منگل، 8 دسمبر، 2015

فحش نگاری آدمی کو عورت کی طرف پُر تشدد کر ر ہی ہے


گیل ڈائنس جو کہ فحش نگاری کے خلاف آواز اُٹھانے والوں میں شامل ہیں انہوں نے اپنی نئی کتاب میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ فحش نگاری آدمیوں کو رویوں کی طرف پر تشدد رویہ اختیار کرنے پر اکسا رہی ہے۔اُن کا ماننا ہے کہ جو آدمی عریاں فلمیں یا فحش تصویریں دیکھنا شروع کر دیتا ہے وہ پھر عورت کو اس عزت سے نہیں دیکھتا جس کی وہ اصل حقدار ہوتی ہے۔ انٹرنیٹ نے اس طرح کے مواد کا کہیں بھی حصول بہت آسان کر دیا ہے اور اب 11 سال کے بچے بھی فحش نگاری میں ڈوبے نظر آتے ہیں ۔ڈائنس کا ماننا ہے کہ  ہم ایسے بچوں کی نسل تیار کر رہے ہیں جو جوان ہو کر سیکس کے دوران بھی عورتوں کی طرف پر تشدد رویہ اختیار کریں گے۔اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ تصویر کا انسانی دماغ پر کیسا اثر ہوتا ہے تو ہمارے بچوں کے دماغوں پر ایسی فحش تصاویر کتنی گہری چھاپ چھوڑیں گی۔ اُن کا یہ بھی ما ننا ہے کہ فحش نگاری ایک عورت کو بھی اس کی نظر سے گراتی ہے اور عورتوں کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ وہ کوئی کھلونا ہیں۔ پچھلے دس سالوں میں اس انڈسٹری کے اندر بھی کئی تبدیلیاں آئین جس نے اس انڈسٹری کے کرتا دھرتا اور اس میں کام کرنے والے لوگوں کو بھی پریشان کر دیا کہ اُن کے دیکھنے والے کس حد تک تشدد کی مانگ کر رہے ہیں۔ڈائنس کا یہ بھی ماننا ہے جو آدمی فحاشی دیکھنا شروع کر دیتا ہے وہ عورت کے ساتھ مخلص رشتہ بنانے میں جھجھک کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنے رشتوں پر اعتبار کھو بیٹھتا ہے اس لیے جتنا ہو سکے اس چیز سے بچنا چاہیے۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں