جمعرات، 28 جون، 2018

ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے کتنی دیر سونا ضروری ہے؟



ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے کتنی دیر سونا ضروری ہے؟
ایوا اونٹیویروس
آپ نے کتنے لوگوں کو اپنی کم سونے کی عادت کے بارے فخریہ طور پر کہتے سنا ہو گا مگر نیند کی کمی ہمارے دماغ اور جسم کو حیرت انگیز طرح سے متاثر کر سکتی ہے۔
یہاں تک کہ کم سونے والوں کے بارے میں جان کر آپ کو ان کے فیصلوں اور معقولیت پر شک گزرنے لگے گا۔
پروفیسر میتھیو واکر یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے میں نفسیات اور علم الاعصاب کے استاد ہیں۔
وہ 'ہم کیوں سوتے ہیں' نامی کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ یہ کتاب ممکنہ طور پرآپ کی زندگی بدلنے (عمر بڑھانے) کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ان کے خیال میں لوگ بہت مصروف ہو گئے ہیں اور تھوڑے وقت میں بہت کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو شواہد سامنے آئے ہیں ان کے مطابق ایسے لوگ نیند پوری نہیں کرتے۔
ہم اپنی جسمانی ضروریات کو زیادہ دیر تک نظرانداز نہیں کر سکتے۔ نیند کا پورا کرنا ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو نتیجہ طبعیت کی خرابی اور امراض کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

پروفیسر میتھیو واکر کا یہ مضمون نیند کی اہمیت اور صحت افزا طرز زندگی کے بارے میں ہے۔

نیند کیوں ضروری ہے؟

لاکھوںمریضوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نیند اور عمر کا براہِ راست تعلق ہے۔ نیند جتنی کم ہوگی عمر بھی اتنی ہی کم ہوگی۔
لہٰذا اگر آپ زیادہ جینا اور صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو نیند پوری کرنے کے لیے جو بن پڑے کریں۔
نیند خود کو صحت مند رکھنے کا ایسا نسخہ ہے جس پر کچھ خرچ نہیں آتا اور نہ ہی یہ کوئی کڑوی دوا ہے جسے پینے سے انسان ہچکچائے۔
درحقیقت نیند کے اتنے زیادہ فائدے ہیں کہ پروفیسر واکر نے ڈاکٹروں کو قائل کرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ اپنے مریضوں کو نیند بطور علاج تجویز کریں۔
نیند کے لاتعداد فائدے ہیں۔ ذہن اور جسم کا کوئی ایسا حصہ نہیں جو کم نیند کی وجہ سے بری طرح متاثر نہ ہوتا ہو مگر نیند قدرتی ہونی چاہیے کیونکہ نیند کی گولی سے دوسرے امراض لاحق ہو سکتے ہیں۔

کم خوابی کے ذہن اور جسم پر اثرات

ترقی یافتہ ممالک میں موت کا سبب بننے والے تقریباً تمام امراض کا تعلق کسی نہ کسی طور نیند کی کمی سے ہے۔
ان میں الزائمر یا بھولنے کی بیماری، کینسر، امراضِ قلب، موٹاپا، ذیابیطس، ڈپریشن، ذہنی پریشانی اور خودکشی کا رحجان شامل ہیں۔
تمام جسمانی اور ذہنی افعال کی ٹھیک طور پر انجام دہی کے لیے نیند ضروری ہے۔
کیونکہ ہمارے جسم اور دماغ میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت نیند کے دوران ہوتی ہے اور ہم تازہ دم ہو کر بیدار ہوتے ہیں۔ لیکن اگر نیند پوری نہ ہو تو مرمت بھی نامکمل رہتی ہے۔
پچاس سال پر مبنی سائنسی تحقیق کے بعد نیند کے ماہرین کہتے ہیں کہ سوال یہ نہیں کہ 146نیند کے فائدے کیا ہیں' بلکہ یہ ہے کہ 'کیا ایسی بھی کوئی چیز ہے جس کو نیند سے فائدہ نہیں پہنچتا'۔
اب تک کوئی ایسی چیز سامنے نہیں آئی جس کے لیے نیند کو مفید نہ پایا گیا ہو۔

کتنی دیر سونا کافی ہے؟

مختصر جواب ہے سات سے نو گھنٹے۔
سات گھنٹے سے کم نیند جسمانی اور ذہنی کارکردگی اور بیماریوں کے خلاف جسم کے مدافعتی نظام کو متاثر کرتی ہے۔
بیس گھنٹے تک مسلسل جاگتے رہنے کا اثر انسان پر ویسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ کسی نشہ آور چیز کے قانونی حد سے زیادہ لینے کا۔
نیند کی کمی کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو فوری طور پر اس کے برے اثرات کا علم نہیں ہوتا۔
یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی نشہ میں دھت شخص خود کو بالکل ٹھیک ٹھاک سمجھتا ہے۔مگر آپ جانتے ہے کہ وہ ٹھیک نہیں ہے۔

گہری نیند کیوں نہیں آتی؟

گذشتہ 100 برس کے دوران ترقی یافتہ ملکوں میں نیند میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
اب لوگوں کو گہری نیند نہیں آتی جس کی وجہ سے وہ خواب بھی نہیں دیکھ پاتے۔ حالانکہ خواب کا آنا ہماری تخلیقی صلاحیت اور ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے۔
(گہری نیند کو طب کی اصطلاح میں 146آر ای ایم سلیپ145 یا ریپِڈ آئی موومنٹ سلیپ کہتے ہیں۔ یعنی وہ نیند جس میں آنکھیں گاہے گاہے تیزی سے حرکت کرتی ہیں اور اچھے خواب آتے ہیں۔)
بالفاظِ دیگر گہری نیند یا آر ای ایم ہمارے لیے جذباتی سطح پر ابتدائی طبی امداد فراہم کرتی ہے مگر کم نیند کی کئی وجوہات ہیں۔

اہمیت سے ناواقفیت

اگرچہ سائنسدانوں کو نیند کی اہمیت کا احساس ہے لیکن اب تک انھوں نے اس کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔
زیادہ تر لوگوں کو اس کی اہمیت کا ادراک نہیں اس لیے وہ اس کے بارے میں زیادہ سوچتے ہی نہیں۔

زندگی کی رفتار

عام طور پر ہم کام زیادہ کرتے ہیں اور پھر سفر میں بھی خاصا وقت صرف ہوجاتا ہے۔ ہم صبح جلدی نکلتے ہیں اور شام کو دیر سے گھر آتے ہیں۔
پھر ہم اہلِ خانہ اور دوستوں کے ساتھ بھی وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ کچھ دیر کے لیے ٹی وی بھی دیکھتے ہیں۔ ان سب کا نتیجہ نیند کی کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔
نیند کے بارے میں تصورات اور رویے

ایک بڑا مسئلہ نیند کے بارے میں ہمارا تصور ہے۔ اگر آپ کسی سے کہیں کہ نو گھنٹے کی نیند ضروری ہے تو وہ آپ کو عجیب نظروں سے دیکھے گا۔
کیونکہ عام لوگوں کے خیال میں اتنی دیر تو کوئی کاہل شخص ہی سوتا ہے۔ زیادہ سونے کی عادت اتنی بدنام ہو گئی ہے کہ لوگ فخریہ بتاتے ہیں کہ وہ کتنا کم سوتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں جب کوئی بچہ زیادہ سوتا ہے تو اسے اچھا سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ بچوں میں زیادہ نیند کو نشو ونما کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔
مگر عمر کے بڑھنے کے ساتھ نیند کے بارے میں ہمارا رویہ بدلنے لگتا ہے۔ بلکہ زیادہ سونے والوں کی سرزنش کی جاتی ہے۔

گرد و پیش

ہم رات کی تاریکی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
ہمیں اچھی اور صحت افزا نیند کے لیے ایک ہارمون یا کیمیائی مادے 146میلاٹونِن145 کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارا جسم صرف تاریکی میں ہی پیدا کرتا ہے۔
بد قسمتی سے صنعتی ترقی کے اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ اب ہم مسلسل روشنی میں نہائے رہتے ہیں۔
یہ ایل ای ڈی سکرینز کے ساتھ بدتر ہو جاتا ہے کیونکہ نیلے رنگ کی روشنی میلاٹونن کی پیداوار کو اور کم کر دیتی ہے۔

کیا نقصان کا ازالہ ممکن ہے؟

ہاں اور نہیں: گزرا ہوا وقت تو واپس نہیں آ سکتا مگر اچھی تبدیلی کسی وقت بھی لائی جا سکتی ہے۔ یہ خیال کے آپ کھوئی ہوئی نیند بعد میں پوری کر سکتے ہیں غلط ہے۔
اس لیے ہفتے بھر کم سونا اور چھٹی والے دن حد سے زیادہ سونا کھوئی ہوئی نیند کا مداوا کبھی نہیں کر سکتا۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ روزمرہ کے معمولات میں تبدیلی لائی جائے اور نیند کو پورا وقت دیا جائے۔ اس کا فائدہ فوری ہوگا۔ اس کے شواہد موجود ہیں۔
مثلاً ایک گروپ کے (جس میں نیند کی خرابی کی وجہ سے زیادہ خراٹے لینے اور سانس میں تکلیف کی شکایت تھی) مطالعے سے پتہ چلا کہ جن لوگوں نے اپنی نیند پوری نہیں کی ان کی شکایات برقرار رہیں۔ البتہ جن لوگوں نے اپنی عادات بدل کر گہری نیند سونا شروع کیا انھیں اس کا فائدہ ہوا۔

کیا نیند کو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے؟

کاش ایسا ہو سکتا!
ویسے چربی کے معاملے میں ایسا ہوتا ہے۔ جب اچھی اور زیادہ خوراک میسر ہو تو وہ ہمارے جسم میں ذخیرہ ہو جاتی ہے اور خوراک کی کمی کی صورت میں یہ ہی چربی گھل کر ہمیں توانائی فراہم کرتی ہے۔
مگر نیند کے لیے ایسا ممکن نہیں کیونکہ یہ مسئلہ جدید دور کا ہے۔ انسان کے ارتقائی عمل میں یہ موجود ہی نہیں تھا۔ اس لیے نہ ہی نیند کی قضا ہو سکتی ہے اور نہ ہی یہ پیشگی ادا کی جا سکتی ہے۔

_________________
اچھی نیند لینے کے گر
ایک :  ہر روز ایک ہی وقت پر اٹھیں

دو :  خود کو اندھیرے کا عادی بنائیں، بستر میں لیٹنے سے ایک گھنٹہ پہلے لائٹ دھیمی کر دیں اور سکرینز بند کر دیں

تین : درجۂ حرارت کو اٹھارہ ڈگری سینٹی گریڈ تک رکھیں جو کہ آئیڈیل ہے

چار : اگر آپ کو نیند نہیں آ رہی تو بستر پر بیس منٹ سے زیادہ نہ لیٹیں

پانچ :  ،کیفین چستی پیدا کرنے والا محرک ہے اسے سونے سے بارہ گھنٹے پہلے کم سے کم آدھا کاٹ لیں

چھ :  شراب آپ کے آرام کو بہتر نہیں کرتی اور یہ آپ کے آر ای ایم یا گہری نیند کو بلاک کرتی ہے

ہم کیوں سوتے ہیں، تحریر پرفیسر واکر
بی بی سی 

بدھ، 13 جون، 2018

حسن بن صباح کی جنت، فسانہ یا حقیقت؟



حسین نے نہایت ہی جوش و حیرت سے دیکھا کہ انہی چمنوں میں جا بہ جا نہروں کے کنارے کنارے سونے چاندی کے تخت بچھے ہیں جن پر ریشمی پھول دار کپڑوں کا فرش ہے۔

'لوگ پر تکلف اور طلائی گاؤ تکیوں سے پیٹھ لگائے دل فریب اور ہوش ربا کم سن لڑکیوں کو پہلو میں لیے بیٹھے ہیں اور جنت کی بےفکریوں سے لطف اٹھا رہے ہیں۔ خوب صورت خوب صوت آفتِ روزگار لڑکے کہیں تو سامنے دست بستہ کھڑے ہیں اور کہیں نہایت ہی نزاکت اور دل فریب حرکتوں سے ساقی گری کرتے ہیں۔ شراب کے دور چل رہے ہیں اور گزک کے لیے سدھائے یا قدرت کے سکھائے ہوئے طیور پھل دار درختوں سے پھل توڑ توڑ کے لاتے ہیں اور ان کے سامنے رکھ کے اڑ جاتے ہیں۔'


یہ اقتباس عبدالحلیم شرر کے 1899 میں شائع ہونے والے مشہورِ زمانہ ناول 'فردوسِ بریں' سے لیا گیا ہے جس میں وہ حسن بن صباح کی مصنوعی جنت کا ڈرامائی احوال بیان کر رہے ہیں۔



فردوسِ بریں کا شمار اردو کے مقبول ترین ناولوں میں ہوتا ہے۔ یہ آج بھی تعلیمی نصابوں کا حصہ ہے اور قریب قریب ہر سکول اور کالج کی لائبریری میں مل جاتا ہے۔


مغرب میں بھی اس ناول کو خاصی پذیرائی ملی۔ اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا اور 2016 میں یورپ کے کئی شہروں میں اسی ناول پر مبنی تھیئٹر ڈرامے دکھائے گئے جنھیں ذوق و شوق سے دیکھا گیا۔



شرر اس میدان میں اکیلے نہیں ہیں۔ مشرق و مغرب میں لکھی گئی درجنوں کہانیوں، ناولوں اور افسانوں میں اس مصنوعی جنت کا ذکر ملتا ہے جس میں نوجوانوں کو نشے میں دھت کروا کر جنت کے ماڈل پر تیار کردہ باغات و محلات میں عیش و عشرت کے ماحول میں رکھا جاتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اصل جنت میں پہنچ گئے ہیں، پھر انھیں بےہوش کر کے باہر لے جایا جاتا ہے اور ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ کسی بڑی شخصیت کو قتل کر دیں تو انھیں دوبارہ اسی جنت میں پہنچا دیا جائے گا۔

مشہور ہے کہ ایسی ہی جنت 12ویں صدی میں ایران کے علاقے رودبار کے قلعۂ الموت میں حسن بن صباح نے قائم کی تھی جہاں وہ نوجوانوں کو ورغلا کر انھیں حکمرانوں، علما اور دوسرے مخالفین کے قتل کے لیے بھیجتے تھے۔
یہ حسن بن صباح کون تھے اور ان سے وابستہ ان حیرت انگیز دیومالائی کہانیوں میں کس حد تک صداقت ہے؟


علوم کی مختلف شاخوں سے لگاؤ



ان کا اصل نام حسن الصباح تھا اور وہ 1150 کی دہائی میں ایرانی شہر قم میں ایک عرب شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ لڑکپن ہی میں ان کے والد اس زمانے کے علمی گڑھ 'رے' چلے گئے۔ یہاں نوجوان حسن نے رائج علوم میں تیزی سے مہارت حاصل کرنا شروع کی۔

اپنی آپ بیتی 'سرگزشتِ سیدنا' (جس کے صرف چند ٹکڑے ہی باقی بچے ہیں) میں وہ لکھتے ہیں:
'سات برس کی عمر سے مجھے علوم کی مختلف شاخوں سے گہرا لگاؤ تھا اور میں مذہبی رہنما بننا چاہتا تھا۔ 17 سال کی عمر تک میں نے خاصا علم حاصل کر لیا تھا۔'
علوم کی یہ شاخیں دینیات کے علاوہ فلکیات، علمِ ہندسہ (جیومیٹری)، منطق اور ریاضی تھیں۔
اسی دوران ان کی ملاقات امیرہ زراب نامی اسماعیلی داعی سے ہوئی جنھوں نے نوجوان حسن کے زرخیز دماغ کے لیے بارش کا سا کام کیا۔ حسن ان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ وہ اسماعیلی ہو گئے۔


عمر خیام کے کلاس فیلو؟

یہاں ہمارا سامنا ایک دلچسپ روایت سے ہوتا ہے جس کا ذکر ایڈورڈ فٹزجیرلڈ نے عمر خیام کی رباعیات کے ترجمے کے دیباچے میں بھی کیا ہے۔ قصہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ حسن الصباح، مشہور شاعر، ماہرِ فلکیات اور ریاضی دان عمر خیام، اور نظام الملک طوسی تینوں اس دور کے مشہور عالم امام موفق کے شاگرد تھے اور انھوں نے ایک دن مل کر عہد کیا تھا کہ جو کوئی پہلے کسی بڑے عہدے تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کرے گا وہ دوسروں کو نوازے گا۔

ہوا یوں کہ نظام الملک طاقتور سلجوق سلطان الپ ارسلان کے وزیر اعظم بن گئے اور انھوں نے لڑکپن کے وعدے کو وفا کرتے حسن الصباح اور عمر خیام کو بڑے بڑے عہدے دینے کی پیشکش کی، البتہ دونوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر انھیں رد کر دیا۔
یہ کہانی ہے تو بڑی مزیدار، لیکن کیا یہ سچائی پر مبنی ہے؟ نظام الملک 1018 میں پیدا ہوئے تھے، جب کہ حسن الصباح کا سال پیدائش1050 کے لگ بھگ ہے، جس کا مطلب ہے کہ نظام حسن سے 32 سال بڑے تھے۔
مزید یہ کہ 1059 میں، یعنی جب حسن کی عمر نو سال کے قریب ہو گی، نظام الملک صوبہ خراسان کے گورنر بن کر پہلے ہی 'بڑے عہدے' تک پہنچ چکے تھے اس لیے یہ قرینِ قیاس نہیں ہے کہ وہ رے کے کسی نوعمر لڑکے کے ہم جماعت ہوں اور اس کے ساتھ کسی عہد نامے میں شریک ہوں۔


عقابوں کا نشیمن

اس زمانے میں مصر پر فاطمی خاندان کی حکومت تھی جو اسماعیلی تھے۔ قاہرہ کی جامعہ الازہر انھی نے قائم کی تھی۔ حسن 1078 میں مختلف ملکوں میں پھرتے پھراتے قاہرہ پہنچ گئے جہاں ان کے افسانے پہلے ہی سے پہنچ چکے تھے، چنانچہ فاطمی دربار میں ان کی بڑی آؤ بھگت ہوئی۔

حسن نے مصر میں تین سال گزارے لیکن اس دوران فاطمیوں کے سپہ سالار بدر الجمالی حسن کے مخالف ہو گئے اور انھیں زنداں میں ڈال دیا گیا۔ اتفاق سے زنداں کا مینار گر پڑا۔ اس واقعے کو حسن کی کرامت سمجھا گیا اور انھیں باعزت رہا کر دیا گیا۔
اس کے بعد حسن نے مصر میں مزید قیام مناسب نہیں سمجھا۔ وہ ایران لوٹ آئے اور اگلے نو برسوں تک مختلف علاقوں میں دعوت و تبلیغ میں مگن رہے۔ رفتہ رفتہ انھوں نے اپنی توجہ رودبار صوبے کے علاقے دیلمان پر مرکوز کرنا شروع کر دی۔ یہاں انھیں کوہ البرز کی برفانی چوٹیوں میں گھرا ہوا ایک قلعہ نظر آیا جو ان کے مستقبل کے منصوبوں کے لیے نہایت سودمند ثابت ہو سکتا تھا۔


یہ قلعہ الموت تھا۔



بظاہر تو لگتا ہے کہ اس قلعے کا نام موت یعنی مرنے سے متعلق ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ الموت مقامی زبان کے الفاظ 'الا' اور 'آموت' سے نکلا ہے۔ دیلمانی زبان میں الا عقاب ہے اور آموت (فارسی میں آموخت) کا مطلب ہے سیکھنا۔ روایت مشہور ہے کہ اس علاقے کا حکمران وہاں شکار کھیل رہا تھا کہ اسے ایک پہاڑی پر عقاب اترتا ہوا دکھائی دیا۔ اسے احساس ہوا کہ اس مقام کا جغرافیہ اس قسم کا ہے کہ اگر یہاں قلعہ بنایا جائے تو وہ ناقابلِ شکست ثابت ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس نے یہاں قلعہ تعمیر کروایا اور اس کا نام الموت پڑ گیا، یعنی 'عقاب کا سکھایا ہوا۔'
ہلاکو خان کے درباری مورخ عطا ملک جوینی نے، جن کا تفصیلی ذکر آگے چل کر آئے گا، اس قلعے کا دورہ کیا تھا۔ وہ اپنی کتاب 'تاریخِ جہاں گشا' میں لکھتے ہیں: 'الموت ایک ایسے پہاڑ پر واقع ہے جس کی شکل گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے اونٹ کی مانند ہے۔ قلعہ جس چٹان پر تعمیر کیا گیا ہے اس کے چاروں طرف ڈھلوانیں ہیں، صرف ایک تنگ راستہ ہے جس کا بڑی آسانی سے دفاع کیا جا سکتا ہے۔'

حسن نے قلعہ الموت کے آس پاس کے علاقے میں ڈیرے ڈال دیے۔ ان کا پیغام زور پکڑتا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے خود قلعے کے اندر ان کے حواریوں کی اتنی اکثریت ہو گئی کہ قلعہ دار حسین مہدی کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ قلعے کا اختیار حسن کے حوالے کر کے وہاں سے رخصت ہو جائے۔ یہ واقعہ سنہ 1090 کا ہے۔


اب حسن الصباح نے قلعہ الموت کو اپنا مرکز بنا کر آس پاس کے وسیع علاقے میں اپنا پیغام پھیلانے کا کام شروع کر دیا۔ کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ آس پاس کے کئی قلعے ان کے قبضے میں آ گئے جن میں سے کچھ کو خریدا گیا، کچھ پر بزور قبضہ کیا گیا اور کچھ ایسے تھے جس کے لوگوں نے دعوت سے متاثر ہو کر خود اپنے دروازے کھول دیے۔
قصہ مختصر چند برسوں کے اندر تقریباً تمام رودبار اور پڑوسی علاقوں میں حسن کی عملداری قائم ہو گئی۔
ان کے انہماک و ارتکاز کا یہ عالم تھا کہ وہ الموت میں آ جانے کے بعد 35 برس تک قلعے سے باہر نہیں گئے، بلکہ اپنے گھر سے بھی صرف دو بار باہر نکلے۔ تاریخ دان رشید الدین ہمدانی 'جامع التواریخ' میں لکھتے ہیں کہ 'وہ اپنی موت تک اپنے گھر ہی میں رہے جہاں وہ اپنا وقت مطالعے، دعوت تحریر کرنے، اپنی عملداری کا نظم و نسق چلانے میں گزارتے رہے۔'
سلجوق سلطان ملک شاہ نے اپنے دورافتادہ سرحدی علاقے چھن جانے کی خبر سن کر حسن الصباح کی سرکوبی کے لیے 1092 میں ایک لشکر بھیجا جس نے الموت کا محاصرہ کر لیا۔ لیکن سات ہزار فٹ کی بلندی پر واقع یہ قلعہ ناقابلِ تسخیر تھا، دوسری طرف آس پاس کے علاقوں سے حسن کے ماننے والوں نے کچوکے لگا لگا کر شاہی لشکر کو اس قدر زچ کیا کہ اسے چار ماہ کے بعد اپنا سا منھ لے کر لوٹتے ہی بنی۔


خودکش فدائی

الموت کے محاصرے کے چند ماہ بعد 16 اکتوبر 1192 کو سلجوق سلطان کے وزیرِ اعظم اور حسن الصباح کے میبنہ ہم جماعت نظام الملک نہاوند ضلعے میں سفر کر رہے تھے کہ دیلمان کے علاقے کا ایک نوجوان، جس نے فقیروں کا بھیس بدلا ہوا تھا، ان کے قریب پہنچا اور اپنے چغے سے خنجر نکال کر ان پر وار کر دیا۔

رشید الدین ہمدانی کے مطابق حسن الصباح کو معلوم ہوا تھا کہ الموت پر سلجوقیوں کے حملے کے پیچھے دراصل نظام الملک کا ہاتھ تھا۔ انھوں نے ایک دن اپنے فدائیوں سے کہا: 'تم میں سے کون ہے جو اس ملک کو نظام الملک طوسی کے فتنے سے پاک کر سکے؟'
ایک نوجوان بو طاہر آرانی نامی نے ہاتھ بلند کیا اور بعد میں جا کر شیخ الجبال کے فرمان پر عمل کر ڈالا اور اس دوران خود بھی نظام الملک کے محافظوں کے ہاتھوں مارا گیا۔
یہ حسن الصباح کی مہم کا پہلا 'خودکش' حملہ تھا۔
ظاہر ہے کہ سیاسی قتل حسن کی ایجاد نہیں تھا کہ یہ عمل اتنا ہی پرانا ہے جتنی انسانی تاریخ۔ لیکن جس منظم طریقے سے اور جس وسیع پیمانے پر حسن نے اسے بطور آلہ استعمال کیا، اس کی وجہ سے ان کا نام اس سے منسلک ہو کر رہ گیا ہے۔


کتنا رنگیلا تھا محمد شاہ رنگیلا؟



حسن کو معلوم تھا کہ ان کے ماننے والوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ وہ کبھی بھی سلجوقوں اور دوسرے طاقتور دشمن حکمرانوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ اس صورتِ حال میں انھوں نے وہ تکینک استعمال کی کہ بجائے ہزاروں کی تعداد میں فوجوں کا میدانِ جنگ میں دوبدو مقابلہ کیا جائے، بہتر یہی ہے کہ اپنے کسی جانثار فدائی کی تربیت کر کے اس کے ہاتھوں کسی حکمران، خطرناک وزیر، سپہ سالار یا مخالف مذہبی عالم کو قتل کروا دیا جائے۔

یہ طریقہ حیرت انگیز طور پر کامیاب ثابت ہوا۔ طوسی کے بعد حسن کے فدائین کے نشانے پر کئی حکمران، شہزادے، گورنر، جرنیل، اور علما بنے، اور ان کی دہشت نزدیک و دور تک پھیل گئی۔ کئی اہم شخصیات کسی بھی اجنبی سے ملنے سے کترانے لگے اور دوسرے اپنے لباس کے نیچے احتیاطاً زرۂ بکتر پہننے لگے۔


مقبول ویڈیو گیم

پچھلے چند عشروں کے دوران خودکش حملہ آوروں کی لہر کے بعد حسن الصباح کے نام کی بازگشت اکثر میڈیا میں سنی گئی ہے اور جدید دور کے خودکش حملہ آوروں کو قلعہ الموت کے فدائیوں سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔

کئی ناولوں، کہانیوں، نظموں کے علاوہ حسن الصباح کے فدائی اور ان کی جنت آج کی مشہور ویڈیو گیم 'اسیسنز کریڈ' میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔ اس کا شمار دنیا کی مقبول ترین گیمز میں ہوتا ہے اور اب تک اس کی دس کروڑ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔
سنہ 2016 میں اس ویڈیو گیم پر مبنی ایک فلم بنائی گئی جس نے 24 کروڑ ڈالر سے زیادہ کا بزنس کیا۔


شیخ الجبال اور ان کی مصنوعی جنت

قلعۂ الموت میں حسن الصباح کی زندگی کا یہی وہ دور ہے جو بعد میں آنے والی صدیوں میں اساطیری حیثیت اختیار کر گیا۔ انھیں عام طور پر شیخ الجبال (Old Man of the Mountain) کہا جاتا ہے۔ مشہور ہے کہ انھوں نے اس قلعے میں ایک مصنوعی جنت قائم کر رکھی تھی جس کی ایک جھلک نوجوانوں کو دکھا کر انھیں سلاطین، وزرا، مذہبی رہنماؤں اور دوسری سرکردہ شخصیات کے قتل کے لیے آمادہ کیا جاتا تھا۔

مخالفین کی نظر میں یہ لوگ دہشت گرد تھے، لیکن خود حسن الصباح اور ان کے حامیوں کے نزدیک یہ فدائی تھے جنھیں مقصد کے حصول کی خاطر جانیں قربان کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی تھی۔ قلعہ الموت میں ایسے تمام فدائیوں کے نام ایک قسم کے 'رول آف آنر' میں داخل کیے جاتے تھے اور انھیں شہید کا درجہ دیا جاتا تھا۔


مارکو پولو کی کارستانی

یہ کہانی مشہور کرنے میں سب سے نمایاں کردار مارکو پولو نے ادا کیا۔ یہ وہ اطالوی سیاح تھا جس کا سفرنامہ دنیا کی مشہور ترین کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کتاب میں مارکو پولو نے لکھا ہے:

'شیخ الجبال نے دو پہاڑوں کے درمیان واقع وادی میں ایک وسیع و عریض اور خوشنما باغ بنوایا ہے جس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ اس میں ہر قسم کے پھل پائے جاتے ہیں اور تصور سے باہر حسین محلات اور خیمے ہیں جن پر سونے کے ورق چڑھے ہیں اور ان میں نفیس تصاویر ہیں۔ اس باغ میں چھوٹی چھوٹی ندیاں ہیں جن میں شراب، دودھ، شہد اور پانی بہتا ہے، اور یہاں دنیا کی حسین ترین دوشیزائیں ہیں جو ہر طرح کے ساز بجاتی ہیں اور وہ حسین نغمے گاتی ہیں اور دل لبھانے والے رقص کرتی ہیں۔'
مارکو پولو مزید لکھتے ہیں کہ 12 سے 20 برس عمر کے نوجوانوں کو نشہ پلا کر اس باغ میں لایا جاتا ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جنت میں پہنچ گئے ہیں۔ اس کے بعد جب انھیں بے ہوش کر کے اس فردوسِ بریں سے نکالا جاتا ہے تو وہ اپنی زندگی کی پروا کیے بغیر کسی کو بھی قتل کرنے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
مارکو پولو کا سفرنامہ اپنے دور کا 'بیسٹ سیلر' ثابت ہوا اور اس کی وساطت سے یہ کہانیاں یورپ بھر میں پھیل گئیں، جو آج تک کسی نہ کسی شکل میں دہرائی جاتی ہیں۔
اس دوران کسی نے یہ نہ سوچا کہ مارکو پولو جب 1272 میں چین جاتے ہوئے اس علاقے سے گزرے، تب حسن الصباح کو فوت ہوئے تقریباً ڈیڑھ صدی اور منگولوں کے ہاتھوں قلعۂ الموت کو تباہ ہوئے 15 برس گزر چکے تھے۔
دوسری طرف کچھ جدید مورخین نے کہا ہے کہ مارکو پولو چین تو کجا، ترکی سے آگے تک گئے ہی نہیں تھے اور انھوں نے ساری کہانیاں استنبول میں بیٹھ کر سیاحوں اور ملاحوں سے سن سنا کر لکھ ڈالیں۔



لیکن یہ افسانہ مارکو پولو کی ایجاد نہیں ہے۔ اس زمانے میں حسن الصباح اور قلعہ الموت کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں گردش میں تھیں، انھوں نے کہیں سے ایسی ہی کوئی اڑتی اڑتی خبر سن کر اسے تحریر کر دیا جس کے بعد یہ کہانی دنیا بھر میں 'وائرل' ہو گئی۔

ہم نے ہلاکو خان کے درباری مورخ عطا ملک جوینی کی 'تاریخِ جہاں گشا' کا ذکر کیا تھا۔ جوینی حسن الصباح اور اسماعیلیوں کے سخت دشمن تھے، اس لیے ان سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ان سے کسی قسم کی رو رعایت برتیں گے۔
ہلاکو خان نے جب 1256 میں قلعہ الموت فتح کیا تو جوینی ان کے ساتھ قلعے پہنچے۔ وہ بڑی تفصیل سے حسن الصباح کے حالاتِ زندگی، ان کے نظریات، الموت کی تاریخ، وہاں کے حکمرانوں، عمارات، طرزِ تعمیر اور کتب خانوں کا احوال بیان کرتے ہیں، لیکن ان کی کتاب میں کہیں بھی کسی جنت یا اس کے آثار کا ذکر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔
ہم اس دور کے ایک اور مشہور تاریخ دان رشید الدین ہمدانی کا ذکر کر چکے ہیں۔ ان کی سنہ 1307 میں مکمل ہونے والی کتاب 'جامع التواریخ' کو اس دور کے ایرانی تاریخ پر سند تسلیم کیا جاتا ہے، مگر وہ بھی حسن الصباح اور قلعہ الموت کا تفصیلی ذکر کرنے کے باوجود وہاں کسی جنت کے وجود سے واقف نہیں ہیں۔


اصل جاں نثار

'شیخ الجبال' کے بارے میں کئی اور کہانیاں، روایتیں اور افسانے بھی گردش میں ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک دن کسی ملک کا سفیر الموت آیا ہوا تھا اور اس نے اپنے حکمران کی کیل کانٹے سے لیس فوجوں کی ہیبت کے بارے میں ڈینگیں مارنا شروع کر دیں۔ حسن الصباح نے کہا، 'ٹھیرو، میں تمھیں دکھاتا ہوں کہ اصل سپاہی کیا ہوتا ہے۔'

وہ اسی وقت سفیر کو قلعے کی چھت پر لے گئے اور وہاں تعینات دو محافظوں میں سے ایک سے کہا کہ 'چھت سے کود جاؤ،' اور دوسرے کو حکم دیا، 'اپنا خنجر نکال کر اپنے دل میں پیوست کر دو۔' کہا جاتا ہے کہ جب ایک محافظ بلا چوں و چرا قلعے کی بلند فصیل سے کود گیا اور دوسرے نے خنجر اپنے سینے میں گھونپ دیا تو سفیر پر وہی ہیبت طاری ہو گئی جو اس نے اپنی زبردست فوج کے ذکر سے حسن پر طاری کرنا چاہی تھی۔


چرس کے نشے میں دھت؟

یہ بھی مشہور ہے کہ انگریزی کا لفظ assassin یعنی اہم شخصیات کا قاتل بھی حسن الصباح ہی کے اس دور کی پیداوار ہے کہ کیوں کہ وہ اور بعد میں آنے والے ان کے جانشین فدائیوں کو حشیش (یعنی چرس) کے نشے میں دھت کروا کر قاتلانہ مہمات پر بھیجا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس فرقے سے تعلق رکھنے والوں کو حشیش کی نسبت سے حشاشین کہا جاتا تھا، جو مغرب میں پہنچ کر اسیسن بن گیا۔

تاریخ کی کسی کتاب ہم عصر میں اس بات کے شواہد نہیں ملتے کہ حسن الصباح یا ان کے پیروکار کسی قسم کی نشہ آور ادویات کا استعمال کرتے تھے۔ معروف تاریخ دان برنارڈ لیوس کے مطابق اس دور کے اسماعیلیوں کے لیے لفظ 'حشاشیہ' (حشیش پینے والا) کی اصطلاح دراصل اس لیے استعمال ہوتی تھی کہ دوسروں کو ان کے خیالات بہکے بہکے لگتے تھے، نہ کہ خود حشیش پینے کے باعث۔


کٹر انصاف پسندی

حسن الصباح بےحد ذہین سیاسی رہنما اور منتظم تھے۔ ان کے سیاسی و نظریاتی مقاصد کے حصول کے لیے نظریہ بھی درکار تھا اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے تنظیم بھی۔ انھوں نے یہ دونوں کام کر دکھائے۔

ان کی کٹر انصاف پسندی کی مثال یہ پیش کی جاتی ہے کہ جب قانون کا معاملہ آیا تو انھوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو بھی نہیں بخشا، ایک کو شراب پینے کی پاداش میں اور دوسرے کو قتل کے جرم میں مروا ڈالا۔
حسن الصباح کا انتقال 12 جون 1124 کو ہوا۔ چونکہ ان کی نرینہ اولاد زندہ نہیں بچی تھی، اس لیے انھوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنے ایک وفادار داعی کِیا بزرگ امید کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا جنھوں نے ایک عرصہ قلعۂ الموت پر حکومت کی۔ یہ سلسلہ 1256 تک چلتا رہا، تاوقتیکہ منگول حکمران ہلاکو خان نے الموت کو فتح کر کے اس نزاری اسماعیلی ریاست کا خاتمہ کر ڈالا۔
حسن الصباح کی زندگی اس لحاظ سے بےحد دلچسپ ہے کہ اس پر طرح طرح کے افسانوں کی دبیز دھند چھائی ہوئی ہے جس میں ان کی اصل شخصیت کہیں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ زمانے کی یہ ستم ظریفی بھی دیکھیے کہ اس نے ان کا اصل نام بھی بدل کر حسن بن صباح مشہور ہو گیا، حالانکہ ان کے والد کا نام صباح نہیں بلکہ علی تھا۔
تاہم اساطیری دھند کے پردے چاک کر کے دیکھا جائے تو ایک ایسے شخص کی تصویر سامنے آتی ہے جو صاحب میدان بھی تھا اور صاحبِ کتاب بھی، جنھوں نے نہ صرف زبردست عسکری و سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا بلکہ علمی و عقلی میدان میں بھی ان کا شمار اپنے دور کے اہم دانشوروں میں ہوتا ہے۔ اس کا اعتراف ان کے بدترین مخالفین نے بھی کیا ہے۔


عمر خیام سے مماثلت

ہم جماعت والی روایت کو نظر انداز بھی کر دیں تب بھی حسن الصباح اور عمر خیام میں کئی چیزیں مشترک ہیں۔ دونوں ایران میں ایک ہی عشرے میں پیدا ہوئے، انھوں نے لگ بھگ ایک جیسی عمریں بھی پائیں اور دونوں نے کچھ عرصہ اصفہان میں گزارا۔ اس لیے یہ مزیدار امکان بہرحال موجود ہے کہ دونوں کی ملاقات رہی ہو، آخر کو ان کے کئی علمی مشاغل اور دلچسپیاں ایک جیسی تھیں۔
لیکن ان سے بھی گہری ایک اور مماثلت ہے۔ حسن الصباح، جو دینی عالم اور فوجی کمانڈر تھے، رہتی دنیا تک ایک ایسی مصنوعی جنت کے خالق کی حیثیت سے جانے جائیں گے جہاں شراب کی نہریں بہتی تھیں اور شباب ہر سو جلوہ افروز ہوتا تھا۔

دوسری طرف عمر خیام، جو دراصل ریاضی دان اور ماہرِ فلکیات تھے، انھیں شراب و شباب اور باغات سے متعلق ایسی رباعیات کا خالق سمجھا جائے گا جو انھوں نے نہیں لکھیں۔
ایرانی محقق صادق ہدایت کی تحقیق کے مطابق خیام سے منسوب سینکڑوں رباعیوں میں سے صرف آٹھ یا دس ایسی ہیں جن کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ خیام کے قلم سے نکلی ہیں، باقی اللہ اللہ خیر سلا۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ان دونوں ہم عصروں کے سر ایک ایک 'جنت' تھوپ دی گئی جس کا ان دونوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔
(بی بی سی )

ہفتہ، 9 جون، 2018

خیر بخش مری : پرانے آتش فشانوں میں رہنے والا شاہین _ ‎حسن مجتبٰی




‎اپنے آخری سالوں میں رہتے تو وہ کراچی کےخیابان سحر میں تھے لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جسے امریکی دانشور فرانسس فوکو یاما نے بعد از تاریخ زمانہ کہا تھا میں بلوچ رہنما خیر بخش مری کو دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر ایسے لگتا تھا کہ پرانے لیکن اب تک زندہ آتش فشانوں کی چوٹیوں پر ایک شاہ شاہین نے بسیرا کیا ہوا ہے۔یہ اقبال والے شاہین تو ہرگز نہ تھے لیکن گزشتہ چار دہائیوں سے بلوچ نوجوانوں کی ہر نسل نے انہیں بلوچوں کا چی گویرا کہا تھا۔ ایسے شاہینوں کیلئے عظیم سندھی شاعر شیخ ایاز نے کہا تھا، شاہین کتنے بھی بوڑھے ہو جائيں لیکن پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دینے کی خواہش پھر بھی اپنے پروں میں رکھتے ہیں۔ 

‎خیر بخش مری جن پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دینا چاہتا تھا وہ بنیادی طور پر ان مصائب و مسائل، اس استحصال اور لوٹ مار کے تھے جو بلوچوں پر دیسی اور بدیسی حکمرانوں نے گرا رکھے ہوئے تھے اور یہ بلوچ رہنما اپنی نوخیز جوانی سے لیکر بڑھاپے تک ایک حالت جنگ میں رہا۔ یہ عجیب سردار اور نواب تھا جو کامریڈ کہلانا پسند کرتا تھا۔ سخت گیر، کم گو و نرم گفتار خیر بخش مری جو اس قبیلے کا سردار تھا جو کئی اسٹیریو ٹائپ سے قطع نظر علم الانسان یا اینتھرو پولوجی کے طالب علموں کیلئے آج بھی دلچسپی کا باعث ہے جن کی سماجی زندگی ،رہن سہن اور ‎بلوچی تہذیب پر کن مانے جانے انتھروپولوجسٹوں نے کئی برس ان خانہ بدوش قبائل کے ساتھ سفری تحقیق میں گزار دیئے ہیں۔ کہیں کہیں یہ آج بھی نیم قدیم اشتمالی دور میں رہتے ہیں لیکن خیر بخش مری بلوچ سردار سے زیادہ جدید بلوچ قوم پرستی یا بلوچ حقوق کے شعور کی سہ مورتی کے ایک رتن تھے۔ بلوچ حقوق یا جدید بلوچ قوم پرستی کی تحریک کی یہ سہ مورتی غوث بخش بزنجو، عطاء اللہ مینگل اور خیر بخش مری پر مشتمل تھی۔ لیکن خیر بخش مری نے خود کو بلوچ قوم پرست نہیں ایک حریت پسند قرار دے رکھا تھا ۔ انیس سو تہتر کی بلوچ سرکشی کے زمانے میں بلوچستان کی مزاحمتی سیاست کے بائیبل مانی جانے والی کتاب بلوچستان: ان افغانستانس شیڈو اینڈ سوویت ٹیمپٹیشنز کتاب کے مصنف سیلگ ہیریسن جنہیں میں نے ایک دفعہ بلوچ دل رکھنے والا امریکی کہا تھا نے خیر بخش مری پر ایک باب : مارکسزم اور ان کے مرغے لڑانے کے شوق کے حوالے سے مارکسز اینڈ کاک فائیٹنگ کے عنوان سے لکھا ہے۔

‎خیر بخش مری، ان کا قبیلہ اور ایسے دیگر بلوچ قبائل ایک سو تریسٹھ سال سے حالت جنگ میں رہے ہیں۔ خیر بخش مری سمیت تاریخ کے طالب علم اسے قدیم زمانے کے بلوچ بزرگ محراب خان کے زمانے سے شمار کرتے ہیں۔ آپ اڑسٹھ سال پاکستان کے بھی ان ایک سو تریسٹھ برسوں میں شامل کر دیجئے۔ کردوں کے یہ کزن قوم بلوچ توران سے تربت اور سندھ اور پنجاب کے طول و عرض شمال اور جنوب تک آباد ہیں، سب سے بڑا قبیلہ مری قبیلہ ہے۔

‎خیر بخش مری اس قبیلے کے سردار تھے جن کے دادا خیر بخش مری سینئر نے اس وقت انگریز حکمرانوں کے لئے اپنے قبیلے کے لوگ فوج میں بھرتی کرنے سے انکار کر دیا تھا جب موجودہ پنجاب سمیت برطانوی ہند میں کئی خانوادوں کے زعماء اپنے قبیلوں اور علاقوں میں لوگ بھر بھر کر انگریزی فوج میں بھرتی کراکر منصب ،جاگيریں اور رقبے حاصل کر رہے تھے۔ گھوڑی پال اسکیموں کے خانوادے آج بھی پاکستان میں معتبر بنے ہوئے ہیں۔ وطن پرست غدار و قابل گردن زدنی۔ یہ الگ بات ہے کہ اسی پہلی بڑی جنگ کے زمانے میں جبری فوجی بھرتی پر پنجاب میں جو لوک شاعری تخلیق ہوئی تھی وہ آج بھی پڑھنے اور سننے والوں کے دل کو خون کے آنسو رلا دیتی ہے:
‎لوکی کملے لدی لدی جاندے 
‎ٹٹ گيئآں یاریاں تے پھل کملائے
‎ٹک پئو اتھاہیں وے ڈھولن یار 
‎نہ ونجھ نہ نجھ وے ڈھولن یار
‎خیر بخش کے قبیلے میں بھی سندھ اور پنجاب میں کچھ ایسے وڈیرے تھے جنہوں نے انگریزوں کی دلالی میں خیر بخش سینئر کے خلاف مخبر بن کر منصب حاصل کر لئے تھے۔ برصغیر میں یہ لوگ زیادہ تر جاگیردار، نواب اور سردار جدی اصلی تے وڈے چوہدری نواب سردار جاگیردار نہیں تھے وہ یا تو چور ڈاکو تھے یا پھر انگریز بیٹھکی حکمرانوں کے پاس محب وطن یا دیش بھگت لوگوں کی مخبریاں کر کے جاگیروں اور رقبوں کے مالک بنے تھے لیکن خیر بخش مری کے آبائواجداد ان چند بلوچ سرداروں میں سے تھے جو سر پھرے تھے۔ انگریزوں کے خلاف لڑنے والے گمنام مری لڑاکا کاروں کی قبریں آج بھی پنجاب بلوچستان بارڈر پر ڈیرہ غازی خآن کے قریب موجود ہیں۔ 

‎لاہور میں اپنی جوانی کے برس گزارنے والے خیر بخش مری پھر بڑے بھائیوں کے بلوچوں و دیگر قومیتوں کے ساتھ حسن سلوک کے پیش نظر اپنے پینے کو پانی بھی بلوچستان سے لے آتے۔حیدرآباد سازش کیس میں خان عبدالولی خان کے ایک وکیل اور پنجاب نیپ کے رہنما مشتاق راج کہتے تھے کہ حیدرآباد سازش کیس کی سماعت کے دوران کیس کی کوریج کو آنے والے کچھ مغربی صحافی خیر بخش مری کے کمرہ عدالت میں آتے ہی ان کے احترام میں اٹھ کھڑے ہوتے کہ ان کی شخصیت و شکل ایک برگزیدہ شخصیت سے ملتی تھی۔ جبکہ جوانی میں وہ بقول امریکی صحافی میری این ویور کے وجیہہ و خوبصورت خیر بخش مری کی شباہت ایک معروف ہالی ووڈ ایکٹر سے ملتی تھی۔
‎حیدرآباد سینٹرل جیل میں دوران قید وہ ٹینس کھیلتے اور اپنے شوق کے لڑاکا مرغے بھی رکھے ہوئے تھے۔خیر بخش مری کی کتابیں اور ان کے مرغے وہ جہاں جہاں بھی جاتے الگ گاڑیوں میں ان کے ساتھ جاتے۔ گہرے مطالعے اور برسوں کی جلاوطنی نے ان کی شخصیت میں ایک سمندر جیسی پرشور خاموشی کو پیدا کیا لیکن جب بھی وہ بولتے چہرے پرمسکراہٹ اوران کی زبان میں ایک ماہر سرجن کے چاقو جیسی کاٹ ہوتی۔ 
‎جب وہ بے نظیر بھٹو کے زمانے میں جلاوطنی سے واپس لانے کو سی ون تھرٹی میں لائے گئے تھے تو ان کے مرغے ایک الگ طیارے میں آئے تھے۔ 
‎دوران جلاوطنی ان کے اپنے تب کے ساتھیوں ہزار خان بجارانی مری اور شیرمحمد مری المعروف بابو مری یا جنرل شیروف سے اختلافات پیدا ہوئے۔ کل کا جنگجو بلوچ کردار ہزار خان بجارانی مری اب کہ بلوچستان میں فوج کے ساتھ ہے۔ ہزار خان مری اور دیگر کے ساتھ اختلاف اتنے شدید ہوئے کہ جسٹس نواز کے قتل پر ان کے قتل کا الزام خیر بخش مری پر اور ان کے بیٹوں پر لگا اور انہیں کئی مہینے جیل میں رکھا گیا۔ جیل کے دوران خیر بخش مری پر جیل اہلکاروں نے تشدد بھی کیا۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک تحقیقی ٹیم نے خیر بخش مری کے خلاف جسٹس نواز مری کے قتل کے مقدمے کو جھوٹا الزام قرار دیا تھا۔

‎جلاوطنیوں اور جیلوں کے طویل سلسلے بھی اس باغی بلوچ کو جھکا نہ سکے۔ نہ اس پرانے لیکن زندہ آتش فشاں کو توڑ سکے تھے۔ جسے میرے ایک دوست نے لیبیا کے اطالوی استعماریت کے خلاف لڑنے والے کردار عمر مختار سے تعبیر کیا ہے۔ خیر بخش مری نے بھی عمر مختار کی طرح اپنے کوہلو اور کاہان سے نکلنے کو تیل تو کیا ایک پتھر بھی اٹھانے نہ دیا۔ جسے فوجی آمر مشرف اور اس کے پیشرو ترقی کے مخالف سردار قرار دیتے رہے تھے۔ صرف تین سر پھرے یا باغی سردار۔ لیکن اس پر خیر بخش مری نے کہا تھا،جی ہاں جنرل پرویزمشرف تمام بلوچستان کو ایک ترقی یافتہ، اسٹیٹ اف دی آرٹ چھاونی میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ خیر بخش مری انیس سو ساٹھ سے لیکر جب سے قرآن دیکر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے جھوٹی قسموں پر نوروز خان اور اس کے بیٹوں بھتیجوں کو اترواکر اس کے نوجوانوں کو پھانسیاں دلوادی تھیں سے لیکر مرتے دم تک بقول ان کے آزاد و عظیم تر بلوچستان کیلئے جدوجہد پر یقین رکھا لیکن اسٹیبلشمنٹ کے سب توں وڈے تے اصلی چوہدریوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ وہ خیر بخش مری جو ستر کے عام انتخابات میں ملک میں سب سے زیادہ یعنی دو لاکھ ووٹ لیکر قومی اسمبلی کی نشست جیت کر آنے والا منتخب رکن تھا آخر اس نے کیوں پارلیمان کو چھوڑ کر پہاڑوں کا راستہ اختیار کیا۔ 

‎اب وہ بلوچوں کا خان بابا بن چکا ہے ۔ پہلی بار ہوا کہ ہزاروں بلوچ نوجوانوں اور بلوچ خواتین نے ان کے جنازے کو کندھا دیا اور انہیں بلوچ شہداء کا قبرستان کہلانے والے نیوکاہان میں دفن کیا گیا، کبھی زندہ آتش فشاں والے پہاڑ بھی دفن ہوتے ہیں!
انیس  جون ، 2014

جمعرات، 7 جون، 2018

روایتی برقعہ افغان ثقافت کا حصہ نہیں


افغان نوجوانوں نے مسلم خواتین کے گھر سے باہر پہن کر نکلنے والے سر سے پاؤں تک ڈھانپنے والے روایتی لمبے اور ڈھیلے ڈھالے برقعے کا روائتی استعمال ختم کرنے کے مقصد سے ایک آگاہی مہم شروع کی ہے ہیں جسے"Sun Behind Curtain، یا پردے کے پیچھے سورج کا نام دیا گیا ہے ۔برقعه جسے چادری بھی کہتے ہیں جو روایتی طور پر خواتین کو سر سے پیر تک ڈھانپ دیتا ہے، خود کش بمباروں کے لیے ایک پسندیدہ لبادہ بن گیا ہے جو دہشت گرد حملے کرنے کے لیے عورتوں کا بھیس بدلتے ہیں ۔

افغانستان کے شہر ہرات میں خواتین کے برقعے کے استعمال پر ایک نمائش لگائی گئی، جسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے دیکھا۔

فرزانہ سعادت جو  پرے کے پیچھے سورج مہم کی ایک رکن ہیں کہتی ہیں کہ کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ روایتی برقعه جو خواتین کو سر سے پیر تک ڈھانپ دیتا ہے کبھی بھی افغان ثقافت کا حصہ نہیں رہا تھا ۔

انہوں نے کہا کہ خواتین لمبا برقعه طالبان کے دور اقتدار میں لازمی بنا تھا۔ ہم برقعے کے پس منظر پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں کیوں کہ برقعه پہننا ہماری ثقافت کا حصہ نہیں ہے اور ہم اس سے گریز کر سکتے ہیں ۔

سعادت نوجوان لوگوں کی اس بڑھتی ہوئی تعداد کا حصہ ہیں جو برقعے کے زبردستی استعمال کو مستر د کرتی ہے ۔ سن بی ہائینڈ کرٹین کی ان کی مہم کا مقصد، اس تصویری نمائش کے ذریعے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس لبادے نے کس طرح خواتین کو گمنام اور بے چہرہ شہریوں میں تبدیل کر دیا ہے، خواتین کے بنیادی حقوق کے بارے میں آگاہی کو بڑھانا ہے۔

لیکن مہم کے منتظمین کا کہنا ہے کہ برقعہ خواتین کے خلاف جس جنسی فرق کی نمائندگی کرتا ہے اسے دہشت گردوں اور کچھ ایسے لوگوں نے جو قانون توڑنا چاہتے ہیں بہت موثر طریقے سے استعمال کیا ہے ۔ پردے کے پیچھے سورج مہم کی ایک رکن کبریٰ محمدی کہتی ہیں کہ برقعه استعمال کر کے اور خواتین کا بھیس بدل کر، بد قسمتی سے بہت سے برے اقدامات مثلاً بد کاری، لوٹ مار اور خودکش حملے ہو رہے ہیں ۔ اور بد قسمتی سے ایسا 
اس لیے ہو رہا ہے کہ خواتین کے ساتھ احترام کا برتاؤ کیا جاتا ہے۔ عام طور پر برقعه پہنے والوں کو باقاعدگی سے چیک نہیں کیا جاتا۔


افغانستان میں خواتین سے روایتی طور پر یہ تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ اپنا چہرہ کسی حجاب یا نقاب سے ڈھانپیں لیکن بہت سے مذہبی لیڈر کہتے ہیں کہ برقعه جو خواتین کے پورے جسم اور چہرے کو ڈھانپتا ہے، اسلامی شریعت کا کوئی تقاضا نہیں ہے۔

اسلامی قانون کے ایک ماہر غلام رسول عابدی کہتے ہیں کہ حجاب ایک اسلامی تقاضا ہے لیکن اسلامی شریعت میں برقعه ایک حجاب کے طور پر لازمی شرط نہیں ہے۔ برقعه ایک غیر اسلامی روایت ہے جسے افغان معاشرے کی پوری تاریخ میں فروغ دیا گیا ہے۔

تاہم کچھ افغان خواتین اس مہم کی کچھ زیادہ حامی نہیں ہیں جن کی دلیل ہے کہ برقعه پہننے سے وہ خود کو زیادہ محفوظ اور مطمئن محسوس کرتی ہیں ۔

ہرات کی ایک خاتون بی بی آمنہ کہتی ہیں کہ میں ذاتی طور پر سمجھتی ہوں کہ برقعه ایک اچھی چیز ہے کیوں کہ یہ میرے جسم کو مناسب طریقے سے ڈھانپ دیتا ہے اور جب میں گھر سے باہر جاتی ہوں تو لوگ میرا جسم نہیں دیکھ سکتے ۔

افغانستان کے دور افتادہ دیہاتوں اور اضلاع میں بہت سی خواتین کو معاشرتی دباؤ اور الگ تھلگ کر دیے جانے کے خوف سے برقعه پہننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

، سن بی ہائینڈ کرٹن مہم، برقعہ پہننے کیے عمل کے بار ے میں آگاہی بڑھانے کی توقع رکھتی جس پر مغرب کے کچھ ملکوں میں پہلے ہی پابندی عائد کی جا چکی ہے ۔ ان کا پیغام یہ ہے کہ خواتین کے لیے اچھی مسلمان ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ بے چہرہ ہو جائیں اور نظر نہ آ سکیں ۔

اتوار، 3 جون، 2018

صدام حسین کی بابل کے آثار سے محبت



عراق میں سورج کی تیز روشنی میں صدام حسین کے محل پر نگاہ نہیں ٹکتی تھی۔ ان میں چاروں جانب اور ہر زاویے سے بڑی بڑی کھڑکیاں تھیں۔
آپ خم دار اور ڈھلان سڑک سے اوپر کی جانب چڑھ سکتے ہیں۔ یہاں زیتون اور کھجور کے درخت جنگل کی طرح اگے ہوئے تھے لیکن ایک دن یہ ایک وسیع و عریض پارک میں تبدیل کر دیے گئے۔ یہ صدام حسین کا سب سے شاندار محل تھا۔
محل کے اندر، اس کی چمک اورپر شکوہ باقیات کو ابھی بھی محسوس کیا جا سکتا ہے اور اس کا احساس محل کے صدر دروازے سے ہی ہونے لگتا ہے۔
صدام کا محل اب خاص و عام کے لیے
اب اس کی دیواروں پر داغ نظر آتے ہیں اور اس کے آس پاس بچے فٹبال کھیلتے نظر آتے ہیں۔ محل کے باہر سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اب اس میں صدام حسین نہیں رہتے۔ اگر آپ بیڈروم سے بالکنی کی جانب جائیں تو اس محل کا ماضی و حال دونوں روشن ہو جاتا ہے۔

بابل سے صدام کی محبت

یہ 2500 قبل مسیح کے قدیمی بابل کا وہ علاقہ ہے جس کا دبدبہ ایک زمانے میں پوری دنیا میں قائم تھا۔ جب آپ بابل کے کھنڈروں کو دیکھتے ہیں، تو آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ہزاروں سال سے ایک عظیم مملکت کی وراثت موجود ہے۔
درحقیقت صدام حسین پہلے حکمران نہیں تھے جنھوں نے اپنی طرح سے ان قدیم کھنڈروں کا استعمال کیا۔ تاریخ میں مطلق العنان حکمرانوں اور قدیمی باقیات کے استعمال کی ایک طویل روایت ملتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کھنڈر جس طرح نظر آتے ہیں وہ بالکل ویسے ہی نہیں ہوتے بلکہ وہ یادوں اور عقیدوں کا خزینہ ہوتے ہیں۔ ان سے کسی بھی بادشاہ کو ماضی کی عظمت کا لبادہ اوڑھنے میں مدد ملتی ہے اور وہ عظمت پارینہ کو از سر نو قائم کرنے کا دم بھرتے ہیں۔
کھنڈروں کے اس قسم کے استعمال کے اپنے خطرات بھی ہیں۔ شام اور عراق میں برسرپیکار نام نہاد تنظیم دولت اسلامیہ کے حملوں میں کئی قدیم عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ صدام حسین کے ساتھ ساتھ، مسولینی اور ہٹلر نے بھی اس طرح کی وراثت کو بچانے کی کوشش کی تھی۔
اس وقت آثار قدیمہ کے ورثے کے لحاظ سے عراق بہت مالامال ہے۔ دجلہ اور فرات دریا عراق کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ عراق میں ورکاء، اُر، بابل اور نینوہ کے کھنڈرات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
عراق کی تاریخی وراثت کو نوآبادیاتی قوتوں نے چوری بھی کی ہیں۔ عراق نے غیر ملکی عجائب گھروں میں موجود اپنی باقیات پر اپنے مالکانہ حقوق کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ 19 ویں صدی میں لندن کے برٹش میوزیم میں اس قسم کی کچھ باقیات موجود تھے۔ اسی طرح برلن کے میوزیم میں بابل کے باب عیشتار کے ٹائلز ملے تھے۔
صدام حسین نے جب عنان صدارت سنبھالی تو انھوں نے ان کا باقیات کا دوسرے کاموں مین استعمال کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے اپنی قیادت میں عراقی عظمت قائم کرنے کی کوشش کی۔
ان کے اس فیصلے سے عراق میں آثار قدیمہ کی اہمیت میں اضافہ ہوا۔ صدام حسین کا کہنا تھا کہ قدیم اشیا عراقیوں کا بیش قیمتی اثاثہ ہیں اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ پوری دنیا یہ دیکھے کہ ان کی قدیم تہذیب و تمدن نے انسانی زندگی کی ترقی میں کس حد تک مدد کی ہے۔
صدام حسین اور ان کی پارٹی کی طاقت میں اضافے کے ساتھ ساتھ عراق کے آثار قدیمہ کے بجٹ میں 80 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ بابل سدا صدام حسین کے دل کے مرکز میں رہا۔

دیوار بنانے کا حکم

18 ویں صدی سے چھٹی صدی قبل مسیح کا یہ شہر دنیا کا سب سے اہم تاریخی ورثہ ہے۔ شاید یہ تہذیب و تمدن کا پہلا مرکز ہے جہاں دولاکھ سے زائد افراد رہتے تھے۔ چوتھی صدی عیسوی قبل مسیح میں یہ شہر سکندر کے زیر نگیں آیا اور اس کی حمکرانی کے بعد خالی ہونے سے قبل تھوڑی دیل کے لیے پھلا پھولا تھا۔
لیکن ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کی فتح کے ساتھ یہاں آنے والے سیاح بتاتے ہیں کہ اس وقت یہاں صرف کھنڈرات تھے۔
صدام حسین کے لیے بابل کے یہ کھنڈرات ہمیشہ بڑی دلچسپی کا سبب رہے۔ صدام حسین نے اس کی دیواروں کی از سر نو تعمیر کا حوصلہ مند پروجیکٹ تیار کیا۔
ایران کے ساتھ جنگ کے دوران انھوں نے اس پروجیکٹ میں لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ اس کی دیواریں 11 میٹر سے زیادہ بلند تعمیر کی گئیں۔ صدام حسين کے ان اقدام کی آثار قدیمہ کے ماہرین کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر تنقید کی گئی تھی۔
اس وقت ان کی یہ کہہ کر تنقید کی گئی تھی کہ ایک آمر حکمران اس جگہ ڈزنی لینڈ بنا رہا ہے۔
بالآخر اس جگہ پر صدام حسین نے رومن طرز تعمیر کا ایک تھیٹر تعمیر کروایا۔ جب آثار قدیمہ کے ماہرین نے انھیں بتایا کہ ماضی کے حکمرانوں نے بابل کی عمارتوں کی اینٹوں پر اپنے نام کندہ کروائے تھے تو صدام حسین نے اپنے نام بھی اینٹوں پر کندہ کرنے کا حکم دیا تھا۔
ان کی ان کوششوں کو امریکی سفارتکار پال برینر نے 'مذاق اور خود پسندی میں کی جانے والی کوشش' قرار دیا۔ سنہ 2003 کے بعد عراق سے صدام کو بے دخل کیے جانے کے بعد برینر نے وہاں اہم کردار ادا کیا تھا۔

ایران پر حملے کا جشن

سنہ 1981 میں ایران پر عراقی حملے کی پہلی سالگرہ پر بابل میں بڑا جشن منایا گیا جس میں یہ نعرہ لگایا گیا 'کل نیبوچندنزار (بخت نصر) اور آج صدام حسین145۔
بخت نصر بابل کے حکمران تھے جبکہ صدام حسین نے خود کو بابل کا جانشین ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ بغداد میں بابِ عیشتار کے بالکل سامنے صدام حسین نے اپنا مجسمہ بنوایا۔
یہ 1988 میں ایک تقریب کے دوران کیا گیا جس میں ایک اداکار نے بخت نصر کا کردار ادا کیا اور اپنے وزیر ثقافت کو ایک بینر سونپا جس میں صدام حسین کو قدیم بادشاہوں کا پوتا اور دونوں قدیم دریاؤں کا جانشین قرار دیا گیا۔

مسولنی اور ہٹلر کے راستے پر صدام

صدام نے جو کچھ کیا وہ مسولینی کی تقلید سے زیادہ نہیں تھا۔ 20 ویں صدی کی ابتدا میں مسولینی نے خود کو 'دی لیڈر' قرار دیا تھا۔ اس سے قبل بھی بہت سی حکومتوں نے خود کو قدیم روم کا وارث کہا تھا فاشسٹ مسولینی اسے ایک نئی سطح پر لے گئے۔
مسولینی اپنی مہم میں خود کو جدید آگسٹس کہتے تھے۔ سنہ 1922 میں اپنی سالگرہ کا جشن مناتے ہوئے انھوں نے روم کی اہمیت پر زور دیا۔
مسولینی نے کہا تھا: 'یہ ہمارا نشان امتیاز ہے یا آپ اسے اساطیر کہ لیں۔ ہمارا ایک رومن اٹلی کا خواب ہے جو عقل مند اور مضبوط ہو، جو ڈسپلن والا اور شاہانہ ہو جو کہ روم کی روح تھی اور اس کی تعبیر فاشزم میں پنہا ہے۔'
ایسے خواب دیکھنے والے مسولینی کو تاریخ میں اس کے ظلم اور بربریت کے لیے جانا جاتا ہے۔ جہاں آگسٹس کی قبر تھی وہاں مسولینی نے بھی ایک تعمیر کروائی تھی۔
مئی سنہ 1938 میں دوسری عالمی جنگ شروع ہونے سے تقریبا 16 ماہ قبل ہٹلر اٹلی کے دارالحکومت پہنچے تھے اور مسولینی نے ہٹلر کو اپنی تعمیرات دکھائی تھیں۔
ہٹلر ان کی عمارتوں کے دورے پر رات میں گئے تھے اور مسولینی کے لوگوں نے ان عمارتوں کو سرخ روشنی سے سجایا تھا۔
ہٹلر نے بھی تاریخی باقیات سے بہت متاثر تھے۔ ہٹلر کے دفتر میں فرانسیسی فنکار ہیوبرٹ رابرٹ کی ایک پینٹنگ لگی رہتی تھی۔ ہٹلر نے بھی اپنی زندگی میں کئی پینٹنگز بنائی تھیں۔
ہٹلر نے کئی بار جدید فن تعمیر سے اپنی نفرت ظاہر کی تھی۔ انھیں قدیم طرز تعمیر میں دلکشی نظر آتی تھی۔
ہٹلر کے لیے یہ تاریخی باقیات ایک عظیم سماج کا پتہ دیتے تھے اور وہ اس کے دوبارہ قیام پر کام کرنے کے حق میں تھے۔
ہٹلر کے مطابق ایسی عمارتیں تعمیر کی جانی چاہیے جو کھنڈرات میں تبدیل ہوجانے کے بعد بھی آنے والی نسلوں کی حوصلہ افزائی کر سکیں۔
بہر حال نازیوں کی تعمیر کردرہ عمارتیں اپنے پیچھے عظیم کھنڈرات نہیں چھوڑ سکیں۔ بابل میں صدام کے محل کی طرح جب نازیوں کی تعمیرات منہدم کی گئیں تو جو انھیں جو ڈر تھا وہی ہوا یعنی وہ ٹوٹے ہوئے ڈھیر میں تبدیل ہو گئیں۔
BBC