ہفتہ، 30 دسمبر، 2017

لہو ٹپکاتے حروف/بادوک بچ گئی؟



ایران میں 25-اکتوبر 2014 کو پھانسی چڑھنے والی چھبیس سالہ خاتون، ریحانے جباری، کی ڈائری سے ایک اقتباس-

پولیس ہیڈ کوارٹر میں تین جسیم مرد ایک چھوٹے سے کمرے میں میرے منتظر تھے۔ اندر داخل ہوتے ہی انہوں نے مجھے فرش پر بیٹھنے کو کہا اور مجھے ایک کرسی کے ساتھ ہتھکڑیوں سے باندھ دیا۔ باری باری وہ مجھ پہ چلاتے رے۔

تم سمجھتی ہو کہ تم بہت چالاک ہو؟ یہاں تو تم سے بڑوں بڑوں کی چیں بول گئی۔ تم کیڑی مکوڑی کیا چیز ہو؟ سارے سوالوں کا اونچی آواز میں جواب دو۔
مجھے اپنی پشت پر جلد سوجتی اور پھٹتی محسوس ہو رہی تھی۔ مجھے شدید جلن محسوس ہو رہی تھی اور میری چیخوں سے میرے اپنے کان دکھنے لگے۔ مجھے چابک کی لش سنائی ہی نہیں دے رہی تھی۔ میں نہیں جانتی کہ وہ مجھے کس چیز سے زدوکوب کر رہے تھے، چابک سے یاکسی رسی سے یا لکڑی کے ایک ٹکڑے کے ساتھ ۔ ۔ مجھے کبھی پتہ نہیں چلا کہ وہ تینوں راکشس مجھے کس شے سے جلا رہے تھے۔ مجھے صرف اپنی چیخیں سنائی دے رہی تھیں اور کچھ نہیں۔ اونچی کرسی سے بندھی میری کلائیاں درد اور جلن سے سُن ہو چکی تھیں۔
اس سال موسم سرما سرد تھا ۔ جیل میں ہیٹنگ کے نطام کے خراب ہونے کی وجہ سے ہمارے وارڈ میں ہر طرف دانت بجنے اور کھانسی چھینکوں کی آوازیں آتی تھیں۔ مجھے ۲۰۰۷ کی قیدِ تنہائی یاد آتی ہے کہ جب قیدِ تنہائی کے دوران میری تفتیش ہو رہی تھی۔ زخموں سے چور اور بے چینی اور خوف سے کانپتے بدن کے ساتھ۔ میری عمر تب انیس برس کی تھی۔
پوچھ گچھ کرنے والے اکثر دو آدمی ہوتے تھے جن کا نام مجھے کبھی پتہ نہیں چلا۔
وہ مجھے [میرا اقرارنامہ] بول کر لکھاتے تھے اور میں لکھتی تھی۔ ایک بار وہ مجھے کہیں تفتیش کے لئے لے گئے جہاں میں نےاپنی کلائیوں سے بندھی چھت سے لٹکی ہوئی ایک 14 یا 15 سال کی عمر کی لڑکی کو دیکھا۔ لڑکی کا رنگ پیلا تھا، بری طرح سبکیاں لیتے ہوئےاس کے ہونٹ پھٹے ہوئے تھے۔
[ایک اور کمرے میں،] پرسندہ مرے سامنے بیٹھ کر بولا کہ آج یا کل وہ میری چھوٹی بہن کو بھی لے آئیں گے۔ انہیں اسکا نام بھی معلوم تھا: بادوک۔ اس نے کہا کہ "اب اس کی باری ہے۔ وہ تو دبلی پتلی دھان پان سی ہے۔ کیا خیال ہے وہ اس لڑکی کی طرح لٹکی ہوئی کتنی دیر کاٹے گی؟
وہ تفصیل سے مجھے بتانے لگا کہ وہ میری بہن سے کیا سلوک، کیسے کرے گا۔ میں نے رونا شروع کر دیا اور منتیں کرنے لگی کہ وہ میری بہن کو معاف کر دے۔ اس نے کہا کہ وہ مجبور ہے یہ اس کے بس میں نہیں ہے۔ میں نے اسے پوچھا کہ میں اپنی بہن کو تکلیف سے بچانے کے لئے کیا کر سکتی تھی ۔ اس نے کہا کہ:
"یہ بہت آسان ہے ۔ بس اعتراف لکھ کر دے دو کہ تم نے چھری دو دن پہلے خاص طور پر اس قتل کیلئے خریدی تھی۔"۔ ...
تو میں نے بالآخر لکھ کر دے دیا کہ میں نے چھری خود پہلے سے خریدی تھی، کاغذ پر دستخط کئے اور ایک اطمینان کی سانس لی 
''کہ ''بادوک بچ گئی تھی

دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی کوششوں کے باوجود قتل کے الزام میں تقریباً 7 سال سے قید ریحانہ جباری کو 25 اکتوبر کو پھانسی دے دی گئی۔
ریحانہ نے پھانسی سے پہلے اپنی ماں کو ایک خط لکھ کر اپنی موت کے بعد اپنے اعضاء کو عطیہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والا یہ خط اپریل میں ہی موصول ہوگیا تھا، لیکن ایران میں امن کے حامی کارکنوں نے اس کو ریحانہ کو پھانسی دیے جانے کے ایک دن بعد عام کیا۔
ریحانی کی والدہ نے جج کے سامنے اپنی بیٹی ریحانہ کی جگہ خود کو پھانسی دیے جانے کی التجاء کی تھی۔
واضح رہے کہ 2007ء میں ریحانہ نے سابق اینٹیلی جنس اہلکار مرتضیٰ عبدل علی سربندی کو چھری کے وار سے قتل کر دیا تھا۔ 
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ایک مبصر کا کہنا تھا کہ ریحانہ نے مرتضٰی کا قتل اپنے دفاع میں کیا تھا کیونکہ سربندی نے ریحانہ کا ریپ کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ پندرہ دسمبر 2008ء کو ریحانہ جباری اپنے خلاف مقدمے کی پہلی سماعت کے دوران اپنا دفاع کیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا تھا کہ ریحانہ پر اس قتل کا مقدمہ 2009ء میں نہایت ناقص طریقے سے چلایا گیا تھا۔ ایرانی اداکاروں اور دیگر نامور شخصیات نے ریحانہ کو سنائی جانے والی پھانسی کی سزا پر سخت احتجاج کرتے ہوئے اس سزا کو روکنے کی اپیل کی تھی اور اُن کی اپیل کی باز گشت مغربی دنیا میں بھی سنائی دے رہی تھی۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی رپورٹ کے مطابق ریحانہ کی والدہ کو جمعہ کو ایک گھنٹے کے لیے اپنی بیٹی سے ملنے کی اجازت دی گئی تھی۔ 
ایرانی قانون کے مطابق کسی بھی شخص کو سزائے موت دینے سے پہلے اُس کے کسی قریبی رشتہ دار سے ملنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ایران میں امن کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا تھا کہ ریحانہ کی والدہ کو بتایا گیا تھا کہ ریحانہ کو پھانسی دیے جانے کے کچھ گھنٹوں پہلے انہیں اس بارے میں بتا دیا جائے گا۔ عدالت کے حکم کے مطابق، 2007 ءمیں ریحانہ نے مرتضیٰ پر جس چاقو سے وار کیا تھا، وہ دو دن پہلے ہی خریدا گیا تھا۔ ایرانی وزیر انصاف مصطفٰی محمدی نے بتایا تھا کہ اس معاملے کا خوشگوار اختتام ہو سکتا تھا لیکن مرتضٰی کے اہلخانہ نے ریحانہ کی جان بچانے کے لیے قصاص کی رقم لینے کی تجویز کو مسترد کردیا تھا۔ برطانوی وزارت خارجہ نے بھی ریحانہ جباری کی پھانسی کو ناپسندیدہ فعل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح دنیا کے ساتھ ایران کے تعلقات کو بحال کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اگرچہ ایرانی حکام یہ وضاحت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ چونکہ مقتول کے ورثاء اسلامی قوانین کے تحت قاتل لڑکی کو معاف کرنے یا قصاص لینے پر راضی نہیں ہوئے تھے، چنانچہ حکومت اور عدالتیں مجبور تھیں۔ لیکن وہ اس سوال کا جواب دینے میں ناکام رہے کہ ریحانہ پر جنسی حملہ کرنے کے الزام کی تحقیقات کیوں نہیں کی گئیں۔ اس حقیقت کی چھان بین کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی کہ ریحانہ کن حالات میں مرتضیٰ عبدالعلی کے فلیٹ تک لائی گئی اور وہاں تیسرا شخص کون تھا۔ مقدمے کے دوران استغاثہ سارا زور اس بات پر دیتا رہا کہ ریحانہ نے دو روز قبل چاقو خریدا تھا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ قتل کا ارادہ رکھتی تھیں۔

ریحانہ کی والدہ صالحہ۔

ریحانہ نے اپنی والدہ کے نام اپنے آخری خط میں لکھا تھا:
میری عزیز ماں،
مجھے آج پتہ چلا کہ مجھے قصاص (ایرانی نظام میں سزا کا قانون) کا سامنا کرنا پڑے گا، مجھے یہ جان کر بہت دکھ ہو رہا ہے کہ آخر آپ اپنے دل کو یہ یقین کیوں نہیں دلا رہی ہیں کہ میں اب اپنی زندگی کے آخری مقام تک پہنچ چکی ہوں۔
آپ کو پتہ ہے کہ آپ کی اداسی مجھے کس قدر پریشان کرتی ہے؟ آپ مجھے اپنے اور پاپا کے ہاتھوں کو چومنے کا موقع کیوں نہیں دیتی ہیں۔
ماں، اس دنیا نے مجھے 19 سال جینے کا موقع دیا تھا۔ اس منحوس رات کو میرا قتل ہو جانا چاہیے تھا۔ میری لاش کو شہر کے کسی کونے میں پھینک دیا گیا ہوتا اور پھر پولیس آپ کو میری لاش کو پہچاننے کے لیے بلواتی اور آپ کو پتہ چلتا کہ قتل سے پہلے میرا ریپ بھی ہوا تھا۔
میرا قاتل کبھی بھی گرفت میں نہیں آتا، کیونکہ آپ پاس اس کی طرح نہ ہی دولت ہے، نہ ہی طاقت۔
اس کے بعد آپ کچھ سال اسی عذاب اور پریشانی میں گزار تیں اور پھر اسی عذاب میں آپ بھی انتقال کرجاتیں۔
لیکن، کسی لعنت کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔ میری لاش تب پھینکی نہیں گئی۔ لیکن، یہاں جیل کی قبر میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔
اسے ہی میری قسمت سمجھیے اور اس کا الزام کسی کے سر نہ ڈالیے۔ آپ بہت اچھی طرح جانتی ہیں کہ موت زندگی کا خاتمہ نہیں ہوتی۔
آپ نے ہی تو کہا تھا کہ انسان کو مرتے دم تک اپنے اقدار کی حفاظت کرنی چاہیے۔
ماں، جب مجھے ایک قاتل کے طور پر عدالت میں پیش کیا گیا، تب بھی میں نے ایک آنسو نہیں بہایا۔ میں نے اپنی زندگی کی بھیک نہیں مانگی۔ میں چلّانا چاہتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا کیونکہ مجھے قانون پر پورا بھروسہ تھا۔
ماں، آپ جانتی ہیں کہ میں نے کبھی ایک مچھر بھی نہیں مارا۔ میں كاكروچ کو مارنے کی بجائے اس کو مونچھ سے پکڑ کر اسے گھر سے باہر پھینک آیا کرتی تھی، لیکن اب مجھے ایک ارادے کے تحت قتل کرنے کا مجرم بتایا جا رہا ہے۔
وہ لوگ کتنے پُر امید ہیں جنہوں نے ججوں سے انصاف کی امید کی تھی۔ 
آپ جو سن رہی ہیں، مہربانی کرکے اس پر مت روئیے۔
میں اپنی موت سے پہلے آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ ماں، میں مٹی کے اندر سڑنا نہیں چاہتی۔ میں اپنی آنکھوں اور جوان دل کو مٹی میں بدلنا نہیں چاہتی، اس لیے استدعا کرتی ہوں کہ پھانسی کے بعد جلد سے جلد میرا دل، میرے گردے، میری آنکھیں، ہڈیاں اور وہ سب کچھ جس کا ٹرانسپلاٹ ہو سکتا ہے، اسے میرے جسم سے نکال لیا جائے اور انہیں ضرورت مند شخص کو عطیے کے طور پر دے دیا جائے۔ میں نہیں چاہتی کہ جسے میرے اعضاء دیے جائیں اسے میرا نام بتایا جائے۔

