جمعرات، 10 دسمبر، 2015

میں اور ماضی کی بستی



خلیل جبران کے دو مضامین پڑھنے کے لیے موجود ہیں، پڑھنے سے زیادہ سوچنے کے لیے، توقعات پر کھرا نہ اترنا، ہمارے یہاں ایک ایسی اندھی 
مایوسی کا شکار لوگوں کو بنادیتا ہے کہ وہ گلے کی رگیں پھاڑ پھاڑ کر مخالفت کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔شاعری، سیاست، قانون، الغرض کوئی بھی شعبہ ہو، اس میں نئے پن، نئے معنی اور نئی گنجائشیں پیدا کرنے کی کسی بھی کوشش کو کفر کا مترادف سمجھا جاتا ہے۔تہذیبوں کی کیچڑ میں دھنسے ہوئے ہم لوگ، چپ چاپ نہ ڈوبنے کی سزا دن رات کاٹ رہے ہیں۔ایسے میں کوئی عام آدمی ہٹ کر سوچتا ہے تو خاموش کرادیا جاتا ہے، خاموش نہیں ہوتا تو ماردیا جاتا ہے، مارا نہیں جاسکتا تو اسے گالی دی جاسکتی ہے، برابھلا کہہ کر اپنے ایمان کی تقویت ثابت کی جاسکتی ہے۔سوچنے سمجھنے اور سوال کرنے کے عمل پر ایسی زبردست اور کارگر پابندیاں مغرب کو کہاں نصیب،یہ تو ہمارا حصہ ہیں۔خلیل جبران کے یہ دونوں مضامین مشرق کی عادت، اس کے ذہن کی روش اور بساط پر بات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، غور سے دیکھیے، یہ سطریں نہیں، آئینہ ہیں، کچھ عربی نام ہٹا کر ہندی نام رکھ دیجیے، یہ واقعی قند نہیں، زہر ہے۔



میں


’وہ اپنے انتہا پسندانہ خیالات میں جنون کی حد تک پہنچ چکا ہے۔‘
’میرا خیال ہے وہ اس لیے لکھتا رہتا ہے کہ لوگوں کے اخلاق خراب ہوں۔‘
’اگر شادی شدہ اور غیر شادی شدہ مرد اور عورتیں شادی کے معاملے میں جبران کے افکار کی پیروی کرنے لگیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خانہ داری کے ستون گر جائیں گے۔انسانی جماعت کی بنیادیں ہل جائیں گی اور یہ دنیا ایسے جہنم کی شکل اختیار کرلے گی جس میں شیطان بستے ہوں۔‘
’اس کے اسلوب صحافت کی آرائش و زینت خاک میں مل جائے وہ تو انسانیت کا دشمن ہے۔‘
’وہ اشتراکی ملحد اور کافر ہے۔ہم اس پاک سرزمین کے باشندوں کو نصیحت کے طور پر کہتے ہیں کہ اس کی تعلیمات سے دور رہیں اور اس کی کتابوں کو جلاڈالیں تاکہ ان کا کوئی اثر ان کے نفوس پر باقی نہ رہے۔‘
’ہم نے اس کی کتابیں پڑھ ڈالیں اور دیکھا کہ وہ میٹھے زہر کی مثال رکھتا ہے۔‘
-----
یہ میرے متعلق بعض لوگوں کی رائے ہے اور ٹھیک ہے اس لیے کہ میری انتہا پسندی جنون کی حد تک پہنچ چکی ہے۔ میں تعمیر کی نسبت تخریب کے زیادہ درپے ہوں۔میرا دل ان چیزوں سے متنفر ہے جن کی لوگ تعظیم کرتے ہیں اور میرے دل میں اُن چیزوں کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے جن سے تمام لوگ متنفر ہیں۔اگر میرے بس میں ہوتا تو میں انسانی جماعت کے خیالات ،معتقدات اور تقلیدی ارادوں کو جڑسے اکھاڑ کر پھینکنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ رکھتا۔بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ میری کتابیں میٹھے زہر کی مانند ہیں۔ایک حقیقت جو مضبوط پردے کی آڑ سے ان کو نظر آتی ہے۔صاف حقیقت تو یہ ہے کہ میں زہر کو کسی اور چیز میں ملا کر نہیں دیتا بلکہ خالص زہر پلاتا ہوں۔فرق اتنا ہے کہ زہر کے پیالے صاف و شفاف ہوا کرتے ہیں۔
وہ لوگ جو اپنے دلوں کو میری طرف سے یہ عذر پیش کرکے اطمینان دلاتے ہیں کہ ’وہ ایک خیالی آدمی ہے جو بادلوں کی دنیا میں اڑناچاہتا ہے۔‘ وہ وہی لوگ ہیں جن کی نظر صرف ان شفاف پیالوں پر پڑتی ہے اور ان کے اندر بھری ہوئی شراب یا زہر تک ان کی نگاہ رسائی نہیں کرتی۔اس لیے کہ ان کے کمزور معدے اس کو ہضم کرنے کے قابل نہیں۔یہ تمہید ایک کرخت بے حیائی ظاہر کرتی ہے لیکن کیا یہ واقعہ نہیں کہ دل کو چھیدنے والی بے حیائی شیریں الفاظ سے ادا ہونیوالی خباثت سے بہتر ہے۔بے حیائی اپنے اصلی رنگ میں اپنے آپ کو پیش کرتی ہے لیکن خباثت اور بے ایمانی ایسے لباس میں ظاہر ہونے کی کوشش کرتی ہیں جو اس کے لیے سلایا نہیں گیا۔
مشرق کے باشندے ہر مضمون ایسا چاہتے ہیں کہ وہ شہد کی مکھی کی طرح باغات میں پھر پھر کر کلیوں کا رس چوسے جمع کرے اور اس سے شہد کے چھتے تیار کرے۔مشرق کے باشندے شہد ہی کو پسند کرتے ہیں اور اس کے علاوہ کوئی طعام ان کو اچھا نہیں لگتا۔وہ شہد کھانے میں اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ ان کے نفوس سراسر ایسا شہد بن گئے ہیں جو آگ کی گرمی سے بہہ جاتا ہے اور برف کے تودوں پر رکھے بغیر منجمد نہیں ہوسکتا۔
مشرق کے باشندے ہر شاعر سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو ان کے بادشاہوں’ افسروں اور پادریوں کے سامنے دھونی کی طرح جلا کے مشرق کی فضا اس دھوئیں سے جو شاہی محلوں، قربان گاہوں اور مقبروں سے اٹھتا ہے مکدر ہوچکی ہے۔لیکن ابھی وہ اس کو اور مکدر کرنا چاہتے ہیں۔ہمارے ہی زمانے میں ایسے مدح گو شاعر موجود ہیں جو متنبی سے کم نہیں، ایسے مرثیہ خوان پائے جاتے ہیں جو خنسا سے بڑھے ہوئے ہیں اور ایسے تہنیت خواں بھی کم نہیں جو صفی الدین علی کو مات کرتے ہوں۔
مشرق کے باشندے ہر مفکر سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کے آباؤ اجداد کی تاریخ کی چھان بین کرے۔وہ انہیں کے آثار و معتقدات کی تعلیم دیتا رہے، وہ اپنے قیمتی اوقات کی ہر گھڑی صرف انہیں کی طول طویل لغات، الفاظ کے ہیر پھیراور اس کے معانی و بیان میں صرف کردے۔
مشرق کے رہنے والے ، ہر مفکر سے یہی سننے کے خواہش مند ہیں کہ بیدما، ابن رشد ’ افرام سریانی اور یوحنا دمشقی نے کیا کہا تھا۔وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے مضامین میں بے کار نصیحتوں اور ارشادات اور ان میں استعمال ہونے والے ان مواعظ و نصائح کے سوا اور کچھ نہ لکھے جن پر عمل پیرا ہونے والے انسان کی زندگی گھاس کے اس کمزور تنکے کی طرح ہوجاتی ہے جو سائے میں اگا ہوا ہو اور اس کا نفس اس پانی کی طرح ہوجاتا ہے جس میں تھوڑی سی افیون گھلا دی گئی ہو۔
مختصر یہ کہ مشرق کے باشندے گزرے ہوئے زمانے کے خیالات میں زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔وہ دل کو لبھانے والی اور ہر قسم کے فکر و غم سے آزاد کردینے والی لایعنی باتوں کو پسند کرتے ہیں۔اگر ان کو پسند نہیں آتے تو وہ افکار پسند نہیں آتے جو تعمیری ہوں، جو ان کو جھنجھوڑکر اس گہری نیند کے خمار سے بیدار کردیں جن میں غافل پڑے ہوئے میٹھے اور پرسکون خواب دیکھنے میں وہ مست ہیں۔
---
مشرق وہ مردِ بیمار ہے جس پر باری باری ہر مرض حملہ آور ہوا اور وبائی امراض اس سے چمٹے رہے۔یہاں تک کہ وہ اس بیماری کا عادی بن گیا مصیبتوں سے محبت ہوگئی۔وہ اپنے مصائب و تکالیف کو نہ صرف یہ کہ اپنی طبعی کیفیات سمجھنے لگا بلکہ ان کو ایسے اچھے اخلاق کا رتبہ دے دیا جو اچھی روحوں اور صحیح جسموں میں پائے جاتے ہیں اور اسی لیے جب وہ دیکھتا کہ کوئی فرد ان امراض کا مریض نہیں تو اسے خدا کے عطا کردہ کمالات و احسانات سے محروم سمجھنے لگتا۔
مشرق کے بے شمار ڈاکٹر اس مریض کے بستر کے گرد پھرتے ہیں اس کے علاج کے لیے آپس میں مشورے کرتے ہیں لیکن افسوس ان میں سے کوئی بھی اس کا صیح علاج نہیں کرتا۔بغیر اس کے کہ وقتی طور پر سکون پیدا کرنے والی دوائیں پلا کر مرض کو دور کرنے کی بجائے اسے طول دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ مدہوش کرنے والی دوا میں مختلف طرح کی مختلف شکل کی اور مختلف رنگ کی ہیں۔یہ ایک دوسری کی ملاوٹ سے ہی بنتی ہیں۔جس طرح کہ ایک مرض سے دوسرا مرض پیدا ہوا کرتا ہے جب بھی مشرق میں کوئی جدید مرض نمودار ہوتا ہے۔مشرق کا طبیب اس کے لیے بے ہوشی کی ایک نئی دوا تجویز کردیتا ہے۔اسی طرح وہ اسباب بھی بے شمار ہیں جن کی وجہ سے مرض اس قسم کی دواؤں کی آڑ لیتا ہے۔ان میں سب سے اہم دو سبب ہیں ایک تو یہ کہ مریض اپنے آپ کو قضا وقدر مشہور نظریے کے حوالے کردیتا ہے اور دوسرا یہ کہ طبیب بزدل ہیں وہ ڈرتے ہیں کہ تکلیف دہ دوا دینے سے مریض کا مرض نہ بھڑک اٹھے۔
مشرق کے یہ روحانی طبیب ہمارے اس مردِ بیمار کی خانگی، وطنی اور مذہبی بیماریوں کے لیے جس قسم کی مدہوش کن دوائیں پلاتے ہیں ان کی چند مثالیں سن لیجیے۔
شوہر اپنی بیوی سے اور بیوی اپنے شوہر سے بعض فطری اسباب کی بنا پر تنگ آکر ایک دوسرے سے لڑتے ہیں ۔مارپٹائی ہوتی ہے اور ایک دوسرے کو چھوڑ جاتے ہیں لیکن ابھی پورا ایک دن رات گزرنے نہیں پاتا کہ شوہر کے خاندان والے بیوی کے خاندان کے افراد سے ملتے ہیں۔ملمع سازی سے چمکتے ہوئے خیالات ایک دوسرے کے سامنے رکھتے ہیں اور وہ متفق ہوجاتے ہیں کہ میاں بیوی میں صلح کرائی جائے عورت کو بلایا جاتا ہے اسے میٹھی میٹھی باتوں اور دل کو نرم کرنے والے نصائح سے رام کیا جاتا ہے اور اس طرح وہ مطمئن نہ ہونے کے باوجود شرم کے مارے سرتسلیم خم کردیتی ہے۔پھر شوہر کو بلایا جاتا ہے اور اس کے دماغ کو زرنگار امثال و اقوال کے ذریعے ماؤف کردیا جاتا ہے جن کی وجہ سے اس کے خیالات نرم تو ہوجاتے ہیں لیکن بدلتے نہیں۔اور یوں وقتی طور پر پھر دونوں کے درمیان صلح ہوجاتی ہے۔ان کی روحیں ایک دوسرے سے متنفر ہونے کے باوجود ایک ہی گھر میں، ایک ہی چھت کے نیچے اپنے ارادے کے بالکل خلاف زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔جب خویش و اقارب کی پلائی ہوئی نشہ آور دو کی مدہوشی اور اس کا اثر زائل ہوتا ہے۔جو ضرورہی زائل ہوتا ہے۔اُس وقت مرد پھر عورت سے نفرت کا اظہار کرنے لگ جاتا ہے اور اسی طرح بیوی اپنی ناراضگی کو بے نقاب کرنے لگ جاتی ہے۔لیکن وہی لوگ جنہوں نے پہلے ان دونوں کو بے ہوشی کی نیند سلایا تھا وہ پھر ان کو بے ہوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی طرح جنہوں نے پہلے اس شراب کے پیالے کا ایک گھونٹ پیا تھا وہ اب اس کا نشہ اتارنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔
قوم کسی ظالم حکومت یا فرسودہ نظام کے خلاف بغاوت کرتی ہے۔بیدار ہونے اور آزادی حاصل کرنے کے بلند ارادے سے لے کر اصلاحی انجمن کی بنیاد ڈال دیتی ہے۔پوری شجاعت اور بہادری سے تقریریں ہوتیں اور اعلانات شائع ہوتے ہیں۔اخبارات و رسائل جاری ہوتے ہیں اور ملک کے گوشے گوشے میں وفد بھیجے جاتے ہیں لیکن مہینہ دو مہینہ گزرنے نہیں پاتے کہ قوم سنتی ہے کہ جمعیت کا صدر یا تو گرفتار کرلیا جاتا ہے یا اسے حکومت کی طرف سے وظیفہ ملنا شروع ہوتا ہے اور اس کے بعد اصلاحی انجمن کا نام سننے میں نہیں آتا۔یہ کیوں؟اس لیے کہ اس کے ارکان اپنی عادت کے مطابق نشیلی دواپی کر سکون و اطمینان کی حالت میں بے ہوش ہوجاتے ہیں۔
ایسے ہی ایک جماعت اٹھتی ہے وہ اپنے مذہبی پیشوا کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتی ہے اس کی ذات پر تنقید کرتی ہے۔اس کے اعمال کا جائزہ لیتی ہے اس کی کارروائیوں کو بری نگاہ سے دیکھتی ہے۔پھر اس کو ڈراتی ہے کہ وہ ایسے مذہب کو اختیار کرلینگے جو اس کے اوہام و خرافات کے بالکل خلاف اور عقل کے موافق ہے۔لیکن بہت تھوڑے دنوں کے بعد ہم سنتے ہیں کہ اس ملک کے خیر خواہوں نے کوشش کرکے قوم اور اس کے پیشوا کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کو ختم کردیا ہے اور جادو اثر نشیلی باتوں کے اثر سے اسی پیشوا کا زائل شدہ وقار ازسرِنو قوم کے دلوں میں پیدا کردیا ہے اور قوم پھر اسی پیشوا کی اندھی تقلید کرنے لگی۔
کمزور اور بے بس انسان کسی ظالم و جابر کے ظلم کی شکایت کرنے لگتا ہے تو اس کا پڑوسی اسے کہتا ہے کہ خاموش رہو۔اس لیے کہ جو آنکھ تیر کا مقابلہ کرنے پر آتی ہے وہ پھوڑ دی جاتی ہے۔دیہاتی انسان’گوشہ نشین زاہدوں کے اخلاق و تقویٰ کو شک کی نگاہوں سے دیکھتا ہے تو اس کا ساتھی اسے مخاطب کرکے کہتا ہے کہ زبان سے کوئی لفظ نہ نکالنا۔کتاب میں آیا ہے کہ ان کی باتیں تو سن لیا کرو لیکن ان کے عمل سے دور دور رہو۔ایک شاگرد بصریوں اور کوفیوں کے نحوی مناظروں کو بے کار سمجھ کر اس میں وقت ضائع کرنے سے پہلو بچا کر نکل جانا چاہتا ہے تو اس کا استاد اسے ڈانٹ کرکہتا ہے کہ تیری طرح کاہل اور سست لوگ عذرِ گناہ بدتر ازگناہ قسم کے بہانے تراش لیا کرتے ہیں۔جب کوئی لڑکی بوڑھی عورتوں کی پرانی عادت کی تقلید نہیں کرتی تو اس کی ماں اسے کہتی ہے کہ تو مجھ سے بہتر نہیں ہوسکتی۔’تجھے لازم ہے کہ اسی راہ پر چل جس پر میں چلتی ہوں۔‘نوجوان اٹھ کر مذہب میں انسان کی طرف سے پڑھائی باتوں کی تحقیق کرنا چاہتا ہے تو زاہدخشک اسے یہ کہہ کر چپ کراتا ہے کہ جو شخص ہر مذہبی حکم کو ایمان ویقین کی آنکھ سے نہیں دیکھے گا اسے اس دنیا میں دھند اور غبار کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا۔
اسی طرح زمانے کے دن رات گزرتے ہیں اور مشرق کا باشندہ اپنے نرم بستر پر غفلت میں پڑا کروٹیں بدلتا رہتا ہے۔جب اسے مچھر کاٹتے ہیں تو تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں کھول تو دیتا ہے لیکن پھر وہی غفلت اس پر طاری ہوجاتی ہے اور انہیں نشہ آور دواؤں کے اثر سے جو اس کے رگ و پے میں سرایت کرچکی ہیں اسی طرح مست پڑا رہتا ہے۔جب کبھی کوئی انسان اٹھتا ہے اور ان سونے والوں کو پکارتا ہے۔ان کے گھروں، عبادت گاہوں اور دفتروں کو اپنی چیخ و پکار سے بھر دیتا ہے تو وہ دائمی خمار سے بند رہنے والی پلکوں کو کھول کو جمائیاں لے لے کر کہتے ہیں ۔’یہ کیسا انسان ہے جو نہ خود سوتا ہے اور نہ اوروں کو سونے دیتا ہے۔‘اتنا کہہ کر وہ پھر اپنی آنکھیں بند کرکے اپنی روح سے کہتے ہیں۔’یہ انسان کافر ہے، ملحد ہے۔یہ نوجوانوں کے اخلاق خراب کرنے کے درپے ہے۔’یہ قوم کی بنیادوں کو گرادینا اور انسانیت کو زہریلے تیروں سے چھلنی کرنا چاہتا ہے۔‘
---
میں نے کئی بار اپنے نفس سے پوچھا کہ کیا وہ ان سرکش جاگنے والوں میں سے تو نہیں جو سکون بخش اور نشہ آور دواؤں کے پینے پر رضامند نہیں لیکن نفس مجھے ہمیشہ گول مول جواب دیتا۔مگر جب میں نے دیکھا کہ لوگ میرانام لے لے کر مجھے کوستے ہیں اور میری تعلیمات کو سن سن کر وہ کراہتے ہیں۔اس وقت مجھے اپنی بیداری کا یقین آگیا اور میں جان گیا کہ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اپنے آپ کو شیریں اور لذیذ خوابوں اور سکون پذیر خیالات کے سپرد کردیں بلکہ میں ان تنہائی پسند انسانوں کا ایک جزو ہوں۔جن کو زندگی تنگ اور پرخار وادیوں میں گھسیٹے لیے جاتی ہے۔ایسی وادی میں جو جھٹپٹے والے بھیڑیوں اور میٹھی بولی بولنے والی بلبلوں سے معمور ہو۔اگر یہ بیداری کوئی فضیلت ہوتی تو میری تنگدلی مجھے اس سے یقیناًروکتی۔لیکن یہ کوئی فضیلت ہے ہی نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جو تنہائی پسند افراد پر ان کی غفلت میں ظاہر ہوتی ہے اور ان کے آگے آگے چلتی ہے۔وہ لوگ اپنے ارادے کے خلاف اسے کے پیچھے چلتے ہیں۔اس کی پوشیدہ کشش سے وہ کھچے چلے جاتے ہیں اور کے ہیبت ناک معانی کی طرف پھٹی ہوئی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔میرا تو خیال ہے کہ شخصی حقائق کے اظہار میں ایک قسم کی ریا ہے جسے مشرق کے باشندوں کی زبان میں تہذیب کہا جاتاہے۔
---
کل مفکر اور ادیب میرے ان گذشتہ خیالات کو پڑھ کر غصے سے کہیں گے ۔’یہ حد سے تجاوز کرچکا ہے۔یہ زندگی کے تاریک پہلو ہی کو دیکھتا ہے اور اسی وجہ سے اسے تاریکی کے سوا کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی۔یہ تو اس سے پہلے بھی بہت مرتبہ ہمارے درمیان کھڑا ہوکر پکارتا رہا ہے ہماری حالت پر روتا اور افسوس کرتا رہا ہے۔‘ان مفکرین سے میں کہتا ہوں ۔میں مشرق کا نوحہ اس لیے کرتا ہوں کہ مردہ لاش کے سامنے ناچنا جنون ہے۔میں اس مشرق پر اس لیے روتا ہوں کہ امراض کی وجہ سے ہنسنا جہل ہے۔میں اپنے پیارے وطن کا سوگ اس لیے مناتا ہوں کہ مصیبت کے وقت گانا بے عقلی ہے۔ میں اس لیے حد سے تجاوز کررہا ہوں کہ جو شخص حق کے ظاہر کرنے میں اعتدال سے کام لیتا ہے وہ حق کی آدھی بات کو تو ظاہر کردیتا ہے لیکن باقی آدھی لوگوں کی بدگمانیوں اور ان کی باتوں کے خوف سے پوشیدہ رہ جاتی ہے۔ میں سڑی ہوئی لاش دیکھتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔میرا دل بے چین ہوجاتا ہے اور میرے لیے نا ممکن ہوجاتا ہے کہ میں دائیں ہاتھ میں شراب کا پیالہ اور بائیں میں مٹھائی کی ڈلی لے کر اس کے سامنے بیٹھ جاؤں۔اگر وہاں کوئی ایسا ہے جو میرے رونے کو ہنسی ، میرے خوف کو رحم اور میری افراط کو اعتدال سے بدلنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ مجھے تمام اہلِ مشرق میں کوئی ایک انصاف پسند ، عاملِ شرع، راست رو حاکم بتائے مجھے کوئی مذہبی پیشوا دکھائے جو اپنے علم کے ساتھ عمل بھی کرتا ہو اور مجھے کسی ایسے شوہر کا پتہ دے جو اپنے بیوی کو اُسی آنکھ سے دیکھتا ہو جس سے وہ اپنے آپ کو دیکھتا ہے۔
اگر کوئی ایسا ہے جو چاہے کہ مجھے خوشی سے ناچتا اور طبل و سارنگی سے کھیلتا ہوا دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ مجھے شادی والے گھر بلائے نہ قبرستان میں کھڑا کردے۔
---



ماضی کی بستی


حیات نے مجھے جوانی کے بلند پہاڑ کی سطح پر لا کھڑا کیا اور مجھے اشارہ کیا کہ اپنے پیچھے نظر ڈالوں۔میں نے اپنے پیچھے نگاہ ڈالی۔مجھے ایک اجنبی شکل و صورت کا ایک شہر نظر آیا جو میدان کے اُس پار مربع شکل میں کھڑا تھا۔مختلف خیالات اور رنگین بخارات اس میں چکر کاٹ رہے تھے۔لطیف سی کہر اس پر ایسی چھارہی تھی جو اسے آنکھوں سے اوجھل کر رہی تھی۔
میں نے پوچھا’اے حیات!یہ کیا ہے؟‘
اُس نے کہا’ یہ ماضی کی بستی ہے۔اس پر غور سے نظر ڈالو!
میں نے غور سے دیکھا تو مجھے نظر آیا کہ اعمال نیند کی آغوش میں بڑے بڑے جابروں کی طرح بیٹھے ہیں۔کلام کی مسجدیں نظر آئیں جن کے ارد گرد روحیں مایوسی کی چیخ پکار اور امید کے گیت گانے میں مصروف تھیں۔مذہب کے مجسمے نظر آئے جو یقین کی بنیادوں پر قائم تھے لیکن شکوک و شبہات کی کثرت نے ان کی عمارت کو ڈھادیا۔افکاروخیالات کے بلند مینار سائل کے ہاتھوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔میلانات کے راستے ایسے کشادہ دکھائی دے رہے تھے جیسے ٹیلوں میں سے گزرتا ہوا دریا۔اسرار کے خزانے نظر آئے جن کی حفاظت تو ہوتی رہی لیکن جاسوسوں نے ان پر ہاتھ صاف کرلیا۔اونچے عزائم کے مضبوط برج دکھائی دیے جو شجاعت کی بنیادوں پر قائم تھے لیکن خوف وہراس نے ان میں شگاف ڈال دیے۔میٹھی خوابوں کے محل نظر آئے جو تاریک راتوں میں تو بہت خوبصورت دکھائی دے رہے تھے لیکن بیداری نے ان کے تمام حسن کو ملیامیٹ کردیا۔کمزوری کے چھوٹے چھوٹے رہائشی جھونپڑے دیکھے۔حقیقت و معرفت کی محفلیں دیکھیں جو عقل کے نور سے روشن تھیں لیکن جہل کی ظلمت نے ان کو تاریک بنادیا۔محبت کے شراب خانے نظر آئے جن میں عاشق مدہوش پڑے تھے لیکن خرد نے ان کی مستی کو فنا کردیا۔
وہ ماضی کی بستی ہے جو دور بھی ہے اور قریب بھی۔نظر بھی آرہی ہے اور نظر سے پوشیدہ بھی ہے۔اس کے بعد حیات میرے آگے آگے چلی اور کہا!
’کھڑے کھڑے بہت دیر ہوگئی اب پیچھے چلے آؤ!‘
میں نے پوچھا’اے روحِ حیات!کہاں جانا ہے؟‘
اس نے جواب دیا’مستقبل کی بستی کی طرف!‘
میں نے کہا’ذرا ٹھہر جاؤ!چلتے چلتے میں تھک گیا ہوں، ٹیلوں میں میرے پاؤں زخمی ہوچکے ہیں اور گھاٹیوں میں چلتے چلتے میرے قویٰ جواب دے چکے ہیں۔‘
اُس نے کہا’چلتے رہو!ٹھہرنا بزدلی ہے اور ماضی کی بستی کو دیکھتے رہنا جہالت ہے۔‘

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں