ہفتہ، 12 دسمبر، 2015

جنگی حکمت عملی ( کتابی سلسلہ باب اول)



گوریلا جنگ کے عام اصول

گوریلا جنگ کا خلاصہ:
بتیستاکی آمرانہ حکومت کی شکست اور کیوبا کے عوام کی مسلح فتح کو دنیا بھر میں ایک عظیم کارنامہ تسلیم کیا گیا ہے۔اس فتح نے لاطینی امریکی عوام کے متعلق تمام تر دقیانوسی نظریات کو بدل کر رکھ دیا ہے اور گوریلا جنگ کے ذریعہ جابر حکومت سے نجات حاصل کرنے کی عوامی صلاحیت کی سچائی پر مہر لگا دی ہے۔کیوبا کے مسلح انقلاب سے تین نتائج بر آمد ہوتے ہیں:
۱۔عوامی قوتیں ایک منظم فوج کے خلاف فتح حاصل کر سکتی ہیں۔
۲۔انقلابی حالات کے پیدا ہونے تک انتظار کرنا ضروری نہیں،ایسے حالات پیدا کئے جا سکتے ہیں۔
۳۔لاطینی امریکہ کے پسماندہ زرعی علاقے انقلاب کے لئے موزوں علاقے ہیں۔ 
اولین دو نتائج ان سست انقلابیوں کے نظریات کو رد کرتے ہیں جو یہ بہانہ تراش کر کہ ایک منظم فوج کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا،ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔اس طرح مذکورہ دو نتائج ان لوگوں کے رویے کو بھی غلط ثابت کرتے ہیں جو اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ خارجی و داخلی طور پر حالات، انقلاب کے لئے مکمل طور پر سازگار شکل اختیار کریں گے۔لیکن اس طرح کے حالات پیدا کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں کرتے ہیں۔فتح کے یہ نتائج آج بشمول کیوبا تمام لاطینی امریکہ میں موضوع بحث ہیں۔یہ درست ہے کہ انقلاب کے لئے مکمل سازگار فضا صرف گوریلے ہی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ عوام پر یہ حقیقت واضح کی جائے کہ سماجی نا انصافیاں پُر امن طریقوں سے ختم نہیں کی جا سکتیں اور یہ کہ ظالم حکومت کی طرف سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ہونے والی جارحیت کو نمایاں کیا جائے کیونکہ اس طرح عوام کی نفرت گہری ہو جاتی ہے،عوامی مداخلت بڑھ جاتی ہے،اور بالاخر حکومت/ریاست کے ظالمانہ رویے کے نتیجے میں عوامی جنگ کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں۔
کسی ایسی حکومت کے خلاف جو واضح طور عوامی رائے دہندگی کے نتیجہ میں میں اقتدار میں آئی ہو اور جس کی محدود شکل میں بھی آئینی حیثیت برقرا ہو، اس وقت تک گوریلا جنگ ممکن نہیں، جب تک جدوجہد کے تمام آئینی طریقے آزمائے نہ جا چکے ہوں۔
کیوبا کی مسلح جدوجہد سے حاصل ہونے والا نتیجہ گوریلا جنگ کے طریقہ کار سے تعلق رکھتا ہے۔ اس نتیجے کے تحت یہ ضروری ہے کہ شہری علاقوں کو مراکز بنانے کی
وکالت کرنے والوں پر یہ واضح کیا جائے کہ لاطینی امریکہ میں وسیع تر دیہاتی آبادی کے اہم کردار کو نظرانداز نہ کریں۔ہم شہروں میں مزدوروں کی منظم کردہ مدافعتی جنگ کی اہمیت کو کم کرنا نہیں چاہتے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شہروں کی مسلح بغاوت کو شہری آزادیاں سلب کر کے آسانی سے کچلا جا سکتا ہے اور اس طرح شہروں میں مدافعتی تحریکیں کمزور ہو جاتی ہیں۔اس کے برعکس دیہی علاقوں میں حالات اس کے برعکس ہیں۔کیونکہ یہ علاقے جابر قوتوں کی بلاواسطہ مداخلت سے دور ہوتے ہیں اور یہاں عوام اور گوریلا فوج کے درمیان مکمل تعاون اور تعلق ہوتا ہے۔