بدھ، 20 دسمبر، 2017

اگر سعودی عرب و ایران میں جنگ ہوئی تو کیا ہوگا ؟



منگل کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پر ایک میزائل داغا گیا۔ اس میزائل کے نشانے پر سعودی عرب کا وہ شاہی محل تھا جہاں بجٹ پیش کرنے والے تھے۔ میزائل اپنے نشانے تک پہنچتا اس سے پہلے ہی اسے فضا میں نشانہ بنا کر تباہ کر دیا ہے۔
یہ میزائل ہمسایہ ملک یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے داغا گیا تھا لیکن سعودی عرب کو یقین ہے کہ اس کا ریموٹ کنٹرول یمن سے دور ایران کے دارالحکومت تہران میں تھا۔ ایران متعدد دہائیوں سے سعودی عرب کا سب سے بڑا دشمن ہے۔
سعودی عرب سمیت دنیا کے کئی ممالک کا خیال ہے کہ یمن کے شیعہ حوثی باغیوں کی پشت پر ایران کا ہاتھ ہے۔ ریاض پر داغا گیا یہ میزائل سعودی عرب اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی کی سب سے تازہ مثال ہے۔ اس سال یہ تیسرا موقع تھا جب حوثی باغیوں نے سعودی عرب پر میزائل داغا ہو۔
سیاسی اور علاقائی طاقتیں
ان دنوں حالات کچھ یوں ہیں کہ جیسے سعودی عرب اور ایران کے درمیان جنگ ہونے والی ہو۔ لیکن اگر سعودی عرب اور ایران کے درمیان جنگ ہوئی تو کیا ہوگا؟ بی بی سی کی ریڈیو سیریز دا انکوائری میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے۔
سعودی عرب اور ایران خطے کی دو بڑی سیاسی طاقتیں ہیں۔ دونوں تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک ہیں۔ اگر دونوں کے درمیان جنگ ہوئی تو اس کا اثر پوری دنیا پر پڑے گا۔ برطانیہ کے مائیکل نائٹ عرب معاملوں کے ماہر اور مشیر ہیں۔
نائٹ بتاتے ہیں کہ ایران تاریخی طور پر کافی اثر و رسوخ والا ملک رہا ہے۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے پچھلی ایک صدی میں تیل کی وجہ سے کافی ترقی کی ہے۔ اس وجہ سے ایران کا اثر ان علاقوں پر کم ہوتا گیا ہے۔
مخالفین پر اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش
مائیکل نائٹ کہتے ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کی ایک بڑی وجہ مذہب بھی ہے۔ سعودی عرب ایک سنی ملک ہے اور ایران شیعہ۔ دونوں ہی ممالک اپنے مذہبی ساتھیوں کی دوسرے ممالک میں بھی حمایت کرتے رہے ہیں۔ یہ بھی سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ ہے۔
گذشتہ چند برسوں سے ایران، سعودی عرب پر بھاری پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ کئی عرب ممالک پر اس کا اثر و رسوخ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایران نے عراق میں اپنا اثر بڑھا لیا ہے۔ شام اور لبنان میں بھی اس کے پیادے طاقتور ہیں۔ یمن میں وہ حوثی باغیوں کو ہتھیار اور تربیت فراہم کر کے سعودی عرب کی ناک میں دم کیے ہوئے ہے۔
مائیکل نائٹ کا کہنا ہے کہ اس میں ایرانی فوج کا انقلابی دستہ یعنی ریوولیوشنری گارڈز کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ نائٹ کے مطابق ریوولیوشنری گارڈز ایران کے پاس سب سے طاقتور ہتھیار کی طرح ہیں۔ ان کا خوف عرب ممالک پر طاری ہے۔ یہ بے حد پیشہ آور دستہ ہے جس نے کئی محاذوں پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔
شیعہ، سنی اور ریوولیوشنری گارڈز
عرب ممالک میں شیعہ افراد ریوولیوشنری گارڈز کو اپنی فوج مانتے ہیں۔
مائیکل نائٹ کے مطابق بھلے سعودی عرب اور ایران کے درمیان باضابطہ جنگ نا چھڑی ہو لیکن دونوں ہی ممالک کئی محاذوں پر لڑ رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہے یمن، جہاں سعودی عرب کی رہنمائی میں کئی ممالک کی فوجیں حوثی باغیوں سے جنگ لڑ رہی ہیں۔ دوسری جانب حوثیوں کو ایران کی سرپرستی حاصل ہے۔ سعودی عرب یمن پر لگاتار فضائی حملے کر رہا ہے حالانکہ وہ فیصلہ کن جیت حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سعودی عرب کی نظر میں اس کی جیت کی راہ میں ایران سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
یمن کے علاوہ شام میں بھی سعودی عرب اور ایران مختلف گروہوں کے ساتھ ہیں۔ ایران صدر بشار الاسد کے ساتھ ہے جبکہ سعودی عرب اسد کے خلاف لڑ رہے باغیوں کا ساتھ دے رہا ہے۔
سرد جنگ کے حالات
لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ ایک طاقتور گروہ ہے۔ سعودی عرب بھی وہاں کے سنیوں کا ساتھ دیتا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیاں عراق میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا مقابلہ بھی جاری ہے۔ عراق کی حکومت کی دولت اسلامیہ پر فتح میں ریوولیوشنری گارڈز کا بڑا ہاتھ سمجھا جاتا ہے۔
اسی طرح ایک چھوٹے سے ملک بحرین میں بھی سعودی عرب اور ایران آمنے سامنے ہیں۔ بحرین میں شیعہ آبادی زیادہ ہے۔ مگر یہاں کا حکمراں خاندان سنی ہے جس کو سعودی عرب کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ وہیں ایران بحرین میں حکومت مخالف شیعہ گوریلہ تنظیموں کے ساتھ ہے۔
مائیکل نائٹ کہتے ہیں کہ ابھی سعودی عرب اور ایران کے درمیان کئی ممالک میں سرد جنگ جیسے حالات ہیں۔ لیکن یہ حالات کبھی بھی اصل جنگ کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔
اینتھونی کوڈسمن امریکہ اور نیٹو کے عرب معاملوں کے مشیر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنگ ایک چھوٹی سی چنگاری کے طور پر شروع ہو سکتی ہے اور جو آگے چل کر بڑی آگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ اینتھونی کا خیال ہے کہ وہ جنگ لمبے عرصے تک چل سکتی ہے۔
سعودی عرب کے پاس ایف 15،160ایف 16اور بلیک ٹورنیڈو ہیں
حالانکہ اینتھونی کو لگتا ہے کہ زمینی محاذ پر دونوں ملکوں کی فوجیں شاید ہی آمنے سامنے آئیں لیکن فضائی جنگ خوفناک ہو سکتی ہے۔ اینتھونی کے مطابق فضائی طاقت میں سعودی عرب فی الحال ایران پر بھاری دکھائی دے رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایران کے پاس ستر اور اسی کی دہائی کے جنگجو طیارے ہیں۔ ایران نے ان کو بڑی اچھی طرح رکھا ہے۔ ایران نے کچھ جنگجو طیارے اسی کی دہائی میں روس سے بھی خریدے تھے۔ یہی طیارے ایران کی فضائی طاقت کی بڑی وجہ ہیں۔
سعودی عرب کی فضائیہ کے پاس امریکی جنگجو طیارے ایف 15، ایف 16 اور بلیک ٹورنیڈو ہیں۔ یعنی فضائی محاذ پر سعودی عرب زیادہ طاقتور دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ ایران کے پاس سعودی عرب سے زیادہ بہتر میزائل اور ڈرون ہیں۔ یہ سعودی عرب کے اہم شہری ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
بڑی معاشی تباہی
اینتھونی کہتے ہیں کہ جنگ شروع ہوئی تو ایران، سعودی عرب کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دے گا۔ ایران کے میزائل سعودی عرب کے پانی صاف کرنے کے پلانٹ اور بجلی گھروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اس سے سعودی عرب بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب کے شہروں میں بجلی اور پانی کی سپلائی ٹھپ ہو جائے گی۔
اس کے بدلے میں سعودی عرب اپنے جنگجو طیاروں سے ایران میں بجلی سپلائی کرنے والے ٹھکانوں اور پانی صاف کرنے والے پلانٹوں پر حملہ کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب ایران کے تیل کے ٹھکانوں اور ریفائنریز پر حملے کر سکتا ہے۔
اینتھونی کا خیال ہے کہ ایران اور سعودی عرب کی جنگ بڑی معاشی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ وہ اس کا موازنہ شترنج کی بساط سے کرتے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ اقوام متحدہ، مصر، اومان، اردن، امریکہ، برطانیہ اور فرانس کھڑے ہیں۔ دوسری جانب ایران کے خیمے میں شام، روس اور عراق جیسے ممالک ہیں۔
جنگ ہوئی تو تیل کی سپلائی ٹھپ
اینتھونی کا خیال ہے کہ جنگ کی صورت میں اسرائیل بھی ایران کے خلاف اتحاد میں شامل ہو سکتا ہے۔ صاف ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنگ کی صورت میں امریکہ اور روس جیسے ممالک کا کردار زیادہ بڑا ہو گا۔ امریکہ اس وقت سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے۔
میری کولنز امریکہ کی جان ہوپکنز یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے کئی برس تک امریکی وزارت دفاع کے ساتھ کام کیا ہے۔
میری کا خیال ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنگ میں امریکہ یقینی طور پر دخل دے گا۔ دنیا کے تیل کے کاروبار کا ایک بڑا حصہ خلیج فارس میں آبنائے ہرمز سے ہوکر گزرتا ہے۔ اگر جنگ ہوئی تو تیل کی سپلائی رک جائے گی۔ اس کا اثر پوری دنیا پر پڑے گا۔
امریکہ کی شمولیت
امریکہ بالکل نہیں چاہے گا کہ دنیا کی تیل کی سپلائی پر اثر پڑے۔ اس لیے ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنگ کی صورت میں امریکہ کا شامل ہونا طے ہے۔
میری کولنز کا خیال ہے کہ ایران آبنائے ہرمز میں بارودی سرنگ بچھا سکتا ہے۔ اس سے اس علاقے سے گزرنے والے بحری طیاروں کے تباہ ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ ایسی تباہی کو روکنے کے لیے امریکہ جنگ چھڑنے کے ایک گھنٹے کے اندر جنگ میں شامل ہو جائے گا۔
کولنز کہتی ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں امریکہ کے 35 ہزار سے زیادہ فوجی تعینات ہیں۔ امریکی فضائی فوج کے ایف 22 جیسے جدید ترین جنگجو طیارے بھی یہاں تعینات ہیں۔ ایک بیڑا ہمیشہ خلیج فارس میں موجود رہتا ہے۔
ایک ہی دن میں تباہی
کولنز کے مطابق ایران اور سعودی عرب کی جنگ شروع ہونے کی صورت میں امریکی فوجیں فوراً متحرک ہو جائیں گی۔ اور یہ ایران کی بحری فوج کو برباد کر سکتی ہیں۔ وہ نوے کی دہائی کی ایک مثال دیتی ہیں۔ تب امریکہ کا ایک بحری جہاز بارودی سرنگ کی وجہ سے تباہ ہو گیا تھا۔
اس کے جواب میں امریکہ نے ایک ہی دن میں ایران کی بحری طاقت کو بڑا نقضان پہنچایا تھا۔ امریکی دخل کی وجہ سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنگ کچھ دنوں میں ہی ختم ہو جائے گی۔ لیکن کیا جنگ کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان جھگڑا ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکے گا؟ خطے میں امن بحال ہو سکے گا؟
ایرانی نژاد علی وائز امریکہ میں رہتے ہیں۔ وہ انٹرنیٹ کرائسس گروپ کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس تنظیم کا کام جنگ کو روکنا ہے۔ علی وائز کا بچپن اسی کی دہائی میں ہونے والی ایران - عراق جنگ کے دوران ایران میں گزرا تھا۔
زخم دہائیوں تک محسوس کیے جایئں گے
امریکہ کے حملے سے ایران کی فوجیں تو تباہ ہو جایئں گی مگر ایران سعودی عرب کے سنی ساتھی ممالک کی مخالفت کرنے والوں کا پہلے سے بھی زیادہ ساتھ دے گا۔ جیسے کہ عراق میں شیعہ اور سنی مسلح گروہوں کے درمیان جھگڑے بڑھ جائیں گے۔ لبنان میں حزب اللہ اور سعودی حمایت یافتہ گروہوں کے درمیان تصادم بڑھ جائے گا۔
یہ ہی حالات شام اور اردن میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ علی وائز بتاتے ہیں کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان نا تو تجارتی رشتہ ہے نا ہی سماجی اور تہذیبی تعلق۔ ایسے میں جنگ کے زخم آنے والی کئی دہائیوں تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ کل ملا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان جنگ ہوئی تو یہ فضائی جنگ ہوگی۔
دونوں ممالک کے درمیان بحری ٹکراؤ بھی ہوگا۔ امریکہ، سعودی عرب کی طرف سے دخل اندازی کر کے ایران کو کچھ ہی دنوں میں ہرا دے گا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایران سعودی عرب کے لیے چھوٹی چھوٹی جنگوں کے کئی محاذ کھول دے گا۔ جنگ کے زخم بھریں گے نہیں۔ بلکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا اثر دیگر ممالک برداشت کرتے رہیں گے۔ اس جنگ سے پوری دنیا متاثر ہوگی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اگر سعودی عرب و ایران میں جنگ ہوئی تو کیا ہوگا 
 رپورٹ و تجزیہ : روتھ ایلگزینڈر۔۔ بی بی سی

اتوار، 10 دسمبر، 2017

بلوچستان کا عظیم یادگار '' کولپور'' ـــ شعیب امان سمالانی



یوں تو بلوچستان پہاڑوں پر بسا ہے اور پہاڑوں کی سرزمین ہے لیکن کولپور بازار کا حسن کچھ الگ ہے جو پہاڑ پر بسا بازار ہے ۔کولپور ایک گزرگاہ
 بھی ہے لیکن غیروں کیلئے اپنے تو اس کی پہاڑی سے یوں منسلک ہیں جیسا کہ یہ بھی اس پہاڑ کا حصہ ہوں ۔ مختصر لیکن بل کھاتا راستہ اور پہاڑ ی پر قائم قدیم بازاراور اس کے قدیم مکین  قدیم مندر جو پہاڑی پر قائم ہے ۔کولپوردو انتہاءکے مذاہب کے پیروکاروں کا قدیم بسیرا ۔بالکل مذہبی ایلمی کی بہترین مثال۔ برف پڑتی ہے یہاں۔سردیوں میں قلعہ بند اور گرمیوں میں بلوچستان کے بہار کا دروازہ ۔ایک مشہور ریلوے اسٹیشن ۔جہاں سے ریل کلمہ پڑھ کر ول ولے بولان میں اترنے لگتی ہے۔ ریلوے اسٹیشن کے سامنے کا پہاڑ نسبتا اونچا پہاڑ ہے اور ریلوے اسٹیشن کی خوبصورتی اپنی جگہ اسٹیشن کے پاس مغرب میں ایک خوبصورت ٹنل ۔ٹنل سے مغرب کی جانب نکلتے ہی دشت کے میدان اور کوئٹہ سے آتے ہوئے ٹنل سے پاس ہوکرکولپور کی وادی اورپھر اونچے پہاڑوں کا طویل سلسلہ ۔ یہ بولان کا نقطہ آغاز ہے اور یہ سرکاری حدبندی نہیں بلکہ یہ ہمارے آباﺅ اجداد کی حدبندی ہے جس نے جابجا پہاڑوں کو حدمقررکیا ۔پہاڑوں کو دیوتا مانا ان کے خوبصورت نام رکھے۔خود کولپور اور دزان سے بھی پرے شوگ نامی پہاڑ سراٹھائے چاروں طرف نظریں جمائے ہوئے ہے ۔کیسا نیلا پہاڑ ہے ۔اپریل تک اس کے سرے پر برف جمی رہتی ہے ۔عین سر پرسفید دستار کی مانند ۔
جب اوشوکوہ ہمالیہ کی بات کرتا ہے اور اس کے مراقبے سے لبریز ہونے کی بات کرتا ہے تو وہ اس وقت دل کو چھولیتے ہیں ۔بولان کے شوگ پر سبزہ نہیں نہ اس پر کسی بزرگ کا مزار ہے نہ کوئی یادگارنہ چڑھنے کیلئے یاتروں کا رش لیکن کاش اس کی چوٹی سرکرکے اپنے تاثرات بیان کرنے والا کوئی ہو ۔شوگ سے بولان کی ندیاں اور ان میں بہتے چشمے  طویل اور خشک پہاڑی سلسلے اور ان میں جگہ جگہ جنگل ضرور نظرآئیں گے ۔
کولپور کے مغر ب میں شیر چائی مٹی سے زرخیز دشت گندان(گنڈین) جلب گندان جنوب میں تاریخی علاقہ مرو جس کا ذکر تاریخ کے ان قدیم آبادیوں میں آتا ہے جن کا دمب ابھی بھی مرو میں موجود ہے ۔
کولپور کی چڑھائی اور اس چڑھائی میں آباد قدیم بازار اور اس کے نیچے آبادی پھر آبادی کے سامنے ریلوے اسٹیشن اور ریلوے کے کوارٹرز اور ریلوے اسٹیشن کے سامنے اونچا پہاڑ جو صبح نور کی کرنیں کولپور پر تادیر تک بکھیرنے نہیں دیتا ۔تب کولپور کی آبادی سردیوں کی صبح شدید سردی کے نرغے میں ہوتی ہے جبکہ گرمیوں میں اس کےخوشگوار میٹھے گہرے سائے سے لطف اندوز ہوتی ہے ۔ بازار ہندو کا ہے خریدار مسلمان ہیں کھاتہ دار ی چلتی ہے۔یہ بلوچستان کا بہت بڑا حسن ہے ۔بلوچستان کا حسن باقی ہے کہ کولپور میں ہندو باقی ہیں ۔ہندو میرے دادا کی تعزیت پر آئے تھے ۔ہندﺅں سے مرک وزند کی سیال سیال گری قائم ہے ۔
کولپور بازار میں دکانیں کیسے بنائی گئی ہیں یہ بھی ایک شاہکار ہے ۔اس بازار کو اپنی مدد آپ کے تحت بل کھاتے پہاڑی راستے پر کیسے مزین کیاگیا ہے یہ ایک آرٹ ہے ایک تہذیب کی ۔دکانیں پکی اورکچی ہیں لیکن اس قدر مضبوط کہ اب تک قائم ہیں ۔بڑی سائز کی دکانیں بنائی گئی ہیں ۔ بعض دکانوں میںپہاڑ کے چھوٹے ٹیلے بھی اندر ہیں۔ بازار کے درمیان سے ایک راستہ نیچے آبادی کے لئے نکلتا ہے اور آبادی کی طرف کی دکانیں دومنزلہ ہیں ۔ بازار سے نیچے اترکردکانوں کو دیکھاجائے کس مہارت سے جوڑی گئی ہیں اور دومنزلہ بنائی گئی ہیں۔ پھر مندر کے لئے سیڑھیاں بازار کے درمیان سے اوپر کوجاتی ہیں ۔کولپور کا گوبندام سمادھا آشرم مندر اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ اس کا سالانہ میلہ لگتا ہے ،کولپور اپنے ہند سندھ سے آئے نسل درنسل یاتریوں کی آمد پر اور نازاں نظرآتا ہے ۔رنگ برنگے لوگ آتے ہیں ۔کولپور کو کوئی اس میلے کے دن آکر دیکھ لے کولپوربلوچستان اورہند سندھ کا حسین امتزاج لگے گا145اور دیکھنے والے کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ضرور بکھرے گی اور یہ یاتری کولپور سے باسن دیر (کوہ باش )تک موج میلے کرتے نظرآتے ہیں ۔باسن دیر کے میٹھے پانی پر بھی یہ بجھن گاتے ہیں ۔عجب سر بکھر جاتا ہے ۔بولان ان سروں سے ناآشنا نہیں ۔ بولان کی فضاﺅں میں ان سروں کی صدیوں سے گونج ہے ۔
بولان سے آنے والا تھکاماندہ شوہان اپنے بزگل (ریوڑ ) کو کولپور کے بائی پاس سے بھیج کر خود راشن لینے کولپور ضرور آتا ہے ۔یہاں چینکی ہوٹل پر چائے ضرور پیتا ہے ۔سیٹھ سے گڑ اوردیگر اشیاءخوردنوش ضرور لیتا ہے کہ اسے چلتن کے پار تک کیلئے راشن چاہئے ۔یہ شوہان کولپور کھنڈ سے پار ہوکر دشت کے میدانوں میں پھر سے اپنے سنگتوں سے جاملتا ہے ۔
کولپور بازار کی 1906کی ایک تصویر ہے ۔بازار میں اونٹ ہی اونٹ نظرآتے ہیں یعنی اس وقت سٹرک اس قدر استعمال نہیں ہوتی تھی ۔اونٹ یونہی باندھےہوئے ہوتے تھے ۔لوگ راشن خرید کر ان اونٹوں پرلادتے تھے پھرانہیں دشت جلب گندان گنڈین مرو اسپلنجی اور مشرق کی جانب محمد گزئی اور دزان تک جانا ہوتا تھا ۔کیا دور رہاہوگا ۔ کولپور کے اس وقت کے مکین کس شان سے چلتے ہونگے ۔بازار میں چائے پیتے ہونگے ،حال احوال کے دور پر دور چلتے ہونگے ۔کتنی سادگیاں ہونگی ،لوگ نوکریوں کے اشتہارات کی بجائے تیزبارش سے بھیگ کر اچھی فصل کی امید پر خوش ہوتے ہونگے اور پھر سے چائے کا دور چلتا ہوگا ۔ بلاسود وام وامداری (قرض قرضداری ) چلتی ہو گی ۔
کولپور میں ڈاکخانہ بھی بہت پرانا ہے اس کی عمارت شاہد وہاں موجودتمام عمارتوں سے بلند ہے ۔اس کی نئی عمارت باز ار سے مشرق کی جانب کچھ فاصلے پر سڑک کے بالکل پاس کھڑی ہے ۔یہ ڈاکخانہ بھی عمر میں بہت بڑا ہے اور کولپور کی تاریخ کا شاہد ہے اور یہ وہ مرکز رہا ہے جہاں چاروں طرف سے بند اس چھوٹے سے شہر اور اس کے لوگوں کیلئے امیدوں کا مرکز رہا ہے ۔چھٹیاں بانٹھی جاتی رہی ہیں یہاں سے۔ بلکہ ڈاک بابو خود ہی چھٹی پڑھ کر سنایاکرتا رہا ہے ۔لیویز تھانے کیلئے احکامات ہوں یا ریلوے ملازمین کیلئے کوئی سندیسہ یہ ڈاکخانہ ہمیشہ فعال رہا ہے ۔بعد کے وقتوں میں ریلوے اسٹیشن اور اس کے ملازمین کی اچھی خاصی تعداد اور پھر لیویز اہلکاروں کی موجودگی کی وجہ سے علاقے میں تنخواہ دار بھی موجود تھے اور اب بھی ہےں ۔سکول بھی پرانا ہے جو اب ہائی سکول ہے گرلز سکول بھی موجود ہے ۔
کولپور بولان کاتاریخی اور پرانا حصہ ہے ،یہاں کے مکینوں نے انگریز کو کولپور کا پہاڑ ہندوستانی محنت کشوں سے کٹواتے دیکھا جنہوں نے 1893میں اسے کاٹ کر ٹنل بنایا ۔پھر یہاں ریلوے اسٹیشن بنایا ۔اب تو ریلوے اور اس کی سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان انگریز کا خوبصورت طرز تعمیر بولان کی خوبصورتی کا حصہ بن چکا ہے ۔ کولپور اسٹیشن نے کولپور کی آبادی اور اس کے بازار کو وسعت دی اور یہاں کا بازار مزید بارونق بن گیا۔اور جب اس کے بازار سے ٹریفک کا گزر شروع ہوا تو اس کے کھنڈ پر گواڑخ کے گلدستے ہاتھ میں سجائے بہار کی آمد کا اذان دینے والے کھڑے نظرآنے لگے اور یہ کولپور کی خوبصورتی کا ایک اور جواز بن گیااب بہار کی آمد پر یہاں دشت کے گواڑخ گلدستے کی صورت میں ملتے ہیںاور قلعہ بند سردی میں نوجوان گرم انڈے بیچتے نظرآتے ہیں یہ اب روایت بن چکی ہے ۔ یہی کھنڈ کولپور کی آبادی اور اس کی قبرستان کو تقسیم کئے ہوئے ہے ۔
آج جب کولپور سے گزرتا ہوں تو پتہ نہیں کیوں نئی بائی پاس سڑک سے جانے کو دل نہیں کرتابس یونہی کولپور کی بال کھاتی سڑک اور ا س میں کچھ کھلی اور کچھ بند دکانوں سے گزرتے ہوئے آگے جاکر ایک نظرنیچے آبادی پر ڈالنے کو دل چاہتا ہے ۔یہ ہماری تہذیب کی ایک کہانی لئے ہوئے ہے ۔پہلے لگا کہ بائی پاس بن گیا تو کولپوربازار کے رونق کا کیا ہوگا ؟لیکن اب شکر بجالانے کا مقام ہے کہ اگر بائی پاس سڑک نہ بنتی تو کسی دن بڑے بڑے کنٹینروں کوراستہ دینے کیلئے تہذیب کے اس انمٹ گوشے پر بلڈوزر چل جانے تھے جیسے کہ مہر گڑھ پر چل گئے۔آج کے مفادات کے سامنے کولپور اور مہر گڑھ کے یادگاروں کی کیا حیثیت۔
صدیوں پہلے اس بازار میں بیٹھے لوگوں کی یادیں ان کی سود وضیاع سے پاک ہنسی اور کھلھلاہٹ اب بھی اس بازار کے درودیوار میں محفوظ ہے ۔قدیم بازار اوراس کے پرانے مکانات کے درو دیوار پر اگر دیکھنے والی آنکھ سے دیکھاجائے تو سب صاف نظرآئے گا اور سننے والے کان سے سنا جائے تو اس ہنسی اور کھلھلاہٹ ٹاکو  کی گونج اب بھی سنائی دے گی۔لوگوں نے یہاں بیٹھ کرعلاقے کے موسم پر بات کی ہوگی ۔کس سمت سے آنے والے بادل برسیں گے اور کون سے بادلوں کو تیز ہوا اڑا کرلے جائے گی۔فصل کیسے ہوگی مالداری کا کیاہوگا؟ کولپور کے بازار میں ان معاملات پر ماہرانہ رائے کا اظہار ہوتا ہوگا اور چائے پر چائے کا دور چلتا ہوگا ۔کوئی شوہان اگر بولان سے آتا دکھائی دیتاہوگاتو اسے ضرور حال احوال کرکے کچھی کے موسم اور آبادی(فصلوں کی پیداوار) کے بارے میں پوچھاجاتا ہوگا ۔
کولپور بلوچستان کے عظیم یادگاروں میں سے ایک یادگار ہے

جمعہ، 8 دسمبر، 2017

انتفادہ کیا ہے؟


حماس کے مطابق امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے سے تیسری انتفادہ شروع ہو سکتی ہے۔ لیکن
انتفادہ کیا ہے اور پہلی دو کے فلسطین اسرائیل تنازعے پر کیا اثرات مرتب ہوئے تھے؟
عمومی طور پر انتفادہ کا ترجمہ بغاوت سے کیا جاتا ہے لیکن عربی زبان میں اس کے معنی ہلا دینے یا چھٹکارہ حاصل کرنے کے زیادہ قریب ہیں۔ اگر انتفادہ کا لفظ اسرائیل اور فلسطین کے تناظر میں استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب فلسطینیوں کی اسرائیلی فوج کے خلاف نچلی سطح تک منظم اور سیاسی حمایت یافتہ بغاوت سمجھا جاتا ہے۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین پہلے ہی اس طرح کی دو لڑائیاں ہو چکی ہیں۔ پہلی انتفادہ کا آغاز 1987ء میں ہوا تھا اور یہ 1993ء میں اختتام پذیر ہوئی۔ دوسری انتفادہ اس سے بھی خونریز تھی، جو سن 2000ء میں ہو شروع ہوئی اور چار برس تک جاری رہی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے بعد اب فلسطینی گروپ حماس نے تیسری انتفادہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اسرائیل یروشلم کو اپنا دارالحکومت قرار دیتا ہے جبکہ فلسطینی حکام مشرقی یروشلم کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔ مشرقی یروشلم پر اس وقت اسرائیل قابض ہے۔ امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کا واضح مطلب اسرائیل کی حمایت کرنا سمجھا جا رہا ہے۔
پہلی انتفادہ کیا تھی؟
پہلی انتفادہ کا آغاز آٹھ دسمبر 1987ء کو اس وقت ہوا تھا، جب ایک اسرائیلی فوجی کے ٹرک کی ٹکر اس کار سے ہوئی تھی جو فلسطینی مزدوروں کو لے کر جا رہی تھی۔ اس تصادم کے نتیجے میں چار فلسطینی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد اسرائیل کا کہنا تھا کہ ٹرک ڈرائیور کے کنٹرول سے باہر ہو گیا تھا لیکن زیادہ تر عرب مبصرین کے مطابق عام فلسطینیوں کی گاڑی کو جان بوجھ کر ٹکر ماری گئی تھی۔ اس طرح اس اسرائیلی کا بدلہ لیا گیا تھا، جو چند روز پہلے چاقو کے ایک حملے میں ہلاک ہو گیا تھا۔
ان فلسطینیوں کی ہلاکت کے بعد پرتشدد کارروائیوں کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ اسرائیلی فوجیوں کے خلاف پرتشدد احتجاج کیا گیا اور فوجیوں نے مظاہرین پر براہ راست گولیاں فائر کیں۔ رفتہ رفتہ احتجاجی مظاہروں میں شدت آتی گئی۔ ابتدائی مظاہرے اچانک اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے تھے لیکن بعدازاں یاسر عرفات کی قیادت میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) نے انہیں منظم طریقے سے شروع کیا۔
اسی وقت زیادہ تر فلسطینیوں نے اسرائیل میں ملازمت پر جانے سے انکار کر دیا۔ تحریک سول نافرمانی کے تحت ٹیکس کی ادائیگی اور اسرائیلی مصنوعات کا بھی بائیکاٹ کر دیا گیا۔ پہلی انتفادہ کے دوران ہی حماس نے جنم لیا۔ اس کی بنیاد شیخ احمد یاسین نے رکھی اور پی ایل اور کے سخت عقیدے کے مذہبی اراکین کے ساتھ ساتھ اسے اخوان المسلمون کی حمایت بھی حاصل رہی۔
اسرائیلی فورسز نے مقبوضہ علاقوں میں انتفادہ کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں۔ کرفیو نافذ کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں۔ فلسطینیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس سے یہ پرتشدد کارروائیوں کو مزید ہوا ملی۔
کئی سالہ تشدد کے بعد اسرائیل اور پی ایل او کے مابین 1993ء میں اوسلو معاہدہ ہوا اور اس طرح پہلی انتفادہ اپنے اختتام کو پہنچی۔ اس دوران ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں متضاد اعداد و شمار پائے جاتے ہیں۔ ایک اسرائیلی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق اس دوران 1203 فلسطینی ہلاک ہوئے جبکہ 179 اسرائیلی مارے گئے۔ اس دوران اسرائیل کے سخت کریک ڈاؤن کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر اس کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔
دوسری انتفادہ کیا تھی؟
اٹھائیس ستمبر سن 2000 کو اسرائیلی سیاستدان ایریل شیرون نے مشرقی یروشلم کے مقبوضہ علاقے کا دورہ کیا، جس سے دوسری انتفادہ کا آغاز ہوا۔ اس دورے کو یروشلم پر اسرائیلی ملکیت کے دعوے کے طور پر دیکھا گیا۔ احتجاجی مظاہرین نے پولیس اہلکاروں، ایریل شیرون اور ان کے ہمراہ دیگر سیاستدانوں پر حملہ کر دیا۔ یہ جھڑپیں تیزی سے پھیل گئیں اور ان دو دن کے دوران عوام کے سامنے ایک بارہ سالہ فلسطینی لڑکے کو ہلاک کر دیا گیا۔ حماس نے چھ اکتوبر کو یوم غضبقرار دیتے ہوئے اسرائیلی فوجیوں کی بیرونی پوسٹوں پر حملے کرنے کا کہا۔ یہ تنازعہ یوں پھیلتا چلا گیا اور کئی سال جاری رہا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق دوسری انتفادہ پہلی انتفادہ کی نسبت زیادہ خونریز تھی۔ اس میں تقریبا 1330 اسرائیلی ہلاک ہوئے جبکہ مارے جانے والے فلسطینیوں کی تعداد 3300 سے زائد تھی۔ دوسری انتفادہ کے اختتام کی کوئی حتمی تاریخ موجود نہیں ہے۔ زیادہ تر مبصرین کے مطابق سن 2004 میں یاسر عرفات کی وفات کے ساتھ یہ ختم ہو گئی تھی۔ یاسر عرفات کی وفات کے بعد ہلکی نوعیت کی جھڑپیں کچھ عرصہ تک جاری رہیں۔
DW

منگل، 5 دسمبر، 2017

38 سال قبل کا واقعہ ، جس نے مسلم دنیا کو بدل کر رکھ دیا



سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے حال ہی میں امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ 'ہم ملک میں اسلام کو 
اس کی اصل شکل میں واپس لے جانا چاہتے ہیں اور سعودی معاشرے کو ویسا بنانا چاہتے ہیں جیسا وہ 1979 سے پہلے تھا۔'
اس حوالے سے کئی لوگوں کے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ 1979 میں ایسا کیا ہوا تھا جس نے سعودی معاشرے کی شکل تبدیل کر دی تھی؟
1979 کو ویسے تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے لیکن سعودی عرب میں یہ سال مکہ میں خانہ کعبہ پر کیے جانے والے حملے اور دو ہفتوں پر محیط محاصرے کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے جس میں ہزاروں افراد ہلاک اور تقریباً ایک لاکھ لوگ مسجد الحرام میں محصور ہو گئے تھے۔
38 برس قبل چار دسمبر کو سعودی حکومت نے فرانسیسی کمانڈوز، پاکستانی فوج اور سعودی فوج کی مدد سے لڑائی کا خاتمہ کیا جس کا آغاز 20 نومبر کو ہوا تھا جب 400 سے 500 شدت پسندوں نے یکم محرم 1400 ہجری کو نئے اسلامی سال کے آغاز پر خانہ کعبہ پر حملہ کر کے ایک لاکھ عبادت گزاروں کو مسجد میں محصور کر کے خود انتظام سنبھال لیا تھا۔
حملہ آوروں کی قیادت کرنے والے جہيمان بن محمد بن سيف العتيبی کا تعلق نجد کے ایک بدو قبیلے سے تھا، اور وہ سعودی عرب کے معروف عالم دین عبد العزیز بن باز کی تعلیمات سے نہایت متاثر تھا۔
عبد العزیز بن باز 1940 اور 1950 کی دہائی میں سعودی عرب کو جدت پسندی کی راہ پر گامزن کرنے کی شاہی کوششوں کے خلاف تھے اور اس کے بارے میں تقاریر اور تنقید کرتے تھے، لیکن بعد میں سعودی حکومت نے بن باز کو مرکزی مفتی کے عہدے پر فائز کر دیا تاہم ان کی تنقید ختم نہ ہوئی۔
جہيمان بن محمد بن سيف العتيبی بھی انھی تقاریر سے متاثر ہوئے جس کے بعد انھوں نے عبد العزیز بن باز کی قائم کی ہوئی سلفی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی جس کا مقصد سعودی عرب میں 'اسلام کی اصل شکل برقرار رکھنا تھا' اور سعودی عرب میں بڑھتی ہوئی مغربیت، مخلوط ماحول کا قیام اور ٹیلی ویژن کے منفی اثر کو ختم کرنا تھا۔
العتیبی کی شدت پسندی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی جس کے بعد 1978 میں سعودی حکومت نے انھیں ان کے کچھ ساتھیوں کے ساتھ حراست میں لے لیا۔
رہائی ملنے کے باوجود العتیبی کے خیالات میں تبدیلی نہیں آئی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر انھوں نے نئی اسلامی صدی کے آغاز پر خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا اور 20 نومبر 1979 کو فجر کی نماز کے موقعے پر اپنے تقریباً 500 ساتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ میں داخل ہو کر دروازے بند کر دیے اور ایک لاکھ نمازیوں کو یرغمال بنا کر مسجد کو اپنے زیر انتظام لے لیا۔
انھوں نے اپنے بہنوئی محمد بن عبد اللہ القحتانی کو امام مہدی قرار دیا۔ یہ صدیوں میں پہلا موقع تھا جب خانہ کعبہ عام مسلمانوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔
سعودی حکومت نے اس واقعے سے نمٹنے کے لیے اپنی فوج بھیجی لیکن خانہ کعبہ کے تقدس اور کم تربیت کی وجہ سے سعودی فوجی بغاوت کرنے والوں کے خلاف متاثر کن کارروائی کرنے میں ناکام رہی۔
سعودی حکومت نے خفت سے بچنے کے لیے مواصلاتی نظام بند کر دیا تاکہ اس واقعے کے بارے میں خبر محدود رہے لیکن وہ اس میں مکمل طور پر کامیاب نہ ہوئے۔
پاکستان میں اس خبر کے آنے کے بعد اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے پر حملہ کر دیا گیا کیونکہ ایران کی جانب سے اسے امریکی اور اسرائیلی سازش قرار دیا گیا تھا۔
مسلسل ناکامی کے بعد سعودی حکومت نے فرانس کی حکومت اور پاکستانی فوج سے مدد طلب کی۔
صحافی یاروسلاف ٹرافی موو نے اس واقعے پر مبنی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ فرانسیسی کمانڈوز نے سعودی فوج کو ہنگامی تربیت دی تاکہ وہ شدت پسندوں کا خاتمہ کر سکیں لیکن کیونکہ مکہ میں غیر مسلم افراد کا داخلہ ممنوع ہے تو سعودی اہلکار پاکستانی فوجیوں کی مدد سے چار دسمبر کو یہ بغاوت بالآخر ختم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
اس واقعے میں مسجد کی عمارت کو کافی شدید نقصان ہوا لیکن خانہ کعبہ محفوظ رہا۔
غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس واقعے میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں شدت پسند، نمازی اور فوجی شامل تھے۔
جوہامن العتیبی سمیت 60 سے زیادہ شدت پسندوں کو حراست میں لے لیا گیا جنھیں جنوری 1980 میں سزائے موت سنا دی گئی۔ جوہامن العتیبی کے بہنوئی القہتانی جنھیں امام مہدی قرار دیا گیا تھا، دوران آپریشن ہلاک ہو گئے تھے۔
اس واقعے کے بعد سعودی حکومت نے ملک کے علماؤں سے مشاورت کے بعد شریعہ قوانین کے اطلاق کا وعدہ کیا جس کے بعد سے ملک سے مخلوط نظام پر مکمل پابندی لگا دی گئی اور ملک میں سابق بادشاہ شاہ فیصل اور اس وقت کے بادشاہ شاہ خالد کی اعتدال پسند پالیسیوں کو ختم کر دیا گیا۔
کچھ کے مطابق اس سال کا اہم ترین واقعہ ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں آنے والا انقلاب تھا جس نے ایرانی بادشاہت کو ختم کردیا اور کچھ کے مطابق روس کا افغانستان پر کیے جانے والا حملہ اس سال کو اتنا اہم بناتا ہے۔
کئی مبصرین کے مطابق جہاں اس واقعے کے بعد سے سعودی عرب میں وہابی اسلام کا بول بالا ہوا، دوسری طرف دسمبر 1979 روس کی جانب سے افغانستان پر حملے نے خطے کی سیاست پر دور رس اثرات قائم کیے۔
#BBC