اتوار، 2 دسمبر، 2018

جارج آرویل، 1984 اور آج کی دنیا


 جارج آر ویل 1984 اور آج کی دنیا

محمد صدیق سومرو

برطانوی   مصنف اور صحافی جارج آرویل کا ناول  دوسری جنگِ عظیم کے بعد 1949ء میں چھپا، جس میں مستقبل کی ایک خیالی دنیا کو 3 حصوں یوریشیا (یورپ اور ایشیا)، مشرقی ایشیا اور اوشیانیا میں بٹا ہوا دکھایا گیا ہے۔

ناول کا پلاٹ مستقبل کے انگلینڈ، جو کہ اوشیانیا کا حصہ ہے، میں سیٹ ہے جس کا دارالخلافہ لندن ہے۔ انگلینڈ میں حکمران جماعت کی جانب سے سخت آمریت لاگو ہے جس کا سربراہ بگ برادر ہے۔ پارٹی کا کوئی نام نہیں لیکن اسے انگریزی میں دی پارٹی کہا جاتا ہے۔

لندن میں پولیس اور دیگر ریاستی ادارے ٹیلی اسکرین نام کی ایک جدید مشین کے ذریعے ہر شہری کی حرکات و سکنات کو براہ راست دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ دوسری جانب شہر میں جگہ جگہ طویل القامت پوسٹر آویزاں ہیں جن پر بہت بڑے حروف میں بگ برادر آپ کو دیکھ رہا ہے کے الفاظ کنندہ ہیں جو کہ ہر شہری کو ہمہ وقت زیرِ نگرانی ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔

پارٹی کا ماننا ہے کہ ماضی پر مکمل ضابطہ رکھ کر ہی مستقبل کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور ماضی پر ضابطہ رکھنے کے لیے حال کو قابو کرنا ضروری ہے۔ اسی وجہ سے پارٹی ہمیشہ وقت کی سیاسی ضروریات کے پیشِ نظر تاریخ کو مسخ کرنے اوراس میں تغیرات لانے میں مصروفِ عمل ہے۔ پارٹی کی طرف سے لاگو کیے گئے قوانین کے مطابق مرد اور عورت کو کسی بھی قسم کے تعلقات رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔


شادی کے لیے بھی پارٹی کی طرف سے تشکیل دی گئی کمیٹی کو درخواست دینا لازمی ہے۔ جب کمیٹی اس بات سے مطمئن ہو کہ شادی کا حاصل مقصد صرف پارٹی کے خدمت گزار بچے پیدا کرنا ہے تب ہی شادی کی اجازت ملنا ممکن ہے۔ مطلب کہ کسی بھی شہری کو کوئی شخصی آزادی حاصل نہیں اور ہر شہری کی زندگی پارٹی کے مقاصد کی تکمیل کرتے ہوئے گزرتی ہے۔

ملک میں پرانی انگریزی زبان ختم کر کے نئی زبان لاگو کی گئی ہے جسے نیو اسپیک کہا جاتا ہے۔ نئی لاگو کی گئی زبان کے مطابق جنگ: امن ہے، آزادی: غلامی ہے اور جہالت بہت بڑی طاقت ہے جو کہ پارٹی کے آفیشل نعرے بھی ہیں۔

اس سماج میں سوچ ایک جرم ہے جس کو  ( تھاٹ کرائم) یعنی کہ سوچ رکھنے کا جرم کہا جاتا ہے۔ اس جرم پر قابو پانے کے لیے حکام کی جانب سے سوچ پر قابو رکھنے والی پولیس بھی قائم کی گئی ہے۔ جبکہ دوسری طرف نئی لاگو کی گئی زبان میں حروف کی تعداد میں بڑے پیمانے پر کمی کرکے زبان میں سے آزادی، آزادئ اظہار، علم اور اس طرح کے دیگر الفاظ بالکل ختم کر دیے گئے ہیں۔ اس پورے عمل کا مقصد عوام کے اذہان کو لاشعوری کی جانب دھکیلنا ہے۔

حکومت کے سارے کام 4 وزارتوں میں تقسیم ہیں۔ وزارت برائے امن کا تعلق جنگ سے ہے۔ وزارت برائے بہتات کا تعلق ریاست کے معاشی معاملات سنبھالنا ہے۔ یہ وزارت اکثر و بیشتر ٹیلی اسکرین کے ذریعے سرکاری منصوبہ بندی اور سالانہ اہداف کی تکمیل کے حوالے سے معلومات عوام تک پہنچاتی رہتی ہے۔ جبکہ در حقیقت کوئی بھی ہدف پورا نہیں ہوتا بلکہ اکثر ہر ماہ عوام کے راشن میں ہی کمی ہوتی ہے۔

وزارت برائے سچائی کا اہم کام تاریخی طور پر اہمیت کے حامل دستاویزات میں سیاسی ضروریات کے مطابق تغیّرات لانا یا سرے سے ان کو ختم کرنا ہے۔ اس سارے عمل کا خاص مقصد تاریخ کو پارٹی کے مؤقف سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ سب سے خطرناک وزارت برائے محبت ہے جس کا تعلق امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھنا اور پارٹی کے مخالفین کو راہ راست  پر لانا ہے۔

ریاست میں مزدور طبقے کے حالات بدترین ہیں۔ ان کو مشین میں ایندھن کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے اور ان سے ریاست و انقلاب کے نام پر زیادہ کام لینا اور کم راشن دینا معمول کی بات ہے۔ پارٹی کی جانب سے عوام اور ریاست کے غدار قرار دیے گئے شخص ایمانوئل گولڈ اسمتھ سے ہر روز 2 منٹ تک نفرت کا اظہار ایک لازمی عمل ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس کا کوئی شخصی وجود ہے بھی یا نہیں۔ اس کے باوجود بھی پولیس روزانہ غداری کے الزام میں لاتعداد شہریوں کو گرفتار کرتی رہتی ہے جن کا بعد میں کچھ پتہ نہیں چلتا۔ گرفتار کیے گئے افراد سماج اور تاریخ کے صفحات سے بالکل غائب کر دیے جاتے ہیں۔

ناول کا ہیرو ونسٹن اسمتھ وزارت برائے سچائی میں ایک معمولی سے عہدے پر فائز ہے اور اس کا کام اربابِ اختیار سے وصول کی گئی ہدایات کے مطابق دستاویزات کو ختم کرنا یا ان کے مواد میں تبدیلی لانا ہے۔ ہوش سنبھالتے ہی ونسٹن نے انگلینڈ کو دوسرے مختلف علاقوں کے ساتھ حالتِ جنگ میں دیکھا ہے۔ ونسٹن اپنی ملازمت سے، سماج سے حتیٰ کہ اپنی زندگی سے بھی بیزار ہے اور وہ آزادی اور سچائی کا متلاشی ہے۔

ایک دن دفتر کے اوقات کار کے بعد ونسٹن گلیوں میں گھومتے ہوئے وزارت میں کام کرنے والی ایک ملازمہ لڑکی کو دیکھتا ہے۔ اسے پختہ یقین ہوجاتا ہے کہ وہ لڑکی پولیس کی جاسوس ہے کیونکہ سرکاری ملازمین کا مزدور طبقے کے علاقوں میں بے سبب جانا ممنوع ہے اور کسی خطرے سے کم نہیں۔ ونسٹن کی وہ رات بہت مضطرب گزرتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ پلک جھپکتے ریاستی عملدار اسے گرفتار کرنے پہنچ جائیں گے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا۔

کچھ وقت گزرنے کے بعد ونسٹن کی اس لڑکی سے دوستی ہو جاتی ہے۔ تھوڑی تگ و دو کے بعد دونوں لندن شہر سے باہر مضافات میں ملتے ہیں اور ایک دوسرے کی قربت میں کچھ وقت گزارتے ہیں۔ وہ دونوں اپنے میلاپ کو پارٹی کی قیادت پر ایک ضرب سمجھتے ہوئے خوش ہوتے ہیں۔ جولیا ونسٹن کو بتاتی ہے کہ وہ بھی پارٹی سے بیزار ہے اور اس کی زندگی کا مقصد پارٹی کے بنائے گئے اصولوں کی خلاف ورزی کر کے مسرت حاصل کرنا ہے۔ پارٹی کا کوئی بھی نظریہ سمجھنے یا رد کرنے میں جولیا کی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ صرف چھوٹے غیر قانونی قرار دیے گئے عمل کر کے پارٹی کے خلاف بغاوت کرنا پسند کرتی ہے۔

جولیا کا کہنا ہے کہ اوشیانیا کسی بھی ملک سے جنگ نہیں کر رہا بلکہ عوام میں جنگ کا خوف برقرار رکھنے کے لیے خود اپنے ہی ملک پر بمباری کر رہا ہے۔

پارٹی کے ایک خاص ممبر او برائن سے جولیا اور ونسٹن کو ایمانوئل گولڈ اسٹائن کی کالعدم قرار دی گئی کتاب ملتی ہے۔ دونوں سمجھتے ہیں شاید او برائن بھی ان کی طرح پارٹی سے بیزار ہے۔ کتاب میں سماج اور پارٹی کے بارے میں بہت سے حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ کتاب کے مطالعے کے دوران اچانک پولیس چھاپا مار کر ونسٹن اور جولیا کو گرفتار کرتی ہے۔ ونسٹن کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ اپنے آپ کو کسی نئی جگہ پر پاتا ہے۔

اسے پتہ نہیں وہ کہاں ہے، شاید وزارت برائے محبت کی عمارت میں جس کو ایک جیل کی طرح بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کمرے میں دیگر قیدی بھی ہیں جو سب بھوکے اور شدید خوفزدہ ہیں۔ جیل میں وقت کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ نہ رات کا نہ دن کا۔ او برائن ونسٹن سے ملنے آتا ہے جس سے ونسٹن کو پتہ چلتا ہے کہ او برائن بھی پارٹی کے لیے کام کرتا ہے اور اس کا کام پارٹی کے مخالفین کو ڈھونڈ کر گرفتار کروانا ہے۔

مسلسل اور شدید تشدد برداشت کرنے کے بعد ونسٹن ہر کردہ اور نا کردہ جرائم کا اعتراف کرتا ہے۔ اس سارے منظم تشدد کا مقصد مجرموں کو پارٹی کے نظریے کے مطابق حقائق دیکھنے کا عمل سکھانا ہے جسے پارٹی بیماروں کا علاج کہتی ہے۔ پارٹی اور بگ برادر کی بقاء کے لیے وزارت برائے محبت مجرموں کو مارنے کے بجائے ان کا علاج کرکے انہیں راہ راست پر لاتی ہے۔

پارٹی کے پاس مجرموں کے دوبارہ قومی دھارے میں لانے کے لیے باقاعدہ سائنسی بنیادوں پر قائم شدہ پروگرام ہے جس کے 3 مرحلے ہیں: سکھانا، سمجھانا اور قبول کروانا۔ مجرموں کو ان 3 مراحل سے گزار کر پارٹی کے عملدار انہیں مجموعی طاقت اور اس کی اہمیت کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پارٹی بھی ایک مجموعی طاقت کی پیداوار ہے اور اصل طاقت چیزوں پر نہیں بلکہ لوگوں کے ذہنوں پر حکمرانی کرنے میں ہے، لوگوں کو عذاب میں رکھ کر ہی یہ طاقت حاصل کی جا سکتی ہے۔

پارٹی کا تشکیل کردہ سماج جھوٹ، سزا، ہٹ دھرمی اور خوف پر مشتمل ہے۔ ان تشددات میں سے ایک اہم تشدد قیدیوں کے خوف کو جان کر انہیں زیادہ سے زیادہ اسی خوف میں مبتلا رکھنا ہے۔ اسی طرح ونسٹن کو بھی مارنے کے بجائے اسے مختلف ذہنی و جسمانی اذیتیں دے کر راہ راست پر لایا جاتا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو یہ ناول آج سے تقریباً 70 برس پہلے لکھا گیا لیکن یہ ناول آج بھی اتنی افادیت اور اہمیت کا حامل ہے جتنا پہلی اشاعت کے وقت تھا۔ ناول میں موجود تمام عناصر آج بھی نہ صرف ہمارے بلکہ دنیا کے تقریباً ہر سماج میں ملتے ہیں۔

مختلف اوقات میں حکمرانوں کی جانب سے دشمن ریاستوں کے بارے میں کہے گئے جھوٹ، جنگ اور قومی سلامتی کو جواز دے کر جنگی ہتھیاروں اور دفاعی اخراجات میں اضافے اور ان عوامل پر تنقید کرنے والے افراد کو غدار اور ملک دشمن قرار دینا آج بھی ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں عام پایا جاتا ہے۔

عوام کی سوچ پر پابندی لگا کرانہیں اظہار کی آزادی کے بنیادی حق سے محروم رکھنے کا عمل آج بھی جاری ہے۔ بہت سے سماجوں میں آج بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنے ضمیر اور سوچ کے قیدی (جارج آرویل کے الفاظ میں تھاٹ کرمنل) ہیں جنہیں حکومتیں یا حکام قابو میں رکھنے کے لیے مصروف رہتی ہیں۔

ناول میں بیان کیا گیا بگ برادر اصل کوئی فرد واحد نہیں بلکہ ایک ذہنی رجحان ہے جو آج بھی ہر سماج میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ کسی بھی ریاست کی اصل باگیں کس کے ہاتھ میں ہیں؟ اور کون قومی مفادات کے فیصلے کر رہا ہے؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے آج بھی عام آدمی منتظر ہے۔ فیس بک، ٹوئیٹر اور سماجی رابطے کی دوسری پلیٹ فارموں پر لوگوں کو مانیٹر کرکے ان کی اظہار کی آزادی کا بنیادی حق سلب کرنے کا عمل آج بھی جاری ہے۔

یہ ناول مستقبل پر لکھے گئے فکشن میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اب جبکہ وقت بدل چکا ہے، دنیا بہت آگے نکل گئی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ کئی تبدیلیاں رونما ہوگئی ہیں۔ پھر بھی یہ ناول قاری کے ذہن میں سوال ابھارتا ہے کہ کیا واقعی وقت تبدیل ہوگیا ہے؟ اور ہم 1984ء گزار کر آئے ہیں؟ کیا یہ وہی وقت نہیں جس میں ہم ہمیشہ رہے ہیں؟ آرویل سے پہلے بھی اور 1984ء کے بعد بھی۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
محمد صدیق سومرو جامعہ سندھ کے شعبہ میڈیا اسٹڈیز میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔

اتوار، 18 نومبر، 2018

تہ تیغ سرتسلیم نہ ہوگا اپنا - تحریر : یاسین عزیز



تہ تیغ سرتسلیم نہ ہوگا اپنا
تحریر : یاسین عزیز 
جنگ کے میدان میں اپنے سامنے کھڑے ایک طاقتوارقابض متکبربادشاہ ایک لاغر بدن وطن پرست جنگجو کو بڑے ابھیمانی انداز میں حکم دیتا ہے کہ مجھ سے معافی مانگ کر لوٹ جاو میں تمہیں معاف کردوں گا اس سے پہلے تم نے جتنے جرم کئے ہیں وہ تم پر معاف ہیں ورنہ انجام کےلئے تیار ہوجاو وہ لاغربدن جنگجو جسکوتاریخ ولیم کے نام عزت بخشتی ہے جو اسکاٹ لینڈکو ایک پہچان دیکر خود اسکی پہچان بن چکا ہے بادشاہ کو کچھ ایسے تاریخی الفاظ میں جواب دیتا ہےکہ معافی تم مانگواور ہمارے ملک سے نکل جاو یہاں سے سر جھکا کر لوٹ جاو واپس جاتے ہوئے ہمارے سرزمین پر تمیں جہاں جہاں بھی کوئی گھر نظرآئے اسکے سامنے رک کر ان گھر والوں سے اپنے ظلم قتل وغارت گری اور لوٹ مار کی معافی مانگتے ہوئے سرحد سے اس پار ہوجاو میں تمھیں معاف کردوں گا ورنہ جنگ کےلئے تیار ہوجاو اس وطن پرستانہ اور قوم دوستانہ اظہار میں شکست اور فتح کے انجام سے زیادہ اپنے ملکیت پر حق کےمتعلق پختہ عزم اور حوصلے کا اظہار نمایا ہوتا ہے عزم اور حوصلہ ارادوں کےلئے ایسا ہی ضروری ہیں جیسا کہ کسی زندہ انسانی جسم کےلئے روح۔

انسانی تعلقات میں جنگ کی نوبت اور نوعیت جنگیں کیوں لڑی جاتی ہیں لوگ کیوں مارنے اور مر مٹنے پر تیار ہوجاتے ہیں جنگیں جیتنے کےمقاصد کیا ہوتے ہیں ؟ شکست و فتح کے دورانیے مشکل اور طویل ہونے کے باوجود کیوں کیسے انجام پزیر ہوجاتے ہیں ؟؟

ان سب کو اچھی طرح سمجھنا متقاضی ہیں تحقیق کے جسکےلئے دنیا کی جنگی تاریخ کا مطالعہ بےحد ضروری ہے ویسے تو بظاہرانکے پیچھے ناانصافیاں فریب چالبازی قبضہ گریت اور ظلم و بریریت کے کئی داستان کارفرما ہوتے ہیں لیکن انکے اندر حوصلوں عزم اور قربانیوں کے کئی مثالی سبق آموز داستانیں بھی ملتی ہیں حوصلوں کے ٹوٹنے مایوسی اور وقتی شکست کے ہزاروں قصے ملتے ہیں جو تاریخ بنکر قوموں کی شناخت کراتی ہیں قومی جنگوں کی طویل تاریخ سے ایسے تمام اقدامات و واقعات کواگر نفی کی جائے تو وہ تاریخ ہی مسخ ہوکر نہ مکمل ہوجائے گی۔
 
گو کہ بلوچوں میں دوسرے قوموں کی نسبت ہونے والی جنگیں اپنی تاریخ میں بہت زیادہ شدت و وسعت نہیں رکھتے لیکن محدود ہونے کے باوجود ایک منفرد تسلسل ضرور رکھتے ہیں کئی نشیب و فراز کے باوجود حالیہ جاری جنگ کی وسعت اور جاری تسلسل باعث یقین ہے کہ یہ ناقابل شکست جنگ ہے دشمن کے ظلم و بربریت کے ساتھ ہی ساتھ اسکے سامنے تسلیم ہونے کے مواقعے اس بات کا ثبوت ہیں کہ دشمن خوف زدہ ہیں اور ان کو اس بات کا یقین ہے کہ طاقت سے وہ بلوچوں پر فتحاب نہیں ہوسکتے اسلئے ذاتی معمولی مراعات دیکر یا سرتسلیم خم کروانے کے مواقعے پیش کر کےبلوچوں کے وقار عزت اورحوصلوں پر کاری ضرب لگانے میں مصروف عمل ہیں بلوچوں کی ہر چھوٹی بڑی کمزوریوں سے دشمن ہر صورت فائدہ اٹھانے کی کوششیں کرتے آرہے ہیں ہماری قبائلیت ،ہمارے نا اتفاقی، ہمارے کمزور سیاسی و قومی رشتوں سے یہاں تک کہ ہمارے نیم پختہ نظریات سے بھی ایسے حالات میں موقع غنیمت جان کرکچھ کمزور سوچ و اعصاب کے مالک ایسے وقتی مراعتی دباو یا معمولی مراعاتی جبر کے پیشکش سے فائدہ اٹھانے کی چکر میں کلی نقصان کر بیھٹتے ہیں میں دشمن کے سامنے تسلیم ہونے کی اس عمل کو مراعاتی دباو یا جبر ہی کہوں گا کیونکہ کسی بھی قوم کی آزادی کوسلب کرنے کے بعد انکو زندگی کی بنیادی حقوق سے محروم رکھ کر انکے احتجاج کرنے کی راہوں تک کو بند کرنا زبان ثقافت سیاست پر کنٹرول رکھ کران پراثرانداز ہونا لوٹ کھسوٹ ظلم و جبر کی ایک تاریخ رقم کرنا دفاع یا مزاحمت کی صورت میں انکی نسل کشی شروع کردینا گاوں کے گاوں کو گھیر کے صفحہ ہستی سے مٹانا عورتوں کی عزت اور معصوم بچوں کی زندگیوں سے کھیلناایسے ناروا اور گھناونے عمل کے بعد تسلیم ہونے کی پیشکش کرنا سیدھی طرح سے انسانی وقار پر وار کرکے جبرا کسی کو اسکے حق سے داستبردار کرانا ہے یہ دشمنی حادثاتی یا واقعاتی نہیں ہے کہ کچھ لوگ بیٹھے بیٹھے کسی معمولی بات پر لڑ پڑے ہیں یااس دشمنی اور جنگ کے پیچھے کوئی حادثاتی واقعہ کارفرما ہے کہ اسکو بھول کر معافی دی یا قبول کی جائے یا ہتھیار پھینک کر گلے ملا جائے۔

یہاں دوبارہ میں دنیا کی جنگی تاریخ کے مطالعے پر زور دوں گااگر ہم بلوچوں کی جنگی تاریخ پر نظر دوڈائیں تو سرداروں خان میر معتبروں کے تسلیم ہونے کے انگنت واقعات سامنے آتے ہیں ان میں میرہزار بجارانی کا دشمن کے سامنے تسلیم ہونے کا واقعہ اس لئے بھی منفرد اور بڑا واقعہ ہے کہ وہ پندرہ ہزار نفوس کے ساتھ تسلیم ہوئے تھے جن میں دو ہزار مسلح جنگجو شامل تھے جن میں سے ایک ہزار کے قریب جنگجوں کو دشمن نے انتظامی لیویز کی نوکری دیکر تحریک پر ضرب لگایاتھا اس کے باوجود ہم دیکھ چکے ہیں کہ تحریک سترکی دہائی سے زیادہ وسیع منظم و مضبوط صورت میں ابھرکر سامنے آیا تحریک کے حالیہ ابھار کے گذشتہ دو تین سالوں میں دوبارہ سے دشمن کے سامنے تسلیم ہونے کے واقعات تسلسل سے سامنے آرہے ہیں شاہد اس لئے کیونکہ قومی تحریک جاری و ساری ہے دیکھا جائے توجنگیں اپنی تہہ غداری دھوکے بازی ساز باز مایوسی دباو لین دین کے ہزاروں شرمناک داستانیں رکھتے ہیں ہماری جنگ ان فطری حقائق سے خالی کیسے ہو انکا سامنا ہمیں بھی ہرصورت کرنا ہوگا لیکن وطن کے غیرت مند وفادار پاسبانوں کےلئے اپنے قومی وقار پرآنچ آنے سے موت کو ترجہح دینا آسان ہوتا ہے کیونکہ اس دنیا میں طاقت یا کمزوری فتح و شکست وطن پرستی و قوم دوستی وفا و شعور کے پیمانے مقررنہیں کرتے یہ مقررکرتے ہیں سچ و حق پر انجام کی پروا کئے بغیر ڈٹ جانا اپنے سفر کو ہر حال میں جاری رکھنا مشکلات کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنا۔

مجھے یقین ہے کہ آج بلوچ سرزمین پر ہزاروں نوجوان ایسے بھی ہیں جو دشمن کو ولیم کے طرح یہی جواب دینگے کہ معافی تم مانگو ہراس بلوچ سے جو بلوچ گل زمین کے باسی ہیں اپنا سر جھکا کر معافی مانگو اپنے ناجائز قبضہ اور قبضے کے بعد ستر سالہ لوٹ مار و قتل و غارت گری کےلئے معافی مانگوبلوچوں کی قومی وقار و عزت کو پامال کرنے کےلئے معافی مانگو بلوچ ماں و بہنوں سےاس درد کےلئے جو تم نے انکے پیاروں کو ان سے چھین کر انکو دیئے معافی مانگو اسیران کے اذیت و تکلیف کےلئے معافی مانگو ان معصوم بچوں کےلئے جنکے سرکا سایہ چھین کر تم نے انکو یتیم بنایا معافی مانگوگھروں کو جلانے و گرانے کےلئے معافی مانگو مال مویشیوں کی چوری کرنےکےلئے ہر ناروا عمل و ظلم پر سر جھکا کے معافی مانگو اور معافی مانگتے مانگتے ہمارے وطن کے سرحدوں سے نکل جاو ورنہ یہ جنگ وطن و قوم کی پاسبانی کےلئے جاری رہیگا

اتوار، 11 نومبر، 2018

اپنے آنسوؤں کو اپنی طاقت بناؤ - تحریر : یاسین عزیز



اپنے آنسوؤں کو اپنی طاقت بناؤ
تحریر : یاسین عزیز 
فطرت توازن کا نام ہے سورج چاند زمین آسمان روشنی و اندھیرا گرم سرد حق و باطل بالکل اسی طرح طاقت و کمزوری اگر ان میں سے ایک نہ ہو تو دوسرے کی پہچان ممکن نہیں ہوتا، اندھیرا نہ ہو تو روشنی کی پہچان کیسے ہو ،باطل نہ ہو تو حق کو کون پہچانے ،کمزوری نہ ہو تو طاقت کی قدر کون کرئے ،ہر کمزوری میں ایک طاقت پوشیدہ ہوتا ہے بس اسکو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے دولت و خواہشات اکثر لوگوں کی کمزوری بن جاتے ہیں لیکن کچھ لوگ انکو اپنے لئے حیرت انگیز طور پرطاقت بنا لیتے ہیں جیسا کہ زندگی لوگوں کیلئے انمول غنیمت اور موت خوف کا سامان ہوتا ہے۔

 لیکن اسی زندگی کی قیمت کو کچھ لوگ موت مقرر کرکے اپنی طاقت بنا لیتے ہیں خواتین اور بچے انسان کی سب سے بڑی کمزوری مانے جاتے ہیں لیکن انکو اپنی طاقت بنانے کے دنیا میں کئی تاریخی مثال موجود ہیں جن آنسوؤں کے ذریعے ہمارے درد و تکلیف اور بے بسی کا اظہار ہوتا ہے ا نہی آنسوؤں میں ایک بہت بڑی طاقت پوشیدہ ہوتی ہے لیکن کیا ہم جانتے ہیں کہ اپنے آنسوؤں کو اپنی طاقت کیسے بنایا جاتا ہے جو لوگ ہمیں درد دیتے ہیں جن لوگوں کے ہا تھوں ہمیں تکلیف اور مشکلات کا سامنا ہوتا ہے وہ ہمیں اپنے سامنے ہمیشہ بے بس اور مجبور دیکھنا چاہتے ہیں ۔

اسی لئے تو وہ ہمیں درد و اذیت دیتے ہیں تاکہ ہمارے حوصلے پست ہوں ہمارے کمزوریوں سے وہ فائدہ اٹھا کر ہمیں مزید کمزور کرنا چاہتے ہیں وہ ہمارے محبت اور خوف کا فائدہ اٹھا کر ہمیں مزید خوفزدہ کرتے ہیں تاکہ وہ ہمیں شکست دے سکیں ،ہمارے بچوں کااغواء ان پر تشدد انکا بیدردی سے قتل کرنے اور ہمارے ماں بہنوں کی اغواء انکی بے عزتی کا مقصد صرف ایک ہی ہے کہ ہم مزید خوفزدہ ہوکر اپنے حق اور مقصد سے دستبردار ہو جائیں ہمارے حوصلے پست ہوں اور ہم شکست کھا ئیں اور دشمن کے سامنے تسلیم خم ہو جائیں ہم دشمن سے رحم کی توقع میں آنسو بہا رہے ہیں یا بے ضمیر اور بے حس وارثوں کو احساس دلانے کیلئے آنسو بہا رہے ہیں یا اپنے ناامیدی اور بے بسی کا اظہار یوں آنسو بہا کر کررہے ہیں کیا یہ آنسو مضبوط ارادوں میں تبدیل نہیں ہوسکتے کیا یہ آنسو نفرت میں بدل کر دشمن کے سامنے ڈٹ جانے کا سبب نہیں بن سکتے ک۔

یا یہ آنسو دشمن سے اپیل منت و سماجت کی بجائے اس سے حساب اور بدلے کا ذریعہ نہیں بن سکتے اپنے آنسوؤں کو اپنا حوصلہ بناؤ دشمن کے سامنے ڈٹ جاؤشبیر بلوچ اور دوسرے تمام سیاسی و جنگی قیدیوں کی رہائی سے زیادہ ان کے محفوظ اور آزاد مستقبل کیلئے جدوجہد کیلئے خود کو تیار کرو اپنے ہر کمزوری کو اپنی طاقت بناؤ اپنے ان تمام پوشیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاو جو تمہارے طاقت کا ذریعہ بن جائیں بس دشمن کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ پیدا کرو اغواء کال کوٹھری تشدد اذیت اور موت کا خوف دل سے نکال کر وطن پرستی اور قوم دوستی کے جذبے سے سرشار ہونا سیکھو ،آج کئی شبیر رہا اور کئی اور اغواء ہوچکے ہیں اور ہوتے رہیں گے کیونکہ وہ مقصد ہی پورا نہیں ہوا جس کیلئے آئےروز قوم کے نوجوان شبیر اغواء اور قربان ہورہے ہیں

یوم شہداء 13نومبر کے فیصلے کا پس منظر تحریر۔ سلام صابر



یوم شہداء 13نومبر کے فیصلے کا پس منظر

تحریر۔ سلام صابر

دنیا میں ترقی ہو یا تخریب ان سب کی علت و سبب ہمیشہ فرد، تنظیم، جماعت یا ممالک کے مثبت یا منفی فیصلوں سے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی فردہو یا تنظیم آج جس مقام پہ کھڑی ہو، وہ ان کے شعوری یا لاشعوری فیصلوں ہی کا حاصل ہوتا ہے۔

سیاسی کارکنوں کا آپسی بحث و مباحثہ ہو یا ادیبوں و شعراء کی ادبی و علمی خدمات یا معاشی ماہرین کی انتھک عرق ریزیاں سب اپنی تئیں ترقی و تبدل کا احتمال رکھتی ہیں، لیکن جو عمل سب سے زیادہ دنیا اور اردگرد کے حالات پر اثرانداز ہوتی ہے، وہ جماعت، ریاست اور تنظیموں کے فیصلے ہوتے ہیں۔

دو ہزار چھ کو بی ایس او کے تینوں دھڑوں کے انضمام کے بعد پہلے منعقدہ کونسل سیشن میں جب بشیر زیب چیئرمین منتخب ہوئے تواس کے بعد تنظیمی سرکلوں میں اکثر اوقات مختلف موضوعات اور مسائل پہ گفتگو اور بحث و مباحثے کے علاوہ تین باتوں کو زیادہ ہی زیر بحث لایا جاتا تھا۔

اول: تمام شہداء کیلئے ایک دن مخصوص کرنا۔
دوئم: تنظیمی سرگرمیوں میں شہداء کے علاوہ کسی زندہ شخصیت کی تصویر آویزاں نہ کرنا۔
سوئم: جنگ کے میدان میں دشمن کے خلاف برسرپیکار سرمچاروں کی حمایت میں عوام میں مزید بیداری پیدا کرنے کیلئے ریلیوں کا انعقاد۔

اسی مد میں دو ہزار چھ 20 نومبر کو پریس کلب کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین بشیر زیب و بی ایس او کے دیگر مرکزی دوستوں نے اعلان کیا تھا کہ بی ایس او بلوچ سرمچاروں کی حمایت میں جلسے جلوس اور ریلیوں کا انعقاد کرے گی۔

پہلے دو فیصلوں یعنی شہداء کیلئے ایک دن کاانتخاب اور پروگراموں میں شخصیات کی تصاویر آویزاں نہ کرنے کے حوالے سے تنظیم کے دوستوں نے شروع میں مخالفت کی کہ اس طرح خود بی ایس او کی سیاسی سرگرمیاں محدود ہوجائینگی کیونکہ اس وقت تنظیم کی زیادہ تر سرگرمیاں شہداء کے برسیوں کی مناسبت سے ہوتے تھے، اور دوسری طرف شخصیات کی تصاویر نہ لگانے پر دوستوں کو یہ خدشہ تھا کہ قومی جہد سے وابستہ بہت سے شخصیات کو بی ایس او کا یہ فیصلہ ہضم نہیں ہوسکے گا۔

تواتر کے ساتھ ان دو فیصلوں کے حوالے سے تنظیم کے اندر ہی راہ ہموار کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اسی دوران 2008کے کونسل سیشن میں جب بشیر زیب دوبارہ چیئرمین منتخب ہوئے تو اس بابت دوبارہ دوستوں کو گوش گزار کیا گیا کہ شہداء کے بابت ایک مخصوص دن کا انتخاب کیا جائے۔

تب جاکر 2010 کے شروعات میں کراچی میں منعقدہ مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں باقاعدہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ 13 نومبر جو کہ بلوچ تاریخ میں ایک خاص اہمیت بھی رکھتا ہے اس دن کو شہداء کے دن کے مناسبت سے منایا جائے گا۔

بی ایس او آزاد کا یہ فیصلہ بلوچ قومی جہد کے قابل قدر اور مثبت فیصلوں میں شامل ہوتا ہے۔ بی ایس او آزاد کے قیادت کو یہ طرہ امتیاز حاصل ہے کہ اس جماعت نے کئی ایسے انقلابی اور غیر روایتی فیصلے کیئے جس نے بلوچ سیاست خاص طور پر بلوچ طلباء سیاست میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کیں، تیرہ نومبر کے تاریخی فیصلے کے علاوہ، بلوچ طلباء سیاست کو ہاسٹل سیاست سے نکال باہر کرکے معنی خیزیت بخشنے، عوامی رابطہ بڑھانے، پمفلٹنگ اور لٹریچر پر شبینہ روز محنت کرنے، بلوچ دانشوروں سے ربط قائم کرکے نوجوانوں کی تربیت کیلئے سیمیناروں کے انعقاد، خاص طور پر نوجوانوں کی سیاسی تربیت کیلئے تربیتی سیریز کا آغازجیسے فیصلوں نے بلوچ طلباء سیاست کو نئی جہتیں بخشیں۔

اسکےعلاوہ بی ایس او آزاد کی قیادت سے ایک فیصلہ ایسا بھی ہوا جس کے اثرات تنظیم کی سیاسی ساکھ پر مثبت انداز میں مرتب نہ ہوئے، وہ فیصلہ سبوتاژ مہم کا فیصلہ تھا۔

کسی بھی تنظیم، جماعت یا فرد کو جہاں اپنے مثبت فیصلوں کے دفاع کا حق حاصل ہے، وہی یہ اخلاقی جرات بھی ہونا چاہیئے کہ اپنے شعوری فیصلوں جن کے اثرات مثبت انداز میں سامنے نہ آسکے انکی ناکامی کی ذمہ داری بھی لینی چاہیئے۔

شخصیات کی تصاویر کے حوالے سے باقاعدہ اعلان کے بجائے یہ طے ہوا کہ تنظیم کے ویب سائٹ پر جدید بلوچ نیشنلزم کے بانی یوسف عزیز مگسی، اور موجودہ پانچویں بلوچ تحریک آزادی کے بانی نواب خیر بخش مری اور بی ایس او آزادکے بانی ڈاکٹر اللہ نظر کی تصاویر لگائیں جائیں گے۔ اس فیصلے کا بنیاد بلوچ تحریک اور بی ایس او آزاد کے تاریخی پس منظر کو نمایاں کرنا تھا۔

بعد کے حالات نے اس امر کو مزید واضح کردیا کہ بی ایس او آزاد جن امور کا ادراک 2006 میں رکھ رہی تھی اور تیرہ نومبر کی صورت میں 2010 میں ان پر فیصلہ بھی لیتی ہے، ان امور کو باقی جماعتیں بتدریج قبول کرتے ہوئے اسکی اہمیت و ضرورت کو تسلیم کرتی ہے۔

آج کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں اور بلوچ قوم تیرہ نومبر کے دن کو غیر متنازعہ طور پر بلوچ شہداء سے منسوب کرکے شہیدوں کے دن کے طور پر مناتی ہے۔

جمعہ، 9 نومبر، 2018

سیما بلوچ کے نام ایک کھلا خط ـ جلیلہ حیدر



سیما بلوچ کے نام ایک کھلا خط
جلیلہ حیدر
! میری پیاری بہن سیما بلوچ

میں آج شاید کئی مہینوں بعد اپنے آپ کی رسائی اور نارسائی کی جنگ سے نکل کر یہ خط آپ کو لکھ رہی ہوں۔ آج جہاں آپ بیٹھی ہو اس جگہ ہزاروں بے جان روحوں کی آوازیں سسک سسک کر خاموش ہوچکی ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں اب صحافی سے زیادہ مخبر موجود ہوتے ہیں، اور کوئی آواز جب اٹھنے کی کوشش میں ہو تو اس کا گلہ دبانے کے لیے سازشیں مرتب ہوتی ہیں۔

سیما میری بہن! ہم ایک سفاک عہد میں جی رہے ہیں، جہاں دو ارب انسانوں میں اور ریاست خداداد میں بسنے والی بائیس کروڑ آبادی میں آپ کو انسان ناپید ملے گا۔ آپ کے آنسو کیا ہیں، مجھ جیسے لوگ کیونکر اس پر سوچیں گے ، کیونکہ مجھ جیسے فیمنسٹوں نے اب تو آپ ہی جیسوں کے نام پر امپاورمنٹ کے لیے، کیپسٹی بلڈنگ کا سیشن کرنے کے لیے ڈونر ایجنسیزز سے نیٹ ورکنگ کرنی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ جس چادر سے تم اپنے آنسو پونچھ رہی ہو، اس کا ڈیزائن مجھے پسند آئے اور میں کسی قومی کلچر ایگزیبیشن پر وہ نمائش کے لیے لگا دوں۔

میری بہن سیما، آنسوؤں کی نمائش نہیں ہوسکتی، دکھوں کی برانڈنگ مارکیٹ میں نہیں ہے، اس لیے تم اپنے ان آنسوؤں کے لئیے کم از کم خریدار ان بازاروں میں ہرگز مت تلاشو، ہم دوسرے قسم کے فیمنسٹ ہیں کیونکہ تم ہمارے معیار کی عورت کی تعریف میں نہیں آتی، بقول شخصے "ہم تھوڑا سخت قسم کے لونڈے ہیں، ہم حساس اداروں پر حساس بات کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔

میری بہن سیما! دنیا کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ شبیر دو سال سے گمشدہ ہے۔ شبیر کون ہے، کسی کا اس سے کیا تعلق۔ وہ جو سعدی نے کہا تھا کہ "بنی آدم اعضائے یک دیگرند کہ "آدم کے بچے ایک دوسرے کے اعضا ہیں شاید کیسی خوابدہ کیفیت میں بولا ہوگا۔ کھلی آنکھوں سے دیکھتا تو دنیا سے روپوش ہو کر کہیں جنگل میں بسیرا کرتا۔

میری بہن، جب تم ریاست سے سوال کرتی ہو نا کہ میرا بھائی جو کہ جبری گمشدہ ہے وہ کہاں پر ہے؟ تو بائیس کروڑ لوگو کو یہ ایک خطرناک سوال لگتا ہے ، کیونکہ ہمارے ہاں گمشدہ صرف اسی کو سمجھا جاتا ہے جب کوئی جرائم پیشہ کسی کو اٹھا کر لے جاتا ہے مگر کیونکہ ہمارے ادارے فرشتوں کے ادارے ہیں ، وہاں پر کوئی گنہگار نہیں بستا ، اس لیے جب تم کہتی ہو کہ میرے بھائی کو سن 2016 حساس ادارے اٹھا کر لے گئے ہیں تو یقین مانو سب سوچتے ہیں کہ یہ کہاں سے فنڈڈ خواتین ہر چھ مہینے بعد اس پریس کلب میں نمودار ہوتی ہیں ، آنکھوں میں آنسو سجاتی ہیں اور پھر جھوٹ موٹ کا انصاف مانگتی ہیں۔

پیاری بہن سیما؛
تم جو سات دن اس کیمپ میں ماما قدیر اور حوران و بی بی گل و طیبہ کے ساتھ بیٹھی رہی، تمھیں پتہ ہے کہ جنگ جیتنے کے لیے لشکر کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ چند ہم خیال لوگوں کی ہی ضروت ہوتی ہے اور تمھار لشکر مکمل ہے۔ جب تمھارے آنسو ایوانوں کو جھنجھوڑیں گے تو یقین مانو بہت سارے برانڈڈ کپڑوں میں ملبوس خواتین تمہارے ساتھ سیلفی لینے آئیں گی۔ وہ غور سے دیکھیں گی کہ تمھاری جیت یقینی ہے اور شیبر اب پلٹ کر آنے والا ہے تو یقین جانو سب اپنا فیس بک اسٹیٹس ہیش ٹیگ شبیر بلوچ سے چلائیں گی ، اور پھر تمھاری فتح کا جشن سب منائیں گے، وہ بھی منائیں گے جو کہتے ہوں گے کیمپ میں کیوں جائیں، جان پیاری نہیں ہے کیا؟

مگر سیما جان، تم ان سب کو مسکرا کر خوش آمدید کہنا، کیونکہ یہی لمحے لٹمس کا کام کرتے ہیں اور سب کے رنگ آشکار کر دیتے ہیں۔ میری بہن، ہمت مت ہارنا، ڈٹی رہنا کیونکہ کوہ قاف سے دیو کی قید سے بچوں اور بچیوں کی آزادی کا ذمہ کسی دلیر چرواہے کے بیٹے نے ہی اٹھانا ہوتا ہے ، اس بار کیا پتہ دیو کی قید سے سارے بچے آواران و گوادر کی بہادر بیٹیاں آزاد کروائیں۔

میری بہن، دل کبھی چھوٹا مت کرنا کہ سیاسی جماعتیں تم سے یکجہتی کرنے نہیں آئیں، کیونکہ سچ تو یہی ہے کہ تمھارے آنسو اور اس گمشدہ جسم کے بغیر ان کے پاس سیاست کرنے کو بچا ہی کیا ہے۔ میری بہن یاد رکھنا، طاقتور طبقوں کا کام مظلوم کے نام پر سیاست کرنا ہوتا ہے ، مظلوم کے ساتھ سیاست قطعآ نہیں۔

میری بہن، حیران مت ہونا کہ صحافی حضرات خبر نہیں چھاپتے، یہ والا کام بھی اب سرکاری ادارے والے خود کرتے ہیں اور اس لیے پریس کلب میں صحافی سے زیادہ مخبر پائے جاتے ہیں اور اس کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ سرکار ان کی کے خبریں ضرور دیکھتی ہے بجائے اخبار پڑھنے کے۔

میری بہن، یاد رکھنا میں دعویٰ نہیں کرتی اگر اس دنیا میں کوئی بھی شخص تمہاری حمایت میں آخری رہ جائے تو اس قطار میں مجھے ضرور تلاشنا۔ میری بہن، جام کمال سے جب ملو تو گلہ مت کرنا کہ ان کے پاس آپ سے ملنے کا وقت کیوں نہیں تھا کیونکہ جام صاحب مجبور ہے اور ہمیں مجبور لوگوں سے ہمدردی سے ملنا چاہیے۔ میری بہن، جس دن جام صاحب کو اجازت ملے گی وہ آپ سے ملیں گے اور ضرور ملیں گے۔

میری بہن، میں بہت بورنگ خط لکھ رہی ہوں، جس میں نہ محبت کی شاعری ہے نہ قصیدہ گوئی۔ بس دل میں سوچ رہی ہوں کہ تم بھی ایک بار جاوید اختر کی یہ نظم ضرور پڑھو اور اپنے اردگرد بسنے والے قلم کاروں، سیاست داروں، تجزیہ نگاروں ، نسوانیوں ، اور دکانداروں کا اسی سے تجزیہ کر کے ہلکا سا مسکرا کر آگے بڑھتی رہو۔ جیت تمہاری ہی ہوگی۔

شہر کے دکاں دارو کاروبارِ الفت میں سود کیا زیاں کیا ہے، تم نہ جان پاؤ گے
دل کے دام کتنے ہیں خواب کتنے مہنگے ہیں اور نقدِ جاں کیا ہے، تم نہ جان پاؤ گے

کوئی کیسے ملتا ہے پھول کیسے کھلتا ہے آنکھ کیسے جھکتی ہے سانس کیسے رکتی ہے
کیسے رہ نکلتی ہے کیسے بات چلتی ہے شوق کی زباں کیا ہے، تم نہ جان پاؤ گے

وصل کا سکوں کیا ہے ہجر کا جنوں کیا ہے حسن کا فسوں کیا ہے عشق کا دروں کیا ہے
تم مریضِ دانائی مصلحت کے شیدائی راہِ گمرہاں کیا ہے، تم نہ جان پاؤ گے

زخم کیسے پھلتے ہیں داغ کیسے جلتے ہیں درد کیسے ہوتا ہے کوئی کیسے روتا ہے
اشک کیا ہے نالے کیا دشت کیا ہے چھالے کیا آہ کیا فغاں کیا ہے، تم نہ جان پاؤ گے

نامراد دل کیسے صبح و شام کرتے ہیں کیسے زندہ رہتے ہیں اور کیسے مرتے ہیں
تم کو کب نظر آئی غم زدوں کی تنہائی زیست بے اماں کیا ہے. تم نہ جان پاؤ گے

جانتا ہوں میں تم کو ذوق شاعری بھی ہے شخصیت سجانے میں اک یہ ماہری بھی ہے
پھر بھی حرف چنتے ہو صرف لفظ سنتے ہو ان کے درمیاں کیا ہے، تم نہ جان پاؤ گے

فقط
تمہاری ایک بے بس ہمدرد بہن
بشکریہ : حال حوال

اتوار، 4 نومبر، 2018

امریکی پابندیوں کے ایران پر کیا اثرات ہوں گے؟



امریکی پابندیوں کے ایران پر کیا اثرات ہوں گے؟


ایران میں پیر کے روز سے امریکہ کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کے عمل میں آنے سے پہلے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ سخت گیر موقف رکھنے والے ان مظاہرین کی جانب سے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی مخالفت بھی کی گئی۔


اس سے پہلے ایران کے ایک طاقتور ادارے گارڈین کونسل (شورائے نگہبان) نے پارلیمان کو ایک بِل پر دوبارہ غور کرنے کا حکم دیا جس کے تحت ایران اقوام متحدہ کی دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف معاہدے کا حصہ بن جائے گا۔


اس کا مقصد بظاہر انٹرنیشنل فائنینشل ایکشن ٹاسک فورس کو یقین دہانی کروانا تھا کہ ایران عالمی تقاضوں کو پورا کر رہا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سخت ترین پابندیاں

وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ ایران پر لگنے والی یہ پابندیاں اس پر لگائی جانے والی اب تک کی سخت ترین پابندیاں ہوں گی۔ ان پابندیوں کا نشانہ ایران اور اس کے ساتھ تجارت کرنے والے تمام ملک ہوں گے۔
امریکی فیصلے کے تحت 2015 کے جوہری معاہدے کے بعد جو پابندیاں ختم ہوئی تھیں وہ دوبارہ عمل میں آ جائیں گی۔

تمام آٹھ ممالک کو وقتی طور پر ایران سے تیل کی خریداری کے لیے ان پابندیوں سے چھوٹ دی گئی ہے۔

ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای ٹوئٹر پر کہہ چکے ہیں کہ امریکی فیصلہ اس کے اپنے مقام اور لبرل جمہوریت کے لیے باعث ذلت ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

پابندیوں کی تفصیل

امریکی پابندیوں کی زد میں آنے والے شعبوں میں جہاز رانی، سمندری جہاز بنانے کی صنعت، مالیات اور توانائی شامل ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ کے سیکرٹری نے کہا ہے کہ بین الاقوامی ادائیگیوں کا نیٹ ورک سوفٹ بھی ایران سے تعلق ختم کر دے گا اور اس صورت میں ایران بین الاقوامی مالیاتی نظام سے مکمل طور پر کٹ جائے گا۔


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے قبل مئی میں بھی ایران پر کچھ پابندیاں دوبارہ لگا دی تھیں اور یہ پابندیوں کی دوسری کھیپ ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

کون پابندیاں کی زد میں نہیں
امریکی سیکرٹری خارجہ نے ان آٹھ ممالک کا نام نہیں بتایا جنھیں وقتی طور پر پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے تاکہ وہ ایران سے تیل خرید سکیں۔ انھوں نے کہا کہ ان آٹھ ممالک نے ایران کے ساتھ تعاون اور اس سے تیل کی خرید میں بہت حد تک کمی کر دی ہے۔


خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ان آٹھ ممالک میں امریکی اتحادی اٹلی، جاپان اور جنوبی کوریا بھی شامل ہیں۔ روئٹرز کے مطابق ترکی کو بھی چھوٹ دی گئی ہے۔


تاہم بی بی سی  کے مطابق تیل کی اس فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن ایک خاص اکاؤنٹ میں جائے گی اور ایران اس سے صرف وہ اشیا خرید سکے گا جس کی اجازت ہو گی، یعنی ایران کو اس سے نقد رقم نہیں ملے گی۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ایران کا رد عمل

ایران میں وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران اپنے اقتصادی معاملات چلانے کی صلاحیت اور علم رکھتا ہے۔ انھوں نے کہا امریکہ اس طرح کے اقدامات سے کبھی اپنے سیاسی مقاصد حاصل نہیں کر سکے گا۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

یورپی یونین کا موقف

برطانیہ، جرمنی اور فرانس اور یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ نے ایک مشترکہ بیان میں امریکہ کی طرف سے ایران پر پابندیاں بحال کرنے کے اقدام پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا ہے۔


انھوں نے کہا کہ وہ ایران کے ساتھ جائز قانونی کاروبار کرنے والے افراد کو یورپی یونین کے قانون اور اقوام متحدہ کی قرارداد 2231 کے تحفظ فراہم کیا جائے گا۔


ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ-
ایرانی تیل کی کمی کیسے پوری ہو گی؟

واشنگٹن میں بی بی سی کی نامہ نگار باربرا پلیٹ کے مطابق گذشتہ چھ ماہ میں امریکہ نے ایران سے تیل کی درآمد صفر کے قریب لانے کی پوری کوشش کی ہے۔ تاہم وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ پانچ نومبر کو مارکیٹ سے ایران کا تیل مکمل طور پر غائب ہو جائے اور تیل کی قیمتیں بڑھ جائیں۔ اس سے ایران کو فائدہ ہو گا اور امریکی اس صورتحال سے خوش نہیں ہوں گے۔

امریکہ نے ایرانی تیل کی کمی پوری کرنے کے لیے تیل کی اپنی پیداوار بڑھا دی ہے اور دوسروں کو خاص طور پر سعودی عرب سے بھی ایسا ہی کرنے کے لیے کہا ہے۔

امریکہ مظاہرہ کر چکا ہے کہ وہ اپنی اقتصادی طاقت کے بل پر کیا حاصل کر سکتا ہے لیکن ایران کو اپنے پرانے ساتھیوں کی عدم موجودگی میں صرف طاقت کے بل پر تنہا کرنا ایک مشکل کام ہو گا۔

منگل، 30 اکتوبر، 2018

کیا سعودی عرب امریکہ کی مجبوری بن چکا ہے؟



کیا سعودی عرب امریکہ کی مجبوری بن چکا ہے؟

سعودی ولی عہد کا گھناؤنا چہرہ 
خاشقجی قتل اور ترکی و سعودی کا بلی چوہے کا کھیل 

جوناتھن مارکس 

تجزیہ نگار ، دفاعی و سفارتی امور
سعودی صحافی جمالی خاشقجی کے قتل نے صرف سلطنتِ سعودی عربیہ اور ترکی کے تعلقات کو پیچیدہ نہیں کیا۔ یہ قتل سعودی عرب کے سیاسی اور تجارتی مغربی اتحادی ممالک کے لیے بھی ایک درد سر بن گیا ہے۔ اس نے جواں سال سعودی ولی عہد کا اصل چہرہ بھی بے نقاب کر دیا جو آنے والی کئی دہائیوں تک مشرق وسطیٰ کے اس اہم ترین ملک کی قیادت کرنے کے خواہشمند ہیں۔

امریکہ میں یہ صورت حال انہتائی گھمبیر ہے۔ جہاں ٹرمپ انتظامیہ کی دلی خواہش اس امید سے بندھی ہے کہ بہت جلد یہ معاملہ ماضی کا حصہ بن جائے گا وہیں کیپٹل ہل پر بہت سی اہم سیاسی شخصیات کی طرف سے یہ زور دیا جا رہا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کا از سر نو جائزہ لیا جانا چاہیے۔ سعودی امور کے ماہرین اور بہت سے تھنک ٹینک بھی اس خیال کے حامی ہیں۔

خاشقجی کے قتل کے محرکات اور ان کی لاش کو کیسے ٹھکانے لگایا گیا، ان تمام تفصیلات کا سامنے آنا باقی ہے لیکن اس بنیادی سوال کا جواب کہ اصل میں کس نے ان کے قتل کا حکم صادر کیا شاید کبھی نہ مل سکے۔

تمام شواہد اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ یہ حکم سعودی حکومت کی اعلیٰ ترین سطح یعنی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی طرف سے جاری کیا گیا تھا۔

سلطنت کے تمام امور محمد بن سلمان کے ہاتھ میں ہیں۔ خاشقجی کے قتل کے الزام میں گرفتار کیے جانے والے تمام افراد محمد بن سلمان کے ماتحت کام کرتے تھے اور سعودی عرب کے امور کے تمام ماہرین کا متفقہ خیال یہ ہے کہ سعودی عرب میں اگر اس کا حکم اعلیٰ ترین سطح سے جاری نہ کیا گیا ہو تو اس طرح کی واردات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

بہت کچھ اس بات سے مشروط ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کے براہ راست اس قتل میں ملوث ہونے کے کتنے شواہد موجود ہیں۔

ترکی کے پاس اس بارے میں کیا شواہد ہیں؟

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان سعودی ولی عہد سے بلی چوہے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ وہ جتنا کچھ عام کر چکے ہیں اس سے زیادہ جانتے ہیں۔ لیکن وہ کتنا کچھ جانتے ہیں اس بارے میں یقینی طور نہیں کہا جا سکتا۔

وہ اس قضیے کو طول دیے جا رہے ہیں اور بظاہر تمام قانونی راستے اختیار کر رہے ہیں لیکن دراصل وہ اس ڈرامے کا سسپینس اور محمد بن سلمان سے توجہ ہٹنے نہیں دے رہے۔

ترکی اور سعودی عرب دونوں مشرق وسطیٰ کے اہم ملک ہیں، دونوں فرقے کے لحاظ سے سنی ہیں اور دونوں مشرق وسطیٰ کے وسیع تر معمالات میں سرکردہ کردار ادا کرنے کے خواہش مند ہیں۔
مسابقت کی صورت حال کی وجہ سے ان دونوں ملکوں کے مفادات کا یکجا ہونا ممکن نہیں ہے اور اردوغان محمد بن سلمان کے لیے زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اردوغان کے لیے اس طرح سے اپنی داخلی سیاسی حمایت میں بہتری آ سکتی ہے جبکہ بیرونی طور پر واشنگٹن سے معاملات بہتر کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

چالاکی سے دباؤ بڑھانے اور درست وقت پر اس دباؤ کو ہٹا لینے سے ہو سکتا ہے ترکی کو اپنی ڈولتی ہوئی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے سعودی عرب کی طرف سے سرمایہ کاری اور مالی مدد ملے۔

امریکہ کی کیا مشکل ہے؟

لیکن امریکہ کی مشکل کچھ دوسری نوعیت کی ہے اور اسے اپنی اقدار اور اپنے مفادات میں توازن برقرار رکھنا ہے۔ واشگٹن کے لیے یہ معاملہ صرف اربوں ڈالر مالیت کے اسلحے کی فروخت کا نہیں ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کے پورے ڈھانچے کا یہ صرف ایک حصہ ہے جس کی بیناد مشرق وسطیٰ کی دفاعی اہمیت اور خطے میں استحکام برقرار رکھنے پر مشترکہ یقین اور اتفاق پر قائم ہے۔

اس رشتے میں تیل ایک اہم عنصر رہا ہے۔ اب جب کہ امریکہ کا تیل پر انحصار بہت کم ہو گیا ہے تو سعودی عرب کے تیل فراہم کرنے والے ملک کی حیثیت سے، اس کا استحکام دفاعی اور سٹریٹجک اہمیت اختیار کر گیا ہے۔

سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں بڑے اتار چڑھاؤ اور مشکلات آئی ہیں جن میں قدامت پسندانہ اور بنیاد پرستانہ اسلامی عقائد کی سعودی عرب کی طرف سے دنیا بھر میں تشہیر اور ترویج بھی شامل ہیں۔

محمد بن سلمان کے اقدامات اور ٹرمپ کی مشکلات

امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کے اتاور چڑھاؤ کے درمیان ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب کے مالک اور مختار کی صورت میں سامنے آئے جو کہ ایک لحاظ سے امریکہ کے لیے خوش کن تھا۔ سعودی عرب میں اصلاحات کرنے کے عزم نے ان کے منصوبے کے کئی منفی پہلوؤں کو چھپائے رکھا۔

لیکن یہ زیادہ دیر نہیں چل سکا۔ وہ قطر کو تنہا کرنے، لبنان کے وزیر اعظم کو یرغمال بنائے رکھنے، انسانی حقوق کے معاملے میں خام خواہ کینیڈا سے الجھ جانے اور سب سے زیادہ سنگین اقدام یمن پر فوج کشی کرنے کے ذمہ دار ہیں۔

یمن پر فوج کشی کی وجہ سے لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اس پورے ملک کو قحط کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔ واشنگٹن کے نقطہ نگاہ سے محمد بن سلمان کے اقدامات استحکام کے بجائے خطے کو بحران کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ کے لیے مشکلات اس وجہ سے بھی زیادہ سنگین ہو گئی ہیں کیونکہ اُس نے تمام انڈے محمد بن سلمان کی ٹوکری ہی میں رکھ دیے تھے۔ یہ خطے میں اپنے تین انتہائی اہم اہداف کے حصول کے لیے محمد بن سلمان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اول یہ کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کی مدد پر انحصار کر رہی ہے۔ دوئم یہ کہ مسئلہ فلسطین کے ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کے مطابق حل کے لیے بھی ٹرمپ انتظامیہ کو سعودی عرب کی حمایت درکار ہے اور سوئم یہ کہ ایران کو تنہا کرنے کے لیے بھی سعودی عرب امریکہ کے لیے انتہائی اہم ہے۔

ان تمام عوامل کی وجہ سے ٹرمپ انتظامیہ کی شدید خواہش یہ ہے کہ خاشقجی کے قتل کے معاملے سے جلد از جلد توجہ ہٹ جائے۔ اور ٹرمپ کی صدارت کے دوران سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات پر نظر ثانی نہیں کی جائے۔ لیکن اس کو اب بہت دیر تک التوا میں نہیں ڈالا جاسکتا۔

ظاہر ہے کہ اس بارے میں ٹرمپ اور کانگرس کے موقف میں اختلاف ہو گا۔ کیا سعودی عرب کوئی ایسا طریقہ اختیار کر سکتا ہے جس سے سعودی شہزادے کو کچھ روکا جا سکے۔ گزشتہ ہفتے سعودی عرب میں ہونے والی کانفرنس کی چکا چوند میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ ولی عہد محمد بن سلمان کو داخلی سطح پر کوئی مشکل درپیش ہو۔

روس کی طرف سے زور دیا جا رہا ہے کہ خاشقجی کے قتل کے بارے میں سعودی موقف کو تسلیم کر لیا جائے جس سے واضح طور پر اشارہ ملتا ہے کہ روس اپنی جگہ بنانے کی کوشش میں ہے۔ شاید وہ مستقبل میں اسلحے کے معاہدے حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتا ہو۔ ظاہر ہے صدر پوتن خطے میں اپنے ملک کے مفادات کے تحفظ کی کوشش میں ہیں۔

مغرب کے لیے اسلحے کے سودے دو دھاری تلوار کی طرح ہیں۔ اسلحے کے سودوں کی طویل المدتی معطلی مغرب کے لیے مہنگا سودا ثابت ہو گا لیکن سعودی عرب کے لیے بھی فوری طور پر امریکہ کی جگہ چین اور روس سے حاصل کردہ اسلحہ استعمال کرنا شروع کر دینا ممکن نہیں ہے۔

مغرب میں تیارہ کردہ ساز و سامان، اسلحہ اور بارود اور اس کے تربیتی ماہرین اور دفاعی مشیر ہی یمن پر سعودی فضائیہ کے ہوائی حملوں کو یقینی بنائے ہوئے ہیں۔

سعودی عرب پر دباؤ ڈالنے کے لیے مغرب کے پاس بہت سے طریقے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایسا کرنے کے لیے تیار ہے اور اس میں ٹرمپ انتظامیہ کوئی قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے راضی ہے۔

اس سلسلے میں امریکہ کے قریبی اتحادی بھی اختلاف کا شکار ہیں۔ جرمن چانسلر اینگلا مرکل سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت پر پابندی عائد کرنے والی واحد سربراہ ہیں۔ ان کے اس فیصلے پر فرانس کے صدر امینول میخوان نے کہا تھا کہ یہ محظ نعرے بازی ہے۔

جب تک امریکہ کے مغربی اتحاد میں کوئی اتفاق نہیں ہوتا اس وقت تک سعودی عرب سے رشتوں کا از سر نو جائزہ نہیں لیا جا سکتا اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک وائٹ ہاؤس میں کوئی سیاسی تبدیلی نہیں ہو جاتی۔

پیر، 29 اکتوبر، 2018

جنرل اچکزئی کا قتل اور اس کے اثرات - تحریر: سلام صابر



جنرل اچکزئی کا قتل اور اس کے اثرات


تحریر: سلام صابر 


جنرل رازق اچکزئی کے قتل کے وقتی مضمرات کا معلوم نہیں لیکن آنے والے وقتوں میں افغانستان کے جنوب غرب کے علاقوں کا امن ممکنہ طور پر مزید تہہ و بالا ہوگا، جس طرح اورزگان کے مطیع اللہ خان ایک مشکوک حملے میں جب کابل میں مارا گیا تب سے لیکر آج تک اورزگان کے شہریوں کو امن کی رات نصیب نہ ہوئی۔


روس کے انخلاء کے بعد جب افغان قبائلی و نسلی جنگجو مجاہدین و دیگر ناموں سے ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہوئے تو پورے افغانستان کو جہنم بنا کے رکھ دیا گیا، اور اسی درمیان میں کندھار سے طالبان کا ظہور ہوا، گوکہ طالبان کے نیم اقتدار سے لیکر اختتام تک انھیں مختلف علاقوں میں مختلف قبائلی و نسلی گروپوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا تھا۔


امریکہ کے افغانستان پر قبضے کے بعد کے چند سالوں یا اس سے قبل کے نزدیکی عشروں میں افغانستان کو ایک ملک یا مستحکم ریاست کے بجائے خانہ بدوشوں کا ٹھکانہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کیونکہ وطن دوستی کی نعمت سے محروم افغانستان کی اکثریتی قیادت کسی نہ کسی طرح کسی قوت کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے تھے۔


قبضہ گیر قوتوں کا ازل سے ایک ہی وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے زیر قبضہ علاقوں میں سیاسی و سماجی شعور کو پروان چڑھنے میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، اور امریکہ نے افغانستان میں بھی یہی کیا۔ مادی ترقی پر زیادہ توجہ دی گئی لیکن تعلیمی اداروں اور تعلیمی نظام کی بہتری کیلئے جو اقدامات اٹھانے کی ضرورت تھیں وہ نہ ہوسکے ۔


معیاری تعلیمی اداروں کی فقدان اور تعلیمی نظام کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر طالبان شدت پسند نوجوان نسل میں اپنی تبلیغ کو آسانی کے ساتھ پھیلا رہے ہیں، کیونکہ روزگار کے مواقع نہ ہونے کے سبب لازماً لوگ افغانستان میں جنگ جیسے منافع بخش عمل کو ترجیح دیں گے۔




اب آتے ہیں حاجی رازق کے قتل کے حوالے سے چند اہم باتوں پر غور کرتے ہیں۔ گورنر کندھار کا خالہ زاد گلبدین دو ہفتے قبل گورنر کے سیکیورٹی میں شامل ہوتا ہے، اور جس دن انتخابات کے حوالے سے نیٹو کے ساتھ مشترکہ اجلاس ہوتا ہے، اسی دن تمام اہلکاروں سے اسلحہ واپس لیا جاتا ہے۔ اجلاس ختم ہونے کے بعد نیٹو کمان ہیلی پیڈ کی طرف روانہ ہوتے ہیں اور صوبائی قیادت اسے رخصت کرنے کیلئے بھی اسی طرف جا رہے ہوتے ہیں کہ اچانک فائرنگ شروع ہوجاتا ہے۔ فائرنگ سے گورنر زخمی، اور جنرل اچکزئی و مومن حسن خیل اور حاجی سیلم جان مارے جاتے ہیں۔ کچھ دیر بعد طالبان ترجمان قاری یوسف ٹویئٹر پر اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے کہ ابو دجانہ ( گلبدین) ہمارا کارکن تھا، جس نے گورنر ہاوس میں فائرنگ کرکے معروف جنرل کو قتل کردیا۔


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی گلبدین ( ابودجانہ ) نے فائرنگ کرکے حاجی رازق سمیت دیگر کو قتل کیا تو میڈیکل رپورٹ کے مطابق جنرل اچکزئی کے جسم میں اے کے فورٹی سیون  کے گولیاں نہیں تھیں، اور اطلاعات کے مطابق گورنر کے اسکواڈ میں تمام سپاہیوں کے پاس اے کے فورٹی سیوں گن تھے۔ اور دوسرا سوال کہ اس طرح کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں سیکیورٹی کے پیش نظر سپاہیوں سے تمام اسلحہ جمع کیا گیا، تو گلبدین نے کیسے اور کس چیز سے فائرنگ کی؟


خود جنرل رازق کا اپنے قتل کی سازش کی پیشن گوئی


تین مئی دو ہزار پندرہ کو کندھار میں عبداللہ عبداللہ و دیگر اعلیٰ حکام کی موجودگی میں ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے جنرل اچکزئی نے کہا تھا کہ ان کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ خود ان کی اپنی مرکزی سرکار میں شامل چند لوگ طالبان کے ساتھ مل کر عطا نور، ظاہر قدیر سمیت مجھے قتل کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ حاجی رازق نے 2015 میں اپنے تقریر میں طالبان کے رہنما زاکر قیوم کا نام لیتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھ مل کر افغانستان امن کونسل کے ممبر ہمارے سروں کا سودا کررہے ہیں۔


زاکر قیوم جس پر خود طالبان نے جنوبی صوبے ہلمند کے ضلع موسیٰ قلعہ میں زمین کے تنازعے پر قبائلی جنگ کو ہوا دینے کا الزام لگا کر کوئٹہ میں اس کے گھر پر افغان طالبان نے دو مرتبہ چھاپہ مارکر اسے گرفتار کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے، اور آخر اپنی صفائی دے کر معافی مانگنے کے بعد آجکل گوشہ نشین ہوچکے ہیں ۔


کیا واقعی طالبان نے جنرل رازق کو قتل کیا؟

ملا عمر کی وفات کے بعد طالبان کی مرکزی قیادت کافی حد تک پشتونوں کے اسحاق زئی قبیلے کے ہاتھ میں چلا گیا ہے، اور اسحاق زئی قبیلے کا شمار افغانستان کے انتہائی ناخواندہ قبائل میں سے ایک میں ہوتا ہے، اور بعض علاقوں میں بالخصوص جنوبی افغانستان میں ان پر الزام ہے کہ وہ اپنا قبائلی بدلہ لینے کیلئے اسلامی امارات و جہاد کا سہارا لیتے ہیں۔



اس کے علاوہ آجکل طالبان بے ساختگی کا بھی شکار ہوچکے ہیں اوراکثر لوگ انھیں ایک بہتر اسلامی نظام حکومت کی خاطر جد وجہد کرنے والوں سے زیادہ ایک  سیکیورٹی کمپنی ہی سمجھتے ہیں، جو مخصوص بیرونی مفادات کی تکمیل کی خاطر اندھا دھند طریقے سے کام کررہے ہیں۔


اس کے علاوہ ایک قدرے مختلف نقطے کی جانب بھی توجہ دینا ہوگا کہ اگر کندھار گورنر ہاؤس میں ہونے والے فائرنگ کی منصوبہ بندی طالبان نے کی تھی، تو جنرل رازق کے قتل سے چار گھنٹے قبل پاکستان آرمی کے زیر اہتمام سوشل میڈیا کے ویب سائٹ فیس بک کے صفحے میں کندھار میں ایک اعلیٰ شخص کی قتل کی جانب اشارہ کیا گیا (گوکہ صفحے میں بی ایل اے کمانڈر لکھا گیا تھا)


ڈیونڈلائن اور جنرل اچکزئی

پاکستان اور افغانستان کے درمیان دیگر چھوٹے بڑے تنازعات کے علاوہ ڈیونڈ لائن کا تنازعہ قدرے بڑا تنازعہ ہے، پاکستان نے طالبان کے وقت اس متنازعہ سرحد کو مستقل سرحد تسلیم کروانے کے کافی دباؤ ڈالا لیکن ملاعمر نے صاف انداز میں کہا کہ وہ اپنی ماں ( افغانستان) کا سودا نہیں کرسکتا۔



لیکن حالیہ عرصے میں جب پاکستان نے اس متنازعہ لائن پر خار دار تار لگانے کا کام شروع کیا، تو افغان حکومت کی جانب سے کوئی خاص مذمت و مزاحمت دیکھنے میں نہیں آیا، لیکن جب کندھار صوبے سے منسلک سرحد پر پاکستان نے باڑ لگانے کا کام شروع کیا تو جنرل اچکزئی نے باقاعدہ طور پر کام کو بند کرنے کیلئے فورسز کو روانہ کیا۔




گوکہ کندھار میں موجود آرمی کور کمانڈر کو کابل سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا کہ وہ کسی بھی صورت جنرل رازق کی مدد نہ کرے۔ متنازعہ سرحد پر کام کے حوالے سے جب گورنر ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں نیٹو کمانڈر نے بات کرنے کی کوشش کی تو جنرل اچکزئی نے موقف اختیار کیا کہ یہ ہمارا اندرونی مسئلہ ہے اور اسی پہ اطلاع کے مطابق کچھ تلخ کلامی بھی ہوا تھا۔


مرکزی حکومت کے ساتھ اختلافات کے علاوہ حال ہی میں رازق اچکزئی کے اپنے سب سے بڑے حمایتی حامد کرزئی سے بھی تعلقات کچھ کچھ کشیدہ تھے۔


حامد کرزئی سے کشیدہ تعلقات کی بنیادی وجہ افغانستان اور امریکہ کے درمیان ہونے والا معاہدہ ہے، جس پر بطور صدر کرزئی نے دستخط کرنے سے انکار کیا تھا اور اشرف غنی نے صدر منتخب ہونے کے بعد معاہدے پر پہلی ہی فرصت میں دستخط کرلیا تھا۔ حال ہی میں جب طالبان کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا تو بعض حلقوں کی جانب سے معاہدے پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا گیا۔


دیگر کے ساتھ ساتھ جنرل اچکزئی نے حامد کرزئی کے موقف کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ان کیلئے سب سے زیادہ اہمیت اپنا رکھتا ہے نہ کہ کوئی شخص۔


جنرل اچکزئی کے قتل کے اثرات 

طالبان کی جائے پیدائش میں امن و امان کی صورتحال افغانستان کے دیگر جنوبی صوبوں کی نسبت قدرے بہتر رہا ہے، بقول ایک سرکردہ طالبان رہنما کے ہمارا سب سے بڑا افرادی قوت کندھار میں تھا اور سب سے زیادہ جانی نقصان بھی کندھار میں رازق اچکزئی کی فورسز سے مقابلہ کرتے ہوئے اٹھایا۔



گوکہ جنرل اچکزئی پر انسانی حقوق کی پامالیوں کا الزام بھی لگا لیکن ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ کسی خالی ہاتھ انسان کو کبھی بھی نشانہ بنانے کا حکم نہیں دیا، لیکن جو شدت پسند فورسز پر حملہ کرتے ہیں تو ان کا مقابلہ کرتے ہوئے لازماً جانی نقصان ہوتا ہے۔


جنرل اچکزئی کے قتل سے قبل اس کے دست راست کماندان جانان کو ایک مقناطیسی حملے میں نشانہ بنایا گیا، اور بعض حلقوں کی جانب سے اس تشویش کا اظہار بھی کیا گیا کہ دشمن جنرل اچکزئی کے قریب تک پہنچ چکا ہے۔


قطع نظر اس بات کہ ایک درجن سے زائد حملوں میں محفوظ رہنے کے بعد بالآخر مارا تو گیا لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ کندھار کا امن بھی آنے والے دنوں میں داؤ پر لگ جائے گا۔


اس کے علاوہ کندھار جنوبی پشتون صوبوں کا تجارتی مرکز بھی ہے اور بہت سارے افغان تاجر جو پہلے کراچی، کوئٹہ اور دیگر ممالک میں کاروبار کرتے تھے، انہوں نے اپنا کاروبار کندھار منتقل کردیا، اور حالیہ عرصے میں کندھار شہر میں بڑی تعداد میں بڑے بڑے مارکیٹوں کی تعمیراور سڑکوں پر کار گاڑیوں کا مسلسل اضافہ وہاں تجارتی سرگرمیوں کی نشانی ہے، لیکن مستقبل قریب میں اگر امن امان کی صورتحال ناگفتہ بہ ہوئی تو لازماً تجارتی سرگرمیوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہونگے۔


اور جب امن و امان کی صورت حال خراب ہوگا تو لازماً اس کے اثرات صرف کندھار تک محدود نہیں ہونگے، بلکہ کوئٹہ، پشاور و کراچی میں اس کے اثرات خطرناک حدتک پڑیں گے۔