تہ تیغ سرتسلیم نہ ہوگا اپنا
تحریر : یاسین عزیز
جنگ کے میدان میں اپنے سامنے کھڑے ایک طاقتوارقابض متکبربادشاہ ایک لاغر بدن وطن پرست جنگجو کو بڑے ابھیمانی انداز میں حکم دیتا ہے کہ مجھ سے معافی مانگ کر لوٹ جاو میں تمہیں معاف کردوں گا اس سے پہلے تم نے جتنے جرم کئے ہیں وہ تم پر معاف ہیں ورنہ انجام کےلئے تیار ہوجاو وہ لاغربدن جنگجو جسکوتاریخ ولیم کے نام عزت بخشتی ہے جو اسکاٹ لینڈکو ایک پہچان دیکر خود اسکی پہچان بن چکا ہے بادشاہ کو کچھ ایسے تاریخی الفاظ میں جواب دیتا ہےکہ معافی تم مانگواور ہمارے ملک سے نکل جاو یہاں سے سر جھکا کر لوٹ جاو واپس جاتے ہوئے ہمارے سرزمین پر تمیں جہاں جہاں بھی کوئی گھر نظرآئے اسکے سامنے رک کر ان گھر والوں سے اپنے ظلم قتل وغارت گری اور لوٹ مار کی معافی مانگتے ہوئے سرحد سے اس پار ہوجاو میں تمھیں معاف کردوں گا ورنہ جنگ کےلئے تیار ہوجاو اس وطن پرستانہ اور قوم دوستانہ اظہار میں شکست اور فتح کے انجام سے زیادہ اپنے ملکیت پر حق کےمتعلق پختہ عزم اور حوصلے کا اظہار نمایا ہوتا ہے عزم اور حوصلہ ارادوں کےلئے ایسا ہی ضروری ہیں جیسا کہ کسی زندہ انسانی جسم کےلئے روح۔
انسانی تعلقات میں جنگ کی نوبت اور نوعیت جنگیں کیوں لڑی جاتی ہیں لوگ کیوں مارنے اور مر مٹنے پر تیار ہوجاتے ہیں جنگیں جیتنے کےمقاصد کیا ہوتے ہیں ؟ شکست و فتح کے دورانیے مشکل اور طویل ہونے کے باوجود کیوں کیسے انجام پزیر ہوجاتے ہیں ؟؟
ان سب کو اچھی طرح سمجھنا متقاضی ہیں تحقیق کے جسکےلئے دنیا کی جنگی تاریخ کا مطالعہ بےحد ضروری ہے ویسے تو بظاہرانکے پیچھے ناانصافیاں فریب چالبازی قبضہ گریت اور ظلم و بریریت کے کئی داستان کارفرما ہوتے ہیں لیکن انکے اندر حوصلوں عزم اور قربانیوں کے کئی مثالی سبق آموز داستانیں بھی ملتی ہیں حوصلوں کے ٹوٹنے مایوسی اور وقتی شکست کے ہزاروں قصے ملتے ہیں جو تاریخ بنکر قوموں کی شناخت کراتی ہیں قومی جنگوں کی طویل تاریخ سے ایسے تمام اقدامات و واقعات کواگر نفی کی جائے تو وہ تاریخ ہی مسخ ہوکر نہ مکمل ہوجائے گی۔
گو کہ بلوچوں میں دوسرے قوموں کی نسبت ہونے والی جنگیں اپنی تاریخ میں بہت زیادہ شدت و وسعت نہیں رکھتے لیکن محدود ہونے کے باوجود ایک منفرد تسلسل ضرور رکھتے ہیں کئی نشیب و فراز کے باوجود حالیہ جاری جنگ کی وسعت اور جاری تسلسل باعث یقین ہے کہ یہ ناقابل شکست جنگ ہے دشمن کے ظلم و بربریت کے ساتھ ہی ساتھ اسکے سامنے تسلیم ہونے کے مواقعے اس بات کا ثبوت ہیں کہ دشمن خوف زدہ ہیں اور ان کو اس بات کا یقین ہے کہ طاقت سے وہ بلوچوں پر فتحاب نہیں ہوسکتے اسلئے ذاتی معمولی مراعات دیکر یا سرتسلیم خم کروانے کے مواقعے پیش کر کےبلوچوں کے وقار عزت اورحوصلوں پر کاری ضرب لگانے میں مصروف عمل ہیں بلوچوں کی ہر چھوٹی بڑی کمزوریوں سے دشمن ہر صورت فائدہ اٹھانے کی کوششیں کرتے آرہے ہیں ہماری قبائلیت ،ہمارے نا اتفاقی، ہمارے کمزور سیاسی و قومی رشتوں سے یہاں تک کہ ہمارے نیم پختہ نظریات سے بھی ایسے حالات میں موقع غنیمت جان کرکچھ کمزور سوچ و اعصاب کے مالک ایسے وقتی مراعتی دباو یا معمولی مراعاتی جبر کے پیشکش سے فائدہ اٹھانے کی چکر میں کلی نقصان کر بیھٹتے ہیں میں دشمن کے سامنے تسلیم ہونے کی اس عمل کو مراعاتی دباو یا جبر ہی کہوں گا کیونکہ کسی بھی قوم کی آزادی کوسلب کرنے کے بعد انکو زندگی کی بنیادی حقوق سے محروم رکھ کر انکے احتجاج کرنے کی راہوں تک کو بند کرنا زبان ثقافت سیاست پر کنٹرول رکھ کران پراثرانداز ہونا لوٹ کھسوٹ ظلم و جبر کی ایک تاریخ رقم کرنا دفاع یا مزاحمت کی صورت میں انکی نسل کشی شروع کردینا گاوں کے گاوں کو گھیر کے صفحہ ہستی سے مٹانا عورتوں کی عزت اور معصوم بچوں کی زندگیوں سے کھیلناایسے ناروا اور گھناونے عمل کے بعد تسلیم ہونے کی پیشکش کرنا سیدھی طرح سے انسانی وقار پر وار کرکے جبرا کسی کو اسکے حق سے داستبردار کرانا ہے یہ دشمنی حادثاتی یا واقعاتی نہیں ہے کہ کچھ لوگ بیٹھے بیٹھے کسی معمولی بات پر لڑ پڑے ہیں یااس دشمنی اور جنگ کے پیچھے کوئی حادثاتی واقعہ کارفرما ہے کہ اسکو بھول کر معافی دی یا قبول کی جائے یا ہتھیار پھینک کر گلے ملا جائے۔
یہاں دوبارہ میں دنیا کی جنگی تاریخ کے مطالعے پر زور دوں گااگر ہم بلوچوں کی جنگی تاریخ پر نظر دوڈائیں تو سرداروں خان میر معتبروں کے تسلیم ہونے کے انگنت واقعات سامنے آتے ہیں ان میں میرہزار بجارانی کا دشمن کے سامنے تسلیم ہونے کا واقعہ اس لئے بھی منفرد اور بڑا واقعہ ہے کہ وہ پندرہ ہزار نفوس کے ساتھ تسلیم ہوئے تھے جن میں دو ہزار مسلح جنگجو شامل تھے جن میں سے ایک ہزار کے قریب جنگجوں کو دشمن نے انتظامی لیویز کی نوکری دیکر تحریک پر ضرب لگایاتھا اس کے باوجود ہم دیکھ چکے ہیں کہ تحریک سترکی دہائی سے زیادہ وسیع منظم و مضبوط صورت میں ابھرکر سامنے آیا تحریک کے حالیہ ابھار کے گذشتہ دو تین سالوں میں دوبارہ سے دشمن کے سامنے تسلیم ہونے کے واقعات تسلسل سے سامنے آرہے ہیں شاہد اس لئے کیونکہ قومی تحریک جاری و ساری ہے دیکھا جائے توجنگیں اپنی تہہ غداری دھوکے بازی ساز باز مایوسی دباو لین دین کے ہزاروں شرمناک داستانیں رکھتے ہیں ہماری جنگ ان فطری حقائق سے خالی کیسے ہو انکا سامنا ہمیں بھی ہرصورت کرنا ہوگا لیکن وطن کے غیرت مند وفادار پاسبانوں کےلئے اپنے قومی وقار پرآنچ آنے سے موت کو ترجہح دینا آسان ہوتا ہے کیونکہ اس دنیا میں طاقت یا کمزوری فتح و شکست وطن پرستی و قوم دوستی وفا و شعور کے پیمانے مقررنہیں کرتے یہ مقررکرتے ہیں سچ و حق پر انجام کی پروا کئے بغیر ڈٹ جانا اپنے سفر کو ہر حال میں جاری رکھنا مشکلات کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنا۔
مجھے یقین ہے کہ آج بلوچ سرزمین پر ہزاروں نوجوان ایسے بھی ہیں جو دشمن کو ولیم کے طرح یہی جواب دینگے کہ معافی تم مانگو ہراس بلوچ سے جو بلوچ گل زمین کے باسی ہیں اپنا سر جھکا کر معافی مانگو اپنے ناجائز قبضہ اور قبضے کے بعد ستر سالہ لوٹ مار و قتل و غارت گری کےلئے معافی مانگوبلوچوں کی قومی وقار و عزت کو پامال کرنے کےلئے معافی مانگو بلوچ ماں و بہنوں سےاس درد کےلئے جو تم نے انکے پیاروں کو ان سے چھین کر انکو دیئے معافی مانگو اسیران کے اذیت و تکلیف کےلئے معافی مانگو ان معصوم بچوں کےلئے جنکے سرکا سایہ چھین کر تم نے انکو یتیم بنایا معافی مانگوگھروں کو جلانے و گرانے کےلئے معافی مانگو مال مویشیوں کی چوری کرنےکےلئے ہر ناروا عمل و ظلم پر سر جھکا کے معافی مانگو اور معافی مانگتے مانگتے ہمارے وطن کے سرحدوں سے نکل جاو ورنہ یہ جنگ وطن و قوم کی پاسبانی کےلئے جاری رہیگا