ہفتہ، 23 نومبر، 2013

میرا تخلیقی عمل ۔۔ تحریر اے آر داد



ایک تخلیق کار تخلیقی عمل کے دوران جن کیفیات سے گزرتا ہے،وہ بلاشبہ اس کی تخلیق پر اثرنداز ہوتی ہیں،اس لئے تخلیق کو جانچنے کے لئے تخلیق کار کے تخلیقی عمل سے تعلق کو جاننا خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔ ہماری خواہش ہو گی کہ اس سلسلے کے تحت ہم بالخصوص بلوچستان کے نامور تخلیق کاروں کے خیالات جان سکیں۔ اے ۔آر۔دادؔ ، بلوچی زبان کے نامور ادیب اور نقاد ہیں۔وہ ان چند ادبا میں شامل ہیں جو معاصر تنقیدی تھیوری پر انتہائی گہری نظر رکھتے ہیں۔ جامعہ بلوچستان کے شعبہ بلوچی سے وابستہ ہیں۔ اس سلسلے کا پہلا مضمون ان کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔



میں کیوں لکھتا ہوں یا میرا تخلیقی عمل کیا ہے،اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ۔ہر کسی نے اپنی دکھ بھری کہانی سنائی ہے کہ یہ ہے میرا تخلیقی عمل یا میں ایسے لکھتا ہوں ۔مجھے یہ اچھا لگتا ہے، مجھے یہ اچھا نہیں لگتا۔لکھتے وقت میرا کوئی نظریہ نہیں تھا یا میں اس لئے لکھتا ہوں کہ اپنا کتھارسس کر سکوں یا پھر بیمار ہو جاؤں۔
اب اگر میں اس سلسلے میں کچھ کہوں بھی تو کیا کہوں۔ میرے لئے تخلیقی عمل سے زیادہ تخلیق کی اہمیت ہے ۔تخلیقی عمل سے یہ پتہ بھی نہیں چلتا کہ لکھتے وقت لکھاری کی اندرونی کیفیت کیا تھی ۔اس لئے تو آج کل آمد اور آورد کی صورتِ حال مشکوک ہو چکی ہے ۔ تخلیق میں دونوں کیفیتیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں ۔لکھت کی اہمیت اب لکھاری سے زیادہ ہو چکی ہے ۔ ’نئی تنقید‘ جو کہ امریکہ کی ادبی سوغات ہے ،آئی اے رچرڈ نے پہلی دفعہ نظم کو اہمیت دی۔ نظم نگار کو صیغہ راز میں رکھا تاکہ تبصرہ کرتے وقت نظم ان کی شخصیت پہ بھاری نہ پڑ جائے ۔ نئی تنقید،تاثراتی تنقید سے متاثرہ چیز تھی ۔اس میں ہمارے ٹی ایس ایلیٹ صاحب بھی شامل تھے جو ادب کو شخصیت سے فرار سمجھتے تھے ۔دیکھنے اور محسوس کرنے والے کے درمیان فرق ہے ۔ادب کوئی سوانح عمری نہیں ہے کہ اس میں ادیب صرف اپنی کہانی لکھتا رہے ۔حالات بدلتے ہیں۔ فکر و خیال میں تبدیلی آئے گی ۔ویسے بھی ادب فکر و خیال سے زیادہ زبان کے تخلیقی عمل سے تعلق رکھتا ہے ۔تو پھر فنکار کی شخصیت کو ہم کہاں رکھیں؟ ویسے بھی ہماری تہذیب میں لباس کی قیمت آدمی سے زیادہ ہے ۔ اس تہذیب میں آرٹ و فن سے زیادہ فنکار، قبیلہ اور خاندان کی بالا دستی چلتی ہے ۔اس جیسی تہذیب میں نئی تنقید اور فن کی آبیاری ایک بڑی تبدیلی ہے۔
اس تبدیلی سے فن کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔ اب آپ کہیں ،میں اپنی کہانی کیا بیان کروں جو فن کے لئے بس ایک وسیلہ یا میڈیم کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ بس جو کچھ کہیں سے مل جائے، پڑھ لینا۔ یہ مت سوچنا ،فنکار کا چہرہ کیسا ہو گا۔ کس برانڈ کی سگریٹ پیتا ہو گا۔ ایک زمانے میں لوگ ان باتوں میں دلچسپی ضرور لیتے تھے ۔مگر عرصہ گزر جانے کے بعد پتہ چلا کہ فنکار یکتا پسند تو ہے مگر اس کے فن میں کوئی خاص انفرادیت نہیں ۔ فیض احمد فیضؔ نے لکھا ہے کہ جب میں نے سارتر کو دیکھا تو وہ مجھے کوئی فلاسفر نہیں لگا، وہ سیٹھ یا دکاندار نظر آ رہا تھا۔ تحلیلِ نفسی کے لئے نفسیاتی ادب کو فنکار کے خطوط و ڈائری یا نجی زندگی کے گوشوارے کی ضرورت ہوتی ہے ۔مگر اس سے فنکار کے بارے میں کچھ ہاتھ لگنے والا نہیں ۔ وہ اس لئے کہ ادب اور نفسیات کے اشارے و علامات کے درمیان بڑا تفاوت ہوتا ہے ۔نفسیات کے اشارات پہلے سے متعین ہیں ،مگر ادب میں ایسا نہیں ہوتا۔
میں نے بس پڑھا۔ پڑھنے کی کوشش کی۔ بڑے لوگوں کو پڑھنے کی کوشش کی تاکہ ان سے کچھ سیکھوں۔ میں اب بھی پڑھتا ہوں۔ یہی ایک کام ہے بس۔روسی، لاطینی، فارسی، عربی پڑھ کر ان پر بولنے کی کوشش کرتا ہوں۔ پھر یہ بھی سوچتا ہوں کہ ان کی اپنی زبان میں کیا اہمیت ہو گی ۔جب بڑی زبانوں کو پڑھ کر اپنی طرف دیکھنے کی کوشش کرتاہوں توکچھ اچھا نہیں لگتا۔ مطمئن نہیں ہوتا ہوں۔ دل چاہتا تو ہے کہ ہمارے ہاں بھی اس قسم کی چیزیں تخلیق ہوں مگر شاید آنے والی نسل کچھ مزید کرب و شدت سے گزر کر یہ راز پا لے کہ صرف تجربے کو بیان کرنا کوئی کمال کی بات نہیں ۔ادب ،صحافت سے اس لئے مختلف ہوتا ہے کہ صحافت میں سوچنے اور فکر کرنے کی گنجائش کم نکلتی ہے ۔وہ اس لیے کہ صحافت میں جانب داری شامل ہوتی ہے ۔ادب میں مصنف خود کسی چیز سے محبت اور نفرت نہیں کر سکتا۔ اس لئے ادب ہمیشہ پڑھنے والوں کے لئے ہوتا ہے ۔میں لکھنے سے زیادہ پڑھنے کو اہمیت دیتا ہوں ۔میں جب اسکول میں پڑھتا تھا تو رضیہ بٹ اور سلمیٰ کنول کو بھی پڑھتا تھا ۔ساحر ؔ اور ساغرؔ صدیقی بھی اچھے لگتے تھے ۔مگر اب میں کسی کو بھی یہ بری نصیحت نہیں کرتا کہ انہیں پڑھیں۔اب تو میں کسی بھی دوست کو یہی کہوں گا کہ اگر اردو فکشن پڑھنا ہے تو انتظار حسین کو پڑھیں۔ ان سے اساطیر اور استعارات کو برتنے کا فن سیکھیں ۔ انور سجاد سے یہ سیکھیں کہ موسیقی اور کہانی کے درمیان نازک فرق کیا ہے۔ لفظوں سے آہنگ اور موسیقی کیسے پیدا کی جا سکتی ہے۔ سریندر پرکاش اور بلراج مین را کو پڑھیں تب آپ کو پتہ لگے گا کہ اچھا لکھنے کے لئے کتنی محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔
بڑ ے لکھاریوں کی یہی بڑی خصوصیت ہوتی ہے کہ ان کو پڑھنے کے بعد لگتا ہے کہ اچھا لکھنا محنت طلب کام ہے ۔ ورنہ مڈ ویک، عام میگزین اور پرچوں کے لکھاریوں سے متاثر ہونا اور ان کا مقابلہ کرنا کہ میں بھی ایسا لکھ سکتا ہوں ،مشکل کام نہیں ہے۔اس لئے ہمارے ہاں بُرے لکھاریوں کی تعداد زیادہ ہے کہ وہ اپنے سے کم تر لوگوں کو پڑھ کر لکھنا شروع کر دیتے ہیں ۔بلوچی میں میری ایک دو کتابیں ضرور آ چکی ہیں مگر میں ان سے خوش نہیں ہوں اور نہ خوش ہونا چاہتا ہوں ۔ ایک کام جسے کرنے کی آرزو ہے وہ یہ کہ بلوچی قدیم شاعری کی شعریات کو مرتب کروں۔ یہ دیکھوں کہ ہمارے یہاں شاعری میں مضمون کی اہمیت زیادہ تھی یا استعارے کی، یاہمارے ادبی معاشرے میں شعر کی قدر ومنزلت کا تعین کرنے کے لئے کون سی چیزیں ضروری تھیں۔ میں ادب کی ’ادبیت‘ کو پسند کرتا ہوں ۔ مجھے نئی تنقید اور روسی فارملزم والوں کی باتیں اچھی لگتی ہیں ۔ اس لئے میں ژاک دریدا کی ردِ تشکیل کو بھی پسند کرتا ہوں ۔ جہاں معنی آفرینی ہوگی،وہاں فن ہوگا،ادبیت ہو گی۔ وہ تخلیق ہمیشہ زندہ رہے گی۔ میں روز نیا اور اچھا پڑھنے کی حسرت لئے نکلتا ہوں ۔مجھے تخلیق کار کی انفرادیت سے ان کی فنی انفرادیت زیادہ
پسند ہے۔
ادب نہ تاریخ ہے ، نہ نظریہ ،نہ پروپیگنڈا و تبلیغ۔ یہ وقتی چیزیں ہیں ۔ ان میں ادب کو زندہ رکھنے کی آب و تاب نہیں ہوتی ۔ یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جو تخلیقی سطح پر بانجھ ہوتے ہیں ۔کسی نظریے کا سہارا لے کر ٹائم پاسی کا نعرہ مستانہ بلند کرتے نظرآتے ہیں۔بوڑھے لوگ فائدے کا زیادہ سوچتے ہیں۔
میرا تخلیقی عمل کچھ اس طرح کا ہے ۔اسی سے مجھے تحریک ملتی ہے ۔انہی سے میں اپنی کہانیاں بُنتا ہوں اور نظمیں لکھتا ہوں۔ میں جب اپنے شہر میں ہوتا تھا تو اپنے بیٹے،جو اس وقت دس سال کا ہو گا، کو لے کر والدین کی قبر پہ فاتحہ پڑھنے جاتا تھا۔ایک روز ہم فاتحہ پڑھ کر کسی تنگ گلی سے واپس گھر کی طرف لوٹ رہے تھے ۔ہمارے درمیان خاموشی تھی ۔میرے بیٹے نے کہا؛ ’’ابو ،جب آپ مر جائیں گے تو میں فاتحہ پڑھنے قبرستان آیا کروں گا۔‘‘
اس بات کو دو سال گزر جانے کے بعد بھی میں اپنے اندر محسوس کرتا رہتا ہوں ۔مجھے یوں لگتا ہے کہ آج ہم کسی تنگ گلی سے ہو کر گھر کی طرف واپس لوٹ رہے ہیں اور خوشحال (میرا بیٹا)کہہ رہا ہے؛’’ابو،جب آپ مر جائیں گے میں فاتحہ پڑھنے آیا کروں گا۔‘‘
یہی چیز مجھے کہانی اور نظم لکھنے پر اکساتی ہے ۔ میں انہی باتوں ،مناظر،چہروں، کھڑکیوں حتیٰ کہ خاموشی میں ذرا سی آہٹ سے متاثرہو کر لکھتا ہوں ۔میں کبھی بھی بڑے حادثے سے متاثر نہیں ہوا۔اگر ہوا بھی تو اس حادثے کی بجاے ایک ایسے مختصرواقعے سے جس کی لوگوں کی نگاہوں میں کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔
مجھے جنگ کی روداد سے زیادہ ایک سپاہی کا اپنے آپ سے محوِ گفتگو ہونا یا خود کلامی کرنا اچھا لگتا ہے۔ یہ بات میں نے جیمس جوائس سے سیکھی تھی کہ ادب لکھنے کے لئے بڑے واقعے کی ضرورت نہیں ہوتی،بلکہ بڑا فنکار وہ ہے جو ادنیٰ سے واقعے میں سے بڑی بات نکال لے۔ پرانے مضمون میں سے نئی بات نکالنا ایک مشکل کام ہے۔ یہی مضمون آفرینی ہے ۔ یہی بین المتنیت ہے۔

1 تبصرہ:

  1. waja ar dad man zana tao net istimal na kany. o amy gapani sara tae guma herch wahda had o janjal beetag. bale her kas e rah jita int. bale johd berja int. dila int k tafsili tae mazmoon e babata chaize nibishta bikana. bale ida amincho wati rahe e izhar a kana......waja a.r.dad sahib tao herchi goshtag o herchi liketag chaize rast o chaize mai nazer a rad ant. waki art e dunya jita int. bale a gp k tao nibishta kotag. k k man adab nibishta kaneen o man adab takleek kaneen. na k nazriya . o nazriya arizi chaize . o man yak nazriya e manok an. waja ar dad sahib dunya e toka kas bey nazriya nabotag o na k beet. o marchi tao k art e nazriya e gpa jany. a am nazriya e. o am yak mazbootain soch e. bazain nibishta kar marchi am ishi manok ant. o bazain marchi socilist adab takleek kan ant. a nabohokain gapy k adeeb wati rahey e izhar a nakant. adeeb wati rahey e izhar a kant bale wati dapa ena. degar e dapa.. marchi gp balochi nazriya e gp bibet. tae chok koshal tara herchi goshet. ahe tae dila naraoht. aga yak nibishta kar e dil ahe daima rostagain sangt na rahot. o ah amahe javer o ahe kayalan bayan. o may tab e isab a na bent. guda ma amy gushan k adab e toka nazriya e manok int. o tao art e nazriya e manoky. dohain nazriyati fiker e parchar a kan ant. yaky art e o yaky balochochiyat e. bs fark aish int. k art e dunya cha fikr a jita int. o art e dunya magribi jahan baz daimravi kotag. o ma gulam am ma paisar gulami a sarpad biban. randa adab a sarpad ban. herch log ass o angar int. ah a wahda koja adab want kant. o ahe a sarpad bet kant.aga tae adabi banj e gpa bizeran guda ishi matlab aish int. k baloch labzankarani toka bazain banj beetag ant. o nazim hikamat o pablo niroda a bigir tan gul khan kol baanj beetag. mani hayala waja ar dad sahib amy jah tao kamo jazbati beetag e. cheya pa man zant nakana.. ............................. hassan janan

    جواب دیںحذف کریں