پیر، 31 اکتوبر، 2016

خدا کو کس نے بنایا ہے ؟



شعور کے خوگرانسان کے لیے خدا کا وجود ہمیشہ ایک معمّہ ہی رہا ہے اور ہر دور میں علم، منطق اور عقل کی روشنی میں خدا کو جاننے کی کاوشیں جاری رہی ہیں۔ آئیے! اسی عقل، منطق، علم اور سائنس کی دریافتوں کی روشنی میں خدا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن خدا کے وجود کا پیرایہ سمجھنے سے پہلے وجود کی ماہیّت سمجھنا ضروری ہے کہ وجودیت خود کیا ہے!

وجود کا قفس : Cage of Existence
انسان اور اس کی عقل و شعور کا موجود ہونا بذات خود ایک عجوبہ ہے۔ انسان جب کائنات کی تخلیق کے حوالے سے خدا کے وجود پر غور کرتا ہے تو اس کی عقل اس لیے معطّل ہوجاتی ہے کہ وہ وجودیت کے پیرائے کو اپنے شعور میں ایک فطری اور سختی سے پیوست تاثر کا پرتو ہی سمجھنے پر مجبور ہے۔ انسان طبعی وجودیت میں قید ہے اور اپنے محدود شعور کے باوصف وجود کے حوالے سے اسی طبعی وجودیت کو حرف آخر سمجھتا ہے۔ یہی ایسی بھول بھلیّاں ہے جس میں انسان صدیوں سے گھوم رہا ہے اور نکل نہیں پا رہا۔ جدید علوم اور نئی دریافتوں نے اس مخمصے میں اضافہ کیا ہے۔ حقیقت آشنائی کے لیے اب کسی اچھوتی سوچ کی ضرورت ہے جو اس طبعی وجودیت کے قفس کے قفل کو توڑدے جس میں انسانی تخیّل مقیّد ہے اور ایک عقلی اور شفّاف نقطۂ نظر سے کائنات، وجودیت اور خدا کو جانے۔ اس کے لیے سائنسی طریقہ کار اپنانا ہوگا کہ مفروضات hypothesis کا سہارا لے کر علم اورعقل کی کسوٹی پر ان کو پرکھاجائے۔ آئیں ہم غور کرتے ہیں کہ کیا وجودیت اور زندگی خود بھی مخلوق ہیں؟
زندگی کی ساخت: Fabric of Life
وجود زندگی سے ہے اور زندگی کی ساخت ایٹم اور خلیے سے ہے۔ایک نکتہ یہ بھی مدّنظر رہے کہ ہر عنصر کی اکائی ( ایٹم) ایک پس پردہ فطرت اور جبلّت کی خوگر ہوتی ہے۔آکسیجن اگر آگ جلاتی ہے تو کاربن اسے بجھاتی ہے۔ یہ ان کی جبلّت ہے۔ سائنس اسے خاصیّت یا property کہتی ہے۔ کسی بھی عنصر کی کارکردگی اس کی جبلّت کے طابع اور متعیّن حدود میں ہی ہوگی۔ منطقی طور پر کسی بھی زندگی کی حواسی اور شعوری صلاحیّت اس کو پروان چڑھانے والے بنیادی عوامل کی جبلّت کے رنگ میں ہی عیاں ہوگی۔ اس کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ اگر زندگی فوٹون سے ابھرتی ہے تو کیونکہ فوٹون غیرمرئی ہے اور اس کی جبلّت بے قراری ہے یعنی یہ ایک سیماب صفت اکائی ہے جو بہت رفتار سے چلتی ہے تو اس سے متعلق زندگی بھی غیرمرئی اور برق سے زیادہ تیز رفتار ہوسکتی ہے۔ اسی طرح عناصر اور کائناتی قوتوں کی اکائیاں بھی اپنی جدا خاصیّتوں کے ساتھ موجود ہیں۔
خلوی زندگی:Cellular Life
سائنسی دریافتیں بتاتی ہیں کہ وجود میں آنے کے بعد کائنات رفتہ رفتہ ٹھنڈی ہونی شروع ہوئی، پھر ایک وقت میں زمین پر حالات ایسے سازگار ہوئے کہ پانی میں ایٹم سے بنے خلیے سے زندگی پھوٹ پڑی جس میں طویل ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے بقول سائنسداں انسان اپنے شعور کے ساتھ جلوہ گر ہوا۔
سوال یہ ہے کہ زندگی کیا ہے؟
زندگی ایک فعّال اور بے چین معمّہ یا چیزہے جو اپنے آپ کو خاص ماحول میں عیاں کرنے کی جبلّت رکھتی ہے۔ زندگی ایک آزاد اور کھلا راز ہے جو ہر طرح کے ماحول میں ابھرنے کی صلاحیّت رکھتا ہے۔ یہ ایک غیر مرئی سچّائی اور وقوعہ Phenomenon ہے جو موجود ہے۔
سائنس کے مطابق کائنات ایٹم سے بنی اور زندگی خَلیے cell میں شعور کا نام ہے۔
تو پھر شعور کیا ہے؟
شعور احساس زندگی ہے مگر سائنس کے مطابق شعور زندگی کی پہیلی کا ایک حصہ اور غیر حل شدہ عُقدہ ہے۔
اب سوال اٹھتے ہیں کہ:
کیا حیات صرف خلیات ہی میں محصور ہے؟
کیا حیات صرف اور صرف پانی سے ہی ابھر سکتی ہے؟
اجنبی حرارتی اورمقناطیسی زندگی: Alien Thermal & Magnetic Life
اب ایک دوسرا رخ بھی دیکھے۔ سائنس کے نظریے کے مطابق کائنات بگ بینگ سے وجود میں آئی۔ اس نظریے کا سادہ سا تجزیہ کریں تو ظاہر ہوتا ہے کہ اس ابتدائی وقت میں نہ صرف توانائی اور قوّتیں موجود تھیں بلکہ ہر طرح کے مادّے، اجرام فلکی اور ہر طرح کی حیات اور فطری قوانین بھی آپس میں ضم تھے۔ شروع میں ہر طرف آگ تھی جو ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی اورجوں جوں کائنات پھیلی تو رفتہ رفتہ تمام چیزیں عیاں ہوتی گئیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس دوران زندگی کی سچّائی بھی ایک غیرمرئی صورت میں موجود رہی ہوگی اور مختلف ادوار میں قدرتاً مختلف صورتوں میں عیاں ہوئی ہوگی۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ جس طرح عناصر خلیات بناتے ہیں اسی طرح کچھ مخصوص پارٹیکل یا قوّتیں مل کر ایسی چیز بناتے ہوں جس میں ایک بالکل جدا پیرائے کی حیات اور شعور ابھرتے یا ظاہر ہوتے ہوں! پانی سے پہلے کیا زندگی توانائی، قوّت اور حرارت کے پیرائے جیسے روشنی یا ثقل سے پیدا ہوکر کسی اجنبی شعور کے ساتھ ارتقاء پذیر نہ ہوئی ہوگی؟ ہم کس منطق یا علم کے تحت ایسی حیات کو مسترد کریں گے جو شاید کائنات کے کسی گوشے میں موجود بھی ہو۔
سوال یہ ہے کہ: ایسا کیوں نہیں ہوا ہوگا؟
کیونکہ زندگی موجودہ دور میں بھی زمین پر آتش فشانی ماحول میں ایک اچھوتے پیرائے میں خود کو ظاہر کر رہی ہے لہذٰا ثابت ہوتا ہے کہ زندگی میں خود کو آتشی ماحول میں عیاں کرنے کی قوّت ہمیشہ سے موجود ہے۔ ہماری زمین پر ہی سمندر کی گہرائی میں آتش فشانی وینٹ میں حالیہ دریافت شدہ ٹیوب وارم جو سورج کی روشنی کے بغیر زندہ ہیں اور توانائی حاصل کرنے کے لیے کیمیکل پر انحصار کرتے ہیں، ایک عجوبہ ہیں۔ یہ شعاع ِ ترکیبی photosynthesis کے بجائے کیمیا ترکیبی Chemosynthesis سے توانائی حاصل کرتے ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ گو کہ دونوں طریقوں میں کاربن ڈائی آکسائڈ اور پانی استعمال ہوتے ہیں لیکن کیمیا ترکیبی میں آکسیجن کے بجائے سلفر خارج ہوتی ہے۔
Instead of photosynthesis, vent ecosystems derive their energy from chemicals in a process called 147chemosynthesis.148 Both methods involve an energy source (1), carbon dioxide (2), and water to produce sugars (3). Photosynthesis gives off oxygen gas as a byproduct, while chemosynthesis produces sulfur.
http://science.nasa.gov/scien133/science-at-nasa/133/ast13apr_1/
اس سے ہمارے اس نظریہ کو تقویت ملتی ہے کہ کائنات میں حرارت اور روشنی سے مختلف حیات کاعیاں ہونا بعید از قیاس نہیں کیونکہ اِس وقت زمین پر معتدل حالات میں بھی مذکورہ بالا زندگی کاایک نئی طرز میں ظاہر ہونا زندگی کی اپنی طاقتور اور ہمہ جہت جبلّت اور وصف کا مظہر ہے۔ یعنی زندگی کا وقوعہ of Life Phenomenon مختلف ماحولیات میں اپنے آپ کو ظاہر کرنے کی صلاحیّت رکھتا ہے۔ گویا یہ کثیر الجہت dimensional Multi ہے۔ ایک منطقی بات یہ سامنے آتی ہے کہ اگر زندگی کی جہتیں ایک سے زیادہ ہوں گی تو وجود کی ماہیّت بھی مختلف ہوسکتی ہے کیونکہ ان کی آفرینش کے جبلّی پیرائے غیرطبعی اور عام انسانی حواس سے ماورا ہوں گے لہذا اس بنیاد پر پیدا ہونے والی زندگی بھی اپنے وجود کے حوالے سے انسان کے لیے نہ صرف غیرمرئی ہوگی بلکہ انسانی حواس سے ماورا ہوگی جیسے ثقل، مقناطیس، روشنی سے منسلک زندگی نامعلوم پیرائیوں میں موجود ہوسکتی ہے۔ وہ اپنے اپنے وجودی پیرائے میں زندہ ہوں گی اور اپنے اپنے شعوری اور عقلی دائرے میں علمی ارتقاء کی طرف گامزن بھی ہو سکتی ہیں۔ یعنی انسان ہی اپنے علم کے تئیں کائناتی زندگی کی ابتدا کو پانی تک محدود سمجھتا رہا ہے جبکہ حقیقت اس کے خلاف بھی ہوسکتی ہے۔
مشترک اور مختلف جبلّت : Common & Diverse Intrinsic
ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ زندگی کے لیے مانوس ماحول ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے پیدا ہوا تو اور دوسرے عناصر کے ملاپ سے کیوں نہ پیدا ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ دو عناصر ایک ایسی چیز بناتے ہیں جس کی جبلّت سے زندگی کی مختلف جہتوں میں سے کوئی ایک جہت مانوس یا ہم آہنگ Compatable ہے جس کی وجہ سے حیوانی زندگی پانی میں نمودار ہوئی۔ ہم اس لیے اس زندگی کو بآسانی پہچانتے ہیں کہ زندگی اور ہمارے ذہن و دماغ ایک ہی مشترک خلوی منبع cellular origin سے ابھری ہیں اور یہ فطری اور جبلّی طور پر آپس میں ہم آہنگ ہیں۔ اسی طرح جب تخلیقی جبلّت مختلف ہوگی تو کسی غیر عنصر یا توانائی وحرارت سے متعلّق زندگی کا ادراک جبلّی ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ سے ہمارے ذہن اور حواس سے ماوراء ہوگا اور وہ ہمارے لیے معدوم اور بے وجود  ہی رہے گی۔ اس کا منطقی اور اصولی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر نامعلوم پیرائے کی زندگی ہمارے لیے طبعی طور پر معدوم رہے گی۔
شعورکی قسمیں : Forms of Conciousness
اسی کرۂ ارض پر خلیات پر مبنی حیات جانور، پرند، حشرات الارض، درختوں اور پھولوں کی شکل میں بھی موجود ہے جو شعور کے حامل ہیں اور جوڑے pairs بھی رکھتے ہیں، گویا خلوی حیات کے کئی متوازی نظام ہمارے سامنے رواں دواں ہیں مگر اس کے باوجود ابھی انسان ان کے شعور اور آپس کے روابط کی حقیقت نہیں جان پایا جس سے انسان کی کم علمی بھی عیاں ہے۔ ثابت یہی ہوتا ہے کہ جب خلوی حیات اور اس سے منسلک شعور کی لا تعداد قسمیں ہمارے سامنے ہیں تو غیر خلوی حیات اور اس سے منسلک شعور اور وجود بعید از قیاس کیسے ہو سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے انسان کیوں کسی اجنبی پیرائے کی حیات کی تصدیق نہیں کر پاتا؟
وجود کا دائمی ذہنی ادراک: Constant Mental Perception of Existense
اگر زندگی کسی توانائی مثلاً فوٹون Photon سے آشکارا یا نمودار ہو تو کیا ہم یہ جان سکتے ہیں کہ:
اس کے شعور کے پیرامیٹر کیا ہوں گے؟
اس کے حواس کس طرز کے ہوں گے؟
اس کی قوتوں کے پیرائے کیا ہوں گے؟
اُس طرزِحیات کے ارتقاء کے مراحل کیسے ہوں گے اور اس کی عقل اگر ہوئی تواس کی ماہیّت کیا ہوگی؟
یقینا ہم یہ نہیں جان سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وجود کے حوالے سے ہمارے تصوّر اور تخیّل کے پیرائے ہماری اساس یعنی خلوی حیات cellular life سے نتھی یا منسلک ہیں، ہمارے ذہن میں وجود کا متعیّن ادراک فطری طور پر طبعی ہے۔ ہم کبھی بھی کسی اجنبی وجودیت یا اجنبی زندگی کے حقیقی پیرائے Alien Life Parameters کو اپنے تخیّل کے فطری خلوی پیرائے Cellular Thought Parameters Natural میں رہتے ہوئے نہیں سمجھ سکتے، کیونکہ یہ آپس میں مانوس اور ہم آہنگ compatible نہیں ہیں۔ اسی اساسی خلوی جبلّت کے پرتو ہمارے ذہن میں وجودیت ایک خاص طبعی پیرائے میں اس سختی سے ثبت ہے کہ یہ ادراک perception اب ایک جنّیاتی ورثے Genetic Heritage کی طرح ہر خاص و عام کا مستقل ذہنی وصف بن چکا ہے۔ تمام انسان بشمول اسکالر اور سائنسداں اپنے اطراف کے پُراثر طبعی ماحول کے پیدائشی اور مستقل اسیر ہوتے ہیں اور وجود اور عمل سے منسلک خیالات اور احساسات بھی خلوی شعور کے زیر اثر ایک خاص طبعی تاثر کے آفاقی دائرے میں گردش کرتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے لیے کسی اجنبی پیرائے میں زندگی کا وجود ذہناً ناقابل قبول ہو جاتا ہے۔ اپنے شعور اور عقل کے با وصف ہم یہ نتیجہ تو اخذ کرسکتے ہیں کہ زندگی مختلف نہج Dimensions میں ظاہر ہوسکتی ہے یا ہوئی ہے لیکن جبلّی ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ سے کیونکہ ہم اپنے تجربات، عقل اور علم کی روشنی میں کسی غیر خلوی حیات کی نمو پذیری کی تصدیق نہیں کر پاتے، اسی لیے ہم اس کو اپنی عقل کے پرتو مسترد کرتے رہے ہیں۔
خلوی شعور کے حوالے سے یہ واضح رہے کہ آگ سے ابھرنے والی زندگی اور اس کے شعوری پیرائے آتشی ہی ہوں گے، اسی طرح برقی جبلّت سے آشکارا یا نموپذیر زندگی کا شعور بھی برقی شعور ہی کہلائےگا کیونکہ اس کی اساس برقی ہوگی جبکہ روشنی کے پیرامیٹر کی زندگی کا شعور شُعاعی ہوگا۔ ایسی کسی حیات یا وجود کی طبعی یا سائنسی تصدیق فی الوقت ممکن نہیں بلکہ ان کی قبولیت ایمانیات اور عقائد کے زیر اثر ہی ہو سکتی ہے۔
وجودیت کے پیرائے : Parameters of Existence
اس بحث سے صرف یہ اخذ کرنا تھا کہ ہم جسے وجود کہتے ہیں، وہ ایک مخصوص احساس یا تاثر ہے جو ہمیں کسی ایسی ہستی یا چیز کا ادراک دیتا ہے جس کا تعلّق کسی یکساں، مختلف یا منفردحیات سے ہوسکتا ہے۔ یہ بھی واضح ہوا کہ کائنات میں موجود مختلف عناصر اور توانائیوں میں حیات کے ابھرنے کے مواقع منطقی بنیاد پر دور از کار نہیں۔ گویا وجود مختلف دائروں میں مختلف جہتوں میں جلوہ گر ہو سکتا ہے۔ اس طرح وجود کے ایک دائرے میں رہائش پذیر حیات دوسرے دائرے کی حیات سے جدا خصوصیت کی حامل ہوگی۔ ان کا آپس میں ربط ان کے بنیادی اجزاء کی باہمی ہم آہنگی پر منحصر ہوگا۔
ہم نے ابھی یہ سمجھا کہ موجود ہونے کے بہت سے پیرائے یا رنگ ہو سکتے ہیں اور یہ مختلف دائروں میں عیاں ہو سکتے ہیں۔ کائنات اور خود انسانی تمدّن میں جاری نظم ایک آفاقی حقیقت ہے، اس کے بموجب یہ قیاس کرنا منطقی ہوگا کہ وجود یا موجود ہونے کے کائناتی نظام پر حاوی کوئی نظام ہوسکتا ہے جو وجودیت کو مختلف پیرائے اور رنگ دینے کی صلاحیّت رکھتا ہو ورنہ مختلف طبعئی حیات کا ہونا غیر حقیقی ہو جائے گا۔ اب اگر ایسا ہے تو یقیناً وہ حیات یانظم یا قوّت، جس نے وجود کے دائرے تخلیق کیے، وہ یقیناً تمام موجود کائناتی حیات سے انتہائی جدا اور برتر ہوگی۔ اسی نے انسان کو ایک ذہنی قید خانے محصور کر رکھا ہے۔
جب ہم ایک وائرلیس ریموٹ کے ذریعے بہت دور سے کسی مشین کو کنٹرول کرتے ہیں تو بظاہر کوئی واسطہ نظر نہیں آتا لیکن درحقیقت وہ مشین ایک نہ نظر آنے والے نظام سے منسلک ہوتی ہے۔ ایک لا علم کے لیے یہ ایک عجوبہ یا Baffle ہوگا جبکہ جاننے والوں کے لیے یہ ایک مربوط نظام ہے۔ بالکل اسی طرح انسان اطراف میں مخفی نظام ہائے کائنات کی ہیئت سمجھنے میں مشغول تو ہے لیکن مکمّل نظم System کو ابھی تک سمجھنے سے قاصر اور حقیقی کائناتی نظام سے بہت حد تک لاعلم ایک مخلوق ہے۔ مختصراً، اگر کائنات ایک تخلیق ہے تو اس میں موجود زندگی بھی ایک تخلیق ہی ہے اور انسان کے شعور کے بموجب وجودیت بھی ایک غیرمرئی مخلوق ہوئی الّا یہ کہ جدید علوم عملی طور پر Practically یہ ثابت کردیں کہ عدم سے وجود یا نیست سے ہست things from nothing خود بخود کیسے ظاہر ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ اچانک کائناتی تخلیق spontaneous creation میں زندگی اور شعور کا عیاں ہونا بھی ایک ناقابل تشریح عجوبہ ہی ہے۔
وجود خدا کی حقیقت: Reality of Existence of God
وجود ایک ذہنی تاثر ہے جس کی وجہ سے ہم موجود ہونے کو ہی وجود گردانتے ہیں کیونکہ ہماری نموپذیری شعور کے احساس وجود میں ہوتی ہے۔ خدا ایک ایسی ہستی ہے جس نے یہ نظام تخلیق کردیا جس میں موجود ہونے کا شعور ہی زندگی کہلایا۔ ہمارا خلوی شعور وجود کا ایک فطری طبعی تاثر ہمارے ذہن میں تخلیق کیے رہتا ہے۔ انسان خدا کو سمجھنے کی کوشش وجود اور عدم وجود یا حاضر اور غائب کے اُنھی طبعی پیرایوں میں کرتا ہے جو خلوی شعور کے بموجب مستقل فطری تاثر بن چکے ہیں۔ یہ سوال کہ خدا کو کس نے بنایا؟ تجسّس میں اسی فطری تاثر سے اٹھتا ہے اور انسان خدا کو بھی اپنی طرح کی زندگی اور وجود کا خوگر سمجھتے ہوئے جاننے کی کوشش کرتا ہے جو کہ خداکے حوالے سے ایک غیر حقیقی تصوّر illusion ہے۔ خدا یقیناً ایک زندہ ہستی ہے لیکن اس ہستی کا پیرایہ کیا ہوگا اُس کو انسان اپنی عقل کی خلوی ساخت Cellular Based Wisdom کی وجہ سے سمجھنے کا مکلّف ہی نہیں ہے۔
دیکھیے بجلی یا برق Electric کی ساخت کی بھی ایک جبلّت ہے جس کو قابو کر کے انسان نے کمپیوٹر اور روبوٹ بنا کر ان کو مصنوعی زندگی اور مصنوعی عقل دی۔ جس طرح انسان کے تخلیق کردہ الیکٹرانک ماحول میں مقیّد کوئی سپر روبوٹ بھی اپنی برقی Electronic جبلّت کی محدودیت اور نامانوس جبلّی ساخت کی وجہ سے خلوی زندگی Cellular life کے پیرائے نہیں سمجھ سکتا بلکہ اس کی رمق تک بھی نہیں پہنچ سکتا، اسی طرح انسان خدا کو طبعی اور خلوی پیرایوں میں مقیّد رہ کرشاید کبھی نہ سمجھ پائے۔ ریڈار ایک مصنوعی حواس کا خوگر نظام ہے کہ اس سے خارج ہونے والے سگنل کسی جسم سے ٹکرا کر اس کا الیکٹرونک تاثر لے کر واپس آتے ہیں اور اس کی موجودگی کو ظاہر کرتے ہیں لیکن اسٹیلتھ تکنیک Stealth Technology اس کو غیر مئوثر کردیتی ہے۔ یعنی اگر چار جہاز اُڑتے آرہے ہیں اور ان میں ایک اسٹیلتھ ساخت کا ہے تو ریڈار صرف تین جہاز دکھائے گا۔ اسٹیلتھ نظام سے آراستہ کوئی جسم اس کو نظر نہیں آئے گا۔ گویا جہاز، ایک ٹھوس جسم کھلی فضا میں موجود ہوتا ہے لیکن ایک مقیّد ماحول یعنی ریڈار کے کنٹرول روم، یعنی کسی خاص پیرائے میں موجود سے معدوم ہو جاتا ہے۔ یہی صورتحال انسان کے حواس اور تخیّلات کے بموجب خدا کے وجود کی ہے کہ انسان سب کچھ دیکھ سکتا لیکن خدا کو نہیں کیونکہ کائنات کا ماحول اسی ریڈار کے کنٹرول روم کی طرح ہے جس میں انسان اپنے حواس کے طابع ہر چیز کا شعور حاصل کرسکتا ہے جبکہ خدا کسی نامعلوم اسٹیلتھ جیسے پیرائے میں رہ کر ہر چیز پر حاوی ہے۔ اگر خدا اس طبعی ماحول سے کسی ایسے پیرائے میں بھی منسلک ہوتا جس کا فی الوقت انسان کو علم ہے توانسان اب تک خدا کے وجود کا پیرایہ جاننے کی طرف پیش قدمی کر چکا ہوتا۔ در حقیقت میٹافزکس جوں جوں فزکس میں ضم ہوتی رہے گی، خدا کو سائنسی طور پر قبول کرنے کے مواقع اتنے ہی بڑھیں گے۔
منکرین کے مخمصے : Confusion of Nonbeleivers
الحاد دراصل کائنات اور وجود کی حقیقت کی تلاش میں سرگرداں سوچتے ہوئے انسانی ذہن کا مخمصہ ہے اور بس! کیونکہ کوئی بھی بڑے سے بڑا منکرخدا خواہ وہ کوئی عظیم اسکالر یاسائنسدان ہی کیوں نہ ہو، آج بھی کائنات اور زندگی کے عجوبے کی تشریح خدا کو خارج کر کے نہیں کرسکا۔ ان کے پاس نہ زندگی اور شعور کی سائنسی وضاحت ہے اور نہ ہی انسانی جذبات و خیالات کے اجراء کی توضیح ہے۔ علم، عقل اور منطق کے سہارے سائنسی نظریات کا دفاع کرتے ہوئے جہاں بےبس ہوجاتے ہیں تو کچھ اس طرح کہہ دیتے ہیں کہ یہ ایک حیران کن مسٹری ہے جس کا پتہ کبھی چل جائے گا۔ سائنس کی محدودیت اس بات سے ہی عیاں ہے کہ یہ صرف ان سوالات کا جواب دیتی ہے جو کیا اور کیسے سے شروع ہوتے ہیں اور بہت سے انتہائی ضروری کیوں سے شروع ہونے والے سوالات کا جواب نہیں دے سکتی بلکہ لفظ کیوں اس کی لغت سے ہی خارج ہے۔
سائنس آج بھی جن سوالوں کے جواب نہیں دے سکتی ان میں سے چند یہ ہیں۔
کائنات عدم سے خود بخود کیسے ظاہر ہوئی؟ کائنات کیوں بنی؟
بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟ کائنات میں ہر جگہ ایک نظم کیسے ہے؟ اور کیوں ہے؟
زمین کے ہر گوشے میں پیدا ہونے والی زندگی اپنے گروپ میں یکساں اور آفاقی جبلّت کیوں رکھتی ہے؟
بےپایاں علوم بھی کیا بگ بینگ سے قبل موجود تھے؟ ان کا منبع کیا ہے؟
زندگی کیا ہے اور کیوں ہے؟ شعور کیا ہے اور کیوں ہے؟
اچھے برے خیالات کا اجراء کہاں سے اور کیوں ہوتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ
جدید علوم خدا کا متبادل پیش کرنے میں کھلے ناکام ہیں اسی لیے ہراسکالر، فلاسفر اور ہر دہریہ کسی بھی مباحثے میں مذکورہ بالا سوالات کے جوابات سے اپنی لاعلمی کا اعتراف کرتا ملے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ سائنس اپنی محدودیت کی وجہ سے انسان کی صرف خادم بن سکتی ہے رہنمانہیں۔
ان گزارشات سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ خدا کے ناقد عقلی، منطقی اور سائنسی طور پر کسی حد تک یہ جان چکے ہوں گے کہ موجودہ فزیکل پیرایوں میں یہ سوال کہ خدا کو کس نے بنایا، غیر متعلّق Irrelevant ہو جاتا ہے۔ اس کے بجائے جو سوالات ابھرتے ہیں وہ یہ ہیں کہ:
انسان کیوں ہے؟ کیسے بنا ؟ کس نے بنایا؟
ذرا سوچئے!
(خدائی سرگوشیاں سے ماخوذ)

اتوار، 30 اکتوبر، 2016

ناول کے مطالعے سے ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے



ﻧﺎﻭﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﻟﻌﮯ ﺳﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻧﻘﻄﮧ ﻧﻈﺮ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺪﺩ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ : ﺗﺤﻘﯿﻖ
ﺟﺪﯾﺪ ﺑﺮﻗﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﻭﻝ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎﻧﯿﺎﮞ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﻭﻗﺖ ﮐﺎﭨﻨﮯ ﮐﺎ ﭘﺮﺍﻧﺎ ﻓﯿﺸﻦ ﺑﻦ ﭼﮑﺎ ، ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﻧﻔﺴﯿﺎﺕ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺩﻋﻮﯼٰ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍٓﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﮩﺎﻧﯿﺎﮞ ﺳﻨﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻤﺪﺭﺩﯼ ﺑﮍﮬﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﮐﺌﯽ ﻣﻄﺎﻟﻌﺎﺗﯽ ﺟﺎﺋﺰﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﺎﻭﻝ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﺩﻣﺎﻍ ﻭﺳﯿﻊ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﮐﯿﻨﯿﮉﯾﻦ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﻧﻔﺴﯿﺎﺕ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﺌﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﺑﺘﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻧﺎﻭﻝ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻧﻘﻄﮧ ﻧﻈﺮ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺪﺩ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻤﺪﺭﺩﯼ ﮐﺎ ﺭﺷﺘﮧ ﮔﮩﺮﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ﭨﻮﺭﻧﭩﻮ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻃﻼﻗﯽ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺗﺮﻗﯽ ﮐﮯ ﺷﻌﺒﮯ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻠﮏ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﮐﯿﺘﮫ ﺍﻭﭨﻠﮯ ﻧﮯ ﻧﺎﻭﻝ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﮯ ﺍﺛﺮﺍﺕ ﭘﺮ ﺗﺠﺮﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﻧﻌﻘﺎﺩ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﮐﮯ ﺧﺎﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﮑﺸﻦ ﮐﮯ ﺍﺛﺮﺍﺕ ﭘﺮ ﺩﯾﮕﺮ ﻣﻄﺎﻟﻌﻮﮞ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﺟﺎﺋﺰﮦ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺟﺮﯾﺪﮦ ﮐﻮﮔﻨﯿﭩﯿﻮ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺋﻊ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﭘﺘﮧ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﺗﺠﺮﺑﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻏﯿﺮ ﺍﻓﺴﺎﻧﻮﯼ ﺍﺩﺏ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺎﻧﯿﮧ ﺍﻓﺴﺎﻧﮯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺷﺮﮐﺎﺀ ﮐﮯ ﭨﯿﺴﭧ ﮐﮯ ﺳﮑﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ۔ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﺍﻭﭨﻠﮯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﻤﺎﺟﯽ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﺑﮍﮬﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻓﻄﺮﯼ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﭘﺮﻭﮔﺮﺍﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺒﮑﮧ ﻧﺎﻭﻝ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺳﻤﺎﺟﯽ ﺗﺠﺮﺑﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺪﺩ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ ۔
ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﺍﻭﭨﻠﮯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﺰﯾﺪ ﺗﺠﺮﺑﺎﺕ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﯿﺎﻧﯿﮧ ﺍﻓﺴﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﺴﻞ ﯾﺎ ﺛﻘﺎﻓﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﺪﺭﺩﯾﺎﮞ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯽ ﺗﮭﯿﮟ ، ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﻮ ﻗﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﭘﺲ ﻣﻨﻈﺮ ﮐﮯ ﺣﺎﻣﻞ ﺗﮭﮯ ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﺎﺋﺰﮮ ﺳﮯ ﭘﺘﮧ ﭼﻼ ﮐﮧ ﻣﺼﻨﻔﮧ ﺷﮩﻼ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺗﺼﻨﯿﻒ ﺯﻋﻔﺮﺍﻥ ﮈﺭﯾﻤﺰ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻧﯿﻮﯾﺎﺭﮎ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﯾﮏ ﻋﺮﺏ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﻓﺮﺿﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﺎﻭﻝ ﮐﮯ ﻗﺎﺭﺋﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﻋﺮﺏ ﭼﮩﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺗﻌﺼﺐ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﭘﺎﺋﯽ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﮈ ﺍﮐﭩﺮ ﺍﻭﭨﻠﮯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻗﺮﯾﺒﺎً ﺗﻤﺎﻡ ﮨﯽ ﺛﻘﺎﻓﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﻧﯿﺎﮞ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺏ ﺍﻥ ﮐﮩﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎﮨﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﺎﻭﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﺍﮨﻢ ﮨﮯ۔
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﻓﺴﺎﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﻧﺎﻭﻝ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﺍﻓﺴﺎﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﭨﯽ ﻭﯼ ﮈﺭﺍﻣﮧ، ﻓﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﭨﯽ ﻭﯼ ﺳﯿﺮﯾﺰ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﺟﻮﺍﺏ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺷﻌﻮﺭ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺣﺼﮧ ﮨﮯ، ﺟﻮ ﺩﻣﺎﻍ ﺳﮯ ﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﺘﻘﻞ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺟﺐ ﺍٓﭖ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﮈﺭﺍﻣﮧ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﺍﺱ ﺷﻌﻮﺭ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺩﻟﭽﺴﭗ ﺧﯿﺎﻝ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﻧﺎﻭﻝ ﮐﮯ ﮐﺮﺩﺍﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺍﻧﺪﺭﻭﻧﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﻗﺎﺭﺋﯿﻦ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﻣﺤﺮﮐﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﺧﯿﺎﻻﺕ ﮐﯽ ﺗﺸﮑﯿﻞ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﺍﻭﭨﻠﮯ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﺩﺏ ﺍﻭﺭ ﻧﻔﺴﯿﺎﺕ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﭘﺮ ﮔﺬﺷﺘﮧ ﭼﻨﺪ ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﺎﻥ ﺑﯿﻦ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻘﻘﯿﻦ ﯾﮧ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺗﺨﯿﻞ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﺍﮨﻢ ﮨﮯ ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺑﺮﯾﻦ ﺍﻣﯿﺠﻨﮓ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﻟﻌﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﺧﯿﺎﻻﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﮯ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﮐﻮ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ، ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺟﺎﺋﺰﮮ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﺍﯾﮏ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻣﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﻢ ﺍٓﺭ ﺍٓﺋﯽ ﺳﮑﯿﻦ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺷﺮﮐﺎﺀ ﺳﮯ ﺟﺐ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮔﮩﺮﮮ ﻧﯿﻠﮯ ﺭﻧﮓ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﭘﭧ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﺭﻧﺠﯽ ﺩﮬﺎﺭﯼ ﺩﺍﺭ ﭘﻨﺴﻞ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﺗﯿﻦ ﺟﻤﻠﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﮨﯽ ﭘﻮ ﺭﮮ ﮐﯿﻤﭙﺲ ﮐﻮ ﻣﺘﺤﺮﮎ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﺗﮭﮯ۔ ﺩﻣﺎﻍ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﺟﻮ ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﺎﺩﺩﺍﺷﺖ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻠﮏ ﮨﮯ۔ﺍﻥ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻣﺎﻍ ﮐﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﯾﮏ ﺍﺩﯾﺐ ﮐﻮ ﻗﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﺗﺨﯿﻞ ﮐﻮ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﺳﯿﻊ ﻣﻨﻈﺮ ﻧﺎﻣﮧ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﻈﺮ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔

تباہ کن رویے



ہر ایک زندگی میں کامیابی چاہتا ہے مگر چند افرد ہی اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں۔
اکثر اوقات انسان کو بدقسمت حالات کا سامنا ہوتا ہے مگر ایسے واقعات بھی کم نہیں جن میں ہم خود اپنے بدترین دشمن ثابت ہوتے ہیں۔درحقیقت چند رویے ایسے ہوتے ہیں جو انسان کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔یہاں ناکام افراد کی ایسی ہی چند بری عادتوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے ہوتے ہوئے کامیابی کا حصول بہت مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔
ہمیشہ جواز تلاش کرنا
اگر تو آپ سے غلطی ہوئی ہے تو اس کی وضاحت اور وجہ کو جاننا چاہئے، تاہم اگر آپ نے اپنی ناکامی کے جواز ے پیش کرنا شروع کردیئے تو یہ عادت آگے بڑھ کر مسلسل ناکامیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اپنی غلطیوں کو جواز میں چھپانا دیگر افراد کی نظر میں آپ کی دیانتداری کو مشکوک بناتی ہے، ذاتی مقاصد تباہ ہونے لگتے ہیں اور آپ خود پسند ہوجاتے ہیں۔
اپنی صحت کو نظر انداز کرنا
اگر آپ کی کامیابی کی قیمت آپ کی صحت ثابت ہو تو وہ کسی اہمیت کی حامل نہیں، کامیاب افراد اپنی شخصیت کا خیال رکھنا نہیں بھولتے، ناکام افراد محنت تو بہت زیادہ کرتے ہیں مگر صحت پر توجہ نہ دینے پر بھاری قیمت بھی چکاتے ہیں۔
وہ کوئی کام مکمل نہیں کرتے
کامیابی عزم اور تسلسل کا مرکب ہے، اگر آپ ہمیشہ اپنے منصوبوں کو کسی دوسری بہترین چیز کے لیے چھوڑ دیتے ہیں تو آخر میں آپ کے ہاتھ میں مایوسی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔
تنقید برداشت نہ کرنا
کوئی بھی شخص تنقید پسند نہیں کرتا، تاہم اس کو تعمیراتی انداز میں لینا سیکھنے کے مواقع پیدا کرتا ہے، اس طرح زندگی میں کامیابی کا دروازہ کھل سکتا ہے۔
اپنی انفرادیت کھودینا
ناکام افراد ہجوم کا حصہ بن جاتے ہیں جبکہ کامیاب افراد ہزاروں افراد میں بھی نمایاں ہوتے ہیں۔
منفی چیزوں کو ارگرد رکھنا
منفی خیال چھوت طرح پھیلتا ہے، ایک تحقیق کے مطابق اگر آپ کے ارگرد منفی سوچ رکھنے والے افراد ہو تو آپ کا اپنا رویہ بھی اس کی عکاسی کرنے لگتا ہے۔
دوسروں کے سہارے پر اکتفا
یہ جاننا اہمیت رکھتا ہے کہ کوئی بھی آپ کو ہاتھ سے پکڑ کر زندگی کی مشکلات سے نہیں گزارے گا، اگر آپ اپنے مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو زیادہ باہمت ہوکر کام کرنا ہوگا۔
دیگر افراد کو نیچے گرانا
مسابقت میں کوئی برائی نہیں، بیشتر افراد ہجوم سے ابھر کر سامنا آنا چاہتے ہیں، تاہم اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہئے کہ آپ کی توجہ اپنی ذاتی کی بہتری پر مرکوز ہو اور دیگر افراد کو نیچے گرانے میں نہ لگے رہیں۔
بات چیت میں ناکام
لوگوں میں گھل مل جانا اور اچھی طرح بات چیت مشق سے ہی ممکن ہے اور یہ کامیابی کے لیے ضروری ہے۔
ٹال مٹول اور وقت ضائع کرنا
ٹال مٹول کی عادت وقت کی دشمن ہوتی ہے، اگر تو آپ خیالی پلاﺅ پکانے کے عادی ہیں تو آپ کو اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
اعتماد کی کمی
آنکھوں میں آنکھیں نہ ڈالنا، نروس جسمانی حرکات اور مضطرب ہاتھ پیر چلانا خراب باڈی لینگویج کی چند علامات ہیں جو اعتماد کی کمی کو ظاہر کرتی ہیں اور ناکام افراد میں یہ عام نظر آتی ہیں۔
خود کو الگ تھلگ کرلینا
خود کو الگ تھلگ کرلینا اپنی شخصیت کو تباہی کے راستے پر ڈالنے کی علامت ہوتی ہے، یہ کسی بھی طرح صحت مند رویہ نہیں۔
اپنے آپ کو کمتر سمجھنا
اگر تو آپ سمجھتے ہیں کہ کسی کام کو کرنا آپ کے لیے ممکن نہیں تو درحقیقت آپ خود کو کمتر سمجھ رہ ہوتے ہیں جس کے باعث آپ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال نہیں کرپاتے۔

جمعہ، 28 اکتوبر، 2016

نکرومہ کی جدوجہد


اس دنیا میں 7ارب سے زائد انسان بستے ہیں۔لیکن ان میں سے بہت کم ایسے انسانوں نے جنم لیا کہ جنہوں نے اپنی زندگی انسانوں کی خوشحالی اور انسانیت کی دفاع کیلئے قربان کردی ہیں۔ تاریخ ہمیشہ اُن انسانوں کو سنہرے الفاظ میں یاد کرتی ہیں جنہوں نے اپنے کردار سے پوری انسانیت کو روشناس کیا ہو ایک انسان دوسرے انسان کو اندھروں سے نکال کر روشنی دھکائے وہ انسان کبھی مرتا نہیں۔ روشنی پھیلانے والے انسان جسمانی طور پر جدا ضرور ہوتے ہیں لیکن ان کے کردار ان کی سوچ ،فکرو فلسفہ ہمیشہ زندہ رہتی ہیں،جن میں سے ایک مغربی افریقہ کا ملک گھانا (گولڈ کوسٹ ) کے قومی ہیرو کوامے نکرومہ ہیں۔ 

‎جنہوں نے سفید سرمایہ دار سمیت سامراجی ‎طاقتوں کے سامنے کبھی سر جھکانا نہیں سیکھا بلکہ ہمیشہ سینہ تان کر ڈٹے رہے۔ نکرومہ کی جدوجہد صرف گھانا کے عوام کیلئے نہیں تھی بلکہ نکرومہ کی جدوجہد آل افریقن سمیت پوری دنیا کے مظلوم انسانوں کیلئے تھی۔ اپنی تمام زندگی میں سامراجی طاقتوں سے غلامی کے خلاف جدوجہد کرتے رہے اور تاریخ کے سرخ پنوں میں ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے دنیا میں جہاں بھی مظلوم ا قوم سامراجی طاقتوں کے خلاف جدوجہد کرتی ہیں یا کررہی ہیں اُن مظلوم قوموں کیلئے کوامے نکرومہ کی فکر و فلسفے پر عمل کرناہی نجاتِ راہ ثابت ہوسکتی ہیں ۔ 

‎افریقی سرزمین پوری دنیا میں معدنیات کی دولت سے مالا مال خطہ ہیں۔ پندرویں صدی میں پرتگیزی سامراج نے مغربی افریقہ کی سرزمین پر اپنے قدم جمانا شروع کردی اور 1471 ء میں (گولڈ کوسٹ ) گھانا پر قابض ہوگیا ۔ گھانا جو زری اجناس ، کوکو ، ناریل ، کافی ،ربر ، سونے ، ہیرے ، باکسائٹ ، نکل ، لوہے اور کئی معدنیات سے مالامال سرزمین ہے۔ پرتگیزی سامراجوں کی گھانا میں معدنیات کی لوٹ کھسوٹ سمیت انسانوں کی غلامی کا کاروبار بھی برابر چلتا رہا۔ کئی صدی تک گھانا کے باسی پرتگیزی سامراجوں کے ہاتھوں پستے گئے اور 1874 ء میں برطانوی سامراج نے گھانا پر قبضہ کرلیا۔ جس طرح پرتگیزی سامراج افریقہ کی سرزمین کو لوٹتے رہے اسی طرح برطانوی سامراج نے بھی افریقہ کی سرزمین کے معدنیات کو لوٹ کر اپنے ملک کے معاشیات کو مضبوط کرلیا ۔ 

‎کوامے نکرومہ 1909 ء میں پیدا ہوئے اس وقت گھانا سامراجی طاقتوں کے بوجھ تلے غلامی کی چکی میں پس چھکا تھا ۔ نکرومہ نے ابتدائی تعلیم عکرہ کے ایک مشن اسکول میں حاصل کی 1931 ء میں Achimota کالج سے گریجویشن کیا اور ایک اسکول ٹیچر کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔ 1935 ء میں نکرومہ مزید تعلیم کیلئے امریکہ چلے گئے لنکن اور پنسلوینیا یونیورسٹی میں دس سال تک تعلیم حاصل کی۔ نکرومہ نے طلبہ سیاست اور امریکہ کے سیاہ فام باشندوں کی تحریک میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ 

‎نکرومہ افریقی طلباء یونین کے نائب صدرطور پر سرگرم رہے اس دوران وہ ڈی سرکل کے نام سے ایک ایسے گروپ کی قیادت بھی کرتے رہے جس نے گھانا کی آزادی کے حصول کیلئے خود کو ایک سیاسی جماعت میں ڈھالنا تھا۔ اسی زمانے میں نکرومہ کی پہلی کتاب نوآبادیات آزادی کی جانب  شائع ہوئی ، کچھ عرصے تک لنکن یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے لیکچرار کے طور پر پڑھاتے رہے اور بعدازاں لندن چلے گئے جہاں اکنامکس یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کیا ، 1947ء میں نکرومہ اپنے وطن لوٹ آئے اور سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا اسی سال گھانا کے قوم پرستوں کی سیاسی جماعت یونائٹیڈ گولڈ کوسٹ کنونشن  کے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے ۔

‎کوامے نکرومہ کی قیادت میں تحریک آزادی کی جدوجہد میں عوام کی مقبولیت میں تیزی آتی گئی ۔ نکرومہ کے ساتھ پارٹی کے ایک اہم رہنما جوزف ڈانکوش کو سیاسی سرگرمیوں کی پاداش میں 1948 ء میں گرفتار کرلیاگیا ۔ عوام کی بھرپور احتجاج سے ایک سال بعد جب رہا ہوئے تو دونوں کی سیاسی راہیں جدا تھیں جس کی بنیادی وجہ  یوئیٹڈ گولڈ کوسٹ کنونشن  ناکام پالیسیاں تھی، نسل پرستانہ رجحانات بڑھنے لگے ،طبقاتی جدوجہد کے حوالے سے پارٹی خاموش تھی، جب کہ کوامے نکرومہ مارکس ازم ، لینن ازم کی تعلیمات سے ہی قومی اور طبقاتی جدوجہد کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے ، یہی وجہ نکرومہ کی پارٹی سے اختلافات کے تھے ۔ 

‎اسی تناظر سے 1949 ء میں نکرومہ نے ایک انقلابی جماعت  کنونشن پیپلز پارٹی  کی بنیاد رکھی ، 
‎نکرومہ کی انقلابی جماعت میں تمام طبقے کے لوگ شامل ہوگئے ۔ گھانا کے مزدور ، کسان ، دیقان سب نکرومہ کی قیادت پر فخر کرنے لگے ، 1950 ء میں نکرومہ کی اپیل پر گھانا کے عوام نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی جس سے برطانوی سامراج کی نیندیں حرام ہوگئی اور نکرومہ کو بغاوت کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا لیکن نکرومہ کو جلد ہی عوام کے بے پناہ دباؤ اور احتجاج کے بعد رہا کر دیا گیا ۔ 

‎1951 ء میں انگریزوں نے گھانا میں نیا آئین منظور کیا جس کے تحت عام انتخابات کا اعلان ہوا ، نکرومہ کی کنونشن پیپلز پارٹی  ان انتخابات میں ایک بڑی قوت کے ساتھ آئی اور مرکزیت میں وزارت بنائی ۔ 

‎کوامہ نکرومہ پوری دنیا میں سیاست کے حوالے سے محارت رکھتے تھے، اتنا ہی جنگی محاذ پر قابلیت رکھتے تھے۔ گھانا میں مسلح محاذ پر گوریلوں کی تنظیم کاری، انھیں تنظیمی نظم و ضبط کا پابندی، دیہی و شہری علاقوں میں گوریلوں کی تربیت کرنے طریقے سب نکرومہ نے انجام دیئے ہیں ۔

‎6 مارچ 1957 ء کو گولڈ کوسٹ اور برٹش ٹو گولینڈ پر مشتمل گھانا کی آزاد ریاست وجود میں آئی اور کوامے نکرومہ آزاد گھانا کے پہلے صدر منتخب ہوئے ۔ 

‎نکرومہ ہمیشہ سے سامراج کے خلاف بغاوت کیلئے ہر وقت سرگرم رہا ہے۔ نکرومہ کی صدارت میں گھانا کی تعمیر نو اور ترقی کی رائیں پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ عام عوام کی زندگی میں تبدیلیاں آئی ، نکرومہ کی کوششوں کی نتیجے میں دسمبر 1958 ء میں گھانا کے شہر عکرہ میں  آل افریقن پیپلز کانفرنس  منعقد کی گئی۔ جس میں افریقہ بھر سے انقلابی قائدین نے اپنے وفود کے ساتھ شرکت کی ۔ یہ تمام قائدین جو سامراج دشمن اور اپنے ملک میں سوشل ازم کے پیروکار تھے نکرومہ خود بھی ایک سچا سوشلسٹ تھا اور 1960 ء میں نکرومہ نے گھانا کو عوامی جمہوریہ قرار دیا ۔ 

‎(1961 ء میں کوامے نکرومہ نے افریقی اتحاد کے موضوع پر ایک مشہور تقرر بھی کی تھی ) 
‎نکرومہ افریقہ کو ایک وطن سمجھتے تھے اور اس کی یونین کے حامی بھی تھے ۔ نکرومہ کی کوششوں سے جمہوریہ گنی کے صدر احمد سیکوطورے اور مالی کے صدر موویبوکیتا کے ساتھ ملکر تینوں ممالک پر مشتمل افریقی یونین تشکیل دی۔ لیکن کچھ عرصے بعد پیچیدگیوں کی وجہ سے ختم کردیاگیا ۔ 1962 ء میں گھانا کی قومی اسمبلی نے نکرومہ کو ملک کا تاحیات صدر منتخب کیا ۔ سامراج نے اپنے گماشتہ کے ذریعے اسی سال نکرومہ پر دو قاتلانہ حملے بھی کروایئے لیکن ناکام ہوگئے۔ نکرومہ کی شہرت گھانا سمیت افریقہ اور دنیا بھر پھیل چکی تھی گھانا ترقی کی راہ پر گامزن تھا ۔ 

‎اشتراکی نظریات اور سوشلزم میں سامراج کواپنے مفادات کبھی حاصل نہیں ہوتے نکرومہ کے افریقہ سمیت پوری دنیا میں سوشلسٹ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے اور سامراجی قوتیں کبھی بھی نہیں چاہتے کہ گھانا سمیت افریقہ میں اقتدارکے مالک اشتراکی نظریات اور سوشلزم کے حامی ہو ۔ لیکن کوامہ نکرومہ اچھی طرح یہ جانتا تھا کہ سامراج اتنی آسانی سے افریقہ کی سرزمین چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ 

‎نکرومہ نے افریقہ میں جتنے بھی تحریکیں سامراجی قوتوں کے خلاف اٹھی ان میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ۔ کوامے نکرومہ نے سوویت یونین ، چین ، مصر سمیت متعدد افریقی ممالک کے دورے بھی کیے ۔ 1964 ء میں جب نکرومہ نے گھانا کو سرکاری طور پر یک جماعتی ریاست قرار دیا تو سامراجی طاقتوں کی ایماء پر مقامی گماشتوں نے نکرومہ کے خلاف ایک پروپیگنڈا مہم شروع کی لیکن اس پروپیگنڈا مہم کو عوامی حمایت حاصل نہ ہوسکی۔ کیونکہ عوامی قوت تو نکرومہ کے ساتھ تھی جو عوام صدیوں سے سامراجی طاقتوں کی چکی میں پس رہی تھی وہ عوام کیسے اپنے قومی ہیرو کے خلاف سامراج کے پروپیگنڈا کا حصہ بنتے جس نے گھانا کے عوام کی 
‎غلامی کی زندگی کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا تھا ۔

‎فروری 1966 ء میں نکرومہ شمالی ویت نام کے‎ دورے پر تھے  ویتنامی امن منصوبے  پر کامریڈ ہوچی منھ سے تبادلہ خیال کی ، اس موقع پر سامراجی گماشتہ غدار فوجی دھڑا جس کی قیادت لیفٹیننٹ جنرل جوزف انکرہ تھے نکرومہ کی حکومت کا خاتمہ کردیا اور گھانا میں پہلی فوجی آمریت قائم ہوئی ، فوجی آمریت نے سب سے پہلے نکرومہ کی پارٹی  کنونشن پیپلز پارٹی  پر فوری پابندی عائد کردیا اور اس کے رہنماوں اور کارکنوں کے خلاف ریاستی ظلم و جبر کا آغاز کردیا گیا ۔ 

‎فوجی بغاوت کے بعد نکرومہ کچھ وقت چین میں رہے اور پھر جمہوریہ گنی چلے گئے جہاں ان کا بھرپور استقبال انقلابی صدر احمد سیکو طورے نے کیا  احمد سیکوطورے نے کوامے نکرومہ کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرکے نکرومہ کو جمہوریہ گنی کا اعزازی مشترکہ صدر بنانے کا بھی اعلان کردیا۔جمہوریہ گنی کے عوام نے اس اقدام پر مثالی جشن منایا کیونکہ جمہوریہ گنی کے عوام کیلئے بھی نکرومہ قومی ہیرو تھے۔ 

‎63 سال کی عمر میں کوامے نکرومہ 1972 ء میں رومانیہ کے شہر بخارسٹ میں وفات پائی جہاں وہ کینسر کے علاج کی غرض سے مقم تھے۔ سامراجی طاقتوں کیلئے بڑی خوشی کا دن تھاکیونکہ اُن کی استحصالی عزائم کی راہ کا سب سے بڑا رکاوٹ ہمیشہ کیلئے اس دنیا سے فنا ہو گیا اور جوتمام مظلوم انسان امن کے داہی تھے آزادی چاہتے تھے انسان دوست تھے نکرومہ کو اپنا ہیرو مانتے تھے اشکبار ہوئے اور اپنے ہیرو کی جدوجہد کو سرخ سلام پیش کیا  

‎ہماری فتح نہ صرف ہماری بلکہ سارے انقلابیوں ، کچلے ہوئے لوگوں اور استحصال کے شکار عوام ، جنھوں نے سرمایہ داری ، سامراجیت ، جدید نوآبادیاتی نظام کو للکارا ہے ان کی فتح ثابت ہوگی ۔ کوامے نکرومہ ۔

بلوچی زبان و ادب کا ارتقاء کا پہلا پارہ


بلوچی زبان و ادب کا ارتقاء کا پہلا پارہ 
ڈاکٹر شاہ محمد مری
انسانی زبانیں عرش پر نہیں ، فرش پر بولی جاتی ہیں اور زمین پر ہر زبان کی تخلیق و ارتقاء اس کے اپنے مخصوص علاقے میں ہوتا ہے وہ علاقے جہاں محنت کرنے والے لوگ اور عوام الناس رہتے ہیں ہوں ، یہ بات اب واضح ہونی چاہیے کہ محلات و درباروں میں صرف سازشیں پھل پھول سکتی ہیں، مندر میں زبان گناہ و ثواب ناپنے کا ترازو بن کے رہ جاتی ہے، کانفرنسوں، سیمیناروں، اسمبلیوں ،قراردادوں سے زبانیں گنجلک اور مشکل ہوجاتی ہے اور مارشل لائیں زبان تو کیا عقل سیلم کو ہر فیکلٹی کا انکار ہیں ، لہذا ان ساری جگہوں پر زبان کی ترویج نہیں ہوسکتی ، زبان صرف اور صرف پیداروری عمل کے دوران پیدا ہوتی اور ارتقاء کرتی ، زبانیں تو چودھودیں کے چاند تلے چولستان میں اپنی ڈاچی پہ جھولتا ساربان بناتا ہے، زبان کو جلتی گرما میں کپاس چنتی سندھیانڑیں کے گاونڑ سنوارتے ہیں اور پسنی پار ساگر کی وسعتوں میں مچھلی کو نمک لگاتے ماہی گیر ہی حسین اور سہیل بناتے ہیں 

ہفتہ، 22 اکتوبر، 2016

بلوچ اشتراک عمل کے تناظر میں



جہاں تک میرے حواس کا تعلق ہے اس تمام عرصے میں ہمارے قومی جدوجہد سے جڑے جنگی حالات نے جو درس مجھے دیا ہے اسکے مطابق اپنے ہی بازو اوراپنی طاقت کو کاٹنا آسان عمل نہیں ہوتا اور ایک دہائی سے زائد کا عرصہ ایک جنگ سے جڑے رہنے والے شخصیات و گروپ یا تنظیم کہے اتنے احمق ہوسکتے ہیں جو اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی ماریں۔ 
میں اپنے باتوں کیلئے ہرگز مکمل سچ ہونے کا دعوی نہیں کروں گا لیکن ایک گذارش ضرور کروں گا کہ خدارا متعصبانہ ذہنی کیفیت سے آزاد ہو کر ان پر غور ضرور کریں اس وقت تک مجموعی حوالے سے جو رویہ مجھے دیکھنے کو ملا ہے اس میں تمام خدشات خواہشات نیک تمنائیں سب کے سب کا تعلق مسائل پر غور کرنے سے زیادہ انکے حل کرنے پر مرکوز رہے ہیں بدقسمتی سے اکثر اوقات مسائل اپنے ابتدائی مراحل میں ہوتے ہیں اپنے حقیقت کو لیکر ظاہر بھی نہیں ہوتے انکو سمجھے بغیر ہمارے تمام کا تمام زور انکے جلدحل کرنے پرمرکوز ہوتا ہے مسائل کی مناسبت سے انکا حل تلاش نہیں کیا جاتا بلکہ درپیش حالات کے تحت اپنے تیار کردہ حل کو مسائل پر مسلط کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور اس سے بڑی بدقسمتی یہ سامنے آچکا ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ ان مسائل کے بل بوتے پر کسی کی قدر گٹھانے اور کسی کی قدر بڑھانے جیسے متعصبانہ عمل سے جڑے نظر آتے ہیں انکو مسائل سے ،مسائل کے بنیادی وجوہات و اسباب سے اور انکے حل سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا وہ صرف موقع غنیمت جان کر کسی کیلئے جگہ بنانے اور کسی دوسرے کیلئے جگہ گٹھانے کی عمل سے جوڑ جاتے ہیں،جسکا تعلق لازماََ کردار کشی کو لیکر حربوں کیلئے الزام بہتان ،جھوٹ اور بے بنیاد باتوں پہ آکر رُک جاتا ہے اور ایسے عمل سے جو ماحول جنم لیتا ہے وہ صرف اور صرف محدود ایجنڈے اور محدود مفادات کے حامل افراد کو ہی فائدہ دے سکتا ہے ناکہ اجتماعی مفادات کے لئے جدوجہد کرنے والوں کو،اجتماعی مفادات کیلئے جدوجہد کرنے والے تمام حقیقی قوتوں کیلئے تو یہ بالکل ہی متضاد ماحول ہوتا ہے جو انکے مشکلات میں اضافے کا سبب ہی بنتا ہے ۔
غلطی انسانی فطرت سے جڑا ہوا عمل ہے جس سے انکار ممکن نہیں مسائل و پیچیدگیاں جدوجہد کا لازمی جزو ہیں اور ان سب کا حل ذہانت میں ہے ناکہ خواہشات و توقعات میں کہ کئی آپسی رشتوں کو لیکر خواہشات و توقعات کے پورا نہ ہونے پر معصومانہ ناراضگی کے اظہار سے یا کئی حسد و نفرت کی بنیاد پرخودساختہ اصولوں یا حربوں کی مار سے کوئی بھی مطلوبہ وقتی حل ان پر مسلط کیا جائے۔
قومی تحریک میں واضح مقصد و فکر اور ہدف کے باوجود مجموعی افعال صاف طور پرقدرے مختلف اورمتضادکیوں نظر آرہے ہیں؟؟؟
اگر کوئی شخص میٹھے پھل دار درخت کی نشوونمایہ سوچ کر کرتا ہے کہ درخت کے سایے میں اسکے آنے والی نسلیں بیٹھ کر اسکے پھل سے استفادہ کر سکیں لیکن اسکے سوچ اور محنت کے برخلاف درخت کڑوے یا زہریلا پھل دیناشروع کرتا ہے تو غور کی ضرورت کہاں ہوگی ۔
میٹھے پھلدار درخت کا ہونا مستقبل میں اس سے فائدہ اٹھانایہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں 
زمین پانی بیج اگانا کئی سالوں تک بغیر پھل درخت کی دیکھ بھال محنت و قربانی سے تعلق رکھتے ہیں 
فکر واضح مقصد محنت و قربانی کے باوجود بھی درخت اکثریتی حوالے سے کڑوے پھل دے تو پھر لازماََ بیج اور نشوونما کے طریقہ کار پر غور کرنا ہوگا، کیونکہ ایسا ہو نہیں سکتا کہ میٹھا پھلدار درخت کڑوے یا زہریلا پھل دے تو عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے تمام مسائل کے پیچھے ٹھوس وجوہات و اسباب ہیں انکو جانے بغیر انکا سدباب کئے بغیر اگرہم ان پر وقتی اور خودساختہ مطلوبہ حل ٹھونسنے کی کوشش کریں گے تو اس سے مسائل مزید بڑھیں گے حل نہیں ہونگے۔
تمام مسائل کو انکے سیاق و سباق کے ساتھ سمجھ کر انکے مناسب سے حل ہی بہتر ہوگا ناکہ اپنے مرضی اور منشاء کے حل ٹھونسنے سے۔
قومی آزادی کی فکرکو لیکر قابض سے نجات کیلئے ایک مضبوط منظم و موثر اور متاثرکن طاقت کا حصول اولین شرط ہے پچھلے تمام عرصے میں جس کے حاصل کرنے میں ہم مکمل ناکام رہے ہیں تحریک کے ابتدائی مراحل میں جدوجہد کا ظہور و ا س میں شراکت و شمولیت کا معیار مکمل ہمارے ارتقاء کو لیکر ہمارے نیم قبائلی ڈھانچے ونیم سیاسی روایتی (پاکستانی طرز سیاست) نظام سے جوڑا رہا جو لازمی و فطری تھا مگر بدقسمتی کہ پچھلے تمام عرصے میں جدوجہد کے دوران ان میں بدلاؤ کے تمام مواقع میسر آنے کے باوجود ان میں بدلاؤ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر نہیں لایا گیا انقلابی اقدامات کے تحت علمی و شعوری حوالے سے جو تقاضے پورے کرنے تھے مواقع ہونے کے باوجود پورے نہیں کئے گئے اور جو تمام کوششوں کے باوجود بن چکے تھے وہ بھی تقسیم و محدود ہوتے گئے بلوچستان نیشنل فرنٹ ،بی این ایم (شہید غلام محمد) پی آر پی کا محدود ہونا بی ایل اے کا تقسیم ہونا بی ایس او آزاد بی ایل ایف وغیرہ وغیرہ یہ سب مسائل پیدا ہوئے یا کئے گئے انکے وجوہات و اسباب پر غور کرکے انکے سدباب کرنے کی کوششیں کون کرتا ہم نے ارتقاء اور روایتی طرز سیاست کو حاوی ہونے دیا ایک خطرناک فوجی جارحیت کا سامنا کرنے کے باوجود ،
توجب فکر و مقصد اور مجموعی افعال میں صاف طور پر تضاد نظر آئے تو اعتماد اور بد اعتمادی کے بیچ شک کا خلیج وسیع ہونا لازمی ہوتا ہے جو ہوتا گیا آج بد اعتمادی کی فضاء گروہی حدود سے پھیل کر عوامی سطح تک اور گروہ کے اندر فردی و شخصی حد تک ہمیں اپنے لپیٹ میں لے چکا ہے۔
تحفظات و شک تخلیق و حقائق سچ تک رسائی کا ذریعہ بنتے ہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہوتا کہ تحفظات و شک کی بنیاد پر اپنے مفاد و ضد کیلئے راہ ہموار کی جائے. 
ہمارے ہاں ہو کیا رہا ہے وہ بہت ہی باریک بینی سے غیر جانبدارانہ غور کا متقاضی ہے
بالکل اسی تناظر میں ذرا سا ماضی میں جانکنے کی کوشش کریں تو تقریبا کوئی دس ماہ قبل سنگت حیربیارمری کا اتحاد کے حوالے سے کوشش دیکھنے کو ملے گے اتحاد کے حوالے سے یہاں انکے اخباری بیان کا کچھ حصہ پیش کررہا ہوں بقول سنگت حیربیارمری... میں اصولی اشتراک عمل کیلئے ہمہ وقت تیار ہو ں تاکہ ہماری قومی آزادی کی منزل قریب تر ہو۔لیکن کسی بھی قسم کی موثر اشتراک عمل کے لیے ضروری ہے کہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ کیونکر آج ہم اس بحرانی کیفیت میں مبتلا ہیں اسکے بنیادی ذمہ دار کون تھے اور اسکی شروعات کہاں سے ہوئی، اور اس کے وجوہات کیا تھے۔ اگر ان کی وجوہات تلاش نہیں کی گئیں تو یہ تمام وجوہات مستقبل کے اشتراک عمل کے لیے دوبارہ مشکلات جنم دے سکتی ہیں۔ ہم نے بلوچستان کی آزادی کے لیے ہمیشہ اصولی اشتراک عمل کیلئے کوشش کی اور اب بھی اصولی اشترا ک عمل کے لیے تیار ہیں۔ موجودہ حالات اور ماضی کی تجربات کو مدنظر رکھتے ہو ئے کسی بھی اشتراک عمل کے آغاز کے لیے ہمارے دو شرائط ہیں۔ اول یہ کہ بلوچ قوم کی طرف سے عطا کردہ طاقت کو بلوچ کے خلاف استعمال کرنا، سماجی مسائل میں دخل اندازی کرکے رسم رواج کو پامال کرنا یا کسی بھی قوت کی پراکسی بن کر بلوچوں کے خلاف دشمن کی مدد کرنا جیسے پالیسیوں کو مکمل ترک کیا جائے۔دوئم یہ کہ جو بھی اشتراک عمل ہو اس میں تنظیمی پلاننگ سے ہٹ کر کہ جس سے دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے باقی قوم کے حوالے سے تمام پالیسیوں میں قوم کو نیک نیتی سے اعتماد میں لیا جائے،اسکے بنیادی نکات و اصولوں سے قوم کو مکمل آگاہی دی جائے تاکہ سابقہ تجربات کی روشنی میں ناکامی کی صورت میں ذمہ داروں اور اسباب کے تعین میں قوم کو کوئی ابہام نہ ہو، اس کے علاوہ اس سے ذاتی و گروہی مفاد پرستی کی حوصلہ شکنی اور مجموعی قومی مفاد کی حوصلہ افزائی ہو سکے گی۔ میرے نزدیک ان دونوں شرائط پر عمل کرنے سے ہی یہ ممکن ہے کہ قومی تحریک میں ہم آہنگی اور ایک مشترکہ ڈسپلن کی تشکیل ہوسکے۔ 
دیگرآزادی پسندوں کی طرف سے خیرمقدمی اخباری بیانات کے علاوہ پیش رفت کے حوالے سے قوم کو کون جوابدہ ہے کہ کیا ہوا یا کیا ہونے جارہا ہے؟؟؟؟؟
تازہ ترین بی این ایم کے سربراہ خلیل بلوچ کے طرف سے اتحاد کے حوالے سے بی آر پی کے سربراہ براہمداغ بگٹی سے رابطوں کا عندیہ اور اتحاد کے حوالے سے اپنے فارمولے کا بیانیہ سامنے آیا میرے ناقص رائے کے مطابق یہ دونوں بیانات اتحاد کے حوالے سے ہونے کے باوجود بھی ایک دوسرے کیلئے متضاد ہیں.
تو یہاں بھی ماضی کے تسلسل کو لیکر اتحاد کے حوالے سے بھی درپیش مسائل کی اصل نوعیت و انکے حقیقی وجوہات کو جانے بغیران پر اپنے مرضی کا حل مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے باوجود اس کے کہ خلیل بلوچ خود ہی باہمی احترام کے فقدان اور بدگمانیاں غالب آنے کا اقرار کررہے ہیں۔
ویسے تو اخباری بیانات میں لفاظی کوئی نئی بات نہیں لیکن یہاں کون پوچھے کہ انقلابی معیار اور برابری کے بنیاد پر اتحاد کی وضاحت و تشریح خلیل بلوچ کیسے کریں گے کس مقام و کیسے حالات میں کرینگے اور دوئم فرد کے کردار کو لیکر تحریک میں اسکی اہمیت اورافادیت و مضمرات کی منصفا نہ نشاندہی کیسے کریں گے
سب سے قابل غور بات یہاں مسئلہ یہ نہیں کہ اتحاد و اتفاق کو لیکر باہمی احترام اور مضبوط تعلقات کے لئے بدگمانیاں پیدا کرنے والے عوامل کے سدباب کے لئے بالکل ابتدائی کوشش کی جارہی ہیں بلکہ یہاں تو بہت سے نقصانات کی وجہ بننے والے وجوہات کو ختم کرکے بہتری کی کوشش کرنی چاہئے
میرے ناقص رائے کے مطابق جب تک چھوٹے بڑے تمام مسائل کو ان سیاق و سباق کے ساتھ سمجھ کر انکے مناسب سے ان حل نہیں ڈھونڈا جائے گا اس وقت تک بہتری و کامیابی ایک خواب ہی رہے گا۔۔۔ !!!

بدھ، 19 اکتوبر، 2016

روس اور مغرب کے تعلقات میں خرابی کہاں سےشروع ہوئی؟

جوناتھن مارکس ___  تـجزیہ نگار، دفاعی و سفارتی امور
روس اور امریکہ کے باہمی تعلقات جس قدر خراب آج کل ہیں، سرد جنگ کے خاتمے کے بعد شاید ہی کبھی ہوئے ہوں۔حالت یہ ہو چکی ہے کہ امریکی افسران حلب پر روس اور شامی فوجوں کے حملوں کو 'بربریت' کہہ رہے ہیں اور روس کو خبردار کر چکے ہیں شام میں جنگی جرائم کا ارتکاب ہو رہا ہے۔دوسری جانب روسی صدر بھی واشنگٹن اور ماسکو کے تعلقات کی خرابی کا اظہار واضح الفاظ میں کر چکے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ اوباما انتظامیہ روس سے برابری کی سطح پر بات کرنے کی بجائے اس پر 'حکم' چلانا چاہتی ہے۔اس کے باوجود شام کے معاملے میں روس اور امریکہ ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔ تند و تیز جملوں کے تبادلے اور الزامات کے باوجود، دونوں یہ جانتے ہیں کہ شام میں جاری ڈرامے کا جو بھی اختتام ہو گا، اس میں دونوں ممالک کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ماسکو جانتا ہے کہ شام کی مستقل جنگ نہ امریکہ کے مفاد میں اور نہ ہی خود روس کے مفاد میں ہے۔لیکن جب تک دونوں ممالک کے درمیان اعتماد پیدا نہیں ہوتا اور دونوں ایک دوسرے کی بات نہیں سمجھتے، اس وقت تک شام کے معاملے میں دونوں کے درمیان مذاکرات کی بنیادیں مضبوط نہیں ہو سکتیں۔کسی کو یہ توقع نہ تھی کہ روس اور امریکہ کے تعلقات اتنے بگڑ جائیں گے، بلکہ اکثر لوگ یہ سمجھتے تھے کہ سرد جنگ کے خاتمے سے دونوں کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو جائیں گے۔کچھ عرصے کے لیے روس نے خود کو عالمی معاملات سے پیچھے کر لیا تھا، لیکن اب وہ پورے زور و شور سے عالمی سٹیج پر واپس آ چکا ہے۔ اس کی شدید خواہش ہے کہ وہ ارد گرد کے ممالک میں اپنے کردار کو متسحکم کر لے اور اس تاثر کو غلط ثابت کرے کہ مغرب کے ہاتھوں اس کی سبکی ہوتی رہے گی۔تو سوال پیدا ہوتا ہے حالات اس نہج تک پہنچے کیسے؟ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد روس اور مغرب ایک نئی قسم کے تعلقات قائم کرنے میں کیوں ناکام ہوئے؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا امریکہ نے اپنی حدود سے تجاوز کیا اور روس کے جذبات کی پرواہ نہیں کی، یا روس ابھی تک سوویت دور کی عظمت کو سینے سے لگائے بیٹھا ہے؟ روس اور امریکہ کے معاملات اتنے خراب کیوں ہو گئے ہیں، اور کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ دونوں میں ایک نئی سرد جنگ شروع ہو چکی ہے؟میں یہاں ان سوالوں کے کوئی مفصل جواب نہیں دوں گا کیونکہ امریکہ اور روس کے تعلقات کی کہانی اتنی پُر پیچ ہے کہ اس موضوع سے انصاف کرنے کے لیے مجھے ٹالسٹائی کے ناول 'وار اینڈ پِیس' جتنی ضخیم کتاب لکھنا پڑے گی۔ بہرحال میری کوشش ہو گی کہ کچھ چیزیں آپ کے سامنے رکھوں۔امریکہ کی جورج ٹاؤن یونیورسٹی سے منسلک تجزیہ کار پال آر پِلر کہتے ہیں کہ اس معاملے میں بنیادی غلطی خود مغرب کی ہے۔پال آر پِلر کے خیال میں روس اور مغرب کے تعلقات خراب ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغرب نے روس کو ایک ایسے ملک کی حیثیت سے قبول ہی نہیں جو اپنے کاندھے سے اشتراکیت کا طوق اتار چکا تھا۔ ان کے بقول 'ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کمیونزم کے خاتمے کے بعد روس کو اقوام کی برادری میں خوش آمدید کہا جاتا، لیکن روس کے اس اقدام کو سراہنے کی بجائے مغرب نے روس کو سوویت یونین کا جانشین سمجھا۔ ایک ایسا ملک جس پر مغرب کبھی بھی اعتماد نہیں کر سکتا۔'آپ چاہیں تو اسے مغرب کا پہلا گناہ کہہ سکتے ہیں۔ اور پھر اس کے بعد نیٹو کا دائرہ اثر بڑھانے کے جوش میں مغرب نے پولینڈ، چیک ریپبلک اور ہنگری جیسے ان ممالک کو اس اتحاد میں شامل کر لیا جہاں قوم پرستی کی روایت بہت قدیم تھی اور یہ ممالک ماسکو کے تسلط کے خلاف ایک عرصے سے جد وجہد کر رہے تھے۔لیکن نیٹو کا پھیلاؤ ان ممالک تک محدود نہ رہا بلکہ اس میں بلقان کی ان ریاستوں کو بھی شامل کر لیا گیا جن کے بیشتر علاقے سوویت یونین کا حصہ تھے۔ اسی لیے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جب جارجیا اور یوکرین کی مغربی مدار میں شمولیت کی بات ہوتی ہے، اور روس ان ممالک کے راستے میں روڑے اٹکاتا ہے تو ہمیں حیرت نہیں ہونی چاہیے۔قصہ مختصر یہ کہ روس کو یقین ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بھی مغرب نے اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔صاف ظاہر ہے مغرب اس کو اپنی نگاہ سے دیکھتا ہے اور مغرب سمجھتا ہے کہ روس 'بزور بازو' اپنے علاقے واپس لینا چاہتا ہے۔ مغرب کا خیال ہے کہ روسی سوچ کے اصل ترجمان صدر ولادی میر پوتن ہیں جن کا کہنا تھا کہ سوویت یونین کا ٹوٹنا 20ویں صدی کا 'سب سے بڑا سیاسی حادثہ' تھا۔اس حوالے سے امریکی ماہرین اور تجزیہ کاروں کے حلقوں میں بحث جاری ہے کہ روس کا مؤقف درست ہے یا مغرب کا۔ کیا مغرب اور روس کے تعلقات میں سرد مہری کی ذمہ داری مغرب کی اس غلطی کو سمجھنا چاہیے کہ اس نے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد روس کو قبول نہیں کیا یا ہمیں اس کی ذمہ داری روس کی حالیہ جارحانہ کارروائیوں پر ڈالنی چاہیے جس میں وہ جارجیا، شام اور یوکرین پر چڑھائی کر چکا ہے۔برطانوی خفیہ ادارے (ایم آئی 6) کے سابق سربراہ اور اقوام متحدہ میں برطانیہ کے سابق سفیر، سر جون سیورز کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں حالیہ برسوں میں روسی سفارتکاری کا بغور جائزہ لیا ہے۔ وہ سرد جنگ کے خاتمے کے دنوں کی بات نہیں کرتے، بلکہ ان کے خیال میں روس اور مغرب کے تعلقات کو ہمیں حالیہ برسوں کے واقعات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔گذشتہ دنوں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سر جون سیورز کا کہنا تھا کہ مغرب نے پچھلے آٹھ سالوں میں روس کے ساتھ سٹریٹیجک تعلقات بنانے پر خاص توجہ نہیں دی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 'اگر واشنگٹن اور ماسکو یہ اصول طے کر لیتے کہ انھیں تعلقات کی اس راہ پر کیسے آگے بڑھنا ہے تو شام اور یوکرین جیسے علاقائی مسائل حل کرنا آسان ہو جاتا۔ اگر دونوں یہ تسلیم کر لیتے کہ وہ ایک دوسرے کے قائم کردہ نظاموں کو گرانا نہیں چاہتے، تو آج حالات بہتر ہوتے۔'میں نے اس سلسلے میں کئی ماہرین سے بات کی اور انھوں نے بھی اوباما انتظامیہ کی سفارتکاری کی اس خرابی کے بارے میں اشارہ کیا کہ اس میں کوئی تنوع نہیں اور اکثر اوقات آپ کو سمجھ نہیں آتی کی امریکہ اصل میں کیا چاہتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ بطور واحد عالمی طاقت، امریکہ کے اثر ورسوخ میں کمی آ رہی ہوں، لیکن کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کے پاس جو طاقت بچی ہے وہ اسے کیسے استعمال کرے۔ کیا واقعی امریکہ کا جھکاؤ ایشیا کی جانب ہو رہا ہے اور کیا واقعی یورپ اور مشرق وسطیٰ پر اس کی توجہ کم ہوتی جا رہی ہے یا یہ محض دکھاوا ہے؟کیا امریکہ محض نعرے ہی لگاتا رہے گا یا ان پر عمل کرنے کے لیے اپنی طاقت بھی استعمال کرے گا؟ ہم جانتے ہیں کہ شام کی حد تک تو امریکہ صرف نعرے بازی ہی کرتا رہا ہے۔اور کیا امریکہ کو واقعی معلوم ہے کہ اس نے ماسکو کے حوالے سے جو پالیسی اپنا رکھی ہے اس کے مضمرات کیا ہوں گے۔سنہ 2014 میں جب روس نے کرائیمیا کو اپنے علاقے میں شامل کیا تھا تو مسٹر پوتن نے روسی پارلیمان میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'اگر آپ کسی سپرنگ کو اس کی حد سے زیادہ دبائیں گے تو جب یہ واپس پلٹے گا تو آپ کو زخمی کر دے گا۔ یہ بات آپ کو یاد رکھنی چاہیے۔'مسٹر پوتن کے اس بیان کے جواب میں قومی پالیسی کے موضوعات پر لکھنے والے امریکی جریدے 'نیشنل انٹرسٹ' نے اپنے ایک حالیہ شمارے میں لکھا کہ 'سمجھداری کی بات یہ ہو گی کہ آپ سپرنگ پر دباؤ کو کم دیں اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اپنے بچاؤ کا بندوبست ضرور کر لیں۔'ماضی میں جو بھی غلطیاں ہوئیں اور جو بھی ان غلطیوں کا ذمہ دار تھا، حقیقت یہ ہے کہ روس اور مغرب کے تعلقات خراب ہو چکے ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی شام کے مسئلے پر امریکہ اور روس ایک دوسرے سے لڑنے جا رہے ہیں؟میرا خیال ہے ایسا نہیں ہوگا۔لیکن کیا ہم ایک نئی سرد جنگ کے دھانے پر کھڑے ہیں؟پال پِلر کہتے ہیں کہ روس اور امریکہ کے حالیہ خراب تعلقات کے حوالے سے 'سرد جنگ' کے الفاظ استعمال کرنا درست نہیں ہوگا۔ ان کے بقول ' آج عالمی سطح پر نظریات کی کوئی ایسی جنگ نہیں ہو رہی جو سرد جنگ کے دور میں تھی اور نہ ہی روس اور مغرب کے درمیان جوہری ہتھیاروں کی دوڑ ہو رہی ہے۔''جو چیز باقی ہے وہ اثر ورسوخ اور عالمی غلبے کی لڑائی ہے اور اس حوالے سے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد روس کمزور ہوا ہے جبکہ امریکہ کی طاقت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے اور وہ آج بھی ایک سپر پاور ہے۔'تو آئندہ ہو گا کیا؟امریکہ میں صدارتی انتخابات کی مہم زوروں پر ہے اور ہو سکتا ہے کہ روس اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔ اور اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ وہ دنیا کے ان علاقوں میں جہاں تنازعات جاری ہیں، کچھ ایسا کرنے کو کوشش کر رہا ہے جو وائٹ ہاؤس کے نئے مکین کی مشکلات میں اضافہ کر دے۔