اتوار، 2 دسمبر، 2018

جارج آرویل، 1984 اور آج کی دنیا


 جارج آر ویل 1984 اور آج کی دنیا

محمد صدیق سومرو

برطانوی   مصنف اور صحافی جارج آرویل کا ناول  دوسری جنگِ عظیم کے بعد 1949ء میں چھپا، جس میں مستقبل کی ایک خیالی دنیا کو 3 حصوں یوریشیا (یورپ اور ایشیا)، مشرقی ایشیا اور اوشیانیا میں بٹا ہوا دکھایا گیا ہے۔

ناول کا پلاٹ مستقبل کے انگلینڈ، جو کہ اوشیانیا کا حصہ ہے، میں سیٹ ہے جس کا دارالخلافہ لندن ہے۔ انگلینڈ میں حکمران جماعت کی جانب سے سخت آمریت لاگو ہے جس کا سربراہ بگ برادر ہے۔ پارٹی کا کوئی نام نہیں لیکن اسے انگریزی میں دی پارٹی کہا جاتا ہے۔

لندن میں پولیس اور دیگر ریاستی ادارے ٹیلی اسکرین نام کی ایک جدید مشین کے ذریعے ہر شہری کی حرکات و سکنات کو براہ راست دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ دوسری جانب شہر میں جگہ جگہ طویل القامت پوسٹر آویزاں ہیں جن پر بہت بڑے حروف میں بگ برادر آپ کو دیکھ رہا ہے کے الفاظ کنندہ ہیں جو کہ ہر شہری کو ہمہ وقت زیرِ نگرانی ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔

پارٹی کا ماننا ہے کہ ماضی پر مکمل ضابطہ رکھ کر ہی مستقبل کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور ماضی پر ضابطہ رکھنے کے لیے حال کو قابو کرنا ضروری ہے۔ اسی وجہ سے پارٹی ہمیشہ وقت کی سیاسی ضروریات کے پیشِ نظر تاریخ کو مسخ کرنے اوراس میں تغیرات لانے میں مصروفِ عمل ہے۔ پارٹی کی طرف سے لاگو کیے گئے قوانین کے مطابق مرد اور عورت کو کسی بھی قسم کے تعلقات رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔


شادی کے لیے بھی پارٹی کی طرف سے تشکیل دی گئی کمیٹی کو درخواست دینا لازمی ہے۔ جب کمیٹی اس بات سے مطمئن ہو کہ شادی کا حاصل مقصد صرف پارٹی کے خدمت گزار بچے پیدا کرنا ہے تب ہی شادی کی اجازت ملنا ممکن ہے۔ مطلب کہ کسی بھی شہری کو کوئی شخصی آزادی حاصل نہیں اور ہر شہری کی زندگی پارٹی کے مقاصد کی تکمیل کرتے ہوئے گزرتی ہے۔

ملک میں پرانی انگریزی زبان ختم کر کے نئی زبان لاگو کی گئی ہے جسے نیو اسپیک کہا جاتا ہے۔ نئی لاگو کی گئی زبان کے مطابق جنگ: امن ہے، آزادی: غلامی ہے اور جہالت بہت بڑی طاقت ہے جو کہ پارٹی کے آفیشل نعرے بھی ہیں۔

اس سماج میں سوچ ایک جرم ہے جس کو  ( تھاٹ کرائم) یعنی کہ سوچ رکھنے کا جرم کہا جاتا ہے۔ اس جرم پر قابو پانے کے لیے حکام کی جانب سے سوچ پر قابو رکھنے والی پولیس بھی قائم کی گئی ہے۔ جبکہ دوسری طرف نئی لاگو کی گئی زبان میں حروف کی تعداد میں بڑے پیمانے پر کمی کرکے زبان میں سے آزادی، آزادئ اظہار، علم اور اس طرح کے دیگر الفاظ بالکل ختم کر دیے گئے ہیں۔ اس پورے عمل کا مقصد عوام کے اذہان کو لاشعوری کی جانب دھکیلنا ہے۔

حکومت کے سارے کام 4 وزارتوں میں تقسیم ہیں۔ وزارت برائے امن کا تعلق جنگ سے ہے۔ وزارت برائے بہتات کا تعلق ریاست کے معاشی معاملات سنبھالنا ہے۔ یہ وزارت اکثر و بیشتر ٹیلی اسکرین کے ذریعے سرکاری منصوبہ بندی اور سالانہ اہداف کی تکمیل کے حوالے سے معلومات عوام تک پہنچاتی رہتی ہے۔ جبکہ در حقیقت کوئی بھی ہدف پورا نہیں ہوتا بلکہ اکثر ہر ماہ عوام کے راشن میں ہی کمی ہوتی ہے۔

وزارت برائے سچائی کا اہم کام تاریخی طور پر اہمیت کے حامل دستاویزات میں سیاسی ضروریات کے مطابق تغیّرات لانا یا سرے سے ان کو ختم کرنا ہے۔ اس سارے عمل کا خاص مقصد تاریخ کو پارٹی کے مؤقف سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ سب سے خطرناک وزارت برائے محبت ہے جس کا تعلق امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھنا اور پارٹی کے مخالفین کو راہ راست  پر لانا ہے۔

ریاست میں مزدور طبقے کے حالات بدترین ہیں۔ ان کو مشین میں ایندھن کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے اور ان سے ریاست و انقلاب کے نام پر زیادہ کام لینا اور کم راشن دینا معمول کی بات ہے۔ پارٹی کی جانب سے عوام اور ریاست کے غدار قرار دیے گئے شخص ایمانوئل گولڈ اسمتھ سے ہر روز 2 منٹ تک نفرت کا اظہار ایک لازمی عمل ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس کا کوئی شخصی وجود ہے بھی یا نہیں۔ اس کے باوجود بھی پولیس روزانہ غداری کے الزام میں لاتعداد شہریوں کو گرفتار کرتی رہتی ہے جن کا بعد میں کچھ پتہ نہیں چلتا۔ گرفتار کیے گئے افراد سماج اور تاریخ کے صفحات سے بالکل غائب کر دیے جاتے ہیں۔

ناول کا ہیرو ونسٹن اسمتھ وزارت برائے سچائی میں ایک معمولی سے عہدے پر فائز ہے اور اس کا کام اربابِ اختیار سے وصول کی گئی ہدایات کے مطابق دستاویزات کو ختم کرنا یا ان کے مواد میں تبدیلی لانا ہے۔ ہوش سنبھالتے ہی ونسٹن نے انگلینڈ کو دوسرے مختلف علاقوں کے ساتھ حالتِ جنگ میں دیکھا ہے۔ ونسٹن اپنی ملازمت سے، سماج سے حتیٰ کہ اپنی زندگی سے بھی بیزار ہے اور وہ آزادی اور سچائی کا متلاشی ہے۔

ایک دن دفتر کے اوقات کار کے بعد ونسٹن گلیوں میں گھومتے ہوئے وزارت میں کام کرنے والی ایک ملازمہ لڑکی کو دیکھتا ہے۔ اسے پختہ یقین ہوجاتا ہے کہ وہ لڑکی پولیس کی جاسوس ہے کیونکہ سرکاری ملازمین کا مزدور طبقے کے علاقوں میں بے سبب جانا ممنوع ہے اور کسی خطرے سے کم نہیں۔ ونسٹن کی وہ رات بہت مضطرب گزرتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ پلک جھپکتے ریاستی عملدار اسے گرفتار کرنے پہنچ جائیں گے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا۔

کچھ وقت گزرنے کے بعد ونسٹن کی اس لڑکی سے دوستی ہو جاتی ہے۔ تھوڑی تگ و دو کے بعد دونوں لندن شہر سے باہر مضافات میں ملتے ہیں اور ایک دوسرے کی قربت میں کچھ وقت گزارتے ہیں۔ وہ دونوں اپنے میلاپ کو پارٹی کی قیادت پر ایک ضرب سمجھتے ہوئے خوش ہوتے ہیں۔ جولیا ونسٹن کو بتاتی ہے کہ وہ بھی پارٹی سے بیزار ہے اور اس کی زندگی کا مقصد پارٹی کے بنائے گئے اصولوں کی خلاف ورزی کر کے مسرت حاصل کرنا ہے۔ پارٹی کا کوئی بھی نظریہ سمجھنے یا رد کرنے میں جولیا کی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ صرف چھوٹے غیر قانونی قرار دیے گئے عمل کر کے پارٹی کے خلاف بغاوت کرنا پسند کرتی ہے۔

جولیا کا کہنا ہے کہ اوشیانیا کسی بھی ملک سے جنگ نہیں کر رہا بلکہ عوام میں جنگ کا خوف برقرار رکھنے کے لیے خود اپنے ہی ملک پر بمباری کر رہا ہے۔

پارٹی کے ایک خاص ممبر او برائن سے جولیا اور ونسٹن کو ایمانوئل گولڈ اسٹائن کی کالعدم قرار دی گئی کتاب ملتی ہے۔ دونوں سمجھتے ہیں شاید او برائن بھی ان کی طرح پارٹی سے بیزار ہے۔ کتاب میں سماج اور پارٹی کے بارے میں بہت سے حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ کتاب کے مطالعے کے دوران اچانک پولیس چھاپا مار کر ونسٹن اور جولیا کو گرفتار کرتی ہے۔ ونسٹن کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ اپنے آپ کو کسی نئی جگہ پر پاتا ہے۔

اسے پتہ نہیں وہ کہاں ہے، شاید وزارت برائے محبت کی عمارت میں جس کو ایک جیل کی طرح بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کمرے میں دیگر قیدی بھی ہیں جو سب بھوکے اور شدید خوفزدہ ہیں۔ جیل میں وقت کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ نہ رات کا نہ دن کا۔ او برائن ونسٹن سے ملنے آتا ہے جس سے ونسٹن کو پتہ چلتا ہے کہ او برائن بھی پارٹی کے لیے کام کرتا ہے اور اس کا کام پارٹی کے مخالفین کو ڈھونڈ کر گرفتار کروانا ہے۔

مسلسل اور شدید تشدد برداشت کرنے کے بعد ونسٹن ہر کردہ اور نا کردہ جرائم کا اعتراف کرتا ہے۔ اس سارے منظم تشدد کا مقصد مجرموں کو پارٹی کے نظریے کے مطابق حقائق دیکھنے کا عمل سکھانا ہے جسے پارٹی بیماروں کا علاج کہتی ہے۔ پارٹی اور بگ برادر کی بقاء کے لیے وزارت برائے محبت مجرموں کو مارنے کے بجائے ان کا علاج کرکے انہیں راہ راست پر لاتی ہے۔

پارٹی کے پاس مجرموں کے دوبارہ قومی دھارے میں لانے کے لیے باقاعدہ سائنسی بنیادوں پر قائم شدہ پروگرام ہے جس کے 3 مرحلے ہیں: سکھانا، سمجھانا اور قبول کروانا۔ مجرموں کو ان 3 مراحل سے گزار کر پارٹی کے عملدار انہیں مجموعی طاقت اور اس کی اہمیت کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پارٹی بھی ایک مجموعی طاقت کی پیداوار ہے اور اصل طاقت چیزوں پر نہیں بلکہ لوگوں کے ذہنوں پر حکمرانی کرنے میں ہے، لوگوں کو عذاب میں رکھ کر ہی یہ طاقت حاصل کی جا سکتی ہے۔

پارٹی کا تشکیل کردہ سماج جھوٹ، سزا، ہٹ دھرمی اور خوف پر مشتمل ہے۔ ان تشددات میں سے ایک اہم تشدد قیدیوں کے خوف کو جان کر انہیں زیادہ سے زیادہ اسی خوف میں مبتلا رکھنا ہے۔ اسی طرح ونسٹن کو بھی مارنے کے بجائے اسے مختلف ذہنی و جسمانی اذیتیں دے کر راہ راست پر لایا جاتا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو یہ ناول آج سے تقریباً 70 برس پہلے لکھا گیا لیکن یہ ناول آج بھی اتنی افادیت اور اہمیت کا حامل ہے جتنا پہلی اشاعت کے وقت تھا۔ ناول میں موجود تمام عناصر آج بھی نہ صرف ہمارے بلکہ دنیا کے تقریباً ہر سماج میں ملتے ہیں۔

مختلف اوقات میں حکمرانوں کی جانب سے دشمن ریاستوں کے بارے میں کہے گئے جھوٹ، جنگ اور قومی سلامتی کو جواز دے کر جنگی ہتھیاروں اور دفاعی اخراجات میں اضافے اور ان عوامل پر تنقید کرنے والے افراد کو غدار اور ملک دشمن قرار دینا آج بھی ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں عام پایا جاتا ہے۔

عوام کی سوچ پر پابندی لگا کرانہیں اظہار کی آزادی کے بنیادی حق سے محروم رکھنے کا عمل آج بھی جاری ہے۔ بہت سے سماجوں میں آج بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنے ضمیر اور سوچ کے قیدی (جارج آرویل کے الفاظ میں تھاٹ کرمنل) ہیں جنہیں حکومتیں یا حکام قابو میں رکھنے کے لیے مصروف رہتی ہیں۔

ناول میں بیان کیا گیا بگ برادر اصل کوئی فرد واحد نہیں بلکہ ایک ذہنی رجحان ہے جو آج بھی ہر سماج میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ کسی بھی ریاست کی اصل باگیں کس کے ہاتھ میں ہیں؟ اور کون قومی مفادات کے فیصلے کر رہا ہے؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے آج بھی عام آدمی منتظر ہے۔ فیس بک، ٹوئیٹر اور سماجی رابطے کی دوسری پلیٹ فارموں پر لوگوں کو مانیٹر کرکے ان کی اظہار کی آزادی کا بنیادی حق سلب کرنے کا عمل آج بھی جاری ہے۔

یہ ناول مستقبل پر لکھے گئے فکشن میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اب جبکہ وقت بدل چکا ہے، دنیا بہت آگے نکل گئی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ کئی تبدیلیاں رونما ہوگئی ہیں۔ پھر بھی یہ ناول قاری کے ذہن میں سوال ابھارتا ہے کہ کیا واقعی وقت تبدیل ہوگیا ہے؟ اور ہم 1984ء گزار کر آئے ہیں؟ کیا یہ وہی وقت نہیں جس میں ہم ہمیشہ رہے ہیں؟ آرویل سے پہلے بھی اور 1984ء کے بعد بھی۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
محمد صدیق سومرو جامعہ سندھ کے شعبہ میڈیا اسٹڈیز میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