ہفتہ، 5 مئی، 2018

نیشنلزم کیا ہے؟



نیشنلزم کیا ہے؟

تاریخ میں نیشنل ازم نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔کردار کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ سوال ابھرتا ہے کیا اس کے نتائج مثبت ہوئے یا منفی ؟ نیشنلزم نے یورپ میں قومی ریاستوں کو پیدا کیا اس کے نتیجہ میں کالونیل ازم اور امپیرل ازم پھیلا ، جس کے ردعمل میں تسلط شدہ ملکوں میں نیشنلزم کے تحت تحریکیں اُٹھیں اور انہوں نے کالونیل کے تسلط سے آزادی حاصل کی ۔ آزادی کے بعد ان ملکوں میں اسی نیشنل ازم کو حکمران طبقوں نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا اور یہ نو آزاد ریاستیں ٹوٹ پھوٹ ، انتشار اور فوجی آمرتوں کا نشانہ بنیں ۔ اب ایک بار پھر گلوبلائزیشن نو امپیرل ازم کی شکل میں پوری قوت اور طاقت سے آرہا ہے اس لیے یہ سوال کہ کیا اُسے نیشنل ازم کے ذریعے روکا جا سکے گا یا اب نیشنل ازم کا نظریہ فرسودہ اور بے کا ر ہو کر اپنی اہمیت کھو چکا ہے اور معاشرہ اس کی بے معنویت اور کھوکھلے پن سے آگاہ ہوچکی ہے ؟ اس مضمون میں ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے۔

قوم کا تصور

آج ان معنوں اور مفہوم میں قوم کا لفظ استعمال کرتے ہیں یہ ماضی میں نہیں تھا کیونکہ الفاظ کے معنی معاشرے کی ترقی اور تبدیلی کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں ۔ کوہن(Kuhn ) نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ یونانیوں اور یہودیوں میں ایک جماعت ہونے کا احساس اور گہرا شعور تھا یونانی اپنے علاوہ دوسروں کو باربیرین یا غیر مہذب کہتے تھے ۔ یہودی خود کو خدا کا پسندیدہ مخلوق اور باقی کو اپنے سے جدا سمجھتے تھے چونکہ ان کا تعلق ایک ہی نسل سے تھا ماضی بھی مشترک تھی اور خوش حال مستقبل کے لیے ایک مسیحا کا انتظار تھا کہ جن کی آمد کے امید میں وہ اذیتوں اور تکالیف کو برداشت کررہے تھے ، اس لیے ان میں ایک ہونے کی قدر گہرے طور پر موجود تھی۔
**لیکن ہم آج جن معنوں میں قوم کا لفظ استعمال کرتے ہیں یہ یورپ میں انیسویں صدی میں سیاسی حالات اور تبدیلوں کی وجہ سے ابھرا ۔اس سے پہلے لوگ گاؤں اور دیہات میں علیحدہ علیحدہ حصوں میں بٹے ہوئے تھے ان کو آپس میں جوڑنے کے لیے کوئی قومی شعور نہیں تھا ۔ یہ قومی شعور جمہوری عمل کی وجہ سے آہستہ آہستہ ابھرا اور بکھرے لوگوں کو آپس میں ملایا۔ عہدِ وسطیٰ میں برطانوی یا فرانسیسی قوتیں تو تھیں مگر ان میں قومی شعور نہیں تھا ۔

 عہدِ وسطیٰ میں ہی معاشرہ امراء اور رعایا میں بٹا ہوا تھا لیکن جب قومی شعور آیا تو لوگ یا عوام ایک قوم بن گئے کہ جس میں امیر اور غریب سب ہی شامل تھے ۔
 یورپ کے دانشوروں نے قوم کی جو تعریف کی ہے اس کے مطابق فریڈریش لسٹ( LIST ) کا کہنا ہے ایک قوم کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس وسیع رقبہ ہو اور فطری ذرائع ہوں اس کے مقابلے میں اگر کسی قوم کے پاس کم رقبہ ہو اس کی زبان بھی کم اہلیت ہو اس کا ادب اور سماجی ادارے ناپختہ ہوں تو اس صورت میں چھوٹی قومیں کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکیں گی ۔
اسی وجہ سے اسٹیوارٹ مل کا کہنا تھا کہ ویلز ، اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ کا ضم ہونا ،ان کے لیے بہتر ہوا۔

قوم کے سلسلے میں عام طور پر اسٹالن کی تعریف کو ضرور بیان کیا جاتا ہے اس کے مطابق اس کا تعلق سرمایہ دار نظام کے ابھار سے ہے یہ ایک مضبوط اور مستحکم کمیونٹی ہوتی ہے جس میں کئی ایتھنک گروپس(نسلی گروہیں ) شامل ہوتی ہیں اور آپس میں مل کر ایک قوم کی شکل اختیار کر لیتی ہیں ۔ وہ اس کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ قوم کی ایک زبان ہوتی ہے اس کا مخصوص علاقہ ہوتا ہے معاشی طور پر مختلف جماعتیں ایک دوسرے سے بندھی ہوئی ہوتی ہیں جو ایک قوم کردار اور خصوصیات کو پیدا کرتی ہیں ۔
لیکن اس تعریف پر اعتراض ہے کہ کئی قوموں میں ایک زبان سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں دوسری بات یہ ہے کہ کالونیل دور میں نوآبادیات پر معاشی طور پر مغربی طاقتوں کا قبضہ تھا مگر اس کے باوجود ان ملکوں میں قومی شعور ابھرا۔
اس لیے قوم کی تعریف کو کئی طرح سے وضح کیا جاتا ہے قوم کی تشکیل میں مشترک ادارے ،رسم و رواج اور ہم آہنگی کے احساس کو اہمیت دی جاتی ہے اب جب قوم کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس کے تحت لوگ اور شہری آجاتے ہیں اب دساتیر میں اقتدار اعلیٰ قوم کے پاس ہے فرد، جماعت کے پاس نہیں ۔

 ہابس باؤم کے مطابق قوم تاریخی طور پر ریاست سے تعلق رکھتی ہے اس کے پس منظر میں ایک طویل ماضی ہوتا ہے جو حال کو تسلسل کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے اس کے پاس طبقہ اعلیٰ کا تحقیق کردہ کلچر ہوتا ہے اور آپس میں متحد کرنے کے لیے ایک زبان ہوتا ہے ۔
 بینے ڈیکٹ اینڈ رسن(benedeict andersion) نے قوم کی تشکیل میں چھاپہ خانہ کی ایجاد کو اہمیت دی ہے اس کے مطابق اس سے پہلے قوم کی شکل تصوراتی تھی کیونکہ مختلف جماعتیں اور برادریاں جو بعد میں ایک قوم بنیں وہ ایک دوسرے سے واقف نہیں تھیں یہ لوگ نہ ان سے ملے ہوتے تھے اور نہ ان کے بارے میں سنا ہوتا تھا لیکن ان کے بارے میں جن سے وہ واقف نہیں تھے تخیلاتی یا تصوراتی آگہی ضروری تھی ۔ لیکن پرنٹ میڈیا نے یورپ کے معاشرے میں زبردست انقلابی تبدیلی کی 1500 ء میں یورپ میں دو کروڑ کتابیں چھپیں ، اس وقت اس کی کل آبادی دس کروڑ تھی اس وقت لاطینی علمی زبان تھی اس کو ریفارمیشن نے چیلنج کیا اور مقامی زبانوں کو اس کے بعد فروغ ہوا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب علم مقامی زبانوں میں منتقل ہو کر لوگوں تک پہنچا تو ان میں قومی اور سیاسی شعور آیا اس کا اظہار اس سے ہوتا ہے کہ جب لوتھر نے 1517ء میں اپنے 99 نکات ،جو چرچ کے خلا ف تھے وہ جرمن زبان میں شائع کرائے تو یہ پوری جرمنی میں پھیل گئے اور اسے جرمن حکمرانوں کے ساتھ ساتھ جرمن عوام کی بھی حمایت مل گئی ۔جرمن زبان میں اس کے بائبل کے ترجمے کے 430 ایڈیشن شائع ہوئے ۔

چونکہ کیتھولک ممالک میں چرچ نے سنسر شپ عائدکر رکھی تھی تا کہ مخالفانہ نظریات کو روکا جاسکے اس مقصد کے لیے چرچ انڈیکس کے ذریعے ممنوع کتابوں کی فہرست شائع کرتا تھا جب کہ پروٹسٹنٹ ملکوں میں تیزی سے کتابوں کی اشاعت ہونے لگی ، چونکہ عوام کی اکثریت لاطینی زبان سے ناواقف تھی اس لیے مقامی زبانوں میں سستے ایڈیشن چھپتے تھے ، جس سے لوگوں میں پڑھنے کا شوق پیدا کیا اور اس سے سیاسی و مذہبی شعور آیا۔
شائع شدہ زبان میں جو لڑیچر پھیلا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لوگ جوزبان تو ایک ہی بولتے تھے لیکن ان کے لہجے مختلف تھے اس کے ذریعے وہ ایک دوسرے سے واقف ہو گئے اس عمل میں ایک معیاری زبان کا ارتقاء ہوا جو تحریری تھی ۔ اس نے ایک زبان بولنے کے تصورسے ایک دوسرے سے ملایا جس نے آہستہ آہستہ قومی شعور کو اجاگر کیا لہٰذا قوم کی تشکیل میں چھاپے خانے کی ٹیکنالوجی کو بڑا دخل ہے۔
اٹھارویں اور انیسویں صدیوں میں مقامی زبانوں میں ادب اور عملی تحقیق کی ابتداء ہوئی ۔ اخبارات ،کتابیں ،رسالے اور پمفلٹوں کی اشاعت نے زبانوں کو مقبول بنایا ۔ جس کی وجہ سے زبان سے لوگوں کا رشتہ مضبوط ہوا ۔

قوم کی تشکیل کے عمل کو تیز تر کرنے میں تاریخ ،یاداشتیں ، علامتیں ، رسم و رواج اور عادات کا دخل ہوتا ہے جو ابلاغ کے ذریعے لوگوں کو ان سے واقف کراتی ہے اور ان میں باہمی یگانگت کا احساس پیدا کرتی ہے ۔ابلاغ ہی ایک معیاری زبان بنانے میں مددگار ہوتا ہے اس کے ذریعے آرٹ،مجسمہ سازی ، موسیقی اور دوسرے علوم و فنون میں یک جہتی پیدا کرتی ہے اس کی ایک مثال سوئزرلینڈکی ہے جہاں چار زبانیں بولی جاتی ہیں مگر ابلاغ کی وجہ سے تاریخ، آرٹ اور علامتیں ایک ہوگئی ہیں ۔ حالانکہ دوسرے ممالک میں بھی کئی زبانیں بولی جاتی ہیں مگر وہ ایک دوسرے کے قریب نہیں ہیں کیونکہ ان میں ابلاغ کی کمی ہے۔

** موجودہ دور میں صورتحال بدل رہی ہے اب میڈیا کئی زبانیں بولنے والی جماعتوں کو آپس میں قریب لا رہی ہے موجودہ دور میں قوم ایک مقدس شکل اختیار کر چکی ہے ۔ اب لوگوں کی وفاداریاں قوم کے ساتھ ہوتی ہے ، اب قوم سے وفاداری بہت اہم ہوگئی ہے جو قوم سے غداری کرتے ہیں انہیں معاف نہیں کیا جاتا ہے یہ سب سے گھناؤنا جرم مانا جاتا ہے۔

(14) اگر اینڈرسن کی دلیل کو برصغیر ہندوستان پر اطلاق کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ یہاں بیسویں صدی کی ابتدائی دہائی میں جب الہلال ،ابلاغ ، پیغام ،ہمدرد اور زمیندار اخبارات شائع ہونے شروع ہوئے تو انہوں نے پورے ملک میں بکھرے ہوئے مسلمانوں میں یکجہتی کے احساس کو پیدا کیا انہیں اخبارات نے جب بلقان کی جنگوں میں ترکی کی شکستوں اور بعد میں خلافت کے بارے میں خبریں اور مضامین چھاپے تو اس نے پان اسلام ازم کے جذبات کو ابھارا۔ اخباروں کی زبان چونکہ اردو تھی اس لیے اسلامی نیشنل ازم کے احساسات کو پیدا کرنے میں اس کا اہم کردار رہا ہے۔جو نفرتوں اور دہشت گردی کے اسباب بن رہے ہیں۔

نیشنل ازم کی تشکیل

نیشنل ازم کے بارے میں مفکرین اور دانشوروں کے مختلف نظریات ہیں لیکن ان سب میں انہوں نے ان عناصر کی نشاندہی کی ہے کہ جو گروپوں ،جماعتوں اور برادریوں کو آپس میں ملاتے ہیں اور ایک قوم کی صورت میں متحد کر کے ان میں نیشنل ازم کا جذبہ پیدا کرتے ہیں ۔ مان ٹسکواس عمل کو جغرافیہ اور آب و ہوا کی وجہ بتاتا ہے جب کہ جرمن مفکرین جن میں ہرڈراورفشٹے شامل ہیں اسے زبان کلچر اورتاریخ کا سبب قرار دیتے ہیں برک اور ماذنی اس عمل کو رضائے الہیٰ سے منسوب کرتے ہے جب کہ ٹراسٹشکے (Treitschke) لیباں وغیرہ اس اتحاد کے عمل میں نسلی عنصر کو اہم سمجھتے ہیں ان کے مقابلے میں دانشوروں کی ایک اکثریت ہے کہ جو نیشنل ازم کو صنعتی اور سرمایہ داری کے عروج کے ساتھ منسلک کر کے اسے ایک جدید نظریہ سمجھتے ہیں لیکن نیشنل ازم اہم تاریخی واقعات کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے جیسے امریکہ کی جنگِ آزادی نے امریکی ریاستوں کو آپس میں ملادیا اور برطانیہ کی آزادی کی جنگ میں ان ریاست کی اکثریت شامل ہو گئی یہی صورت 1789 ء کے فرانسیسی انقلاب کے وقت پیش آئی کہ جب انقلاب نے لوگوں کو شہنشاہیت سے آزاد کیا اور یہ لوگ اپنے حقوق کے دفاع کی خاطر یورپ کی حملوں کے خلاف متحد ہوگئے ۔ اس پس منظر میں سب سے پہلے 1798 ء میں نیشنل ازم کا لفظ استعمال ہوا ۔ اس کے بعد 1830 کے یورپی انقلاب میں اس الفاظ کو دہرایا گیا ۔ اس سے پہلے لوگوں میں اس کا مطلب قوم سے وفاداری ہوتی تھی ، ریاست سے نہیں لیکن اب قوم اور ریاست دونوں سے وفاداری کا اظہار ہوا۔

کوہن نے نیشنل ازم کے ابھار کے بارے میں دو نقطہ ہائے نظر دیے ہیں اس کی دلیل کے مطابق جن لوگوں میں عوام یا عوام کے نمائندے طاقتور تھے جیسے امریکہ، برطانیہ ،فرانس وہاں نیشنل ازم سیاسی اور معاشی طاقت کے ساتھ ابھرا لیکن جہاں یہ کمزور تھے جیسے جرمنی،اٹلی اور مشرقی یورپ کے ممالک وہاں اس کا اظہار کلچر کے ذریعہ ہوا۔

**چونکہ اکثر ملک صنعتی عمل سے دوچار نہیں ہوئے تھے بلکہ سرمایہ دار ی عروج کے ساتھ جوکالونیل ازم اور امپیرل ازم ابھرا اس کے شکار ہوئے تھے اس لیے دنیا کے اکثر ملکوں میں نیشنل ازم کلچر تاریخ کے ذریعہ وجود میں آیا ایسی صورتحال میں ماضی کی تلاش اس کا اہم حصہ ہوجاتا ہے کہ جس کا مقصد قدیم روایات اور اداروں کا احیا ء ہوتا ہے مثلاََ یورپ میں یونان اور روم ایک ماڈل کے طور پر ابھرے ۔ اسلامی معاشرے میں اسلامی تاریخ کے ابتدائی دورکے احیاء کی کوشش ہوئیں ، ہندؤوں میں ویدک دور کو ترقی کے لیے لازمی قرار دیا جانے لگا۔
تاریخ کے ابتدائی دورکے احیاء کی کوشش ہوئیں ، ہندؤوں میں ویدک دور کو ترقی کے لیے لازمی قرار دیا جانے لگا۔

چنانچہ اس کے زیر اثر تاریخ میں سُنہری دور کی تلاش شروع ہوگئی ۔اٹلی میں جب فاش ازم ابھرا تو مسولینی نے قدیم روم کی شان و شوکت کو جذباتی طور پر ابھارا۔ گاندھی جی نے ہندوستان میں رام راج کا نعرہ لگایا کہ جسے ہندستان کی تاریخ میں سُنہرا دور قرار دیا گیا۔مسلمانوں میں عباسیہ عہد اور اندلس سنہرے دور کے طور پر سامنے آئے کہ جن ادوار میں انہوں نے ترقی کی اور عروج پر پہنچے ، سنہری دور کو ایک طرف خالص روایات و قدروں کا عہد تسلیم کیا جاتا ہے ۔ اس دور کی سادگی پر زور دیا جاتا ہے تو دوسری فتوحات اور شان و شوکت فخر و عظمت سمجھا جاتاہے ۔لہٰذا ماضی فرار کا باعث بھی ہوتی ہے اورپناہ کا بھی۔

سُنہرے دور اور قدیم روایات کے احیاء کے سلسلے میں ترکوں کی مثال دی جاسکتی ہے کہ جنہوں نے اس نظریہ کو مقبول بنایا کہ وہ ابتدائی دور میں فیاض ،سخی اور روادار تھے ۔ ان کی یہ خوبیاں ایرانیوں اور بازنطینیوں کے ساتھ مل کر ختم ہوگئیں ۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان روایات اور اوصاف کو دوبارہ سے واپس لایا جائے اور ترک قوم کے مستقبل کی تعمیر کی جائے۔
 اس دلیل کو عرب قوم پرست بھی دیتے ہیں کہ ان کی خالص اور سادہ روایات ایرانیوں کے زیر اثرآکر خراب ہوئیں۔
لیکن جب ماضی کے احیاء کی بات ہوتی ہے تو اس مرحلہ پر جو طبقات نیشنل ازم کے حامی ہوتے ہیں وہ اپنے مقاصد کے تحت ان روایات یا اداروں کا انتخاب کرتے ہیں کہ ان کے مفادات کو پورا کریں اس لیے اگر بورژواطبقہ سرگرم عمل ہوتا ہے تو اس کا انتخاب اس کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے لیکن اگر نچلے طبقے کے لوگ نیشنل ازم یا انقلاب کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو ان کی علامتیں ان کے منصوبوں سے مطابقت رکھتی ہیں۔

چونکہ نیشنل ازم کی بنیاد عقل کے بجائے جذبات پر ہوتی ہے اس لیے ان جذبات کو ابھارنے کے لیے اور ذہنوں کوفخر و عظمت سے متاثر کرنے کے لیے رسم و رواج اور تہواروں کو اہمیت دی جاتی ہے ان میں قومی دن کو جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، جھنڈے لہرائے جاتے ہیں، آتش بازی چھوڑی جاتی ہے ،پُرزور تقاریر کی جاتی ہیں ،ماضی کی رہنماؤں کی قربانیوں کا ذکر ہوتا ہے ، مستقبل کے منصوبے بیان کیے جاتے ہیں قومی یادگاروں پر حاضری دی جاتی ہے ، یوں اس ذریعے سے پوری قوم میں ہم آہنگی کے احساس کو پیدا کیا جاتا ہے ۔

نیشنل ازم کا اظہار پبلک عمارتوں کے ذریعے بھی کیا جاتا ہے ، نو آزاد ملکوں نے اپنے شہر تعمیر کر کے ان کے ذریعے اپنے قومی جذبات کا اظہار کیا ۔ نئے ائیرپورٹس، پلازہ اور تجارتی سینٹروں کے ذریعے بھی ان کے جذبات کو فروغ دیا جاتا ہے ۔ اکثر ملکوں میں قومی ہیروز کے مجسمے جگہ جگہ ایستادہ کیے جاتے ہیں اور ان کے مقبرے تعمیر کیے جاتے ہیں ۔ گمنام سپاہی کامقبرہ ،ایک علامتی یادگار بن جاتا ہے کہ جس پر غیر ملکی مہمان پھولوں کی چادر چڑھاتے ہیں ،قومی جھنڈا اور قومی ترانہ ،نیشنل ازم کے دو اہم عناصر ہیں کہ جنہیں تقدس کا درجہ دیا گیا ہے ۔
**نیشنل ازم کے جذبات اس وقت گہرے طور پر ڈرامائی انداز میں ابھرتے ہیں کہ جب ملک حالتِ جنگ میں ہو ،اس وقت دشمن سے نفرت اور انتقام کے جذبات لوگوں کو انسانی ہمدردی اور محبت سے دور لے جاتا ہے ،اس طرح دو ملکوں کے درمیان کھیلوں کے مقابلوں میں یہ جذبات شدت اختیار کرتے ہیں دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ اگر ملک کسی بحران کا شکار ہو ،زلزلہ ،طوفان یا وبا میں مبتلا ہوجائے تو لوگوں میں یہ جذبات ہمدردی کی شکل میں ابھرتے ہیں۔

لیکن نیشنل ازم کی ایک شکل نہیں ہے یہ مختلف شکلوں ، حالات میں ابھرتا ہے مقبول ہوتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے ۔ اس کی تبدیل ہوتی شکلوں کا اظہار ،ہر ملک کے اپنے حالات،طبقاتی مفادات اور سیاست پر ہوتا ہے اس لیے یہ مذہبی ،قدامت پرست،آزاد خیال،فاشسٹ،کمیونسٹ،سیاسی ، کلچرل ، حفاظتی(Protectionist) ملانے والا ،علیحدہ کرنے والا ،ڈائیس پورا (Diaspora) اور قدیم تاریخی طور پر تعلق رکھنے والے علاقوں کی واپسی کے جذبہ کا مظہر ہوتا ہے ۔جس وجہ سے نیشنل ازم اہمیت کا حامل ہوتا ہے ،اس کے تین عناصر ہیں خودمختاری،اتحاد اور شناخت یہ تین اہم کردار اسے آگے کی جانب بڑھاتے ہیں ۔ یہ معاشرے کو ذہنی طور پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ ایک آزاد ملک و معاشرے کے لیے جدوجہد کریں اور اگر ضرورت پڑے تو اس کے لیے قربانی دینے سے گریز نہ کریں۔

ہابس باؤم نے ایم ہروش کے حوالے سے نیشنل ازم کے بارے میں لکھا ہے کہ جب بھی کسی معاشرے میں نیشنل ازم کی تحریک اٹھتی ہے تو اس کے نتیجے میں قومی شعور غیر مساوی طور پر ابھرتا ہے اس لیے اس جذبات میں طبقاتی،جماعتی اور علاقائی طور پر فرق ہوتا ہے یہ قومی شعور کسانوں ، مزدوروں اور نچلے طبقے میں سب سے آخر میں آتا ہے۔  لیکن بعض حالات میں یہ محض اوپر کے طبقوں میں محدود رہتاہے۔
ہابس باؤم کے نزدیک انیسویں صدی میں نیشنل ازم نے قومی ریاستیں قائم کر کے ایک مثبت کردار ادا کیا ،لیکن موجودہ دور میں اس کا کردار منفی ہے کیونکہ اس کے زیر اثر چھوٹی ریاستیں ابھر رہی ہیں جب کہ قومی ریاست کا ادارہ فرسودہ ہوچکا ہے ۔
اس کا منفی کردار یہ بھی ہے کہ یہ ایک کمیونٹی کے لیے علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرتا ہے مگر اس کا جائزہ نہیں لیتا ہے کہ اس میں ریاست کے وجود کو برقرار رکھنے اور انتظام کو چلانے کی صلاحیت ہے یا نہیں۔

نیشنل ازم کے دو اہم خصوصیات کہ جنہوں نے یورپ میں اثر ڈالا اور جس سے آگے چل کر ایشیاء اور افریقہ کے آزاد ممالک متاثر ہوئے وہ فرانسیسی اور جرمن ماڈلزتھ کوہن(kuhn) ان میں سے ایک کو سیاسی کہتا ہے کہ جو عقلیت پر مبنی ہے اور دوسرے کو کلچرل کہ جس کی بنیاد تصوف یا روحانیت پر ہے ۔ سیاسی نیشنل ازم انگلستان ،فرانس،ہالینڈ،امریکہ اور سوئزرلینڈ میں ابھرا کہ جہاں متوسط تعلیم یافتہ طبقہ ریناساں (نشاۃ ثانیہ) کے بعد طاقتور اور بااثر ہوا تھا ریاستوں کی سرحدیں متعین تھیں ۔ لہٰذا انہیں بادشاہتوں سے بدل کر عوامی اورقومی ریاستیں بنادیا گیا ۔ اس کے برعکس مشرقی یورپ کے ممالک کی سرحدیں بدلتی رہتی تھیں یہاں سیکولر مڈل کلاس نہیں تھیں ، زرعی معاشرہ تھا کسان اور زمیندار کے طبقات تھے چونکہ یہ سیاسی اور سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ تھے اس لیے انہوں نے سیاسی نیشنل ازم کو رد کر کے کلچر ازم کا سہارا لیا۔

یورپ میں جن دو نیشنل ازم کے درمیان تصادم ہوا وہ فرانسیسی اور جرمن تھے ریناں نے فرانسیسی نیشنل ازم کے نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ قوم باہمی ثقافتی روایات سے نہیں بنتی ہے بلکہ یہ حکمران خاندانوں کی فتوحات ،سرحدوں کی تبدیلی کہ جن کی وجہ سے مختلف جماعتیں ایک علاقہ میں آکر مل جاتی ہیں یہ ایک تاریخی عمل کا نتیجہ ہوتی ہے فرانسیسی قوم اسی عمل کے نتیجہ میں بنی ہے قدیم جماعتوں کی علیحدہ شناخت ابھرتی ہے قوم کی ساخت مستقل نہیں ہوتی ہے اس میں برابر تبدیلی آتی رہتی ہے کیونکہ مختلف نسلی گروپ اور جماعت آتی جاتی رہتی ہیں قوم کی تشکیل میں زبان بھی اہم نہیں ہے اور نہ ہی اس میں جغرافیہ اور آب و ہوا کا دخل ہے ۔اس میں نئی جماعتوں کی شمولیت جبر سے نہیں بلکہ رضا مندی سے ہوتی ہے کوئی نسل خاص نہیں رہی ہے ۔ ریناں کی نیشنل ازم کا یہ تصور جمہوری اور لبرل ہے کیونکہ یہ تاریخی عمل کی پیداوار ہے اس لیے یہ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔

اس کے مقابلے میں جرمن نیشنل ازم نپولین کی فتوحات کے رد عمل میں پیدا ہوا چونکہ اس وقت جرمنی کئی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا اس لیے وہاں ایک جرمن ریاست مفقود تھی ۔جرمنی فرانس کی طرح ایک کالونیل طاقت بھی نہیں تھا کہ جو دوسرے قوموں کو اپنے میں ضم کر رہا ہو ۔اس لیے اس کی نیشنل ازم کی بنیاد زبان ،کلچر اور تاریخ پر رکھی گئی یہ ایک رومانوی تصور تھا کہ جس نے روشن خیالی کو رد کیا اس کا زور جرمن قوم کی روح (Geist) پر ہے فرانسیسی ماڈل میں قوم ریاست کے بغیر برقرار نہیں رکھ سکتی ہے جب کہ جرمن ماڈل میں قوم ایک کلچرل کمیونٹی ہے ۔ چونکہ جرمن نیشنل ازم کا مقصد ملک کی آزادی تھا اس لیے اس میں جمہوری عناصر کو نظر انداز کر دیا گیا ۔ مزید اس کی سرپرستی حکمران طبقوں نے کی اس لیے قدامت پرست روایات و قدروں کاا حیاء ہوا ۔ جن جرمن مفکرین نے اس کی تشکیل میں حصہ لیا ان میں ہرڈر(Herder) خاص طور پر قابل ذکر ہے جس کی دلیل تھی کی انسانی تہذیب کی نشوونما آفاقی ماحول میں نہیں ہوتی ہے بلکہ قومی ماحول اس کے کردار کو بناتا ہے ۔ معاشرہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار مادری زبان کے تحت ہی کر سکتا ہے اس وجہ سے جرمن ادیبوں ،شاعروں اور محققوں نے جرمن زبان کو زرخیز بنایا ۔ لوگوں نے کہا نیوں اور داستانوں کو دریافت کر کے انہیں شائع کرایا ۔جرمن زبان کی اہمیت نے معاشرہ کی تحقیقی روح کو بیدار کیا اور لوگوں کو ملا کران میں شناخت کے احساس کو پیدا کیا ۔

**زبان کمیونٹی کے اندر رہ کر سیکھی جاتی ہے اس لیے اس کا تعلق کمیونٹی کے کلچراور فکر سے ہوتا ہے ہر زبان ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ ہر کمیونٹی کی فکر جدا ہوتی ہے زبان میں اگر چہ تبدیلی آتی ہے اس میں نئے الفاظ شامل ہوتے ہیں مگر اس کی فکر ایک سی رہتی ہے اس لحاظ سے کوئی زبان ادنیٰ یا بر تر نہیں ہوتی زبان کو ترجمہ کے ذریعے نہیں سمجھا جا سکتا ہے اس کو صرف سیکھ کر اس کی روح تک پہنچا جا سکتا ہے۔

اس کے برعکس ہابس باؤم کا کہنا ہے کہ جہاں تک قومی زبان کا تعلق ہے یہ مصنوعی طور پر تشکیل کی جاتی ہے بلکہ یہ کہا جائے تو مناسب ہوگا کہ اسے ایجاد کیا جاتا ہے تا کہ اسے قومی زبان بنایا جائے چونکہ نیشنل ازم کی اہم بنیاد زبان ہوتی ہے اس لیے تعلیم یافتہ طبقے کئی بولیوں اور لہجوں میں سے ایک کا انتخاب کر لیتے ہیں ۔ مثلاََ فرانس میں 1789 میں 50% لوگ فرانسیسی نہیں بولتے تھے اٹلی میں اتحاد کے وقت 1/2 2 اطالوی زبان روزمرہ کے استعمال کی حد تک جانتے تھے مگر دونوں ملکوں میں ایک معیاری زبان کو قومی زبان بنایا گیا۔

جرمن رومانویت نے دریاؤں اور گھنے جنگلوں کو قوم کے کردار سے لاد دیا کہ جس طرح دریا بہاؤ کے عالم میں رہتے ہیں اور زمین کو سیرآب کرتے ہیں اس طرح سے جرمن ذہن تخلیقی عمل میں مصروف رہتا ہے جس طرح گھنے جنگل خاموشی اور غور و فکر کا احساس پیداکرتے ہیں یہی عناصر جرمن قوم میں فلسفیانہ خیالات و افکار کی تخلیق کا باعث ہوتے ہیں ۔

جرمن نیشنل ازم میں فرد سے زیادہ ریاست کی اہمیت ہے جب کہ برطانیہ میں فرد کی آزادی کو اہمیت دی گئی دوسرا جرمن مفکر جس نے جرمن نیشنل ازم کو مزید طاقتور بنا دیا وہ نفشٹے تھااس نے جرمن زبان پر اور اس کی اہمیت پر زور دیا یہاں تک کہ جرمن کلچرغیر ملکی عناصر سے داغدار نہ ہو فرسڈمن لڈوں باں نے اس کو عملی تحریک کی شکل دیتے ہوئے محب وطن نوجوانوں کی فوجی جماعت بنائی ۔ ملبوس رضا کاروں کی فوج کو تیار کیا تاکہ ملک کا دفاع کیا جاسکے ۔ اس کے نظریہ کے مطابق جرمنی کو ایک طاقتور رہنما کی ضرورت ہے جو قوم کو آزاد کرائے اسے متحد کرے ۔ اس سے نیشنل ازم بہت زیادہ پُر اثر اور مقبول ہوتا ہے کیونکہ تشبیہات ، استعارے ، گیت ،داستانیں اور قصے کہانیاں احساسات کا اظہار بھی کرتے ہیں اور انہیں متاثر بھی کرتے ہیں

** باصم طبی نے اپنی کتاب عرب نیشنل ازم میں تفصیل سے جائزہ لیا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے عرب دانشوروں نے فرانسیسی اور انگلش نیشنل ازم کے ماڈل کو رد کر دیا کیونکہ ان دونوں طاقتوں نے ان کے ساتھ وعدہ خلافی کی تھی ان حا لات میں جرمن نیشنل ازم کا لسانی ماڈل موزوں تھا ۔ الحصری نے خاص طور سے نیشنل ازم میں زبان کے عنصر کو مقبول بنادیا اور دلیل دی کہ زبان کی اہمیت اس لیے ہے کہ اس کے ذریعے ہی مذہب کو سمجھا جا سکتا ہے اگر مذہب غیر زبان میں ہوتو وہ اتحاد کا باعث نہیں بن سکتا۔ یہودی چونکہ ایک قومی مذہب ہے اس لیے اس نے انہیں متحد کر دیا عربوں کا یہ لسانی نیشنل ازم سیکولرشکل میں ابھرا اور اس نے مسلمانوں اور عیسائیوں کو ایک قوم کی شکل دی۔ زبان جس قدر مضبوط ہوگی اس قدر نیشنل ازم کی جڑیں گہری ہونگی ۔

 ان دانشوروں نے تاریخ کو بھی سیکولر بنادیا فلپ کی کتاب کا ٹائیٹل ہے ہسٹری آف دی عرب اسی طرح البرٹ حورابی کی کتاب ہسٹری آف دی عرب پیپلز ۔ عربی زبان کی سرحدیں کسی ایک ریاست میں نہیں تھیں بلکہ یہ ماورائے ریاست تھا اس میں عربی زبان بولنے والے چاہے ان کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو قوم کا حصہ تھے۔

کالونیل دور میں ایشیاء و افریقہ کے ملکوں میںآزادی کی جو تحریکیں ابھریں ان کی بنیاد بھی کلچرل نیشنل ازم پر تھی ان قومی تحریکوں کے رہنما متوسط یورپ کے ترقی یافتہ افکار و خیالات کے لیے معاشرے میں جگہ نہیں تھی روشن خیال اور عقلیت پرستی ان کے ذہن کو بنانے میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کر سکی ۔ انہوں نے قومی تحریکوں کو کلچر ازم کی بنیادجس چیز پر رکھا وہ رومانویت تھی چونکہ ان تحریکوں کا مقصد کالونیل ازم سے آزادی تھی اس لیے انہوں نے مغربی افکار و نظریات کو چیلنج کیا اور ردعمل کے طور پر کالونیل سے کلچر کے احیاء کی تبلیغ کی کہ جس نے جاگیردارانہ روایات ، تاریخی ہیروز اور ماضی کے سُنہری دور کی خوبصورتی اور عظمت کو ذہنوں میں بٹھادیا۔

تیسری دنیا کے نیشنل ازم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پسماندہ ہے مغرب کے دانشوروں نے اس کی پسماندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے دلیل دی چونکہ یورپ کی اقوام میں ایک تسلسل ہے ان کے ہاں قوم کی شناخت ،تاریخی کلچر اورروایات سے ہے لہٰذا ان میں نیشنل ازم کی تخلیق سے قومی شعور اور شناخت موجود تھی جب کہ کالو نیل ازم سے آزاد ہونے والے ملکوں کی سرحدیں بدلی گئیں ایتھنک اور لسانی جماعتوں کو ایک دوسرے سے جدا کیا گیا اس لیے ان کے ہاں قوم کی تشکیل کا مرحلہ آیا تو ان کے لیے اتحاد اور ہم آہنگی کی جڑیں تلاش کرنا مشکل تھااس وجہ سے کچھ دانشور اس نیشنل ازم کو محض انتظامی ضرورت کا ایک ذریعہ قرار دیتے ہیں اس کو یورپ کے نیشنل ازم سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی ہے۔کیونکہ یہ کالونیل دور میں ابھرا ۔ اس کی تاریخی جڑیں نہیں ہیں اسے کالونیل ازم کے خلاف نیشنل ازم کہا جاسکتا ہے اس سے زیادہ نہیں۔

 ہندوستانی قوم پرستی پر جی ایلویسس نے اپنی کتابNationalism without a national in india,1997 اس کے اہم کرداروں میں اس کا طبقہ اشرافیہ جس میں جاگیر دار بورژوا دونوں شامل تھے ان کے مفادات کے تحت ہندوستان میں قوم پرستی وجود میں آئی ۔ جب ماضی کا احیاء کیا گیا تو یہ دراصل برہمن ازم کا احیاء تھا گپت دور ہندوستان کا سُنہرا دور کہلایا کیونکہ اس میں برہمنوں کا اقتدار بحال ہوا تھا ذات پات کا معاشرہ مستحکم ہوا تھا نیشنلزم کے اس پہلو پر نچلی ذات کے لوگوں نے احتجاج بلند کیا نہرو نے اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا کے ذات پات کے نظام کی تعریف کی ہے ان کے ہاں آریا تہذہب اور برہمن ازم ہندو کلچر کا حصہ ہیں اس لیے اس میں نچلی ذات کے لوگوں اور مذہب کے ماننے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے وہ ہندو معاشرے کے تسلسل پر زور دیتے ہیں تبدیلی پر نہیں 

ایلویسس گاندھی جی پر بھی تنقید کرتا ہے کیونکہ وہ بھی تاریخ کے اسی تسلسل کو برقرار رکھنے کے حامی تھے اور معاشرتی سماجی ڈھانچہ میں کوئی تبدیلی نہیں چاہتے تھے ۔ وہ اس بات کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ گاندھی نے مذہب کو سیاست کاحصہ بنا کر سیکولرازم کو کمزور کیا انہوں نے عوام کو مذہبی نعروں کے ذریعے اکھٹا کیا جن میں گائے کا تحفظ،ذات پات کا تحفظ اور قدیم روایات کا احیاء شامل تھا اس کی دلیل کے مطابق ہندوستان کو انقلاب یا تبدیلی کے عمل سے دور رکھنے کے لیے انہوں نے گاؤں کی زندگی کے احیاء کی مخالفت کی تھی۔

 اسی پس نظر میں گاندھی جی کی قوم پرستی،مساوات،صلاحیت،حرکت اور تبدیلی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس سے مراد ایک ایسا نیشنل ازم ہے کہ جس میں ہندوؤں کے علاوہ دوسرے مذہب کے مانے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اسی وجہ سے اس کے زیر اثر مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ہوا، فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور ہندوستان کی سیکولر روایات و ادارے کمزور ہوئے۔اس تناظر میں اگر پاکستان میں نیشنل ازم کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں بہت زیادہ پیچیدگی نظر آئے گی کیونکہ دو قومی نظریے کی وجہ سے اس کی نیشنل ازم کی بنیاد مذہب پرتھی جب برطانیہ نے اپنی نئی کالونی کی وجہ رکھی تو اس کی یہی تعریف کی جاتی رہی تو اس نے بھی دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنے دائرے سے نکال دیا ۔ لیکن یہ مذہبی نیشنل ازم اپنی لفاظی اور جذبات کے باوجود پاکستانی قوم کی تشکیل نہیں کر سکا اس کے خلاف جو علاقائی یا حقیقی فطری نیشنل ازم پیدا ہوئے ان میں بنگال اور سندھ نے زبان کی بنیاد پر مرکزی نیشنل ازم کا مقابلہ کیا جبکہ بلوچ ننے تاریخی حقائق الگ ریاست، زبان،پہچان کی بنیاد پر اپنی نیشنل ازم کی بنیادوں کو مزید اُجاگر کیا جو آج تناور درخت کے طور پر دنیا کے سامنے الگ ریاست کی جستجو میں منظر عام پر ہے۔

کالونیل ازم سے آزادی میں نیشنل ازم کا اہم کردار رہا ہے مگر جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے چونکہ اس کی بنیاد کلچر پر تھی اس لیے اس نے احیاء کی بات کی ماضی کی طرف دیکھا ،مستقبل سے گریز کیا جن طبقات نے ان کی رہنمائی کی چونکہ ان کا تعلق مراعات یافتہ لوگوں سے تھا اس لیے انہوں نے عام لوگوں کے جذبات کو تو ابھارا مگر انہیں اقتدار میں شریک نہیں کیا اور اپنے اقتدار کومستحکم کر نے کی جدوجہد کی ، انہوں نے عوام کو سماجی اور معاشی بندھنوں سے آزاد نہیں کیا بلکہ ان کو کالونیل اداروں اور روایات میں برقرار رکھا جو ان کے اقتدار کو تحفظ دیتے تھے قومی شعور کے برعکس انہوں نے نسل پرستی، قبائلی تعصبات، مذہبی جھگڑوں اور فرقہ وارانہ فسادات کو بڑھاوا دیا ۔ کیونکہ انہوں نے ماضی کی روایات کا احیاء کیا جس نے فوجی آمریت ،جاگیردارانہ تسلط اور بورژوا طبقہ کے مفادات کا تحفظ کیا۔

نو آزاد ملکوں میں حکمران طبقوں نے نیشنل ازم کو ریاست کی سرپرستی میں لوگوں پر مسلط کیا اور ایسے جذبات کے تحت ایک اسی طرح کا آمرانہ حکومت قائم کیا جس میں اختلاف کرنے والوں کی کوئی گنجائش نہیں رہی ۔لوگوں کے ذہنوں پر نیشن یا قوم کو پوری طرح مسلط کر دیا یعنی قومی جھنڈا، قومی ترانہ اور قومی ہیروز سے لے کر قومی لباس ،قومی کھانا ،قومی کھیل ،قومی پھول ، قومی رنگ ،قومی کردار ،قومی شاعر،قومی دولت اور قومی زبان وغیرہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان قومیائے ہوئے ماحول میں تخلیق اور تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں رہی ۔ سیاسی طور پر لوگوں کے احتجاج کو قومی مفادات  میں رد کیا جاتا ہے وہ تمام اصلاحات یا پالیسیاں جو حکمران طبقوں کے مفاد میں ہوتے ہیں وہ سب قومی منصوبے بن جاتے ہیں اس تناظر میں فرد کے مفادات سے مختلف ہوجاتے ہیں مگر اسے قومی مفادات کے نام پر اپنے مفادات کو قربان کرنا ہوتا ہے جب نیشنل ازم انتہا پسندی کی حدوں کو چھو کر فاشزم کی شکل اختیا رکر لیتا ہے تو یہ انسانیت سے کٹ جاتا ہے یہ ہٹلر کے جرمنی اور مسولینی کے اٹلی میں فاشسٹ آمریت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے۔

وہ یورپی دانشور ، جو اس وقت لبرل اور امپیرل ازم کے حامی ہیں وہ تیسری دنیا کے نیشنل ازم کو اور اس کی پسماندگی کو نشانہ بناتے ہیں ان کے نزدیک چونکہ یہ پسماندہ فرسودہ اور قدامت پرست ہیں اس لیے اس نے آزادی کے بعد اپنے ملکوں میں ترقی کے بجائے انہیں اور زیادہ پسماندہ بنایا۔

امپیریل طاقت نے جس اسٹرکچر کو بنایا تھا اسے توڑ کر معاشرے میں انتشار اور کنفیوژن کا شکار کردیا ان کے نزدیک یہ ایک وائرس ہے جو تیزی سے معاشرے کو بیمار کررہا ہے اس لیے ان کی دلیل ہے کہ لبرل امپیریل ازم ہی اس پسماندگی کا علاج ہے اب یہ تیسری دنیا کے ملکوں کے دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں کا فریضہ ہے کہ وہ اس پر غور کریں کہ اس پسماندہ نیشنل ازم کو کیسے تبدیل کریں اور کیا اقدامات کریں کہ یہ معاشرہ پسماندگی سے نکل کر آگے کی جانب بڑھ سکیں ۔

نیشنل ازم کی ایک خصوصیات یہ ہے کہ اس کے ذریعے قومی ریاست وجود میں آتی ہے ۔ ریاست کا ادارہ وقت اور ماحول میں بدلتا ہے ۔ قدیم دور میں ہم شہری ریاست کی وجود کو دیکھتے ہیں عہد وسطیٰ میں ریاست کی شکل یونیورسل تھی جدید دور میں قوم کی حیثیت سے قومی ریاست ہوگئی ۔ ایک دوسرے مفہوم میں یہ عہد وسطیٰ میں علاقائی تھی۔ ویسٹ فیلیا (1648) کے معاہدے کے بعد خودمختار اقتدار اعلیٰ کی حامل ریاست کے طور پر ابھری ، فرانسیسی انقلاب نے قومی ریاست کو جنم دیا ۔

جدید دنیا میں ریاست کی اہمیت اس قدر ہوگئی کہ صرف اسے قوم سمجھا جاتاہے کہ جو ایک ریاست کی تشکیل کرتی ہے اب صرف قومی ریاست ہی عالمی اداروں کی رکن بن سکتی ہے قومی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد دنیا کی تاریخ پر کیا اثرات مرتب ہوئے تو اس کا اندازہ اس عمل سے ہوتا ہے کہ جب 19ویں صدی میں یورپ میں قومی ریاستوں کا وجود عمل میں آیاتو اس نے جارحانہ امپیریل ازم ، نسل پرستی ، فاشزم اور حب الوطنی کی انتہا پسندی کو پیدا کیا ۔ چونکہ قومی ریاست کا وجود ابھرتے ہوئے سرمایہ دار نظام میں ہوا تھا ۔ اس لیے ان ریاستوں کو اپنے مال کی کھپت کے لیے منڈیاں چاہیے تھیں ۔ انہوں نے کالونیل ازم اور امپیریل ازم کو پیدا کیا ۔ ایشیاء اور افریقہ کے ملکوں کے قبضے کے لیے ہوس بڑھتی گئی اور ہر یورپی قومی ریاست کی خواہش تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ ممالک پر قبضہ کر کے ان کے ذرائع کو استعمال کرے۔ اس دوڑ میں یورپ کے دانشور وں نے بھی اپنی اپنی ریاستوں کی حمایت کی اور کالونیز پر قبضہ کو تہذیبی مشن کے طور پر پیش کیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کالونیل طاقتوں نے اپنے مقبوضہ ممالک کے استحکام کلچر اور روایات کو توڑ کر وہاں اپنے کلچر اور زبان کو فروغ دیا۔ جس نے ان معاشروں میں جدید و قدیم کے درمیان تصادم کو پیدا کیا ، بلکہ ان کی شناخت کو بھی پیچیدہ بنادیا۔

قومی تحریکوں کے نتیجہ میں جب نئے ملک آزاد ہوئے تو ان کی قومی ریاستیں مصنوعی طور پر تشکیل دی گئیں ۔ ان کی سرحدوں کا تعین سیاسی مفادات کی خاطر کیا گیا ، ان کی آبادیوں کو کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا ، ان کی زبان اور کلچر کو توڑکر علیحدہ علیحدہ خانوں میں بانٹ دیا گیا مثلاََ مشرقِ وسطیٰ میں اردن اور اسرائیل نئے ممالک بنائے گئے عراق ، لبنان اور ترکی کی سرحدوں کا دوبارہ سے تعین کیا گیا ۔ خلیج فارس میں عرب امارات کی تشکیل کی گئی برصغیر ہند کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا پاکستان کی صورت میں کالونی بنا کر مذہبی انتہا پسندی اور عالمی سامراج کے لئے ایک مورچہ تشکیل دیا گیا۔ یہی صورت افریقہ کی گئی ساؤتھ ایشیاء میں کوریا،ویتنام کو تقسیم کیا گیا وغیرہ وغیرہ ۔ اب ان کے بارے میں کہا جارہاہے کہ یہ قومی ریاستیں نہیں ہیں بلکہ انتظامی یونٹس ہیں ۔

اس وقت تیسری دنیا میں قومی ریاستوں پر یاتو فوجی آمروں کا قبضہ ہے یا مطلق العنان اور نام نہاد بادشاہتیں ہیں اور اگر کہیں جمہوریت ہے تو اس پر طبقہ اعلیٰ کی حکمراں طبقہ ریاستی حب الوطنی کا پرزور پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔اخبارات ،رسائل ،ریڈیواور ٹی وی کے علاوہ نصابی کتب کے ذریعے ریاستی وفاداری کے جذبات کو ابھارا جاتا ہے اور ریاست عوام پر اپنے تسلط کو مضبوط کرتی ہے قومی ریاست کی وفاداری کو اس حد تک ذہنوں پر حاوی کردیا جاتا ہے کہ اس کی ذرا سی مخالفت غدار وطن بنا دیتی ہے اس لیے یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ قومی ریاستیں عوام کو آزادی دے رہی ہیں یا انہیں تنگ نظر اور انتہا پسند بنارہی ہیں ۔

لیکن موجودہ صورتحال میں یہ قومی ریاستیں گلوبلائزیشن اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پھیلاوے سے خطرے میں ہیں جو ان کی طاقت اور اختیارات کے دائرے کو محدود کررہی ہیں اس لیے یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا قومی ریاست ختم کر دیا جائے ۔ اگر یہ ہوتا ہے پھر لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کون کرے گا ؟ اگر قومی ریاست کو برقرار رکھا جائے تو پھر ضرورت ہے کہ اس کے اسٹرکچر (ساخت ) کی تشکیل نو ہو جو جدید حالات کے مطابق ہوا ور جس میں چند طبقوں کی اجارہ داری نہ ہو بلکہ عوام کو ان کی حقوق ملنے کی ضمانت ہو ۔

نیشنل ازم کی تاریخ سے ہمارے سامنے جو نتائج آئے ہیں ان کے پیش نظر کہا جاتا ہے کہ اس نے تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ یہ ایک موثر طاقت کے طور پر ابھرا اور اپنی قوت سے اس نے ہیپس برگ امپائراور عثمانی خلافت کا خاتمہ کر کے ان کے آزاد علاقوں میں قومی ریاستیں قائم کیں اس کے زیر اثر یورپ میں کالونیل ازم اور امپیریل ازم ابھرا جنہوں نے کمزور ملکوں کو اپنی نو آبادیات بناکر وہاں حکومت کی ۔ لیکن اس کے زیر اثر مقبوضہ ملکوں میں قومی تحریکیں ابھریں کہ جنہوں نے اپنے ملکوں کو ان سے آزاد کرایا۔

نیشنل ازم آج بھی امریکی امپریل ازم کا بنیادی ستون ہے کہ جس کے سہارے وہ اپنے تسلط کو عالمی طور پر بڑھا رہا ہے نو آباد ملکوں میں اب بھی نیشنل ازم علیحدگی پسند جماعتوں کے لیے ایک نظریہ ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ۔
لیکن نیشنل ازم کے منفی پہلو بھی ہمارے سامنے ہیں جب اس کی بنیاد کلچر پر ہوتی ہے تو اس میں انتہا پسندی اور تعصب آجاتا ہے اپنے کلچر کی برتری اس قدر ذہنوں میں سما جاتی ہے کہ دوسری ثقافتوں سے سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی ہے یہ قوم پرستوں کو انسانیت سے کاٹ کر علیحدہ علیحدہ خانوں میں مقید کر دیتی ہے ۔

یورپ کے دانشوروں کا یہ کہنا کہ ایشیاء و افریقہ کا نیشنل ازم پسماندہ ہے جب کہ یورپی نیشنل ازم ترقی یافتہ۔ مگر یورپ کے ترقی یافتہ نیشنل ازم نے دنیا پر تسلط قائم کرکے ، جنگ قتل و غارت گری اور معاشی لوٹ مار کا بازار گرم کیا ، نسلی برتری کے ذریعے دوسری اقوام کو ادنیٰ درجہ قرار دیا اور آج بھی امریکی نیشنل ازم عالمی بربریت کا مظہر ہے اس کے مقابلے میں تیسری دنیا کے پسماندہ نیشنل ازم نے عالمی استحصال کے بجائے اپنے لوگوں کا استحصال کیا ، لہٰذا اس صورت میں دونوں قسم کے نیشنل ازم نے انتہا پسندکو بڑھایا اور عالمی و ملکی طور پر لوگوں کو بحرانوں سے دوچار کیا ۔

**اس وقت جب کہ یورپ قومی ریاستوں کو ختم کر کے متحدہو رہا ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا دوسرے جغرافیائی علاقے اس ماڈل کو اختیار کریں گے یا بدلتے حالات میں انہیں قدیم اور فرسودہ اداروں کو برقرار رکھیں گے ؟
آج بلوچ خالص نیشنلزم کی جدید جدوجہد میں ایک آزاد ریاست کی جستجو میں ہے جو قومی برابری کی بنیادوں پر ہوگا ۔امیر،سرمایہ دار میر و معتبر اسکی مخالفت اس لئے کر رہے ہیں کہ آزاد بلوچ ریاست جہاں برابری قومی برابری کے اصولوں بنیاد پر قائم ہوگا انکو اپنی موت نظر آ رہی ہے جسکی وجہ سے وہ اسکی مخالفت کر رہے ہیں،برطانوی کالونی پاکستان چونکہ سرمایہ دارانہ نظام پہ چل رہی ہے اسی میں یہ قبیل خود کی بقا اور پروش جان ہو کر پاکستانی نیشنلزم کی پر چار کر رہے ہیں جسکا نہ کو ئی سر ہے نہ پاؤں۔
................................
(یہ مضمون بی این ایم کے ترجمان زرمبش کے شمارہ نمبر 7مئی2012 سے لیا گیا ہے )


0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں