جمعرات، 31 مئی، 2018

ایران : سفاک جیل میں عورتوں سے غیر انسانی سلوک



1979ء میں ایران میں انقلاب کے وقت ہزاروں عورتیں سڑکوں پر نکلی تھیں اور وہ بھی اپنے مردو ں کی طرح محمد رضا شاہ پہلوی کی آمرانہ حکمرانی کا خاتمہ چاہتی تھیں۔

لیکن جب آیت اللہ روح اللہ خمینی نے ملک کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا اور گرد بیٹھ گئی ،تو آزادی کے لیے لڑنے والے بہت سے لوگوں کو یہ احساس ہوا کہ ان کے نئے سپریم لیڈر بھی وہی آمرانہ مطلق العنانیت پیش کررہے تھے جو رضا پہلوی کا خاصہ تھی اور پھر خواتین کے حقو ق کو فوری طور پر محدود کردیا گیا تھا۔

خواتین کو جب ایران کی نئی مذہبی قیادت سے التباس نظر کا سامنا ہوا تو ان میں کی اکثریت نے حزب ِاختلاف کے گروپوں میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ وہ ایک مرتبہ پھر شاہراہوں پرتھیں اور آیت اللہ خمینی کے اقتدار کے خلاف مظاہرے کررہی تھیں۔چنانچہ خمینی نظام نے بڑھتی ہوئی بے امنی اور گڑ بڑ پر قابو پانے کے لیے حکومت مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا، بہت سی خواتین کو گرفتار کر لیا گیا۔پھر انھیں ایک سے ایک سفاک جیل میں گھمایا جانے لگا۔

ان ابتدائی ایام کے بعد سے ایرانی نظام نے سیاسی قیدیوں کے ساتھ ایسا ہی ناروا سلوک کیا ہے۔جیلوں میں ہزاروں کو موت کی نیند سلا دیا گیا ہے۔لاتعداد زیر حراست افراد کو ان کی صنف سے قطع نظر جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے پیش نظر خواتین کارکنان کی اکثریت نے حکومت سے اختلاف کرنا ہی چھوڑ دیا اور آزادی کے حصول کی اس جدوجہد میں ان کی ایک بڑی تعداد ملک سے راہ فرار اختیار کر گئی۔

جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو اس کے جیلوں کے نظام میں خواتین سے ہونے والے ناروا سلوک سے نازیوں کے تاریک ایام کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔تب جیلوں میں قیدیوں سے روزانہ ہر طرح کا انسانیت سوز سلوک کیا جاتا تھا۔ان سے ناروا سلوک کا ہر حربہ آزمایا جاتا تھا۔

جب آیت اللہ روح اللہ خمینی نے اپنی مطلق العنان حکمرانی قائم کر لی تو خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے محمد رضا پہلوی کے دور میں نافذ کردہ قوانین کو بھی بیک جنبشِ قلم منسوخ کردیا تھا۔رضا شاہ نے ملک میں 1967ء اور 1973ء میں خاندانی تحفظ کا قانون متعارف کرایا تھا۔ مذہبی قائدین کی اس نئی حکومت نے اس کو پہلوی کے جدیدیت پر مبنی نظریے سے تعبیر کیا اور اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام کے چند گھنٹوں کے بعد ہی ایسے قوانین کو منسوخ کردیا تھا۔

شاہ نے جو قوانین متعارف کرائے تھے،ان میں ایک یہ تھا کہ لڑکیوں کی پندرہ سال سے کم عمر میں شادی نہیں کی جائے گی لیکن خمینی نے اس قانون میں ترمیم کرکے بچیوں کی شادی کی حد عمر نو سال کردی تھی۔ موجودہ جدید دور میں جب ایرانی خواتین کو انٹر نیٹ کے ذریعے بیرونی دنیا تک رسائی حاصل ہے تو وہ یہ دیکھ سکتی ہیں کہ بیرونی دنیا میں تو خواتین کو ان سے کہیں زیادہ آزادیاں حاصل ہیں۔

ایران میں حکومت کی اتھارٹی کو کھلے عام چیلنج کرنے والی خواتین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ وہ سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کررہی ہیں۔ اگر بسیج ملیشیا کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں ان کے چہروں پر تیزاب نہیں بھی پھینکا جاتا ہے تو پھر انھیں جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کے مدافعین

خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی کارکنان کو اکثر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔بہت سی ایسی خواتین جنھوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خاتمے کے لیے مہم چلائی تھی ، انھیں انجام کار جیل جانا پڑا۔ان میں سے بیشتر نے تو پُرامن اجتماعات میں حصہ لیا ،بعض نے پارکوں میں خاموش احتجاج کیا یا پھر وہ خاموش تماشائی بنی رہیں۔ان میں سے بیشتر کو اگرچہ تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد رہا کردیا جاتا رہا ہے لیکن بعض کو کوڑے مارنے یا قید کی سزا سنا دی گئی۔

ایران میں اس وقت خواتین کے حقوق کی صورت حال پست ترین سطح پر ہے۔اس ملک میں کسی عورت کو اپنی عصمت ریزی کرنے والے درندے سے لڑنے کی کوشش پر پھانسی دی جاسکتی ہے ۔اس ملک کے جیل نظام میں آپ کو ظلم وزیادتی کی ہرقسم اور شکل ملے گی۔عورتوں اور مردوں دونوں ہی سے جسمانی طور پر ناروا سلوک کیا جاسکتا ہے۔ایران کی بدنام زمانہ انتظامیہ سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔

جیل کے محافظوں کے ہاتھوں اپنی عزتیں لٹانے والی بیشتر متاثرہ عورتوں کی آخری منزل پھانسی کا پھندا ہوتی ہے۔ایسے واقعات کے عینی شاہدین کے بیانات بڑے چشم کشا ہیں۔جنسی عصمت ریزی سے متعلق بیشتر واقعات متاثرین کی جیل کوٹھڑیوں کے ان ساتھیوں نے بیان کیے ہیں، جو بچ جانے میں کامیاب ہوگئے اور اپنی جیل کی مدت پوری ہونے کے بعد رہائی میں بھی کامیاب ہوگئے تھے۔ان میں سے بعض نے انسانی حقوق کی تنظیموں کو ان ہوشربا تفصیلات سے آگاہ کیا۔

جب سے دُہری شہریت کی حامل نازنین زغری ریٹکلف ایران کی بدنام زمانہ ایوین جیل میں قید ہیں ،اس وقت سے یہ عقوبت خانہ اہل ِمغرب کی نظروں میں ہے۔ایک عورت کے لیے ایوین جیل میں جانا ہی ایک شرمناک اور اذیت ناک تجربہ ہوسکتا ہے۔

اس کا خوف ناک ڈھانچا تہران میں البرز کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔اس کی بلند وبالا دیواریں ہیں اور ان کے اوپر خار دار تار لگائے گئے ہیں۔اس کے درمیان میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر واچ ٹاورز ہیں حالانکہ ایوین جیل ہمہ وقت مسلح محافظوں کے پہرے میں ہوتی ہے۔

اس جیل میں قید عورتوں سے ایک نرمی یہ برتی جاتی ہے کہ انھیں قید تنہائی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ وہاں سے روزانہ ایسی قیدی عورتوں کو تفتیش کے لیے لے جایا جاتا ہے اور اس عمل کے دوران میں اکثر تشدد کے حربے آزمائے جاتے ہیں ،سوالات کے دوران میں گالم گلوچ کو ایک معمول سمجھا جاتا ہے۔

موسم گرما کے انتہائی درجہ حرارت والے مہینوں میں ان جیلوں میں سڑاہند عام دنوں سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔قیدیوں سے کھچا کھچ بھری جیل کوٹھڑیوں میں کیڑے پتنگے اور کاکروچ عام ہوتے ہیں اور وہ قیدیوں کی اذیت وتکالیف میں اور بھی اضافہ کردیتے ہیں۔20 مربع میٹر کی ایک کوٹھڑی میں 28 تک قیدیوں کو ٹھونس دیا جاتا ہے،حفظان صحت کا کچھ خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ 200 تک قیدیوں کے لیے صرف ایک غسل خانہ ہوتا ہے۔پھر ان قیدیوں کو تو سونے کے لیے بھی کہیں جگہ نہیں ملتی ہوگی۔

تشدد کی مختلف شکلیں

ایران کے جیل نظام میں تشدد کی مختلف شکلیں ہیں۔قیدیوں کو مارا پیٹا جاسکتا ہے،انھیں لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔انھیں ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔وہ یوں کہ انھیں دوسرے قیدیوں کو تختہ دار پر لٹکانے کے جعلی مناظر دکھائے جاتے ہیں،انھیں جگائے رکھا جاتا ہے۔ان کے قید تنہائی کے دورانیے کو طویل کردیا جاتا ہے۔

بعض اوقات انھیں یہ دھمکی دی جاتی ہے کہ ان کے خاندان کے افراد کو گرفتار کر لیا جائے گا یا انھیں نقصان پہنچائے گا۔انھیں خاندان کے افراد سے ملوایا نہیں جاتا ،ٹیلی فون پر خاندان کے افراد سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔بعض قیدیوں پر یخ ٹھنڈا پانی انڈیل دیا جاتا ہے یا پھر کڑی دھوپ میں انھیں کئی کئی گھنٹے کھڑا رکھا جاتا ہے۔بیشتر قیدیوں کو حفظان ِ صحت سے محروم رکھا جاتا ہے ، انھیں غسل خانے ایسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔

ایرانی جیل نظام میں جنسی تشدد تو ایک روایت بن چکا ہے۔اس کو تشدد کے کسی بھی دوسرے حربے کی طرح قیدیوں پر آزمایا جاتا ہے۔جیلوں اور حراستی مراکز میں عورتوں پر یہ حربہ آزمایا جاتا ہے اور وہاں وہ اپنا دفاع بالکل بھی نہیں کرسکتی ہیں۔

ایران میں تو 13 سال کی عمر تک کی لڑکیوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جاتا ہے۔انھیں ایک خوب صورت نام والے اقامتی یونٹوںمیں رکھا جاتا ہے جہاں وہ محافظوں کے رحم وکرم پر ہوتی ہیں۔ان یونٹوں کو دراصل  ریپ کیمپیا پھر  عدم واپسی کی جگہ قرار دیا جاتا ہے۔یہاں ان لڑکیوں کو شرمناک طریقے سے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔پھر انھیں پھندے پر لٹکا دیا جاتا اور جو کسی طرح بچ نکلتی ہیں تو وہ ذہنی مریض بن جاتی ہیں۔

جب عورتوں کو عصمت ریزی ایسے خوف ناک تجربے سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور اس کے بعد وہ پھانسی کے پھندے سے بھی بچ نکلتی ہیں تو وہ اپنے ساتھ روا رکھے گئے اس شرم ناک سلوک کے بارے میں مزید سبکی سے بچنے کے لیے کسی سے بات نہیں کرتی ہیں اور خاموش رہنے ہی میں اپنی عافیت سمجھتی ہیں۔بعض اپنے خاندان کے افراد سے ناروا سلوک کی دھمکی پر خاموش رہتی ہیں۔ان کی عصمت ریزی کے مرتکبین اکثر یہ دھمکیاں دیتے ہیں کہ اگر انھوں نے کچھ بولا تو ان کے خاندان سے بھی ایسا سلوک کیا جاسکتا ہے یا پھر پورے خاندان ہی کو موت کی نیند سلایا جاسکتا ہے۔

مرد کے برعکس جیل میں وقت گزارنے والی عورتوں کو رہائی کی صورت میں سماجی دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ دباؤ یہی ہوتا ہے کہ وہ جیل میں قید رہ چکی ہوتی ہیں ۔یوں ان کی شہرت ، عزت سب کچھ تباہ ہوجا تا ہے۔جب ان کی عصمت ریزی کی خبر ان کے خاندان تک پہنچتی ہے تو بعض صورتوں میں خاندان کے افراد بھی غیرت کے نام پر انھیں موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔المختصر یہ کہ ایک مرتبہ جیل کی ہوا کھانے والی ایرانی عورت کے مصائب کبھی ختم نہیں ہوتے۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں