جمعرات، 23 نومبر، 2017

نیشنلزم



تحریر : حمید بلوچ

نیشنل ازم کیا ہے؟ قوموں کی تشکیل میں نیشنل ازم کا کیا کردار ہے ؟ قوموں کو متحد کرنے اور ان کی ترقی میں نیشنل ازم نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ان سوالوں کا جواب معلوم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قوم اور قومیت کیا ہے جب ہم صیح ان کے مفہوم سے آگاہ ہوجائیں تو نیشنل ازم کا نظریہ ہماری سمجھ میں آسانی سے آ جائے گا۔ قوم کی تعریف مختلف مفکرین نے کی ہیں جن میں چند درج ذیل ہے۔ 
لارڈ برائٹس کے بقول؛ قوم ایک ایسی قومیت ہے جس نے اپنے آپکو سیاسی طور پر منظم کرلیا ہو خواہ وہ آزاد ہو یا آزادی حاصل کرنے کی خواہش رکھتی ہو۔ ہیز کے خیال میں قومیت جب اتحاد اور حاکمانہ خود مختاری حاصل کرلیتی ہے تو قوم بن جاتی ہے۔ماہر عمرانیات کے مطابق قوم سے مراد وہ علاقہ یا خطہ جس کے رہنے والوں میں تاریخی تسلسل پایا جاتا ہو لیکن شرط یہ ہے کہ تاریخی تسلسل کئی صدیوں تک برقرار رہا ہو۔ ان تمام تعریفوں کی روشنی میں ہم قوم کی تعریف اس طرح کرسکتے ہیں کہ قوم لوگوں کے ایسے اجتماع کو کہتے ہیں جو کسی خاص خطہ زمین پر آباد ہو جنکی زبان ثقافت تاریخ رسم ورواج مشترکہ ہو لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ زبان ایک ہی ہو۔ ایک قوم میں مختلف زبان بولنے والے افراد موجود ہوتے ہیں۔جب لفظ قوم کا استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد لوگ اور شہری ہوتے ہیں اور تاریخی طور پر ان کا تعلق ریاست سے ہوتا ہے اور ان کی پہچان قومیت ہوتی ہے۔ 1300 ویں صدی میں جب قوم کا اصطلاح استعمال کیا گیا تو اس دور میں قوموں کی پہچان بادشاہوں اور امراہوں کے ذریعے ہوتی تھی لیکن جب انقلاب فرانس کے بعد قومی ریاستیں وجود میں آہیں تو قوموں کی پہچان قومیت بن گئی۔ قوم کے وجود نے ہی قومیت کو جنم دیا اور قومیت نے قوم پرستی کو جنم دیا۔ قوم پرستی کو بیان کرنے کے لیے قومیت کی تعریف ضروری ہے قومیت کو مختلف مفکرین نے اپنے نقطہ نظر میں بیان کیا ہے جن میں چند مندرجہ ذیل ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف قومیت کی تعریف ان الفاظوں میں کرتا ہے۔ وہ قانونی بندھن جسکی بنیاد سماجی حقیقت پر مبنی ہو جس سے احساس مفاد اور وجود کا حقیقی واسطہ ہو اور جہاں حقوق و فرائض لازم و ملزوم ہو۔ جے ایچ روز کے مطابق قومیت دلوں کا ایسا اتحاد ہے جو ایک مرتبہ پیدا ہوجائے تو کبھی ختم نہیں ہوتا۔لارڈ برائس کے مطابق قومیت سے مراد ایسی آبادی ہے جو بعض رشتوں مثلاً زبان، ادب، افکار اور رسم و رواج کی بنیاد پر اسطرح متحد ہو کہ اسے وحدت کے طور پر محسوس کیا جاسکے۔جان اسؤرٹ مل قومیت کی تعریف کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ قومیت انسانوں کا ایک ایسا اجتماع ہے جو اپنے اندر مشترکہ ہمدردیوں کے سبب آپس میں متحد ہو اور یہ اتحاد دوسروں کے درمیان نہیں ہوتی اور جسکے سبب دوسروں کی نسبت آپس میں تعاون کرنے میں رضامند ہوتے ہیں اور رضامندانہ طور پر ایک حکومت کے اندر رہنا چاہتے ہیں اور اپنی حاکمیت چاہتے ہو۔ ان تمام تعریفوں کا مختصر یہ ہے کہ قومیت محبت و دوستی کا ایسا جذبہ ہے جو قوم میں اتحاد کا جذبہ پیدا کرتی ہے اور قوم کو احساس دلاتا ہے کہ وہ ایک ہے اور دوسروں سے مختلف اور یکتا ہے۔محبت اور دوستی کے جذبے اور دوسروں سے الگ ہونے کے تصور نے ہی قوم پرستی کو جنم دیا۔قوم پرستی کی بنیاد دراصل عقلی بنیادوں پر نہیں بلکہ جذبات پر ہوتی ہے اس لیئے ہٹلر جیسے رنماؤں نے قوم کے جذبات کو ابھار کر انیہں جنگ پر آمادہ کیا۔ہے۔نیشنل ازم کی تشکیل میں ان عناصر کا اہم کردار ہے جنھوں نے مختلف گروپوں جماعتوں برادریوں اور قبائل کو آپس میں متحد کرکے قوم پرستی کا جذبہ پیدا کیا کچھ مفکر ین جغرافیہ اور آب و ہوا اور کچھ زبان تاریخ ثقافت کو اسکی وجہ قرار دیتے ہیں۔اگر امریکہ کی جنگ آزادی کا مطالعہ کریں تو اس جنگ میں نیشنل ازم کا جذبہ کار فرما تھا جس نے قوم کو متحد کرکے آزادی کی جنگ کا حصہ بنایا۔فرانس کا انقلاب جس نے لوگوں کو شہنشاہت سے آزادی دلائی اور یہ لوگ یورپی حملوں کے خلاف متحد ہوئے۔ انقلاب فرانس میں ہی نیشنل ازم کا لفظ پہلی بار استعمال ہوااور 1830ء کے یورپی انقلاب میں اس لفظ کو دہرایا گیا۔کوہن نے قوم پرستی کے ابھار میں دو نقطہ نظر دیئے اسکے مطابق جہاں عوام کے نمائندے طاقتور تھے وہاں نیشنل ازم سیاسی و معاشی طاقت کے طور پر ابھرا جبکہ کمزور ملکوں میں کلچر کے ذریعے اس کا ابھار ہوا۔نیشنلزم کی اہمیت اسکے عناصر کی وجہ سے ہیں خود مختاری اتحاد اور شناخت یہی تینوں عناصر معاشرے کو ذہنی طور پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ ایک آزاد ملک و معاشرے کے لئے جدوجہد کریں اور وقت آنے پر قربانی دیں۔19ویں صدی میں نیشنل ازم نے قومی ریاستوں کی بنیاد رکھ کر ایک مثبت کردار ادا کیا نیشنل ازم نے یورپ پر اثر ڈالااور اس اثر نے افریقہ و ایشیا کے ممالک کو بھی متاثر کیا۔کولونیل دور میں ایشیا و افریقہ کے ملکوں میںآزادی کی تحریکیں ابھریں انکی بنیاد کلچرل نیشنل ازم تھی ان تحریکوں کا مقصد کولونیل ازم سے آزادی تھی اس لیے انہوں نے مغربی افکار کو چیلنج کیا اور اپنے کلچر کی تبلیغ کی جس نے عوام کے ذہنوں کو فتح کیا۔جدید دنیا نے قومی ریاست کی اہمیت کو بہت زیادہ بڑھایا ہے آج کی دنیا میں اقوام متحدہ کا رکن بننے کے لئے قومی ریاست کا ہونا ضروری ہے قومی ریاست اس صدی کی پیداوار ہے جب دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام ترقی کررہاتھااسلئے ان ریاستوں کو منڈیوں کی تلاش تھی اور اسی تلاش نے سامراج کو پیدا کیا اور دنیا میں قبضے کا عمل شروع ہوا۔ دنیا کے طاقتور قوموں نے کمزور و نہتے ممالک پر قبضہ کرنا شروع کیا مقبوضہ ممالک کے کلچر اور روایات کو توڑ کر اپنی روایات و کلچر کو فروغ دیکر تصادم کا ماحول پیدا کیا اور مظلوموں کی شناخت کو پیچیدہ بنادیا۔مظلوموں نے قومی شناخت کے لئے اپنے عوام کی شعوری تربیت کرکے قومی وجود کا احساس دلایا اور ظالم سے خود کو الگ ظاہر کرکے قوم کو ایک پلیٹ فارم دیا اور جدوجہد کرنے کا پیغام دیا انہی قومی تحریکوں سے نئے ملک آزاد ہوئے لیکن ظالم و طاقتوروں نے انکی سرزمین کو تقسیم کرکے اپنے مفادات حاصل کئے انکی زبان کلچر کو علیحدہ خانوں میں بانٹ دیا گیا ۔مشرق وسطٰی میں اردن و اسرائیل خلیج فارس میں عرب امارات ہندوہستان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا بلوچستان کے علاقے ایران، پاکستان اور افغانستان کو دیئے گئے افریقہ، کوریا اوریتنام کو بھی تقسیم کیا گیا۔لیکن سامراجی پالیسیوں نے آزادی کے بعد بھی ان ریاستوں میں اپنے حمایت یافتہ حکمرانوں کو بٹھاکر قومیت کا استحصال کیا اور نام نہاد قوم پرست حب الوطنی کا نعرہ لگاکر عوام کو ریاستوں سے جوڑ رہے ہیں۔ موجودہ دور میں قومی ریاستیں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پھیلاؤ سے خطرے میں ہے جو انکی طاقت کو ختم کررہی ہے۔ نیشنل ازم کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا کردار تاریخ میں اہم ہے یہ ایک موثر طاقت کے طور پر ابھرا اور اپنی قوت سے عثمانیہ سلطنت اور دیگر امپائر کا خاتمہ کردیا۔ قوم پرستی کی تاریخ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسکے لئے ایک قوت اور جدوجہد کی ضرورت ہے جو قوموں کو غفلت کی نیند سے جگادے مگر آج بھی دنیا قومی ریاستوں کی تشکیل میں تعصب کا شکار ہے انسانی حقوق کے چمپین ادارے اور ممالک سرمایہ داروں کے ہاتھوں یرغمال ہے بجائے کمزور قومی ریاستوں کی مدد کرنے کے بجائے ظالم ملکوں کو مدد کررہے ہیں اور انسانی جانوں کے ضیاع پر خاموش تماشائی کا
کردار ادا کررہے ہیں۔انسانی اداروں کو خضدار توتک میں اجتماعی قبریں، خواتین پر تیزاب پاشی ،بلوچ عوام کی مرضی کے بغیر سی پیک معاہدہ اور بلوچستان میں خونی آپریشن نظر نہیں آتی۔ اگر بلوچوں کو پاکستانی تسلط سے چھٹکارا پاناہے تو اس مقصد کے لئے کسی محرک کی تلاش سوائے جذبہ قومیت کے بالکل غلط ہے انگریز سرکار اور پاکستان نے بلوچوں کی سرزمین کو تقسیم کرکے سرداروں کی طاقت میں اضافہ کرکے بلوچ قوم کو قبائل میں تقسیم کردیاہے اور ان کا خاتمہ قوم پرستی ہی کرسکتا ہے۔ بلوچ کی نجات اسکی قومی آزادی ہے اور قومی آزادی کے لئے بلوچ عوام کا متحرک ہونا ضروری ہے اور اسکا اہم ہتھیار قوم پرستی ہے جس کے ذریعے عوامی جذبے کو ابھار کر انہیں جنگ آزادی کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔انگریز سامراج اور پاکستانی سامراج نے سرداران بلوچستان کو طاقت و مراعات سے نواز کر اتنا مضبوط کردیا ہے کہ انہوں نے قوم کو مختلف قبائل میں تقسیم کرکے ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے۔آج کے پرآشوبی دور میں بلوچ سیاسی پارٹیوں پر بھاری ذمہداری عائد ہوتی ہے کہ وہ بلوچ قوم میں نیشنلزم کے جذبے کو ابھار کر قوم کو متحد کریں اتحاد ہی ہمیں قومی آزادی دلاسکتا ہے۔

بدھ، 22 نومبر، 2017

نوآبادیاتی صورت حال کیا ہے ؟



نوآبادیاتی صورتِ حال، فطری اور منطقی صورتِ حال نہیں ہے۔ یہ ازخود کسی قابل فہم فطری قانون کے تحت رونما نہیں ہوتی۔ہر چند اس کی رونمائی تاریخ کے ایک خاص لمحے میں ہوتی ہے، مگر تاریخ کا یہ لمحہ کسی الہامی حکم یا فطری طاقتوں کے اپنے قوانین کی ’’پیداوار‘‘ نہیں ہوتا۔ اسے ’’پیدا‘‘ کیا جاتا اور تشکیل دیا جاتا ہے۔ چوں کہ ’’پیدا‘‘ کیا جاتا ہے، اس لیے مخصوص مقاصد کے حصول کو سامنے رکھا جاتا ہے، لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ یہ انسانوں کے مخصوص گروہ کے ہاتھوں مخصوص مقاصد کی خاطر برپا ہونے والی صورتِ حال ہے۔ اس گروہ کو نوآبادکار نام دیا گیا ہے۔ نوآبادکار بعض تاریخی قوتوں کو اپنے اختیار میں لا کر ایک نئی ’’تاریخی صورتِ حال‘‘ کی تشکیل کرنے میں کام یاب ہوتا ہے، جو اس کے سیاسی اور معاشی مفادات کی کفیل ہوتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم تک نوآبادکار یورپی (برطانیہ اور فرانس بالخصوص) تھے۔ بعد میں نوآبادکاری پر امریکا نے اجارہ داری قائم کرلی، مگر بانداز دگر! اس نے براہ راست نوآبادیات بنانے کے بجائے بالواسطہ طریقے سے نوآبادیاتی صورتِ حال کو پیدا کرنے اور اپنے قابو میں رکھنے کی حکمتِ عملی اختیار کی ہے۔
نوآبادیاتی صورتِ حال کی ’’منطق‘‘ ثنویت سے عبارت ہے۔ یہ دو دنیاؤں کو تشکیل دیتی ہے۔ ایک نوآبادکار کی دنیا اور دوسری نوآبادیاتی یا مقامی باشندوں کی دنیا۔ دونوں دنیائیں ایک دوسری کی ضد ہوتی ہیں۔ فرانز فینن کا کہنا ہے کہ یہ ضد کسی بڑی اکائی کو پیدا کرنے کے لیے نہیں ہوتی۔ یہ دونوں ارسطالیسی منطق کے تحت ایک دوسرے کو خارج کرنے کے اصول پر قائم رہتی ہیں۔ (افتادگان خاک، ص ۴۳) یہ تو بجا کہ نوآبادکار کی دنیا، مقامی باشندوں کی دنیا کو خارج کرنے کے اصول پر قائم رہتی ہے۔ نوآبادکار اپنی شخصیت، اپنی ثقافت، اپنے علمی ورثے، اپنے سیاسی نظریات، اپنے فنون کے بارے میں جو آراء پھیلاتا ہے، وہ نوآبادیاتی دنیا کے افراد کی شخصیت، ثقافت، علم اور فنون کے متعلق موجود آرا ء کے متضاد اور انھیں بے دخل کرنے والی ہوتی ہیں، مگر یہ درست نہیں کہ مقامی باشندوں کی دنیا، نوآبادکار کی دنیا کے اوصاف کو خارج کرنے کا اصول قائم کرتی ہیں۔ اپنی متقابل دنیا کی اشیاء اور تصورات کو خارج کرنے کے لیے اقتداری حیثیت کا مالک ہونا ضروری ہے، نوآبادیاتی دنیا اس سے بُری طرح محروم ہوتی ہے۔ اپنی محرومی کا ادراک، نوآبادیاتی دنیا دو صورتوں میں کرتی ہے: محرومی کے خاتمے کی صورت میں اور محرومی کے سبب کی صورت میں۔ پہلی صورت میں وہ نوآبادکار کی دنیا کو جذب کرنے کی کوشش کرتی ہے اور دوسری صورت میں وہ نوآبادکار کو اپنی محرومی کا سبب سمجھتی اور اس کے خلاف بغاوت کا تصور کرتی اور شاذو نادرمظاہرہ کرتی اور اپنی بازیافت پر مائل ہوتی ہے۔ مگر سب صورتوں میں وہ نوآبادکار کی دنیا کے اخراج سے قاصر رہتی ہے۔
نوآبادیاتی دنیا کی دو میں تقسیم کا اختیار، نوآبادکار کے پاس ہوتا ہے۔ نوآبادکار محض اس تقسیم کے ذریعے اپنے اختیار کا مظاہرہ ہی نہیں کرتا، اس تقسیم کے نتیجے میں اپنے اختیار کو بڑھاتا بھی ہے۔ یہ تقسیم طبعی اور ذہنی، بہ یک وقت ہوتی ہے۔ نوآبادکار اپنی اقامت گاہوں، چھاؤنیوں، دفاتر کو مقامی باشندوں سے الگ رکھتا ہے، اور مقامیوں کو ان کے قریب پھٹکنے کی سختی سے ممانعت ہوتی ہے۔ ’’کتوں اور ہندستانیوں کا داخلہ ممنوع ہے‘‘ کی تختی جگہ جگہ آویزاں ہوتی ہے۔ آرکی ٹیکچر کے شکوہ، حفاظی دستوں کی طاقت اور تعزیری قوانین کے ذریعے مقامی باشندوں کو دور رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں نوآبادکار اپنے طرز حیات اور طرز کار کے ذریعے بھی اپنے مختلف اور ممتاز ہونے کا تاثر برابر اُبھارتا رہتا ہے اور نوآبادیاتی باشندوں کو دور رکھتا ہے۔ یہ دو طرح کی تقسیم نوآبادکار کی طاقت کو مسلسل بڑھاتی ہے۔ اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس طاقت کا نشانہ نوآبادیاتی قوم ہوتی ہے۔ نوآبادکار کی طاقت جتنی بڑھتی ہے، مقامی لوگوں کی طاقت اسی تناسب سے گھٹتی ہے، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ نوآبادکار، نوآبادیاتی اقوام کی طاقت کو اپنی طاقت میں شامل کرتا رہتا ہے۔
نوآبادکار، نوآبادیاتی دنیا کو دو میں تقسیم ہی نہیں کرتا، نوآبادیاتی باشندوں کی دنیا کو تشکیل بھی کرتاہے۔ دوسرے لفظوں میں نوآبادیاتی باشندوں کی دنیا ان کی اپنی دنیا نہیں ہوتی، انھیں اپنی ’دنیا‘ پر کوئی تصرف اور اختیار نہیں ہوتا، نہ اس دنیا کے حقیقی، عملی معاملات پر اور نہ اس دنیا کے تصور اور اس کے نظام اقدار پر۔ وہ اپنی ہی دنیا میں اجنبی، اور اس سے ’باہر‘ ہوتے ہیں۔ غضب یہ ہے کہ نوآبادیاتی باشندے کو نوآبادکار جو تصور ذات دیتا ہے وہ اسے بالعموم قبول کرتا اور اس کے مطابق جینا شروع کر دیتا ہے اور نوآبادیاتی دنیا میں جو کردار اسے ادا کرنے کے لیے کہا جاتا ہے، وہ اسے عموماً تسلیم کر لیتا ہے۔ فرانز فینن، البرٹ میمی اور ایڈورڈ سعید تینوں اس امر پر متفق ہیں کہ نوآبادیاتی اقوام، نوآبادکار کے دیے گئے تصور ذات اور کردار کو تسلیم کر لیتی ہیں اور اس کی وجہ سے نوآبادیاتی نظام قائم رہتا ہے۔ چنانچہ یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں کہ نوآبادیاتی نظام کی برقراری میں خود مقامی باشندوں کا انفعالی کردار معاونت کرتا ہے۔
نوآبادیاتی باشندوں کو ایک ایسا ’’تصور ذات‘‘ دیا جاتا ہے، جو نوآبادیاتی نظام کے قیام و استحکام میں مدد کرتا ہے۔ البرٹ میمی کے مطابق نوآبادکار مقامی باشندوں کی اساطیری تصویر بناتا ہے اور اس میں انھیں ناقابل یقین حد تک کاہل دکھایا جاتا ہے۔(۱) جب کہ فرانز فینن کا کہنا ہے کہ نوآبادیاتی باشندے کے لیے جو اصطلاحیں نوآبادکار استعمال کرتا ہے، وہ حیوانیات کی اصطلاحیں ہیں۔ (افتادگان خاک، ص ۸۳) کاہل یا حیوان کہنے کا مطلب مقامی باشندوں کو انسانی درجے سے گرانا ہے۔ نوآبادکار خود کو انسانی درجہ پر فائز قرار دیتا اور انسانی پیمانے کی مثال کے طور پر پیش کرتا ہے۔ نوآبادیاتی اقوام کو کاہل اور حیوان باور کرا کے اوّلاً یہ بات ثابت کی جاتی ہے کہ انھیں ذہنی تحرک اور جستجو سے کوئی واسطہ نہیں، افکار و علوم کی تخلیق سے انھیں کوئی دل چسپی نہیں۔ یہاں نوآبادکار اپنے ذہنی تحرک، جستجو، اور اپنے علوم کوبہ طور نمونہ پیش کرتا ہے۔
نوآبادکار اپنے اقتدار کے مراکز، پولیس اور عدالت کے نظام کو جائز ثابت کرتا ہے کہ کاہلوں اور حیوانوں کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیس کا جابرانہ اور عدالت کا سفاکانہ نظام ناگزیر ہے۔ نوآبادیاتی باشندے بالعموم اپنے کاہل اور حیوان ہونے کا یقین کر لیتے ہیں۔ اس یقین کو پیدا کرنے کے لیے نوآبادکار کئی نفسیاتی حربے بروئے کار لاتاہے۔ اور سب سے بڑا حربہ اپنی مقتدر حیثیت کا مختلف طریقوں اور زاویوں سے مظاہرہ ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا نوآبادیاتی صورتِ حال میں انجذاب، بغاوت اور آفاقیت کی اصل روح تک رسائی کا امکان ہوتا ہے؟ کیا نوآبادیاتی باشندہ ایک حقیقی فرد بن سکتا، اپنی اصل ثقافت کے مکمل احیا پر قادر ہو سکتا اور دو مختلف اور متبائن ثقافتی نظاموں کے امتزاج کو ممکن بنا سکتا ہے؟ جب تک نوآبادیاتی صورتِ حال برقرار رہتی ہے اور نوآبادیاتی باشندہ اس کے جبر میں ہوتا ہے، وہ مذکورہ سوال کا سامنا ہی نہیں کرتا، وہ نہیں سوچتا کہ کیا کامل انجذاب، مکمل بغاوت یا مثالی آفاقیت ممکن ہے یا نہیں۔ وہ تو صورتِ حال کے دستیاب مواقع میں سے کسی کو اختیار کر لیتا ہے۔ یہ سوال ہمیشہ مابعد نوآبادیاتی مطالعات میں اٹھایا جاتا ہے۔ فرانز فینن اور البرٹ میمی نے بالخصوص یہ سوال اٹھایا ہے اور ان کا موقف ہے کہ ان تینوں میں سے کوئی ایک بات بھی ممکن نہیں۔ 
نوآبادیاتی باشندہ نوآبادکار کو اپنے لیے جب ماڈل بناتا ہے تو خود اس جیسا بننے کی تگ و تاز کرتا ہے۔ اور اس تگ و تاز میں خود کو بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔
‘‘The first ambition of the colonized is to become equal to that splendid model and to assemble him to the point of disappearing in him.’’
(Albert Memmi, The Colonized and the Colonized, P 184)

نوآبادیاتی باشندہ، نوآبادکار کا اثبات اور اپنی نفی کرتا ہے۔ اثبات و نفی کے اس عمل سے گزرتے ہوئے وہ یہ غور نہیں کرتا کہ نہ تو کامل اثبات ممکن ہے نہ نفی۔ وہ نوآبادکار جیسا، اس لیے نہیں بن سکتا کہ وہ اپنی نوآبادیاتی حیثیت (جو اصل میں محکومیت، پس ماندگی، ذلت سے عبارت ہے) سے دست کش نہیں ہو سکتا۔ نوآبادیاتی صورتِ حال غلام کو آقا کا ہم پلہ بننے کا خواب دیکھنے کی اجازت تو دیتی ہے کہ اس خواب کے ذریعے ہی نوآبادکار کی ’’مقتدر و مثالی‘‘ حیثیت کا تسلط قائم رہتا ہے، مگر اس خواب کو پورا ہونے کی اجازت کبھی نہیں دیتی کہ اس طرح نوآبادکار اور نوآبادیاتی باشندے میں فرق مٹ جائے گا۔ یہ فرق نوآبادیاتی صورتِ حال کو قائم رکھنے کے لیے اشد ضروری ہے۔ نوآبادیاتی باشندہ انجذاب کے ذریعے نوآبادکار کا قرب حاصل کرنے اور نتیجتاً مراعات حاصل کرنے میں کام یاب ہوتا ہے مگر یہ مراعات بھی نوآبادکار کے اپنے ملک کے شہری کی مراعات کے برابر کبھی نہیں ہوتیں۔ ان مراعات کی قیمت ہوتی ہے، جو نوآبادیاتی باشندے کو لازماً ادا کرنا ہوتی ہے۔
انجذاب کے عمل میں نوآبادیاتی باشندہ، نوآبادکار کی زبان سیکھتا ہے اس کا لباس اختیار کرتا ہے، اس کے طرز بودوباش کی نقل کرتا ہے۔ نقل و تقلید میں وہ جتنا آگے جاتا ہے، اپنی تاریخ، ثقافت، اور اپنی اصل سے اتنا ہی دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ اپنی اصل سے دوری اسے طبعی اور نفسیاتی سطح پر ضرر پہنچاتی ہے،جسے وہ بخوشی قبول کرلیتا ہے۔وہ اس ضرر کو محسوس کرتا ہے،مگرنو آباد کار جیسا بننے کی خواہش کا زور اس کے احساس پر غالب آ جاتا ہے۔یہ ایک پیچیدہ نفسیاتی عمل ہوتا ہے۔نوآباد کار کی نقل سے ہر چند بعض مادی فوائدوابستہ ہوتے ہیں،اور ایک حد تک ان فوائد کا حصول نقل کا محرک ہوتا ہے،لیکن یہ واحد محرک نہیں ہوتا۔اگر ایسا ہوتا تو صرف وہی لوگ یا طبقے نو آباد کا رکی نقل کرتے جنھیں مادی فائدے ملتے،مگر اس کا کیا کیا جائے کہ نو آباد کار کی ثقافت کا انجذاب وہ لوگ اور طبقات بھی کرتے ہیں جو نوآباد کار سے دور ہوتے اور کسی فائدے کی انھیں توقع ہوتی ہے نہ امکان۔انھیں ایک نفسیاتی اطمینان ملتا ہے۔وہ نوآباد کار کی ثقافت کا تصور ایک ’’اعلا یافت‘‘کے طور پر کرتے ہیں۔چونکہ اعلا کا تصور تجریدی نہیں
بلکہ ان کی اپنی ثقافت کے حقیر ہونے کے لازمی اور قوی احساس کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے،اس لیے حقیر کا ’’ترک‘‘ اوراعلاکا ’’قبول‘‘ انھیں ایک نفسیاتی آسودگی دیتا ہے۔چنانچہ ایک مقام آتا ہے کہ نو آباد کار کی نقل و تقلید ایک آدرش بن جاتی ہے۔
اس صورتِ حال کی عمدہ عکاسی ملک راج آنند کے ناول اچھوت میں کی گئی ہے۔ناول کا مرکزی کردار باکھا یوروپیوں جیسا بننے کی کوشش کرتا اور خود سے کوسوں دور ہوجاتا ہے۔باکھے کا تعلق بھنگیوں کے ’’نیچ‘‘ طبقے سے ہے۔وہ انگریزوں کی نقل کے عمل میں تمام ہندستانیوں کی نمائندگی کرتا ہے۔
’’جب وہ(باکھا)اپنے چچا کے ساتھ برٹش رجمنٹ کی بارکوں میں رہنے گیا تھا۔وہاں ٹھیرنے کے دوران اس نے ٹامیوں کی زندگی کی جھلکیاں دیکھی تھیں133اسے جلد ہی ایک شدید خواہش نے جکڑ لیا کہ وہ بھی ان ہی کی طرح زندگی بسر کرے گا۔اسے بتایا گیا تھا کہ وہ صاحب لوگ تھے،یعنی زیادہ اعلی آدمی۔اسے محسوس ہوا کہ جو ان کی طرح کپڑے پہنے گا وہ بھی صاحب بن جائے گا،اس لیے اس نے ان کی ہر بات میں نقل کرنے کی کوشش کی 133باکھا خود بھی یہ جانتا تھا کہ انگریزی کپڑوں کے سوا اس کی زندگی میں کوئی چیزانگریزی نہیں تھی،لیکن اس نے سختی سے اپنی نئی شکل کو برقرار رکھا اور وہ دن رات یہی کپڑے پہنے رہتا۔وہ ہندستانی پن کے ہر حقیر دھبے سے بچتا تھا،یہاں تک کہ بھدی شکل کے ہندستانی لحاف کو بھی نہیں اوڑھتا تھا،حالانکہ وہ رات کو ٹھنڈسے کانپتا رہتا تھا۔‘‘
(اچھوت،ص۳۱تا ۵۱)
نوآبادیاتی باشندہ، نوآبادکار کے خلاف بغاوت بھی کرتا ہے۔ یہ بغاوت براہ راست اور بالواسطہ صورتوں میں ہوتی ہے۔ جب یہ بغاوت اپنی محرومی کے سبب کے تجزیے کے نتیجے میں ہوتی ہے، مقامی، نوآبادکار کو اپنی حالت زار کا سبب سمجھتا اور اس کے خلاف بغاوت کرتا ہے تو یہ بغاوت براہ راست ہوتی ہے۔ بالواسطہ بغاوت اس طبقے کے خلاف ہوتی ہے، جو نوآبادکار کی ثقافت کے انجذاب کا قائل ہوتا ہے اور خود کو اس طرح، نوآبادکار کا حلیف بنا کر پیش کرتاہے۔ نوآبادکار ماڈل ہوتا ہے اور بغاوت کی صورت میں اینٹی تھیسس کا درجہ اختیار کر جاتا ہے۔ اصل میں بغاوت، انجذاب کا اینٹی تھیسس ہے۔ انجذاب کا اثبات، بغاوت کی نفی میں اور انجذاب کی نفی، بغاوت کے اثبات میں بدل جاتی ہے۔ بغاوت میں نوآبادکار کا انکار اور اپنا اثبات کیا جاتا ہے۔ اب اسی شدت سے اپنے ماضی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ بغاوت کے نتیجے میں علاقائیت اور قومی ثقافت کے احیا کی تحریکیں چلتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں تمام نوآبادیاتی ممالک میں قومی ثقافتوں کی تحریکوں کا آغاز، نوآبادیاتی نظام کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں ہوا ہے۔ انجذاب میں استدلال سے زیادہ جذباتیت کارفرما ہوتی ہے، بغاوت میں بھی خالص استدلال سے زیادہ جذباتیت ہوتی ہے۔ قومی ثقافت سے جذباتی وابستگی کو اچانک دریافت کر لیا جاتا ہے۔ دو باتیں فراموش ہو جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ ثقافت ایک متحرک عمل ہے۔ ماضی کے ایک خاص حصے کو مثالی سمجھ کر اسے اپنے لیے ایک نمونہ خیال کیا جاتا اور اس کے احیا کی کوشش ہونے لگتی ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ تاریخ کا وہ سنہرا دور، جن تاریخی و سماجی حالات کی پیداوار تھا، وہ حالات اب نہیں رہے، اس لیے اس کا کامل احیا ممکن ہی نہیں۔ دوسری یہ بات کہ قومی ثقافت کے تصور میں علاقائی، ثقافتی افتراقات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ افریقہ میں نیگرو ثقافت کا تصور تشکیل دیا گیا جو ایک تجریدی تصور ہے، اور افریقہ کی مقامی ثقافتی روایات کے اختلافات کو نظرانداز کرتا ہے۔ اسی طرح ایشیا میں عرب ثقافت کو مثال بنا کر پیش کیا گیا، پان اسلام ازم کی تحریک چلائی گئی اور عرب ممالک کے جغرافیائی، علاقائی، ثقافتی اختلافات کو پس پشت ڈالا گیا۔
البرٹ میمی کا خیال ہے کہ نوآبادیاتی اقوام بغاوت کے عمل میں، فکر کی جو تیکنیک اور جنگ کا جو حربہ استعمال کیا جاتا ہے، وہ نوآبادکار سے مستعار ہوتا ہے۔ (دی کولونازر اینڈ کولونایزڈ، ص ۵۹۱) شاید اس لیے کہ جبھی نوآبادکار، مقامی باشندوں کی تحریک کا مفہوم سمجھ سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں نوآبادیاتی باشندے اپنی بازیافت کے عمل میں دوہری صورتِ حال سے دوچار ہوتے ہیں: وہ اپنی اصل سے بھی جڑنا چاہتے اور ایک بامعنی وجود بننا چاہتے ہیں مگر ساتھ ہی اپنے بامعنی وجود کا ادراک نوآبادکار کو بھی کروانا چاہتے ہیں۔ نوآبادیاتی باشندے کی یہ تگ و دو، دو وجوہ سے ناکام رہتی ہے۔ اوّل اس لیے کہ یہ تگ و دو ڈسکورس کا درجہ اختیار نہیں کر سکتی، نوآبادیاتی باشندہ اس سیاسی یا دانش ورانہ یا آئیڈیالوجیکل اقتدار کا حامل نہیں ہوتا، جو کسی بات کو حقیقت تسلیم کرانے کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے نوآبادکار مقامی باشندوں کی تحریک بازیافت کے مفہوم کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، دوسری وجہ یہ ہے کہ اپنی بازیافت کی کوششوں کے شعور میں تاریخ کے تحرک کے اصول کو پس پشت ڈالا جاتا ہے، ماضی کے ایک عہد کو مثالی تصور کر لیا جاتا اور دوسرے زمانوں اور خود اپنے زمانے کی زندہ سچائیوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ احیا اور بازیافت کے جوش میں اپنے عہد کی اصل صورتِ حال سے صرفِ نظر کرنا، عقلی اصول بن جاتا ہے۔ چنانچہ نہ تو اپنے عصر کی صورتِ حال کی پوری تفہیم کی ہمہ گیر کوشش ہوتی ہے نہ اسے بدلنے کی کسی حکمت عملی کو وضع کرنے کا کوئی امکان ہوتا ہے۔
آفاقی نقطہ نظر میں نوآبادکار اور نوآبادیاتی دنیاؤں کے اقداری فرق کو ختم کرنے کی کوشش ہوتی ہے، دونوں میں مماثلتیں دریافت کی جاتی ہیں اور انھیں یکجا کرنے کا عمل ہوتا ہے۔ یہ عمل عموماً دو صورتوں میں ہوتا ہے: ایک یہ کہ نو آباد کار کی ثقافت کو آفاقی خیال کیا جاتا اور اس کی تقلید کی جاتی ہے۔ اس صورت میں فرض کر لیا جاتا ہے کہ ’’آفاقی ثقافت‘‘تمام خطوں کے لیے ہے۔یہ بات نظر انداز کی جاتی ہے کہ جسے آفاقی خیال کیا جارہا ہے وہ اپنا مکانی اور زمانی تناطر رکھتی اور اسی تناظر میں بامعنی ہے۔کسی دوسرے تناظر میں وہ اجنبی یا محدود معنی کی حامل ہے۔ دوسری یہ کہ نو آباد کار اور مقامی ثقافتوں میں متعدد اشتراکات ہیں۔ان اشترا کات کی تلاش ساتھ تاریخی اور منطقی سطحوں پہ کی جانے لگتی ہے۔ اس تلاش کو عملی ضرورتوں کا جبر مہمیز کرتا ہے۔یہیں سے تاریخ کی نئی تعبیرات کا آ غاز ہوتا ہے۔اور ان تعبیری کوششوں کا بنیادی نکتہ دونوں ثقافتوں کے درمیان موجود فاصلوں اور فرق کو ختم کرنا ہوتا اور انھیں یکجا کرنا ہوتا ہے۔ چونکہ یہ سب کچھ نوآبادیاتی صورتِ حال میں ہو رہا ہوتا ہے، اس لیے دونوں دنیاؤں کا اقداری فرق ختم کرنے کی کوشش کام یاب نہیں ہو سکتی۔ مشرق، مشرق رہتا ہے، اور مغرب، مغرب۔ دونوں کے امتزاج کی کوشش میں ایک کا برتر اور دوسرے کا فروتر ہونا لازم ہے لہٰذا جسے، آفاقی نقطہ نظرقرار دیا جاتا ہے، وہ دراصل محدود انجذاب ہے۔ مشرق کا مغرب کو خود میں جذب کرنا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ مظاہرہ ذولسانیت میں ہوتا ہے۔ ہر نوآبادیاتی صورتِ حال ذولسانیت کو جنم دیتی ہے۔ مگر دونوں زبانیں برابر رتبے کی نہیں ہوتیں، نوآبادکارکی زبان اسی کی مانند مہذب اور افضل ہوتی ہے، جب کہ نوآبادیاتی اقوام کی زبانیں، گنوار لوگوں کی زبانیں اور ناشائستہ ہوتی ہیں۔ زبان کا اقداری درجہ اس کے بولنے والوں کی نسبت سے متعین ہونے لگتا ہے بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ زبان ایک آلہ اظہار کے بجائے ایک ’’علامتِ رتبہ‘‘بن جاتی ہے۔دنیا کی کوئی زبان حقیقتاً کم تر ہوتی ہے نہ نا مکمل۔وہ اپنے بولنے والوں کی جملہ ابلاغی اور ترسیلی ضرورتوں کی تکمیل کررہی ہوتی ہے،مگر نوآبادیاتی صورت حال میں زبان کا یہ تصور باقی نہیں رہتا۔زبان اپنے بولنے والوں کے سیاسی اور ثقافتی مرتبے کی نسبت سے کم تر یا برتر سمجھی جانے لگتی ہے۔نوآبادیاتی اقوام، نوآبادکار کی زبان کو اپنے اندر جذب کرنے کی سعی کرتی ہیں، اور اپنی زبان کے لچک دار اور ترقی پسند ہونے کا دعوی کرتی ہیں، نیز نوآبادیاتی باشندہ بہ یک وقت دونوں زبانوں پر دسترس کا دعوی کرتا ہے مگر اپنے ذولسانی اقداری نظام میں نوآبادیاتی زبان کو وہی مرتبہ دیتا ہے، جس کا تعین نوآبادکار نے کیا ہے۔ نوآبادکار بھی مقامی زبانیں سیکھتا ہے، مگر وہ کبھی ان زبانوں کو وہ مرتبہ نہیں دیتا، جو اس نے اپنی زبان کو دے رکھا ہے۔
ان باتوں کی تائید سرسید کے زبان سے متعلق خیالات سے بھی ہوتی ہے۔ان میں آفا قیت کا مندرجہ صدر تصور کی دونوں صورتیں موجود ہیں۔
انجذاب، بغاوت اور آفاقیت و امتزاج کے آزادانہ مفاہیم بھی ہیں جو نوآبادیاتی صورتِ حال میں ظاہر ہونے والے مفاہیم سے مختلف ہیں۔ نوآبادیاتی باشندے جب تک، نوآبادیاتی صورتِ حال کے زمروں میں مقید ہو کر یہ عمل انجام دیتے ہیں، وہ اسی طرح کے نتائج تک پہنچتے ہیں جن کا ذکر گزشتہ سطور میں ہوا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ نوآبادیاتی نظام میں کیا کوئی مقامی فرد یا گروہ آفاقیت کا آزادانہ مفہوم قائم کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا؟ کیا اس نظام کا جبر اتنا شدید، اتنا ہمہ گیر اور اتنا سرایت گیر ہوتا ہے کہ ایک خطے میں ایک عہد کی تمام انسانی روحیں نوآبادیاتی نظام کی صلیب پر لٹک جاتی ہیں؟ کوئی آزاد و فعال ذہن باقی نہیں رہتا؟ اس سوال کا جواب اثبات میں دینے کی صورت میں نوآبادیاتی ممالک کی قومی اہانت وہ تصور اُبھرتا ہے، جو نوآبادکار کو ’عزیز‘ ہوتا ہے اور اس کے تاریخی بیانیوں میں کثرت سے ابھارا جاتا ہے تاکہ اُس کے ہر اقدام کا جواز مہیا ہو سکے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہر نوآبادیاتی ملک میں کچھ افراد یا گروہ آزاد، ذہنی فعالیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ نوآبادکار کی ثقافت کا براہ راست علم حاصل کرتے ہیں، مگر اپنی ثقافت سے بے گانگی کی قیمت پر نہیں۔ دونوں ثقافتوں سے راست اور گہرا ربط ضبط رکھنے کی وجہ سے وہ حقیقی آفاقی نقطہ نظر اختیار کرنے کی اہلیت حاصل کر لیتے ہیں۔ وہ نہ اپنی ثقافت کے سلسلے میں ماضی پرستی اور تعصب کا شکار ہوتے ہیں نہ نوآبادکار کی ثقافت سے مرعوب ہوتے ہیں، ان کا ذہنی رشتہ
ثقافتوں کے فکری و عملی اور تخلیقی حاصلات سے قائم ہو جاتا ہے، چنانچہ وہ دونوں کی خوبیوں کے مداح اور دونوں کی کم زوریوں کے نکتہ چیں ہوتے ہیں، اور خوبیوں اور کم زوریوں کا تصور، وہ کسی ایک ثقافت سے نہیں، مجموعی انسانی ثقافت سے اخذ کرتے ہیں۔ نوآبادکار اپنی نوآبادیاتی ذہنیت کے مظاہرے کے لیے سیاسی و سماجی، معاشی، تعلیمی شعبوں کو منتخب کرتا ہے، ان میں اپنی آئیڈیالوجی کا بیج بوتا ہے۔ آفاقی نقطہ نظر ان شعبوں کے بجائے، مستقل اہمیت کے فکری و علمی منطقوں سے خود کو منسلک کرتا ہے۔ یہ نوآبادیاتی صورتِ حال سے فرار اور ذہنی خانقاہوں میں پناہ گزین ہونے کا عمل نہیں ہے، بلکہ نوآبادیاتی آئیڈیالوجی کا تابع مہمل بننے سے انکار اور حقیقی انسانی علم کی روایت سے وابستہ ہونے کا آزدانہ ذہنی عمل ہے۔
تحریر : ناصر نیر

ہفتہ، 11 نومبر، 2017

سعودی عرب کی ناکام سفارت کاری



یوں تو سعودی عرب کے جواں سال ولی عہد، شہزادہ محمد بن سلمان، کے سنہ 2015 میں سیاسی منظر نامے پر نمودار ہوتے ہی سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں جارحیت کا عنصر حاوی نظر آنے لگا تھا، لیکن گزشتہ چند دنوں کی پیش رفت سے ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ سعودی عرب اندرونی طور پر بھی خاندانی حکمرانی سے شخصی آمریت کی طرف بڑھ رہا ہے۔
معاشی اصلاحات ہوں یا سماجی، کرپشن کے نام پر مخالفین کے خلاف کارروائی، یا طاقت پر اپنی گرفت کو مضبوط کرنا یا پھر سعودی عرب کا سنہ 2030 کا اقتصادی ویژن، ان سب اقدامات کے پیچھے ایک جارحانہ سوچ اور عجلت کا عنصر دکھائی دیتا ہے۔
عجلت تو مسلم دنیا کے ایک اہم ترین ملک کی بادشاہت حاصل کرنے کی وجہ سے ہو سکتی ہے لیکن جارحیت کا عنصر صرف مزاج کی تیزی اور شخصیت کا خاصہ ہی ہو سکتا ہے۔
سنہ 2015 میں محمد بن سلمان کے وزیر دفاع کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی سعودی عرب کی افواج نے دنیا کے ایک غریب ترین مسلمان ملک یمن پر یلغار کر دی جو تاحال جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے حوثی باغیوں کی طرف سے ریاض کے ہوائی اڈے پر مبینہ طور پر ایرانی ساخت کے میزائل داغے جانے سے واضح ہو گیا ہے کہ سعودی عرب کے دو سال سے یمن پر مسلسل بمباری سے کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔
جنگ کا اختتام ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ ریاض کے ہوائی اڈے پر ناکام میزائل حملے کے بعد سعودی عرب کی طرف سے یمن کے بحری، بری اور فضائی بائیکاٹ سے یمن کے عوام کی مشکلات سنگین تر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔
شام میں حزب اللہ کی مدد و معاونت اور روسی کی براہ راست مداخلت سے اسد مخالف مسلح گروہوں اور نام نہاد دولت اسلامیہ کے خاتمے کے بعد اسد حکومت استحکام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ مغربی طاقتیں اور سعودی عرب جو شام میں صدر اسد کو اقتدار سے علیحدہ کرنے سے کم کسی حل پر تیار نہیں تھیں بری طرح ناکام ہو گئی ہیں اور اندھیرے میں ہاتھوں پاؤں مارتی نظر آ رہی ہیں۔
شام کے علاوہ اسی دوران سعودی عرب اور اس کے خلیجی اتحادیوں کی طرف سے قطر کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ یہاں بھی سعودی عرب قطر سے وہ پندرہ شرائط منوانے میں ناکام رہا جن میں الجزیرہ نیوز نیٹ ورک کو بند کرنے کی شرط بھی شامل تھی۔
بے شک یمن، شام اور قطر کے محاذوں پر سعودی عرب کو تاحال کچھ حاصل نہیں ہوا ہے، اس کے باوجود اب سعد الحریری سے استفعی کا اعلان کروا کے لبنان میں بھی ایک سیاسی بحران کھڑا کر دیا گیا ہے۔
ریاض کے ہوائی اڈے پر میزائل حملے کا ذمہ دار محمد بن سلمان ایران کو ٹھہراتے ہیں اور ایران کی طرف سے ان الزامات کی تردید کے باوجود سعودی ولی عہد نے اسے اعلان جنگ قرار دیا ہے۔
ایران کی مخالفت میں ٹرمپ انتظامیہ اور اسرائیل پوری طرح محمد بن سلمان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ امریکہ میں سابق صدر اوباما کے دور اقتدار کے آخری دنوں میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر جتنی برہم اسرائیلی حکومت تھی اتنا ہی غصہ محمد بن سلمان کو تھا۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں یہ پہلا موقعہ تھا جہاں سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں واضح کشیدگی نظر آئی تھی۔
مشرقی وسطی گزشتہ ایک صدی سے مغربی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا میدان بنا رہا ہے لیکن دنیا بھر کے ماہرین اور تجزیہ کار آج اس بات پر مکمل طور یک زبان ہیں کہ مشرق وسطی جتنا آج غیر مستحکم اور خطرناک صورت حال کا سامنا کر رہا ہے، اس پہلے کبھی اسے اتنی خطرناک صورت حال کا سامنا نہیں رہا۔
بیرونی محاذوں پر ناکامیوں اور خطرات کے باوجود داخلی محاذ پر محمد بن سلمان نے جو اقدامات کیے ہیں ان پر نہ صرف تجزیہ کار بلکہ امریکی خیفہ اداروں کے اہلکار بھی حیران ہیں۔
سعودی عرب میں کرپشن کے نام پر جس پیمانے پر کارروائی کی گئی ہے اس کی کوئی نظیر سعودی تاریخ میں نہیں ملتی۔
بین الاقوامی اخبارات میں شائع ہونے والے تبصروں اور تجزیوں میں مبصرین نہ صرف اس اچانک کارروائی پر انگشت بدنداں ہیں بلکہ وہ ان اقدامات کے نتائج کے بارے میں بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ پا رہے ہیں۔
سعودی عرب میں پالیسی سازی ہمیشہ ہی سات پردوں کے پیچھے کی جاتی رہی ہے، لیکن گزشتہ چند دنوں میں لیے جانے والے فیصلوں میں جس قسم کی راز داری برتی جا رہی ہے، ماضی میں اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔
سعودی عرب میں انتقال اقتدار کے فیصلے افہام و تفہیم اور خاندانی سطح پر مفاہمت کی بنیاد پر ہی کیے جاتے رہے ہیں۔ سلطنت کے اہم فیصلوں میں یہ عنصر ہمیشہ مدِ نظر رہا ہے کہ آل سعود کے اہم افراد کو کسی نہ کسی سطح پر اقتدار میں شریک رکھ کر مطمئن رکھا جائے۔
سعودی عرب کے اندرونی معاملات پر نظر رکھنے والے مبصرین کے مطابق کرپشن کے نام پر کی گئی کارروائی کو سعودی نوجوان میں پذیرائی حاصل ہوئی ہے لیکن اس کا اصل مقصد تخت تک پہنچنے کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔
محمد بن سلمان نے جو راہ اختیار کی ہے اس کے مستقبل قریب اور مستقبل بعید میں کیا اثرات مرتب ہو ں گے ان کا مکمل طور پر احاطہ کیا جانا فی الوقت ممکن نہیں ہے لیکن یہ راہ بہت پر خطر دکھائی دیتی ہے اور نہ صرف ملک بلکہ پورے خطے کو سنگین بحران سے دو چار کر سکتی ہے۔
BBC

جمعہ، 10 نومبر، 2017

ٹرمپ کی نئی افغان حکمت عملی میں علاقائی کھلاڑیوں کی اہمیت



ٹرمپ انتظامیہ نے جنوبی ایشیا کے لئے، پرانی پالیسی ختم کر کے نئی حکمت عملی کا اعلان کیا ہے۔ دفتر خارجہ کے دو سابق عہدیداروں کا کہنا ہے کہ أفغان مسئلے کے حل کے لئے امریکہ کی نئی حکمت عملی میں ایک ایسے علاقائی لائحہ عمل کی ضرورت ہے جس میں پاکستان، أفغانستان اور بھارت کے علاوہ ایران، چین اور روس بھی شامل ہوں۔


نئی حکمت عملی میں اوباما دور کے متعارف کردہ افغانستان اور پاکستان کے لئے خصوصی نمائندے کے دفتر کو ختم کر دیا گیا ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس دفتر کی افادیت تھی اور کیا وہ موثر رہا؟



ٹرمپ انتظامیہ نے أفغان مسئلے کے حل کے لئے، جنوبی ایشیا کی نئی حکمت عملی کا اعلان کیا۔ نئی حکمت عملی کی تشکیل کی ذمہ داری پنٹاگان کو تفويض کی گئی۔ امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے سینٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے ایک سماعت کے دوران کہا کہ نئی حکمت عملی کا مقصداس خطے کو محفوظ اور مستحکم بنانا ہے۔ انہوں نے نئی حکمت عملی کے خد و خال بیان کرتے ہوئے فور آر پلس ایس نامی ایک نئی اصطلاح استعمال ۔ اس میں پہلے آر کے معنی ریجینالائیز کرنا تھے یعنی علاقائی بنانا۔



جم میٹس نے سماعت کے دوران کہا کہ علاقائی بنانے کے معنی ہیں کہ یہ تسلیم کرنا ہے کہ أفغانستان سے آگے بھی چیلنج موجود ہیں۔ اس حکمت عملی کے لئے جغرافیائی ڈھانچے کو اپنایا گیا ہے، جو جامع ہے اور جس میں سب کی شمولیت ہے۔ صرف أفغانستان پر توجہ مرکوز رکھنے کی بجائے، اس میں بھارت، پاکستان، ایران اور روس کو شامل کرنے پر غور کیا گیا ہے، اور پھر بعد میں اس حکمت عملی میں بیرونی تبدیلیاں بھی متعارف کرائی جا سکتی ہیں۔



سابق امریکی معاون وزیر خارجہ کارل اِنڈر فرتھ کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ہمیں افغانستان کے لئے دوبارہ علاقائی پالیسی تشکیل دینا ہو گی۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ کا علاقائی لائحہ عمل بظاہر افغانستان، پاکستان اور بھارت تک ہے۔



ان کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ اس علاقائی لائحہ عمل میں ایرانی کہاں ہیں، اس میں چینی کہاں ہیں، اور اس میں روسی کدھر ہیں اور سعودی کہاں ہیں؟ اور میں نے ابھی تک ایسا کوئی ثبوت نہیں دیکھا جس سے یہ ظاہر ہو کہ انتظامیہ کے پاس ایک ایسی جامع حکمت عملی موجود ہےجس سے ان تمام کھلاڑیوں کی مدد سے اس مسئلے کا حل نکالا جاسکے جس کا ہمیں افغانستان میں سامنا ہے۔



افغانستان اور پاکستان کے لئے، امریکہ کے سابق خصوصي نمائندے، ڈین فیلڈ مین کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے جنوبی ایشیا سے متعلق حکم عملی کے اعلان کے بعد افغانستان میں فوجیوں کی تعداد میں اضافہ اور انہیں مزید اختیارات تفويض کئے گئے ہیں، اور وہ وہاں کافی عرصے تک موجود رہیں گے۔



ان کا کہنا تھا کہ میرا موقف یہ ہے کہ اس میں اہم شراکت داروں کو شامل رکھنے کی ضرورت ہے، خصوصي طور پر پاکستان، بھارت چین، روس، ایران، خلیجی ریاستیں، اور دیگر نیٹو شراکت داروں کو، جو وہاں شریک رہے ہیں، مسلسل شامل رکھنا ہو گا۔



اس سوال پر کہ کیا اوباما دور میں افغانستان اور پاکستان کے لئے نمائندے کے دفتر کی افادیت کے متعلق کوئی داخلی بحث ہوئی تھی ِ ، ڈین فیلڈ مین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مسلسل بحث جاری رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسے ایک مستقل دفتر بنانے کا ارادہ کبھی نہ تھا۔ اس لئے یہ بحث ہمیشہ رہی کہ ا س خصوصي دفتر کو دفتر خارجہ کے وسطی اور جنوبی ایشیائی أمور سے متعلق بیورو میں ضم کر دیا جائے۔



ہمیشہ یہ بحث ہوتی ہے کہ کیا صرف افغانستان اور پاکستان کے لئے ایک خصوصي دفتر کا ہونا معقولیت ہے؟ اور ہمیشہ ہی یہ فیصلہ ہوتا کہ اس خطے میں امریکی مفادات کے پیشِ نظر، اور امریکی فوجیوں کی تعداد کے تناظر میں، اور سفارتی، امدادی اور دیگر عملے کے پیش نظر، اور جس مقدار میں امریکی وسائل افغانستان میں استعمال ہو رہے تھے، اور اس پالیسی کے لئے پاکستان کی اہمیت کے پیش نظر، یہ دفتر کو قائم رکھنا ضروری ہے۔



ہم نے ہمیشہ یہ سوچا کہ امریکہ کے اندر ایک اعلیٰ سطحی سفارت کار، ان معاملات پر مختلف شعبوں میں رابطہ کاری اور کام کا کوئی ذمہ دار ہو جو اتحادیوں اور شراکت داروں سے رابطہ رکھے اور جو وزیر خارجہ یا صدر کو رپورٹ کرے۔ اس لئے ہم نے ہمیشہ یہ سوچا کہ اس معاملہ کی اہمیت اور افادیت اور موثر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔



نئی انتظامیہ نے اچانک ہی خصوصي ایلچی کے دفتر کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن اُنہوں نے نمائندہ خصوصي کا منصب برقرار رکھا ہے، جس پر عارضی طور پر سفیر ایلس ویلز کو تعینات کیا گیا ہے، اور انہیں قائم مقام معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا کا منصب بھی دیا ہے۔





کارل انڈرفرتھ کا کہنا تھا کہ اوباما انتظامیہ کے دور میں اس پر بحث تو ہوئی، لیکن اس وقت فیصلہ ہوا کہ جب تک نئی انتظامیہ نہیں آتی تب تک اس پر کوئی قدم نہ اٹھایا جائے اور اسے ٹرمپ انتظامیہ پر چھوڑ دیا جائے۔



انہوں نے کہا کہ اگر تو اس دفتر کی مہارتیں دفتر خارجہ کے جنوبی ایشیا بیورو میں منتقل ہو جاتی ہیں، تو اس کا ختم ہونا کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے بیورو کو سمت دینے والا مستقل معاون وزیر خارجہ موجود نہیں۔ اس انتشار کی وجہ، ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے دفتر خارجہ میں موجود خالی اسامیاں بھرنے کے عمل میں سستی ہے۔



کارل انڈر فرتھ کا کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اور خاص کر سفیر ہول بروک کی وفات کے بعد، یہ واضح ہوتا گیا کہ اوباما انتظامیہ افغانستان سے نکلنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی تھی۔ چونکہ یہ ان کی اولین ترجیح تھی، اس لئے خصوصي نمائندے کے دفتر اہمیت کم ہوتی چلی گئی۔ اور اوباما انتظامیہ دور کے اختتام پر، یہ دفتر افادیت کے لحاظ سے ہولبروک کے عہد کے مقابلے میں محض ایک ڈھانچہ سا بن کر رہ گیا تھا۔
انجم ہیرلڈ گل