جمعرات، 30 اگست، 2018

حقائق اور اسرار _ تحریر : یاسین عزیز بلوچ



حقائق اور اسرار 

تحریر : یاسین عزیز بلوچ



انسانی جذبات کو اُس وقت قابو میں رکھنا مشکل ہوتا ہے، جب انسان ناانصافی دیکھتا ہے اور کسی بھی باضمیر انسان کیلیئے ناانصافی کی انتہاء کو دیکھ کر اُسے برداشت کرنا ذرا مشکل ہوجاتا ہے۔ برداشت کرکیخاموشی پر اکتفاء کرنا، اندر ہی اندر کڑنا یا کسی بھی قسم کا اظہارکرنا ہر انسان کیعقل و دانش، فہم و فراست اور جرات پر منحصر ہوتا ہے۔ راہ چلتے لوگوں پر کسی پاگل یا مجنوں کا پتھر پھینکنے کا جواب کوئی پتھر پھینک کر دیتا ہے، جب تک اُسے یہ سمجھ نہ آئے کہ پتھر پھینکنے والا پاگل ہے، کوئی خاموشی سے گذر جاتا ہے اور کوئی اپنا راستہ ہی بدل لیتا ہے، بہرحال پاگل اور مجنوں سے کوئی بھی مقابلہ نہیں کرنا چاہتا، جنکا کوئی کام ہوتا ہے، کوئی منزل ہوتی ہے ان کو تو آگے ہی بڑھنا ہوتا ہے۔



کچھ وقت سے لکھنے کی کوشش کررہا تھا لیکن کئی اندیشے اور خدشات دامن گیر تھے لیکن اندر سے ضمیر اور انصاف نے انہی دنوں میں نہ جانے کیوں جھنجھوڑا، شاید اس مرتبہ گیارہ اگست کی قربانی اور اسکے بعد کے حالات نے حوصلہ دیا ضمیراور اندر کیانصاف کے تحت کچھ تحریر کررہاہوں۔ آگے پڑھنے والے خود انصاف کے تقاضے پورا کریں۔



انصاف صرف عدالتوں سے نہیں ملتا، انصاف کا پیمانہ ہر انسان کے سوچ اور اسکے ضمیرسے جڑا ہوتا ہے، ہر وہ شخص جو انسانی سماج کا حصہ ہے اپنے اردگرد پیش آنے والے واقعات و معاملات کو کس زاویے سے دیکھتا اور پرکھتا ہے، انکو سمجھ کر ان سے حقائق کی کسوٹی پر کتنا انصاف کرسکتاہے، اپنے اظہار اور فیصلوں پر اس حقیقت کو کس طرح سے لاگو کرتا ہے یہ دیکھنے کیلیئے صرف اسکے اظہار اور فیصلوں پر غور کرنا پڑتا ہے کیونکہ انسانی علم، حیثیت واختیار اور عمل کے بااثر اور بے اثر ہونے کا تعلق بنیادی طور اسی سے جڑا ہوتا ہے۔



بلوچ قومی تحریک میں حیثیت، اختیار اور عمل کے زوال ہونے کا سب سے سبق آموز اور عبرتناک نمونے کے طور پر ہمارے سامنے اس وقت جونام آتا ہے وہ حیربیار مری کا ہے۔ آخر کیوں وہ شخص جو قومی تحریک کے ابتداء میں سب سے زیادہ جاندار کردار، سب سے بااثر حیثیت اور سب سے زیادہ بااختیار تھا، آج بے بسی کا منظر پیش کررہا ہے؟



وجوہات، دعوؤں اور الزامات کے بیچ سرگردانی سے بہتر ہے ہم صرف اردگرد کے لوگوں سے حیربیارمری کے تعلقات اور واقعات کا سرسری جائزہ لیں، ضروری نہیں الزامات کے گورکھ دھندے میں ہم تنقیدی نقطہ نگاہ سے واقعات کو پرکھیں بلکہ ہم اُن پیش آنے والے واقعات اور ان سے جڑے افراد کے کرداروں پرغورکریں، جن پر حیربیارمری کی طرف سیتسلسل کیساتھ الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی رہی تھی یا کی جارہی ہے اور پھر حیربیارمری کی طرف سے سامنے آنے والے موقف اور حیربیارمری کے جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کا موازنہ کریں، کچھ قریبی ذرائع اور بلوچ تحریک پر نظر رکھنے والے دانشوران اور سیاسی مبصرین کی آراء اور اپنی معلومات کوبھی شاملِ تحریر کروں گا تاکہ اصل حقائق کوسمجھنے میں ہمیں آسانی ہو، ان حقائق کے بہت سے دیگر پہلو ہوسکتے ہیں انکی جانج پڑتال قارئین کے ذمہ داری ہے۔


بلوچ قومی تحریک میں حیثیت، اختیار اور عمل کے زوال ہونے کا سب سے سبق آموز اور عبرتناک نمونے کے طور پر ہمارے سامنے اس وقت جونام آتا ہے وہ حیربیار مری کا ہے۔ آخر کیوں وہ شخص جو قومی تحریک کے ابتداء میں سب سے زیادہ جاندار کردار، سب سے بااثر حیثیت اور سب سے زیادہ بااختیار تھا، آج بے بسی کا منظر پیش کررہا ہے


لندن میں حیربیارمری کی گرفتاری تک تحریک کے اندر کوئی بڑی رکاوٹ سامنے نہیں آیا تھا، ابتدائی صورت حال کی وجہ سے بلوچ عوام اورتحریکی ساتھیوں کیلیئے سب کچھ نیا تھا اور ظاہری وعملی اقدامات توجہ حاصل کررہے تھے، جن میں اثرانگیزی کی وجہ مزاحمتی اور جنگی کاروائیاں تھیں، نواب اکبر خان بگٹی اور بالاچ مری کی شہادت جیسے سانحات نے تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی تھی، اسی دوران اچانک حیربیارمری کی گرفتاری بعدازرہائی کے بعد تحریک میں دراڑیں پیدا ہونا شروع ہوئیں۔




پہلے غیر متوقع اعلانِ یک طرفہ جنگ بندی سامنے آیا، سیاسی اور جنگی مبصرین کے مطابق یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان مزاحمتی تنظیموں کی طرف سے آنا بالکل ہی حیرت انگیز تھا، کیونکہ دنیا کی تاریخ میں جتنی بھی مثالیں ملتیں ہیں، ان میں یک طرفہ جنگ بندی کی پیش کش طاقت ور فریق کی طرف سے ہوتا رہا ہے، جن حالات میں جنگ بندی کی گئی ان حالات کے تحت جنگ بندی کے وجوہات کوسمجھنا آسان کام نہ تھا۔ کئی مہینوں کی مشترکہ جنگ بندی کی غیر اعلانیہ خاتمے کا آغاز بگٹی علاقے سے ہوا، جہاں پاکستانی فوج نے حملہ کرکے کئی لوگوں کو نشانہ بنایا، جسکے ردعمل میں بی آر اے نے جنگ بندی ختم کرکے پاکستانی فوجیوں پر حملے شروع کردیئے اور اسکے فوراً بعد مشکے میں سرکاری کاروائیوں کے نتیجے میں بی ایل ایف نے بھی جوابی کاروائیوں سیجنگ بندی کا خاتمہ کردیا، جو یہ ثابت کرنے کیلیئے کافی تھے کہ یکطرفہ جنگ بندی کا فیصلہ وقت وحالات کے تحت نہیں تھا۔



بعد کی حاصل کی گئی معلومات کے مطابق یہ جنگ بندی حیربیارمری کے خواہش پر کی گئی تھی، جس کیلئے اس نے کوئی واضح اور خاص وجہ پیش نہیں کی تھی۔ مبصرین کے مطابق ہوسکتا ہے کہ یہ جنگ بندی ایک ایسی یقین دہانی تھی، جو کسی کو کرائی جارہی تھی کہ تمام معاملات میرے ہاتھ میں ہیں، جو بی آر اے اور بی ایل ایف کے غیر اعلانیہ جنگی کاروائیوں سے اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکا اور پھر بی ایل اے نے بھی جنگ کا اعلانیہ آغاز کردیا۔



یک طرفہ جنگ بندی کا مسئلہ عام بلوچوں کیلیئے سر بستہ راز ہی بنا رہا لیکن جنگی اور سیاسی مبصرین اس جنگ بندی کوکسی کی یقین دہانی سے جوڑتے ہوئے اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یک طرفہ جنگ بندی کے فیصلے اور اسکے مقاصد جو بھی تھے، وہ پورے نہ ہوسکے، اسکی وجہ فردی اور یکطرفہ فیصلوں اور ان پر مجموعی حوالے سے عمل نہ ہونا تھا۔ جنکے پیچھے کسی پالیسی یا متفقہ سوچ کا فقدان تھا، بعد کے ہونے والے تمام متنازعہ اقدامات اور انکی ناکامیوں کی ابتداء جنگ بندی اور اسکے ناکامی سے ہوا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد حیربیارمری کے طرف سے ایک اخباری بیان میں یہ اعتراف کیا گیا کہ تحریک میں قیادت کے سطح پر اختلافات ہیں، جنکو حل نہیں کیا گیا تو وہ تحریک سے کنارہ کشی اختیار کرینگے بیان میں اختلافات اور انکی نوعیت اور قیادت کی سطح پر کوئی وضاحت نہیں کی گئی تھی۔


جنگ بندی حیربیارمری کے خواہش پر کی گئی تھی، جس کیلئے اس نے کوئی واضح اور خاص وجہ پیش نہیں کی تھی۔ مبصرین کے مطابق ہوسکتا ہے کہ یہ جنگ بندی ایک ایسی یقین دہانی تھی، جو کسی کو کرائی جارہی تھی کہ تمام معاملات میرے ہاتھ میں ہیں، جو بی آر اے اور بی ایل ایف کے غیر اعلانیہ جنگی کاروائیوں سے اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکا 


اسی دوران بی این ایف کی طرف سے ایک اخباری بیان جاری ہوا، جس میں حیربیارمری کو قومی تحریک کا عالمی نمائندہ مقرر کیا گیا تھا، لیکن دوسرے دن ہی بی این ایف نے اس بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ بعد کی معلومات کے مطابق جوبات کھل کرسامنے آئی، اس میں بلوچ رائٹس کونسل کے وہاب بلوچ اور حیربیارمری سے قربت رکھنے والے سمندر آسکانی نے یہ بیان خود سے جاری کیا تھا۔ جس کیلئے بی این ایف کے ذمہ دار دوستوں سے کسی بھی قسم کی مشاورت کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، اس مسئلے نے بھی یکطرفہ جنگ بندی کی طرح متفقہ سیاسی مشاورت اور فیصلوں کے فقدان کی طرف اشارہ کیا اور اس مسئلے میں بھی جو متنازعہ کردار سامنے آیا، وہ حیربیارمری کا تھا۔



اسی دوران حیربیارمری کی طرف سے چارٹر آف لبریشن کی باز گشت سنائی دی اور وہ تیار ہوکر تمام آزادی پسندوں تک پہنچائی گئی، جن میں نواب مری سے لیکر اختر مینگل تک سب شامل تھے، اس چارٹر آف لبریشن کے ساتھ دو نقاط کے سوا تمام نقاط میں تبدیلی کیلیئے گنجائش کی شرط بھی رکھی گئی تھی، جسے شروع میں تو تمام آزادی پسندوں نے خوش آئند اور بہتر قرار دیا لیکن آہستہ آہستہ سب اسکی حمایت سے دستبردار ہوتے گئے، وجوہات تک رسائی کی تگ دو میں کچھ مبصرین چارٹر آف لبریشن کے شائع کرنے کے وقت و حالات کو غیرمناسب و غیر موزوں قرار دیتے ہیں، انکے مطابق ٹھیک اسی وقت نواب خیربخش مری اور حیربیارمری کے تعلقات انتہائی کشیدہ تھے۔ زامران مری کو لیکرحیربیارمری اورنواب خیربخش مری کے بیچ جو کچھڑی پک رہی تھی، اسکو لیکر حیربیار مری کسی بھی طرح تمام آزادی پسند اتحادیوں کو اپنا حمایتی بنانا چاہتے تھے۔ مبصرین کے مطابق یکطرفہ جنگ بندی، بی این ایف کا متنازعہ بیان اور چارٹر آف لبریشن اسی سلسلے کی کڑیاں تھے۔ یہ ایسے اقدامات تھے جو حیربیارمری نے قیادت کے ڈور کو اپنے ہاتھوں میں ثابت کرنے کیلئے عجلت میں اٹھائے تھے۔ ان تمام اقدامات سے مراد یہ تاثر دینے کی سعی تھی کہ حیربیار مری بلوچ تحریک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں، لہٰذا کوئی گفت و شنید اس سے گذرے بغیر ممکن نہیں ہوسکے گی، اب یہ تاثردینا کس کو مراد تھا، شاید اب تحریک کے اندر یہ مزید ایک سربستہ راز نہیں رہا۔



مبصرین کے مطابق اگر مدمقابل نواب خیربخش مری جیسی شخصیت نہ ہوتی، تو شاید ان تمام اقدامات کا حمایت حاصل کرنا اتنامشکل نہیں ہوتا۔ دیگر آزادی پسند چہ میگو ئیوں میں ان اقدامات کو سیاسی حربوں کے طور پر بھی دیکھتے ہیں، جنکا مقصد آزادی پسند اتحادیوں میں خود کوبطور قیادت نمایاں کرنا تھا، جو ممکن نہ ہوسکا اس دوران یو بی اے کا ظہور ہوچکا تھا اور بی ایل اے اپنے ایک اخباری بیان میں یو بی اے کوریاستی تنظیم بھی قرار دے چکا تھا۔ یہ سلسلہ آگے چل کر مزید سنگین صورت حال اس وقت اختیار کرگیا، جب سوشل میڈیا پر تنقید اور اصلاح کے نام پرتقریباً ان تمام آزادی پسند گروپوں کو نشانہ بنایا گیا، جو نواب خیربخش مری اور حیربیارمری کے مسئلے میں غیرجانبدار رہنا چاہتے تھے یا جو مسئلے کا کوئی متفقہ حل نکالنا چاہتے تھے۔



مبصرین کے مطابق حیربیارمری کو صرف اور صرف اپنے شرائط پر مسئلے کا طے شدہ حل قبول تھا، جو نواب خیربخش مری اور اسکے ساتھیوں کو سنے اور سمجھے بغیر انکو قبول کروانا تھا، جس میں زامران مری قابل قبول نہیں تھے اور حیربیارمری اپنے فیصلے کو جراح اورکوئی بھی ثبوت پیش کیئے بغیرپورا ہوتا دیکھنا چاہتے تھے، جو دیگر آزادی پسند اتحادیوں کیلیئے ممکن اور قابل قبول نہیں تھا، ایک طرف حیربیارمری کے ناقابل قبول شرائط اور دوسری طرف سوشل میڈیا پر تنقید و اصلاح کے نام پر کردار کشی کے لیئے کئے جانے والیحملے، معمولی مسائل کو جواز بنا کر ہدف تنقید بنانے کے اقدامات مسائل کے حل میں رکاوٹ بنتے جارہے تھیاور بداعتمادی کا باعث بنے رہے تھے۔ اس دوران تحریک کو حاصل ہونیوالے تمام مقناطیسی اثرات آہستہ آہستہ زائل ہونا شروع ہوئے، وہ مقناطیسی محب بدمزگی، اخلاقی گراوٹ اورکھلے پن کا شکار ہوکر بازاری ماحول میں تبدیل ہوتاگیا، جس کے منفی اثرات سے بلوچ عوام و تحریک متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔



اسی دوران نواب مری اس دنیا سے رخصت ہوگئے، اُنکی رحلت کے فوراً بعد حیربیارمری کا نواب صاحب کے بارے میں تبدیل ہونے والے موقف نے آزادی پسندوں کو حیرت میں ڈال دیا، حیربیارمری کی طرف سے نواب صاحب کے عقیدت میں جو بیانات سامنے آئے، وہ زندہ نواب خیربخش مری کے بارے میں اُن کی پیش کئے جانے والے رائے اور موقف سے بالکل بھی الگ اورمتضاد تھے، قریبی ذرائع کے مطابق اسکے بعد اپنے والدہ سے ناراضگی اور آخری وقت میں انکی حال پرسی سے انکار اور پھر والدہ کی رحلت کے بعد جاوید مینگل، اپنی بہن اور زامران مری کے خلاف لندن پولیس کو رپورٹ کرنا بھی اسی سوچ کی عکاسی تھی۔ خاص طور پر اپنی والدہ کے وفات کے بعد حیربیار کا اپنی بہن کے خلاف اخباری بیان اور لندن پولیس میں رپورٹ کرنے کو عوامی سطح پر بہت منفی معنوں میں دیکھا گیا۔


نواب مری اس دنیا سے رخصت ہوگئے، اُنکی رحلت کے فوراً بعد حیربیارمری کا نواب صاحب کے بارے میں تبدیل ہونے والے موقف نے آزادی پسندوں کو حیرت میں ڈال دیا، حیربیارمری کی طرف سے نواب صاحب کے عقیدت میں جو بیانات سامنے آئے، وہ زندہ نواب خیربخش مری کے بارے میں اُن کی پیش کئے جانے والے رائے اور موقف سے بالکل بھی الگ اورمتضاد تھے،


ایسے پرُتضاد فیصلوں کا سامنے آنا، حیربیارمری اور اُسکے قریبی ساتھیوں اور عوام کے بیچ قائم اعتماد کے رشتے پر براہِ راست منفی اثر ڈالنے لگے کیونکہ نواب خیربخش مری، زامران مری اور دیگر آزادی پسند شخصیات پر لگائے گئے الزامات کو بھی ثابت کرنے میں حیربیارمری مکمل ناکام ہوئے اور دوسری طرف ان شخصیات کے بیچ پیدا ہونے والے مسائل کے حل میں بھی حیربیارمری مکمل ناکام ہوئے، معمولی مسائل اگر اس طرح کی سنگین شکل اختیار کرتے ہیں تو انکی تہہ تک جانا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔ اسی نقطے کے تحت اگر مری بگٹی قبائلی جنگ، جس میں ہزاروں لوگ مارے جا چکے تھے، جو ایک پیچیدہ مسئلہ تھا، اگر اس جنگ کوروک کر دونوں قبائل کو شیر شکر کرکے انکا رخ دشمن کی طرف موڑا جاسکتا تھا اور موڑا گیا، تو پھرمعمولی کرپشن کے الزامات پر یو بی اے جیسا تقسیم اور آزادی پسندوں کے بیچ ہونے والےآپسی جنگ کو کیسے روکا نہیں جا سکتا تھا؟ دشمن کے خلاف سرگرم عمل ساتھیوں کو دشمن کو چھوڑ کر ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں دھکیلنا باعث تشویش وحیرت تھا۔ وہ عوامل کیا تھے، جو معمولی مسئلے سیتقسیم اور پھر جنگ کی صورت حال اختیار کرگئیاور وہ عوامل کیا تھے جو قبائل کے بیچ جاری جنگ اور اس جنگ میں ہزاروں جانی و مالی نقصانات کو فوراً حل کی طرف لے گئے؟ ایسے متضاد صورت حال میں لازمی طور پر سطحی الزامات جیسے ڈسپلن، اصول پرستی وغیرہ بغیر ٹھوس و ثبوت یا مضبوط دلائل کے اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں۔ الزامات اورسطحی و جذباتی شور شرابے میں حقائق تک رسائی بھی اتنا آسان نہیں ہوتا، اسلیئے ہر کوئی اپنے معلوماتی ذرائع پر تکیہ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے، چاہے اسکا معیار کچھ بھی ہو جسکی وجہ سے پیچیدگیاں جنم لیتے ہیں۔



مسائل کے ڈھیر میں ایک اوراضافہ اس وقت ہوا کہ جب بی ایل اے 2017 میں ایک اور بحران کا شکار ہوا، حیربیارمری کے دست راست سمجھے جانے والے اور زمین پر پوری تنظیم کی باگ ڈور سنبھالنے والے استاد اسلم بلوچ اور کامریڈ بشیرزیب بلوچ کے خلاف بھی اچانک میڈیا میں ڈسپلن کی خلاف ورزی کے الزامات اچھالے گئے، ہندوستان اور مذہبی گروہوں سے تعلقات کی شُبے اورنشاندہی کے ساتھ انکو معطل کردیا گیا لیکن دوسری جانب تنظیم کے اندر سے ہی اس فیصلے کو شخصی فیصلہ قرار دیکر مسترد کردیا گیا اور الزامات کو دباؤ کے حربے قرار دیکر ثبوت مانگا گیا اور تنظیم کے اندر تنظیمی طریقہ کار کے بغیر ہونے والے اس فیصلے کو چیلنج کیاگیا اور تنظیم کے اندر ذمہ داران کے ساتھ ملکر مسئلے کے حل پرزور دیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر ماضی کی طرح یہ سلسلہ بھی تنظیم کے اندر حل نہ ہوتے ہوئے اخبارات اور سوشل میڈیا کی زینت بن گیا۔ اور تادمِ تحریر لگائے گئے الزامات کے متعلق کوئی ثبوت سامنے نہیں آسکا، جو ان الزامات کے صحت کو مشکوک کردیتی ہے۔



اس مسئلے میں دو ترجمان سامنے آئے، آزاد بلوچ نامی ترجمان حیربیار مری کی ترجمانی کرنے لگا اور جئیند بلوچ بی ایل اے کا دعویدار بنکر سامنے آیا، یہ بات بھی ماضی کی طرح سر بستہ راز رہا کہ سخت اصولوں کیلیئے پہچان رکھنے والا تنظیم اپنے اندرونی مسائل تنظیم کے اندر حل کرنے کی صلاحیت سے کیوں قاصر ہے؟ اپنے مسائل کے حل کیلئے اُسے پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ دو طرفہ دعوؤں اور الزامات سے قطع نظرسیاسی مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ حیرت زدہ کردینے والی بات یہ ہے کہ حیربیارمری ہمیشہ سے اصول اور سخت ڈسپلن کا دعویدار رہا ہے، بی ایل اے کو وہ اصولوں کا گہوارہ قرار دیکر خود کو زبردست اصول پرست قرار دیتا آرہا ہے لیکن اس دوران سب سے زیادہ بحران اور تقسیم کا شکار بی ایل اے اور سب سے زیادہ متنازعہ شخصیت حیربیارمری خود ہی رہے ہیں، ایسا کیوں ہے؟ یہ سمجھنا شاہد ماضی میں مشکل رہا ہو، مگر آج اتنا مشکل نہیں۔ مبصرین کے مطابق حیربیارمری ہر مسئلے کواپنے مرضی اور منشاء کے مطابق حل کرنا چاہتا ہے، چاہے اس مسئلے میں حیربیارمری فریق ہی کیوں نہ ہو، شرائط رکھ کر اپنی بات منوانے کی عادت حیربیارمری کی نفسیات میں شامل ہے، اسکے شرائط اگر فریقین کیلئے قابل قبول نہ ہو تو، حیربیارمری مزید گفت وشنید کے بجائے دباؤ میں لانے کیلئے مسائل کو اخبارات میں اپنے طور پر بیان کرکے مزید اُلجھن پیدا کرتا ہے، جس سے مزید پیچیدگیاں جنم لیتے ہیں۔


زمینی حقائق کا سرسری جائزہ لیا جائے تو یہ بات دیکھنے میں بالکل صاف نظر آتی ہے کہ حیربیارمری کی طرف سے سب سے زیادہ ہدف تنقید بی ایل ایف اور ڈاکٹراللہ نذر رہے، مکران میں ہونے والی جدوجہد رہی اور ساتھ ہی ساتھ اسی دوران اصول، اصلاح، ڈسپلن اور حقیقی سمت میں سفر کیلیئے حیربیارمری ہمیشہ ہی اپنے آپ کو متعارف کراتے رہے لیکن آج کے نتائج میں کوہلو، کاہان اور مکران کے مزاحمتی حالات کچھ اور گواہی دے رہے ہیں۔ کوہلو کاہان میں مزاحمتی لہر آخری سانسیں لے رہا ہے، جس مڈی کو جواز بنا کر آزادی پسند جنگجوؤں کو آپسی جنگ کے آگ میں دھکیلا گیا، اس مڈی کو روزانہ کی بنیاد پر سرکاری فورسز علاقے سے بغیر کسی مزاحمت کے برآمد کرکے اپنے تحویل میں لے رہے ہیں، مری علاقے کے نامی گرامی کمانڈر یا تو سرینڈر ہوچکے ہیں یا پھر خاموش ہو کر کہیں روپوش ہوگئے ہیں۔ بچے کچھے ساتھیوں میں مزاحمت کی قوت ناپید ہے جبکہ جس مکران کو مافیا کا گڑھ اور جس بی ایل ایف کو چوروں اور منشیات فروشوں یا بلوچ کش افراد کا ٹولہ قرار دے رہے تھے، وہ اس مشکل حالات اور بے سر وسامانی کی حالت میں بھی مکران میں مزاحمت کو مضبوطی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایسیحالات میں اصول پرستی، سخت ڈسپلن کے دعوؤں پر آسانی سے یقین کرنا کیسے ممکن رہ جاتا ہے؟


بی ایل اے کا مسئلہ دو کمانڈروں کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ
 حیربیار مری تنظیمی اکثریت کھوچکے ہیں


تازہ ترین بحران کے تحت ایک سال قبل ہی حیربیارمری اور اسکے قریبی ساتھیوں کی طرف سے استاد اسلم بلوچ اور کامریڈ بشیرزیب کو معطل کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ وہ محض دو کمانڈر ہیں، باقی تنظیم پر اسکے اثرات نہیں پڑے لیکن ان دعوؤں کو ترجمان جئیند بلوچ کے نام سے مسترد کیا گیا تھا، بعض مقامات پر یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ حیربیار کا انفرادی فیصلہ تھا جسے محض اسکے کچھ قریبی ساتھیوں کی تائید حاصل تھی، وگرنہ یہ محض دو کمانڈر نہیں بلکہ تنظیمی اکثریت اس شخصی آمریت کے خلاف ہے، جسکے بعد وہ ترجمان جئیند بلوچ کے نام سے بی ایل اے کی مسلح کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بعد کے آنے والے حالات و واقعات جیئند بلوچ کے موقف کے حق میں دلالت کرتے نظر آئے کیونکہ دو معطل کمانڈر مکران سے لیکر سبّی کاہان تک کیسے مسلح کاروائیاں سرانجام دے سکتے ہیں؟ اس ایک سال کے دوران جیئند بلوچ نے کوئٹہ، خاران، قلات، خضدار، زھری، حب چوکی، دالبندین، نوشکی، بولان، سبی، مچھ، کاہان، ہرنائی وغیرہ سمیت مکران کے مختلف علاقوں میں کامیاب کاروئیاں کئیں، یہ تقریباً بلوچستان کا ہر کونہ بن جاتا ہے، یہ یقیناً محض دو کمانڈروں کی بس کی بات نہیں لگتی بلکہ تنظیمی اکثریت لگتا ہے اور یہ حملے محض اخباری دعوے نہیں ہیں، مسلح کاروائیوں کے بہت سارے وڈیوز بھی سامنے آچُکے ہیں جبکہ دوسری طرف آزاد بلوچ اور ہائی کمان کے حملے انتہائی محدود سطح پر اور محدود علاقوں اور محدود پیمانے کے ہوئے اور وہ بھی ان حملوں کے دعوؤں کی تصدیق کیلئے کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ جنگی مبصرین کے مطابق ان عوامل سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ دو کمانڈروں کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ حیربیار مری تنظیمی اکثریت کھوچکے ہیں۔



ایسا بھی سننے میں آرہاہے کہ ہمگام نیوز کی تشکیل ومتعارف کرانیاوراشاعت میں استاد اسلم بلوچ کی ٹیم کاہاتھ تھا لیکن تین سال قبل مختلف حیلوں و بہانوں سے اس ٹیم سے بلا کسی جواز کے ہمگام کو زبردستی چھین کر شبیر اور جمال ناصر کے حوالے کیا گیا، اس کے بعد ہمگام نیوز کی کارکردگی اور معیار اس حد تک گِرگیا کہ دیکھنے لائق ہے۔ اسکے بعد ایک سال قبل متعارف کیاجانے والا ایک نیا اردو و انگریزی آن لائن میڈیا ادارہ اُسی ٹیم کی مرہون منت ہے، جن سے ہمگام نیوز کو بِلا جواز چھینا گیا تھا، اگر اس نئے آن لائن میڈیا ادارے اور ہمگام نیوز کا آج صرف غیرجانبدارنہ تقابل و تجزیہ کیاجائے تو کارکردگی کے حوالے سے بہت کچھ ثابت ہوجائے گا۔


ہمگام نیوز کی تشکیل ومتعارف کرانے اوراشاعت میں استاد اسلم بلوچ کی 
ٹیم کاہاتھ تھا لیکن تین سال قبل مختلف حیلوں و بہانوں سے اس ٹیم 
سے بلا کسی جواز کے ہمگام کو زبردستی چھین کر شبیر اور جمال ناصر کے
 حوالے کیا گیا، اس کے بعد ہمگام نیوز کی کارکردگی اور معیار اس حد
 تک گِرگیا کہ دیکھنے لائق ہے


بی ایل اے جئیند بلوچ کی مسلح کاروائیوں سے لیکر متعارف کیئے گئے نئے متحرک میڈیا نیٹورک ادارے کی مخالفت سوشل میڈیا پر اُن آئی ڈیز کی طرف سے کی جاتی رہی ہے، جو حیربیارمری کے حمایتی جانے جاتے ہیں، آگے چل کر اسی سلسلے کی کڑی گیارہ اگست کو دالبندین میں چینی انجئیرز پر ہونے والا فدائین حملہ جسکو استاد اسلم بلوچ کے فرزند ریحان بلوچ نے اپنے والد اور والدہ محترمہ کی اجازت و رضامندی سے سرانجام دیا تھا۔ جنگی مبصرین کے مطابق اس واقعے نے بلوچ تحریک پر انتہائی گہرے اور کثیر الجہت اثرات مرتب کیئے، اول یہ کہ بلوچ تحریک میں فدائی حملوں کی مثال کم ملتی ہے، اس حملے نے یہ پیغام پہنچایا کہ تحریک کس حد تک شدت اختیار کرسکتی ہے اور اس شدت کا فیصلہ بلوچ مزاحمتکاروں کے ہاتھوں میں ہے، جو ان دعوؤں کو مسترد کر بیٹھی کہ بلوچ تحریک کمزور پڑرہی ہے، دوسری جانب بلوچ تحریک قیادت کی سطح پر متنازعہ ہوتی جارہی تھی، لیکن استاد اسلم بلوچ کا خود کش حملے کیلئے سب سے پہلے اپنے جوانسال بیٹے کے چننے نے قیادت پر اعتماد کی بحالی میں بہت بڑا کردار ادا کیا اور حالیہ صورتحال کو لیکر وسعت، شدت اور اثر انگیزی میں بی ایل اے ترجمان جئیند بلوچ کے دعوے سچ ثابت ہوئے اور اسکی واضح برتری نظر آنے لگی۔ پانچ روز گذرنے کے بعد آزاد بلوچ اور ہائی کمان کے دعویدار حیربیارمری کی طرف سے دالبندین فدائین حملے سے لاتعلقی کا اظہار کرکے اس حملے کواستاد اسلم بلوچ کا ذاتی فعل قرار دیا گیا۔ اس کے فوراً بعد یعنی اگلے روز جئیند بلوچ نے آزاد بلوچ کے بیان کو شرمناک قرار دیکر تنظیم کے اکثریتی کمانڈروں کی طرف سے آزاد اور حیربیارمری کو بی ایل اے سے لاتعلق قرار دیکر اپنے سینئرکمانڈ کونسل اور آپریشنل کور کمیٹی کا اعلان کردیا۔ اس مسئلے میں بھی قریبی ذرائع اور سیاسی مبصرین کسی اور طرف ہی اشارہ کرتے نظر آتے ہیں۔



مبصرین کہتے ہیں کہ بی ایل اے کا موجودہ بحران راتوں رات پیدا نہیں ہوا تھا، بلکہ اسکی کڑیاں گذشتہ مسائل سے جڑی ہوئیں ہیں اور بہت سے معاملات پر اختلافات تنظیم کے اندر پنپ رہے تھے۔ بی ایل اے میں پہلے نواب خیربخش مری اور حیربیارمری کے بیچ پیدا ہونے والے بحران اور اسکے نتائج کے سامنے آنیکے بعد تنظیمی ساتھیوں کی اکثرت نے ادارہ جاتی طریقہ کار کی کمی محسوس کی اور ادارہ جاتی تنظیمی طریقہ کار پر زور دیا اور یو بی اے سے جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نقصانات اور دیگر آزادی پسند گروہوں سے اختلافات اور آپسی رسہ کشی کے تباہ کن نتائج کو مدنظر رکھ کر اپنے پالیسوں اور طریقہ کار پر نظرثانی کیلئے زور دیا اور انہی خطوط پرکام کرنا شروع کردیا۔ اُن ساتھیوں میں استاد اسلم بلوچ اور اسکے قریبی ساتھی پیش پیش تھے اور تنظیم کے اندر استاد اسلم اور انکے قریبی ساتھی بہت اثر رکھتے ہیں، وہ اعتماد کے حوالے سے بھی تنظیمی ساتھیوں کے اکثریت کیلیئے قابل قبول ہیں۔ لیکن حیربیار مری کسی بھی ایسے ساخت، فیصلے یا تنظیم کاری کے قائل نہیں تھے، جہاں تنظیمی معاملات مکمل طور پر انکے ہاتھ میں نہیں رہتے۔ اس وجہ سے بہت سے معاملات پر اختلافات نے سر اٹھانا شروع کیا۔ اسی دورانیئے میں بی ایس او کانسٹی ٹیوشنل بلاک اور سالویشن فرنٹ جیسے پارٹیوں کی حیربیار کی جانب سے حمایت اور حوصلہ افزائی پر بھی اختلافات سامنے آچُکے تھے۔ استاد اسلم بلوچ اور انکے دوست ان فیصلوں کے قائل نہیں تھے، مگر دوسری طرف حیربیارمری کو تبدیلی اور کوئی دوسراطریقہ کار قابل قبول نہیں تھا، حیربیارمری نتائج کی پرواہ کیئے بغیر اپنے پرانے سوچ کے تحت اپنے ہی پالیسیوں کو جاری رکھنا چاہتا تھا، تنظیمی طریقہ کار کے فقدان کا پہلے سے ہی تنظیم کو سامنا تھا۔ ادارہ جاتی فقدان کی وجہ سے تنظیم نواب خیربخش مری، زامران اور انکے قریبی ساتھیوں کی تقسیم اور یو بی اے جیسے بحران سے پہلے ہی دوچار ہوچکا تھا۔ حیربیارمری کیلئے کھل کر استاد اسلم اور اُنکے ساتھیوں کی مخالفت ممکن نہیں تھا، لیکن وہ اسلم بلوچ کی تنظیم میں اثرانگیزی اور گرفت کو بھی خود کیلئے خطرے کی گھنٹی سمجھتا تھا۔ اس لیئے حیربیار نے اس دوران اُستاد اسلم اور اسکے ساتھیوں کے خلاف جواز ڈھونڈنا شروع کیا، پہلے مرحلے میں اُس نے استاد اسلم کے قریبی ساتھیوں کو بلا جواز دباؤ میں لانے کی کوششیں کیئے، آہستہ آہستہ انکو بغیر وجوہ ظاھر کیئے اور بسا اوقات معمولی وجوہات بنا کر تنظیمی ذمہ داریاں انکے ہاتھوں سے لیکر انہیں بند گلی میں دھکیلنے لگا، تنظیم کے اندر ذمہ دار حلقے اور مبصرین اس پورے تسلسل کو اسلم بلوچ کے گِرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کرنے سے تعبیر کرتے ہیں تاکہ بغیر کسی مسئلے کے اسلم بلوچ کو بے اثر کیا جاسکتا۔


حیربیارمری کیلئے کھل کر استاد اسلم اور اُنکے ساتھیوں کی مخالفت ممکن نہیں تھا، لیکن وہ اسلم بلوچ کی تنظیم میں اثرانگیزی اور گرفت کو بھی خود کیلئے خطرے کی گھنٹی سمجھتا تھا۔ اس لیئے حیربیار نے اس دوران اُستاد اسلم اور اسکے ساتھیوں کے خلاف جواز ڈھونڈنا شروع کیا، پہلے مرحلے میں اُس نے استاد اسلم کے قریبی ساتھیوں کو بلا جواز دباؤ میں لانے کی کوششیں کیئے، آہستہ آہستہ انکو بغیر وجوہ ظاہر کیئے اور بسا اوقات معمولی وجوہات بنا کر تنظیمی ذمہ داریاں انکے 
ہاتھوں سے لیکر انہیں بند گلی میں دھکیلنے لگا


اس کے ساتھ ہی، تنظیم میں کچھ نااہل اور کچھ باہر کے غیرمتعلقہ افراد کو ایک ساتھ کرکے تنظیم کے موجودہ طریقہ کار میں مداخلت شروع کی گئی، ان ساتھیوں پر مزید دباؤ بڑھانے کیلئے وسائل کی روک تھام شروع کی گئی اور ساتھیوں سے رابطے منقطع کیئے گئے، یہاں تک کہا جاتا ہے کہ استاد اسلم اور کامریڈ بشیر زیب کو کہا گیا کہ آپ دونوں عسکری جہد کے تقاضوں سے نابلد شبیر بلوچ اور جمال ناصر کے پابند ہیں اور کسی بھی کام کیلیئے جمال ناصر اور شبیر سے رابطہ کریں، ایسے حالات بنائے گئے جن کی وجہ سے اشتعال انگیزی جنم لے اور کوئی مشتعل ہوکر کچھ غلط کرے۔ ایسے حالات میں مزید دباؤ کیلیئے مختلف حربے استعمال ہوتے رہے۔



اسی دوران طبعیت کی ناسازی اور دوران علاج اُستاد اسلم کے خلاف ایسے اخباری بیان کا سامنے آنا جس کا تصور بھی ایک عام سیاسی کارکن کیلئے ممکن نہیں، جس میں استاد اسلم کے مقام وموجودگی کی نشاندہی کے ساتھ کسی دوسرے ملک سے تعلقات کے اشارے دیئے گئے، وہ بھی بی ایل اے کے ترجمان آزاد بلوچ کے نام سے، سیاسی مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ پچھلے تمام عرصے میں پاکستان بھرپور کوششیں کرتا رہا کہ کسی بھی طرح بلوچ قومی تحریک کو ہندوستان،افغانستان یا اسرائیل سے جوڑ کر پراکسی قرار دے سکے لیکن پاکستان اپنے اس کوشش میں مکمل ناکام رہا، ایسے حالات میں بی ایل اے کے ترجمان آزاد کے نام سے اسطرح کے بیان کا سامنے آنا ناقابل یقین عمل تھا۔ عام خیال یہ ہے کہ تمام رابطوں کی موجودگی اور تنظیم کے ہوتے ہوئے، کیا وہاں صرف علاج کیلئے اجازت نہ لینے کی جرم پر استاد اسلم کو جوابداہ نہیں بنایا جاسکتا تھا؟ اس بات کو بھی سمجھنا ذرا مشکل ہے کہ دوران علاج اور غیر موجودگی میں استاد اسلم کے مقام و موجودگی کی نشاندہی کیوں کی گئی؟ کیا یہ عمل کسی بھی طرح اصول پرستی یا کسی بھی طرح کے ڈسپلن کے زمرے میں آتا ہے؟ اگر اس بات پر چند لمحات کیلئے یقین بھی کیا جائے کہ یہ بیان موقع کی تلاش نہیں بلکہ خاص ڈسپلن کے بنیاد پر جاری ہوا تھا، پھر کیا یہ سوچنے کی بات نہیں کہ جس سطح کی بھی ڈسپلن کی خلاف ورزی ہوئی ہو، شاید وہ اتنا بڑا گناہ نہیں ہوتا لیکن تنظیم کے کسی سینئر کمانڈر کا جگہ، مقام اور صحت کی صورتحال کا میڈیا میں یوں اعلان کرنا، خود ناقابلِ معافی حد تک ڈسپلن کی ورزی نہیں تھی؟ بلکہ یہ پاکستان کی دیرینہ موقف کی رسمی طور پر تائید ہے۔



اس عمل کے پس پردہ مقاصد پر رائے زنی کافی مشکل کام ہے قریبی ذرائع کے مطابق یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس بیان سے کوئی ایک ہفتہ قبل شعبہ نشرواشاعت کے انچارج و ذمہ داران کو کوئی وجہ بتائے بغیر ان سے تنظیم کے تمام ویب سائٹس کے پاسورڈزمانگے گئے اور اسکیلیئے حیربیارمری نے از خود ایک ذمہ دار پر دباؤ ڈالا اور یہ یقین دہانی کرائی کہ میں ویب سائٹس چیک کرکے پاسورڈز واپس کردوں گا لیکن پھر پاسورڈ تبدیل کرکے استاد اسلم کے خلاف بیان جاری کیا گیا اور شعبہ نشرواشاعت کو نظرانداز کرکے ویب سائٹس پر قبضہ کرلیا گیا، جسکے ردعمل میں بی ایل اے کے ساتھیوں نے اس مخبرانہ اخباری بیان، جس میں استاد اسلم کے مقام و موجودگی کی نشاندہی کی گئی تھی سے لاتعلقی اور ویب سائٹس کے ہیک ہونے کا بیان جاری کیا گیا تھا۔ اول یہ بیان رسمی طریقہ کاروں سے ہٹ کر شعبہ نشر واشاعت کے بغیر جاری ہوا تھا اور دوسری طرف آزاد بلوچ سے جاری اس بیان کا بیانیہ مکمل طور پر پاکستانی بیانیئے سے ہم آہنگ تھا، جس سے فوری ہیک ہونے کا تاثر ابھرا۔



مبصرین کی رائے ہے کہ گذشتہ واقعات کے تسلسل، استاد اسلم بلوچ سے رابطہ کیئے بغیر اور بجائے اسے آمنے سامنے بِٹھا کر کسی بھی تنظیمی طریقہ کار کے مطابق اظہارِ وجوہ کا موقع دیا جاتا، مسئلے کو اخباروں کی زینت بنانا یہ تمام حالات و واقعات اس جانب اشارہ کررہی ہیں کہ اسلم بلوچ کا علاج یہاں مسئلہ نہیں تھا بلکہ یہ وہ موقع تھا جس کا حیربیار مری کو تلاش تھا۔ ان عوامل کو مدنظر رکھ کر اگر دیکھا جائے تو پھر یہ بات سمجھنے میں چنداں دشواری پیش نہیں آتی کہ اگر اسلم بلوچ علاج نہیں بھی کرواتے تو پھرجلد یا بدیر ڈسپلن کے نام پر کوئی اور مسئلہ اچھال کر اسلم بلوچ کو اسی طرح معطل کیا ہی جاتا اور بات اسی طرح میڈیا کی زینت بنائی جاتی۔



جس طرح یہ مسئلہ بلوچ سیاست کے کچھ شرمناک واقعات میں سے ایک ہے، اس مسئلے کو حل کرنے کی نیت اور طریقہ کار بھی اچھے روایات قائم کرنے میں ناکام رہی۔ اس مسئلے میں فریق ہونے کے باوجود حیربیار مری اس مسئلے کا حل بھی حسبِ روایات اپنے شرائط کو تسلیم کرانے سے منسوب کراچکا تھا اور کوئی بھی بات چیت شرائط کو من و عن تسلیم کرنے سے ہی مشروط تھا۔ اس معاملے میں جو ثالث تھے انہوں نے بھی خود کو بے بس پایا۔ انہی ثالثین میں سے ایک میر عبدالنبی بنگلزئی بھی تھے جنہوں نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں اس بات کا انکشاف کیا کہ اسے استاد اسلم بلوچ نے اس مسئلے کو حل کرنے کا مکمل اختیار دے دیا تھا، لیکن بارہا کوششوں کے باوجود حیربیار مری نے ان سے رابطہ نہیں کیا۔



بلوچ سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین کیلئے یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہے اور اس بابت یہ جائز سوال اٹھایا جارہا ہے کہ تنظیم کو اتنے بڑے بحران میں اصولوں کے نام پر مبتلا کیا گیا، لیکن وہ اصول کیا ہیں؟ استاد اسلم بلوچ جیسے ایک کمانڈر جو پورے تنظیم کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے، کو یوں اصولوں کی خلاف ورزی کے نام پر معطل کیا گیا، تنظیمی اکثریت اور ہمدردیوں کو یوں اصولوں کے نام پر پسِ پشت ڈالا گیا لیکن اب تک یہ واضح نہیں کیا گیا کہ اسلم بلوچ نے کس اصول کی خلاف ورزی کی تھی؟ یہ اصول یا نظم و ضبط کے کس شِق کی خلاف ورزی تھی؟ اگر اصول تحریری نہیں ہیں، زبانی ہیں تو پھر اس بات کی ابتک کوئی وضاحت کیوں سامنے نہیں آئی ہے کہ یہ اصول تنظیم کے کس ادارے نے، کب اور کتنے کمانڈروں کی موجودگی میں تشکیل دی تھی اور اسکے علاوہ تنظیم کے اہم اصول کیا ہیں؟ اگر میڈیا میں اتنے حساس مسئلے پیش کیئے جاسکتے ہیں، تو پھر اس معاملے کو سلجھانے کیلئے، ان اصولوں یا کم از کم جس اصول کی خلاف ورزی ہوئی تھی، اسے سامنے لانے میں کوئی عار نہیں۔ اگر ایسی کوئی ٹھوس چیز پیش نہیں کی جاسکتی، پھر استاد اسلم بلوچ، کامریڈ بشیر زیب اور انکے ساتھیوں کے اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ یہاں اصول سے مراد حیربیار مری کا مزاج اور منشاء ہے، کوئی متفقہ اور منظور کردہ طے شدہ منشور یا نظم و ضبط نہیں۔ پھر اس طرح اصول و ڈسپلن کے خوشنما نعرے کے پیچھے کل مہران مری کو نشانہ بنایا گیا، آج اسلم بلوچ کو نشانہ بنایا جارہاہے پھر آنے والے کل کو کسی کو بھی انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا جاسکے گا۔



مبصرین اپنی رائے میں اس سنجیدہ مسئلے کی جانب بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر یہ مسئلہ محض اندرونی تھا، پھر بھی جلد یا بدیر نظر انداز کیا جاسکتا ہے لیکن آزاد بلوچ نے استاد اسلم بلوچ کے خلاف جو بیان جاری کیا، اس میں ہندوستان کا ذکر کیوں ضروری تھا؟ کیا حیربیار مری یا اسکے قریبی ساتھی پاکستان کے پروپگنڈے یا خطے کی صورتحال سے اتنے ناواقف تھے کہ انکو احساس نہیں تھا کہ ہندوستان کا نام لیکر وہ پاکستان کے بیانیئے کی تائید کررہے ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ پھر یہ اس جانب اشارہ ہے کہ یہ کسی غیر تحریکی قوت کو خوش کرنے کیلئے، بھارت کو بلیک میل کرنے کیلئے کیا گیا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ حیربیار مری غیر تحریکی قوتوں کی وجہ سے تحریک کو بڑے مصائب میں مبتلاء کرنے کا موجب بنے ہیں۔ یک طرفہ جنگ بندی کے فیصلے سے خود کو تحریک کا مالکِ کل ظاہر کرنے کی سعی ہو، بی این ایف سے عالمی نمائندگی کا جعلی بیان جاری کروانا ہو، یو بی اے مسئلہ یا چارٹر پر سب کو زبردستی متفق کرانے کی کوشش کرکے خود کو اختیار اعلیٰ ظاہر کرنا چاہنا ہو اور اب بی ایل اے کے نام سے بھارت کو رسمی طور پر بلوچ تحریک میں ملوث قرار دینے کی کوشش۔ ان سب عوامل میں تین چیزیں مشترکہ نظر آئیں گی اول یہ کہ سب سے مراد حیربیار کو طاقتور اور سب سے زیادہ با اختیار ظاھر کرنے کی کوشش تھی، دوئم سب عوامل میں تحریک کے باقی اسٹیک ہولڈر بائی پاس ہیں اور جو بھی کچھڑی پک رہی ہے یا سودا بازی ہورہی ہے وہ حیربیار مری اور کسی غیر تحریکی قوت کے بیچ ہوئی ہے اور تیسری یہ کہ سب کا انجام تحریک میں انتشار، ٹوٹ پھوٹ اور مایوسی پر منتج ہوا ہے۔


 آج سے قریباً چھ ماہ قبل معتبر جریدے فنانشل ٹائمز نے یہ خبر بریک کی تھی کہ چین ’’کچھ قبائلی علیحدگی پسند بلوچوں کے ساتھ مذاکرات کررہی ہے۔’’مبصرین اب چینی انجنیئروں پر حملے کی تردید اور قبائلی علیحدگی پسند کا چین سے مذاکرات کو جڑتے ہیں اور آزاد بلوچ کے بیان کو چین کو دی گئی یقین دہانیوں کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں


یہی مسئلہ مزید سنجیدہ صورتحال اختیار کرتے ہوئے خدشات تب جنم دیتا ہے، جب گیارہ اگست کو چینی انجنیئروں پر خود کش حملہ ہوتا ہے۔ اس حملے کو پوری بلوچ قوم میں ستائش کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن حیربیار مری چپ رہنے کے بجائے آزاد بلوچ کے نام سے یہ بیان دیتے ہیں کہ بی ایل اے کا اس خود کش حملے سے کوئی تعلق نہیں اور یہ استاد اسلم بلوچ کا ذاتی عمل تھا۔ دو ایسے وجوہات ہیں جس کی وجہ سے آزاد بلوچ کے اس بیان کو غیر معمولی سمجھا جاسکتا ہے اور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اول یہ کہ بی ایل اے جئیند بلوچ کے نام سے تقریباً روزانہ کے بنیاد حملے کرتی اور قبول کرتی آرہی ہے لیکن آزاد بلوچ کو صرف چینی انجنیئروں پر خود کش حملے کی تردید کرنی پڑی کے اسکا بی ایل اے سے تعلق نہیں باقی حملوں کی نہیں دوسری اہم بات یہ کہ آج سے قریباً چھ ماہ قبل معتبر جریدے فنانشل ٹائمز نے یہ خبر بریک کی تھی کہ چین ’’کچھ قبائلی علیحدگی پسند بلوچوں کے ساتھ مذاکرات کررہی ہے۔’’مبصرین اب چینی انجنیئروں پر حملے کی تردید اور قبائلی علیحدگی پسند کا چین سے مذاکرات کو جڑتے ہیں اور آزاد بلوچ کے بیان کو چین کو دی گئی یقین دہانیوں کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔



استاد اسلم بلوچ اور کامریڈ بشیر زیب بلوچ کو معطل کرنے کے بعد سوشل میڈیا سمیت مختلف ذرائع سے استاد اسلم اور انکے ساتھیوں پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ در اصل تنظیم توڑنا چاہتے تھے، لیکن انہوں نے بی ایل اے کو توڑنے کے بجائے بی ایل اے کے نام سے ہی اپنا کام جاری رکھا اور مبصرین کے مطابق حیران کن حد تک انکی ایک سالہ کارکردگی بی ایل اے کی گذشتہ کارکردگی سے بھی بہتر رہی، اس دوران بی ایل اے نے جئیند بلوچ کے نام سے بلوچستان کے تقریباً ہر کونے میں کامیاب حملے کیئے، جن میں بڑے پیمانے کے حملے بھی شامل تھے، جن میں سب سے قابلِ ذکر چینی انجنیئروں پر استاد اسلم بلوچ کے اپنے بیٹے ریحان بلوچ کا فدائی حملہ تھا۔ اسکے علاوہ اس ایک سال کے دوران استاد اسلم کے ساتھیوں نے یو بی اے سے جنگ بندی کرتے ہوئے، جنگ کا مکمل خاتمہ کردیا، نقصانات کا ازالے کے ساتھ آزادی پسند ساتھیوں کو باہم شیر وشکر کردیا، بی ایل ایف سے اشتراک عمل کرکے دیگر آزادی پسند تنظیموں سے اعتماد بحال کردیا۔ ایک سال سے کم عرصے میں نا صرف اردو بلکہ انگریزی میڈیا میں ایک نیا معتبر و متحرک میڈیا ادارہ تشکیل دیکر بلوچستان کی آواز دنیا تک پہنچانے میں قابلِ ذکر حد تک بہترین کام کیا اور سب سے بڑھ کر جو کام بی ایل اے گذشتہ دو دہائیوں سے نہیں کرپائی وہ انہوں نے گذشتہ ایک سال کے اندر کرکے دِکھایا یعنی تنظیم کے اندر باقاعدہ سپریم کمانڈ کونسل اور آپریشنل کور کمانڈ کے نام سے حقیقی ادارے تشکیل دے دیئے۔ یہ عوامل اس امر کی غمازی کرتیں ہیں کہ حیربیار مری تنظیم کے اندر اداروں کے قیام اور صلاحیتوں کیسامنے رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔



اصول پرستی، حق گوئی اور حقیقت پسندی کے خوشنما نعروں کے برعکس، ہر عمل اور فیصلے کا نتیجہ اسکا سب سے بڑا وکیل ہوتا ہے، آج سے دو دہائیوں سے زائد عرصے پہلے خیربخش مری نے حیربیار کے ہاتھ میں بلوچوں کی واحد نمائندہ مزاحمتی تنظیم کی مکمل باگ ڈور تھمائی اور اسے بے پناہ طاقت و اختیار کا مالک بنا دیا، اس طویل عرصے کے بعد آج حیربیار اسکو کتنا آگے بڑھانے میں کامیاب ہوئے یا کتنا گھٹاتے رہے، اس پر اب مزید تجریئے کی ضرورت نہیں، آج وہ جہاں کھڑے ہیں، وہ اب تک اپنے غلط فیصلوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے، تحریک کے تمام اسٹیک ہولڈروں کو جن کی بہت جاندار کرداریں ہیں، انہیں نمک حرام و سازشی قرار دیکر خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ اور اس سے بھی دلچسپ امر یہ ہے کہ وہ دوسرے آزادی پسندوں کے ساتھ روا رکھے اس ہتک آمیزانہ اور متکبرانہ رویئے کے باوجود ان سے اتحاد اپنے شرائط پر چاہتے ہیں۔



کوئی بھی عمل ہو، جب تک ہم اسکے مستقبل بعید کے بارے میں درست پیشن گوئی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھ سکیں تب تک وہ سائنس کے کسوٹی پر پورا نہیں اترتا، اور درست پیشن گوئی کی صلاحیت بار بار کے نتائج اور ان نتائج کے باہم مربوط رشتے اور مماثلت کو درست پرکھ کر ہی کی جاسکتی ہے۔ اب ان فیصلوں اور انکے نتائج، اور حقائق کے اس بوچھاڑ میں سیاسیات کا ایک طالبعلم بلوچ قومی تحریک کے مستقبل کی کیسی پیشن گوئی کرسکتا ہے، وہ اسکے صلاحیتوں پر منحصر ہے، لیکن کوئی بھی غیر جانبدار مبصر و تجزیہ نگار ایسے فیصلوں و اعمال کے نتائج میں ایک تابناک مستقبل کی پیشن گوئی نہیں کرے گا، اگر مستقبل روشن نظر نہیں آرہی تو اسکا مطلب ہے کہ موجودہ فیصلوں و اعمال کے نتائج کا باہم ربط مثبت نہیں اور اگر فیصلے مثبت نہیں تو فیصلے کرنے والوں کو پرکھنا چاہیئے۔
بشکریہ  ـــ    دی بلوچستان پوسٹ