پیر، 7 دسمبر، 2015

داعش کے جنگجو عورتوں کوکھلم کھلا اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناتے


رواں ہفتے دولت اسلامیہ نےاُن یزیدی خواتین اور بچوں کو رہا کر دیا جن کو آٹھ ماہ پہلے دولتِ اسلامیہ نے اغواء کیا تھا۔ داعش ہی کی وجہ سے عراق کی یہ اقلیتی جماعت سنجر پہاڑی پر پناہ لینے پر مجبور ہے۔ جو عورتیں رہا کی گئی ہیں وہ رنج و الم کی تصویر بن کر رہ گئی ہیں۔ ہر عورت ، ہر لڑکی کی اپنی داستان ہے۔ ان خواتین کے مطابق اُن کو عوام کے سامنے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا تھا، اُن کو مارا پیٹا جاتا تھا، اُن پر بد ترین تشدد کیا جاتا تھا اور اُن کو اور اُن کے بچوں کو داعش کو بیچ دیا جاتا تھا۔ ایک عورت ایک دفعہ نہیں لاتعداد دفعہ بیچی اور خریدی جاتی تھی۔انٹرنیشنل بزنس ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوے یزیدی شمو خلف جو کہ یزادا آرگنائزیشن کے ایک رہنما ہیں، کا کہنا تھا کہ ’’ ہمارے بچوں کو اُن کی ماؤں سے علیحدہ کر کے اُن کو موسل اور طل افر کے علاقوں میں مختلف گھروں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اگر آپ ان لڑکیوں کے ساتھ بیٹھیں ان سے بات کریں تو آپ کو پتہ لگے گا کہ اُن کو داعش کے سپاہیوں کے ہاتھ فروخت کیا گیا جنہوں نے ان عورتوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا یا اور زبردستی اُن سے خون کے عطیات لیے‘‘۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے نومبر 2014 میں 87 صفحات پر مبنی ایک رپورٹ شائع کی جس میں یزیدی عورتوں پر کیے گئے مظا لم کو بیان کیا گیا۔اس رپورٹ کو جھٹلانے کے لیے دولتِ اسلامیہ نے اپنے پروپیگینڈا میگزین ’’دبیق‘‘ میں ایک آرٹیکل چھاپا جس میں عورتوں کی خریدو فروخت کو اسلامی لحاظ سے ایک صحیح قدم قرار دیا لیکن اس کا اُلٹا اثر ہوا۔ ’’ دا انڈپنڈنٹ‘‘ میگزین کو انٹرویو دیتے ہوے سجاد جیاد ، جو کہ Iraqi Institute for Economic Reform کے کارکن ہیں، کا کہنا تھا کہ داعش کے حامی یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھے کہ عورتوں کی خرید و فروخت ہوئی ہے لیکن ’’دبیق‘‘ میں آرٹیکل چھپنے کے بعد اُن کو بھی اس بات کا یقین ہو گیا۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں