اتوار، 24 جولائی، 2016

ھیٹرو جینیٹی اور بلوچ شناخت



ھیٹرو جینیٹی اور بلوچ شناخت
تحریر: ڈاکٹر تاج محمد بری سیگ ترجمہ:ڈاکٹر دین محمد بزدار
(یہ مقالہ ڈاکٹر تاج محمد بری سیگ نے تحریر کی جو بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ بلوچی کے میگزین ’’ہنکین‘‘ میں شائع ہوئی اس مقالہ کی افادیت کے پیش نظر اس کا اردو ترجمہ قارئین کیلئے پیش ہے)
خلاصہ۔۔۔ یک نسلی اور کثیر النسلی اور بلوچ شناخت کامسئلہ غیر بلوچوں کے مابین ایک سوال رہا ہے اور لفظ بلوچ کی تشریح ابتداء سے تاریخ میں غلط کی گئی اس مقالہ کے لکھنے کا مقصد لفظ بلوچ کی ساخت اور معنی اس کی ابتداء اور پس منظر پر بحث کرنا ہے بلوچ سر زمین کی جغرافیہ‘ بلوچ قبائل کی ساخت‘ اجزاء‘ گلوبل لائزیشن اور بلوچ شناخت پر بات کرنا ہے اس کے علاوہ بلوچوں کا اپنے ہمسایہ استبدادی قوتوں کے برخلاف عرب حکمرانوں سے مصالحت اور بلوچ ثقافتی پہچان پر بھی بات ہوگی۔
تعارف۔۔۔ جیسا کہ ایک کہاوت ہے ’’قومیں اس وقت بنتی ہیں جب تنوع (Diversity) کو قبول کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح جیسے کہ برادریاں اس وقت بنتی ہیں جب افراد آزاد ہوں پھر بھی ایک دوسرے کیلئے اور مل کر کام کرتے ہیں‘‘ بلوچ سماج کی کثرتی ساخت کو سمجھنے کیلئے اس مقالے کی ابتداء شناخت کے بارے میں بلوچ سوچ کے محتاط تجزیئے سے کی گئی جس میں قومی شناخت کی تصوراتی نقطہ نظر کو جو یکسانیت پر بہت زیادہ زور دیتا ہے رد کیا گیا اس نقطہ نظر سے شناخت سے مراد لازمی اجزاء کا مشترک ہونا ہے جو لوگوں کی خصوصیات اور پہچان کو بیان کرتی ہیں مزید یہ کہ شناخت اجتماعی مطالبات‘ مفادات اور مقاصد کے حصول کی خاطر مشترکہ جدوجہد کرنے کا نام ہے اس کے ساتھ شناخت اختلافات کی اہمیت کو بھی تسلیم کرتی ہے قومی شناخت میں تفاوت کو معمولی کہنے سے کثیر النسلی اور کثرتی اجزاء کو رد نہیں کیا جا سکتا یہ ایک تصوراتی نقطہ نظر نہیں بلکہ اس کی جڑیں انسانی سماج کی چھان بین سے ملتی ہیں جس میں کثیر النسلی اور شناخت کے مشترک اجزاء مل کر بلوچ کے مثبت مستقبل کی تعمیر کے طاقتور عناصر بناتی ہیں فی الواقع تفریق اور مشترکہ خصوصیات میں مصالحت کی مشکل مل کر بلوچ شناخت کی تعریف کا لازمی حصہ بناتی ہیں حقیقت میں بلوچ کا اپنے شناخت کے بارے اس تصوراتی خیال کی جانب یہ رجحان کہ اس کی شناخت پہلے سے مکمل ہو چکی ہے نہ کہ ابھی تک اسے حاصل کرنا ہے اس کی سوچ میں ایک اور کمی ہے اسی لئے ان حالات کے بارے بہت کم سوچا جاتا ہے جو بلوچ قومی شناخت کے بنانے اور بگاڑنے میں حصہ لیتی ہیں یہ یقین کہ اتحاد کو نہیں روکا جا سکتا پہلے سے طے شدہ فیصلہ ہے جو اس تصوراتی سوچ کی پیداوار ہے ایسا ہی ایک اور خطرناک رجحان کچھ بلوچ قوم پرستوں کی یہ سوچ ہے کہ بلوچ اتحاد اور انتشار کی قوتیں علیحدہ اور ایک دوسرے سے آزاد ہیں وہ ان قوتوں کے مابین منطقی (Dialectical) تعلق کو نظر انداز کرتے ہیں اس لئے ہمیں بار بار کہا جاتا ہے کہ کچھ عناصر اتحاد کے ہیں (جیسے زبان‘ مشترکہ ثقافت‘ جغرافیہ‘ مشترکہ تاریخ) اسی طرح کچھ عناصر تقسیم کرنے کے ہیں (جیسے فرقہ روایت‘ قبائلیت‘ مقامیت اور علاقائیت) اگر ہم اس کی بجائے ان قوتوں کی منفیعت کو منطقی تعلق کے لحاظ سے دیکھیں تو بلوچ شناخت کی تعریف میں اتحاد اور نفاق کی قوتوں کے عمل کا بیک وقت اور باقاعدہ تجزیہ شامل ہے یہی نقطہ اس دلیل کو ممکن بناتا ہے کہ بلوچ ایک نسل نہ ہونے کے باوجود ایک ہو سکتے ہیں اور اسی طرح یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ان میں تضاد ہونے کے باوجود اختلاف نہیں ہے۔
بلوچ ہونے کا سوچ (The Sense of Belonging)۔۔۔ بلوچستان کی جغرافیہ اور جغرافیہ سے متعلق سیاست کی مخصوصیت نے بلوچ کردار اور دنیا کے بارے ان کی سوچ‘ ثقافتی عناصر اور روایات کی جس طرح وہ تجدید اور تشریح کرتے رہے تھے اسے متاثر کیا اور نیا رخ دیا بلوچ داستانیں اور یاداشتیں نسلوں اور صدیوں تک زندہ رہتی ہیں جو ان کی اجتماعی تعریف (Defination) کیلئے مواد اور سیاق و سباق مہیا کرتی ہیں اور دوسروں کے سامنے ان کی اجتماعی شناخت کو یقینی بناتی ہیں سطح مرتفع ایران کے جنوب مشرق میں 600000sqKM پر پھیلی تنوع اور سماجی رنگارنگی سے بھرپور بلوچستان‘ فرانس (551500sqKM) سے بڑا ہے بلوچستان ڈھلوان اور ریگستان کی سخت سر زمین ہے جسے کئی پہاڑی سلسلوں کی زنجیریں کاٹتی ہیں اتنے وسیع سر زمین کی آب ہوا میں بھی قدرتی طور پر غیر معمولی فرق ہوتا ہے شمال اور اندرون بلوچستان کی بلندیوں پر سردیوں میں اکثر درجہ حرات 40تک گر جاتی ہے جبکہ موسم گرما معتدل رہتی ہے ساحلی علاقہ بہت گرم ہے جہاں گرمیوں میں درجہ حرات 100۔130F تک چلی جاتی ہے جبکہ سردیوں کا موسم اچھا ہوتا ہے بحرہند سے آنے والی جنوب مغربی مون سون کے راستے میں ہونے کے باوجود بلوچستان میں شاہد ہی 5۔10انچ سے زیادہ سالانہ بارش ہوتی ہے اس کی وجہ ساحل مکران کے ساحلی پہاڑوں کا کم اونچا ہونا ہے رہن سہن کے طریقے (Ecological Factors)زرعی اراضیات اور چراگاہوں کے ٹکڑوں میں تقسیم کی ذمہ داری ہیں جس کی وجہ سے روایتی قبائلی معیشت اور اس کے مطابق سماجی سیاسی ادارے وجود میں آ گئے۔
ہندی اور سومیری (mesopotinian) قدیم تہذیبوں کے سنگم میں ہونے کی بناء پر جغرافیہ نے بلوچستان کو ایک بے مثال حیثیت دی کچھ قدیم ترین تہذیبیں بلوچستان میں پیدا ہوئیں مہرگڑھ اب تک کی دریافت ہونے والی قدیم ترین تہذیب‘ مشرقی بلوچستان میں ہے کیچ تہذیب 4000ق م مرکزی مکران میں اور جلاشہر (City Durned) 3000ق م مغربی بلوچستان کے صدر مقام زاہدان کے نزدیک ہے اس طرح وقت کے ساتھ ساتھ مختلف مذاہب‘ زبان اور ثقافتی آبادیاں بلوچستان میں ساتھ ساتھ رہتی رہیں اسلامی دور میں بھی ہم دیکھتے ہیں مختلف اسلامی فرقوں (سنی‘ ذگری‘ شیعہ) کے ماننے والے گروہ ساتھ ساتھ پھل پھول رہے ہیں قبائلی اور نیم قبائلی سماج کے درمیان مثالی تعلقات جسے روایتی ثقافتی وراثت کی رنگینی نے مزید زرخیز کر دیا ہے بلوچ جس کی آبادی شاید ڈیڑھ کروڑ ہے ریاستوں میں تقسیم جنوب مغربی ایشیاء کی سب سے بڑی اقوام میں سے ایک ہے بلوچوں کی ابتداء کا سوال کہ بلوچ کون ہیں کہاں سے آئے کافی عرصہ سے معمہ بنا رہا چند لفظوں میں اس کا جواب قطعی طور پر دیا جا سکتا ہے مثلاً بلوچ کئی ثقافتی اور نسلی پرتوں کے مواد کا نتیجہ ہے جس پر ہزاروں سال کی اندرونی نقل مکانی و بیرونی ہجرت‘ ثقافتی درآمدگی اور جدت کی تہہ جم گئی بلوچستان جو قدیم تہذیبوں کا گہوارہ ہے نے پچھلے چند ہزار سال سے کئی نسلیں‘ لوگ‘ مذاہب اور ثقافتیں دیکھیں مستند تاریخ کی ابتداء سے تین قدیم عالمی تہذیبیں‘ دراویدین‘ سامی اور آرئین بلوچستان کی زمین پر ملیں آپسی تعلقات استوار کئے اور ایک دوسرے کو متاثر کیا کم زیادہ حد تک ان تہذیبوں نے بلوچستان پر اپنے نشان چھوڑے۔
بلوچ اصطلاح کے صحیح معنی اور ابتداء کسی حد تک دھندلا ہیں یہ نام ہو سکتا ہے دنیا کے اور قوموں کی طرح جغرافیہ کی بناء پر پڑا ہوا بلوچ لفظ کی ساخت اور معنی (Etymology) کی سوچ جس کی تائید کچھ سکالرز نے کی یہ ہے کہ بلوچ نام شاید گدوروزیا (Gedrozia) یا گودروزیا (Godrozia) سے لی گئی ہو جو سکندر اعظم (323۔356BC) کے وقت بلوچ ملک کا نام تھا گدروزیا کی اصطلاح‘‘ia’’لاحقہ کے ساتھ جیسے کہ پرشیا (Pers۔ia) انڈیا (ind۔ia) کردیا(kurdia) وغیرہ لگتا ہے یونانی(Greek) یا لاطینی (latin)بناوٹ ہے گدروزیا (Gedrozia) طلوع ہوتے سورج کی زمین ’’میڈین‘‘ (Median) سلطنت کا سب سے مشرقی صوبہ(Strapy) تھا شاید اس کا معین مقام اس کے نام گدروز‘ یا گدروزیا کا س سے بنیادی ماخذ تھا یہ خیال رہے کہ سطح مرتفع ایران میں دو اور ملک خوران (khoran) اور نیمروز (Nimroz) دونوں نے اپنے نام اسی ماخذ ’’سورج‘‘ سے لئے انہیں طلوع ہوتی سورج کی زمین کہتے ہیں استان لاحقہ کی طرح روز‘ روچ بھی ایرانی زبان میں کئی ’’جگہوں اور فیملی نام‘‘ کی بناوٹ کا ایک لاحقہ ہے۔
کردش سکالر محمد امین سراجی نے کرد اصطلاح کی ساخت اور معنی پر تحقیق کی اسے یقین ہے کہ بلوچ اصطلاح باروچ (Baroch) یا باروز (Baroz) کی بگڑی شکل ہے اس اصطلاح کے معنی اور ابتداء پر دلیل دیتے ہوئے سراجی کہتا ہے باروز کے کردی اور بلوچی میں یکساں معنی ہیں جس کا مطلب ہے طلوع ہوتی سورج کی زمین BA۔Roch) یا سورج کی طرف (سراجی کی رائے ہے کہ میڈین ایمپائر کے سب سے مشرقی کونے میں ہونے کی بنا اس ملک نے اپنا نام ’’باروچ‘‘ یا ’’باروز‘‘ شاید میڈین دور (میڈین سلطنت BC 550۔630 تک حاوی تھی) میں لی ہو گی ان کے مطابق مشرقی کردستان میں کئی قبائل رہتے ہیں جنہیں باروزی (Barozi) کہتے ہیں (علاقے کے مشرقی جانب آباد ہونے کی بناء پر) قدمی میزوپوٹے مین عبارتوں کی وجہ سے کچھ سکالر کا خیال ہے کہ بلوچ لفظ میلوکھا (Melukhkha) میلوچا(Mlucha) یا ملیچا (Mleccha) کی بگڑی شکل ہے جو جدید مشرقی مکران کا تیسری اور دوسری صدی ق میں نام تھا۔
ساخت اور معنی کے لحاظ سے دیکھیں تو بہت سے ملکی اور علاقائی نام چار بنیادی سمتوں) شمال‘ جنوب مغرب اور مشرق) سے لی گئی ہیں مثلاً انگریزی لفظ جاپان‘ جاپانی اپنے ملک کیلئے جاپانی بولتے ہوئے استعمال نہیں کرتے یہ ایک بیرونی نام (Exonym) ہے جاپان کیلئے جاپانی نام نپن (nippon) اورنہون (Nihon) ہیں نپن اور نہون دونوں کے معنی ’’سورج کی ابتداء‘‘ کے ہیں یعنی وہاں جہاں سے سورج کی ابتداء ہوتی ہے اور اس کا عام طور ترجمہ ’’طلوع ہوتی سورج کی زمین‘‘ کے کرتے ہیں یہ نام چین کی سوئی شاہی خاندان کے ساتھ جاپان شاہوں کے خط و کتابت سے آیا جو جاپان کو چین کے لحاظ سے مشرقی جانب ظاہر کرتا ہے لفظ بلوچستان کی نشان دہی بلوچی اندرونی نام (Endonym) ہونے کی بناء زیادہ صحیح اور یقین سے کی جا سکتی ہے اس اصطلاح کے دو حصے بلوچ اورستان ہیں لفظ کا آخری حصہ ستان جگہ کیلئے ہندی اور ایرانی لاحقہ ہے اور علاقے کے کئی زبانوں میں یہ نمایاں ہے بلوچستان نام کے معنی صاف طور پر ’’بلوچ زمین‘‘ کے ہیں جو اس ملک کی بلوچوں سے موسوم کر کے اپنے میں قومی تعبیر کی مفہوم رکھتی ہے اس موضوع پر سویت سکالر گنگووسکی اس نام کی ابتداء کو ’’بلوچ فیوڈل قومیت کی تعمیر‘‘ اور بارہویں سے پندرہویں صدی کے درمیان بلوچوں کا اپنے نام (بلوچ) کے ساتھ جو آج تک چلا آ رہا ہے اس ملک میں پھیلنے کا سبب قرار دیتے ہیں۔
بلوچ دو بڑے گروپوں میں تقسیم ہو سکتے ہیں ان میں سے بڑی اور زیاسہ پھیلی ہوئی بلوچی یا اس کا کوئی لہجہ بولتے ہیں یہ گروپ زیادہ پورا اترنے والے بلوچ ہونے کی نمائندگی کرتے ہیں دوسرے گروپ میں وہ بلوچ ہیں جو بلوچی نہیں بولتے ان میں سندھ اور پنجاب اور مشرقی بلوچستان کے براہوئی بلوچ شامل ہیں جو بالترتیب سندھی سرائیکی اور بولتے ہیں اس کے باوجود کہ دوسرا گروپ لسانی لحاظ سے مختلف ہے لیکن وہ بلوچ ہونے پر یقین رکھتے ہیں اور اس یقین پر ان کے ہمسایہ بلوچی بولنے والے بھی اعتراض نہیں کرتے مزید یہ کہ کئی نمایاں بلوچ لیڈر اسی گروپ سے آئے ہیں اس لئے زبان بلوچوں کے مذہبی او رثقافتی اتحاد میں کبھی رکاوٹ نہین رہا سٹرک‘ مواصلات اور پرنٹ میڈیا سے پہلے بھی ’’دودا‘‘ اور ’’شاہ مریدوحانی‘‘ کی کہانیاں بلوچستان کے طول و عرض میں مقبول تھیں۔
کثیر النسل مجموعہ ہونے کے باوجود بعض حالات میں بلوچ روایات کی تصدیق شدہ اور قبائل میں محفوظ ایک نسب ہونے کو بھی مانتے ہیں کچھ سکالرز نے بلوچ کے لئے سامی نسب ہونے کا دعویٰ کیا ایک ایسا دعویٰ جسے بلوچ نسب (Genealogy) اور روایاتی پشت پناہی کے علاوہ بلوچ لکھاریوں میں بڑی پذیرائی حاصل ہے بے شک یہ رائے حقائق (یہ بتانا ضروری ہے کہ انہیں ثابت کرنا بہت مشکل ہے) سے مطابقت نہ رکھتا ہو وہ سوچ جو گروپ کے افراد عالمی طور پر رکھتے ہیں کی ایک اہمیت ہوتی ہے اس لحاظ سے کردش نیشنلزم ایک اچھی نظیر پیش کرتی ہے یہ حقیقت ہے بہت سے مشترکہ نسلی عناصر نے کرد قوم کے بنانے میں حصہ لیا دوسرے عناصر بھی ہیں جو کردوں کو داخلی طور پ تقسیم کرتی ہیں جبکہ وہ زبانیں جنہیں کردش کہا جاتا ہے‘ فارسی‘ ترکی اور عربی کی طرح ایک نہیں یہ آپس میں سمجھ نہ آ سکنے والی زبانیں ہیں جغرافیائی لحاظ سے ’’کرمنجھی‘‘ اور’’سورانی‘‘ بولنے والے علاقوں کی تقسیم شیعہ اور سنی اسلامی عقائد کی تقسیم کے مطابق ہے ان سب عناصر کے باوجود کرد مشرق وسطیٰ کی قدیم ترین قدموں میں سے ایک ہیں۔
قبائلی وفاداریاں بلوچ سماج میں حاوی چلی آ رہی ہیں بلوچ اکثریت کی جانثاری کے جذبات اپنے خاندان‘ ٹکر‘ قبیلے سے ہیں بلوچ قبائل میں ایک نسب کا نظریہ‘ ٹکڑوں میں اتحاد اور تفریق مشترق ہیں ان اصولوں پر ٹکر کی نچلی سطح تک حقیقت میں عمل ہوتا ہے لیکن سیاسی اتحادیں اور وہ طاقتیں جو ان ٹکرز کو بڑی اتحاد میں یکجا کرتی ہیں ان اصولوں کو رد کرتی ہیں ایک روایتی قبائلی سماج میں ایک سیاسی نظریہ جیسا کہ بلوچ نیشنلزم حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہوگا کیونکہ قبائلی افراد کی وفاداریاں قبیلے سے بڑھ کر قوم تک نہیں پہنچ پاٹیں بلوچ نیشنلزم پر قبائل کا متحد نہ ہونا ایک قبائلی رویہ ہے جسے ایران اور پاکستان کے بلوچ بغاوتوں میں بار بار دیکھا جا سکتا ہے قبائل میں ایک فرد کی شناخت ایک بڑے گروپ کا حصہ ہونا ہے یہ بڑا گروپ قوم نہیں ایک قبیلہ ہے باہر حال زیادہ قبائلی ڈھانچے پر ایک غیر قبائلی تحریق کے ابھرنے کی اہمیت کو کم نہیں سمجھنا چاہئے اس لحاظ سے 1920‘ 1930ء اور1940ء کے دہائیوں کی بلوچ تحریکیں ہمارے لئے اچھی مثال ہیں۔
بلوچ نے قوم پرستی کے ایک نظریئے کی تخلیق کی لیکن محسوس کیا کہ قبائلی مدد اب بھی قومی تحریق کی ممکنہ کامیابی کیلئے اہم جز ہے قبائلی مدد حاصل کرنے پر قوم پرست قبائلی مخاصمتوں کا شکار بنتے ہیں اگرچہ قبائلی بندھنیں جنوبی بلوچستان (پاکستانی اور ایرانی بلوچستان)‘ مکران میں غیر اہم ہیں جو ابتداء سے ایک تہدار سوسائٹی تھی جس میں نام کی حد تک بلوچ زمینداروں کا ایک طبقہ جو زرعی زمینوں کا مالک ہے جنہیں بلوچستان کے قبائل کی اکثریت اور باہر کے لوگ بھی بلوچ سمجھتے ہیں۔
سیاسی لحاظ سے 1839 ء میں قلات کے بلوچ ریاست پر برطانوی قبضہ شاید سب سے بڑا واقع اور بلوچ تاریخ کا اہم موڑ ثابت ہوا جس
دن برطانوی فورسز نے قلات پر قبضہ کیا بلوچ تقدیر ڈرامائی انداز سے بدلی تکیف دہ نتائج میں ان کے زمین کی تقسیم اور غیر ملکی فوجوں کا ان پر دائمی قبضہ تھا 1917ء کے روسی شوشلسٹ انقلاب کی جنوب کے جانب پھیلنے کے خوف سے برطانیہ نے1928ء میں مغربی بلوچستان پر قبضہ کیلئے ایران کی مدد کی تاکہ ایران ک ومضبوط کر کے روس کے راستے میں رکاوٹ کے طور پر استعمال کیا جا سکے اور برطانیہ کی یہی پریشانی بعد میں 1948ء میں پاکستان کا مشرقی بلوچستان کے ہڑپ کرنے کا سبب بنی اس طرح نو آبادیاتی مفادات نے بلوچ کے خلاف کام کیا اور انہیں حق خود ارادیت اور ریاست کے حق سے محروم کیا اس رائے کی تصدیق کرتے ہوئے 2006ء میں ایک مشہور یورپی تھنک ٹینک ’’فارن پالیسی سینٹر‘‘ جیسے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی سرپرستی میں شروع کیا گیا تھا ایک پمفلٹ میں انکشاف کیا کہ 1948ء میں قلات کا پاکستان کے ساتھ جبری الحاق برطانیہ کے تجویز پر ہوا تھا قبائل اعتبار برطانوی حکومتی ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے‘ فارن پالیسی سینٹر کا کہنا تھا کہ ستمبر1948ء میں سیکرٹری سٹیٹ لارڈ لیسٹوویل نے ماونٹ بیٹن کو مشورہ دیا کہ قلات کے مقام کی وجہ سے یہ نقصان دہ اور خطرناک ہوگا کہ اسے آزاد ہونے دیا جائے بعد میں پاکستان میں عینات برطانوی ہائی کمشنر کو بھی اسی طرح لکھا گیا کہ پاکستان کو ایک آزاد اور خودمختار قلات ریاست وجود میں لانے کے معاہدے دور رکھنے کے لئے اس سے جو بھی ہو سکے پاکستان کی رہنمائی کرے۔
بیسویں صدی کے شروع سے بلوچستان کے سیاسی حدود اور طبعی (Physical)حدود منبطق نہیں یہ بہت مختلف ہیں مشرقی بلوچستان پر جس کا مرکز کوئٹہ سے 1948ء سے پاکستان حکومت کر رہا ہے مغربی بلوچستان جسے سرکاری طور ’’سیستان و بلوچستان‘‘ کہا جاتا ہے جس کا مرکز زاہدان ہے پر 1928ء سے ایران کا کنٹرول ہے اور شمالی بلوچستان جسے ولایت نیمرو زکہتے ہیں بیسویں صدی کے شروع سے افغان کنٹرول میں ہے۔
مشترکہ تاریخ۔۔۔بلوچ بھی کردوں کی طرح اپنی ریاست کے حق سے محروم جنوب مغربی ایشیاء کی بہت بڑی نسل برادری ہے بلوچ لوک کہانیاں اور روایتی داستانیں بتاتی ہیں کہ موجودہ بلوچستان میں بلوچوں کی بڑی آمد مختلف ادوار میں مختلف جگہوں سے ہوئی لسانی شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچ بحرہ کیسپین کے علاقے سے جنوب کو منتقل ہوئے اس پس منظر میں دیکھا جائے تو لگتا ہے بلوچوں کے کئی جغرافیائی‘ سیاسی اور سماجی ماحول بدلے اس طرح انہوں نے مختلف فتوں اور طرز زندگی سے نباہ کرنا سیکھ لیا بلوچ تاریخ خودمختاری اور آزادی کیلئے ناکام بغاوتوں کا تسلسل ہے ان کی تاریخ ہمیں نسل کشی‘ جبری ادغام‘ جلاوطنی اور ملک بدری کے بارے بتاتی ہے ابتداء سے ہی بلوچ قومی شناخت کو بنیادی طور پر ایسے تجربوں سے گزرتے دیکھا جا سکتا ہے بلوچ کی ابتدائی سیاسی تاریخ غیر واضح ہے یہ خطہ میں خلافت کے مرکزی حکمرانی کی تنزلی سے شروع ہو کر اور بعد میں گیارہویں صدی کے ابتدائی سالوں سے مکران میں بلوچوں کو ابھرتے دکھائی دیتی ہے 707 میں اموی جنرل محمد بن قاسم نے مکران فتح کیا اس کے بعد عرب گورنروں نے اس ملک پر دسویں صدی کے آخر تک جب عباسی خلیفہ تنزلی کا شکار ہوئے حکمرانی کی تھی مکران پر عربوں کی براہ راست حکمرانی تین صدی رہی بلوچ رفتہ رفتہ اسلام قبول کر کے وسیع علاقے (مشرق میں دریائے سندھ سے مغرب میں کرمان تک) پر پھیلے اور بلوچ قبائل نے ایک نئی اسلامی مشترک شناخت حاصل کی پس اسلام نے انہیں اضافی پیوستگی دی عرب حکمرانوں نے انہیں شمال سے ایران کی مستقل سیاسی اور فوجی دباؤ سے بھی نجات دلائی اس کے علاوہ جیسا کہ کہا گیا
تجارت اور کامرس کی ترقی سے بلوچوں کو مادی فائدے ہوئے عربوں کے زیر کنٹرول بندرگاہوں اور گاؤں میں تجارت کو خوب ترقی ملی پرانے خشکی اور سمندری تجارتی راستے بحال ہوئے جس سے مغربی مکران کے راستے ہندوستان کا رابطہ ایران اور عرب سے ہوا۔
عرب حکمرانی میں بلوچ قبائلی سردار مسلمان مراعات یافتہ طبقے کا حصہ بنے اور اپنے آپ کو عرب خلفا میں شمار کیا اور خطہ میں ان کی نمائندگی کرنے لگے بلوچ اور عرب خلفاء کے مابین تصادم ایک جانب اور ہمسایہ غیر مسلم طاقتوں کے مابین دوسری جانب سے بلوچ مسلم شناخت کو مضبوط کیا جبکہ دوسری جانب عرب خلفاء اور بلوچوں کے درمیان تصادم نے ’’قبائلی اتحاد اور مشترکہ بیداری‘‘ میں اضافہ کیا عرب سلطنت اور بلوچ کو درپیش خطرات نے لڑنے پر آمادہ بلوچ قبائل میں فاصلوں کو رفتہ رفتہ کم کر دیا اس عمل میں اسلام نے ایک متحد کرنے والی سیاسی نظریئے کے طور پر کام کیا اور بلوچ قبائلی سماج اور اس کے مختلف سماجی طبقوں میں مجموعی طور ایک مشترک ثقافت کو فروغ دیا لگتا ہے ان تبدیلیوں نے بلوچ کو وسیع قبائلی فیڈریشن بنانے کے قابل ہونے میں نمایاں کردار ادا کیا جس کی وجہ سے گیارہویں سے تیرہویں صدی میں رفتہ رفتہ اس خطہ پر جسے اب بلوچستان کہتے ہیں بلوچوں نے سیاسی اور عسکری برتری حاصل کی اس طرح ابتدائی قرون وسطیٰ نے پہلی امتیازی بلوچ کلچر کوابھرتے اور بلوچ سلاطین اور ریاستیں بنتے دیکھیں پہلی بڑی اسلامی فتوحات کے بعد جونہی عرب طاقت میں تنزلی شروع ہوئی اور ساتھ ہی اسلام سنی اور شیعہ دو مذہبی عقائد میں تقسیم ہوئی بلوچ قبائل اس انتظامی سیاسی اور روحانی خلاء کو پر کرنے آگے بڑھے بارہویں صدی سے بلوچوں نے مضبوط قبائلی اتحاد بنائے میر جلال خان نے 44قبائل کی فیڈریشن بارہویں صدی میں‘ رند لاشار کنفیڈریسی پندرہویں صدی میں اور سترہویں صدی میں ملک‘ دودائی‘ بلیدی‘ مکران کے گچکی اور بلوچستان کے خان نے مختلف اوقات میں تمام بلوچوں کو متحد کیا اس کے علاوہ تیرہویں اور چودہویں صدی میں مغل اور تاتار کے حملوں‘ جنگوں اور بڑی نقل مکانی‘ قبائل کے مابین اتحادوں اور شادی بیاہ نے بلوچ شناخت کو ڈھالنے میں مدد کی۔
اس طرح تاریخی تجربات نے بلوچ قومی شناخت بنانے میں اہم کردار ادا کیا اس لحاظ سے سوس(Swis) تجربہ میں غیر معمولی یکسانیت ہے مشترکہ لسانی او رثقافتی تاریخ نہ ہونے کے باوجود مشترکہ تاریخی تجربہ اور مشترکہ آرزوؤں پر اتفاق کی طاقت قومی تشکیل کیلئے کام کرنے والے گروپوں کو یکجا کرنے میں کافی ہوئی بلوچوں کی گزشتہ سو سالہ تاریخ روایتی سماج سے ’’زیادہ ماڈریٹ‘‘ ایک مقابلتاً اصطلاح ہے یہ ماڈرن سماج کیلئے استعمال نہیں ہوتا جوارتقائی عمل کا آخری نتیجہ ہے سماج کی جانب ارتکاکی تاریخ ہے اس طرح ابتدائی تحریکوں کا قبائلی معیار پر اور بعد کی تحریکیوں کا نیشنلزم پر زیادہ انحصار ہے اس طرح ابتدائی تحریکیوں میں تنظیمی عناصر قبائل ہیں جب عوام کو تیار کر کے سیاسی اداروں کی جانب راغب کیا جاتا ہے تو سیاسی پارٹیاں رفتہ رفتہ قبائل کی جگہ لے لیتی ہیں۔
ثقافت اور بلوچ شناخت۔۔۔ جغرافیہ مدد کرتی ہے کیونکہ یہ بلوچ کو تفاوت کی سوچ سے شناسا کرتی ہے اس طرح بلوچ کلچر زیادہ تر ملک کے جغرافیہ کے ممنون ہے سخت موسم‘ مخصوص پہاڑی سلسلے پر اعتماد اور تکلیف برداشت کرنے والے لوگوں کی پرورش کرتے ہیں ایسے حالات بہر حال تنہائی اور آمدورفت میں مشکلات کا بھی باعث ہیں طبعی جغرافیہ کے لحاظ سے بلوچستان کا بہ نسبت برصغیر ہند کے سطح مرتفع ایران سے کافی کچھ مشترک ہے شمال میں کوہ سلیمان کی جنوبی پشتوں کی رکاوٹیں اسے ہندوستان سے جدا کرتی ہیں جنوب کی جانب قلات سے ناقاب
تصور بنجر پہاڑی بلندیاں اپنا رخ سندھ کے ریگستان کی جانب موڑے ہندوستان سرحد تک پاؤں پھیلائے ہوئے ہیں ثقافتی مرکز اندرون بلوچستان جنوب اور وسط میں وادی کیچ پنجگور اور بمبور میں ہے کلچر جس کا اظہار زبان‘ ادب‘ رسم و رواج اور عقائد سے ہوتا ہے مختلف ناگزیرڈوروں کا پیچیدہ مجموعہ ہے بلوچ کی سلجھاؤ‘ صلح جوئی اور برداشت کی طاقت نے ان کے کلچر کو کئی نشیب و فراز میں زندہ رہنے کے قابل بنایا بلوچ لوگ پنجابی اور فارسی اشرافیہ سے مختلف ہیں جو پاکستان اور ایران کی سیاست پر قابض ہیں بلوچ اپنی علیحدہ زبان و ثقافت کے ساتھ مسلمان ہیں لیکن اپنی سوچ میں زیادہ سیکولرہیں(بالکل اسی طرح جس طرح کرد) سپونر نے بلوچی زبان کی اہمیت کی نشاندہی کی کہ بلوچی ان تمام گروپس کو جو اپنی شناخت آج کل بلوچ کے لحاظ سے کرتے ہیں انہیں آپس میں جوڑنے کا اہم عنصرہے اس نے لکھا ’’بلوچستان میں بلوچ شناخت قبائل کے مابین تعلقات میں بلوچی زبان کے استعمال سے قریبی منسلک ہے‘‘ نصف صدی کی بے رحم جذب کرنے کی پالیسی کے باوجود پاکستان اور ایران دونوں میں بلوچ عوام نے اپنی کلچر اور زبانی کہانیاں سنانے کی روایات کو باقی رکھا یہ رجحان موجودہ ریاستوں کو مصنوعی سمجھ کر انہیں رد کرنے کو ظاہر کرتا ہے اور لسانی شناخت سے منطبق سیاسی اتحاد کا مطالبہ کرتا ہے عام تاثر یہ ہے کہ بلوچستان میں صرف ایک چھوٹی اقلیت بلوچ ہونے کی سوچ سے عاری ہے یہ اقلیت سیستان میں فارسی اور مشرقی بلوچستان میں پشتون ہیں بہر حال یہ بتانا ضروری ہے کہ ماضی میں نزدیک تمام بلوچ قبائلی اتحادوں کا کثیر نسلی اور لسانی ہونا عام تھا 15ویں صدی کی رند لاشار اتحاد‘ مکران میں زگری ریاست‘ قلات کی براہوئی کنفیڈریسی تمام مختلف قبائلی ایجادوں پر مشتمل تھے قلات کے رعایا کو کبھی براہوئی بولنے پر آمادہ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی بہت سے قبائل اپنی پہلی زبان کے طور براہوئی نہیں بولتے تھے اور قلات کے رعایا کی اکثریت براہوئی بالکل نہیں بولتے تھے براہوئی قبائل براہوئی‘ لاسی اور جدگالی جدگالیا اور بلوچ بلوچی بولتے تھے۔
قبائلی ہونے کی حیثیت سے بلوچ عوام کی عام زندگی میں مذہب کا عمل دخل کم ہے یہ عام خیال ہے کہ خطہ میں اسلامی بنیاد پرستی ابھرنے سے پہلے بلوچ مذہبی طور اتنے پارسانہ تھے جتنے کہ ان کے ہمسایہ فارسی‘ پنجابی اور پشتون تھے ان کی بنیادی وفاداریاں اپنے قبائلی لیڈروں کے ساتھ تھیں وہ افغان کی طرح مذہبی تنگ نظر بھی نہیں جیسا کہ انیسویں صدی میں سرڈنزل ابیٹسن نے بلوچ کی تعریف کی ’’ان کے سر میں کم خدا اور فطرت میں کم شیطانی اثرات بھری ہیں‘‘ اس طرح تاریخی طور کہا جا سکتا ہے کہ اپنے ہمسایہ کے مقابلے میں مذہبی لحاظ سے بلوچ زیادہ سیکولر اورکثرتی اعتقاد کے حامل ہیں کیونکہ پاکستانی ریاست نے اپنے آپ کو جائز ثابت کرنے کیلئے اسلامی بنیاد پر دو قومی نظریہ (اسلام ہندو ازم) کا لبادہ اوڑھا‘ اس کے توڑ کے لئے جیسا کہ امید تھی بلوچ اکثریت نسلی قوم پرستی پر انحصار کرنے لگے پاکستان کے مذہبی قوم پرستی کے خلاف غوث بخش بزنجو نے 1948ء میں بلوچ نقطہ نظر کو اس طرح پیش کیا ’’ہم مسلمان ہیں لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ مسلم عقیدے کی بنا لازمی اپنی آزادی کھو کر دوسری قوم میں ضم ہوں اگر مسلمان ہونے کی بنا پاکستان میں ہماری شمولیت ضروری ہے تو دوسری اسلامی ریاستیں‘ افغانستان اور ایران کو بکھی پاکستان میں ضم ہونا چاہئے۔‘‘
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا لسانی لحاظ سے بلوچ سماج میں فرق ہے مشرقی اور شمالی بلوچستان میں کافی براہوئی بولنے والے ہیں جو ثقافتی لحاظ سے
بالکل بلوچ جیسے ہیں اور وہ بلوچ جو پنجاب اور سندھ میں دریائے سندھ کے میدان میں بستے ہیں نے اپنی نسلی ساخت کو برقرار رکھا اگرچہ اب وہ سرائیکی اور سندھی بولتے ہیں گوکہ براہوئی‘ بلوچی مختلف زبانیں ہیں زیادہ زبانیں جاننا ان میں عام ہے اس حقیقت کو جانتے ہوئے طارق رحمان کا خیال ہے ’’بلوچی اور براہوئی زبانیں بلوچ شناخت کی علامت ہیں اور شناخت بلوچ نیشنلزم کا لازمی حصہ ہے‘‘ بہت سے عناصر میں سے جو بلوچ شناخت کی تعمیر میں حصہ لیتے ہیں شاید سب سے اہم مشترکہ سماجی اور معاشی ساخت ہے کیونکہ جب سے بہت سے نسلی گروپوں نے ملک کر بلوچ لوگوں کے بنانے میں حصہ لیا اور جبکہ مختلف گروپوں میں زبان اور لہجے کئی لحاظ سے مختلف ہیں ایک خاص قسم کی سماجی اور معاشی تنظیم جسے ’’قبائلی کلچر‘‘ کہا جاتا ہے سب میں مشترک ہے یہ مخصوص قبائلی کلچر ماحول‘ جغرافیہ اور تاریخی قوتوں کی پیداوار ہے جنہوں نے مل کر بلوچ زندگی اور اس کے اداروں کی مجموعی ڈھانچہ کی تشکیل کی بلوچ نیشنلزم پر مستند حیثیت کے مالک سلگ ہیریسن 1980ء کی دہائی میں بلوچ معیشت کے بارے لکھتے ہیں ’’خانہ بدوش مالداری یا بندوبستی زراعت میں سے ایک پر مکمل انحصار کرنے کی بجائے اکثر بلوچ زندہ رہنے کیلئے دونوں کام کرتے ہیں‘‘۔
سوشالوجی کا ایک مسلمہ اصول بیرونی تضادات اور اندرونی تصال کے مابین مثبت تعلق بیان کرتا ہے ایک ایسا مخصوص مرکز نگاہ جس کے بارے ہر وقت اظہار ہوتا ہے اور اس پر بلوچ متفق ہے وہ ہے گجر (فارسی) اور پنجابی تسلط کے خلاف نفرت۔ بیرونی تسلط کے خلاف مشترکہ جدوجہد ایک جانب مشترکہ بندہنوں کو مضبوط کرتا ہے دوسری جانب قومی احساسات کی نشوونما کرتا ہے پیرکلوز کے مطابق کئی وجوہات کی بناء جو ابھی تک غیر شفاف ہیں وہ لوگ جنہوں ن یایسی طاقتور افواج سے ٹکر لی جو ان کی سوچ اور طاقت سے باہر تھے پھر اپنی منثاء سے وہ قدیمی خیالات کی جانب جھکے اور اپنی نسلی پس منظر کی جان پہچان پر توجہ دی اس عمل کے دوران اپنی الگ شناخت کیلئے اپنے مذہب کے بنیاد پرست خیالات اپنائے ایک زبان جو کئی نسلوں سے نہیں بولی گئی تھی کو زندہ کیا‘ زمین سے تسکین کی خاطر جو ماضی میں ان کا رہا ہوگا کی جانب مڑے اس طرح کر کے وہ اپنی نئی شناخت کی تعمیر کرتے ہیں۔
بلوچوں کو ان ریاستوں سے جن میں وہ رہتے ہیں مخصوص چیلنجز درپیش ہیں مثلاً ایران جہاں خیال ہے ان کی آبادی 20لاکھ سے زیادہ ہے آزادی سے بلوچی بولنے پر پابندی ہے اور ان پر ایرانی بالادست ریاست نے کئی فوجی آپریشن کئے ایرانی اور پاکستانی ریاستوں کی جبر نے بلوچوں کے اس عزم کو اور مضبوط کیا کہ وہ اپنی وراثت آنے والی نسلوں کو منتقل کریں بلوچی زبان الگ بلوچ شناخت کا ایک ثبوت اورعلامت ہے اسے مضبوط کرنے اور اس کی ترقی کیلئے موثر کوشش کی گئیں ’’یہ محسوس کرتے ہوئے کہ زبان (بلوچی) بلوچ شناخت کا سب سے اہم اور فیصلہ کن عنصر ہے فارسی اور پنجابی بالادست ریاستوں‘ ایران اور پاکستان نے بلوچوں کو ممکنہ طریقوں سے جذب کرنے کی کوشش کی۔


0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں