جمعرات، 30 مارچ، 2017

"غازی یا غدار۔۔۔۔۔۔؟؟"



"غازی یا غدار۔۔۔۔۔۔؟؟"
(براہوئی ادب سے۔۔۔۔۔۔۔۔)
تحریر: رحیم زام
ترجمہ: عتیق آسکوہ بلوچ
آسمان کھا گئی یا زمین نگل گیا حقیقت میں کسی کو معلوم نہیں، کوئی کہتا کہ اس کے دوست اسے پہاڑوں وادیوں کے بیچ لے جاکر موت کی آغوش میں چھوڑ آئے ہیں۔ کوئی توبہ توبہ کہتے ہوئے کہتا کہ "آخر لوگوں کے ساتھ اس نے کیا کیا تھا کہ اسے ایسے دن دیکھنے پڑے!"
اسی طرح بہت سے لوگ اس کے گھر والوں کو تسلی دینے کے لئے بھی جاتے تھے لیکن جب ان کے گھر سے واپس جارہے ہوتے تو یہی لوگ باتیں کرنے لگتے کہ کچھ نہیں ہوا ہے ان کے بیٹے کو، کوئی بھلا نہیں گرا ہے اس پے بس یہی گھر کے جھگڑوں، یہی بے روزگاری کے طعنوں سے بیزار ہوکر گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جتنے منہ انتی باتیں۔۔۔۔۔۔۔ کبھی لوگ اس کے خلاف باتیں کرتے تو کبھی اس کے حق میں۔ اسی طرح دن گزرتے گئے۔
لوگ اپنی وقت گزاری کے لئے ان کے گھر جاتے، کوئی خاص بات نہ کرتے لیکن اس کے گھر والوں کے زخموں کو تازہ ضرور کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ایک سال گزرنے کے بعد کسی کو اس کے گھر والوں کے درد و غم سے کوئی سروکار نہیں۔
اس کے گھر میں ہزاروں مرادے دل میں رکھے ہوئے اس کی ماں بھی تھی جو اپنی زندگی کے آخری دنوں کو گزار رہی تھی، جو اپنے بچے کے خوشیوں کی جگہ اس کے اس طرح درگور ہونے پر صرف غم کے آنسوں بہا رہی تھی۔
اسی طرح اس کی چھوٹی بہنیں ہر وقت پوچھتے رہتے کہ ماں ہمارا بھائی کہا گیا ہے؟ تو ماں جواب دیتی؛ پردیس گیا ہے تمہارے لئے چیزیں خریدے گا، گڑیاں، چوڑیاں۔ اور اس طرح اس کے چھوٹے بہنوں کو تسلیاں دیتی تھی۔
یہ تسلیاں تو چھوٹی بہنوں کے لئے کافی تھی لیکن بڑی بہنوں اور بھائیوں کا کیا جو ماں سے پوچھ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کا بھائی کب آئے گا، لالا کب آئے گا؟
جب یادے حد سے زیادہ بڑھ جاتی تو بہنیں اپنے دوپٹے کے پلو سے اپنی آنسوں پونچتی رہتی اور پھر زندگی کے رسم و رواجوں میں خود کو مشغول کرتی اور خود کو تسلی دیتے ہوئے کہتی کہ مہمان آرہے ہیں ان کی مہمان نوازی بھی تو کرنی ہے، تیاریاں کرنی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی حال بھائی کا بھی تھا لیکن جانے والے بھائی کے وہ ہی تھا، اس کے لئے یہی بات تھی کہ وہ مرد ہے۔ بعض دفعہ تو بہن بھی اسے طعنیں دیتی کہ تمہارے سینے میں دل مہیں بلکہ پتھر ہے تمہیں لالا کے جانے کا کوئی غم نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔ کہا گیا اپنی خوبصورت زندگی کو چھوڑ کے، آنسوں بہانے کو ویسے بھی تم اپنے وقار سے باہر سمجھتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ بھائی کو ہی معلوم تھا کہ اس کے دل پے کیا گزر رہی ہیں، کیسے کیسے سوچ اسے دل گیرے ہوئے پریشان کررہے ہیں، کیسی کیسی باتیں اس کے بدن کو جلسا رہے ہیں۔۔۔۔۔ ایک آسکوہ (آتش فشاں) کی طرح سالوں سال کی خاموشی کے بعد ایک دناس سے ایسی آگ پھیلتی جسے بجانا آدمی کے بس میں نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ اس کے خاموشی میں بھی وہی۔۔۔۔۔۔۔
رات آتی تو لوگ خوابوں کی دنیا کی طرف ہولیتے لیکن اس کی ماں رات کی تاریکی میں گھر کے دروازے کے نزدیک آنکھوں کے ساتھ ایک نیم روشن چراغ پوری رات اس مسافر کے لئے جلائے رکھتی کہ شاید آج آجائے۔۔۔۔۔۔ قابل غور بات یہ تھی کہ رات کو ہی کیوں اس کے آنے کا انتظار، دن کو کیوں نہیں کیا جاتا۔۔۔۔۔؟!!
وہ دن بھی آگیا جس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ جنگل کی آگ کی طرح یہ بات پورے گاؤں پھیل گئی بلکہ آس پاس کے کئی اور گائوں میں بھی پھیل گئی کہ دوستین باغی ہوگیا ہے۔
دوستین باغی ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کیسے؟
کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسے کو چھوڑوں یہ بتائوں کیوں؟
کیوں خیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کس سے باغی ہوسکتا ہے؟
اوپر والا ہی جانے۔۔۔۔۔۔!!
پھر نتیجہ کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔؟
غازی یا غدار۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات کس نے کہا کسی کو معلوم نہیں ہوا۔
غدار اڑے یہ تو غدار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بات پے سب متفق ہوگئے کہ دوستین غدار ہے۔ اس غدار والی بات کے بعد اس بات کا جواب کوئی دے نہیں پارہا تھا کہ کسی کو غدار قرار دینے کا حق کس کے پاس ہے۔
ماں۔۔۔۔۔۔ بہن۔۔۔۔۔ بھائی۔۔۔۔۔ سب تک یہ بات پہنچی کہ دوستین غدار ہے تو ماں نے اپنے آنکھوں سے پوچھنے کی کوشش کی کہ کیسے مگر اسی وقت اس کو آنسوں بہنے کے لئے بے قابو ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنسوں بہتے گئے، بہتے گئے اور اپنے ساتھ ہزاروں مرادے بہہ کے لے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ماں تو ماں ہے بچہ بھلا ہو یا برا اس کے سینے میں وہی درد اس کے لئے ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ بہن تو پلو سے آنسوں پرونے سے فارغ نہیں ہوئی اب تو آنسوں ریزہ ریزہ ہوتے ہوا میں پھیل گئے۔ بھائی نے یہ بات سننے کے بعد کچھ دن خاموشی میں گزاری لیکن دل کو زیادہ دن روک نہیں پایا۔ ایک دن زور سے ہنسنا شروع کردیا اس دن اتنا ہنسا کہ ہنستے ہنستے بہت سو کو ہنسایا۔
خود سے لوتے ہوئے کہا کہ عجیب سی پارسائی ہے اس دن کی۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوڑ گیا اپنا گھر۔۔۔۔۔ اپنے تعلیم کے سفر کو ادھورا چھوڑ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی ماں، اپنی بہن کی وہ وشیاں بھی خاطر میں نہیں لایا جو اس کے لئے پروئے گئے تھے، اس کے شادی کے لئے، اس کے بچوں کے لئے۔ اور پھر بھی لوگ اسے غدار کہہ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔!!
پھر رات ہوئی ماں نے چراغ روشن کرکے دروازے کے نزدیک رکھا۔۔۔۔۔۔
رات گزر گئی، صبح ہوئی، پورا دن گزر گیا پھر رات نے اپنا سیاہ دوپٹہ اوڑ لیا پھر چراغ روشن ہوا دروازے کے پاس رکھا گیا۔ اسی طرح رات کے نام کئی چراغ روشن ہوئے، سال گزرے دوستیں مہیں آیا۔۔۔۔۔۔۔ 
لیکن ایک رات پہاڑ کے اوپر ایک روشنی نے چیدہ بنائے ہوئے تھا۔
ماں مسکراہی، یہ مسکراہٹ برسوں گزرنے کے بعد ان کے چہرے پہ آئی تھی۔ لالا کے بھائی نے ماں سے پوچھا؛ کیا ہوا ماں آج آپ مسکرا رہے ہو؟
ماں نے جواب میں کہا؛ میرا بچہ دوستین آیا ہے جاکر اسے پہاڑی سے لے آئو۔
بھائی نے حیرانگی سے ماں کی طرف دیکھا۔ اسے تو یقین نہیں تھا کہ دوستین آئےگا لیکن ماں کی مسکراہٹ کو دیکھتے ہوئے وہ روشنی کی طرف روانہ ہوا۔
وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا یہ وہی چیدہ ہے جس کا ذکر ایک شاعر نے کیا تھا۔۔۔۔۔۔ یہ وہی چیدہ ہے۔۔۔۔۔۔
وہاں ایک لشکر پڑائوں ڈالے ہوئے تھا۔۔۔۔ انہوں نے دوستین کو اس کے بھائی کے حوالے کیا، 
دوستین کا بھائی لشکر سے ایک سوال کرنے والا تھا کہ اسی وقت "چیدہ" کی سرخ روشنی زیادہ ہوئی، بھائی نے روشنی کو زیادہ ہوتے دیکھا تو خاموش کھڑا رہا۔۔۔۔۔۔
جب دوستین کا بھائی اسے ماں کے سامنے لے آیا تو ماں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔ غازی یا غدار؟

ہفتہ، 18 مارچ، 2017

افسانہ: دیوار


 جین پال سارتر
آخرکار انہوں نے ہمیں ایک بڑے کمرے میں دھکیل دیا ۔ کمرے کے وسط میں ایک میز کے پیچھے چار آدمی سر جھکائے کاغذات کی جانچ پڑتال میں مصروف تھے ۔ کمرے کے کونے میں بہت سے گرفتار شدگان سر جھکا ئے کھڑے تھے ۔ پہلی قطار میں دو بھورے بالوں والے غیر ملکی قیدی تھے ۔ ان کی شکلوں میں خاصی مما ثلت تھی۔ غالباً دونوں فرانسیسی تھے ۔ چھوٹی عمر والا غیر ملکی ‘خوف دور کرنے کے لیے بار بار اپنی پتلون کھینچ کر اوپر کررہا تھا ۔
 کا روائی مکمل ہو نے میں تقریباً تین گھنٹے صرف ہو ئے ۔ تھکن کے باعث میرا بدن نڈھال اور دماغ سوچنے سے عاری ہوچکا تھا۔ چوبیس گھنٹے تک سردی کی شدت سے کانپنے کے بعد اب اس کمرے کی حرارت مجھے بہت خوشگوار محسوس ہو رہی تھی ۔
 سپاہی ایک ایک کر کے قیدیوں کوسامنے لے جا رہے تھے ‘ جہاں ان سے کم و بیش یکساں باتیں پوچھی جا رہی تھیں ۔
’’پورا نام کیا ہے؟‘‘
’’کہاں کہاں گئے اور کیا کر تے رہے؟‘‘
عام طور پر یہی دو سوال کئے جا تے ۔ کبھی کبھی ان سوالات سے تجاوز کیا جا تا ۔
’’اسلحے کی تباہی میں تم بھی شریک تھے؟‘‘
’’نو تاریخ کی صبح تم کہاں تھے؟‘‘
 وہ جواب سننے میں زیادہ دل چسپی نہیں لیتے تھے ۔سوال کرنے کے بعد وہ سامنے کھڑے قیدی کو غور سے دیکھتے اور پھر سر جھکا کر کا غذوں پر کچھ لکھنے میں مصروف ہو جا تے ۔
 ’’تم انٹرنیشنل بریگیڈ کے لیے کام کر تے رہے ہو؟‘‘انہوں نے ٹام سے پو چھا‘اور جواب سنے بغیر لکھنے میں مصروف ہو گئے ۔
 جون سے انہوں نے صرف اس کے نام کی تصدیق چاہی اور پھر دیر تک کا غذوں پر کچھ تحریر کر نے رہے ۔
 ’’میرا بھا ئی ان کے لیے کام کر تارہا ۔ میں نے کچھ نہیں کیا میرا کسی جماعت سے تعلق نہیں ۔ مجھے سیا ست سے کو ئی دلچسپی نہیں‘‘۔ جون بولتا رہا مگر انہوں نے کو ئی جواب نہیں دیا۔
 ’’میں بتا رہا ہوں ......میں نے کچھ نہیں کیا۔دوسروں کے اعمال کا میں ذمہ دار نہیں ہوں ‘‘۔جون کے ہونٹ کپکپارہے تھے ۔ایک گارڈ اسے کھنچتا ہوا لے گیا۔اس کے بعد میری باری تھی۔
’’تمہارا نام پابلو ہے؟‘‘
’’ہاں‘‘میں نے جواب دیا۔
’’ریمون کہاں ہے؟‘‘
’’ مجھے نہیں معلوم‘‘
’’چھ سے انیس تک تم نے اسے اپنے گھر میں چھپا ئے رکھا‘‘۔
’’آپ کو غلط اطلاع ملی ہے‘‘
وہ سر جھکا ئے قلم چلانے لگا اور ایک گارڈ مجھے دھکیلنے لگا۔
بڑے کمرے میں ٹام اور جون دوگارڈ ز کے درمیان میرا انتظار کر رہے تھے۔
’’یہ ابتدائی کاروائی تھی یا مقدمہ ختم ہو گیا؟؟‘‘ ٹام نے گارڈز سے پو چھا ۔
’’یہ مقدمہ تھا ‘‘۔ ایک گارڈ نے جواب دیا۔
’’تو اب .....اب کیا ہو گا؟‘‘
 ’’تمہاری کوٹھڑی میں بے پنا ہ ٹھنڈ تھی ۔ ہم نے سا ری رات کانپتے ہو ئے گزاری صبح کے وقت بھی درجہ حرارت میں کو ئی خاص فرق نہیں پڑا۔ جون خاموش بیٹھا رہا۔ کم سنی اور نا تجربہ کا ری کے باعث وہ خوف سے گنگ ہو گیا تھا ۔ البتہ ٹام اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہا تھا ۔
 کوٹھڑی میں ایک بینچ اور چار کمبل پڑے تھے ۔ عدالت سے آکر ہم الگ الگ کمبلوں پر بیٹھ گئے تھے ۔
’’غالباً ہم ٹھکا نے لگ گئے ‘‘۔ ٹام نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا ۔
 ’’مجھے بھی یہی لگتا ہے ‘‘ میں نے جواب دیا۔’’مگر چھوٹا بلا وجہ ڈر رہا ہے ۔ اسے وہ کچھ نہیں کہیں گے‘‘۔
 ’’ کسے ؟ جون کو؟ ہاں ‘ یہ جو زے کا چھوٹا بھا ئی ہے ۔ جوزے نے ان کے خلاف جان کی با زی لگا دی ہے‘‘
میں نے جون کی سمت دیکھا ۔ وہ بدستور سکتے کی عالم دیوار پر نظریں گاڑے بیٹھا تھا۔
 کو ٹھڑ ی کے جن سوراخوں سے صبح کی روشنی اندر آئی‘اچانک انہی سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے داخل ہو کر ہلچل مچا دی ۔ جون سردی سے کانپنے لگا۔
’’خدا کی پناہ !‘‘ وہ دانت کچکچا کر بولا ۔’’میں تو سزا پا نے سے پہلے سردی سے اکڑ کر مرجاؤں گا‘‘۔
 ٹام نے خود کو گرم کے لیے ورزش شروع کر دی ۔ ٹام مضبوط جسم کا مالک تھا مگر عمر ڈھلنے کے ساتھ اس کے بدن پر موٹا پے کے آثار ظاہر ہوچکے تھے ۔اسے ورزش کرتے دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ کل کسی وقت اس کے فربہ وجود میں گولیاں اور سنگینیں یوں اتریں گی جیسے مکھن کی ٹکیہ میں چھری اُترتی ہے ۔
 شدید سردی کے باعث مجھے کبھی کبھی یوں محسوس ہو تا تھا جیسے میرے با زو میرے وجود سے الگ ہو گئے ہوں ۔ ایسے لمحوں میں مجھے اپنا جیکٹ یاد آتا ۔ جو انہوں نے مجھ سے چھین لیا تھا ۔ انہوں نے ہما رے سارے کپڑے اتروا کر سپا ہیوں کو پہنا دیے تھے،اور ہمیں اس سوتی پا جا مے کر تے میں ملبوس کردیا تھا ۔جو ہسپتال کے مریضوں کا گرمیوں کا لباس ہو تا ہے ۔
تھوڑی دیر ورزش کے بعد ‘ٹام سانس درست کر نے کے لیے بیٹھ گیا ۔
’’کچھ گرمی آئی؟‘‘ میں نے پو چھا ۔
’’ نہیں ‘‘اس نے برا منہ بنا کر کہا ‘‘۔ مگر سانس پھول گیا ‘‘۔
آٹھ بجے کے قریب ایک فوجی افسر تین سپاہیوں کے ساتھ ہماری کوٹھڑی میں آیا ۔
’’ان تین کے نام کیا ہیں ؟‘‘ افسر نے ہمارے گارڈسے سوال کیا ۔
’’ٹام،جون اور پابلو ‘‘گارڈ نے جواب دیا ۔
افسر نے عینک درست کی ‘اور ہا تھوں میں تا می فہرست کو غور سے دیکھا ۔
 ’’ٹام.........ٹام .......یہ ہے ۔ ٹام‘ تمہیں موت کی سزا دی گئی ہے ۔کل صبح تمہیں گو لی مار دی جا ئے گی ‘‘۔
یہ کہہ کر وہ پھر فہرست پر جھک گیا ۔
 ’’اور ........تم دونوں کو بھی ۔ جون اور پا بلو۔ سزائے موت‘‘ اس نے فہرست پر انگلی پھیرتے ہو ئے کہا۔
’’ یہ نا ممکن ہے ‘‘ جون چیخ پڑا ۔
’’تمہارا پو را نام کیا ہے ؟‘
’’جون مِربل‘‘۔
’’یہ ........یہا ں تمہارا نام ہے ‘‘۔ افسر نے اطمینان سے تصدیق کی ۔
’’...........اور تمہیں موت کی سزا دی گئی ہے ‘‘
’’ لیکن میں نے کچھ نہیں کیا ‘‘۔ جون کی آواز میں وحشت تھی ۔
 افسر نے لا پروائی سے کندھے اچکا ئے اور ہم دونوں کی جانب رُخ کر کے بولا ۔’’ کچھ دیر میں تم لوگوں کے پا س ایک ڈاکٹر آئے گا، اسے رات بھر تمہارے پاس رہنے کی اجازات ہے ‘‘۔
یہ کہہ کر افسر فوجی انداز میں ایڑھوں پر گھوم کے چلا گیا ،
’’میں نے کیا کہا تھا ‘‘۔ ٹام فوراًبولا۔ ’’ہم ٹھکانے لگ گئے ہیں ‘‘۔
’’ہاں ‘‘ میں نے کہا۔ مگر چھوٹے کے سا تھ زیادتی ہو ئی ہے ‘‘۔
 میں نے یہ بات کہہ تو دی تھی مگر حقیقت یہ تھی کہ مجھے چھوٹے پر غصہ آرہا تھا۔ اس کا چہرہ خوف کی زیادتی سے ٹیڑھا ہو گیا تھا ،اور نقوش عجیب انداز میں مسخ ہو گئے تھے ۔ اس کی یہ حالت مجھے بے چین کر رہی تھی ۔جس کے باعث مجھے اس پر غصہ آنے لگاتھا ۔تین دن پہلے تک یہ محض ایک بچہ تھا لیکن اب وہ کسی دوسرے سیارے کی بوڑھی مخلوق لگ رہا تھا ۔ مجھے یقین تھا کہ اب اگر رہا ئی مل بھی گئی تو وہ دوبارہ کبھی بچہ نہیں لگے گا ،ممکن ہے وہ ہمدردی کا مستحق ہو لیکن مجھے ہمدردی جتاتے ہو ئے متلا ہٹ ہو تی ہے ،سزا سننے کے بعد وہ خاموشی سے زرد ہو تا جا رہا تھا۔ اس کے ہو نٹ نیلے پڑ گئے تھے ۔ ٹام نے رحم کے جذبے سے مغلوب ہو کر اسے بازو سے پکڑ کر کھڑا کرنا چا ہا مگر اس نے خود کو نہایت شدت سے کو نے میں سمیٹ کیا اور چہرہ بگاڑ کر ٹام کو گھورا۔
’’اسے چھوڑ دو ٹام ‘‘۔ میں نے آ ہستگی سے کہا ۔’’ یہ دھاڑیں مارنے والا ہے‘‘۔
 ٹام چاہتا تھا کہ چھوٹے کو تسلی دے ‘اس سے ہمدردی کر ے ، وہ چاہتا تھا کہ اس عمل میں مصروف رہنے کے باعث ضرور اس کا دل بھی بہلا رہے گا ، اور اپنے بارے میں سوچنے سے بچے گا ۔ مجھے ٹام کی حرکت بری لگ رہی تھی ۔ میں نے بھی پہلے کبھی موت کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔
 پہلے کبھی موت واضح طور پر میرے سامنے آئی ہی نہیں تھی ،مگر اب جبکہ موت سامنے تھی ۔ میں اس کے بارے میں سوچنا چاہتا تھا ، میں اپنے جسم میں داخل ہو تی گولیوں کے بارے میں سوچنا چاہتا تھا، مرنے سے پہلے چیخ مارنے کی فرصت ملتی ہو گی یا نہیں ؟ تمام گولیاں جس پار کر تی ہو ئی دوسری سمت نکل جا تی ہیں یا........؟ مجھے جلدی نہیں تھی ان باتوں پر غور کر نے کے لیے میرے پاس تمام رات پڑی تھی ۔
 کچھ دیر بعد ٹام بھی خاموش ہو گیا ۔ میں نے کنکھیوں سے اُسے دیکھا ، وہ پیلا پڑرہا تھا، میں نے سر اُٹھا یا اور چھت کے سوراخ سے ایک ایک ستارہ چمکتے دیکھا ،سرد اور شفاف رات کی ابتدا ء ہو چکی تھی ۔
دروازہ کھلا اور دو گارڈذداخل ہو ئے ان کے ساتھ بھورے بالوں والا ایک وردی پوش شخص تھا ۔
 ’’میں ڈاکٹر ہوں ‘‘ اس نے خوش دلی سے کہا ۔’’جہاں تک ممکن ہوا‘میں اس دردناک صورت حال میں آپ کی مدد کروں گا‘‘۔
’’تم کیا کرو گے ؟‘‘ میں نے اکتا ہٹ سے پوچھا۔
 ’’ جو تم کہو گے ۔ تمہاری زندگی کے آخری چند گھنٹے خوش گوار بنانے کے لیے میں کچھ بھی کر نے کو تیا ر ہوں ‘‘ ۔ ڈاکٹر کے لہجے میں ہمدردی تھی ۔
’’تم ہمارے ہی پا س کیوں آئے ؟اور بہت سے ہیں قید خانہ بھرا ہوا ہے ‘‘۔
 ’’مجھے یہاں بھیجا گیا میں یہاں آگیا ‘‘۔ اس کی آواز دھند لا گئی ، پھر وہ فوراٍسنبھل گیا ،’’تم سگریٹ پیتے ہو؟ میرے پاس سگریٹ ہیں سگار بھی ہیں‘‘۔
 ’’نہیں ۔شکر یہ‘‘ میں نے سگریٹ لینے سے انکار کردیا اور اس کی آنکھوں میں جھانکا ۔اس نے مضطرب ہو کر پہلو بدلا ۔
 میں چند لمحوں تک اسے دیکھتا رہا ارو پھر یکایک اس کی موجودگی سے لا تعلق ہو گیا ۔دونوں گارڈز فرش پر بچھے ایک کمبل پر بیٹھ گئے ۔ طویل القامت گارڈ جس کا نام پیڈور تھا اپنی انگلیاں چٹختا رہا تھا جب کہ دوسرا گارڈ نیند کے غلبے جسے نجات حاصل ؛ کر نے کے لیے بار بار اپنا سر جھٹک رہا تھا ۔
 میں نے پشت سیدھی کی اور اپنے دونوں سا تھیوں پر نظر دوڑائی، ٹام اپنا سر گھٹنوں پر رکھے بیٹھا تھا ۔ جون قا بل رحم حا لت میں تھا اس کا منہ کھلا ہو ا تھا اورنتھے پھول رہے تھے ۔
 ڈاکٹر نے جون کی کلائی تھام کر اس کی نبض کی رفتار معلوم کر نی چا ہی۔ جون نے خاموشی سے اپنا با زو ڈاکٹر کی جا نب بڑھا دیا اور بد ستور کھلے منہ کے ساتھ نتھنے پھلا تا رہا ۔
معلوم نہیں کیوں میں ڈاکٹر کی اس حرکت پر جھنجلا گیا ۔‘‘ کتے کا بچہ ‘‘ میں نے خود کو بڑبڑاتے سنا ۔
’’ میرے پاس آیا تو حرامی کا جبڑا توڑ دوں گا ‘‘
 وہ میرے پاس تو نہیں آیا۔ مگر چھوٹے سے فارغ ہو کر بہت دیر تک مجھے دیکھتا رہا۔ میں حیران ہوا کہ وہ مجھے اتنے غور سے کیوں دیکھ رہا ہے ۔
’’بہت ٹھنڈ پڑ رہی ہے ، کیا خیال ہے ؟ اس نے عجیب انداز میں مجھ سے پوچھا۔
’’مجھے تو محسوس نہیں ہو رہی‘‘۔ میں نے جواب دیا۔ لیکن وہ حسب سابق مجھے غور سے دیکھتا رہا ۔
اچانک مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہوا ۔ میں نے اپنے ہا تھوں سے اپنے چہرے کو چھو کر دیکھا۔
 میرا چہرہ پسینے سے تر تھا ۔ یہ عجیب انکشاف تھا ۔اس قدر سر دی میں میرا بدن پسینے میں نہا یا ہوا تھا ۔ میرے سرکے بال گیلے ہو کر اکڑ گئے تھے۔ کپڑے جسم سے چپک گئے تھے ۔ میں تقریباً ایک گھنٹے سے پسینہ پسینہ ہو رہا تھا ۔لیکن اپنی اس حالت سے بے خبر تھا ۔ ڈاکٹر نے میرے چہرے سے پسینے کے قطرے ٹپکتے دیکھے تھے ۔اور سمجھ گیا تا کہ میں خوف کی شدت سے پگھل رہا ہوں ۔ وہ خاموشی سے میری اس حالت کا تجزیہ کر رہا تھا ۔میرا جی چاہا کہ ڈاکٹر کا چہرہ نوچ لوں ۔ میں اس ارادے سے کھڑا ہوا ،مگر اچانک مجھے میرا غصہ بے جا معلوم ہوا ،اور میں نے خود کو لا تعلقی کی کیفیت طاری ہو تے محسوس کیا ۔ میں نے کندھے اچکائے اور بینچ پر بیٹھ گیا ۔
 بینچ پر بیٹھ کر میں اپنے جسم کا پسینہ پونچھنے لگا ۔ جلد ہی میرا رومال لبریز ہو گیا ،مگر میرے بدن سے پسینہ بد ستور نمودار ہو تا رہا ۔ کچھ دیر بعد میں نے پسینہ خشک کر نے کی کوشش ترک کر دی اور خود سے ا یڑی سے چھوٹی تک بیگھتے محسوس کرنے لگا ۔
’’تم ڈاکٹر ہو ۔ ؟ یک لخت جون نے سوال کیا ۔
’’ہاں ‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا ۔
’’بہت دیر تک تکلیف ہو تی ہے ۔ ؟
’’ کب ؟ اوہ۔ اس وقت ۔ نہیں‘‘ ڈاکٹر نے ہمدردی سے کہا ۔
’’ سب کچھ جلدی ہو جا تا ہے ‘‘ ۔
’’لیکن میں ........کچھ لو گوں نے بتا یا کہ ۔۔۔۔کبھی کبھی دوسری مرتبہ بھی فا ئر کرنا پڑتا ہے ‘‘۔
 ’’ کبھی کبھی ‘ ہا ں پہلی مرتبہ چلا ئی جا نے والی گولیاں اہم اعضاء کو چھوئے بغیر پار ہو جا تی ہیں ۔ اس صورت میں ۔کبھی کبھی ۔ ہاں ‘‘
’’تو پھر وہ اپنی بندوقوں میں دوبارہ گولیاں بھرتے ہوں گے ؟‘‘
’’ ہا ں ‘‘
 ’’ مگراس وقت لگتا ہے ‘‘ چھوٹے کی آواز میں لرزش تھی ۔ چھوٹا جسمانی اذیت کے خیال سے خوف زدہ تھا یہ اس کی عمر کا تقاضا تھا ۔ مجھے ایسی کو ئی تشویش نہیں تھی ۔ پسینہ آنے کی کو ئی اور بھی وجہ ہو سکتی ہے ۔
 میں نے ٹام کی جا نب نظریں دوڑاہیں اور یہ کچھ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ بھی پسینے میں بھیگا ہوا ہے ۔ اس منظر سے بچنے کے لیے میں سر اُٹھا یا تو چھت کے سوراخ سے آسمان نظر آیا ۔کہکشاں اسی ترتیب کے سا تھ موجود تھی ۔ لیکن آج ستا رئے مختلف دکھا ئی دیتے تھے۔ صبح کے وقت آسمان کا گہرا نیلا رنگ دیکھ کر مجھے بحرِاوقیاس کے روشن اور خوبصورت سا حلوں کا خیال آتا تھا ۔ دوپہر کے وقت مجھے دور افتادہ جزیرے کا وہ چھوٹا سا مہ خانہ یاد آتا جہاں منہ کا ذائقہ درست رکھنے کے لیے شراب کے سا تھ زیتون کا اچار پیش کیا جا تا تھا شام کے وقت جب سا ئے دراز ہو تے تو میں کھیل کے اس میدان کے با رے میں سوچتا جس کے نصف حصے میں چھا ؤں پھیل جا تی تھی ۔ اور نصف حصہ روشن رہتا تھا ۔، اور جب مجھے خیا ل آتا کہ زمین بھی یوں ہی آدھی روشن اور آدھی تا ریکی میں ڈوبی آسمان کی وسعت میں گھوم رہی ہے تو میرے سینے میں درد کی ایک لہر اٹھتی تھی ۔ مگر اس کوٹھڑی سے آسمان دیکھنے پر مجھے ما ضی کی کو ئی چیز یا د نہیں آئی تھی ۔ میں نے آسمان سے نظریں ہٹا کر ایک گہرا سانس لیا ۔اور ٹام کے پاس آکر بیٹھ گیا ۔ دیر تک خا موشی طاری رہی۔
 بلآخر ٹام نے بو لنا شروع کیا ۔ خیالات کی یلغار سے بچنے کے لیے وہ گفتگو کر نے پر مجبور ہو گیا تھا ۔ وہ میری جا نب دیکھے بغیر دھیمی آواز میں بول رہا تھا ۔ میرا رنگ زرد ہو گیا تھا اور میں پسینے میں نہا یا ہو اتھا ۔ ٹام کا بھی یہی حال تھا ۔ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے آئینہ بن گئے تھے یہ ہی وجہ تھی کہ وہ میری طرف دیکھے بغیر با تیں کر رہا تھا ۔ البتہ کبھی کبھی وہ ڈاکٹر کے چہرے پر نظریں گا ڑ دیتا تھا۔
وہ جا نتا تھا کہ اس وقت کوٹھٹری میں فقط ڈاکٹر ایک زندہ شخص ہے ۔
’’تمہاری سمجھ میں آرہا ہے ؟ میں تو کچھ نہیں سمجھ رہا ‘‘ٹام نے طویل گفتگو کے اختتام پر کہا ۔
’’کیا سمجھنا چا ہ رہے ہو ‘‘
’’ ہما رے سا تھ کچھ ہو نے وا لا ہے جومیری سمجھ میں نہیں آرہا‘‘۔
’’فکر مت کرو ‘ سب سمجھ میں آجا ئے گا ‘‘ میں نے کہا ۔
 اچانک مجھے ٹام کے پاس سے عجیب سی مہک آتی محسوس ہو ئی ۔ عام حالات میں میری ناک اتنی حساس نہیں تھی ۔ میں نے نتنھے پھلا کر حقیقت معلوم کرنا چا ہی۔
 ’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا ‘‘۔ ٹام مسلسل بول رہا تھا ‘‘۔ میں بزدل نہیں ہوں لیکن کچھ تو پتہ چلے ۔ دیکھو میں جانتا ہوں وہ ہمیں احاطے میں لے جا ئیں گے ..........ٹھیک ہے ؟؟ تمہارا کیا خیال ہے کتنے لوگ ہوں گے؟‘‘
’’کیا؟ ہاں ‘لوگ !! معلوم نہیں پانچ ۔۔۔یا آٹھ۔ اس سے زیا دہ تو نہیں ہوں گے۔‘‘
 ’’چلو ٹھیک ہے ۔فرض کیا کہ وہ آٹھ ہوں گے۔ کو ئی چیخ کر انہیں نشانہ باندھنے کا حکم دے گا ۔ ٹھیک ہے ۔ فوراً مجھ پر آٹھ بندوقیں تن جا ئیں گی۔میں دیوار کے دوسرے طرف نکل جا نے کی کو شش کروں گا ۔ پو ری قوت لگا دوں گا ، لیکن دیوار ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے گی ۔ جیسے ڈراؤ نے خوابوں ہو تا ہے..........میں جا نتا ہوں تمہارے سا تھ کیا ہو گا ۔ مگر سمجھ میں نہیں آرہا ‘‘۔
’’مت سوچو‘‘۔ میں نے کہا سب جا نتے ہیں ۔ کسی کی سمجھ میں نہیںآتا ‘‘۔
 ’’بہت تکلیف ہو تی ہوگی۔ سنا ہے چہرہ بگاڑنے کے لیے خاص طور پر آنکھوں اور منہ کا نشان لیتے ہیں ۔ کتے‘‘ ٹام کے لیے لہجے میں تلخی آگئی تھی ۔’’ مجھے تو ابھی سے اپنے بدن میں سوراخ ہو تے دکھا ئی دے رہے ہیں ...........ایک گھنٹہ ہو گیاچہرے اور گر دن میں درد ہو رہا ہے ۔ اصل میں تو یہ درد کل محسوس ہو گا ۔اور اس کے بعد کیا ہو گا ؟
 میں جا نتا تھا کہ وہ کیا کہنا چا ہ رہا ہے ۔ مگر میرے انجان بنے رہنا بہتر تھا ۔ جہاں تک درد کا تعلق تھا میں خوداپنے بدن میں سوراخ ہو تے محسوس کر رہا تھا۔اس لحاظ سے میں بھی اس جیسا تھا ۔
 ٹام دوبارہ بولنا شروع ہو گیا ۔ اس کی آنکھیں بد ستور ڈاکٹر پرگڑی تھی۔ جبکہ ڈاکٹر ہر چیز سے لا تعلق تھا ۔ میں ڈاکٹر کے آنے کا مقصدجانتا تھا۔ وہ ہما ری با تیں سننے نہیں آیا تھا ۔ وہ ہما رے جسموں کی نگہداشت پر مامور تھا ۔ ہما رے جسم جو زندگی میں ہی مر رہے تھے ۔
 ’’بالکل جس طرح بھیانک خوابوں میں ہو تا ہے ‘‘۔ ٹام بولے چلے جا رہا تھا ۔’’ ٹھوس چیزیں ہا تھ سے نکل جا تی ہیں ۔دھوئیں کی طرح ۔ یا جیسے ہوا یا با دل یا کو ئی بھی چیز۔ کچھ بھی تو سمجھ میں نہیں آتا ۔
 گولیاں سوراخ اور درد۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ مگر کہیں کوئی گڑ بڑ ضرور ہے۔ میں خود اپنی لاش دیکھنے لگتا ہوں۔ عام بات نہیں ہے۔ خود اپنی لاش، اپنی آنکھوں سے۔ اپنی لاش کون دیکھنا چاہتا ہے؟ میں کچھ نہیں دیکھنا چاہتا۔ آنکھیں بند کرلوں؟ میں تو کچھ سننا بھی نہیں چاہتا۔ دنیا دوسروں کے قائم رہے، مجھے کیا ہے۔ میں نے دوراتیں جاگ کر گزاری ہیں۔ حد ہوتی ہے آدمی بکھر جاتا ہے۔ پابلویقین کرو۔ میں کسی چیز کا انتظار کررہا ہوں، مگر یہ وہ چیز نہیں ہے۔
’’وہ چیز تو ہمیں پیچھے سے پکڑلے گی۔ بے خبری میں۔۔۔۔
’’بکواس بند کرو۔ میں نے چیخ کر کہا ۔’’ پادری کو بلاؤں؟ وہی تمہاری سنے گا‘‘۔
 مجھے ٹام کبھی بھی اچھا نہیں لگا تھا۔ اب اگر ہمیں ساتھ مرنا پڑرہا تھاتو اس کا یہ مطلب ہز گز نہیں تھا کہ میں اسے پسند کرنے لگوں۔ اس وقت ریمون میرے ساتھ ہوتا تو صورتِ حال مختلف ہوتی۔ ریمون میرا دوست تھا۔ ٹام اور جون کے درمیان میں خود کو تنہا محسوس کررہا تھا۔
 ٹام اب بھی بڑ بڑا رہا تھا۔ میں اس کا مسئلہ سمجھ رہا تھا۔ وہ سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے مسلسل بول رہا تھا۔ اس طرح مرنا غیر فطری تھا۔ اور غیر فطری موت کے اس قدر نزدیک پہنچ کر مجھے ہر چیز غیر فطری لگ رہی تھی۔ بجھے ہوئے کوئلوں کا ڈھیر، بینج، ڈاکٹر کا چہرہ۔ سب کچھ غیر فطری تھا۔ ٹام کے اور میرے احساسات ایک جیسے تھے مگر میں اس کی طرح کا رویہ نہیں اپنانا چاہتا تھا۔ اس کے باوجود میں جانتا تھا کہ ہم تمام رات ایک طرح کی باتیں سوچتے رہیں گے۔ ہمارے دھیان میں ایک جیسی چیزیں آئیں گی۔ ہم دونوں زرد پڑتے رہیں گے۔ لرزیں گے اور پسینے نہا جائیں گے میں نے کنکھیوں سے ٹام کی جانب دیکھا۔ اس کے چہرے پر موت کا سایہ تھا۔ میری انا کو دھچکا لگا۔ ہم چوبیس گھنٹے سے ساتھ تھے۔ میں نے اس سے باتیں کی تھیں، اس کی گفتگو سنی تھی اور مجھے یقین ہوگیا تھا کہ ہم میں کوئی چیز مشترک نہیں ہے اس کے باوجود اب ہم جڑواں بھائیوں کی طرح ایک جیسے نظر آرہے تھے۔ اس لئے کہ ہمیں ساتھ مرنا تھا۔
ٹام نے میری جانب دیکھے بغیر میرا ہاتھ تھام لیا۔
’’پابلو۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہم مرتے ہیں تو ختم ہو جاتے ہیں۔ بالکل ختم۔ ہمیشہ کے لئے‘‘
میں نے کوئی جواب دئیے بغیر اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔
’’نیچے دیکھو۔ غلیظ آدمی‘‘
ٹام گیلے فرش پر بیٹھا تھا۔ اس کی پتلون سے قطرے ٹپک رہے تھے۔
’’کیا! یہ کیا ہے؟؟ ‘‘ اس نے اپنے نیچے دیکھ کر خوف اور حیرت سے کہا۔
’’ تم اپنی پتلون گیلی کررہے ہو‘‘ میں نے اسے بتایا۔
’’ناممکن ہے‘‘۔ وہ غرایا۔‘‘ یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔میں تو کچھ بھی محسوس نہیں کررہا‘‘
 میں نے ڈاکٹر پر نظر ڈالی۔ وہ لاتعلقی سے گیلے فرش کو دیکھ رہا تھا۔ ’’ اس کی گرفت کمزور ہوگئی ہے‘‘۔
چند لمحوں بعد ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ رائے دی۔
’’میں نہیں جانتا یہ کیا ہے‘‘۔ ٹام نے سختی سے کہا۔ میں خوفزدہ نہیں ہوں۔ خدا کی قسم خوفزدہ نہیں ہوں‘‘
ڈاکٹر کوئی جواب دیے بغیر سرجھکا کر اپنی نوٹ بک میں تحریر کرنے لگا۔
 میں اور ٹام ڈاکٹر کو دیکھ رہے تھے۔ جون بھی ڈاکٹر دیکھ رہا تھا۔ ہم تینوں کی نظریں ڈاکٹر پر گڑی تھیں، کیونکہ ڈاکٹر زندہ تھا۔ فقط وہ زندہ آدمیوں کی طرح مصروف تھا۔ اس کا تجسس زندگی کی نشانی تھا۔ ڈاکٹر کو سردی لگ رہی تھی۔ اس کا بدن زندہ آدمیوں کی طرح موسم سے متاثر ہورہا تھا۔ جبکہ ہمیں اپنے جسموں کو محسوس کرنے کے لئے خود کو چھونا پڑرہا تھا۔ وقفے وقفے سے مجھے یہ خیال بھی آرہا تھا کہ شاید اب میں بھی گیلے فرش پر بیٹھا ہوں مگر شرم ساری سے بچنے کے لئے میں نیچے نہیں دیکھ رہا تھا۔ ایسی صورت حال میں ہم سوائے ڈاکٹر کو دیکھنے کے اور کیا کر سکتے تھے۔ ڈاکٹر اپنی ٹانگوں پر مضبوطی سے کھڑا تھا۔ اسے اپنے جسمانی اعمال پر کنٹرول تھا۔ وہ سوچ سکتا تھا کہ کل شام اور پرسوں صبح کو اس کی مصروفیات کیا ہوں گی۔ ڈاکٹر زندہ تھا اور ہم تین سائے اسے دیکھ رہے تھے اس کے جسم سے حرارت اور خون چوس کر دوبارہ زندہ ہونا چاہتے تھے۔ اچانک میں بلند آواز سے ہنسنے لگا۔ میرے قہقہے نے ایک گارڈ کو چوکنا کردیا۔ دوسرا بدستور کھلی آنکھوں کے ساتھ سویا رہا۔ سوئے گارڈ کی آنکھوں کا سفید حصہ نظر آرہا تھا اور منہ سے رال ٹپک رہی تھی۔
 میں بیک وقت تھکن اور اضطراب کا شکار تھا۔ میں سوچنا نہیں چاہتا تھا کہ صبح کیا ہوگا۔ موت کے خیال سے بچنے کے لئے میں بار بار سر جھٹک رہا تھا۔ لیکن جوں ہی میری توجہ کسی اور چیز پر مرکوز ہوتی، مجھے بندوق کی نالیاں دکھائی دیتیں جو دھیرے دھیرے میرے چہرے کی سمت اٹھنے لگتیں۔ متعدد مرتبہ گولیاں میرے وجود کو چیرتی چلی گئیں۔ ایک بار تو مجھے بالکل یوں لگا جیسے میں واقعی ٹکڑے ہوگیا ہوں۔ میں اونگھ گیا تھا۔ وہ مجھے دیوار کی سمت کھینچ رہے تھے۔ میں پوری قوت سے مزاحمت کررہا تھا۔ نڈھال ہونے پر میں ان سے رحم کی بھیک مانگنے لگا۔ مگر ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ گولیوں سے چھلنی ہوتے ہی میں نے چیخ مار کر آنکھیں کھول دیں۔ حواس بحال ہوتے ہی میں نے کنکھیوں سے ڈاکٹر کو دیکھا مجھے ڈرتھا کہ شاید ڈاکٹر نے مجھے چیختے ہوئے سن لیا ہے۔ مگر ڈاکٹر ایک کونے میں بیٹھا لاتعلقی سے اپنی مونچھوں کو بل دے رہا تھا۔ اس نے کچھ نہیں سنا تھا۔ میں پچھلے اڑتالیس گھنٹے سے جاگ رہا تھا۔ اور اب میری آنکھوں میں سوئیاں چبھ رہی تھیں۔ اگر میں چاہتا تو اس لمحے گہری نیند سوسکتا تھا مگر میں اپنی زندگی کے آخری چند گھنٹے سو کر نہیں گزارنا چاہتا تھا۔ صبح کی پہلی کرن کے ساتھ وہ مجھے لینے آئیں گے۔ اور میں عنودگی کے عالم میں سرجھکائے ان کے ساتھ چل دوں گا۔ شاید میں ان سے یہ پوچھ سکوں کہ مجھے جانوروں کی طرح کیوں ہلاک کیا جارہا ہے۔ میں مرنے سے پہلے سونا نہیں چاہتا تھا۔ میں سوچنا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے نیند کے دوران ڈراؤ نے خوابوں کا بھی اندیشہ تھا۔ میں نے اٹھ کر ٹہلنا شروع کردیا۔ موت کے خیال سے بچنے کے لئے میں ماضی کے خوش گوار لمحے دھیان میں لایا۔ کتنے دل کش چہرے تھے۔ کیسی دلچسپ باتیں تھیں۔ چھٹیاں، تہوار اور میلے اور جھولے، چھوٹے ماموں اور ریمون۔ شاید ریمون کچھ کہنا چاہ رہا تھا۔ وہ کیسا عجیب دن تھا۔ جب میں نے احتجاجی جلوس میں شرکت کی تھی۔ اور غرناطہ کی وہ رات جو میں نے ایک بینچ پر جاگ کر گزاری تھی۔ اس کے باوجود صبح کے وقت میں اسے مسکرا کر ملا تھا۔ چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور آزادی کی زندگی اور خوبصورت عورتیں۔ میں نے دیوانہ واران کا پیچھا کیا تھا۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ میں اسپین کو آزاد کرانا چاہتا تھا۔ میں آزادی کی تحریک کے لئے اپنی جان پر کھیل گیا تھا۔ نعرے لگا تارہا تھا تقریریں کرتا تھا۔۔۔۔۔اور اس دوران موت کا کبھی خیال ہی نہیں آیا تھا۔
 اب جبکہ زندگی ختم ہورہی تھی ان ساری چیزوں کا کیا مطلب تھا؟ مجھے یہ سوچ کر حیرت ہوئی کہ میں لڑکیوں کی صحبت میں اس قدر خوش تھا۔ اگر مجھے معلوم ہو جاتا کہ میں اس طرح مروں گا۔ تو میں تمام زندگی اپنے بستر سے اٹھنے کی زحمت بھی نہ کرتا۔ میری پوری زندگی میری آنکھوں کے سامنے آگئی۔ اب سب کچھ اختتام کو پہنچ گیا تھا۔ مجھے کسی بات کا زیادہ دکھ بھی نہیں تھا۔ ممکن ہے عام حالات میں مجھے کچھ چیزیں چھوڑنے کا افسوس ہوتا۔ اپنے پسندیدہ کھانوں کا ذائقہ یاد آتا۔ یا میں اس پرسکون جھیل کے تصورات سے افسردہ ہوتا جہاں میں گرمیوں کی دوپہر میں تیرا کرتا تھا۔ لیکن موت نے تمام چیزوں کی دلکشی چھین لی تھی۔
 ’’دوستو!‘‘ اچانک ڈاکٹر نے ہمیں مخاطب کیا۔ اگر تم چاہو تو میں تمہارا آخری پیغام تمہارے پیاروں تک پہنچادوں گا‘‘۔
’’میرا کوئی نہیں ہے۔‘‘ ٹام ناگواری سے بولا۔
میں خاموش رہا۔
ٹام میری خاموشی پر حیران ہوا۔
’’ کانشہ! تم ’’کانشہ‘‘ کے نام کوئی پیغام نہیں بھجواؤں گے؟‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا۔
’’نہیں‘‘۔ میں نے تلخ لہجے میں جواب دیا۔
 آج میرے لئے کانشہ کی اہمیت مختلف تھی۔ کل تک میں اس سے پانچ منٹ بات کرنے کے لئے اپنا ایک بازو کٹوانے پر رضامند ہو جاتا۔ اسی لئے میں نے کل ٹام سے کانشہ کا ذکر کردیا تھا۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ اب کانشہ میرے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ بات کرنا تو درکناراب میں کانشہ کو دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ جب سے میرا بدن پیلا پڑا تھا، اور میں پسینے میں نہا گیا تھا، مجھے اپنے بدن سے کراہت آنے لگی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مجھے کانشہ کے بدن کی یاد سے بھی متلاہٹ ہونے لگی تھی۔ میں جانتا تھا کہ جب اسے میری موت کی طلاع ملے گی تو وہ روئے گی زندگی میں اس کی دلچسپی ختم ہو جائینگے۔ کئی دنوں تک وہ اپنے کمرے سے نہیں نکلے گی۔ مگر بہرحال وہ زندہ رہے گی۔ جبکہ میں مررہا تھا۔ مجھے اس کی خوبصورت آنکھیں یاد آئیں۔ جب وہ میری طرف پیار سے دیکھتی تھی تویوں لگتا تھا جیسے کوئی نہایت لطیف چیز اس کے وجود سے نکل کر مجھ میں داخل ہورہی ہے۔ لیکن اب صورتِ حال بدل چکی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ اگر اس لمحے وہ مجھے دیکھے گی تو مجھ پر اس کی نظروں کا قطعی کوئی اثر نہیں ہوگا۔۔۔ اس مرحلے پر میں تنہا تھا۔
ٹام بھی تنہا تھا۔ گو اس کی تنہائی کا انداز مختلف تھا۔
 اس وقت وہ بینچ کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اچانک اس نے بازو بڑھا کر لکڑی کو چھوا۔ اور پھر فوراً ہاتھ کھینچ لیا۔ اس کے چہرے پر خوف کا ایسا تاثر بھرا جیسے اس نے نادانستگی میں کوئی چیز توڑ دی ہو۔ وہ دوبارہ کانپنے لگا مجھے ٹام کی حالت پر حیرت نہیں ہوئی۔ مجھے خود یہ احساس ہورہا تھا کہ چیزیں مضحکہ خیز انداز میں تبدیل ہورہی ہیں۔ دیواروں کا رنگ بھی پیلا پڑرہا تھا۔ بینچ کی لکڑی، لالٹین یا کوئلوں کی راکھ پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہو جاتاتھا کہ ہم مرنے والے ہیں تمام چیزیں ایک فاصلے پر کھڑی سرجوڑے سرگوشیاں کررہی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے بسترِ مرگ پر پڑے مریض کے تیمادار کمرے کے ایک کونے میں دائرہ وار کھڑے دبے لہجے میں اس کی موت کے بارے میں گفتگو کررہے ہوں۔
 میں اس حالت کو پہنچ چکا تھا کہ اب اگر بتایا جاتا کہ مجھے آزاد کردیا گیا ہے تو میں اپنی جگہ منجمد ہو جاتا۔ ایک مرتبہ اپنے فانی ہونے کا احساس ہو جائے۔ تو موت میں چند گھنٹے یا چند برسوں کی تاخیر ایک ہی بات لگتی ہے۔ ایک لحاظ سے میں بالکل مطمئن ہوچکا تھا۔ اب کسی چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ لیکن خوفناک بات یہ تھی کہ میرا بدن میری مرضی کے بغیر کانپ رہا تھا اور میرے کپڑے پیسنے میں یوں تربتر تھے جیسے میرا وجود اندر ہی اندر پگھل کر ختم ہو جائے گا۔ میں نے خود کو چھوا، ہاتھ سے محسوس کیایوں جیسے میں کسی اور بدن کا ہاتھ لگا رہا ہوں۔ یہ میرا جسم تھا اس میں ایک دل زور زور سے دھڑک رہا تھا کچھ چیزیں جسم سے باہر آرہی تھیں کچھ اپنی جگہ ٹھیری ہوئی تھیں۔ پورا وجود ایک انجانے بھاری پن میں تبدیل ہوچکا تھا۔ ساتھ چمٹ جانے والا مکر وہ جاندار۔ یک لخت مجھے محسوس ہوا جیسے میں کسی کیڑے کے اندر قید ہوں۔
’’ساڑھے تین بج گئے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔
 ہم چونک گئے ہم بھول گئے تھے کہ وقت گزرہا ہے رات ایک سیاہ عفریت کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ شام کب اختتام کو پہنچی؟ رات کب شروع ہوئی؟ جون ہاتھ ہلا ہلا کر چیخنے لگا۔۔۔۔ میں مرنا نہیں چاہتا۔۔۔ میں کیوں مروں؟ میں نہیں مروں گا۔
 اس نے اپنے بازوہوا میں بلند کئے اور کوٹھڑی میں ادھر ادھر بھاگنے لگا پھر وہ سسکیاں لیتا ہوا ایک کونے میں ڈھیر ہوگیا۔ ہر چند کہ جون پاگلوں کی طرح شورمچار رہا تھا لیکن حقیقت میں وہ مجھ سے اور ٹام سے زیادہ اچھی حالت میں تھا۔
 وہ اس بیمار آدمی کی طرح تھا جو بیماری کا مقابلہ اپنے بلند ہوتے درجہ حرارت سے کرتا ہے لیکن جب مریض کی حرارت بھی اس کا ساتھ چھوڑ رہی ہو تو یہ زیادہ خطرناک علامت ہوتی ہے میں اور ٹام ٹھنڈے پڑرہے تھے۔
 جون رور ہاتھا اسے خود پر رحم آرہا تھا۔ یہ بے بسی کے انتہا تھی ایک لمحے کے لئے میرا جی چاہا کہ میں بھی اپنی حالت پر دھاڑیں مار مار کر روؤں۔ مگر اس کے برعکس میں نے چھوٹے کو غور سے دیکھا اور محسوس کیا کہ میں غیر انسانی طور پر لاتعلق ہوچکا ہوں۔
’’میں باوقار انداز میں مروں گا‘‘ میں نے خود کو کہتے سنا۔
 صبح کے آثار دیکھنے کے لئے ٹام چھت کے سوراخ کے نیچے جا کھڑا ہوا جب سے ہمیں ڈاکٹر نے وقت بتایا تھا ہم اپنی زندگی کو قطرہ قطرہ ختم ہوتے دیکھ رہے تھے۔
’’ سن رہے ہو؟‘‘ ٹام کی وحشت زدہ آواز آئی۔
’’ہاں‘‘
 ’’ابھی رات باقی ہے لیکن انہوں نے احاطے میں چلنا شروع کردیا ہے معلوم نہیں کم بختوں کا کیا ادارہ ہے بہرحال اندھیرے میں تو گولی نہیں ماریں گے‘‘
 ’’روشنی ہونے میں بھی زیادہ دیر نہیں ہے‘‘ میں نے آنکھیں چھپکاتے ہوئے کہا۔ مجھے آسمان پر اندھیرے کی گہرائی کم ہوتی محسوس ہوئی تھی۔
کچھ دیر میں ماحول کا رنگ بدلنے لگا۔ دور کہیں گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیں۔
ٹام نے ڈاکٹر سے سگریٹ طلب کی۔
 ’’یہ سب کیا ہے؟‘‘ اس نے سگریٹ سلگاکر کہا ۔ وہ مزید کچھ کہنا چاہتا تھا مگر دروازے کی آہٹ سن کر خاموش ہوگیا۔دروازہ کھلا اور ایک افسر چار سپاہیوں کے ساتھ اندر داخل ہوا۔
’’ٹام؟ افسر نے پوچھا
ٹام خاموش رہا۔ مگر گارڈ نے اس کی سمت اشارہ کردیا۔
’’جون؟‘‘
’’وہ۔۔۔۔۔وہ جو فرش پر بیٹھا ہے‘‘۔ گارڈ بولا
’’اٹھو‘‘۔ افسر نے جون سے کہا۔
 جون نے خود کومزید سمیٹ لیا۔ سپاہیوں نے اس کی بغلوں میں باز وڈالے، اور گھسیٹ کر کھڑا کردیا، لیکن جوں ہی سپاہی ہٹے، جون پھر ڈھیر ہوگیا۔ سپاہیوں نے افسر کی جانب دیکھا۔
 ’’اسے اٹھا کر لے جانا پڑے گا‘‘ افسر نے کہا‘ اور پھر ٹام کی سمت گھومتے ہوئے بولا۔ ’’چلو تم میرے ساتھ چلو‘‘۔
 ٹام دوسپاہیوں کے درمیان افسر کے ساتھ روزانہ ہوگیا۔ بقیہ دوسپاہیوں نے چھوٹے کو اٹھالیا۔ وہ بے ہوش نہیں تھا۔ اس کی آنکھیں پوری کھلی ہوئی تھیں۔ اور رخساروں پر آنسوؤں کی لکیریں بن رہی تھیں۔ میں کھڑا ہو اتوافسر نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا۔
’’تمہارا نام پابلو ہے‘‘؟
’’ہاں‘‘
’’ تم یہیں رکو تمہیں بعد میں لے جائیں گے‘‘
 ڈاکٹر اور دوگارڈ بھی ان کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ اب میں بالکل تنہا تھا مجھے وقفے وقفے سے گولیاں چلنے کی آوازیں آرہی تھیں، ہر آواز پر میں کانپ اٹھتا۔ میرا جی چاہا کہ میں اپنے بال کھینچوں اور زور زور سے چیخوں لیکن میں نے اپنے ہاتھ جیبوں میں ڈال لیے اور ہونٹوں کو سختی سے دبالیا۔ میں باوقار انداز میں مرنا چاہتا تھا۔
 ایک گھنٹے میں وہ مجھے ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گئے۔ کمرہ سگریٹ کے ھوئیں سے بھرا ہوا تھا اور اس قدر گرم تھا کہ سانس لینے میں دشواری ہورہی تھی۔ یہاں دو افسر اپنے گھٹنوں پر کاغذات پھیلائے بیٹھے تھے۔
’’تمہارا نام پابلو ہے؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’ریمون کہاں ہے؟‘‘
 کچھ دیر بعد وہ مجھے دوبارہ افسروں کے سامنے پیش کرنے کے لئے چل پڑے۔ راہداری سے گزرتے ہوئے اچانک ہمارے قدموں تلے سے ایک چوہا نکل کر دوسری طرف بھاگا۔ مجھے یہ منظر بہت دلچسپ لگا۔
 ’’چوہا! تم نے دیکھا؟ چوہا تھا‘‘۔ میں نے ایک سپاہی سے کہا۔ سپاہی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی ۔ جہاں تک میرا تعلق تھا۔ مجھے ہنسی آرہی تھی۔ لیکن مجھے ڈرتھا کہ ایک مرتبہ میں ہنس پڑا تو ہنستا چلا جاؤں گا۔ رُک نہیں سکوں گا۔ ہنسی سے بچنے کے لئے میں نے بڑی مونچھوں والے سپاہی کو غور سے دیکھا اور کہا۔
’’احمق تمہیں اپنی مونچھیں کاٹ دینی چاہئیں‘‘
اس نے نیم دلی سے مجھے لات مارنے کی کوشش کی، مگر کچھ بولنے سے گریز کیا۔
’’تم نے اچھی طرح سوچ لیا؟‘‘ دوبارہ سامنا ہونے پر موٹے افسر نے مجھ سے پوچھا۔
 میں نے افسروں کو غور سے دیکھا۔ وہ ایسے کیڑے لگ رہے تھے۔ جو صرف مخصوص موسموں میں دکھائے دیتے ہیں۔
 ’’ میں جانتا ہوں ریمون کہا ہے؟ میں نے روانی سے کہا۔ وہ مرکزی قبرستان میں چھپا ہوا ہے۔ کسی دھنسی ہوئی قبر کے اندر یا گورکن کی چار دیواری میں‘‘۔
 بس میرا جی چاہا تھا کہ ان سے مذاق کروں۔ وہ میرے ہاتھوں بے وقوف بنیں اچھل اچھل کر پیٹیاں کسیں۔ ٹوپی سیدھی کریں۔ اور بے معنی احکامات جاری کریں۔
اور وہ واقعی اُچھل پڑے تھے۔
’’خوب ! ٹھیک ہے! اچھا پندرہ آدمی تیاکرو۔ فوراً
 اور تم موٹے افسر نے روانگی سے قبل مجھے مخاطب کیا۔۔۔۔ اگر تم نے سچ بولا ہے تو تمہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ ورنہ تم پچھتاؤ گے۔
 وہ شور مچاتے رخصت ہوگئے۔ اور میں اطمینان سے چھت کی طرف دیکھنے لگا۔ میں نے تصور کیا کہ اس لمحے وہ قبر کے پتھر الٹ رہے ہوں گے۔ گورکن کی چار دیواری میں کودر ہے ہوں گے۔ اپنی ناکامی پر برے برے منہ بناتے، قبرستان کی جھاڑیوں میں اُچھلتے کو دتے وردی پوش۔ میں بڑی مشکل سے ہنسی ضبط کررہا تھا۔
 تقریباً ایک گھنٹے بعد موٹا افسر اکیلا واپس آیا۔ اس نے میرے چہرے پر نظریں گاڑدیں میں اپنی سزا سننے کے لئے پہلے سے تیار تھا۔
 ’’اسے بیرونی احاطے میں لے جاؤ۔ فوجی کاروائی ختم ہونے کے بعد، اس کا فیصلہ شہری انتظامیہ کرے گی‘‘
مجھے یوں لگا جیسے میں نے غلط سنا ہو۔
’’ تو۔۔ تو مجھے گولی نہیں ماری جائے گی۔‘‘ میں نے پوچھا
’’نہیں‘‘
’’لیکن۔۔۔۔کیوں؟‘‘
 اس نے لاعلمی کے اظہار کے لئے کندھے اچکائے اور خاموش ہوگیا۔ سپاہی مجھے باہر کی جانب گھیسٹنے لگا۔ بیرونی احاطے میں سیکڑوں کی تعداد میں بچے عورتیں اور بوڑھے قیدی جمع تھے۔ قیدیوں کے درمیان چلتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ میں آہستہ آہستہ پاگل ہورہا ہوں۔ دوپہر کے وقت ہمیں کھانا دیا گیا۔ کھانے کے دوران مجھے ہوش نہیں تھا کہ میں کہا ہوں۔
 شام کے وقت چند نئے قیدی احاطے میں دھکیلے گئے میں نے اپنے محلے کے دکاندار پہچان لیا اس کا نام گارشیا تھا۔
’’ تم زندہ ہو؟‘‘ اس نے مجھے دیکھتے ہی حیرت سے پوچھا۔
’’مجھے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ پھر انہوں نے مجھے یہاں بھیج دیا۔ معلوم نہیں کیوں‘‘۔
’’ مجھے دو بجے گرفتار کیا گیا۔ گارشیانے بتایا۔
’’کیوں تمہارا تو سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا‘‘
’’ جو بھی ان کی طرح نہیں سوچتا، وہ اسے گرفتار کررہے ہیں۔
 چند لمحوں کی خاموشی کے بعد گارشیاد بے لہجے میں بولا۔ ’’ وہ ریمون کی تلاش میں کامیاب ہوگئے‘‘مجھ پر لرزہ طاری ہوگیا۔
’’کب؟‘‘
 ’’آج صبح۔ ریمون نے عجیب احمقانہ حرکت کی۔ وہ چچا کے لڑکے سے کسی بات پر خفا ہو کر گھر سے نکل گیا۔ اسے کئی لوگ پناہ دینے کو تیار تھے مگر وہ کہنے لگا کہ پابلوں ہوتا تو میں اس کے گھر رہتا۔ وہ میرا دوست تھا مگر جب وہی گرفتار ہوگیا تو اس میں دوسروں کا احسان کیوں لوں۔ میں قبرستان میں چھپ جاؤں گا۔
’’قبرستان میں؟‘‘
 ’’ہاں بس ریمون سے یہی غلطی ہوئی۔ صبح وہ ہاں آگئے۔ یہ ہونا ہی تھا ظالموں نے اسے دیکھتے ہی گولیوں سے اڑادیا۔‘‘
’’قبرستان میں؟‘‘
’’ہاں‘‘
 ہر چیز دائرہ دار گھومنے لگی۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں زمین پر بیٹھا تھا۔ اچانک میں اتنی زور سے ہنسا کہ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

منگل، 14 مارچ، 2017

علم و دانش کے معمار : ژاں پال سارتر


ژاں پال سارتر نے ساری زندگی اپنے لیے کوئی گھر بنایا نہ ہی شادی کی۔ ماں کی دوسری شادی نے اسے ساری عمر شادی سے متنفر کر دیا تھا اور وہ شادی کے نام سے دور بھاگتا رہا۔ سیمون ڈی بوار اس کی ہم خیال تھی۔ دونوں بغیر شادی کے ساتھ ساتھ رہے اور یہ ساتھ سارتر کی موت پر ٹوٹا… سارتر نے اپنی ساری کتابیں ہوٹل اور کیفے میں بیٹھ کر لکھیں… ہوٹل ’’فلور‘‘ اس کا پسندیدہ ہوٹل تھا۔ کچھ لوگ اس کے فلسفے ’’جدیدیت‘‘ کو ’’کافی ہائوس فلسفہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ سارتر کے کیفے کے قیام پر کچھ لوگوں نے اعتراض اُٹھایا تو اس نے جواب دیا۔ ’’میں کیفے میں گھر سے زیادہ منہمک ہوتا ہوں‘‘ پوچھنے والوں نے پوچھا: ’’کیوں؟‘‘ سارتر کا جواب تھا:’’لوگ وہاں نہ میری پروا کرتے ہیں نہ مجھے لوگوں کی پروا ہوتی ہے۔ اس ماحول میں مجھے کام کرنے میں آسانی ہوتی ہے اور پھر گھر بار کا بوجھ میرے بس کی بات نہیں۔‘‘ سیمون ڈی بوار سے اس کی ملاقات بھی عجیب حالات میں ہوئی۔ سیمون ایک ذہین اور اپنے آپ پر نازاں لڑکی تھی۔ مردوں کو کمتر سمجھنا اور ان کا مذاق اُڑانا اس کی عادت بن گئی تھی۔ لیکن جب اس کی ملاقات سارتر سے ہوئی تو اسے اپنی یہ عادت ترک کرنا پڑی اور سارتر کی ذہانت کے سامنے سر جھکانا پڑا۔ دوستوں نے جب اس سے پوچھا کہ تم سارتر سے متاثر ہو گئی ہو یا اس کے سامنے سرنگوں ہو گئی ہو؟ تو اس نے جواب دیا: ’’میں سارتر کی دوست ہ وں لیکن جب مجھے کوئی سارتر سے بہتر آدمی مل جائے گا تو میں اسے چھوڑ دونگی۔‘‘ مگر اسے سارتر سے بہتر آدمی نہ مل سکا اور یہ دوستی زندگی بھر رہی۔ سیمون ڈی بوار نے سارتر کے ساتھ ہوٹلوں میں وقت گزارا۔ اس کے ساتھ بہت سفر کیے۔ راتیں جاگ کر اور گھوم پھر کر گزاریں اور اس کے بارے میں بڑی عجیب باتیں لکھیں۔ وہ کہتی ہے سارتر بہت وہمی آدمی تھا۔ ایک باروینس کی گلیوں میں وہ ساری رات پھرتے رہے۔ صبح سارتر نے سیمون کو بتلایا کہ ایک جھینگا مچھلی ساری رات اس کا پیچھا کرتی رہی ہے۔ سیمون کے ساتھ وہ اپنے آپ کو بہت پر سکون محسوس کرتا تھا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ یہ وہم کی بیماری جاتی رہی۔ سارتر نے زندگی بھر لکھا اور بہت کچھ لکھا۔ لکھنے کا شوق اُسے بچپن ہی سے تھا۔ اس نے بچپن میں ایک کہانی لکھی اور پھر وہ ساری عمر لکھتا رہا۔ اس نے کئی بار اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ میں لکھنے کے لیے پیدا ہوا ہوں اور لکھنے کی وجہ سے ہی میں زندہ ہوں۔ سارتر نے ڈرامے لکھے ، ناول لکھے، بائیو گرافی لکھی، فلسفے پر کتابیں لکھیں، لیکن اس کی یہ ساری تحریریں اس کے فلسفے کے گرد گھومتی ہیں جس کا وہ موجد یا بانی سمجھا جاتا ہے۔ جب بھی وجودیت کا لفظ سامنے آئے تو سارتر کا نام ذہن میں آجاتا ہے۔ سارتر اور وجودیت اس عہد میں لازم و ملزوم ہو کر رہ گئے ہیں۔ وجودیت پر لکھنے والوں کا خیال ہے کہ سارتر کے ہاں یہ اصطلاح یا فلسفہ ہیگل، ہیسرل اور ہائیڈیگر کے مطالعے سے آیا ہے۔ سارتر سے پہلے بھی یہ موجود تھا لیکن سارتر نے اسے باقاعدہ فلسفے کی شکل دی… سقراط سے پہلے تک اور سقراط کے بعد میں فلسفہ مخصوص لوگوں کی وراثت تھا۔ سقراط نے اسے بازاروں کا راستہ دکھایا لیکن فلسفہ رہا چند لوگوں کے پاس ہی۔ اسے عمومی درجہ نہ دیا گیا۔ وجودیت شاید فلسفے کی وہ پہلی اصطلاح ہے جسے گلی محلوں، ہوٹلوں اور ادب میں زیر بحث لایا گیا اور یہ سب کچھ سارتر کی بدولت ہوا۔ البرٹ کامیو سے سارتر کی دوستی تھی۔ سارتر نے 1938ء میں اپنا ناول’’متلی‘‘ لکھا اور پھر کامیو سے مل کر وجودیت کے فلسفے کو ادب میں شامل کر دیا۔ ساری دنیا کے ادیب اپنے اپنے شاہکاروں میں وجودیت کی بانسری بجانے لگے، کہ انسان اس دنیا میں بیگانگی کے ماحول میں زندہ ہے۔ وہ اکیلا ہے نہ اس کا کوئی خدا ہے۔ نہ زمین اس کی دوست ہے۔ اسے اس غلاظت میں مرنے کے لیے پھینک دیا گیا ہے۔ دنیا سراسر لغو ہے۔ بے معنی ہے، لیکن اس کے باوجود انسان قطعی طور پر آزاد ہے۔ اس کا وجود اس کی ذات پر مقدم ہے۔ سارتر زندگی کو بے مقصد قرار دیتا ہے۔ اس کی نظر میں زندگی کے کوئی معنی نہیں۔ انسان اپنا خود خالق ہے اور اپنے افعال اور اقدام کا خود ذمہ دار ہے۔ کسی کو اس کے کردار، اس کی منزل یا اس کی زندگی کی سمت متعین کرنے کا حق حاصل نہیں۔ سارتر کے نزدیک زندگی کا مقصد کامل آزادی ہے۔ انسان کو چا ہیے کہ وہ کرب سے آزادی حاصل کرے اور اس بات سے چھٹکارا حاصل کرے کہ وہ آزاد نہیں ہے۔ ڈاکٹر سی۔ اے۔ قادر وجودیت پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ یہ یورپ میں عالمی جنگوں سے پیدا ہوا۔ انسان درندوںا ور وحشیوں کی طرح لڑا۔ ہر قدر کو ٹھکرا دیا۔ اخلاق کا پاس رہانہ مذہب کا۔ جنگوں نے اخلاق اور مذہب دونوں کو تباہ کر دیا۔ نوجوانوں نے محسوس کیا کہ ماضی کا اخلاق ان کے مسائل کا حل نہیں اور مذہب کی طفل تسلیاں ان کی بے چینی دور نہیں کر سکتیں۔ اگر پرانی اقدار ختم ہو چکی ہیں، فلسفہ دوراز قیاس باتوں کا مجموعہ بن گیا ہے تو انسانی دور کا مداوا کیا ہے؟ اس سوال کا جواب وجودیت نے دیاہے…؟‘‘ سارتر انسان کو پرانے رواجوں اور روایتوں کے بندھن سے آزاد کرانا چاہتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وجودیت روایتی فکر کے خلاف ایک بغاوت ہے۔ سارتر نے اپنے ناول ’’متلی‘‘ میں ہیرو کے کردار سے اس کی وضاحت کی کوشش کی ہے، ہیرو بے معنی اور لغویت میں معنی تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اس بات پر خوش ہے کہ اس نے یہ کام خود منتخب کیا ہے اور آزادانہ طور پر کیا ہے، اس پر یہ کام تھوپا نہیں گیا۔سارتر کے نزدیک انتخاب کرنا دراصل روایتی سوچ سے پیچھا چھڑانے کا مطلب ہے۔ سارتر اس کو کامل آزادی کا نام دیتا ہے۔ سارتر کہتا ہے:’’مجھے دوسری جنگ عظیم کی شکست کا تجربہ جون1940ء میں ہو گیا تھا۔ میں نے خود اس کا انتخاب کیا۔ میں یہ بات قبول کرتا ہوں کہ میں ہر بات پر عمل اورہرشے کا جو مجھ سے وابستہ ہے اس کا میں خود ذمہ دار ہوں…‘‘ سارتر کے نزدیک ہر آدمی اپنی زندگی میں ایک ایسا کردار ضرور ادا کرتا ہے جو اس کی حقیقی زندگی میں نہیں ہوتا۔ مثلاً کوئی آدمی حقیقی زندگی میں باورچی نہیں ہوتا لیکن وہ باورچی ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ وہ ایسا کر کے اپنی مکمل آزادی کا اعلان کرتا ہے مثلاً سارتر کے ڈرامے (Intimacy) پر نظر ڈالیے۔ ایک عورت اپنے پاگل شوہر کے ساتھ ایک بلڈنگ میں رہتی ہے اسے اپنے شوہر سے بہت محبت ہے۔ وہ اس سے الگ نہیں رہ سکتی اور نہ ہی وہ ذہنی مریض ہے، لیکن وہ شوہر کے ساتھ ذہنی مرض میں شریک نہیں ہونا چاہتی اور خود فریبی میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ یہی وہ کردار ہے جو اس کی حقیقی زندگی سے تعلق نہیں رکھتا مگر وہ یہ کردار ادا کرنے کا خود انتخاب کرتی ہے۔ یہ اس نے مکمل اور کامل آزادی سے کیا جو اسے حاصل ہے۔ سارتر کا کہنا ہے کہ آزادی حاصل کرنے کی اذیت سے جو لوگ چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور آزادی کا انتخاب کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور اپنے گرد مذہب، اخلاق اور معاشرتی اقدار کے ہیولے بنا لیتے ہیں جس طرح ریشم کا کیڑا اپنے گرد ریشم کے تار بنتا رہتا ہے اور پھر ایک دن وہ اپنے ہی بنے ہوئے جال میں دم توڑ دیتا ہے۔ ان لوگوں کا بھی یہی حال ہوتا ہے اور وہ بھی اخلاق، مذہب اور معاشرتی ہیولوں میں پھنس کر مر جاتے ہیں۔
 احمد عقیل روبی کی کتاب  ’’علم و دانش کے معمار‘‘ سے اقتباس - 

ہفتہ، 11 مارچ، 2017

چهٹی حس کیا ہے؟



اگر آپ کو لگتا ہے کہ اس کی حقیقت محض ایک فلم سے کہیں زیادہ ہے تو آپ کی نفسیاتی حالت بلکل نارمل ہے.دی سکستھ سینس فلم میں ہالے جوئل اوسمنت کے پاس ایک خاص صلاحیت ہے ایک چهٹا احساس. لیکن اس چهٹی حس سے آپ مردہ لوگوں کو دیکھنے کے قابل نہیں ہو جائیں گے. عام طور پہ معلوم حواسِ خمسہ سے الگ کسی قسم کی اضافی چهٹی حس واقعی ہوتی بهی ہے یا یہ صرف ایک تاثر ہے.؟
چهٹی حس کی اصطلاح ایسے مواقع پہ استعمال کی جاتی ہے کہ ہمیں کسی ایسی بات کا علم ہو جائے جو بظاہر وہاں موجود ہی نہیں ہے، مثال کے طور پہ آپ کو محسوس ہونے لگے کہ ٹرین میں آپ کے سامنے بیٹھے شخص نے کوئی جرم کیا ہے یا آپ کو اچانک محسوس ہونے لگے کہ کوئی گڑبڑ یا نقصان ہونے والا ہے، جیسے آپ ایمرجنسی میں گهر سے نکلے تو اپنے بچے کو کچن کے فرش پہ کهیلتا چهوڑ آئے تهے.دی سکستھ سینس فلم میں ہالے جوئل اوسمنت مردہ لوگوں سے بات کرتا ہے. اگر آپ نے یہ فلم نہیں دیکھی تو دیکهئے اس میں کچھ نہ کچھ خوبصورت پاگل پن ضرور دکهایا گیا ہے. پہلی بار مجهے مردہ لوگ نظر آتے ہیں کا جملہ اسی فلم سے مشہور ہوا تھا. چهٹی حس ہونے کا مطلب ہرگز ایسا نہیں ہے جیسا ڈراموں یا فلموں میں مردہ لوگوں سے بات کرتے دکهایا جاتا ہے. چهٹی حس سے مراد یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی کو اس بات کا احساس ہو جائے کچھ بہت اچها یا بہت برا واقعہ ہونے والا ہے.چهٹی حس کی اصطلاح استعمال کرنے سے ہم انسان اپنی حسیات کی تعداد کو محدود کر دیتے ہیں حالانکہ یہ کہنا ایک غلطی ہے کہ ہمارے پاس صرف پانچ حسیں ہیں. 
مثال کے طور پر چند اضافی حسیات کے نام یہ ہیں
نوسیسپشن: درد محسوس کرنے کی صلاحیت.
تهرموسپشن: درجہ حرارت میں ہونے والی تبدیلی کو محسوس کرنے کی صلاحیت.
پروپریسپشن: جسم میں موجود جوڑوں کے جسم سے تعلق کو محسوس کرنے کی صلاحیت.
ایکیولبریسپشن: توازن کا احساس، وقت کا کا احساس
ایک اور اہم صلاحیت یہ ہے کہ ہم محسوس کر لیتے ہیں جب کسی کا وزن کم ہو رہا ہو یا آپ محسوس کر سکتے ہیں جب آپ کا پیٹ بهر چکا ہو اور جسم کو مزید کهانے کی ضرورت باقی نہ ہو پیٹ جو کہ بظاہر ایک حقیقی چیز ہے. لیکن اس کی حس الگ طرح سے کام کرتی ہے.اگلی بار اگر آپ کو کوئی کہے کہ آپ ضرورت سے زیادہ کهائے جا رہے ہیں تو اسے بتائے کہ آپ کی یہ حس مر چکی ہے.تو کیا ہم میں سے ہر ایک کے پاس چهٹی حس ہوتی ہے؟یقیناً ہم میں سے ہر ایک میں یہ قابلیت اور صلاحیت موجود ہے، کہ ہم اپنی باقی حسیات سے ایک اور حس تخلیق کر سکیں. لیکن حواسِ خمسہ کے بغیر یہ ممکن ہرگز نہیں ہے.بعض مذہبی حلقوں میں، چهٹی حس کو بطور خدا یا فرشتوں کی موجودگی کے ثبوت کے طور پہ پیش کیا جاتا ہے. کچھ لوگ اسے اندرونی کشف اور الہام کہتے ہیں کہ جب بهی آپ کو کسی چیز یا آنے والے وقت کے بارے میں عجیب محسوس ہوتا ہے. اگلی بار جب بهی آپ کی چهٹی حس آپ کو کچھ بتانے کی کوشش کرے تو اس پہ غور کرنے اور اس کے بارے میں سوچنے سے پہلے اس بات کو یاد کر لیجئے کہ زندگی تبدیل ہو رہی ہے رک نہیں گئی، اور اس وقت جب آپ حواسِ خمسہ کو استعمال کر کے کسی چهٹی حس کے بارے میں یقین کر رہے ہوتے ہیں تو دراصل آپ تمام ممکنہ امکانات پہ غور کر رہے ہوتے ہیں.
تجربات اور مطالعہ کے بعد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دیگر جانوروں اور پرندوں میں جو حس، چهٹی حس کے طور پہ جانی جاتی ہے وہ ہے زمین کے مقناطیسی میدان کو محسوس کرنا.
حالیہ تحقیق میں سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انسان میں چهٹی حس موجود ہے جو کہ انسان کو مقناطیسی میدان کو محسوس کرنے میں مدد دیتی ہے اور اس مقناطیسی میدان میں تبدیلی لا کر پرندوں یا جانوروں کو ان کے راستے سے بهٹکایا بهی جا سکتا ہے.
سائنسدانوں نے ایک تجربہ میں پهلوں کے باغ کی مکهی میں انسانی آنکھ کے ریٹینا کا پروٹین داخل کیا گیا تحقیقاتی ماہرین کے مطابق مکهی نے اپنی پرواز کے راستے تبدیل کر لیے تهے جبکہ ابهی مکهی کی آنکھ میں بهی کسی قسم کی تبدیلی نہیں لائی گئی تهی.
اِس تجربہ سے اخذ کیا گیا کہ انسان میں بهی یہ چهٹی حس موجود ہے لیکن ہم اس سے لاعلم رہتے ہیں. 
دیگر جانور اس حس کا استعمال ہجرت کے دوران طویل فاصلوں کا پتہ لگانے کے لئے کرتے ہیں جبکہ پرندے یہ دیکهنے کے لئے کہ وہ ان طویل راستوں میں کہاں اور کس طرف جا رہے ہیں.
موضوع کی طرف واپس آتے ہیں ، لوگ کہتے ہیں کہ وہ ایسی چیزوں کو محسوس کر سکتے ہیں جنہیں وہ دیکھ بهی نہیں سکتے جیسا کہ کسی شخص کی ظاہری شکل میں تبدیلی یا اس کے ساتھ رونما ہونے والے واقعات وغیرہ.. آسٹریلیا میں میلبورن یونیورسٹی سے تعلق رکهنے والے ایک بصری سائنسدان پیرز ہووی کا کہنا ہے یہ کسی قسم کا جادو یا چهٹی حس نہیں ہے. اس احساس کی مکمل وضاحت  معلوم بصری عوامل visual processing کی شرائط میں کی جا سکتی ہے. 
نیچر کمیونیکیشنز میگزین میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق عموماً جس قسم کی چهٹی حس کا ہم دعوی کرتے ہیں وہ حقیقت نہیں ہے. اگر چهٹی حس قرار دیا جانا چاہئیے تو وہ زمین کے مقناطیسی میدان کو محسوس کرنے کی صلاحیت ہو گی.
سائنسی جریدے جرنلکے مطابق جو لوگ چهٹی حس سے محسوس کرتے ہیں وہ دراصل ان کے بصری و سماعتی نظام کو محسوس ہونے والی اس تبدیلی کا احساس ہے جس کی وضاحت وہ خود بهی نہیں کر سکتے کہ انہیں کیسے اس بات کا پتہ چلا ہے.
بہت سے امریکی اس بات پہ یقین رکهتے ہیں کہ بہت سی غیبی قدرتی طاقتیں موجود ہیں. ایک سروے میں یہ بهی پتہ چلا ہے کہ ایک تہائی لوگ اضافی ادراکی حسیات پہ یقین رکهتے ہیں اور دو تہائی افراد نے غیرمعمولی آسیبی تجربات سے گزرنے کا دعوہ کیا ہے. 
چند سائنسی مطالعات نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ چند لوگ دعوی کرتے ہیں کہ کچھ درپیش ہونے سے پہلے وہ مستقبل بینی کر سکتے ہیں. مزید مطالعہ سے اخذ کئے جانے والے نتائج سے معلوم ہوا کہ یہ مستقبل کے اعدادوشمار سے اخذ شدہ نتائج کی ایک ناقص رائے پیش کرنے جیسا عمل ہے. پیرز ہووی نے سائنسی جریدے لائیو سائنس کو بتایا کہ اس کی دلچسپی اس وقت بڑهی جب ایک طالبہ نے دعوی کیا کہ اس کہ پاس جادوئی قسم کی چهٹی حس ہے.اس نے دعوی کیا کہ وہ ایسی چیزیں بهی محسوس کر لیتی ہے جنہیں وہ دیکھ نہیں سکتی، جیسا کہ کسی دوست کو حادثہ پیش آنا وغیرہپیرز ہووی اور میلبورن یونیورسٹی کے ماہر نفسیات مارگریٹ ویب نے نے اپنے شبہات کی تصدیق کے لئے اس طالبہ کی چهٹی حس کا ٹیسٹ لینے کا فیصلہ کیا.
Normal visual processing عام بصری پروسیسنگ
انہوں نے اپنے دوستوں کی ایک مخصوص انداز میں چند تصاویر بنائیں جن میں کمپیوٹر کے ذریعے ظاہری حلیہ میں معمولی تبدیلیاں کر دی گئیں. جیسا کہ ایک تصویر میں اس کے دوستوں نے عینکیں پہن رکهیں تهی جب کہ دوسری میں نہیں تهیں یا ایک تصویر میں لپ اسٹک لگائی ہوئی تهی جبکہ دوسری تصویر میں بغیر لپ اسٹک کے دوست موجود تهے.

تجرباتی ٹیم نے 48 انڈر گریجویٹ طالب علموں کو پہلی تصویر 1.5 سیکنڈ کے لئے دکهائی اور ایک سیکنڈ کے وقفے کے بعد دوسری تصویر کو سامنے لایا گیا.اس کے بعد طالب علموں کو ان تصاویر میں فرق اور اگر وہ فرق ہیں تو ان کی نشاندہی کرنے کا کہا گیا.
طالب علموں کو ایک فہرست دی گئی جس میں سے انتخاب کرنا تها کہ ان دونوں تصاویر میں کیا ممکنہ فرق موجود ہیں. 
حصہ لینے والے طالب علموں نے تصاویر میں موجود تبدیلیوں کو ضرور محسوس کر لیا تها. لیکن تمام طالب علم ان تصاویر میں موجود فرق اور تبدیلی کی نشاندہی کرنے میں اتنی اچهی کارکردگی نہیں دکها پائے حتی کہ بڑی تبدیلیوں مثلاً ایک دوست کہ سر پہ بڑی میکسیکن ٹوپی کی غیر موجودگی کی نشاندہی کرنے میں بهی ناکام رہے یا پهر ایسی تبدیلی بتائی جو موجود ہی نہیں تهی.یہی معمہ ان دوستوں کے ساتھ بهی پیش آیا جو تصاویر میں موجود تهے جب انہوں نے تبدیلیوں کو تو محسوس کیا لیکن وہ فہرست میں اس بات کی نشاندہی نہیں کر سکے کہ کونسی ممکنہ تبدیلیاں ہو سکتی ہیں. 
پیرز ہووی نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ دماغ مناظر کو سمجهنے کے لئے بصری پیمائش کو حصوں میں تقسیم کرتا ہے. جیسا کہ اندهیرا، رنگ، عمودی یا اس کے برعکس حصہ، لیکن دماغ ہمیں یہ نہیں سمجها پاتا کہ ہم ان حصوں میں ہونے والی اس ممکنہ تبدیلی کو بیان کیسے کریں اور اس کی نشاندہی کس طرح کریں.دوسرے تجربے میں ٹیم نے طالب علموں کو سرخ اور سبز رنگوں کی ڈسک ایک لائن میں ترتیب کے ساتھ دکهائی گئی اور ایک بار پهر اس سلسلے کو دوبارہ سے پہلے سے مختلف ترتیب سے دوہرایا گیا، ایک بار پهر سے طالب علموں نے ترتیبی تبدیلی کو تو محسوس کر لیا لیکن ان کی نشاندہی کرنے سے وہ پهر بهی قاصر رہے.اور جب ٹیم نے ترتیب سے رکهی ہوئی تمام سرخ اور سبز ڈسکس میں سے چند ڈسکس کے رنگوں کو تبدیل کیا تو طالب علموں کی چهٹی حس مکمل طور پہ کام کرنا چهوڑ گئی..
Die-hard believers اندها یقین رکهنے والے
نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے مراحل میں چهٹی حس کے یقین کی اصلیت، جس میں وہ شخص سمجهتا ہے کہ اس نے الہامی طور پہ کسی ایسی چیز کی آگاہی حاصل کر لی ہے جو اس نے دیکهی ہی نہیں ہے.وہ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ یہ آگاہی انہوں نے کسی دیگر ذرائع سے محسوس کی یا دیکهی ہے جو کہ بصری پیمائش کے معیار میں اختلافات کے باعث خیال کی صورت دماغ انہیں پیش کرتا ہے.
ایسی کوئی بصری پیمائشی غلطی، حس نہیں کہلائے گی جو فزکس کے عام قوانین سے باہر ہو کر کام کرتی ہو.
پیرز ہووی کی طالبہ کے معاملے میں شاید اس طالبہ نے بظاہر کہیں بہت معمولی سی تبدیلی کو اپنے اردگرد ماحول میں سے حواسِ خمسہ کے ذریعے ہی محسوس کیا ہو گا( جیسے چهوٹی خراشیں یا مرہم پٹی یا کوئی لفظ وغیرہ ) لیکن اسے خود بهی اس بات کا اندازہ نہیں ہوا ہو گا کہ وہ ایسی صورت حال میں سے اپنے الہام اور کشف کے لئے کسی ایک اشارے کو اپنی چهٹی حس کے طور منتخب کر چکی تهی کہ اس کے دوست کو حادثہ پیش آ چکا ہے..
پیرز ہووی نے مزید کہا کہ اس موضوع پر مطالعہ کرنے کا مقصد ان لوگوں کو قائل کرنا تها جو ان دیکهی مخلوقات اور طاقتوں پر اندها یقین رکهتے ہیں.ہم اسے ثبوت کے طور پیش کر سکتے ہیں، لیکن وہ لوگ جو سمجهتے ہیں کہ ان کے پاس چهٹی حس موجود ہے وہ اس پہ یقین کرتے رہیں. کیونکہ یہ خوش فہمی ہی ہے کہ ان کے پاس چهٹی حس جیسی کوئی صلاحیت موجود ہے. حواسِ خمسہ سے ہی معلوم نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت کوئی جادوئی خوبی ہرگز نہیں ہے!!