منگل، 27 فروری، 2018

بلوچ ، مذہبی انتہا پسندی اور نوری نصیر خان


بلوچ ، مذہبی شدت پسندی
ذولفقار علی زلفی
بلوچستان میں ہزارہ برادری کی نسل کشی میں ملوث افراد کی اکثریت ، جامعہ حفصہ اسلام آباد کے سربراہان غازی عبدالرشید و مولانا عبدالعزیز اور سیہون دھماکے کے ماسٹر مائنڈز ڈاکٹر غلام مصطفی مزاری، صفی اللہ مزاری اور نادر جکھرانی کی قومی شناخت "بلوچ" ہے ـ
اس سے پہلے القاعدہ کے اہم ترین اراکین یوسف رمزی اور خالد شیخ محمد کی قومی شناخت بھی "بلوچ" رہی ہے ـ
بلوچ معاشرہ تاریخی طور پر مذہبی لحاظ سے کبھی بھی شدت پسند نہیں رہا ـ بلوچ تاریخ میں مذہبی شدت پسندی کی پہلی لہر بلوچ قومی ہیرو سمجھے جانے والے نوری نصیر خان کو قرار دیا جاسکتا ہے ـ جنہوں نے مکران کو "بلوچ ریاست" میں شامل کرنے کے لئے وہاں کے گچکی حکمرانوں کو زکری فرقے سے تعلق کی بنا پر غیر اسلامی قرار دیا ـ
نوری نصیر خان کی مذہبی شدت پسندی کو یہ مان کر آگے بڑھا جاسکتا ہے کہ چونکہ ان کی پرورش افغان حکمران احمد شاہ ابدالی کے زیرِ سایہ ہوئی ہے اس لئے ان کے فکر و عمل کو بلوچ سماج کا عکس نہیں مانا جاسکتا ـ یقیناً اس دلیل میں قوت بھی پائی جاتی ہے مگر خوانینِ قلات کی فکری ساخت اور ریاستی معاملات پر ان کی ترجیحات سے یہ پتہ چلتا ہے خوانین ، مذہب کو ریاست کا اہم حصہ تصور کرتے تھے ـ جیسے خان قلات میر احمد یار خان کو اس پر دکھ نہ تھا کہ پاکستانی فوج نے بلوچستان پر حملہ کیا بلکہ ان کا دکھ یہ تھا اس حملے میں مسجد کے میناروں کو نقصان پہنچا اور یہ حملہ نماز فجر کے وقت کیا گیا ـ
خوانین قلات کی مذہبی وابستگی کے اور بھی مظاہر ہیں جن کا تذکرہ طوالت کے خوف سے حذف کرنے پڑرہے ہیں ـ برطانوی دور میں آل انڈیا بلوچ کانگریس منعقدہ خان گڑھ (جیکب آباد) کی روداد سے اس کانگریس میں شریک سیکولر سمجھے جانے والے بلوچ رہنماؤں کی مذہب پسندی پر بھی کافی مواد ملتا ہے ـ
بلوچ حکمرانوں کے برعکس معاشرے میں مذہبی شدت پسندی کا سراغ نہیں ملتا ـ بلوچستان پر پاکستانی قبضے سے لے کر ضیا دور تک میں بھی بلوچ معاشرہ پاکستان کے دیگر معاشروں کی نسبت سیکولر مزاج رہا ہے ـ
نوے کی دہائی میں، سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بلوچ سیاست نے نظریاتی کرپشن، موقع پرستی اور عملیت پسندی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ـ اس طرزِ سیاست نے معاشرے کو کرپٹ اور کھوکھلا کردیا ـ رہی سہی کسر پاکستانی ریاست نے پوری کردی ـ
اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں بلوچ مزاحمت کے ابھار نے صورتحال کو بہتر بنانے کی جانب قدم بڑھایا مگر دوسری یعنی موجودہ دہائی کے اوائل اور وسط میں بعض مزاحمتی قوتوں نے دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے کہ غلط نعرے کو بنیاد بنا کر مذہبی شدت پسندوں سے مفاہمت کا راستہ اپنایا ـ اس مفاہمت کے بدترین اثرات مرتب ہوئے ـ آج بلوچ معاشرہ مذہبی لحاظ سے خوفناک حد تک تنگ نظر بنتا جارہا ہے ـ
کیا آپ کو ایسا محسوس نہیں ہورہا؟ ـ
____________

نوری ،مزاری  ، انتہاء پسندی اور زلفی 

زرک میر 
ذوالفقارعلی زلفی کے اس بات کو انکشاف سمجھیں یا اعتراف کہ بھٹو زندہ ہو یا نہ ہو نوری نصیر خان زندہ ہے  وہ جامعہ حفصہ والے غازی رشید مزاری مولانا عبدالعزیز مزاری کی صورت میں زندہ ہے بلے مزاری بگٹی مری لغاری اور کھوسہ سینہ ٹھوک کر کہتے ہیں کہ وہ نہ تو تاریخ میں کبھی خان کو مانتے تھے نہ اب مانتے ہیں۔
بقول زلفی نوری نصیر خان زندہ ہے آج کے سرمچاروں کی شکل میں  بلے آج کے مزاحمتی(انتہاء پسند) لیڈر مری اور بگٹی نے کھبی خان کو درغوراعتناء نہ سمجھا 
بقول زلفی نوری نصیر خان زندہ ہے آج کے ہزار ہ کش مجاہدین کی صورت میں بلے آج کے مجاہدین کا سربراہ حق نواز جھنگوی ہے جوکہ چاکر خان رند کے جھنگ پنجاب میں رہنے والے اولادوں میں سے ہیں 
بقول زلفی نوری نصیر خان زندہ ہے کہ جس نے انتہاء پسندی سے مکران کو ذگری قرار دے کر قتل عام کرایااور بلوچ ریاست میں شامل کرایا بلے آج مکران بلوچستان کا سب سے بڑا محب وطن خطہ قرارپاتا ہے
بقول زلفی نوری نصیر خان زندہ ہے آج کے مذہبی انتہاء پسند وں کی صورت میں بلے میر یوسف عزیز مگسی نے خلافت عثمانیہ کیلئے مجاہدین کی بھرتی کیمپس قائم کئے اور سینکڑوں نوجوانوں کو وہاں بھیج دیا جو آج تک واپس نہ آسکے
بقول زلفی نوری نصیر خان زندہ ہے انتہاء پسندوں کے باوا آدم کی صورت میں بلے انتہاء پسندی آج کی سیاسی اقتصادی سرمایہ داری کی جدید اصطلاح ہے بلے ہی نوری نصیر خان صنعتی دور سے پہلے کا پراناانسان گزرا ہے ۔
نوری نصیر خان کو آج کی بلوچ انتہاء پسندی کا ذمہ دار ٹھہرا کر زلفی نے یقیناًکوئی اچھنبے کی بات نہیں کی اور ان کے اس اظہاریئے کو کئیگھنٹے گزرے ہیں کسی نے ان کی تصحیح نہیں کی کاش کہ یہ کسی ادبی گروپ پر تنقید ہوتی تو اس وقت یقیناًاس کاجواب فورا آتاجبکہ تاریخی حوالوں کو جھٹلانے اور ان کے غلط استعمال پر منٹونما فیض نما اور جون نما دانشور چھپ سادھے ہوئے ہیں زلفی جان اور ان کے دوستوں سے پہلے بھی گزارش کی تھی کہ خدارا بلوچ سیاسی بیانئے پر انحصار کی بجائے کبھی کبھی تاریخ بھی پڑھ لیاکریں اور کسی کی نہ سہی اپنے ہیرو گل نصیر خان کی ہی لکھی ہوئی تاریخ پڑھ لیں افاقہ ہو گاکہ جس میں وہ نوری نصیر خان کے مکران پر حملے کے پس منظر کو واضح طورپر بیان کرتے ہیں جس میں ایک الگ چیپٹر ہے جس میں واضح طورپر یہ کہاگیا ہے کہ 
ملک دینار گچکی کی سرداری سے قبل کیچ پر بلیدیوں کی سرداری تھی جس زمانے کا یہ واقع ہے میر بلال بلیدی جو بعد میں شہ یا شیخ بلال کے نام سے مشہور ہوا۔میر بلال زیادہ تر گوادر میں رہاکرتاتھا اسی زمانے میں کیچ کی تمام آبادی ذکری مذہب کی پیروکارتھی چنانچہ میر بلال بھی مذہبا ذکری تھا ۔ روایت ہے کہ ایک دفعہ مکہ معظمہ سے کوئی حاجی جو کہ ایک جید عالم بھی تھا گوادر آیا اور میر بلال سے اس کی ملاقات ہوئی ۔اس حاجی کی پند ومواعظمت کا میر بلال (شے بلال ) پر گہرا اثر ہوا یہاں تک کہ ذکریت سے تائب ہوکر میر بلال نے نماز پڑھنا شروع کردی۔ ملک دنیار گچکی ان دنوں ذکری مذہب کا خلیفہ تھا اسے شہ بلال کی اس حرکت پر غصہ آیا اور ذکریوں کو اشتعال دلا کر اس نے قلعہ کیچ پر حملہ کردیا۔ شہ بلال کا بھتیجا جو بطور نمائندہ قلعہ میں موجود تھا ملک دینار گچکی کا مقابلہ نہ کرسکا ۔سراسیمہ ہوکر گوادر بھاگ گیا اور ملک دنیار نے کیچ پر قبضہ کرلیا ۔شہ بلال نے اطلاع پاکر ایک مختصر جمعیت کے ساتھ کیچ پر حملہ کردیا مگر ذکریوں سے شکست کھا کر تمپ بھاگ گیا ۔تمپ میں بھی ذکریوں نے اسے ٹکنے نہیں دیا ۔وہاں بھی ایک معمولی سی لڑائی ہوئی جس میں شہ بلال زخمی ہوکر گودار بھاگ گیا مگر ذکریوں نے اس کا تعاقب جاری رکھا ۔راستہ میں زخموں سے چور ہوکر شہ بلال ایک چشمہ پر ٹھہرا ہوا تھا کہ ذکری پہنچ گئے اور شہ بلال کو اسی جگہ زخمی حال میں  شہید  کردیا ۔یہ چشمہ اب تک سردار بلال کے نام سے سردار آپ  کے نام سے مشہور ہے ۔ ( اقتباس تاریخ بلوچستان ، مصنف میر گل خان نصیر صفحہ نمر 66)
اس تاریخی حوالہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بلوچستان میں پہلا اہم قتل مذہب کے نام پر نوری نصیر خان یا کسی اور نے نہیں بلکہ ذکریوں نے اپنے حکام کا مسلمان ہونے پر کیا  
ہم عرض کرینگے تو شکایت ہوگی آسمان سرپر اٹھا لیاجائے گا  لیکن یونہی تاریخی حوالوں سے ہٹ کر بات کرکے تاریخی مغالطے کا شکار لوگوں کی تصحیح کئے بغیر رہا بھی نہیں جاسکتا ۔ یہ مغالطوں اور سنی سنائی باتوں پر نظریات گڑھنے کا پہلا موقع نہیں ۔ دیکھنے والی نظریں سوشل میڈیا پر ایسی مغالطوں اور بے بنیاد یکطرفہ باتوں کی طومار سے بھرا پڑا ہے ۔میر گل خان نصیر کی کلیات کو پڑھنے والے ان کی اس تاریخی گوشے سے ناواقف نکلے جو کہ چیخ چیخ کے کہہ رہا ہے کہ ذگریوں نے اپنے حاکم کے مذہب تبدیل کرنے کو برداشت نہ کرکے اسے قتل کردیا اور اقتدار پر قابض ہوگئے (آج کے انتہاء پسندانہ قتل کے فتوے اور اس وقت فتوے سے بڑھ کر قتل کی انتہاء پسندی ملاحظہ ہو) یعنی مذہب کی تبدیلی پر ذگری حاکم کاقتل خود ذگریوں نے کیا ۔نصیر خان نوری کا قضیہ تو بعد میں آتا ہے جو جنگیں انہوں نے وہاں لڑیں اس سے قطعی انکار نہیں لیکن ان پر یہ الزام کہ انتہاء پسندی کے رجحان کے ضیاء الحق نوری نصیر خان ہیں بالکل غلط اور لغو ہے ۔ اب 
اس حوالے سے دوسرے مغالطے کی تصحیح ملاحظہ فرمائیں جہاں زلفی نے کہا کہ نوری نصیر خان چونکہ احمد شاہ ابدالی کے تربیت یافتہ تھے تو ان سے یہ سب بعید نہیں تھا ۔
شہ بلال کے تین لڑکے تھے نورمحمد  ولی محمد  اور محمد شفیع تینوں بھائی مسلمان ہوچکے تھے اور گوادر میں رہتے تھے ۔میر نصیر خان کے عہد حکومت میں اس کی شہرت اور دبدبہ کا سن کر میر نور محمد (زکریوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے شہ بلال کے بیٹے ) نے گوادر سے ہجرت کرکے قلات پہنچے اور چند سال میر نصیر خان کی خدمت میں رہا۔ نور محمد اپنی شجاعت اور شرافت سے میر نصیر خان کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔اس نے ذکریوں کے ارتداد سے میر نصیر خان کو روشناس کرایا اور اس کے دل میں ذکریوں کے خلاف انتہائی نفرت پیدا کرکے آخر کار میر نصیر خان کو کیچ پر حملہ کیلئے جانے پر آمادہ کرلیا ۔ ( گویا گھر کو لگی آگ گھر کے چراغ سے مصداق کے مطابق نور محمد نے ذکریوں کے خلاف خان میر نصیر سے مدد طلب کی) میر نصیر خان نے 1756-57میں اپنے قبائلی دستوں کو سمیٹ کر پنجگور کے راستے کیچ پر حملہ کردیا ۔قصہ مختصر ملک دینار نے شکست کھا کر دم کے قلعہ میں جا کر دم لیا ۔ قلعہ کا محاصرہ کئی دن تک جاری رہا آخر کار ملک دنیار نے ہتھیار ڈال دیئے اور گرفتارہوگیا ۔میر نصیر خان نے ملک دینار کو نماز پڑھنے کو کہا لیکن ملک دنیار نے انکار کردیا قاضی اور علماء نے ہرچند ملک دنیار کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی لیکن وہ کٹر بے نماز اپنی ضد پر ڈٹا رہا الغرض میر نصیر خان نے مایوس ہو کر اس کو قتل کا حکم دے دیا ۔ میر نور محمد بلیدی ( شے بلال کے بیٹے ) نے تلوار نکال کر ملک دینار کا سرتن سے جدا کردیا ۔
پھر جب میر نصیر خان نے قلعی تمپ کا ملک دینار کے خلاف محاصرہ کیاہوا تھا تو ملک دینار نے اپنے بھائی میر شا بیگ کو خفیہ راستے سے قلعہ سے نکال کر احمد شاہ ابدالی کے پاس فریادی قندھار بھجوایا تھا شا بیگ کے قندھار پہنچنے پر احمد شاہ ابدالی نے اپنے ایک تیز رفتار قاصد کے ذریعے میر نصیر خان نوری کے نام اپنا شاہی فرمان بدین مضمون لکھ کر روانہ کردیا کہ  دن یا رات کے کسی پہر میں جب اور جس وقت یہ شاہی فرمان میر نصیر خان کے ملاحظہ سے گزرے بمجر درسیدن فرمان بلاتاخیر فورا کیچ خالی کرکے قلات واپس ہوجائے بصورت دیگر شاہی فوج اس کو طاقت کے ذریعے مکران سے نکالنے کیلئے روانہ کردی جائے گی ۔(اقتباس تاریخ بلوچستان ۔مصنف میر گل خان نصیر صفحہ نمبر 66)
قصہ مختصر خان میر نصیر واپس قلات کے لئے روانہ ہوگیا ۔اس اقتباس سے صاف ظاہر ہوہو رہا ہے کہ اس وقت احمد شاہ ابدالی کی دست شفقت محض میر نوری نصیر پر نہیں تھی بلکہ مکران سمیت پورے خطے کے اقوام پر تھی جو جس وقت چاہتا ان سے بغیر کسی مذہبی اور لحاظ کے ان کے پاس مدد کے لئے پاس پہنچ جاتا ۔محض نوری کو اس پر موردالزام ٹھہرانا یکطرفہ اور تصویر کا ایک رخ پیش کرنے کی کوشش قرار دی جاسکتی ہے ۔اسی چیپٹر میں بعد میں میر نوری نصیر کے احمد شاہ ابدالی سے اختلافات بھی ملاحظہ فرمائیں جس میں میر نصیر نوری کے احمد شاہ ابدالی سے شدید اختلافات ہوئے اور اس کی ایک بنیادی وجہ بلوچ ریاست کی سرحدوں کا تعین تھا ۔ کچھ فارغ ٹائم ملے تو ملاحظہ فرمائیں۔ 
۔زلفی اور ان کے پڑھے لکھے ساتھیوں کیساتھ ہمیشہ ایسا ہوتا آیا ہے جہاں وہ بنیادی چیزوں سے متعلق بے خبر نکلتے ہیں ا س پر بہت حیرانگی ہوتی ہے کہ بغیر تاریخی حوالہ کے ایسی بڑی باتیں کیسے کہہ جاتے ہیں ،کیسے نہ کہیں سیاسی جماعتوں کے پمفلٹوں سے اقتباس لئے ہوئے حوالے ایسے ہی ہوتے ہیں ہمارے انقلابیوں کے ماضی کے بلوچستان سے متعلق معلومات مجھ جیسے کارکن کی جانب سے لکھے گئے پمفلٹ سے مستعار لئے گئے ہوتے ہیں جو کہ افسوسناک حدتک ناقص ہوتے ہیں ۔
مکران پر نوری نصیر کے حملے کے پس منظر کو جانے بغیر اور نوری نصیر کو شاہ ابدالی کی تربیت کاحامل قراردیتے ہوئے کاش باقی ماندہ ذگریوں کا نوری نصیر کے خلاف اسی مذہبی احمد شاہ ابدالی سے مدد لینے کو بھی مدنظررکھتے تو ایسی غلط فہمی کی گنجائش نہ ہوتی  مجھے نوری نصیر کی دفاع کرنے کا کوئی شوق نہیں اور نہ ہی ان سے مکمل اتفاق کرتاہوں لیکن جب بات ناقص اور غلط تاریخی حوالوں کے ذریعے اپنی من چاہی بات کی جائے تو اپنے طورپر تصحیح لازمی ہوتی ہے چاہے وہ مکران کی تاریخ ہو قلات کی ہو یا باقی کسی جگہ کی ۔ 
ویسے مکران پر نوری نصیر کے حملے کو انتہاء پسندی قرار دینا بھی دلچسپ ہے گویا زلفی کے خیال میں اس وقت مارکس اور اینگلز کا مارکسز م لبرل ازم سیکولر ازم کا عروج تھا انقلابات رونماء ہورہے تھے لیکن نوری نصیر خان نے ان نظریات سے منہ موڑا اوران نظریات سے استفادہ کرنے کی بجائے کٹرمذہبی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے گویا ا س وقت کے اس مکران پر حملہ کیا جو مارکسزم لبرل ازم ہیومنزمنیشنلزم کا گڑھ تھا ۔تاریخ سے ثابت ہے کہ پہلا مذہبی قتل کے شواہد مکران میں ہی ملتے ہیں شہ بلال کی ذکریوں کے ہاتھوں سفاکانہ قتل کی صورت میں ۔
ویسے زلفی نے بہت جلد بازی دکھائی ہے جہاں قلات کے حکمران(وہ اسے واضح طورپر بلوچ ریاست بھی قراردے رہے ہیں)کے مکران پر حملے کو مذہبی انتہاء پسندی کے تناظرمیں دیکھ رہے ہیں لیکن شاہد وہ بتا سکیں کہ 1640کی بجائے 1430کے دور کے بلوچستان بلوچوں کے ہیرو چاکر خان اپنے والد اور لاؤ لشکر کیساتھ مکران سے نکلتے ہیں اور قلات کی طرف آنکلتے ہیںیہاں عمر میروانی کی سربراہی میں نوزائیدہ ریاست پر ٹوٹ پڑتے ہیں میرو میروانی کو قتل کرکے قلات کو تاراج کرتے ہیں اور میر مندو کو حاکم بنا بیٹھتے ہیں  زلفی اگر ہمیں چاکر خان کے اس حملے کی منطق اور وجہ سمجھیں دیں اور بتا دیں کہ یہ انتہاء پسندی تھی کہ نہیں۔اگر ویہ بتا سکیں تو یقیناًاس سے کئی ایک مغالطے حل ہوسکتے ہیں ۔بعدمیں چاکر خان کی لشکرکو مکران سے نکل کر قلات میں بھی آرام نہیں ملا  روایت کے مطابق قلات کی یخ برف اور سردی نے چاکر خان اور اس کے لشکر کو قلات چھوڑنے پر مجبور کیا پھران کی کچھی سبی کے میدانوں میں گھمسان کی وہ لڑائیاں ہوئیں کہ اس سے خطہ لرزاٹھا۔ ان آپسی لڑائیوں میں بلوچوں کے دونوں فریقوں نے بیرونی مدد لی اورافغانستان بھی جاتے رہے اور ایک دوسرے کے خلاف مدد لیتے رہے۔ یہی افغانستان بعد میں کٹرمذہبی احمد شاہ ابدالی کو بھی جنم دیتا ہے جو کہ نوری نصیر خان کے مقابلے میں مکران کے ذگریوں کی مدد کرتا ہے نوری نصیر خان کی نہیں ۔ چنانچہ افغانستان یا بیرونی قوتوں سے مدد لینے کاسلسلہ نوری نصیر خان سے شروع نہیں ہوتا اور نہ ہی قتل وغارت گری کا سلسلہ نوری نصیر خان کے ہی دور سے آغاز ہوتا ہے بلکہ اس کا سب سے پہلے نشانہ میرو میروانی چاکر خان کے ہاتھوں بنتا ہے بعد میں رند ولاشار آپسی خونریزی کی داستانیں رقم کرتے ہیں۔اب زلفی بتائیں کہ نوری نصیر خان سے ڈھائی تین صدی قبل کی رند ولاشار کی ان آپسی جنگوں کوانتہاء پسندی کے علاؤہ کیا نام دیں؟ نوری نصیر خان تو بعد کا قصہ ہے اور جس واقعہ کو بنیاد بناکر نوری نصیر خان کو انتہاء پسندی کا باوا آدام ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ واقعہ نوری نصیر خان کی مداخلت سے قبل ذگریوں کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوچکاتھا جن کو اپنے حکام کی مذہب کی تبدیلی برداشت نہیں ہوئی اور اسے تمپ کے مقام پر شاہی محل کا گھیراؤ کرکے قتل کردیا ۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ نوری نصیر خان نے ان کی آپسی لڑائی سے فائدہ اٹھایا لیکن مذہبی انتہاء پسندی کا الزام قطعی درست نہیں ،مذہبی انتہاء پسندی کے براہ راست ذمہ دار خود ذگری تھے اور انہوں نے نوری نصیر خان کو فائدہ اٹھانے کا خود موقع دیا۔
اگرہم رند وں کی قلات حملے سے بھی کچھ پیچھے چلے جائیں تو تاریخ دانوں کا دعویٰ ہے او ربلوچ کے بعض حلقوں کا ا تفاق بھی ہے کہ بلوچ عرب اور ایران سے آئے ہیں اس سلسلے میں بلوچ اپنے آپ کو امام حسین کے لشکری بھی کہتے ہیں  ہم مانیں یا نہ مانیں یہ بھی تاریخی دعویٰ ہے کہ ایران سے جنگجو اور لٹیرے ہونے کی وجہ سے بلوچ دربدر کردیئے گئے جہاں ان کا ٹھکانہ مکران بلوچستان رہا ۔ چنانچہ جہاں جہاں سے تاریخی حوالوں کی بات کرینگے بلوچوں کا جنگ اور جنگجوہانہ رویوں سے تعلق سے انکار نہیں کیاجاسکتا ۔دلچسپ تو یہ ہے کہ بلوچ سیاسی بیانیہ اس روایتی جنگجوہانہ رویئے پر نازاں ہے جبکہ زلفی جان جیسے کامریڈ دیگر لبرل سیکولر اور ہیومنسٹوں کے سامنے بلوچ کو غیر جنگجوہانہ ظاہر کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں ۔ 
 زلفی جان نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیاہے کہ بلوچ سیکولر اور لبرل رہے ہیں  زلفی جان پہلے کی طرح یہ نہیں بتا سکے کہ بلوچ پہلے لبرل اور سیکولر کیسے تھے  اور وہ کونسی روایات تھیں جوہمیں لبرل اور سیکولر ظاہرکرتی آئی ہیں اور اب بھی کررہی ہیں اور وہ روایات خطے کی دوسری اقوام میں نہیں ۔یقیناًاب تک ایسا دعویٰ کرنے والے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکے ہیں ۔
آخر میں ایک اہم اور تاریخی غلطی کی جانب نشاندہی کرکے اپنا تبصرہ ختم کرونگا کہ جہاں زلفی جان نے مکران پر حملے کو جواز بناکر تمام خوانین قلات کو مذہبی انتہاء پسند قرار دے کراس حوالے سے اپنی بات باوزن بنانے کیلئے ایک سطحی اور غلط تاریخی حوالہ لکھ ڈالا ہے جہا ں زلفی رقمطراز ہیں کہ خان قلات احمد یار خان اس بات پر نہیں بگڑے کہ بلوچستان کا الحاق ہونے جارہا ہے بلکہ اس بات پر بگڑے کہ پاکستانی فورسز کی جانب سے فائر کیاگیا گولہ مسجد کو کیوں لگا گویا یہ ان خوانین قلات کی جانب سے مذہبی انتہاء پسند ہونے کی دلیل ہے  باقی معاملات پر تو مجھے حیرانگی تھی کہ کسی نے بھی زلفی جان کی تصحیح نہیں کی بلکہ یہ تو اب کی ماضی قریب کی بات ہے کہ مسجد پر گولہ لگنے سے احمد یارخان نے مزاحمت شروع نہیں کی بلکہ احمد یار کی گرفتاری کا معاملہ مسجد پر گولہ لگنے سے دس سال پہلے کا واقعہ ہے یعنی 1948 کا جبکہ مسجدپر گولہ لگنے کا واقعہ 1958کو پیش آیا جس پر نوروزخان زرک زئی نے مزاحمت شروع کی ۔1948کو الحاق کی مخالفت پر قلات پر پولیس ایکشن ہوا اورخان قلات احمد یار کو گرفتارکیاگیا بعد میں انہیں رہا کیاگیا لیکن بعد میں خان میر احمد یار خان نے دوبارہ سے ایسی سرگرمیاں شروع کیں جس پرلگا کہ وہ ریاست کی بحالی کی تحریک کی تیاریاں کررہے ہیں جس پر 1958میں دوبارہ ان کا قلات میں گھیراؤ کیاگیا اور گولے فائر کئے گئے جس پر ایک گولہ مسجد کو بھی لگا اس گھیراؤ اور آپریشن کے خلاف نوروز خان زرک زئی نے مزاحمت شروع کی ۔اب زلفی جان بھول گئے اور یہ کہہ گئے کہ خان قلات کو الحاق کی تو کوئی پروا ہ نہیں تھی وہ تو مسجد کو گولہ لگا تو وہ مذہبی رجحان کے طورپر مزاحمت پر آمادہ ہوگئے اب غورکرنے والی بات ہے کہ اگر خان قلات کی مزاحمت کا کوئی ارادہ نہ تھا تو فورسز نے قلات کا دوبارہ 1958میں گھیراؤ کیوں کیاگیا اور مسجد کو گولہ لگنے کی نوبت کیوں آئی ؟ ظاہر سی بات ہے کہ خان قلات کے خلاف ہی گولے فائر ہوئے جن میں سے ایک مسجد کو جالگی اب یونہی مسجد پر گولے باری کیوں کی جاتی ۔ کوئی اگر مزاحمت نہیں کرنا چاہتا تو اسے بڑھکانے کیلئے مسجد پرگولہ کیونکر فائر کیاجاتا۔ ویسے بھی وہ مسجد بھی قلات وطن کی مسجد تھی اس پر حملے کی صورت میں مزاحمت جائز ہے کیونکہ اس حملے کو خالصتا قلات وطن پر حملہ تصور کیاگیا۔ لہذا کج روی اور بغیر درست حوالوں کے بات کرنے پر یقیناًاس کا ٹھوس جواب آنا چاہئے تھا اور افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے سیاسی بیانیے نے ہمیں جو سکھایاہے ہم وہی رٹتے ہیں حالانکہ ہم خود مشاہدے کی حس رکھتے ہیں تاریخ پڑھ سکتے ہیں لیکن کیا کریں کسی نے سیاسی بیانیے کے خلاف بات کی تو وہ قوم کی تقسیم کرنے والا قراردیاجاسکتاہے اور اسے مختلف القابات سے نوازہ جاتا ہے ۔ تنگ نظری عدم برداشت کا وہ مظاہرہ کیاجاتا ہے کہ اللہ کی پنا ہ ۔اس کے باوجو د زلفی جان بضد ہیں کہ بلوچ سیکولر رودار اعتدال پسند قوم ہے ۔
(آؤ کہ اختلاف رائے پر اتفاق کریں )

ــــــــــــــــــ
قاسم بلوچ لکھتے ہیں کہ 
زلفی صاحب میرے ان فیس بک فرینڈز میں سے ہیں جن سے بحثیت طالب علم مجھے سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے.اور جس معتبر انداز سے وہ کراچی سے خیبر تک کے مختلف اقوام کے سماجی, سیاسی اور ثقافتی امور کے انجینئرنگ پر تاریخی جائزہ لیتے ہیں وہ مجھ جیسے طالب علم قارئین کے لیے علمی سرمایہ سے کم نہیں ہوتا. بات جب بلوچستان کے قبائلی ڈھانچے اور اس کی قبائلی امور پر آتی ہے,جسے آج کل اکثر اوقات بلوچ سیاست کے نام سے زیر بحث لا کر برصغیر کے سیاست سے الگ رکھنے کے لیے دلیل کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے, تو ایک دم چیزوں کو پرکھنے کے پیمانے تضاد کا شکار ہو جاتے ہیں...میں پھر کہوں گا کہ میں سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں نہ کہ غلطی نکالنے کی کیونکہ میں اس عمل سے سیکھ رہا ہوں اور بحثیت قاری اپنی رائے دے رہا ہوں کیونکہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ کم علمی کی وجہ سے میں زلفی صاحب یا دوسرے دوستوں کے ساتھ ٹھوس بنیادوں پر تاریخی بحث نہ کر سکوں. .زلفی صاحب جب بلوچ تاریخی قبائلی امور یا کہ بلوچ سیاست پر لکھتے ہیں تو وہ یہاں کے طاقت کے ڈسکورس اور سماجی ڈھانچے کا تجزیہ کرتے ہوئے خوانین قلات,مری و بگٹی,مینگل اور ہر دل عزیز سیکولر مکران کے بارے میں حقائق کو ایک مخصوص سیاسی بیانیہ کے ساتھ ایسے الجھاتے ھیکہ ہم جیسے نئے قارئین کو مولہ,ہربوئی اور بولان میں سفر کرنے والے سخت جان لوگوں کسی فلم کے ولن کے جابرانہ عزائم کو دوام بخشنے والے سطی ذہنیت کے دو ٹکے کے غنڈوں کا ایک گینگ لگنے لگتے ہیں اور دوسری طرف بحرعرب کے مضافات سے لے کر فارس کے ہمسائے میں بسنے والے... فلمی دنیا کے ایک مظلوم بستی کے بے بس باسی... ایسے لگتے ہیں جیسے ریاست قلات کے غنڈوں نے نوری نصیر خان کےظالمانہ سربراہی میں ان پر لشکر کشی کر کے ہزاروں غریب اور مفلس لوگوں کو قتل کر کے بہت سارا مال غنیمت,سیکولر غلام اور لونڈیاں شاھی دربار قلات پہنچا کہ عربی مذہب کے سچے پیروں کار ہونے کا ثبوت دی ہے
ـــــــــــــــــــــــــ
ذولفقار علی زلفی 
عرض یہ ہے کہ زرک صاحب کا مسئلہ بلوچ سماج کے تضادات کی تفہیم یا ان پر اپنا نکتہِ نظر واضح کرنا نہیں ہے ـ ان کا غصہ صرف نوری نصیر خان کو تنقید کے دائرے میں لانے پر ہے ـ یہ غصہ بھی صرف اس لئے ہے کیونکہ وہ براھوی سماج کو بلوچ معاشرے سے جدا کرکے دیکھتے ہیں ـ اس کی ایک جھلک جھنگ، چاکر خان رند کے بے وقت کی راگنی سے بھی ملتا ہے ـ
میرے نزدیک نوری نصیر خان ایک بلوچ حکمران ہیں اور بلوچ قوم کی اکثریت (سوائے مکران کے زکری فرقے کے) انہیں اپنا قومی ہیرو سمجھتی ہے ـ نوری نصیر خان کی شاہی سلطنت کے تضادات اور ان کی حکمرانی کے حسن و قبح پر بہت کم بحث کی جاتی ہے کیونکہ ہم "ہیروؤں" پر بات نہیں کرتے ـ
کسی بھی ایشو پر میری رائے محض رائے ہے اسے فتوی نہ سمجھا جائے ہاں میری رائے میں بلوچی، براھوی، سرائیکی اور جدگالی تعصب تلاش نہ کی جائے ایسا کرنے والوں سے مکالمہ کرنا میرے لئے ممکن نہیں ـ
مکران ہو یا دیگر خطے یہ سب بلوچ سماج کے حصے ہیں ـ ان کے درمیان تفریق کرنا، کسی کو اوپر نیچے کرنا بددیانتی ہے جو کم از کم میرے لئے ممکن نہیں ـ
زرک صاحب بلوچی براہوئی تضادات کا شوق پالتے ہیں اس شوق سے مجھے کوئی علاقہ

ـــــــــــــــــــــــ
زرک میر 
باقی باتیں اپنی جگہ، زلفی صاحب اصل مدعے پر اپنی رائے دیں کہ ذگریوں میں پہلا قتل کس بنیاد پر ہوا اور کس نے کیا۔۔۔۔۔۔اور قلات مسجد پر حملے کے پد منظر سے متعلق اپنے مغالطے پر کیا کہتے ہیں
ذولفقار علی زلفی 
خان قلات نے اپنی کتاب میں بلوچستان پر قبضے سے زیادہ اللہ اکبر کی صداؤں، مسجد کے میناروں، نمازِ فجر اور پاکستانی فوج کے مسلمان ہونے پر ذیادہ دکھ کا اظہار کیا ہے ـ مزکورہ پوسٹ میں اشارہ اسی جانب تھا ـ
خان کو آزادی پسند قرار دینا یوں بھی مشکل ہے ان کی پوری سیاسی زندگی اور فیصلوں کا جائزہ لیا جائے تو عقدہ کھلتا ہے ان کا اہم ترین مسئلہ اپنا طبقاتی اسٹیٹس برقرار رکھنا تھا چاہے بدلے میں پوری قوم کا بیڑہ ہی کیوں نہ غرق ہوجائے ـ
یوسف عزیز مگسی پر بھی اس پوسٹ میں اشارتاً تنقید کی گئی ہے، ایک بار پھر دیکھ لیں ـ اب آپ براھوی عینک لگا کر دیکھیں گے تو ظاہر ہے آپ کو "براھوی دشمنی" ہی نظر آئے گی ـ
زرک میر 

یہاں براہوئی بلوچی کی بحث نہیں ہورہی یہ تو آپ کی تصحیح کی گئی ہے جہاں آپ نوری نصیر کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔۔۔جبکہ اصل بات یہ ہے کہ زکریوں میں پہلا قتل مذہبی بنیاد پر ہوا جہاں شہ بلال کو مسلمان ہونے پر دینار گچکی نے قتل کرایا۔۔
میری عینک بلے براہوئی تناظر دیکھتا ہو لیکن کیا اس سے حقائق جٹھلائے جا سکتے ہیں جہاں آپ انتہا پسندی عورتوں کے حقوق غصب کرنے اور لٹیرے کے طور پر آپ کو حوالہ پوری تاریخ میں پر پرا کر نوری نصیر ہی ملتے ہیں۔۔۔۔کبھی آپ نے یہ دیکھا کہ تاریخ کے المیے اور بھی ہیں۔مکران کے علاوہ آپ لوگ باقی بلوچستان سے متعلق سوچتے ہوئے بالکل پبجابی جیسے بن جاتے ہو۔
ــــــــــــــــ

بڑھیاــــ تحریر: مریم الساعدی


سب اسے‘‘بڑھیا’’کے نام ہی سے بلاتے تھے، یہاں تک کہ اس کی اپنی اولاد بھی اسی نام سے پکارتی تھی۔وہ عمردراز عورت تھی اگلے وقتوں کی
 عورت۔ اس کے کپڑوں میں بکریوں کی بو بسی رہتی تھی اور پرانے صندوق کا زنگ بھی،اس نے اس طرف کبھی دھیان ہی نہیں دیا تھا کہ اس کو خوبصورت بھی نظر آنا چاہئے۔اس کی ظاہر ی حالت بد نما لگتی ہے یا یہ کہ خوشنما نہیں لگتی اس نے اس طرح کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔۔۔بلکہ اسے تو اس بات ہی میں شک تھا کہ اس کا اپنا کوئی ظاہر ہے بھی۔وہ ان عورتوں میں سے تھی جو زیادہ بچے پیدا کرتی ہیں،اپنے شوہرں کو اپنا چہرہ دکھائے بغیر ،کیونکہ چہرہ بھی تو عورت(چھپانے کی چیز) ہے۔وہ ان عورتوں میں سے تھی جو اپنے خاوند کو ان کے نام سے نہیں پکارتیں، ان کے لیے اتنا جاننا ہی کافی ہوتا ہے کہ وہ مرد ہیں اوران کے خاوند ان کے ذہن میں ایک لمحہ کو بھی یہ خیال نہیں گزرتا کہ اِس کے علاوہ بھی ان کی کوئی حیثیت ہے کہ وہ کسی کی بیویاں ہیں اور کسی کی مائیں یا پھر نشانزد بکریوں کے ریوڑ کی مالکن۔وہ دیہی علاقے میں رہتی تھی،جہاں تاحد نگاہ صحراء کا دامن پھیلاہوا تھا۔جہاں ریت اور پیاس کے سوا کچھ نہ تھا۔۔۔ اس کے خیمہ میں چھوٹے چھوٹے بچے ہر دم دھماچوکڑی مچائے رکھتے تھے۔گلی گلیاروں میں چھاوں اترنے سے پہلے وہ بکریوں کا دودھ نکال کر فارغ ہوجایا کرتی تھی۔اس کی روٹیوں میں چولہے کی راکھ کی بو ہوتی تھی شام کے جھٹ پٹے میں یہ اس کا دل پسند مشغلہ تھا، گرم، سخت اورباربار لوٹ کر آنے والے ہر دن کے بعد  نہیں  یہ کچھ ایسا سخت بھی نہیں تھااوربار بار لوٹ کربھی نہیں آتاتھا یہ تو بس ایک ہی دن تھا ۔۔۔صرف اور صرف ایک دن ۔۔۔وہ صرف اتنا ہی جانتی تھی کہ سب دن ایسے ہی ہوتے ہیں سخت اور گرم.... اس کی بکریاں اس کی بیٹیوں کی مانند تھیں اوربکرے اس کے بیٹوں کی طرح، جنہیں وہ ان کے ناموں سے جانتی تھی رنگوں سے بھی۔۔۔اور شکلوں سے بھیوہ اس کے لئے اس کے اپنے بال بچوں سے بھی زیادہ پیاری تھیں۔ ان دنوں اس کی مکمل شناخت اور تعارف یہ تھا کہ وہ‘‘بیوی’’تھی۔اس کے بچوں کو بھی اس کا نام تبھی معلوم ہوسکا جب انہیں اس کی موت کے دستاویزات بنوانے کی ضرورت پیش آئی۔‘‘خاوند’’سے اس کا تعلق بس بے نام سا ہی رہ گیاتھا۔زیادہ تر دونوں کے درمیان اپنی اپنی بکریوں کو لے کرچپقلش رہتی تھی لیکن آخر میں اس کی حیثیت یہ تھی کہ وہ ایک‘‘خاوند’’تھااور اِس کی یہ، کہ یہ ایک‘‘بیوی’’تھی۔دونوں ایک دوسرے سے الگ نہ رہسکتے تھے۔
جب بچے بڑے ہوئے تو انہوں نے اسے ایک‘‘بڑھیا’’کی حیثیت سے پہچانا۔‘‘خاوند’’کی عرصہ ہوا موت ہو چکی تھی۔اب اس کے لیے ایک گھر کا ہونا ضروری تھا۔لڑکے سب کے سب بڑے ہو گئے تھے اور اتنی دور چلے گئے تھے کہ اس کے لیے ان کی خیر خبر لینا بھی آسان نہ تھا۔
بڑا بیٹافوج میں اعلی عہدے پر تھا،اس سے چھوٹا محکمہ? پولس میں بڑے منصب پرفائز تھا،منجھلاسرکاری ادارے میں قابل قدر عہدے پرتھا،اس سے چھوٹا یونیورسٹی میں استاد تھااور سب سے چھوٹا تعلیمی دورے پر گیا ہواتھا اور ابھی تک واپس نہیں لوٹا تھا۔لڑکیاں سب اپنے اپنے گھروں کی ہوگئی تھیں،وہ بھی عالیشان گھر وں میں تھیں۔بڑھیانے اپنا خیمہ چھوڑنے سے انکار کردیا تھا۔
لوگ اس کے بیٹوں کو نام دیتے تھے کہ وہ اپنی ماں کی دیکھ بھال نہیں رکھتے۔ان کے سامنے جب بھی اس کا ذکر آتا وہ پسینہ پسینہ ہوجاتے،انہیں ہر دم یہ خیال ستاتا تھا کہ وہ اس سے کس طرح بری الذمہ ہو سکیں گے اور بدنامی کے داغ کوکس طرح دھوسکیں گے۔ وہ اس کو اپنے ساتھ رکھنے پر اصرار کرتے رہے،شہر ی زندگی کی آسائشیں گنا گنا کر اسے رغبت دلاتے رہے.... ٹھنڈا پانی،ایرکنڈیشن کمرے، نرم بستراور عالی شان مکان اورفرماں برداربیٹے جواس کی برسوں کی حرماں نصیبی کا بدلہ چکائیں گے اوراور اس کے اپنے پوتے پوتیاں جو ہمیشہ اس کے اردگردہمکتے پھریں گےانہوں نے یہ وعدہ بھی کیا تھاکہ وہ ہر ہفتہ گاوں جاکر اپنی بکریاں دیکھ آیاکریگی۔۔۔
اور آخر کا ر وہ ان کی ترغیبات کے سامنے جھکگئی۔
سب سے بڑے بیٹے کا گھر ساکت تھا۔کمرہ بھی ساکت تھا، بستر بھی اوردرودیواربھی ساکت تھےٹھنڈے اور خاموشیہاں تو ہر شئے پر جیسے سکوت طاری تھا،اسے لگا کہ اس کی اپنی بھی آواز ختم ہوگئی ہے۔یہاں اس کی بکریاں بھی نہیں آنے والی تھیں کہ وہ ان کے ساتھ بات کرسکے،پوتے پوتیوں کی تو وہ شکلیں بھی نہیں پہچان پائی تھی،کیونکہ وہ سب مدرسے چلے گئے تھے۔اور پھر واپس نہیں لوٹے تھے۔اسے خادمہ پر گمان ہوتا کہ وہ اس کی بہو ہے،تاہم اس کو تعجب ہوتا تھا کہ وہ عربی کیوں نہیں جانتی۔
جب سردی بڑھ گئی تو اس نے دوسرے بیٹے کے گھرجانے کی خواہش ظاہر کیاس کے بعدمنجھلے والے کے گھر....پھر چھوتھے اور پھرپانچویں بیٹے کے گھر.... پھر بڑی بیٹی کے گھر .پھر دوسری اور پھر تیسری بیٹی کے گھر۔۔۔یہ سب گھر ایک جیسے تھے، ٹھنڈے اور خاموشنہ حرکت نہ زندگی۔اس نے اپنی بکریوں کے پاس جانا چاہا۔لیکن وہ سب ایک ایک کرکے مر چکی تھیں۔وہ انہیں ہفتے میں ایک باردیکھ سکی،نہ مہینے میں اور نہ ہی سال بھر میں جیسا کہ اس کے بیٹوں نے وعدہ کیا تھا۔ایک بوڑھی عورت جس سے راستے میں اچانک ملاقات ہو گئی تھی، اس نے اس سے بتایا تھا کہ تمام بکریاں مر گئی ہیں۔ظاہر ہے کہ اسے یقین نہ ہوا،اسے خیال گزرا کہ بکریاں اس نے چوری کرلی ہوں گی۔ وہ خود جاکر تحقیق کرنا چاہتی تھی۔وہ روڈ پر نکل آئیوہ اپنے خیمہ میں جانا چاہتی تھی.... اپنی بکریوں کے پاس.... لال والی بکری بچہ دینے والی تھی،وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ اس نے کیسا بچہ جنا ہے، بکرا یا بکری،ہو سکتا ہے کہ دو بچے جنے ہوں،سرخ سرخ، یا کالے کالے یا پھر بالکل سفید۔ ہو سکتا ہے دونوں ہی رنگ کے ہوں، ان کو دیکھنا ضروری تھا۔چھوٹی بکریوں کوکئی طرح سے تکلیف پہونچتی ہے،بڑی بکریاں بھی توجہ چاہتی ہیں۔ وہ ایک عرصے سے ان سے دور ہے،اس نے کچھ بھی تو نہیں دیکھاہے۔
اب لوٹنا ضروری ہے۔اس نے اپنا وہی پھٹا پرانا عَبا پہن لیا،وہ بکریوں کو دیکھنا چاہتی تھی۔درمیان راستے میں جب وہ لوگوں کے ہجوم سے گزررہی تھی اس کی بیٹی کی پڑوسن نے پہچان لیا،اور اس کو اس کی بیٹی کے گھر لے گئی۔اس نے کہا:
‘‘یہ درمیان راستے میں اس طرح کھڑی تھی جیسے ہوا کے دوش پر تنکا’’۔ پڑوس کے بچے زور زور سے ہنسنے لگے تھے۔وہ چڑانے لگے
‘‘ایسے دکھ رہی تھی جیسے گپھاوں میں رہنے والی ڈراونی چڑیل’’۔
جدید تہذیب کی پروردہ بہو نے اس کے کپڑوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی، اس کے کپڑوں میں پیوند لگے ہوئے تھے اس کا عبا چھن چکا تھا۔
‘‘استغفراللہ....! تمہا ری ماں کا تو پورابدن ہی نظر آرہا ہے، بڑھیا کو ذرا بھی شرم نہیں آتی’’۔
اس کے متعلق ہر کسی کی مختلف رائے تھی، تاہم ایک بات سب کہتے تھے۔‘‘تو نے ہمیں لوگوں میں رسوا کردیا۔اے بوڑھی عورت۔اللہ تجھے معافکرے’’۔
بڑھیا اپنے کمرے میں آگئی جو مکان کے عقبی حصہ میں تھا۔اس کی بہو نے نئے کپڑے لاکر دئے،اور بیٹے نے نئے جوتے،بیٹی نے ایک خوبصورت سا عبا لاکردیاجبکہ دوسرے بیٹے کی بیوی نے قسم قسم کے عطر اورایک عدد نیا برقع خرید کر دیا۔انہوں نے خادمہ سے کہا کہ اس کو تازہ کھانا کھلائے،اس کے کمرے کی صفائی کرے اور سردی سے بچنے کا انتظام کرے،انہوں نے اس کے لئے اصلی شہد بھی خرید کر دیا تاکہ اس کو پئے اور صحت مند دکھائی دے۔اس کے لیے ایک خاص خادمہ کا بھی انتظام کردیا گیا جو رات دن کے شش پہر اس کی ضروریات کا خیال رکھے۔بڑھیا نے تمام چیزیں پاس میں پڑے خالی صندوق میں ٹھونس دیں اور اپنے وہی پیوند لگے کپڑے اور پھٹے پرانے جوتے نکال لئے اور انہیں سینے بیٹھ گئی۔اورعبا اپنے اسی پرانے صندوق میں رکھ دیا،جس میں زنگ کی مہک، بکریوں اور پرانے خیمے کی بو اور اس کے خاوند کی خوشبو رچیبسیتھی۔
لوگوں کو یقین ہوگیا کہ اس کے بیٹوں نے اس کا خیال رکھنے میں کوئی کمی نہیں کی ہے، بڑھیا خود ہی پراگندہ طبیعت کی ہے۔جب لوگ اس طرح کے خیالات کا اظہار کرنے لگے تو اس کے بچوں کو ذرا راحت کا احساس ہوااور دل کا بوجھ ہلکا ہوگیا۔
بڑھیا اپنے کمرے میں محصور ہوکر رہ گئی، اب وہ بہت کم ہی باہر نکلتی تھی،اس کی خلوت میں اب کوئی مخل نہیں ہوتاتھا سوائے اس خادمہ کے جو اس کے لئے کھانا لاتی تھی اور وہ اس کو ہر مرتبہ واپس کردیا کرتی تھی،اس نے ان کا کھانا کبھی نہیں کھایا تھا۔
‘‘منحوس بڑھیا!!..... اللہ اس کے بچوں کو صبر دے۔ ’’خادمہ زیرلب بڑبڑاتی اور پیر پٹختی ہوئی کمرے سے نکل جاتی۔
‘‘بڑھیا کیا کھاتی ہے....؟’’ایک دفعہ اس کے بیٹے کو دوپہر کے کھانے پر خیال آیا تو اس نے خادمہ سے یونہی پوچھ لیا۔
‘‘سوکھا دودھ پیتی ہے اورسوکھی روٹیاں کھاتی ہے جو اس کے بوسیدہ صندوق میں جمع ہیں ’’۔
بیٹے نے تعجب خیز انداز میں سر کوجنبش دی اور کھانے میں مصروف ہوگیا۔بہودل ہی دل میں اللہ سے دعا مانگنے لگی، کہ اللہ اس کو اس عمر تک نہ پہونچائے کہ وہ اپنے بیٹوں کے لئے عذاب بن جائے اور انہیں عوام الناس میں رسوا کرے۔
خادمہ نے بھی بڑھیا کے ساتھ سونا چھوڑدیا تھا، وہ ہر وقت بولتی رہتی تھی،نیند میں بھی بڑبڑاتی تھی،معلوم نہیں کیا کیا بکتی رہتی تھی،کبھی اپنی بکریوں کو پکارتی،کبھی اپنے خاوند کے ساتھ لڑتی جھگڑتی اور کبھی بچوں کو آواز دینے لگتی تھی، کہ وہ شام ہونے سے پہلے پہلے گھر آجائیں۔
بڑھیا اللہ کو پیاری ہوگئی۔تجہیز وتکفین کا سارا سامان تیار تھا،تعزیت گاہ کا دروازہ لوگوں کے کھول دیا گیا تھا۔بہت سارے لوگ جمع ہوچکے تھے،بڑے بڑے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کے متعلقین،پڑوسی،آفس کے ساتھی،پڑوس کی عورتیں، سہیلیاں، پوتیوں کی سہیلیاں،اورپوتوں کے دوست بھی جو اب اپنے اپنے مدرسوں سے واپس آچکے تھے۔ یہاں تک کہ وہ بیٹا بھی جو تعلیمی دورے پر گیا ہوا تھالوٹ آیا تھاتاکہ اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر وہ بھی میت میں آنے والوں کا استقبال کرسکے۔
‘‘اگر وہ والدہ کے دفن میں شریک نہ ہواتولوگ ہمارا چہرا نوچ لیں گے‘‘۔اس کے بھائیوں نے سوچا۔۔۔مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔سب کچھ ٹھیک ٹھاک اور من مطابق ہوتارہا۔لوگوں نے کسی کا بھی چہرا نہیں نوچا۔اوربڑھیا کومنوں مٹی کے نیچے بڑے اہتمام اور عزوشان کے ساتھ دفنا دیا گیا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مریم الساعدی کی یہ کہانی السیدۃ العجوز‘‘بوڑھی عورت’’کینیڈین نژاد مشتشرق ڈنیس جانسن ڈیویس کے مجموعہ In a Fertile Desert: Modern Writing from the United Arab Emirates میں بھی شامل کی گئی ہے۔یہ کہانی قدیم اور جدید دنیا کے دعووں اور حاصلات کی حقیقی تلاش سے عبارت ہے،جہاں ایک بوڑھی عورت اپنے جدید تہذیب یافتہ بچوں کے لئے شرمندگی اور اضطراب کا باعث بن جاتی ہے۔

جمعرات، 15 فروری، 2018

علم ادراک کی پروفیسر لوری سینٹوس کی باتیں



امریکہ کی ییل یونیورسٹی میں علم نفسیات اور علم ادراک کی پروفیسر لوری سینٹوس کا کہنا ہے کہ سائنس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ 'خوش رہنے کے لیے دانستہ کوشش کی ضرورت ہے۔'
پروفیسر سینٹوس نے بی بی سی کو بتایا کہ 'یہ آسان نہیں اور اس کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔'
وہ یہ جانتی ہیں کیونکہ وہ علم نفسیات اور بہتر زندگی کی تعلیم دیتی ہیں۔
ییل یونیورسٹی کی 316 سالہ تاریخ میں ان کی کلاس سب سے زیادہ مقبول ہے۔
ان کے پاس 1200 طلبہ ہیں اور انھوں نے حال ہی میں یونیورسٹی کے کسی کورس میں داخلے کا ریکارڈ توڑا ہے۔
ان کا کورس مثبت علم نفسیات کے اصول پر مبنی ہے۔ یہ علم نفسیات کی وہ شاخ ہے جس میں خوشی اور عادات و اطوار میں تبدیلی کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔
لیکن آپ ان تمام اصولوں کو روز مرہ کی زندگی میں کیسے عملی جامہ پہنائیں گے؟
پروفیسر سینٹوس کہتی ہیں کہ 'خوش رہنا یونہی نہیں آتا ہے اس کے لیے آپ کو مشق کرنی ہوتی ہے' ٹھیک ویسے ہی جیسے موسیقار اور ایتھلیٹ مسلسل بہتر کرنے اور کامیاب ہونے کے لیے ریاض اور مشق کرتے ہیں۔
ہفتے میں دو دن پروفیسر سینٹوس اپنے طلبہ کو خوش رہنے کے بارے میں تعلیم دیتی ہیں۔
وہ ان سے زیادہ خوش رہنے اور صحت مند زندگی کے متعلق اپنی ذاتی ترقی کے پروجیکٹ 'ہیک یو' سیلف' کی ترغیب دیتی ہیں۔
اگر آپ ییل نہیں جا سکتے اور خود کو خوش رکھنا چاہتے ہیں تو کیا کریں؟
ذیل میں پروفیسر سینٹوس کے خوش رہنے کے چند نکات پیش کیے جا رہے ہیں:
اول : شکر اور احسان مندی کی ایک فہرست بنائیں
پورے ایک ہفتے تک ہر رات پروفیسر سینٹوس اپنے سٹوڈنٹس کو ان چیزوں کو لکھنے کے لیے کہتی ہیں جن کے لیے وہ شکر گزار ہیں۔
یہی ان کی شکر اور احسان مندی کی فہرست ہوتی ہے۔
پروفیسر سینٹوس کہتی ہیں: 'یہ بظاہر معمولی بات نظر آتی ہے لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ جو طلبہ پابندی سے اس کی مشق کرتے ہیں وہ زیادہ خوش رہتے ہیں۔'
دوئم  :  زیادہ اور بہتر طریقے سے نیند لیں
سینٹوس کے مطابق اس آسان مشق پر فتح پانا سب سے مشکل ہے۔
اس میں ایک ہفتے تک رات میں آٹھ گھنٹے سونے کا چیلنج ہوتا ہے۔
پروفیسر سینٹوس کہتی ہیں کہ 'یہ عجیب لگ سکتا ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ زیادہ اور اچھی نیند سے آپ کے ڈپریشن میں جانے کے خطرات کم ہوتے ہیں اور آپ میں مثبت رویہ پیدا ہوتا ہے۔'
سوئم : مراقبہ
آپ کو ہر دن دس منٹ تک استغراق کے عالم میں رہنا ہے۔
پروفیسر سینٹوس بتاتی ہیں کہ ایک طالب علم کے طور پر مراقبے میں جانے سے انھیں بہتر محسوس ہوتا تھا۔
اب وہ پروفیسر ہیں اور وہ اپنے سٹوڈنٹس کو مراقبے میں جانے یا پوری توجہ سے دوسرے کام کرنے کی ترغیب دیتی ہیں جس سے آپ کو زیادہ خوش رہنے میں مدد ملتی ہے۔
چہارم  :  زیادہ وقت اہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ گزاریں
پروفیسر سینٹوس کہتی ہیں کہ تازہ تحقیق میں واضح طور پر پتہ چلا ہے کہ اپنے دوستوں اور اہل خانہ کے ساتھ اچھا وقت گزارنے سے آپ زیادہ خوش رہتے ہیں۔
صحت مند آپسی رشتہ اور سماجی رابطہ جس میں آپ لوگوں سے بالمشافہ ملتے ہیں ان سے آپ کی فلاح و بہبود میں واضح بہتری آتی ہے۔
پروفیسر سینٹوس کا کہنا ہے کہ 'اس میں آپ کا کچھ جاتا نہیں بس آپ کو اس بات سے باخبر رہنا ہے کہ آپ کس طرح لوگوں کے ساتھ اپنا وقت گزار رہے ہیں۔
وقت کا ادراک آپ کی خوشی کے لیے بہت اہم ہے۔
'ہم اکثر دولت کو پیسے میں گنتے ہیں' لیکن پروفیسر سینٹوس کا کہنا ہے کہ 'تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ دولت کا اس بات سے قریبی تعلق ہے کہ ہمارے پاس کتنا وقت ہے۔'
پنجم :  سوشل نٹورک میں کمی اور اصل رابطے میں اضافہ
پروفیسر سینٹوس کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا سے حاصل ہونے والے خوشی کے جھوٹے احساس میں بہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ تازہ تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ جو لوگ انسٹاگرام جیسے سوشل نیٹورک کا استعمال کرتے ہیں وہ ان لوگوں سے کم خوش رہتے ہیں جو ان کا استعمال نہیں کرتے۔'
تو یہ ہیں زیادہ خوش رہنے کی چند تراکیب۔
اگر آپ واقعی خوش رہنا چاہتے ہیں تو زیادہ شکر گزار بنیے، اپنے دوست اور رشتہ داروں سے ملتے رہیے، دن بھر میں تھوڑی دیر کے لیے ذہن کو خالی کر دیجیے، سوشل میڈیا سے دور رہیے اور زیادہ نیند لیجیے۔
ییل یونیورسٹی کے طلبہ پر یہ کارگر ثابت ہوا ہے آپ پر بھی کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔

ہفتہ، 3 فروری، 2018

چی گویرا کی تلاش میں





تحریر :  ڈاکٹر خالد سہیل
چند سال پیشتر جب میں اپنی کتاب تشدد اور امن کے پیمبر کے لیے بیسویں صدی کے بارہ سیاسی رہنمائوں کی سوانح عمریوں کا مطالعہ کر رہا تھا جن میں موہن داس گاندھی اور نیلسن منڈیلا بھی شامل تھے اور مارٹن لوتھر کنگ اور ہو چی منہ بھیتو ان بارہ رہنمائوں میں مجھے سب سے زیادہ چے گویرا کی شخصیت نے مسحور کیا تھا۔ اس کی کہانی پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا تھا کہ وہ مجموعہِ اضداد تھا۔ وہ جس شدت سے محبت کرنے کے اسی شدت سے نفرت کرنے کے بھی قابل تھا۔ وہ جس بے رحمی سے قتل کرتا تھا اسی خلوص سے جانیں بھی بچاتا تھا۔ وہ بیک وقت قاتل بھی تھا اور مسیحا بھی۔

ان بارہ سیاسی رہنمائوں اور اور انقلابیوں میں چے گویرا وہ واحد رہنما تھا جو اپنے آبائی وطن کے علاوہ کسی اور ملک کی سیاسی جدوجہد میں شریک ہوا تھا۔ چے گویرا کا تعلق ارجنٹینیاARGENTINA سے تھا لیکن وہ کیوبا CUBAکی آزادی کی تحریک میں شامل ہوا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ صرف ارجنٹینیا یا کیوبا ہی نہیں بلکہ پورے لاطینی امریکہ کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانا اور خود مختاری کی راہ پر ڈالنا چاہتا تھا۔ چے گویرا سوشلسٹ انقلاب سے شدت سے محبت اور سرمایادارانہ استعماریت سے شدت سے نفرت کرتا تھا۔
جب میکسیکو میں پہلی دفعہ چے گویراCHE GUEVARA کی ملاقات فیڈ ل کاسٹروFIDEL CASTRO سے ہوئی تو کاسٹرو نے اسے ایک ڈاکٹر کے طور پر اپنی گوریلا فوج میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی لیکن آہستہ آہستہ وہ ڈاکٹر ایک گوریلا فوجی اور کاسٹرو کا دستِ راست بن گیا۔ چے گویرا کی مدد کے بغیر کیوبا کا انقلاب شاید کامیاب نہ ہوتا۔
کامیابی حاصل کرنے کے بعد جب کاسٹرو نے کیوبا کی قیادت سنبھالی تو اس نے چے گویرا کو اپنا وزیر چنا۔ چے گویرا نے چند برسوں تک اس ذمہ داری کو سنبھالا لیکن جب اس نے دیکھا کہ انقلاب اپنے پائوں پر کھڑا ہو گیا ہے تو اس نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ وہ کیوبا کے انقلاب کو لاطینی امریکہ کے دیگر ملکوں میں لے جانا چاہتا تھا۔
جب چے گویرا کیوبا سے روپوش ہوا تو امریکہ کی سی آئی اے نے اس کا پیچھا شروع کر دیا کیونکہ اس وقت تک کاسٹرو اور چے گویرا امریکہ کے دو بڑے دشمن بن چکے تھے اور کاسٹرو پر کئی قاتلانہ حملے ہو چکے تھے۔ چند سالوں کی جاسوسی کے بعد امریکہ کی خفیہ پولیس نے 18 اکتوبر 1968 کو چے گویرا اور اس کے گوریلا ساتھیوں کو پکڑ لیا اور اگلے دن ان سب کو قتل کر دیا۔ امریکی حکومت چے گویرا کی مقبولیت سے اتنا خوفزدہ تھی کہ اس نے صرف اس کے دو ہاتھ ساری دنیا کو دکھائے لیکن اس کی لاش کو اس کے گوریلا ساتھیوں کی لاشوں کے ساتھ کسی انجان جگہ پر پراسرار طریقے سے دفن کر دیا۔ ایک طویل عرصے تک چے گویرا کے چاہنے والوں کو خبر نہ ہوئی کہ ان کا ہیرو کہاں دفن ہے۔
چے گویرا کے پراسرار قتل کے تیس سال بعد 1997ء میں ایک جرنلسٹ نے بولیویا کے ایک جرنیل کے ساتھ شراب پیتے ہوئے پوچھا کہ اسے چے گویرا کی قبر کی تلاش ہے۔ جرنیل نے کہا کہ وہ اس قبر کو جانتا ہے کیونکہ اسی نے چے گویرا کو اس کے ساتھیوں کے ساتھ اس قبر میں اتارا تھا۔ اس جرنلسٹ نے راز جاننے کے بعد اگلے دن وہ راز اخبار میں چھپوا دیا۔ خبر چھپنے کے بعد اس جرنیل کو حکومت کا راز فاش کرنے کی سزا ملی لیکن چے گویرا کے پرستاروں کو موقع ملا کہ وہ اپنے ہیرو کی لاش کو بولیویا سے کیوبا لا سکیں اور عزت سے دفنا سکیں۔
چے گویرا کی سوانح عمری پڑھنے کے بعد میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں اس جگہ جائوں جہاں بیسویں صدی کے اس انقلابی کو دفن کیا گیا ہے۔ چنانچہ میں نے ٹکٹ خریدا اور کیوبا پہنچ گیا۔ معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ چے گویرا سینٹا کلیرا SANTA CLARA کے شہر میں دفن ہے جو میرے ہوٹل سے سو میل دور تھا۔ بدقسمتی سے میرے ہوٹل سے کوئی بس وہاں نہ جاتی تھی، چنانچہ میں نے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے بات کی جو مجھے تین سو ڈالر لے کر سینٹا کلیرا SANTA CLARAلے جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ جس دن ہمین سینٹا کلیرا جانا تھا اسی دن کیونا میں ہریکین چارلی HURRICANE CHARLIE نے طوفان برپا کر دیا۔اس طوفان نے چے گویرا کی شوریدہ سر شخصیت کی یاد تازہ کر دی۔
اگلے دن میں نے چے گویرا کی قبر پر حاضری دی۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کاسٹرو اور کیوبا کی حکومت نے وہاں چے گویرا کا ایک بیس فٹ اونچا مجسمہ ایستادہ کر رکھا تھا۔ اس میں چے گریرا ایک بندوق لیے کھڑا ہے۔اس گوریلا فوجی کے مجسمے میں سٹیچو آف لبرٹی STATUE OF LIBERTY کا سا حسن اور وقار ہے۔ اس مجسمے کے ساتھ ایک پتھر کی سل بھی ایستادہ ہے جس پر ہسپانوی زبان میں وہ خط رقم ہے جو چے گویرا نے کیوبا سے جانے سے پہلے کاسٹرو کو لکھا تھا۔
جہاں چے گویرا اور اس کے ساتھیوں کی لاشیں دفن ہیں وہاں ایک ہلکی آنچ کا شعلہ جل رہا ہے۔ یہ شعلہ ان قربانیوں کی یاد تازہ کرتا ہے جو ان مجاہدوں نے آزادی کی راہ میں پیش کی تھیں۔
اس مجسمے سے چند میل دور ایک چے گویرا کا عجائب گھر بھی ہے جو ریل گاڑی کے ڈبوں میں بنایا گیا ہے۔ یہ اس گاڑی کے ڈبے ہیں جن پر انقلاب کے آخری دن چے گویرا نے حملہ کیا تھا اور بتستا BATISTA کی فوج کو شکستِ فاش دی تھی۔ اس حملے کے بعد بتستا اور امریکہ کا زور ٹوٹ گیا تھا اور اگلے دن چے گویرا اور کاسٹرو نے کیوبا کی حکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔ بتستا کی فوج پر چے گویرا کے آخری حملے کی یاد میں وہ گاڑی کے ڈبے محفوظ کر لیے گئے ہیں اور ان میں چے گویرا کا بستر اس کے کپڑے اس کی بندوقیں اس کے بزوکازBAZUKAS اور ہیموک HAMMOCK نشانی کے طور پر رکھ دیے گئے ہیں تا کہ اس کے چاہنے والوں کو ایک گوریلا فوجی کی طرزِ زندگی کا اندازہ ہو سکے۔
جب میں چے گویرا کے مجسمے اور عجائب گھر کو دیکھ کر واپس لوٹ رہا تھا تو مجھے اس کی وہ تقریر یاد آرہی تھی۔ جو اس نے 1965ء میں ٹرائی کونٹیننٹل کانفرنس TRICONTINENTAL CONFERENCE کے لیے زیرِ زمینUNDERGROUND سے بھیجی تھی، اس تقریر میں اس نے ایشیا افریقہ اور لاطینی امریکہ کے عوام سے درخواست کی تھی کہ وہ جمہوریت اور سوشلزم سے ٹوٹ کر محبت اور سرمایہ دارانہ استعماریت سے شدت سے نفرت کریں تا کہ وہ اپنے اپنے ملک میں ایک انقلاب لا سکیں اور اپنے سماجی معاشی اور سیاسی مسائل کا حل تلاش کر سکیں۔
جہاں چے گویرا کے دل میں سرمایہ دارانہ نظام کے لیے شدید نفرت تھی وہیں اس کے دل میں اپنے دوستوںبچوں اور انقلاب کے پرستاروں کے لیے بے پناہ محبت تھی اور اس محبت کا اظہار ان دو خطوط سے ہوتا ہے جو اس نے کیوبا کو خیر باد کہنے سے پہلے اپنے کامریڈ دوست کاسٹرو اور اپنے بچوں کو لکھے تھے۔ ان خطوط کا اردو ترجمہ حاضرِ خدمت ہے۔
*** ***
چے گویرا کا کاسٹرو کے نام آخری خط۔۔۔ الوداع۔۔۔۔فیڈل۔۔۔۔ الوداع
فیڈل! اس وقت مجھے تمہارے ساتھ اپنی دوستی کے بارے میں بہت سی چیزیں یاد آ رہی ہیں۔ مجھے وہ دن یاد آ رہا ہے جب ماریا انٹونیا MARIA ANTONIA کے گھر میں ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھیجب تم نے مجھے انقلاب میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی اور انقلاب کی تیاری میں ہمیں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا مجھے وہ سب باتیں یاد آ رہی ہیں۔
ایک وہ دور تھا جب یہ سوال پوچھا جاتا تھا کہ موت آنے سے کس کو مطلع کیا جائے کیونکہ ان دنوں انقلاب کی راہ میں موت آنے کا ہم سب کو خطرہ تھا۔ بعد میں ہمیں احساس ہوا کہ انقلاب لانے والے یا تو کامیاب ہو کر فتح و کامرانی سے ہمکنار ہوتے ہیں یا موت کو گلے لگا لیتے ہیں (اگر وہ انقلاب ایک سچا انقلاب ہو) اور ہمارے کئی دوست موت سے بغلگیر ہو گئے۔
اب جبکہ ہم بلوغت کے کئی زینے طے کر چکے ہیں حالات اتنے ڈرامائی نہیں رہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ میں نے ان تمام فرائض کو حتی المقدور خوش اسلوبی سے نبھایا جو کیوبا اور اس کے انقلاب نے مجھ پر عاید کیے تھے۔ اب میں تمہیں اپنے کامریڈ ساتھیوں اور کیوبا کے عوام کو الوداع کہہ رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ میں اور کیوبا کے عوام انقلاب کی راہ میں ہمسفر تھے۔
آج میں پارٹی کی رہنمائی وزارت کے عہدے فوج میں میجر کے رتبے اور کیوبا کی شہریت سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔ اب قانونی طور پر کیوبا سے میرا کوئی بندھن نہیں رہا۔ اب صرف وہی بندھن رہیں گے جو کچھ اور نوعیت کے ہیں اور وہ اٹوٹ ہیں۔
جب میں ماضی کی طرف نگاہ دوڑاتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں نے انقلاب کی کامیابی اور کامرانی کے لیے بہت محنت اور جانفشانی کا مظاہرہ کیا تھا۔ میری صرف یہ غلطی تھی کہ میں نے شروع میں تم پر پورا بھروسہ نہ کیا تھا۔ مجھے تمہاری انقلابی اور سپہ سالارانہ صلاحیتوں کو سمجھنے میں کچھ دیر لگی تھی۔ میں نے تمہارے اور کیوبا کے عوام کے ساتھ کچھ یادگار دن گزارے ہیں۔ مجھے انقلاب کی جدوجہد میں شامل ہونے پر فخر ہے۔ یہ علیحدہ بات کہ کریبینCARIBBEAN بحران کے دوران ہمیں کچھ سوگوار دن بھی دیکھنے پڑے تھے۔ان مشکل حالات میں بھی تم نے عوام کی خوش اسلوبی سے رہنمائی کی اور میں نے بڑے خلوص سے تمہاری پیروی کی اور تمہارے پیغام اور تمہارے اصولوں کو دل سے لگایا۔
اب میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کے دوسرے ممالک کو میری خدمات کی ضرورت ہے۔ تم اس سفر میں میرا ساتھ نہیں دے سکتے کیونکہ تمہارے کندھوں پر تمہاری قوم کے مستقبل کی ذمہ داریوں کا بوجھ ہے۔ میں اب ان سے آزاد ہوں اس لیے الوداع کہہ سکتا ہوں۔
میں اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میں یہ قدم ملے جلے جذبات سے اٹھا رہا ہوں۔ میرے دل میں خوشی کے جذبات بھی ہیں اور دکھ کے بھی۔ میں اپنے پیچھے اپنے خواب اپنے آدرش اور اپنے عزیز چھوڑے جا رہا ہوں۔ میں اس دھرتی کے ان لوگوں سے جدا ہو رہا ہوں جنہوں نے مجھے اپنا بیٹا بنایا تھا۔ مجھے اس کا بہت دکھ ہے۔ تم نے مجھے جس جنگ کے آداب سکھائے ہیں میں اس جنگ کو نئے محازوں پر لے جا رہا ہوں۔ میں وہ انقلابی روح دوسری قوموں کی عوام میں پھونکنا چاہتا ہوں۔ میں استعماریت کے خلاف جنگ کو اپنا مقدس ترین فرض سمجتا ہوں۔ جب میں اس جدوجہد میں شریک ہوتا ہوں تو میرے زخموں پر مرہم لگ جاتا ہے۔ میں اس حقیقت کا ایک دفعہ پھر اقرار کرنا چاہتا ہوں کہ اب کیوبا میرے اعمال کا ذمہ دار نہیں ہے۔ اگر اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت میں کسی اور آسمان کے نیچے ہوا تو میرے دل میں کیوبا کی دھرتی اور اس کے عوام کے ساتھ چاہت اور لگائو کے جذبات ہوں گے۔
میں تمہارا ممنون ہوں کیونکہ میں نے تم سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ میں آخری دم تک تمہارا وفادار رہوں گا۔ میں کیوبا کی خارجہ پالیسی سے ہمیشہ متفق رہا ہوں۔ میں جہاں بھی جائوں گا اپنے آپ کو کیوبا کا انقلابی سمجھوں گا۔ مجھے اس بات کا افسوس نہیں کہ میں اپنی بیوی اور بچوں کے لیے کوئی مالی اور مادی چیز نہیں چھوڑ کر جا رہا۔ میں اسی حال میں خوش ہوں۔ میں ان کے لیے تم سے کچھ بھی نہیں مانگتا۔ مجھے پوری امید ہے کہ کیوبا کی حکومت ان کا خیال رکھے گی اور ان کے کھانے پینے رہائش اور تعلیم کا انتظام کرے گی۔
میں تم سے اور کیوبا کے لوگوں سے بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن وہ سب کچھ کہنا ضروری نہیں ہے۔ میرے الفاظ میرے جذبات کی مکمل ترجمانی نہیں کر سکتے اور میں الفاظ کی بازیگری کے بھی حق میں نہیں ہوں۔
ہم ہمیشہ انقلاب کی طرف قدم بڑھاتے رہیں گے۔ میں اپنے انقلابی جوش و خروش کے ساتھ تمہیں گلے لگا تا ہوں۔ چے
*** ***
چے گویرا کا اپنے بچوں کے نام خط
میرے عزیز بچو !
تمہارا باپ ساری عمر اپنے خوابوں اور آدرشوں کے ساتھ وفادار رہا ہے۔ میری دعا ہے کہ تم بھی انقلابی بننا۔ دنیا میں جہاں بھی ناانصافی نظر آئے اس کے خلاف احتجاج کرنا۔ ظلم کے خلاف احتجاج کرنا ہی ایک انقلابی کی بہترین خصوصیت ہے۔ تمہارا ابو۔۔۔چے
*** ***
چے گویرا کی سوانح کا مطالعہ کرنا اور کیوبا جا کر اس کے مجسمے کو دیکھنا میری زندگی کا ایک یادگار واقعہ ہے جسے میں ساری عمر فراموش نہ کرسکوں گا۔ چے گویرا نے انصاف آزادی اور انقلاب کا جو خواب دیکھا تھا اسے اب لاطینی امریکہ کے سیاسی رہنما شرمندہِ تعبیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ان پر امریکہ کی استعماریت کے خفیہ منصوبے واضح ہوتے جا رہے ہیں وہ منصوبے جن کی نشاندہی آج سے چالیس سال پیشتر چے گویرا نے کی تھی۔ امریکی حکومت نے چے گویرا کو پراسرار طریقے سے دفن کرنے کی پوری کوشش کی لیکن وہ اس کی یاد اور آدرش کو نہ مٹا سکے جو ساری دنیا کے انقلابیوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ چے گویرا اور ہوچی منہ بیسویں صدی کے ان رہنمائوں میں سے ہیں جنہوں نے ظلم کے خلاف جنگ لڑنے میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ ان کی زندگیاں بہت سے انقلابیوں کے لیے آج بھی مشعلِ راہ ہیں۔ وہ لوگ انقلاب اور عشق کے اس راز سے واقف تھے جس کے بارے میں فیض احمد فیض فرماتے ہیں
گر بازی عشق کی بازی ہے سب کچھ ہی لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں