پیر، 4 جولائی، 2016

زخم مندل ہوسکتا ہے، مگر ٹھیس کا کوئی علاج نہیں !!



سچ۔۔۔۔۔
تحریر۔۔۔اویس علی
زمانوں کے پار سے ایک انسان آیا اور اس نے دنیا گھوم کر جاندار قہقہ لگایا۔ اس قہقے نے ایک طوفان کھڑا کر دیا اور گھروں کی بنیادیں ہل گئیں۔ مکان سرک کر سڑک پر آ گئے اور مکین سورہ الزلزال کی تلاوت کرنے لگے۔ پرندے جن شاخوں پر بیٹھا کرتے تھے، وہ ٹوٹ کر نیچے گریں اور زمیں بوس ہو گئیں۔ زمین پر بجلیاں گریں اور بہت سے دریا سوکھ کر صحرا ہو گئے۔ جنگلوں میں آگ لگی، اور ہوا نے اسے بھڑکایا اور پھر یہ آگ بستیوں تک پہنچ گئی۔ جلنے کے خوف سے کچھ نے تو بستیاں چھوڑ دیں اور کچھ بارش کی دعا کرنے لگے۔ وہ پرندے جو گرتی ہوئی شاخوں سے پرواز کر گئے تھے، وہ مکین جو گھر چھوڑ کر جا چکے تھے اور وہ آگ جو مسلسل جل رہی تھی، ان پر آسمان نے ہلکی سی جھرجھری لے کر تھوڑا سا پانی برسایا، اور پھر صدیوں کے لیے خاموش ہو گیا۔
میں نے بھی یہ قصہ سُن رکھا تھا، سو چُپ رہا۔ مگر وہ بول اُٹھا۔
"زمانوں سے دور کے انسان نے جس سچ کو کہنے کی ہمت کی تھی، اس پر آسمان خاموش رہا اور زمین بھی۔ سچ کہنا تو دور، سچ کی تائید کی ہمت ہر کسی میں کہاں ہوتی ہے، خواہ وہ انسانوں کا خدا آکاش ہو یا ان کی ماں زمین۔"
" تائید بھی کوئی کیسے کرے ْ، سچ کہنے والا خود اپنا نہیں رہتا۔ اپنے وجود کی نا موجودگی اور اپنے غیر اہم ہونے کا احساس مسلسل اسے کھاتا رہتا ہے۔ "
"انسانی بے چارگی کے اس عظیم دُکھ کو اپنے شانے پر اُٹھا کر تم کہاں تک جا سکو گے، یہ کوئی ایسا زخم نہیں جس کے عرصہءِ اندمال میں زمانے لگ جائیں۔ تھوڑی سی ہمت سے یہی دکھ نہ ختم ہونے والی مسرت میں بھی بدل سکتا ہے"
" خواب کی سی دُنیا سے دور ہی رکھو نوجوان، ٹھیک ہے زخم مندل ہو سکتا ہے، مگر ٹھیس کا کوئی علاج نہیں"
" اپنی نئی حیثیت میں رہ کر خوش رہنا سیکھنا کچھ مشکل تو نہیں، شاید تمہاری عمر کی زیادتی نے تمہیں مایوسی کے تنگ و تاریک گڑھے میں پھینک رکھا ہے۔"
"نوجوان! عمر کے جس حصے میں تم ہو، سب ممکن دکھائی دیتا ہے۔ جوانوں کی باغیانہ روش مشہور ہے، مگر ایسی تحریکیں دیر پا نہیں ہوتیں۔ صدیوں سے ایسا نہیں ہو سکا۔ تم کیا سمجھتے ہو یہ میں ہوں؟ یہ میں نہیں ہوں، میں سینکڑوں انسانوں کی سال خوردگی کا مجمموعہ ہوں جنہوں نے اپنی عمریں اسی دکھ کی شدت کو سہتے سہتے لگا دیں۔ اب مجھ میں وہ سانس لیتے ہیں، اور میری صورت میں امر ہو گئے ہیں۔"
میں کچھ دیر رُکا اور اس کے چہرے پر آتے جاتے رنگوں کو دیکھتا رہا۔ پھر گویا ہوا،
"تم نے زمانوں کے پار کے انسان کا قصہ تو سُنا ہی ہے، ایک سچ کہنے کی ہمت نے دُنیا کی ترتیب ہی بدل کر رکھ دی تھی، ہم غیر مستحکم، کم سن مخلوق ہیں، زمین پر سانس لیتے ہوئے کوئی لمبا عرصہ نہیں گُزرا اور یہ معاملات سنکھ سالوں میں تھوڑے تھوڑے بدلتے ہیں۔
گو کہ میں نے تمام عمر اسی بے چینی کے عالم میں بسر کر دی، مگر کیا یہ مسرت کا مقام نہیں کہ میں اپنی شکل میں ماضی کے انسانوں اور ان کی کی روایت کو زندہ رکھنے کا ایک سبب ہوں، اور کسی اور کی شکل میں خود بھی زندہ رہوں گا۔ "
"یعنی ابھی اس غم سے فرار کا کوئی رستہ نہیں؟ سنکھ سالوں میں، میں نہیں ہوں گا، اپنی عمر یونہی کیوں کر گزار دوں۔ کیا سکون کی نارسائی کو مقدر سمجھ کر تمہاری مانند ایک دن بوڑھا ہو جاوں؟"
"نوجوان! تم بوڑھے ہو گئے ہو!"

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں