ہفتہ، 29 ستمبر، 2018

پیر، 24 ستمبر، 2018

ارتقاء اورانقلاب ـ تحریر : دلمراد بلوچ



ارتقاء اورانقلاب 
تحریر : دلمراد بلوچ

تغیرپذیری فطرت کی اٹل قوانین کے جزو لاینفک حصہ ہے ،کا ئنات کی وسعتوں اور کرہ ارض میں لحظہ لحظہ پرانے مظاہر مرگ دیدہ ہوکر تخلیق نوکیلئے مواقع فراہم کررہے ہیں ،سیمابی صفت فطرت کے گوشوں میں یہ تغیرپذیری کہیں سطح زمین کو چیرتی ہوئی پود واشجار کی صورت میں اول نو وآخر کہن ،کہیں طوفانِ باد باران کہیںآتش فشان،اورکہیں زلزلے کی دہشت خیز صورت میں ہورہی ہے، دن رات اپنی محور اور مدار پر محوِ رقصان اس دنیا کی کروڑوں سال پہلے کیا صورت رہی ہوگی جو آج ہماری نظروں کے سامنے ہے، واقفانِ جغرافیہ اور ہیّیت دان اس بات کی ہزارہا بار تصدیق کر چکے ہیں یہ کرّہ ارض ایک ثانیے کیلئے بھی سکون اور سکوت کا متحمل نہیں ہوسکتا ،یا یہ کہ جمود فطرت کی قوانین میں شامل ہی نہیں ،کیا زمین ،کیا آسمان ،کیا جاندار کیا بے جان ،سب ارتقاء کی سرُ سے تال ملائے جیون کی راگ گائے اپنی انتہا وُ منتہا کی جانب بڑھ رہے ہیں ،قومیں بھی اس طرح فطرت کی بُنے گئے تانے بانوں میں اپنی ارتقاء کے منزلیں طے کر رہے ہیں ،وہ خطے جو صدیوں تک آدم زاد کی دید کیلئے ترسے ،آج انسانیت کیلئے محبوب گہوارہ بن چکے ہیں اور وہ خطے جہاں تہذیب وتمدن نے آنکھ کھولی ،پرورش پائی ،آج دست برُدِ زمانہ کی وجہ سے طاقِ نسیان کے حوالے ہوچکے ہیں ،کرّہ ارض میں تغیروتبّدل کے تناظر میں قوموں کی زندگی کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ بات روزِروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ جب تمام مظاہرِ کائنات کہن ونو اور تغیرو تبدل کے مراحل سے گزر رہے ہیں تو قومیں کیونکراس سے مبّرا ہوسکتی ہیں ،ماہرینِ عمرانیات بتاتے ہیں قوموں کی جملہ تاریخ انہی ارتقائی مراحل کے نشیب وفراز کوطے کر کے موجودہ صورت میں وقت کے بہاؤ میں بہہ رہا ہے ،الف ننگ دھڑنگ آدم زاد سے لیکر آج کی ترقی کی معراج کو چھونے والا انسان انہی جانکاہ اور مشکل و کٹھن راستوں سے گزر کر ظہور پذیر ہوا ہے ۔

پوری انسانیات سے یکسر کٹا ہوا اور اخفاء کے دبیز پردوں تلے دبی سرزمینِ امریکہ چیف سیٹل سے اوبامہ تک مختلف النوع اور کثیرالجہت سفر طے کرکے آج یک قطبی uni.polarدنیا کی کانٹوں بھری سہی پر تاج کا مالک ہے ۔۔۔۔۔روسی زار کے گندہ اور ظالمانہ حدتک سرمایہ داریت کے دو بھاری پاٹوں میں پسے روسی مزدوروں نے فطری بہاؤ کی روشنی میں اپنی قوت کو پہچان کر نہ صرف اپنے ملک میں حیرت انگیز انقلاب برپاء کردیا ،بلکہ سوشلزم کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے سوشلسٹ سماجوں کو قیادت کرنے کیلئے ماسکو اور کریملن کو قبلہ و کعبہ بنا دیا۔۔۔۔ ۔لاکھوں کی تعداد یورپی اور امریکی مارکیٹوں میں بردہ فروشوں کے ہاتھوں معمولی قیمت پر بکنے والے افریقی قوموں نے انسانی برادری میں نمایاں مقام حاصل کی ۔۔۔۔۔ انڈومان نکوبار کی سی زندگی بتانے والے انڈین سماج ،برطانوی نوآبادیت کیلئے زرخیز بن کر بھی اس کی تحکمانہ بادشاہت کو قے کرکے اپنی گنگا جمنی کوکھ سے ایسی نظام کو جنم دینے میں کامیاب ہوگیا کہ انسانی تہذیبوں کے سمندر ہندوستان اب ویشیا اور کسبیوں کا ٹھکانہ اور وسطیٰ ایشیا و یورپ سے آئے ہوئے فاتحوں کی مفتوحہ اور باج گزار نہیں بلکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا لقب پاچکا ہے ۔۔۔۔۔دن رات افیم کے نشے میں پینک ماؤ کے چینی اب یک قطبی دنیا کے سپر طاقت کو آنکھیں بھی دکھاتا ہے اور دنیا پر راج کے نئے خواب بھی بُن رہا ہے ۔۔۔۔ایٹمی حملوں کے زخم سہنے والے پستہ قد جاپانیوں کا میڈان جاپان پوری دنیا کے اعتماد وبھروسے کا مالک ہے۔۔۔۔ریگستانِ عرب میں پانی کے دو بوند کو ترسے بدوآج دودھ میں نہا رہا ہے اور تیل میں بھی ،ریگستانِ عرب میں مختلف پھول کھلے ،مرجھا گئے ،بلکہ نئے ظہور بھی ہورہی ہے ۔۔۔۔ یورپ کے مکروہ کلیسا اور بادشاہ کی استحصالی گھن چکر ،اب تاریخ کے جھروکوں میں مشاہدے کے کام ہی آسکتے ہیں جبکہ یہ معاشرے تہذیب و تمدن کے سلسلے میں انسانی تاریخ کے دامن کو نئی پھولوں سے بھر رہے ہیں ،پنڈت ،شودر ،کھشتری ،اولوالامر اور آسمانی القاب سے مزّین شخصیات کی فرق مٹتا جارہا ہے ۔۔۔۔انسان روزافزوں برابری کی جانب بڑھ رہا ہے۔۔۔۔ ہٹو بچو کی صداؤں کے بجائے بُش اپنی دستی بیگ سنبھالے قصرِ صدارت کے پچھلے دروازے سے نکل کر سوئے گمنامی چلاجاتا ہے ۔۔۔۔آسمانی فرامین کی جگہ زمینی حقائق قوموں کی زندگی کے محور بنتے جارہے ہیں۔۔۔۔ معروض، موضوع کا گلا گھونٹ چکا ہے ،درجہ بالا یہ سب باتیں نہ خیالی ہیں اور نہ ہی آسمانوں کی وسعتوں میں کوئی غیبی قوت اِن کو ممکن بناکر زمین زادوں پر نازل فرمادیتی ہیں ۔۔۔۔یہ قوموں کی رہبروں کو الہام ہوئیں اور نہ ہی آسمانی مخلوقات نے گائے بہ گاہے ان کی مدد کی تھی ،کھلی حقیقت تو یہ ہے کہ سب مظاہر قوموں کی زندگی میں ارتقاء اور تغیر پذیری کی دین ہیں ،تبدیلی کے مراحل سے گزر کر اپنی وجود اور بقاء کی تحفظ میں وہ قومیں کامیاب و کامران ہوگئیں جنہوں نے اپنی اور آئندہ نسلوں کی بہتر مستقبل کیلئے غیروں کے عالیشان معبدوں میں جبین سائی کے بجائے اپنی جوہر کو شناس کر اور سرزمین کو آستانہ بنا کر ا س کی پاک مٹی پر بلیدان کے سلسلے چلائے تو اسی سے آزادی کے منور وتابان چندا اُبھرے ۔۔۔اسی سے خوشحالی کے کونپل پھوٹے ۔۔۔قومی گلدستہ میں وقار کے پھول کھلے اور اسی سے وہ اقتدار اعلیٰ کے مالک بنے ،مگر اس باب میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ قومیں جب تبدیلی کے عمل کی دردِزِہ سے کراہ رہی تھیں تو اَناڑی داعیوں کے ہاتھ نہیں لگے بلکہ دانا و بینا رہبروں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر تبدیلی کے حمل کو کامیاب کراکر قوموں کو نئی زندگی بخشی ۔۔۔ نیا جنم دیا ۔۔۔۔نئی امکانات سے ہمکنا ر کیا ۔

قدرت کی ہزارہا صداقتوں میں سے ایک صداقت یہ بھی ہے کہ کوئی چیز بانجھ نہیں ہوتی ،ہر مظہر اپنی تسلسل کو جاری رکھ کر کسی نہ کسی طور پر اپنی نوع کو بڑھاتا رہتا ہے جبکہ کمزور اور قوتِ مدافعت سے محروم ضرور معدوم تو ہوتے ہیں مگر وہ بھی کسی نہ کسی اور صورت میں ڈھل کر ۔۔۔۔۔آج ہمیں جتنی اقوام ،انسانی برادری میں باوقار کھڑے نظر آتے ہیں یا واشنگٹن ڈی سی میں واقع قوموں کے انجمن اقوامِ متحدہ کے صدر دفاتر کی بلڈنگ پر اُن کی قومی پرچم ایک شانِ بے نیازی سے لہرا رہا ہے ،تو یہ اس حقیقت کی دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے تاریخ کا جبر سہا ۔۔۔۔۔استحصالی قوتوں کے بھینٹ چڑھے ۔۔۔۔۔جنگوں میں اپنی نسلیں جھونکتے رہے ۔۔۔۔۔سرمایہ داریت اور قبضہ گیریت کے دوزخ کی بھٹی میں جلتے رہے۔۔۔۔۔بالادست قوتوں کے زیرنگوں ہوکر بھی سرنگوں ہونے سے منکر رہے ۔۔۔۔عالمی کارپوریٹ، ساہوکاروں کی ہامانی اور مکروہ سازشوں کا شکار بنتے رہے ۔۔۔۔مٹتے رہے لیکن تھکے نہیں ہرچند کہ ہنر مند ہاتھ قلم ہوئے ۔۔۔نہ جھکنے والے سر قلم ہوئے ۔۔۔۔۔آزادی کی یافت کیلئے متحرک پاؤں شکنجوں میں کسے گئے۔ ۔۔۔قوموں کی آزادی اور بقاء کیلئے سوچنے والے دماغ بالا دست قوتوں کے زندانوں میں کیڑے مکوڑوں کے کامِ دہن کرگئے ۔۔۔۔ قوموں کی سیا سی سفر نشیب و فراز سے بھری پڑی ہیں ،تاریخ کی خون چکاں ہولناکیا ں صرف زیبِ داستان کیلئے افسانہ طرازوں کی ذہنی اخترا عات نہیں بلکہ اپنی اور بقاء کی لڑائی میں تہہ تیغ کئے گئے مجاہدوں کی بہت کم حصہ کو تاریخ محفوظ کرسکی ہے کیونکہ خودتاریخ ڈوبنے والے اُس بحری جہاز کی مانند ہے جس کے جتنے حصے بچائیں اس سے کہیں زیادہ بہہ جاتے ہیں ۔اسے کون جانتا ہے کہ فرنگیوں نے کتنے انڈین کو کالا پانی میں مار کھپایا ۔۔۔۔جلیانہ والا باغ میں تو ہندوستانی شہداء کے لاشوں کی گنتی سے خود انگریز بھی عاجز آگئے تھے ،تاریخ میں یہ بھی وافر مقدار میں معلوم داری نہیں کہ زار نے کتنے سوشلسٹوں کو سائبیریا میں منجمد کرادیا ۔۔۔۔۔ویتنام میں امریکی نیپام بموں نے کیا کیا حشر سامانیا ں ڈھائے ۔۔۔۔۔۔یورپی اور امریکی بردہ فروشوں نے افریکیوں کو کن کن ہوسناکیوں کا شکار بنایا ۔۔۔۔ ایٹمی حملوں کا زخم سہہ کر کفارہ ادا کرنے والے جاپانیوں نے چینیوں کو کس قیامت سے گزارا ۔۔۔۔قوموں کی آزادی اور بقاء کی جنگوں میں کروڑوں لوگ کام آئے ،تاریخ کہا ں تک سمیٹ سکتی ہے ،ہا ں صرف یہودیوں نے اپنی نسل کشی کو درجہ دے دلا کر 146146ہولوکاسٹ 145145 کے نام سے امتیازی حیثیت حاصل کی وگرنہ حقیقت تویہ ہے کہ ہر قوم اپنی تاریخ میں ایک آدھ ہولو کاسٹ سے ضرور دوچار رہا ہوگا،تاریخ محض چیدہ چیدہ واقعات کو اپنے دامن میں پناہ دے سکتی ہے ،جنگ زدہ خطوں کی تاریخ تو محض انسانی خون سے لبِ لباب بھرے ندی کے بہنے کی آواز ہے اس میں کس کس کی خون شامل ہے ،کوئی نہیں جانتا ہے،اس کے باجود انسان کی مجموعی شعور اس بات کا واضح ادراک رکھتا ہے کہ بگ بینگ یا عظیم دھماکے سے لیکر عصر جدید تک چشمِ فلک نے کائنات میں جن جن تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ہے اسی طرح انسانیت بھی حق وباطل اور غلامی سے آزادی کے جنگوں میں باآسانی ہرگز نہیں گزرا ہے ۔آج امریکی صدر کی ہر بات پردنیا کے آمناوصدقنا کہنے کی مطلب یہ نہیں ہے صدر امریکہ کو یہ قوت اس کی 146146آسمانی باپ145145 القاء کرتی ہیں بلکہ اس کے پیچھے گوروں کی قربانیوں کی ایک لمبی تاریخ ہے امریکیوں نے منتظر فردا ہونے کے بجائے ارتقاء سے ہم آہنگ رہے ،تبدیلیوں کا ساتھ دیتے رہے اور انہیں اپنی قومی مفادکیلئے استعمال کرتے رہے۔ یہ کیا بوالعجبی ہے کہ جلیانہ والا باغ میں جب خون کی ہولی کھیلی گئی تو گوروں نے ہندوستانیوں کے لاشو ں کی باعزت تجہیز وتکفین اپنی جگہ ان کی گنتی تک گوارہ نہیں کیا،آج یہی گورے ہندوستان کی جدید تو کجا ،راجستھان کے لوک ثقافت کو انسانیت کا اثاثہ قرار دیتے ہیں ،ہندوستان سے برطانوی راج کی انخلا اور آ ج ہندوستانی چوکھٹ پر جبین سائی ، سادھوؤں کی دنیا کو تیاگ کر تپیسیا اور ماورائے عقل ریاضتوں کی کرامت نہیں بلکہ سبھاش چندر بوس کی ولولہ انگیز قیادت اشفاق اللہ خان ،بھگت سنگھ ،راج گرو،جتندر داس ایسے آتش بھرے نوجوانوں کی قربانیاں ہیں ۔۔۔۔آج چینی قوم کے سنگھاسن پر ہیرے موتی اک آب و تاب سے چمک رہے ہیں تو ماؤزے تنگ کی دانشمندہ قیادت ، جذبہ شہادت سے لبریز چینیوں کی جنگ آزادی اور دنیا کی سب سے بڑی لانگ مارچ میں ہر قدم پر موت کو گلے لگانے اور گور وکفن سے محروم جانبازوں کی بے مثال قربانیوں سے صرفِ نظر کرنا ہمیں انسانیات کے درجے سے گرا کر بونا ہی ثابت کرتا ہے ۔۔۔۔۔آج دنیامیں طیب اردگان اک آن کا مالک ہے ،انگریزی کے بجائے اپنی قومی زبان میں بات کرتا ہے تو کمال اتاترک کی اُس چاک اور تختہ سیاہ پر ایک نظر ضرور ڈالئے کہ جن کے ذریعے انہوں نے اپنی قوم کو سلطنت عثمانیہ کے باقیات پر نوحہ خوانی سے نکال کر جدید قوم بنایا ۔۔۔۔۔ترقی دلایا اور دنیا میں ہمسفری کے خواب دکھائے ۔

فطرت کا سفر جاری ہے ،کہیں آتش فشاں نئے جلوے دکھارہے ہیں تو کہیں سمندر نئی دنیا ؤں کی بنیادیں رکھ رہا ہے ،کہیں طوفانِ بادوباراں دنیا کو نئی امکانات سے روشناس کرہا ہے ،تو کہیں زلزلے انسانیت کو نئی درد کے لذت سے آشنا کرکے مثبت تخلیق کیلئے مہمیز دے رہے ہیں ،اسی طرح قوموں کے جاری سفر میں غلامی اور آزادی کی نئی تاریخ رقم ہورہی ہے ۔۔۔کل تک دردِ غلامی سے لوٹ پوٹ ہونے والے آج آزادی کی سرور سے لطف اندوز ہورہے ہیں ۔۔۔کل جو قومیں محض کالونی تھے ،نوآبادی تھے ،آج اپنی کالونائزر اور نوآباد کی آنکھوں میں آنکھیں ملا کر اپنی حیثیت مستحکم کرچکے ہیں ۔۔۔استحصال بھری غلامی اور قبضہ گیریت کے درد ناک تاریخ میں بلوچ قوم بھی آج انہی مراحل سے گزر رہا ہے جن پر کل تک ہندوستان ،افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک گزررہے تھے،آج بلوچ فرزند بھی غلامانہ ذہنیت کو اسی طرح چاک چاک کر رہے ہیں،جس طرح بھگت سنگھ اور ساتھیوں نے کی تھی ۔آج بلوچ بھی اسی طرح تاریخ رقم کررہا ہے جس طرح الجزائریوں نے فرانسیسی اور ویتنامیوں نے امریکیوں کے خلاف کی تھی ۔

آج بلوچ جاگا ہے ۔۔۔بھر پور جاگا ہے گو کہ ذرا دیر سے سہی ۔۔۔شاشان کی چٹانیں آج سرمچاروں کے پاؤں کی برْمش سے ترک رہے ہیں ۔۔۔۔۔ بولان نئی نظاروں سے محظوظ ہورہا ہے۔ ۔۔۔۔سیاہ آف ،ہڑب اپنی تجدید آپ ملاحظہ کررہا ہے ،تلار،سائیجی حق وباطل کے درمیان نئی معرکہ آرائیوں کی امین بن رہا ہے ۔۔۔۔۔ساحلِ بحرِبلوچ تاریخ کے نئے طلاطم کو اپنی دامن میں سمیٹ رہا ہے ۔۔۔۔سراوان ،جھالاوان اور خاران ،مکران کو گلے لگارہا ہے ۔۔۔۔کندھے سے کندھا ملا رہا ہے ۔۔۔۔دشت و صحرااور کہسارومیدان کی فرق مٹ رہا ہے ۔سرزمین آستانہ بن چکا ہے آزادی کے نور سے روشن گھر میں اب ابراہیم آذر کو حق کی سبق پڑھا رہا ہے ۔۔۔۔۔گھر کی کلہاڑی گھر میں موجود بتوں کو پاش پاش کررہاہے ۔۔۔۔بت اپنی وجود کو بچانے کو بڑے آذر کی منت سماجت کررہے ہیں مگر تا کد ۔۔۔۔۔چاروں سمتیں مرتکز ہوئے جارہے ہیں اپنی مرکز میں ،منبع میں۔۔۔۔۔تاریخ ہی اپنی شباب میں ایسے نظاروں سے لطف اندوز ہوسکتا ہے کہ سدّو کاہان کی بجائے مکران میں دھرتی ماں کی آغوش میں سمانا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔سورابی جلیل ریکی ، ملا فاضل کے ہدیرہ کے آس پاس نئی جنم پاتا ہے ۔۔۔۔۔۔مستونگ کے شاہوانی سنگت ثناء مرگاپ میں لالہ منیر اور غلام محمد سے قول نبھاتا ہے ۔۔۔۔کوہلو کا مری مشکئے کے اللہ نذر کی کمان میں سر بکف ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔سروں کے آپسی ضرب کاری میں مصروف منگچر کے لانگو میر غفار بالاچ کو رخصت کرکے بے مہر لسبیلہ میں حق وصداقت کی یافت کیلئے روشن لکیر چھوڑدیتا ہے ۔۔۔۔۔ناکو خیربخش میدانِ حق وباطل میں سرکٹواکر فرہادکی ہمسری پاتا ہے۔۔۔۔۔پیرانہ سالہ کماش نصیر کمالان سرزمین کی آجوئی کیلئے انقلابی گیت گاگا کر اپنی سر دان کردیتا ہے تو بارہ سالہ مجید جان اور وارث زہری بھی آتشِ عشق میں شعلوں کو خاطر میں لائے بغیر بے دھڑک کود پڑتے ہیں ۔۔۔۔۔صدقے جاؤں تاریخ اور فطرت کے اٹل قوانین کی ،کہ جب بلوچ نے آزادی کے پر کشش صدا پر لبیک کہی تو اس سے کوئی بھی اپنی دامن نہ بچا سکا ۔۔۔۔۔دوست تودوست بدترین دشمن بھی اقرار کر بیٹھا کہ واقعی بلوچ لڑرہا ہے، طبقاتی جالوں ، سطحی تفاخر اور غلامانہ اَنا کے دیواروں کو توڑ تاڑ کر سب لڑرہے ہیں ۔۔۔۔۔بولان کا نوجوان ، مکران میں لڑرہا ہے۔۔۔۔۔ اورماڑہ کاساحلی گبھروبابو نوروزکے میر گھٹ کو اپنی مستقربنا چکا ہے ۔۔۔۔۔قومی تحریک کے حوالے سے بانجھ پن کی طنز سہنے والی خاران بھی شہداء کے لہو سے سیراب ہو کر کاروان کیلئے نئی پھولوں کی نمو ایک ادائے بے نیازی سے کر رہا ہے ۔۔۔۔۔ بی این ایم اور بی ایس او کے سنگت اور مزاحمتی میدان کے سرمچار راہِ حق میں جامِ شہادت نوش کرتے ہیں، تواین جی اوزکے نعیم صابر اور گلوکار علی جان ثاقب ،فقیر عاجز بھی لونگ خان بن جاتے ہیں ۔۔۔۔اپنی جان نچاور کرکرکے بلوچ آزادی کے زیر تعمیر عمارت میں اپنی مضبوط خشت نمایاں جگہ پر لگادیتے ہیں ۔۔۔۔۔جنگ جاری ہے ،حال واحوال کے ذرائع روز خبر لاتے ہیں، جانبازوں اور جانثاروں کے دادوشجاعت کی نئی داستانوں کا ۔۔۔۔۔شہادت اور تشددکا۔۔۔۔ گاؤں کے گاؤں کی دشمن کے ناپاک ہاتھوں آتش زدگی کا۔۔۔قابض کے مرکھپنے والے دستوں۔۔۔۔کرایے کے سپا ہیوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا۔۔۔۔۔ قابض کے لوٹ مار کے ذرائعوں کی تباہی کا۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن مجال کہ کہیں سے پشیمانی یا جان کے زیاں پر افسردگی کا کلمہ، کوئی بات،کوئی خبر آئے،جھوٹ کے انباروں کے مالک دشمن بھی ہزارہا پینترا بازیوں کے باوجود اب تک پشیمانی اور معافی جیسی خبر تخلیق نہ کرپائی ۔غلامی کے تند وتیز نشتر جب روح پر چبھ جاتی تو اس کی لِذت آمیز دردپورے وجود میں سرایت کرجاتی ہے اس درد آشنائی کے بعدہر کَس اپنی بس اوربساط کے مطابق ہمسفر بن جاتی ہے اُن لوگوں کی، جو غلامی کے قہر سامان تاریکیوں میں آزادی کے نور گُل رہے ہیں ۔۔۔۔۔جو وقت کے فرعون کی جڑیں کاٹ رہے ہیں ۔۔۔۔۔جو آزادی کے دیوتا کی حضوراپنی لہو سے دیپ جلائے جارہے ہیں ۔۔۔۔۔جو بقاء کی حصول کیلئے فناء کو گلے لگارہے ہیں ۔۔۔۔۔آج بلوچ دھرتی پر، ہرسو رقصِ بسمل بود شب جائے کہ من بودم ،لیکن تاریخ کے مزاج سے آشنابلوچ ،قومی تکمیل کے مراحل میں ان مظالم کو شفقت و رافت کے پھول سمجھتا ہے ۔۔۔۔۔ان کی خوشبو سے اپنے دل و دماغ کو معطر کردیتا ہے۔ ۔۔۔۔ پنر جنم کے صدیو ں کے انتظار کے بجائے نئی جنم کو آپ گلے لگاتا ہے ۔۔۔۔۔۔اپنی ہستی کو بظاہر نیستی کا رزق بنا کر ایسی ہستی پاتا ہے کہ جس کا کوئی انت نہیں ۔۔۔۔۔اور جسے کوئی فنا ء نہیں ۔۔۔۔بقاء بھی ایسی کہ اللہ رب العزت بھی گوائی دے
اور شہیدوں کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں ۔۔۔۔

آج کچھ نظاروں پر تاریخ بھی انگشت بدنداں ہے ذرا دھیاں دیجیے کہ ایک طرف شادی ہے جو نئی بندھن ہے اور تخلیق کے سفر کا آغاز ۔۔۔۔۔نئی امنگوں، نئی آرزوؤں کے در، واکرنے کی سبیل و سبب ہوتی ہے اس لئے خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے، مبارک سلامت کے پیام و سلام آتے ہیں ،دوسری موت ہے جو زندگی اور اس کے لالہ زار خوشیوں کا گلہ گھونٹ دیتی ہے ۔۔۔۔دوست و عزیزاور رشتہ دار وسنگت کی جدائی ناقابلِ برداشت ہوتی ہے اس لئے ماحول پر رقت طاری ہوتی ہے۔۔۔ ماتمی لباس پہنا جاتا ہے۔۔۔ بیوائیں سیاہ پوش ہوجاتی ہیں اپنی سہاگ کے لٹنے پر مائیں بین کرتی ہیں اپنی گود اجڑنے پر ۔۔۔۔۔بہنیں چادر تار تار کرتی ہیں اپنی ننگ وناموس کے محافظ کی جدائی پر ۔۔۔۔۔مگر آج تاریخ اس بات پر ششدر وحیران ہے کہ بلوچ دھرتی پر جہاں کہیں کسی جان باز کی لاش آتی ہے تو کجا کہ ماتم ہوجائے ۔۔۔۔ماحول پر موت کی عفریت چھا جائے بلکہ اس کے بالکل برعکس کچھ نظارے دیکھنے کو ملتی ہیں مائیں سنگھار کرتی ہیں ۔۔۔۔۔بہنیں مہندی گوند کر شہید بھائی کو لگاتی ہیں ۔۔۔۔۔بوڑھا باپ فخر کا اظہار کرتی ہیں ۔۔۔۔۔بھائی پھولوں کے گجرے لاتی ہے ۔۔۔۔۔اہلِ محلہ طربی گیت گاکر شہید کو دولہا بنا کر سرزمین کے عجلہ عروسی کے سپرد کردیتے ہیں ۔۔۔۔۔یہ سب کسی پاگل پن کا شاخسانہ نہیں بلکہ آج بلوچ قومی شعور کی اُس نہج پر دستک دیکر یہ جان چکا ہے کہ سرزمین کی آزادی اور قومی بقاء کیلئے قربانیاں ہی اصل شادی ہے ۔۔۔۔۔آرزوؤں کی تکمیل ہے ۔۔۔۔۔تخلیق کا تسلسل ہے۔۔بقاء کا وصل ہے۔۔۔۔۔تاریخ کا نمو دہے ۔۔۔ ۔تاریخ سہل کاری اور جان دزی سے کبھی رقم ہی نہیں ہوتی ہے ،آج بلوچ کی قومی تاریخ شہداء کے لہو سے لکھی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ بہت ہی محکم و مضبوط ہے کیونکہ آج جہد کار، قناعت کے تانے بانے سے کاتے گئے محبت میں نیکی کی گرہیں اور سچائی کے بَل دے کر سرزمین سے اپنی تعلق اس طرح استوار کرچکا ہے کہ جس کا کوئی توڑ نہیں ۔۔۔۔ یہ شہداء ہی تاریخ کے ماتھے اصل جھومر بنتے جارہے ہیں اب ایسی صورت کسی قوم کو میسر ہو تو وہ کیونکر فناء کی خوراک بن جاتا ہے ۔

صدیوں کی ارتقائی منازل طے کرکرکے آج بلوچ دھرتی اس خطے میں روبہ عمل مثبت تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہو کر غلامی کی تاریک ترین دور سے چھٹکارا پا کر آزادی کی روشنیوں کو گلے لگا رہی ہے ،پرانے اور بوسیدہ نظام کی جگہ جدید علمی و سائنسی انتظام و انصرام کو اپنے معاشرے میں جذب کرکے کلاسیک روایات کی جدید عصری تقاضوں سے جدت طرازی کرکے خوب صورت اور باوقار مستقبل کومضبوط بنیادیں فراہم کررہا ہے ،طویل غلامی سے پیدا شدہ جمود اور لا حاصل ٹھہراؤ،جنگِ آزادی کے بابرکت حرکت میں معدوم ہورہے ہیں ۔

بلوچ سماج قابض کی تمام ہامانی ،شدادی اور فرعونی روپ بہروپ کا مشاہدہ کرچکی ہے۔۔۔ انہیں جھیل چکی ہے۔۔۔۔قوموں کے تاریخ اور جنگی روایات کو کسوٹی پر رکھ کر ان کی تجزیہ و تحلیل کرچکی ہے اور اٹل فیصلہ بھی کہ اب بس تیار ہے بلوچ نئے جنم کیلئے ۔۔۔۔نئے بلوچستان کی ظہور کیلئے ۔۔۔۔اور اس بلوچستان کی آزادی کیلئے جس کی معیت میں بہت سی قومیں صفیں بچھانے کیلئے بے قرار ہیں ،دنیا یہ باور کرچکی ہے کہ آج بلوچ لڑرہا ہے بندوق سے۔۔۔چاقوسے ۔۔۔ غلیل سے۔۔۔پتھر سے ،تو صرف آزادی کیلئے ۔۔۔اور لڑکر یہ ثابت کرچکا ہے کہ پاکستان کی مصنوعی طاقت اور اس کے طاغوتی حواری ،راندہ درگاہ کاسہ لیس جرائم پیشہ ساتھی تاریخ کے بے رحم موجوں میں کھوجانے والے ہیں ۔۔۔۔۔آج بڑھاپے میں جوانی بھری رنگ وروپ رکھنے والے فلاسفر بابا مری اُس منزل کو اپنی ادراک کی آنکھ سے ممکن ہوتا دیکھ پاتا ہے جس کیلئے انہوں بالاچ کھو دیا ہے تو ایک تین سالہ ننھا منھا بچہ بھی بلوچستان کے فضاؤ میں تحلیل آزادی کے جلترنگ کو اپنی توتلی زبان میں آجادی ،آجادی کہہ کر مسکائے جارہی ہے جس کیلئے انہوں نے اپنے ابو کو الوداع کہہ دیا ہے ۔

آج بلوچ نہ صرف قابض کے فوجی یلغار کے خلاف اپنی آزادی کے جنگ لڑرہا ہے بلکہ پنجابی ثقافتی یلغار کے مقابلے میں اپنی تہذیب کی تجدید نو بھی کررہا ہے ،اس نوک پلک سنوار رہا ہے ، بلوچ بچیا ں پاکستانی پرچم کے بنی وردیا ں جلا کر بلوچی ڈریس پہن کر سکول میں پڑھائی لینے جا رہی ہیں ۔۔۔۔پاکستانی پرچم ناک کٹوا کر بلوچ دھرتی سے بھاگ نکلا ہے ۔۔۔۔بلوچ طلباء دروغ پر مبنی پاکستانی نصاب کے بجائے آزادی بخش کتابیں اور انسان دوست مفکروں کے شذرے پڑھ رہے ہیں ۔

جنگِ آزادی نے مختصر دورانیے میں وہ مقام حاصل کرچکا ہے کہ پوری عالمی برادری بلوچ قومی رہنماؤں سے پیام و سلام کو نئے بلوچستان کے ساتھ اپنی تعلقات کی خشت اول رکھنے کے مترادف قرار ددے رہے ہیں ،دنیا کے موجودہ سپر طاقت امریکہ بھی بتدریج احساس کرچکا ہے کہ پاکستان کی پیٹھ تپ تپاکر اس سے تاریخی غلطی سرزد ہوچکی پاکستان نہ صرف انسانی اقدار سے محروم ہے بلکہ دنیا میں امن اور ترقی و خوشحالی کا ازلی دشمن بھی ہے۔۔۔۔۔اس میں کسی قسم کا شک نہیں رہا کہ کل جب بلوچستان آزاد ہوگاتو یہ سامراجی عزائم کی تکمیل کیلئے اڈہ نہیں ہوگا بلکہ دنیا بھر کے مظلوموں کا آستانہ ہوگا ،اور بلوچستان کی آزادی کوئی مشروط قسم کی آزادی نہیں ہوگی بلکہ ایک باوقار اور شاندار قومی آزادی ہوگا ،گوکہ آج کوئی ملک سرکاری طور پر بلوچ قوم کی آزادی کی حمایت سے گریزکررہا ہے مگر مخالفت بھی نہیں کررہا ہے لیکن انسانی اقدار اور بین ا لاقوامی اصولوں کے مطابق جوں جوں یہ جنگ منطقی انجام کی جانب بڑھے گا ،دنیا بھر کے لوگ اور سول سوسائٹیاں ہمارے حق میں آواز اُٹھانا شروع کریں گے ،میں اپنی چشمِ تصور سے واضح طور پر دیکھ رہا ہوں کہ دنیا بھرکے دارلحکومتوں میں بلوچ بارے عظیم الشان جلوس نکل رہے ہیں ،بلوچ نسل کشی پرپاکستان کے خلاف مذمتی قراردادیں پیش ہورہی ہیں، بین القوامی اداروں سے اس دہشت گرد اور انسان دشمن ریاست کی رکنیت ختم ہوتی جارہی ہے ،قوموں کی زندگی میں چند سال کوئی معنیٰ نہیں رکھتے لیکن آثار وقرائن یہ واضح طور پر ظاہر کررہے ہیں کہ بلوچ وہ عظیم منزل چند ہی سالوں میں پالے گاجسے حاصل کرنے کیلئے دوسرے قوموں نے شاید صدیوں کا سفر طے کیا ہو

پیر، 10 ستمبر، 2018

دِل کی باتیں - خیالات کی علامات - آئیڈیوگرام



دِل کی باتیں - خیالات کی علامات - آئیڈیوگرام

کبھی سنگ دِل محبوب سے نرم دِلی کی توقع رکھنے والے زخمی دِل شاعر کی دِل کو چھو لینے والی شاعری پڑھنے کا دِل کرتا ہو گا۔ زبان اور گفتگو میں پوری دنیا میں دِل کو جذبات کا مرکز سمجھا جاتا رہا ہے۔ دماغ تو کھوپڑی کے بیچ سخت خول میں بند کسی قسم کا باہری پیغام نہیں دیتا مگر سینے میں لگا دِل دھڑکن سے اپنے ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ کبھی کسی کے سامنا ہونے پر بے ترتیب ہو جانے والی دھڑکنیں، کبھی مدہم ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ زندگی کا گُل ہوتا چراغ۔ ان مشاہدوں کی وجہ سے ایسا ہماری روزمرہ گفتگو کا حصہ بن گیا۔

کسی کو دیکھ کر تیز ہو جانے والی دھڑکنوں یا الفاظ کا ساتھ چھوڑ جانے کی وجہ کو بدذوق لوگ ایڈرنلین رَش قرار دیتے ہیں لیکن ابھی بات اس کے ایک اور پہلو کی۔ اگر آپ نے کبھی یہ (❤️) نشان دیکھا ہے تو ذہن میں کیا آیا؟ اگر آپ کا خیال ہے کہ یہ محبت کا نشان ہے یا دِل کا نشان ہے تو ایسا کیوں؟ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ دِل کی شکل ایسی نہیں۔ انسان کو دل کی شکل قدیم زمانے سے معلوم ہے۔ (تمام ممالیہ کے دِل کی شکل ایک ہی جیسی ہے تو دِل کی شکل کا مشاہدہ تو زراعت سے پہلے بھی معمول کی بات تھی)۔ لیکن اس نشان کو دنیا بھر میں دیکھنے والے سمجھ لیتے ہیں۔ اس قسم کی علامات آئیڈیوگرام کہلاتی ہیں۔

موجودہ لیبیا کے ساحلی علاقے پر القیروانی آباد تھا۔ یہاں پر قدیم یونانی سلطنت کی حکومت تھی۔ یہاں پر ایک پودا سیلفیوم اُگا کرتا تھا جس کی اپنی خاصیتوں کی وجہ سے بڑی اہمیت تھی۔ ان میں سے ایک خاصیت اس کا مانع حمل ہونا بھی تھا جس کی وجہ سے اس کو استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کا بیج اس شکل کا تھا جو آج دِل کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ اس پودے کی اہمیت اس قدر تھی کہ القیروانی میں چلنے والے چاندی کے سکوں پر اس پودے اور اس کے بیجوں کی تصاویر بنائیں گئیں۔

اس شکل کا تعلق محبت سے، قربت سے اور پھر دِل سے بنا۔ صدیاں گزریں، اپنے زیادہ استعمال اور قحط پڑنے کی وجہ سے نہ ہی یہ پودا رہا، نہ ہی یونانی سلطنت بچی۔ نشان اور اس کے ساتھ جُڑا مطلب رہ گیا۔ لیبیا سے شروع ہوئے اس نشان نے عرب کا رُخ کیا اور پھر اس سے آگے یورپ کا۔ یہ ہمیں بصرہ کے الحریری کی گیارہویں صدی میں لکھی کتاب میں نظر آتا ہے جب بنائی گئی تصویر میں جُدا ہوتے لوگوں کے پس منظر میں کا اسی طرح کا نشان بنا ہے۔ 1250 میں لکھی فرانسیسی کہانی میں محبوب کو اسی شکل کا دِل پیش کرتے دکھایا گیا ہے۔

کتابیں عام ہوتے جانے کے بعد یہ نشان پھر کئی دوسری جگہ پر اس علامت کے طور پر نظر آنا شروع ہو گیا۔

نہ یہ نشان خود دِل کی شکل کا ہے، نہ دِل کا تعلق محبت سے ہے لیکن کسی وقت میں لیبیا کے ساحل پر اُگنے والے پودے کے بیج کا شکل آج محبت کا عالمی نشان بن چکا ہے۔ کسی موقع پر اپنے شریکِ حیات کو اس شکل کا تحفہ دینا والا ہو یا فیس بُک پر کسی چیز کو دیکھ کر پسندیدگی کا اظہار کرنے کے لئے اس علامت پر کلِک کرنے والا، اس کا مطلب صرف محبت ہے، اس کے پیچھے تاریخ کچھ بھی ہو۔

خیالات کو شکلوں کی صورت میں بنانا اور دوسروں تک پہنچانا وہ اہم قدم تھا جس سے تاریخی طور پر لکھائی کی ابتدا ہوئی۔ ابتدائی لکھائی لوگوگرافک تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ لفظ یا جملے کو کسی شکل کی مدد سے بیان کیا جاتا تھا۔

ہفتہ، 8 ستمبر، 2018

کیا افغانستان واقعی امریکا کے لیے ایک اور ویتنام ہے؟



کیا افغانستان واقعی امریکہ کےلئے ایک اور ویتنام ہے ؟
تحریر ـ ڈاکٹر مونس احمر
جب سے امریکا نے افغانستان میں مداخلت کی ہے، تب سے ویتنامی اور افغانی جنگوں کا اکثر موازنہ کیا گیا ہے۔ امریکا کو ویتنام میں شدید نقصان اٹھانا پڑا اور یہ جنگ امریکا کے لیے ایک بُرا خواب ثابت ہوئی جہاں پر اب بھی اس سے جنم لینے والے صدمے کی وجہ سے قومی یادداشت میں تلخ یادیں موجود ہیں، وہاں افغانستان میں بھی کوئی پھولوں کی سیج نہیں رہی ہے۔


آئیں یادیں تازہ کرتے ہیں کہ امریکا ویتنام میں کس طرح داخل ہوا۔ 1945ء میں ایک قومی آزادی پسند اتحاد ویت منہہ  نے ہو چی منہہ  کی قیادت میں فرانسیسی غلبے کے خلاف دراندازی شروع کردی (فرانس نے 19ویں صدی کے وسط میں ویتنام کو کالونائز کرلیا تھا۔)


یہاں سے تناؤ میں اضافہ ہوا اور جنوری 1950ء میں عوامی جمہوریہ چین اور سوویت یونین نے شمال میں ہنوئی  میں قائم ویت منہہ کے ڈیموکریٹک ریپبلک آف ویتنام کو جائز حکومت کے طور پر تسلیم کرلیا۔


اگلے ہی ماہ امریکا اور برطانیہ نے سیگون  میں سابق حکمران بو ای کی زیرِ قیادت فرانس نواز حکومت کو ویتنام کی جائز حکومت کے طور پر تسلیم کرلیا۔ امریکی حکومت نے ویتنام جنگ میں اپنی شمولیت کو جنوبی ویتنام پر کمیونسٹ غلبے کو روکنے کے طور پر لیا۔


دوسری جنگِ عظیم کے دوران اتحادی کے طور پر امریکا نے ویتنام میں لڑ رہی فرانسیسی افواج کو مالی اور عسکری امداد فراہم کی۔ 1950ء کی بہار سے امریکی مداخلت صرف فرانسیسی افواج کو امداد فراہم کرنے سے بڑھ کر براہِ راست عسکری مدد تک جا پہنچی۔ بتدریج امریکا نے باقاعدگی سے پہلے سے بھی زیادہ فوجی امداد بھیجنی شروع کردی اور 1965ء میں امریکی افواج زمینی لڑائیوں میں شامل ہوگئیں۔ اپنے عروج پر ان کی تعداد 5 لاکھ تھی اور وہ مسلسل فضائی بمباری کی مہمات میں بھی شریک رہیں۔

سنہ 1968ء میں ویتنامی جنگ کے لیے ایک موڑ آیا۔ یہ وہ سال تھا جب زمین پر 5 لاکھ سے زائد افواج اور زبردست عسکری قوت ہونے کے باوجود امریکا نے پیرس میں امن مذاکرات پر رضامندی ظاہر کردی۔ یہ اقدام جنوبی ویتنام کے نیشنل لبریشن فرنٹ کو شکست دینے میں ناکامی کے بعد اٹھایا گیا تھا۔ اس تنظیم کو ویت کانگ  بھی کہا جاتا تھا جو جنوبی ویتنام میں جنگ کے دوران امریکی اور جنوبی ویتنامی حکومتوں کے خلاف لڑنے والی ایک بڑی سیاسی تنظیم تھی۔



سنہ 1968ء کی شروعات میں ویت کانگ نے نارتھ ویتنامیز آرمی کے ساتھ مل کر مشہورِ زمانہ تیت  حملہ لانچ کرتے ہوئے جنوبی ویتنامی قصبے ہوئے  پر قبضہ کرلیا۔ تیت حملہ درحققیت ریپبلک آف ویتنام کی ساؤتھ ویتنامیز آرمی، امریکی افواج اور ان کے اتحادیوں کے خلاف پورے جنوبی ویتنام میں اچانک حملوں کی ایک لڑی تھی۔ اس حملے کا نام ویتنامی نئے سال 'تیت' سے پڑا جب پہلا بڑا حملہ کیا گیا تھا۔


اس حملے کے دوران سیگون میں امریکی سفارت خانے پر حملہ کیا گیا تھا جس کی وجہ سے امریکا کو کچھ عرصے کے لیے شمالی ویتنام پر بمباری روک کر ویت کانگ اور شمالی ویتنامی حکومت کے ساتھ پیرس امن مذاکرات شروع کرنے پڑے تھے۔ ویتنام میں 1968ء میں امریکا کی یہ پسپائی تھی جس کی وجہ سے واشنگٹن اس جنگ زدہ علاقے سے محفوظ راستہ تلاش کرنے کی کوششیں تیز کرنے پر مجبور ہوا۔


سنہ 1965ء میں جب امریکا براہِ راست ویتنام جنگ میں داخل ہوا اور جب 1975ء میں وہ وہاں سے نکلا، اس دوران اس نے 58 ہزار فوجی اور دس ہزار جنگی جہاز و ہیلی کاپٹر گنوائے، مگر پھر بھی وہ اس چیز کو شکست نہیں دے سکا جسے وہ انڈوچائنا میں 'کمیونسٹ عفریت' قرار دیتا تھا۔ عسکری تاریخ میں آج تک جنگ ہائے عظیم کے علاوہ کبھی اتنا بڑا جانی و مالی نقصان نہیں ہوا جتنا کہ ویتنام کی جنگ میں ہوا تھا۔


سنہ 2018ء میں امریکا کے لیے افغانستان کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں۔ ویتنام کی طرح افغانستان میں بھی امریکا گہرائی تک دھنستا جا رہا ہے جبکہ اس کے پاس نکلنے کے محفوظ راستے کم ہیں۔ افغانستان بھی امریکا کے لیے خزانے کا مسلسل زیاں ہے جس کے پاس عسکری کامیابی یقینی بنانے کے لیے کوئی بہتر نتائج موجود نہیں ہیں۔ مئی 2018ء کے فارن پالیسی میگزین کی رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ دفاع ایک غیر مستحکم ملک میں جنگ جیتنے کے امکانات کے حوالے سے افغانستان میں امریکی کارروائیوں کی ایک مایوس کن تصویر پیش کرتا ہے۔


حالانکہ 4 دہائیاں گزر چکی ہیں، مگر اب بھی 'ویتنام سنڈروم' کا لفظ امریکیوں کے لیے نفسیاتی مسائل کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔


مگر ویتنام اور افغانستان کا موازنہ کرتے ہوئے ہمیں کچھ عوامل کو مدِ نظر رکھنا ہوگا جس کی وجہ سے امریکا ویتنام میں ناکام ہوا اور دونوں ممالک میں امریکا کے خلاف مزاحمت کو بھی مدِ نظر رکھنا ہوگا۔


 تین بڑی وجوہات نے ویتنام میں امریکی ناکامی میں اہم کردار ادا کیا۔


پہلی وجہ
غیر ملکی جارحیت کے خلاف ویتنامی مزاحمین کا بلند عزم و ہمت۔ بھلے ہی یہ بہت غیر متوازن جنگ تھی جس میں امریکا کو ویت کانگ اور شمالی ویتنام کے خلاف واضح عسکری برتری حاصل تھی، مگر یہ قوم پرست جذبات اور حب الوطنی تھی جس نے امریکا مخالف جنگجوؤں کو امریکی فوجیوں اور ان کے جنوبی ویتنامی اتحادیوں کے خلاف سرگرم گوریلا جنگ میں زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا کر ایک مؤثر جنگِ آزادی لانچ کرنے میں مدد دی۔



پے در پے شکستوں کے بعد جون 1968ء میں واشنگٹن نے ویتنام میں امریکی ملٹری کمانڈر جنرل ولیم ویسٹ مورلینڈ کو جنرل کریٹن ایڈمز سے بدل دیا۔ مگر کمان میں تبدیلی کا حقیقی اثر بہت ہی کم تھا۔ 1968ء میں امریکی ہلاکتوں میں اضافے اور ویت کانگ کی جانب سے گوریلا جنگ میں شدت آنے کے بعد امریکا بھر میں عوامی مظاہرے شروع ہوگئے۔


دوسری وجہ
دوسرا یہ کہ ویتنام جنگ کے خلاف مظاہروں کو 1968ء میں بڑھاوا ملا اور یہ پوری دنیا بالخصوص یورپ اور ایشیاء میں پھیل گئے۔ شمالی ویتنام کے کئی شہروں اور قصبوں پر امریکی بمباری نے لوگوں کو مشتعل کیا، جس کی وجہ سے ویتنام سے امریکی انخلاء کا مطالبہ کرتے مظاہرے پھوٹ پڑے۔ 16 مارچ 1968ء میں امریکی فوجیوں کی جانب سے مائی لائی کے گاؤں میں قتلِ عام، جس میں سیکڑوں شہری بشمول 56 شیر خوار بچوں کو قتل کیا گیا، کی تصاویر کا منظرِ عام پر آنا ایک اہم موڑ تھا۔ لوگوں میں ویتنام جنگ کا تاثر بدل گیا جبکہ اس قتلِ عام کی بین الاقوامی مذمت نے واشنگٹن کو شرمسار کردیا اور دنیا بھر میں امریکا مخالف جذبات بھڑک اٹھے۔



تیسری وجہ
تیسرا، ویتنام میں امریکا اپنی عوامی حمایت گنوا چکا تھا اور سیگون میں اس کی کٹھ پتلی حکومت امریکی عسکری موجودگی کے بجائے اپنی قوت برقرار رکھنے میں ناکام تھی۔



بڑی حد تک یہ 3 وجوہات تھیں جس کی وجہ سے امریکا ویتنام سے نکلنے پر مجبور ہوا جو افغانستان میں موجود نہیں ہیں، بھلے ہی تیسرے معاملے میں کچھ مماثلتوں کے بارے میں ایک دلیل تیار کی جاسکتی ہے۔

سنہ 1968ء کی شروعات سے ہی امریکا کے لیے ویتنام میں ناکامیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا باوجود اس کے کہ دسمبر 1968ء تک امریکی افواج کی تعداد 5 لاکھ 40 ہزار تک جا پہنچی تھی۔ 16 جنوری 1968ء کو شمالی ویتنامی حکومت نے یہ واضح کردیا تھا کہ وہ تب تک کسی امن مذاکرات میں شریک نہیں ہوگی جب تک کہ امریکا اس کی سرزمین پر بمباری روک نہیں دیتا۔ نتیجتاً پیرس میں طے شدہ مذاکرات کے لیے سازگار ماحول بنانے کے لیے واشنگٹن نے 31 مارچ کو اعلان کیا کہ شمالی ویتنام پر بمباری کو جزوی طور پر روک دیا جائے گا۔ اس سے پہلے یکم مارچ کو امریکی وزیرِ دفاع رابرٹ میک نمارا کو کلارک کلفورڈ سے تبدیل کیا گیا تھا۔

سنہ 2018ء میں ٹرمپ انتظامیہ کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ افغانستان میں ہار جائے گی، نہ ہی امریکا میں یا دنیا بھر میں کہیں بھی افغانستان میں امریکی عسکری کارروائیوں کے خلاف عوامی مظاہرے ہورہے ہیں۔

ویتنام اور افغان جنگوں کے معاملات مختلف ہیں مگر کچھ کچھ معاملات میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں۔ ویتنام کے معاملے میں امریکی فوجی مداخلت کا دورانیہ 10 سال تھا اور جنوبی ویتنام، کمبوڈیا اور لاؤس میں امریکی افواج کی کل تعداد 5 لاکھ سے زائد تھی۔

افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت اکتوبر 2001ء سے جاری ہے جب 11 ستمبر کے حملوں کے بعد طالبان حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ مگر پھر بھی افغانستان میں امریکی افواج کی مکمل تعداد کبھی بھی ایک لاکھ سے اوپر نہیں گئی، اور وہ بھی 2010ء میں امریکی صدر اوباما کی انتظامیہ کی 'سرج' یعنی اضافے کی پالیسی کے تحت تھا۔

افغانستان میں امریکی فوجیوں کے زخمی و ہلاک ہونے کی تعداد 10 ہزار سے نہیں بڑھی ہے اور اس نے اس ملک میں صرف 100 کے قریب جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹر گنوائے ہیں۔ مگر افغانستان میں امریکا کی جنگ کے مالی اخراجات ویتنام جنگ سے بڑھ چکے ہیں کیونکہ یہ اب تقریباً 2 دہائی پرانی ہوچکی ہے۔ افغانستان میں جنگی حکمتِ عملی ٹیکنالوجیکل عوامل کی وجہ سے کافی جدید ہے چنانچہ اس قبائلی ملک میں امریکی زخمیوں اور ہلاک شدگان کی تعداد ویتنام سے کم ہے۔

سنہ 1968ء میں نکسن انتظامیہ اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ وہ ویتنام جنگ نہیں جیت سکتی، اور یہ کہ اسے ایک ایسی جنگ سے 'باعزت' اخراج تلاش کرنا چاہیے جس کی وجہ سے نہ صرف جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں رسوائی الگ ہو رہی ہے۔ مگر نکسن کے برعکس ٹرمپ نے اگست 2017ء میں اپنی افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان میں جنگ جیتنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

ویتنام اور افغان جنگوں کے درمیان سب سے دلچسپ فرق مسلح جدوجہد کی نوعیت کا ہے۔ جہاں ویتنام میں ویت کانگ کی زیرِ قیادت گوریلا جنگ کافی مؤثر تھی، وہاں افغانستان میں یہ معاملہ نہیں ہے۔ ویسے تو افغانستان میں امریکا کے خلاف برسرِ پیکار مرکزی گروہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ ان کا آدھے افغانستان پر کنٹرول ہے، مگر پھر بھی وہ کابل میں امریکی افواج یا امریکا نواز حکومت کو بھاری نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ ویتنام کی نیشنل لبریشن موومنٹ اپنے ہی لوگوں پر حملے نہیں کر رہی تھی، علاوہ ان لوگوں کے جو سیگون میں امریکا نواز حکومت کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ پوری ویتنامی جنگ کے دوران کوئی ایسے خودکش حملے نہیں ہوئے جن میں غیر جنگجو افراد کی ہلاکتیں ہوئی ہوں مگر افغانستان میں اب تک ہزاروں معصوم لوگ طالبان کے خودکش حملوں میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ غیر ملکی قبضے کے خلاف ایک عوامی تحریک اپنے ہی لوگوں پر حملے نہیں کرے گی۔ ویتنام میں معاملہ یہی تھا، افغانستان میں ایسا نہیں ہے۔

ویت کانگ اور اس کے شمالی ویتنامی اتحادیوں کو کمیونسٹ چین اور سوویت یونین سے کھلم کھلا عسکری معاونت حاصل تھی مگر طالبان کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی مزاحمت کی بقاء کے لیے صرف منشیات کی فروخت سے حاصل کردہ پیسے اور امریکا نواز کابل حکومت کی افواج سے اسلحہ چھیننے تک محدود ہیں۔ طالبان کو ایران یا پاکستان کی عسکری امداد ملنے کی اطلاعات کے کوئی ثبوت موجود نہیں، اور ایسی کوئی بھی امداد کھلم کھلا تو بالکل بھی نہیں ہے۔

ویت کانگ اور شمالی ویتنام کی غیر ملکی قابضین کے خلاف جنگ کی بنیاد عزم، قوم پرستی، بہادری اور حب الوطنی پر قائم تھی جو کہ افغان جدوجہد میں موجود نہیں ہے۔ افغانستان میں سوویت فوجی مداخلت (دسمبر 1979ء سے فروری 1989ء تک) کے دوران سوویت افواج اور سوویت نواز کابل حکومت کے خلاف مزاحمت میں قومی اور مسلکی اختلاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے معاشرے کے تمام طبقات شامل تھے۔

آج افغانستان میں امریکا مخالف مزاحمت پختون اکثریتی جنوبی و مشرقی صوبوں میں مجتمع ہے جبکہ تاجک، ازبک اور ہزارہ برادری جو افغان آبادی کا تقریباً نصف ہے، وہ پختون سربراہی میں موجود طالبان گروہوں کا حصہ نہیں ہیں۔

ویتنام کی قومی تحریکِ آزادی کی بنیاد نظریاتی تھی جبکہ اس میں قوم پرستانہ جوش و جذبہ شامل تھا، یہ معاملہ طالبان کے ساتھ نہیں جن کی مرکزی توجہ وہی نظام قائم کرنے پر ہے جو کہ 1996ء سے 2001ء تک ان کے دورِ اقتدار کے دوران تھا۔ اس نظام کو عورت مخالف، اقلیت مخالف اور اسلامی شریعت کی ان کی سطحی تشریح پر مبنی سمجھا جاتا تھا۔ آج اس نظام کے خاتمے کے 17 سال بعد بھی کئی افغان شہری طالبان کے اس ظالمانہ دورِ حکومت سے نالاں ہیں۔
ویتنام جنگ کا از سرِ نو جائزہ لینے سے ہماری نظر امریکا کے ناقابلِ شکست ہونے کے تصور کے بکھرنے پر بھی پڑتی ہے، کیونکہ 10 سال طویل مداخلت کے باوجود امریکا کو ویتنام جیتے بغیر چھوڑنا پڑا تھا۔

افغانستان میں ویتنام کے برعکس مستقبل قریب میں امریکی انخلاء کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ افغانوں کی اکثریت کی زیرِ سربراہی کوئی متحد قومی تحریکِ آزادی موجود نہیں ہے۔ اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ واشنگٹن سنجیدگی سے انخلاء کی حکمتِ عملی پر غور کر رہا ہے۔ وہ افغانستان میں اسٹریٹجک، سیکیورٹی، سیاسی اور معاشی وجوہات کی بناء پر رہنا چاہتا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ ویتنام کے برعکس افغانستان میں مزاحمتی تحریک ایک باقاعدہ حکمتِ عملی، جذبے، عوامی حمایت اور اتحاد سے عاری ہے۔ اس کی وجہ سے غیر ملکی قوتوں کو جنگ سے تباہ حال ملک میں اپنا قبضہ جمائے رکھنے کے لیے کافی جگہ مل جاتی ہے۔

جہاں تک امریکا اور دنیا کی بات ہے تو افغانستان واضح طور پر ویتنام سے مختلف ہے۔ جنگ کے اختتام کے 43 سال کے بعد زبردست اقتصادی نمو اور ترقی کی وجہ سے ویتنام واضح طور پر آج بہتر ہے جبکہ افغانستان اپریل 1978ء کے " سُر انقلاب " سے اب تک غریب، غیر ترقی یافتہ اور مسلسل حالتِ جنگ میں نظر آتا ہے۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کی جانب سے صدر محمد داؤد خان کی حکومت کا تختہ الٹے جانے میں داؤد خان اور ان کے خاندان کے زیادہ تر افراد مارے گئے تھے۔

اس 'انقلاب' کے نتیجے میں نور محمد ترکئی کے بطور صدر ایک نئی حکومت وجود میں آئی جو 1979ء میں سوویت فوجی مداخلت کی پیشرو تھی۔

چنانچہ تمام انقلاب ایک جیسے نہیں ہوا کرتے۔

جمعرات، 6 ستمبر، 2018

کیا آپ سوشل میڈیا کے نشے کا شکار ہیں؟



کیا آپ بھی سوشل میڈیا کے نشے کا شکار ہیں ؟
تحریر : حسنین جمال 
کیا واقعی آپ سوشل میڈیا سے دور ہونا چاہتے ہیں؟ مسئلے کی نوعیت ایسی ہے کہ پہلے فیصلہ کرنا بہت ضروری ہے۔ آپ جن مسائل کا شکار ہیں اگر 
آپ کے خیال میں وہ سوشل میڈیا کا استعمال ختم کرنے سے دور ہو سکتے ہیں تب تو ٹھیک ہے لیکن اگر آپ کی پرابلمز آپ کے خیال میں اس وجہ سے نہیں ہیں تب بھی آپ کو دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے۔

نوے فیصد امید یہی ہے کہ مسئلے کی جڑ سوشل میڈیا پہ ضائع ہونے والا وقت ہو گا۔ یہ وہ ٹائم ہے جس میں پرانے زمانے کا آدمی دنیا جہان کے سارے دھندے نمٹا لیتا تھا بلکہ اپنے بہت سارے بچوں کو باہر لے جا کر قلفی بھی کھلا آتا تھا۔

آپ نے آخری مرتبہ کوئی کتاب بغیر ڈسٹرب ہوئے، ایک ہی تسلسل کے ساتھ، کسی بھی نوٹیفیکیشن کی آواز کے بغیر کب پڑھی ہے؟ بلکہ اب تو یہ پوچھنا بہتر ہو گا کہ آخری مرتبہ کتاب پڑھنے کا خیال کس کتاب کو دیکھ کر آیا تھا؟ کسی ای بک کو دیکھ کر؟ ای بک کی سب سے بڑی موج یہ ہے کہ بندہ ڈاؤن لوڈ کر لے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس نے پڑھ بھی لی۔ ایسا نہیں ہوتا استاد، کتاب پڑھنا وقت مانگے ہے اور وقت کا بیوپار سب کا سب ہم لوگ فیس بک، انسٹا اور ٹوئٹر کو سونپ چکے!

ہم لوگ چھوٹے تھے تو سارے بچے روز شام کو گلیوں میں رج کے سائیکلیں چلاتے تھے، بھاگتے دوڑتے تھے، فٹبال یا کرکٹ کھیلتے تھے، کوئی نہ کوئی مشغلہ ایسا ہوتا تھا کہ رج کے پسینہ آتا تھا اور رات کو نہا کے سونا پڑتا تھا۔ اب سائیکلنگ، فٹبال، کرکٹ، سبھی کا سب وہیں ہوتا ہے آٹھ بائے آٹھ کے کھوپچے میں، نہ کپڑوں میں پسینہ آئے گا، نہ ان میں داغ لگیں گے اور بچے کی صحت بھی نام خدا کاؤچ پوٹیٹو والی ہی ہو گی۔ یہی بچے بڑے ہو کے ہماری آپ کی طرح سوشل میڈیا کی نذر ہو جائیں گے۔ کبھی سوچا ہے اصل مسئلہ کہاں ہے؟

سوشل میڈیا کی علت کا شکار ہونے والی 100 فیصد آبادی موبائل یا ٹیبلٹ پہ اسے استعمال کرتی ہے۔ لیپ ٹاپ کے زمانے میں آخر ہر کوئی آرکٹ کا دیوانہ کیوں نہیں تھا؟ اگر تھا بھی تو رات کو دو ڈھائی گھنٹے کے بعد چھٹی ہو جاتی تھی، اب سوشل میڈیا میں ایسا کیا ہے؟ ادھر دو چیزیں ہیں جو ہم سب کو گھمائے ہوئے ہیں۔ ایک سوشل میڈیا ایپ دوسرے ٹچ سکرین۔

آپ ایک کام کریں، تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ اپنے موبائل سے فیس بک، انسٹاگرام اور ٹوئٹر کی ایپس ڈیلیٹ کر دیں۔ فیس بک میسنجر یا جو باقی دھندے ہیں انہیں بھی اڑا دیں۔ پہلا کام پتہ ہے کیا ہو گا؟ بیٹری بچے گی ۔۔۔ ڈھیر ساری بچے گی۔

ان تین کے علاوہ اگر سنیپ چیٹ آپ کے پاس ہے تو اسے سب سے پہلے ان انسٹال کریں، وہ تو اسٹرا کے ساتھ باقاعدہ سٌڑک سٌڑک کر بیٹری پیتا ہے۔ ایپس اڑنے کے بعد دوسرا کام یہ کریں کہ وائے فائے اور ڈیٹا بھی آف کر دیں۔ ایک گھنٹہ ایسے گزاریں اور کائنات کا سکون اپنے اندر اترتا محسوس کریں۔ اس کے بعد ڈیٹا یا وائے فائے آن کر دیں۔ کچھ ہوا؟ جب کوئی ایپ ہی نہیں ہے تو کیا ہو گا؟

سوائے واٹس ایپ کے اب آپ کا موبائل ایک دم سکون میں ہو گا۔ واٹس ایپ پہ کتنے میسج آئے دس، پندرہ بیس؟ کوئی فوت ہوا؟ نہیں! کوئی اہم خبر؟ نہیں! کوئی ایسا میسج جو مس ہو گیا تو کروڑوں کا نقصان ہو جائے گا؟ نہیں! تو پھر ہر فارغ انسان کے فارورڈ میسج کا نشانہ آپ کیوں بنتے ہیں؟

چونکہ ایک ڈیڑھ گھنٹہ اسی چکر میں نکل گیا ہے اب آپ اپنے موبائل یا ٹیبلٹ کے براؤزر میں جا کے فیس بک، انسٹا یا ٹوئٹر پہ لاگ ان کریں۔ بے شک سب پہ اکٹھا کر لیں۔ کوشش کریں براؤزر پہ ان تینوں چیزوں کو استعمال کرنے کی، مزا ہی نہیں آئے گا۔ کومنٹ کا جواب دینا عذاب لگے گا، میسنجر پہ لوگوں کے میسجز آئیں گے بھی تو کوئی گھنٹی نہیں بجے گی، انسٹا پہ کوئی لائک کرے گا تو جھانک کر کوئی پش اپ میسج یہ نہیں بتائے گا کہ  مطیع الرحمن نے آپ کی تصویر پسند کی ہے۔ آہستہ آہستہ آپ کو لگے گا کہ یار یہ کیا مصیبت ہے، کچھ کرنے میں مزا ہی نہیں آ رہا۔

وہی بس اصل نشے کے ٹوٹنے کا وقت ہے۔ اگر وہ ایپس ایک مہینے تک آپ دوبارہ انسٹال نہیں کرتے تو سمجھیں آپ ولی ہیں، کر لی تو پہلے کی طرح ویہلے!

ہوتا یوں ہے کہ ان ایپس کے پیچھے ماہر لوگوں کے ہزاروں دماغ اکٹھے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ فیس بک کی ایپ کیا صرف اکیلے مارک زوکر برگ نے بنائی ہے؟

ظاہری بات ہے پوری ٹیم ہے۔ وہ ٹیم کیا عام تام بندوں کی ہو گی؟ ظاہر ہے اپنی فیلڈ کے ذہین تر لوگ ہوں گے۔ جب اتنے سارے اعلیٰ دماغ مل کر کوئی چیز بنائیں گے تو کیا وہ اسے عوام کی پسندیدگی کے معیار تک لانے میں کوئی کسر چھوڑیں گے؟ ہو ہی نہیں سکتا۔

نتیجہ کیا ہو گا کہ جو بھی سوشل میڈیا ایپ آئے گی وہ سادہ ترین فیچرز اور نشے کی حد تک دماغ اور انگوٹھے کو پسند آنے والی ہو گی۔ موبائل فون ایجاد ہونے سے پہلے انگوٹھے کا مقصد کیا تھا، کبھی سوچا آپ نے؟

چیزوں کو پکڑنے میں انگلیوں کی مدد کرنا یا کسی کو اوکے کی آواز لگانی ہو تو انگوٹھا دکھا دینا یا سڑک پہ لفٹ مانگنا، یہ تینوں کام دن میں آپ کتنی مرتبہ کرتے تھے؟ ادھر آ کے سمجھ آتی ہے کہ انسان ہزاروں سال کے ارتقائی عمل (ایولیوشن) سے گزر کے بھی انگوٹھا کیوں کر بچا لایا۔

اندرکھاتے کہیں نہ کہیں جینز کو معلوم ہو گا کہ بابا بیسویں صدی میں کچھ ایسا گھڑمس ایجاد ہو گا کہ سارے معرکے انگوٹھوں سے ہی مارے جائیں گے۔ تو جب آپ ایپس اڑا دیں گے تو انگوٹھے والے کچھ کام بہرحال پورے ہاتھ یا انگلیوں کو بھی کرنے پڑیں گے، یہی سہولت سارے فساد کی جڑ ہے! دماغ ادھر ہے یا نہیں انگوٹھا چلے جا رہا ہے اور وقت پگھلے جا رہا ہے۔

آٹھ ماہ پہلے میں پوری شدت سے اسی مسئلے کا شکار تھا۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ یار دنیا میں دوسرے لوگ کیسے اتنا سارا کام کر لیتے ہیں۔ ایک دن موبائل کی سکرین ٹوٹ گئی۔ یہ پچھلے بارہ مہینوں میں ضائع ہونے والا تیسرا موبائل تھا۔ غصے میں آ کے فیصلہ کیا کہ اب سمارٹ فون نہیں لینا۔ چھوٹا سا بٹنوں والا فون ڈھائی ہزار کا لیا اور دنیا بدل گئی۔

اب کوئی منظر اچھا لگے تو بجائے کیمرہ نکالنے کے اسے آنکھوں میں محفوظ کرنا زیادہ بہتر لگتا ہے۔ جسے کوئی بہت ہی ضروری کام ہو بس وہی فون یا میسج کرتا ہے۔ چوبیس گھنٹے کی ٹوں ٹوں ختم ہو چکی ہے۔ اس فون کی بیٹری ایک چارج کے بعد پانچ دن چلتی ہے۔ جب ختم ہو تو آدھے گھنٹے میں پھر فل ہو جاتی ہے۔

رات کو سونے سے پہلے موبائل اور پاور بینک چارج کرنے کی زحمت نہیں پڑتی۔ ہر ضروری کام کے لیے بہت سا وقت ہوتا ہے۔ کوئی ضروری کام نہ ہو تو لکھنے پڑھنے، گانے سننے، بچوں سے گپ شپ کرنے یا ایویں پیدل گھومنے کے لیے بھی ڈھیر سارا ٹائم مل جاتا ہے۔ ایک دو دن بعد رات کو وہی ٹوٹا ہوا مردار فون آن کر کے پورا سوشل میڈیا جھانک لیا جاتا ہے۔ باقی دفتری کاموں کے لیے خدا نے ای میل کی نعمت بخشی ہوئی ہے۔

تو کل ملا کے سوشل میڈیا ایپس سے نجات فلاح کا بہترین راستہ ہے۔ بھلے صرف سمارٹ فون سے انسٹال کر لیں بھلے ڈھائی ہزار والا فون جیب میں ڈال کے جنگلوں میں نکل جائیں، نروان اور مکتی تبھی ملے گی جب چوبیس گھنٹے کی ٹوں ٹوں سے جان چھوٹے گی۔ آزمائش شرط ہے!
بی بی سی