جمعرات، 15 اگست، 2013

عورت اور مطالعہ فطرت


مرد کی درندگی کے اس تمدن میں عورت ہی تھی جس نے فطرت کے عمیق مطالعہ سے زراعت کا ہنر ایجاد کیا اور تمدن کو ایک بہت بڑے انقلاب سے دو چار کردیا مرد شکار کے لئے نکل جاتے تو عورت فطرت کا مشاہدہ کرتی اس غور و فکر میں اس پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ نباتات بیج سے اُگتی ہے۔ول ڈیورانٹ لکھتے ہیں’’اس دوران عورت سب سے بڑی معاشی دریافت کر رہی تھی اور یہ دریاف زمیں کی فیاضی تھی جب مرد شکار پر جاتا تو اسے جھونپڑے کے اردگر د جو بھی کھانے کے قابل چیز ملتی اسے اٹھا لیتی یا درخت سے توڑ لیتی وہ درختو سے خوز اور پھل توڑتی شہد ، بیج اور قدرتی اناج اکٹھا کرتی‘‘(انسانی تہذیب کا ارتقاء صفحہ 16-)عورت کا یہی مطالعہ فطرت تھا جس سے اس نے آگے چل کر آگ اور اس کی افادیت سے بھی آگاہی حاصل کر لی اور تمدن ایک اور عظیم تر انقلاب سے دوچار ہوا۔ مصنف مذکور لکھتے ہیں ’’آگ سے آگہی بھی عورت نے حاصل کی پتھروں کو باہم ٹکرانے کا کھیل ہی آگ کی دریافت کا موجب ہوا ہوگا۔ گھاس پھوس نے آگ پکڑ لی ہوگی اس طرح یہ جن عورت کے قابو میں آگیا ، آگ کی دریافت سے درندگی گھٹ گئی آگ اور زراعت کی بدولت انسان شکار کے تعاقب سے آزاد ہوگیا۔ پکانے کے عمل سے ہزاروں نا قابل ہضم پودوں کے خام حالت سے چھوٹے خلیے اور نشاستے کھانے کے قابل ہوگئے اور انسان زیادہ سے زیادہ اناج اور سبزیوں کی طرف رغبت کرتا گیا‘‘ (ایضا۔صفحہ19-)یوں غذا بافراط فراہم ہونے لگی شکار کے تھکا دینے والے عمل سے مرد کو کچھ نجات ملی تو اس کا اثر جنسی جذبات پر بھی ظاہر ہوا ۔اورائے (viroy) لکھتے ہیں:جب تک انسان کو حصول غذا میں دشواریوں کا سامنا رہا اس کی خواہشات نفسانی بھی دبی رہیں لیکن جب سامان خوردونوش کافی اور بآسانی فراہم ہونے لگا تو اسکی بد مستیاں بھی بڑھ گئیں چنانچہ آپ جنگی جانوروں کو دیکھئے جب تک وہ جنگل میں رہتے ہیں غذا کی فکر سے آزاد نہیں ہوتے صرف مخصوص زمانہ میں جنسی ملاپ کی تحریک ہوتی ہے اور بچے پیدا ہوتے ہیں لیکن جب انہیں پالتو بنالیا جاتا ہے اور وہ فکر وغذا سے آزاد ہوجاتے ہیں تو وہ بے موسم بھی ایک دوسرے سے ملتفت نظر آتے ہیں۔(بحوالہ ، شہوانیات، صفحہ12)زرعی انقلاب اور آگ کی دریافت کے بعد انسان بھی جنسی ملاپ کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے لگا ابتدائی تمدنی ترقی عورت ہی کی مرہون احسان ہے اس نے زراعت کے ساتھ ساتھ ترقی عورت ہی کی مرہون احسان ہے اس نے زراعت کے ساتھ ساتھ ایسے فنون کی بنیاد رکھی جو بعد میں اہم صنعتوں کی صورت اختیار کر گئے، عورت ہی تھی جس نے سینا پرونا، سوت کاٹ کر کپڑا تیار کرنا، ٹوکری سازی برتن سازی، لکڑی کا کا م اور عمارات کی تعمیر کا کا م شروع کیا۔اس کے ساتھ ہی اس نے مختلف جانوروں کے بچے پالے ، جو بعد میں پالتو جانو ر بن کر انسان کے مددگار ہوگئے۔وِل ڈیورانٹ لکھتے ہیں ُ ’’عورت نے گھر کی تزئین بھی کی۔ جانور بھی پالے اور اپنے جانوروں کی فہرست میں مرد کو بھی شامل کرلیا اور اسے سماجی رجحانات اور خوش اطاوری کی تربیت دی جو تہذیب کی نفسیاتی بنیاد ہیں۔(بحوالہ: انسانی تہذیب کا ارتقاء۔ صفحہ55-)اس طرح انسانی دھرتی سے وابستہ ہوا‘ بدویانہ زندگی چھوڑ کر شہری زندگی اختیار کی اور تمدن کی بنیاد پڑگئی چونکہ یہ سارا تمدن عورت ہی کا مرہون احسان تھا اس لئے اسے قبیلے کے وجود ‘پرورش اور افزائش کا واحد سبب قرار دے کر برتر تسلیم کیا گیا اور یقین کرلیا گیا کہ پیدائش‘ پرورش اور افزائش زراعت میں ہو یا نسل انسانی میں عورت کا کارنامہ ہے۔ اس لئے اسے تمام تر قوت و اختیار کا سرچشمہ قرار دیا گیا یوں اموی یا مادر سری نظام رائج ہوا یہ نظام اس وقت کی آباد دنیا مصر، عراق، یونا ن، ایشیائے کوچک اور وادی سندھ میں صدیوں قائم رہا یہی علاقے تہذیب و تمدن کے ابتدائی گہارے تھے مصر مین فراعنہ کے عہد تک تخت و تاج کی حقیقی مالک اور معابد کی مہا پرہت ملکہ ہی کو سمجھا جاتا تھا۔ فراعنہ کو ملکہ کے ساتھ شادی کر کے ثانوی اقتدار نصیب ہوتا تھا مادر سری دور کا تعارف کراتے ہوئے پروفیسر ریوز لکھتے ہیں۔ہرشخص کو اس کے حقوق باپ کے بجائے ماں کی طرف سے ملتے تھے (Primitive Culture vol:P-119)آج بھی بعض پسماندہ قبائل جنہوں نے اپنے آپ کو زراعت تک محدود رکھا ہوا ہے، اسی تمدن کے حامل ہیں۔اسی دور میں زمین کو اناج اُگانے کے باعث عورت سے شابت دے کر ’’مادرارض‘‘ یا ’’دھرتی ماتا‘‘ کا لقب دیا گیا اس زمانے کے لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ زمین کا تخلیقی عمل اور عورت کا تخلیقی عمل ایک ہی حقیقت کے دو مظاہر ہیں لوگوں کا یہ عقیدہ بھی ہوگیا کہ صرف عورتیں ہی بہتر فصل اُگاسکتی ہیں۔ اسی دور میں عورت کی مورتیاں تراشی گئیں جنہیں فصلوں میں برکت ڈالنے کے لئے مختلف موسموں میں پوجا گیا۔سرجان مارشل موہنجوداڑو کی مورتیوں کے متعلق لکھتے ہیں۔’’ہرشخص جانتا ہے کہ وادی سندھ اور بلوچستان میں جو مورتیاں نکلی ہیں ویسی ہی مورتیاں عرق، شام، فلسطین، قرض، بلقان ،ایران اور مصرمیں کائنات یا قدرت کی دیوی کی ہیں، وادی سندھ کی مورتیاں مغربی ایشیاء کی مورتیوں کی طرح سماج کے مادر سری دور میں وجود پذیر ہوئی ہونگی۔(بحوالہ، ماضی کے مزا، صفحہ60-)دھرتی ماتا یا مدر ارض کو مکمل عورت سمجھاجاتا تھا اور اسے بہت بڑی دیوی کی حیثیت حاصل تھی۔ مرکند یہ ایران میں یہ دیوی یوں خطاب کرتی ہے’’اس کے بعد میں ساری دنیا کو حیات بخش سبزیوں سے نواز دونگی ان سبزیون کو تیز بارش میں اپنے جسم سے اگاؤنگی اور ہریالی پیدا کرنے والی کہلاؤں گی‘(ToKoyala By chattopadhia P.83)ہڑپہ کی کھدائی سے برآمد ہونے والی تین ہزار برس پُرانی مہریں بھی اسی کی تصدیق کرتی ہیں ان میں عورتوں کو ہی پودوں کے نامیاتی عمل کی علامت بتا یاگیا ہے۔مادر ارمن کو عراقیوں نے ’’نن ہورسگ‘‘ کا لقب دیا سومری اور عکادی گیتوں میں اس کے کئی نام آتے ہیں وہ ’’نن تو‘‘ ہے جو سب کا جنم دیتی ہے وہ ’’نگ زمی گال دم دمی‘‘ دلموں کی سرزمین سے نن ہورسگ کی داستان نے جنم لیا یہ داستان منظوم صورت میں دو ہزار قبل مسیح میں لکھی گئی لیکن اس کا مزاج تقریباً پانچ ہزار قبل مسیح کا ہے غالباًاتنا عرصہ وہ سینہ بسینہ اور نسل در نسل مستقل ہوتی رہی اس داستان کی اصل ہیروئن مادر کائنات ہے جو درختوں ، پودوں حتیٰ کہ دیوی ، دیوتاؤں کو پیدا کرتی ہے اور کوئی بڑے سے بڑادیوتا بھی اس کے امور میں مداخلت کرتا ہے تو اسے سخت سزا دیتی ہے ذہن ذرا آگے بڑھا اور بہار و خزاں کے مناظر کا پرغور مشاہدہ ہوا تو دو اور دیویوں نے جنم لیا ، بہار کی علامت ، محبت اور افزائش کی دیوی عشتار اور موت اور ظلمات کی دیوی ’’اریش گل‘‘ ہے عشتار کی حیثیت آفاقی ہے اور یہ اس وقت کی آباد دنیا میں مختلف ناموں سے ہر جگہ موجود رہی ہے ، سید سبط حسن کی تحقیق کے مطابق’’عشتار سومیر دیومالا میں ’’انانا‘‘ ہے عکادی اور اشوری دیومالامیں عشتا ر ہے فونیقی میں ’’اشیراہ‘‘ ہے مصر میں ’’ازیس‘‘ تحوت ‘‘اور جتحور‘‘ ہے فلسطین میں ’’انات‘‘ ، اشیراۃ اور ’’عشروت‘‘ ہے ایران میں’’شالا‘‘ ’’اتابیتا‘‘ اور ’’نائیار‘‘ ہے ہندوستان میں ’’درگاہ‘‘’’گوری‘‘ ’’اما‘‘ ’’اشا‘‘ ’’سرسوتی‘‘ اور ’’رتی‘‘ ہے یونان میں ’’ایفرو ڈیٹا‘‘ اور ’’آڑے ‘‘ ہے عربوں میں ’’زہرہ‘‘ اور ’’مشتری‘‘ ہے(ماضی کے مزار صفحہ73-) اس پورے عرصہ میں مادر سری نظام رائج رہا عورت برتر واعلیٰ تھی اور مرد کی حیثیت ثانوی تھی، ثانوی سمجھ جانے والی ہر چیز کی طرح مرد کو توجہ حاصل کرنے کے لئے کوئی بناؤ سنگھار کرتا اور زیور پہنتا تھا۔ول ڈیورانٹ لکھتے ہیں ۔’’ اس معاشرہ میں عورتوں کی بجائے مرد زیور پہنتا تھا اسی طرح وہ گالوں کندھوں، ماتھوں اور سینے پر قسم قسم کے رنگ لگاتا اور اپنے خیال میں اپنی آرائش و زیبائش کرتا تھا۔(انسانی تہذیب کا ارتقاء صفحہ132-)مادرسری نظام جب تک اور جہاں جہاں رہا اسکی ایک نمایاں خصوصیت رہی کہ اس معاشرہ میں امن و آشتی کا دور دورہ ہوتا تھا لوگ بڑے صلح جو اور آپس میں محبتوں اور ہمدردیوں سے سرشار ہوتے تھے یہ خصوصیت وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا بھی طرز امتیاز رہی ہے ہڑپہ اور موہنجوداڑو سے ملنے والے آثار کا ذکر کرتے ہوئے سبط حسن لکھتے ہیں :’’ڈھال‘ تلوار‘ خود‘ زر بکتر یعنی جنگلی اسلحہ ایک بھی نہیں ملاہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وادی سندھ کا معاشرہ نہایت محفوظ معاشرہ تھا لوگ بڑے امن پسند اور صلح جو تھے، لوٹ مار، قتل و غارت گری ان کا شیوہ نہ تھا اور نہ سپاہ و لشکر رکھتے تھے نہ کسی پر حملہ کرتے تھے وادی سندھ بجا طور پر فخر کرسکتی ہے کہ اسکی تخلیقات و تعمیرات میں کسی دوسری قوم کا خون پسینہ شامل نہیں ہے یہ درست ہے موہنجوڈارو اور ہڑپہ والوں نے یادگاری عمارتیں نہیں چھوڑی ہیں نہ قصروایوان، نہ عالی شان عبادتگائیں اور مقبرے، مگر کوئی ان پر یہ الزام تو نہیں لگا سکتا کہ تم نے اپنی عظمتوں کے مینار انسانوں کی کھوپڑیوں پر کھڑے کئے ہیں وہ آج کے معیار سے بھی نہایت شائسہ اور مہذب لوگ تھے‘‘(بحوالہ ۔پاکستان میں تہذیب ارتقاء صفحہ69-70)مادر سری دور کے پرسکون ماحول میں ’’جنسی مسائل‘‘ کس انداز کے تھے اور انسان انہیں کیسے حاصل کرتا تھا؟ عام خیال ہے کہ عورت کو مشترکہ ملکیت سمجھا جاتا تھا یہ کہنا بات کو گھمادینا ہے، کہنایوں چاہیے کہ سب کچھاجتماعی ملکیت تھا، عورت کے ساتھ مرد بھی تو اجتماعی ملکیت رکھتا تھا ۔اصل صورت حال کو سمجھنے کے لئے آج کے حیوانات کو دیکھ لیا جائے جب مادہ میں جنسی ملاپ کے تہیجات ابھرتے ہیں نر اکھٹے ہو جاتے ہیں جو طاقتور ہوں مادہ بھی انکی طرف رجوع رکھتی ہو وہ کامیاب ہوجاتے ہیں باقی ناکام رہتے ہیں یہی صورتحال ہوگی ۔اس صورت حال میں ملکیت کا لفظ استعمال کرنا اور وہ بھی صرف عورت کے لئے سراسر زیادتی ہے ، بہرحال یہ مادر سری دور تھا، عورت نے دریافت اور ایجاد کا سلسلہ جای رکھا اور فطرت کے مطالعہ سے سماج کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرتی رہی۔ڈیورانٹ کی تحقیقات کے مطابق ڈاکٹری بھی عورتوں کی ایجاد ہے یوں عورت سوچتی اور سوچ پر عمل کرتی رہی اور مرد اس کا آلہ کا ر رہا ۔جب تمدن نے ترقی کی اورایک خاص سطح پر پہنج گیا تو مرد نے اپنے درندگی کی قوت کودوسرا روپ دیا اور معاشرہ کی بھاگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لے لی اب بھاری ہل ایجاد ہوگئے تھے اور دیگر قوت طلب بھاری زرعی آلات وجود میں آگئے تھے مرد انہیں استعمال میں لاسکتا تھا وہ آگے بڑھا اور دنیا کے اکثر حصوں میں اموی کی بجائے ایو ی یامادر سری کی بجائے پدر سری نظام عمل میں آگیا۔ مادرسری دور میں زیادہ عرصہ تک انسان افزائش نسل کو تنہا عورت کا کارنامہ سمجھا جاتا رہاتھا، جنسی خواہشات کی تسکین اور افزائش نسل دوسرے جانوروں کی طرح ایک خاص وقت پر ہوتی تھی ابھی’’فحاشی اور بے حیائی‘‘ جیسے لفظ وجود میں نہیں آئے تھےاگلا قدماسی زرعی ترقی کے دورمیں گلہ بانی کی کارواج ہوا اور گلہ بانی سے ہی ’’میرے اور تیرے ‘‘(Mine and Thine)کو تصور پیدا ہوا۔ میرے اتنے جانور ہیں تیرے اتنے ‘‘ میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں ، اب چراگاہوں اور اجناس خوردنی کا سوال اٹھازمین پر قبضہ اس سے وابستہ تھا، طاقتور لوگ زمین پر میری اور تیری کی لکیر کھینچنے لگے زیادہ سے زیادہ مویشی اس صورت میں پا لے جاسکتے تھے۔ جب اپنے اشارہ پر کام کرنے والے افراد کی تعداد زیادہ ہو اسکی دو صورتیں تھیں، کمزور لوگوں کو بڑی تعداد میں غلام بنایا جائے ۔اس کے ساتھ دوسری صور ت یہ تھی کہ عورت کو اپنے قابو میں لاکر اپنی اولاد پیدا کی جائے، غلاموں سے زیادہ اولاد وفادار ہو سکتی تھی اس لئے قبیلوں اور خاندانوں کی بنیاد پڑی۔ زمین اور چراگاہ کی طرح عورت بھی میری اورتیسری کی حدود میں آگئی۔یہ ضروری نہیں تھا کہ زمین پر جولکریں کھینچی گئیں تھیں وہ کفایت کرتیں اور و ہ زمین ان کی ضروریات پوری کرتی رہتی۔ قبیلہ میں افراد کی تعداد زیادہ ہوئی تو زیادہ خوراک درکار ہوئی، زیادہ خوراک حاصل کرنے کے لئے زیادہ چراگاہوں کی ضرورت تھی۔ اس لئے جنگ وجدال کی بنیاد پڑی اور دوسروں سے اپنی ضروریات چھین لینے کا عمل شروع ہوا ایک قبیلہ دوسرے پرٹوٹ پڑتا اور غلہ حاصل کرلیتا، انکی زمین پر قابض ہوجاتا ان کے مال مویشی کا مالک بن جاتا اور مال مویشی کے ساتھ عورتوں پر بھی قبضہ کرلیتا کیونکہ وہ بھی ملکیت کی چیز سمجھی جاتی تھیں ۔اسی طرح دوسرے قبیلے کے افراد بھی اپنے قبضہ میں لے لئے جاتے اور انہیں غلام بنا لیا جاتا۔ پھر اس زورآوری کے تمدن نے یہ صورت اختیار کی کہ مرد بلکہ جوانمرد وہی سمجھاجاتا جو خاندان نے باہر کسی دوشیزہ کو پکڑ لاتا اس طرح ہر قبیلہ کو خطرہ رہتا کہ کوئی دوسرا آپڑیگااور انکی اور ان کی بیٹی پکڑ کر لے جائے گا اس جارحیت کا مقابلہ مرد ہی کرسکتے تھے اس لئے اولاد نرینہ کو بہت بڑی نعمت سمجھا جانے لگا چونکہ بیٹیوں کا تحفظ کیا جاتا تھا اور ا س سے گلو خلاصی کرانا بہتر سمجھا جاتا تھا یوں دختر کشی شروع کردی گئی بچی کو پیدا ہوتے ہی ختم کردیا جانے لگا۔ اس سے بھی قبیلوں میں عورتوں کی تعداد کم ہونے لگی اب ہر جواں مرد کو ضرورت تھی کہ دوسرے قبیلے کی عورت پکڑ لائے اور اس سے شادی رچائے۔آج کے مہذب دور میں بھی اگرچہ شادی باہمی رضامندی سے ہوتی ہے لیکن اکثر جگہ شادی کی رسوم ایسی ہیں کہ پرانے دور کی یاد تازہ ہوجاتی ہے باراتیوں کے قافلہ کے آگے ڈھول پیٹنے والے ہوتے ہیں یہ گویا طبل جنگ کی یادگار ہے ، باراتی بندو قیں داغتے ہیں اور بندوقوں کے شور میں آگے بڑھتے ہیں جیسے دلہن کے گھر پر حملہ آور ہورہے ہوں ، آگے دلہن کے گھر بیٹھے ہوئے بارات کو روکنے میں اکثر جگہ رسا بندھا ہوتا ہے یہ گویا مزاحمت ہے۔ عورت کے زیورات بھی اس کی غلامی کی علامت ہیں کڑے، کنگن اور چوڑیاں گویا ہتھکڑیاں ہیں ، ناک کی نتھلی وغیرہ گویا نکیل کی علامت ہے گلے کے حمائل طو ق کی یاد دلاتی ہے ، کانوں کی بالیاں کانٹے وغیرہ بھی غلامی کی نشانیاں ہیں پرانے زمانے میں غلاموں کے کان چھید کر ان میں حلقے ڈال دیئے جاتے تھے، ’’حلقہ بگوش‘‘ کی ترکیب انہی غلاموں کے لئے وضع ہوئی تھی۔غلام داری کا دور عرصہ دراز تک جاری رہا اور اس کے لوازمات و متعلقات بھی جاری رہے، بنی اسرائیل میں بھی مغلوب و شکست خوردی لوگوں کی عورتوں کو پکڑ کرلانے اور انہیں اپنی بیویاں بنانے کا سلسلہ چل رہا تھا صحیفہ قاضیوں باب21آیت 22میں جو کچھ بیاں ہوا مختصراً یوں ہے:’’تب انہوں نے بارہ ہزار بہادر روانہ کیے اور انہیں حکم دیا کہ میبیس جلعاد کے باشندوں کو جاکرقتل کریں اور ان تمام عورتوں کو جو مردوں سے ہم بستر ہوچکی ہوں ہلاک کردیں اور کنواری عورتیں قابو میں کریں۔ پس انہوں نے میبیس جلعاد میں چارسو کنواری عورتیں پائیں جو مرد سے نا واقف تھیں اور انہیں سرزمین کنان میں سیلا کے بیچ لشکر میں لے آئے پھر انہوں نے بنی بن یامین کو طلب کیا اور ان عورتوں کی ان سے شادیاں کردیں لیکن وہ ان کو کافی نہ ہوئیں تب جماعت کے لوگ بولے جو مرد بچ رہے ہیں ان کے لئے بھی بیویوں کی فکر کی جائے تاکہ بنی اسرائیل کا ایک حصہ نابود نہ ہوجائے مگر لوگوں نے کہا ہم نے قسم کھائی ہے کہ بنی بن یامین کو بیٹیاں ہر گز نہ دیں گے تب انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ ’’سیلا‘‘ میں اس جگہ جو جانب شمال بیت اہل کی سڑک پر واقع ہیں وہاں کے لوگ ہر سال عید مناتے ہیں پس بنی بن یا مین جائیں اور تاکستانوں میں چھپ کر گھات میں بیٹھ جائیں جب ’’سیلا‘‘ کی بیٹیاں دف و چنگ بجاتی ناچتی گاتی آئیں تو یہ کمین گاہوں سے نکل کر ٹوٹ پڑیں اور ہر شخص اپنے لیے ایک لڑکی گرفتار کر لے اور اپنے ملک کو چلاجائے الغرض بنی بن یامین نے ایسا ہی کیا اوراپنے لیے ایک بیوی پکڑلی ‘‘یہی کچھ رومیوں نے بھی کیا تھا جب انہیں بیویوں کی ضرورت پڑگئی تھی اومولس نے صابین (Sabin)لوگوں اور اردگرد کے شہروں اور قصبوں کے باشندوں کو مدعو کیا کہ انہیں نادر تماشے دکھائے جائیں جب بہت سے مردوزن جمع ہوگئے تو رومیوں نے چھاپہ مارا اور جس قدر شادی کے قابل عورتیں ہاتھ لگیں انہیں پکڑ کر لے گئے(بحوالہ۔ تاریخ روم صفحہ20)اس طرح تمدن میں لونڈیاں اورکنیزیں بھی داخل ہوئیں پھر جانوروں کی طرح انکی خریدوفروخت ہونے لگی۔جب ارتقائے تہذیب و تمدن کے ساتھ وحشت کم ہوگئی تو شادی کی دو صورتیں رہ گئیں یا لڑکی والے رضامند ی سے بیٹی بیانے لگے اور پھر بیٹیاں بکنے لگیں۔ باہمی رضامندی میں بھی ایک صورت یہپیداہوگئی کہ ’’وٹہ سٹہ‘‘ یعنی تبادلے کی شادیاں ہونے لگیں ۔بہرحال اس دور میں جب عورت اور مرد جوڑوں کی صورت میں رہنے لگے تو ’’عصمت و عفت‘‘ کا تصور پیدا ہوا۔عام خیال یہ ہے کہ مرد اور عورت کا جوڑے کی صورت میں اکٹھا رہنے کا تصور اس وقت پیدا ہوا جب پدر سری نظام کی ابتدا ہوئی۔ لیکن ہمارا خیال ہے جب مادر سری نظام میں بقول ول ڈیورانٹ عورت نے جانوروں کو پالتو بنایا او انکی فہرست میں مرد کو بھی شامل کر کے اسے سماجی رجحانات کی تربیت دی‘‘ تو اسی وقت اس نے مرد پر یہ ذمہ داری ڈالنا ضروری سمجھا ہوگا کہ اس سلسلہ میں فطرت رہنمائی فراہم کررہی تھی خاص طور پر پرندوں کی صورت میں یہی کچھ تھا کہ ان کے بچے گائے بچھڑے یا بطخ کے بچے کی طرح پیدا ہونے کے فوراً بعد چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہوتے تھے بلکہ عرصہ دراز تک گوشت کے لوتھڑے کی طرح پڑے رہتے صرف کھاسکتے تھے اور گردن کو حرکت دے سکتے تھے اس لئے ان کو پالنے کے لئے نر اور مادہ دونوں ڈیوٹی دیتے تھے اور جوڑے کی صورت میں رہتے تھے ، انسانی بچے کی بھی یہی صورت حال تھی اس لئے عورت نے ابتک جو ذمہ داری تنہانبھائی تھی اس میں مرد کو شامل کرلیا ہوگا۔ مرد نے جب سارا اقتدار سنبھال لیا اور سماج میں قوت غالب بن گیا تو اس نے عورت کو دبا کر رکھنے کے لئے اپنی ملکیت شمار کرلیا۔ یوں وہ خاندانی نظام وجود میں آیا جس کا سربراہ مرد ہوتا ہے اور جس میں حسب و نسب باپ کی طرف سے طے ہوتا ہے۔**********

1 تبصرہ: