حالانکہ اتنا طویل عرصہ گذرگیا ہے کہ ایک نئی نسل کی نشوونما ہوشکی ہے اور قومی تقسیم کی مصنوعی ہنوز قائم ہے۔ وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ چمال و جنوب کے درمیان سیاسی، معاشی اور ثقافتی شعبوں میں اختلاف بڑھتا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ قومی خصوصیات جوہمارے عوام میں مشترک ہیں نیز وہ قومی ہم جنسیت جس کے پس منظر میں تاریخ کا طویل زمانہ پھیلا ہوا ہے۔ سب میں رفتہ رفتہ فرق پیدا ہوتا جارہا ہے۔ قوم کے منقسم رہتے ہوئے مربوط عمل‘ قومی سرمائے اور عوامی قوت سے ملک کی ترقی کا کام لینا ممکن نہیں ہے۔ اس تقسیم سے کوریائی عوام پر ناقابل برداشت مصیبتوں کے پہاڑ توٹ پڑے ہیں۔ شمال وجنوب کی صورت میں کوریا کی تقسیم سے خصوصاً جنوبی کوریا کے لوگ ناقابل بیاں تکالیف اور بدبختی سے دوچار ہوگئے۔
جب تک ہمارے ملک کی تقسیم کو ختم نہیں کیا جاتا اور جب تک اسے ازسر نو متحد نہیں کردیا جاتا تمام قوم کی خوش حالی کی توقعات نہیں کی جاسکتیں اور جنوبی کوریا کے لوگوں کو ان کی موجودہ بدحالی سے نجات نہیں دلائی جاسکتی۔ اگر آج جنوبی کوریا میں عوام کی غالب اکثریت زوروشور سے کہہ رہی کہ ملک کے ازسرنو اتحاد کے بغیر ان کی زندگی مشکل ہے تو یہ ایک فطری بات ہے۔ قومی شعور کی حامل وہاں کی متعدد عوامی شخصیتیں اس لئے ملک کے ازسر نو اتحاد کے لیے بڑے حوصلے سے جدوجہد کر رہی ہیں ملک کا ازسر نو اتحاد فوری نوعیت کا ایک قومی مسئلہ ہے۔ جسے اب مزیر التواء میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب بغیر کسی امتیاز کے گوریا کے ان تمام لوگوں کے لیے ملک کے ازسر نو اتحاد کی خاطر اپنی ہر امکانی کوشش کرنے کا وقت آگیا ہے جو محب وطن ہیں اور جنہیں قوم کے مستقبل کی فکر لاحق ہے۔ تمام دنیا جانتی ہے کہ ہماری حکومت نے تمام کوریائی عوام کی اجتماعی تمناو رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے ملک کے ازسرنو اتحاد کے حصول کی کوششیں بڑی ثابت قدمی سے کی ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی پارٹی‘ ٹولے یا امتیاز یافتہ طبقے کو اس کی اجازت نہ ہونی چائیے کہ وہ قومی مفادات کے بدلے ازسرنو اتحاد کے مسئلے کے حل میں رکاوٹ پیدا کرے۔ ازسرنو قومی اتحاد کو ہرصورت جمہوری انداز میں تمام کوریائی لوگوں کی رائے عامہ کے مطابق عمل پذیر ہونا چاہیے اور اس کی اجازت ہرگز نہہونی چائیے کہ ایک فریق اپنی رائے دوسرے پر ٹھونسنا شرع کردے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم اپنی رائے دوسروں پر ٹھونسنا نہیں چاہتے۔ ہم نے تو ہمیشہ اسی خیال کا اظہار کیا ہے کہ شمالی و جنوبی کوریا کے حاکموں، سیاسی جماعتوں، معاشرتی اداروں اور عوامی شخصیات کو ملک بیٹھنا چائیے اور ازسرنو اتحاد کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کھلے دل کے ساتھ پرخلوص انداز میں مذاکرات کرنے چائیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ غیر ملکی قوتوں پر انحصار کرکے ملک کو ازسرنو متحد کرنے کی بات محض فریب ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ تمام کوریا کو سامراجی جارجین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ کوریا کے ازسرنو اتحاد کا مسئلہ کوریائی عوام کا داخلی معاملہ ہے۔ جس پر غیر ملکی قوتوں کی کسی مداخلت کی گنجائش نہیں ہے۔ کوریائی مسئلے کو تو خود کوریائی عوام کو حل کرنا چایئے۔ غیر ملکی اس حیثیت میں نہیں ہیں کہ ہماری قوم کے اندرونی معاملات کو حل کریں۔ ہماری قوم باصلاحیت اور تہذیب یافتہ ہے اور اپنے قومی مسئلے کو حل کرنے کی پوری اہلیت رکھتی ہے۔
ہمارے ملک کے ازسرنو اتحاد کی راہ میں اصل رُکاوت وہ امریکی سامراجی ہیں جو فوجی قوت کے بل بوتے پر جنوبی کوریا پر قبضہ کئے ہوئے ہیں، ہمارے گھریلو معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔ ہماری قوم میں پھوٹ ڈالنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور تمام کوریا کے خلاف ایک جارحانہ پالیسی کو اختیار کئے ہوئے ہیں۔
امریکی سامراجیوں نے جنوبی کوریا کو تمام سیاسی، معاشی، فوجی اور ثقافتی میدانوں میں اپنے نوآبادیاتی اقتدار کے زیرنگیں کر رکھا ہے اور اس کے لوگوں کی حالت تباہ و برباد کردی ہے۔
’’جب تک کسی سرزمین پر ایک غیر ملکی جارح فوج موجود ہو، تب تک اسے آزادی یا خودمختاری حاصل نہیں ہوسکتی‘‘۔
وہ تمام لوگ جو قومی شعور کی تھوڑی سی بھی روشنی رکھتے ہیں۔ انہیں چائیے کہ امریکی فوجوں کی واپسی کا مطالبہ کریں اور ہمارے علاقہ سے
نکال باہر کرنے کے لئے جدوجہد کریں۔ ہمیں چائیے کہ امریکی سامراج جارجین کے خلاف عوامی غیض وغضب کو بھڑکائیں اور جنوبی کوریا سے امریکی فوج کو نکال باہر کرنے کی مہم میں تمام محب وطن قوتوں کو فعال کردیں۔
اس وقت تک ہمارے وطن کے ازسر نو اتحاد کے حصول میں ناکامی کی ذمہ داری امریکی سامراجیوں پر عائد ہوتی ہے۔ جنہوں نے ہتھیاروں کے بل بوتے پر جنوبی کوریا پر قبضہ کیا ہوا ہے اور ہماری قوم کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی حکمت عملی پر کاربند ہیں اور یاک ژنگ ہی جیسے غداروں، رجعت پسند سرکاری افسروں، سیاسی عطائیوں اور قوم کے مفادات کا سودا کر رہے تھے۔
وہ اس امریکی جارح فوج کے تحفظ دیتے ہیں اور اس کے وہاں مستقل قیام پر مصر ہیں جس نے جنوبی کوریا پر قبضہ کیا ہوا ہے اور ہمارے ملک کے ازسرنو اتحاد کو روکتی رہی ہے اور ہرقسم کی وحشیانہ ایذارسانی مثلاً لوٹ مار‘ جبر اور جنوبی کوریا کے لوگوں کا قتل عام اور تذلیل ک ارتکاب کرتی رہی ہے۔
یہ غداری ہماری اس پیش کش کو کہ ہم جنوبی کوریا کے لاکھوں بے روز گار افراد کو شمالی کوریا میں لینے اور نوکریاں دینے کو تیار ہیں مسترد کرکے ہمارے ان ہم وطنوں کویورپی اور امریکی ممالک فروخت کررہے ہیں جیسے وہ انسان نہیں کوئی مال ہیں۔
اگر کوئی شخص قوم کے مفادات کی حفاظت کرتا ہے اور ملک کے ازسرنو اتحاد کا خواہش مند ہے تو ہم اس بات کا لحاظ کئے بغیر کہ اس کے سیاسی خیالات و نظریات کیا ہیں اور ماضی وہ کیا کرتا رہا ہے۔ اس کے ساتھ تعاون کریں گے اور اس کے ساتھ ہر وقت جانے کو تیار وں گے:
بغیر اتحاد اور جدوجہد کے نہ تو ہم امریکی جارح فوج کو نکال باہر کرسکتے ہیں اور نہ قومی ازسر نو اتحاد کرسکتے ہیں‘‘۔
***
کم اِل سنگ (انٹرویو)
(یہ انٹریو ‘ یوگو سلاویہ کے اخبار ’’وسرنجی نو سستی‘‘ کے چیف ایڈیٹر نے 22فروری 1974ء نے کیا تھا)
سوال: یوگو سلاویہ، عوامی جمہوریہ کوریا کی آزادی اور پُرامن ازسرنو اتحاد کے بارے میں مسلسل کوششوں سے اچھی طرح باخبر ہے اور ان کی حمایت کرتا ہے۔ 
کیا آپ وضاحت کریں گے اور یہ بتائیں گے کہ ازسونواتحاد کے امکانات کیا ہیں؟
جواب: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہماری پارٹی اور حکومت جمہوریہ کی ملک کے آزادانہ اور پُرامن ازسرنو اتحاد کے لیے مسلسل کوششوں کے نتیجے میں شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان بات چیت شروع ہوئی اور جولائی 1972میں شمال جنوب کا مشترکہ اعلامیہ شائع ہوا۔ اس کے بنیادی نکتے تین اصول تھے یعنی آزادانہ‘ پرامن ازسرنو اتحاد اور عظیم قومی یکجہتی۔
شمال جنوب کے مشترکہ اعلامیہ کی اشاعت کے بعد ہماری حکومت جمہوریہ نے متعدد قطعی اور معقول تجاویز اس کو عملی شکل دینے کے لیے پیش کیں اور مذاکرات کو کامیابی سے آگے بڑھانے کے لیے ہر ممکن مخلصانہ کوشش کی۔ تاہم اندرون ملک اور ملک کے باہر تفریق پسندوں کی سازشوں کے نتیجے میں، شمال اور جنوب کے مذاکرات میں تعطیل پیدا ہوگیا اور مادر وطن کے ازسرنو اتحاد کے راستے میں بڑی مشکلات اور
رکاوتیں پیدا کردی گئیں۔
شمال جنوب کے مشترکہ اعلامیہ کی اشاعت کے بعد بھی جنوبی کوریا کے ارباب اختیار نے امریکہ کی شہ پر جنگی تیاریوں اور فسطائی جبر کو شدید تر کردیا۔ اعلامیہ کے پیش کردہ اصولوں کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے‘ بیرونی طاقتوں پرا نحصار کی اپنی پالیسی پر اور زیادہ ہٹ دھرمی کے ساتھ کار بند ہوگئے۔ اس میں انہوں نے دنیا کے سامنے قوم کی تقسیم کو برقرار رکھنے کی ایک ’’پالیسی‘‘ کا اعلان کیا۔ گذشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکہ اور جاپانی رجعت پرستوں اور جنوبی کوریا کے حکمرانوں نے ایک تجویز پیش کی کہ ’’دونوں کوریائیں‘‘ بیک وقت اقوام متحدہ کی رکن بنیں اور اس مقصد کے زبردستی حصول کے لئے جو طریقہ بھی سوچا جاسکتا ہے وہ انہوں نے اختیار کیا لیکن ان کی سازش، اشتراکی ممالک، غیر جانبدار ریاستوں اور بہت سے دوسرے ممالک کی منصفانہ کوششوں کی وجہ سے مکمل طور پر ناکام ہوگئی۔یہ ملک آزادانہ اور پُرامن قومی ازسرنواتحاد کے لیے ان تینوں اصولوں کی مکمل حمایت کا اعلان کیا جو شمال جنوب کے مشترکہ اعلامیہ میں پیش کئے گئے ہیں، اس نے ’’کوریا میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے اتحادوآبادکاری‘‘ کو ختم کرنے کے لیے جو دوسرے ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت اور جارحیت کے لیے امریکہ کا ایک آلہ کار ہے، ایک قرارداد بھی منظور کی۔ آزادانہ اور پُرامن ازسرنواتحاد کے لیے یہ ہماری پارٹی اور حکومت جمہوریہ کی پالیسی کی عظیم فتح ہے اور ان کی شکست فاش ہے جو کوریا کی مستقل تقسیم چاہتے ہیں۔
قوم کی تقسیم کو برقرار رکھنے کے لئے جنوبی کوریا کے حکام کی ان چالوں نے جو وہ سامراجی قوتوں کے اُکستانے پر کررہے ہیں، پوری کوریائی قوم کے دلوں میں ایک قومی تنفّر کو اُبھار دیا ہے۔ یہ لوگ مادر وطن کیے ازسرِ نو اتحاد کے شدید آرزو مند ہیں اور اب وہ لازماً مجبور ہوگئے ہیں کہ اندرون ملک اور ملک کے باہر تفریق پسندوں کے خلاف صف آرا ہوجائیں۔ آج جس قدر فسطائی جبر و ظلم شدید ہے، جنوبی کوریا کے نوجوان طالب علم اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد، جنوبی کوریا کے معاشرہ کو جمہوری بنانے، ملک و قوم کی بقا اور مادر وطن کو ازسرِنو متحد کرنے کی خاطر ایک دلیرانہ جدوجہد میں اتنا ہی مصروف ہیں۔

سوال: ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوریائی عوام نے ملک کے اشتراکی تعمیر میں عظیم کامیابیاں حاصل کرکے اپنے ملک کو ایک طاقتور اشتراکی صنعتی ریاست میں تبدیل کردیا ہے۔ ازراہ کرم ہمیں بتائیے کہ ان کامیابیوں کا بنیادی عنصر اور محرک قوت کیا ہے؟
جواب: اشتراکی انقلاب اور اشتراکی تعمیر میں ہماری تمام کامیابیاں اور فتوحات کوریا کی ورکرز پارٹی کی صحیح قیادت، پارٹی اور عام لوگوں کے ناقابل شکست اتحاد اور ہمارے عوام کے بے اندازہ انقلابی جذبے اور تخلیق جدوجہد کی بدولت ممکن ہوسکی ہیں۔ ہم نے ایک ایسی پالیسی اور لائحہ عمل وضع کیا جو ہمارے خاص حالات سے مطابقت رکھتا ہو اور اپنے انقلاب کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے خود اپنی کوششوں کے ذریعہ دوسروں پر انحصار کئے بغیر کوشش کی۔ ہر بار انقلابی جدوجہد اور تعمیر کے کام کی راہ میں ہم مشکلات اور آزمائشوں سے دوچار ہوئے لیکن ہم نے عوام کے طبقات پر بھروسہ کیا۔ ان سے مشورہ کیا اور ان کی دانش اور قوت سے کام لیتے ہوئے درپیش مشکلات اور آزمائشوں سے باہر نکل آئے ۔ چونکہ ہم نے محنت طبقے میں سیاسی کام کو تقویت دی اور ان کو مضبوطی کے ساتھ انقلابی نظریہ سے مسلح کیا اس لئے انھوں نے دل و
جان سے پارٹی کی پالسیوں میں دلچسپی لی اور ان کی تکمیل کے لیے جدوجہد میں اپنی تمام طاقت اور دانش صرف کی۔ آج ہمارے ملک کے تمام محنت کش لوگ، امداد باہمی کے اصول پر کھیتی باڈی کرنے والے کسان اور کارکن دانشور‘ ایک نظریہ اور ایک مقصد کے ساتھ پارٹی کے گرد مضبوطی سے اکھٹے ہیں۔ وہ انقلابی جذبے اور رجائیت سے بھر پور کام کررہے ہیں اور زندگی بسر کررہے ہیں۔ تمام لوگ سیاسی اور نظریاتی اعتبار سے پارتی کے گرد مضبوطی یہ متحد اور اکھٹے ہیں اور ایک انقلابی جوش و خروش کے ساتھ کام کررہے ہیں، ایسی مضبوطی سے متحد اور اکھٹے ہیں اور انقلابی جوش و خروش کے ساتھ کام کررہے ہیں، ایسی صورت حال میں ہمارے ناقابل تسخیر ہونے اور تمام کامیابیوں کی ٹھوس ضمانت کا راز پوشیدہ ہے۔ ہماری پارٹی اسی طرح اپنے گرد عام لوگوں کو مضبوطی سے اکٹھا کرکے اور ان کی تخلیقی قوتوں کو پوری طرح پروئے کار لاکر، انقلاب اور تعمیر کو بغیر دَم لئے تیز رفتاری کے ساتھ ااگے بڑھائے گی۔
***
حوالہ: 
نام کتاب: کِم اِل سنگ (ملک کے آزاد‘ پُرامن ازسرنواتحاد کی خاطر)
صفحہ: 120تا131 اور 288تا293 اور 346تا 353
پبلشرز: کاظمی پبلکشنگ ہاؤس، (1978)

منگل، 26 جنوری، 2016

’’سبھاش چندر بوس‘‘



سبھاش چندر بوس 1897 ؁ء کو کٹک میں پیدا ہوئے، آپ کے والد رائے بہادر جانکی ناتھ بوس کئی سال تک کٹک میں سرکاری وکیل رہے۔ ان کے آٹھ بچوں میں سے سبھاش چند ربوس، ڈاکٹر مست چندربوس اور ڈاکٹر سینل چندر بوس کے نام خاص طور پر قبل ذکر ہیں۔ انکے والد ایک نہایت اوبچے اور متمول گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ان کے خاندان کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے یورپ بھیجا۔ 1913 میں سبھاش چندر بوس کٹک کے ایک ہائی سکول سے میٹریکولیشن کا امتحان پاس کرنے کے بعد پریزیڈنسی کالج کلکتہ میں داخل ہوئے۔ ان دنوں وہاں کا رجحان زیادہ تر سوشل سروس کی طرف تھا اور آپ اپنا وقت اپاہجوں کی سیوا اور دکھیا بندوں کے مدد کرنے میں مصروف کیا کرتے تھے جب آپ ایف۔اے میں تعلیم پارہے تھے تو آپ کی زندگی نے پہلی بارپلٹاکھایا۔ ہندوستان کے مہا پرشوں اور مہاتماؤں کے جیوں چرتر کا آپ پر گہرا اثر پڑچُکا تھا۔ اچانک ایک روز آپ نے دنیا کو ترک کرنے کا فیصلہ کرلیا اور چپ چاپ گھر بار اور دنیاوی سُکھ چھوڑ کر گوروکی تلاش میں گھر سے نکل کر ہردوار کا رُخ کیا۔ ان حالات میں اگر یہ کہاجائے کہ آپ پیدائشی باغی تھے تو اس میں چنداں مبالغہ نہ ہوگا۔ بچپن میں ہی دنیا کے بندھنوں کو کات پھینکنے والا سبھاش اگر باغی نہیں تو اور کیا کہلاسکتا ہے؟ وہاں سے آپ بنارس، برندابن اور دیگر متبرک مقامات کی یاترا پر روانہ ہوگئے۔ اس دوران میں آپ نے بہت سے سادھوؤں اور نام نہاد مہاتماؤں سے ملاقات کی۔ لیکن ان کی طرز زندگی انہیں پسند نہ آیا۔

یہ سادھور اور مہاتما نہایت شان وشوکت سے رہتے تھے اور گوشہ نشینی کی آڑ میں لوگوں کو بے وقوف بناکر خود اپنا تمام وقت عیش و عشرت میں گزارتے تھے بھلا ایسے پاکھنڈی سادھو سبھاش جیسے سچے متلاشی کی زندگی پر کس طرح اثرانداز ہوسکتے تھے، چنانچہ بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ انسان دنیا کی کشمکش میں حصّہ لیتے ہوئے ہی خدمت خلق سے اپنی زندگی کے مشن کو پورا کرسکتا ہے، دنیا کی برائیوں کو دیکھ کر دنیا کو ترک کرنا بزدلوں کا کام ہے اور انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ دنیا ترک کرنے کی بجائے دنیا کی جدوجہدمیں حصہ لیتے ہوئے تمام برائیوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی کوشش کرکے اپنے زندگی سپھل کرے۔
سبھاش بوس ڈھونگی ساھوؤں اور پاکھنڈی مہاتماؤں کے چنگل سے نکل کر پھر اپنے گھر لوٹ آئے اور 1914میں کالج میں داخل ہوگئے۔ 1915میں آپ نے اول ڈویژن میں ایف۔ اے کا امتحان پاس کرلیا اور بی۔ اے میں داخل ہوئے ان دنوں ایک انگریزسٹر روٹن پریزیڈنسی کالج کلکتہ میں پروفیسر تھے۔ اس پروفیسر کو ہندوستانی کلچر اور تہذیب و تمدن سے انتہائی نفرت تھی۔ وہ اکثرطلباء کے احساسات و جذبات کو مجروح کرنے سے باز نہ آتے تھے۔ سبھاش بوس ان کے گندے خیالات سن کر آگ بگولہ ہوجایا کرتے تھے۔ آپ نے اس انگریز پروفیسر کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا اور تمام طلبا کو ہڑتال کی ترغیب دی لیکن جب اس بددماغ پروفیسر پر ہڑتال کا بھی کوئی اثر نہ ہوا۔ تو سبھاش اس کی مرمت کرنے کا فیصلہ کرلیا اور ایک روز اسے پیٹ ڈالا اس پر آپ کالج سے نکال دیئے گئے۔
دو سال بعد 1917میں کلکتہ یونیورسٹی نے آپ کو پھر کالج میں داخل ہونے کی اجازت دے دی ۔آپ سکاؤٹس چرچ کالج میں داخل ہوگئے اور بی۔اے کا امتحان بھی اول ڈویژن میں پاس کرلیا۔ پھر 1919میں ولایت چلے گئے۔ وہاں آپ انڈین سول سروس کے مقابلے میں شریک ہوئے اور بہترین پوزیشن میں کامیابی حاصل کرلی۔ اب آپ کے لیے دنیاوی سُکھ و عیش و آرام کا راستہ کھل گیا کیونکہ انڈین سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ بہترین سرکاری ملازمت حاصل کرسکتے تھے۔ آپ چاہتے تو کسی ضلع کا کمشنر بن کر لاکھوں روپیہ کمالیتے لیکن قدرت نے ان کے دل میں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیاتھا اور ولایت کے سفر نے تو ان کے سینے میں آزادی کی روح پھونک دی تھی۔ ایک طرف بڑے بڑے سرکاری عہدے انہیں جاہ و حشمت اور دنیاوی شان و شوکت کا پیغام دے رہے تھے دوسری طرف غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی بے بس اور بے کس بھارت انہیں دیش خدمت کا سندیشہ دے کر مصائب اور کٹھن زندگی کی راہ کھارہی تھی۔ یہ ذہنی کشمکش کافی دیر جاری رہی ایک طرف دنیاوی سُکھ اور عیش آرام‘ دوسری طرف جیل کی تنگ وتاریک کوٹھڑی اور ہتھکڑیوں کی جھنکار۔
آخر اس کشمکش کا نتیجہ یہ نکلا کہ سبھاش بوس کی زندگی نے دوسری بارپلٹاکھایا اور غیر ملکی حکمرانوں کی طرف سے پیش کردہ سرکاری عہدوں کی نسبت غلامی کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے بھارت ورش کی کشش زیادہ قوی ثابت ہوئی اور آپ نے نہایت سرگرمی سے سیاسیات میں حصّہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے اُجڑے ہوئے دیش کو غیروں کے آہنی پنجرے سے نجات دلانے کا تہیہ کرلیا۔
ان دنوں پہلی عالمگیر جنگ ختم ہوچکی تھی، جنگ کے دوران برطانوی حکومت نے ہندوستانیوں سے جو وعدے کئے تھے، جنگ کے خاتمہ پر انہیں بھلا دیا گیا۔ حکومت کے خلاف ہندوستانیوں کے دلوں میں غم وغصے کی آگ بھڑک چکی تھی۔ اب انہیں حکومت برطانیہ کی نیک نیتی پر
شک ہونے لگا۔ جلیانوالہ باغ امر تسر میں ہزاروں پرامن اور نہتے ہندوستانیوں کے قتل عام سے ملک کے طول وعرض میں بغاوت کے شعلے بھڑک اُٹھے۔ اس اثناء میں انڈین نیشنل کانگریس میں بھی رجعت پسندوں کا اثر زائل ہوچکا تھا اور لوگ یہ سمجھ چکے تھے کہ حکومت سے محض درخواستیں کرنے اور پروٹسٹ کے ریزولیوشن پاس کرنے سے ملک کو آزادی نصیب نہ ہوگی۔ 1920میں انڈین نیشنل کانگریس کے ناگپور سیشن میں ہندوستانیوں نے عملی کاروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے حکومت سے عدم تعاون کا ریزولیوشن پاس کردیا تھا۔ جلیانوالہ باغ کے حادثے سے لوگوں کے جذبات اس قدر مشتعل ہوچکے تھے کہ رابندرناتھ ٹیگور نے ’’سر‘‘ کا خطاب ترک کردیااور وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر سرسنکرن نائر نے بطور پروٹسٹ کونسل کی ممبری ٹھکرا دی۔ کانگریس نے حکومت کے بہرے کانوں میں دیش کی صحیح آواز پہنچانے کے لیے عد م تعاون اور سول نافرمانی کی مہم شروع کردی اس پر ملک کے طول وعرض میں گاندھی کے فرمان پر لوگوں نے سرکاری خطابات ترک کردیئے، وکلاء عدالتوں سے نکل آئے، طلبا نے سکولوں کالجوں کا بائیکاٹ کردیا اور ہندوستان بھر میں وسیع پیمانے پر گرفتاریاں شروع ہوئیں۔
جونہی یہ تحریک شروع ہوئی، حکومت برطانیہ گھبراگئی، وائسرے ہند لارڈ ریڈنگ نے کانگریس کو گول میزکانفرنس کی دعوت دی لیکن گاندھی نے یہ کہتے ہوئے کہ جب تک جیلوں کے دروازے نہ کھولے جائیں گے کانگریس حکومت سے کوئی گفت و شنید نہ کرے گی۔ مصالحت کے لیے لارڈ ریڈنگ کی پیشکش ٹھکرادی۔ ان دنوں مسٹر سی۔آر داس بنگال کے بے تاج بادشاہ تصور کئے جاتے تھے۔ لوگوں کے دل میں ان کے لیے زبردست عقیدت و احترام تھی کہ لاکھوں بنگالی اُن کے ایک اشارے پر اپنے آپ کو قربان کرنے کے لیے تیار تھے۔
ان کی اپیل پر ہزاروں طلبا سکول اور کالج چھوڑ کر کانگریس کے جھنڈے تلے آگئے۔ سبھاش بوس بھلا ایسے نازک موقع پر کب خاموش رہ سکتے تھے۔ آپ انڈین سول سروس سے استعفٰی دے چکے تھے۔ اور سی۔آر داس کے ایک لیفٹنٹ کی حیثیت سے تحریک میں شامل ہوگئے۔ پہلے پہل آپ بنگال نیشنل کالج کے پرنسپل بنائے گئے پھر نیشنل والٹیر کور کے کمانڈر بنائے گئے اور اس حیثیت میں پہلی مرتبہ گرفتار کرکے چھ ماہ کے لیے جیل بھیج دیئے گئے۔ رہائی کے بعد آپ نے ریلیف کے کام میں سرگرم حصّہ لیناشروع کردیا۔ ان دنوں شمالی بنگال میں طغیانی سے لوگوں کا بھاری نقصان ہوا تھا۔ سیکرٹری بنگال ریلیف کمیٹی کی حیثیت سے آپ نے ہزاروں بے خانماں لوگوں کی امداد کی۔
1922میں آپ نے سی۔آر۔داس کے ہمران انڈین نیشنل کانگریس کے گیاسیشن میں شمولیت کی۔ کانگریس میں دودھڑے بن چکے تھے ایک کونسلوں سے فائدہ اُٹھانے کے حق میں تھا دوسرا کونسلوں کا بائیکاٹ کرنا چاہتا تھا۔ سی۔آر۔داس کونسلوں کے حامی تھے۔
انہوں نے اپنے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سوراج پارٹی کی بنیاد رکھی ۔ سبھاش بوس نے ایک سچے پیروکی طرح اپنے سیاسی گرو سی۔آر۔داس کا ساتھ دیا اور الیکشن پروپیگنڈہ میں دن رات ایک کردیئے۔ بعد ازاں بوس سوراج پارٹی کے اخبار ’’ھارورڑ‘‘ کے چیف ایڈیٹر بنائے گئے اور اپریل 1924میں کلکتہ کارپوریشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بن گئے۔ اس حیثیت میں انہیں ڈیڑھ ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ لیکن انہیں عہدے پسند نہ تھے وہ جلد اس راز کو بھانپ گئے کہ:
’’کرسی نشین سیاستدان صحیح معنوں میں دیش کی سیوانہیں کرسکتے۔ یہ عہدے اور ملازمتیں تو صرف ابن الوقت سیاست دانوں کو ہی
اپنے جال میں پھنسا سکتی ہیں‘‘۔
چنانچہ سبھاش بوس نے استعفیٰ دے دیا۔ 1924 ؁ء میں بنگال میں پھر سخت گیری کا دور شروع ہوا۔ حکومت سوراج پارٹی کی سرگرمیوں سے گھبرااُٹھی تھی۔ اسے اس بات کا احساس ہوا کہ اگر بنگال میں بڑھتی ہوئی بے چینی کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی لہروں کو بند نہ لگایا گیا تو حالات خطرناک صورت اختیار کرجائیں گے۔ تقسیم بنگال کے دنوں میں بنگالیوں کے جوش وخروش،قربانی اور جذبہ حب الوطنی کی صدا ابھی تک حکومت کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ اس لئے احتیاطی اقدام کے طور پر حکومت نے بنگال آرڈی نینس پاس کردیا۔ اس آرڈی نینس کے روسے حکومت کسی کو محض شبہ کی بناء پر مقدمہ چلائے بغیر نظر بند کرسکتی تھی۔ اس آرڈی نینس کا پہلا وار سبھاش بوس اور سوراج پارٹی کے کئی دیگر سرکردہ لیڈروں پر ہوا۔ سبھاش پھر گرفتار کرلئے گئے اور بغیر مقدمہ چلائے نظر بند کردیئے گئے۔ 
سی۔آر۔داس نے ان گرفتاریوں کی سخت مذمت کی اور کلکتہ کارپوریشن میں منعقدہ ایک پروٹسٹ میٹنگ میں تقریر کرتے ہوئے کہا:
’’اگر دیش سے محبت کرنا جرم ہے، تو میں بھی مجرم ہوں ۔ اگر سبھاش بوس مجرم ہیں تو نہ صرف میں بلکہ ہر بنگالی مجرم ہے‘‘۔
سبھاش بوس ہندوستان کے نوجوانوں کی مقبول ترین لیڈر بن چکے تھیں اور نوجوانوں نے گاندھی کی فرسودہ اور دقیانوسی طرز سیاست کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ 3جنوری 1930کو لاہور کے عوامی جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے سبھاش بوس نے کہا:’’چونکہ ہم اپنے بڑوں کی عزت کرتے ہیں۔ اس لئے یہ ضروری نہیں کہ ہم ان کی اندھا دھند پیروی بھی کریں۔ ہمارے لیڈر نوجوانوں سے گھبراتے ہیں لیکن آزادی ہمیشہ نوجوانوں کے تحریک سے ہی آیا کرتی ہے‘ ہندوستان کی نجات ہمارے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ ترکی کے نوجوانوں نے کمال پاشا پیدا کیا‘ روس نے لینن پیدا کیا۔ آپ میں سے بھی کئی لینن اور کمال پاشا بن سکتے ہیں بشرطیکہ آپ اپنے وطن کو آزاد کرانے کا تہہ کرلیں اور اس مقصد کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔
ہمارے رہنما اُلٹا نوجوانوں کی مذمت کرتے ہیں اور انہیں سمجھنے کی چنداں کوشش نہیں کرتے‘ یہ نوجوان یہی ہیں جو لیڈر بناتے ہیں لیکن ہمارے نام نہاد لیڈروں نے کانگریس میں ہنگرسٹر ایک بند کرنے کا ریزولیوشن پاس کرکے اس اثر اور سبرٹ کا خاتمہ کردیا جو شہری جتندرداس کی موت اور بھوک ہڑتال نے پیدا کی تھی۔ وہ لوگ جو تھوڑا عرصہ پہلے نوجوانوں کی خطرناک طور پر سوچنے اور خطرناک طور پر عمل کرنے کی تعلیم دیتے تھے‘ آج انہیں ساکن رہنے کی تعلیم کیوں دیتے ہیں۔ میں تو نوجوانوں کو وہی پُرانی تعلیم دوں گا۔ ہم مہاتما گاندھی یا دوسرے لیڈروں سے لیڈر شپ نہیں چھیننا چاہتے بلکہ اعتدال پسند لیڈروں کو بے نقاب کرکے ملک کو آگے لے جانا چاہتے ہیں‘‘۔

’’بوسیدہ لیڈرشپ‘‘

آخر کار کانگریس ہائی کمان کی ریشہ دوانیوں سے تنگ آکر سبھاش بوس نے اپنا راستہ منتخب کرلیا۔ انہوں نے ایک نئی پارٹی۔۔۔فاورڈ بلاک۔۔۔کی بنیاد رکھ دی۔ اس سلسلے میں اس نے کھلم کھلا اس رائے کا اظہار کیا کہ انہوں نے کر گاندھی بھگتوں کی جماعت گاندھی سیوا سنگھ
کے مقابلے میں اپنی جماعت بنائی ہے۔ اور انہوں نے یہ اقدام کانگریس ہائی کمان سے تنگ آکر کیا۔ اس بلاک کا مقصد ملک کے تمام انتہا پسندوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا تھا۔ 8مئی کو منعقد ہ ایک عظیم الشان جلسے میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے اپنی نئی پارٹی اور کانگریس کے آفیشل بلاک میں اختلافات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:
’’فاورڈ بلاک بھی کانگریس کے موجودہ پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے لیکن اصلاح کی طرح یا مارڈپٹ سپرٹ سے نہیں بلکہ انقلابی سپرٹ میں فاورڈ بلاک تمام اینٹی امپیرلسٹ عناصر کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے ‘ گذشتہ کچھ عرصے سے کانگریس کا رجحان آئین پسندی کی طرف رہا ہے۔ خصوصاً جب سے آٹھ صوبوں میں کانگریس نے نظم و ضبط کی ذمہ داری لی ہے۔ رجحان تقویت پکڑگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کانگریس میں پیدا شدہ نئی ذہنیت گاندھی کی حقیقی سپرٹ یعنی پُرامن عدم تعاون کا گلاگھونٹ رہی ہے۔
فاورڈ بلاک کا پروگرام دوگناہ ہے۔ ایک طرف جہاں ہم کانگریس کے موجودہ پروگرام اور ذہنیت میں انقلابی سپرٹ پیدا کرنے کی جدوجہد کریں گے۔ وہاں ہمارا یہ بھی کام ہوگا کہ ملک کو آنے والے جنگ آزادی کے لئے تیار کریں‘‘۔
16مئی 1939کو اناؤ (یو۔پی) میں یوتھ لیگ کے ڈیلیگیٹوں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کانگریس کے اعتدال پسند اور برسراقتدار لیڈروں کو وارننگ دی کہ اگر وہ آزادی کی طرف بڑھنے سے قاصر ہیں تو میدان سے ہٹ جائیں
۔ مزید کہا:
’’مارریت گروپ کہتا ہے کہ ملک میں عدم تعاون اور سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کے لیے فضاسازگار نہیں ۔ یہ سراسر جھوٹ ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں میں انقلابی سپرٹ کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ نئے خون کا پُرانے سیاستدانوں سے مطالبہ ہے کہ یاتو وقت کی رفتار کے ساتھ چلیں یا ان لوگوں کے لیے میدان چھوڑ دیں جو ملک کی صحیح رہنمائی کرنا چاہتے ہیں۔ عوام کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہندوستان آئینی جدوجہد کے ذریعہ آزادی کی منزل پر نہیں پہنچ سکتا‘ عہدوں کو قبول کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ کانگریس وزراء میں انقلابی ذہنیت بتدریج ختم ہوجاتی جارہی ہے۔ اگر پریزڈنٹ ڈی ولیرا عہدے قبول کرنے بعد آئرلینڈ کی غلامی کی زنجیروں کو توڑنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں تو ہمارے وزراء کیوں نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس کا باگ ڈور ایسے اشخاص کے ہاتھ میں ہے جو انقلابی جدوجہد میں یقین نہیں رکھتے۔ انہوں نے آزادی حاصل کرنے کے لیے مصالحت اور سمجھوتہ کی جو پالیسی اختیار کی ہوئی ہے وہ انتہائی ضرر رساں ہے‘ ایک طرف جہاں اس پالیسی سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ دوسری طرف اس پالیسی پر گامزن ہونے سے برطانوی امپیرئزم کے پیر مضبوط ہورہے ہیں۔ آج کل تمام دنیا پر جنگ کے خوفناک بادل چھارہے ہیں۔ لیکن اعتدال پسند کانگریس لیڈر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ وقت آنے پر بھی اسی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔ جب تک کانگریس کی باگ ڈور بہتر ہاتھوں میں نہیں آتی۔ ہمارا دیش ہرگز ہرگز آزاد نہ ہوسکے گا وقت آنے پر گاندھی آزادی کے سوال کو حل کرنے کے لیے برطانوی گورنمنٹ سے گفت وشنید شروع کردیں گے۔ اس معاملہ میں مجھ میں اور گاندھی میں بعد المشرقین ہے‘‘۔
تاریخ کے اس نازک دور میں گاندھی سبھاش اختلافات کے متعلق غیر جانبدار اشخاص کی کیا رائے تھی۔ یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ لہٰذا
ہم ذیل میں ایک غیر جانبدار سیاستدان کا مضمون نقل کرتے ہیں:
’’ریڈیکل لڑنا چاہتے ہیں‘ مہاتما گاندھی کہتے ہیں کہ فضا تشدد سے بھر پور ہے اس لئے میں اس وقت ستیاگرہ شروع نہیں کرسکتا۔ گاندھی کی اس پوزیشن سے ریڈیکل برہم ہورہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اب ہندوستان کے لیے امپرئلیزم پروار کرنے کاوقت ہے لیکن بوڑھا گاندھی رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ عمر کی زیادتی کے باعث یہ بوڑھا جرنیل اب بیکا ر ہوچکا ہے، اس کی جرات ختم ہوچکی ہے اب ملک کو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ملک بہت آگے بڑھ چکا ہے اور دیش کی بہبودی اسی میں ہے کہ اب گاندھی ازم ختم کردیا جائے۔ انتہا پسند گاندھی کو جواب دیتے ہیں‘ تشدد کہاں ہے؟ ہمیں تو تشدد نظر نہیں آتا‘ فضول بہانہ سازی نہ کرو۔ اگر کہیں تشدد ہے تو اسے نظر انداز کرو‘ اگر ہم فضا کو تشدد سے پاک کرنے کا انتظار کرتے رہے تو ہمیں قیامت تک انتظار کرنا پڑے گا‘‘۔
10اکتوبر 1939کو سبھاش بوس وائسرائے ہند سے دہلی میں ملے‘ جب ملاقات کے بعد باہر نکلے تو صحافیوں کے ایک ہجوم نے انہیں گھیرلیا اور وائسرائے کے ساتھ بات چیت کے متعلق متعدددریافت کئے‘ سبھاش بوس نے مسکراتے ہوئے کہا:
’’میں کبھی دو زبانوں میں نہیں بولا کرتا‘‘
11مارچ 1942کو آزاد ہند ریڈیو ’’جرمنی‘‘ سے سبھاش بوس کی ایک تقریر نشر ہوئی جس میں انہوں نے کہا:
’’میں کافی وقتوں سے یہ محسوس کررہا ہوں کہ ہماری دنیا نہایت خاموش و پُرسکون انداز سے تبدیل ہوتی جارہی ہے‘ حالیہ سنگاپور کے شکست ، برطانوی سلطنت کی شکست کا پیش خیمہ ہے اور یقیناًیہ سب ایک نئے دور کے آغاز کے سوا کچھ نہیں۔ ایک نیا دور‘ ہماری آزادی کا دور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں خدا کے آگے سجدہ زن ہوجانا چاہیے کہ اس نے ہمیں بھارت کو آزاد کرنے کا ایک سنہری موقع عطا کیا۔
برطانیہ جو موجودہ دور میں آزادی و ترقی کا سب سے بڑا دشمن ہے اب یہ وقت ہے کہ خواب غفلت سے اُٹھا جائے اور اس دشمن کا خاتمہ کیا جائے کیونکہ برطانوی غلبے کے خاتمے مطلب ظالمانہ نظام حکومت و تسلط کا خاتمہ ہی نہیں بلکہ بھارت کی تاریخ کے ایک نئے سنہرے باب کا آغاز بھی ہے، برطانیہ کا ہم پر مسلط ہونا ہمارے لئے نہایت شرمناک اور ایک تذلیل بھرا فعل ہے۔ لہٰذا اپنی آزادی کے لئے ملنے والے اس سنہری موقع کے عوض ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چائیے۔
آج دنیا کے متعدد اقوام برطانیہ کے مخالف ہیں اور جوکئی اس کا رفیق ہے تو سمجھیں وہ ہمارا بھی دشمن ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس قوم کی رہنمائی کا دعویٰ کرتی ہے لیکن ان کی بے دلی سے انجام دیئے گئے اقدامات برطانوی لیڈروں کو یہ حوصلہ بخشتی رہی ہیں کہ وہ اپنی پُرانی حکمت عملی کو جاری رکھتے ہوئے محض ایسے بے معنی وعدے کریں کہ جو برائے نام ہوں اور جنہیں پرکھنے کی نہ تو انہیں کبھی عجلت ہو اور نہ ایفا کرنے کی حاجت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ بھارت میں ایسے لوگ بھی ہیں جو تہہ دل سے برطانوی سلطنت کا تسلط برقرار رکھنا چاہتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثریت اس کی ہے جو نہ تو برطانوی حکومت کی حکمرانی کو تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی اُن کے معاشی نظام کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس اثناء میں ہم نے یہ طے کررکھا ہے کہ ہم اس وقت تک جنگ بندی نہیں کریں گے کہ جب تک ہم بھارت ماتا کو آزاد نہیں کرلیتے۔
آج دنیا میں ایک نئے دور آغاز ہونے جارہا ہے اور اس دور کا ایک سچا اور حقیقی محب وطن وہی ہے جو کہتا ہو کہ وہ اپنی تقدیر خود طے کرے گا۔ ہم بھی اپنی تقدیر خود طے کرنا چاہتے ہیں اور ہم تیارہیں ان تمام اقوام سے تعاون کرنے کو جو ہمیں ہماری آزادی حاصل کرنے میں مدد کرسکتے ہوں، مجھے اُمید ہے کہ برطانیہ کے خلاف اس جنگ میں مجھے اپنے ہندوستانی بھائیوں و بہنوں کی مدد حاصل رہے گی۔ اب یہ طے ہے کہ برطانیہ اپنے عیار اور سازشی پالیسیوں کے باوجود بھی بھارت کو ناکام نہیں کرپائے اور نہ ہی وہ بھارتیوں کو نیشنلزم (بھارتی قوم پرستی) جیسے ان کے عزیز نظریے سے روک سکے گا۔ بھار ت نے اب اپنی آزادی کے لئے لڑنا طے کر لیا ہے اور اب ہم نہ صرف آزاد ہونگے بلکہ اپنے ساتھ ایشیا حتیٰ کہ پوری دنیا کو آزاد کرلیں گے۔

حوالہ: 

نام کتاب : نیتا جی
مصنف: چمن لال آزاد 
(مختلف ابواب سے انتخاب)

ہفتہ، 23 جنوری، 2016

سماجی سائنس میں شعور،وجود اور شخصیت کا تعین


پروفیسر محمد حسین چوہان

فلسفہ و سائنس کے شعبہ جات میں دو واضح مکاتب فکر موجود ہیں۔جن کی علم، اشیا اور معاملات کی ماہیت،حقیقت اور صحت کے بارے میں الگ الگ آرا ہیں۔ایک مکتبہ فکر اشیا اور قضیوں کی تشریح و تعبیرخالصتٗا مادی اور جدلیاتی طریقہ کار سے کرتا ہے اور دوسرا خیال پرستانہ انداز سے.جن کو مثالیت پسند بھی کہا جاتا ہے؛لیکن درمیان میں علم و سائنس کی نمائندگی اور ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرنے والا مکتبہ فکر بھی موجود ہے جس کی نہ صرف علم کی ترقی و فروغ بلکہ سیاسی اقتدار اور معاشی بالادستی پر گرفت قائم ہے بلکہ علم کو مخصوص طبقاتی مفاد تک محدود رکھنا چاہتا ہے۔
اسی بنا پر سماجی سائنس اور سیاسی معا شیات کو تاریخی و جدلیاتی طریقہ کار سے پرکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتا،کیونکہ علم و سائنس کا کلی طور پر سماجی سائنس پر اطلاق کیا جائے تو انسانیت کی خدمت تو ہو جاتی ہے مگر مخصوص طبقات کے مفادات پر نہ صرف ضرب کاری لگتی ہے بلکہ ان کا صفحہء ہستی سے خاتمہ ہو جاتا ہے۔اسی بنا پر سائنس و فلسفہ میں توہم پرستانہ افکار کو داخل ہونے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے،بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ مغربی سرمایہ دارنہ نظام میں پروان چڑھنے والی سائنسی فکر پر بھوت سوار ہے۔مثالیت پسندانہ اور سرمایہ دارانہ سائنسی طرزفکر سماج کو آپنے متعین کردہ ضابطوں اور قوانین کے تحت چلانا چاہتا ہے،جسے معاشرتی ارتقا میں نہ صرف جمود و تعطل پیدا ہوتا ہے بلکہ سماجی انصاف اور تحفظ کی راہیں بھی مسدود ہو جاتی ہیں۔
مثالیت پسندی نے انسانیت کو جمود و تعطل کے سوا کچھ نہیں دیا،مگرسرمایہ دارانہ سائنسی فکر کی ہم نوائی کر کے انھوں نے تیسری دنیا کے وسائل پر قابض ہونے کے انہیں وسیع مواقع اور جواز فرہم کئے.جس کی بنا پر انسانیت کشی،قتل و غارت گری،بھوک و بیروزگاری اور ماحولیاتی آلودگی نے کرہء ارض کو تباہی کے کنارے پہنچا دیا ہے۔اس علمی قضایا میں انسانی شعور اورروح ابھی تک خلا میں قلا بازیاں کھا رہا ہے اور وجود وشخصیت کا سماج کی کلیت سے رابطہ منقطع کر کے احساس بیگانگی کی نذر کر دیا گیا ہے۔
انسانی روح اور شخصیت کو میکانکی فلسفے کے تحت الگ الگ ٹکڑوں میں تقسیم کر کے اشیائے خرید و فروخت میں تبدیل کر دیا گیا ہے،انسانی شعور جسم کا حصہ نہیں اور اس کا وجود اجتماعی شعور کے فتو وں کے رحم وکرم پر ہے۔انسان کو اپنے ہونے کا احساس اور شخصیت کا تعین اس کی تخلیقی صلاحیتیں نہیں کرتیں بلکہ اس کا سرمایہ کرتا ہے۔ جبکہ شعور ،وجود اور انسانی شخصیت کو فطری قوانین، ثقافتی لطافتوں اورتاریخی ارتقا کے اصولوں کے تحت دیکھنے سے سماجی انصاف ، اور انسایت کی بقا و بھلائی کے راستے خود بخود ہموار ہو جاتے ہیں۔
مثالی اور میکانکی فلسفے میں روح اور مادے کی حیثیت کا جو تعین کیا گیا،اس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ دکھا ئی نہیں دیتا۔ایک نے مادے کو فانی اور روح کو غیر فانی قرار دیا تو دوسرے نے ا نسان کو ایک مشین کے مشابہ سمجھا اور عضویات کی طرح شعور و دماغ کو مشین کے کل پرزے قرار دیا۔نیوٹن اور ڈیکارٹ کے میکانکی فلسفے کو اٹھارویں صدی میں بہت پذیرائی نصیب ہوئی۔اہل مذاہب نے روح کو امر ربی قرار دیا۔مثا لیت پسندوں کی اکثریت روح کو خدا کا گھریا کائناتی روح کا عکس قرار دیتی رہی،شعور اورروح کی اصلیت ،اس کے وجود اور فریضہ پر عقیدے گھڑے گئے،مگر اس کا علم بدیہی ترکیبی تصدیقا ت کا درجہ حاصل نہ کر سکا،اس کو شے بالذات قرار دیا گیا۔
اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ انسان کا دماغ اور شعور کا مطالعہ ہنوز تشنہ طلب ہے۔مگر جدید تحقیق نے اس کو توہم پرست نظریات سے باہر نکال پھینکا ہے۔249کیونکہ یہ بات تجربے اور تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے کہ نامیاتی فطرت کا جنم مردہ فطرت سے ہوا،،۔مادہ زہن سے آزاد معروضی وجود رکھتا ہے۔مادہ ازل سے موجود ہے اور روح و شعور مادے کی لطیف ترقی یافتہ شکل ہے،جو تاریخی ارتقائی منازل طے کر کے آپنی آخری شکل میں موجود ہے۔جس میں انسانی محنت وجدوجہد کا بڑا ہاتھ ہے بقول اینگلز محنت پہلے ہوتی ہے اور با معنی گفتگو کا آغاز بعد میں ان دو ابتدائی قوت محرکہ نے بن مانس کے دما غ کو انسان کے دماغ میں تبدیل کر دیا۔
جا نور فطرت اور ماحول کے تابع ہوتے ہیں ،جبکہ انسان فطرت اور فطری جبر پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں،آپنی ضروریات اور احتیاج پوری کرنے کے لئے ماحول کو تبدیل کرتے ہیں اور اس تبدیلی کے ساتھ وہ خود بھی تبدیل ہو جاتے ہیں،،مسلسل مشق اور جدوجہد کے نتیجے میں حیاتیاتی تبدیلی کا یہ سفر جاری و ساری ہے جسکو تاریخی جدلیات سے موسوم کیا جاتا ہے۔جاندار،نباتات اور جمادات کا سائنسی مطالعہ صرف رسمی منطق کے تحت نہیں کیا جا سکتا،اس کے لئے جدلیاتی طریقہ کار بروئے کار لانا پڑتا ہے۔
انسانی شعور کا عمومی فریضہ حواس کے ذریعے ماحول کو سمجھنا اور اس پر رد عمل کا اظہار کرنا ہے،خارجی زندگی میں واقع ہونے والی ہر طرح کی آوازو حرکت ،خوشبو،رنگ وذائقہ احساسات وجذباتٍ کو حواس خمسہ یا عصبی مہیجات کے ذریعے معلومات حاصل کرتا ہے اور تجزیہ و تنقید کے ذریعے خام معلومات کوترکیبی تصدیقات کے سانچے میں بھی ڈھالتا ہے۔شعور کا جب تک خارج سے تعلق قائم نہ ہو کسی دوسرے ذرائع سے اس تک معلومات نہیں پہنچ سکتی۔انسانی شعور کا تعلق نہ صرف معروضات سے قائم ہوتا ہے بلکہ سماجی اذہان سے بھی قائم رہتا ہے جس سے ہم سماجی ذہنی ہم آہنگی سے تعبیر کریں تو بے جا نہ ہو گا،جس میں تمام اذہان آپس میں گفتگو کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں،اور آپس میں ہم آہنگی کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں،جس میں کسی چیز کا ردو و قبول شامل ہوتا ہے۔
مادے کی اس لطیف ترین اور نا قابل گرفت شے یعنی شعورآپنی بلندی پر فائز ہونے کے باوجود بھی ماحول اور خارجی زندگی کا محتاج رہتا ہے۔انسان کی تخلیق کم و بیش پچاس ٹریلین سیلز سے ہوئی ہے ۔اور ہر سیل کو عضویات کو حرکت دینے کے لئے ایک لاکھ سے زائد مختلف اقسام کی پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے جس سے انسان کی شخصیت بنی ہے مگر انسانی شخصیت کے اوصاف جین نہیں اس کا خارجی ماحول متعین کرتا ہے۔موروثیت کا دس فی صد سے زیادہ انسانی شخصیت پر اثر نہیں ہوتا،وہ بھی بیماریوں اور جسمانی خدو خال کے حوالے سے،سیل کے کردار کو ماحول جنیٹک کوڈ کی تبدیلی کے بغیر تبدیل کر دیتا ہے اور اس پر اثر انداز ہوتا ہے۔
جین اور شعورماحول سے مطابقت ،رابطہ قائم کر کے رد عمل کا نہ صرف اظہار کرتے ہیں بلکہ ردو قبول کے اس مرحلے میں تبدیل بھی ہو جاتے ہیں،ان کا مزاج اور کردار ماحول کا پابند ہوتا ہے۔محنت و جدوجہد اور اپنی بقا کے لئے تبدیلی کے اس سفر میں شعور خود بھی تبدیل ہو جاتا ہے،جس کو تاریخ و معاشرے کے ارتقائی سفر سے موسوم کیا جاتا ہے۔سماجی زندگی اور مادی علائق کاانسانی شخصیت اور شعور کی تعمیر و نشونما میں بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔اس میں کسی غیبی اشارے یا پیغام رسانی کا سراغ ابھی تک نہیں ملا ہے،امکانی دنیا ،خلائی مخلوق یا غیبی اشاروں کے بہت سی مذہبی اور سائنسی تھیوریاں ہنوز علم وتجربے کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہیں،مگر تصدیق علمی کی سند سے شرف باریاب نہیں ہوسکی ہیں۔
شعور اور شخصیت کا ماحول سے تعلق قائم قائم کرنے سے سماجی سائنس کے فلسفے کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں اور معاشرتی ترقی کا سفر تیزی سے طے ہونا شروع ہو جاتا ہے۔انسانی شعور اور شخصیت کو وراثت،نسل اور روحانیات سے جوڑنے سے نہ صرف سیاسی و معاشی بلکہ مکمل طور پر تمدنی ترقی کا سفر رک جاتا ہے اور ایک غیر علمی فضا میں مخصوص طبقات جنم لینے شروع ہو جاتے ہیں۔جو علم دشمنی اور ا نسان دشمنی میں انسانیت کا استحصال کرتے ہیں۔
انسان کی شخصیت اور شعور ٹھوس مادی حالات کی پیداوار ہوتے ہیں،اس کے افکار اور نظریات اور شعور معاشی وسیاسی سرگرمیوں کی دین ہوتے ہیں۔سیاسی اقتصادیات فرد کی شخصیت کا تعین کرتی ہے،اس کا معاشرتی وجود اس کے تاریخی وجود کا عکس ہوتا ہے،پیداواری قوتیں اور مخصوص معاشی شرائط سے آدمی کی شخصیت اور شعور جلا پاتے ہیں،پیداواری قوتوں کی ترقی و تبدیلی سے نہ صرف انسان کے سماجی وجودمیں تبدیلی واقع ہوتی ہے بلکہ اس کے ساتھ اس کا شعور ،افکار،و خیالات اور ذ ہنی میلانات بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔
یعنی خارجی حالات شخصی خاکے 249جنیٹک کوڈ249 کی تبدیلی کے بغیر سیلز کے مزاج کو تبدیل کر دیتے ہیں۔مارکس اور اینگلز سے قبل انسانی تاریخ صرف نظریات اور واقعات کے تذ کروں سے بھری پڑی تھی،اور شعور کو وجود پر تقدم حاصل تھا،حتٰی کہ ڈیکارٹ کا مشہور قول کہ249میں سوچتا ہوں اس لئے میں ہوں،نے مثالی فلسفہ پر ضرب کاری لگا دی تھی۔مگر مارکس اور اینگلز ہی تھے جنہوں نے خالصتٗا مادی فلسفے کا اطلاق کیا۔کہ وجود شعور کے بغیر بھی آپنا وجود قائم رکھتا ہے،مگر شعور وجود کے بغیر آپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا ،گرچہ بظاہر یہ دونوں مختلف ہیں،مگر باہمی طور پر آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور شعور مادہ و وجود کے عکس کے اظہار کا ہی تو نام ہے۔
مارکس کا اس سلسلے میں مشہور قول کہ
“it is not the consciousness of men that determines their being,but on the contrary their social being that determines their consciousness,,249249
یہ انسان کا شعور نہیں جو اس کے معاشرتی وجود کا تعین کرتا ہے بلکہ اس کے برعکس اس کا معاشرتی وجود اس کے شعور کا تعین کرتا ہے،،اس بات کو مزید صراحت کے ساتھ بیان کیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ رجعت پسند سرمایہ دار معا شرے میں تمامتر سیاسی و سماجی اخلاقی و روحانی قدروں کا تعین صرف وصرف مادی قدروں سے ہوتا ہے۔کوئی بھی نظریہ کتنا ہی روحانی فلسفہ کا علمبردا ر کیوں نہ ہو جب وہ پھیل کر انسانی دماغوں میں راسخ ہو جاتا ہے اور قبولیت عام کا درجہ حاصل کر لیتا ہے تو وہ اتنا ہی طاقتور مادیت کا حامل ہو جاتا ہے،طاقت کے ساتھ تقدیس بھی شامل ہو جاتی ہے،اجتماعی شعور توہم پرستی کا شکار ہو جاتا ہے اور وجود تقدس کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے،
کیونکہ مثالی فلسفہ ٹھوس سماجی اور معاشی حقائق سے بالاتر ہو کر شعور کو اولیت دے کر سماجی وجود کو الوہی وجود عطا کر د یتا ہے،یہ شعور و تخیل کی لذت آفرینی ہے جو سہانے خوابوں میں پناہ ڈھوندھنا چاہتی ہے۔شخصیت کتنی ہی مقدس کیوں نہ ہو آپنے عہد کے ٹھوس سماجی حالات کی پیداوار ہوتی ہے،آپنے عہد سے نہ پہلے اور نہ بعد میں کسی نابغہ رازگار ہستی کا ظہور ہوتا ہے،اور اس کا سماجی وجود ہی اس کے شعور اور شخصیت کا تعین کرتا ہے،بعض اپنے عہد کے سپر سٹار دوسرے عہد کے بونے کریکٹر ہوتے ہیں۔مگر اپنے عہد کے ہیرو کا تمدنی ترقی میں ایک اہم کردار سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔
سرمایہ داری میں فرد کی شخصیت کی نشو ونما کے تمام امکانات ختم ہو جاتے ہیں وہ عمومی طور پر ساری زندگی ایک فرد ہی رہتا ہے۔زندگی کے مختلف شعبوں میں آپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لا سکتا،کیونکہ اس کو اپنی حیاتیاتی زندگی کی فکر دامن گیر رہتی ہے اور معاشرتی سطح پر معاشی و سیاسی سرگرمیوں اور پیداواری قوتوں کے ساتھ اس کا آزاد تعلق قائم نہیں ہو سکتا،وہ معاشرے کے سواد اعظم سے روحانی اور جسمانی دونوں سطحوں پر کٹ جاتا ہے۔اس طرح استحصال کرنے والے معاشروں میں ظلم و نا انصافی،غربت و بے روزگاری،جہالت ونسل پرستی،فرقے بندیاں طبقات پیدا کرتی ہیں اور شخصیات کا ظہور صرف و صرف ہر طبقہ کی بالائی سطح سے ہوتا ہے،جس میں معاشی قدر ایک اہم رول ادا کرتی ہے۔عام فرد سبزہء نو دمیدہ کی طرح سر اٹھاتے ہی پامال ہو جاتا ہے۔
ایسے معاشروں میں صرف بورژوا سیاسی،مذ ہبی اور سماجی شخصیات پیدا ہوتی ہیں،جن کا قدو کاٹھ ان کی ذاتی آمدن اورزرائع پیداوار سے متعین ہوتا ہے،ایسی کھوکھلی شخصیات معاشرے کی اجتماعی روحانی اور مادی ترقی کے سفر کو سست کر دیتی ہیں ،عام فرد کے ذاتی جوہر کو بر تر سماجی وجود عطا کرنے کی بجائے احساس بیگانگی کا شکار کر دیتی ہیں۔فر دکی ذاتی صلاحیتوں کو پنپنے کے لئے کم از کم ایک عادلانہ سیاسی ومعاشی نظام کی ضرورت ہوتی ہے،جہاں ایک فرد زندگی کی بنیادی ضروریات آسانی سے پورا کرسکے اور اس کے پاس سوچنے اور تخلیق کرنے کے لئے بہت سا وقت بھی موجود ہو،ثقافتی لطافتوں اور سرگرمیوں میں بھر پور شرکت کر سکتا ہو۔
اس خواب کی تعبیر مغرب کی فلاہی ریاستیں بھی کما حقہ پوری نہیں کرسکیں،کیونکہ فرد کو آپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے اس کا سارا وقت کام میں صرف ہو جاتا ہے،اور تفریح و تخلیق کے لئے اس کے پاس ایک احساس بیگانگی کے سوا کچھ نہیں بچتا،مگر پھر بھی فلاہی ریاستوں میں پسماندہ معاشروں کے بر عکس انسانی شخصیت کی نشونما کے زیادہ مواقع ہیں۔فرد کی کامل آزادی کا خواب ایک حقیقی جمہوری عوامی ریاست کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا،جہاں طبقات کے بر عکس عوام کی حکومت ہو،اس سفر کو طے کرنے کے لئے ایک مسلسل عوامی جمہوری جدوجہد کی ضرورت ہے۔
تیز تر معاشی و صنعتی ترقی کی وجہ سے مغرب کی فلاہی ریاستیں کساد بازاری کا شکار ہو رہی ہیں،بحران جنم لے رہے ہیں،آزاد معیشت عالمی سطح پر سخت مقابلہ بازی کا شکار ہے،معیشتیں سکڑ رہی ہیں اور ایک برتر معاشی و سماجی نظام کی طرف پیشرفت کے امکانات بڑھ رہے ہیں،جس میں وطن عزیز میں بھی اشرافیہ اور رجعت پسند قوتوں کے خلاف عوام اور متوسط طبقے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ایک فرد کے لئے یہ بات اتنی اہمیت نہیں رکھتی کہ وہ شعور اور وجود میں سے کسی ایک کی بر تری کا قائل ہو بلکہ ہر فرد کے لئے صرف و صرف اتنا جاننا ضروری ہے کہ سماج میں اس کا مشترکہ دشمن یا وہ کون سے عوامل ہیں جو اس کے سماجی وجود کا اپنی مرضی سے تعین کرتے ہیں۔

پیر، 11 جنوری، 2016

خوابوں کی انجیل


خوابوں کی انجیل/سلویا پلاتھ
سلویا پلاتھ کا نام پڑھنے والوں کے لیے نیا نہیں ہے، وہ ایک زبردست تخلیق کار تھیں۔آٹھ سال کی عمر سے ان کا تخلیقی سفر شروع ہوگیا تھا، ٹیڈ ہیوز سے انہوں نے محبت کی بنیاد پر شادی کی، مگر ٹیڈ کی شاعرانہ فطرت کے سبب ایک اور لڑکی سے جب ان کا افیئر ہوا تو سلویا کو صدمہ پہنچا۔ اس وقت ٹیڈ اور سلویا کے دو بچے تھے، انہوں نے تنہائی کے کرب اور اداسی کے انتہائی غلبے کے سبب خودکشی کی کوشش کی، جس میں ناکامی ہوئی۔بالآخر انہوں نے ٹیڈ سے علیحدگی کے بہت تھوڑے عرصے بعد ہی لندن میں اپنے گھر میں خودکشی کرلی۔ان کی خود کشی کے تعلق سے بہت سی تھیوریز ہیں، کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے خودکشی نہیں کی، بلکہ ان کی زندگی پر لکھے گئےسلویا کے ایک ادیب دوست کے ناول کے مطابق جس صبح سلویا کی لاش ان کے گھر میں پائی گئی، اس رات باہر ایک گاڑی دیکھی گئی تھی۔ بہرحال سلویا پلاتھ نے مختصر سی زندگی میں بہت سی اہم نظمیں اور کہانیاں لکھیں، اپنی ذات کے حوالے سے ایک ناول 'دی بیل جار'بھی تخلیق کیا۔سلویا انگریزی شاعری میں کنفیشنل پوئٹری کے اہم شعرا میں شامل ہیں۔
زیر نظر کہانی 'جانی پینک اینڈ بائبل آف ڈریمز' نامی افسانونی مجموے میں شامل اسی کہانی کا ترجمہ ہے۔جو کہ اردو کے ایک بہت اچھے شاعر اور فکشن نگار صغیر ملال نے کیا ہے۔ادبی دنیا کے لیے اسے ساجد مسعود صاحب نے ٹائپ کیا ہے، جس کے لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔کہانی میں سلویا کا کردار مرکزی ہے۔وہ جس اعترافی اسلوب فن سے تعلق رکھتی تھیں، اس کا اس کہانی پر بھی خاص اثر دکھائی دیتا ہے۔ایک ادیب کا ذہن بہت سے خیالات کی آماجگاہ ہوتا ہے، خودکشی زندگی کے مسائل کا حل نہیں، لیکن اس کی کوشش بھی ایک سوچنے والے ذہن کو فکر کی تیزابی کھریند سے کچھ لمحوں تک بچانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔سلویا نے کہا تھا، کہ اگر میں سوچتی نہیں تو شاید زیادہ خوش رہ سکتی تھی، مگر کسی بھی زندہ ادیب کے لیے خوشی کا مکمل تصور میری ذاتی خیال میں اس کی تخلیقی اداسی کا قاتل ہوتا ہے، جس کے بغیر اچھی تخلیقات وجود میں نہیں آسکتیں۔اس کہانی میں ناسٹیلجیا کی کیفیت، زندگی کے نئے دھڑکتے، تیز رفتار دور میں جمی ہوئی تنہائی کا عکس صاف دیکھا جاسکتا ہے۔بہرحال اب میں آپ کے اور اس کہانی کے درمیان سے رخصت ہوتا ہوں، بس اتنی خبر دے کر کہ سلویا پلاتھ کی مزید کہانیاں اور نظمیں ادبی دنیا کے لیے دوسرے دو تین ادیب ترجمہ کرنے کے لیے راضی ہوگئے ہیں۔جنہیں جلد ان کے شکریے کے ساتھ آپ کے مطالعے کے لیے پیش کیا جائے گا۔شکریہ!(تصنیف حیدر)
٭٭٭

روزانہ صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک میں اپنی نشست پر بیٹھی دوسروں کے خواب ٹائپ کرتی رہتی ہوں۔ مجھے اسی لیے ملازم رکھا گیا ہے۔ میرے افسروں کا حکم ہے کہ میں تمام چیزیں ٹائپ کروں۔خواب، شکایات، ماں سے اختلاف،بوتل اور بستر کے مسائل، باپ سے جھگڑا، سر درد جو اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ دنیا کی تمام لذتیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ ہمارے دفتر میں صرف وہی لوگ آتے ہیں جن کے گھروں میں عذاب بھر چکے ہوتے ہیں۔
ممکن ہے کہ چوہا اپنے جسمانی زاویہ نگاہ کے سبب بہت جلد سمجھ جاتا ہوکہ دور سے آتے دکھائی دینے والے دو بڑے پاؤں کائنات کا نظام کس طرح چلاتے ہیں۔ لیکن جہاں سے میں دنیا کو دیکھتی ہوںوہاں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے نگہبان کا نام "سراسیمہ"ہے۔
سراسیمہ کی بھی شکل ہو سکتی ہے۔ کتا، طوائف، چڑیل شیطان۔۔۔۔۔ سو جائے یا جاگتا رہے، وہ سراسیمہ ہی رہتا ہے۔
جب لوگ سوال کرتے ہیں کہ میں کہاں کام کرتی ہوں تو میں انہیں بتاتی ہوں کہ میرا کام شہر کے اسپتال کے ایک شعبے کا ریکارڈ درست رکھنا ہے۔ عام طور پر یہ جواب کافی ثابت ہوتا ہے۔ اسکے بعد کوئی اس طرح کی بات نہیں پوچھتا جس کے جواب میں مجھے بتانا پڑے کہ میں پہلے سے موجود ریکارڈ کی نگہداشت کے علاوہ نیا ریکارڈ ٹائپ بھی کرتی ہوں۔ دراصل نیا ریکارڈ ٹائپ کرنا ہی میرا پیشہ ہے اور میں اپنے پیشے سے مقدس انداز میں وابستہ ہوں۔ اس لیے کہ میری تحویل میں خوابوں کے ڈھیر ہیں۔ اور میں کسی کو یہ نہیں بتا سکتی۔ نہیں بتا سکتی کہ میں اپنے گھر کے کمرے میں ہسپتال کے قوانین کی پابند نہیں ہوں۔ یہاں میں فقط سراسیمہ کے احکام پر عمل کرتی ہوں جو مجھے خواب جمع کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔
خواب در خواب میں بالغ ہو رہی ہوں اور اسی رفتار سے خوابوں سے میری شناسائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو ایک دن میں دنیا کی سب سے بڑی خواب آشنا بن جاؤں گی لیکن خواب شناسی کی انتہا پر پہنچ کر بھی میں لوگوں کے خواب روکنے کی کوشش نہیں کروں گی۔ خوابوں کا ناجائز استعمال نہیں کروں گی۔ یہاں تک کہ میں خوابوں کی تعبیر بتانے کا بھی کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔میں تو صرف خواب جمع کرنا چاہتی ہوں۔ انہیں پہچاننا چاہتی ہوں، ان سے محبت کرنا چاہتی ہوں۔ میں سراسیمہ کی کارکن ہوں اور خواب جمع کرنا میرے فرائض میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے ٹائپ شدہ خواب اتنی بار پڑھتی ہوں کہ وہ مجھے زبانی یاد ہو جاتے ہیں۔ پھر میں گھر جا کر انہیں سراسیمہ کی مقدس کتاب میں درج کر دیتی ہوں۔
کبھی کبھی میں رات کے وقت اپنے گھر کی چھت پر چلی جاتی ہوں۔ وہاں سے نیند بھرے شہر کو دیکھنا مجھے اچھا لگتا ہے۔چھت پر ٹہلتے ہوئے وائلن کے تار کی طرح ہمہ وقت لرزنے کے لیے تیار رہتی ہوں۔صبح کے آثار نمودار ہونے پر تھکن سے چور اپنے بستر پر آتی ہوں اور کسی بخار زدہ شخص کی طرح سو جاتی ہوں۔ شہر میں موجود انسانی سروں کا شمار، پھر ان سروں میں آنے والے مصنوعی خوابوں کا حساب مجھے بے انتہا تھکا دیتا ہے۔
دوسرے دن مجھے وہی خواب ٹائپ کرنا ہوتے ہیں جنہیں میں رات اپنی چھت سے محسوس کر چکی ہوں۔ یقینا شہر بھر کے خواب لامحدود ہیں اور میں شام تک فقط ان کا ایک معمولی حصہ ٹائپ کر سکتی ہوں لیکن اسکے باوجود میرے دفتر میں فائلوں کا انبار بڑھتا جا رہا ہے۔ اور بہت جلد وہ دن آنے والا ہے جب دفتر میں سوائے خوابوں کی فائلوں کے کوئی دوسری چیز رکھنے کی جگہ نہیں بچے گی۔
یوں بھی ہوتا ہے کہ میں لوگوں کو انکے خوابوں کے حوالے سے پہچاننے لگی ہوں۔ بہت سے مریض ایسے ہوتے ہیں کہ میں انکے نام بھول جاتی ہوں۔ لیکن انکے خواب یاد رہتے ہیں۔ مثلا یہ آدمی جو ایک فیکٹری میں کام کرتا ہے خواب میں خود کو کسی مشین کے پہیوں میں پھنسا ہوا محسوس کرتا ہے۔ یہ اس خواب میں اتنا خوفزدہ ہو جاتا ہے کہ آنکھ کھلنے کے بعد بھی کچھ دیر تک چیختا رہتا ہے۔ اس طرح کے اور لوگ بھی ہیں جو خواب میں دیکھتے ہیں کہ وہ کسی مشین تلے روندے جا رہے ہیں، یا کوئی ایجاد انہیں نگل رہی ہے۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ جب مشینیں نہیں تھیں اس وقت لوگ کس طرح کے خوابوں سے ڈرتے ہونگے۔
میرا اپنا بھی ایک خواب ہے۔ اس خواب میں ایک بہت بڑی جھیل نظر آتی ہے۔ اتنی بڑی کہ اسکے کنارے ہیلی کاپٹر کے شیشے والے پیٹ سے بھی نظر نہیں آتےجہاں سے میں اسکی تہہ میں جھانکتی ہوں۔ جھیل کا پانی خوفناک بلاؤں سے بھرا ہوا ہے۔ایسی بلائیں جو قدیم زمانے میں زمین کی سطح پر گھومتی تھیں۔وہ زمانہ جب انسان غاروں میں رہتا تھا۔ ابھی اس نے آگ نہیں جلائی تھی، فصل نہیں اگائی تھی۔ اس خواب میں سورج چاند ستارے اور زمیں آسمان کے درمیان پائی جانے والی دیگر تمام چیزوں کی شکلیں اور خصوصیات بدلی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ اچانک جھیل کی سطح برف سے ڈھک جاتی ہے اور میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑنے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ میں جاگ جاتی ہوں۔ اس خواب سے نکلنے کے بعد کچھ دیر تک کسی بھی خواب میں معنی تلاش کرنا لاحاصل لگتا ہے۔
یہی وہ جھیل ہے جہاں رات کے وقت شہر بھر کے خواب بہتے ہوئے آتے ہیں۔یہاں پہنچ کر تمام دماغوں کا گرد و غبار بیٹھ جاتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ جھیل شہر کے مضافات میں پائے جانے والے پینے کے شفاف پانی کے ان ذخیروں جیسی نہیں ہو سکتی، جن کی دن رات یوں حفاظت کی جاتی ہے جیسے وہ خاردار تاروں کے درمیان رکھے انمول ہیرے ہوں۔یہ ایک مختلف جھیل ہے۔صدیوں کے گلتے سڑتے جمع شدہ خوابوں سے اس جھیل کا پانی مٹیالا اور بدبو دار ہو گیا ہے اور اسکی سطح سے ہر وقت دھواں اٹھتا رہتا ہے۔
ایک سر میں رات بھر میں کتنے خواب آتے ہیں۔ اور شہر میں مجموعی سروں کی تعداد کیا ہے؟ اور دنیا میں اسطرح کے کتنے شہر پائے جاتے ہیں؟ اور زمیں پر کتنی راتیں گزر چکی ہیں؟؟ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو ریاضی میں تیز ہوتے ہیں۔ اور بڑے بڑے اعداد کا لمحوں میں حساب لگا لیتے ہیں۔ میں تو صرف اس ایک شہر میں رات بھر میں دیکھے جانے والے خوابوں کا شمار کرتی ہوں تو میرا سر چکرا جاتا ہے۔
یہ عجیب جھیل ہے۔ اس میں پیار کرنے والوں کے چہرے اور پھولی ہوئی لاشیں اور یادیں اور دھند اور دھواں اور پرزے اور سائنسی ایجادات اور نفع اور نقصان ایک دوسرے سے لپٹے تیرتےرہتے ہیں اور کبھی کبھی مجھے اس میں مردہ پیدا ہونے والے بچے بھی نظر آتے ہیں۔ مردہ پیدا ہونے والے بچے دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے وہ جھیل کی دوسری سمت بیٹھے عظیم تخلیق کار کے نامکمل پیغامات ہوں۔
اس جھیل کو کوئی بھی نام دے لو۔دنیا کے تمام افراد ایک برادری کی صورت میں یہاں نظر آتے ہیں۔ ایک انبوہ ایک ڈھیر ، ایک ناقابل فہم انبار جو سوتے میں بالکل ایک چیز کا بنا لگتا ہے لیکن جونہی جاگتا ہے جدا جدا ہو جاتا ہے۔جھیل کی اکائی میں سب ثنویت سے پاک ہو جاتے ہیں۔ مگر عالم بیداری میں انہیں دوبارہ اپنی اپنی شخصیتوں کا لبادہ اوڑھنا پڑے گا۔
جھیل کا خواب میرا ذاتی خواب ہے۔ اسے میں کسی ریکارڈ میں درج نہیں کرونگی۔ کسی فائل میں دفن نہیں ہونے دونگی۔
اہم بات یہ ہے کہ ہسپتال کے جس شعبے میں مجھے ملازمت ملی ہے وہ دوسرے شعبوں سے بہت مختلف ہے۔ہمارے شعبے میں دوائیں نہیں دی جاتیں۔ مریض سے صرف گفتگو کی جاتی ہے۔ اسکی سنی جاتی ہے اسے محسوس کیا جاتا ہے۔ مجھے اپنے شعبے کا طریقہ کار پسند ہے۔ یہ ان جسمانی بیماریوں والے شعبوں کے طریقے سے بہتر ہے۔ جہاں رنگین حلول اور سفوف کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں۔ہمارے ہسپتال کی عمارت نیم تاریک اور تنگ ہے،جس کے باعث کبھی کبھی دوسرے شعبوں کے مریض اور معالج بھی ہمارے کمروں میں عارضی طور پر منتقل ہو جاتے ہیں۔ ایسے دنوں میں ہمارے شعبے کی برتری مزید نمایاں ہو جاتی ہے۔
منگل اور بدھ کے روز جگہ کی کمی کے سبب آپریشن والے مریضوں کے پلنگ ہمارے شعبے کے ہال میں کھڑے کر دیئے جاتے ہیں۔ ٹائپنگ کے دوران میری نظر بار بار انکی طرف اٹھ جاتی ہے۔جس جگہ میں بیٹھتی ہوں وہاں سے مریضوں کے فقط پاؤں نظر آتے ہیں۔ سرخ کمبلوں اور سفید چادروں سے نکلے صاف ستھرے زرد پیروں کی طویل قطار۔
کسی کسی دن اعصابی شعبے والے بھی ہمارا کوئی کمرہ استعمال کرتے ہیں۔۔ انکے مریض عجیب و غریب بولیاں بولتے ہیں۔ لاطینی اور چینی زبانوں کے گانے گاتے ہیں اور سارا وقت شور مچاتے ہیں۔ اگر ایسے مریضوں کی جسمانی حالت درست ثابت ہو جائے تو اعصابی امراض کے ماہر انہیں ہمارے شعبے میں بھیج دیتے ہیں۔
ان دشواریوں کے باوجود میں اپنے کام سے غافل نہیں ہوتی۔ سر جھکائے مسلسل دوسروں کے خواب ٹائپ کرتی چلی جاتی ہوں۔ اب تو میرے پاس مریضوں کے خوابوں کے علاوہ اپنے ابھی ایک زیادہ خواب جمع ہوچکے ہیں۔ یہ خواب میں نے خود تخلیق کیے ہیں لیکن ابھی میں ان خوابوں کو خود سے بھی نہیں دہراؤں گی۔ کچھ عرصے تک انہیں اس مجسمے کی طرح وقت گزارنا ہوگا جو اپنی نقاب کشائی کی رسم سے ایک لمحے قبل تک مخمل کے سرخ کپڑے میں سر سے پاؤں تک ڈھکا رہتا ہے۔
میں جو بھی خواب حاصل کرتی ہوں جس طرح بھی حاصل کرتی ہوں اس پر "سراسیمہ" کے دستخط ضرور ہوتے ہیں۔ سراسیمہ کو ڈرامائی انداز میں ظاہر ہونا پسند ہے۔ ہر چند کہ وہ ظاہر ہونے کے لیے مختلف جگہوں اور اوقات کا انتخاب کرتا ہے، مگر کوئی جگہ ، کوئی وقت ہو، وہ ہمیشہ ڈرامائی انداز میں سامنے آتا ہے۔
خوابوں کا کاروبار بہت خطرناک ہوتا ہے۔ اگر سراسیمہ اپنی جانب سے اس میں شاعری کا عنصر شامل نہ کر دے تو یہ کاروبار ناقابل برداشت ہوجائے۔ خوابوں کے کاروبارمیں شاعری کا عنصر شامل کرنے پر میں سراسیمہ کی شکر گزار ہوں۔
چمڑے کی جیکٹ میں ملبوس اس نوجوان نے بتایا تھا کہ اس کے خواب۔۔۔۔ لیکن میں یہ کیسے کہہ سکتی ہوں کہ یہ اس نوجوان کا خواب ہے جو اس روز سیاہ جیکٹ پہنے ہمارے کلینک میں داخل ہواتھا؟ مجھے یقین ہے کہ یہ اسکا ذاتی خواب ہے۔
دل میں یقین کا جذبہ ہوتو طاقت اور التجاؤں اور آنسوؤں سےخواب تحریر کیے جا سکتے ہیں۔ دوسروں کے خواب ٹائپ کرنا آسان کام ہے لیکن ذاتی خواب تخلیق کرنے میں بہت توانائی صرف ہوتی ہے۔
ہسپتال کے مرکز میں ایک اور شعبہ ہے جو ہمارے شعبے سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ جس کے خواب ہمارے بس میں نہ آسکیں اسے ہم عمارت کے مرکزی حصے میں بھیج دیتے ہیں۔ میں نے ہسپتال کا وہ شعبہ آج تک نہیں دیکھا۔ ہر چند کہ اسکی سیکرٹری میری واقف ہے۔(ہم دونوں ایک ہی ہال میں دوپہر کاکھانا کھاتے ہیں) مگر اسکا حلیہ اور اٹھنے بیٹھنے کا انداز مجھے اس سے دور رکھتا ہے۔ اسکا نام بھی عجیب سا ہے۔میں اکثر اسکا نام بھول جاتی ہوں۔ "مل رویج" یا "مل روج" اس طرح کے نام ٹیلی فون ڈائریکٹری میں نظر نہیں آتے۔ میں نے ایک مرتبہ ٹیلی فون ڈائریکٹری کی ورق گردانی کی تھی اور یہ دیکھ کر خوش ہوئی تھی کہ شہر میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جن کا نام "اسمتھ" نہیں ہے۔
بہرحال یہ مل رویج یا مل روج نام کی عورت بڑی صحت مند اور اونچی لمبی ہے۔ اسکا لباس عام لباس سے زیادہ کسی ادارے کی وردی معلوم ہوتی ہے۔(ضروری نہیں کہ یہ ادارہ کوئی قانون ہی نافذ کرتا ہو) مل روج کے سنگین چہرے پرچند غیر معمولی تل بھی ہیں۔ یہ تل دیکھ کر خیال آتا ہے کہ شاید مل روج کا چہرہ سورج کی روشنی میں بہت کم رہا ہے۔دھوپ کی تپش حاصل نہ ہو تو چہرے پر طرح طرح کے داغ پڑ جاتے ہیں۔ ممکن ہے مل روج نے مصنوعی روشنیوں تلے پرورش پائی ہو۔ اگر اسکے چہرے سے اسکی آنکھیں نوچنے کی کوشش کی جائے تو محسوس ہو گا جیسے کوئی پتھر کھرچ رہا ہے۔
میرے وارڈ کی ہیڈ سیکرٹری کا نام مس ٹیلرہے۔ مس ٹیلر روز اول سے ہمارے وارڈ سے وابستہ ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ جس دن میں پیدا ہوئی تھی اسی روز وارڈ کا افتتاح ہوا تھا۔ مس ٹیلر ہسپتال کے بارے میں ہر چیز جانتی ہے۔ وہ اسکے تمام ڈاکٹروں مریضوں شعبوں اور منصوبوں سے واقف ہے۔ اپنے پیشے میں اتنی لگن میں نے کسی اور میں نہیں دیکھی۔ وہ ہسپتال میں موجود ہر جان دار اور بے جان شے کا حساب رکھتی ہیں۔ اس تمام وقت اعداد و شمار میں گھرا دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے۔
دفتر میں میری دلچسپی صرف خواب جمع کرنے کی حد تک ہے۔ مجھے یقنر ہے کہ اگر ہسپتال میں آگ لگ جائے تو مس ٹیلر خود کو بچانے سے پہلے اعداد و شمار کی فائلیں بچانے کی کوشش کرے گی۔ میرے اور مس ٹیلر کے مشاغل مختلف ہونے کے باوجود ہمارے آپس کے تعلقات بہت خوشگوار ہیں۔ بس میں یہ نہیں چاہتی کہ وہ مجھے دفتر کی فائلوں میں پرانے خواب پڑھتے دیکھ لے۔ عام طور پر ہمارا شعبہ بے پناہ مصروف رہتا ہے۔ لیکن پھر بھی مجھے کبھی کبھی خوابوں کے پرانے ریکارڈوں میں جھانکنے کا موقع مل ہی جاتا ہے۔ مگر اتنی عجلت میں انوکھے اور اچھوتے خوابوں کا انتخاب ایک مشکل عمل ہے۔ میرے فن کا تقاضا ہے کہ میں فرصٹ سے بیٹھوں ، خوابوں کی گہرائی میں اتروں، انکے سارے پہلوؤں کو جانچوں ، انہیں ہر زاویے سے پرکھوں اور پھر جن خوابوں کو ہر طرح سے مکمل پاؤں، انہیں گھر لے جا کر خوابوں کی مقدس کتاب میں درج کر دوں۔ اگر شراب کا معیار بتانے والے ماہرین پہلا قطرہ چکھنے سے قبل ایک گھنٹے تک شراب کی خوشبو سونگھ سکتے ہیں تو میں خوابوں کے سلسلے میں اس فرصت اور سہولت سے کیوں محروم ہوں۔
کبھی کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ میں ایک بڑا ٹرنک لاؤں اور خوابوں کی ساری فائلیں اس میں بھر کے لے جاؤں۔ہسپتال کے گیٹ پر غیر معمولی قسم کی پوٹلیوں اور بنڈلوں کو کھلوا کر دیکھا جاتا ہےاور سٹاف کے چند دوسرے لوگ بھی سرکاری سامان کی نگہداشت پر مامور ہیں،مگر میں ٹائپ رائٹر یا کوئی قیمتی دوا وغیرہ چرانے کا منصوبہ نہیں بنا رہی۔ میں تو بس پرانے خوابوں کی فائلیں ایک رات کے لیے گھر لے جاؤں گی اور دوسری صبح انہیں اسی ترتیب سے دوبارہ الماری میں سجا دونگی۔ اس میں کسی کا کیا نقصان ہے؟یوں تو میں خوابوں میں فقط جھانکنے سے بھی بہت کچھ معلوم کر سکتی ہوں لیکن مس ٹیلر کے آنے جانے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے جس کے سبب میں ہر آہٹ اور سرگوشی پر چونک جاتی ہوں اور اسطرح میں چند لمحوں کے لیے بھی اپنا شوق مکمل توجہ سے پورا نہیں کر پاتی۔
اداس دنوں میں جب میرے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ پرانی فائلوں سے کسی خواب کی ایک جھلک ہی دیکھ لوں ، سراسیمہ میری جانب پشت کر کے پہاڑوں جتنا بلند ہو جاتا ہے اور مجھ پر اتنا خوف طاری ہوتا ہے کہ میں اپنے حواس گم کر بیٹھتی ہوں۔ ایسے موقع پر میری حالت ان بھیڑوں کی سی ہوتی ہے جو آنکھوں کے سامنے اُگی سبز گھاس چرنے میں اس قدر مشغول ہو جاتی ہیں کہ چراگاہ کے اختتام پر قربانی کے چبوترے کی موجودگی سے آخری لمحے تک بے خبر رہتی ہیں۔
اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ڈاکٹر ہر روز سراسیمہ کے آدمیوں کو انکی پناہ گاہوں سے باہر نکال رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کے لیے سراسیمہ کے دربار تک رسائی رکھنے والوں کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ہر چند کہ اسکے گروہ میں فقط وہی نمایاں منصب پر فائز ہوتا ہے جو خوابوں کو یاد رکھے اور خواب دیکھنے والوں کو بھول جائے۔ یوں بھی خوابوں کے مقابلے میں خواب دیکھنے والوں کی کیا وقعت ہے؟ مگر ڈاکٹر یہ تسلیم نہیں کرتے۔ انکے لیے تو سراسیمہ مریض کے بدن میں داخل ہونے والا کانچ کا ٹکڑا ہے جسے وہ روحانی پائپوں کی مدد سے باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہیری کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ اعتراض کرنے والوں کو ڈاکٹر یاد دلاتے ہیں۔" جب وہ ہمارے شعبے میں داخل ہوا تھا تو سراسیمہ اسکے شانے پر ہاتھ رکھ چکا تھا۔اسی لیے تو اسے پوری دنیا غلاظت کا ڈھیر نظر آنے لگی تھی۔اس نے کام پر جانا چھوڑ دیا تھا کہ راستے میں انسانوں کا تھوک اور جانوروں کی آلودگی پڑی ہوتی ہے۔ پہلے یہ گندگی جوتوں کو لگتی ہے، وہ کہتا تھاا ور جب گھر آ کر جوتے اتارو تو ہاتھ ناپاک ہو جاتے ہیں۔اسکے بعد منہ تک پہنچنے میں اسے دیر ہی کتنی لگتی ہے؟"
ہیری کو جسمانی معذور بھی برے لگتے تھے۔"معذوروں کے ناخن اور کانوں کا پچھلا حصہ میل سے اٹا ہوتا ہے۔" وہ اکثر گفتگو کا آغاز ہی اس جملے سے کرتا تھا۔لیکن ہمارے مشوروں اور ہدایات پر عمل کرنے سے وہ بالکل نارمل ہو گیا تھا۔ یاد ہے؟ علاج کے آخری دن اس نے ہم سب کے ساتھ کیسی خوش دلی سے ہاتھ ملایا تھا اور ہمارا شکریہ ادا کر کے رخصت ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے آخری دن دن اسکی آنکھوں کے شعلے بجھے ہوئے تھے۔ اور وہ احمقوں کی طرح مسکراتا ہوا ہمارے کلینک سے روانہ ہوا تھا، اگر صورتحال یہی رہے تو کتنے ہیری آئیں گے۔ صحت یاب ہو کر چلے جائیں گے اور میں اپنے خوابوں کے ذخیرے میں کوئی اضافہ نہیں کر سکوں گی۔ مجھے بہرطور اپنی رفتار بڑھانی ہے اور مس ٹیلر کی موجودگی میں یہ ناممکن ہے۔ اس مسئلے کا صرف یہی حل ہے کہ کوئی رات میں دفتر میں ہی گزاروں اور تمام فائلوں سے اپنے مطلب کے خواب اپنی ڈائری میں تحریر کر لوں۔
دفتر میں رات گزارنے کا خیال کئی دنوں سے(کمبلوں سے نکلے مریضوں کے زرد پیروں کی قطارکی طرح) بار بار میرے سامنے آرہا ہے۔ ایک دن شام کے پانچ بجے میں خود کو دفتر کے واش روم میں چھپا دیکھتی ہوں۔ گہرے ہوتے اندھیرے کے ساتھ دفتر سے گھر جانیوالوں کے قدموں کی چاپ آہستہ آہستہ معدوم ہو جاتی ہے۔میں واش روم سے باہر نکلتی ہوں تو دن بھر مصروف رہنے والے ہسپتال کی عمارت سوموار کے چرچ کی طرح خالی اور اداس محسوس ہوتی ہے۔ میں فوراََ اپنے کمرے میں داخل ہوتی ہوں۔ٹائپ رائٹرز اپنے خانوںمیں بند کیے جا چکے ہیں۔ٹیلی فونوں میں تالے پڑے ہیں دنیا اپنی جگہ موجود ہے۔
میں چھت پر لگا ہلکی طاقت کا بلب روشن کر کے ریکارڈ میں موجود خوابوں کی سب سے پرانی فائل کا پہلا صفحہ کھولتی ہوں۔فائل کا رنگ ابتدا میں نیلا رہا ہو گا، مگر اب اسکی جلد زرد ہو گئی ہے۔ میری پیدائش کے دن یہ فائل بالکل نئی ہو گی۔ میں صبح تک اس فائل کی ورق گردانی کرتی ہوں۔ آدھی رات کے قریب میں اس فائل میں درج آخری خواب پڑھتی ہوں۔ مئی کی انیس تاریخ کو ایک نرس اپنے مریض کی الماری کھول کر لانڈری کے تھیلے سے پانچ کٹے ہوئے سر نکالتی ہے۔ ان میں ایک سر نرس کی ماں کا ہے۔
سرد ہوا کا ایک ہلکا جھونکا میری گردن کو چھوتا ہوا گزر جاتا ہے۔میں خوابوں کی فائلوں کے سامنے فرش پر بیٹھی ہوں اور اب ٹانگوں پر فائل کا کا بوجھ محسوس کر رہی ہوں۔اچانک میری نظر سامنے والے پر پڑتی ہے۔ دروازے کے کواڑ فرش سے اٹھے ہوئے ہیں۔دروازے کی دوسری طرف دو مردانہ جوتے نظر آ رہے ہیں۔ جوتوں کی نوکیں میری سمت ہیں۔بھورے چمڑے کے بنے ہوئے اونچی ایڑیوں والے یہ غیر ملکی ساخت کے جوتے ہیں۔جوتے ساکت ہیں ہر چند کے ان کے اوپر کالے رنگ کی وہ ریشمی جرابیں بھی ہیں جن سے کسی ٹانگوں کی زرد رنگت جھلک رہی ہے مگر جوتے ساکت ہیں۔
"بے چاری" کوئی انتہائی پیار بھری آواز میں کہتا ہے۔ " بے چاری فرش پر کیسے بیٹھی ہے۔ اب تو اسکی ٹانگیں اکڑ گئی ہونگی۔ اسکی مدد کرو سورج نکلنے والا ہے۔"
دو ہاتھ میرے بازوؤں تلے سے نکل کر مجھے کھینچ کر کھڑا کر دیتے ہیں ۔ میری ٹانگیں واقعی سن ہو چکی ہیں۔ میں لڑکھڑاتی ہوں۔ خوابوں کی فائل فرش پر جا پڑتی ہے۔"کچھ دیر تک یونہی کھڑی رہو۔ خون کی گردش درست ہو جائے گی۔"ہسپتال کے مالک کی سرگوشی میرے کانوں میں گونجتی ہے۔ میں اپنی ڈائری سینے سے لگا لیتی ہوں۔ یہ میری آخری امید ہے۔
"اسے کچھ نہیں معلوم۔"
"اسے کچھ نہیں معلوم۔"
"اسے سب کچھ معلوم ہے!!"
چمکدار جوتے کی نوک خوابوں کی فائل کو ٹھوکر مارتی ہے۔ میری پیدائش کی پہلی چیخ کے وقت شہر میں دیکھے جانے والےتمام خوابوں کا ریکارڈ الماری کی تہہ کے اندھیرے میں چلا جاتا ہے۔
وہ مجھے عمارت کے مرکز کی سمت لے جا رہا ہے۔میں اپنی رفتار تیز کر دیتی ہوں تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ مجھے گھسیٹا جا رہا ہے۔
"اس سے پہلے کہ تم مجھے نکالو" میں مضبوط لہجے میں کہتی ہوں۔"میں خود نوکری چھوڑ دو گی۔" "تم ہمارے کام آتی ہو" اس بار مالک کہیں دور سے بولتا ہے۔"ہمیں تمہاری ضرورت ہے۔"
میں اور مالک چلتے رہتے ہیں۔یہاں تک کہ پیچ در پیچ راہداریوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اسکے بعد سرنگیں آتی ہیں۔ آخری سرنگ کے اختتام پر آہنی پھاٹک کھل جاتا ہے۔ہمارے گزرنے کے بعد ہماری پیٹھ پیچھے پھاٹک یوں بند ہوتا ہےجیسے مویشیوں کو مذبح خانے لے جانے والی گاڑی کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔
ہم ایک انجانے کمرے میں داخل ہو چکے ہیں۔کم از کم میرے لیے یہ کمرہ بالکل اجنبی ہے۔میں دوسروں کے علاقے میں آگئی ہوں اور میرا سامان پیچھے رہ گیا ہے۔ہینگر پر لٹکا کوٹ ۔۔۔۔۔اور میرے ڈیسک کی دراز میں میرا بٹوہ پڑا ہوا ہے۔ صرف میری ڈائری میرے ساتھ ہے۔اور سراسیمہ ہے جس کی تپش مجھے برف باری میں منجمد ہونے سے بچا رہی ہے۔ میں انتہائی تیز روشنیوں کے نیچے کھڑی کر دی گئی ہوں۔ "آگئی ہے۔"
"چڑیل۔۔۔"
مس مل روج فولادی ڈیسک کے پیچھے کھڑی مجھے گھور رہی ہے۔ کمرے کی ساخت ایسی ہے جیسے کسی بحری جہاز کا نچلا حصہ ہو۔ کسی بھی دیوار پر کوئی کھڑکی یا روشن دان نہیں ہے۔ سامنے سے سراسیمہ کے نائب نمودار ہوتے ہیں۔انکی آنکھیں دہکتے ہوئے کوئلوں سے زیادہ سرخ اور روشن ہیں۔ وہ مجھے عجیب آوازوں میں خوش آمدید کہتے ہیں۔انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ میں سراسیمہ کی صفوں میں شامل ہوں اور وہ جاننا چاہتے ہیں کہ دنیا میں سراسیمہ کے کارکن کس حال میں ہیں۔
"امن۔ میں تمہارے لیے امن اور سلامتی کا پیغام لے کر آئی ہوں۔" میں اپنا ڈائری والا ہاتھ بلند کر کے انہیں مخاطب کرتی ہوں۔
"یہ پرانا راگ ہے بی بی" مل روج ہاتھی کی طرح جھوم اٹھتی ہے۔"اب ہم ایسی باتوں سے متاثر نہیں ہونگے"
مس مل روج مجھ پر جھپٹتی ہے۔ میں بچنے کی کوشش کرتی ہوں۔مگر وہ بہت تیز رفتار اور طاقتور ہے۔ پہلی بار اسکا وار خالی جاتا ہے مگر دوسری بار وہ مجھے دبوچ لیتی ہے۔
"پرانا راگ مت الاپو۔ یہ ڈائری ہمارے حوالے کردو۔"
مس مل روج کے سانسوں میں پاگل کر دینے والی بو ہے۔میں اسکی گرفت سے نکلنے کی کوشش میں اسکی مردوں جیسی مضبوط اور بے رس چھاتی کو اپنے وجود کی پوری طاقت سے پرے دھکیلتی ہوں۔ لیکن میں اسکے مقابلے میں بہت کمزور ہوں۔اسکی انگلیاں درندے کے پنجوں کی طرح میرے بدن میں پیوست ہو رہی ہیں۔
"میری بچی۔۔۔میری بچی میرے پاس لوٹ آئی ہے۔" میرے کانوں میں پھنکارتی ہے۔
"یہ لڑکی" ہسپتال کے مالک کی آواز سے کمرہ گونجتا ہے۔"سراسیمہ کے ساتھ وقت گزارتی رہی ہے۔"
"بری بات۔"
"بری بات۔"
سفید لکڑی کا ایک تخت عین میرے سامنے بچھا دیا گیا ہے۔ مل روج میری کلائی سے گھڑی اتارتی ہے۔ انگلیوں سے انگھوٹی نکالتی ہے۔ بالوں سے ہئیر پن الگ کرتی ہے۔ پھر وہ میرا لباس اتار کر مجھے موسم کی پہلی برف جیسی بے داغ اور سفید چادروں میں لپیٹ دیتی ہے۔ اچانک کمرے کے چاروں کونوں سے پتھرائی آنکھوں والے چار وجود نکل کر مجھے سفید تخت پر لے جاتے ہیں۔ انہوں نے آپریشن تھیٹر والے کپڑے اور نقاب پہن رکھے ہیں۔انکا مقصد سراسیمہ کی بادشاہت ختم کرناہے۔وہ ایک ایک کر کے میری ٹانگیں اور بازو قابو کر لیتے ہیں۔دروازے سے آنے والا میرے سر کے پیچھے کھڑا ہو جاتا ہے۔ میں اسے نہیں دیکھ سکتی مگر اسکے ہاتھوں میں موجود تیز دھاروں والے اوزار کی کھڑکھڑاہٹ سن سکتی ہوں۔
سراسیمہ کے نمائندے میری بے بسی پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔ وہ گنگناتے ہیں۔
"فقط خوف سے محبت کی جا سکتی ہے۔"
خوف سے محبت باشعور ہونے کی علامت ہے۔
فقط خوف، ہر طرف خوف کا راج ہو۔
"فقط خوف سے محبت کی جا سکتی ہے۔"
مل روج اور ہسپتال کا مالک سراسیمہ کے نمائندوں کو خاموش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
میرے سر کے پیچھے کھڑے شخص کو اشارہ کیا جاتا ہے۔ یکلخت مشین اور تیز دھار آلات چلنے کی آواز بقیہ تمام آوازوں پر حاوی ہو جاتی ہے۔ جونہی میں خود کو معدوم ہوتا محسوس کرتی ہوں، چھت پر لگی روشنیوں سے سراسیمہ کا چہرہ جھانکتا ہے۔ اسکی آنکھوں میں بجلیاں کوند رہی ہیں۔ آواز کی کڑک سے کائنات پر سائے پڑ رہے ہیں۔
میں عمر بھر سراسیمگی سے وابستہ رہی ہوں۔ اور مجھے پہلے دن ہی معلوم ہو گیا تھا کہ یہ وابستگی بیسویں منزل سے چھلانگ ہے۔گلے میں پڑی رسی ہے۔ دل پر رکھے خنجر کی نوک ہے۔