اتوار، 25 اکتوبر، 2015

بلوچستان، سب سے خونریز جنگ :تحریر : لارا سیکورن پیلیٹ


اگر آپ گوگل پر ’’پاکستان‘‘ لکھ کر سرچ کریں تو آپ کو دہشتگرد حملوں، ملالہ کی تصاویر یا ’ہوم لینڈ‘ کی اگلی اقساط کے ٹریلرز کے ایک سیلاب کا سامنا ہوگا۔ دراصل، مندرجہ بالا سب چیزیں آپکو ملیں گی۔ لیکن اس ملک کا ایک ایسا خطہ ہے جسکے بارے میں یقیناًآپکو نتائج کے پہلے چند درجن صفحات پر کچھ نظر نہیں آئیگا: وہ ہے بلوچستان۔
تقریباً جرمنی جتنا، یہ پاکستان کا سب سے بڑا اور غریب ترین صوبہ ہے۔ اور یہ ایک طویل اور خونی خانہ جنگی کا مسکن بھی ہے جو کئی دہائیوں سے چل رہی ہے۔ ایک طرف پاکستان کی مرکزی حکومت ہے۔ دوسری طرف بلوچ قومپرست ہیں جو پاکستان کی پیدائش کے سال 1947ء کے بعد سے اپنی آزادی کیلئے لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو بلوچستان لبریشن آرمی (بلوچ لبریشن آرمی) اور بلوچستان لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ جیسے باغی گروہوں کے ناموں کیساتھ منظم کیا ہوا ہے۔ حکومت بلوچ پر ’’دہشتگر‘‘ کا لیبل لگاتی ہے جبکہ بلوچ فوج پر نسل کشی کا الزام عائد کرتے ہیں۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹراٹیجک اسٹڈیز کے مطابق: اس بے یار و مددگار تنازعے کے آغاز کے بعد سے اب تک 11,375 افراد ہلاک اور دیگر ہزاروں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
بلوچ اپنی زبان، روایات اور ثقافت کیساتھ ایک نسلی اقلیت ہیں۔ وہ ایران، پاکستان اور افغانستان میں بھی موجود ہیں لیکن اسلام آباد میں حکومت کی طرف اپنے آپ کو شدت کیساتھ محروم اور الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے تنازعے کی شدت کے بہاؤ میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ 1977ء میں ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد یہ دھیمی ہوئی، لیکن 2005 میں مبینہ طور پر ایک فوجی افسر کے ہاتھوں ایک بلوچ ڈاکٹر (غیر بلوچ لیڈی ڈاکٹر شازیہ خالد) کی عصمت دری کے بعد یہ نئے سرے سے دوبارہ شروع ہوئی۔ اس سے دونوں اطراف میں تشدد اور جوابی حملوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا، بلوچستان کے دوروں کے دوران اس وقت کے صدر پرویز مشرف کو قتل کرنے کی دو کوششوں سمیت۔
بلوچ مرکزی حکومت سے کوئی وفاداری نہیں رکھتے۔ لندن میں اسکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز میں مطالعہ پاکستان کے مرکز سے تعلق رکھنے والے بْرزین واغمر کہتے ہیں کہ، ’’پاکستان نے پہلے ہی سے بلوچستان کھو دیا ہے، لیکن وہ اسے جانے نہیں دیں گے۔‘‘ وہ اسلئے کہ ملک کا غریب ترین، سب سے زیادہ کم آبادی والا علاقہ ہونے کے باوجود یہ تیل، گیس اور دیگر معدنیات جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور تین سرحدوں، بحیرہ عرب کے ساحل اور گہرے سمندر کی بندرگاہ تک رسائی کیساتھ اسٹراٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔
تمام جنگوں کی طرح اس میں بھی دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر غیر انسانی کارروائیوں کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے بلوچ کارکنوں کے اغواء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں رپورٹ کیا ہے۔ لاشیں اکثر خالی جگہوں یا گلیوں میں پھینک دی جاتی ہیں، 2013ء میں 116 لاشیں پھینکی گئیں، اور پاکستانی فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کیخلاف بڑے پیمانے پر ماورائے عدالت قتل،
تشدد، جبری نقل مکانی اور مظاہرین کیخلاف ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ جنوری 2014ء4 میں بلوچستان میں تین اجتماعی قبریں پائی گئیں۔ ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کا دعویٰ ہے کہ وہاں سینکڑوں لاشیں برآمد ہوئی ہیں جنکا تعلق بلوچ نواز تنظیموں کے اراکین سے ہے جنہیں پاکستانی فورسز کی طرف سے اغوا کیا گیا تھا۔ لیکن ایک عدالتی کمیشن نے فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو کسی بھی طرح کی ذمہ داری سے بری الذمہ قرار دے دیا۔
یہ بات بھی یقینی ہے کہ مسلح عسکریت پسند گروہ (اسلام آباد جن پر نئی دہلی کی طرف سے مالی مدد کا الزام لگاتا ہے) اندھا دھند تشدد سے ناآشنا نہیں ہیں۔ اگرچہ امریکہ بلوچستان کے باغیوں پر دہشتگرد کا لیبل نہیں لگاتی ہے، تاہم ان پر بھی ہزارہا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا ہے جیسا کہ سویلین پشتون ’’آبادکاروں‘‘ کا قتل، ڈاکٹروں سے لیکر تعمیراتی کارکنوں کا قتل، اور صحافیوں کو دھمکانہ اور یہاں تک کہ قتل کرنا۔ مگر پھر بھی اب تک اس طرح کے بیشتر الزامات کی صحیح معنوں میں توثیق کرنا مشکل ہے اسکی وجہ خاص طور پرسے اس علاقے میں رپورٹنگ کرنا کتنا خطرناک ہے۔
پاکستانی فوج بلوچستان میں کسی بھی غیر ملکی صحافیوں کو جانے کی اجازت نہیں دیتی۔ 2006ء کے بعد سے نیو یارک ٹائمز کے رپورٹر ڈیکلن والش اور کارلوٹا گیل سمیت کئی نامہ نگاروں کو بلوچستان میں خفیہ طور پر جاکر رپورٹنگ کرنے کی پاداش میں ملک بدر کیا گیا ہے۔ اور مقامی نامہ نگار بھی ایسی کوشش کرنے سے بہت خوفزدہ ہیں: امریکہ میں جلاوطن ایک پاکستانی صحافی ملک سراج اکبر، جو بلوچستان میں ایک اخبار کے ایڈیٹر رہے ہیں ، کا کہنا ہے کہ، ’’وہاں ایک غیر تحریر شدہ اتفاق موجود ہے کہ جو بھی بلوچستان پر رپورٹنگ کر رہے ہیں وہ عظیم تر ’قومی مفاد‘ کیخلاف جا رہے ہیں۔‘‘
خواہ یہ کوئی حد مقرر کرے یا نہیں مگر اموات کی تعداد میں اضافہ جاری ہے۔ واغمر کہتے ہیں کہ امن کے قیام کیلئے نشانہ سادھنے کیلئے دونوں اطراف سے سیاسی رضامندی کی ضرورت پڑے گی اور اس تنازعے کے چھ سے زائد دہائیاں گزرنے کے بعد کسی کو بھی مذاکرات کی میز پر آنے کی جلدی نہیں ہے۔


بشکریہ: اوزی ڈاٹ کام، 15 اکتوبر 2015
http://www.ozy.com/acumen/balochistan۔the۔bloodiest۔war۔youve۔never۔heard۔of/63187 


ترجمہ: لطیف بلیدی
(نوٹ: راقم نے مضمون میں چند غلطیاں کی ہیں جن کی تصحیح بریکٹ میں دی گئی ہیں)


ہفتہ، 24 اکتوبر، 2015

نفسیات کے معمار ، اینا فرائڈ



نفسیات کے معمار  ، اینا فرائڈ  
(داستان حیات)
تحریر  : سید اقبال امروہوی

سگمنڈ فرائڈ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں   ہی اپنا جانشین مقرر کردینا چاہتا تھا۔ لیکن یہ اُس کی بدقسمتی تھی کہ جس کو اُس نے اس کام کے لیے منتخب کیا، وہی اُس کو چھوڑ کر چلا گیا اور اس نے اپنا الگ مکتبِ فکر قائم کرلیا۔ اب وہ چاہے کارل ژونگ ہو یا الفریڈ ایڈلر یا پھر کیرن ہارنائی۔ دراصل وہ چاہتا تھا کہ اُس کا جو بھی جانشین ہو، وہ صرف اس کے نظریات اور اس کے وضع کردہ اُصولوں کی ہی پابندی کرے اور ان حدود سے باہر جانے کی کسی کو اجازت نہیں تھی۔ ظاہر ہے اس کی اس شرائط پر کوئی بھی اپنی زندگی وقف کرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا۔ لیکن شاید فرائڈ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے کام کو نہایت جاں فشانی اور مکمل توجہ سے آگے بڑھانے میں خود اس کی بیٹی آگے آئے گی۔ اینا سگمنڈ فرائڈ کی آخری اولاد تھی۔
 
سگمنڈ فرائڈ کے کچھ قریبی دوستوں کا خیال تھا کہ وہ اپنی ایک پوشیدہ اور نامعلوم بیماری کی وجہ سے نہیں چاہتا تھا کہ اس کے اب کوئی اولاد ہو، اور جب اس کو معلوم ہوا کہ اس کی بیوی اُمید سے ہے تو اس نے چاہا کہ وہ حمل کو ضائع کرادے۔ لیکن اُس کی بیوی نے اُس کا ساتھ نہیں دیا اور 3 دسمبر 1895ء کو اینا پیدا ہوئی۔ اس کی پیدائش کے بعد فرائڈ نے اپنے دوست Dr. Fless کو خط لکھ کر اطلاع دی۔ اس نے خط میں لکھا کہ اگر یہ لڑکا ہوتا، جیسا کہ میری بیوی کو اُمید تھی، تو تمہیں بذریعہ تار اطلاع دیتا۔ لیکن چونکہ لڑکی ہوئی ہے، اس لیے تمہیں خط سے اطلاع دے رہا ہوں۔ فرائڈ کے اس خط سے اس کے میلانِ طبع کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اینا کی پیدائش کے بعد فرائڈ کی بیوی بہت اداس اور غمزدہ رہتی تھی۔ اس نے اینا کو اپنا دودھ بھی نہیں پلایا۔ اتنا ہی نہیں، بلکہ وہ اینا کی کوئی خبر نہیں لی۔ یہ وہی آیا تھی جس نے اینا سے پہلے بھی دو بچوں کو دیکھ بھال کی تھی۔ شاید اینا کی یہ حالت دیکھ کر سگمنڈ کو اس پر رحم آیا اور اس نے یہ طے کرلیا کہ وہ اپنی تمام اولاد سے زیادہ اس کو محبت دے گا۔ یہی وجہ تھی کہ اینا اپنے باپ سے زیادہ وابستگی کا اظہار کرتی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اینا ابتداء سے ہی اپنے بہن بھائیوں میں گھل مل کر نہیں رہتی تھی۔ وہ اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ اُس کو باپ کے علاوہ کسی اور سے اتنا لگاؤ نہیں تھا۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ اُس نے اپنے باپ کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ جب تک وہ زندہ رہا، اس کی خدمت کرتی رہی اور اس کے مرنے کے بعد اس کے کام کو آگے بڑھانے کے لیے انتھک کوششوں میں لگ گئی۔ یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ فرائڈ کے بعد تحلیلِ نفسی کی تحریک کو زندہ رکھنے میں اینا کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

اینا نے اپنے بچپن کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا کہ ایک مرتبہ گھر کے تمام افراد سمندر میں کشتی کے ذریعہ تفریح کرنے کے لیے گئے تو اینا کو اکیلے ہی گھر چھوڑ گئے، اُس وقت اینا نے کچھ نہیں کہا اور اپنے باپ کے پاس رہنے سے مطمٔین ہوگئی۔ لیکن سگمنڈ فرائڈ کو یہ بات ناگوار گزری اور اس نے اینا کو سمجھایا اور اس کی زندہ دلی کی بہت تعریف کی۔ اینا کا بیان ہے کہ اُس دن مجھے اپنے باپ سے جو پیار اور دُلار ملا، وہ میرے لیے اس خوشی سے کہیں زیادہ تھا جو گھر والوں کے ساتھ تفریح پر جاکرملتی۔ اینا کی اس حالت کی وجہ سے اس کی آیا بھی اس کا بہت خیال رکھتی تھی اور اس کے بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ اس سے پیار کرتی تھی۔ اینا نے ایک جگہ یہ بھی لکھا تھا کہ اس کو اپنی بڑی بہن سے کبھی کبھی رشک ہوتا تھا، کیونکہ وہ اس سے زیادہ خوبصورت تھی۔ لیکن سگمنڈ فرائڈ جب ایسا محسوس کرتا تو اینا سے کہا کرتا تھا کہ خوبصورتی سے زیادہ اہمیت ذہانت کی ہوتی ہے اور جو تمھارے پاس ہے، وہ تمھاری بہن کے پاس نہیں ہے۔
اینا نے اپنی تعلیم 1901ء میں شروع کی، لیکن اس نے اسکول میں کچھ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ خود کہتی تھی کہ ۔۔۔۔۔
"اسکول میں میرا دل نہیں لگتا تھا جبکہ گھر پر میں اپنے آپ کو زیادہ پر سکون محسوس کرتی تھی۔"

وہ سگمنڈ فرائڈ کے پاس آنے والے مہمانوں سے بہت کچھ سیکھتی تھی۔ اُس نے ان لوگوں سے کئی زبانیں سیکھ لی تھیں۔ ابتداء میں وہ ان زبانوں میں صرف بات چیت کر سکتی تھی، بعد میں اس نے اطالوی، جرمن اور عبرانی زبانوں میں کافی مہارت حاصل کرلی تھی اور ان زبانوں کی کتابوں کا مسلسل مطالعہ کیا کرتی تھی۔ 1908ء میں سگمنڈ فرائڈ کے گھریلو حالات ناخوشگوار ہوگئے۔ اُس کے دو بیٹے الگ ہوگئے۔ اس وقت اینا کی عمر 14 سال کی تھی۔ اُس کو اس بات کا احساس تھا کہ بھائیوں کے مستقبل کے بارے میں اس کا باپ فکر مند رہتا ہے اور اس کو اس بات کا افسوس ہے کہ بیٹوں نے اس کا پیشہ اختیار نہیں کیا، تاکہ اس کام کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اس نے ایک دن اپنے باپ سے کہا کہ وہ اس تحریک میں دلچسپی لینا چاہتی ہے۔ اس نے تحلیلِ نفسی کے بارے میں تھوڑا بہت پڑھ رکھا تھا۔ شاید اِس طرح وہ اپنے باپ کے دُکھ دُور کرنا چاہتی تھی۔

ایک دن فرائڈ اینا کو لے کر چہل قدمی کررہا تھا۔ وہ ایک خوبصورت اور روح افزا مقام تھا۔ راستہ کے دونوں جانب خوبصورت بنگلے تھے۔ فرائڈ نے اینا سے کہا کہ یہ بنگلے باہر سے بہت خوبصورت دکھائی دے رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان مین رہنے والے بھی پُرسکون اور قابلِ رشک زندگی گزار رہے ہوں گے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ اگر ان بنگلوں کے اندر کے حالات معلوم کیے جائیں تو معلوم ہوگا کہ اِن کے مکین بھی تمہاری ہماری طرح پریشان ہیں۔ یہی حال انسان کا ہے کہ وہ باہر سے جو نظر آتا ہے وہ اندر نہیں ہوتا۔ اس کے اندر کے حالات اس سے مختلف ہوتے ہیں۔ فرائڈ کو احساس ہوگیا کہ اینا اس کی تحریک میں دلچسپی لے رہی ہے تو اُس نے اینا کو اجازت دے دی کہ وہ بدھ کے دن ہونے والی میٹنگوں میں شرکت کرسکتی ہے، لیکن اُس کو بحث میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اُس کے بعد اینا بدھ کے دِن فرائڈ کے گھر ہونے والی میٹنگوں میں شرکت کرنے لگی اور گھر میں سیڑھی پر بیٹھ کر وہ غور سے اُس تحریک کے بارے میں ہونے والی بحث کو سنا کرتی تھی۔

1912ء میں اینا نے گریجویشن مکمل کرلیا اور اس کے ساتھ ہی اس کے سامنے ایک سوال کھڑا ہوگیا کہ اب وہ کیا کرے اور اپنے مستقبل کے لیے کون سی راہ اختیار کرے؟ اسی دوران فرائڈ نے اُس کو اُس کی نانی کے پاس سسلی روانہ کردیا تاکہ وہ اپنی صحت کی طرف توجہ دے۔ فرائڈ کے اس فیصلہ کے پسِ پشت اصل وجہ یہ تھی کہ اس کی بڑی لڑکی صوفیہ نے اپنی شادی کا اعلان کردیا تھا اور وہ بھی ایک ایسے فرد کے ساتھ جس کو نہ وہ اچھی طرح جانتی تھی اور نہ اس کے والدین اس سے واقف تھے۔ اس نے یہ فیصلہ چند ملاقاتوں کے بعد ہی کرلیا تھا۔ سگمنڈ فرائڈ اپنی بیٹی کے اس فیصلہ سے خوش نہیں تھا۔ اتنا ہی نہیں، وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ اینا اپنی بہن کی شادی میں شرکت کرے۔ وہ خط کے ذریعہ اینا کو گھر کی تمام خبریں دیتا رہتا تھا۔ اُس نے ایک خط میں لکھا کہ ۔۔۔۔۔

"مجھے افسوس ہے کہ تم اپنی بڑی بہن کی شادی میں شرکت نہیں کرسکتیں، لیکن اس سے زیادہ یہ اہم ہے کہ تم اپنی صحت کا خیال رکھو۔"
اپنا کو اس خط سے اپنی بہن کی شادی کے بارے میں معلوم ہوا تو اس کو ایک صدمہ پہنچا، لیکن اس نے اس کا اظہار نہیں کیا۔
1914ء میں اینا نے ابتدائی اسکولوں میں تعلیم دینے کی تربیت حاصل کی اور یہ امتحان پاس کرنے کے بعد وہ برطانیہ چلی گئی جہاں اُس کو اپنے اتالیق لیوکان کے ساتھ رہنا تھا۔ لیوکان سگمنڈ فرائڈ کی مریضہ رہ چکی تھی اور اس کی بہت احسان مند تھی۔ جب اینا ریلوے سے اُتری تو اُس کے استقبال کے لیے اُس کی اتالیق کے علاوہ ایک اور شخص بھی پھولوں کا گلدستہ لے کر کھڑا تھا۔ اس کا نام Dr. Ernst Jonesتھا۔ اینا کے لیے یہ شخص اجنبی تھا لیکن سگمنڈ فرائڈ اُس کو جانتا تھا اور اُس نے لیوکان کو خاص طور پر لکھا تھا کہ ڈاکٹر جونس اینا سے کوئی تعلق نہ رکھے۔ لیکن نہ جانے کس طرح اس کو اینا کی عمر 18 سال تھی اور جونس کی عمر 35 سال تھی۔ لیوکان نے اینا کو فرائد کے وہ خطوط دکھائے جن میں اس نے ڈاکٹر جونس سے دُور رہنے کی تاکید کی تھی۔ اینا نے اپنے باپ کے کہنے پر عمل کیا، جبکہ ڈاکٹر جونس ہر لمحہ اُس کے قریب آنے کی کوشش کرتا تھا۔ لیوکان نے فرائڈ کو ان تمام حالات سے باخبر کیا تو فرائڈ نے اپنی پیاری بیٹی کو ایک خط لکھا۔۔۔

"مجھے معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر جونس تم سے تعلقات بڑھانے میں سنجیدہ ہے اور تمہاری زندگی میں یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی مرد تمہاری طرف کھنچتا چلا آرہا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اس کچی عمر میں تم اُس کے جال میں پھنس سکتی ہو۔ اس لیے تم کو پہلے سے ہی متنبہ کرتا ہوں کہ اس سے ہوشیار رہنا اور جوانی کو رو میں بہک نہ جانا۔ میرے خیال میں یہ بات صاف کردینا ضروری ہے کہ میں تمہاری بہنوں کی طرح تمہیں اِس سلسلہ میں آزادی دینے کے حق میں نہیں ہوں۔ اُن کی بات الگ تھی اور تمھاری بات الگ ہے۔ مجھے امید ہے کہ تم اپنی زندگی کے بارے میں اہم فیصلہ کرتے وقت ہمیں نظر انداز نہیں کرو گی اور ہمیں وہ خوشیاں دوگی جن پر ہمارا حق ہے۔"

اینا اپنے باپ سے اس قدر لگاؤ رکھتی تھی کہ اُس کی بات کو ردّ کرنے کی ہمت نہیں کر سکتی تھی۔ حالانکہ وہ ڈاکٹر جونس کی طرف مائل تھی، لیکن سگمنڈ فرائڈ کے اس خط کے بعد اُس نے ڈاکٹر جونس سے قطع تعلق کرلیا۔

1915ء میں اینا نے ٹیچرس ٹریننگ مکمل کرلی اور مقامی اسکول میں ابتدائی کلاسوں میں تعلیم دینے لگی، ساتھ ہی اُس نے سگمنڈ فرائڈ کی کتابوں کا جرمنی میں ترجمہ شروع کر دیا۔ کتابوں کے ترجمہ کے دوران وہ فرائڈ کے نظریات کو بہتر طریقہ پر سمجھنے کی کوشش کرتی تھی اور ضرورت پڑنے پر خط و کتابت کے ذریعہ اپنے باپ سے مشورہ بھی لیتی تھی۔ اُس نے اپنی کلاس کے بچوں پر نفسیات کا اطلاق کیا، اس نے اُن کا نفسیاتی جائزہ لینا شروع کیا اور ہر بچہ کا ایک ریکارڈ مرتب کیا۔ وہ ہر بچہ پر گہری نظر رکھتی، اُن کے کردار کا مشاہدہ کرتی اور اس طرح ان کی شخصیت کے خصائص جاننے کی کوشش کرتی۔ اینا کی ان کوششوں کے اچھے نتائج برآمد ہوئے اور اُس نے ان تجربات سے آگے جاکر بہت فائدہ اُٹھایا۔ 1917ء میں اس کا تپِ دق کا عارضہ لاحق ہوگیا، جس کی وجہ سے اُس کو اسکول سے طویل مدت کے لیے غیر حاضر رہنا پڑا۔ فرائڈ کے کچھ مخالفین کا یہ کہنا تھا کہ اینا اپنے اندر ایک گھٹن محسوس کرتی تھی کیونکہ وہ اپنے باپ کی جابرانہ طبیعت کی وجہ سے اپنے پسندیدہ فرد کو اپنا جیون ساتھی نہ بناسکی، اس لیے وہ ٹی۔ بی کا شکار ہوگئی۔ بہرحال اِس بات کو ہم مخالفین کا ایک حربہ سمجھ کر نظر انداز کرسکتے ہیں۔ چونکہ اس زمانے میں تپِ دق کا کوئی مؤثر علاج میسر نہیں تھا، اس لیے اس کی کمزوری میں اضافہ ہوتا رہا اور اس کی کمزوری کی وجہ سے اور دوسری بیماریوں نے بھی حملہ کر دیا۔ اس لیے وہ اسکول میں درس و تدریس کی ذمہ داریوں کو نہیں نبھا سکی۔

1918ء میں اُس نے ایک منصوبہ شروع کیا، جس کو اس نے Project Teaching کا نام دیا۔ اُس نے اس منصوبہ کی خبر سن کر ہنگری کی ایک تنظیم نے اُس کو مدعو کیا۔ حالانکہ اُس کی تقرری عارضی تھی، لیکن یہ منصوبہ اتنا کامیاب ہوا کہ اُس کے چلے آنے کے بعد بھی اس تنظیم نے اُس کو جاری رکھا، کیونکہ اِس منصوبے سے جڑے ہوئے طلباء میں ایک نئی لگن اور شوق پیدا ہوجاتا تھا۔ اسی دوران فرائڈ کا پورا خاندان انفلوئنزا کا شکار ہوا، اور یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ اینا کی بڑی بہن کی موت واقع ہوگئی۔ اینا بھی اس بیماری میں مبتلا ہوئی۔ ایک تو پہلے سے ہی صحت کا خراب ہونا اور پھر جسمانی کمزوری میں اِس بیماری کا شدید حملہ، جس کی وجہ سے اینا ایک طویل عرصہ تک کسی کام کے قابل نہیں رہی اور اس نے درس و تدریس کا سلسلہ منقطع کردیا۔ اس نے کوشش کی کہ وہ خود اپنی تحلیلِ نفسی کرے۔ اس سلسلے میں وہ اپنے باپ سے مشورہ کرتی رہی اور اس کی ہدایات کے مطابق کرتی رہی۔

پھر اس کی زندگی میں ایک اور شخص آیا جس کا نام ہنس تھا اور اینا کے بڑے بھائی مارٹن کا دوست تھا۔ پیشہ سے وہ ڈاکٹر تھا اور سگمنڈ فرائڈ کی تحلیلِ نفسی کا حامی تھا اور سی طریقہ سے وہ علاج کیا کرتا تھا۔ دونوں کی ملاقات ایک کانفرنس میں ہوئی اور پھر دونوں اکثر ملنے لگے۔ سگمنڈ کو جب ان ملاقات کے بارے میں معلوم ہوا تو اس نے ہنس کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور اس سے ملاقات بھی کی۔ 1920ء میں ایک ایسا موقع آیا کہ ہیگ میں منعقد ہونے والی تحلیل نفسی کانفرنس میں فرائڈ، اینا اور ہنس، تینوں نے شرکت کی اور اس طرح سگمنڈ فرائڈ کو ہنس کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور اس سے تبادلہ خیالات کرکے اس کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا۔ اس کے بعد سگمنڈ فرائڈ کا ہنس کے بارے میں نظریہ بدل گیا اور اُس نے ہنس کو اینا کے لیے مناسب نہیں سمجھا۔ جب اینا کو اپنے باپ کے خیالات کا پتا چلا تو اس نے فرائڈ کو ایک خط لکھا اور ہنس سے اپنے تعلقات کے بارے میں اعتراف تو کیا، لیکن اس نے یہ بھی لکھ دیا کہ اپنے باپ کے فیصلہ کا لحاظ رکھتے ہوئے اس نے ہنس سے شادی کرنے کا ارادہ چھوڑ دیا ہے۔ حالانکہ وہ اپنے اس فیصلہ سے خوش نہیں تھی اور یہ فیصلہ صرف اپنے باپ کی خوشنودی کے لیے کیا تھا۔



1920ء میں ہی وہ ایک ایسی تنظیم سے رضاکارانہ طور پر منسلک ہوگئی جو ایسے یہودی بچوں کی فلاح و بہبودی کے لیے کام کرتی تھی جو یتیم ہوگئے تھے یا جنگ کی وجہ سے بے گھر ہوگئے تھے۔ اس تنظیم سے جڑ جانے کے بعد اُس کو بچوں کی نفسیات کو سمجھنے کے اچھے مواقع ملے اور ان سے اس نے بہت فائدہ اُٹھایا۔ وہاں جب وہ بچوں سے گفتگو کرتی تھی تو وہ اُن کے ذہن میں جھانک کر دیکھنے کی کوشش کرتی تھی اور اس طرح ان کی جذباتی کیفیت اور نفسیاتی ردِ عمل کے بارے میں بہت کچھ جان گئی تھی۔ یہ تجربات آگے چل کر اس کے بہت کام آئے کیونکہ اس نے بعد میں بچوں کی تحلیلِ نفسی کا طریقہ ایجاد کیا تھا۔

جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ اینا نے خود اپنی تحلیلِ نفسی کا سلسلہ شروع کیا تھا اور اس سلسلہ میں وہ سگمنڈ فرائڈ سے بھی تبادلہ خیالات کرتی رہتی تھی۔ سگمنڈ نے اس کام کے لیے چار سال کا وقفہ لیا اور 1922ء میں اُس نے اینا کی تحلیلِ نفسی مکمل کرلی۔ اس وقت فرائڈ کو اپنی بیٹی کے لاشعور میں دبی ہوئی کیفیات کا علم ہوا اور اُس جو احساس ہوا کہ دو مرتبہ اُس نے اپنی بیٹی کو اپنا گھر بسانے سے روکا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اینا نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اب کبھی شادی نہیں کرے گی۔ اینا کی ذہنی اُلجھنوں کو جان لینے کے بعد اس کی جذباتی کیفیت سے واقف ہونے کے بعد سگمنڈ فرائڈ خود جذباتی ہوگیا اور اس نے فیصلہ کرلیا کہ اب وہ اینا کو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا اور اس کی خواہشات اور تمناؤں کو پورا کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور اس کے بعد اس نے ایسا ہی کیا اور اینا کی ہر خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کی۔

1923ء میں اینا کو معلوم ہوا کہ سگمنڈ جبڑے کے کینسر کا شکار ہوگیا ہے اور ڈاکٹروں نے یہ بات صرف اینا کو ہی بتائی تھی۔ لیکن جب فرائڈ کے جبڑے کا پہلا آپریشن ہوا تو اُس کو بھی احساس ہوگیا کہ وہ کس جان لیوا بیماری میں مبتلا ہے۔ اُدھر اینا بھی اب اپنے باپ کی دیکھ بھال میں خاص خیال رکھتی تھی۔ فرائڈ کے دوستوں میں سے ایک کا خیال تھا کہ اُس وقت فرائڈ معاشی طور پھر بھی بہت کمزور ہوگیا تھا اور اکثر اپنے دوستوں سے قرض لے کر اپنا کام چلایا کرتا تھا۔ اینا کو اس بات کی بھی فکر تھی اور اس نے اپنے باپ کی اس سلسلہ میں بھی مدد کی اور وہ خود اس کے ساتھ اس کی کلینک میں موجود رہتی تھی۔

1925ء میں اینا ایک مریض کے علاج کے دوران اُس کی ماں سے ملی جو خاص طور پر فرائڈ سے علاج کرانے کے لیے امریکہ سے ویانا آئی تھی۔ اُس کے ساتھ کئی بچے تھے لیکن اس کا شوہر اس کے ساتھ نہیں تھا، کیونکہ وہ خود ذہنی بیماریوں کا شکار تھا اور گھر بھر کے لیے مسائل پیدا کرتا تھا۔ اُس خاتون کا نام ڈورتھی تھا۔ اینا اُس خاندان سے بہت متاثر ہوئی اور اُن دونوں مین ایک دوسرے کے لیے اتنی وابستگی تھی کہ کچھ لوگ اُن پر ہم جنسیت کا الزام لگانے لگے۔ لیکن اُن دونوں نے اس بات کا خیال نہیں کیا اور اپنی دوستی زندگی بھر نبھائی۔ اسی طرح ایک اور خاتون Evaاینا سے ملی وہ بھی اپنے لڑکے کا علاج کرانے ویانا آئی تھی اور اینا نے اُس کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا۔ فرائڈ کے آپریشن کے بعد اینا نے اس کے زیادہ تر کام اپنے ذمہ لے لیے تھے اور ساتھ ہی وہ فرائڈ کی تخلیقات کا جرمن زبان میں ترجمہ بھی کررہی تھی، جس سے خاصی آمدنی ہوجاتی تھی۔ 1929ء کے بعد فرائڈ اپنے کلینک میں بہت کم آتا تھا۔ اس نے تحلیلِ نفسی کی تحریک کے ترجمان کی حیثیت سے ایک رسالہ بھی شروع کیا تھا جس کا نام Verlag تھا۔ اب اس کی ادارت کی ذمہ داری بھی اینا نے سنبھال لی تھی۔

اینا کی شخصیت نفسیات کے لیے صرف اس لیے اہمیت نہیں رکھتی تھی کہ وہ سگمنڈ فرائڈ کی بیٹی تھی اور اس نے فرائڈ کے کام کو آگے بڑھایا، بلکہ وہ خود ایک ماہرِ نفسیات تھی اور نفسیات کے لیے اُس کی خدمات خاص طور پر اس لیے قابلِ ذِکر ہیں کیونکہ اُس نے بچوں کی نفسیات میں ایک اہم باب کا اضافہ کیا اور بچوں کی تحلیلِ نفسی کا طریقہ ایجاد کیا۔ جبکہ اس کام کے لیے فرائڈ نے مجبوری جتائی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تلازم کے طریقہ سے تحلیلِ نفسی کے لیے یہ ضروری ہے کہ مریض تحلیل کار کے سوالات کے بغیر سوچے جواب دے اور جواب دینے میں وقفہ نہ لگائے۔ یہ بات بچوں کے ساتھ ممکن نہیں کیونکہ اُن کے لیے کسی بھی سوال کے جواب میں یقینی طور پر وقفہ ردِعمل طویل ہوگا جو تحلیلِ نفسی کے مقاصد کو حل نہیں کرسکتا۔ اس سلسلہ میں اینا جتنی مشق کی اتنی ہی مہارت حاصل کی اور ایک ایسا بھی موقع آیا کہ اُس کو اس بارے میں اپنے باپ سے پزیرائی ملی، کیونکہ فرائڈ جانتا تھا کہ بچوں کے مسائل الگ ہوتے ہیں اور بڑوں کے الگ، اور اسی طرح اُن کے امراض، کیفیات اور اُن کے سوچنے کے انداز بھی مختلف ہوتے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جن وجوہات سے بڑے افراد کا شکار ہوتے ہیں، وہ وجوہات بچوں کے امراض کا باعث نہ ہوتی ہوں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بڑے افراد نشونما کے آخری مراحل میں ہوتے ہیں۔ اینا نے اس سلسلہ میں بہت اہم کام انجام دیئے، کیونکہ وہ بچوں کی شخصیت کی تشکیل میں درپیش آنے والے مسائل پر اہنی توجہ مرکوز رکھتی تھی اور بچوں کے والدین کی اس سلسلہ میں رہنمائی کرتی تھی۔

اینا نے محسوس کیا کہ وہ خود ایک نفسیاتی مریض ہوتی جارہی ہے کیونکہ اس کی زندگی اپنے والد کی تیمارداری اور اپنے کام میں مصروفیت تک ہی محدود ہوکر رہ گئی تھی۔ جب اس نے دیکھا کہ سگمنڈ فرائڈ کی صحت کچھ بہتر ہوگئی تو 1927ء میں وہ اپنی دوست ڈورتھی کے ساتھ شمالی اٹلی کے سفر کے لیے نکل گئی تاکہ وہاں کے پُرفضا مقامات سے لطف اندوز ہوکر اپنی بوریت کو دُور کرسکے۔ اس سفر سے اس کی اور ڈورتھی کی دوستی کو اور زیادہ پائیداری ملی اور دونوں نے محسوس کیا جیسے وہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتیں۔ اس سلسلہ میں خاص طور پر ڈورتھی۔، اینا اور اس کے باپ فرائڈ کی بہت احسان مند تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اینا کے سامنے وہ اپنی شخصیت کو دبا ہوا محسوس کرتی تھی۔ دونوں نے مل کر وہاں ایک چھوٹا سا بنگلہ بھی خریدلیا اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ سال میں ایک دو مرتبہ ضرور یہاں آیا کریں گی۔ اس پُر فضا ماحول کا اثر یہ ہوا کہ اینا نے اپنے باپ کو لکھ دیا کہ وہ یہاں بہت زیادہ پُرمسرت محسوس کررہی ہے اور وہ اس مقام پر دو تین ہفتہ اور رہنا چاہتی ہے۔ اس نے وہاں کے قیام کے دوران ایک کتاب بھی لکھی جس کا عنوان تھا۔ Psychoanalysis for Teachers and Parents ا اور جب واپس آنے پر اُس نے اس کتاب کا مسودہ فرائڈ کو دکھایا تو اس نے اس تخلیق کی تعریف کی ۔
1929ء کے بعد ملک میں انقلاب کے آثار نمودار ہونے لگے اور ہر جگہ افراتفری کا ماحول پیدا ہوگیا۔، جس کے ساتھ ہی ملک میں معاشی بحران کے آثار دکھائی دینے لگے۔ آسٹریا کے حکمران نے کوشش کی کہ وہ اپنے ملک کو جنگ کی ہولناکیوں سے دُور رکھے اور اُس نے اپنے آپ کو جرمنی سے الگ رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکا اور 1931ء میں اُس کے ملک پر ہٹلر نے قبضہ کرلیا اور اس کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ ان حالات کی وجہ سے اینا کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگیا اور اس کی آمدنی کے ذرائع محدود ہوگئے۔ وہ جس رسالہ کی اشاعت سے کچھ آمدنی کر پاتی تھی، اُس کی فروخت بھی کم ہوگئی اور بند ہونے کی کگار پر پہنچ گیا۔

یہودیوں کو جس بات کا خطرہ تھا، وہ سامنے آگئی اور ہٹلر نے ویانا میں بھی ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔ اس نے احکامات جاری کیے کہ ہر یہودی کے گھر کی تلاشی لی جائے اور جہاں جہاں یہودی مل کر بیٹھتے ہیں، ایسے اداروں کو بند کردیا جائے اور ان کی جائیداد پر قبضہ کرلیا جائے۔ ایسی صورت میں اب فرائڈ کے گھر پر ہر بدھ کو ہونے والے اجلاس بھی بند ہوگئےاور اینا نے محسوس کیا کہ وہ اب اس تحریک کو آگے بڑھانے میں ناکام رہے گی۔ کیونکہ فرائڈ کی صحت دن بہ دن گرتی جارہی تھی جس کی وجہ وہ اب زیادہ وقت اس کام کے لیے نہیں دے سکتا تھا۔ یہودیوں نے ویانا چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا اور جس کو جس طرح موقع ملا، اس نے اس ملک سے نکل جانا ہی بہتر سمجھا۔ ویانا کی تحلیل نفسی سوسائٹی کی مرکزی حیثیت تھی اور اینا اور سگمنڈ فرائڈ یہ چاہتے تھے کہ ویانا سائیکلو انا لائٹیکل سوسائٹی کمزور نہ وہنے پائے اور وہ دونوں اپنی اس کوشش میں مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔ جونکہ تحلیلِ نفسی سے منسلک بہت سے لوگ ویانا چھوڑ چکے تھے، اس لیے اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ اینا اس سوسائٹی کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لے۔ اس طرح اُس کو دو محاذوں پر کام کرنا تھا۔ ایک طرف وہ خود اپنی قائم کی ہوئی تنظیم Child Guidance Centre کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھی تو دوسری طرف ویانا کی تحلیلِ نفسی کی سوسائٹی کو واٗس چیرمین مقرر کر دی گئی تھی۔ پھر اپنے بیمار باپ کی تمارداری بھی اسی کے ذمہ تھی جس کو وہ پاقی تمام ذمہ داریوں سے اہم تصور کرتی تھی۔ 

بچوں کی تحلیل نفسی سے متعلق اس کی تحریک ذور پکڑنے لگی تھی اور دنیا کے مختلف ممالک نے اس طرف توجہ کی۔ خاص طور پر امریکہ میں اس سلسلہ میں زیادہ دلچسپی پائی جاتی تھی۔ امریکہ میں ایک رسالے کی اشاعت شروع کردی گئی تھی جس کا کام اس موضوع کی تشہیر کرنا تھا۔ اس رسالے کی مہمان مدیر کی حیثیت سے اینا کو مدعو کیا گیا۔ حالات سازگار نہ ہوتے ہوئے بھی اس نے اس جریدہ کے ادارتی بورڈ میں شرکت کی حامی بھرلی، ساتھ ہی اس نے مقالات کا ایک سلسلہ شروع کیا جس کے ذریعہ اس نے بچوں کی تحلیل نفسی پر بہت کام انجام دیئے۔ اس موضوع کو عالمگیر بنانے میں اس کوشش ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اسی جریدہ کا 1935ء میں خصوصی نمبر جاری کیا گیا بچوں کی تحلیل نفسی کے لیے اینا کی خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالتا تھا۔ اس شمارے کی اشاعت کے بعد اینا کے کام کی اہمیت پوری دنیا کے سامنے آئی اور اس کی شہرت میں اضافہ ہوتا رہا۔ اس شعبہ سے منسلک افراد دور دُور سے اُس سے ملنے آیا کرتے تھے۔

جیسا کہ سگمنڈ فرائڈ کے تذکرہ میں بیان کیا گیا ہے، ہٹلر نے 1933ء میں تحلیل نفسی پر ویانا میں پابندی عائد کردی تھی۔ اس لیے یہ زمانہ فرائڈ کے خاندان کے لیے کافی تکلیف دہ تھا۔ تازیوں کے ظلم سے یہودی بہت پریشان تھے اور ان کی طرح طرح سے ایزائیں دی جاتی تھیں اور پریشان کیا جاتا تھا۔ فرائڈ کی امریکہ میں کافی عزت کی جاتی تھی، اسی طرح برطانیہ میں بھی اس کے کام کی کافی قدر کی جاتی تھی۔ اس نے برطانیہ میں اپنے حامی اور ہمدرد افراد کے وسیلہ سے کسی طرح ویانا سے نکل جانے کی اجازت حاصل کرلی اور وہ 1936ء میں لندن چلا گیا۔ اس وقت تک اس کی بیماری کافی بڑھ چکی تھی اور اس کو سخت تکلیف کا سامنا تھا اور یہ بات اینا کو ہر وقت پریشان رکھتی تھی اور یہ پریشانی فرائڈ کی موت کے بعد ہی ختم ہوئی۔

اینا نے لندن میں آتے ہی اپنا کام شروع کردیا تھا اور وہاں اس کے کام کی قدر بھی کی جاتی تھی۔ لیکن وہاں اس کو کچھ مخالفین سے بھی واسطہ پڑا، یہ وہ لوگ تھے جو فرائڈ کے بھی مخالف رہ چکے تھے۔ اینا کے ساتھ اس کی دوست ڈورتھی بھی لندن آگئی تھی۔ اس نے اینا کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے مخالفین سے حراساں نہ ہو بلکہ اپنا کام جاری رکھے۔ ان دونوں نے مل کر لندن میں ایک ادارہ قائم کیا اور اس کے ذریعہ ایسے بچوں کا نفسیاتی مطالعہ کیا جاتا تھا جو جنگ کی وجہ سے بے سہارا ہوگئے تھے۔ ان بچوں کو مادرانہ شفقت نہ ملنے کی وجہ سے ان کی نفسیاتی کیفیت پر گہرے اثرات پڑتے تھے۔ اینا نے اس سلسلہ میں بہت کام کیا اور ایک ایسی فلاحی تنظیم قائم کی جو ایسے بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ اس تنظیم میں ایسی رضا کار خواتین کو مدعو کیا جاتا تھا جو اپنی اولاد سے محروم ہوچکی تھیں اور ان کو تربیت دی جاتی تھی کہ وہ اس تنظیم میں موجود بے سہارا بچوں کو مادرانہ شفقت دے کر ان سے ایک رشتہ قائم کریں اور ان سے وابستگی کا احساس دلائیں تاکہ بچے اپنے والدین کی کمی کو محسوس نہ کریں۔ اینا کی یہ کوشش بہت کامیاب ہوئی اور لندن کے عوام نے اس کی بہت ہمت افزائی کی۔ یہ تنظیم آج بھی قائم ہے اور اب ایک یتیم خانہ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اس تنظیم کے تحت جن بچوں کو رکھا گیا تھا ان کی ذہنی کیفیت کا مطالعہ کیا گیا اور اس موضوع پر اینا نے کئی مقالات لکھے جو کافی مقبول ہوئے۔

1947ء میں اینا نے بچوں کے نفسیاتی علاج کے لیے ایک کورس کی ابتداء کی جس کے تحت ایسے ڈاکٹروں کو تربیت دی جاتی تھی جو بچوں کے امراض میں مہارت حاصل کرنا چاہتے تھے۔ یہ تربیت گاہ مقبول ہوئی اور اس میں لوگوں نے کافی دلچسپی دکھائی۔ پانچ سال کے بعد اینا نے اسی تربیت گاہ سے منسلک ایک کلینک بھی قائم کردی، جہاں بچوں کا علاج کیا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی تربیت پانے والے ڈاکٹروں کے تجربہ کے زرائع بھی دستیاب ہوگئے تھے۔ اینا کے اس قدم سے کافی اچھے نتائج برآمد ہوئے۔ اینا نے بچوں کی نفسیات بھی ایک مضمون کی حیثیت سے شامل کردیا اور اس موضوع پر وہ خود لیکچر دیتی تھی۔ آہستہ آہستہ یہ ادارہ بچوں کی نفسیات کے ایک مرکز کی حیثیت اختیار کرگیا اور لندن میں کافی مقبولیت حاصل کرلی۔ اس تنظیم سے برطانیہ کے بہت سے ماہرینِ نفسیات بھی منسلک ہوگئے اور بچوں کی نفسیات پر کام کرنے لگے۔

1950ء تک اس ادارہ کی شہرت دنیا کے بہت سے ممالک تک پہنچ گئی تھی، خاص طور پر امریکہ میں اس سلسلہ میں کافی دلچسپی لی جارہی تھی اور 
اینا کو وہاں سال میں کئی بار لیکچر کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ اینا نے بچوں کی ذہنی کیفیت اور نفسیاتی مسائل کے سلسلہ میں تقریباً بیس سال تک مختلف ممالک کا دورہ کیا اور وہاں ایسے بچوں کے علاج کے لیے ادارے قائم کیے جنھیں مادرانہ شفقت اور جزباتی وابستگی کی ضرورت تھی۔ اپنے موضوع سے اس کی والہانہ دلچسپی، جو دیوانگی کی حد تک پہنچ گئی تھی، اسے چین سے بیٹھے ہی نہیں دیتی تھی اور اس سلسلہ میں اس کی دوست ڈورتھی برابر اس کے شانہ بشانہ اس سے تعاون کرتی تھی۔ اینا کو "پرجوش فیض بخش معلمہ" کہا جاتا تھا۔ اس کی خدمات کو سراہنے کے لیے اس نے جو ادارہ لندن میں قائم کیا تھا، اس کا نام Anna Freud Centre رکھ دیا گیا۔ اینا فرائڈ اپنی شہرت کے ایک بلند مقام پر پہنچنے کے بعد 9 اکتوبر 1982ء کو انتقال کرگئی۔ جس گھر میں وہ رہتی تھی، اُس کو فرائڈ میوزیم میں تبدیل کردیا گیا، ساتھ ہی اسی جگہ تحلیل نفسی سے متعلق تحریک کا مرکز بھی قائم کردیا گیا۔

اینا فرائڈ نے زندگی بھر ایک فعال زندگی گزاری۔ بچوں کی نفسیات کے بارے میں اس کوششوں کا اوپر تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نفسیات میں اس کے دفائی میکانیہ سے متعلق نظریہ بھی اہمیت رکھتا ہے۔ اس نے اپنے باپ کے مفروضہ (اڈ) کو زیادہ اہمیت نہیں دی بلکہ اس کے خیال میں انا کی نشونما کی اہمیت زیادہ تھی، جس کی وجہ سے فرد مسلسل جدوجہد کرتا ہے اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے تگ و دو کرتا رہتا ہے۔ اس نے اپنے ساتھی دوسرے ماہرین نفسیات، خاص طور پر Erik Erikson, Edith Jacobson اور Margarate Mahler کے خیالات اور تجربات سے بھی استفادہ کیا۔ اس نے ایسے ماہرینِ نفسیات کا ایک گروپ تشکیل دیا تھا جو بچوں کی نفسیات سے دلچسپی رکھتے تھے اور اس گروپ میں بچوں کے مسائل پر بحث ہوا کرتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اینا کی ان کوششوں کی وجہ سے طفلانہ نشونما سے متعلق بعض نظریات وضع کیے گئے اور یہ بات واضح کی گئی کہ بچوں کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت ان کے نشونما پر اثر انداز ہوتی ہے اور ساتھ ہی ان کی شخصیت کی تعمیر میں بھی اپنے اثرات چھوڑ جاتی ہے۔ حالانکہ اب بچوں کی نفسیات کا شعبہ نفسیات نمو میں ضم ہوگیا ہے، لیکن اینا فرائڈ نے اس سلسلہ میں جو کام کیے ہیں، ان کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ اس نے بچوں میں پیدا ہونے والے نفسیاتی عارضوں کے علاج اور ان کی پہچان کی جو تکنیک ایجاد کی تھی، اس کی وجہ سے اینا فرائڈ کا نام نفسیات میں ہمیشہ باقی رہے گا۔ اینا فرائڈ کی تخلیقات The writings of Anna Freud کی شکل میں سات جلدوں میں دستیاب ہیں، جس میں اس کی تمام تخلیقات شامل ہیں اور اس میں اس کی شہرہ آفاق تخلیق The Ego and the Mechanism of Defense بھی شامل ہے۔ اینا نے اپنے باپ کی زندگی اور اس کے کام کو 24 جلدوں میں پیش کیا ہے، جس میں اس نے سگمنڈ فرائڈ کو پڑھنے کے بعد فرائڈ کو بہتر طریقہ پر سمجھا جاسکتا ہے اور اسی کام کی وجہ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنے باپ سے وابستگی کا حق ادا کردیا۔

جمعرات، 15 اکتوبر، 2015

قانون میں ڈی این اے ٹیسٹ سے مجرم کی کیسے شناخت کی جاتی ہے


فورینزک سائنس وہ علم ہے جو قانونی مسائل حل کرنے میں عدالتوں کی مدد کرتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک وسیع موضوع ہے لیکن گزشتہ تیس سالوں کے دوران تفتیشی معاملات میں ڈی این اے کے نمونوں کے استعمال نے اس علم کو جدت اور تکمیل کی نئی بلندیوں سے روشناس کرایا ہے۔ ڈی این اے کی حیثیت جانداروں کیلئے ایک آئین کی سی ہوتی ہے جس میں لکھی ہوئی ہدایات پر اس جاندار کے تمام ظاہری خدوخال اور افعال کا دارومدار ہوتا ہے۔

یہ چار بنیادی اکائیوں، جنہیں نیوکلیوٹائیڈز کہتے ہیں، سے بنا ہوتا ہے۔ ان نیوکلیوٹائیڈز کو اختصار کی غرض سے انگریزی حروف اے، سی، جی اور ٹی کے طور پر لکھا جاتا ہے۔

چونکہ ہرجاندار میں ڈی این اے ہوتا ہے اور ڈی این اے کی ترتیب میں ایسا تنوع پایا جاتا ہے کہ اس کی مدد سے اس جاندار کو شناخت کرنا ممکن ہے، لہٰذا فوجداری نوعیت کے مقدمات میں اگر کوئی حیاتیاتی نمونہ بطور شہادت میسر ہو تو اس نمونے میں سے ڈی این اے حاصل کرکے اس کے ماخذ تک پہنچا جاسکتا ہے۔
ڈی این اے کو قانونی معاملات میں استعمال کرنے کا خیال برطانوی ماہرجینیات ڈاکٹر الیک جیفری نے پیش کیا۔ وہ موروثی بیماریوں پر تحقیق کے دوران ولدیت اور امیگریشن کے تنازعات کو جینیاتی بنیادوں پر حل کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔
لیسٹر یونیورسٹی میں اپنی تحقیق کے دوران انہوں نے دریافت کیا کہ تمام انسانوں کے ڈی این اےمالیکیول میں مخصوص مقامات پر نیوکلیوٹائیڈز کی تنوع پزیر ترتیب پائی جاتی ہے تاہم اس ترتیب کی لمبائی ہر انسان کے ڈی این اے میں مختلف ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ایک انسان میں اس ترتیب کی لمبائی اسّی نیوکلیوٹائیڈز ہے تو دوسرے میں بیاسی یا چوراسی نیوکیوٹائیڈزہوگی یا ہوسکتاہے کہ اٹھہتر یا چھہتر نیوکلیوٹائیڈز ہو۔ یہ مخصوص مقامات جینیٹک مارکر کہلاتے ہیں۔
ڈاکٹر جیفری کو خیال آیا کہ جینیٹک مارکرز کے اس تنوع کو انسان کی شناخت کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اس تکنیک کو جینیٹک فنگر پرنٹنگ کا نام دیا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ ہر انسان کا جنیٹک فنگر پرنٹ منفرد ہوتا ہے اور سوائے ہمشکل جڑواں بھائیوں/بہنوں کے کوئی دو انسان ایک طرح کے جینیٹک فنگرپرنٹس کے حامل نہیں ہوتے۔ فوجداری معاملات میں ایک سے زیادہ )عموماً 10-13( مارکرز استعمال کئے جاتے ہیں تاکہ کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہ رہے۔ڈاکٹر جیفری کی دریافت کا فورنزکس میں استعمال سب سے پہلے اسی شہر کی پولیس نے کیا جب لیسٹر یونیورسٹی کا آس پاس کے علاقے ہی میں قتل کی دو وارداتیں ہوئیں۔ تاریخ میں پہلی دفعہ کسی کی بریت یا سزا کا فیصلہ جینیٹک فنگر پرنٹنگ کے ذریعے ہونا تھا۔
1983ء میں یونیورسٹی کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں پندرہ سالہ لنڈا مان کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ تین سال بعد ایک اور پندرہ سالہ لڑکی ڈان اشورتھ کوبھی جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ سترہ سالہ رچرڈ بکلینڈ پولیس کی حراست میں تھااور اس نے دوسری واردات کا اقبال جرم کر رکھا تھا۔ اس اقبال جرم نے تفتیش کاروں کے ذہن میں شکوک و شبہات کو جنم دیاتھا کیونکہ اگر دونوں قتل بکلینڈ نے کئے ہوتے تو پہلے جرم کے وقتاس کی عمر صرف 14 سال ہوتی۔ گتھی سلجھانے کیلئے سراغرسانوں کی ٹیم نے ڈاکٹر جیفری سے مدد طلب کی جنہوں نے دونوں لاشوں پر سے حاصل کئے گئے نطفے سے ڈی این اے کا بکلینڈ کے ڈی این اے کیساتھ موازنہ کرکے اسے بیگناہ قرار دیا۔ ڈی این اے کے موازنے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ دونوں جرائم کا ارتکاب ایک ہی شخص نے کیا ہے۔ ان شواہد کی بنیاد پر قانون نافذ کرنے والے ادارے نے قاتل کو پکڑنے کیلئے ایک بےمثل کام کاعزم کیا۔ چونکہ قاتل کے خون کا گروپ 145اے146 تھا، اوروہ ایک انزائم 147پی جی ایم ون کیلئے پازیٹیو تھا، لہٰذا تین قصبوں سے کل 4582 مردوں کے خون کا گروپ اور ان میں مذکورہ انزائم کی موجودگی کو چیک کیا گیا۔ دس فیصد افراد ان کوائف پرپورے اترے۔ چنانچہ ان افراد کے خون سے ڈی این اے حاصل کرکے اسکا تجزیہ کیا گیا۔کولن پیچفورک نامی ایک مقامی نانبائی نے اپنا خون نہیں دیا تھا۔ اس نے اپنے دوست آئن کیلی کیساتھ ساز باز کی اور اس کی تصویر اپنے پاسپورٹ پر لگاکر اسے اپنی جگہ خون دینے بھیجا۔
کئی مہینے بعد یہاں کے ایک رہائشی نے مقامی شراب خانے میں کیلی کی گفتگو سنی جس میں اس نے پیچفورک سے رقم لیکر اسکی جگہ اپنا خون دینے کا اعتراف کیا۔ اس رہائشی نے پولیس کو مطلع کردیا جس پر پولیس نے ستائیس سالہ پیچفورک کو گرفتار کرلیا- اس کے ڈی این اے کا قاتل کے ڈی این اے سے موازنہ کرنے پر پتا چلا کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔ پیچفورک نے کیس لڑنے کے بجائے دونوں لڑکیوں کی عصمت دری اور قتل کا اعتراف کرلیا۔ 1987ء میں پیچفورک ڈی این اے کی مدد سے شناخت کئے جانے والا پہلا مجرم بن گیا۔ اسے عمر قید کی سزا ہوئی جو کم از کم تیس سال تک کی ہوتی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جہاں ترقی یافتہ مملک سائنس اور ٹیکنالوجی کو انصاف کے حصول کیلئے بڑھ چڑھ کر استعمال کررہے ہیں، اور جہاں پر ڈی این اے کی بنیاد پر مجرموں تک پہنچنے کا کام لگ بھگ تیس سال پہلے شروع ہوگیا تھا، وہیں ہمارے ملک میں اس معاملے کو ملاء کی جہالت کی نظر کردیا گیا۔ کچھ سال قبل مزار قائد کے احاطے میں ایک اٹھارہ سالہ لڑکی جنسی زیادتی کا نشانہ بنی۔ لڑکی نے اپنے مجرموں کو پہچان لیا اور ان کے ڈی این اے ٹیسٹ سے ثابت بھی ہوگیا کہ مجرم وہی تھے لیکن پانچ سال بعد کراچی کی ایک عدالت نے یہ کہہ کر کہ چونکہ کسی نے ریپ ہوتے دیکھا نہیں اور ڈی این اے کا ثبوت قابل قبول نہیں ہے، ملزمان کو باعزت بری کردیا۔ اسی ہفتے اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے اجلاس کے اعلامیہ میں کہا کہ ڈی این اے کی 
شہادت کو ملزموں کو سزا دینے کے لیے بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔..!!
( بشکریہ سائنس کی دنیا)