منگل، 1 دسمبر، 2015

شام کے 70ہزار اعتدال پسند جنگجو


شام میں اعتدال پسند جنگجوؤں کی تعداد کتنی؟
مائیکل سٹیفنز
ریسرچ فیلو، مڈل ایسٹ سٹڈیز
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے شام میں فضائی کارروائی کرنے کے حق میں بات کرتے ہوئے کہا کہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کو ہدف بنانے کے ساتھ سفارتی کوششیں بھی کی جائیں جس میں شام میں حکومت مخالف گروہ شامی حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں اور انتقال اقتدار کا طریقہ وضع کریں۔
انھوں نے کہا کہ شام میں 70 ہزار جنگجو ایسے ہیں جو انتہا پسند گروہوں سے تعلق نہیں رکھتے اور وہ شامی حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے دی جانے والی اس تعداد میں کافی لوگ چونکے کیونکہ اس بارے میں وضاحت نہیں دی گئی کہ یہ جنگجو کون ہیں، کہاں لڑ رہے ہیں اور ان اعتدال پسند گروہوں کا القاعدہ اور دولت اسلامیہ کے ساتھ کس قسم کے روابط ہیں ایک ہفتے میں کئی تجزیہ کاروں نے کوشش کی ہے کہ ان جنگجوؤں کی نشاندہی کی جائے۔
بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے چارلز لسٹر نے اہم گروہوں میں جنگجوؤں کی تعداد 65 ہزار بتائی ہے جبکہ مزید دس ہزار جنگجو چھوٹے گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ جنگجو چھ محاذوں پر لڑ رہے ہیں جو حلب سے دمشق اور اردن کے ساتھ سرحد تک ہیں۔
اگرچہ 65 سے 75 ہزار جنگجوں کی نشاندہی کرنا ممکن ہے جو شامی حکومت اور دولت اسلامیہ سے لڑ رہے ہیں، تاہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ جنگجو خاص طور پر شام کے شمالی علاقوں میں موجود جنگجو اتنے طاقتور نہیں ہیں کہ وہ القاعدہ یا دولت اسلامیہ کے ساتھ لڑ سکیں۔
مثال کے طور پر سات مختلف گروہوں کا اتحاد جیش الفتح میں القاعدہ سے منسلک النصرہ فرنٹ کے سلفی جہادیوں کے ساتھ احرار الشام اور جند الاقصیٰ کے ناقابل قبول جنگجو ہیں۔
اسی اتحاد میں اجند سالشام اور فیلق الشام کے جنگجو کی یہ سوچ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جیش الفتح میں عددی لحاظ سے اعتدال پسند جنگجو سخت گیر جنگجوؤں کے سامنے بے بس ہیں۔
بکھرے مخالفین
مشرقی دمشق اور ملک کے جنوبی علاقوں میں صورتحال زیادہ واضح ہے۔ اردن اور سعودی عرب کے حمایت یافتہ جنگجو کو بشار الاسد کی فوجوں کے خلاف کامیابیاں مل رہی ہیں اور جب بھی ان کا سامنا دولت اسلامیہ سے ہوتا ہے تو وہ بے رحمی سے ان سے ٹکراتے ہیں۔
جیش الاسلام اس علاقے میں رہنے والے شامی شہریوں کی نمائندگی نہیں کرتے اور یہ جہادی گروہ بھی نہیں ہے۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ یہ باغی ایک یکجا فوجی قوت نہیں ہیں لیکن یہ ایک ساتھ کسی منظم فوج کی مانند حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ مختلف گروہ اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں سماجی اور سیاسی کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
کرد جنگجو
70 ہزار جنگجوؤں کی واضح نشاندہی سے قطع نظر ان میں کرد جنگجو شامل نہیں ہیں۔
کرد جنگجوؤں پر مبنی پاپولر پروٹیکشن یونٹس بڑی تنظیم سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کا حصہ ہے۔ یہ گروہ 900 کلومیٹر کے محاذ پر دولت اسلامیہ کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں زیادہ کرد آبادی ہے۔
یاد رہے کہ مغربی ممالک کی فضائیہ کرد جنگجوؤں کی مدد ایک سال سے کر رہی ہے اور کرد جنگجو مغربی ممالک کی دولت اسلامیہ کے خلاف حکمت عملی کا حصہ ہے چاہے وہ بشار الاسد کے خلاف لڑیں یا نہیں۔
اس لیے نشار الاسد کو مذاکرات کی میز پر لانے اور دولت اسلامیہ کو شکست دینے کی مغرب کی دوہری پالیسی کے حامی جنگجوؤں کی اصل تعداد ایک لاکھ اسے ایک لاکھ 20 ہزار کے درمیان ہے نہ کہ 70 ہزار۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں