اتوار، 24 جولائی، 2016

ھیٹرو جینیٹی اور بلوچ شناخت



ھیٹرو جینیٹی اور بلوچ شناخت
تحریر: ڈاکٹر تاج محمد بری سیگ ترجمہ:ڈاکٹر دین محمد بزدار
(یہ مقالہ ڈاکٹر تاج محمد بری سیگ نے تحریر کی جو بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ بلوچی کے میگزین ’’ہنکین‘‘ میں شائع ہوئی اس مقالہ کی افادیت کے پیش نظر اس کا اردو ترجمہ قارئین کیلئے پیش ہے)
خلاصہ۔۔۔ یک نسلی اور کثیر النسلی اور بلوچ شناخت کامسئلہ غیر بلوچوں کے مابین ایک سوال رہا ہے اور لفظ بلوچ کی تشریح ابتداء سے تاریخ میں غلط کی گئی اس مقالہ کے لکھنے کا مقصد لفظ بلوچ کی ساخت اور معنی اس کی ابتداء اور پس منظر پر بحث کرنا ہے بلوچ سر زمین کی جغرافیہ‘ بلوچ قبائل کی ساخت‘ اجزاء‘ گلوبل لائزیشن اور بلوچ شناخت پر بات کرنا ہے اس کے علاوہ بلوچوں کا اپنے ہمسایہ استبدادی قوتوں کے برخلاف عرب حکمرانوں سے مصالحت اور بلوچ ثقافتی پہچان پر بھی بات ہوگی۔
تعارف۔۔۔ جیسا کہ ایک کہاوت ہے ’’قومیں اس وقت بنتی ہیں جب تنوع (Diversity) کو قبول کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح جیسے کہ برادریاں اس وقت بنتی ہیں جب افراد آزاد ہوں پھر بھی ایک دوسرے کیلئے اور مل کر کام کرتے ہیں‘‘ بلوچ سماج کی کثرتی ساخت کو سمجھنے کیلئے اس مقالے کی ابتداء شناخت کے بارے میں بلوچ سوچ کے محتاط تجزیئے سے کی گئی جس میں قومی شناخت کی تصوراتی نقطہ نظر کو جو یکسانیت پر بہت زیادہ زور دیتا ہے رد کیا گیا اس نقطہ نظر سے شناخت سے مراد لازمی اجزاء کا مشترک ہونا ہے جو لوگوں کی خصوصیات اور پہچان کو بیان کرتی ہیں مزید یہ کہ شناخت اجتماعی مطالبات‘ مفادات اور مقاصد کے حصول کی خاطر مشترکہ جدوجہد کرنے کا نام ہے اس کے ساتھ شناخت اختلافات کی اہمیت کو بھی تسلیم کرتی ہے قومی شناخت میں تفاوت کو معمولی کہنے سے کثیر النسلی اور کثرتی اجزاء کو رد نہیں کیا جا سکتا یہ ایک تصوراتی نقطہ نظر نہیں بلکہ اس کی جڑیں انسانی سماج کی چھان بین سے ملتی ہیں جس میں کثیر النسلی اور شناخت کے مشترک اجزاء مل کر بلوچ کے مثبت مستقبل کی تعمیر کے طاقتور عناصر بناتی ہیں فی الواقع تفریق اور مشترکہ خصوصیات میں مصالحت کی مشکل مل کر بلوچ شناخت کی تعریف کا لازمی حصہ بناتی ہیں حقیقت میں بلوچ کا اپنے شناخت کے بارے اس تصوراتی خیال کی جانب یہ رجحان کہ اس کی شناخت پہلے سے مکمل ہو چکی ہے نہ کہ ابھی تک اسے حاصل کرنا ہے اس کی سوچ میں ایک اور کمی ہے اسی لئے ان حالات کے بارے بہت کم سوچا جاتا ہے جو بلوچ قومی شناخت کے بنانے اور بگاڑنے میں حصہ لیتی ہیں یہ یقین کہ اتحاد کو نہیں روکا جا سکتا پہلے سے طے شدہ فیصلہ ہے جو اس تصوراتی سوچ کی پیداوار ہے ایسا ہی ایک اور خطرناک رجحان کچھ بلوچ قوم پرستوں کی یہ سوچ ہے کہ بلوچ اتحاد اور انتشار کی قوتیں علیحدہ اور ایک دوسرے سے آزاد ہیں وہ ان قوتوں کے مابین منطقی (Dialectical) تعلق کو نظر انداز کرتے ہیں اس لئے ہمیں بار بار کہا جاتا ہے کہ کچھ عناصر اتحاد کے ہیں (جیسے زبان‘ مشترکہ ثقافت‘ جغرافیہ‘ مشترکہ تاریخ) اسی طرح کچھ عناصر تقسیم کرنے کے ہیں (جیسے فرقہ روایت‘ قبائلیت‘ مقامیت اور علاقائیت) اگر ہم اس کی بجائے ان قوتوں کی منفیعت کو منطقی تعلق کے لحاظ سے دیکھیں تو بلوچ شناخت کی تعریف میں اتحاد اور نفاق کی قوتوں کے عمل کا بیک وقت اور باقاعدہ تجزیہ شامل ہے یہی نقطہ اس دلیل کو ممکن بناتا ہے کہ بلوچ ایک نسل نہ ہونے کے باوجود ایک ہو سکتے ہیں اور اسی طرح یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ان میں تضاد ہونے کے باوجود اختلاف نہیں ہے۔
بلوچ ہونے کا سوچ (The Sense of Belonging)۔۔۔ بلوچستان کی جغرافیہ اور جغرافیہ سے متعلق سیاست کی مخصوصیت نے بلوچ کردار اور دنیا کے بارے ان کی سوچ‘ ثقافتی عناصر اور روایات کی جس طرح وہ تجدید اور تشریح کرتے رہے تھے اسے متاثر کیا اور نیا رخ دیا بلوچ داستانیں اور یاداشتیں نسلوں اور صدیوں تک زندہ رہتی ہیں جو ان کی اجتماعی تعریف (Defination) کیلئے مواد اور سیاق و سباق مہیا کرتی ہیں اور دوسروں کے سامنے ان کی اجتماعی شناخت کو یقینی بناتی ہیں سطح مرتفع ایران کے جنوب مشرق میں 600000sqKM پر پھیلی تنوع اور سماجی رنگارنگی سے بھرپور بلوچستان‘ فرانس (551500sqKM) سے بڑا ہے بلوچستان ڈھلوان اور ریگستان کی سخت سر زمین ہے جسے کئی پہاڑی سلسلوں کی زنجیریں کاٹتی ہیں اتنے وسیع سر زمین کی آب ہوا میں بھی قدرتی طور پر غیر معمولی فرق ہوتا ہے شمال اور اندرون بلوچستان کی بلندیوں پر سردیوں میں اکثر درجہ حرات 40تک گر جاتی ہے جبکہ موسم گرما معتدل رہتی ہے ساحلی علاقہ بہت گرم ہے جہاں گرمیوں میں درجہ حرات 100۔130F تک چلی جاتی ہے جبکہ سردیوں کا موسم اچھا ہوتا ہے بحرہند سے آنے والی جنوب مغربی مون سون کے راستے میں ہونے کے باوجود بلوچستان میں شاہد ہی 5۔10انچ سے زیادہ سالانہ بارش ہوتی ہے اس کی وجہ ساحل مکران کے ساحلی پہاڑوں کا کم اونچا ہونا ہے رہن سہن کے طریقے (Ecological Factors)زرعی اراضیات اور چراگاہوں کے ٹکڑوں میں تقسیم کی ذمہ داری ہیں جس کی وجہ سے روایتی قبائلی معیشت اور اس کے مطابق سماجی سیاسی ادارے وجود میں آ گئے۔
ہندی اور سومیری (mesopotinian) قدیم تہذیبوں کے سنگم میں ہونے کی بناء پر جغرافیہ نے بلوچستان کو ایک بے مثال حیثیت دی کچھ قدیم ترین تہذیبیں بلوچستان میں پیدا ہوئیں مہرگڑھ اب تک کی دریافت ہونے والی قدیم ترین تہذیب‘ مشرقی بلوچستان میں ہے کیچ تہذیب 4000ق م مرکزی مکران میں اور جلاشہر (City Durned) 3000ق م مغربی بلوچستان کے صدر مقام زاہدان کے نزدیک ہے اس طرح وقت کے ساتھ ساتھ مختلف مذاہب‘ زبان اور ثقافتی آبادیاں بلوچستان میں ساتھ ساتھ رہتی رہیں اسلامی دور میں بھی ہم دیکھتے ہیں مختلف اسلامی فرقوں (سنی‘ ذگری‘ شیعہ) کے ماننے والے گروہ ساتھ ساتھ پھل پھول رہے ہیں قبائلی اور نیم قبائلی سماج کے درمیان مثالی تعلقات جسے روایتی ثقافتی وراثت کی رنگینی نے مزید زرخیز کر دیا ہے بلوچ جس کی آبادی شاید ڈیڑھ کروڑ ہے ریاستوں میں تقسیم جنوب مغربی ایشیاء کی سب سے بڑی اقوام میں سے ایک ہے بلوچوں کی ابتداء کا سوال کہ بلوچ کون ہیں کہاں سے آئے کافی عرصہ سے معمہ بنا رہا چند لفظوں میں اس کا جواب قطعی طور پر دیا جا سکتا ہے مثلاً بلوچ کئی ثقافتی اور نسلی پرتوں کے مواد کا نتیجہ ہے جس پر ہزاروں سال کی اندرونی نقل مکانی و بیرونی ہجرت‘ ثقافتی درآمدگی اور جدت کی تہہ جم گئی بلوچستان جو قدیم تہذیبوں کا گہوارہ ہے نے پچھلے چند ہزار سال سے کئی نسلیں‘ لوگ‘ مذاہب اور ثقافتیں دیکھیں مستند تاریخ کی ابتداء سے تین قدیم عالمی تہذیبیں‘ دراویدین‘ سامی اور آرئین بلوچستان کی زمین پر ملیں آپسی تعلقات استوار کئے اور ایک دوسرے کو متاثر کیا کم زیادہ حد تک ان تہذیبوں نے بلوچستان پر اپنے نشان چھوڑے۔
بلوچ اصطلاح کے صحیح معنی اور ابتداء کسی حد تک دھندلا ہیں یہ نام ہو سکتا ہے دنیا کے اور قوموں کی طرح جغرافیہ کی بناء پر پڑا ہوا بلوچ لفظ کی ساخت اور معنی (Etymology) کی سوچ جس کی تائید کچھ سکالرز نے کی یہ ہے کہ بلوچ نام شاید گدوروزیا (Gedrozia) یا گودروزیا (Godrozia) سے لی گئی ہو جو سکندر اعظم (323۔356BC) کے وقت بلوچ ملک کا نام تھا گدروزیا کی اصطلاح‘‘ia’’لاحقہ کے ساتھ جیسے کہ پرشیا (Pers۔ia) انڈیا (ind۔ia) کردیا(kurdia) وغیرہ لگتا ہے یونانی(Greek) یا لاطینی (latin)بناوٹ ہے گدروزیا (Gedrozia) طلوع ہوتے سورج کی زمین ’’میڈین‘‘ (Median) سلطنت کا سب سے مشرقی صوبہ(Strapy) تھا شاید اس کا معین مقام اس کے نام گدروز‘ یا گدروزیا کا س سے بنیادی ماخذ تھا یہ خیال رہے کہ سطح مرتفع ایران میں دو اور ملک خوران (khoran) اور نیمروز (Nimroz) دونوں نے اپنے نام اسی ماخذ ’’سورج‘‘ سے لئے انہیں طلوع ہوتی سورج کی زمین کہتے ہیں استان لاحقہ کی طرح روز‘ روچ بھی ایرانی زبان میں کئی ’’جگہوں اور فیملی نام‘‘ کی بناوٹ کا ایک لاحقہ ہے۔
کردش سکالر محمد امین سراجی نے کرد اصطلاح کی ساخت اور معنی پر تحقیق کی اسے یقین ہے کہ بلوچ اصطلاح باروچ (Baroch) یا باروز (Baroz) کی بگڑی شکل ہے اس اصطلاح کے معنی اور ابتداء پر دلیل دیتے ہوئے سراجی کہتا ہے باروز کے کردی اور بلوچی میں یکساں معنی ہیں جس کا مطلب ہے طلوع ہوتی سورج کی زمین BA۔Roch) یا سورج کی طرف (سراجی کی رائے ہے کہ میڈین ایمپائر کے سب سے مشرقی کونے میں ہونے کی بنا اس ملک نے اپنا نام ’’باروچ‘‘ یا ’’باروز‘‘ شاید میڈین دور (میڈین سلطنت BC 550۔630 تک حاوی تھی) میں لی ہو گی ان کے مطابق مشرقی کردستان میں کئی قبائل رہتے ہیں جنہیں باروزی (Barozi) کہتے ہیں (علاقے کے مشرقی جانب آباد ہونے کی بناء پر) قدمی میزوپوٹے مین عبارتوں کی وجہ سے کچھ سکالر کا خیال ہے کہ بلوچ لفظ میلوکھا (Melukhkha) میلوچا(Mlucha) یا ملیچا (Mleccha) کی بگڑی شکل ہے جو جدید مشرقی مکران کا تیسری اور دوسری صدی ق میں نام تھا۔
ساخت اور معنی کے لحاظ سے دیکھیں تو بہت سے ملکی اور علاقائی نام چار بنیادی سمتوں) شمال‘ جنوب مغرب اور مشرق) سے لی گئی ہیں مثلاً انگریزی لفظ جاپان‘ جاپانی اپنے ملک کیلئے جاپانی بولتے ہوئے استعمال نہیں کرتے یہ ایک بیرونی نام (Exonym) ہے جاپان کیلئے جاپانی نام نپن (nippon) اورنہون (Nihon) ہیں نپن اور نہون دونوں کے معنی ’’سورج کی ابتداء‘‘ کے ہیں یعنی وہاں جہاں سے سورج کی ابتداء ہوتی ہے اور اس کا عام طور ترجمہ ’’طلوع ہوتی سورج کی زمین‘‘ کے کرتے ہیں یہ نام چین کی سوئی شاہی خاندان کے ساتھ جاپان شاہوں کے خط و کتابت سے آیا جو جاپان کو چین کے لحاظ سے مشرقی جانب ظاہر کرتا ہے لفظ بلوچستان کی نشان دہی بلوچی اندرونی نام (Endonym) ہونے کی بناء زیادہ صحیح اور یقین سے کی جا سکتی ہے اس اصطلاح کے دو حصے بلوچ اورستان ہیں لفظ کا آخری حصہ ستان جگہ کیلئے ہندی اور ایرانی لاحقہ ہے اور علاقے کے کئی زبانوں میں یہ نمایاں ہے بلوچستان نام کے معنی صاف طور پر ’’بلوچ زمین‘‘ کے ہیں جو اس ملک کی بلوچوں سے موسوم کر کے اپنے میں قومی تعبیر کی مفہوم رکھتی ہے اس موضوع پر سویت سکالر گنگووسکی اس نام کی ابتداء کو ’’بلوچ فیوڈل قومیت کی تعمیر‘‘ اور بارہویں سے پندرہویں صدی کے درمیان بلوچوں کا اپنے نام (بلوچ) کے ساتھ جو آج تک چلا آ رہا ہے اس ملک میں پھیلنے کا سبب قرار دیتے ہیں۔
بلوچ دو بڑے گروپوں میں تقسیم ہو سکتے ہیں ان میں سے بڑی اور زیاسہ پھیلی ہوئی بلوچی یا اس کا کوئی لہجہ بولتے ہیں یہ گروپ زیادہ پورا اترنے والے بلوچ ہونے کی نمائندگی کرتے ہیں دوسرے گروپ میں وہ بلوچ ہیں جو بلوچی نہیں بولتے ان میں سندھ اور پنجاب اور مشرقی بلوچستان کے براہوئی بلوچ شامل ہیں جو بالترتیب سندھی سرائیکی اور بولتے ہیں اس کے باوجود کہ دوسرا گروپ لسانی لحاظ سے مختلف ہے لیکن وہ بلوچ ہونے پر یقین رکھتے ہیں اور اس یقین پر ان کے ہمسایہ بلوچی بولنے والے بھی اعتراض نہیں کرتے مزید یہ کہ کئی نمایاں بلوچ لیڈر اسی گروپ سے آئے ہیں اس لئے زبان بلوچوں کے مذہبی او رثقافتی اتحاد میں کبھی رکاوٹ نہین رہا سٹرک‘ مواصلات اور پرنٹ میڈیا سے پہلے بھی ’’دودا‘‘ اور ’’شاہ مریدوحانی‘‘ کی کہانیاں بلوچستان کے طول و عرض میں مقبول تھیں۔
کثیر النسل مجموعہ ہونے کے باوجود بعض حالات میں بلوچ روایات کی تصدیق شدہ اور قبائل میں محفوظ ایک نسب ہونے کو بھی مانتے ہیں کچھ سکالرز نے بلوچ کے لئے سامی نسب ہونے کا دعویٰ کیا ایک ایسا دعویٰ جسے بلوچ نسب (Genealogy) اور روایاتی پشت پناہی کے علاوہ بلوچ لکھاریوں میں بڑی پذیرائی حاصل ہے بے شک یہ رائے حقائق (یہ بتانا ضروری ہے کہ انہیں ثابت کرنا بہت مشکل ہے) سے مطابقت نہ رکھتا ہو وہ سوچ جو گروپ کے افراد عالمی طور پر رکھتے ہیں کی ایک اہمیت ہوتی ہے اس لحاظ سے کردش نیشنلزم ایک اچھی نظیر پیش کرتی ہے یہ حقیقت ہے بہت سے مشترکہ نسلی عناصر نے کرد قوم کے بنانے میں حصہ لیا دوسرے عناصر بھی ہیں جو کردوں کو داخلی طور پ تقسیم کرتی ہیں جبکہ وہ زبانیں جنہیں کردش کہا جاتا ہے‘ فارسی‘ ترکی اور عربی کی طرح ایک نہیں یہ آپس میں سمجھ نہ آ سکنے والی زبانیں ہیں جغرافیائی لحاظ سے ’’کرمنجھی‘‘ اور’’سورانی‘‘ بولنے والے علاقوں کی تقسیم شیعہ اور سنی اسلامی عقائد کی تقسیم کے مطابق ہے ان سب عناصر کے باوجود کرد مشرق وسطیٰ کی قدیم ترین قدموں میں سے ایک ہیں۔
قبائلی وفاداریاں بلوچ سماج میں حاوی چلی آ رہی ہیں بلوچ اکثریت کی جانثاری کے جذبات اپنے خاندان‘ ٹکر‘ قبیلے سے ہیں بلوچ قبائل میں ایک نسب کا نظریہ‘ ٹکڑوں میں اتحاد اور تفریق مشترق ہیں ان اصولوں پر ٹکر کی نچلی سطح تک حقیقت میں عمل ہوتا ہے لیکن سیاسی اتحادیں اور وہ طاقتیں جو ان ٹکرز کو بڑی اتحاد میں یکجا کرتی ہیں ان اصولوں کو رد کرتی ہیں ایک روایتی قبائلی سماج میں ایک سیاسی نظریہ جیسا کہ بلوچ نیشنلزم حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہوگا کیونکہ قبائلی افراد کی وفاداریاں قبیلے سے بڑھ کر قوم تک نہیں پہنچ پاٹیں بلوچ نیشنلزم پر قبائل کا متحد نہ ہونا ایک قبائلی رویہ ہے جسے ایران اور پاکستان کے بلوچ بغاوتوں میں بار بار دیکھا جا سکتا ہے قبائل میں ایک فرد کی شناخت ایک بڑے گروپ کا حصہ ہونا ہے یہ بڑا گروپ قوم نہیں ایک قبیلہ ہے باہر حال زیادہ قبائلی ڈھانچے پر ایک غیر قبائلی تحریق کے ابھرنے کی اہمیت کو کم نہیں سمجھنا چاہئے اس لحاظ سے 1920‘ 1930ء اور1940ء کے دہائیوں کی بلوچ تحریکیں ہمارے لئے اچھی مثال ہیں۔
بلوچ نے قوم پرستی کے ایک نظریئے کی تخلیق کی لیکن محسوس کیا کہ قبائلی مدد اب بھی قومی تحریق کی ممکنہ کامیابی کیلئے اہم جز ہے قبائلی مدد حاصل کرنے پر قوم پرست قبائلی مخاصمتوں کا شکار بنتے ہیں اگرچہ قبائلی بندھنیں جنوبی بلوچستان (پاکستانی اور ایرانی بلوچستان)‘ مکران میں غیر اہم ہیں جو ابتداء سے ایک تہدار سوسائٹی تھی جس میں نام کی حد تک بلوچ زمینداروں کا ایک طبقہ جو زرعی زمینوں کا مالک ہے جنہیں بلوچستان کے قبائل کی اکثریت اور باہر کے لوگ بھی بلوچ سمجھتے ہیں۔
سیاسی لحاظ سے 1839 ء میں قلات کے بلوچ ریاست پر برطانوی قبضہ شاید سب سے بڑا واقع اور بلوچ تاریخ کا اہم موڑ ثابت ہوا جس
دن برطانوی فورسز نے قلات پر قبضہ کیا بلوچ تقدیر ڈرامائی انداز سے بدلی تکیف دہ نتائج میں ان کے زمین کی تقسیم اور غیر ملکی فوجوں کا ان پر دائمی قبضہ تھا 1917ء کے روسی شوشلسٹ انقلاب کی جنوب کے جانب پھیلنے کے خوف سے برطانیہ نے1928ء میں مغربی بلوچستان پر قبضہ کیلئے ایران کی مدد کی تاکہ ایران ک ومضبوط کر کے روس کے راستے میں رکاوٹ کے طور پر استعمال کیا جا سکے اور برطانیہ کی یہی پریشانی بعد میں 1948ء میں پاکستان کا مشرقی بلوچستان کے ہڑپ کرنے کا سبب بنی اس طرح نو آبادیاتی مفادات نے بلوچ کے خلاف کام کیا اور انہیں حق خود ارادیت اور ریاست کے حق سے محروم کیا اس رائے کی تصدیق کرتے ہوئے 2006ء میں ایک مشہور یورپی تھنک ٹینک ’’فارن پالیسی سینٹر‘‘ جیسے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی سرپرستی میں شروع کیا گیا تھا ایک پمفلٹ میں انکشاف کیا کہ 1948ء میں قلات کا پاکستان کے ساتھ جبری الحاق برطانیہ کے تجویز پر ہوا تھا قبائل اعتبار برطانوی حکومتی ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے‘ فارن پالیسی سینٹر کا کہنا تھا کہ ستمبر1948ء میں سیکرٹری سٹیٹ لارڈ لیسٹوویل نے ماونٹ بیٹن کو مشورہ دیا کہ قلات کے مقام کی وجہ سے یہ نقصان دہ اور خطرناک ہوگا کہ اسے آزاد ہونے دیا جائے بعد میں پاکستان میں عینات برطانوی ہائی کمشنر کو بھی اسی طرح لکھا گیا کہ پاکستان کو ایک آزاد اور خودمختار قلات ریاست وجود میں لانے کے معاہدے دور رکھنے کے لئے اس سے جو بھی ہو سکے پاکستان کی رہنمائی کرے۔
بیسویں صدی کے شروع سے بلوچستان کے سیاسی حدود اور طبعی (Physical)حدود منبطق نہیں یہ بہت مختلف ہیں مشرقی بلوچستان پر جس کا مرکز کوئٹہ سے 1948ء سے پاکستان حکومت کر رہا ہے مغربی بلوچستان جسے سرکاری طور ’’سیستان و بلوچستان‘‘ کہا جاتا ہے جس کا مرکز زاہدان ہے پر 1928ء سے ایران کا کنٹرول ہے اور شمالی بلوچستان جسے ولایت نیمرو زکہتے ہیں بیسویں صدی کے شروع سے افغان کنٹرول میں ہے۔
مشترکہ تاریخ۔۔۔بلوچ بھی کردوں کی طرح اپنی ریاست کے حق سے محروم جنوب مغربی ایشیاء کی بہت بڑی نسل برادری ہے بلوچ لوک کہانیاں اور روایتی داستانیں بتاتی ہیں کہ موجودہ بلوچستان میں بلوچوں کی بڑی آمد مختلف ادوار میں مختلف جگہوں سے ہوئی لسانی شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچ بحرہ کیسپین کے علاقے سے جنوب کو منتقل ہوئے اس پس منظر میں دیکھا جائے تو لگتا ہے بلوچوں کے کئی جغرافیائی‘ سیاسی اور سماجی ماحول بدلے اس طرح انہوں نے مختلف فتوں اور طرز زندگی سے نباہ کرنا سیکھ لیا بلوچ تاریخ خودمختاری اور آزادی کیلئے ناکام بغاوتوں کا تسلسل ہے ان کی تاریخ ہمیں نسل کشی‘ جبری ادغام‘ جلاوطنی اور ملک بدری کے بارے بتاتی ہے ابتداء سے ہی بلوچ قومی شناخت کو بنیادی طور پر ایسے تجربوں سے گزرتے دیکھا جا سکتا ہے بلوچ کی ابتدائی سیاسی تاریخ غیر واضح ہے یہ خطہ میں خلافت کے مرکزی حکمرانی کی تنزلی سے شروع ہو کر اور بعد میں گیارہویں صدی کے ابتدائی سالوں سے مکران میں بلوچوں کو ابھرتے دکھائی دیتی ہے 707 میں اموی جنرل محمد بن قاسم نے مکران فتح کیا اس کے بعد عرب گورنروں نے اس ملک پر دسویں صدی کے آخر تک جب عباسی خلیفہ تنزلی کا شکار ہوئے حکمرانی کی تھی مکران پر عربوں کی براہ راست حکمرانی تین صدی رہی بلوچ رفتہ رفتہ اسلام قبول کر کے وسیع علاقے (مشرق میں دریائے سندھ سے مغرب میں کرمان تک) پر پھیلے اور بلوچ قبائل نے ایک نئی اسلامی مشترک شناخت حاصل کی پس اسلام نے انہیں اضافی پیوستگی دی عرب حکمرانوں نے انہیں شمال سے ایران کی مستقل سیاسی اور فوجی دباؤ سے بھی نجات دلائی اس کے علاوہ جیسا کہ کہا گیا
تجارت اور کامرس کی ترقی سے بلوچوں کو مادی فائدے ہوئے عربوں کے زیر کنٹرول بندرگاہوں اور گاؤں میں تجارت کو خوب ترقی ملی پرانے خشکی اور سمندری تجارتی راستے بحال ہوئے جس سے مغربی مکران کے راستے ہندوستان کا رابطہ ایران اور عرب سے ہوا۔
عرب حکمرانی میں بلوچ قبائلی سردار مسلمان مراعات یافتہ طبقے کا حصہ بنے اور اپنے آپ کو عرب خلفا میں شمار کیا اور خطہ میں ان کی نمائندگی کرنے لگے بلوچ اور عرب خلفاء کے مابین تصادم ایک جانب اور ہمسایہ غیر مسلم طاقتوں کے مابین دوسری جانب سے بلوچ مسلم شناخت کو مضبوط کیا جبکہ دوسری جانب عرب خلفاء اور بلوچوں کے درمیان تصادم نے ’’قبائلی اتحاد اور مشترکہ بیداری‘‘ میں اضافہ کیا عرب سلطنت اور بلوچ کو درپیش خطرات نے لڑنے پر آمادہ بلوچ قبائل میں فاصلوں کو رفتہ رفتہ کم کر دیا اس عمل میں اسلام نے ایک متحد کرنے والی سیاسی نظریئے کے طور پر کام کیا اور بلوچ قبائلی سماج اور اس کے مختلف سماجی طبقوں میں مجموعی طور ایک مشترک ثقافت کو فروغ دیا لگتا ہے ان تبدیلیوں نے بلوچ کو وسیع قبائلی فیڈریشن بنانے کے قابل ہونے میں نمایاں کردار ادا کیا جس کی وجہ سے گیارہویں سے تیرہویں صدی میں رفتہ رفتہ اس خطہ پر جسے اب بلوچستان کہتے ہیں بلوچوں نے سیاسی اور عسکری برتری حاصل کی اس طرح ابتدائی قرون وسطیٰ نے پہلی امتیازی بلوچ کلچر کوابھرتے اور بلوچ سلاطین اور ریاستیں بنتے دیکھیں پہلی بڑی اسلامی فتوحات کے بعد جونہی عرب طاقت میں تنزلی شروع ہوئی اور ساتھ ہی اسلام سنی اور شیعہ دو مذہبی عقائد میں تقسیم ہوئی بلوچ قبائل اس انتظامی سیاسی اور روحانی خلاء کو پر کرنے آگے بڑھے بارہویں صدی سے بلوچوں نے مضبوط قبائلی اتحاد بنائے میر جلال خان نے 44قبائل کی فیڈریشن بارہویں صدی میں‘ رند لاشار کنفیڈریسی پندرہویں صدی میں اور سترہویں صدی میں ملک‘ دودائی‘ بلیدی‘ مکران کے گچکی اور بلوچستان کے خان نے مختلف اوقات میں تمام بلوچوں کو متحد کیا اس کے علاوہ تیرہویں اور چودہویں صدی میں مغل اور تاتار کے حملوں‘ جنگوں اور بڑی نقل مکانی‘ قبائل کے مابین اتحادوں اور شادی بیاہ نے بلوچ شناخت کو ڈھالنے میں مدد کی۔
اس طرح تاریخی تجربات نے بلوچ قومی شناخت بنانے میں اہم کردار ادا کیا اس لحاظ سے سوس(Swis) تجربہ میں غیر معمولی یکسانیت ہے مشترکہ لسانی او رثقافتی تاریخ نہ ہونے کے باوجود مشترکہ تاریخی تجربہ اور مشترکہ آرزوؤں پر اتفاق کی طاقت قومی تشکیل کیلئے کام کرنے والے گروپوں کو یکجا کرنے میں کافی ہوئی بلوچوں کی گزشتہ سو سالہ تاریخ روایتی سماج سے ’’زیادہ ماڈریٹ‘‘ ایک مقابلتاً اصطلاح ہے یہ ماڈرن سماج کیلئے استعمال نہیں ہوتا جوارتقائی عمل کا آخری نتیجہ ہے سماج کی جانب ارتکاکی تاریخ ہے اس طرح ابتدائی تحریکوں کا قبائلی معیار پر اور بعد کی تحریکیوں کا نیشنلزم پر زیادہ انحصار ہے اس طرح ابتدائی تحریکیوں میں تنظیمی عناصر قبائل ہیں جب عوام کو تیار کر کے سیاسی اداروں کی جانب راغب کیا جاتا ہے تو سیاسی پارٹیاں رفتہ رفتہ قبائل کی جگہ لے لیتی ہیں۔
ثقافت اور بلوچ شناخت۔۔۔ جغرافیہ مدد کرتی ہے کیونکہ یہ بلوچ کو تفاوت کی سوچ سے شناسا کرتی ہے اس طرح بلوچ کلچر زیادہ تر ملک کے جغرافیہ کے ممنون ہے سخت موسم‘ مخصوص پہاڑی سلسلے پر اعتماد اور تکلیف برداشت کرنے والے لوگوں کی پرورش کرتے ہیں ایسے حالات بہر حال تنہائی اور آمدورفت میں مشکلات کا بھی باعث ہیں طبعی جغرافیہ کے لحاظ سے بلوچستان کا بہ نسبت برصغیر ہند کے سطح مرتفع ایران سے کافی کچھ مشترک ہے شمال میں کوہ سلیمان کی جنوبی پشتوں کی رکاوٹیں اسے ہندوستان سے جدا کرتی ہیں جنوب کی جانب قلات سے ناقاب
تصور بنجر پہاڑی بلندیاں اپنا رخ سندھ کے ریگستان کی جانب موڑے ہندوستان سرحد تک پاؤں پھیلائے ہوئے ہیں ثقافتی مرکز اندرون بلوچستان جنوب اور وسط میں وادی کیچ پنجگور اور بمبور میں ہے کلچر جس کا اظہار زبان‘ ادب‘ رسم و رواج اور عقائد سے ہوتا ہے مختلف ناگزیرڈوروں کا پیچیدہ مجموعہ ہے بلوچ کی سلجھاؤ‘ صلح جوئی اور برداشت کی طاقت نے ان کے کلچر کو کئی نشیب و فراز میں زندہ رہنے کے قابل بنایا بلوچ لوگ پنجابی اور فارسی اشرافیہ سے مختلف ہیں جو پاکستان اور ایران کی سیاست پر قابض ہیں بلوچ اپنی علیحدہ زبان و ثقافت کے ساتھ مسلمان ہیں لیکن اپنی سوچ میں زیادہ سیکولرہیں(بالکل اسی طرح جس طرح کرد) سپونر نے بلوچی زبان کی اہمیت کی نشاندہی کی کہ بلوچی ان تمام گروپس کو جو اپنی شناخت آج کل بلوچ کے لحاظ سے کرتے ہیں انہیں آپس میں جوڑنے کا اہم عنصرہے اس نے لکھا ’’بلوچستان میں بلوچ شناخت قبائل کے مابین تعلقات میں بلوچی زبان کے استعمال سے قریبی منسلک ہے‘‘ نصف صدی کی بے رحم جذب کرنے کی پالیسی کے باوجود پاکستان اور ایران دونوں میں بلوچ عوام نے اپنی کلچر اور زبانی کہانیاں سنانے کی روایات کو باقی رکھا یہ رجحان موجودہ ریاستوں کو مصنوعی سمجھ کر انہیں رد کرنے کو ظاہر کرتا ہے اور لسانی شناخت سے منطبق سیاسی اتحاد کا مطالبہ کرتا ہے عام تاثر یہ ہے کہ بلوچستان میں صرف ایک چھوٹی اقلیت بلوچ ہونے کی سوچ سے عاری ہے یہ اقلیت سیستان میں فارسی اور مشرقی بلوچستان میں پشتون ہیں بہر حال یہ بتانا ضروری ہے کہ ماضی میں نزدیک تمام بلوچ قبائلی اتحادوں کا کثیر نسلی اور لسانی ہونا عام تھا 15ویں صدی کی رند لاشار اتحاد‘ مکران میں زگری ریاست‘ قلات کی براہوئی کنفیڈریسی تمام مختلف قبائلی ایجادوں پر مشتمل تھے قلات کے رعایا کو کبھی براہوئی بولنے پر آمادہ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی بہت سے قبائل اپنی پہلی زبان کے طور براہوئی نہیں بولتے تھے اور قلات کے رعایا کی اکثریت براہوئی بالکل نہیں بولتے تھے براہوئی قبائل براہوئی‘ لاسی اور جدگالی جدگالیا اور بلوچ بلوچی بولتے تھے۔
قبائلی ہونے کی حیثیت سے بلوچ عوام کی عام زندگی میں مذہب کا عمل دخل کم ہے یہ عام خیال ہے کہ خطہ میں اسلامی بنیاد پرستی ابھرنے سے پہلے بلوچ مذہبی طور اتنے پارسانہ تھے جتنے کہ ان کے ہمسایہ فارسی‘ پنجابی اور پشتون تھے ان کی بنیادی وفاداریاں اپنے قبائلی لیڈروں کے ساتھ تھیں وہ افغان کی طرح مذہبی تنگ نظر بھی نہیں جیسا کہ انیسویں صدی میں سرڈنزل ابیٹسن نے بلوچ کی تعریف کی ’’ان کے سر میں کم خدا اور فطرت میں کم شیطانی اثرات بھری ہیں‘‘ اس طرح تاریخی طور کہا جا سکتا ہے کہ اپنے ہمسایہ کے مقابلے میں مذہبی لحاظ سے بلوچ زیادہ سیکولر اورکثرتی اعتقاد کے حامل ہیں کیونکہ پاکستانی ریاست نے اپنے آپ کو جائز ثابت کرنے کیلئے اسلامی بنیاد پر دو قومی نظریہ (اسلام ہندو ازم) کا لبادہ اوڑھا‘ اس کے توڑ کے لئے جیسا کہ امید تھی بلوچ اکثریت نسلی قوم پرستی پر انحصار کرنے لگے پاکستان کے مذہبی قوم پرستی کے خلاف غوث بخش بزنجو نے 1948ء میں بلوچ نقطہ نظر کو اس طرح پیش کیا ’’ہم مسلمان ہیں لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ مسلم عقیدے کی بنا لازمی اپنی آزادی کھو کر دوسری قوم میں ضم ہوں اگر مسلمان ہونے کی بنا پاکستان میں ہماری شمولیت ضروری ہے تو دوسری اسلامی ریاستیں‘ افغانستان اور ایران کو بکھی پاکستان میں ضم ہونا چاہئے۔‘‘
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا لسانی لحاظ سے بلوچ سماج میں فرق ہے مشرقی اور شمالی بلوچستان میں کافی براہوئی بولنے والے ہیں جو ثقافتی لحاظ سے
بالکل بلوچ جیسے ہیں اور وہ بلوچ جو پنجاب اور سندھ میں دریائے سندھ کے میدان میں بستے ہیں نے اپنی نسلی ساخت کو برقرار رکھا اگرچہ اب وہ سرائیکی اور سندھی بولتے ہیں گوکہ براہوئی‘ بلوچی مختلف زبانیں ہیں زیادہ زبانیں جاننا ان میں عام ہے اس حقیقت کو جانتے ہوئے طارق رحمان کا خیال ہے ’’بلوچی اور براہوئی زبانیں بلوچ شناخت کی علامت ہیں اور شناخت بلوچ نیشنلزم کا لازمی حصہ ہے‘‘ بہت سے عناصر میں سے جو بلوچ شناخت کی تعمیر میں حصہ لیتے ہیں شاید سب سے اہم مشترکہ سماجی اور معاشی ساخت ہے کیونکہ جب سے بہت سے نسلی گروپوں نے ملک کر بلوچ لوگوں کے بنانے میں حصہ لیا اور جبکہ مختلف گروپوں میں زبان اور لہجے کئی لحاظ سے مختلف ہیں ایک خاص قسم کی سماجی اور معاشی تنظیم جسے ’’قبائلی کلچر‘‘ کہا جاتا ہے سب میں مشترک ہے یہ مخصوص قبائلی کلچر ماحول‘ جغرافیہ اور تاریخی قوتوں کی پیداوار ہے جنہوں نے مل کر بلوچ زندگی اور اس کے اداروں کی مجموعی ڈھانچہ کی تشکیل کی بلوچ نیشنلزم پر مستند حیثیت کے مالک سلگ ہیریسن 1980ء کی دہائی میں بلوچ معیشت کے بارے لکھتے ہیں ’’خانہ بدوش مالداری یا بندوبستی زراعت میں سے ایک پر مکمل انحصار کرنے کی بجائے اکثر بلوچ زندہ رہنے کیلئے دونوں کام کرتے ہیں‘‘۔
سوشالوجی کا ایک مسلمہ اصول بیرونی تضادات اور اندرونی تصال کے مابین مثبت تعلق بیان کرتا ہے ایک ایسا مخصوص مرکز نگاہ جس کے بارے ہر وقت اظہار ہوتا ہے اور اس پر بلوچ متفق ہے وہ ہے گجر (فارسی) اور پنجابی تسلط کے خلاف نفرت۔ بیرونی تسلط کے خلاف مشترکہ جدوجہد ایک جانب مشترکہ بندہنوں کو مضبوط کرتا ہے دوسری جانب قومی احساسات کی نشوونما کرتا ہے پیرکلوز کے مطابق کئی وجوہات کی بناء جو ابھی تک غیر شفاف ہیں وہ لوگ جنہوں ن یایسی طاقتور افواج سے ٹکر لی جو ان کی سوچ اور طاقت سے باہر تھے پھر اپنی منثاء سے وہ قدیمی خیالات کی جانب جھکے اور اپنی نسلی پس منظر کی جان پہچان پر توجہ دی اس عمل کے دوران اپنی الگ شناخت کیلئے اپنے مذہب کے بنیاد پرست خیالات اپنائے ایک زبان جو کئی نسلوں سے نہیں بولی گئی تھی کو زندہ کیا‘ زمین سے تسکین کی خاطر جو ماضی میں ان کا رہا ہوگا کی جانب مڑے اس طرح کر کے وہ اپنی نئی شناخت کی تعمیر کرتے ہیں۔
بلوچوں کو ان ریاستوں سے جن میں وہ رہتے ہیں مخصوص چیلنجز درپیش ہیں مثلاً ایران جہاں خیال ہے ان کی آبادی 20لاکھ سے زیادہ ہے آزادی سے بلوچی بولنے پر پابندی ہے اور ان پر ایرانی بالادست ریاست نے کئی فوجی آپریشن کئے ایرانی اور پاکستانی ریاستوں کی جبر نے بلوچوں کے اس عزم کو اور مضبوط کیا کہ وہ اپنی وراثت آنے والی نسلوں کو منتقل کریں بلوچی زبان الگ بلوچ شناخت کا ایک ثبوت اورعلامت ہے اسے مضبوط کرنے اور اس کی ترقی کیلئے موثر کوشش کی گئیں ’’یہ محسوس کرتے ہوئے کہ زبان (بلوچی) بلوچ شناخت کا سب سے اہم اور فیصلہ کن عنصر ہے فارسی اور پنجابی بالادست ریاستوں‘ ایران اور پاکستان نے بلوچوں کو ممکنہ طریقوں سے جذب کرنے کی کوشش کی۔


اتوار، 17 جولائی، 2016

کتاب ــ اعجاز منگی


کتاب 
اعجاز منگی
فرانز کافکا نے لکھا تھا کہ جو کتاب تیرے سر پہ مکا مار کر تجھے سوچنے پر مجبور نہیں کرتی وہ کتاب ہی نہیں ہے
وہ کتابیں جو مشعل راہ بنیں۔ وہ کتابیں جو جادو پر نہیں تھیں مگر ان میں ایک جادو تھا۔ وہ کتابیں جو شایع ہونے کے لیے نہیں لکھی گئیں۔ وہ کتابیں جو شایع ہوئیں تو جلائی دی گئیں۔ وہ کتابیں جو مشعلیں بن گئیں۔ جنہوں نے اپنے دور کا اندھیرا کم کیا۔ وہ کتابیں جو فریادیں تھیں۔ وہ کتابیں جو تاریخ کا فیصلہ بنیں۔ وہ کتابیں جو ابھی تک قلم سے الجھی ہوئی ہیں۔ وہ کتابیں جو سلجھی ہوئی سیاہی سے لکھی گئیں اور جنہوں نے دنیا کو اس داناہی سے آشنا کیا جو صرف ذاتی مفاد کا طواف نہیں کرتی۔ کچھ کتابیں سمندر جیسی ہوا کرتی ہیں۔ گہری اور بے چین! مگر کچھ کتابیں ساحل سمندر ہوا کرتی ہیں۔ ایسا ساحل سمندر جن پر سپنوں کے سوداگر اترتے ہیں اور ان آنکھوں کو خوابوں سے بھر دیتے ہیں جن آنکھوں میں کوئی خواب مسافر کی طرح بھی نہیں ٹھرتا۔ جس طرح یہ دنیا مختلف انسانوں کا مجموعہ ہے اسی طرح کتابوں کی بھی بہت ساری اقسام ہوا کرتی ہیں۔ کچھ کتابیں غلاموں جیسی ہوتی ہیں اور کچھ کتابیں آقاؤں جیسی! کچھ کتابیں اطاعت کی تلقین کرتی ہیں اور کچھ کتابیں انسانوں کو بغاوت پر آمادہ کرتی ہیں۔ ایسی کتابیں جن کو پڑھنے والے پاگل ہوجاتے ہیں اور وہ دنیا سے اختلافات رکھنا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ کتابوں کی سطریں انسانوں کو 
زنجیروں کی طرح جکڑ لیتی ہیں اور ایسی ہی کتابوں کے بارے میں احمد سلیم نے لکھا تھا کہ جسم پر ابھرے ہوئے نیلوں کو پڑھو۔۔

کچھ کتابیں انسانوں کو آزاد کروانے میں ایک عظیم کردار ادا کرتی ہیں۔ کتابیں ایک طرح کی نہیں ہوتیں کتابیں بہت ساری ہیں۔ مگر کتابوں سے لگن رکھنے والے انسان بھلے کچھ کتابوں سے محبت کریں مگر وہ عزت سارے کتابوں کی کرتے ہیں۔ کیوں کہ ہر کتاب ایک سیپ کی طرح ہوا کرتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر سیپ میں موتی ہو!! مگر ہر سیپ جانتی ہے کہ علم کا سمندر کتنا گہرا اور کشادہ ہوا کرتا ہے۔ کتابیں انسان کو شفا دیتی ہیں۔ کتابیں معالج بھی ہوا کرتی ہیں۔ مگر وہ بھی تو کتابیں ہیں جو انسان کو بیمار بنا دیتی ہیں۔ بدھ مت کا بانی گوتم کہا کرتا تھا کہ کتاب ایک کشتی کی طرح ہوا کرتا ہے۔ آپ اس کتاب پر سوار ہوکر بے علمی کا دریا عبور کریں مگر کنارے پر پہنچ کر اس کشتی کو اپنے کندھے میں اٹھانا عقلمندی نہیں
کتاب جب انسان میں غرور اور گھمنڈ پیدا کردے تب وہ مثبت نہیں رہتی۔ مگر یہی کتابیں ہیں جنہوں نے انسان کی انا کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دنیا میں ایسے عالم بھی ہیں جو کتابوں کی دیواروں میں قید ہوکر رہ گئے مگر اس قید خانے کے تالے کی کنجی بھی تو ایک کتاب ہی ہے۔۔ آسمانوں سے اترنے والی کتابوں سے لیکر زمین پر لکھی جانے والی کتابوں تک ایک بہت لمبی تاریخ ہے ان کتابوں کی جو کبھی پتھروں کی سلوں پر کندہ ہوا کرتی تھیں جو کبھی لکڑی کے تختوں پر لکھی جاتیں تھیں اورکاغذ کی ایجاد سے پہلے وہ کجھور کے پتوں اور کپڑے کے ٹکڑوں پر تحریر ہوا کرتیں تھیں۔ مگر بیش قیمت کاغذ سے لیکر کمپیوٹر کی اسکرین پر پڑھی جانی والی کتابوں کے سارے سفر میں انسانی شعور نے بہت کچھ حاصل کیا ہے اور یہ حاصلات ایک سرمایہ علم ہے۔ حضرت علی کا فرمان ہے کہ میں خدا کا ممنون ہوں کہ اس نے ہمیں علم سے نوازا اور جاہلوں کو دولت سے"

علم کی اس وادی میں داخل ہونے کا راستہ اور شعور کے خزانے تک رسائی کا نقشہ بھی تو وہ کتابیں ہی ہیں جو سب کے لیے نہیں بلکہ ان آنکھوں کے لیے بہت پرکشش ہوا کرتی ہیں جن میں علم کے لیے چاہ ہوا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم یونان کی وہ تہذیب جس کا عروج اور زوال ابھی تک ایک پہیلی ہے؛ اس میں سقراط جیسے استاد کو کسی بادشاہ یا امیر کے بیٹے سے نہیں بلکہ اپنے اس غریب شاگرد سے محبت تھی جس کے گھر میں سب سے زیادہ کتابیں ہوا کرتی تھیں۔ اس لیے سقراط اپنے شاگرد افلاطون کا نام لینے کے بجائے اسے کتابوں والا کہہ کر بلاتا تھا۔ انسانی تاریخ میں ہتھیار چلانے والوں نے حکومت کی ہے مگر چین کے عالم جنگ سن زو کی کتاب فن جنگ نے سارے سورماؤں کے دلوں پر حکومت کی ہے۔ آج جب دنیا ڈرون طیاروں اور روبوٹ سپاہیوں کے دور میں داخل ہوگئی ہے تب بھی سن زو کی آرٹ آف وار کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ ایک عظیم کتاب کی شناخت یہی ہوتی ہے کہ وہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہم ہوتی جاتی ہے۔ لیکن دنیا میں سائنس؛ سیاست اور نظریات پر ہی لکھی گئی کتابوں کو اہمیت نہیں ملی ۔ اس دنیا میں ان کتابوں کو بھی پیار سے پڑھا گیا جن میں محبت کی باتیں تھیں۔ جن کتابوں کو انسانوں نے نفع اور نقصان کے خیال سے بالاتر ہوکر پڑھا۔ ان کتابوں نے انسانوں کو بتایا کہ یہ دنیا صرف دولت اور طاقت کی بازی نہیں۔ اس میں کچھ محبت ہے۔ کچھ حسن ہے۔ کچھ نیکی اور بہت بڑی سچائی ہے!!

اب تو کتابیں ترقی کے جانب جانے والے راستے کے سنگ میل بن گئی ہیں۔ اب تو کتابوں کو لوگ اس لیے پسند کرتے ہیں کیوں کہ ان کو معلوم ہو چلا ہے کہ کتابیں بلندی کی طرف اوپر اٹھنے والی سیڑھی کے زینے ہیں۔ اگر زندگی میں خوشحالی لانی ہے۔ اگر دنیا میں اپنے آپ کو ایک کامیاب انسان بنانا ہے تو اپنی بنیاد میں کتابوں کو ڈالو۔ کیوں کہ کتابیں ہماری شخصیت کی تعمیر کرتی ہیں۔ ہمیں اس دنیا میں دھوکوں اور فراڈوں سے بچانے کا بندوبست کرتی ہیں۔ وہ ہمیں ایک اچھے دوست کی طرح سمجھاتی ہیں کہ ہماری بھلائی کس میں ہے؟ کتابیں ستاروں کی طرح زندگی کی صحرا میں ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔ ان کا مختصر مگر مضبوط وجود ہمیں ایک سہارے کی طرح محسوس ہوتا رہتا ہے۔ کتابوں کو اپنی حیات کہنے والے لوگ اتنے سادہ اور بے بوجھ تو نہ تھے! ان کو معلوم تھا کہ اکثر کتابیں اپنے راقموں کے روح پر پڑا ہوا شعور کا وہ قرضہ ہوا کرتی ہیں جو انہیں ہر حال میں اتارانا ہوتا ہے۔ اس لیے تو ایک ادیب اپنی کتاب لکھنے کے بعد بالکل ایسی کیفیت محسوس کرتا ہے جیسی کیفیت ایک عورت بچے کو جنم دینے کے بعد محسوس کرتی ہے۔ اسے اس وقت اپنی زندگی تکمیل کی طرف ایک بڑا سفر طے کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

جمعرات، 14 جولائی، 2016

چاردیواری ۔۔۔۔ تحریر : زرک میر



دشت کا علاقہ ہے ‘بہار کا موسم ہے ‘ہرطرف ہریالی ہے ‘خانہ بدوش دشت کے دامن میں تیزی سے آکر پڑھاﺅ ڈال رہے تھے ‘صبح فجر کے وقت پڑھاﺅ ڈالنے والے آگے سفرکو بڑھنے لگتے سامانوں سے لدے اونٹ اور گدھے قطارمیں روانہ ہوتے ‘ کتے بھی زبان لٹکائے اونٹوں کے پیچھے پیچھے چل دیتے۔ پرانوں کے جانے کے بعد نئے قافلے آکر پرانے پڑھاﺅ ( ھنکین) کی جگہ نیا پڑھاﺅ ڈالتے‘ شازو کا باپ دشت کا زمیندار تھا وہ ہر موسم میں دشت میں ہی رہتا تھا ‘گھر میں کچھ بنیادی سہولیات میسر تھیں ان سہولیات میں گھر کا چھت بھی شامل تھا جو پاوالی لوگوں کے پاس نہیں تھا۔شازوہرنئے قافلے کے پیچھے ہولیتی جو دشت کے دامان میں ان کے گھر سے کچھ دور پڑھاﺅ ڈالتا۔خانہ بدوشوں کو مستقل آبادیوں اورفصلوں سے دور جاکر پڑھاﺅ ڈالنا ہوتاتھا سو شازو اودیگر بچے ان قافلوں کا پیچھا کرتے ان کی عورتوں بچوں کو دیکھتے جو بولان کا طویل سفر طے کرکے دشت پہنچے تھے ‘جو تھکن سے چورلگتے تھے ‘ہونٹ ایسے خشک کہ لگتاتھا کہ پانی کا بوند کہیں عرصے سے حلق سے نہ گزرا ہو ۔ان خانہ بدوشوں کے بزرگ جن میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں پہلے سے بنے پڑھاﺅ کی جگہ صاف دیکھتے یاپھر شتر بانوں کو ان منتخب جگہوں پر اونٹوں کو لے جانے کا کہتے ‘اونٹوں کا قافلہ اس جگہ پہنچتا اورشتربان ان اونٹوں کوبٹھانے کی کوشش میں جت جاتے کیونکہ اونٹ ایک تو طویل سفر سے آئے اور ان پر کافی سامان لدا ہوتو اسے بٹھانا ایک مہارت کاکام ہے اونٹ پر جب سامان لادا جائے یا پھر اتارا جائے یا بیٹھے اونٹ کو اٹھایا جائے یاپھر بٹھایاجائے تو یہ بڑی فریاد کرتا ہے‘اس فریاد میں اونٹوں کی منہ سے جاگ نکلنے لگتا اور ان کی زبان باہر لٹکنے لگتا شازو یہ دیکھ کر بڑا محظوظ بھی ہوتی اور اونٹوں پر رحم بھی آتا۔خواتین اور مرد مل کر سامان اتارتے ‘بچے ‘مرغیاں ‘میمے میمنیاں سب گدھوں پر بندھے ہوتے ان کو بھی اتاراجاتا ‘خانہ بدوش بچے حیران ہوتے کہاں آگئے لیکن حیرانگی سے زیادہ تھکاوٹ اور مسلسل سفرسے وہ بھی شل ہوچکے ہوتے لیکن شازو جیسی دیگر بچیوں کو دیکھ کر وہ سہم جاتے ۔شازو ان بچوں کے لئے گھر سے کچھ نہ کچھ ضرور لے آتی اور ان کو بانٹ دیتی یہ دیکھ کر ان کے ہونٹوں پر ہلکی سے مسکراہٹ آتی جس سے شازو خوش ہوجاتی ۔خانہ بدوشوں کی خواتین اور مرد شازو اور ان جیسی بچیوں اور بچوں کو دیکھ کر کچھ غوربھی نہیں کرتے کیونکہ ایک تو سفر کا تھکان اور پھر یہاں پڑھاﺅ ڈالنے کے ساتھ ہی ان کو اب پانی اور کھانا پکانے کے لئے لکڑیوں کا بندوبست کرنا تھا ۔ عورتیں جلدی جلدی مشکیزوں کو نکالتیں اوران میں سے کچھ پانی کے لئے شازو کے باپ کے ٹیوب ویل کی جانب جاتیں شازو بھی ان کے ساتھ ہولیتی اورراستے میں ان سے پوچھ بیٹھتیں ۔
شازو: تمہارا نام کیا ہے ؟
ان میں نسبتا بڑی عمر کی لڑکی کہتی ہے ‘ شانتل
شازو: تم لوگ کہاں سے آرہے ہو؟
شانتل: ہم کچھی سے آرہے ہیں
شازو: راستے میں کتنے دن لگے
شانتل: پانچ دن لگے
شانتل بات کرنے کے موڈ میں ہی نہیں تھی لیکن شازو کا تجسس تھا کہ بڑھتا جارہاتھا اور سوال پر سوال پوچھے جارہی تھی اورپھر پاوالی لوگ عام لوگوں سے اتنی جلدی کھل کر بات بھی نہیں کرتے ان کی اپنی الگ ہی دنیا ہے ‘شازو کے تجسس اور اصرار پر شانتل مختصر جواب دیتی رہی ۔
شازو: پانچ دن پیدل آئے ہو یہاں تک ؟
شانتل: ہاں اورہر سال ہم جاتے بھی پیدل ہیں اور آتے بھی پیدل ہیں ۔
شازو: تم لوگ تھکتے نہیں ہو‘شازو کا سوال انتہائی معصومانہ اور شانتل کے لئے اس کے درد کا احساس جگانے کیلئے کافی تھا ۔
شانتل نے پانی کیلئے اٹھائے کین کو سیدھے بغل سے اتارکر الٹے بغل میں دبا کر گویا ہوئی
اب ہم بھول چکے ہیں کہ تھکاوٹ کیا ہوتی ہے ‘ہم زندہ ہی اس پیدل چلنے کی وجہ سے ہیں اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہمارے (سا دار)بھیڑ بکریوں کا کیا ہوگا وہ تو بھوک سے مرینگے اور ہم بھی مر جائیں گے ۔
شازو کچھ افسردہ ہوئی پھر سوال کر گئی
راستہ میں کہاں کہاں رکھتے ہو؟
شانتل: جب بولان میں داخل ہوتے ہیں تو ہمیں اس درمیان میں پانچ دن لگ جاتے ہیں ڈھاڈر ‘دربی ‘ گوکرت درنجن ‘ کڑتہ ‘بی بی نانی پیر غائب آب گم مچھل ہیرونک ‘ہرک دزان کولپور سے ہوتے ہوئے دشت پہنچتے ہیں ۔ اب تو یہ سفر مزید آگے ہوگا ہمیں سرلٹھ جانا ہے
شازو اس طویل سفر پر حیران ہوکر پوچھیں، شانتل پھر کب واپس لوٹ آﺅگی ؟
شانتل نے کہا، پھر سہیل (ستمبر )میں واپس کچھی جائیں گے ؟
شازو: پھر اسی راستے سے جاﺅگی
شانتل: ہاں
شازو نے پھر پوچھا
بولان میں آتے ہوئے ڈر نہیں لگتا‘ویرانی ہے ‘گہرا پانی ہے ‘خوفناک پہاڑ ہیں ‘جنگلی جانور بھی ہونگے ‘ڈاکواورچوربھی راستے میں ہونگے ‘ایک طرف سڑک ہے گاڑیاں ہیں لوگ ہیں ‘ تم کیسے چلتی ہوگی سڑک کے ساتھ ساتھ ۔رات ہوتی ہے تو تم کیا کرتی ہو۔
شانتل: ہم اب بولان کے باسی ہیں یہ ہماری گزرگاہ ہے‘اب تو جنگلی جانور اور ہم میں کوئی فرق بھی نہیں ،وہ ہم سے نہیں ڈرتے ہم ان سے نہیں ڈرتے ،بولان میں ویرانی نہیں ہوتی میرے ساتھ میرا پورا خاہوت (خاندان ) ہوتا ہے ‘ہمارے پاس کیا ہے جو چورڈاکو ہمیں لوٹنے آئیں گے ،ہم سڑک کے کنارے بھی چلتے ہیں لوگ ہمیں دیکھ کر کیا کرینگے ؟ہم شوہان لوگوں کو کون گھورتا ہوگا ،بولان میں جہاں رات ہو ہم پانی کے پاس پڑھاﺅ ڈالتے ہیں ،اس گہرے پانی سے پانی پیتے ہیں ‘کبھی بارش ہوتی ہے تو ہم پہاڑوں کے غاروں میں جاکر سوتے ہیں ،تلخ کہواہ چائے پیتے ہیں چاول وغیرہ پکاکرکھاتے ہیں ،رات خاموش ضرور ہوتی ہے لیکن اس سے ڈرنہیں لگتا بلکہ آسمان اور تارے صاف دکھائی دیتے ہیں ۔صبح پھر سے سامان سمیٹ کر اونٹوں پر لاد کر سفرپر روانہ ہوجاتے ہیں جہاں رات ہوئی وہاں بسیرا کیا اور صبح چل دیئے یہی ہماری زندگی ہے ۔
شازو: ۔تمہیں گھر نہیں ہے ہمارے دشت میں گھروں کو دیکھ کر کیا محسوس کرتی ہو؟
شانتل: تم لوگ زمیندار ہو ہم شوہا ن ہیں ‘ ہمیں ایسا گھر کیسے مل سکتا ہے ؟اور ہم ایسے گھروں میں رہیں گے تو ہمارے مال و کُر(بھیڑبکریوں) کا کیا ہوگا؟ہمیں تو کچھی پا خراسان سفرکرناہوگا۔
شازونے جھٹ سے کہا
میری شادی کوئٹہ میں ہورہی ہے وہاں سریاب میں میراپکا گھر ہوگا ۔دشت سے بھی میری جان چھوٹ جائے گی ،وہاں میں بازار جایا کرونگی وہاں طرح طرح کے لوگ ہونگے ، میرے بہت ساری سہیلیاں ہونگی ۔ یہ کہتے کہتے شازو بہت محظوظ ہورہی تھی جبکہ شانتل حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سوچ رہی ہے کہ اسے دشت جیسا گھر نصیب نہیں دیکھو شازو کتنی خوش قسمت ہے دشت سے کوئٹہ جائے گی اور ایک ہم ہیں کہ ہمیں دشت میں بھی گھر میسر نہیں بلکہ کہیں بھی ہمارا مستقل گھر نہیں ۔
باتوں باتوں میں ٹیوب ویل آگیاتھا
شازو نے ایک اور سوال پوچھا !تمہاری شادی نہیں ہوئی ؟
اس سوال پر شانتل نے شرما کے دوپٹے سے اپنا چہرہ چھپا لیا جس پر دوسری بچی نہیں کہا
منگنی ہوگئی ہے ہوسکتا ہے اس بار سرلٹھ میں شانتل کی شادی بھی ہوجائے
اس پر شانتل نے اس بچی کو ہلکاسا تھپڑ رسید کیااور کہا خاموش ہوجاﺅ
جس پرسب لڑکیاں کھل کھلا کر ہنسنے لگیں۔
تم لوگ پانی بھرو میں آتی ہوں ۔یہ کہہ کر شازو بھاگتی ہوئی گھر گئی اور تھیلے میں کچھ چیزیں جلدی سے ڈال کر واپس آئی
شانتل اور دوسری بچیاں اپنے کین پانی سے بھر چکی تھیں اور جانے کے لئے تیارتھیں شازو نے تھیلا شانتل کو دیا
شانتل نے کہا، یہ کیا ہے ؟
شازو نے کہا، بسکٹ اور کچھ ٹافیاں ہیں تم لوگ کھا لینا ۔شانتل نے منع کیا لیکن شازو نے سختی سے کہا، یہ میری طرف سے مہمانی ہے ۔
وہاں کھڑے کھڑے شانتل اور شازو نے ڈھیر ساری باتیں کیں اور پھر شانتل اوروہ لڑکیاں رخصت ہوکر چلی گئیں اور یہ شازو او رشانتل کی آخری ملاقات تھی کیونکہ ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں ‘کل صبح شانتل والوں کو جانا تھا اورجب شازو نیند سے اٹھ چکی ہوگی تو شانتل والے چلتن کے قریب پہنچ چکےہونگے یہ سوچ کر شازو بڑا دکھی ہوا اور شانتل کو جاتے دیکھ کراس کے آنسو نکل آئے تھے کیونکہ شانتل نے بھی مسلسل پیدل سفر بولان میں پڑاﺅ تھکاوٹ سے ناآشنائی کی وہ داستان بیان کی جو شازو پراثرکرگئی تھی کیونکہ یہ ہر ایک خانہ بدوش لڑکی کا قصہ تھا یہ اس کا طرز حیات تھا سفراور مسلسل پیدل سفر ۔اور شانتل بھی وہ لڑکی تھی جو شاہد اگلی دفعہ اس خاندان کیساتھ یہاں سے نہ گزرے بلکہ اس کی شادی ہوچکی ہوگی اور وہ اپنے نئے خاندان کیساتھ یہاں سے گزرے اور نئے احساسات کیساتھ گزرے ۔
شازو کافی دیر تک شانتل کے بارے میں سوچتی رہی کبھی کھبی اپنے گھر سے باہر نکل کر شانتل کے گدان کی طرف دیکھتی توگپ اندھیرا ہونے کی وجہ سے اسے جلتی ہوئی آگ کا الاﺅ نظرآتااور کچھ نہیں ۔وہ سوچ رہی تھی کہ وہ اب کبھی شانتل کو نہیں دیکھ پائے گی لیکن اس کی یہ اداسی صبح تک تھی کیونکہ صبح شانتل گئی ہوگی تو اس کے جگہ پر ایک نیا خاندان آگیا ہوگا جس میں ضرور کوئی شانتل ہوگی ۔
شازو ان شانتل نما لڑکیوں کے حالات زندگی سن سن ان کے بے گھر ہونے پرافسوس تو کرتی لیکن خود اپنے دشت والے گھر اور پھر شادی کے بعد کوئٹہ والے گھر کے بارے میں سوچ سوچ کر خوش ہوتی رہتی تھی۔اگلے سال ہتم(موسم بہار) آیا تواس کی شادی مانگی گئی اسے بہت خوشی ہورہی تھی اب وہ بڑی ہوگئی تھی ہنکین کے پاس تو نہیں جاسکتی تھی لیکن ٹیوب ویل پر اور باغ وکھیتوں میں یہ خانہ بدوش لڑکیاں جب آتیں تو یہ ان سے وہی سوالات پوچھتیں جو شانتل سے پوچھے تھے وہی جواب ملنے پر یہ مزید گہرائی میں جاتی اور اس پر خاموشی چھاجاتی ۔وہ ان خانہ بدوش لوگوں کی محرومیوں کو دیکھ کر دل ہی دل میں روتی رہتی اور سوچتی یہ کیسے لوگ ہیں ان کی زندگی میں کوئی رنگ بھی ہے کہ نہیں ۔اور وہ جسے دشت میں بھی ان پاوالیوں سے زیادہ سہولیات میسرتھیں اس کا باپ اس کے لئے کپڑے لاتا کھانے کے لئے مٹھائیاں اور ٹافیاں لاتا ایسی خوشی پاوالی لڑکیوں کو کہاں نصیب تھیں اب جبکہ شازو بیاہاکرشہر جارہی تھی تواسے پکایقین تھا کہ وہ شہر جاکر اور خوشیاں حاصل کریگی ‘ دشت سے زیادہ سہولیات اسے ملیں گی ‘شہر میں گھومے گی پھرے گی جبکہ ان پاوالیوں کو دشت جیسی سہولیات بھی میسر نہیں ۔
جب اپریل بھی گزرگیا تو شازو کی شادی کی تاریخ طے ہوگئی، وہ اپنی شادی پر بہت ہی خوش تھی ۔اسے بیاکر کوئٹہ لایاگیا‘ دشت سے بڑا اور پکا گھر ‘شازو کا کمرہ الگ ‘ کمرہ سامان سے بھرا ہوا ‘گھر میں رنگ وروغن ایسا کیاگیا تھا کہ شازو کو لگا کہ وہ میدان سے اٹھ کر محل میں آگئی ہے ‘ شوہر بیبرگ سیکرٹریٹ میں سرکاری ملازم تھا۔اس کی ماں دودن رہنے کے بعد واپس دشت چلی گئی اور شازو اپنے گھر میں خود کوملکہ کی مانند تصور کرنے لگی تھی ‘گھر میں ٹی وی اور کیبل پر گانے سنتی، بیبرگ بھی شازو سے پیار کرتا تھا لیکن شازواس انتظار میں تھی کہ کب یہ اپنے گھر سے باہرنکل کردیکھ سکے گی، یہاں کے لوگوں سے کب ملے گی یہ لوگ کیسے ہیں کیساعلاقہ ہے اور کوئٹہ کا بازاردیکھنے کا تو اس کا بڑا من کررہاتھا لیکن یہ کیا یہاں کوئی بھی عورت باہر نہیں نکل رہی تھی سب گھر میں ہی رہتیں ۔شازودن بھر کام کرنا لیکن اس کے باوجود وہ گھر سے باہر اب تک قدم تک نہیں رکھ چکی تھی‘ اس کا گھر کس گلی میں ہے کیسے لوگ یہاں رہتے ہیں ۔ بالآخر ایک دن بوریت کے مارے بیبرگ سے کہا
مجھے کب باہر گھمانے لے جاﺅگے ؟ مجھے یہ علاقہ دیکھنا ہے بازار بھی جانا ہے ۔
بیبرگ جو ابھی ابھی باہر سے کمرے میں داخل ہوا تھا شازو کی بات سن کر فورا بولا
کیا کہا تم نے شازو ؟ تم گھر سے باہر کیوں جانا چاہتی ہو؟
شازو نے کہا یونہی میں نے سنا ہے کہ کوئٹہ میں عورتیں اپنے لئے کپڑے اور دیگر سامان خریدنے جاتی ہیں ، پارک جاتے ہیں مجھے بھی جانا ہے ایک مہینہ ہوا ہے گھر سے نہیں نکلی ہوں
بیبرگ کا یہ سن کر چہرہ شکن سے بھرگیا اور غصے میں کہا
تمہیں شاہد پتہ نہیں دو ہفتے پہلے کچھ عورتیں شاپنگ سینٹر گئی تھیں ان پر تیزاب پھینکا گیا ہے وہ جھلس گئی ہیں اب یہاں سے کوئی عورت گھر سے باہر نہیں جائے گی اور ویسے بھی گلی میں سب اس انتظار میں ہیں کہ کب بیبرگ کی نئی نویلی دلہن نکلے اور ہم اس کو دیکھیں ۔ یہ سب بیروزگار لڑکے گلی میں اسی آسرے پر پڑے رہتے ہیں ۔نابابا نا ہمارے گھر سے تو کوئی عورت باہر نہیں جائے گی اور خاص کر تم تو بالکل نہیں نکلوگی۔ لوگ کیا کہیں گے کہ وہ دیکھو بیبرگ کی بیوی جارہی ہے اور بازار کے بارے میں سوچنا بھی نہیں ۔یہاں نیا مولوی آیا ہے وہ کہتا ہے کہ تمہاری عورتیں جب باہر جاتی ہیں تو ان پر جن جن کی نظر پڑتی ہے وہ سب گناہ تم لوگوں کے ہی حصے میں آئیں گے ۔ویسے بھی باہرمیری عزت ہے تم گھر میں میری عزت رکھو گی تو باہر لوگ میری عزت کرینگے ۔یہاں ہمارے قبیلے کے لوگ نہیں رہتے یہاں ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں یہ دشت نہیں کہ باہر نکلو تو ماما چچا چچی اور رشتہ داروں کے گھر ملیں گے تمہیں ۔دشت سے تمہیں بیاہ کرلایا تھا کہ تم سیدھی سادگی سی لڑکی ہوگی باہرنکلنے کا سوچوگی بھی نہیں لیکن تم ہوکہ باہر جانے کا سوچتی ہو۔
کئی دفعہ شازو کے پلٹ جواب پر بیبرگ شازو کو تھپڑ رسید کردیتا ۔
شازو یہ سن کر بہت ہی افسرداہ ہوئی کہ وہ کیا سوچ کر خوش ہورہی تھی کہ وہ اب دشت بیابان سے شہر میں آئی ہے اب گھومے گی پھرے گی ۔بازار جائے گی لیکن یہاں تو اس سے پردہ کروایاجارہاہے عزت کا سارا بوجھ اس کے کاندھے پر لادھا جارہا ہے ۔ایک مہینے سے وہ چار دیواری سے آسمان کو دیکھنے کے علاﺅہ کچھ دیکھ نہیں پارہی تھی وہ دشت کی کھلی فضاء‘اس کی ٹھنڈی ہوا لیکن یہاں تو ہزار فٹ کے صحن میں اس کا دم گھٹا جارہاتھا ۔یہ دیکھ کروہ سوچنے لگی کہ وہ کتنی پاگل تھی کہ خانہ بدوش لڑکیوں کی مسلسل پیدل سفر تھکاوٹ اور تلخ چائے پر جینے پر افسردہ ہوتی تھی لیکن اب وہ محسوس کرتی ہے کہ وہ خودقید بن کررہ گئی ہے ‘پاوالی لڑکی کو اگر گھر کی سہولت نہیں تو کیا ہوا؟ سال میں دوباربولان کا تین دن تک سیر توکرتی ہے‘ایک ایک جڑی اور بوٹی کو دیکھ آتی ہے ‘بولان کے میٹھے بہتے پانی سے پیاس بجھاتی ہے ‘اس پانی سے بھیگتی ہیں کھیلتی ہیں ننگے پاﺅں چلتی ہیں ‘پانی بھرتی ہیں یہ ایک دوسرے پر پانی پھینکتی ہیں ‘پھر رات کھلے آسمان تلے سوتی ہیں پھر صبح روشنی پڑنے سے پہلے اٹھتی ہیں کیا منظر ہوگا ؟کیا مستی ہوگی اس وقت کی ؟جب شانتل بولان میں صبح چڑیوں کی چہچہاہٹ سے اٹھ بیٹھتی ہو گی اور انگڑائی لے کر آسمان کی طرف نگاہ ڈالتی ہوگی اور پھربہتے پانی کی موسیقی سے لطف اندوز ہوتی ہوگی اور اس ٹھنڈے پانی سے گونٹ گونٹ پانی پیتی ہوگی اور پھر چارسو نگاہ پھیل کر دیکھتی ہوگی جہاں ہرطرف سبزہ اور پانی ہی پانی نظرآتا ہو ‘پانی ایسا صاف کہ اس میں شانتل کو اپنے بکھرے بال بھی سنوارنے کا خیال آجائے تب یہ اپنے چہرے پر بولان کے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے بوند ڈالتی ہوگی اوراس کا چہرہ ٹھنڈک سے کھل اٹھتاہوگا اور اس کی غنودگی جاتی ہوگی اور پھر مزید ادھر ادھر نگاہ دوڑائے تو بولان کی فضاءپہاڑ درخت اور بوٹیاں اسے صاف نظرآئیں ،شانتل کتنی آزادرہی ہوگی ‘کام تو سب لڑکیاں اپنے گھر میں کرتی ہیں ‘میں بھی کرتی ہوں شانتل بھی کرتی ہے لیکن جب شانتل بولان میں سڑک کے کنارے اور آبادیوں کے درمیان سے گزرتی ہوگی تو اسے اپنے شوہر کی طرف سے یہ باتیں سننے کو نہیں ملتی ہونگی کہ پردہ کرو ۔یہاں سب مجھے جانتے ہیں ‘باہر میری عزت ہے۔سچ تو یہ ہے کہ پورا بولان ہی شانتل کا گھر ہے جس کی نہ کوئی چھت ہے نہ کوئی چاردیواری ۔چارسو پھیلا وسیع وعریض باغ کی مانند

پیر، 4 جولائی، 2016

زخم مندل ہوسکتا ہے، مگر ٹھیس کا کوئی علاج نہیں !!



سچ۔۔۔۔۔
تحریر۔۔۔اویس علی
زمانوں کے پار سے ایک انسان آیا اور اس نے دنیا گھوم کر جاندار قہقہ لگایا۔ اس قہقے نے ایک طوفان کھڑا کر دیا اور گھروں کی بنیادیں ہل گئیں۔ مکان سرک کر سڑک پر آ گئے اور مکین سورہ الزلزال کی تلاوت کرنے لگے۔ پرندے جن شاخوں پر بیٹھا کرتے تھے، وہ ٹوٹ کر نیچے گریں اور زمیں بوس ہو گئیں۔ زمین پر بجلیاں گریں اور بہت سے دریا سوکھ کر صحرا ہو گئے۔ جنگلوں میں آگ لگی، اور ہوا نے اسے بھڑکایا اور پھر یہ آگ بستیوں تک پہنچ گئی۔ جلنے کے خوف سے کچھ نے تو بستیاں چھوڑ دیں اور کچھ بارش کی دعا کرنے لگے۔ وہ پرندے جو گرتی ہوئی شاخوں سے پرواز کر گئے تھے، وہ مکین جو گھر چھوڑ کر جا چکے تھے اور وہ آگ جو مسلسل جل رہی تھی، ان پر آسمان نے ہلکی سی جھرجھری لے کر تھوڑا سا پانی برسایا، اور پھر صدیوں کے لیے خاموش ہو گیا۔
میں نے بھی یہ قصہ سُن رکھا تھا، سو چُپ رہا۔ مگر وہ بول اُٹھا۔
"زمانوں سے دور کے انسان نے جس سچ کو کہنے کی ہمت کی تھی، اس پر آسمان خاموش رہا اور زمین بھی۔ سچ کہنا تو دور، سچ کی تائید کی ہمت ہر کسی میں کہاں ہوتی ہے، خواہ وہ انسانوں کا خدا آکاش ہو یا ان کی ماں زمین۔"
" تائید بھی کوئی کیسے کرے ْ، سچ کہنے والا خود اپنا نہیں رہتا۔ اپنے وجود کی نا موجودگی اور اپنے غیر اہم ہونے کا احساس مسلسل اسے کھاتا رہتا ہے۔ "
"انسانی بے چارگی کے اس عظیم دُکھ کو اپنے شانے پر اُٹھا کر تم کہاں تک جا سکو گے، یہ کوئی ایسا زخم نہیں جس کے عرصہءِ اندمال میں زمانے لگ جائیں۔ تھوڑی سی ہمت سے یہی دکھ نہ ختم ہونے والی مسرت میں بھی بدل سکتا ہے"
" خواب کی سی دُنیا سے دور ہی رکھو نوجوان، ٹھیک ہے زخم مندل ہو سکتا ہے، مگر ٹھیس کا کوئی علاج نہیں"
" اپنی نئی حیثیت میں رہ کر خوش رہنا سیکھنا کچھ مشکل تو نہیں، شاید تمہاری عمر کی زیادتی نے تمہیں مایوسی کے تنگ و تاریک گڑھے میں پھینک رکھا ہے۔"
"نوجوان! عمر کے جس حصے میں تم ہو، سب ممکن دکھائی دیتا ہے۔ جوانوں کی باغیانہ روش مشہور ہے، مگر ایسی تحریکیں دیر پا نہیں ہوتیں۔ صدیوں سے ایسا نہیں ہو سکا۔ تم کیا سمجھتے ہو یہ میں ہوں؟ یہ میں نہیں ہوں، میں سینکڑوں انسانوں کی سال خوردگی کا مجمموعہ ہوں جنہوں نے اپنی عمریں اسی دکھ کی شدت کو سہتے سہتے لگا دیں۔ اب مجھ میں وہ سانس لیتے ہیں، اور میری صورت میں امر ہو گئے ہیں۔"
میں کچھ دیر رُکا اور اس کے چہرے پر آتے جاتے رنگوں کو دیکھتا رہا۔ پھر گویا ہوا،
"تم نے زمانوں کے پار کے انسان کا قصہ تو سُنا ہی ہے، ایک سچ کہنے کی ہمت نے دُنیا کی ترتیب ہی بدل کر رکھ دی تھی، ہم غیر مستحکم، کم سن مخلوق ہیں، زمین پر سانس لیتے ہوئے کوئی لمبا عرصہ نہیں گُزرا اور یہ معاملات سنکھ سالوں میں تھوڑے تھوڑے بدلتے ہیں۔
گو کہ میں نے تمام عمر اسی بے چینی کے عالم میں بسر کر دی، مگر کیا یہ مسرت کا مقام نہیں کہ میں اپنی شکل میں ماضی کے انسانوں اور ان کی کی روایت کو زندہ رکھنے کا ایک سبب ہوں، اور کسی اور کی شکل میں خود بھی زندہ رہوں گا۔ "
"یعنی ابھی اس غم سے فرار کا کوئی رستہ نہیں؟ سنکھ سالوں میں، میں نہیں ہوں گا، اپنی عمر یونہی کیوں کر گزار دوں۔ کیا سکون کی نارسائی کو مقدر سمجھ کر تمہاری مانند ایک دن بوڑھا ہو جاوں؟"
"نوجوان! تم بوڑھے ہو گئے ہو!"

اتوار، 3 جولائی، 2016

کُبڑے چیف کا فیصلہ : زندگی کہاں ہے !! تحریر : زرک میر



سن 80کادور ہے،زمین کی ملکیت پر سردجنگ کافی عرصہ سے جاری تھی ،مخاصمت عروج پرتھی ، لکھت پڑھت نہ ہونے کے باعث مسئلہ مزید پیچیدہ ہوگیاتھا اگر لکھت پڑھت ہوبھی تو قبائلی غیرت اسے کیسے گوارہ کرسکتا ہے،ثالثی کی عمومی کوششوں کو رد کردیاگیاتھا۔۔۔۔ مورچے سنبھالے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گھروں میں ٹی وی پنکھے اور استری کی بجائے موجود اسلحہ مورچوں میں پہنچا دیاگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جھالاوان کا علاقہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ سرکار ہے نہ کوئی برسرپیکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قبائلی باالفاظ دیگر علاقہ غیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔زمین پر ملکیت پردعویٰ کی بنیاد یہ تھی کہ ایک قبیلہ کہتاتھا کہ ہمارے دادا نے تو اس زمین پر رہ کر بچپن اورجوانی دیکھی ، پہلی بار انہوں نے بندوق چلانا یہی سیکھا اور پھر یہ وہ جگہ ہے جہاں ان کی ہماری پہلی دادی سے شادی ہوگئی البتہ دوسری دو شادیاں قلات کے اس پار گزگ میں ہوئی تھیں لیکن پہلی شادی اور اس کے الگ گدان کی زمین تو یہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے قبیلے کے پاس اس سے بھی زیادہ ٹھوس حوالے موجودتھے اس زمین پر ہمارے داداد پردادا کاگدان تھا ،ان کے ختنہ سے لے کر شادی تک تمام رسم ورواج اس زمین پرادا ہوئے۔ شکار یہی پر کھیلا۔۔۔۔۔۔۔ نوجوان اپنے اپنے داداؤں کی سوانح عمری سن کر جوش میں آگئے تھے۔۔۔۔ ایسے موقعوں پر سوانح عمری میں مبالغہ آرائی آجائے تو کوئی قباحت نہیں جنگ میں اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہید اور شہید کے درجات کی بلندی کا بلندوبانگ فلسفہ بیان کیاجاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھاجائے تو جنگ کی نفسیات ایک ہی ہے یعنی مبالغہ آرائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انفرادی خاندانی قبائلی قومی وطنی اور ریاستی جنگوں میں یہی بنیادی فلسفہ کارگرثابت ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔تب ہی تو انسان جان سے گزرتا ہے اور دلچسپ تو یہ ہے کہ جو جو چیزیں جنگوں کا سبب بنتی ہیں ان مفادات کا تعلق بنیادی طور پر زندگی سے ہی ہوتا ہے لیکن اس کے برعکس ان مفادات کے لئے زندگی قربان کی جاتی ہے زندگی اور مفادات گم ہوجاتے ہیں لیکن مبالغہ آرائی باقی رہتی ہے اس مبالغہ آرائی کو جس قدر خوبصورتی اور تصوراتی طورپرپیش کیاجائے وہ اتنا ہی ماہر استاد رہبر اور اوتار کہلاتا ہے یعنی مبالغہ آرائی کے ماہررہنماء بنتے ہیں اور لوگ ان کے اقوال پر جان نچھاور کرتے ہیں حالانکہ یہ رہنماء ان کی زندگیوں کو سہل بنانے کے بہانے درآتا ہے لیکن زندگیاں چھین لیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر یہ فلسفہ پارٹیوں کا منشور بن جاتا ہے یعنی ’’سروں کا سودا ‘‘ یہ جن کے سر کاندھوں پر نہیں رہتے ان کو اس سروں کے سودا سے کیا ملتا ہے محض شہید کا رتبہ۔۔۔۔۔ مجھے تجربہ نہیں شاہد شہید کہلانے سے بھی ان بغیر سروں کے کندھوں کو کچھ راحت ملتی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قبائلیوں نے اپنے داداؤں کی سوانح عمری سن کر فورا پہاڑ پر چڑھ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چونکہ گاؤں ایک تھا ، مشرق میں ایک قبیلہ تو مغرب میں دوسرا قبیلہ‘درمیان میں دونوں قبیلوں کے گھر آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ مشرق کی طرف پہاڑی پر ایک قبائلی لشکر تو مغرب کی پہاڑی پر دوسرالشکر قابض ہوگیا اور مورچوں میں بیٹھ کر دوربین آنکھوں پر لگائے ایک دوسرے کی حرکتوں کو دیکھتے رہے۔۔۔۔۔۔۔ کماشوں کا تعین بھی ہوگیا اور عام نوجوان کماشوں (جنگی کمانڈر) کے اشاروں کے منتظر رہے۔۔۔۔۔۔۔۔ایک دوسرے کے مورچوں کودوربینوں سے دیکھاجارہاتھا ، دوربین اکثر گھروں کی جانب گھومتے۔۔۔۔۔۔ ایک دوسرے کے گھروں پر نظریں گھاڑی گئیں۔۔۔۔۔۔ عورتوں کو بھی گورا گیا جو عام طورپر قبائلی باہمی احترام کے باعث نہیں دیکھی گئی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ بس طبل جنگ بجنے کی دیر تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نوجوان بندوق سنبھالے ہوئے تھے ، ایک دوسرے کی عام برائیوں کا بھی ذکر شد ومد سے کیاجارہاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔ عام اوقات میں ایک دوسرے کے گھروں میں چوری چھپے جھانکنے ، ایک دوسرے کی چیزوں کی چوری ، پانی کے اوپر مخاصمت اورکھیل کود میں جھگڑوں کو بھی یاد کرکے بدلہ چکانے کے عزم کا اظہارکیاجارہاتھا۔
مشرقی مورچے میں بیٹھا ایک کہہ رہا تھا کہ
یہ گزو عام دنوں میں بڑا پنے خان بنا پھرتا ہے آج مزا چکادینگے اسے
ان میں سے ایک نسبتا نوخیز نوجوان نے کہا!
یہ خیرو بھی آج اپنی گناہوں کا سزا پائے گا جو چھوٹے بچوں کو بہلاپسلا کراپنی ہوس ہوس پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
مغربی مورچے میں بھی یہی باتیں ہورہی تھیں کوئی کہہ رہا تھا کہ عبدو دکاندار نے بھی سود کھا کھا کرہمیں لوٹا ہے آج موقع ہے کہ اسے بھی سبق سکھایاجائے۔
ایک اور نے کہا !
یار یہ چورکے بچے ولو کوتو آج نہیں چھوڑنا ہے اس نے بھی بہت بھیڑ بکریاں چرائی ہیں
ان میں سے مورچے میں بیٹھے نسبتا کاہل اور سست شخص بھی گویا ہوا !
یاروں آج اگر ماں کا دودھ پیاہے تو اسے ثابت کرناہوگا اورآج اس شیرا سے بھی دودوہاتھ کرناپڑیگا جو ہمارے گھروں کی طرف بہانے بہانے سے آکر ہیرو بننے کی کوشش کرتا ہے۔
دونوں طرف سے اپنے عام دنوں کی کارستانیوں اور اس حوالے سے کرداروں کو یادکرکے برسوں کے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کا مصمم ارادہ کرچکے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہر ایک نے اپنے اپنے دشمن ٹارگٹ کئے ہوئے تھے۔۔۔۔ عورتیں جائے نماز کیساتھ لگ گئیں دعائیں مانگنے لگیں۔۔۔ کچھ اپنے مردوں کی کامیابی کی دعائیں مانگ رہی تھیں تو ان میں سے بوڑھی شیرزال عورتیں امن اور خیر کی دعائیں مانگ رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی اثناء میں مشرقی مورچے میں بیٹھے لوگوں پر پڑی جو مشرق کی پہاڑ ی پر بنے مورچوں کی جانب آتے ہوئے دکھائی دیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اور مستعد ہوئے ،کماش نے دوربین نکالی اوران کو دیکھنے لگا کہ یہ کون ہیں جو ان کی طرف آرہے ہیں۔وہ ان کو پہچان گیا یہ گاؤں کے وہ لوگ تھے جومختلف قبیلوں سے رکھتے تھے ان کے ساتھ مسجد کا مولوی بھی تھا اور یہ لوگ ثالثی کے لئے آرہے تھے۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ مورچہ میں پہنچے توان کو بٹھایاگیا احوال کیاگیا احوال میں ان سفید ریش ثالثوں نے اپنا مدعا بیان کیا کہ وہ اس جنگ کو روکنا چاہتے ہیں جو اپنی تک خونی سطح پر نہیں پہنچی۔انہوں نے متنازعہ زمین کا پرامن تصفیہ کرانے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ اب قبائلی روایات کے مطابق ان مورچہ بند لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ایک موقع ہمیں دیں تاکہ مسئلہ کوپرامن حل کرنے کی کوشش کریں اور وہ اس مسئلے کو اگر حل نہ کرسکے تو چیف (تمام قبائل کا سربراہ ) کے پاس لے جائیں گے۔۔۔۔۔۔ جب ان قبائلی معتبر ثالثین میں سے ایک یہ باتیں کررہاتھا تو مورچے میں بیٹھے کچھ نوجوان بڑبڑاتے رہے ،کماش ان کو اشارے سے خاموش رہنے کی تاکید کرتے رہے لیکن وہ برابر بڑبڑاتے رہے اورپر امن طریقہ سے مسئلہ حل کرنے کی کوششوں کو مسترد کرتے رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ثالثوں کی بات سن کر کماش نے ان کو کہا کہ اب ہمارا مسئلہ پہاڑوں پر چڑھنے تک آگیا ہے اب ہمارے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ بغیر جنگ کئے نیچے اتریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔توفورا مولوی نے اسلامی تعلیمات میں سے درگزر اور صلح رحمی کی بات کی۔ مولوی کی بات سن کر کماش نے کہا !
مولوی صاحب آپ کی بات بجا لیکن آپ ہی خطبے میں کہتے ہیں کہ حق کے لئے لڑنا جہاد ہے اور یہ ہمارا حق ہے کہ ہم اپنی زمین پر اپنا حق حاصل کریں۔
قبائلی معتبرثالثین میں سے ایک ماماہدایت جو اس اثناء میں خاموش بیٹھا تھا بولا !
قبائل میں جنگیں ہوتی رہتی ہیں ہم بھی کسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ہمیں ایک دوسرے کی بات پر اعتماد کرنا چاہیے اور مسئلے کو بات چیت سے حل کرنا چاہئے۔
یہ سن کر مورچے میں بیٹھے قدرے پختہ عمر کے ایک شخص نے کہا !
خواجہ پچھلے سال آپ لوگوں کی آپس میں جب جنگ ہورہی تھی تو آپ لوگوں نے ہمارے سفید ریشوں کی بات نہیں مانی اور جنگ ہوکررہی جس میں آپ کا نوجوان لڑکا محمدجان شہید ہوگیا۔ یہ سن کر ماماہدایت نے سردآہ بھری اور کہا!
بیٹا اسی لئے کہہ رہاہوں کہ جو غلطی ہم سے ہوئی وہ تم لوگوں میں سے نہ ہو میں نہیں چاہتا کہ خدانخواستہ اس مورچے میں بیٹھے آپ میں سے شام تک کوئی یہاں موجود نہ ہو۔
یہ سنتے ہی ایک نوجوان نے قدرے جذباتی انداز میں کہا!
کس میں دم ہے کہ ہمارا بال بیگا کرسکے ہم لڑیں گے اور ان بزدلوں (لغوروں ) کو سبق سکھا کر ہی رہیں گے آپ کا بیٹا آپ کے قبیلے کا شہید ہے اور آپ لوگوں کو اس پر فخر ہونا چاہیے۔
ان جذباتی باتوں کو سن کر ماماہدایت غصہ آنے کی بجائے مزید گہرائی میں چلے گئے اور کہنے لگے!
یہ تو مجھے پتہ ہے کہ اسے شہید محسوس کرتے ہوئے بھی میرے آنسونہیں رکھتے اور نہ ہی مجھے قرارآتا ہے۔ماں نڈھال ہے ، بہن بھائی ابھی تک یادکرکے روتے رہتے ہیں۔ میں نے بیٹا پیدا کیاتھا جینے کے لئے میراسہارا بننے کے لئے شہید ہونے کیلئے نہیں ، آج بھی بچپن سے لے کر شہادت تک اس کاایک ایک دن ایک ایک یاد مجھے اچھی طرح یاد ہے ، اسے تو کبھی شہادت کا شائبہ نہ گزرا وہ تو ہمیشہ زندگی سے بھر پور نظرآیا ، وہ اپنے بال وقت کے ساتھ ساتھ فیشن کے مطابق کٹوانے شہر جاتا ، باسکوپ جاتا فلمیں دیکھتا ، کپڑے خرید کر سلواتا ، اپنے ساتھ شہر سے نئی نئی چیزیں لاتا ، مٹھائیوں کا تو اسے بہت شوق تھا ، خود بھی کھاتا گھروالوں کے لئے بھی لاتا ، وہ تو بہت جلد شہر منتقل ہوکرخوب کام کرنا چاہتا مجھے اوراپنی ماں کو شہر میں بساناچاہتا تھا اور اپنی منگیترفضوکو شادی کے بعدشہر اور پارک لے جاناچاہتاتھا زندگی کی خواہشوں اور ضرورتوں کو پوراکر نا چاہتا۔ بیٹا تم سب کو پتہ ہے وہ حسب معمول شہر سے آرہا تھا اس کے ہاتھوں میں میرے لئے ماں بھائیوں بہنوں اورفضو کے لئے خریدی گئی چیزیں تھیں وہ تو یہاں چھڑنے والی جنگ سے بھی بے خبرتھا کہ راستے میں اسے گولیوں کا نشانہ بنایاگیا ، میرے بیٹے کو جب گولیاں لگی ہونگی وہ ضرور یہ سوال کررہاہوگا کہ اسے گولیاں کیوں ماری جارہی ہیں۔
یہ سن کرمورچے میں بیٹھے لوگوں کے چہرے لٹک گئے اور اپنے کماش کو دیکھنے لگے اور صاف لگ رہا تھا کہ سفید ریش کی باتوں نے اثر کیاتھا جس پر کماش گلہ صاف کرتے ہوئے گویا ہوئے۔
ماماہدایت چلو اگر ہم پہاڑ سے اتریں بھی تو کیا گارنٹی ہے کہ ہمارا مسئلہ پرامن حل ہوگا اور دوسرا فریق اس بات کو کیسے تسلیم کریگا۔
مولوی گویا ہوئے ، ہم ان کے پاس بھی اللہ کا کلام لے جائیں گے۔ جس پرماماہدایت نے کہا !
، دیکھو جو باتیں آپ لوگوں سے کہی ہیں وہی باتیں ہم ان کے پاس جا کرکرینگے اور ہمیں امید ہے وہ بھی مان جائیں گے اور جہاں تک پرامن طورپرمسئلہ حل کرنے کی بات ہے تو ہم خون خرابہ سے پہلے ہی اس مسئلے کوبراہ راست چیف کے پاس لے جائیں گے اورجس سے یقین ہے کہ آپ لوگوں کا مسئلہ خون بہائے بغیر حل ہوجائے گا اور ہم آخرتک آپ لوگوں کے ساتھ ہونگے۔
سفید ریش کی باتیں ایک بارپھر اثر دکھاگئیں۔
کماش مڑ کے مورچے میں بیٹھے اپنے لوگوں سے مخاطب ہوا اور کہا !
کہو نوجوانوں کیا خیال ہے سفید ریش ماما ہدایت اللہ کی باتوں پر ایک باراعتبارکرکے دیکھ لیاجائے اور امید ہے کہ وہ ہمیں مایوس نہیں کرینگے یہ سنتے ہی ایک پرجوش نوجوان نے کہا!
فیصلہ تو یہی ہوگا ،یہ لوگ تو فریق مخالف کو بھی یہی یقین دہانی کرائیں گے یہ ہمارے لئے بات نہیں کرینگے
ماماہدایت نے کہا !
فیصلہ تو ایسا ہی ہوتا ہے دونوں کی بات کی جاتی ہے فیصلہ تو حق کی بنیاد پر ہی ہوگا۔ مولوی اور دیگر سفید ریشوں نے بھی اثبات میں سرہلا کر بہ یک زبان کہا !
اللہ نے چاہا تو فیصلہ دونوں کے حق میں بہتر ہی ہو گا۔
یہ سن کر مورچے زن لوگ خاموش ہوگئے لیکن ان میں نسبتا کاہل اور سست جو عام دنوں میں محض چوراہے پر بیٹھ کر لوگوں پر بھپتیاں کھستا رہتا تھا اور لوگوں کی برائیاں کرتا رہتا تھا نے کہا ! آپ لوگوں کی بات اپنی جگہ ،مولوی صاحب بھی ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن یہ جنگ صرف زمین کے اوپر نہیں ویسے بھی اس گاؤں میں مخالفین نے ہمارا جینا حرام کررکھا ہے ، مختلف بہانوں سے ہمیں تنگ کرتے ہیں آج تو ہم سب حساب چکتا کرنے آئے ہیں۔
یہ کہہ کر اس نمکے نے مسئلے کو مزید طول دینے کی کوشش کی اور اس کے علاوہ باقی سب معتبرین کی بات ماننے پر تیار ہوگئے تھے کہ اس نے ان کو
ایک بارپھر بھڑکنے کی کوشش کی۔ایسے لوگ اکثر ایسے موقعوں پر ایسا ہی کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ سن کرماماہدایت نے کہا !
بیٹا باقی مسائل اپنی جگہ لیکن بنیادی مسئلہ زمین کا ہی ہے اگر یہ مسئلہ حل ہوجائے تو پھر کس بات پر آپ لوگوں کی ان سے ان بن رہے گی ؟پھر تو ایک دوسرے کو تنگ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔
یہ سن کر کماش نے کہا : ہمیں آپ لوگوں کی بات پر اعتماد ہے ، لیکن ہم تاحال اپنے مورچے پر بیٹھے رہیں گے جب تک مخالفین اپنے مورچے کو خالی نہیں کرینگے۔
ثالثین اور مولوی کے چہروں پر خوشی کے آثار نمودار ہوئے اور کہا ٹھیک ہے ہم جاکران سے بات کرتے ہیں، یہ کہتے ہوئے یہ لوگ دوسرے مورچے کی طرف بڑھ گئے۔
ان لوگوں کے مورچے سے اترتے ہی کچھ نوجوان بڑبڑاتے ہوئے اٹھے اور کہا!
اگر یہ لوگ ناکام ہوگئے اور مخالفین کی بات مانی گئی تو ہم اس گاؤں کی اینٹ سے اینٹ بجھادیں گے۔ کماش اپنے فیصلے پر دل میں تو خوش تھا لیکن نوجوانوں کے جذبات کے طورپرگویا ہوا
اگر ایسا ہواتو کیا میں تم لوگوں سے پیچھے رہوں گا اور پیٹ دکھا ؤں گا۔
یہ سن کر جذبات نوجوان خاموش ہوگئے اور ثالثین کو دیکھنے کے لئے دوربین کرنے لگے جو مخالفین کے مورچے کو پہنچ گئے تھے۔اور یہ لوگ ان کی حرکت وسکنات کو بھی بمشکل محسوس کررپارہے تھے۔اس اثناء میں ایک آدھا گھنٹہ گزرگیا جس کے بعد انہوں نے دوربینوں سے دیکھا کہ ثالثین اٹھنے لگے ہیں اور ان کے ساتھ مورچے والے بھی اٹھ گئے لیکن ان کی آپس میں کچھ باتیں ہوئیں جس پر صرف مولوی مورچے سے اترتے دیکھے گئے جو تیزی سے اترتے ہوئے مشرق کے مورچے کی طرف بڑھنے لگا تھا اور یہاں پہنچ کر اس کی سانس ہی پول گئی تھی ،بیٹھ گیا اور پانی طلب کی پانی پینے کے بعد کہنے لگا!
وہ بھی پرامن طورپر مسئلہ حل کرنے پر راضی ہوگئے لیکن انہوں نے کہا کہ ہم اور مخالفین ایک ساتھ مورچوں سے اتریں گے اگر ہم ان سے پہلے اترے تو ہمیں لغور(کمزور) سمجھ کر ہمارا مذاق اڑائیں گے قبائلی برابری کے تاثر کو دیکھ کر میں یہاں آیا ہوں اور اب میں ان کو اشارہ کروں گا اور وہ بھی ہمارے ساتھ ساتھ وہاں کے مورچے سے اتریں گے۔
مولوی نے بھی مورچے والوں کواتاردیااور کہا کہ دودن کی جنگ بندی کا فیصلہ بھی ہوا ہے، مغرب کی نماز پر یہ فیصلہ ہوگا کہ مسئلے کو کب اورکیسے چیف کے پاس لے جانا ہے اور آپ لوگ فی الحال مسجد نہیں آئیں گے۔ ثالثین کا جوبھی فیصلہ ہوگا اس سے آپ لوگوں کو آگاہ کردیاجائیگا یہ کہہ کروہ چلاگیا۔اگلے روز ثالثین گاؤں کے مشرق کی طرف آئے اور کہا کہ چیف کے فیصلے تک یہ جنگ بندی رہے گی اس کے بعد جنگ بندی اور باقی فیصلے کا اعلان چیف کرینگے ، ہم دودن بعد مسئلے کو چیف کے پاس لے جائیں گے اور آپ لوگوں میں سے پانچ لوگ بھی آئیں گے اور فریق دوئم کی طرف سے بھی پانچ لوگ آئیں گے ابھی تک مسئلہ اس قدر گھمبیر نہیں کہ تم لوگ ساتھ نہ آسکو تم لوگوں کیساتھ چل کر مسئلہ
چیف کے سامنے رکھا جائیگا۔
بالآخر دودن بعد طے شدہ فیصلے کے مطابق ثالثین اور دونوں فریقین کے منتخب لوگ چیف کے پاس پہنچے ، وہاں چیف کے پاس کافی رش تھا ،اوتاخ میں تل دھرنے کی جگہ ہی نہیں تھی۔صحن بھی کچا کچ بھرا ہواتھا بلکہ باہر گلی میں بھی لوگ جمع تھے ، ثالثین میں سے کچھ اندر گئے اور چیف سے اپنا مدعا بیان کرنے کے لئے وقت مانگا تو چیف کے ایک نائب نے انہیں باہر انتظارکرنے کو کہا ، یہ لوگ باہر آئے اورایک گھٹنے تک انتظار کرتے رہے لیکن ان کی باری نہیں آئی ثالثین میں سے دوبندے پھر اندر گئے اور تھوڑی دیر بعد واپس آئے اور کہا کہ ہمیں ایک دن پہلے وقت لینا تھا، پہلے سے آئے ہوئے لوگوں کو سننے کے بعد ہماری باری آئے گی اب مزید انتظار کرنا ہوگا ، دونوں فریق ایک دوسرے سے الگ الگ بیٹھے انتظارکررہے تھے ،رش بھی کافی کم ہوچکا تھا نائب نے انہیں اندرآنے کوکہاوہاں جا کر دیکھا کہ کبڑا چیف بالشت کے اوپر بیٹھا کافی تھکا ہوا لگ رہا تھا۔اس کے ہاتھ میں رومال تھا جسے بارباراپنے بڑے بڑے مونچھوں پرپھیررہا تھا۔
ثالثین اور فریقین سے بلوچی حال احوال کیا جس میں ثالثین نے مسئلہ بھی تفصیل سے بیان کیا جس پر کبڑے چیف نے استفسار کیا !
زمین کے کچھ ثبوت ہیں کسی فریق کے پاس ؟ کوئی دستاویز یا کوئی تعمیر اور رہائش وکاشتکاری کے نشانات ؟
ماماہدایت نے کہا !
چیف صاحب یہی تو مسئلہ ہے کہ یہ زمین ویران پڑی ہے یہ دونوں اس گاؤں میں رہتے ہیں جہاں شمال مغرب میں یہ زمین پہاڑی کیساتھ منسلک ہے اور یہ دونوں دعویدار ہیں کہ ان کے دادا پرداد اس زمین پر رہتے آئے ہیں اور ان کی یادیں ہی اس زمین پر دعویداری کا ثبوت ہیںِان کا قبرستان ہے۔یہ سن کر چیف سردار نے ہونٹوں پر ہلکی سے مسکراہٹ سجائی اور کہا !
اگر ان باتوں پرمیں یقین کروں تو میرے دادا پردادا نے ایسے کہیں جگہوں پر پڑاؤکیا ہے ، شادیاں کی ہیں ،خان آف قلات کے حکم پر جنگیں لڑنے کے لئے شمال میں قندھار تک مشرق میں جیکب آبا دتک ا ور جنوب میں لسبیلہ تک گئے ہیں ، میری دادیوں نے ان جیسی جگہوں پر بچے جنے ہونگے۔ کیا تم لوگ میرے اس دعوے کو سچا ثابت کرنے کیلئے میراساتھ دوگے۔اگر پڑاؤڈالنے پر زمین کی ملکیت پر وراثت ملتی تو میں آدھے بلوچستان کا وارث ہوتا۔ہم نے یہ زمین جس پر ہم رہ رہے ہیں خون دے کر اور خون لے کر حاصل کیا ہے اور باقی بلوچستان کا حصول بھی خون سے عبارت ہے۔
چیف کی یہ باتیں تیر کی طرح فریقین اور ثالثین کو لگتی رہیں ‘چیف یہ سب کہتا رہا اور فریقین کی پیشانیوں میں بل پڑتے گئے اور ان کے چہرے سرخ ہوتے گئے کیونکہ چیف سردار ان کی تضحیک کررہاتھا جس زمین کو یہ اپنے باپ دادوں کی حسین یادوں سے مزین کرکے سینے سے لگائے اس کے حصول کے لئے سروں کی قربانی کے لئے کٹ مرنے کے لئے تیارتھے اور چیف انتی آسانی سے ان کی تضحیک کئے جارہاتھا تاہم قبائلی آداب ملحوظ خاطرتھے اور پھر وہ بپھر ے نوجوان بھی یہاں نہیں تھے۔
چیف سردار کی باتوں پر سب خاموش تھے ایک سکوت طاری تھا چیف نے تو ان کے دعوؤں کو ملیا میٹ کردیا تھا اور الٹا ان کی باپ داداؤں کی حسین یادوں کو اپنی تضحیک اور طنز کانشانہ بنایاتھا ، سب دل ہی دل میں چیف کے اس روئیے پرخائف ہورہے تھے ، فریقین کی حالت تو دیدنی تھی جو سرجھکا کرنرم اور نازک قالین میں انگلیاں پھیر رہے تھے ، ثالثین بھی ہمہ تن گوش تھے لیکن چہرے کی سرخی بتا رہی تھی کہ چیف نے ان کی توقعات پر پانی پھر دیاتھا لیکن پھر سرداروں کی محفلوں میں عام قبیلوں کی ایسی تضحیک کو معمول خیال کرکے اس انتظار میں تھے کہ چیف سردار اپنا آخری کیا فیصلہ دینگے کیونکہ سرداربالشت پر بیٹھ کرتضحیک پر تضحیک کئے جارہاتھا تاہم کبڑا چیف اب جو بات کہنے والاتھا جو ان سب کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔جب چیف سردار اپنی تمام تضحیک آمیز جملے بول گیا تو قدرے سنجیدہ ہوکر فریقین اور ثالثین کو مخاطب کیا
اور کہا !
زمین کے لئے کچھ تو ثبوت چاہئے ہونگے ایسا فیصلہ کیسے ہوسکتا ہے ؟اگراور کوئی ثبوت نہیں تب خونی ثبوت لاؤ۔۔۔۔ مرو اورمارو تب میرے پاس آؤ تاکہ میں کسی فیصلے کی پوزیشن پر آسکوں۔
یہ سن کر چیف اٹھ کردوسرے کمرے میں چلا گیا۔ یہ اس بات کا اظہار تھا کہ اپنا حق ملکیت جتانے کیلئے خون دو اور لو کا فارمولہ اپناؤ۔
ثالثین ہکابکا رہ گئے اوردبے پاؤں اٹھ گئے لیکن فریقین اپنے پٹوؤں کو ترندی سے جھاڑتے ہوئے اٹھ گئے ،انہیں چیف کی تضحیک آمیز باتوں نے طیش دلایاتھا اورفیصلے تک پہنچنے کے لئے راستہ چننے کا اشارہ بھی دیاتھا۔ جب یہ طیش طاقتور کی طرف سے دی جائے تو غصہ اس پر نہیں آتا بلکہ اپنے جیسے کمزوروں پر آتا ہے جیسا کہ مشہور مقولہ ہے کہ طاقتورکو دیکھ کر مجھے غصہ نہیں آتا اور کمزورکو دیکھ کر میرا غصہ نہیں جاتا۔ اس کیمصداق فریقین ثالثین کو وہی چھوڑ کر کس برق رفتاری سے گاؤں پہنچے تھے کہ ثالثین کے پہنچے تک مورچے دوبارہ سنبھالے گئے تھے گاؤں میں یہ بات پہنچ گئی تھی کہ چیف نے اپنی دانش مندی سے کیا پیغام دیاتھا اوروہ پیغام صاف تھا کہ جنگ اور بس جنگ ہی فیصلہ کریگا‘ گلیاں سنسان ہوگئیں ، عورتیں صورتحال کو دیکھ کر سم گئی تھیں ، ماحول کودیکھ کر چھوٹے بچے رونے لگے تھے ،بھیڑ بکریوں نے بھی حالت بھانپ لئے تھے کہ ان کے چہروں سے بھی خوفناک صورتحال کا اندازہ لگایاجاسکتاتھا ، طبل جنگ بچ چکا تھا ،کان جنگ کا آغاز کرنے والی آواز کے منتظر تھے کہ وہ آواز بھی فضا میں گونجی جس سے فضاء بندوق کی آواز سے تھرتھر کانپنے لگا ، دونوں طرف سے فائرنگ شروع ہوئی ، ثالثین کو مورچوں تک پہنچنے کا موقع ہی نہیں ملا کہ غیرت اور حمیت کی جنگ نے اپنے تقاضے پورے کئے تھے اور گولیاں تیزی سے چلنے لگیں ، دیگر قبائل کے لوگ تیزی سے گاؤں کے جنوب کی طرف نکلنے لگے ،عصر کے وقت جاری لڑائی رات کی تاریکی تک جاری رہی ، پھر آہستہ آہستہ گولیوں کی آواز تھمنے لگی ، رات خود ایک وقفہ ہے جاری زندگی کا تب فضاء خاموش ہوگئی ثالثین کو لگا یہ وہ مناسب وقت ہے کہ مورچوں پر جاکر ایک بارپر جنگ بندی کی کوشش کریں تب ماماہدایت سمیت کچھ سفیدریش جمع ہوگئے اور مشرق کی جانب قائم مورچے کی جانب بڑھے جونہی وہ مورچے کے قریب پہنچے تو انہیں وہ آوازیں سنائی دیں کہ ان کے لئے واپس جانا ہی بہترٹھہرا۔ مورچے سے آوازیں آرہی تھی کہ خیرو اور ہدو مارے گئے ہیں اور رحیم سمیت پانچ لوگ شدیدزخمی ہیں ، کماش کہہ رہاتھا کہ لاشوں اورزخمیوں کو گھروں میں منتقل کرواور کچھ لوگ میرے ساتھ چلو ان کے گھروں پر حملہ کرکے صبح تک بدلہ چکانا ہے۔ نوجوان جو انتہائی مشتعل تھے بیس سے پچیس نوجوان کماش کے ساتھ ہولئے ،دوسری طرف بھی یہی صورتحال تھی وہ بھی اپنے زخمی اپنے گھروں کولارہے تھے اور بدلے کی نیت لئے مشرق کی جانب آرہے تھے کہ راستے میں مڈبھیڑ ہوگئی اور گھمسان کی لڑائی شروع ہوئی جس سے گاؤں گولیوں کی آواز سے پھر سے تھر تھر کانپنے لگا ، اندھیرے میں کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کون کہاں گولیاں چلارہاتھا بس ہر ایک کو اپنی گولیاں چلانی تھی۔ کافی عرصہ تک فائرنگ جاری رہی ، بالاخر صبح صادق کونماز کے بعد معتبرین نے پھر سے گاؤں کا رخ کیا ‘ جب مسجد سے ملحق گاؤں کی گلی میں داخل ہوئے تو انہیں لاشیں ہی لاشیں نظر آئیں ان کے قدم بھی تیز ہوگئے ، تیزی سے آگے بڑھے اور لاشیں پڑھی ہوئی ملیں ،جب وہ کچھ دور مغرب کی طر ف گئے تو دوسرے فریق کی لاشیں بھی پڑی ہوئی ملیں ،عورتیں بھی گھر سے نکل گئیں او ربین کرناشروع کردیں جو بچے کچے مسلح لوگ تھے وہ پہاڑوں میں غائب ہوگئے تھے۔سفید ریشوں نے لاشیں اٹھانے کا بندوبست کیا ‘دونوں طرف سے سات سات لوگ شہید ہوگئے تھے۔صبح کبڑے چیف تک خبر پہنچی تو وہ فورا گاؤں پہنچا۔کبڑے چیف کی آمد کیساتھ ہی گاؤں شانت ہوگیا۔ایسا سکوت جیسا کہ شدید درد کے بعد جسم کو سن کردیاجائے۔یہ سکوت کبڑے چیف کے فلسفے پر عملدرآمد کاکے سبب تھا۔
تیسرے دن جب رسم سوم منایاجارہا تھاتو چیف نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے زمین تقسیم کردی ہے ‘فیصلے کے مطابق زمین دونوں قبیلوں میں برابر تقسیم ہوگئی ہے‘چونکہ لاشیں بھی دونوں طرف سے برابر گرائی جاچکی تھیں سو قبائلی روایات کے مطابق ان کو بھی برابر قراردے کر معاملہ نمٹادیاگیا ہے۔لاش کو لاش سے نفی کیاگیاباقی بچا صفر۔
چودہ اجڑے گھر شہید کا لقب ماتھے پر سجائے اندر سے خون کے آنسورورہے تھے۔ہدو اور خیرو کی نئی نویلی دلہنیں زندگی بھر کے لئے شہید کی بیوائیں قرارپاچکی تھیں جبکہ زمین اور لاشوں کو برابر تقسیم کرکے کبڑا چیف اپنی ذہانت کا داد وصول کررہاتھا۔