ہم ان تینوں نتائج کو مدنظر رکھتے ہیں کیونکہ یہ انقلابی فکر میں کیوبائی انقلاب کا خلاصہ ہیں۔
گوریلا جنگ، عوام کی آزادی کے لئے لڑی جانے والی جنگ کا بنیادی پتھر ہے،اور اس جنگ کی کئی خاصیتیں اور پہلو ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ کے اپنے واضح اصول ہیں،اور جو کوئی بھی ان اصولوں سے روگردانی کرتا ہے،وہ شکست کھاتا ہے ۔گوریلا جنگ،جو جنگ کا مرحلہ ہے ،وہ بھی ان اصولوں سے الگ نہیں ہو سکتی ،لیکن گوریلا جنگ کے کچھ اور اصول بھی ہیں۔کامیابی حاصل کرنے کے لئے ان اصولوں پر کاربند رہنا ضروری ہے۔ہر خطے کے معاشرتی اور جغرافیائی حالات کا جدوجہد کے طریقہ کار پر اثرنداز ہونا یقینی ہے ،لیکن گوریلا جنگ کے بنیادی اصول ہر گوریلا جنگ پر لاگو ہوتے ہیں۔
یہاں ہم اپنے تجزیے کی روشنی میں آزادی کی جنگیں لڑنے والوں کے لئے وہ بنیادی اصول پیش کریں گے ۔ 
سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہئے کہ جنگ میں فریق کون ہیں۔ایک فریق تو جبر کرنے والا اور سرکاری ہوتا ہے، جس کی پشت پناہی منظم فوج کرتی ہے اور جسے اکثر و بیشتر غیر ملکی بیرونی امداد ملتی رہتی ہے اور دوسرا فریق عوام ہوتے ہیں۔
گوریلا جنگ ،عوام کی اور جابر قوتوں کے خلاف جنگ ہوتی ہے اور اس جنگ میں گوریلے یا چھاپہ مارمرکز کی حیثیت رکھتے ہیں۔چھاپہ ماروں کو ان کے مدمقابل فوج سے کسی بھی حالت میں کم تر نہیں سمجھنا چاہئے۔حقیقت یہ ہے کہ چھاپہ مار اپنے مدمقابل فوج پر برتری رکھتے ہیں۔کیونکہ گوریلا جنگ ظالم قوتوں کی فوجی عددی برتری اور اسلحہ کی برتری کو توڑ کے رکھ دیتی ہے۔ گوریلا یا چھاپہ مار کی بنیادی قوت ،عوام کا تعاون ہے،اور وہیں سے وہ اپنی سرگرمیاں شروع کرتا ہے۔ وسیع بنیادوں پر عوامی حمایت و تعاون کے بغیر چھاپہ مار سرگرمیاں ممکن نہیں ہیں۔اس سلسلے میں ہمیں ڈاکوؤں کی ان ٹولیوں کو مدنظر رکھنا چاہئے جو اپنی سرگرمیاں کسی علاقے سے شروع کرتے ہیں۔ان ڈاکوؤں میں چھاپہ ماروں کی تمام خصوصیات ہوتی ہیں؛برابری، اتحاد، بہادری، اپنے لیڈر کی فرماں برداری، اپنے متعلقہ علاقے کی مکمل معلومات اور اپنے طریقہ کار پر مکمل عبور۔چھاپہ مار دستوں کے مقابلے میں ان ڈاکوؤں کی ٹولیوں میں جس بات کی کمی ہوتی ہے وہ ہے عوام کا تعاون۔ اور یہی سبب ہے کہ بالآخر ڈاکو پکڑے جاتے ہیں یا پولیس کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ گوریلا دستوں کی بنیادی قوت عوامی حمایت ہے۔ 
اب سوال یہ ہے کہ گوریلا لڑتا کیوں ہے؟ اس کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے ؛گوریلا چھاپہ مار معاشرتی اصلاح پسند ہے ، وہ ایک انقلابی سوشل ریفارمر ہے ۔وہ عوامی احتجا ج پر لبیک کہتے ہوئے اسلحہ اٹھاتا ہے اور مروجہ قوانین سے ٹکر کھاتا ہے ۔وہ اس معاشرتی نظام کے خلاف مسلح ہو کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے جو نظام عوام کی غربت اور بد حالی کا سبب ہے۔
گوریلا جنگ کے طریقہ کار کا تجزیہ کرتے ہوئے جو حقیقت نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے ، وہ یہ ہے کہ چھاپہ ماروں کو اپنے علاقے کے ہر پہلو کی مکمل معلومات ہونی چاہئے۔اسے حملہ کرنے، بھاگ جانے، مستعدی سے حرکت کرنے کے تمام راستوں سے واقفیت ہونی چاہئے۔دشمن پر حملہ کرنے کے تمام ٹھکانوں ،جگہوں اور عوام کے تعاون اور مدد کی پوری پوری معلومات ہونی چاہئے۔ اور یہ تمام شرائط دیہات میں پوری ہو سکتی ہیں۔اور انہی علاقوں میں گوریلا کسانوں کے لئے زمین کی ملکیت کا حق حاصل کرنے اور دوسرے حقوق اور زندگی کی تمناؤں کا ترجمان بن کر آگے آتا ہے۔ 
دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ چھاپہ مار بنیادی طور پر دیہات میں زرعی انقلابی کی حیثیت رکھتا ہے۔ گوریلا جنگ کی اہمیت کو جاننے کے لئے یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ چھاپہ مار ایک ایسے گروہ کا نام ہے جو مروج جابر قوت/حکومت کے خلاف لڑتا ہے۔وہ جابر قوت/حکومت چاہے اپنے لوگوں کی ہو یا غیر ملکی لوگوں کی۔ چھاپہ مار مسلح گروہ اپنے انداز کے مطابق اپنی کارروائیاں منظم کرتا رہتا ہے۔ اس گروہ کا بنیادی کردار زرعی یا دیہاتی والا ہونا چاہئے اور کسانوں کے لئے زمین کی ملکیت کے حق کا ترجمان ہونا چاہئے۔ ماؤزے تنگ کی بغاوتوں کی شروعات چین میں شہروں سے ہوئی،جنہیں انتہائی بے دردی کے ساتھ کچل دیا گیا۔چینی انقلاب نے اپنے مراکز دیہات میں قائم کئے اور زرعی اصلاحات کو نافذ کیا ،تب جا کر انقلاب کو تقویت حاصل ہوئی۔ اسی طرح انڈو چائنا میں ہوچی منہ کی
کامیابیوں کے ضامن فرنچ سامراج کے ظلم کی چکی میں پسنے والے، چاول کی کاشت کرنے والے کسان تھے۔الجزائر میں بھی قومی تحریکِ آزادی کو ان کسانوں نے زندگی اور قوت بخشی جن کسانوں کو فرنچ نو آبادکار فصل کے بٹوارہ کے نام پر ظلم کا شکار بناتے تھے۔ 
جبکہ پورٹیکو میں مخصوص حالات کے سبب ابھی تک گوریلا جنگ کے آثار نمایاں نہیں ہو ئے ہیں لیکن قومی تحریکِ آزادی تیز تر ہو رہی ہے۔ کیونکہ دیسی کسان امریکی نوآبادکاروں کے ظلم و جبر اور ناروا امتیازی سلوک سے تنگ آکر اپنی زمینیں واپس کرنے کے مطالبات کر رہے ہیں اور اسی طرح کے مطالبات مختلف اشکال میں مشرقی کیوبا کے کسانوں اور غلاموں کی تحریکِ آزادی کے محرک اور بنیاد ثابت ہوئے۔ اس قسم کی نفرت خود رو بنیادوں پر پھیلتی رہتی ہے۔اس وقت تک جب تک عوامی تعاون اور چھاپہ ماروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور بالآخر گوریلا جنگ باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔لیکن چھاپہ مار جنگ کا منظم جنگ میں تبدیل ہو جانا اور دشمن کو شکست دینے کا عمل کچھ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔اس ضمن میں یہ بات ذہین نشین رہے کہ مکمل فتح میں پختہ ایمان ہونے کے بغیر کوئی بھی جنگ شرو ع نہیں کرنی چاہئے۔
ایک کہاوت کے مطابق چھاپہ مار جنگی ماہر،مستعد اور ہر جگہ حاضر ہوتا ہے کیونکہ وہ روپ بدلتا ہے،رات کو اچانک حملہ کرتا ہے، برق رفتاری کے ساتھ بھاگ جاتا ہے۔یہی سبب ہے کہ وہ فتح کے عزم اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جنگ کے رومانوی،نقصاندہ اور غیرمحتاط طریقوں سے اپنے آپ کو بچاتا ہے۔ جنگی طریقہ کار کا بنیادی اصول ہی یہی ہے کہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دشمن کی کمزوریوں سے کس حد اور کس درجہ کی کامیابی سے فائدہ اٹھایا جائے ۔گوریلا جنگ میں ایک چھاپہ مار کا حملہ وہی حیثیت رکھتا ہے جو منظم جنگ میں ایک پلاٹون کی کارروائی رکھتی ہے۔ جب جنگی حربے ناکام ہو جائیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ دشمن خبردار ہے اور اس پر اچانک حملہ نہیں کیا جا سکتا۔لیکن چھاپہ مار دستہ چونکہ ہر لحاظ سے خود کفیل ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں دشمن وسیع تر محاذ کی نگرانی نہیں کر سکتا۔اس لئے چھاپہ مار کے لئے ہمیشہ کہیں نہ کہیں پر اچانک حملہ کرنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔اور اسی گنجائش سے ہمیشہ فائدہ اٹھانا چاہئے۔کچھ لوگ اس اچانک قسم کے حملوں کی اہمیت کم کرنے کے لئے انہیں ’ضرب لگاؤ اور بھاگ جاؤ‘ کا نام دیتے ہیں،لیکن در حقیقت ان حملوں کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے۔ اصل طریقہ یہ ہے کہ دشمن پر ضرب لگاؤ اور بھا گ جاؤ ،پھر دشمن کو ہراس میں مبتلا کرو اور پھر ذرا ذرا ضربیں لگانے کے لئے لوٹ آؤ۔یوں دشمن کو آرام کرنے کا موقع نہ دو۔شاید اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ چھاپہ مار،دشمن کے سامنے عیاں نہیں ہونا چاہتا،لیکن یہ طریقہ چھاپہ مار کا پسندیدہ ہوتا ہے۔کیونکہ اس طریقے سے وہ دشمن کے اوپر غالب بھی آتا ہے اور اسے تباہ بھی کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گوریلا جنگ کا شروعاتی مرحلہ ایک ایسا بتدائی نقطہ ہے جس میں جنگ کا فیصلہ نہیں ہوتا لیکن مسلسل گوریلا جنگ کے دوران عوامی فوج کی تعداد بڑھتی رہتی ہے اور بالآخر وہ عوامی فوج کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔اور پھر دشمن پر آخری اور بھرپور ضرب لگانے کا وقت آجاتا ہے۔
جس طرح فوج کا ایک ڈویژنل کمانڈر خوامخواہ اپنے آپ کو موت کے منہ میں نہیں ڈالتا، اسی طرح ایک گوریلا یا چھاپہ مار جو اپنی ذات کی حد تک کمانڈر ہوتا ہے ، وہ بھی خوامخواہ موت کا شکار نہیں ہونا چاہتا۔چھاپہ مار مقصد حاصل کرنے کے لئے جان دے دیتا ہے،صرف حفاظت کے لئے اپنے آپ کو ہلاک نہیں کرتا۔اس لحاظ سے گوریلا جنگ کا اصل معجزہ ہی یہی ہے کہ وہ ایک وسیع تر عوامی تحریک کے مرکز کی حیثیت میں ایک نئے معاشرے کو جنم دیتی ہے۔اس لحاظ سے گوریلا جنگ عوام کی تقدیر کے فیصلے کی صورت میں ابھرتی ہے اور اس تحریک کی عظمت اور بڑائی کسی بیان کی محتاج نہیں رہتی۔ بے مثال حوصلہ اور لازوال عزم اس جنگ کی عظمت کے بنیادی اسباب ہیں۔ جدوجہد گوریلا لغت یا زبان میں طریقہ کار کے معنی رکھتی ہے یا وہ مقاصد یا ان کا تجربہ جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں یہ خبر ہونی چاہئے کہ دشمن کس طرح اور کس انداز میں حرکت کرتا ہے یعنی اس کا منصوبہ کیا ہے؟ تعداد کتنی ہے؟ اسلحہ کتنا ہے اور کس قسم کا ہے؟ نقل و حرکت کی قیادت کون سی ہے؟ اس طرح کی معلومات حاصل کرنے کے بعد ہی گوریلا پلان تیار کرنا چاہئے لیکن ہمیشہ یہ ذہن نشین ہونا چاہئے کہ ہر گوریلا پلان کا مقصد دشمن کو تباہ کرنا ہے۔ ان تمام تر حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد اپنے مقصد کے حصول کے لئے دشمن پر بھرپور ضرب لگانے پر توجہ دینی چاہئے۔حالانکہ دشمن پر ضرب لگانے کا منصوبی پیشگی تیار کرنا چاہئے اور اگر ضرورت پڑے تو دورانِ حملہ اس میں حالات و واقعات کے مطابق تبدیلیاں بھی کی جا سکتی ہیں۔ اسلحہ کے سلسلے میں یہ واضح رہے کہ ان کا استعمال کس طرح سے کرنا ہے ۔دشمن کے بھاری اسلحہ مثلاََ ٹینکوں،ہوائی جہازوں، دشمن کی عادتوں وغیرہ کی اہمیت کا بھی حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنا چاہئے۔ یہ بات کبھی نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ چھاپہ مار کے لئے اسلحہ کا سب سے بڑا ذخیرہ اور ذریعہ دشمن ہی ہے۔ کیونکہ اسے اسلحہ باردو دشمن سے ہی چھیننا ہے ۔ اسلحہ میں اولیت چھوٹے خود کار ہتھیاروں کو دینی چاہئے۔ اس بات پر مکمل دھیان رہے کہ ابتدا میں کوئی بھی چھاپہ مار ہلاک نہ ہو۔ ایک چھاپہ مار آہستہ آہستہ اپنی حفاظت آپ کرنے کے
طریقے اور مہارت خود ہی وضع کر نا سیکھ لیتا ہے ۔اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان طریقوں میں اسے مہارت حاصل ہو جاتی ہے۔ دشمن کو دھوکہ دینا، جل دینا، اچانک حملہ کرنا، اور چھپ جانے کے بہتر سے بہترین طریقے وہ خود ایجادکرتا ہے۔وہ دشوار ترین علاقوں میں چھپ جاتا ہے یا پھر اپنے گرد قوت جمع کرتا ہے کہ دشمن اس پر حملہ کرتے ہوئے ڈرتا ہے ۔ ان جنگی چالوں اور طور طریقوں سے اچھی طرح واقف ہونے کے بعد چھاپہ مار کو اپنی کارروائیاں شروع کر دینی چاہئیں۔ ان کارروائیوں کی ابتدا چھاپہ ماروں کے مخالف علاقوں سے کی جا سکتی ہے اور پھر ان کارروائیوں کا دائرہ بتدریج ملک کے اندر پھیلتے رہنا چاہئے۔ دشمن کی آمدو رفت کے نظام کو تباہ کرنا اور اس کے ٹھکانوں پر حملہ کرنا، ان کارروائیوں میں اہم حیثیت کا حامل ہے۔ 
چھاپہ مار کا کام ہے مسلسل ضربیں لگانا۔ دشمن کے خلاف کارروائی اس طرح ہونی چاہئے کہ اسے سونے یا آرام کرنے کا موقع بالکل میسر نہ آ سکے۔ اس کی چوکیوں پر لگاتار حملے کئے جائیں اور انہیں تباہ کیا جائے۔ دن کو جنگلات میں اور رات کومیدانی علاقوں میں مسلسل حملوں کے ذریعے دشمن پر یہ احساس طاری کر دینا چاہئے کہ وہ انقلاب کے شکنجے میں جکڑتا جا رہا ہے۔ دشمن پر خوف کی کیفیت کا طاری ہونا لازمی ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ عوامی تعاون ،اپنے علاقے کے متعلق مکمل معلومات اور واقفیت حاصل کی جائے ۔اس لئے چھاپہ مار کے لئے جہاں ایک طرف یہ ضروری ہے کہ وہ علاقے کے چپے چپے کے متعلق علم رکھتا ہو تو دوسری طرف وہ انقلاب کے مقاصد کو عوام کے اذہان تک پہنچانے کے لئے ہمہ گیر تحریک کو بھی جاری رکھے۔ اور عوام کو یہ ذہن نشین کرواتا رہے کہ بالآخر انقلاب دشمنوں کو شکست ہو گی اور اسے بھی انقلاب کی فتح پرایمان ہونا چاہئے۔ جس چھاپہ مار کا انقلاب کی فتح پر ایمان نہیں ہے وہ چھاپہ مار ہو ہی نہیں سکتا۔
عوامی رابطہ مہم انتہائی احتیاط طلب کام ہے ۔ہر وہ شخص جس سے رابطہ قائم کیا جائے ،اس پر اس کی اہمیت واضح کرنی چاہئے اور اسے سخت تاکید کی جائے کہ وہ اس مہم کو ایک راز سمجھے۔ چھاپہ مار کا عوامی رابطے کے سلسلے میں اہم کام یہ ہے کہ وہ انقلاب کے قابلِ اعتماد دوست تلاش کرے۔ جن کے ذریعے اسلحے کی رسد اور اطلاعات رسانی کا کام کیا جا سکے۔ اس کام سے عہدہ بر آں ہونے کے بعد شہری آبادی سے رابطہ قائم کرنے کے لئے ہمہ گیر اور مکمل ہڑتالوں کے لئے کام کرنا چاہئے۔ تاکہ پورے شہری نظام کو درہم برہم کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں کسی ہمہ گیر ہڑتال کے لئے ایسے کئی اجزا اور واقعات جو کسی ہڑتال کے لئے لازمی ہیں ،ایک ہی وقت رونما ہونے چاہئیں ۔ ایسے واقعات خود بخود بڑی مشکل سے رونما ہوتے ہیں ،لہٰذاان کے لئے میدان تیار کرنے والی صورتحال پیدا کرنی ہوتی ہے اور وہ اس حالت میں ممکن ہے جب انقلاب کے عظیم مقصد کے ساتھ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو وابستہ کیا جائے اور ایسے واقعات و اسباب کو پیدا کیا جائے جن کے ذریعے عوام کی مشترکہ قوت کا بھرپور اظہار ہو سکے۔ 
چھاپہ مار سبوتاژ کے ذریعے پوری فوج کو مفلوج کر سکتا ہے ،کارخانے بند کروا سکتا ہے، لوگوں کو روزگار سے الگ کر سکتا ہے ،پانی،بجلی اور ٹرانسپورٹ کے نظام کو جام کر سکتا ہے۔ اور لوگوں پر اس قدر دہشت بٹھا سکتا ہے کہ وہ گھروں سے باہر نکلنے کی جرات نہ کر سکتے ہوں ۔اور اس طرح کی کارروائیاں اگر کامیابی کے ساتھ سرانجام دی جائیں تو دشمن دہل جاتا ہے اور اس کا مدافعتی نظام ٹوٹ جاتا ہے۔ ان وسیع تر کارروائیوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چھاپہ ماروں کی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع تر ہوجاتا ہے ۔اس ضمن میں محتاط رہنے کی بے حد ضرورت ہے ۔کام یا سرگرمیوں کا علاقہ کسی بھی صورت میں حد سے زیادہ وسیع نہ کرنا چاہئے۔ لیکن اپنے حلقہ یا دائرے کو روزبروز مضبوط کرنا چاہئے۔ اور یہ مضبوطی عوام کو اپنا ہم مقصد بنا کر ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ عوام کو اپنا ہم مقصد بنانے کے ساتھ ساتھ انقلاب دشمنوں سے بچنے ، انقلاب کی مخالفت کو روکنے اور اسے کم کرنے کے لئے بھی کام کرنا لازمی ہے۔ حفاظتی تدابیر کی طرف توجہ دینا ، خندقیں کھودنا،سرنگیں بچھانا اور اپنی رسد کے اندرونی نظام کو مضبوط بنانا اہم کام ہیں۔ چھاپہ ماروں کا نیا گروہ ترتیب دینا اس حالات میں ممکن ہے جب رضاکاروں اور اسلحہ کی تعداد اور مقدار میں اچھا خاصا اضافہ ہونے والا ہو۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ علاقہ جو چھاپہ ماروں کے قبضہ میں ہوتا ہے ،وہ ان کی سرگرمیوں کے لئے ناکافی ثابت ہوتا ہے اور بالآخر دشمن کے علاقے کی طرف بڑھنے اور پھیلنے کے عمل میں چھاپہ ماروں کو دشمن کی طاقت ور اور منظم فوج کے مد مقابل ہونا پڑتا ہے۔ اس مرحلے پر پہنچ کر چھاپ مار گروہ ایک منظم فوج کی شکل اختیار کرتا ہے اور باقاعدہ جنگ کا آغاز کرتا ہے ۔ لیکن اس مرحلے پر پہنچنے کے بعد بھی پرانے چھاپہ مار اپنے آپ کو مرکزی علاقوں/اڈوں سے الگ نہیں کر سکتے۔ وہ دشمن کے عقب میں نئے چھاپہ مار دستے بنا کر دشمن پر ضربیں لگاتے رہتے ہیں اور اسی طرح یہ جنگ شہروں کو لپیٹ میں لاکر پورے ملک کو نیا ولولہ بخشتی ہے اور مکمل فتح کی طرف بڑھتی ہے۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں