جمعرات، 14 جولائی، 2016

چاردیواری ۔۔۔۔ تحریر : زرک میر



دشت کا علاقہ ہے ‘بہار کا موسم ہے ‘ہرطرف ہریالی ہے ‘خانہ بدوش دشت کے دامن میں تیزی سے آکر پڑھاﺅ ڈال رہے تھے ‘صبح فجر کے وقت پڑھاﺅ ڈالنے والے آگے سفرکو بڑھنے لگتے سامانوں سے لدے اونٹ اور گدھے قطارمیں روانہ ہوتے ‘ کتے بھی زبان لٹکائے اونٹوں کے پیچھے پیچھے چل دیتے۔ پرانوں کے جانے کے بعد نئے قافلے آکر پرانے پڑھاﺅ ( ھنکین) کی جگہ نیا پڑھاﺅ ڈالتے‘ شازو کا باپ دشت کا زمیندار تھا وہ ہر موسم میں دشت میں ہی رہتا تھا ‘گھر میں کچھ بنیادی سہولیات میسر تھیں ان سہولیات میں گھر کا چھت بھی شامل تھا جو پاوالی لوگوں کے پاس نہیں تھا۔شازوہرنئے قافلے کے پیچھے ہولیتی جو دشت کے دامان میں ان کے گھر سے کچھ دور پڑھاﺅ ڈالتا۔خانہ بدوشوں کو مستقل آبادیوں اورفصلوں سے دور جاکر پڑھاﺅ ڈالنا ہوتاتھا سو شازو اودیگر بچے ان قافلوں کا پیچھا کرتے ان کی عورتوں بچوں کو دیکھتے جو بولان کا طویل سفر طے کرکے دشت پہنچے تھے ‘جو تھکن سے چورلگتے تھے ‘ہونٹ ایسے خشک کہ لگتاتھا کہ پانی کا بوند کہیں عرصے سے حلق سے نہ گزرا ہو ۔ان خانہ بدوشوں کے بزرگ جن میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں پہلے سے بنے پڑھاﺅ کی جگہ صاف دیکھتے یاپھر شتر بانوں کو ان منتخب جگہوں پر اونٹوں کو لے جانے کا کہتے ‘اونٹوں کا قافلہ اس جگہ پہنچتا اورشتربان ان اونٹوں کوبٹھانے کی کوشش میں جت جاتے کیونکہ اونٹ ایک تو طویل سفر سے آئے اور ان پر کافی سامان لدا ہوتو اسے بٹھانا ایک مہارت کاکام ہے اونٹ پر جب سامان لادا جائے یا پھر اتارا جائے یا بیٹھے اونٹ کو اٹھایا جائے یاپھر بٹھایاجائے تو یہ بڑی فریاد کرتا ہے‘اس فریاد میں اونٹوں کی منہ سے جاگ نکلنے لگتا اور ان کی زبان باہر لٹکنے لگتا شازو یہ دیکھ کر بڑا محظوظ بھی ہوتی اور اونٹوں پر رحم بھی آتا۔خواتین اور مرد مل کر سامان اتارتے ‘بچے ‘مرغیاں ‘میمے میمنیاں سب گدھوں پر بندھے ہوتے ان کو بھی اتاراجاتا ‘خانہ بدوش بچے حیران ہوتے کہاں آگئے لیکن حیرانگی سے زیادہ تھکاوٹ اور مسلسل سفرسے وہ بھی شل ہوچکے ہوتے لیکن شازو جیسی دیگر بچیوں کو دیکھ کر وہ سہم جاتے ۔شازو ان بچوں کے لئے گھر سے کچھ نہ کچھ ضرور لے آتی اور ان کو بانٹ دیتی یہ دیکھ کر ان کے ہونٹوں پر ہلکی سے مسکراہٹ آتی جس سے شازو خوش ہوجاتی ۔خانہ بدوشوں کی خواتین اور مرد شازو اور ان جیسی بچیوں اور بچوں کو دیکھ کر کچھ غوربھی نہیں کرتے کیونکہ ایک تو سفر کا تھکان اور پھر یہاں پڑھاﺅ ڈالنے کے ساتھ ہی ان کو اب پانی اور کھانا پکانے کے لئے لکڑیوں کا بندوبست کرنا تھا ۔ عورتیں جلدی جلدی مشکیزوں کو نکالتیں اوران میں سے کچھ پانی کے لئے شازو کے باپ کے ٹیوب ویل کی جانب جاتیں شازو بھی ان کے ساتھ ہولیتی اورراستے میں ان سے پوچھ بیٹھتیں ۔
شازو: تمہارا نام کیا ہے ؟
ان میں نسبتا بڑی عمر کی لڑکی کہتی ہے ‘ شانتل
شازو: تم لوگ کہاں سے آرہے ہو؟
شانتل: ہم کچھی سے آرہے ہیں
شازو: راستے میں کتنے دن لگے
شانتل: پانچ دن لگے
شانتل بات کرنے کے موڈ میں ہی نہیں تھی لیکن شازو کا تجسس تھا کہ بڑھتا جارہاتھا اور سوال پر سوال پوچھے جارہی تھی اورپھر پاوالی لوگ عام لوگوں سے اتنی جلدی کھل کر بات بھی نہیں کرتے ان کی اپنی الگ ہی دنیا ہے ‘شازو کے تجسس اور اصرار پر شانتل مختصر جواب دیتی رہی ۔
شازو: پانچ دن پیدل آئے ہو یہاں تک ؟
شانتل: ہاں اورہر سال ہم جاتے بھی پیدل ہیں اور آتے بھی پیدل ہیں ۔
شازو: تم لوگ تھکتے نہیں ہو‘شازو کا سوال انتہائی معصومانہ اور شانتل کے لئے اس کے درد کا احساس جگانے کیلئے کافی تھا ۔
شانتل نے پانی کیلئے اٹھائے کین کو سیدھے بغل سے اتارکر الٹے بغل میں دبا کر گویا ہوئی
اب ہم بھول چکے ہیں کہ تھکاوٹ کیا ہوتی ہے ‘ہم زندہ ہی اس پیدل چلنے کی وجہ سے ہیں اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہمارے (سا دار)بھیڑ بکریوں کا کیا ہوگا وہ تو بھوک سے مرینگے اور ہم بھی مر جائیں گے ۔
شازو کچھ افسردہ ہوئی پھر سوال کر گئی
راستہ میں کہاں کہاں رکھتے ہو؟
شانتل: جب بولان میں داخل ہوتے ہیں تو ہمیں اس درمیان میں پانچ دن لگ جاتے ہیں ڈھاڈر ‘دربی ‘ گوکرت درنجن ‘ کڑتہ ‘بی بی نانی پیر غائب آب گم مچھل ہیرونک ‘ہرک دزان کولپور سے ہوتے ہوئے دشت پہنچتے ہیں ۔ اب تو یہ سفر مزید آگے ہوگا ہمیں سرلٹھ جانا ہے
شازو اس طویل سفر پر حیران ہوکر پوچھیں، شانتل پھر کب واپس لوٹ آﺅگی ؟
شانتل نے کہا، پھر سہیل (ستمبر )میں واپس کچھی جائیں گے ؟
شازو: پھر اسی راستے سے جاﺅگی
شانتل: ہاں
شازو نے پھر پوچھا
بولان میں آتے ہوئے ڈر نہیں لگتا‘ویرانی ہے ‘گہرا پانی ہے ‘خوفناک پہاڑ ہیں ‘جنگلی جانور بھی ہونگے ‘ڈاکواورچوربھی راستے میں ہونگے ‘ایک طرف سڑک ہے گاڑیاں ہیں لوگ ہیں ‘ تم کیسے چلتی ہوگی سڑک کے ساتھ ساتھ ۔رات ہوتی ہے تو تم کیا کرتی ہو۔
شانتل: ہم اب بولان کے باسی ہیں یہ ہماری گزرگاہ ہے‘اب تو جنگلی جانور اور ہم میں کوئی فرق بھی نہیں ،وہ ہم سے نہیں ڈرتے ہم ان سے نہیں ڈرتے ،بولان میں ویرانی نہیں ہوتی میرے ساتھ میرا پورا خاہوت (خاندان ) ہوتا ہے ‘ہمارے پاس کیا ہے جو چورڈاکو ہمیں لوٹنے آئیں گے ،ہم سڑک کے کنارے بھی چلتے ہیں لوگ ہمیں دیکھ کر کیا کرینگے ؟ہم شوہان لوگوں کو کون گھورتا ہوگا ،بولان میں جہاں رات ہو ہم پانی کے پاس پڑھاﺅ ڈالتے ہیں ،اس گہرے پانی سے پانی پیتے ہیں ‘کبھی بارش ہوتی ہے تو ہم پہاڑوں کے غاروں میں جاکر سوتے ہیں ،تلخ کہواہ چائے پیتے ہیں چاول وغیرہ پکاکرکھاتے ہیں ،رات خاموش ضرور ہوتی ہے لیکن اس سے ڈرنہیں لگتا بلکہ آسمان اور تارے صاف دکھائی دیتے ہیں ۔صبح پھر سے سامان سمیٹ کر اونٹوں پر لاد کر سفرپر روانہ ہوجاتے ہیں جہاں رات ہوئی وہاں بسیرا کیا اور صبح چل دیئے یہی ہماری زندگی ہے ۔
شازو: ۔تمہیں گھر نہیں ہے ہمارے دشت میں گھروں کو دیکھ کر کیا محسوس کرتی ہو؟
شانتل: تم لوگ زمیندار ہو ہم شوہا ن ہیں ‘ ہمیں ایسا گھر کیسے مل سکتا ہے ؟اور ہم ایسے گھروں میں رہیں گے تو ہمارے مال و کُر(بھیڑبکریوں) کا کیا ہوگا؟ہمیں تو کچھی پا خراسان سفرکرناہوگا۔
شازونے جھٹ سے کہا
میری شادی کوئٹہ میں ہورہی ہے وہاں سریاب میں میراپکا گھر ہوگا ۔دشت سے بھی میری جان چھوٹ جائے گی ،وہاں میں بازار جایا کرونگی وہاں طرح طرح کے لوگ ہونگے ، میرے بہت ساری سہیلیاں ہونگی ۔ یہ کہتے کہتے شازو بہت محظوظ ہورہی تھی جبکہ شانتل حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سوچ رہی ہے کہ اسے دشت جیسا گھر نصیب نہیں دیکھو شازو کتنی خوش قسمت ہے دشت سے کوئٹہ جائے گی اور ایک ہم ہیں کہ ہمیں دشت میں بھی گھر میسر نہیں بلکہ کہیں بھی ہمارا مستقل گھر نہیں ۔
باتوں باتوں میں ٹیوب ویل آگیاتھا
شازو نے ایک اور سوال پوچھا !تمہاری شادی نہیں ہوئی ؟
اس سوال پر شانتل نے شرما کے دوپٹے سے اپنا چہرہ چھپا لیا جس پر دوسری بچی نہیں کہا
منگنی ہوگئی ہے ہوسکتا ہے اس بار سرلٹھ میں شانتل کی شادی بھی ہوجائے
اس پر شانتل نے اس بچی کو ہلکاسا تھپڑ رسید کیااور کہا خاموش ہوجاﺅ
جس پرسب لڑکیاں کھل کھلا کر ہنسنے لگیں۔
تم لوگ پانی بھرو میں آتی ہوں ۔یہ کہہ کر شازو بھاگتی ہوئی گھر گئی اور تھیلے میں کچھ چیزیں جلدی سے ڈال کر واپس آئی
شانتل اور دوسری بچیاں اپنے کین پانی سے بھر چکی تھیں اور جانے کے لئے تیارتھیں شازو نے تھیلا شانتل کو دیا
شانتل نے کہا، یہ کیا ہے ؟
شازو نے کہا، بسکٹ اور کچھ ٹافیاں ہیں تم لوگ کھا لینا ۔شانتل نے منع کیا لیکن شازو نے سختی سے کہا، یہ میری طرف سے مہمانی ہے ۔
وہاں کھڑے کھڑے شانتل اور شازو نے ڈھیر ساری باتیں کیں اور پھر شانتل اوروہ لڑکیاں رخصت ہوکر چلی گئیں اور یہ شازو او رشانتل کی آخری ملاقات تھی کیونکہ ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں ‘کل صبح شانتل والوں کو جانا تھا اورجب شازو نیند سے اٹھ چکی ہوگی تو شانتل والے چلتن کے قریب پہنچ چکےہونگے یہ سوچ کر شازو بڑا دکھی ہوا اور شانتل کو جاتے دیکھ کراس کے آنسو نکل آئے تھے کیونکہ شانتل نے بھی مسلسل پیدل سفر بولان میں پڑاﺅ تھکاوٹ سے ناآشنائی کی وہ داستان بیان کی جو شازو پراثرکرگئی تھی کیونکہ یہ ہر ایک خانہ بدوش لڑکی کا قصہ تھا یہ اس کا طرز حیات تھا سفراور مسلسل پیدل سفر ۔اور شانتل بھی وہ لڑکی تھی جو شاہد اگلی دفعہ اس خاندان کیساتھ یہاں سے نہ گزرے بلکہ اس کی شادی ہوچکی ہوگی اور وہ اپنے نئے خاندان کیساتھ یہاں سے گزرے اور نئے احساسات کیساتھ گزرے ۔
شازو کافی دیر تک شانتل کے بارے میں سوچتی رہی کبھی کھبی اپنے گھر سے باہر نکل کر شانتل کے گدان کی طرف دیکھتی توگپ اندھیرا ہونے کی وجہ سے اسے جلتی ہوئی آگ کا الاﺅ نظرآتااور کچھ نہیں ۔وہ سوچ رہی تھی کہ وہ اب کبھی شانتل کو نہیں دیکھ پائے گی لیکن اس کی یہ اداسی صبح تک تھی کیونکہ صبح شانتل گئی ہوگی تو اس کے جگہ پر ایک نیا خاندان آگیا ہوگا جس میں ضرور کوئی شانتل ہوگی ۔
شازو ان شانتل نما لڑکیوں کے حالات زندگی سن سن ان کے بے گھر ہونے پرافسوس تو کرتی لیکن خود اپنے دشت والے گھر اور پھر شادی کے بعد کوئٹہ والے گھر کے بارے میں سوچ سوچ کر خوش ہوتی رہتی تھی۔اگلے سال ہتم(موسم بہار) آیا تواس کی شادی مانگی گئی اسے بہت خوشی ہورہی تھی اب وہ بڑی ہوگئی تھی ہنکین کے پاس تو نہیں جاسکتی تھی لیکن ٹیوب ویل پر اور باغ وکھیتوں میں یہ خانہ بدوش لڑکیاں جب آتیں تو یہ ان سے وہی سوالات پوچھتیں جو شانتل سے پوچھے تھے وہی جواب ملنے پر یہ مزید گہرائی میں جاتی اور اس پر خاموشی چھاجاتی ۔وہ ان خانہ بدوش لوگوں کی محرومیوں کو دیکھ کر دل ہی دل میں روتی رہتی اور سوچتی یہ کیسے لوگ ہیں ان کی زندگی میں کوئی رنگ بھی ہے کہ نہیں ۔اور وہ جسے دشت میں بھی ان پاوالیوں سے زیادہ سہولیات میسرتھیں اس کا باپ اس کے لئے کپڑے لاتا کھانے کے لئے مٹھائیاں اور ٹافیاں لاتا ایسی خوشی پاوالی لڑکیوں کو کہاں نصیب تھیں اب جبکہ شازو بیاہاکرشہر جارہی تھی تواسے پکایقین تھا کہ وہ شہر جاکر اور خوشیاں حاصل کریگی ‘ دشت سے زیادہ سہولیات اسے ملیں گی ‘شہر میں گھومے گی پھرے گی جبکہ ان پاوالیوں کو دشت جیسی سہولیات بھی میسر نہیں ۔
جب اپریل بھی گزرگیا تو شازو کی شادی کی تاریخ طے ہوگئی، وہ اپنی شادی پر بہت ہی خوش تھی ۔اسے بیاکر کوئٹہ لایاگیا‘ دشت سے بڑا اور پکا گھر ‘شازو کا کمرہ الگ ‘ کمرہ سامان سے بھرا ہوا ‘گھر میں رنگ وروغن ایسا کیاگیا تھا کہ شازو کو لگا کہ وہ میدان سے اٹھ کر محل میں آگئی ہے ‘ شوہر بیبرگ سیکرٹریٹ میں سرکاری ملازم تھا۔اس کی ماں دودن رہنے کے بعد واپس دشت چلی گئی اور شازو اپنے گھر میں خود کوملکہ کی مانند تصور کرنے لگی تھی ‘گھر میں ٹی وی اور کیبل پر گانے سنتی، بیبرگ بھی شازو سے پیار کرتا تھا لیکن شازواس انتظار میں تھی کہ کب یہ اپنے گھر سے باہرنکل کردیکھ سکے گی، یہاں کے لوگوں سے کب ملے گی یہ لوگ کیسے ہیں کیساعلاقہ ہے اور کوئٹہ کا بازاردیکھنے کا تو اس کا بڑا من کررہاتھا لیکن یہ کیا یہاں کوئی بھی عورت باہر نہیں نکل رہی تھی سب گھر میں ہی رہتیں ۔شازودن بھر کام کرنا لیکن اس کے باوجود وہ گھر سے باہر اب تک قدم تک نہیں رکھ چکی تھی‘ اس کا گھر کس گلی میں ہے کیسے لوگ یہاں رہتے ہیں ۔ بالآخر ایک دن بوریت کے مارے بیبرگ سے کہا
مجھے کب باہر گھمانے لے جاﺅگے ؟ مجھے یہ علاقہ دیکھنا ہے بازار بھی جانا ہے ۔
بیبرگ جو ابھی ابھی باہر سے کمرے میں داخل ہوا تھا شازو کی بات سن کر فورا بولا
کیا کہا تم نے شازو ؟ تم گھر سے باہر کیوں جانا چاہتی ہو؟
شازو نے کہا یونہی میں نے سنا ہے کہ کوئٹہ میں عورتیں اپنے لئے کپڑے اور دیگر سامان خریدنے جاتی ہیں ، پارک جاتے ہیں مجھے بھی جانا ہے ایک مہینہ ہوا ہے گھر سے نہیں نکلی ہوں
بیبرگ کا یہ سن کر چہرہ شکن سے بھرگیا اور غصے میں کہا
تمہیں شاہد پتہ نہیں دو ہفتے پہلے کچھ عورتیں شاپنگ سینٹر گئی تھیں ان پر تیزاب پھینکا گیا ہے وہ جھلس گئی ہیں اب یہاں سے کوئی عورت گھر سے باہر نہیں جائے گی اور ویسے بھی گلی میں سب اس انتظار میں ہیں کہ کب بیبرگ کی نئی نویلی دلہن نکلے اور ہم اس کو دیکھیں ۔ یہ سب بیروزگار لڑکے گلی میں اسی آسرے پر پڑے رہتے ہیں ۔نابابا نا ہمارے گھر سے تو کوئی عورت باہر نہیں جائے گی اور خاص کر تم تو بالکل نہیں نکلوگی۔ لوگ کیا کہیں گے کہ وہ دیکھو بیبرگ کی بیوی جارہی ہے اور بازار کے بارے میں سوچنا بھی نہیں ۔یہاں نیا مولوی آیا ہے وہ کہتا ہے کہ تمہاری عورتیں جب باہر جاتی ہیں تو ان پر جن جن کی نظر پڑتی ہے وہ سب گناہ تم لوگوں کے ہی حصے میں آئیں گے ۔ویسے بھی باہرمیری عزت ہے تم گھر میں میری عزت رکھو گی تو باہر لوگ میری عزت کرینگے ۔یہاں ہمارے قبیلے کے لوگ نہیں رہتے یہاں ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں یہ دشت نہیں کہ باہر نکلو تو ماما چچا چچی اور رشتہ داروں کے گھر ملیں گے تمہیں ۔دشت سے تمہیں بیاہ کرلایا تھا کہ تم سیدھی سادگی سی لڑکی ہوگی باہرنکلنے کا سوچوگی بھی نہیں لیکن تم ہوکہ باہر جانے کا سوچتی ہو۔
کئی دفعہ شازو کے پلٹ جواب پر بیبرگ شازو کو تھپڑ رسید کردیتا ۔
شازو یہ سن کر بہت ہی افسرداہ ہوئی کہ وہ کیا سوچ کر خوش ہورہی تھی کہ وہ اب دشت بیابان سے شہر میں آئی ہے اب گھومے گی پھرے گی ۔بازار جائے گی لیکن یہاں تو اس سے پردہ کروایاجارہاہے عزت کا سارا بوجھ اس کے کاندھے پر لادھا جارہا ہے ۔ایک مہینے سے وہ چار دیواری سے آسمان کو دیکھنے کے علاﺅہ کچھ دیکھ نہیں پارہی تھی وہ دشت کی کھلی فضاء‘اس کی ٹھنڈی ہوا لیکن یہاں تو ہزار فٹ کے صحن میں اس کا دم گھٹا جارہاتھا ۔یہ دیکھ کروہ سوچنے لگی کہ وہ کتنی پاگل تھی کہ خانہ بدوش لڑکیوں کی مسلسل پیدل سفر تھکاوٹ اور تلخ چائے پر جینے پر افسردہ ہوتی تھی لیکن اب وہ محسوس کرتی ہے کہ وہ خودقید بن کررہ گئی ہے ‘پاوالی لڑکی کو اگر گھر کی سہولت نہیں تو کیا ہوا؟ سال میں دوباربولان کا تین دن تک سیر توکرتی ہے‘ایک ایک جڑی اور بوٹی کو دیکھ آتی ہے ‘بولان کے میٹھے بہتے پانی سے پیاس بجھاتی ہے ‘اس پانی سے بھیگتی ہیں کھیلتی ہیں ننگے پاﺅں چلتی ہیں ‘پانی بھرتی ہیں یہ ایک دوسرے پر پانی پھینکتی ہیں ‘پھر رات کھلے آسمان تلے سوتی ہیں پھر صبح روشنی پڑنے سے پہلے اٹھتی ہیں کیا منظر ہوگا ؟کیا مستی ہوگی اس وقت کی ؟جب شانتل بولان میں صبح چڑیوں کی چہچہاہٹ سے اٹھ بیٹھتی ہو گی اور انگڑائی لے کر آسمان کی طرف نگاہ ڈالتی ہوگی اور پھربہتے پانی کی موسیقی سے لطف اندوز ہوتی ہوگی اور اس ٹھنڈے پانی سے گونٹ گونٹ پانی پیتی ہوگی اور پھر چارسو نگاہ پھیل کر دیکھتی ہوگی جہاں ہرطرف سبزہ اور پانی ہی پانی نظرآتا ہو ‘پانی ایسا صاف کہ اس میں شانتل کو اپنے بکھرے بال بھی سنوارنے کا خیال آجائے تب یہ اپنے چہرے پر بولان کے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے بوند ڈالتی ہوگی اوراس کا چہرہ ٹھنڈک سے کھل اٹھتاہوگا اور اس کی غنودگی جاتی ہوگی اور پھر مزید ادھر ادھر نگاہ دوڑائے تو بولان کی فضاءپہاڑ درخت اور بوٹیاں اسے صاف نظرآئیں ،شانتل کتنی آزادرہی ہوگی ‘کام تو سب لڑکیاں اپنے گھر میں کرتی ہیں ‘میں بھی کرتی ہوں شانتل بھی کرتی ہے لیکن جب شانتل بولان میں سڑک کے کنارے اور آبادیوں کے درمیان سے گزرتی ہوگی تو اسے اپنے شوہر کی طرف سے یہ باتیں سننے کو نہیں ملتی ہونگی کہ پردہ کرو ۔یہاں سب مجھے جانتے ہیں ‘باہر میری عزت ہے۔سچ تو یہ ہے کہ پورا بولان ہی شانتل کا گھر ہے جس کی نہ کوئی چھت ہے نہ کوئی چاردیواری ۔چارسو پھیلا وسیع وعریض باغ کی مانند

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں