اتوار، 3 جون، 2018

صدام حسین کی بابل کے آثار سے محبت



عراق میں سورج کی تیز روشنی میں صدام حسین کے محل پر نگاہ نہیں ٹکتی تھی۔ ان میں چاروں جانب اور ہر زاویے سے بڑی بڑی کھڑکیاں تھیں۔
آپ خم دار اور ڈھلان سڑک سے اوپر کی جانب چڑھ سکتے ہیں۔ یہاں زیتون اور کھجور کے درخت جنگل کی طرح اگے ہوئے تھے لیکن ایک دن یہ ایک وسیع و عریض پارک میں تبدیل کر دیے گئے۔ یہ صدام حسین کا سب سے شاندار محل تھا۔
محل کے اندر، اس کی چمک اورپر شکوہ باقیات کو ابھی بھی محسوس کیا جا سکتا ہے اور اس کا احساس محل کے صدر دروازے سے ہی ہونے لگتا ہے۔
صدام کا محل اب خاص و عام کے لیے
اب اس کی دیواروں پر داغ نظر آتے ہیں اور اس کے آس پاس بچے فٹبال کھیلتے نظر آتے ہیں۔ محل کے باہر سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اب اس میں صدام حسین نہیں رہتے۔ اگر آپ بیڈروم سے بالکنی کی جانب جائیں تو اس محل کا ماضی و حال دونوں روشن ہو جاتا ہے۔

بابل سے صدام کی محبت

یہ 2500 قبل مسیح کے قدیمی بابل کا وہ علاقہ ہے جس کا دبدبہ ایک زمانے میں پوری دنیا میں قائم تھا۔ جب آپ بابل کے کھنڈروں کو دیکھتے ہیں، تو آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ہزاروں سال سے ایک عظیم مملکت کی وراثت موجود ہے۔
درحقیقت صدام حسین پہلے حکمران نہیں تھے جنھوں نے اپنی طرح سے ان قدیم کھنڈروں کا استعمال کیا۔ تاریخ میں مطلق العنان حکمرانوں اور قدیمی باقیات کے استعمال کی ایک طویل روایت ملتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کھنڈر جس طرح نظر آتے ہیں وہ بالکل ویسے ہی نہیں ہوتے بلکہ وہ یادوں اور عقیدوں کا خزینہ ہوتے ہیں۔ ان سے کسی بھی بادشاہ کو ماضی کی عظمت کا لبادہ اوڑھنے میں مدد ملتی ہے اور وہ عظمت پارینہ کو از سر نو قائم کرنے کا دم بھرتے ہیں۔
کھنڈروں کے اس قسم کے استعمال کے اپنے خطرات بھی ہیں۔ شام اور عراق میں برسرپیکار نام نہاد تنظیم دولت اسلامیہ کے حملوں میں کئی قدیم عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ صدام حسین کے ساتھ ساتھ، مسولینی اور ہٹلر نے بھی اس طرح کی وراثت کو بچانے کی کوشش کی تھی۔
اس وقت آثار قدیمہ کے ورثے کے لحاظ سے عراق بہت مالامال ہے۔ دجلہ اور فرات دریا عراق کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ عراق میں ورکاء، اُر، بابل اور نینوہ کے کھنڈرات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
عراق کی تاریخی وراثت کو نوآبادیاتی قوتوں نے چوری بھی کی ہیں۔ عراق نے غیر ملکی عجائب گھروں میں موجود اپنی باقیات پر اپنے مالکانہ حقوق کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ 19 ویں صدی میں لندن کے برٹش میوزیم میں اس قسم کی کچھ باقیات موجود تھے۔ اسی طرح برلن کے میوزیم میں بابل کے باب عیشتار کے ٹائلز ملے تھے۔
صدام حسین نے جب عنان صدارت سنبھالی تو انھوں نے ان کا باقیات کا دوسرے کاموں مین استعمال کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے اپنی قیادت میں عراقی عظمت قائم کرنے کی کوشش کی۔
ان کے اس فیصلے سے عراق میں آثار قدیمہ کی اہمیت میں اضافہ ہوا۔ صدام حسین کا کہنا تھا کہ قدیم اشیا عراقیوں کا بیش قیمتی اثاثہ ہیں اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ پوری دنیا یہ دیکھے کہ ان کی قدیم تہذیب و تمدن نے انسانی زندگی کی ترقی میں کس حد تک مدد کی ہے۔
صدام حسین اور ان کی پارٹی کی طاقت میں اضافے کے ساتھ ساتھ عراق کے آثار قدیمہ کے بجٹ میں 80 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ بابل سدا صدام حسین کے دل کے مرکز میں رہا۔

دیوار بنانے کا حکم

18 ویں صدی سے چھٹی صدی قبل مسیح کا یہ شہر دنیا کا سب سے اہم تاریخی ورثہ ہے۔ شاید یہ تہذیب و تمدن کا پہلا مرکز ہے جہاں دولاکھ سے زائد افراد رہتے تھے۔ چوتھی صدی عیسوی قبل مسیح میں یہ شہر سکندر کے زیر نگیں آیا اور اس کی حمکرانی کے بعد خالی ہونے سے قبل تھوڑی دیل کے لیے پھلا پھولا تھا۔
لیکن ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کی فتح کے ساتھ یہاں آنے والے سیاح بتاتے ہیں کہ اس وقت یہاں صرف کھنڈرات تھے۔
صدام حسین کے لیے بابل کے یہ کھنڈرات ہمیشہ بڑی دلچسپی کا سبب رہے۔ صدام حسین نے اس کی دیواروں کی از سر نو تعمیر کا حوصلہ مند پروجیکٹ تیار کیا۔
ایران کے ساتھ جنگ کے دوران انھوں نے اس پروجیکٹ میں لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ اس کی دیواریں 11 میٹر سے زیادہ بلند تعمیر کی گئیں۔ صدام حسين کے ان اقدام کی آثار قدیمہ کے ماہرین کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر تنقید کی گئی تھی۔
اس وقت ان کی یہ کہہ کر تنقید کی گئی تھی کہ ایک آمر حکمران اس جگہ ڈزنی لینڈ بنا رہا ہے۔
بالآخر اس جگہ پر صدام حسین نے رومن طرز تعمیر کا ایک تھیٹر تعمیر کروایا۔ جب آثار قدیمہ کے ماہرین نے انھیں بتایا کہ ماضی کے حکمرانوں نے بابل کی عمارتوں کی اینٹوں پر اپنے نام کندہ کروائے تھے تو صدام حسین نے اپنے نام بھی اینٹوں پر کندہ کرنے کا حکم دیا تھا۔
ان کی ان کوششوں کو امریکی سفارتکار پال برینر نے 'مذاق اور خود پسندی میں کی جانے والی کوشش' قرار دیا۔ سنہ 2003 کے بعد عراق سے صدام کو بے دخل کیے جانے کے بعد برینر نے وہاں اہم کردار ادا کیا تھا۔

ایران پر حملے کا جشن

سنہ 1981 میں ایران پر عراقی حملے کی پہلی سالگرہ پر بابل میں بڑا جشن منایا گیا جس میں یہ نعرہ لگایا گیا 'کل نیبوچندنزار (بخت نصر) اور آج صدام حسین145۔
بخت نصر بابل کے حکمران تھے جبکہ صدام حسین نے خود کو بابل کا جانشین ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ بغداد میں بابِ عیشتار کے بالکل سامنے صدام حسین نے اپنا مجسمہ بنوایا۔
یہ 1988 میں ایک تقریب کے دوران کیا گیا جس میں ایک اداکار نے بخت نصر کا کردار ادا کیا اور اپنے وزیر ثقافت کو ایک بینر سونپا جس میں صدام حسین کو قدیم بادشاہوں کا پوتا اور دونوں قدیم دریاؤں کا جانشین قرار دیا گیا۔

مسولنی اور ہٹلر کے راستے پر صدام

صدام نے جو کچھ کیا وہ مسولینی کی تقلید سے زیادہ نہیں تھا۔ 20 ویں صدی کی ابتدا میں مسولینی نے خود کو 'دی لیڈر' قرار دیا تھا۔ اس سے قبل بھی بہت سی حکومتوں نے خود کو قدیم روم کا وارث کہا تھا فاشسٹ مسولینی اسے ایک نئی سطح پر لے گئے۔
مسولینی اپنی مہم میں خود کو جدید آگسٹس کہتے تھے۔ سنہ 1922 میں اپنی سالگرہ کا جشن مناتے ہوئے انھوں نے روم کی اہمیت پر زور دیا۔
مسولینی نے کہا تھا: 'یہ ہمارا نشان امتیاز ہے یا آپ اسے اساطیر کہ لیں۔ ہمارا ایک رومن اٹلی کا خواب ہے جو عقل مند اور مضبوط ہو، جو ڈسپلن والا اور شاہانہ ہو جو کہ روم کی روح تھی اور اس کی تعبیر فاشزم میں پنہا ہے۔'
ایسے خواب دیکھنے والے مسولینی کو تاریخ میں اس کے ظلم اور بربریت کے لیے جانا جاتا ہے۔ جہاں آگسٹس کی قبر تھی وہاں مسولینی نے بھی ایک تعمیر کروائی تھی۔
مئی سنہ 1938 میں دوسری عالمی جنگ شروع ہونے سے تقریبا 16 ماہ قبل ہٹلر اٹلی کے دارالحکومت پہنچے تھے اور مسولینی نے ہٹلر کو اپنی تعمیرات دکھائی تھیں۔
ہٹلر ان کی عمارتوں کے دورے پر رات میں گئے تھے اور مسولینی کے لوگوں نے ان عمارتوں کو سرخ روشنی سے سجایا تھا۔
ہٹلر نے بھی تاریخی باقیات سے بہت متاثر تھے۔ ہٹلر کے دفتر میں فرانسیسی فنکار ہیوبرٹ رابرٹ کی ایک پینٹنگ لگی رہتی تھی۔ ہٹلر نے بھی اپنی زندگی میں کئی پینٹنگز بنائی تھیں۔
ہٹلر نے کئی بار جدید فن تعمیر سے اپنی نفرت ظاہر کی تھی۔ انھیں قدیم طرز تعمیر میں دلکشی نظر آتی تھی۔
ہٹلر کے لیے یہ تاریخی باقیات ایک عظیم سماج کا پتہ دیتے تھے اور وہ اس کے دوبارہ قیام پر کام کرنے کے حق میں تھے۔
ہٹلر کے مطابق ایسی عمارتیں تعمیر کی جانی چاہیے جو کھنڈرات میں تبدیل ہوجانے کے بعد بھی آنے والی نسلوں کی حوصلہ افزائی کر سکیں۔
بہر حال نازیوں کی تعمیر کردرہ عمارتیں اپنے پیچھے عظیم کھنڈرات نہیں چھوڑ سکیں۔ بابل میں صدام کے محل کی طرح جب نازیوں کی تعمیرات منہدم کی گئیں تو جو انھیں جو ڈر تھا وہی ہوا یعنی وہ ٹوٹے ہوئے ڈھیر میں تبدیل ہو گئیں۔
BBC

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں