پیر، 28 دسمبر، 2015

مطالعہ ایڈیٹ: کیوں اور کیسے؟


مطالعۂ ایڈیٹ: کیوں اور کیسے؟/این رسکا
مئی ۲۰۰۳ میں روسی ٹیلیوژن ’روسیا‘ نے دوستووسکی کے ۱۸۶۸ کے ناول ’ایڈیٹ‘ کی سلسلہ وار ڈرامائی تشکیل نشر کی۔ یہ سلسلہ نہایت مقبول ہوا اور پورے روس میں پزیرائی کے اونچے ترین درجے پر رہا۔اس پروگرام نے جہاں کچھ ناظرین کومسحور کر کے رکھ دیا وہاں کئی الجھن میں بھی مبتلا ہوئے،لیکن پسندیدگی اور ناپسندیدگی سے قطع نظر یوں معلوم ہوتا ہے کہ تقریباً ہر کسی نے اسےدیکھا ضرور۔پروگرام کے ہفتوں بعد تک ڈنر پارٹیوں پر اس موضوع پرہونے والی گفتگو اکثر تلخ مباحثوں میں تبدیل ہوتی دیکھی گئی کہ آیا ہدایت کارولادمیر بورٹکو، دوستووسکی کے اصل متن کو پردۂ سکرین پر پوری طرح پیش کر پایا کہ نہیں۔ کتابوں کی دکانوں نے ناول کو سامنے سجانا شروع کر دیا اور پورے ہی روس میں کافی بِکری ہوئی۔
انیسویں صدی کے کسی ناول کی ٹیلی وژن پیشکش کا ایسے شدید اور دوررس ردعمل کو دعوت دینا کافی غیرمعمولی بات تھی خاص طور پر اس لئے کہ زیرِ بحث ناول ایڈیٹ تھا جو کہ دوستووسکی کے سب سے زیادہ قابلِ رسائی کاموں میں شمار نہیں ہوتا۔لیکن سوویت یونین کے بعد کی روسی حقیقت کے سیاق و سباق میں ایڈیٹ پر سامنے آنے والا ردعمل کافی حد تک قابلِ فہم ہے۔ درحقیقت امکان یہی ہے کہ کسی اور روسی کلاسیک مثال کے طور پر ’نئی پود‘ یا ’جنگ اور امن‘ کو اس قسم کی کامیابی متوقع نہ تھی۔ یہ ایڈیٹ ہی کا استحقاق تھا کیوں کہ وہ ایک مخصوص کاٹ سے کچھ ایسے کربناک سوالات اٹھا رہا تھا جو انیسویں صدی کے وسط میں روسی سماج سے متعلق تھے اور آج کے روس میں ایک بار پھر زندہ رہے ہیں۔
شرف و احترام کی پرت کے نیچے ایڈیٹ میں دکھائے گئے سماجی ڈھانچے کی حالت ابتر ہے۔ ظلم اور منافقت کی بہتات ہے۔ کم و بیش ۶۰۰ صفحات میں ایک بھی مکمل طور پر فعال اور سالم خاندان نظر نہیں آتا۔ کئی کردار آنے والی قیامت یا یقینی تباہی کی بات کرتے نظر آتے ہیں۔ دنیا پر سرمائے کی حکومت ہے، لوگوں کی تعریف ان کے پاس دولت ہونے یا نہ ہونے کی بنیادوں پر ہوتی نظر آتی ہے۔ کبھی کبھار یہ دولت ایک قسم کا تشدد بن جاتی ہے—لوگوں کی خرید و فروخت اس طرح ہوتی ہے جیسے ان کا اپنے وجود اور احساسات پر کوئی اختیار نہ ہو۔ صریحاً برے کردار بہت ہی کم ہیں لیکن اکثر و بیشتر کردار انسانی خودغرضی کواپنی شریف النفس جبلتوں کا گلا گھونٹنے کی اجازت دیتے نظر آتے ہیں۔ سماجی نظامِ مراتب کافی طاقتور اور کھلے طور پر غیرمنصفانہ ہے: توتسکی جیسا اوباش سماج میں اونچے درجے پر ہے جب کے اس کی شکار نستاسیا فلپوونا بے خانماں نظر آتی ہے۔شرافت اور دیانتداری کے پرانے معیارات غائب ہو چکے ہیں اور نئے معیارات سرے سے غیر واضح ہیں۔ جیسا کہ نشے میں دھت لیبدیف ایک طربیہ لیکن گہرائی لئے ہوئے سین میں کہتا ہے:’’ شاید پچھلی چند صدیوں کا عمومی رجحان یعنی سائنس اور مادیت پسندی کی بنیادوں پر اٹھایا گیا یہ مکمل خاکہ ہی مردود ہے۔‘‘
دوستووسکی روس کو ایک عارضی دور سے گزرتے دیکھ رہا ہے جب وہ پرانا سماجی خول اتار کر پھینک چکا ہے اور ابھی تک نئے کی تلاش میں ہے۔ایڈیٹ کے ابتدائی ابواب ۱۸۶۸ میں چھپے تو جاگیرانہ نظام میں اصطلاحات کے نتیجے میں غلامی کے ادارے کو ختم ہوئے سات سال ہوئے تھے جس کے روایتی روسی سماج پر گہرے اثرات تھے۔دوستووسکی زندگی بھر غلامی کی مخالفت کرتا آیا تھا کیوں کہ اس کے نزدیک دوسرے انسانوں کی ملکیت اپنی بنیادوں میں ایک ایسا ظلم تھا جو خدا کے خلاف تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ دوستووسکی کو ایک خفیہ سیاسی بیٹھک میں جاگیردارانہ نظام کے خلاف محض ایک خط پڑھنے کی پاداش میں ۱۸۵۰ سے ۱۸۵۴ تک سزائے مشقت دی گئی۔لیکن زار نکولائی اول کی وفات اور ایک لبرل حکمران الیگزینڈر دوم کے حکومت سنبھالتے ہی اصلاحات کا دور شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں ۱۸۶۱ میں غلامی کا ادارہ ختم کر دیا گیا۔دس سال پہلے جس تصور کے نتیجے میں دوستووسکی کو قید کیا گیا تھا وہ اب سلطنت کا قانون بن چکاتھا۔پرانے جاگیردارانہ نظام کا سماجی ڈھانچہ مخدوش ہو چکا تھا— اس کی جگہ کس نے لینی تھی؟
جہاں دوستووسکی روایتی غلامی کے ختم ہونے پر خوش تھا وہاں اسے اس نئی غلامی کی پریشانی لاحق تھی جو اب جاگیردارانہ نظام سے منسلک اس روایتی غلامی کی جگہ لینے والی تھی۔ بے روک ٹوک سرمایہ دارانہ نظام دوستووسکی کے کام میں باربار آنے والا موضوع ہے اور ایڈیٹ’ روبل‘ کی قوت کے بارے میں پرجوش واقعات سے بھری پڑی ہے۔روپے پیسے کے ڈھیر امید اور نجات کی علامت نظر آتے ہیں لیکن اکثر صرف ذلت اور تباہی لاتے ہیں۔
دوستووسکی خاص طور پر انتہا پسندی کی ایک نئی قسم سے بھی تنگ اور مایوس تھا جسے اکثر فنائیت پسندی یا انکارِ کل کہا جاتا ہے۔ فنائیت پسند جنہیں ۱۸۶۰ کی دہائی میں ثقافتی شہرت حاصل ہوئی کم از کم نظریاتی حد تک زارِ روس کی استبدادی حکومت کو کمزور کرنا چاہتے تھے۔تاہم عملی طور پر وہ اس مقصد میں دلچسپی رکھتے تھے کہ روایتی سماجی اداروں کو رد کر کے نئے سماج کی تشکیل کرنا چاہتے تھے۔فنائیت پسند خاص طور پر عقلی انانیت پسند ی کے فلسفے کے لئے مشہور تھے جو نکولائی چرنیشیوسکی نامی ادیب اور صحافی نے ۱۸۶۳ میں اپنے ناول What is to be done? میں پیش کیا تھا۔عقلی انانیت پسندی کے مطابق زندگی گزارنے والے اصولی طور پر صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ چرنیشیوسکی ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہم اپنے ہر فعل کی تہہ میں موجود انانیت پسندی کو پہچان لیں اور بے دریغ اس کے مطابق عمل کریں تو معاشرہ بہتر ہو جائے گا۔ دوستووسکی اس کو ایک ہیبت ناک تصور کے طور پر دیکھتا ہے جو اس کی نظر میں ہر قسم کے شاطر رجحانات کو ممکنہ عقلی بنیادیں فراہم کرے گا۔ خاص طور پر الحاد اس کے لئے طیش کا باعث تھا جو فنائیت پسندی کی ایک عالمگیر قدر ہے ۔دوستووسکی نے محسوس کیا کہ خدا کے انکار سے یہ انتہاپسند ایک ہلاکت خیز اخلاقی افراتفری کا انتخاب کر رہے ہیں۔ ایڈیٹ میں فنائیت پسندوں کے ایسے متعدد خاکے ہیں جن میں سب سے موزوں ایپولت کا کردار ہے جو تپ دق میں مبتلا ایک ایسا نوجوان ہے جو ہر لمحہ اس خوف سے برسرِ پیکار ہے کہ اس کےسر پر منڈلاتی موت کے سامنے زندگی بے معنی ہے۔
مختصراًخاکہ کھینچا جائے تو ایڈیٹ کے ذریعے دکھایاجانے والا روسی سماج بکھر رہا ہے۔ معطل ہوئے ظالم جاگیردارانہ نظام سے سنبھلتا ہوا سماج اب تک درست سمت کا تعین نہیں کر سکا اور حد درجہ بھٹکنے بلکہ پوری طرح زمین بوس ہو جانے کے خطرے سے دوچار ہے۔ لہٰذا اکیسویں صدی کےروس میں ایڈیٹ کی اس حد تک زوردار گونج بہت معقول معلوم ہوتی ہے۔اب جب کہ سوویت دور ختم ہو چکا ہے روسی سماج کا مستقبل اب تک مکمل طور پر واضح نہیں۔ایک طرف تو لامتناہی دائرۂ امکان سامنے ہونے کا احساس موجود ہے۔ دوسری طرف ایک مشترکہ خوف بھی موجود ہے کہ پرانے ڈھانچے کی جگہ کہیں ایک اور اتنا ہی استحصالی ڈھانچہ نہ آ جائے۔ بالکل دوستووسکی کے زمانے کی طرح ایک بار پھر کم دولت والے طبقات ایک ہیبت ناک عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ سماجی اور معاشی قوتوں کے سامنے ایک بے چارگی کا احساس ہی شاید یہ وجہ ہے کہ روسیوں کی ایک کثیر تعداد ایڈیٹ کو موجودہ روس کے لئے ایک اہم ناول مانتی ہے۔
لیکن کیا یہ مسائل صرف روس کے ہیں؟ دوستووسکی اپنے آپ کو ایک خالص روسی ادیب مانتا تھا جو اپنی تمام تر ذہنی صلاحتیں بروئے کار لا کر ارد گرد نظر آنے والے مصائب کے بیان اور ان سے مقابلے میں مصروف تھا۔لیکن وہ روس کوایک عالمگیر تناظر میں بھی دیکھتا تھا۔ دوستووسکی کا خیال تھا کہ اپنے سماجی اور روحانی مسائل کے حل کے ساتھ ہی روسی پوری دنیا کو ایک راہِ نجات دکھا سکتے ہیں۔جہاں دوستووسکی کے اٹھائے گئے کچھ مسائل انیسویں صدی کے روس کے ساتھ خاص ہیں وہیں ان میں ایسے مسائل کی اکثریت ہے جو آج ہم سب کو درپیش ہیں۔یہ حقیقت ایڈیٹ کو واقعی ہمارے زمانے کا ایک ناول بناتی ہے۔
ولادمیر نابوکوف جو خود بھی ایک ادیب اور روسی ادب کا ماہر تھا دوستووسکی کی تحریروں کا سخت نقاد تھا۔ نابوکوف کا دعوی تھا کہ دوستووسکی کی اوقات کسی اجرتی ادیب جتنی ہے جسے ادبی فن کا قطعاً علم نہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ’’ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ دوستووسکی بنیادی طور پر تجسس سے بھرپور کہانیوں کا ادیب ہے جہاں ہر کردار قاری کو اپنا تعارف کروانے کے بعد اپنی تمام خصوصیات و میلانات کے ساتھ آخر تک ویسا ہی رہتا ہے اور ان سب کے ساتھ پوری کتاب میں وہی سلوک کیا جاتا ہے جو شطرنج کے کسی پیچیدہ کھیل میں مہروں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ایک دِقّت طلب کہانی کار ہوتے ہوئے دوستووسکی ایک قاری کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے، وہ کہانی کو بتدریج نقطۂ عروج تک لے جاتا ہے اور تجسس کو اپنی انتہا تک پہنچاتا ہے۔ لیکن اگر آپ اس کی کسی کتاب کو دوبارہ پڑھیں تو فوراً آپ پر یہ کھلے گا کہ پہلی قرأت والا تجسس سرے سے غائب ہو چکا ہے۔‘‘ لیکن نابوکوف کی تنقید درحقیقت کافی حد تک غلط ہے اور اس کی غلطی کی گہرائی ہی ہمیں یہ سوچنے میں مدد فراہم کرتی ہے کہ ایڈیٹ کے مطالعے اور فہم کے لئے کیا راہ اختیار کی جائے۔
یہ سچ ہے کہ دوستووسکی اپنے قارئین کو محظوظ کرنا چاہتا ہے چاہے صرف اسی لئے کہ وہ اس کا تخلیق کیا گیا ادب پڑھیں اور اس کے نظریات کے قریب سے قریب تر ہوتے چلے جائیں۔ایڈیٹ ہمارے سامنے بکثرت فضیحت اور تشدد پیش کرتی ہے:پاگل پن ، مرگی کے دورے، خنجر اور کوڑوں سے حملے،خود کشی، آدم خوری سے جڑی اخلاقی پیچیدگیوں کے بارے میں ایک بحث اور اس کے علاوہ بہت کچھ۔کہانی میں موجود پُرجوش لمحات لطف اٹھانے کے لئے ہیں اور ہمیں قارئین کے طور پر ان سے مسرت حاصل کرنی چاہئے۔ لیکن ایڈیٹ نہ تو کوئی احساس بھرا ناول ہے اور نہ ہی کوئی رومانوی یا سراغ رسانہ کہانی، حالانکہ کبھی کبھار یہ تینوں قسم کے حکایتی نمونے پیش کرتا ہے۔
اس کے برعکس وہ جو صرف کہانی کے پلاٹ کے لئے اسے پڑھیں گے شاید اپنے آپ کو مایوس ہی پائیں گے۔اپنی تمام تر حدت و خنکی کے ساتھ ساتھ ایڈیٹ بہرحال کرداروں اور تصورات کا ایک ناول ہے۔کہانی میں موڑ لانے کا تصور جیسا کہ نابوکوف اس عمل کو بیان کرتا ہے، ایک سلسلہ وار خطی کہانی کی طرف نشاندہی کرتا ہے جو کبھی کبھار قاری کی توقعات کے برعکس جانے کے باوجود کئی دوسری جہات میں قاری کی ذہنی کیفیت سے مطابقت رکھتی ہے۔لیکن یہی خطی کہانی جو ہمیں جدید ادب سے متوقع ہے ایڈیٹ میں موجود نہیں۔کسی بھی ناول کی کہانی کا خاکہ تصورات برتنے کے مقابلے میں ضمنی چیز ہے۔ لہٰذا قارئین کو اپنی توجہ ناول کے تصوراتی بہاؤ پر مرکوز رکھنی چاہئے یعنی وہ کیسے تبدیلی سے گزرتے ہیں اور مختلف کرداروں کے ہاتھوں کیسے ان کی نئی جہتیں برآمد ہوتی ہیں۔دوسرے لفظوں میں پلاٹ میں موجود موڑ تلاش کرنے کی کی بجائے تصورات میں موجود تبدیلیوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
ایڈیٹ میں سب سے اہم تصور یسوع مسیح اور جدید دنیا میں اس کے مفہوم کا ہے۔دوسرے اتنے ہی اہم تصورات مثلاًعشق، تصورِ زماں اور موت ناول میں عیسائیت کے تصور کے گرد موجود بحث سے ہی منسلک ہیں۔لہٰذا عیسائیت کے بنیادی عقائد، خاص طور پر قدامت پرست روسی کلیسا کے تھوڑے بہت اصول و مبادی جانے بغیر، ایڈیٹ کی تفہیم مشکل ہے۔
شہزادہ مشکن جسے دوستووسکی ایک ’کامل حسین آدمی‘ کہتا ہے کئی طور سے خود حضرتِ مسیح کا ہی عکس ہے خاص طور پر حضرتِ مسیح کا وہ تصور جو قدامت پسند روسی روایت میں موجود ہے۔ روسی کلیسا کی روایت میں مسیحی شخصیت کی ایک اہم جہت kenosis کا تصور ہے،یعنی ایک یونانی لفظ جس کے معنی ’خالی کر دینے‘ کے ہیں۔ یہ اصطلاح عام طور پرحضرتِ مسیح کے خود کو عاجزی سے ایک انسان کے طور پر پیش کر دینے اور موت کو برداشت کرنے کے ہیں۔ سینٹ پال اپنے متبعین کو حضرتِ مسیح کے نقشِ قدم پر چلنے کی نصیحت کرتے ہیں، ’’جس نے خدا کی شکل میں ہونے کے باوجود خدا سے برابری کو کسی مفاد کے لئے استعمال نہیں کیا بلکہ اپنے آپ کو خالی کر تے ہوئے ایک غلام کی شکل اختیار کی اور انسان کی مثل وجود اختیار کیا۔انسان کی شکل میں پائے جانے کے بعد اس نے اپنی اسی راہِ عجز پر سفر کرتے ہوئے موت تک کو وفاداری سے اختیار کیا، یہاں تک کہ سولی کے ذریعے موت۔ ‘‘(نامہ بہ فلیپیان ۲: ۶۔۸) مسیح کا ایک کمزور اور عاجز تصور روسی مذہبی عقیدے کا مرکزی جزو ہے۔مشکن خود بھی ایسی ہی عاجزی کا مظہر ہے۔وہ اپنی زندگی میں آنے والے ہر شخص کے ساتھ ہم احسا سی یعنی جذبۂ ہمدردی کی ایک غیرمعمولی قابلیت ظاہر کرتا ہے۔وہ عیسائیت کے عالمگیر محبت کے آدرش کے قریب محسوس ہوتا ہے۔نستاسیا فلپوونا کے لئے مشکن کی محبت اسی زمرے میں آتی ہے۔جیسا کہ وہ خود ذکر کرتا ہے نتاکسیا کے لئے اس کا بنیادی جذبہ ہمدردی کا ہے۔اس کی تباہ حال، مصیبت زدہ روح کی خاطر وہ اس سے محبت کرتا ہے، اس کی محبت کی وجہ نستاسیا کی تکالیف ہیں۔عہد نامۂ جدید میں ایسے بہت سے مقامات ہیں جہاں حضرتِ مسیح سماج میں بے عصمت مانی جانے والی عورتوں کو اپنی نیکیوں کا ڈھنڈورا پیٹتے رہنے والے خدائی فوجداروں سے بچاتے ہیں۔ نستاسیا فلپوونا سے محبت کے ذریعے مشکن اپنے آپ کو زمین پر مسیحا ثابت کررہا ہے۔
لیکن مشکن کوئی خدائی وجود نہیں رکھتا ، وہ بہرحال ایک انسان ہی ہے اور باقی انسانوں کی طرح اس کی بھی انسانی تمنائیں ہیں۔اگلایا کے لئے اس کی محبت اس دردمندانہ محبت سے کافی مختلف ہے جو وہ نستاسیا سے کرتا ہے۔کیسے ممکن ہے کہ وہ انفرادی، رومانی محبت جو وہ اگلایا کے لئےاپنے دل میں پاتا ہے اس عالمگیرمحبت کے ساتھ بیک وقت موجود ہو جو وہ پوری دنیا اور بالخصوص مجروح و مضروب نستاسیا فلپوونا سے کرتا ہے؟ کیا یہ ضروری ہے کہ عیسائیت کا تصور ِعشق اور رومانوی جذبۂ محبت ایک دوسرے سے متضاد ہوں؟
دوستووسکی نےایڈیٹ سے کچھ سال قبل ۱۸۶۴ میں اپنی بیوی ماریا کی موت کے بعد اپنے ذاتی تناظر میں ان سوالوں پر غور وفکر کیا تھا۔کمرے میں اپنی بیوی کی میت کے سرہانے بیٹھے رشتۂ ازدواج کو حیاتِ بعد الموت کے پس منظر میں رکھ کر اس نے اپنی ڈائری میں کچھ خیال آرائی کی تھی۔اس نے لکھا کہ حضرتِ مسیح کی ذات مجسم عشق ہے اور انسانیت کے لئے یہ تصورِ عشق ایک نمونۂ حیات۔ دوستووسکی لکھتا ہے کہ ذات کا ارفع ترین مقصد ’’ اپنی انانیت کو اس طرح ختم کر دینا ہے کہ جیسے اسے کسی بھی تفریق سے بالاتر،تمام انسانیت کے قدموں میں کسی بھی بدلے کی خواہش کے بغیر لا گرایا جائے۔ یہ مسرت کی انتہا ہے۔ ‘‘ اگر ایسی عالمگیر محبت ہی زمین پر انسانیت کا مقصد ہے تو پھر شادی بیاہ اور خاندانی زندگی یقینا خود غرضی سمجھی جائے کیوں کہ یہ لازم آئے گا کہ پوری دنیا کی بجائے اپنی محبت کا مرکز کچھ لوگوں کو بنایا جائے۔ دوستووسکی مزید لکھتا ہے کہ ’’خاندان زمین پر انسانیت کے لئے مقدس ترین شے ہے[۔۔۔] لیکن اس کے ساتھ انسانیت کو اس قانونِ فطرت کی اتباع کرتے ہوئے اپنے حتمی مقصد سے منہ موڑنا پڑے گا۔ ‘‘ چونکہ لوگ اب تک خالص مسیحی جذبۂ عشق کے قابل نہیں لہٰذا انہیں اپنی محبتوں کو اپنے خاندانوں پر نچھاور کر دینا چاہئے۔ دوستووسکی کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ تضاد اس دنیا میں دور نہیں ہو سکتا۔ زمین پر سب کے لئے محبت حضرتِ مسیح کے نزول ِ ثانی اور الہامی پیشنچ گوئی کے مطابق خدا کی سلطنت کے ظہور تک ناممکن ہے۔ایڈیٹ ایک ایسے جذبۂ عشق کو سماجی اور عملی دونوں صورتوں میں وقت سے پہلے بروئے کار لانے کی کوششوں کا ایک سوانحی خاکہ ہے۔
شاہزادہ مشکن سماجی حفظِ مراتب اور رواجوں کے دباؤ میں آ کر سمجھوتے کرنے سے قاصر ہے۔زیادہ تر تو وہ یہ رواج سمجھتا ہی نہیں جس پر اسے اکثر احمق کہہ دیا جاتا ہے۔ لیکن گھامڑ پن فی نفسہٖ تو ہمیشہ کوئی ایسی بری خاصیت نہیں خاص طور پر روسی مذہبی روایت میں۔روسی کلیسا میں ’مقدس احمق‘ کی ایک مضبوط روایت موجود ہے جس کا ماخذ سینٹ پال کا کورنتھیوں کو لکھا مکتوب ہے جس میں وہ لکھتا ہے کہ ،’’ہم مسیح کی راہ میں احمق ہیں جب کہ تم مسیح کی دانش میں حصہ دار ہو۔‘‘ روسی کلیسا میں کچھ بہت زیادہ چاہے جانے والے مسیحی درویش ’’مسیح کی راہ میں احمق‘‘ کہلائے گئےہیں۔مقدس احمق جسمانی لذتوں کو حقیر گردانتے تھے، ان میں سے اکثر جاڑوں میں ننگے پاؤں رہتے، اور اکثر اوقات ان کے طور طریقے غیرمعقول اور مہمل ہوتے۔ انیسویں صدی کے روس میں کچھ لوگ مقدس احمقوں کے طور پر زندگی بسر کرتے ، صدقہ خیرات میں ملنے والی خوراک پر گزارا کرتے اور گلیوں میں ہی پڑے سو رہتے۔ ان میں سے بہت سوں کو شاید آج پاگل کہہ دیا جائے۔لیکن روسی کلیسا نے ان مقدس احمقوں کو اپنی زندگیاں خدا کے لئے وقف کر دینے اور مسیح کی کسی بھی عملی مفاد اور عقل سے بالاتر محبت میں سرشار رہنےکے باعث بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا۔
ناول کے عنوان میں موجود’’ احمق‘‘ یعنی شاہزادہ مشکن کسی بھی روایتی مقدس احمق سے زیادہ با عقل ہونے کےباوجود اس روایت کی کچھ نمائندہ خاصیتوں کا مظاہرہ کرتا ہے مثال کے طور پر دولت کی مکمل تحقیر، سماجی نظامِ مراتب میں عدم دلچسپی ، ہمیشہ خالص حق گوئی کی عادت وغیرہ۔ لیکن جہاں وہ سماجی رسم و رواج کے انکار پر مائل ہے وہیں وہ کسی مقدس احمق کے برعکس سماج کا حصہ بننے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ لہٰذا ناول کا ایک مرکزی دھارا ایک ایسی دنیا میں عالمگیر محبت کی کارفرمائیوں یا ناکامیوں کا احاطہ ہے جو سماجی نظامِ مراتب اور رواجوں سے پوری طرح منسلک ہے۔
ایک اور مسئلہ جو مشکن اور دوسرے کرداروں کو درپیش ہے موت کی حقیقت کا سامنا ہے۔موت کا اٹل پن کیسے زمین پر ہماری زندگیوں کو متاثر کرتا ہے؟ کیا زندگی کی متناہیت کا واقعہ اسے بے معنی بنا دیتا ہے؟ یا اس وجہ سے یہ پہلے سے بھی زیادہ قیمتی ٹھہرتی ہے؟ظاہر ہے عیسائی روایت میں ان سوالوں سے متعلق اہم مضمرات بھی موجود ہیں۔عہد نامۂ جدید کے مطابق حضرتِ مسیح کو موت کے بعد دوبارہ اٹھایا گیا اور وہ مومنین کو ابدی زندگی کی پیش کش کرتے ہیں ۔عیسائی تناظر میں دنیوی زندگی صرف ہستی کا ایک درجہ ہے ، قبل اس کے کہ انسان کو ایک اور ارفع تراقلیم ِ حیات میں منتقل کر دیا جائے۔ایڈیٹ میں بہت سے کردار عیسائیت کے اس مرکزی عقیدے پر سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں۔رگوزین اور ایپولت دونوں مصور ہابلین کی ۱۵۲۱ کی پینٹنگ ’مسیح اپنے مقبرے میں‘کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرتِ مسیح موت کےبعد زندہ نہیں ہوئے۔ناول کے سیاق میں اس تصور کے دہشت ناک مضمرات ہیں:اگر یہ کردار حق پر ہیں تو نظریۂ عیسائیت کی پوری عمارت ہی دھڑام سے زمین بوس ہو جاتی ہے اور ابدی ہلاکت ناگزیر ہے۔
موت، عشق اور زمان کے تصورات عصرِ آخر کے الہامی مباحث میں ایک دوسرے سے برسرپیکار نظر آتے ہیں۔جیسا کے عہد نامۂ جدید کے’ کشف یوحنا‘ میں ماقبل قیامت حضرتِ مسیح کے ظہورِ ثانی اور انسانی دنیا کے خاتمے کا ذکر ہے۔ناول میں ’اختتامِ زمان‘ کے کیا معنی ہیں؟ کیا زمانے کے ختم ہونے کے معنی دنیا کی ہر شے کی مکمل ہلاکت اور تباہی کے ہیں؟یا اس کے معنی زمانی حقیقت کے مخرب پنجوں کی پہنچ سے دور ایک نئی اور مزید کامل دنیا کے آغاز کے ہیں؟
یہ کہنا کہ دوستووسکی کے ذہن میں ان سوالوں اور ان جیسے کئی دوسرے سوالوں کے جواب نہیں تھے چور راستے سے فرار والی بات ہو گی۔دوستووسکی پختہ مذہبی، سماجی اور سیاسی عقائد رکھتا تھا اور ان کا اظہار کبھی اپنے فکشن میں کرنے سے نہیں جھجکا۔ لیکن بحیثیت ایک ادیب، دوستووسکی کے بارے میں ایک بے حد اچھی بات یہ ہے کہ اس سے غیرمتفق ہونے کی صورت میں بھی وہ اتنا ہی پُراثر اور دلچسپ رہتا ہے جتنا اس سے اتفاق کی صورت۔دوستووسکی متعدد ایسے معاملات پر فصیح و بلیغ طریقے سے اظہار کا حق ادا کرتا ہے جو اس کے لئے زندگی اور موت جتنے ہی اہم ہیں۔وہ کئی بار اپنے مخالفین یعنی انتہا پسندوں، ملحدوں اورکمزور وں پر ظلم ڈھانے والے دولت مندطبقات کو تضحیک کا نشانہ بناتا ہے لیکن کبھی ان کی زبان بند نہیں کرتا۔لہٰذا اس حقیقت کے باوجود کہ دوستووسکی قاری تک اپنی فکر اور اعتقادات پہنچانا چاہتا ہے، ایڈیٹ کسی بھی تناظر میں پروپیگنڈا نہیں ہے۔اس کے برعکس ناول متنوع تصورات پر مشتمل ایک ایسا پیچیدہ خاکہ ہے جو انسانی تجربے کے لئے ناگزیر ہے۔

انگریزی سے ترجمہ: عاصم بخشی

منگل، 15 دسمبر، 2015

مسلح انقلابی جنگ



مصنف کا تعارف

نکروما (1909 تا 1972)

نکروما براعظم افریقہ کے جانے مانے انقلابی لیڈر رہے ہیں۔ وہ گھانا کے پہلے صدر تھے۔ ان کا جنم 21 ستمبر 1909 میں ہوا۔ 1925ء میں اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ گئے اور وہاں ایک یونیورسٹی میں تعلیم کی بعد لیکچرار ہوئے۔

1949ء میں وہ واپس گھانا آئے۔ گھانا اس وقت برطانیہ کی نو آبادی تھا۔ نکروما نے کنویشن پیپلس پارٹی بنائی۔ (C.P.P) کے پلیٹ فارم سے انہوں نے گھانا کی آزادی کی تحریک چلائی اور 1952ء میں گھانا کے پہلے وزیراعظم بنے۔
1960ء میں جب گھانا ایک مکمل آزاد ریپبلک ہوا تو ان کو تاحیات صدر بنایا گیا۔ 1966ء کو سامراج نے فوج کے ذریعے ان کا تختہ الٹا دیا۔ یہ جلاوطن ہوگئے اور 1972ء میں رومانیا میں فوت ہوئے۔

مصنف کا نوٹ:

یہ کتاب کان کئری Conakry میں، میں نے لکھی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے گوریلا جنگ کی ہینڈ بک کے لئے نوٹس لئے تھے۔ وہ جب میں 21 فروری 1966ء کو ھنوئی کی طرف آیا تو وہ گھانا میں ہی رہ گئے۔ وہ تمام مواد اور اسکرپٹ فوج او ر پولیس اور غداروں کی طرف سے سامراج اور اس کی جاسوسی تنظیموں کے حوالے کیا گیا۔
یہ ہینڈ بک ایک طرح سے بالکل نئے جذبات دلاتا ہے۔ میں اْمید کرتا ہوں کہ یہ کتاب افریقی انقلاب، گوریلا جنگ اور آل افریقن یونین گورنمنٹ کے مقاصد حاصل کرنے میں مفید ثابت ہوگی۔ امریکہ میں کالوں کی طاقتور تحریک اور کئربین ساؤتھ امریکا میں افریقی عوام کی جدوجہد، افریقی، سیاسی، فوجی، انقلابی سرگرمی کی ڈیمانڈ کرتی ہے۔ ہماری فتح تمام انقلابی اور غلامی میں جکڑے ہوئے استحصال شدہ عوام، جو سرمائیدارانہ سامراج اور جدید کالونی ازم کے رد عمل میں آنے والے انقلاب کو للکار رہے ہیں، انہی کی فتح ہوگی۔
کانکئری گینا
20 جولائی 1968ء 

ضوابط اور اصول:

1. اپنے تمام حصو ں میں احکام کو مانو۔
2. لوگوں سے سوئی اور دھاگا بھی نہ لو۔
3. قبضے میں آنے والی تمام اشیاء قیادت کی حوالے کریں۔
4. بات چیت کا انداز شائستہ ہونا چاہئے۔
5. جو چیز خرید کرنی ہو اس کی مناسب قیمت ادا کریں۔
6. جو چیز ادھار لی ہو وہ واپس کرو۔
7. جس چیز کو آپ نے نقصان پہنچایا ہو اس کا معاوضہ ادا کرو۔
8. لوگوں پر گندگی نہ پھینکو یا کسی کے لئے قسم نہ اْٹھاؤ۔
9. فصل کو نقصان نہ پہنچاؤ۔
10. عورتوں کے ساتھ آوارگی مت کرو۔
11. قیدیوں سے بدسلوکی نہ کرو۔
12. اپنے کان اور آنکھیں کھلی رکھو۔
13. اپنے اندر چھپے ہوئے دشمن کو پہچانو۔
14. بچوں کی رہبری اور خیال رکھو۔
15. عوام کے خادم بنو۔

دشمن کو پہچانو
ابتدائیہ:

مسلح انقلابی جنگ کی نئی لہر نے براعظم افریقہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس لئے یہ لازمی ہے کہ ہم یہ جانیں کہ، "آخر ہم لڑ کیوں رہے ہیں، اور کس لئے لڑ رہے ہیں؟" اس لئے سامراج اور جدید نو آبادیاتی نظام کو الگ الگ حصوں میں بانٹ کر دیکھنا چاہیے تاکہ ہم اسے اچھی طرح سے جانچ پرکھ سکیں اور عالمی لیول پر اْن کی حکمت عملی جان سکیں۔ اسی کتاب میں میں نے سامراج اور جدید نو آبادیاتی نظام کی ماہیت اور ساخت دکھانے کی ساتھ ساتھ آزادی کے حصول اور افریقہ میں ہماری سیاسی حکمت عملی اور ہم آہنگی کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

نکروما
...................................
باب اول
دنیا کے لئے سامراج کی حکمت عملی
دشمن کو پہچانو:

بہت سے عوامل، حادثات اور حالات باہر سے افریقہ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لئے ہماری آزادی کی لڑائی کا رُخ صحیح ہونا لازمی ہے۔ سب سے پہلے تو ہم دشمن کو پہچانیں، اور پھر ہونے والے حادثات و واقعات کو اچھی طرح سمجھیں۔ لیکن اس سے بھی پہلے اہم ہے سامراج، جو ہمارے لوگوں کو استحصال کی چکی میں پیس رہا ہوتا ہے۔

اس لئے وہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ ہمیں سامراج کو واضح کرنے کے لئے حکمت عملی بنانی پڑیگی۔ پیداواری ذرائع کا استحصال دشمن کے ہاتھوں ہمارا استحصال ہے۔ سامراج ہمارے پیداواری ذرائع پہ قابض ہوتا ہے۔ قومی آزادی کی تحریک کو ختم کرنے کے لئے وہ کون سے ذرائع استعمال کرتا ہے یہ بھی دیکھنا پڑیگا۔

ایک مرتبہ بھی اگر ہم دشمن کی حکمت عملی کی کچھ حصوں کو اچھی طرح سمجھ گئے تو پھر ہم اس پوزیشن میں ہونگے کہ اپنی اصل اور حقیقی حالات کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے مقاصد کے لیئے جدوجہد کرسکیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا مندرجہ ذیل گروہوں میں بٹ گئی (علاوہ روس اور چین کے)۔
1. سرمائیدار ریاستیں جن میں سامراج اپنی مکمل لوازمات کے ساتھ تھا۔
2. سامراجی جدید نو آبادیاں بنے ہوئے ممالک، جو سامراج کو اقتصادی امداد فراہم کر رہے تھے۔ (جنوبی افریقہ کے بہت سے ممالک انہیں حالات میں سے گذرے ہیں، جن کا سامراج معاشی استحصال کرتا تھا۔ جیسے اسپین اور پورچوگال، جو اب بھی جدید نو آبادیاں ہیں۔)
دوسری عالمی جنگ کی بعد شدید معاشی، معاشرتی، اور سیاسی دباء ان دونوں خطوں میں پیدا ہوئے۔
(الف) سرمائیدار: سامراج کی ریاستوں کے اندر مزدور تنظیمیں مضبوط اور تجربہ کار ہونے لگی اور وہ سرمائیدارانہ معاشیات میں جو پیداوار ہونے لگی اس کے لئے دعویٰ کرنے لگی۔ ان حالات کو زیادہ دنوں تک ٹالا نہیں جا سکتا تھا۔ دونوں عالمی لڑائیوں نے یورپ کی اقتصادی حالات کو موت کے کنارے لا کھڑا کیا تھا۔ اسی لئے یہ لازمی تھا کہ مزدوروں کے کچھ مطالبات منظور کئے جائیں۔
(ب) جب سرمائیدارانہ استحصالی نظام اپنے اندرونی تضادات کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ رہا تھا تو عین اسی وقت سامراجی غلام ملکوں میں آزادی کی تحریکیں مضبوط اور منظم ہورہی تھیں۔ اس لئے غلام ملکوں کے عوام کی مانگوں کو زیادہ دنوں تک سائیڈ میں نہ رکھا جا سکتا تھا۔ قومی آزادی کی تحریکیں عوامی تحریکیں بن گئیں تھیں۔جیسا کہ:
Reassemble M.A. Democratic African (R.D.A(
Party Democratic Guinee (P.D.G)
جس نے گھانا میں کام کیا۔ اس کے علاوہ دوسرے ملکوں میں جن میں، ویتنام، کینیا، الجیریا، میں لوگوں نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیئے خون اور آگ کے ذریعے سیدھی جنگ لڑی۔ ان خطوں میں میٹروپولیٹن ریاستوں کے اندر لڑائی ایک ہی دشمن کے خلاف تھی۔
مزدور تحریک اور آزادی کی تحریک سے بچنے کے لیئے سامراج چھوٹے، چھوٹے ریفارم کرتا ہے یا رعایات دیتا ہے۔ جو سامراجی نظام کو بچا سکیں۔ اندرونی توڑ پھوڑ اور مظاہرے مزدور تحریک کی طرف سے دباء بڑھانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اس سے بچنے اور سرمائیدارانہ نظام کی بقا کے لئے سرمائیدارانہ حکومتیں مزدور طبقے کو کچھ رعایات اور سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ جیسا کہ سوشل سیکیورٹی، مزدوروں کی بہتر اجرت، معیاری حالت کے اندر کام کرنے کے مواقع، ہنرمند تربیت حاصل کرنے کی سہولیات اور دوسرے ایسے لوازمات شامل ہیں۔ یہ اقدامات
بنیادی طور پر تضاد کو کچھ وقت کے لیئے تو کم کردیتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف استحصال کو یقینی بنادیتے ہیں۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سرمائیدارانہ معاشرہ، ہر کسی کو اچھی زندگی اور فلاحی مملکت بنا دیتا ہے۔ یقیناوہ ایسا جھوٹا پروپیگنڈہ کرکے کچھ وقت کے لئے کمیونزم سے اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔
ان کے سامنے مسئلہ صرف یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت وہ تمام فوائد جو ایک اقلیت کو حاصل ہوتے ہیں وہ برقرار رہیں اور ریاست کے لئے سرمایہ آرام سے لوٹا جائے، اسی مسئلے کے حل کے لئے سرمائیدار، نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی اصلاحات لاتے ہیں تاکہ ریاست کی بہتری کی لیئے جتنا سرمایہ ضروری ہے وہ حاصل کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں جدید سرمائیدارانہ نو آبادیاتی ممالک کا مادی اور روحانی استحصال کرنے سے پہلے وہ اوپر دیئے گئے اصولوں پر عمل کرتے ہیں۔

اتوار، 13 دسمبر، 2015

فوجی تربیت کا مقصد لوگوں کو مارنے والی مشین بنانا نہیں ہے


انقلابی ممبران پر معاشرتی، سیاسی اور فوجی ذمہ داریاں ہوں گی۔ ان تینوں چیزوں کے لئے نئی بھرتی ہونے والوں کو مختلف تربیتی 
مراحل سے گذرنا ہوگا۔فوجی تربیت کا مقصد لوگوں کو مارنے والی مشین بنانا نہیں ہے یا تنخواہ اور پیسوں کی خاطر لڑنے والے فوجی 
بنانا نہیں ہے۔ ہمارا اصل مقصد کسی بھی آدمی کے خیالات کو انسان دوست، ترقی پسند اور دانشمندانہ انقلابی بنانا ہے۔
ہم انقلابی عمل کو آگے بڑھانے کے لیئے مادی آلات اور اسلحہ کا استعمال کرنا سکھاتے ہیں۔
انقلابی یونٹوں میں نئی بھرتی ہوکر آنے والوں کے لئے مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
1۔ جیسا کہ ہماری انقلابی قوت دشمن کے مقابلے میں تعداد اور مادی وسائل کے لحاظ سے بہت کم ہوتی ہے۔
اس لیئے ہمیں وسائل اور مادی اشیاء کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے۔
2۔ دشمن کے مقابلے میں انقلابی مجاہد کو زیادہ ہوشیار اور ٹریننگ یافتہ ہونا چاہئے۔
اس لئے ابتداء میں ہمارے اور دشمن کے درمیان جو فرق ہوتا ہے اس کو ہم زیادہ سے زیادہ تکنیکی نالیج اور اخلاقی
برتری سی پورا کر سکتے ہیں۔تنظیم کے کمانڈراور ممبراان کو جانچنے کے لئے مندرجہ ذیل باتیں ذہن نشین ہونا چاہئیں۔
1 ۔ یہ دیکھنا چاہئے کہ ممبر اپنے کام کو معیاری اور ذمہ دارانہ انداز میں کر رہا ہے۔
2 ۔قربانی اور بے جگری سے لڑنے کا جذبہ انقلابی کارکن میں موجود ہے۔
3 ۔نظریاتی تربیت باقاعدہ طور پر ہر ممبرر کو دینی چاہئے۔
یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ تنظیمی مشینری ایک مربوط نظام کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں یا نہیں؟ ایک انقلابی مجاہد، تخلیق و تحقیق پرست، چست و چالاک،بااخلاق و باکردار اور انقلابی نظریات سے مسلح ہونا چاہئے۔ ہماری ٹریننگ ذہانت سے بھرپور، تنقید، خود تنقید اور رضاکارانہ ضابطہ اخلاق کے ماتحت ہونی چاہئے۔
یہ ٹریننگ (سیاسی، سماجی، اور فوجی) مراکز میں کرائی جائیگی۔ یہ مراکز آزاد علاقہ جات میں قائم کیئے جائینگے۔ یا پھر دشمن کے علاقوں کے اندر ہوں لیکن ان کا خفیہ ہونا ضروری ہے۔ کارکنوں کو فوجی ٹریننگ کے ساتھ ساتھ سیاسی اور نظریاتی تعلیم کے ایسے کورس کرائے جائیں جو ان کے 
اندر رضاکارانہ ڈسپلن کو جنم دیں۔
تحریر ۔۔نکروما ۔ افریقہ کے انقلابی رہنما

ہفتہ، 12 دسمبر، 2015

لفظ بے وقوف کا نفسیاتی استعمال


لفظ بے وقوف کا نفسیاتی استعمال 

تحریر: فرحت قاضی

جب ایک قوم کے افراد کو غلام بنایا جاتا ہے تو اسی حربے سے کام لیا جاتا ہے۔
اپنی روزمرہ بات چیت اور معمولات کے دوران دوست اور دفاتر میں ساتھی ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے ہوئے بیوقوف،احمق اور کم عقل کے الفاظ استعمال کرتے رہتے ہیں جس کا عموماً برا بھی نہیں منایا جاتا ہے البتہ جو ٹارگٹ بنتا ہے وہ بھی اس تاک میں رہنے لگتا ہے کہ موقع ملنے پر وہ اپنا حساب چکتا کردے۔
جب ایک دوست دوسرے یا دوست اپنے ایک دوست کو بے وقوف،احمق اور کم عقل کہتے ہیں تو وہ واقعتاً بے وقوف نہیں ہوتا ہے یا پھر وہ اس کو ایسا سمجھتے ہیں البتہ اس لمحہ اس سے کوئی احمقانہ حرکت سرزد ہوئی ہوتی ہے یا پھر ایسی بات کہ جاتا ہے جس میں حماقت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ سننے والا اس کا کوئی زیادہ اثر قبول نہیں کرتا ہے۔
مالک اور نوکر کے مابین سماجی مراتب کی ایک وسیع خلیج حائل ہوتی ہے اور مالک اس طبقاتی تفاوت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے چنانچہ جب ایک مالک اپنے ملازم کو احمق کہتا ہے اور اسے وقتاًفوقتاً یاد بھی دلاتا رہتا ہے تو یہ دوستوں والا بے وقوف،احمق اور کم عقل نہیں رہتا ہے۔
اگر مالک ان الفاظ کی تکرار کرتا رہتا ہے تو پھر وہ اپنے نوکر کو یہ ذہن نشین کرانا چاہتا ہے کہ وہ صرف مالک ہی نہیں ہے بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ عاقل اور باشعور بھی ہے اور وہ جس مرتبہ پر فائز ہے اس کا پورا پورا مستحق بھی ہے لہٰذا بات چیت سمیت کوئی بھی مرحلہ،محفل اور موقع ہو اسے مالک اور نوکر کے مابین پائے جانے والے اس ناطے اور رشتے کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے اور کبھی، کبھی بھی ان حدود کو پار کرنے کی جرات؟ تو کیا تصور بھی نہیں کرنا چاہئے۔
ایک مالک اپنے ملازم کو ہمہ وقت احمق اور الّو کا پٹھا نہیں کہتا ہے وہ کبھی کبھار اس پر غصّہ بھی کرتا ہے تو کبھی کبھار مہربانی اور سخاوت کا مظاہرہ بھی کرتا ہے اور یہ سب بھی بنیادی طور پر نوکر کو طبقاتی تفاوت اور امتیاز یاد دلاتے رہتے ہیں یہ ایک ملازم کو یاد دلاتے ہیں کہ مالک اور نوکر دونوں برابر نہیں ہوتے ہیں غصّہ کے ذریعے مالک نوکر کو احساس دلاتا رہتا ہے کہ وہ انتہائی نالائق، نااہل اور اس ملازمت کا مستحق نہیں ہے کیونکہ اس کی پے در پے حماقتوں سے اسے ایک سے زائد مرتبہ نقصانات اٹھانا پڑے ہیں اور اپنی رحمدلی اور سخاوت کی اداکاری سے مالک اسے اپنے احسانات کے بوجھ تلے لانا چاہتا ہے۔
چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ نوکر مالک کی باتیں سنتا اور مار بھی کھاتا ہے پھر بھی اسے چھوڑتا نہیں ہے کیونکہ وہ اسے اپنی ملازمت کا جزُو سمجھتا ہے البتہ کمتری کا ضرور شکار رہتا ہے اور مار کھانے کے بعد خود کو تسلی دینے کے لئے ایک کونے میں بیٹھ کر مالک کے احسانات کو یاد کرنے لگتا ہے۔
اس طرح مالک احساس برتری اور ملازم احساس کم تری میں مبتلا رہتے ہیں یہی احساسات رفتہ رفتہ مالک میں یہ گھمنڈ پیدا کردیتا ہے کہ وہ ان داتا ہے اور ملازم سمجھتا ہے کہ اس کا نصیب کھوٹا ہے علاوہ ازیں مالک اپنے اس عمل سے ملازم کے محسوسات کو دبانے میں بھی کامیاب ہوجاتا ہے ملازم عموماً سراسیمہ رہتا ہے گھبراہٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور حواس باختگی میں اس سے کبھی پیالیاں ٹوٹ جاتی ہیں کبھی ٹرے گرجاتی ہے گویا غیر شعوری طور پر حماقتوں پر حماقتوں کرنے لگتا ہے اور کبھی کبھار تو وہ نفسیاتی مریض بن کر ہسپتال پہنچادیا جاتا ہے۔
مالک کے بار بار الّو کا پٹھا کہنے،غصّہ، مہربانی اور فیاضی پر نوکر سوچنے لگتا ہے کہ گوکہ اپنی حماقت کے باعث وہ اس ملازمت کا مستحق نہیں ہے تاہم مالک نے ملازمت پر فائز رہنے کی اجازت دے کر احسان عظیم کیا ہے اس لئے تنخواہ یا مراعات میں مزید اضافے کا مطالبہ اسے زیب نہیں دیتا ہے چنانچہ یہ سوچ اورعمل اس میں صابر و شاکر رہنے کی خصوصیات بھی پیدا کردیتا ہے مالک بھی یہی چاہتا ہے کہ وہ ملازم کو اپنے نفسیاتی حربوں سے اس مقام پر پہنچا دے جہاں اس میں احساس کمتری پید اہو اور اس کے لبوں پر حرف شکایت آنے کی گنجائش بھی نہ رہے۔
احساس کمتری میں مبتلا ملازم کم ہمت،ڈرپوک اور بزدل بھی ہوجاتا ہے اس کے دل میں یہ خوف جاگزیں ہوجاتا ہے کہ اپنی حماقت اور نااہلی کے باعث اسے ملازمت سے ہی کہیں ہاتھ دھونا نہ پڑ جائیں چنانچہ اس بنیاد پر وہ جھڑکیاں بھی سنتا اور برداشت کرتا رہتا ہے۔
مالک اور نوکر کے مابین اس نوعیت کے تعلقات اور برتاؤ معاشرے کے دیگر طبقات تک دراز ہوجاتے ہیں چنانچہ گھر میں مرد عورت اور بڑا بھائی چھوٹے بھائیوں کا مالک بن جاتا ہے آفیسر ماتحت اور حکمران اور وزراء عوام کو اگر زبان سے کہتے نہیں بھی ہیں مگر نا سمجھ اور احمق ضرور سمجھتے ہیں اور اس کا اظہار وہ عموماً انتخابی مہمات کے دوران وعدوں اور دعوؤں کی تکرار کے ذریعے کرتے ہیں۔
اس منفی سوچ کی سزا مجموعی طور پر ملک اور قوم کو ملتی ہے مالک جب نوکر کو احساس کمتری میں مبتلا کرکے نفسیاتی مریض بنادیتا ہے یہی برتاؤ شوہر اہلیہ اور بھائی بھائیوں اور بہنوں،افسر ماتحت اور حاکم رعایا سے کرتا ہے تو موخر الذکر کی خفتہ صلاحیتوں کو ابھرنے اور نکھرنے کا موقع نہیں ملتا ہے۔
استاد کا سماج میں ایک اعلیٰ اور عزت کا مقام ہے اس کے ہاتھوں سے ہر سال سینکڑوں طلبہ کچھ بن کر نکلتے ہیں اور وہ ملک اور قوم کی قیادت سنبھالتے ہیں اس طرح استاد طلبہ کے لئے مثال اور نمونہ ہوتا ہے چنانچہ یہی استاد جب جماعت میں پڑھاتا ہے اور اس کے ہاتھ یا کرسی کے پاس لاٹھی بھی رکھی ہوتی ہے اور طالب علم کو پوچھنے اور سوال کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے بلکہ ڈانٹتا ہے تو پھر معلم اور طالب علم کا رشتہ بھی مالک اور نوکر کا رشتہ بن جاتا ہے۔
شوہر بیوی سے تمام اختیارات لیتا ہے اور ہر فیصلہ کا اختیار اپنے پاس رکھتا ہے تو یہاں بھی وہی صورت حال بن جاتی ہے۔
حاکم اور ارباب اختیار میڈیا کے لئے قواعد وضوابط بناتے ہیں اور ایک خود ساختہ ماحول پیدا کیا جاتا ہے تو عوام ملک اور ریاست کے مالک اور وارث نہیں مغلوب اور مفتوحہ کی حیثیت اور مقام اختیار کرلیتے ہیں۔
نصاب تعلیم کی ترتیب اور انتخاب میں اساتذہ کو شامل نہیں کیا جاتا ہے پارلیمنٹ کے دروازے غربت کے باعث غریب غرباء کو اندر جانے کی اجازت نہیں دیتے ہیں اور یہ مخصوص طبقات کے لئے وقف ہوتا ہے تو اس سے اقلیتی امیر طبقات میں احساس برتری اور تفاخر اور غریب طبقات میں کمتری کے احساسات جنم لیتے ہیں اور ملک اورمعاشرہ نوکر اور عوام کی خفتہ صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ کرنے سے رہ جاتا ہے۔

جنگی حکمت عملی ( کتابی سلسلہ باب اول)



گوریلا جنگ کے عام اصول

گوریلا جنگ کا خلاصہ:
بتیستاکی آمرانہ حکومت کی شکست اور کیوبا کے عوام کی مسلح فتح کو دنیا بھر میں ایک عظیم کارنامہ تسلیم کیا گیا ہے۔اس فتح نے لاطینی امریکی عوام کے متعلق تمام تر دقیانوسی نظریات کو بدل کر رکھ دیا ہے اور گوریلا جنگ کے ذریعہ جابر حکومت سے نجات حاصل کرنے کی عوامی صلاحیت کی سچائی پر مہر لگا دی ہے۔کیوبا کے مسلح انقلاب سے تین نتائج بر آمد ہوتے ہیں:
۱۔عوامی قوتیں ایک منظم فوج کے خلاف فتح حاصل کر سکتی ہیں۔
۲۔انقلابی حالات کے پیدا ہونے تک انتظار کرنا ضروری نہیں،ایسے حالات پیدا کئے جا سکتے ہیں۔
۳۔لاطینی امریکہ کے پسماندہ زرعی علاقے انقلاب کے لئے موزوں علاقے ہیں۔ 
اولین دو نتائج ان سست انقلابیوں کے نظریات کو رد کرتے ہیں جو یہ بہانہ تراش کر کہ ایک منظم فوج کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا،ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔اس طرح مذکورہ دو نتائج ان لوگوں کے رویے کو بھی غلط ثابت کرتے ہیں جو اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ خارجی و داخلی طور پر حالات، انقلاب کے لئے مکمل طور پر سازگار شکل اختیار کریں گے۔لیکن اس طرح کے حالات پیدا کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں کرتے ہیں۔فتح کے یہ نتائج آج بشمول کیوبا تمام لاطینی امریکہ میں موضوع بحث ہیں۔یہ درست ہے کہ انقلاب کے لئے مکمل سازگار فضا صرف گوریلے ہی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ عوام پر یہ حقیقت واضح کی جائے کہ سماجی نا انصافیاں پُر امن طریقوں سے ختم نہیں کی جا سکتیں اور یہ کہ ظالم حکومت کی طرف سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ہونے والی جارحیت کو نمایاں کیا جائے کیونکہ اس طرح عوام کی نفرت گہری ہو جاتی ہے،عوامی مداخلت بڑھ جاتی ہے،اور بالاخر حکومت/ریاست کے ظالمانہ رویے کے نتیجے میں عوامی جنگ کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں۔
کسی ایسی حکومت کے خلاف جو واضح طور عوامی رائے دہندگی کے نتیجہ میں میں اقتدار میں آئی ہو اور جس کی محدود شکل میں بھی آئینی حیثیت برقرا ہو، اس وقت تک گوریلا جنگ ممکن نہیں، جب تک جدوجہد کے تمام آئینی طریقے آزمائے نہ جا چکے ہوں۔
کیوبا کی مسلح جدوجہد سے حاصل ہونے والا نتیجہ گوریلا جنگ کے طریقہ کار سے تعلق رکھتا ہے۔ اس نتیجے کے تحت یہ ضروری ہے کہ شہری علاقوں کو مراکز بنانے کی
وکالت کرنے والوں پر یہ واضح کیا جائے کہ لاطینی امریکہ میں وسیع تر دیہاتی آبادی کے اہم کردار کو نظرانداز نہ کریں۔ہم شہروں میں مزدوروں کی منظم کردہ مدافعتی جنگ کی اہمیت کو کم کرنا نہیں چاہتے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شہروں کی مسلح بغاوت کو شہری آزادیاں سلب کر کے آسانی سے کچلا جا سکتا ہے اور اس طرح شہروں میں مدافعتی تحریکیں کمزور ہو جاتی ہیں۔اس کے برعکس دیہی علاقوں میں حالات اس کے برعکس ہیں۔کیونکہ یہ علاقے جابر قوتوں کی بلاواسطہ مداخلت سے دور ہوتے ہیں اور یہاں عوام اور گوریلا فوج کے درمیان مکمل تعاون اور تعلق ہوتا ہے۔
ہم ان تینوں نتائج کو مدنظر رکھتے ہیں کیونکہ یہ انقلابی فکر میں کیوبائی انقلاب کا خلاصہ ہیں۔
گوریلا جنگ، عوام کی آزادی کے لئے لڑی جانے والی جنگ کا بنیادی پتھر ہے،اور اس جنگ کی کئی خاصیتیں اور پہلو ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ کے اپنے واضح اصول ہیں،اور جو کوئی بھی ان اصولوں سے روگردانی کرتا ہے،وہ شکست کھاتا ہے ۔گوریلا جنگ،جو جنگ کا مرحلہ ہے ،وہ بھی ان اصولوں سے الگ نہیں ہو سکتی ،لیکن گوریلا جنگ کے کچھ اور اصول بھی ہیں۔کامیابی حاصل کرنے کے لئے ان اصولوں پر کاربند رہنا ضروری ہے۔ہر خطے کے معاشرتی اور جغرافیائی حالات کا جدوجہد کے طریقہ کار پر اثرنداز ہونا یقینی ہے ،لیکن گوریلا جنگ کے بنیادی اصول ہر گوریلا جنگ پر لاگو ہوتے ہیں۔
یہاں ہم اپنے تجزیے کی روشنی میں آزادی کی جنگیں لڑنے والوں کے لئے وہ بنیادی اصول پیش کریں گے ۔ 
سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہئے کہ جنگ میں فریق کون ہیں۔ایک فریق تو جبر کرنے والا اور سرکاری ہوتا ہے، جس کی پشت پناہی منظم فوج کرتی ہے اور جسے اکثر و بیشتر غیر ملکی بیرونی امداد ملتی رہتی ہے اور دوسرا فریق عوام ہوتے ہیں۔
گوریلا جنگ ،عوام کی اور جابر قوتوں کے خلاف جنگ ہوتی ہے اور اس جنگ میں گوریلے یا چھاپہ مارمرکز کی حیثیت رکھتے ہیں۔چھاپہ ماروں کو ان کے مدمقابل فوج سے کسی بھی حالت میں کم تر نہیں سمجھنا چاہئے۔حقیقت یہ ہے کہ چھاپہ مار اپنے مدمقابل فوج پر برتری رکھتے ہیں۔کیونکہ گوریلا جنگ ظالم قوتوں کی فوجی عددی برتری اور اسلحہ کی برتری کو توڑ کے رکھ دیتی ہے۔ گوریلا یا چھاپہ مار کی بنیادی قوت ،عوام کا تعاون ہے،اور وہیں سے وہ اپنی سرگرمیاں شروع کرتا ہے۔ وسیع بنیادوں پر عوامی حمایت و تعاون کے بغیر چھاپہ مار سرگرمیاں ممکن نہیں ہیں۔اس سلسلے میں ہمیں ڈاکوؤں کی ان ٹولیوں کو مدنظر رکھنا چاہئے جو اپنی سرگرمیاں کسی علاقے سے شروع کرتے ہیں۔ان ڈاکوؤں میں چھاپہ ماروں کی تمام خصوصیات ہوتی ہیں؛برابری، اتحاد، بہادری، اپنے لیڈر کی فرماں برداری، اپنے متعلقہ علاقے کی مکمل معلومات اور اپنے طریقہ کار پر مکمل عبور۔چھاپہ مار دستوں کے مقابلے میں ان ڈاکوؤں کی ٹولیوں میں جس بات کی کمی ہوتی ہے وہ ہے عوام کا تعاون۔ اور یہی سبب ہے کہ بالآخر ڈاکو پکڑے جاتے ہیں یا پولیس کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ گوریلا دستوں کی بنیادی قوت عوامی حمایت ہے۔ 
اب سوال یہ ہے کہ گوریلا لڑتا کیوں ہے؟ اس کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے ؛گوریلا چھاپہ مار معاشرتی اصلاح پسند ہے ، وہ ایک انقلابی سوشل ریفارمر ہے ۔وہ عوامی احتجا ج پر لبیک کہتے ہوئے اسلحہ اٹھاتا ہے اور مروجہ قوانین سے ٹکر کھاتا ہے ۔وہ اس معاشرتی نظام کے خلاف مسلح ہو کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے جو نظام عوام کی غربت اور بد حالی کا سبب ہے۔
گوریلا جنگ کے طریقہ کار کا تجزیہ کرتے ہوئے جو حقیقت نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے ، وہ یہ ہے کہ چھاپہ ماروں کو اپنے علاقے کے ہر پہلو کی مکمل معلومات ہونی چاہئے۔اسے حملہ کرنے، بھاگ جانے، مستعدی سے حرکت کرنے کے تمام راستوں سے واقفیت ہونی چاہئے۔دشمن پر حملہ کرنے کے تمام ٹھکانوں ،جگہوں اور عوام کے تعاون اور مدد کی پوری پوری معلومات ہونی چاہئے۔ اور یہ تمام شرائط دیہات میں پوری ہو سکتی ہیں۔اور انہی علاقوں میں گوریلا کسانوں کے لئے زمین کی ملکیت کا حق حاصل کرنے اور دوسرے حقوق اور زندگی کی تمناؤں کا ترجمان بن کر آگے آتا ہے۔ 
دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ چھاپہ مار بنیادی طور پر دیہات میں زرعی انقلابی کی حیثیت رکھتا ہے۔ گوریلا جنگ کی اہمیت کو جاننے کے لئے یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ چھاپہ مار ایک ایسے گروہ کا نام ہے جو مروج جابر قوت/حکومت کے خلاف لڑتا ہے۔وہ جابر قوت/حکومت چاہے اپنے لوگوں کی ہو یا غیر ملکی لوگوں کی۔ چھاپہ مار مسلح گروہ اپنے انداز کے مطابق اپنی کارروائیاں منظم کرتا رہتا ہے۔ اس گروہ کا بنیادی کردار زرعی یا دیہاتی والا ہونا چاہئے اور کسانوں کے لئے زمین کی ملکیت کے حق کا ترجمان ہونا چاہئے۔ ماؤزے تنگ کی بغاوتوں کی شروعات چین میں شہروں سے ہوئی،جنہیں انتہائی بے دردی کے ساتھ کچل دیا گیا۔چینی انقلاب نے اپنے مراکز دیہات میں قائم کئے اور زرعی اصلاحات کو نافذ کیا ،تب جا کر انقلاب کو تقویت حاصل ہوئی۔ اسی طرح انڈو چائنا میں ہوچی منہ کی
کامیابیوں کے ضامن فرنچ سامراج کے ظلم کی چکی میں پسنے والے، چاول کی کاشت کرنے والے کسان تھے۔الجزائر میں بھی قومی تحریکِ آزادی کو ان کسانوں نے زندگی اور قوت بخشی جن کسانوں کو فرنچ نو آبادکار فصل کے بٹوارہ کے نام پر ظلم کا شکار بناتے تھے۔ 
جبکہ پورٹیکو میں مخصوص حالات کے سبب ابھی تک گوریلا جنگ کے آثار نمایاں نہیں ہو ئے ہیں لیکن قومی تحریکِ آزادی تیز تر ہو رہی ہے۔ کیونکہ دیسی کسان امریکی نوآبادکاروں کے ظلم و جبر اور ناروا امتیازی سلوک سے تنگ آکر اپنی زمینیں واپس کرنے کے مطالبات کر رہے ہیں اور اسی طرح کے مطالبات مختلف اشکال میں مشرقی کیوبا کے کسانوں اور غلاموں کی تحریکِ آزادی کے محرک اور بنیاد ثابت ہوئے۔ اس قسم کی نفرت خود رو بنیادوں پر پھیلتی رہتی ہے۔اس وقت تک جب تک عوامی تعاون اور چھاپہ ماروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور بالآخر گوریلا جنگ باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔لیکن چھاپہ مار جنگ کا منظم جنگ میں تبدیل ہو جانا اور دشمن کو شکست دینے کا عمل کچھ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔اس ضمن میں یہ بات ذہین نشین رہے کہ مکمل فتح میں پختہ ایمان ہونے کے بغیر کوئی بھی جنگ شرو ع نہیں کرنی چاہئے۔
ایک کہاوت کے مطابق چھاپہ مار جنگی ماہر،مستعد اور ہر جگہ حاضر ہوتا ہے کیونکہ وہ روپ بدلتا ہے،رات کو اچانک حملہ کرتا ہے، برق رفتاری کے ساتھ بھاگ جاتا ہے۔یہی سبب ہے کہ وہ فتح کے عزم اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جنگ کے رومانوی،نقصاندہ اور غیرمحتاط طریقوں سے اپنے آپ کو بچاتا ہے۔ جنگی طریقہ کار کا بنیادی اصول ہی یہی ہے کہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دشمن کی کمزوریوں سے کس حد اور کس درجہ کی کامیابی سے فائدہ اٹھایا جائے ۔گوریلا جنگ میں ایک چھاپہ مار کا حملہ وہی حیثیت رکھتا ہے جو منظم جنگ میں ایک پلاٹون کی کارروائی رکھتی ہے۔ جب جنگی حربے ناکام ہو جائیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ دشمن خبردار ہے اور اس پر اچانک حملہ نہیں کیا جا سکتا۔لیکن چھاپہ مار دستہ چونکہ ہر لحاظ سے خود کفیل ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں دشمن وسیع تر محاذ کی نگرانی نہیں کر سکتا۔اس لئے چھاپہ مار کے لئے ہمیشہ کہیں نہ کہیں پر اچانک حملہ کرنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔اور اسی گنجائش سے ہمیشہ فائدہ اٹھانا چاہئے۔کچھ لوگ اس اچانک قسم کے حملوں کی اہمیت کم کرنے کے لئے انہیں ’ضرب لگاؤ اور بھاگ جاؤ‘ کا نام دیتے ہیں،لیکن در حقیقت ان حملوں کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے۔ اصل طریقہ یہ ہے کہ دشمن پر ضرب لگاؤ اور بھا گ جاؤ ،پھر دشمن کو ہراس میں مبتلا کرو اور پھر ذرا ذرا ضربیں لگانے کے لئے لوٹ آؤ۔یوں دشمن کو آرام کرنے کا موقع نہ دو۔شاید اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ چھاپہ مار،دشمن کے سامنے عیاں نہیں ہونا چاہتا،لیکن یہ طریقہ چھاپہ مار کا پسندیدہ ہوتا ہے۔کیونکہ اس طریقے سے وہ دشمن کے اوپر غالب بھی آتا ہے اور اسے تباہ بھی کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گوریلا جنگ کا شروعاتی مرحلہ ایک ایسا بتدائی نقطہ ہے جس میں جنگ کا فیصلہ نہیں ہوتا لیکن مسلسل گوریلا جنگ کے دوران عوامی فوج کی تعداد بڑھتی رہتی ہے اور بالآخر وہ عوامی فوج کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔اور پھر دشمن پر آخری اور بھرپور ضرب لگانے کا وقت آجاتا ہے۔
جس طرح فوج کا ایک ڈویژنل کمانڈر خوامخواہ اپنے آپ کو موت کے منہ میں نہیں ڈالتا، اسی طرح ایک گوریلا یا چھاپہ مار جو اپنی ذات کی حد تک کمانڈر ہوتا ہے ، وہ بھی خوامخواہ موت کا شکار نہیں ہونا چاہتا۔چھاپہ مار مقصد حاصل کرنے کے لئے جان دے دیتا ہے،صرف حفاظت کے لئے اپنے آپ کو ہلاک نہیں کرتا۔اس لحاظ سے گوریلا جنگ کا اصل معجزہ ہی یہی ہے کہ وہ ایک وسیع تر عوامی تحریک کے مرکز کی حیثیت میں ایک نئے معاشرے کو جنم دیتی ہے۔اس لحاظ سے گوریلا جنگ عوام کی تقدیر کے فیصلے کی صورت میں ابھرتی ہے اور اس تحریک کی عظمت اور بڑائی کسی بیان کی محتاج نہیں رہتی۔ بے مثال حوصلہ اور لازوال عزم اس جنگ کی عظمت کے بنیادی اسباب ہیں۔ جدوجہد گوریلا لغت یا زبان میں طریقہ کار کے معنی رکھتی ہے یا وہ مقاصد یا ان کا تجربہ جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں یہ خبر ہونی چاہئے کہ دشمن کس طرح اور کس انداز میں حرکت کرتا ہے یعنی اس کا منصوبہ کیا ہے؟ تعداد کتنی ہے؟ اسلحہ کتنا ہے اور کس قسم کا ہے؟ نقل و حرکت کی قیادت کون سی ہے؟ اس طرح کی معلومات حاصل کرنے کے بعد ہی گوریلا پلان تیار کرنا چاہئے لیکن ہمیشہ یہ ذہن نشین ہونا چاہئے کہ ہر گوریلا پلان کا مقصد دشمن کو تباہ کرنا ہے۔ ان تمام تر حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد اپنے مقصد کے حصول کے لئے دشمن پر بھرپور ضرب لگانے پر توجہ دینی چاہئے۔حالانکہ دشمن پر ضرب لگانے کا منصوبی پیشگی تیار کرنا چاہئے اور اگر ضرورت پڑے تو دورانِ حملہ اس میں حالات و واقعات کے مطابق تبدیلیاں بھی کی جا سکتی ہیں۔ اسلحہ کے سلسلے میں یہ واضح رہے کہ ان کا استعمال کس طرح سے کرنا ہے ۔دشمن کے بھاری اسلحہ مثلاََ ٹینکوں،ہوائی جہازوں، دشمن کی عادتوں وغیرہ کی اہمیت کا بھی حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنا چاہئے۔ یہ بات کبھی نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ چھاپہ مار کے لئے اسلحہ کا سب سے بڑا ذخیرہ اور ذریعہ دشمن ہی ہے۔ کیونکہ اسے اسلحہ باردو دشمن سے ہی چھیننا ہے ۔ اسلحہ میں اولیت چھوٹے خود کار ہتھیاروں کو دینی چاہئے۔ اس بات پر مکمل دھیان رہے کہ ابتدا میں کوئی بھی چھاپہ مار ہلاک نہ ہو۔ ایک چھاپہ مار آہستہ آہستہ اپنی حفاظت آپ کرنے کے
طریقے اور مہارت خود ہی وضع کر نا سیکھ لیتا ہے ۔اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان طریقوں میں اسے مہارت حاصل ہو جاتی ہے۔ دشمن کو دھوکہ دینا، جل دینا، اچانک حملہ کرنا، اور چھپ جانے کے بہتر سے بہترین طریقے وہ خود ایجادکرتا ہے۔وہ دشوار ترین علاقوں میں چھپ جاتا ہے یا پھر اپنے گرد قوت جمع کرتا ہے کہ دشمن اس پر حملہ کرتے ہوئے ڈرتا ہے ۔ ان جنگی چالوں اور طور طریقوں سے اچھی طرح واقف ہونے کے بعد چھاپہ مار کو اپنی کارروائیاں شروع کر دینی چاہئیں۔ ان کارروائیوں کی ابتدا چھاپہ ماروں کے مخالف علاقوں سے کی جا سکتی ہے اور پھر ان کارروائیوں کا دائرہ بتدریج ملک کے اندر پھیلتے رہنا چاہئے۔ دشمن کی آمدو رفت کے نظام کو تباہ کرنا اور اس کے ٹھکانوں پر حملہ کرنا، ان کارروائیوں میں اہم حیثیت کا حامل ہے۔ 
چھاپہ مار کا کام ہے مسلسل ضربیں لگانا۔ دشمن کے خلاف کارروائی اس طرح ہونی چاہئے کہ اسے سونے یا آرام کرنے کا موقع بالکل میسر نہ آ سکے۔ اس کی چوکیوں پر لگاتار حملے کئے جائیں اور انہیں تباہ کیا جائے۔ دن کو جنگلات میں اور رات کومیدانی علاقوں میں مسلسل حملوں کے ذریعے دشمن پر یہ احساس طاری کر دینا چاہئے کہ وہ انقلاب کے شکنجے میں جکڑتا جا رہا ہے۔ دشمن پر خوف کی کیفیت کا طاری ہونا لازمی ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ عوامی تعاون ،اپنے علاقے کے متعلق مکمل معلومات اور واقفیت حاصل کی جائے ۔اس لئے چھاپہ مار کے لئے جہاں ایک طرف یہ ضروری ہے کہ وہ علاقے کے چپے چپے کے متعلق علم رکھتا ہو تو دوسری طرف وہ انقلاب کے مقاصد کو عوام کے اذہان تک پہنچانے کے لئے ہمہ گیر تحریک کو بھی جاری رکھے۔ اور عوام کو یہ ذہن نشین کرواتا رہے کہ بالآخر انقلاب دشمنوں کو شکست ہو گی اور اسے بھی انقلاب کی فتح پرایمان ہونا چاہئے۔ جس چھاپہ مار کا انقلاب کی فتح پر ایمان نہیں ہے وہ چھاپہ مار ہو ہی نہیں سکتا۔
عوامی رابطہ مہم انتہائی احتیاط طلب کام ہے ۔ہر وہ شخص جس سے رابطہ قائم کیا جائے ،اس پر اس کی اہمیت واضح کرنی چاہئے اور اسے سخت تاکید کی جائے کہ وہ اس مہم کو ایک راز سمجھے۔ چھاپہ مار کا عوامی رابطے کے سلسلے میں اہم کام یہ ہے کہ وہ انقلاب کے قابلِ اعتماد دوست تلاش کرے۔ جن کے ذریعے اسلحے کی رسد اور اطلاعات رسانی کا کام کیا جا سکے۔ اس کام سے عہدہ بر آں ہونے کے بعد شہری آبادی سے رابطہ قائم کرنے کے لئے ہمہ گیر اور مکمل ہڑتالوں کے لئے کام کرنا چاہئے۔ تاکہ پورے شہری نظام کو درہم برہم کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں کسی ہمہ گیر ہڑتال کے لئے ایسے کئی اجزا اور واقعات جو کسی ہڑتال کے لئے لازمی ہیں ،ایک ہی وقت رونما ہونے چاہئیں ۔ ایسے واقعات خود بخود بڑی مشکل سے رونما ہوتے ہیں ،لہٰذاان کے لئے میدان تیار کرنے والی صورتحال پیدا کرنی ہوتی ہے اور وہ اس حالت میں ممکن ہے جب انقلاب کے عظیم مقصد کے ساتھ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو وابستہ کیا جائے اور ایسے واقعات و اسباب کو پیدا کیا جائے جن کے ذریعے عوام کی مشترکہ قوت کا بھرپور اظہار ہو سکے۔ 
چھاپہ مار سبوتاژ کے ذریعے پوری فوج کو مفلوج کر سکتا ہے ،کارخانے بند کروا سکتا ہے، لوگوں کو روزگار سے الگ کر سکتا ہے ،پانی،بجلی اور ٹرانسپورٹ کے نظام کو جام کر سکتا ہے۔ اور لوگوں پر اس قدر دہشت بٹھا سکتا ہے کہ وہ گھروں سے باہر نکلنے کی جرات نہ کر سکتے ہوں ۔اور اس طرح کی کارروائیاں اگر کامیابی کے ساتھ سرانجام دی جائیں تو دشمن دہل جاتا ہے اور اس کا مدافعتی نظام ٹوٹ جاتا ہے۔ ان وسیع تر کارروائیوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چھاپہ ماروں کی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع تر ہوجاتا ہے ۔اس ضمن میں محتاط رہنے کی بے حد ضرورت ہے ۔کام یا سرگرمیوں کا علاقہ کسی بھی صورت میں حد سے زیادہ وسیع نہ کرنا چاہئے۔ لیکن اپنے حلقہ یا دائرے کو روزبروز مضبوط کرنا چاہئے۔ اور یہ مضبوطی عوام کو اپنا ہم مقصد بنا کر ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ عوام کو اپنا ہم مقصد بنانے کے ساتھ ساتھ انقلاب دشمنوں سے بچنے ، انقلاب کی مخالفت کو روکنے اور اسے کم کرنے کے لئے بھی کام کرنا لازمی ہے۔ حفاظتی تدابیر کی طرف توجہ دینا ، خندقیں کھودنا،سرنگیں بچھانا اور اپنی رسد کے اندرونی نظام کو مضبوط بنانا اہم کام ہیں۔ چھاپہ ماروں کا نیا گروہ ترتیب دینا اس حالات میں ممکن ہے جب رضاکاروں اور اسلحہ کی تعداد اور مقدار میں اچھا خاصا اضافہ ہونے والا ہو۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ علاقہ جو چھاپہ ماروں کے قبضہ میں ہوتا ہے ،وہ ان کی سرگرمیوں کے لئے ناکافی ثابت ہوتا ہے اور بالآخر دشمن کے علاقے کی طرف بڑھنے اور پھیلنے کے عمل میں چھاپہ ماروں کو دشمن کی طاقت ور اور منظم فوج کے مد مقابل ہونا پڑتا ہے۔ اس مرحلے پر پہنچ کر چھاپ مار گروہ ایک منظم فوج کی شکل اختیار کرتا ہے اور باقاعدہ جنگ کا آغاز کرتا ہے ۔ لیکن اس مرحلے پر پہنچنے کے بعد بھی پرانے چھاپہ مار اپنے آپ کو مرکزی علاقوں/اڈوں سے الگ نہیں کر سکتے۔ وہ دشمن کے عقب میں نئے چھاپہ مار دستے بنا کر دشمن پر ضربیں لگاتے رہتے ہیں اور اسی طرح یہ جنگ شہروں کو لپیٹ میں لاکر پورے ملک کو نیا ولولہ بخشتی ہے اور مکمل فتح کی طرف بڑھتی ہے۔

جمعہ، 11 دسمبر، 2015



ہاتھ کی صفائی 
تحریر : نجیب محفوظ 

’’نجیب محفوظبلاشبہ آج کی عرب دنیا کے ممتاز ادیب ہیں ۔اُن کا بیانیہ اپنی وضاحت اور اشاریت کے حوالے سے بہت طاقت ور صورت اختیار کر
 جاتا ہے ۔قاہرہ جہاں وہ پیدا ہوئے ،اُن کا محلہ جمالیہ جہاں وہ11دسمبر 1911 کو پیدا ہوئے ،دھڑکتا نظر آتا ہے ۔حتّٰی کہ ان کی ایک تحریر ’’ قاہرہ ثلاثیہ ‘‘ میں عبد الجود کا گھر اُن کے آبائی گھر کا بہترین نقشہ پیش کرتا ہے ۔بعدمیں وہ ’محلہ عباسیہ ‘ میں منتقل ہو گئے جہاں انہیں پہلی محبت ہوئی۔
وہ ایک قوم پرست شخص تھے جس کا تاثر اُن کی اکثر تحریروں میں صاف نظر آتا ہے ۔ان کے ناولوں اور افسانوں پر بہت سی فلمیں بھی بن چکی ہیں ۔محفوظ کو دو مرتبہ حکومت کی طرف سے انعام سے نوزا گیا۔1988میں نجیب کو ادب کا نوبل انعام بھی دیا گیا۔اس کے علاوہ بھی انہیں بہت سے اعزازات اور انعامات مل چکے ہیں ۔14اکتوبر 1994 کو اُن کے گھر کے باہر اُن پر حملہ کیا گیا ۔ان کی گردن پر زخم آئے ۔ اس سانحے کے بعد وہ اپنے سیدھے ہاتھ کو صحیح طور پر استعمال نہ کر سکے ۔انھوں نے محمود سلماوی کے توسط سے گفتگو کے انداز میں ’’الا ہرام ‘‘ میں انھی تحریروں کا سلسلہ جاری رکھا ۔انھوں طویل عرصے تک غیر شادی شدہ زندگی گزاری ۔ ۱۹۵۴ء میں شادی کی ۔وہ شام کے وقت قاہرہ کے قہوہ خانوں میں دوستوں سے ملاقاتیں کرتے تھے۔وہ آخری وقت تک کہانیوں اور مضامین قلم بند کرتے رہے ۔30اگست 2006 کو قاہرہ میں نجیب محفوظ کا انتقال ہو گیا ۔اُس وقت اُن کی عمر 95برس تھی۔‘‘
(ادارہ نقاط)

وقت آگیا ہے کہ تم کارآمد آدمی بنو۔ماں نے مجھ سے کہا اور ساتھ ہی اپنی جیب میں ہاتھ سرکاتے ہوئے کہنے لگی۔ یہ ’پیاسترا‘ لو اور جاکر تھوڑا سا ’لوبیا ‘لے آؤ۔ دیکھو راستے میں کھیل کود میں مت لگ جانا اور ٹریفک سے بھی بچنا۔
میں نے تھالی لی۔ کھڑاویں پہنیں اور ایک دُھن گنگناتا ہوا چل پڑا ۔لوبیا بیچنے والے کے پاس لوگوں کا ہجوم تھا۔ میں نے انتظار کیا اور تب مجھے اس سنگ مر مر کی میز تک جانے کا راستہ ملا۔
جناب مجھے ایک پیاسترا کے برابر لوبیا چائیے ‘‘ میں نے چیخنے کے اندازمیں کہا۔
اس نے فوراً پوچھا ‘‘ خالی لوبیا؟ تیل یا گھی کے ساتھ؟
میں کوئی جواب نہ دے پایا تو اس نے کے بے رخی سے کہا جاؤ کسی اور کو آنے دو۔
میں بوکھلا کر پیچھے ہٹ گیا اور شکست خوردہ گھر کو لوٹا۔
’’ہوں ۔خالی تھالی کے ساتھ لوٹ آئے ۔شریر لڑکے تم نے کیا کیا۔ لوبیا گرا دیا،’ پیاسترا ‘گم کر بیٹھے ‘‘ماں مجھ پر چلائی صرف لوبیا یہ تیل یا گھی کے ساتھ چاہیے تھا ۔۔ تم نے مجھے بتایا ہی نہیں میں نے احتجاج کیا۔
احمق ہر روز صبح کے وقت تم کیا کھاتے ہو؟
مجھے نہیں معلوم۔
نکمے آدمی اسے کہو تیل کے ساتھ لوبیا۔
میں اس شخص کے پاس پہنچا اور کہا جناب کیا ’پیاستر ‘کا لوبیا تیل کے ساتھ۔
اس نے نہایت عجلت کے انداز میں تیوری چڑھا کر پوچھا السی کا تیل، اخروٹ کا تیل ، یا زیتون کا تیل؟
میں حیران رہ گیا اور مجھ سے کوئی جواب نہ بن پایا۔ کسی اور کے لیے جگہ چھوڑو بھئی‘‘ وہ چلایا
میں غصے میں تپا ہوا ماں کے پاس پہنچا تو وہ حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بولی ’’ تم پھر خالی ہاتھ واپس آگئے ۔ نہ لوبیا نہ تیل
السی کا تیل ،اخروٹ کا تیل یا زیتون کا تیل ۔ تم نے مجھے بتایا ہی نہیں ‘‘ میں نے غصے سے کہا
تیل کے ساتھ لوبیے کا ملاپ ہوتا ہے السی کے تیل کے ساتھ۔
اب مجھے یہ کیسے معلوم ہوتا۔
تم نکمے ہو اور وہ ایک تکلیف دینے والا شخص ہے ۔ اسے کہو کہ لوبیا السی کے تیل کے ساتھ۔
اب مجھے کیا پتا تھا
میں جلدی سے واپس ہوا اور ابھی دوکان سے کچھ دوری پر ہی تھا کہ میں نے اس آدمی سے کہا جناب لوبیا السی کے تیل کے ساتھ
اس نے کرچھے کو تیل والے برتن میں داخل کرتے ہوئے کہا پیاستر کاؤنٹر پر رکھ دو۔
میں نے اپنا ہاتھ جیب میں ڈالا مگر پیاستر وہاں نہیں تھا۔ میں نے پریشانی کے عالم میں تلاش کیا۔ میں نے جیب کو باہر کی طرف الٹ دیا لیکن وہا ں کچھ نہ تھا۔ آدمی نے بے زاری کے ساتھ خالی کرچھا پیچھے ہٹا لیا‘‘ تو تم نے’ پیاستر‘ گم کردیا ۔تم قابل اعتماد لڑکے نہیں ہو‘‘
مسئلہ کھڑا مت کرو اور کسی دوسرے کے لیے جگہ خالی کرو
میں خالی تھلی کے ساتھ ماں کے پاس لوٹا
افسوس ۔تم بے وقوف لڑکے ۔ یعنی پیاستر۔ تم نے اس کے ساتھ کیا کیا؟‘‘
وہ میری جیب میں نہیں تھا
کیا تم نے اس کی مٹھائی خریدلی؟
میں قسم کھاتا ہوں میں نے ایسا نہیں کیا۔
تم نے کیسے اسے گم کیا؟
میں نہیں جانتا
کیا تم قرآن کی قسم کھا سکتے ہو کہ تم نے اس کے عوض کچھ نہیں خریدا
میں قسم کھاتا ہوں
کیا تمہار ی جیب میں سوراخ ہے؟
نہیں
ہو سکتا ہو تم نے پہلی مرتبہ یا دوسری مرتبہ اسے اس شخص کو دے دیا ہو
ہو سکتا ہے
کیا تمہیں کسی بھی بات کا یقین نہیں
مجھے بھوک لگی ہے
ماں نے راضی بہ رضا ہو کر ہاتھوں کو تالی کے انداز میں جوڑا۔ چلو کوئی بات نہیں ۔ وہ بولی میں تمہیں ایک اورپیاستر دوں گی لیکن یہ میں تمہاری گولک سے نکالوں گی اور اگر اب تم خالی تھالی کے ساتھ واپس آئے تو میں تمہاری گردن توڑدوں گی
میں ایک مزیدار ناشتے کا خواب دیکھتا ہوا دوڑنے کے انداز میں روانہ ہوا۔ وہ موڑجہاں لوبیا بیچنے والا بیٹھا تھا وہا ں میں نے جشن کے انداز میں خوشی کی آوازیں نکالتے بچوں کا ایک ہجوم دیکھا۔میں نے اپنے پاؤں کو گھسیٹا کیونکہ میرا دل ان کی طرف کھنچتا تھا۔ کم از کم تھوڑی دیر کے لیے سرسری طور پر ہی مجھے ان کو دیکھ لینا چاہیے۔ میں ان میں گھس گیا اور مجھے لگاکہ ہاتھ کی صفائی دکھانے والا سیدھا میری ہی طرف دیکھ رہا تھا ۔ ایک مدہوش کردینے والی خوشی مجھ پر چھا گئی ۔ میں اپنے آپ میں بالکل نہیں رہا تھا ۔میں اپنے پورے حواس کے ساتھ خرگوشوں ،انڈوں،سانپوں اور رسوں کے کتبوں میں محو ہوگیا۔ جب وہ شخص پیسے اکٹھے کرنے کے لیے آیا تو میں بڑبڑاتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا۔’’میرے پاس تو پیسے ہیں ہی نہیں‘‘وہ وحشیانہ طریقے سے میری طرف بڑھا اور میں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو بچایا ۔ میں دوڑ پڑا ۔ اس کے مکے کی ضرب سے میری کم تقریباً ٹوٹ ہی چلی تھی۔ تاہم جب میں لوبیا بیچنے والے کی طرف جارہا تھا تو بے انتہا خوش تھا۔
ایک ’پیاستر ‘کا لوبیا السی کے تیل کے ساتھ جناب ‘‘ میں نے کہا
وہ کوئی حرکت کئے بغیر میری جانب دیکھتا رہا میں نے اپنا سوال دہرایا۔
مجھے تھالی دو ‘‘ اس نے غصے سے مطالبہ کیا۔
’’تھالی‘‘۔ تھالی کہاں تھی ؟ کیا میں نے اسے دوڑتے ہوئے گرا دیا تھا؟ کہیں اس شعبدہ باز نے تو اس کے ساتھ ہاتھ کی صفائی نہیں دکھا دی تھی؟
لڑکے، تم بالکل پاگل ہو‘‘
میں واپس مڑا اور اپنے راستے پر چلتے ہوئے کھوئی ہوئی تھالی کو تلاش کرنے لگا۔ جہاں شعبدہ باز موجود تھا اس جگہ کو میں نے خالی پایا لیکن بچوں کی آوازیں مجھے ایک قریبی گلی میں اس تک لے گئیں۔ میں دائرے کے گرد گھوما ۔ جب شعبدہ باز نے مجھے دیکھا تو وہ دھمکی آمیز لہجے میں چیخا ’’پیسے دو ورنہ یہاں سے چل دو‘‘۔
وہ تھالی ‘‘ میں مایوسی سے بولا
ننھے شیطان،’’ کو ن سی تھالی؟‘‘
مجھے میری تھالی واپس کرو‘‘
یہاں دفعہ ہو جاؤ ورنہ میں تمہیں سانپوں کی غذا بنا دوں گا‘‘۔
اس نے تھالی چرالی تھی۔ بہرحال خوف کے مارے میں اس کی نظروں سے دور ہو گیا اور رونے لگا۔ جب بھی کوئی راہ گیر مجھے روتے ہوئے پاکر مجھ سے رونے کی وجہ پوچھتا تو میں کہتا ’’شعبدہ باز نے میری تھالی غائب کردی ہے‘‘ ۔ جب میں اس مصیبت میں گھرا ہوا تھا تو ایک آواز میرے کانوں میں پڑی ’’ یہاں آؤ اور نظارہ کرو‘‘
میں نے اپنے پیچھے دیکھا ایک سیر بین والے نے وہاں اپنااڈا جمایا ہوا تھا۔ میں نے درجنوں بچوں کو دیکھا جو’’ سیر بین‘‘والے ڈبے کی طرف بڑھ رہے تھے اور باری باری موکھے کے سامنے کھڑے ہوکر اندر جھانک رہے تھے اور وہ شخص ساتھ ساتھ تصاویر پر تبصرہ بھی کرتا جارہا تھا۔ ’’ آؤ، بہادر بانکا دیکھو اور عورتوں میں سب سے زیادہ خوبصورت عورت زینت البنات دیکھو‘‘ اپنے آنسوؤں کو خشک کرتے ہوئے ، اور شعبدہ باز اور تھالی کو مکمل طور پر بھولتے ہوئے میں نے شوق کے ساتھ اس ڈبے کی طرف دیکھا۔ میں اپنی خواہش پر قابو نہ پاسکا ۔میں نے ’پیاستر‘ ادا کیا اور اس لڑکی سے آگے جاکر موکھے کے اندر جھانکنے لگا وہ ایک دوسرے موکھے کے آگے کھڑی تھی۔وہاں ہماری نظروں کے سامنے خوش کن تصویری کہانیاں تیر رہی تھیں۔ جب میرے ہوش و حواس بحال ہوئے تو میں نے محسوس کیا کہ میں ’پیاستر‘ اور تھالی دونوں چیزوں کو بھو چکا تھا اور شعبدہ باز کا کوئی پتہ نہیں تھا تاہم میں نے نقصان پر دھیان نہیں دیا او اس لیے کہ میں تصاویر کی شان، محبت اور جرأت کے کارناموں سے مغلوب ہوچکا تھا۔ میں اپنی بھوک بھول گیا تھا اور گھر واپس پہنچنے پر جو کچھ میرے ساتھ ہونے والا تھا اسے بھی میں بھول چکا تھا۔ میں چند قدم پیچھے ہٹا اور میں نے اس قدیم دیوار کے ساتھ ٹیک لگالی جہاں کسی زمانے میں آفیسر مالیات کا دفتر اور آفس اعلیٰ کا گھرہوا کرتا تھااور پھر میں جاگتی آنکھوں سے سپنا دیکھنے لگا۔ بہت دیر تک میں شان و شوکت، زینت البنات اور غول بیابانی کے خواب دیکھتا رہا۔ اسی خواب میں اپنی حرکات و سکنات کے توسط سے میں اپنے لفظوں کو معانی دینے کے لیے اونچی آواز میں بولتا رہا۔ میں نے تصوراتی نیزے سے حملہ کرتے ہوئے کہا’’او غول بیابانی یہ تو سیدھا تمہارے دل میں ‘‘
اور اس نے اپنے گھوڑے پر اپنے پیچھے بیٹھائی ہوئی زینت البنات کو اوپر اٹھایا ‘‘ ایک ملائم آواز پیچھے سے اُبھری۔
میں نے اپنے دائیں طرف دیکھا یہ وہی لڑکی تھی جو اس تفریحی پروگرام میں میرے قریب موجود رہی تھی۔ اس نے گندہ لباس پہن رکھا تھا اس کی کھڑاویں رنگ دار تھیں وہ اپنے بالوں کی ایک لمبی لٹ سے کھیل رہی تھی اس کے دوسرے ہاتھ میں سرخ اور سفید رنگ کی وہ میٹھائیاں تھیں جنھیں ، لڑکیوں کی خاص پسند کہا جاتا ہے اور جنھیں وہ اطمینان سے چوسے جارہی تھی ہماری نظریں آپس میں ملیں اور میرا دل جاتا رہا۔
’’آؤ کہیں بیٹھتے ہیں اور سستاتے ہیں ‘‘ میں نے اس سے کہا۔
اس نے میری تجویز پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا۔ میں نے اس کا بازو تھام لیا اور ہم پرانی دیوار کے دروازے سے نکل کر باہر آگئے اور سیڑھی دار راستے کے ایک مقام پر جا بیٹھے۔ وہ سیڑھی دار راستہ اوپر کی طرف بڑھتا ہوا ایک ایسے پلیٹ فارم پر جاکر ختم ہوتا تھا کہ جس کے پیچھے سے نیلا آسمان اور مینار دیکھے جاسکتے تھے۔ ہم خاموشی سے ایک دوسرے کے قریب بیٹھ گئے ۔ میں نے اس کے ہاتھ کو دبایا ہم کو نہیں معلوم تھا کہ کیا کہا جائے اس لیے خاموش ہی بیٹھے رہے ۔
میں ایسے احساسات کے تجربے سے گزر رہا تھا جو نئے عجیب اور مبہم تھے ۔اپنا چہرہ اس کے قریب کرتے ہوئے میں نے اس کے بالوں کی فطری خوشبو کو سو نگھا جس میں مٹی کی مہک اور مٹھائیوں کی خوشبو ملی جلی تھی ۔اس کی سانسوں کی خوشبو بھی شامل تھی ۔میں نے اس کے ہونٹوں کو چوما ۔میں نے اپنے تھوک کو نگلا جس میں اسی’’ لڑکیوں کی خاص پسند ‘‘والی مٹھائیوں کی مٹھاس تحلیل ہو چکی تھی ۔میں نے اپنا بازو اس کے گرد حمائل کیا اس کی خاموشی برقرار رہی اور میں اس کے گالوں اور لبوں کے بوسے لیتا رہا۔جب میں نے اُس کے ہونتوں کو چوما تو یہ غیر متحرک ہو گئے لیکن فوراً ہی دوبارہ اُن مٹھائیوں کو چو منے میں لگ گئے۔آخر کار اُس نے فیصلہ کیا کہ اب ہم کو اُٹھ جا نا چاہیے تھا ۔میں نے بے قرار ی سے اُس کا بازو تھام لیا۔
’’بیٹھ جائے ‘‘ میں نے کہا
’’میں جا رہی ہوں ‘‘ اُس نے نہایت سادگی سے جواب دیا
کہاں ۔۔۔؟ میں نے تیز لہجے میں پو چھا
’’دائی ام علی کے ہاں ‘‘ اور نیچے کی طرف اس نے اس مکان کی جانب اشارہ کیا جس کی نچلی منزل میں لوہار کی ایک چھوٹی سی دکان بھی تھی۔
’’کیوں‘‘۔
اسے کہنے کے لیے کہ وہ جلدی سے آئے۔
’’کیوں ‘‘؟
میری والدہ گھر پر درد زے سے چلّا رہی ہے۔ اس نے مجھے کہا تھا کہ میں دائی ام علی کے پاس جاؤں اور جلدی سے اسے اپنے ساتھ لے کر آؤں‘‘
’’کیا تم اس کے بعد واپس آؤ گی؟‘‘
اس نے سر ہلا کر رضامندی کا اظہار کیا۔ اس نے جب اپنی والدہ کا حوالہ دیا تو اس نے مجھے میری ماں کی بھی یاد دلادی میرے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہونے لگی۔ پرانے سیڑھی دار راستے سے اٹھتے ہوئے میں گھر کی طرف چل دیا۔ میں اونچی آواز سے رونے لگا یہ ایک آزمودہ نسخہ تھا جس سے میں اپنا دفاع کرسکتا تھا ۔ مجھے توقع تھی کہ وہ مجھے دیکھتے ہی میری طرف لپکے گی لیکن وہاں تو اس کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔ ‘‘ میری ماں کہاں چلی گئی؟ وہ کب لوٹے گی؟ میں خالی گھر میں بور ہونے لگا ۔مجھے ایک خیال سوجھا۔ میں نے کچن سے ایک تھالی لی اپنی بچت کی رقم میں سے ایک ’پیاستر‘ لیا اور فوراً لوبیا بیچنے والے کی طرف چل پڑا ۔ میں نے اسے دکان کے باہر ایک بینچ پر اپنے بازو سے چہرے کو ڈھانپ کر سوئے ہوئے پایا۔ لوبیے والے برتن غائب تھے اور تیل کی لمبی گردن والی بوتلیں واپس الماری میں رکھی ہوئی تھیں اور سنگ مرمر سے بنے کاؤنٹر کی اوپر والی سطح کو دھو دیا گیا تھا۔
جناب‘‘ میں نے اس کے نزدیک پہنچ کر سرگوشی کی
مجھے کوئی جواب نہ ملا بس اس کے خراٹے ہی سنائی دے رہے تھے۔ اس کے کندھے کو چھوا۔ اسنے چوکنا ہوکر اپنا بازو بلند کیا اور اپنی سرخ سرخ آنکھوں سے میری طرف دیکھنے لگا۔
’’جناب‘‘
اس نے میری موجودگی محسوس کرتے ہوئے اور مجھے پہچانتے ہوئے نہایت کھردرے طریقے سے پوچھا’’کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’ایک ’پیاستر‘ کا لوبیا ۔ السی کے تیل کے ساتھ‘‘
’’ہوں‘‘
میرے پاس پیاستر بھی ہے اور تھالی بھی‘‘
’’لڑکے ، تم پاگل ہو ’’ وہ چیخا‘‘ دفع ہو جاؤ ورنہ میں مار مار کر تمہارا بھیجہ باہر نکال دوں گا‘‘۔ جب میں وہاں سے نہ ٹلا تو اس نے مجھے اتنے زور سے دھکادیا کہ میں کمر کے بل نیچے گر پڑا ۔ میں خاصی تکلیف کے ساتھ اٹھا میں اس چیخ کو روکنے کی کوشش کرنے لگا جس نے میرے ہونٹوں کو سکیڑ دیا تھا۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں ، ایک میں ’پیاستر‘ اور دوسرے میں تھالی کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔میں نے اسے غصیلے انداز سے دیکھا۔ واپس ہونے پر میں اپنی امیدوں کو ختم ہوتے ہوئے محسوس کرنے لگا لیکن دلیری اور ہمت کے تصور نے میرے عملی اقدام کو بدل کے رکھ دیا۔ پورے تیقّنکے ساتھ میں نے تیز ی سے فیصلہ کیا اور تھالی کو اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس پر پھینکا۔ یہ ہوا میں اڑتی ہوئی گئی اوراس کے سر سے ٹکرائی جب کہ اسی دوران ہر چیز سے بے پرواہ ہو کر میں وہاں سے سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا مجھے پورا یقین تھا کہ میں نے اسے مار دیا تھا جیسے کہ اس بانکے نے اس غول بیابانی کو مار دیا تھا۔ میں پرانی دیوار کے قریب پہنچنے تک بھاگتا رہا۔ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ میں نے اپنے پیچھے دیکھا کوئی بھی میرا پیچھا نہیں کر رہا تھا۔ میں اپنی سانسیں بحال کرنے کے لیے رکا، تب میں نے اپنے آپ سے پوچھا اب مجھے کیا کرنا چاہیے کیونکہ اب تو میں نے دوسری تھالی بھی کھو دی تھی۔ کسی چیز نے مجھے روکا کہ میں فوری طور پر سیدھا گھر نہ جاؤں اور پھر جلد ہی میں نے اپنے آپ کو لا تعلقی کی ایک ایسی لہر کے سپرد کردیا جس نے میری اس خواہش کو مضبوط کردیا۔ گھر واپسی پر کم و بیش ایک ماں تو ضرور میری منتظر تھی اس لیے میں نے سوچا کہ تھوڑی دیر کے لیے تو ضرور اس سے جان چھڑا ہی لینی چاہیے۔ میرے ہاتھ میں ایک پیاستر تو تھا ہی اس لیے مجھے سزا پانے سے پہلے اس سے کچھ نہ کچھ تو خوشی حاصل کر ہی لینی چاہیے تھی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں یہ سوجوں کہ میں نے کوئی غلط کام کیا ہی نہیں تھا۔ لیکن وہ ہاتھ کی صفائی دکھانے والا کہاں تھا ۔ وہ سیر بین والا کدھر تھا۔ میں نے ہر طرف انہیں ڈھونڈا لیکن بے سود تھا۔
اس بے ثمرتلاش سے تھک کر میں اسی پرانے سیڑھی دار راستے کی طرف چل دیا جہاں مجھے اس سے ملنا تھا۔ میں اس ملاقات کے متعلق سوچتے ہوئے اس کا انتظار کرنے بیٹھ گیا۔ میں نے مٹھائیوں کی خوشبو سے معطر ایک اور بوسے کی آرزو کی ۔میں نے تسلیم کیا کہ اُس چھوٹی سی لڑکی نے مجھے ایسے لمس سے آشنا کیا تھا جس سے کہ میں پہلے واقف نہ تھا ۔ایسے میں جب کہ میں انتظار کر رہا تھا اور خواب دیکھ رہا تھا مجھے ذرا اور اپنے پیچھے سے ایک سر گوشیانہ آواز سنائی دی ۔میں احتیاط سے سیڑ ھیوں پر چڑھا اور اختتامی چبوترے پر کسی کی نظر میں آئے بغیر یہ دیکھنے کے لیے کہ میرے پیچھے کیا ہو رہا تھا میں منہ کے بل سیدھا لیٹ گیا ۔
میں نے ایک بہت اونچی دیوار کے گھیرے میں کچھ کھنڈرات دیکھے جو کہ مالیاتی دفتر اورافسرِ اعلیٰ کے گھر کی باقیات میں سے تھے ۔ سیڑھیوں کے بالکل نیچے ایک مرد اور ایک عورت دونوں بیٹھے ہوئے تھے اور اس سرگوشی کا باعث وہی تھے ۔ وہ مرد ایک آوارہ شخص کی طرح تھا اور عورت ان خانہ بدوشوں جیسی تھی جو کہ بھیڑوں کی رکھوالی کرتے ہیں ۔ میرے اندر سے برآمد ہوتی آواز نے مجھ سے کہا کہ ان کی ملاقات بھی بالکل اس جیسی تھی جیسی کہ میں خود کر چکا تھا ۔ ان کی آنکھوں اور ہونٹوں سے یہ سب کچھ آشکار ہو رہا تھا لیکن ان کی اس غیر معمولی سرگرمی میں ایک حیران کن مہارت کی جھلک صاف دکھائی دے رہی تھی۔ میرا ان کو یوں ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا اصل میں تجسس ،حیرانی ،خوشی اور بہت حد تک میری بے تابی کی وجہ سے تھا۔ آخر کار وہ ایک دوسرے کے بہت قریب ہو کر بیٹھ گئے۔ دونوں ایک دوسرے سے بے خبر سے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد وہ شخص بولا ’’روپے!‘‘
’’تم کبھی مطمئن نہیں ہوتے‘‘ وہ تنک مزاجی سے بولی
زمین پر تھوکتے ہوئے وہ بولا ’’تم پاگل ہو‘‘
’’تم ایک چور ہو‘‘
مرد نے اپنے ہاتھ کی پشت سے عورت کو ایک بھا ری تھپڑ جڑ دیا۔ عورت نے جواب میں مٹھی بھر مٹی مرد کے چہرے پر پھینکی۔ مرد نے عورت پر جھپٹتے ہوئے اس کے نرخرے کو اپنی انگلیوں سے دبایا۔ عورت نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ مرد کی گرفت سے نکلنے کی بے سود کوشش کی۔ اس کی آواز میں ناکامی تھی۔ اس کی آنکھیں اس کے حلقوں سے باہر ابل پڑیں جبکہ اس کے پاؤں ہوا میں بلند ہو گئے ۔ ایک گونگی دہشت میں ڈوبے ہوئے میں نے اس منظر کو دیکھا تب میں نے عورت کی ناک سے خون کی ایک باریک دھار کو نکلتے دیکھا۔ ایک چیخ میرے منہ سے نکلتے نکلتے رہ گئی ۔ اس سے پہلے کہ وہ شخص اپنا سر اٹھاتا میں ایک ہی چھلانگ میں نیچے اترتے ہوئے پیچھے کی طرف رینگ گیا۔ جہاں تک میری ٹانگیں مجھے لے جاسکتی تھیں۔ میں نے ایک پاگل شخص کی طرح دوڑ لگا دی۔ جب تک میری سانس نہ پھول گئی میں مسلسل دوڑتا رہا سانس بحال کرنے کے لیے جب میں رکا تو میں قطعی طور پر یہ نہیں جانتا تھا کہ اس وقت میں کہاں تھا لیکن جب میں ہوش میں آیا تو میں نے اپنے آپ کو ایک چوراہے کے درمیان تعمیر کی گئی ایک محراب کے نیچے پایا۔ آج سے پہلے میرے قدم وہاں کبھی نہیں پہنچے تھے اور مجھے بالکل نہیں سوجھ رہا تھا کہ میں اپنے گھر سے کتنی دوری پر اور کدھر موجود تھا۔ دونوں اطراف میں اندھے گداگر بیٹھے ہوئے تھے اور ہر طر ف سے لوگ گزر رہے تھے۔ جو ایک دوسرے سے بے تعلق لگ رہے تھے ۔ ایک خوف کے تحت میں نے محسوس کیا کہ میں اپنا راستہ بھول چکا تھا اور اس سے پہلے کہ میں اپنے گھر کی طرف جانے والا راستہ ڈھونڈ سکوں ان گنت مشکلات میرے انتظار میں تھیں ۔ کیا مجھے کسی راہ گیر کی مدد حاصل کرنی چائیے تا کہ وہ میری راہنمائی کرسکے۔ لیکن اگر مجھے لوبیا بیچنے والے جیسا کوئی شخص ٹکر گیا، یا اس ویرانے والے جیسا کوئی آوارہ بندہ مل گیا تو کیا ہوگا؟ کیا ایسا کوئی معجزہ ہو سکتا ہے کہ میں اپنی ماں کو اپنی طرف آتا ہوا دیکھ کر اس کی طرف دیوانہ وار بڑھ سکوں ؟ کیا مجھے خود سے اپنا راستہ تلاش کرنا چاہیے تا کہ یوں ہی ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے مجھے کوئگ ایسی مانوس حد بندی مل جائے جو صحیح راستے کی نشاندہی میں میری رہنما ثابت ہوسکے۔ میں نے خود سے کہا مجھے پرعزم رہنا چاہیے اور جلد کوئی فیصلہ کرنا چاہیے ۔ دن گزرتا جارہا تھا اور پراسرار اندھیرا چھانے والا تھا۔

___________
نقاط۔۷(عالمی ترجمہ نمبر)
(انگریزی سے ترجمہ)