جمعہ، 28 اکتوبر، 2016

بلوچی زبان و ادب کا ارتقاء کا پہلا پارہ


بلوچی زبان و ادب کا ارتقاء کا پہلا پارہ 
ڈاکٹر شاہ محمد مری
انسانی زبانیں عرش پر نہیں ، فرش پر بولی جاتی ہیں اور زمین پر ہر زبان کی تخلیق و ارتقاء اس کے اپنے مخصوص علاقے میں ہوتا ہے وہ علاقے جہاں محنت کرنے والے لوگ اور عوام الناس رہتے ہیں ہوں ، یہ بات اب واضح ہونی چاہیے کہ محلات و درباروں میں صرف سازشیں پھل پھول سکتی ہیں، مندر میں زبان گناہ و ثواب ناپنے کا ترازو بن کے رہ جاتی ہے، کانفرنسوں، سیمیناروں، اسمبلیوں ،قراردادوں سے زبانیں گنجلک اور مشکل ہوجاتی ہے اور مارشل لائیں زبان تو کیا عقل سیلم کو ہر فیکلٹی کا انکار ہیں ، لہذا ان ساری جگہوں پر زبان کی ترویج نہیں ہوسکتی ، زبان صرف اور صرف پیداروری عمل کے دوران پیدا ہوتی اور ارتقاء کرتی ، زبانیں تو چودھودیں کے چاند تلے چولستان میں اپنی ڈاچی پہ جھولتا ساربان بناتا ہے، زبان کو جلتی گرما میں کپاس چنتی سندھیانڑیں کے گاونڑ سنوارتے ہیں اور پسنی پار ساگر کی وسعتوں میں مچھلی کو نمک لگاتے ماہی گیر ہی حسین اور سہیل بناتے ہیں 

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں