اتوار، 17 جولائی، 2016

کتاب ــ اعجاز منگی


کتاب 
اعجاز منگی
فرانز کافکا نے لکھا تھا کہ جو کتاب تیرے سر پہ مکا مار کر تجھے سوچنے پر مجبور نہیں کرتی وہ کتاب ہی نہیں ہے
وہ کتابیں جو مشعل راہ بنیں۔ وہ کتابیں جو جادو پر نہیں تھیں مگر ان میں ایک جادو تھا۔ وہ کتابیں جو شایع ہونے کے لیے نہیں لکھی گئیں۔ وہ کتابیں جو شایع ہوئیں تو جلائی دی گئیں۔ وہ کتابیں جو مشعلیں بن گئیں۔ جنہوں نے اپنے دور کا اندھیرا کم کیا۔ وہ کتابیں جو فریادیں تھیں۔ وہ کتابیں جو تاریخ کا فیصلہ بنیں۔ وہ کتابیں جو ابھی تک قلم سے الجھی ہوئی ہیں۔ وہ کتابیں جو سلجھی ہوئی سیاہی سے لکھی گئیں اور جنہوں نے دنیا کو اس داناہی سے آشنا کیا جو صرف ذاتی مفاد کا طواف نہیں کرتی۔ کچھ کتابیں سمندر جیسی ہوا کرتی ہیں۔ گہری اور بے چین! مگر کچھ کتابیں ساحل سمندر ہوا کرتی ہیں۔ ایسا ساحل سمندر جن پر سپنوں کے سوداگر اترتے ہیں اور ان آنکھوں کو خوابوں سے بھر دیتے ہیں جن آنکھوں میں کوئی خواب مسافر کی طرح بھی نہیں ٹھرتا۔ جس طرح یہ دنیا مختلف انسانوں کا مجموعہ ہے اسی طرح کتابوں کی بھی بہت ساری اقسام ہوا کرتی ہیں۔ کچھ کتابیں غلاموں جیسی ہوتی ہیں اور کچھ کتابیں آقاؤں جیسی! کچھ کتابیں اطاعت کی تلقین کرتی ہیں اور کچھ کتابیں انسانوں کو بغاوت پر آمادہ کرتی ہیں۔ ایسی کتابیں جن کو پڑھنے والے پاگل ہوجاتے ہیں اور وہ دنیا سے اختلافات رکھنا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ کتابوں کی سطریں انسانوں کو 
زنجیروں کی طرح جکڑ لیتی ہیں اور ایسی ہی کتابوں کے بارے میں احمد سلیم نے لکھا تھا کہ جسم پر ابھرے ہوئے نیلوں کو پڑھو۔۔

کچھ کتابیں انسانوں کو آزاد کروانے میں ایک عظیم کردار ادا کرتی ہیں۔ کتابیں ایک طرح کی نہیں ہوتیں کتابیں بہت ساری ہیں۔ مگر کتابوں سے لگن رکھنے والے انسان بھلے کچھ کتابوں سے محبت کریں مگر وہ عزت سارے کتابوں کی کرتے ہیں۔ کیوں کہ ہر کتاب ایک سیپ کی طرح ہوا کرتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر سیپ میں موتی ہو!! مگر ہر سیپ جانتی ہے کہ علم کا سمندر کتنا گہرا اور کشادہ ہوا کرتا ہے۔ کتابیں انسان کو شفا دیتی ہیں۔ کتابیں معالج بھی ہوا کرتی ہیں۔ مگر وہ بھی تو کتابیں ہیں جو انسان کو بیمار بنا دیتی ہیں۔ بدھ مت کا بانی گوتم کہا کرتا تھا کہ کتاب ایک کشتی کی طرح ہوا کرتا ہے۔ آپ اس کتاب پر سوار ہوکر بے علمی کا دریا عبور کریں مگر کنارے پر پہنچ کر اس کشتی کو اپنے کندھے میں اٹھانا عقلمندی نہیں
کتاب جب انسان میں غرور اور گھمنڈ پیدا کردے تب وہ مثبت نہیں رہتی۔ مگر یہی کتابیں ہیں جنہوں نے انسان کی انا کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دنیا میں ایسے عالم بھی ہیں جو کتابوں کی دیواروں میں قید ہوکر رہ گئے مگر اس قید خانے کے تالے کی کنجی بھی تو ایک کتاب ہی ہے۔۔ آسمانوں سے اترنے والی کتابوں سے لیکر زمین پر لکھی جانے والی کتابوں تک ایک بہت لمبی تاریخ ہے ان کتابوں کی جو کبھی پتھروں کی سلوں پر کندہ ہوا کرتی تھیں جو کبھی لکڑی کے تختوں پر لکھی جاتیں تھیں اورکاغذ کی ایجاد سے پہلے وہ کجھور کے پتوں اور کپڑے کے ٹکڑوں پر تحریر ہوا کرتیں تھیں۔ مگر بیش قیمت کاغذ سے لیکر کمپیوٹر کی اسکرین پر پڑھی جانی والی کتابوں کے سارے سفر میں انسانی شعور نے بہت کچھ حاصل کیا ہے اور یہ حاصلات ایک سرمایہ علم ہے۔ حضرت علی کا فرمان ہے کہ میں خدا کا ممنون ہوں کہ اس نے ہمیں علم سے نوازا اور جاہلوں کو دولت سے"

علم کی اس وادی میں داخل ہونے کا راستہ اور شعور کے خزانے تک رسائی کا نقشہ بھی تو وہ کتابیں ہی ہیں جو سب کے لیے نہیں بلکہ ان آنکھوں کے لیے بہت پرکشش ہوا کرتی ہیں جن میں علم کے لیے چاہ ہوا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم یونان کی وہ تہذیب جس کا عروج اور زوال ابھی تک ایک پہیلی ہے؛ اس میں سقراط جیسے استاد کو کسی بادشاہ یا امیر کے بیٹے سے نہیں بلکہ اپنے اس غریب شاگرد سے محبت تھی جس کے گھر میں سب سے زیادہ کتابیں ہوا کرتی تھیں۔ اس لیے سقراط اپنے شاگرد افلاطون کا نام لینے کے بجائے اسے کتابوں والا کہہ کر بلاتا تھا۔ انسانی تاریخ میں ہتھیار چلانے والوں نے حکومت کی ہے مگر چین کے عالم جنگ سن زو کی کتاب فن جنگ نے سارے سورماؤں کے دلوں پر حکومت کی ہے۔ آج جب دنیا ڈرون طیاروں اور روبوٹ سپاہیوں کے دور میں داخل ہوگئی ہے تب بھی سن زو کی آرٹ آف وار کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ ایک عظیم کتاب کی شناخت یہی ہوتی ہے کہ وہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہم ہوتی جاتی ہے۔ لیکن دنیا میں سائنس؛ سیاست اور نظریات پر ہی لکھی گئی کتابوں کو اہمیت نہیں ملی ۔ اس دنیا میں ان کتابوں کو بھی پیار سے پڑھا گیا جن میں محبت کی باتیں تھیں۔ جن کتابوں کو انسانوں نے نفع اور نقصان کے خیال سے بالاتر ہوکر پڑھا۔ ان کتابوں نے انسانوں کو بتایا کہ یہ دنیا صرف دولت اور طاقت کی بازی نہیں۔ اس میں کچھ محبت ہے۔ کچھ حسن ہے۔ کچھ نیکی اور بہت بڑی سچائی ہے!!

اب تو کتابیں ترقی کے جانب جانے والے راستے کے سنگ میل بن گئی ہیں۔ اب تو کتابوں کو لوگ اس لیے پسند کرتے ہیں کیوں کہ ان کو معلوم ہو چلا ہے کہ کتابیں بلندی کی طرف اوپر اٹھنے والی سیڑھی کے زینے ہیں۔ اگر زندگی میں خوشحالی لانی ہے۔ اگر دنیا میں اپنے آپ کو ایک کامیاب انسان بنانا ہے تو اپنی بنیاد میں کتابوں کو ڈالو۔ کیوں کہ کتابیں ہماری شخصیت کی تعمیر کرتی ہیں۔ ہمیں اس دنیا میں دھوکوں اور فراڈوں سے بچانے کا بندوبست کرتی ہیں۔ وہ ہمیں ایک اچھے دوست کی طرح سمجھاتی ہیں کہ ہماری بھلائی کس میں ہے؟ کتابیں ستاروں کی طرح زندگی کی صحرا میں ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔ ان کا مختصر مگر مضبوط وجود ہمیں ایک سہارے کی طرح محسوس ہوتا رہتا ہے۔ کتابوں کو اپنی حیات کہنے والے لوگ اتنے سادہ اور بے بوجھ تو نہ تھے! ان کو معلوم تھا کہ اکثر کتابیں اپنے راقموں کے روح پر پڑا ہوا شعور کا وہ قرضہ ہوا کرتی ہیں جو انہیں ہر حال میں اتارانا ہوتا ہے۔ اس لیے تو ایک ادیب اپنی کتاب لکھنے کے بعد بالکل ایسی کیفیت محسوس کرتا ہے جیسی کیفیت ایک عورت بچے کو جنم دینے کے بعد محسوس کرتی ہے۔ اسے اس وقت اپنی زندگی تکمیل کی طرف ایک بڑا سفر طے کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں