ہفتہ، 14 دسمبر، 2013

پارٹی میں تنقید کی اہمیت


ماؤزے تنگ

انقلابی پارٹی تنقید سے خوفزدہ نہیں ہوتی کیونکہ ہم مارکسی ہیں اور سچائی، عوام، مزدور اور ہاری ہمارے ساتھ ہیں۔ ایسے سائنسی انقلابی ہرخوف سے عاری ( نڈر ) ہوتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ جدوجہد کے میدان پرقائم ہمارے تمام ساتھی بہادری کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے اور بیشتر مشکلات پر قابو پالیں گے۔ وہ بغیر کسی گھبراہٹ اور بغیر پریشانی کے ہم پر تنقید کریں گے اور ہمیں تجاویز بھی دیں گے۔جوہزارزخموں کے باوجود موت سے نہیں ڈرتا ‘ وہی شہنشاہ کو ہاتھ سے پکڑ کر گھوڑے سے اتار سکتا ہے۔ انقلابی جدوجہد میں اسی ناقابل شکست جذبے کی ضرورت ہے ۔ہمارے پاس مارکسی‘ لیننی تنقید اور ذاتی تنقید کا ہتھیار ہے ۔ان کی مدد سے ہم غلطیوں سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں اور اچھے طریقہ کار استعمال کرسکتے ہیں ۔ذاتی تنقید پر عمل ہی ایک ایسی نمایاں چیز ہے جو ہماری پارٹی کو دیگر سیاسی پارٹیوں سے منفرد بناتی ہے۔جس طرح کسی کمرے کو اچھی طرح سے صاف نہ کیا جائے تو اس میں گند بھر جاتا ہے اسی طرح اگر ہم اپنے چہروں کو باقاعدگی سے دھوتے نہ رہیں تو وہ گندے ہوجاتے ہیں ۔ہمارے کامریڈوں کے اذہان اور ہماری پارٹی کے کام میں بھی گند جمع ہوسکتا ہے۔
اپنے کام کی باقاعدہ جانچ پڑتال کرنا اور اس عمل میں جمہوری طریقہ اپنانا‘ناہی تنقید اور ذاتی تنقید سے گھبرانا ’ہربات بنا کسی خوف کے کہہ دینا ‘غلطی کی نشاندہی کرنے والے کو الزام دینے کی بجائے اس کے کہے ہوئے الفاظ کا احترام کرنا‘ کوئی غلطی ہوئی ہو تو اسے درست کرنا اور اگر غلطی نہ ہوئی ہو تو بھی اس سے بچنے کی کوشش کرنا ‘یہی وہ موثر طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنے کارکنوں کے اذہان اور پارٹی کے بدن سے ہرقسم کے سیاسی جراثیم اور گندگی کو جمع ہونے سے روک سکتے ہیں ۔
پارٹی میں مخالف اور مختلف قسم کے خیالات کے مابین تکرار ہوتی رہتی ہے۔ یہ پارٹی کے اندر مختلف طبقہ ہائے فکر کے درمیان اور معاشرے میں نئے اور پرانے ( خیالات ) کے درمیان تضادات کا ایک عکس ہے۔ اگر پارٹی میں تضادات نہ ہوں اور انہیں حل کرنے کے لئے نظریاتی جدوجہد نہ ہو تو پارٹی کی جدوجہد ختم ہوجاتی ۔ ہم بھر پور نظریاتی جدوجہد کے حامی ہیں کیونکہ ہماری جدوجہد کے مفاد میں پارٹی اور انقلابی اداروں کے اندر اتحاد قائم کرنے کا یہی موثر ہتھیار ہے۔ ہر انقلابی کو اس ہتھیار سے لیس ہونا چاہئے۔ لیکن آزادخیالی نظریاتی جدوجہد کو رد کرتی ہے اور یہ بے اصول امن کی علمبردار ہے، جس سے ایک منفی نظریہ جنم لیتا ہے اور پارٹی کے اندر مختلف یونٹوں ،افراد اور انقلابی اداروں میں سیاسی تباہی اور بربادی کا باعث بنتی ہے۔ اندرونی گروپ بندی اور پارٹی میں انقلاب دشمن فکر کی مخالفت کرتے ہوئے ہمارے ذہن میں دومقصد ہونے چاہئیں ؛اول یہ کہ مستقبل میں غلطیوں سے بچنے کیلئے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور دوم یہ کہ مریض کو بچانے کیلئے اس کا علاج کریں۔ کسی کی مخالفت کا خیال کئے بغیر ماضی کی غلطیوں کا آئینہ دکھایا جائے ۔
ایک سیاسی نقطہ نظر کے تحت ماضی کی برائیوں کا تجزیہ اور احتساب ضروری ہے تاکہ مستقبل کا کام مزید احتیاط اور بہتر انداز میں کیا جاسکے ۔مستقبل میں غلطیوں سے بچنے کیلئے ماضی کی غلطیوں کو ظاہر کرنا اور اپنی خامیوں پر تنقید کرنے سے ہمارا مقصد ایک ڈاکٹر جیسا ہے جو مریض کو مارنے کی بجائے اسے صحت یاب کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور زخم اگر بڑھ جائیں تو اسے بچانے کیلئے اس کا آپریشن کرکے فالتو غدود نکال دیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص علاج کے خوف سے اپنی بیماری کو چھپا نا چھوڑ دے اور اس کا مرض لاعلاج نہ ہوچکا ہو تو ہمیں بھی اسے ایک اچھا کارکن بنانے کیلئے اس کا علاج کرنا چاہئے۔ اسے ( محض ) برا کہنے سے ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ کسی سیاسی نظریاتی بیماری کا علاج کرتے ہوئے ہمیں ایسے شخص پر غصہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ ایسے مریض کی جان بچانے کیلئے اس کا علاج کرنا چاہئے کہ یہی صحیح اور موثر طریقہ ہے ۔
پارٹی میں تنقید کے سلسلے میں ایک ضروری بات یہ ہے کہ کارکن تنقید کرتے وقت بڑے مسائل کو نظر انداز کرکے اکثر چھوٹے مسائل پر ساری توجہ خرچ کرتے ہیں ۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ تنقید کا بڑا مقصد سیاسی اور تنظیمی غلطیوں کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ جہاں تک ذاتی خامیوں کا تعلق ہے بشرطیکہ وہ سیاسی اور تنظیمی غلطیوں سے وابستہ نہ ہوں، ان پر ضرورت سے زیادہ تنقید کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔دوسری صورت میں ہمارے کامریڈ جھنجھٹ کا شکار ہوجائیں گے اور انہیں پتہ ہی نہیں چلے گا کہ وہ کیا کریں۔ اس کے علاوہ اگر ایک بار اس قسم کی نکتہ چینی کا پارٹی کے اندررواج پڑگیا تو پھر چھوٹی چھوٹی باتوں پر زیادہ توجہ دینے کا چلن عام ہوجائے گا اور ہر کوئی ضرورت سے زیادہ محتاط ہوکر پارٹی کے سیاسی معاملات سے کنارہ کش ہوجائے گا ۔
پارٹی کے اندر تنقید کا معیار سطحی اور حاسدانہ نہیں ہوناچاہئے ۔ بات سچائی اور حقیقت پر مشتمل ہو اور تنقید زیادہ تر سیاسی پہلوؤں سے ہونی چاہئے ۔پارٹی کے اندر تنقید ایک ایسا ہتھیار ہے جو پارٹی کی تنظیم سازی کو منظم کرتا ہے اور اس سے جنگی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ سرخ فوج کی پارٹی تنظیم میں تنقید کی نوعیت ہمیشہ اس قسم کی نہیں ہوتی اور کبھی کبھار یہ ذاتی حملوں میں بدل جاتی ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی تنقید سے پارٹی کے علاوہ افراد( کی ساکھ ) کو بھی نقصان پہنچتا ہے ۔یہ چھوٹی سرمایہ دارانہ ذہنیت ہے۔ اس صورتحال کو اصلاح کے مطمع نظر سے پارٹی کے کارکنوں کو یہ سمجھانا ہے کہ تنقید کا مقصد طبقاتی جدوجہد میں فتح حاصل کرنے کیلئے پارٹی کی جدوجہد کی صلاحیت میں اضافہ کرنا ہے نہ کہ اسے ذاتی حملوں کے طور پر استعمال کرنا۔ ہمارے اندر اگر خامیاں ہیں تو ہمیں تنقید سے گھبرانا نہیں چاہئے کیونکہ ہمیں عوام کی خدمت کرنی ہے ۔خواہ کوئی بھی ہو‘ا سے ہماری خامیوں پر انگلی اٹھانے دیں ( اگر ) وہ صحیح کہتا ہے تو ہم اپنی خامیوں کو دور کریں گے، اگر اس کی تجاویز سے عوام کو فائدہ پہنچتا ہے تو ہمیں اس پر عمل کرنا پڑے گا۔

اتوار، 8 دسمبر، 2013

جنگ......تحریر, چی گویرا


جنگ،گوریلا زندگی کے عروج کا نقطہ ہے۔ ہر ایک جھڑپ چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو، گوریلا سپاہی کے لئے ایک گہرا جذباتی تجربہ رکھتی ہے۔
حملہ کا مقصد ہمیشہ فتح ہونا چاہئے۔ گوریلا کشمکش کے ابتدائی دور میں جب جنگ کا میدا ن ہموار اور قاعدہ کے مطابق نہیں ہوتا تو دشمن کے دستے باغی علاقوں میں کافی اندر تک چلے آتے ہیں۔اس سلسلے میں دشمن کے ہر اول دستے پر چھپ کر شکاری کی طرح حملہ کرنا اور اس کے اسلحہ،گولہ بارود اور دوسرے سازو سامان پر قبضہ کرنا کچھ مشکل کام نہیں ہے۔ اس دوران دشمن کی باقی اصل فوج کو وقتی طور پر مصروف رکھیں اور اسے بے بس کر دیں۔ اگر گوریلا فوج کی پوزیشن اچھی خاصی مضبوط ہے تو پھر پیش قدمی کرتی ہوئی پوری فوج کو گھیرے میں لیا جا سکتا ہے۔ اس بات کا یقین کر لینے کے بعد کہ پیش قدمی کرتے کرتے دشمن کیسامنے آپ کی فوج کے مورچے مضبوطی سے قائم ہیں ،پھر دشمن پر عقب سے حملہ کریں۔ اگر علاقہ موزوں ہے تو اس طریقے سے کام لیتے ہوئے اپنے سے دس گنا بڑی اور بہترین فوج کو بھی تباہ کیا جا سکتا ہے ۔لیکن اگر حالات ناموزوں ہوں تو پھر ’’ضرب لگاؤ اور بھاگ جاؤ‘‘ پر عمل کریں۔اس طرح اگرچہ آپ دشمن کے ساز و سامان پر تو قبضہ نہیں کر سکتے لیکن اس کے باوجود اسے اس قدر کمزور کر دیں کہ دوبارہ کسی مناسب حملہ میں اس کا خاتمہ ہو سکے۔
کسی باقاعدہ فوج یا اس کی پوزیشن پر حملہ کرتے وقت اس کی پیش چوکیوں کو منتخب کریں اور رات کے وقت ان پر غیر متوقع اور اچانک حملہ کریں اور دل لگاکر لڑ یں۔ اپنے فرار اور کمک کے راستوں کی حفاظت کریں ۔ 
دشمن کے اسلحہ اور جنگی سامان میں توپیں،مارٹر،ہوائی جہازاور ٹینک شامل ہوتے ہیں۔غیرموزوں اور غیرہموار علاقے میں ٹینک آزادانہ حرکت نہیں کر سکتے۔ اس لئے وہ زیادہ خطرناک نہیں ہوتے ہیں ۔بارود سرنگیں اور خفیہ گہرے کھڈے ان ٹینکوں کے خلاف بہترین ہتھیار ہیں ۔دوبدو لڑائی میں پیٹرول سے بھری بوتلیں جنہیں ہم مذاقاََ ’’مولوٹوف کی شراب‘‘ کہتے تھے، بہترین ہتھیار ہیں۔ (ہم یہاں گولہ داغنے والی بندوق کا ذکر کر رہے ہیں جو ان حالات میں بہترین ہتھیار ہے، لیکن گوریلا جنگ کے ابتدائی دور میں اس کااستعمال کچھ مشکل ہے) توپ خانے یا مارٹر سے گولہ باری ان دشمنوں کے خلاف پہلا حربہ ہے جو نرغے کی شکل میں جمع کئے گئے ہوں۔ لیکن وہ دشمن سپاہی جو گھیرے سے باہر نکل کر منتشر ہو جائیں ،زیر زمین پناہ گاہوں میں بیٹھے ہوں ، ان کے خلاف یہ حربہ موثر نہیں ہے۔ طاقت ور بموں اور نیپام بموں کے باوجود ہوئی جہاز گوریلا فوج کے لئے زیادہ خطرناک نہیں ہیں ،کیونکہ گوریلا چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم ہو کر منتشر ہوتے ہوئے دشمن کے بالکل قریب اور اپنے مورچوں میں ہوتے ہیں۔
دور سے کنٹرول کی جانے والی بارود سرنگیں زیادہ کارگر ہوسکتی ہیں۔لیکن ان کا بنانا ، تیار کرنا انتہائی بڑا پیشہ ورانہ فنی مہارت کا کام ہے جو گوریلوں کو اکثر دستیاب نہیں ہوتا ہے۔ دباؤ کے تحت پھٹنے والی بارود ی سرنگیں، فیوز والے بم اور برقی رو سے پھٹنے والی سرنگیں بہت کارآمد ہوتی ہیں۔ بالخصوص پہاڑی علاقوں میں جہاں دشمن ان کا پتہ آسانی سے نہیں لگا سکتا۔ ٹینکوں کو روکنے والے ، یہ اور اس طرح کے اور حربے دشمن کے خلاف بہت کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ان ہتھیاروں کے لئے جن کی حرکت ٹرکوں اورجیپوں کی محتاج ہو جبکہ وہ گاڑیاں رات کے وقت استعمال ہوتی ہوں۔ 
دشمن اکثر اپنی حرکت کے لئے کھلے ٹینک استعمال نہیں کرتا ہے ،جن کے آگے آرمڈ گاڑیاں چلتی ہیں۔ اس انداز سے سفر کرتے ہوئے دشمن کے سارے پلاٹون کو محاصرے میں رکھ کر اچھی طرح ملیامیٹ کیا جا سکتا ہے۔
اگر ہاتھ آ سکیں تو دستی بم اور سولہ گیج کا شاٹ گن جن کے بک شاٹ(Buck Shot) چلائے جائیں،جو اس مقصد کے لئے لاجواب ہیں۔ کامیاب حملہ کے بعد پھر گوریلا فوج کو دشمن کا سازو سامان جمع کر کے فوراََ فرار ہو جانا چاہئے۔
مدافعتی جنگ یا دشمن کا راستہ روکنے کے لئے اسے غیر متوقع حملوں سے اس قدر پریشان کریں کہ اسے آپ کے حفاظتی اقدامات اور ڈیفنس لائن کا پتہ بالکل چلنے نہ پائے اور نہ ہی وہ یہ جان سکے کہ کب اس پر حملہ ہوگا۔ علاقے کے کسان چونکہ راز نہیں رکھ سکتے اور وہ فوج سے خوف زدہ ہوتے ہیں نتیجتاََ ان میں سے کوئی دشمن کو آگاہ کر سکتا ہے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ رات کے وقت کام کیا جائے اور انتہائی قابلِ بھروسہ اور وفادار ساتھیوں کے علاوہ کسی بھی شخص پر اعتبار نہ کیا جائے۔ خوراک کا اچھا خاصا ذخیرہ ساتھ ہونا چاہئے جو کئی دنوں تک چل سکے۔ جس جگہ پر حملہ کرنا ہو،وہ گوریلا پڑاؤ سے کم از کم ایک دن کی مسافت پر ہونا چاہئے۔ کیونکہ دوسرے حالت میں دشمن کو آپ کے پڑاؤ کا پتہ چل جائے گا۔
جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ دشمن کی فائرنگ سے ہی اس کے متعلق اچھی طرح اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بھاری اسلحہ سے لیس شدہ سپاہی فطری طور پر بے تحاشا اور اکثر وبیشتر بغیر نشانہ لئے فائرنگ کریں گے ۔گوریلا فوج اسلحہ کی کمی کے باعث ایک گولی بھی فالتو نہیں چلائے گی ۔اس کے برعکس یہ بھی پاگل پن ہوگا کہ محاصرے میں یا بھٹک کر آئے دشمن کو صرف بارود بچانے کے بہانے پر چھوڑ دیا جائے یا نکلنے کا موقع دیا جائے۔ یہ فیصلہ پہلے ہی کر لینا چاہئے کہ اس طرح کے حالات میں کس قدر گولہ بارود کو ایک مکمل پابندی کے تحت خرچ کرنا چاہئے۔
کوئی بھی اچھا گوریلا کبھی اپنے دستے کی منظم اور باقاعدہ پسپائی سے غفلت نہیں کرتا۔ پسپائی مناسب وقت اور مدت کے اندر انتہائی تیزی کے ساتھ ہونی چاہئے۔ اور تمام زخمیوں معہ سازو سامان اورگولہ بارودکے لوٹنا چاہئے۔پسپا ہوتے وقت گوریلا فوج پر کسی متوقع حملہ یا دشمن کی طرف سے محاصرہ کئے جانے کی کوشش کے امکان کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ اس ضمن میں اِدھر سے اُدھر تک پیغامات پہنچانے کا انتظام ہونا چاہئے۔
لڑائی کے دوران کچھ افراد غیر مسلح رہیں اور باقاعدہ جنگ میں حصہ نہ لیں۔ ہر دس لڑاکا سپاہیوں کے ساتھ دو یا تین ایسے ہو ں جو مردہ ساتھیوں اور دشمن سپاہیوں کے اسلحہ پر قبضہ کرنے کاکام کریں ۔ قیدیوں کو اپنی حراست میں رکھنے، زخمیوں کو پیچھے لے جانے اور پیغا م پہنچانے کا کام سر انجام دیں۔
مدافعتی جنگ میں آپ کی اور دشمن کی پوزیشن اور جائے واردات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے باوجود غیر متوقع اقدامات کے ذریعے دشمن کو تنگ کرناانتہائی ضروری ہے۔ مورچے بنانے یا دوسرے دفاعی اقدامات اٹھاتے وقت اگر علاقے کے لوگ آپ کو دیکھ
لیں تو پھر ایسا معقول و مناسب بندوبست کیا جائے کہ وہ لوگ آپ کے اثر والے علاقے سے باہر نکل نہ سکیں۔دشمن کبھی کبھی گوریلوں کے زیر اثر علاقوں کی ناکہ بندی کر لیا کرتا ہے اور مقامی آبادی کو اپنی ضروریا ت کی چیزوں کے لئے دور دور کے علاقوں تک جانا پڑتا ہے۔ایسے حالا ت میں ’’جلا کر راکھ کر دو‘‘ کی حکمتِ عملی پر عمل کرنا لازمی ہے۔
ایک دفاعی حربہ یہ بھی ہے کہ آمدو رفت کے رستے وغیرہ اس طرح بنائے اور مٹائے جائیں کہ دشمن کا ہر اول دستہ آپ کے چھپے سپاہیوں کے قریب سے گزرے اور شکار ہوجائے۔ اس کا زبردست نفسیاتی اثر یہ ہوگا کہ دشمن کا کوئی بھی سپاہی ہر اول دستے میں شامل ہونے پر تیار نہ ہوگا اور فوج ہر اول دستے کے بغیر پیش قد می نہیں کر سکتی۔ اس کے علاوہ دشمن کو محاصرے میں لیا جا سکتا ہے۔ لیکن اطراف و اکناف کی تمام تر جگہوں پر توجہ دینا،ان پر نظر رکھنا لازمی ہے کہ جہاں سے دشمن فوج کا کوئی حصہ مڑ کر آگے بڑھ سکے اور آپ کے آگے یا سامنے سے گزر سکے۔ اپنی پوزیشن کے تحفظ کے لئے زیادہ آدمی استعمال نہ کئے جائیں اور سپاہیوں کو حکم دیا جائے کہ وہ آخری حکم تک اپنی پوزیشن نہ چھوڑیں۔
اردگرد کے دفاع کا جائزہ لینے والی خندق یا مورچے کو جتنا چھپایا جا سکے،بہتر ہے۔ اور مارٹر حملوں سے تحفظ کے لئے ان پر شیلٹر بنایا جائے۔عموماََا کثر استعمال ہونے والے مارٹر کے گولے جو 60یا65میٹر کے ہوتے ہیں ،وہ مورچوں اور خندقوں کے اوپر مٹی کے گارے اور پتھروں سے بنی مضبوط چھت کو پار نہیں کر سکتے۔ ہر مورچہ اور خندق کے اندر بھاگ جانے کے لئے ایک خفیہ راستہ ہونا لازمی
ہے۔
گوریلا طر ز کی فوج میں جنگ کے وقت کے علاوہ قلعہ بندی اور دفاعی قطاروں وغیرہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ بلکہ یوں سمجھنا چاہئے کہ علاقے پر دن کے وقت دشمن کا اور رات کے وقت گوریلوں کا راج ہوتا ہے۔ اسی علاقے سے رسد ،کمک اور دوسرا سامان گزر کر گوریلوں تک پہنچتا ہے۔ نئے رضاکار آتے ہیں ،وہ آس پاس کی اطلاعات وصول کرتے ہیں ۔اس لئے مقامی آبادی کے ساتھ خوشگوار اور اچھے تعلقات بنانا اور قائم رکھنا لازمی ہے۔ 
اس طرز کی جنگ میں ان لوگوں کا کام جو باقاعدہ لڑائی میں شریک نہیں ہوتے،بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دشمن کے روزانہ حالات کی سہی سہی خبر گوریلوں کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ دشمن کی جاسوسی کے لئے مقرر ہونے والے اشخاص کا انتخاب انتہائی احتیاط اور خبرداری سے کیا جائے ۔ اس میں دشمن کے جاسوسوں کا خطرہ بھی مستقل طور پرموجود رہتا ہے۔لیکن غلط اعلاعات چاہے وہ مبالغہ آمیزی کے باعث ہوں یا غلط فہمی کا نتیجہ ہوں ، بے حد خطرنا ک ہیں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ لڑائی میں شامل لوگ اپنی مشکلات اور خطرات کا ذکر بڑھا چڑھا کر کرتے ہیں۔لوگوں کو دشمن کی جاسوسی کرنے پر آمادہ کرنا اس قدر مشکل کام نہیں ہے ،جیسا کہ سمجھا جاتاہے۔
کاروباری لوگ،پیشہ ور افراد یہاں تک کہ مذہبی رہنما بھی اس سلسلے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔اور مطلوبہ اطلاعات دے سکتے ہیں۔
گوریلا جنگ کی عجیب خاصیت کا یہی فرق ہے جو دشمن کی حاصل کردہ اطلاعات اور گوریلا فوج کی حاصل کردہ اطلاعات میں ہوتا ہے۔
دشمن کے سپاہی جس علاقے سے گزرتے ہیں وہاں کے عوام ان کے خلاف ہوتے ہیں اور وہ ہربات میں خاموشی اختیار کرتے ہیں ۔باغی گوریلا فوج ان دوستوں اور رشتے داروں پر اعتماد کر سکتی ہے جو گوریلا علاقے اور دشمن کے علاقے کے درمیان سفر کرتے رہتے ہیں ۔لیکن جب دشمن درجہ ب درجہ آپ کے علاقے میں پیش قدمی کرتا آگے آئے تو پھر اس ضمن میں محتا ط رہنا چاہئے۔ اکثر مرد بھاگ کر گوریلا دستوں میں شامل ہو جائیں گے لیکن دشمن ان کی املاک اور بچوں پر قبضہ کرے گا۔ایسے لوگوں سے بہترین دوستانہ مراسم رکھیں ،ان کی مدد کریں چاہے اس کی نتیجے میں کوراک کی کمی کے مسائل یا اور مشکلات کیوں نہ حائل ہوں ۔ اس طرح وہ ہمیشہ دشمن کو قابلِ نفرت سمجھتے رہیں گے۔
گوریلا اپنی عددی قلت کے باعث ریزرو(Reserve)فوج نہیں رکھ سکتے،لیکن غیرمتوقع،ناقابلِ اعتبار مخالف حالات ،مشکل اور دشوار لمحات کے لئے ایک گوریلا ریزرو کا ہونا لازمی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ منتخب بہادر لوگوں پر مشتمل ایک خاص پلاٹون قائم کی جائے اور اس کا نام ’’جانبازوں کی پلاٹون‘‘ وغیرہ جیسارکھاجائے۔اور بہادری اور شجاعت کے لئے اس پلاٹون کی شہرت اور ساکھ اس طرح قائم کی جائے کہ اسے انتہائی مشکل مہمات پر بھیجا جائے۔

ہفتہ، 23 نومبر، 2013

میرا تخلیقی عمل ۔۔ تحریر اے آر داد



ایک تخلیق کار تخلیقی عمل کے دوران جن کیفیات سے گزرتا ہے،وہ بلاشبہ اس کی تخلیق پر اثرنداز ہوتی ہیں،اس لئے تخلیق کو جانچنے کے لئے تخلیق کار کے تخلیقی عمل سے تعلق کو جاننا خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔ ہماری خواہش ہو گی کہ اس سلسلے کے تحت ہم بالخصوص بلوچستان کے نامور تخلیق کاروں کے خیالات جان سکیں۔ اے ۔آر۔دادؔ ، بلوچی زبان کے نامور ادیب اور نقاد ہیں۔وہ ان چند ادبا میں شامل ہیں جو معاصر تنقیدی تھیوری پر انتہائی گہری نظر رکھتے ہیں۔ جامعہ بلوچستان کے شعبہ بلوچی سے وابستہ ہیں۔ اس سلسلے کا پہلا مضمون ان کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔



میں کیوں لکھتا ہوں یا میرا تخلیقی عمل کیا ہے،اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ۔ہر کسی نے اپنی دکھ بھری کہانی سنائی ہے کہ یہ ہے میرا تخلیقی عمل یا میں ایسے لکھتا ہوں ۔مجھے یہ اچھا لگتا ہے، مجھے یہ اچھا نہیں لگتا۔لکھتے وقت میرا کوئی نظریہ نہیں تھا یا میں اس لئے لکھتا ہوں کہ اپنا کتھارسس کر سکوں یا پھر بیمار ہو جاؤں۔
اب اگر میں اس سلسلے میں کچھ کہوں بھی تو کیا کہوں۔ میرے لئے تخلیقی عمل سے زیادہ تخلیق کی اہمیت ہے ۔تخلیقی عمل سے یہ پتہ بھی نہیں چلتا کہ لکھتے وقت لکھاری کی اندرونی کیفیت کیا تھی ۔اس لئے تو آج کل آمد اور آورد کی صورتِ حال مشکوک ہو چکی ہے ۔ تخلیق میں دونوں کیفیتیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں ۔لکھت کی اہمیت اب لکھاری سے زیادہ ہو چکی ہے ۔ ’نئی تنقید‘ جو کہ امریکہ کی ادبی سوغات ہے ،آئی اے رچرڈ نے پہلی دفعہ نظم کو اہمیت دی۔ نظم نگار کو صیغہ راز میں رکھا تاکہ تبصرہ کرتے وقت نظم ان کی شخصیت پہ بھاری نہ پڑ جائے ۔ نئی تنقید،تاثراتی تنقید سے متاثرہ چیز تھی ۔اس میں ہمارے ٹی ایس ایلیٹ صاحب بھی شامل تھے جو ادب کو شخصیت سے فرار سمجھتے تھے ۔دیکھنے اور محسوس کرنے والے کے درمیان فرق ہے ۔ادب کوئی سوانح عمری نہیں ہے کہ اس میں ادیب صرف اپنی کہانی لکھتا رہے ۔حالات بدلتے ہیں۔ فکر و خیال میں تبدیلی آئے گی ۔ویسے بھی ادب فکر و خیال سے زیادہ زبان کے تخلیقی عمل سے تعلق رکھتا ہے ۔تو پھر فنکار کی شخصیت کو ہم کہاں رکھیں؟ ویسے بھی ہماری تہذیب میں لباس کی قیمت آدمی سے زیادہ ہے ۔ اس تہذیب میں آرٹ و فن سے زیادہ فنکار، قبیلہ اور خاندان کی بالا دستی چلتی ہے ۔اس جیسی تہذیب میں نئی تنقید اور فن کی آبیاری ایک بڑی تبدیلی ہے۔
اس تبدیلی سے فن کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔ اب آپ کہیں ،میں اپنی کہانی کیا بیان کروں جو فن کے لئے بس ایک وسیلہ یا میڈیم کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ بس جو کچھ کہیں سے مل جائے، پڑھ لینا۔ یہ مت سوچنا ،فنکار کا چہرہ کیسا ہو گا۔ کس برانڈ کی سگریٹ پیتا ہو گا۔ ایک زمانے میں لوگ ان باتوں میں دلچسپی ضرور لیتے تھے ۔مگر عرصہ گزر جانے کے بعد پتہ چلا کہ فنکار یکتا پسند تو ہے مگر اس کے فن میں کوئی خاص انفرادیت نہیں ۔ فیض احمد فیضؔ نے لکھا ہے کہ جب میں نے سارتر کو دیکھا تو وہ مجھے کوئی فلاسفر نہیں لگا، وہ سیٹھ یا دکاندار نظر آ رہا تھا۔ تحلیلِ نفسی کے لئے نفسیاتی ادب کو فنکار کے خطوط و ڈائری یا نجی زندگی کے گوشوارے کی ضرورت ہوتی ہے ۔مگر اس سے فنکار کے بارے میں کچھ ہاتھ لگنے والا نہیں ۔ وہ اس لئے کہ ادب اور نفسیات کے اشارے و علامات کے درمیان بڑا تفاوت ہوتا ہے ۔نفسیات کے اشارات پہلے سے متعین ہیں ،مگر ادب میں ایسا نہیں ہوتا۔
میں نے بس پڑھا۔ پڑھنے کی کوشش کی۔ بڑے لوگوں کو پڑھنے کی کوشش کی تاکہ ان سے کچھ سیکھوں۔ میں اب بھی پڑھتا ہوں۔ یہی ایک کام ہے بس۔روسی، لاطینی، فارسی، عربی پڑھ کر ان پر بولنے کی کوشش کرتا ہوں۔ پھر یہ بھی سوچتا ہوں کہ ان کی اپنی زبان میں کیا اہمیت ہو گی ۔جب بڑی زبانوں کو پڑھ کر اپنی طرف دیکھنے کی کوشش کرتاہوں توکچھ اچھا نہیں لگتا۔ مطمئن نہیں ہوتا ہوں۔ دل چاہتا تو ہے کہ ہمارے ہاں بھی اس قسم کی چیزیں تخلیق ہوں مگر شاید آنے والی نسل کچھ مزید کرب و شدت سے گزر کر یہ راز پا لے کہ صرف تجربے کو بیان کرنا کوئی کمال کی بات نہیں ۔ادب ،صحافت سے اس لئے مختلف ہوتا ہے کہ صحافت میں سوچنے اور فکر کرنے کی گنجائش کم نکلتی ہے ۔وہ اس لیے کہ صحافت میں جانب داری شامل ہوتی ہے ۔ادب میں مصنف خود کسی چیز سے محبت اور نفرت نہیں کر سکتا۔ اس لئے ادب ہمیشہ پڑھنے والوں کے لئے ہوتا ہے ۔میں لکھنے سے زیادہ پڑھنے کو اہمیت دیتا ہوں ۔میں جب اسکول میں پڑھتا تھا تو رضیہ بٹ اور سلمیٰ کنول کو بھی پڑھتا تھا ۔ساحر ؔ اور ساغرؔ صدیقی بھی اچھے لگتے تھے ۔مگر اب میں کسی کو بھی یہ بری نصیحت نہیں کرتا کہ انہیں پڑھیں۔اب تو میں کسی بھی دوست کو یہی کہوں گا کہ اگر اردو فکشن پڑھنا ہے تو انتظار حسین کو پڑھیں۔ ان سے اساطیر اور استعارات کو برتنے کا فن سیکھیں ۔ انور سجاد سے یہ سیکھیں کہ موسیقی اور کہانی کے درمیان نازک فرق کیا ہے۔ لفظوں سے آہنگ اور موسیقی کیسے پیدا کی جا سکتی ہے۔ سریندر پرکاش اور بلراج مین را کو پڑھیں تب آپ کو پتہ لگے گا کہ اچھا لکھنے کے لئے کتنی محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔
بڑ ے لکھاریوں کی یہی بڑی خصوصیت ہوتی ہے کہ ان کو پڑھنے کے بعد لگتا ہے کہ اچھا لکھنا محنت طلب کام ہے ۔ ورنہ مڈ ویک، عام میگزین اور پرچوں کے لکھاریوں سے متاثر ہونا اور ان کا مقابلہ کرنا کہ میں بھی ایسا لکھ سکتا ہوں ،مشکل کام نہیں ہے۔اس لئے ہمارے ہاں بُرے لکھاریوں کی تعداد زیادہ ہے کہ وہ اپنے سے کم تر لوگوں کو پڑھ کر لکھنا شروع کر دیتے ہیں ۔بلوچی میں میری ایک دو کتابیں ضرور آ چکی ہیں مگر میں ان سے خوش نہیں ہوں اور نہ خوش ہونا چاہتا ہوں ۔ ایک کام جسے کرنے کی آرزو ہے وہ یہ کہ بلوچی قدیم شاعری کی شعریات کو مرتب کروں۔ یہ دیکھوں کہ ہمارے یہاں شاعری میں مضمون کی اہمیت زیادہ تھی یا استعارے کی، یاہمارے ادبی معاشرے میں شعر کی قدر ومنزلت کا تعین کرنے کے لئے کون سی چیزیں ضروری تھیں۔ میں ادب کی ’ادبیت‘ کو پسند کرتا ہوں ۔ مجھے نئی تنقید اور روسی فارملزم والوں کی باتیں اچھی لگتی ہیں ۔ اس لئے میں ژاک دریدا کی ردِ تشکیل کو بھی پسند کرتا ہوں ۔ جہاں معنی آفرینی ہوگی،وہاں فن ہوگا،ادبیت ہو گی۔ وہ تخلیق ہمیشہ زندہ رہے گی۔ میں روز نیا اور اچھا پڑھنے کی حسرت لئے نکلتا ہوں ۔مجھے تخلیق کار کی انفرادیت سے ان کی فنی انفرادیت زیادہ
پسند ہے۔
ادب نہ تاریخ ہے ، نہ نظریہ ،نہ پروپیگنڈا و تبلیغ۔ یہ وقتی چیزیں ہیں ۔ ان میں ادب کو زندہ رکھنے کی آب و تاب نہیں ہوتی ۔ یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جو تخلیقی سطح پر بانجھ ہوتے ہیں ۔کسی نظریے کا سہارا لے کر ٹائم پاسی کا نعرہ مستانہ بلند کرتے نظرآتے ہیں۔بوڑھے لوگ فائدے کا زیادہ سوچتے ہیں۔
میرا تخلیقی عمل کچھ اس طرح کا ہے ۔اسی سے مجھے تحریک ملتی ہے ۔انہی سے میں اپنی کہانیاں بُنتا ہوں اور نظمیں لکھتا ہوں۔ میں جب اپنے شہر میں ہوتا تھا تو اپنے بیٹے،جو اس وقت دس سال کا ہو گا، کو لے کر والدین کی قبر پہ فاتحہ پڑھنے جاتا تھا۔ایک روز ہم فاتحہ پڑھ کر کسی تنگ گلی سے واپس گھر کی طرف لوٹ رہے تھے ۔ہمارے درمیان خاموشی تھی ۔میرے بیٹے نے کہا؛ ’’ابو ،جب آپ مر جائیں گے تو میں فاتحہ پڑھنے قبرستان آیا کروں گا۔‘‘
اس بات کو دو سال گزر جانے کے بعد بھی میں اپنے اندر محسوس کرتا رہتا ہوں ۔مجھے یوں لگتا ہے کہ آج ہم کسی تنگ گلی سے ہو کر گھر کی طرف واپس لوٹ رہے ہیں اور خوشحال (میرا بیٹا)کہہ رہا ہے؛’’ابو،جب آپ مر جائیں گے میں فاتحہ پڑھنے آیا کروں گا۔‘‘
یہی چیز مجھے کہانی اور نظم لکھنے پر اکساتی ہے ۔ میں انہی باتوں ،مناظر،چہروں، کھڑکیوں حتیٰ کہ خاموشی میں ذرا سی آہٹ سے متاثرہو کر لکھتا ہوں ۔میں کبھی بھی بڑے حادثے سے متاثر نہیں ہوا۔اگر ہوا بھی تو اس حادثے کی بجاے ایک ایسے مختصرواقعے سے جس کی لوگوں کی نگاہوں میں کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔
مجھے جنگ کی روداد سے زیادہ ایک سپاہی کا اپنے آپ سے محوِ گفتگو ہونا یا خود کلامی کرنا اچھا لگتا ہے۔ یہ بات میں نے جیمس جوائس سے سیکھی تھی کہ ادب لکھنے کے لئے بڑے واقعے کی ضرورت نہیں ہوتی،بلکہ بڑا فنکار وہ ہے جو ادنیٰ سے واقعے میں سے بڑی بات نکال لے۔ پرانے مضمون میں سے نئی بات نکالنا ایک مشکل کام ہے۔ یہی مضمون آفرینی ہے ۔ یہی بین المتنیت ہے۔

جمعہ، 8 نومبر، 2013

آہ ! سنگت بالاچ مری..... تحریر: اسلم بلوچ



خوبصورت آنکھیں کسی بھی چیز پر جماکر ذہن میں گہرائی سے کسی کے متعلق مشاہدہ کرنے والی ادا کا مالک، لاشعور کے خوبصورت تصورات سے نکل کر تلخ حقائق کا سامنا بڑے صبر اور دلیری سے کرنے والا سنگت بالاچ مری بدقسمتی سے آج ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ زندگی اور موت کا فطری واسطہ کسی بھی طاقتور یا کمزور کی خواہشات کے مطابق تکمیل پذیر نہیں ہوتا۔ اس کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں جن میں کچھ حادثاتی، کچھ طبعی اور کچھ سوچ و فکر کے برعکس۔تضادات اور حق اور باطل کے بیچ پیدا ہونے والے حالات میں اپنے لیے آپ تعین کرنے سے متعلق رکھتے ہیں یہاں منتخب راہ پر انجام کا یقین پختہ ہوتا ہے۔ مجھے اور میرے جیسے لاکھوں بلوچ فرزندوں کو شہید سنگت بالاچ مری پر فخر ہے کہ اس نے جس راستے کا انتخاب پورے ہوش و حواس سے کیا وہی حقیقی بلوچ نجات کا ذریعہ ہے۔ویسے تو مختصر ملاقاتیں مختلف اوقات میں 1997ء سے 1999ء تک شہید سنگت بالاچ مری سے ہوچکی تھیں، جسٹس نواز قتل کیس کے بعد جلاوطنی میں ایک دو مرتبہ فون پر صرف حال احوال ہوا۔ساتھیوں کے مشورے سے جب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور پھر کوہستان مری کے ہیڈ کوارٹر کاہان تشریف لائے۔ مجھے یاد ہے کہ میں ان دنوں کسی کے سلسلے میں کرموڑھ، تراتانی سے ہوتے ہوئے سیاہ گری پہنچا تو پتہ چلاکہ شہید سنگت بالاچ مری کاہان میں موجود ہیں۔ ساتھیوں سے ملاقات کی اجازت لے کر میں چند ساتھیوں سمیت کاہان پہنچا۔ رات کو کھانا کھانے کے بعد تفصیل سے بات چیت ہوئی تب میں نے پایا کہ شہید سنگت بالاچ مری ایک پختہ ارادے اور عزم کے ساتھ قومی کاروان میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ طاقتور قبضہ گیر دشمن کے مقابلے میں کمزور اور بے پناہ فوجی اور دنیا کے نقشے پر تسلیم شدہ غیر فطری ریاست کے مقابلے میں ایک گروہ کی حیثیت سے اور ایک طرف مکمل تربیت یافتہ، تعداد میں کم ساتھیوں کے ساتھ اس جذبے کے ساتھ میدان میں اُتراکہ ہم بدل سکتے ہیں۔ہم ضرور بدلیں گے اور ہم نے ہی بدلنا ہے، چاہے ہماری جان جائے، گھر،بچے، خاندان، عیش و آرام سب کچھ قربان کرکے اگر ہم کامیاب نہ ہوئے تو بھی مجھے پرواہ نہیں کیونکہ ہم اپنے آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے وہ راہ نجات واضح کرکے جارہے ہیں اور تاریخ میں اپنے فرض کی بابت کسی بھی خوف و لالچ میں آئے بغیر اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے شہداء اور اکابرین کے نقش قدم پر چل کر سرخروہوں گے۔یہ جذبہ و الفاظ تھے شہید سنگت بالاچ مری کے اس تمام عرصے میں وہ عسکری محاذ پر برسرپیکار ساتھیوں کے ساتھ رہے اور بہت سے موا قع پر ساتھیوں کی بہترین رہنمائی کی۔ شہید سنگت بالاچ مری کے عسکری محاذ پر موجودگی نے تنظیمی ساتھیوں کو اور زیادہ حوصلہ دیا۔ شہید سنگت بالاچ مری کے ساتھ اکثر و بیشتر ملاقات کا سلسلہ چلتا رہا ہم جب بھی کسی تنظیمی کام کے سلسلے میں سیاہ گری یا کرمووڑھ جاتے تو سنگت بالاچ مری سے نشست ضرور ہوتی جس میں سب سے زیادہ جو مسئلے زیر بحث آتے ان میں سیاسی محاذ پر قابض علی بابا اور چالیس ٹھگوں کا ذکر ضرور ہوتا جو نہ تجربہ، نہ دلیل اور بغیر منطق کے بلوچ کی قومی کمزوری اور تعلیم کو جواز بناکر قابض کی قبضہ گیری کو جائز قرار دیتے ہوئے شرم بھی محسوس نہیں کرتے اور جو بلوچ کی قومی حیثیت اور جغرافیائی قومی وحدت کو قبضہ گیر اور صوبہ میں ضم مراعات اور رائلٹی کا ناروا مطالبہ کرکے اپنے لیے پس پردہ مراعات حاصل کرتے ہوئے ذرابرابر بھی خوف و عار محسوس نہیں کرتے۔ کوہستان مری اور ڈیرہ بگٹی میں فوجی حملے کے وقت میں بولان کے محاذ پر تھا، شہید سنگت بالاچ مری سے ہمارا رابطہ رہتا تھا۔بدقسمتی سے فوج کشی کے بعد ہماری روبرو ملاقات نہیں ہوئی، قابض دشمن کی طرف سے تین ریڈ ٹارگٹ: شہید نواب اکبر خان بگٹی، شہید بالاچ مری اور اللہ سلامت رکھے نوابزادہ براہمدغ بنائے جانے کے بعد دشمن کی توجہ کی مرکز ڈیرہ بگٹی اور بھمبورسمیت مری علاقہ رہا ۔ اس تمام محاصرے اور حملے میں شہید سنگت بالاچ مری اور ساتھی اپنی بہترین حکمت عملی کی وجہ سے علاقے میں موجود رہے، شہید نواب اکبر خان بگٹی کا سانحہ بھی گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کی مثل رہا۔ اس ساری جنگ میں دشمن کی کامیابی اور رسائی نواب شہید کی قابلیت اور ہنر‘ اس حد تک رہا کہ وہ ہمارے اندر موجود جعفر و صادق تک پہنچ سکا ورنہ تو یہ خواہش بھی ایک خواب رہ جاتا۔اس تمام عرصے میں شہید سنگت بالاچ مری اور نوابزادہ براہمدغ بگٹی جنگی حکمت عملی کے تحت بلوچ سرزمین کے علاقے بدلتے رہتے اور ساتھیوں کی قیادت کرتے رہتے اور کبھی ایک لمحے کے لئے بلوچوں کی نا اتفاقی، تعلیم سے دوری،کمزوری،کم تعداد ،سیاسی اور عسکری محاز کو جواز بنا کر اپنی ذ مہ داریوں سے رو گردانی نہیں کی،ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ اس جنگ کو جاری رکھ کر ہی ہم اپنی تمام قومی خامیوں اور کمزوریوں پر قابو پاہیں گے اور جنگ ہی ہمارا کھرا اور کھوٹا الگ الگ کرے گا۔

میرا آخری رابطہ شہید سنگت بالاچ مری کی شہادت سے شاید دو گھنٹے پہلے ہوا،وہ آواز جو ، اب شاید میں زندگی بھرنہ سن سکوں وہ مہربان دوست ،جو ہم سے جدا ہوا کو ہم میں سے ہر ایک نے شدت سے محسوس کیا اور ہمارے منہ سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے کہ یہ وقت تو جانے کانہیں تھا۔خیروہ قومی فکر جو تیمور، مغل، عرب، انگریز قبضہ گیروں اور حملہ آوروں کے خلاف بلوچ فرزندوں نے اپناکر سرزمین اور قوم کی پاسبانی کی ، جنہوں نے غلامی کی زندگی سے شہادت کو ترجیح دی اور آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بن گئے خوش قسمتی سے شہید سنگت بالاچ مری بھی اسی فکر کا پاسدار رہا جس نے اپنا سب کچھ قوم و وطن کی بابت فرائض کی ادائیگی پر قربان کرکے یہ ثابت کردیا کہ وطن کے مخلص سپوت کے لیے جدوجہد اور اس بابت موت ہی کامیابی ہے اور ناکامی اور تذلیل ہیں فرائض سے روگردانی، قربانی سے کترانا ، مصلحت پسندی اور بزدلی۔نوجوانوں، شہید نواب اکبر اور شہید سنگت بالاچ مری کی شہادت نے ہم سب کے لیے ایک واضح پیغام چھوڑا ہے کہ ذاتی اور انفرادی فکر چھوڑدو، اپنا وقومی فکر اور کسی بھی قربانی کے لیے تیار ہوجاؤ،تاکہ حاصل کرسکو اپنی آزادی جو تمہارا اور ہمارا سب کا فطری حق ہے۔
************************
(نوٹ۔۔ یہ کالم جنوری2008کو  شائع ہوچکا ہے۔)

منگل، 5 نومبر، 2013

تنقید کا استعمال اور قرآن کریم و حدیث نبوی


نوٹ۔۔۔۔ یہ تحریر کس کی مجھے نہیں معلوم ۔۔۔
 مجھے ایک دوست نے فیس بک پہ یہ بھیج دیا تھا ۔۔۔
بغیر حوالہ دیئے ۔۔۔۔
.....................................................
مفيد تنقيد کا اصول

سوال: تنقید کے مفید یا غیر مفید ہونے کا تعلق کن امور سے ہے ، کیونکہ تعمیری تنقید تقریباً ہر مسئلےمیں سب سے اچھی اور افضل بات تک پہنچنے کا ایک ذریعہ سمجھی جاتی ہے؟ وہ کون سے اخلاق ہیں جن کا تنقید کرنے والے یا تنقید کا نشانہ بننے والے کو خیال رکھنا چاہئے؟
جواب : تنقید کے معانی میں سے ایک معنی یہ ہے کہ کسی بھی لفظ ، فعل یا برتاؤ کو پرکھ کر اس کے مثبت ومنفی پہلؤوں کو آشکارا اور جو چیز موجود ہے اور جو ہونی چاہئے، ان میں موازنہ کیا جائے۔ تنقید ان اہم علمی اصولوں میں سے ایک ہے جو کسی بھی شے میں مثالی کے درجے تک پہنچنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس رخ سے اس کا استعمال سلف صالحین کے زمانے سے ہو رہا ہے۔مثال کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول روایات کی صحت تک رسائی کے لئے ان کی سند اور متن پر تنقید کی گئی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تنقید کا استعمال صرف حدیث نبوی کے میدان میں ہی نہیں ہوا بلکہ یہ عصر اول سے ہی قرآنی آیات کی تفسیر اور احادیث کی شرح جیسے بہت سےمیدانوں میں حقیقت کے اظہار کے لئے ایک اہم نظام بن گئی تھی، اور اسی علمی نظام کے تحت ان اجنبی افکار کا مقابلہ ممکن ہوسکا جن کو اسلام میں ملانے کا ارادہ کیا گیا۔ اسی طرح افکار میں تصادم کی صورت حال میں مختلف تفسیروں اور اجتہادات کی صحت اور سقم کو پرکھا گیا اور علم مناظرہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان پر بحث ہوئی۔ چنانچہ ان افکارکو تنقید اور مراجعت کی بھٹی سے گزارا گیا اور اس طرح حق کی کرن ظاہر ہوئی۔
اس طرح خصوصی طور پر سند حدیث پر تنقید کے بارے میں ایک عظیم میراث وجود میں آئی اوررواۃحدیث پر جرح وتعدیل اور تنقید کے رخ سے کئی جلدوں پر مشتمل کتابیں لکھی گئیں اور یوں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول روایات کی صحت کو معلوم کر لیا گیا۔ اس کے باوجود علماء کرام انتہائی درجے تک اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ تنقید کے مطلوبہ ہدف سے ہٹ کر کوئی بھی لفظ ان کی زبان سے نہ نکل جائے اگرچہ وہ تنقید کے اہم موضوع کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ اس باب میں انہوں نے نہایت حساسیت اور باریک بینی کا مظاہرہ کیا ۔ مثلاً حضرت شعبہ بن الحجاج(جو علم علم جرح وتعدیل کی بنیاد رکھنے والوں میں سے ایک ہیں) کو یہ کہتے دیکھتے ہیں:”چلو اللہ کی خاطر غیبت کریں!‘‘ اس سے ان کی مراد شیوخ حدیث کے بارے میں بات ہے۔ (الذہبی، سیر اعلام النبلاء: 6/616) ان الفاظ سے آپ اس کام یعنی رواۃ حدیث پر تنقید کی ضرورت اور اس کے ساتھ ہی اس بات کی ضرورت کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ یہ کام صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لئے ہونا چاہئے۔
جی ہاں، ہمارے اس عالم میں تنقید کو زیادہ اچھی بات تک پہنچنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے خواہ وہ دینی میدان میں ہو یا تطبیقی علوم کے بارے میں خصوصاً پہلی پانچ ہجری صدیوں میں ۔ اس کے نتیجے میں موجودہ حالات میں بھی اس علمی نظرئے کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ تنقید کے موضوع پر بے انصافی نہ کی جائے اور پاس ادب رکھا جائے اور مسئلے کو پورے اہتمام اور حساسیت کے ساتھ لیا جائے۔ اس بارے میں کچھ ایسے نظریات موجود ہیں جن کو ہم تنقید کے آداب یا اصول کہہ سکتے ہیں۔ ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
بہت سے تالے انصاف اور نرم اسلوب کے ذریعے کھولے جا سکتے ہیں:
تنقید کا اسلوب سنجیدہ اور اسے پیش کرتے وقت انسانی کلام کے سب سے اچھے اسلوب کا انتہائی درجے تک خیال رکھنا ضروری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تنقید ایسے طریقے سے ہو کہ سامنے والا اسے خوشدلی سے قبول کر لے اور اس کی وجہ سےمخاطب کسی رد عمل پر نہ اتر آئے۔ اس لئے اگر آپ اپنی معقول اور منطقی آراءاور خاص مشکلات سے تعلق رکھنے والے متبادل افکار کو انسانی اسلوب میں نرمی اور انصاف سے پیش کریں تو تمہیں دوسروں کی جانب سے احترام ملے گا اور آپ کے افکار کو شرف قبولیت۔ مثال کے طور پر آپ کسی موضوع سے متعلق اپنی رائے کی وضاحت کرتے ہیں مگر آپ کا مخاطب اس کے بالکل بر عکس سوچتا ہے تو اگر آپ اس کو یوں مخاطب کریں کہ: ’’جناب میں اس مسئلے کو یوں سمجھتا ہوں لیکن جب میں نےآپ کے الفاظ پر غور کیاتومجھے اس کا ایک اور مختلف پہلو نظر آیا‘‘ تو ہو سکتاہے کہ کچھ وقت کے بعد وہ شخص دوبارہ آ کر آپ سے کہنے لگے کہ: ’’مجھے معلوم ہو گیا کہ جس مسئلے کے بارے میں ہم نے پہلے بات کی تھی وہ اسی طرح تھا جس طرح آپ نے کہا‘‘۔ اس وقت آپ کو یہ جواب دینا چاہئے کہ :’’میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ کس قدر انصاف پسند ہیں!‘‘ اس رخ سے انسان کو چاہئے کہ وہ بعض اوقات اپنے خاص تجربات، علمی معلومات اور انانیت کو اس وقت ہیچ سمجھے جب حقیقت کے احترام اور اس کے دل میں اترنے کا تقاضا ہو اور اس پر لازم ہے کہ وہ ہمیشہ حق کا پرچم بلند کرے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ اگر معقول بات کو معقول انداز میں قبول کرانا مقصود ہو تو پھر دوسروں کے افکار کو بھی معقول انداز سے پرکھنا چاہئے(خواہ وہ غیر معقول ہی کیوں نہ ہوں) اور ہمیشہ کھلے دل سے ان کا سامنا کرنا اور سچائی اور اخلاص کا ایسا ماحول تشکیل دینا چاہئے جس سے وہ حق اور حقیقت کو قبول کر سکیں۔
عمومی بات اور پردہ پوشی کا اہتمام:
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جو شخص دوسروں کی آراء کااحترام نہیں کرتا (خواہ وہ کسی بھی میدان میں ہو) اوران کو ہمیشہ کھوٹے سکوں کی طرح نظر انداز کر دیتا ہے اور ان کو فضول سمجھتا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ (غیر محسوس طور پر) ایسی بہت سی ”قیمتی “چیزوں سے محروم ہو جائے جو اس کو فائدہ دے سکتی تھیں۔ اس رخ سے یہ بات لازم ٹھہری ہے کہ تمام افکار کو ایک خاص حد کے اندر احترام کے ساتھ دیکھنا چاہئے اگرچہ وہ کھوٹے سکے یا پیتل، یا لوہا یا تانباہی کیوں نہ ہوں۔اگر ہم اس طریقے پر چلیں گے تو ہم اپنےمخاطبین کو حقائق پر قائل کرنے کا بہترین درست طریقہ پالیں گے، ورنہ وہ الفاظ جو تکلیف دہ شکل میں ذکر کئے جاتے ہیں گویا دوسروں کے سروں پر برسنے والے ہتھوڑے ہیں وہ حسن قبول کی مستحق نہیں ہوں گے خواہ وہ کیسے ہی خوبصورت افکار یا منصوبے کیوں نہ ہوں بلکہ اگر تنقید کے اسلوب پر غور نہ کیاجائے تو اس کے رد عمل سے بچنے کا بھی کوئی طریقہ نہیں، یہاں تک کہ اگر کسی شرعی مسئلے میں کوئی غلطی ہو تو اسے بھی شرعی دلائل کے ذریعے معین کیا جائے گا۔ مثلا اگرآپ اپنے کسی دوست کو دیکھتے ہیں کہ وہ حرام کو دیکھ رہا ہے تو اگر آپ اس سے ایسے اسلوب سے پیش آئیں جس سے وہ پردہ ختم ہوجائے جو تمہارے درمیان ہے اور اس سے یوں کہیں کہ ”تم یوں یوں کر رہے ہو۔ اپنی آنکھ کو تھوڑا نیچے کرو ۔حرام کے قریب نہ جاؤ۔“ تو ہو سکتا ہے کہ آپ کی یہ تنقید (اللہ تعالی محفوظ رکھے) اسے شیطان کا وکیل بنا سکتی ہے، خاسوقت جب مخاطب اپنے تصرفات اور برتاؤ پر آپ کی تنقید کے لئے تیار ہو نہ تنقید کو اچھا سمجھتا ہو اور نہ اس کو قبول کرتا ہو تو ایسی میں آپ کی ہر تنقید اس کے رد عمل کا سبب بنے گی اور اس کے اندر حق کا احترام نہ کرنے کاجذبہ پیدا ہوگا اور یہ تنقید اسے ہمارے ذاتی اقدار کا دشمن بنا دے گی، یہاں تک کہ اگر وہ اس بات کا یقین بھی کرلے کہ جو کچھ کہا جا رہاہے وہ حق ہےتو وہی اس کے ذہن میں بہت سے ایسے فلسفے ہو سکتے ہیں جو حق کو باطل بنا کر دکھائیں اور یہ سب کچھ ان روحانی ضربوں کی وجہ سے ہوگا جو اس  کی سر پر پڑی ہیں بلکہ (جب وہ رات کو اپنے بستر پر دراز ہوگا یا وہ اپنے اوپر ہونے والی تنقید کا جواب سوچے گا۔
اس وجہ سے ضروری ہے کہ کسی بات کو تنقید کے ذریعے حل کرنے کے لئے بالواسطہ خطاب کو ترجیح دی جائے کیونکہ نبی کریم ﷺ جب کسی شخص کی کوئی غلطی یا کوتاہی ملاحظہ فرماتے تھے تو براہ راست اسے مخاطب نہیں فرماتے تھے بکلہ لوگوں کو جمع فرما کر سب سے مخاطب ہوتے، اس طرح غلطی کرنے والے کو اس خطاب سے عبرت اور نصحیت حاصل کرنے کا موقع مل جاتا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک بار نبی کریمﷺ نے ایک شخص کو زکاة جمع کرنے پر ما مور کیا جب وہ واپس آیا تو کہنے لگا: یہ آپ کا ہے اور یہ مجھے تحفہ ملا ہے"۔ چنانچہ یہ سن کر آپ علیہ السلام منبر پر کھڑے ہوئے ، اللہ تعالی کی حمد وثناء کی اور اس کے بعد فرمایا: "مَا بَالُ العَامِلِ نَبْعَثُهُ فَيَأْتِي يَقُولُ: هَذَا لَكَ وَهَذَا لِي، فَهَلَّا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ، فَيَنْظُرُ أَيُهْدَى لَهُ أَمْ لَا" ( اس عامل کو کیا ہوا ہے جس کو ہم بھیجتے ہیں اور وہ واپس آکر کہتا ہے کہ یہ آپ کا ہے اور یہ میرا ہے (اگر ایسا ہے ) تو وہ اپنے ماں باپ کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا تاکہ وہ دیکھتا کہ اس کو تحفہ دیا جاتا ہے یا نہیں۔ (البخاری،الاحکام : 24، مسلم، الامارة: 26)
اب ایک نہایت اہم بات یہ ہے کہ تنقید اور رہنمائی کون کرے گا۔اگر ہمیں کسی شخص پر تنقید کرنے کی ضرورت پیش آجائے، تو کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ یہ کام خود کرنے پر اصرار کرے بلکہ اس کام کو کسی ایسے آدمی کے لئے چھوڑ دے جس کو مخاطب پسند کرتا ہے، کیونکہ محبوب کی تنقید کو بھی مدارات اور تعریف سمجھا جاتا ہے۔
جی ہاں، اگر آپ دیکھیں کہ آپ کے کلام سے مخاطب کے ذہن میں نفرت پیدا ہوگی تو اس بات کو چھوڑ دیں اور کسی اورکو بات کرنے کا موقع دیں کیونکہ حقیقت کو بیان کرنے والا اہم نہیں بلکہ اہم بات یہ ہےکہ اس حقیقت کو دل قبول کریں۔
یہ بات خالی از فائدہ نہ ہوگی کہ میں آپ کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسوں حضرت حسن اور حضرت حسین کا ایک واقعہ بیان کروں۔ اگرچہ یہ واقعہ صحیح احادیث کی کتابوں میں مذکور نہیں مگر اس کے باوجود عبرت اور نصیحت سے بھر پور اسباق پر مشتمل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ دونوں کا گزر ایک بوڑھے شخص پر ہوا، جو وضو کر رہا تھا مگر اس نے اچھی طرح وضو نہ کیا تو نادر فطرت وفراست کے مالک ان دونوں حضرات نے اس شخص کو نصیحت کرنے اور وضو کا طریقہ سکھانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ دونوں اس کے پاس کھڑے ہوکر کہنے لگے: "چچا جان، ذرا دیکھیئے ہم دونوں میں سے کون اچھی طرح وضو کرتا ہے"۔ اس کی بعد دونوں نے اس طرح وضو کیا جس طرح اپنے نانا سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے والد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو وضو کرتے دیکھا تھا۔ اس طرح وہ شخص کسی اعتراض کا نشانہ بنا اور نہ صریح تنقید کااور نہ براہ راست اس کی غلطی کی جانب اشارہ ہوا۔ وہ ضمیر کے اطمینان کے ساتھ کہنے لگا : "آپ دونوں نے اچھی طرح وضو کیا جبکہ میں اچھی طرح نہ کر سکا"۔
اس لئے میں دوبارہ اس جانب توجہ دلاؤں گا کہ کسی بھی مسئلے کے بارے میں تنقید ایسے مناسب اسلوب کے بغیر قابل قبول نہیں ہو سکتی جس کا مقصد غلطی کی تصحیح اور درست بات کا اظہار ہو اور اسے اچھے انداز اور تیاری کے ساتھ پیش کیا جائے۔
مخاطب کی ایسی تربیت کہ وہ تنقید برداشت کرسکے
اس مسئلے کا ایک اور رخ یہ بھی ہے کہ مخاطبین کو اس درجے تک پہنچا دیا جائے جہاں وہ تنقید کو قبول کرسکیں اور ان میں حق کےاحترام کا شعور بیدار کیا جائے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس مرتبے تک پہنچے ہوئے تھے۔ اس لئے ایک دوسرے کی غلطیوں کا مقابلہ بڑی خوشنودی اور مکمل سکون سے کرتے تھے اور اس بات سے کبھی ان میں کوئی اختلاف نہ پیدا ہوتا تھا۔ ایک روز حضرت عمر منبر پر تشریف فرما ہوئے او ربعض ایسے طریقوں کے متعلق بات کی جن کا مقصد شادی میں آسانیاں پیدا کرنا تھا اور اس جانب اشارہ فرمایا کہ مہر اتنا ہونا چاہئے جتنا سب کے لئے قابل برداشت ہواور مہر زیادہ رکھنے سے باز رہنے کی جانب توجہ مبذول کرائی۔ یقینا یہ بات استحصال سے محفوظ رکھنے کے لئے کسی حد تک ایک اچھا حل تھا، ایسے ہی اس مسئلے کا احساس اور اس میں آسانی کرنے سے اس دور کی ایک بہت بڑی معاشرتی مشکل حل ہوسکتی ہے۔
مگر ان الفاظ کے مقابلے میں خواتین کے چبوترے سے ایک عورت کھڑی ہوئی اور بولی:امیر المؤمنین، یہ بات آپ کے ہاتھ میں نہیں کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلاَ تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا﴾ (النساء : 20) (اور اگر تم ایک عورت کو چھوڑ کر دوسری عورت کرنی چاہو۔ اور پہلی عورت کو بہت سال مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ مت لینا۔ بھلا تم ناجائز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال اس سے واپس لے لوگے؟)
اس وقت حضرت عمر ایک ایسی سلطنت کا انتظام چلا رہے تھے جو ترکی سے بیس گنا بڑی تھی اور انہوں نےہی اس زمانے میں دو عظیم قوتوں کو جھکایا او ران کو اپنی اطاعت اور قلمرو میں شامل ہونے پر مجبور کیا تھا، مگر اس سب کے باوجود یہ الفاظ سن کر فورا رک گئے اور آپ کے لبوں سے یہ الفاظ نکلے: "اے اللہ تو معاف کردے! عمر تم سے تو سارے لوگ زیادہ سمجھ رکھتے ہیں"۔ (تفسیر ابن کثیر در تفسیر آیت بالا)حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس انتہائی حساسیت کی وجہ سے آپ کو "وقاف عند کتاب اللہ"( اللہ کی کتاب کے سامنے بہت زیادہ کھڑا رہنے والا کے) لقب سے پکارا جاتا تھا۔ (ابن الاثیر، اسد الغابۃ : 4/318)اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ جب چاہتے اور جہاں چاہتے اپنے جذبات پر قابو پا سکتے تھے۔
اسی طرح ضروری ہے کہ سب کے پاس یہ احساس اور شعور ہو یہاں تک کہ ہم کسی سے بھائی چارہ قائم کرسکیں اس سے مناسبت پیدا ہوجائے اور اسے یہ صلاحیت دے دیں کہ وہ بڑی سہولت کے ساتھ ہم میں اور ہمارے برتاؤ میں نظر آنے والے ہر قصور پر تنقید کرسکے یہاں تک ہم خود اپنے اوپر ہونے والی ہر تنقید کو قبول کرسکیں۔
آخر میں جو شخص کسی مسئلے پر تنقید کرنا چاہئے(جبکہ زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ کسی مسئلے کی تصحیح کرنا چاہے) تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ ان مسائل پر غور کرے اور ان کے بارے میں درست بات کرنے کی پوری کوشش کرے اور دوسرے نمبر پر جب اس مسئلے پر تنقید یا اس کی تحلیل کرنا چاہے تو فریق دوم کی حساسیت کاخیال رکھے اور ساتھ ہی یہ بھی خیال رکھے کہ مخاطب کس حد تک اس تنقید کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہے۔ پس اگر اس بات کی توقع ہو کہ اس کے کلام پر مخاطب کسی ردفعل کا اظہار کرے گا تو اس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ بذات خود اس حقیقت کے اظہار پر اصرار کرے بلکہ یہ کام اس شخص کے لئے چھوڑ دے جس کا دلوں پر زیادہ اثر ہو سکتا ہے۔
ہمارے اس زمانے میں ان خصوصیات کا خیال رکھنے کی اہمیت اور بھی زیادہ ہو گئی ہے کیونکہ انانیت حد سے بڑھ گئی ہے اور دل تنقید کو برداشت کرنےکے قابل نہیں رہے۔
دوسری جانب تنقید سننے والے پرلازم ہے کہ وہ کسی بھی شے سے زیادہ حق کی شان کو بلند کرے اور تنقید پر اعتراض کی بجائے شکریہ ادا کرے جیسے کہ حضرت بدیع الزمان فرماتے ہیں: ”ہم ایسے شخص کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو ہماری کوتاہیوں کو دیکھے اور ہمیں دکھائے (بشرطیکہ وہ حقیقت ہوں) اور اس سے کہتے ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے ، ہم اس کا اسی طرح شکریہ ادا کرتے ہیں جیسے اس شخص کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو ہماری گردن سے چمٹے بچھو کو ہمیں تکلیف دینے سے قبل دور کر دے اور اس سے رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسے ہی ہم اس کے شکر گزار اور ممنون رہتے ہیں جو ہماری کوتاہی اور تقصیرات ہمیں دکھائے"۔ (بدیع الزمان سعید نورسی، الملا حق:251) یہ پختگی اور کمال ہے۔

جمعہ، 18 اکتوبر، 2013

پیر، 30 ستمبر، 2013

کم اِل سُنگ: تحریر ڈاکٹر شاہ محمد مری



(15 اپریل 1912۔۔۔۔۔۔8 جولائی 1994)

تحریر ۔۔۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری

.............................

عوامی جمہوریہ کوریا کے عظیم کمیونسٹ لیڈر مغربی دانشوروں کے بقول ،’’ایشیا میں امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ‘‘(1)کامریڈ کم ال سنگ 82 سال کی عمر میں آٹھ جولائی 1994 کو انتقال کرگیا ۔ اس کا انتقال ایک ایسے دور میں ہوا جب ایک طرف عظیم سوویت یونین کا وجود موجود نہیں رہا ، دیگر تمام سوشلسٹ ممالک کا گلا معاشی اور سیاسی طور پر دبوچا جا رہا ہے اور دوسری طرف سرمایہ ایک عالمگیر اور بے پایاں اقتدار اور حشمت حاصل کر چکا ہے ۔ امریکہ سارے جہاں کا آقا بن چکا ہے ۔ طبقاتی لوٹ کو مقدس قرار دیا گیا ہے اور دکاندار کے سامنے آزادی ، آبادی، ضمیر اور سا لمیت و وقار رہن رکھ دیے گئے ہیں۔ ایک ہی عالمگیر طبقے کا واحد نمائندہ ہی تمام ممالک کی سرحدوں، وہاں کے طرزِ حیات، فوجی قوت و تعداد اور اسلحہ کی قسم کا تعین کرتا ہے ، بحث مباحثہ، حیل و حجت، پس و پیش اور اگر مگر کی جرأت کی سزا بہت بھیانک ہے ۔ انسانیت کے روشن مستقبل کے لیے جدوجہد کرنے والے کاررواں کو تتر بتر کر دیا گیا ہے ۔ امید کی تسبیح کے دانے بظاہر بکھر گئے ہیں ۔ آزادیوں کے نام پر برلن کی دیوار توڑ دی گئی اور آزادی ہی کے نام پہ روزگار کی ضمانت، مفت تعلیم کے حصول اور صحت و رہائشی سہولیات کی یقینی ترسیل کی لائن کاٹ دی گئی ہے ۔ زر کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا اور کرنسی کی تھاپ سے مسحور انسان اپنے باپ دادا کی تصویریں زمین پر پٹخنے لگے۔ شرفِ آدمیت کے تاریخی کاررواں کے ہر سنگِ میل کو ندامت کا نشاں ثابت کیا گیا۔ ستر سال سے خوش خوشحال لوگ اپنی ہی موت پہ جشن منا کر انتہائی تیز رفتاری سے عصمت فروشی کے تاریک بازار کی طرف دوڑنے لگے ۔ امن کی تحریک کو دفن کر کے کروڑوں لوگ نیو ورلڈ آرڈر کے وحشی دیو کے سامنے رقص کرنے لگے اور اپنی ہی منتخب پارلیمنٹ پر ٹینکوں سے گولہ باری کر کے ایک نئی قسم کی بورژواجمہوریت مسلط کرنے لگے ہیں۔

اس پس منظر میں جناب کم ال سنگ کا انتقال ہو گیا۔ اس کم ال سنگ کا جس نے نہ تو نیو ورلڈ کومانا ، نہ سوشلزم کی موت کے پروانے پر دستخط کیے اور نہ ہی کوریائی عوا م کے اتحاد کے اپنے عزم سے پیچھے ہٹا۔ کامریڈ کم ال سنگ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ایک سامراج دشمن انسان تھا ۔وہ نو آبادیت اور جدید نو آبادیت کے خلاف ایک عملی مجاہد تھا۔ وہ جمہوریت، امن، انصاف اور ناوابستگی کا داعی تھا ۔
گو کہ اس نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں جگہ جگہ اپنے دیو قامت مجسمے کھڑے کرنے اور اپنے آپ کو مافوق الفطرت مخلوق ثابت کرنے پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کر کے شخصیت پرستی کے زہریلے بیج بو دیے تھے اور پھر پارٹی کو اولیت دینے کے بجائے اپنے بیٹے کو اقتدار عطا کر کے اس نے اپنی پارٹی میں جمہوریت اور اس کے اداروں کی بنیادیں ہلا ڈالنے کی حرکت کی ہے، مگر اس سب کے باوجود کم ال سنگ ایک سچا کمیونسٹ، عظیم محب وطن اور عوام سے سچا پیار کرنے والا عظیم لیڈرتھا ۔
کامریڈ کم ال سنگ کا اصل نام ’’ کم سنگ جو ‘‘ تھا ۔ وہ 15 اپریل 1912 کو کوریا میں پیانگ یانگ کے قریب پیدا ہوا۔ کوریا ایک قدیم اور بڑاملک ہے ۔ اس کے مغرب میں Yellow Sea اور جنوب میں آبنائے کوریا واقع ہے ۔ مشرق میں بحیرہ جاپان اور شمال میں یالو اور تومین نامی دریا ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ اس کی سرحد ملتی ہے اور سابقہ سوویت یونین، کوریا کا زبردست دوست اور پڑوسی تھا ۔
کوریا کے وجود کی تاریخ سن 57 قبل مسیح تک جاتی ہے ۔ آٹھویں صدی میں اس کا نام سلطنت ’’ کوریا ‘‘ پڑا۔ کوریا سو سال تک منگولوں کے تسلط میں رہا اور 1395 میں جنرل یی سانک گائی نے اقتدار پر قبضہ کر کے یی سلطنت کی بنیاد ڈالی اور مرکزی انتظامیہ رائج کی ۔ کنفیوشس کا فلسفہ یہاں کااخلاقی نظام قرار پایا ۔ سولہویں صدی میں چین نے جاپانی حملے کو پسپا کرنے میں کوریا کی مدد کی ۔ مگر سترہویں صدی میں چین نے خود اس مملکت سے خراج لینا شروع کر دیا۔ انیسویں صدی تک یہ علاقہ چین اور جاپان کے درمیان جھگڑے کا باعث بنا رہا ۔ اور 1910 میں جاپان نے مکمل طورپر اس علاقے پر قبضہ کر کے اسے اپنا مطیع بنا لیا ۔
کم ال سنگ کا والد جاپانی سامراج کے خلاف تحریک آزادی میں فعال طور پر شریک تھا ۔ اس کی مادرِ مہربان بھی حبِ وطن اور آزادیِ نسواں کے نشے میں سرشار تھی اور اپنے رفیقِ حیات کی انقلابی سرگرمیوں میں مدد گار تھی۔اس کی ماں صرف ایک انقلابی مجاہد کی رفیقہِ حیات ہی نہ تھی، وہ ایک ایسے باپ کی بیٹی بھی تھی جس نے جاپانی سامراج کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ۔ محترمہ کانگ بین سوک نے نہ صرف ایک عمدہ کمیونسٹ کو جنم دے کر اسے جوان کیا بلکہ خود بھی آزادی کی قومی جدوجہد اور معاشرتی انقلاب میں حصہ لیا ۔
کم ال سنگ 1925 میں قابض جاپانیوں کے تشدد سے فرار ہو کر مانچوریا چلا گیا۔ 1926 میں 14 سال کی عمر میں مانچوریا کے سکول میں داخل ہوا اور وہاں وہ کمیونسٹ بن گیا ۔ اس نے نوجوان کمیونسٹ اتحاد میں شمولیت اختیار کی اور اپنی محنت، نظریاتی وابستگی اور فعال جدوجہد کی بدولت تین سال کے اندر اندر مانچوریا کی کمیونسٹ یوتھ الائنس کیکمیشن کا سیکرٹری بنا ۔ 1917 کا زمین ہلاڈالنے والا بابرکت انقلاب روس میں بپا ہو چکا تھا ۔ سماجی برابری اور انسانی شرف کا محدود قافلہ عالمگیریت کی منزلیں طے کر رہا تھا ۔ سوشلزم مقبولیت پا رہی تھی اور دنیا بھر کی غلام قوموں میں آزادی کی تحریکیں کامیابیوں سے ہمکنار ہو رہی تھیں ۔ کوریائی تحریک آزادی بھی اس گرما دینے والے انقلاب کے اثرات کے خوشگوار زد میں تھی ۔ کامریڈ کم ال سنگ 1931 میں باقاعدہ طور پر چین کی کمیونسٹ پارٹی کا ممبربن گیا اور ایک سال کے اندر اندر اس نے کوریا کی عوامی انقلابی فوج کی بنیاد رکھی ۔ اس نے اپنا نام کم سونگ جو سے بدل کرکم ال سنگ رکھا اور 1936 میں آبائی وطن کی آزادی کے لیے جاپانیوں کے خلاف پہلا متحدہ نیشنل فرنٹ قائم کیا اور اس کا چیئرمین منتخب ہو گیا۔ 
وہ جاپان کے خلاف گوریلا جنگ کی قیادت کرتا رہا ۔ وہ چاولوں کے کھیت میں کسانوں کا ہاتھ بٹانے کے لیے بھی کام کرتا گیا اور انہیں آزادی اور انقلاب کا شعور بھی بخشتا رہا ۔ وہ بچوں کے ساتھ بنٹے کھیلتے کھیلتے انہیں آزادی اور سوشلزم کا سبق دیتا تھا۔ انہوں نے اپنی سچائی اور کھرے کمیونسٹ خیالات سے لوگون کو اپنا گرویدہ بنا لیا ۔ وہ جدوجہد اور انقلابی عمل کے ہر مرحلے پر اپنے لوگوں کے دوش بدوش کام کرتا ۔ وہ عام لوگوں کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتا۔ اس نے خود کو مکمل طور پر عوامی انسان بنا لیا تھا اور جاپانیوں کے خلاف ملکی آزادی کی چوتھی لڑائی میں مرکزی کردار ادا کیا ۔
وہ 1942 میں سوویت یونین چلا گیا اور سوویت فوج میں میجر بن گیا ۔ جنگ عظیم دوم میں وہ جاپان کے خلاف کوریائی کمیونسٹ کے ساتھ سوویت فوج کے شانہ بشانہ لڑا۔ جب جاپان نے ہتھیار ڈالے تو اس وقت جنوبی حصے میں امریکی فوجیں موجود تھیں اور شمالی حصے میں کوریائی کمیونسٹ اور سوویت سرخ فوج کاقبضہ ہو چکا تھا ۔ 1945 ہی میں کم ال سنگ نے کوریا میں کمیونسٹ حکومت کے قیام کا اعلان کیا ۔ وہ عوام میں ایک ہیرو کی حیثیت اختیار کر چکا تھا ۔ وہ جلد ہی شمالی کوریا کی لیبر پارٹی کا وائس چیئرمین بن گیا ۔ 3 ستمبر 1948کو ملک کا نام عوامی جمہوریہ کوریا ہوا اور کم اس ملک کا پہلا وزیراعظم منتخب ہو گیا ۔ اس ملک کا رقبہ 122,400 مربع کلو میٹر ہے اور اس کا دارالحکومت پیانگ یانگ ہے ۔
کم ال سنگ 1949 میں کوریائی ورکرز پارٹی کا چیئرمین بن گیا جو کہ 23 اگست 1946 میں بنی تھی ۔ شمالی کوریا میں تیزی سے سوشلسٹ معاشرہ تشکیل پا رہا تھا۔ جبکہ جنوبی کوریا میں امریکی سامراجی پالیسیاں چل رہی تھیں۔ 1950 میں دنیا کے کمیونسٹ دشمنوں کے سب سے بڑے سرخیل پاگل میکارتھی نے اپنی فوجیں اتار دیں۔
الامان از جنگِ اِستعماریاں
کوریا با کوریا آمد بہ جنگ
امریکہ اور مغربی طاقتیں جنوبی کوریا کی پشت پر تھیں۔ یہ جنگ ’’ کورین وار ‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ اس جنگ کے خلاف ساری دنیا میں امن تحریک چلائی گئی ۔ خود ہمارے بلوچستان میں کمیونسٹوں نے اس جنگ کے خلاف زبردست مہم شروع کر دی تھی ۔ بابو عبدالکریم امن نے اپنے دیگر کمیونسٹ رفقا کی مدد سے جناح روڈ کوئٹہ کے میٹرو ہوٹل میں پریس کانفرنس منعقد کی تھی جس میں اس نے دو نکات پر زور دیا تھا۔ اس کی ایک دلیل یہ تھی کہ کوریا کی جنگ صرف کمیونسٹ کوریا کو تباہ کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد کمیونسٹ چین کو بھی گھیرے میں لینا ہے اور وہاں چیانگ کائی شیک کی فارموسا والی حکومت کو پھر سے مسلط کرنا ہے ۔ امن بابو کا دوسرا نکتہ یہ تھا کہ امریکہ اپنے دیگر اتحادی ممالک کو بھی چین اور عوامی کوریاکے خلاف استعمال کرے گا اور پاکستان کو بھی اس جنگ میں جھونک دیے جانے کا خطرہ موجود ہے ۔ اس لیے اس کا مطالبہ تھا کہ پاکستان کو اس سامراجی جنگ سے دور رکھا جانا چاہیے ۔
اس پریس کانفرنس کے بعد انہی امور پر عوام میں ایک دستخطی مہم شروع کی گئی ۔ یہ مہم جاری تھی کہ 17 اگست 1950 کو بابو عبدالکریم اور اس کے رفقا محمد ہاشم خان غلزئی ، مولوی حکیم عبداللہ جان بازئی، مرزا فیض اللہ خان، عبدالصمد درانی اور محمد یوسف خان غلزئی کو 40 ایف سی آر کے تحت گرفتار کر لیا گیا ۔ ہتھکڑیوں اور جولانوں سے انہیں آراستہ کر کے سی کلاس کے کپڑے پہنا کر مچھ جیل بھیج دیا گیا ۔ ہمارے یہ اکابرین چھ ماہ تک جیل میں رہے ۔ آج ہم روایت پرستی کی ہزاروں بد صورت کارستانیوں کے بجائے بلوچستان کے ان سچے بیٹوں کی سامراج دشمنی اور کمیونسٹ بین القوامیت کے اقدام پر جیل میں کاٹے گئے ان 180 دنوں پہ افتخار سے سر بلند کرتے ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے اکابرین توسیع پسند اور لٹیری قوتوں کے حلیف ہونے کے بجائے کوریا کی آزادی اور سامراج دشمنی کے کیمپ میں سر بلند کھڑے ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ کم ال سنگ کی آزادی کی افواج کے سپاہیوں میں بلوچستانی کمیونسٹوں کے نام بھی جلی حروف میں موجود ہیں۔
یہ جنگ تین سال تک جاری رہی اور اس میں تیس لاکھ انسان ہلاک ہو گئے جن میں امریکیوں کی تعداد 54 ہزار تھی ۔ چین کی انقلابی حکومت کی موثر اور فعال یکجہتی کی وجہ سے شمالی کوریا کی کمیونسٹ حکومت بالآخر امریکی پیش قدمی کو روکنے میں کامیاب ہو گئی اور کوریا کے مزدور اور کسان جنگ زدہ معیشت اور تباہ شدہ مملکت کی تعمیر میں جت گئے ۔
دسمبر1972 میں کامریڈ کم ال سنگ ملک کا صدر منتخب ہوگیا۔ اس نے بار بار شمال اور جنوب کے اتحاد کی کوششیں کیں اور جنوبی کوریا سے امریکی فوجوں کے انخلا کی جدوجہد جاری رکھی ۔ بڑی طاقتوں کی آمیزش سے خود کو جدا رکھتے ہوئے سوشلزم کے عمومی اصولوں کے ساتھ مضبوط وابستگی رکھ کر کم ال سن نے کوریا کو ایک پسماندہ زرعی ملکسے ایک عظیم صنعتی قوت بنا دیا۔ سوویت یونین اور عوامی جمہوریہ چین کے بے لوث تعاون سے کورین وار کے نتیجے میں تباہ شدہ شہری مراکز کو دوبارہ تعمیر کرکے صنعتی عمل کو بہت تیز رفتاری عطا کی گئی ۔ آج جمہوریہ کوریا فولاد، صنعتی و زرعی مشینری اور ٹیکسٹائل کی صنعت میں لاثانی مملکت بن چکا ہے ۔ اس کے علاوہ کیمیکل ، آٹو موبائل، سیمنٹ اور شیشہ کی صنعت بھی بہت ترقی کر چکی ہے ۔ صنعتی ترقی نے بجلی کی ترقی کی رفتار کو تیزی دی اور جواباً بجلی کی عظیم ترسیل و ترقی نے صنعتی ترقی کو آسمان تک پہنچا دیا۔ عوامی جمہوریہ کوریا بجلی کے میدان میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ اپنی عظیم الجثہ صنعتی و شہری ضروریات کو پورا کر کے عوامی جمہوریہ چین کو بھی بجلی بیچتا ہے ۔
انقلابی حکومت نے زراعت کو بھی بہت ترقی دی ہے ۔ چاول ، مکئی، گندم ، سبزیاں اور میوے یہاں کی بڑی پیداواری اجناس ہیں۔ ساری زراعت کو آپریٹو ہے ۔ اس ملک میں تقریباً 3000 کوآپریٹو ہیں۔ ہر کوآپریٹو میں تقریباً 300 خاندان ہیں اور وہ 1000ایکڑ پر مشتمل ہوتی ہے ۔ کواپریٹو میں شامل لوگ جمہوری انداز میں اپنے علاقے میں بیج، کھاد اور دیگر ضروریات کا تخمینہ لگاتے ہیں، پیداوار کا ہدف مقرر کرتے ہیں اور علاقے کی معاشرتی، معاشی ضروریات کی تکمیل کرتے ہیں۔
کمیونسٹ کوریا نے ہر خاندان کو مکان مہیا کیا ہوا ہے اور کچے فرسودہ مکانات کی جگہ پکے مکانات تعمیر کر کے لوگوں کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ اس طرح دنیا بھر میں دیگر کمیونسٹ ممالک کی طرح کوریا میں بھی رہائش کا کوئی مسئلہ نہیں۔ تیز رفتاری صنعتی ترقی کے باوجود وہاں نہ تو کوئی کچی آبادیاں ہیں اور نہ ہی پینے کے پانی اور نکاسیِ آب کے مسائل موجود ہیں۔
عوامی جمہوریہ کوریا میں تعلیم مفت ہے ۔ ہر شخص کے لیے تعلیم کا حصول قانونی طور پر لازمی ہے ۔ کوئی بچہ بغیر تعلیم کے نہیں رہ سکتا اور چار برس کی عمر میں ہر بچہ سکول جانے لگتا ہے ۔ نصاب تعلیم میں فضول اور غیر ضروری مضامین موجود نہیں ہیں بلکہ تربیت یافتہ کارکن، ٹیکنیشن اور سائنسدان پیدا کرنے کی طرف سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے ۔ کم ال سنگ کے ملک میں شرح خواندگی سو فیصد ہے۔ تکمیل علم کے بعد روزگار کا حصول کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ روزگار کی ضمانت سرکار دیتی ہے اور ہر شخص اپنی اہلیت اور قابلیت کے مطابق روزگار پاتا ہے ۔
تقریباً ہر گاؤں میں بنیادی سہولیات سے مزین ہسپتال موجود ہے۔ ملک میں علاج معالجہ مفت ہے ۔ زچہ بچہ کی نگہداشت پہ خصوصی توجہ دی جاتی ہے ۔ بڑھاپے میں دیکھ بھال کی سہولیات بہت اعلیٰ ہیں ۔ تفریح گاہوں، کھیل کے میدانوں، بہتر خوراک اور صاف ستھرے ماحول کی فراہمی سے حکومت نے لوگوں کی صحت کا معیار بلند کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں عوامی جمہوریہ کوریا میں اوسط عمر 70 سال ہے ۔ صحت کے نظام میں بیماریوں سے بچاؤ اور پرہیز پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے جس سے وبائی امراض بہت حد تک کنٹرول ہو چکے ہیں ۔
ہر چار سال بعد 615 ممبروں پر مشتمل اسمبلی کے انتخابات منعقد ہونے والے ملک میں کلچرل زندگی زبردست ترقی کر گئی ہے ۔ حکومت نے لوگوں کی روحانی زندگی کی بہتری کے کئی زبردست ادارے قائم کر دیے ہیں۔ مثلاً تھیٹر ، نیشنل آرکسٹرا اور نیشنل ڈانسنگ تھیٹر وغیرہ ۔ ہرجگہ میوزیم قائم ہیں۔ حکومت دل کھول کر انہیں فنڈ فراہم کرتی ہے ۔ صرف دارالحکومت میں کم از کم بارہ میوزیم موجود ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی نشریات تک تقریباً ہر شخص کی رسائی ہے ۔ دیہات میں ایک خاص نظام کے تحت ریڈیو نشریات ہر گھر تک پہنچائی جاتی ہیں۔ ملک بھر کے دیہاتوں میں ٹی وی نشریات دیکھی جا سکتی ہیں۔
یہاں کی زبان کوریائی ہے جس میں لکھنے والے شاعروں اور ادیبوں کاخاص خیال اور احترام کیا جاتا ہے ۔ حکومت ان کی کتابیں شائع کرنے اور فروخت کرنے کا انتظام کرتی ہے ۔ ایک زندہ معاشرے میں ادیب اور دانشور کی ضروریات کے عین مطابق انقلابی حکومت سہولیات فراہم کرتی ہے ۔ لائبریریاں وافر تعداد میں ہر دیہات میں موجود ہیں۔ بہترین تخلیقات پر ایوارڈ اور انعامات دیے جاتے ہیں ۔ ادبی اور ثقافتی وفود دنیا بھر کے ممالک کے دورے کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح فلم سازی کو خصوصی ترقی نصیب ہوئی ہے ۔
کم ال سنگ کے ملک میں دیگر سوشلسٹ ملکوں کی طرح عورت کو تکریم حاصل ہے ۔ اسے برابری کا درجہ حاصل ہے اور کوریا میں جنس کی بنیاد پر ہر قسم کے امتیاز کا خاتمہ سوشلزم کے اولین اقدامات میں سے تھا۔ جاگیر داری اور قبائلی غیرت کے نام پر عورت پہ ہونے والے ہر ظلم کا خاتمہ کر دیا گیا ۔ عورتوں کی جمہوری تنظیم منظم کی گئی ۔ اس پر تعلیم اور ترقی کے دروازے کھول دیے گئے اور سماجی ترقی کے عمل میں عورت کی بھر پور شرکت کو یقینی بنایا گیا ۔
کامریڈ کم ال سنگ کوریا کے درمیان اتحاد کے لیے کوشاں رہا ۔ امریکی سامراج دنیا میں ہر جگہ کے عوام کی طرح کوریا کے عوام کے اتحاد کوبھی سرمایہ داری کے لیے خطرہ محسوس کرتا ہے ۔ لہٰذا کبھی دہشت پسندی کا الزام لگایا گیا تو کبھی ایٹم بم کی تیاری کا راگ الاپ کر وہ عوامی کوریا کے خلاف حلقہ تنگ کرتا رہا ۔ ایسے دور میں جب دستِ قاتل کو جھٹک دینے والے سارے مجاہد ایک ایک کر کے بچھڑ گئے ،کم ال سنگ نے امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ۔ وہ سوویت خاتمے کے باوجود نہ تو کمیونزم سے تائب ہوا نہ ہی ڈالر کی تلاش میں اس نے اپنی تنی ہوئی گردن کو جھکانا گوارا کیا ۔ کم ال سنگ صرف سیاستدان ہی نہ تھا وہ ایک فلاسفر ، نظریہ دان اور ایک مفکر بھی تھا ۔ وہ آج کے پیچیدہ عالمی سیاسی منظر نامے میں ایک کامیاب اور باعمل سیاستدان تھا ۔ وہ ایک مدلل اور بہترین مقرر تھے ۔ اچھے لکھاری اور بہترین استاد تھا ۔ ایک سچے کمیونسٹ تھا ۔ ایک عظیم انسان دوست اور بین الاقوامیت پسند انسان تھا ۔ اس کی تصانیف چھ جلدوں کی صورت میں موجود ہیں۔ اس کی نشانی ہمارے درمیان موجود ہے اور وہ نشانی ہے؛ کمیونسٹ عوامی جمہوریہ کوریا۔ ہم اس عظیم لیڈر کی اس نشانی کی بقا ، خوشحالی اور ترقی کے خواہاں ہیں۔


جمعہ، 13 ستمبر، 2013

تحریکیں ، اور ناکامی کے اسباب



معلوم دنیا کی تاریخ کا اگر تجزیہ و مطالعہ کیا جائے تو اس تجزیے کی بنیاد پر انسانی تہذیب کی چند ایسی خامیاں اور کمزوریاں نظر آتی ہے جس کی وجہ سے بڑی بڑی سلطنتیں ، بادشاہتیں، اور تحریکیں زوال پذیر ہوئیں ، سب سے بڑی خامی جو اوپری سطح پر نظر آتا ہے وہ ہے ایک ہی خاندان کا قبضہ ، باپ کے بعد بیٹا، بیٹے کے بعد پوتے یا نواسے کو بطور وراثت اقتدار یا تحریک کی بھاگ دوڑ منتقل کی جاتی ہے ۔

دوسری خامی جو تحریکوں یا ملکوں کی زوال کی وجہ بنی ہے وہ ہے چند مخصوص لوگوں کو’’ مقدس گائے‘‘ بنا کر انہیں مکمل استثنی دینا ، ان پر کوئی تنقید برداشت نہیں کی جاتی ، ان کی غلطیوں اور کمزوریوں کو درگزر کیا جاتا ہے اور جب کوئی درمیان سے اٹھ کر سوال اٹھانے کی کوشش کرئے گا تو اسے یہ کہہ کر چپ کرانے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے کہ تمہاری اوقات ہی کیا کہ تم وژنری اور قومی لیڈراں پہ تنقید کرتے ہو ۔
اس کے علاوہ جو خامی تحریکوں کی بربادی کا سبب بنا ہے وہ ہے صلاحیتوں کی نا قدری ، ایک مخصوص ٹولے اور خوشامدی مشیروں کے علاوہ جب تحریک یا ممالک کے سربراہ کے نزدیک صلاحیت ، علم و زانت کی قدر نہ ہو تو ایسے سربراہوں کے فیصلے بھی تبا ہ کن ہوتے ہیں جو ملکوں اور تحریکوں کو تاریکی میں لے ڈوبتے ہیں ۔جب صلاحیت پر قبائلیت ،علمی بحث و مباحثے پر بے ہودہ الزام تراشی،تعمیری تنقید پر تعریف و ثناء، حقیقت بنانی پر طنز و شغان ، صلاح مشورے پر yes boss ، غلطی تسلیم کرنے کے بجائے ہٹ دھرمی کو ترجیح دی جائے تو ایسی جگہوں پہ تاریکی ہی قوموں کا مقدر بنے گا


بدھ، 11 ستمبر، 2013

حمایت یا حماقت


تحریر ۔۔۔ اسلم بلوچ
تنقیدی شعور کو لیکر جو قیاس آرائیاں آج بلوچ سماج میں بے بنیاد خدشات کا سبب بن رہے ہیں اگر باریک بینی سے غور ہو تو یہ انہی خیالات کا تسلسل ہے جو انسانی سماجی زندگی کے تاریخ میں ہمیشہ سے پیوست رہے ہیں، ماضی میں بھی تنقیدی شعور ی بیداری کو خطرہ سمجھا جاتا رہا ہے، پاولوفریرے مظلوموں کی ترقی نامی کتاب کے پیش لفظ میں یہ اقرار کرتے نظر آتے ہیں کہ کچھ کے نزدیک تنقیدی شعور انارکی (طوائف الملوکی) کا باعث بنتا ہے اور دوسروں کے نزدیک تنقیدی شعور انتشار کی طرف لے جاتا ہے تاہم کچھ لوگ اقرار کرتے ہیں کہ تنقیدی شعور کی اہمیت سے کیوں انکار کیا جائے ، میں پہلے آزادی سے خوف ذدہ تھا اب بالکل نہیں ہوں، تنقیدی شعور ی بیداری کے ممکنہ اثرات کے بارے میں شکوک و شہبات کا اظہار ایسے مقدمے کے ذریعے لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں شک کرنے والاہمیشہ وضاحت نہیں کرتا یعنی وہ چاہتے ہیں کہ غیر منصفانہ نظام کے شکار ہونے والے اپنے آپ کو پہچان نہ سکیں ۔ 
تنقیدی جذبے سے بھرپور انقلابیت ہمیشہ تخلیقی ہوتی ہے فرقہ بندی ماورائی جھوٹ (Myth) بناتی ہے اور بیگانگی پیدا کرتی ہے ، جب کہ انقلابیت تنقیدی ہوتی ہے اور آزادی دلاتی ہے انقلابی انتہاپسندی ایک شخص کی اپنی حالت کے ساتھ کمنٹ منٹ بڑھاتی اور ٹھوس حقیقت اور معروضی حقیقت کو تبد یل کرنے کیلئے دلی وابستگی کا تقاضا کرتی ہے اس کے برعکس فرقہ بندی اپنے غیر استدلالی اور ماورائی جھوٹ کی وجہ سے حقیقت کو بھی جھوٹی حقیقت میں تبد یل کر دیتی ہے ( حقیقت جو کہ ناقابل تبدیل ہوتی ہے)
میری ناقص رائے کے مطابق اس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے ، اس بحث کو بلوچ قومی سیاست کے تناظر میں ماضی اور حال کو جوڑ کر زمینی حقائق تجربات ، ناکامیوں اور کامیابیوں کے بیچ حقائق کے بنیاد پہ آگے لے جایا سکتا ہے مگر بدقسمتی گذشتہ تھوڑے سے عرصے میں سیاسی بحث مباحثوں کو لیکر ہمارے سیاسی منظر نامے میں حقیقت کے بدلے مجھے جن باتوں کا تاثر کچھ زیادہ ہی گہرا نظر آرہا ہے وہ سیاسی رویوں کے بدلے غیر سیاسی انفرادی رویے ہیں ، زمینی حقائق سے ہٹ کر افواء سازی پہ تکیہ کیا جارہا ہے کسی بھی شخص کے اعمال کا سیاسی حوالے سے تجزیے کی بجائے اس کے کردار کو مسخ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
حقیقی اور بنیادی اسباب جو ہمارے قومی اجتماعی تشکیل کے راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں ان سے ہٹ کر جھوٹے اور بے بنیاد قصے اور کہانیوں کے ذریعے الجھاؤ پیدا کیا جارہا ہے ، تنظیم ، گروہ ،شخصیات کی سرزد منفی یا مثبت عمال پر تنقیدی تجزیے کے بجائے الزام تراشیاں کی جا رہی ہیں ، بے بنیاد قصے کہانیاں گھڑے جارہے ہیں ، میں انفرادی حوالے سے بذات خود وجوہات پہ غور کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو مجھے کچھ باتیں واضح طور پر نظر آتے ہیں مگر ان میں سے کسی ایک کیلئے فیصلہ شاید میرے بس کی بات نہیں۔غور کیا جائے کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سب کچھ ہمارے قومی سیاست میں مجموعی حوالے سے شعور اور سیاسی پختگی کی سطح کو لیکر ان کی نیم پختگی کی نشاندہی تو نہیں کررہے ہیں ؟؟
یا پھر قومی جدوجہد کے حوالے سے حقیقی انقلابی اجزاء اور روایتی سیاسی ، قبائلی گروہی تمام اجزاء کو باہمی گڈمڈ کرکے ایک غیر حقیقی بڑھوتری والی دوڈ شروع کی گئی ہے( روایتی و علاقائی پارٹیوں کے عمل اور دائرہ کار سے صرف نظر کرکے ان کیلئے انقلابی اور قومی پارٹیوں کا مصنوعی منظر کشی و نعرہ بازی گروپ لیڈروں علاقائی اور قبائلی لیڈروں کیلئے ان کے عمل و کردار اور صلاحیت و قابلیت سب سے صرف نظر کرکے ان بارے وژنری لیڈر ، انقلابی اور قومی لیڈروں کے مقام کیلئے اخباری بیان بازی اور نعرہ بازی وغیرہ زیر غور ہو) اس غیر حقیقی دوڑ دھوپ کی شعوری تنقیدی مخالفت اور ساتھ ہی ساتھ انقلابی عمل کے تحت حقیقی اور غیر حقیقی اجزاء ترکیبی کے حوالے سے نشاندہی اور حد بندی کا مطالبہ جب زور پکڑتا گیا تو حقیقت کے آشکار اور مصنوعیت کے ڈھیر جانے کے خوف نے بوکھلاہٹ میں یہ طریقہ اپنانے پر مجبور کیا ؟؟ کیا جو نادانیاں پچھلے ایک عشرے میں ہم سے سرزد ہوئیں جنکی وجہ سے ہماری اجتماعی جدوجہد پر منفی اور برُے اثرات پڑے ان اعمال کے عوامی سطح پر تنقیدی تجزیے پر بوکھلاہٹ نے ہمیں اس طرح کی غیر سیاسی اور غیر اخلاقی اودھم بازی کروائی ؟؟یا یہ بالکل سیدھا سادہ ارتقاء کی دین ہے کہ اب تک قبائلیت اور قبائلی مزاج ہمارے انقلاب پر حاوی ہے ایک مرتبہ روسی کمینسٹوں کے بارے میں نواب خیر بخش مری سے یہ سننے کو ملا کہ وہ’’ اسکریچ رشین‘‘ کے محاورے کو لیکر شہرت رکھتے تھیں، ان کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ جتنا بھی کمیو نسٹ اور انقلابی بنیں ، ان کو ذاتی طور پہ ایک چھوٹا سا رگڑا دو تو اندر سے ایک پختہ رشین ہی نکلے گا ، تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم جتنا بھی سیاسی بنیں ، انقلابی بنیں ، کتابوں کے بوجھ سے ہمارے کندھے جھک جائیں ، یا پھر ذمہ داریوں کے بوجھ سے ، تجربے اور لمبی عمرو بزرگی کی وجہ سے ۔ مگر بھر بھی جب بات ہمارے ذات کی ہوگی تو ہم ایک مکمل آڑ جانے والا قبائلی ہی نکلیں گے یہاں بھی میرا مطالبہ غور و تحقیق کا ہے کہ اصل وجوہات کیا ہیں یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہم ترقی کے سفر و جدوجہد کا دعوی کررہے ہیں ہمیں درپیش تمام مسائل کا اگر ہم باریک بینی سے تجزیہ نہیں کریں گے ان مسائل کے حقیقی بنیادی اسباب و وجوہات کو سمجھ نہیں سکیں گے تو وہ مسائل ہمیں بار بار متاثر کرینگے اور ہر بار ہمارے اجتماعی مقصد میں رکاوٹ بنیں گے۔
بلوچ قومی سیاست کے تناظر میں تنقیدی شعور کو لیکر سیاسی معمولات پر تنقیدی رائے رکھنا تخلیقی عمل کا سبب ہوگا یا انتشار کا ، اس پر بحث شروع ہونے سے پہلے اور کسی بھی انجام پر پہنچنے سے پہلے ہی تنقیدی رائے پر چڑچڑاپن ایسے عروج پر ہے جسکو دیکھ کر یہ تاثر قائم ہونے میں دیر ہی نہیں لگتی کہ تنقیدی نقطہ نظر کوئی جرم ہے مجھے یہ سمجھنے میں کافی وقت لگا کہ ایسا کیوں ہے ؟؟ اب بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ جو کچھ اس وقت میں سمجھ چکا ہوں وہ بالکل صحیح ہوگا لیکن ساتھیوں کی اکثریت میرے اس خیال سے کم ہی اختلاف کرینگے کہ ہمارے ہاں قومی سیاست کے حوالے سے قومی سیاست اور اس سے جڑے تمام کے تمام اجزاء کی علمی حدبندی کی وضاحت اور تشریح کرنا ابھی باقی ہے ، یعنی سیاست و سیاسی طریقہ کار کی وضاحت ، پارٹی و تنظیم کے مقصد دائرہ کار کے حوالے سے ان کی شناخت اور کردار کو لیکر پھر اس پارٹی یا تنظیم کیلئے قومی پارٹی یا انقلابی پارٹی یا پھر روایتی ،گروہی ،علاقائی یا شخصی پارٹی ہونے کی علمی حد بندی اور وضاحت اس کے بعد وقت و حالات کو مد نظر رکھ کر کسی بھی قسم کی پالیساں طریقہ کار اور حکمت عملی اپنانے یا نا اپنانے کی وجوہات کو شعوری طور پر سمجھنے کے متعلق اگاہی کیلئے ان تمام کی الگ الگ حد بندی اور وضاحت ہو ، اسی طرح لیڈر ، ذمہ داراں ، کارکناں ، کمانڈر ، سپاہی و ہمدرد ان تمام کے بیچ ان کے حقیقی کردار کو لیکر ان کی اہمیت و حیثیت کی الگ الگ حقیقی پہچان کیلئے علمی حد بندی اور وضاحت ہواور اس کے بعد صرف اور صرف قومی جدوجہد کو مد نظر رکھ کر ان کے دائرہ اختیار ان کے فرائض ، اختیارات اور ان سے تجاوز کرنے کی نشاندہی اجتماعی نظم و ضبط وغیرہ کی وضاحت و تشریح ہو( ایسا نہ ہو کہ کوئی کمانڈر سپاہیوں کو پابند رکھنے کیلئے ذاتی اصول و ضابطے وضع کریں اور خود کو خود ساختہ آزادی کا مالک سمجھے، لیڈر صاحباں کارکناں و ذمہ داراں کیلئے اصول و ضابطے بیان کرتے پھریں، اور خود کو خود ساختہ مقام و حیثیت کا حق دار سمجھ کر اپنے کسی بھی عمل کے متعلق تنقید کو گناہ قرار دیں) ہمارے لئے یہ ضروری ہوچکا ہے کہ اول ہم لیڈر قومی لیڈر ، انقلابی لیڈر ، گروہی و علاقائی و قبائلی لیڈر، روایتی سیاسی لیڈر، سپاہی و کمانڈر ان سب کی حقیقی عملی حیثیت کی حد بندی کی وضاحت کریں پھر ہم میں سے ہر ایک کے کردار، قابلیت، و صلاحیت سے از خود اس کے مقام کا تعین ہوگا( نہ کہ ثناء خوانی سے) یہ سب کچھ ہونے کے بعد شاید ہمارے لئے تنقید کی پہچان، اور اس میں تعمیری یا تخریبی ، مثبت تنقید یا منفی تنقید کی پہچان کرنا زیادہ مشکل اور پیچیدہ نہ ہو، پروپنگنڈہ کے ذریعے سازشوں کو سمجھنا مشکل نہ ہو ، اور سیاسی حوالے سے ان تمام کی پہچان و مقام اور حدود کی وضاحت ہر قسم کے حالات میں ہم اپنے ہر عمل سے حقیقی طور پر شاید آسانی سے کر سکیں ، جس میں جھوٹ اور بے بنیاد قصے کہانیوں کا عمل دخل نہ ہو، ،تنقید ، منفی یا مثبت، تعمیری یا تخریبی ،سازشیں پروپنگنڈہ وغیرہ کی علمی پہچان و اہمیت کو لیکر معروضی حقیقت کے تحت وضاحت اور حد بندی، ان تمام کی تشریح اور وضاحت سے پہلے لازمی طور پر ہمیں یہ اچھی طرح سمجھنا ہوگا کہ ہمارا مقصد کیا ہے،جب تک ہم اپنے مقصد کو اس کے پورے عجم اور بنیادی تقاضوں سمیت نہیں سمجھیں گے اس وقت تک چھوٹے او ر معمولی مسائل بھی پیچیدگیوں کا طو فان بن کر ہمارا راستہ روکتے رہیں گے ، کیونکہ نقطہ آغاز کے طور پر متحرک ہونے کیلئے یہ خیال کہ ہمارا مقصد آزادی ہے بالکل ایک سیدھا سادہ خیال ہوگا ، قابض ریاست سے آزادی کا ابتدائی خیال اپنے اندر ظاہری طور پر جتناسیدھا سادہ ہے اس کیلئے جدوجہد اپنے اندر اس سے کئی گناہ زیادہ پیچیدگیاں لئے بیٹھا ہے تو میری ناقص رائے کے مطابق اس جدوجہد کا اہم اور بنیادی پہلو ان پیچیدگیوں کی شناخت ، ان کی وضاحت ، تشریح اور حل کرنے سے تعلق رکھتے ہیں، جو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیے جا سکتے ہیں ، میرے نقطہ نظر کے مطابق بلوچ سیاست کو اگر قومی جدوجہد کے تناظر میں دیکھا جائے تو تین اہم پہلو نمایاں نظر آتے ہیں جس سے باقی ماندہ سب کچھ وابسطہ ہیں 
اول بذات خود بلوچ ہے تو یہاں گہرائی اور باریک بینی سے مشاہدے کی ضرورت اس لئے بھی ہے کیونکہ بلوچ ہی اس جدوجہد کا بنیادی ستون ہے تو بحیثیت قوم بلوچ کا تاریخی اور سیاسی سفر، سماجی ڈھانچہ، رسم و رواج ، لین دین، مجموعی علمی و شعوری سطح، قومی وحدت و قوت کو لیکر منظم اور غیر منظم صورت حال ، بلوچ جغرافیہ کی فطری اور تاریخی حقیقت اور موجودہ صورت حال یہ سب کچھ قومی جدوجہد سے برائے راست متاثر ہوتے آرہے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ ہمہ وقت قومی جدوجہد کو متاثر بھی کررہے ہیں تو کوئی حضرت اس اہم اور بنیادی پہلو کو کیسے نظر انداز کرکے اس جدوجہد کو حقیقی خطوط پر استوار کرکے کامیابی سے ہمکنار کرنے کا دعوی کرسکتا ہے۔
دوسرا اہم پہلو قابض غیر قوت اسکی قبضہ گیری ، لوٹ مار ، پالیساں، عزائم ہیں جن سے ہم برائے راست ظاہر اََ متاثر ہورہے ہیں، اب اس کی وضاحت اور تشریح ہم اس لئے بھی بہتر اور واضح انداز میں کر سکتے ہیں یا کررہے ہیں کیونکہ یہ غیر قوت ہے جو بلوچ کے ذات سے تعلق نہیں رکھتا ، خونی رشتوں ، قبائلی علاقائی تعلق و مفادات ، لین دین، رسم ورواج سب سے باہر ہے ۔
تیسرا جو نسبتاََ زیادہ پیچیدہ نہیں ہے وہ ہے باہری دنیا ، بین الاقوامی قوتیں ان کے عزائم پالیساں اور ان کی مفادات سے جڑے بین الاقوامی قوانین ہیں کیونکہ بلوچ صدیوں سے سامراجی سازشوں کا شکار رہا ہے اور آج بھی برائے راست ان سے متاثر ہورہا ہے،( چالیس کے
عشرے میں فرنگی سامراج کے سازشوں سے اب تک جوج رہے ہیں خالی خولی لفاظی سے سامراج مخالفت کی بنیاد پر لیڈری کے شوق پورا کرنا کرنا زیر بحث نہیں۔
تو یہاں قابل غور یہ ہے کہ قابض سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی جدوجہد ہو یا بین الاقوامی منظرنامے میں اپنا قومی تاریخی جغرافائی حیثیت کی بحالی کیلئے سیاسی سفارتی کوششیں، ان دونوں کے بیچ کامیابی کا انحصار بحیثیت قوم ،بلوچ پر اور اس کے قومی وحدت و قوت پر ہوتا ہے، تو یہ امر حقیقی ہے کہ اس جدوجہد کا اہم اور بنیادی ستوں بلوچ ہی ہر زاویے سے اس جدوجہد کا مرکزی کردار ہے، تو اس بنیادی ستون اور مرکزی کردار کے قومی وحدت و قوت کے تشکیل کے بنیادی اسباب کیا ہیں یا قومی وحدت و قوت کے تشکیل میں رکاوٹ بننے کے اسباب کیا ہیں یا پھر تھوڑی سی حاصل قوت کو تحلیل کرنے کے اسباب کیا ہیں، یہ سب جانے بغیر آزادی کو اپنا نصب العین قرار دے کر اس کے لئے جدوجہد کرنا شاید اندھوں کے دوڈ میں حصہ لینے کے برابر ہے ۔تو یہاں سماجی تبدیلی کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تو یہ بنیادی اور اہم پورے کا پورا پہلو بلوچ سے ہی تعلق رکھتا ہے ۔
دوسری طرف مکمل دباؤ کو لیکر بھی سارے کا سارا ملبہ بلوچ کے سر گرتا ہے یعنی قابض ریاست کے عزائم کو لیکر اس کے غیر انسانی پالیسوں کے تحت بے رحمانہ طاقت کا سامنا بھی بلوچ کو کرنا ہے اور بین الاقوامی قوتوں کے مفادات کو لیکر انکے عزائم سے جڑے پس پردہ سازشوں سے متاثر بھی بلوچ کو ہونا ہے ، ایسے حالات میں ہر طرح سے جبر کا شکار بلوچ اپنے قومی وحدت و قوت کے تشکیل سے بے نیاز گروہیت، پارٹی سیاست، روایتی فرسودہ سیاست اور اس بارے قبائلیت وعلاقائیت کا شکار ہو تو اس بد قسمتی کی نشاندہی اور اسکے وجوہات و اسباب بارے آگاہی ان پہ تنقید یا ان کے راہ میں رکاوٹ کی کوششیں کس قسم کے انتشار کا سبب بنیں گے، اس کی وضات اور تشریح ہونا ابھی باقی ہے، موجودہ سیاسی ڈھانچے میں بھونجال تو ضرور پیدا ہوا ہے لیکن اس بھونجال کے بنیادی وجوہات پر غور ضرور کیا جائے کہ وہ کیا ہیں اور آگے چل کر وہ تخلیقی نتائج دینگے یا تخریبی ۔
آپ اس بات پر ضرور غور کریں کہ ہمارے مقصد کے بنیادی اور اہم پہلو (بلوچ) کے تعمیر و ترقی کے عمل سے ہمیں روکا جا رہا ہے، اور دباؤ اس کو مکمل نظر انداز کرنے کی ہے، جب بات بلوچ کی اندرونی تعمیر و ترقی یا کمزوریوں و تخریب کی ہوتی ہے تو ہمیں دوسرے پہلو یعنی قابض ریاست سے ڈرا کر چپ کرانے کی کوششیں کی جاتی ہے کہ وہ سر پہ بیٹھا ہے اس کو فی الحال چھوڑ دو ، تو بنیادی اور اہم سوال ہی یہی ہے کہ جب یہ (بلوچ ) اندرونی طور پہ ترقی کے منازل طے کرتا ہوا ترقی نہیں کرئے گا۔سماجی ، سیاسی ، معاشی حوالے سے مضبوط نہیں ہوگا تو وہ کیسے اپنے وجود کو ان طوفانوں میں برقرار رکھ سکے گا ، تنقیدی شعوری حوالے سے ان تمام کا تجزیہ انتشار کا سبب بنے گا ، اس کیلئے اطمینان بخش بحث و مباحثوں کے نتائج آنا ابھی باقی ہیں ، یہ میرا ذاتی رائے ہے کہ ہم میں سے ہر ایک ، ایک گھریلو ڈھانچے ، خاندانی یا علاقائی ڈھانچے میں فکری حوالے سے پیدا ہونے والے انتشار کا ہی پیداوار ہے ہیں ، آج جب ہم اپنے آس پاس نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں قریبی فکری ساتھیوں کا جو جھرمٹ نظر آتا ہے، وہ تمام کے تمام کسی ایک خا ندان ، شہر، گاؤں کے روایتی ڈھانچے سے ٹوٹ پھوٹ کے دین ہیں، وجوہات کی بنیا د فکری حوالے سے آزادی ہے ، لیکن آزادی کا وہ سیدھا سادہ خیال نہیں جس میں صرف اور صرف قابض سے آزادی ہے بلکہ انسانی آزادی کے مقدس مقصد کو مد نظر رکھ کر اپنے مقصد کے پورے حجم اور تقاضوں کو مد نظر رکھ کر ہی قدم بڑھانا ہے۔
قابض قوت کا ہمارے ترقی کی راہ میں مکمل جبراََ رکاوٹ اور بین الاقوامی سامراجی قوتوں کا قابض کوآشیر باد سے قطع نظر بلوچ از خود تاریخی قبائلی زند و گزران بابت اپنے رسم و رواج ، لین دین، خونی و قبائلی رشتوں ، قبائلی علاقائی مفادات، گروہی اور روایتی سیاسی انداز و مفادات کو لیکر قومی تشکیل و قومی وحدت و قوت کے حصول میں کتنی بڑی رکاوٹ ہے ، شاید اس کا اندازہ اور شعور ہمارے اکثریت کو نہیں ہے۔
ان حالات میں اس بات پہ شدت کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اتنے قربانیوں کے باوجود ہم کس کی خدمت کررہے ہیں؟؟ انقلاب کی یا تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اسی روایتی فرسودہ سوچ رکھنے والی ذہنیت کی جو اب بھی ہمارے قومی پسماندگی کے اسباب میں مکمل پیوست ہے، ایک چھوٹا سی مثال دوں ، جو شاید ہم میں سے اکثریت پہ گراں گزرے،
آزادی کے دعوے دار ہم میں سے ہر ایک صرف اپنے آپ پہ ذاتی حوالے سے نظر دوڑایں کہ انسانی آزادی کو لیکر ہم میں سے ہر ایک انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی زندگی میں عورتوں کو لیکر بچیوں کی پرورش، تعلیم، شادی بیاہ اور معاشی و مالی حوالے سے ان کے جائز حق و مقام بابت جو اختیار ہم رکھتے ہیں ، اس کے تحت ان کی حقوق کی کیا پاسداری کررہے ہیں ، شادی بیاہ کو لیکر انکی زندگی کے متعلق ، ان کی مرضی و منشاء کے بغیر اپنے فیصلے مسلط کرنا ، لب کے نام پہ ان کی واپاری، کم عمری کی شادی وغیرہ ، تو کیا یہاں مظلوم خود جابر نہیں؟؟؟
ایسے بہت سے فرسودہ اور انسانی آزادی کے مقدس مقصد سے متصادم رسم و رواج جن کی آج بھی ہم چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے پاسداری کررہے ہیں آج تک بلوچ عوام میں شعوری حوالے سے ان کے خلاف کس نے کتنا کام کیا ؟؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے میں نے جو محسوس کیا ان مسائل پہ کام کرنا دور کی بات ،ان کے بارے میں بات کرنے سے ہم خوف ذدہ ہوجاتے ہیں 
میرے کہنے کا مقصد اس تسلسل کی نشاندہی ہے جو آج ہمارے قومی سیاست میں بھی بالکل اسی ذہنیت کی عکاسی کررہا ہے، باریک بینی سے غور ہو تو قبائلی زند و گذراں میں سردار، مقدم ، میر کردار کے حوالے سے جیسے بھی ہوں ان کا احترام لازمی قرار دیا جا چکا تھا دوسری طرف اگر انقلابی جد وجہد کے تقاضوں کو لیا جائے تو اس میں انقلاب دشمن جو بھی ہو جس حیثیت و مقام کا مالک ہو اس کا محاسبہ ضروری ہوتا ہے، ایمانداری سے اگر یہاں بھی ہم نظر دوڑایں تو ہمیں انقلاب کے خدمتگار کم اور روایات کے پاسدار زیادہ ملیں گے، بد قسمتی کچھ تو دونوں کو ہاتھ میں سجائیں آزادی کی نوید لئے پھرتے ہیں ، اب یہی روایتی ذہنیت ہمیں بلوچ سیاست میں قومی جہد کو لیکر انقلابی تقاضوں کی پاسداری سے ڈرا دھمکا کر خاموش کرانے کی بے ہودہ کوششوں میں لگی ہوئی ہے ، خاندانی، قبائلی رشتے ، قبائلی و علاقائی تعلق داری، گروہی و پارٹی مفادات ، علاقائی قبائلی مفادات، گروہیت کو لیکر نمود و نمائش کا خمار ذاتی تعلقات ، کیا یہ سب بلوچ قومی تشکیل کو لیکر قومی وحدت و قوت کی راہ میں رکاوٹ نہیں ؟؟
اور جب قومی وحدت و قوت کے حصول کیلئے برائے راست رکاوٹیں دور کرنے کی جہد ہو تو کیا ان تمام کا متاثر ہونا یا ان کا خاتمہ لازمی نہیں ؟
اگر یہ ہمارے قومی جد وجہد کیلئے حقیقی امر بن چکے ہیں تو اس میں کیا شک رہ جاتا ہے کہ آپ اپنے مقصد کو لیکر قومی حوالے سے جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ درج بالا ذکر کئے گئے تمام کو رد کرکے دو قدم آگے کی طرف نکل جانے سے حاصل ہوگا۔
کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اوپر بیان کئے گئے تمام روایتی اجزاء کو تقویت فراہم کرکے ہم قومی تشکیل کو لیکر قومی وحدت و قوت حاصل کرسکیں گے؟
میرے حواس کے گرفت میں جس کو میں قومی بدبختی سے تعبیر کروں تو کم نہیں ہوگا پھنس چکا ہے وہ یہ ہے کہ اس جدوجہد کے طفیل بلوچ سماج میں جو بیداری پیدا ہوئی ہے اور بلوچ کی وابستگی ذہنی حوالے سے جس طرح آہستہ آہستہ عملی وابستگی کی طرف بڑھ رہا ہے اس کو قومی حوالے سے اجتماعی طور پر یکجہتی کی طرف لے جانے کے بجائے جس بے ہودہ انداز میں گروہیت کی طرف لے جایا جا رہا ہے شاید غور کرنے والوں سے ہرگز پوشیدہ نہ ہو ، انقلابی تقاضوں کو لیکر زمینی حقائق کو مد نظر رکھکر ایسے تمام اسباب جو ہمارے قومی جدوجہد کی راہ میں قومی تشکیل ، اجتماعی قوت و مرکزکی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں ان کی نشاندہی ، ان پرتنقید ،ان کے متعلق بحث و مباحثہ یہ ایک سیاسی اور انقلابی حق ہے ، ایسا ضرور ہو کہ ان نشان ذدہ عوامل جن پر تنقید یا بحث مباحثے زور پکڑ رہے ہیں ان کی بنیادیں جھوٹ یا بے بنیاد قصے کہانیوں پر مبنی نہ ہو ۔
اب اتنا شعور تو سیاسی کارکناں ضرور رکھتے ہونگے کہ من گھڑت قصے کہانیوں اور زمینی حقائق میں فرق کر سکیں ، مگر پھر بھی پچھلے تھوڑے سے عرصے میں ا ندورں خانہ کمزوریوں کولیکر فرسودہ خیالات پہ یا اعمال پہ جو تنقیدی سلسلہ شروع ہوا ہے اس کو جان بوجھ کر بد مزگی کے گرد میں ایسا آلودہ کررہے ہیں تاکہ ان کمزوریوں سے تعلق رکھنے والے حقائق آشکار ہی نہ ہو، جن دوستوں نے قومی سیاست کے نام پہ اپنی اپنی چھوٹی سی دنیا بنا رکھی ہیں ان سے قطع نظر اجتماعی قومی فکر رکھنے والے کارکناں اجتماعیت میں نقب زنی کیسے برداشت کرہینگے کیونکہ کوئی بھی پارٹی تنظیم قومی سیاست کو لیکر بلوچ سماج میں جد وجہد کررہا ہے اگر اس کی پالیساں اور افعال و اعمال قومی جہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہونگے تو ان پہ سوال ضرور اٹھیں گے، ایسے حالات میں ایک سوال بہت خوبصورتی سے میک اپ کرکے اڑایا جاتا ہے کہ یہ ہمارے پارٹی معاملات میں مداخلت ہے ، اور آگے چل کر زرا تبدیلی کے ساتھ یہ سوال کہ آپس میں مل بیٹھ کے ان مسائل کو حل کیا جائے ، عوامی سطح پر ان کا ذکر یا بحث قومی انتشار کا باعث ہوگا ۔
قومی جہد کے تقاضوں کو اگر مد نظر رکھ کر ان سوالات کی حقیقت کو موجودہ زمینی حقائق میں تلاش کریں تو یہ واضح ہے کہ کوئی بھی پارٹی برائے مقصد ہے ناکہ پارٹی ، از خود مقصد ہے ( مقصد کے بارے جو ذکر اوپر ہوا اسکو آپ مد نظر رکھیں) پارٹی کی وضاحت اس کے دائرہ کار ، اداروں کے سیاسی ، نیم سیاسی ہونے پارٹی کیلئے قومی ، انقلابی یاگروہی ہونے سے قطع نظر یہ دیکھتے ہیں کہ کیا جب آپ کے پارٹی کے ادارے بن رہے تھے تو ان میں مداخلت ہو رہی تھی ؟؟ اب تک اس کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں ، کیا جب آپ اپنے پارٹی کیلئے پالیساں بنا رہے تھے تب مداخلت ہورہی تھی؟؟ میری ناقص رائے کے مطابق اس بارے بھی کوئی وضاحت نہیں ۔
کیا جب آپ ان پالیسوں کو عملی جامہ پہنا رہے تھے تب مداخلت ہورہی تھی؟ اس کی بھی کوئی وضاحت نہیں ، اصل حقیقت تویہ ہے کہ جب وہ پالیساں عمل کے دور سے گزر کر سرزد ہوچکے ہوتے ہیں اور اپنے اندر موجود بہت سے تضادات کی نشاندہی کرتے ہیں تو ان پہ سوال یا تنقید پارٹی کے اندرونی معاملات میں کیسے مداخلت ہو سکتا ہے؟؟ مجھے یاد نہیں کہ اس بارے میں بھی کوئی وضاحت ہوئی ہو
کیا ا ب اس کی وضاحت کسی پارٹی کی طرف سے ہوگی،؟؟ اس کیلئے بھی میرے ہاں کوئی آس و امید نہیں۔
بحث عوامی سطح پہ پہ ہو یا محدود سطح پہ اداروں میں ہوں یا شخصیات کے بیچ، انکے تخلیقی اور ثمر آور ہونے کیلئے بحث مباحثوں کو پایہ تکمیل تک لے جانے والوں کے سوچ اور رویوں کا بنیادی کردار ہوتا ہے تو اس سوال کی حقیقت پر غور کرنے کیلئے ہمیں اپنا مقصدکو اس کے پورے حجم و تقاضوں کے ساتھ مدنظر رکھنا ہوگا قبائلیت سے قومی تشکیل کے سفر اور قومی وحدت و قوت کے حصول سے متضاد خیالات و اعمال جن کی متعدد بار نشاندہی ہوچکی ہے، ان کی حقیقت ہونے کا موجودہ سیاسی منظر نامہ ازخود ایک ثبوت ہے باریک بینی سے غور کریں تو پچھلے تمام عرصے میں قومی جہد سے منسلک تمام کے تمام شخصیات، تنظیمیں اور پارٹیاں جو اپنے حوالے سے متحرک رہے ہیں ان کے اعمال کے نتائج کو لیکر آج جو کچھ بھی ہمارے سامنے ہیں تعمیری حوالے سے یا پھر تخریبی حوالے سے یہ سب کچھ ان ہی کا حاصل حصول ہیں ، اس کیلئے تو کوئی اور ذمہ دار ہو ہی نہیں سکتا ، کامیابی اور ناکامی کے حوالے سے حقیقی اسباب و وجوہات بھی ان ہی حضرات کے بیچ موجود ہیں، تو ان حقیقی اسباب کے پہچان اور تدارک کیلئے ٹٹولنا بھی ان ہی حضرات کو پڑے گا ، کیونکہ اس میں کوئی شک ہی نہیں رہا کہ موجودہ تمام پیچیدہ مسائل اور ان کے اسباب ہمارے جدوجہد کے بیرونی پہلو یعنی قابض سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ ان تعلق اندرونی اہم اور بنیادی ستون بلوچ سے ہے ، بد قسمتی سے وہ انقلابی اور سیاسی اخلاقی جرات بھی نا پید ہے جس کا مظاہرہ ( اپنے طور حقائق کو تسلیم کرتے اور ا ز سر نو تمام معاملات کا تشکیل نو کی کوششیں کرتے ) کرکے حقیقی رخ کی طرف اپنے سمت کی درستگی کی جاتی یا تو اخلاقی جرات کے بجائے سیاسی منظر نامے کو ایسے شرم ناک کردیا گیا کہ وہ ہر مخلص بلوچ جہد کار کیلئے باعث شرم لگنے لگا ہے۔ہر مثبت اور بہتر خیال جو پالیسی بن کر افراد گروہ یا پارٹیوں کے ذریعے عمل سے گزر کر ناکام یا زوا ل پذیر ہوتا ہے اس کے ناکامی کے اسباب و وجوہات کی پہچان کیلئے زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر ان افراد گروہ یا پارٹی و تنظیم کے بیچ تنقیدی شعوری حوالے سے تجزیاتی جائزے سے حقائق تک رسائی حاصل کی جاتی ہے تاکہ آئندہ کیلئے ان کی کامیابی کو ممکن بنایا جا سکے، اس عمل کو اپنے لئے شغان سمجھنے والے یا پھر اپنے خلاف پر و پنگنڈہ سے تعبیر کرنے والے یا پھر اپنے خلاف منظم سازش سمجھنے والوں سے معذرت ہی ہو سکتا ہے اور کچھ نہیں۔ 

پیر، 9 ستمبر، 2013

ٹارچر



(چند عمومی اور نفسیاتی پہلو )

تحریر۔۔۔ فرنانڈوزاچیرسن
............................................................




اس مضمون میں ریاستی سیاسی ایذارسانی کے کچھ عمومی اور خصوصی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے جن کا استعمال کئی لاطینی امریکی ممالک میں کیا جاتا ہے تاکہ آمرانہ تسلط کو قائم اور تبدیلی کو روکا جاسکے۔نیز ایسی ایذا رسانی کے مقاصد،طریقہ کار اور اثرات پر بھی بحث کی گئی ہے۔مضمون میں اُن چند عوامل کی بھی وضاحت کی گئی ہے جو ایک شخص کو ایذارساں بنانے میں مدد دیتے ہیں۔خود ایک ایذارساں کن تضادات کا شکار ہوتا ہے اور ان تضادات کو حل کرنے کے لئے وہ کن نفسیاتی حربوں کو استعمالکرتا ہے ۔ان امور کا بھی اس مطالعۃ میں جائزہ لیا گیا ہے دوسرے لفظوں میں یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ حقیقتاً ایذارساں کون ہے؟
ہم ایذارسانی کی تعریف یوں کرسکتے ہیں کہ یہ تشدد کی وہ شدید اور سوچھی سمجھی صورت ہے،جس میں سے گزرنے والا شخص اُسے شعوری طور پر محسوس کرتا ہے۔مگر اس کا تشدد کے اس تجربے کی نہ تو نوعیت پراور نہ ہی دورانیے پر کوئی کنٹرول ہوتا ہے۔اس سے تکلیفدر اور ذہنی و نفسیاتی دباؤSTESSپیدا ہوتا ہے جس کا مقصد اُس شخص کی قوت ارادی کو توڑنا ہوتا ہے تاکہ قوت و اختیار کے نظام کے متعین کردہ تعلقات کا تسلسل یقینی بنایا جاسکے۔جب یہی طریقے ایک ریاست قوم کے افراد کو مغلوب کرنے کے لئے اختیار کرتی ہے تو اسے ریاستی ایذارسانی کہا جاسکتا ہے۔لیکن جب ان ہتھکنڈوں کا بنیادی نشانہ وہ شہری ہوں جو ریاست کی جانب سے بنائے ہوئے رشتوں کے نظام کے مخالف ہوں یا جن پر مخالفت کا شک ہو تو ہم اس طریقہ کار کو ریاستی سیاسی ایذارسانی قراردے سکتے ہیں۔ براعظم امریکہ کے کئی ممالک میں ایذارسانی کا استعمال انتظامی پالیسی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن چلّی، یوروگوائے،ارجنٹائن ،پیراگوئے،ایل سلواڈور اور گوئٹے مالا پچھلے دس سال میں خصوصی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ان ممالک میں ہزاروں شہریوں کو جو اپنی حکومتوں کے مخالف ہیں،ایذارسانی کے نیم خفیہ مراکز میں ایذادی جاتی رہی ہے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔یہاں اذیت کے تقریباً ایک جیسے طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ایذارسانی کے لئے لوگں کی شناخت اور چناؤ فوج کے مختلف شعبے کرتے ہیں اور پھر انہیں سادہ لباس میں ملبوس مسلح افراد اغواء کرلیتے ہیں،جن پر کسی قسم کا قانون لاگو نہیں ہوتا۔ان افراد کو خفیہ جیلوں میں لیجایا جاتا ہے جہاں سے بہت کم لوگ زندہ باہر آتے ہیں کہ اپنی کہانی سناسکیں۔
اس ایذا رسانی کا مقصد کیا ہے؟ پہلی نظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس کا مقصد معلومات حاصل کرنا ہو لیکن اگر ہم ایذا کے طریقہ کار کا جائزہ لیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ان ممالک میں ایذا رسانی کس طرح ریاست کے ایک نیم خفیہ ادارہ کی حیثیت اختیار کرچکی ہے تو پھر ہمارے لئے یہ باور کرنا مشکل ہوگا کہ اس کا مقصد محض معلومات حاصل کرنا یایا اقرار جرم کرانا ہے۔ہم کس طرح اس بات کا یقین کرسکتے ہیں کہ معلومات کے حصول کے لئے کسی حاملہ عورت کی چھاتیاں اور جنسی اعضاء جلائے جاسکتے ہیں۔اس کی بچہ دانی پر بجلی کے جھٹکے دیئے جاسکتے ہیں۔تاکہ بچہ ضائع ہوجائے یا بچہ کے دماغیں چوٹ آجائے۔یا کان کے پردے میں تیز دھاری ٹکڑے ڈالے جاسکتے ہیں پھر ان تشدد آمیز کاروائیوں کے ظالمانہ پہلو سے قطع نظر،یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مذکورہ طریقوں یا دواؤں کے استعمال کے ذریعہ کرلیا جانے والا اقرار جرم خود کتنا قابل اعتبار ہوسکتا ہے دراصل اس سفاکی کا خاص مقصد فرد کی انسانیت کو ختم کرنا نظر آتا ہے جبکہ عمومی مقصد مخالفت کی روک تھام کی کوشش ہے۔تاکہ خوف کے ذریعے اقتدار کو جاری رکھا جاسکے۔
تعریف کی رو سے ایذا رسانی میں کم از کم دو افراد کوملوث ہونا ضروری ہے،ایک اذیت رساں جو اپنی جگرانی اور قبضے میں آنے والے فرد پر ایذا رسانی کے طریقے استعمال کرتاہے تاکہ اس کو ہر ممکنہ حد تک اطاعت پر مجبور کرسکے اور دوسرا وہ شخص جس کو اذیت دی جاتی ہے اور جو اس حالت میں ہوتا ہے کہ فوری طور پر تشدد کی مزاحمت سے بھی معزور موتا ہے۔ذیل کے حصوں میں ہم ایذارسانی کے طریقوں اور اذیت رساں اور اس کے عمل کے اثرات کا جائزہ لیں گے۔
ایذا رسانی کی طریقے:
جب ایذارسانی ریاستی پالیسی کا حصہ ہوتو پھر افراد کے مورال اور جسمانی سالمیت کو ختم کرنے کے بہت سے طریقے وجود میں آجاتے ہیں،فردکو توڑنے کے لئے پرانے اور جدید دونوں طرح کے طریقوں اور تکنیک کا ستعمال کیا جاتا ہے چاہئے وہ جسمانی خرابی کے ذریعے ذہنی افعال کو ضرر پہچانا ہو یا ذہنی دباؤ میں اضافہ کرنا ہو۔
ایذاکب اور کیسے دی جائے،یہ ایسی چیز ہے جو مقامی اور بین الاقوامی تجربات سے طے پوچکی ہے کبھی کبھی اس کی مدد جدید طب اور ریسرچ کے نتائج سے بھی کیجاتی ہے جس میں ڈاکٹر بھی براہ راست شامل ہوتے ہیں۔ایسی تصدیق شدہ رپورٹیں موجود ہیں جن کی رو سے ایذارسانی کے وقت ڈاکٹروں نے اس پورے عمل کی نگرانی کی اور اس نگرانی کا مقصد یہ ہے کہ ایذارسیدہ شخص بے ہوش نہ ہو اور نہ ہی تشدد کی سختی کی بناء موت کے منہ میں چلاجائے ایسے ڈاکٹروں کا کام یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ایذارسیدہ فرد پر زیادہ سے زیادہ ذہنی دباؤ ڈالا جائے اور اس سے مطلوبہ مقاصد حاصل کئے جائیں۔
ایذارسانی کے لئے سائنسی نکتہ نظر کو کئی لوگوں نے بڑی سنجیدگی سے لیا ہے۔حال ہی میں’’ جرنل آف میڈیکل ایتھکس‘‘ میں ایک مضمون’’ایذارسانی کی اجازت پر‘‘ چھپا جس میں جی او جونز نے ایذارسانی کی حمایت میں دلائل دیئے ہیں۔نظریہ ضرورت کی بنیاد پر اس کا دفاع کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے: 
’’ اس سے(ایذارسانی ) موت واقع نہیں ہونی چائیے اور جدید ترین دستیاب میڈیکل تکنیک کو ضرور استعمال کرنا چاہئے تاکہ غیر ضروری نفسیاتی جسمانی نقصان نہ ہو صرف اتنی تکلیف دینے کی ضرورت ہے جس سے معلومات اخذ کی جاسکیں۔‘‘اور پھر مزید واضع بنیاد ذہنیت کے ساتھ جب وہ ایذارسانی کی مناسب قیمت و منافع COST BENEFIT RATIOبحث کرتا ہے(جس کا وہ شمسی توانائی سے مقابلہ کرتا ہے جو لمبی مدت میں فائدہ مند ثابت ہوتی ہے) اور جسے وہ انسانیHUMANEایذارسانی کہتا ہے،وہ مزید لکھتا ہے:
’’ٹیکنالوجی اتنی اعلیٰ سطح پر ہے کہ ہم دماغ کے کچھ مرکزوں کو اس طرح چھیڑ سکتے ہیں کہ اُسے جودرد پیدا ہوگا اس سے کوئی جسمانی خرابی یا برے جسمانی اثرات نہیں پیدا ہوں گے۔‘‘
جونزا ایذارسانی کے جس طریقے کی بات کرتا ہے اُس میں بظاہر بجلی کے جھٹکے یا مائیکروسرجری سے دماغی مرکزوں کو چھڑنا شامل ہیں۔وہ جان بوجھ کر یہ نظر انداز کرجاتا ہے کہ صرف اس کے نظر آنے والے نتائج ہی نہیں بلکہ ایذا رسانی بذات خود ایک خوفناک تجربہ ہے۔جونز جس بات پر پریشان ہے وہ ہیں عوام یا ایذارسانی کے مشاہداتی ثبوت،نہ کہ اس سے کہ وہ کس چیز کی نمائندگی کرتی ہے اور نہ ہی اُسے ٹوٹی ہوئی خودی اور ایذیت زدہ افراد پر مسلط کردہ نئے تعلقات کی پرواہ ہے ایذارسانی ایک ٹوٹ پھوٹ کا تجربہ ہے جو بچ نکلنے والے کے ساتھ ساری عمر رہتاہے اور اُسے جسمانی یا افعالی پہلوؤں سے زیادہ متاثر کرتا ہے جس کی وضاحت ہم بعد میں کریں گے جونز کا یہ کہنا ہے کہ صرف اتنی تکلیف دی جائے کہ معلومات حاصل کی جاسکیں بہت بھولپن کی نشاندہی کرتا ہے۔کیا کوئی اذیت رساں کبھی یہ بات ماننے کو تیار ہوگا کہ اُس نے اپنے زیر تشدد شخص پر اس کی برداشت سے زیادہ تشددکیا؟
ایذارسانی کی مختلف طریقوں سے پیدا کی جانے والی تکلیف اور دباؤ کی کیفیات مختلف النوع اور غیر متوقع ہوتی ہیں۔اس طرح اذیت زدہ کی یکساں انداز یا مختلف شخصی رویے اپناکر تکلیف کو بہتر طور پر برداشت کرنے کی کوشش ناکام ہوجاتی ہے۔لاطینی اوروسطی امریکہ کے چھ ممالک میں ایذارسانی کے طریقے اور تکنیک اکثر ایک جیسی ہی ہوتی ہیں یہاں تک کہ ایذارسانی کی اشکال کے نام بھی وہی ہیں۔ بین الاقوامی امداد باہمی کی اس صورتحال کا اندازہ مندرجہ ذیل جدول سے ہوسکتا ہے۔
ایذارسانی کے طریقے : 
-1ماحولیاتی حربے: سماجی محرومی (خاندان اور دوستوں سے علیحدگی) ۔تنہائی (رفاقت،جنس ،کام سکون اور کھانے میں کمی)۔
حسیاتی محرومی یا زیادتی(قید تنہائی،شور ،انعکاسی شیشے وغیرہ)۔
نیند سے محرومی۔
-2ادویات کے حربے:
خمار والی دوائیاں اور باربی چوریٹ کے انجکشن۔
ایل ایس ڈی یا ایسی ہی دوائیں۔
ایپومارفین(مافیا کا توڑ کرنے والی دوا)۔
سائیکلو فاسفے سائیڈ(جلادینے والے کیمیکل)۔
پٹھوں کو اکڑادینے والی دوائیاں۔
-3جابرانہ حربے:
دوسرے لوگوں پر ایذا رسانی کومجبوراً دیکھنا یا سننا (دوست ،رشتہ دار ،بیوی / شوہر ،بچے)جھوٹے الزامات۔
کبھی کبھار غیر معمولی طور پر انتہائی شفقت آمیز رویہ اختیار کرنا اور پھر دوبارہ تشدد کا آغاز کردینا۔
-4جسمانی طریقے:
جبری طور پر کھڑے رکھنا ،ایک مخصوص پوزیشن میں دیر تک اور عموماً بغٖیر کپڑوں کے کھڑے رکھنا) ٹھنڈا پانی ڈالنا یا اس میں ڈبودینا۔
لوئے کے سلاخوں ،ربڑ کے کوڑوں ڈنڈو سے مارنا اور پیٹنا۔
فاقہ زدگی۔غذا اور پانی سے محرومی۔
قاطع اعضاء جسم کے مختلف حصوں کو علیحدہ کردینا،ہڈیاں توڑدینا۔
جنسی ایذا۔کپڑے پھاڑنا،جسم کو محسوس کرنا،آبروریزی کی کوشش۔
آبروریزی،ایذارسیدہ فرد کی آبروریزی یا اسے ہم جسنی پر مجبور کرنا۔
بجلی۔انکھوں ،دانت،سرجنسی اعضاء،مقعد پر بجلی کے جھٹکے لگانا،الیکٹرک بسترپر لٹانا۔
آگ۔مثلاً ویلڈنگ کرنے والی ٹارچ کو آنکھ ،سرجنسی اعضاء پر استعمال کرنا۔
-5نفسیاتی حربے:
بے عزتی کرنا،جھوٹے الزامات،گندی اور دھمکانے والی زبان،پھانسی کی دھمکیاں نمائشی پھانسی۔
اذیت زدہ کے سامنے اُس کے خاندان یا دوستوں کو ماردینا۔
دوسرے لوگوں کی ایذا رسانی کی وڈیو یا آڈیوٹیپ جس میں رشتہ داروں، بیوی، شوہر اور بچوں پر ایذا بھی شامل ہے،اذیت زدہ کو سنوانا۔
اپنے دوستوں،بیوی/شوہر،رشتہ داروں کی آبروریزی ہوتے دیکھنا۔
مخصوص طریقے:
’’آب وند‘‘ یا علاج زیر آب‘‘ ایذا رسیدہ شخص کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنا سر کسی حوض یا بالٹی میں ڈالے جو فضلے،پیشاب اور پانی سے بھری ہوتی ہے۔
’’کلاہ‘‘ بندے کے سرپر زبردستی ایک پلاسٹک کا تھیلا چڑھادیا جاتا ہے جس میں اکثر کیڑے ماردوائی ہوتی ہے۔یہاں تک کہ اس کا دم گھٹنے لگتا ہے۔
’’ٹیلی فون‘‘ پیچھے سے دونوں کانوں پر ایک ساتھ پٹائی کرنا۔
’’طوطے کی شاخ پہ بیٹھنا‘‘ایذا رسیدہ شخص کی کلائیاں اور ٹخنے ایک ساتھ باندھ دیئے جاتے ہیں اور پھر جسم گھٹنوں کے نیچے ایک لوہے کے تار کے ذریعے لٹکادیا جاتا ہے جس سے سارا جسم اوندھا اور ناقابل مدافعت ہوجاتا ہے۔اس پوزیشن میں بجلی کے جھٹکے دیئے جاتے ہیں اور گندہ پانی منہ میں ٹھنسا جاتا ہے۔
’’کتے کا کھتنہ‘‘زیر تشدد شخص کو زمین سے کچھ فٹ اوپر بازوؤں کے ذریعے لٹکادیا جاتا ہے جو کمرکے پیچھے بندھے ہوتے ہیں۔
’’کنٹا یالٹکایا‘‘ زیر تشدد فرد کو کمرے کے گرد ایک رسے سے باندھ کر لٹکا دیا جاتاہے جبکہ اس کے ہاتھ کے پیچھے بندھے ہوتے ہیں۔
’’مٹریوں کی صدی‘‘ اس صدری کو آہستہ آہستہ پھلایا جاتا ہے یہاں تک زیر تشدد شخص کی سینے کی ھڈیاں ٹوٹنے لگتی ہیں اور سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔
’’پی کاڈا‘‘ ایک لمبی سوئی کو عموماً ایذا رسیدہ شخص کے ناخنوں کے نیچے گھسادیا جاتا ہے۔
ایذا رسانی کے اثرات:
کتنی انسانیت 
اب درد ،دہشت اور خوف میں ہے۔
ہم چھ تھے
جوخلاء میں ستاروں میں کھوگئے۔
ایک مرگیا،ایک کو اتنا مارا گیا کہ مجھے یقین نہیں آتا۔
کہ انسان کو اتنا مارا پیٹا جاسکتا ہے۔
باقی چار خوفوں سے بھاگنا چاہتے ہیں
ایک خلاء میں چھلانگیں لگاتا ہے
اور باقی دیواروں سے اپنا سرپھوڑتے ہیں
سب کی نظروں میں موت منجمد ہے۔
فوج اپنا کام بہت تیکھے پن سے کرتی ہے۔
خون اُن کے لئے تمغہ ہے۔
اور قتل عام،مردانگی وبہادری کا نشان 
وکٹر حارا کا نغمہ
اذیت زدہ کے لئے ایذا رسانی وجود کی بہیمانہ تباہی کی علامت ہوتی ہے جو یقیناًبچ نکلنے والے اور اس کے سماجی حلقے میں دائمی نشان چھوڑ جاتی ہے۔خوف ،شرمندگی،بے عزتی کا خیال اور جسمانی اذیت کیسے اور کس حد تک اذیت زدہ پر اپنا نشان چھوڑدیں گی ،ایسی بات ہے جسے عمومی انداز میں نہیں دیکھا جاسکتا۔اذیت کا شکار ہونے والے کی شخصیت کی ساختی خصوصیت بہت اہم ہیں۔ اذیت زدہ کا اپنا واضع پن اور حوصلے کی مضبوطی،مقصد کا اداراک کو مٹ منٹ اور نظام کے خلاف نفرت بھی جو تکلیف کا باعث بنتی ہے لیکن ایسے شخص پر ایذا رسانی کے اثرات اس بات پر بھی منحصر ہوتے ہیں کہ اُس پر کتنا دباؤ ڈالا گیا ہے یعنی اس کی شدت اور دورانیہ کیا تھا۔
تکلیف کا اندازہ صرف جسمانی نقص ،کمی یا خرابی سے نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس تجربے کی جذباتی اہمیت کیا ہے جس سے تشدد کا نشانہ بننے والے کی باقی ماندہ زندگی میں بڑی تبدیلی آجاتی ہے۔ ایذا رسانی سے گھبراہٹ و بے چینی،سوچنے میں مشکل،اپنی نظر میں گرنا ،سماجی میل جول میں کمی،پیداواری صلاحیت میں کمی اور مقاصد سے دستبرداری پیدا ہوتی ہے۔وہ لوگ جو مزاحمت نہیں کرپاتے اور ٹوٹ جاتے ہیں،مزید خطاداری اور مایوسی اُن کا انتظار کرتی ہے۔
امراض نفسیاتی کی نکتہ نظر سے ایذا رسانی شدید دباؤ کی صورتحال کو پیش کرتی ہے جو واضح طور پر گھبراہٹ وبے چینی کو جم دیتی ہے جو صرف درد اور شرم و ذلت سے نہیں پیدا ہوتی بلکہ اُس میں بے یقینی کو جتم دیتی ہے جو صرف درد اور شرم و ذلت سے نہیں پیدا ہوتی بلکہ اُس میں بے یقینی کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ ایذا رسانی کے زیر اثر فنا ہوجانے کا خطرہ سر پر منڈلاتے ممکنہ امکان سے زیادہ ہوتا ہے،بلکہ شروع ہوچکا ہوتا ہے لیکن پھر بھی اذیت زدہ کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کیسے اور کب اور کیا واقعی فنا کرنے کا عمل مکمل ہوگا۔امراض نفسیات کی زبان میں، ایذا رسانی کے بعد ازاثرات کی علامتوں بشمول غیر معمولی نوعیت اور عمومی انسانی تجربے سے باہر کے نفسیاتی حادثاتی واقعات کو بعد ازحادثاتی دباؤ کے عوارض کا نام دیا جاتا ہے۔مختصراً یہ عوارض ایک ایسی صورتحال کو پیش کرتے ہیں جس سے خودی میں تخریف اور انتشار پیدا ہوتا ہے اور اس طرح فوری یا پرانی علامات کا مجموعہ بنتا ہے جس کی خصوصیات یہ ہوتی ہیں۔
۱۔حادثاتی واقعہ کی بے جاتکرار اور خوفناک خواب جس میں واقعہ دوبارہ ہوتا محسوس ہوتا ہے۔
۲۔تحلیلی حالتDISSOCIATIVE STATEجومنٹوں سے دنوں پر محیط ہوسکتی ہے جس میں وہ شخص ایسے برتاؤ کرتا ہے جیسے حادثہ رونما ہورہا ہو۔
یہ ایسے وقت ہوتا ہے جب ماحول میں یا کسی خیالی محرک نے پرانے واقعہ سے کوئی نسبت جوڑدی ہو۔
۳۔جذبات میں کھنچاؤ،گردوپیش کے حالات پر ردعمل میں کمی اور دوسروں سے بیگانہ محسوس کرنا۔
۴۔غیر ضروری چوکنا پن،حد سے بڑا ہو بدحواسی ردعمل،بے چین نیند کمزور یادداشت وغیرہ۔پھر بھی جیساکہ مشاہدہ کیا گیا ہے،انسان کی پیدا کردہ تباہی سے مثلاً ایذا رسانی سے پیدا کردہ علامات دوسرے دباؤ کے مقابلے میں شدید اور نتائج کے اعتبار سے زیادہ خطرناک ہوتی ہیں اور قبل از موت کو جنم دے سکتی ہے۔
اگرچہ سارے محقق اس بات پر متفق نہیں ہیں لیکن کچھ تحقیقات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ایذا رسانی سے پیدا ہونے والے نفسیاتی اثرات کو بذات خود ایذا رسانی علامتی مجموعہTORTURE SYNDROMEکہا جاسکتا ہے۔ ایذا رسانی کے نتیجے میں انسانی جسم اور ذہن پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں ہمارا علم بڑی حد تک محدود ہے کیونکہ تشدد کے نتیجے میں ہونے والی نفسیاتی اور جسمانی تبدیلیوں کے بارے ابھی بہت کچھ تفصیلات واضع نہیں ہوئی ہیں۔ ایذا رسانی کے طویل المدت اثرات پر تحقیقات بھی تقریباً ناپید ہیں۔اگرچہ ڈنمارک کے ایک حالیہ مطالعہ نے جو ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایما پر کیا گیا تھا کچھ خیالات اُبھارے ہیں۔اس مطالعہ میں135اذیت زدہ افراد کا طبی اور ذہنی معائنہ کیا گیا۔تحقیق کے مطابق معائنہ کے وقت جو ایذا رسانی کے چھ ماہ سے ایک سال بعد کیا گیا،90فیصد افراد نے مختلف علامتوں کا اظہار کیا جو ایذا رسانی کے ساتھ یا بعد میں شروع ہوئیں ۔ان میں 75فیصد نے نفساتی امرا ض کی علامات پیش کی ہیں جن میں کمزور یادداشت،توجہ مرکوز کرنے میں خلل، ذہنی تبدیلیاں،نیند میں جنسی افعال میں خرابی شامل ہیں۔تمام افراد گرفتاری سے پہلے بالکل ٹھیک تھے۔دوسری طرف آلوڈی اورکاؤگل نے ایذا رسانی کے 41معاملات کی تفتیش کی اس تفتیش کا محور اُن ہزاروں پناہ گزینوں میں سے منتخب افراد کو بنایا گیا ہے جو ایک مخصوص لاطینی امریکی ملک سے تعلق رکھتے تھے اور جنہوں نے کینیڈا میں سکونٹ اختیار کی تھی۔تحقیق میں ایذا رسانی کے شکار32مرد اور 9عورتیں تھیں جن کی عمر دس سال سے کم سے لیکر 46سال تک تھیں (اوسط عمر 26-9سال،ان میں سے 25فیصد کو یونیورسٹی ٹریننگ تھی ماسوائے دو عورتوں کی جنہوں نے کل 112مرتبہ جیل کاٹی تھی جومہینوں سے سالوں پر محیط تھی۔ایک شخص پانچ سالوں میں 11مرتبہ جیل ہوا تھا۔ان تمام افراد کو جسمانی اور ذہنی ایذا رسانی سے گزرنا پڑا۔آلوڈی اور کاؤگل نے نتیجہ اخذ کیا کہ وہ سب ایک ہی جیسے نفسیاتی عارضے میں مبتلا تھی جس کی علامت شدید گھبراہٹ و چینی،نیند میں کمی،جبرے متعلق خواب یا اُن کا اپنا ایذا رسانی کا تجربہ،جسمانی علامات،بے جا خوف شک اور ڈر ہیں۔اپنے تجزئیے میں انہوں نے یہ اخذ کیا کہ شخص نظریاتی تیاری ،لگاؤ اور گروپ کا سہاراایذا رسانی سے نفسیاتی صحت یابی کے لئے مثبت نسبتی تعلق رکھتے ہیں۔
بعض اوقات باقی باندہ علامتیں SEQUALعضو یا افعال میں ایسی خرابی پیدا کرسکتی ہیں جو ایذا رسانی کا براہ راست نتیجہ نہیں ہوتی۔مثلاً لنڈی،امردوں کے جنسی افعال کا مطالعہ کیا۔انہوں نے دیکھا کہ سریا جنسی اعضاء پر چوٹ یا ایذا رسانی کی شدت سے آزاد 19فیصد لوگوں نے جنسی افعال میں گڑبڑ کی شکایت کی جو خواہش میں کمی یا خیزش میں خلل پر مشتمل تھی جبکہ دماغی یا جنسی کی ہارمون میں کوئی کمی نہ تھی۔ایک اور مطالعہ میں جنسن،حنسیفکی اور دوسروں نے پانچ افراد میں جن کی عمریں چوبیس سے انتیس سال کے درمیان تھیں جو شرابی نہ تھے اور پہلے بالکل مند تھے، دماغ اورپری جھلی یا مرکزی حصے میں ناکارہ پCORTIACALORCENTALکمپیوٹرائزڈ ایکذئیل ٹوموگرافیCOMPUTRISED AXIAL TOMOGRATHYکے ذریعے دیکھا۔
یہ افراد شدید اور لمبے درد،گھبراہٹ ،اُداسی ،کمزوری،نیند کی گڑبڑ ،ذہنی تھکن آنکھوں میں درداور کمزوری جنسی افعال میں گڑبڑ کی علامتیں کئی سال تک موجود ہیں۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ ناکارہ پن کی تبدیلیاں سر پر چوٹ کی وجہ سے نہیں ہوتیں،ایک ممکنہ طریقہ کار جس سے یہ علامتیں ہوسکتی ہیں وہ ہے شدید اور طویل المدت ایذا رسانی کے نتیجے میں کورتی سول CORTISOLہارمون کی زیادتی۔
ایذیت رساں:
’’ہم نے اُن تمام(سیاسی قیدیوں)کی قتل کرنے کی جسارت نہ کی جبکہ ہم یہ کرسکتے تھے اور ایک دن تو ہمیں انہیں چھوڑنا ہی پڑے گا۔لیکن ہمیں اس دستیاب وقت کا فائدہ اُٹھانا ہے تاکہ انہیں پاگل بناسکیں۔‘‘
میجر آگومیڈس میچل ڈائریکٹر آف لیبر ٹاؤجیل،یوروگوائے۔
جب ایسے انسانی رویے سے سابق پیش آئے خصوصاً جب کہ وہ بہت منفی خصوصیت کا حامل ہوتا ماہرین نفسیات اور اس میدان سے تعلق رکھنے والے دوسرے لوگ اس کی جڑیں بنیادی طور سے فرد میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں یا بہت ہوا تواس کے آس پاس کے ماحول میں اس تنگ نکتہ نظر سے اذیت پسند ،معاشرت دشمن طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔جو والدین کی ناقص تربیت ،اپنی جذباتی محرومی پر ناراضگی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے یا مزید تخفیفی REDUCTIONISTکے حوالے سے جنسیاتی GENETICکمی یا دماغ میں کچھ کیمیائی توازن میں گڑبڑ کی وجہ سے ہوتا ہے۔اس اندرونی نظام فہم INTRESYSTEMATIC OFRIENTATONک امسئلہ یہ ہے کہ یہ سییت یا علیتCASUALITYکو کسی ایک یا کچھ عناصر سے جوڑتی ہے جبکہ معاشرتی ومعاشی حالات کو یا تو بالکل خاطر میں نہیں لاتی یا انہیں صرف اکثیرالوجوہات سبیبتMULTIDETERMINED CASUALITYمیں عناصر کا مجموعہAGGREGATE FACTORSقرار دیتی ہے۔معاشرتی و معاشی نظام اور اس سے بننے والی کلچر ایک بنیادی عنصر ہے جو تاریخ کو بنایا(اور اس سے بنتا بھی) ہے۔جو ترجیحات طے کرنا ہے اور ماحول میں تبدیلیاں لاتا ہے۔
جارحیتAGGRESSIONکا ماخذ فرد یا اُس کے قریبی خاندان میں تلاش کرنے کا نظریہ دراصل مسئلہ کے تنقیدی جائزے سے پہلو تہی کرتا ہے یہ نظریہ اُن معاشروں کی تاریخ کو نظر انداز کرتا ہے جہاں جارحانہ رویوں کو پسندیدہ تصور کیا جاتا ہے ،جنگی ہیروں کی مدح ہوتی ہے اور جہاں تباہی وبربادی کی قوتوں کی موجودگی کو امن کی ضمانت قرار دیا جاتا ہے ۔دوسرے لفظوں میں جس شخص کا ہم مطالعہ کرنا چاہتے ہیں اُس کے لئے ہمیں فرد اور اُ س کے قریبی خاندان سے باہر بھی جانا ہوگا اور ان حالات کا جائزہ لینا ہوگا جو معاشرے میں عمومی طور پر پائے جاتے ہیں اور جن کو تشدد آمیز کاروائیوں سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔سیاسی اذیت رساں دراصل معاشرے ،فوج اور قوم کے فائدے کے نام ہی پر تشدد کرتا ہے۔وہ اکیلا مجرم نہیں ہے جیسا کہ ہمارا ضمیر یقین کرنا چاہتاہے،وہ ایک منظم گروپ کا ممبر ہے جو نیم خودمختارانہ طور پر عمل کرتا ہے لیکن حکومت کی مختلف شاخوں کی رہنمائی میں وہ ایک بڑے جال کا حصہ ہے جو طاقت کو قائم رکھنے اور تسلط کو جاری رکھنے کے لئے بنایا گیا ہے۔کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر کوئی اذیت رساں بن سکتا ہے۔جواب سیدھا سادہ سا دانہیں ہے۔شاید مندرجہ ذیل کلاسیکی تجربہ اس گومگوکی کیفیت کو بہتر طور پر بیان کرسکے۔چند سال پہلے ایس میلگرم نے ییل YALEیونیورسٹی کی تجربہ گاہ میں تابعداری کر کرداری مطالعہ BEHAVIORAL STUDY OF OBEDIENCYکے نام سے ایک تجربہ کیا۔تجربے سے 40رضاکار شامل تھے جنہیں یقین دلایا گیا کہ وہ ایک ایسے تجرباتی مطالعے میں حصہ لے رہے ہیں جو یادداشت اور سیکھنے کے عمل LEARNINGسے متعلق ہے۔
ہر رضاکار کو کہا گیا کہ وہ سیکھنے والے کے غلط جواب پر اُسے بجلی کا جھٹکا دے۔اگرچہ کسی کو حقیقی کرنٹ نہیں دیا گیا لیکن انہیں کہا گیا کہ وہ ایسا ظاہر کریں کہ انہیں جھٹکا لگا ہے تجربہ اس طرح سے بنایا گیا تھا ،سزاکا کرنٹ ایک خاص وولٹیج تک پہنچ جائے تو استاد رضاکار اور طالب علم رضاکار اس طریقے کو ختم کرسکتے ہیں۔لیکن زبانی طور سے اس بات پر ہمت بڑھائی جاتی اور بعض اوقات سختی سے حکم دیا جا تا ہے کہ اگر طالبعلم رضاکار اپنا کام صحیح نہ کرے تو زیادہ وولٹیج کے جھٹکے دئیے جائیں۔4رضاکاروں میں کسی نے بھی تجربے کو اس وقت تک نہ روکا جب تک کہ کرنٹ کی سطح 300وولٹیج تک نہ پہنچ گئی جس پر طالبعلم رضاکار دیواروں پر پیرمارنے لگتے تھے اور کثیر الجواب سوالات کے جواب بالکل نہ دے پاتے۔تجربے کے آخر تک 40سے 26رضاکار 520وولٹ کی حد تک پہنچ چکے تھے۔
یہ تجربہ ہمیں انسانی امکانات کے بارے میں بتاتا ہے اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص کس طرح متغیراتVARIABLEکی تبدیلی سے اپنی خواہشات کے برخلاف کام کرتا چلا جاتا ہے۔یقیناًتجربے کے بہت سے پہلو ہیں جن پر سوال کئے جاسکتے ہیں مثلاً حقیقی اذیت زدہ کون تھے؟ یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ یہ تجربے کے ماحول کے بارے میں ایک اوسط آدمی شاید یہی یہ سوچ سکے کہ یہ غلط بھی ہوسکتا ہے۔اس تجربے میں حصہ لینے والے بہت سے کردار اپنے ساتھیوں کو درد اور دباؤ کے باوجود جھٹکے دیتے رہے اور اپنے تضادات سے لڑتے ہوئے سائنس دانوں کی سفارشات کو حق بجانب ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
اس تجربے سے یہ نکتہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ انفرادی اذیت رساں کو ایک خاص نفسیاتی فتورPSYCHO PATHOLOGYکا نام دے دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ اس قسم کے مشق کو اگر جاری نہ رکھا جائے تو وہ خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔الایہ کہ تشدد کرنے پر فائز شخص خود بھی کوئی سماج دشمن اور مجرم ہو۔
اذیت دینے والا اذیت رسانی کو پیشہ کے طور پر کیونکہ اختیار کرلیتا ہے۔پہلے بات تو یہ اس کے پس منظر میں ایسے معاشرتی اور مادی حالات کا ہونا لازمی ہے جو اس بدمعاشی کے کام کو آسانی سے سہارسکیں دوسرے اس کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے تاکہ وہ کام کو بہترین اور عزم کے ساتھ کرسکے۔یہ تعلیم اذیت رسانی کے اسکولوں اور بعض اوقات غیر ملکی ماہرین کے ذریعے دی جاتی ہے۔جس کا مطلب نہ صرف اذیت کی تکنیک سے آگاہ کرنا ہوتا ہے بلکہ اُسے نفسیاتی اور نظریاتی طور پر کام کے لئے تیار کرنا ہوتا ہے۔یہ ذہنی تیاری کیسے حاصل کی جاتی ہے؟سب سے پہلے تشدد کا ہدف بننے والے شخص یا گروپ کو غیر انسانی باور کرایا جاتا ہے۔اس تربیت میں اذیت زدہ کو ایک شے کے طورپر دیکھنا ضروری ہوتا ہے جوکہ ریاست،شماجی طبقے جس کی وہ خدمت کرتا ہے،کا مخالف ہے اور سماج کے لئے اُسے سزادینا ضروری ہے۔اس ضمن میں دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ اذیت دینے کے کام پر فائز افراد کو یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ جو کھ کر رہے ہیں یا اُس سے جو کچھ کروایا جارہا ہے وہ ملک اور قوم کے فائدے میں ہے۔اس طرح اُن کے بدترین افعال بھی،اخلاقی اصولوں کی شدید خلاف ورزی نہیں کرتے تیسری اہم بات یہ ہے کہ ان کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ خود ان کی کاروائیاں ہمیشہ خفیہ رہیں گی۔اس یقین دہانی کے نتیجے میں انفرادی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے البتہ انفرادی خواہش کو تنظیم کے تابع کرنا پڑتا ہے۔تربیت کے ضمن میں چوتھا اہم پہلو یہ ہے کہ انسٹرکٹر پر اسراریت کی فضاء کو پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ طویل المدت لگاؤ اور گروپ کی جذبندی میں مدد ملے۔
اذیت رساں کو اکثر اوقات جھوٹے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔جس سے اُس کی شخصی خصوصیت کا اظہار ہوتا ہے اور چند کو قائدہ ڈاکٹر کہا جاتا ہے۔اس تربیت کے باوجود،یہ ممکن ہے کہ اذیت رساں اپنے عمل کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہواور یہ محسوس کرے کہ وہ بھی استحصال کا نشانہ بنے وہ عموماً کم درجے کا عہدیدار ہوتا ہے جوکہ اُس سماجی طبقے سے تعل رکھتا ہے جس کا وہ خود استحصال کرتے ہیں جن کی وہ خدمت انجام دیتا ہے اور نتائج کے فوائد بھی حقیقتاً اُس کے لئے نہیں ہوتے۔یہ صورتحال اُسے شدید تضاد کا شکار بنادیتی ہے جو اُس کے عمل میں بھی منعکس ہوتا ہے اور اس سے تقاضہ کرتا ہے کہ ذاتی سطح پر اُس کو سُلجھائے۔